ہر سال ربیع الاول کا مہینہ رحمتوں، برکتوں اور روحانی نعمتوںکا تحفہ لے کر آتا ہے اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کی زندگی میں نئی روح پھونکنے کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی ہر لمحے سامنے رکھنا ضروری ہے کہ حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق نہ کسی خاص مہینے سے ہے، نہ کسی خاص مقام اور موسم سے۔ یہ تو وہ سدابہار کیفیت ہے جو ایمان کے پہلے لمحے سے زندگی کے آخری سانس تک مومن کا سرمایۂ زیست ہے، شرط ایمان کی ہے۔
شعوری طور پر، حتیٰ کہ صرف رسمی طور پر بھی جب ایک شخص اپنے مسلمان ہونے کا اعلان یہ کہہ کر کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا وحدہٗ لاشریک رب مانتا ہے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا رسول اور بندہ تسلیم کرتا ہے (اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہٗ)، تو وہ اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک پیمانِ محبت باندھتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے رب، مالکِ حقیقی اور اپنے رہنما، قائد، محسن اور ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ایسے رشتے میں منسلک کرتا ہے جو اسے رنگ و نسل، خون اور مقام کی قید سے آزاد اُمت مسلمہ اور اُمت محمدیہ کا ایک جزولاینفک بنادیتا ہے۔ بلاشبہہ اس رشتے کا اصل لطف شعوری تعلق کی صورت میں ہے لیکن یہ بھی اللہ کا انعام ہے کہ جس شخص نے صرف زبان سے اظہار اور دل سے اقرار کیا ہو، اور اس نے اس رشتے سے وابستہ ہونے کے مطالبات اور شرائط و واجبات پر غور نہ بھی کیا ہو، تب بھی وہ اپنے قائد و رہنما محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دل کی ہر دھڑکن میں محسوس کرتا ہے اور یہ محبت ساری زندگی اس کی رگوں میں خون کی شکل میں گردش کرتی رہتی ہے۔ وہ ایک دیہاتی ہو، شہری ہو، کوہستانی ہو، صحرا نشین ہو، سمندر میں دن رات سفر کرنے والا مچھیرا ہو، ایک طالب علم ہو یا دانش ور، وہ اپنے آپ کو اس رشتے سے اس طرح وابستہ کردیتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی قوت بھی، حتیٰ کہ جب موت سامنے نظر آرہی ہو، اس وقت بھی وہ نہیں چاہتا کہ اس کے رسولؐ اس کے محسن صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و شخصیت کو ایک پھانس کے برابر بھی تکلیف پہنچے۔ حضرت خبیبؓ کا واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب انھیں شہید کرتے وقت ان کے قاتل نے سوال کیا کہ اگر تمھاری جگہ یہ عمل تمھارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جاتا تو تم کیا محسوس کرتے، تو ان کا جواب قیامت تک کے لیے ہرمسلم و مومن کی طرف سے دیا جانے والا جواب تھا، یعنی میں تویہ بھی نہیں پسند کروں گا کہ اس ہستی کو ایک پھانس کے برابر بھی تکلیف پہنچے۔
یہ محبت، یہ تعلق، یہ وابستگی ربیع الاول میں کچھ زیادہ واضح شکل اس لیے اختیار کرلیتی ہے کہ اس ماہ میں اخبارات ہوں یا ریڈیو اور ٹیلی وژن کے اکثر چینل ۱۲ربیع الاول کو اپنی خصوصی نشریات کا اہتمام کرتے ہیں، میلاد النبیؐ کے جلسے منعقد ہوتے اور جلوس نکلتے ہیں، اسکولوں میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ بعض سرکاری ادارے سیرت پر کتابوں اور مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کرا کے انعامات دیتے ہیں۔ یوں اس مہینے کے ۲۹ یا ۳۰ دنوں میں ایک دلی اظہارِ محبت و وابستگی کے بعد پاکستان میں بسنے والی اُمت مسلمہ مطمئن ہوجاتی ہے کہ اُس نے حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کر دیا۔ بعض عاشقانِ رسولؐ بازاروں میں جھنڈیاں لگاکر پٹاخے چھوڑ کر بھی اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی قرادؓ فرماتے ہیں: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ آپؐ کے کچھ اصحاب آپؐ کے وضو کا پانی لے کر اپنے چہروں پر مَلنے لگے تو آپؐ نے پوچھا: تمھارے اس کام کا محرک کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اوررسولؐ کی محبت۔ آپؐ نے فرمایا: جن لوگوں کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ اللہ اور رسولؐ سے محبت کرتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں، جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کو (بہ حفاظت) مالک کے حوالے کریں، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ (مشکوٰۃ)
