ستمبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

تاجکستان: پس منظر اور جدوجہد

پروفیسر محمداقبال خان | ستمبر ۲۰۱۱ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

سابق سوویت یونین کی ۱۵ سوویت جمہوری ریاستوں میں چھے آزاد اور خودمختار ملک اقوامِ متحدہ کے ممبر بن چکے ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں جب سوویت یونین باقاعدہ ٹوٹا تو اُس وقت دنیا کا یہ سب سے بڑا خطہ چار بڑے علاقوں (regions) پر مشتمل تھا جن میں سب سے بڑا ’سلاد‘ (Slavian) علاقہ تھا جس میں موجودہ روسی فیڈریشن کے علاوہ یوکرائن، بلارس اور مالددوا شامل ہیں۔ سابق سوویت یونین کا دوسرا علاقہ قفقاز یا Trans Caucausia کہلاتا ہے، جس میں آرمینیا، جارجیا شامل ہیں۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی ریاستیں موجود ہیں، اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان دونوں ممالک میں مسلمانوں کی تعداد ۴ء۴ ملین ہے۔ اس خطے کا تیسرا ملک آذربائیجان ہے، جس کی کُل آبادی ایک سروے کے مطابق ۵ء۹ملین ہے۔ اس کا ۸۰ فی صد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

سابق سوویت یونین کا چوتھا علاقہ وسط ایشیائی ممالک اور قازقستان پر مشتمل ہے جس میں مجموعی مسلمان آبادی ۸۰ فی صد کے لگ بھگ ہے۔ یہ تمام مسلمان ممالک ہیں جن میں ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان، قازقستان، اور تاجکستان شامل ہیں۔ یہ تمام علاقے ترکی النسل کے لوگوں سے آباد ہیں۔ یہاں زبانیں مختلف لہجوں اور الفاظ کے ساتھ ایک جیسی بولی جاتی ہیں جو رابطے کا ذریعہ بھی ہیں۔ روسی تسلط کے زمانے میں یہاں کی سرکاری زبان روسی تھی جو اب بھی ان علاقوں میں تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ وسطی ایشیا کا یہ علاقہ دنیا کے خوب صورت ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کے پہاڑوں اور وادیوں کا قدرتی حُسن یہاں کے باسیوں کی  مہمان نوازی اوررواداری کی اعلیٰ ترین روایات سے اور زیادہ دل کش بن جاتا ہے۔ وسطی ایشیا میں اسلامی تہذیب کا آغاز خلافتِ راشدہ کے ادوار ہی سے ہوچکا تھا اور کئی سو برس تک یہ علاقہ علم وفضل کا گہوارہ رہا۔ اب بھی وسطی ایشیا کے تاریخی مقامات اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ انھی وسط ایشیائی ممالک میں سے ایک تاجکستان ہے۔

تاجکستان دنیا کی خوب صورت ترین ریاستوں میں سے ایک وسط ایشیائی ریاست ہے جس کا رقبہ ایک لاکھ ۴۳ہزار ایک سو مربع کلومیٹر ہے، جس کا تقریباً ۹۳ فی صد علاقہ پہاڑی ہے جس میں یامیرکے پہاڑ اپنی منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ اس اسلامی ملک کا دارالخلافہ دوشنبے ہے جو اپنی عظیم تاریخی ورثے کے ساتھ ساتھ ایک جدید شہر ہے۔ تاجکستان جسے تاجک لوگ دیس کہتے ہیں، وسط ایشیا کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں شمال مغرب میں ازبکستان، مشرق میں کرغیزستان، جنوب میں افغانستان اور مشرقی سرحد کا کچھ حصہ چین سے بھی ملتا ہے، جب کہ پاکستانی گلگت بلتستان کا علاقہ واخان کی پٹی کے ذریعے تاجکستان سے جدا ہوتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ۲۰۰۳ء کے اعدادوشمار کے مطابق اس ملک کی آبادی ۲ء۶ ملین تھی، جب کہ ۲۰۱۰ء میں تاجکستان کی آبادی ۹۷ء۷ ملین ہوچکی ہے۔ یہاں پر بسنے والی غیرمسلم قومیتوں، مثلاً روسی اور جرمن نسل کے لوگوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ تاجکستان کی کُل آبادی کے ۸۸ فی صد مسلمان ہیں۔ غیرمسلم آبادی میں زیادہ تر روسی، جرمن، یوکرائنی اور یہودی دوسری جگہوں سے آکر یہاں آباد ہوئے، جب کہ روس، ازبکستان، قازقستان، کرغیزستان، ایران اور افغانستان میں تقریباً ۵۱ لاکھ سے زائد تاجک آباد ہیں جو مختلف ادوار میں یہاں سے گئے۔ (انسائیکلوپیڈیا ماسکو، ۱۹۹۴ء، ص۳۱۹-۳۲۰)

