اقامت ِ دین کی دعوت کے علَم برداروں کو اس کا خوب اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ اس دعوت کے راستے میں فلسفۂ جبریت بعض اوقات بُری طرح روک بنتا ہے اور یہ خواص سے لے کر عامیوں تک یکساں سرایت کیے ہوئے ہے۔ آپ لوگوں سے کہیے کہ غلبۂ دین کے لیے کچھ کرو تو جواب ملے گا کہ یہ سب کچھ تو اللہ کے بس میں ہے۔ جب تک اس نے دین کی مخالف طاقتوں کو سرفرازی دے رکھی ہے، کون ہے جو اس سرفرازی کو پستی سے بدل سکے.... یہ عجیب بات ہے کہ اس طرح کی باتیں ہمیشہ اُونچے درجے کی دینی و اخلاقی ذمہ داریوں کی دعوت کے جواب میں تو کہی جاتی ہیں، لیکن اپنی دن رات کی زندگی میں کوئی بھی جبریت کے فلسفے پر تکیہ نہیں کرتا۔
ہمارے ایک دوست، اس دعوت کے جواب میں کہ اپنی زندگی بدلیے، فرمانے لگے کہ اس میں ہمارا کیا اختیار، یہ تو خدا کی طرف سے ازل کے دن لکھا گیا تھا۔ اس پر اُن سے عرض کیا گیا کہ آپ کا بچہ جب بیمار ہوجاتا ہے تو آپ رات کو سردی میں گرم بستر چھوڑ کر نکل کھڑے ہوتے ہیں، بہتر سے بہتر ڈاکٹر کو تلاش کر کے لاتے ہیں اور بہتر سے بہتر دوائیں اپنا مال خرچ کرکے حاصل کرتے ہیں، پھر تیمارداری میں اپنا آرام قربان کرتے ہیں۔ اس سارے سلسلے میں تو آپ کو کبھی فلسفۂ جبریت یاد نہیں آتا اور کبھی آپ یوں نہیں سوچتے کہ بیماری اور صحت تو خدا نے پہلے ہی لکھ دی ہے۔ پھر ہم کیوں علاج کے چکّر میں پڑیں، مگر بس جہاں خدا کے دین کا کوئی مطالبہ سامنے آیا تو آپ نے جبریت کے فلسفہ کو عذر میں پیش کردیا۔ اگر آپ بے روزگار ہوجائیں تو دَر دَر جاکر روزگار تلاش کریں، سفارشیں لے کے دفتروں میں گھومیں، ایک ایک کی منت سماجت کریں....کوئی آپ کی عزتِ نفس پر حملہ کردے تو دماغ اور زبان اور ہاتھ پائوں کی ساری قوتیں انتقام میں لگا دیں۔ کوئی آپ کا مال مار کھائے تو اس کے خلاف مقدمہ لڑنے کے لیے اپنی سی جو کچھ کرسکتے ہوں کرگزریں۔ ان معاملات میں تو کبھی تقدیر کا سوال پیدا نہ ہو۔لیکن بات جب خدا و رسولؐ کے احکام کی اطاعت کی آئے اور حمایتِ دین کے لیے آپ کو پکارا جائے تو آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ روزِاوّل سے یہ معاملات طے ہوچکے، اب سوچنا کیسا اور کوشش کیسی؟ یا دونوں طرف جبریت کے آگے سرجھکایئے، یا دونوں طرف سعی کا حق ادا کیجیے۔ یہ کیا کہ اپنی خواہشات ہوں تو آپ ہمہ تن اختیار بن جائیں، اور خدا و رسولؐ کا حکم سامنے آئے تو جبریت کی پناہ گاہ میں جاچھپیں! براہِ کرم ا فریبِ نفس سے نکلیے!(’مسئلہ تقدیر کا اُلٹا استعمال‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۶، عدد ۵-۶، ذی القعدہ، ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ، ستمبر ۱۹۵۱ء، ص ۹۴-۹۶)