حضرت انسؓ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ (بخاری، مسلم)
اگر صرف ان دو احادیث پر غور کیا جائے تو آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ان کے حوالے سے ان میں بیش بہا ہدایات موجود ہیں۔
سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے۔ بلاشبہہ محبت کے مظاہر ایک فطری عمل ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن اس کے ساتھ محبت کی اصل روح اور تقاضوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ محبت کی تعریف اور مفہوم یہ نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پانی سے وضو فرمایا ہو اس کو تبرکاً اپنے چہرے پر مَل کر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس برکت کے سہارے ربِ کریم ہم پر عنایت فرما دے گا، بلکہ محبت کا تعلق ’عمل‘ سے ہے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی قلبی کیفیت اور وابستگی کو حکمت ِ رسالت کے ذریعے تین ایسے اعمال میں بدل دینے کا حکم دیا جو ایک مسلمان کو صحیح معنوں میں مومن بنا سکتے ہیں، چنانچہ پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ جب بات کریں تو سچ (صدق) کو اختیار کریں۔ یہ صدق محض زبان سے سچی بات کہنے تک محدود نہیں ہے، گو اس کی بھی غیرمعمولی اہمیت ہے، بلکہ اصل مقصد اور ہدف اپنے تمام معاملات میں صدق کو اختیار کرنا مطلوب ہے جس کی مثال حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اسوہ میں ہے کہ اللہ کی کتاب میں ان کی زندگی کا مرکزی وصف ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ وعدے کا سچا تھا (سورئہ مریم ۱۹:۵۰)۔ یہی نکتہ اس ارشاد ربانی سے بھی ہمارے سامنے آتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خاندانی زندگی کے آغاز کے موقع پر جو اصطلاح مہر کے حوالے سے پسند فرمائی وہ بھی اسی مادے سے تعلق رکھتی ہے: وَ ٰاتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً ط (النساء۴:۴) ’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔
اہلِ ایمان کی پہچان اسی صدق کو قرار دیا گیا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ o (التوبہ ۹:۱۱۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام، حق کے غالب آنے اور باطل کے مٹ جانے کے عمل کو بھی صدق کے ساتھ وابستہ کیا گیا اور ہجرتِ نبویؐ کے حوالے سے قرآن کریم نے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دعا تعلیم فرمائی وہ صداقت اور شہادتِ حق کے ساتھ مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرنے کے بعد صداقت اور شہادتِ حق دیتے ہوئے دارالاسلام اور مرکز اُمت کے قیام کی طرف اشارہ کرتی ہے:
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔
صدق جس کی طرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے حب ِ رسول کے حوالے سے متوجہ فرمایا اہلِ ایمان کی صفات کے حوالے سے بارہا قرآن کریم میں بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ سورئہ احزاب میں اہلِ ایمان کی جن صفات کا ذکر ہے اس میں صدق کو اعلیٰ مقام حاصل ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ۔ٓ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّاللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًاo (احزاب ۳۳:۳۵) بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز (صادق اور صادقات) ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ (بشمول زکوٰۃ) دینے والے ہیں، روزے رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کررکھا ہے۔
صداقت، صالحیت اور شہادت میں ربط اور یگانگت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ قولِ صادق عملِ صالح میں اور عملِ صالح اللہ کے حضور شہادت کا ذریعہ بنتا ہے، اور اس دنیا میں بھی ایک مردِصادق یا ایک صادقہ خاتون اپنے زبانی اعلان و اقرار کو اپنی صالحیت، بھلائی پر قائم رہنے کے ذریعے اپنے مومن یا مومنہ ہونے کی شہادت فراہم کرتے ہیں، حتیٰ کہ جان اور مال کے ذریعے تصدیق کرتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مقام تک پہنچتے ہیں۔
رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دوسرے عملِ صالح کے ذریعے حب ِ رسولؐ کے لازمی مظہر کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے وہ بھی قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک اہم عمل ہے جس کے بغیر ہم موجودہ اخلاقی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی انتشار سے نہیں نکل سکتے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ویُؤَدِّ امانتہٗ اذائتُمِنَ ، یعنی امانت کو بہ حفاظت مالک کے حوالے کرے۔
قرآن کریم نے امانت کو اہلِ ایمان کی اوّلین صفات کے طور پر جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ چنانچہ سورئہ مومنون میں فرمایا گیا: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ o (المومنون ۲۳: ۸) ’’اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ انبیاے کرام ؑکے حوالے سے بار بار یہ بات بیان کی گئی ہے کہ وہ امانت دار رسول (رسولٌ امین) یا قوی اور امین ہیں۔ (الشعراء ۲۶: ۱۰۷، ۱۶۳، ۱۹۳، النمل ۲۷:۳۹)
ذمہ داریوں اور قیادت کے حوالے سے یہ صفت شرط کی حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ حضرت موسٰی ؑ کے حوالے سے اس طرف اشارہ ہوتا ہے (القصص ۲۸:۳۶)، اور حکومتی اورفنی امور کے حوالے سے قرآن کریم یہ حکم دیتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا (النساء ۴:۵۸) ’’مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں رب کریم نے بطور مشورہ یا تجویز کے نہیں بلکہ بطورِ حکم یہ بات فرمائی ہے کہ اہلِ ایمان اپنے معاملات ایسے افراد کے ہاتھ میں دیں جو اُس ذمہ داری کے اہل ہوں۔ اس کے مضمرات معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی و ابلاغی شعبوں میں غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ایک ایسے شخص کو جو بذاتِ خود اور جس کا قبیلہ اپنی ماضی کی تاریخ کے لحاظ سے چور، بددیانت اور ڈاکو کے طور پر شہرت رکھتا ہو، ملک کی اعلیٰ ترین ذمہ داری سونپ دی جائے اور پھر کفِ افسوس مَلا جائے کہ ملک کے امیر امیر تر اور غریب، غریب تر ہو رہے ہیں، سرکاری خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے، پرائیویٹائزیشن کے نام پر اپنے ہم نوالہ افراد کو کوڑیوں کے مول قومی اثاثے فروخت کیے جارہے ہیں، سیاسی حلیفوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ہزاروں ایکڑ زمین تقریباً مفت دی جارہی ہو، تو یہ قصور صرف چور ہی کا نہیں بلکہ چور کو امانت حوالے کرنے والوں کا بھی ہے۔
اگرابلاغی سطح پر صحافت اور برقی ابلاغِ عامہ کو ایسے افراد کے حوالے کر دیا جائے جو ذہناً یا تو مغرب کے غلام ہوں یا ہندوانہ ثقافت اورمفادات کی حمایت میں اپنی دانش وری کو استعمال کرنے کے لیے مشہور ہوں تو الزام کسے دیا جائے گا؟ اگر تعلیم گاہ میں ایک ایسے شخص کو استاد بنا دیا جائے جو نہ علم رکھتا ہو نہ کردار، تو جو نسل اُس کے زیرتربیت پیدا ہوگی کیا اس میں صداقت اور امانت پیدا ہوسکتی ہے؟ اقبال نے صداقت اور امانت کے حوالے ہی سے کہا تھا کہ ان دو اسلامی اقدار اور احکاماتِ نبویؐ کو جب تک اختیار نہیں کیا جائے گا اس وقت تک قوموں کی امامت کا فریضہ ادا نہیں ہوسکتا ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
تیسری اہم ہدایت جو حب ِ رسولؐ کے حوالے سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی وہ پڑوسی کے حقوق کے حوالے سے ہے۔ ہم عموماً اس سے یہ بات سمجھتے ہیں کہ عیدبقرعید کے موقع پر اگر پڑوسی کے ہاں گوشت کا حصہ یا سویاں بھیج دی گئیں تو اس کا حق ادا ہوگیا، حالانکہ اس کا مقصد وہ تمام افراد ہیں جن سے تعلق سکونت کے باب میں مستقل رفاقت کا ہو، یا جو عارضی طور پر رفیقِ سفر بن جائیں۔ اس کا اشارہ اس حدیث سے بھی ملتا ہے، جس میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ پڑوسی سے مراد محض فوری پڑوسی نہیں ہے بلکہ ۴۰ گھر سیدھے ہاتھ کی طرف اور ۴۰ گھر بائیں ہاتھ کی طرف پڑوسی شمار کیے جائیں گے۔ ایسے ہی پڑوسی سے مراد وہ شخص بھی ہے جو ہمارا ہم سفر ہو، بس میں، جہاز میں، ٹرین میں،ویگن میں، کہیں بھی۔ گویا اتنے کم عرصے کے لیے بھی اس کے حقوق کا خیال رکھنا حب ِ رسولؐ کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔
حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قرآن کریم نے جو اصول طے کر دیا ہے وہ رسمی اظہارِ محبت سے عبارت نہیں۔ دل، زبان اور اعمال سے محبت کے اظہار کے ساتھ اس سے بھی کہیں بڑھ کر قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَo (اٰل عمران ۳:۳۱-۳۲) اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ان سے کہو کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔
محبت ِ رسولؐ کا پہلا مطالبہ اطاعتِ رسولؐ ہے۔ شخصی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ جب معاملہ محض زبانی اظہار ہی کا نہیں بلکہ باقاعدہ دستورِ مملکت کے ذریعے بھی یہ اعلان کیا جائے کہ شریعت بالادست ہے اور حکومت اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی ذمہ دار ہے اور اس کے باوجود کوئی حکومتی ہرکارہ ناموسِ رسولؐ کے حوالے سے غیرذمہ داری کی بات کرے، تو وہ دستورِ پاکستان کی خلاف ورزی اور قرآن کے واضح حکم کی مخالفت کا مرتکب ہوگا۔
قرآن کریم سے براہِ راست تعلق کی کمی اور سیرتِ رسولؐ سے محض جذباتی وابستگی کے نتیجے میں اکثر مغرب زدہ دانش ور یہ بات بظاہر بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ قرآن کریم تو اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کا بندوبست کیا ہے۔ اس بنا پر اس کی تعلیمات و احکام کو ماننا فرض ہے لیکن حدیث اور سنتِ رسولؐ ان کے خیال میںایک انسانی عمل ہے جو وقت کی قید کی بنا پر ساتویں صدی میلادی میں تو قابلِ عمل تھا لیکن معاشرتی ارتقا اور حالات کی تبدیلی کے بعد اس کی حیثیت اخلاقی تعلیمات کی تو ہوسکتی ہے لیکن اسے قانون کا درجہ نہیں دیاجانا چاہیے۔ اس مفروضے کی بنیاد تین منطقی مغالطوں پر ہے:
اوّلاً یہ مفروضہ کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل صرف ساتویں صدی کے عربوں اور عرب معاشرے کے لیے تھا۔ گویا نعوذباللہ آپؐ ایک عرب قبائلی مصلح (ریفارمر) تھے۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ حدیث یا سنت، خاتم النبیینؐ کا ذاتی عمل تھا اور اس کی پیروی بعد کے افراد پر واجب نہیں۔ تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ آپؐ کا کام محض چند اخلاقی اصول سمجھانا تھا۔ آپؐ کوئی قانون و شریعت لے کر نہیں آئے۔
ان تینوں مفروضوں پر کسی فلسفیانہ، عقل و منطق پر مبنی گفتگو اور دلائل کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اگر وہ حضرات جو خود کو اہلِ قرآن کہتے ہیں یا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے، قرآن کریم نے خود ان تینوں مفروضوں کا جواب دیا ہے اور جو بات خالق کائنات اور انسانوں کا مالک خود فرمائے اُس سے زیادہ وزنی اور قطعی ثبوت و دلیل اور کوئی نہیں ہوسکتی۔
پہلے اور دوسرے مفروضے کے حوالے سے قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں تمام اہلِ ایمان کے لیے قیامت تک کے لیے بہترین قابلِ عمل نمونہ ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ ہے۔
یہ نمونہ اور اسوہ محض عبادات میں نہیں ہے بلکہ معاملات اور زندگی کے ہرہر عمل کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس بات کا رد بھی قرآن کریم نے خود کردیا ہے کہ آپؐ محض عربوں کے لیے نہیں آئے بلکہ جس طرح قرآن تمام انسانوں کے لیے قیامت تک کے لیے ہدایت ہے (البقرہ ۲:۱۸۵) ،اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تمام انسانوں کے لیے قابلِ عمل اور واجب العمل نمونہ ہے:
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo (اعراف ۷:۱۵۸) اے محمدؐ! کہو کہ اے انسانو، میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے،وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمّی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اس کی، امید ہے کہ تم راہِ راست پا لوگے۔