تاجکستان وسطی ایشیا کی کم آمدنی والا خطہ ہے لیکن یہاں کے پہاڑ اور علاقے قدرتی وسائل اور نایاب دھاتوں سے مالامال ہیں۔ عام لوگوں کی اوسط عمر ۶۴سال ہے، جب کہ فی کس آمدنی ۷۰۰ امریکی ڈالر ہے۔

تعلیمی لحاظ سے تاجکستان وسطی ایشیا اور روس کے ہم پلّہ رہا ہے، اگرچہ تعلیم پر حکومتی اخراجات دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔ اس وقت مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا صرف ۵ء۳ فی صدتعلیم پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ۱۹۹۱ء میں تاجکستان میں تعلیم کا تناسب ۱۰۰ فی صد تھا، جو اَب گر کر۹۵ فی صد ہوگیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق دیہاتوں میں ۲۰ فی صد بچیاں ضروری پرائمری تعلیم مکمل نہیں کرپارہی ہیں۔ تاجکستان کے ذرائعِ آمدن محدود ہیں۔ کُل رقبے کا بہت کم حصہ زیرکاشت ہے اور گذشتہ عشرے میں یہاں پر زراعت و صنعت میں قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوا۔

تاریخی اعتبار سے لفظ تاجک مشرقی ایرانیوں کے لیے بولا جاتا ہے، جب کہ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں فارسی بولنے والی قوم تاجک کہلانے لگی ہے۔ جنوبی تاجکستان بظاہر امیربخارا کے زیرتسلط رہا، جب کہ شمالی تاجکستان ۱۸۶۸ء سے ہی روسی تسلط کا شکار ہوچکا تھا۔ ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کے بعد تاجکوں کی بڑی آبادی قریبی ملک افغانستان ہجرت کر گئی اور پھر ۱۹۲۴ء میں یہ ریاست وسطی ایشیا کی دوسری ریاستوں کی طرح ایک خودمختار سوویت ریاست بن گئی۔ تاجکستان نسبتاً تاخیر سے سوویت یونین کا حصہ بنا اور باضابطہ سوویت ریاست ۱۹۲۹ء میںبنا۔

  •  آزادی و خودمختاری: ایک طویل جدوجہد اور ۱۰۰ دنوں کے مسلسل احتجاج کے نتیجے میں یہ ریاست دوسری وسطی ایشیائی ریاستوں سے بہت پہلے داخلی خودمختاری حاصل کرچکی تھی، جب کہ ۱۹۹۱ء میں یہ باقاعدہ آزاد ملک کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس دوران میں اسلامی نہضۃ پارٹی نے دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی، جب کہ کمیونسٹ پارٹی نے روسی افواج کی مددسے خانہ جنگی شروع کردی جس کے نتیجے میں لاکھوں تاجک ایک بار پھر ہجرت پر مجبور ہوئے اور پڑوسی ممالک افغانستان، ازبکستان، کرغیزستان اور روس میں منتقل ہوگئے۔ تقریباً ۸۰ہزار سے  زائد لوگ لقمۂ اجل بن گئے اور ملک شدید افراتفری کا شکار ہوگیا۔ دوسالہ خانہ جنگی کے نتیجے میں امام علی رحمانوف ۱۹۹۳ء میں تاجکستان کی کرسیِ صدارت پر قابض ہوگئے اور اگلے چند برسوں میں داخلی خانہ جنگی میں کمی واقع ہوگئی، جب کہ بیش تر مسلمان مجاہدین پہاڑوں میں منتقل ہوگئے یا قریبی ریاستوں میں روپوش ہوگئے۔ اسلامی پارٹی (نہضۃ اسلامی) کو شریکِ اقتدار کیا گیا اور محدود انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں اسلامی پارٹی کی واضح اکثریت کو کم کرکے امام علی رحمانوف کو بظاہر تقویت دی گئی۔ حالات پر قابو پانے کے لیے ۱۹۹۶ء اور پھر ۱۹۹۸ء میں نہضۃ پارٹی کے ساتھ مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں اسلامی پارٹی کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں نہ صرف شریکِ اقتدار کیا گیا بلکہ عام مسلمانوں کو مذہبی رسومات کو ادا کرنے کی آزادی بھی دی گئی۔   تاہم، مسلم جدوجہد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا جو گوریلا جنگ کی صورت میں ہمسایہ ریاستوں کے لیے بھی مسلسل تشویش کا باعث رہا۔