یہاں یہ بات انتہائی واضح الفاظ میں فرما دی گئی کہ آپؐ کی نبوت اور رسالت تمام انسانوں کے لیے ہے اور تمام انسانوں کو آپؐ کی پیروی اختیار کرنا شرطِ کامیابی ہے۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد کئی مقامات پر خود قرآن کریم نے واضح الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ رسولؐ کا کام محض کتاب پہنچا دینا نہیں ہے، بلکہ وہ اس کتاب کو صحیح طور پر پڑھنے، اس کتاب کی تعلیمات کو سمجھانے، اس کتاب کی تشریح اور وضاحت کے ساتھ ساتھ خود حکمت سمجھانے اور اہلِ ایمان کو تزکیے کا طریقہ سکھانے پر مامور کیاگیا ہے۔ وہ نعوذباللہ محض ڈاکیا نہیں ہے کہ کتاب پہنچا کر اس کا کام ختم ہوگیا، بلکہ وہ نہ صرف شارح بلکہ شارع ہے۔ چنانچہ سورۂ اعراف میں یہ بات قرآن کریم نے واضح کر دی کہ آپؐ اہلِ ایمان پر سے بوجھ کو ہلکا کرتے ہیں، پاک اور طیب چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور خبائث و منکرات کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اس آیت ِ مبارکہ میں تحلیل و تحریم کا اختیار نبیؐ سے وابستہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اعراف ۷:۱۵۷) (پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمّی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریںجس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اِس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اسی بات کو سورئہ حشر میں یوں فرمایا گیا:
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابo(الحشر ۵۹:۷) جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کوروک دے اس سے رُک جائو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
رسولؐ کی اس اطاعت و فرماں برداری کو براہِ راست اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے حمایت و توثیق حاصل ہے اور اللہ کے حکم کی بنا پر ہی یہ اطاعت کرنا فرض کی گئی ہے۔ چنانچہ اہلِ ایمان کا صحیح طرزِ عمل قرآن کریم نے رسولؐ کی بات کو سن کر سرتسلیم خم کرنے کوقراردیا ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ط وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَo(النور ۲۴:۵۱-۵۲) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسولؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔
یہاں یہ بات صراحت سے بیان کر دی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مقدمے یا معاملے کا جو فیصلہ فرما دیں اسے سن کر فوری طور پر اطاعت کرنا ہی ایمان ہے۔ سورئہ نساء میں اس پہلو کو اس طرح بیان کیا گیا:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط (النساء ۴:۶۴) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔
گویا محض قرآن کے احکامات کی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فیصلے، حکم اور عمل کی اطاعت کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ آگے چل کر اسی بات کی مزید تاکید کی گئی:
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاo (النساء ۴:۶۹) جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔
قرآن کریم نے جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو شامل کر کے ان تمام مفروضوں کو باطل قرار دیا ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تشریعی ہونے پر کسی شبہے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پہ ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
یہاں قرآن کریم نے اہلِ ایمان کا سنت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کن ہونے کے حوالے سے رویہ واضح کرتے ہوئے اس بات کو اللہ اورآخرت پر ایمان سے مشروط کردیا ہے، یعنی اگر کوئی اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے تو وہ اپنے تمام معاملات میں آخری فیصلہ صرف اللہ اور رسولؐ کا مانے گا، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو اصحابِ علم ہوں اور صاحب ِ مسند قضٰی ہوں۔ اگر ان سے اختلاف ہو تو حاکم، قاضی اور عالم کی بات کوقرآن و سنت پر جانچا جائے گا اور یہ دو غیر متغیر اُصول و مصادر جو فیصلہ کریں وہ عالم اور قاضی یا حاکم کو بھی ماننا ہوگا۔ حاکم اور امیر کی اطاعت صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک وہ اللہ اور رسولؐ دونوں کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے کسی بات کو کرنے کا فیصلہ کرے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تشریعی ہونے کے حوالے سے قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ رسولؐ کی نگرانی ہمہ وقت کی جاتی ہے اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بات نہ کہتا ہے، نہ کرتا ہے، اس لیے اب تک تو یہ کہا گیا تھا کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی۔ اب انداز بدلتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے کہ:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا(النساء ۴:۸۰) جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا تو بہرحال ہم نے تمھیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو قرآن وعید سناتا ہے کہ ایسے اہلِ ایمان کے تمام اعمال گویا ضائع ہوں گے، العیاذ باللّٰہ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ چنانچہ فرمایا گیا:
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ o اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوا وَھُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْo(محمد ۴۷:۳۳-۳۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔ کفر کرنے والوں، راہِ خدا سے روکنے والوں اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہنے والوں کو تو اللہ ہرگز معاف نہ کرے گا۔
جس طرح اطاعت میں اللہ اور رسولؐ دونوں کو شامل کیا گیا، ایسے ہی نافرمانی کے حوالے سے بھی قرآن دونوں کی نافرمانی کو مساوی قرار دیتا ہے:
وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاo (احزاب ۳۳:۳۶) کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور فیصلے کے بارے میں دل میں معمولی سا بھی شبہہ ہو تو قرآن اسے نفاق سے تعبیر کرتا ہے:
وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo (النساء ۴:۶۱) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آئو رسولؐ کی طرف، تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔
قرآن کریم کی اتنی واضح آیات کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ صرف قرآن شریعت ہے اور سنت، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی عمل ہے تو وہ خود قرآن کریم کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ آپؐ کی دی ہوئی ہدایات، آپؐ کے احکامات اور عمل کو جوں کا توں تسلیم کرنے کے بعد اپنے طرزِعمل میں اسے اختیار کرلے۔ مسلمان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرعمل کو اختیار کرنے کی کوشش ہی میں نجات ہے۔
حدیث میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کے احساس اور قلبی کیفیت کو ایک مسلمان کے قابلِ محسوس عمل سے وابستہ کرنے کے ذریعے محبت کو عمل میں تبدیل کر دیا، اور عمل بھی وہ جو درود و سلام اور عبادات کے ساتھ صداقت، امانت اور حقوق العباد کی شکل میں معاشرے کی فلاح اور ایک ایسی حکومت کے قیام کی بنیاد فراہم کرے جو اسلام کے عادلانہ نظام کو نافذ کرنا چاہتی ہو۔
حب ِ الٰہی اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن ہمارے زبانی دعووں کو عمل میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ بے شمار مقامات پر ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے کتنی محبت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کن اور کیسے بندوں کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط(البقرہ ۲:۱۶۵) حالانکہ ایمان رکھنے والے سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
پھر یہ بات کہی گئی کہ: اللہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ مال کو اپنا رب نہ بنایا جائے نہ مال کی محبت میں ایسا گرفتار ہو کہ کروڑوں، اربوں کے اثاثوں کو ملک کے باہر اور ملک کے اندر اپنے قبضے میں کرنے کے بعد بھی ھل من مزید کی ہوس میں اتنا وارفتہ ہو کہ جیسے اسے شیطان نے ہاتھ لگاکر دولت کا باولا کردیا ہو:
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo (البقرہ ۲:۱۹۵) اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔
وہ اہلِ ایمان بھی جو اللہ کی راہ میں استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور صبر کے ساتھ حق کی اشاعت اور شہادت میں لگ جاتے ہیں ان کے حوالے سے رب کریم اپنی پسند کا اظہار فرماتا ہے:
بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَ اتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَo (اٰل عمران۳:۷۶) جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا۔
آگے چل کر اللہ کے ان محبوب بندوں میں ان کا ذکر آتا ہے جو پوری قوت کے ساتھ باطل، ظلم، کفر، طاغوت اور استحصال کا مقابلہ کرنے میں اپنے عمل سے مستقل مزاجی، مسلسل جدوجہد اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں:
وَ کَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَ ھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَکَانُوْا ط وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۴۶) اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں، ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انھوں نے کمزوری نہیں دکھائی، وہ (باطل کے آگے) سر نگوں نہیں ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔
ہر مسلمان اور خصوصیت سے تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے یہ بات قابلِ غور ہے کہ اکثر انسانی ذہن اپنے اندازے کے مطابق ایک وقت کا اندازہ (time frame) قائم کرتا ہے اور پھر سوچتا ہے کہ آخر کب تک نظامِ عدل اور نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے کوششیں کی جائیں گی؟ منزل قریب کیوں نہیں آرہی؟ مشکلات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہماری عددی قوت میں مناسب اضافہ ہو رہا ہے؟ اور کیا یہ عددی قوت تناسب کے لحاظ سے کفر کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ کرسکے گی وغیرہ۔ ان تمام ممکنہ سوالات کا جواب قرآن نے اپنے منفرد انداز میں انبیا ماقبل کے تجربات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر دے دیا ہے کہ اللہ کے ان برگزیدہ نمایندوں کے ساتھ بھی اس طرح کے حالات پیش آئے ہیں لیکن انھوں نے صبرواستقامت سے وقت کی قید سے آزاد ہوکر اللہ کی راہ میں اپنا جہاد جاری رکھا اور وہی اللہ کے محبوب بندے ہیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور کامیابی بھی ہوسکتی ہے کہ ایک بندہ جس کی مخلوق ہو، جس نے اسے اپنے حکم سے پیدا کیا ہو، وہ اپنے بندے کے صبرواستقامت کو دیکھ کر اس کی طرف نگاہ محبت کو ملتفت کردے! کیا اس سے بڑھ کر کوئی کامیابی ہوسکتی ہے کہ ایسے بندوں کا نام وہ اپنے مقربین میں لکھ دے اور انھیں صدیقین، صلحا اور شہدا کی صف میں شامل کرلے!
اللہ کی راہ میں حُب ِ رسولؐ سے آراستہ تحریکِ اسلامی کے کارکن قیامِ عدل اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب وہ اپنی طرف سے کوشش میں کسی کمی کے شکار نہ ہوں اور ساتھ ہی وہ اپنے رب پر مکمل توکل رکھتے ہوں۔ ربِ کریم اپنے ایسے بندوں کو اپنے محبوب بندوں میں شامل کرلیتا ہے اور دعوتِ دین کی جدوجہد میں ہونے والی بعض لغزشوں کو معاف کردتیا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَo اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ وَ اِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْم بَعْدِہٖ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹-۱۶۰) (اے محمدؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو، ورنہ اگر کہیںتم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو۔ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔
اس حوالے سے ہمیں آج جو عملی مشکلات پیش آتی ہیں وہ کوئی آج کی پیداوار نہیں ہیں۔ دورِ نبویؐ ہو یا دورِ خلفاے راشدین، تمام کلیدی معاملات میں ایک سے زائد آرا کا وجود اسلامی ریاست میں ایک معروف عمل تھا۔ اس لیے شورائیت کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ ایک راے پہلے سے قائم کرلی جائے اور پھر اس پر راے کو ہموار کر دیا جائے، بلکہ ہر راے کو پوری آزادی اور توجہ سے سنا جائے اور معاملے کے مثبت و منفی پہلو پر غور کرنے کے بعد اتفاق راے سے معاملات کو چلایا جائے۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد، جو اہم بات سمجھائی جارہی ہے وہ توکل ہے، یعنی اپنی طرف سے مقدور بھر منصوبہ بندی، افرادی قوت اور دیگر وسائل کا جائزہ لینے کے بعد جب ایک معاملے میں یکسو ہوجائو تو پھر نتائج اللہ پر چھوڑ دو۔ توکل کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی حکمت عملی نہ بنائی جائے اور محض ردعمل کے طور پر وقتاً فوقتاً اپنے موقف کو بیان کردیا جائے۔