تاجکستان بقیہ وسط ایشیائی ریاستوں کے مقابلے میں کم آمدنی اور کم وسائل کا حامل ہے لیکن مغربی قوتوں کی ہمیشہ سے توجہ کا مرکز رہا ہے۔ چنانچہ وسط ایشیائی ریاستوں میں امریکی و برطانوی سفارت خانے سب سے پہلے کسی امیرریاست مثلاً ازبکستان یا قازقستان میں نہیں بلکہ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں کھولے گئے۔

تاجک مسلمان وسطی ایشیا کے راسخ العقیدہ مسلمان سمجھے جاتے ہیں اور کہا جاتا تھا کہ اگر کسی کو اسلام کو اصل حالت میں دیکھنا ہے تو وہ ’کرگان توبے‘ چلا جائے۔ ۱۹۷۹ء میں مسلمانوں کی انتہائی مضبوط تنظیم کا باقاعدہ قیام خفیہ طور پر تاجکستان کے چھوٹے سے قصبے دوشنبے میں ہوا۔ اس میں دوسری ریاستوں سے بھی لوگ شامل ہوئے۔ اس طرح تنظیمی احیا کے نتیجے میں اسلامی پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس کو کوئی نام نہ دیا گیا اور اس جماعت کے اُس وقت کے سربراہ جناب رحمت اللہ (ازبک) کو ایک ٹریفک حادثے میں سوویت یونین کے خفیہ ادارے ’کے جی بی‘ نے شہید کر دیا، جس کے بعد اس کی قیادت کرگان توبے میں منتقل ہوگئی۔

تاجکستان بدترین روسی تسلط و جبر کے زمانے میں بھی اسلامی شعائر اور اقدار کی پاس داری کرنے والی ریاستوں میں سے ایک رہا۔ یہاں کا زیرزمین اسلامی تعلیمات کا نظام نہ صرف اردگرد کی اسلامی ریاستوں کے لیے باعثِ تقویت اور اسلام کو حقیقی طور پر عوام الناس میں اُس کی اصلی حالت میں زندہ رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے، بلکہ سوویت یونین کے دوسرے علاقوں، مثلاً داغستان، روسی تاتارستان اور سائبیریا کے مسلمان بھی تاجکی علما سے مستفید ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ تاجکستان کے پہاڑی سلسلوں میں اسلامی تعلیمی ادارے جو انتہائی خفیہ مقامات پر قائم کیے گئے تھے، قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیمات کے علاوہ اسلامی تاریخ اور اسلامی دنیا کے حالات سے باخبر رہنے کا ذریعہ بھی رہے۔

تاجکستان کے بیش تر علما کو عربی زبان، صرف و نحو وغیرہ پر عبور حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے ۱۹۹۱ء کی آزادی کے بعد اچانک یہاں ہزاروں عربی بولنے والے نوجوان موجود تھے اور ہزاروں مساجد کے قیام کے بعد ائمہ حضرات کی ایسی ٹیم موجود تھی جو وسطی ایشیا کی دوسری ریاستوں کی مساجد کی ضروریات بھی پوری کر رہی تھی۔ نوجوانوں میں بالخصوص دینی علم کی طلب بڑھتی ہی رہی اور اس کے نتیجے میں تاجکستان کے مسلمانوں کا علمی ورثہ پورے علاقے میں معتبر سمجھا جانے لگا۔ تاجکستان کی روحانی اور علمی شخصیت عبداللہ نوری پورے وسطی ایشیا اور سابق سوویت یونین کے مسلمانوں میں انتہائی مقبول ہیں۔

صدر امام علی رحمانوف نے روسی سامراج کے ساتھ مل کر اسلامی تحریک کو پورے وسطی ایشیا سے بالعموم اور تاجکستان سے بالخصوص ختم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جن میں ابتدائی کش مکش  (۹۳-۱۹۹۰ء)، پھر مفاہمت (۹۸-۱۹۹۴ء) جس کے دوران میں سازشوں کا جال بچھایا گیا۔ یہاں تک کہ ۱۹۹۹ء کے بعد سرد جنگ باقاعدہ چپقلش اور کھلے عام صدر اور اسلام پسندوں کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کرگئی اور بظاہر تحریکِ اسلامی کے لیے تاجکستان میں کام کرنا ناممکن بنادیا گیا۔

  •  موجودہ صورتِ حال اور کش مکش: تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر وغیرہ میں داڑھی اور اسکارف ممنوع ہیں۔ یہاں تک کہ گذشتہ دنوں نوجوانوں کی مساجد میں ادایگیِ نماز اور اسلامی تعلیمات کے حصول کے لیے مساجد میں آنے والوں پر پابندی کا بل پارلیمنٹ سے پاس کروایاگیا۔ اس طرح بہت ساری مساجد کو بند کر دیا گیا۔ یہ ایک نیا قانون ہے جو صدر امام علی رحمانوف کی اسلام دشمنی کی واضح مثال ہے جس میں انھوں نے اُن تمام مساجد پر پابندی لگا دی ہے جو  ۱۹۹۱ء کے بعد قائم کی گئی تھیں۔ یاد رہے کہ ۱۹۹۱ء سے قبل سرکاری مساجد کی تعداد بہت کم تھی۔ دیہاتوں اور قصبوں میں غیرقانونی مساجد بھی موجود تھیں، جب کہ شہروں میں خفیہ مقامات پر گھروں کے اندر مساجد موجود تھیں۔ اسلامی پارٹی کے بیش تر ارکان یا تو خاموش کردیے گئے ہیں یا روپوش ہوگئے ہیں، یا تاجکستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

تاجکستان کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے۔ یہاں پر اسلامی ثقافت کے گہرے اثرات ہیں، اور اسلامی تعلیمات عام ہیں۔ تاجک علما اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے اردگرد کے ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسلامی تحریک بظاہر کمزور ہوتی نظر آتی ہے، لیکن فی الواقع اسلامی تحریک  دن بدن زور پکڑتی جارہی ہے۔ افغانستان میں حالیہ امریکی مداخلت نے صدر امام علی رحمانوف کو تقویت دی ہے اور اسلامی جماعت (IRP) کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہ آئے دن اپنے احکامات اور صدارتی فرمانوں کے ذریعے اسلامی شعائر پر پابندیاں عائد کرتے رہتے ہیں۔ اسلامی جماعت نے آزادی کے آغاز میں صدر امام علی رحمانوف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق ۲۵ تا ۳۰فی صد اقتدار میں حصہ آئی آر پی کے لیے مختص کیا گیا جس پر کبھی بھی عمل نہیں ہوا ۔ پھر صدرجمہوریہ نے  نہ صرف فراڈ انتخابات کے ذریعے ۹۸ فی صد ووٹ حاصل کیے (جسے بین الاقوامی ایجنسیوں نے فراڈ انتخابات قرار دیا) بلکہ تحریک اسلامی کو کمزور کرنے کے لیے قریبی ممالک کے رہنمائوں کی مدد حاصل کی اور اسلامی جماعت کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہاں انسانی حقوق کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی عالمی اور علاقائی تنظیموں کا تاجکستان میں انسانی حقوق کی زبوں حالی پر بالکل خاموش رہنا بھی معنی خیز ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کی مذہبی لگائو کی بنیاد پر گرفتاریاں اور سزائیں بھی عالمی انسانی حقوق کی انجمنوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ تاجکستان میں صرف ریاستی میڈیا ہی قانونی حیثیت رکھتا ہے۔ انسانی حقوق کی کھلے عام پامالی اور اسلامی شعائر پر پابندیوں کے علاوہ عام لوگوں کو اپنے عقائد پر عمل کرنے سے قانوناً روکنا اور پھر ایسے قوانین کے تحت سزائیں دینا عالمی امن اور انسانی حقوق کے علَم برداروں کے نزدیک کوئی جرم نہیں ہے۔

تاجکستان کا عام نوجوان جدوجہد سے بھرپور پُراُمید زندگی کا خواہش مند ہے۔ ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی کے حالیہ سروے کے مطابق مسجدوں میں نوجوانوں کے داخلے کی پابندی کو ۹۶ فی صد نوجوانوں نے مسترد کر دیا ہے اور ۶۵ فی صد نوجوان اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ۷۸ فی صد نوجوان اسے صدر امام علی رحمانوف کی حکومت کے خاتمے کا سبب بھی سمجھتے ہیں۔

 

êمضمون نگار رفاہ یونی ورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر آف سرجری ہیں-