ظاہر ہے یہ فکر اسلام کی بنیاد توحیدِ خالص کے منافی اور ضد ہے لیکن اس کے ساتھ اگر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو رب ماننے کے ساتھ یہ تصور بھی پایا جاتا ہو کہ فلاں بڑی عالمی طاقت ہمیں غذا، اسلحہ اور حمایت و نصرت فراہم کرے گی تو ہم زندہ رہیں گے ورنہ ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، تو یہ اُس شرک سے کسی طرح بھی مختلف نہیں ہے جسے ایک غیرتعلیم یافتہ مسلمان بھی غلط سمجھتا ہے۔
اگر کوئی قوم ہر نماز میں اور پھر ہر جمعہ کے دن مسجد میں جاکر یہ اعلان کرے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ آپ اکبر، عظیم اور اعلیٰ ہیں، نہ کوئی آپ سے بڑا ہے نہ بلند، نہ طاقت ور، اور ابھی نماز مکمل ہی ہوئی ہو اور وہ باہر آکر اپنی معیشت کو کسی سرمایہ دارانہ طاقت سے وابستہ، اپنی معاشرت کو کسی یورپی یا ایشیائی ملک کی جاہلانہ اور مشرکانہ روایات سے متعلق کردے، اور اپنی سیاست کو لادینی جمہوریت سے منسلک کردے، تو مسجد میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک ماننے کے باوجود یہ اس کی صفات میں ہی نہیں اس کی ذات میں بھی شرک کے مترادف ہے۔
گویا، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا آسان سا مفہوم ان کی ہرمعاملے میں اطاعت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی حب رسولؐ بھی صرف ایک مفہوم رکھتی ہے، یعنی صدق و سچائی کے ساتھ اور ایک امانت دار شخص کی طرح وہ تمام حقوق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر واجب ہیں، ان کی ادایگی، ورنہ نہ ہم نے صدق کی پیروی کی نہ امانت کا رویہ اختیار کیا۔
حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شرطِ ایمان ہونے پر وہ حدیث بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ لا یومن احدکم حتّٰی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین (بخاری، مسلم)،یعنی تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔
حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غالب ہونے کا مفہوم اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اولاد کے لیے والدین اور والدین کے لیے اولاد کے مفاد سے زیادہ انھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوہ کی پیروی کرنے کی فکر ہو۔ وہ گھریلو معاملات ہوں یا ملکی سیاسی، معاشی مسائل، ہرہرفیصلہ کرتے وقت یہ دیکھیں کہ کیا ایسا کرنے سے اللہ کے رسولؐ کی اطاعت ہورہی ہے یا بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اس مختصر وضاحت کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ ملکی حالات میں وہ کون سے اقدامات ہیں جو حب ِ رسولؐ کے مظہر ہوسکتے ہیں:
___ صدق کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے تجدید ایمان کرتے ہوئے ہم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مطیع و فرماں بردار ہونے کے عہد کو شعوری طور پر تازہ کریں اور ان تمام اداروں اور افراد کی غلامی و محکومیت سے اپنے آپ کو نکالیں جو اس تعلق پر اثرانداز ہورہے ہوں۔
___ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اس ملکِ عزیز کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قدر والی رات میں عطیہ اور میراث کو ایک امین کی طرح سے اصل مالک کی مرضی کے مطابق اور اس کی شریعت کے مطابق معاشی، معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی معاملات کو ترتیب دیں۔
___ تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اس ملک کی سربراہی اور قیادت ایسے افراد کے ہاتھ میں دیں جو امین اور صادق ہوں اور ایسے افراد سے نجات حاصل کریں جو خائن اور کاذب ہوں۔
___ چوتھا تقاضا یہ ہے کہ ایسے معاملات میں اور افرادِ کار کے انتخاب میں صلاحیت اور قابلیت کو معیار بنائیں، اور خاندانوں کی حکومت، مصاحبوں کی بادشاہ گری اور ذاتی مفادات کی غلامی سے نکل کر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا خوف رکھنے والے افراد کو ملک کی زمامِ کار سونپیں۔
___ پانچواں تقاضا یہ ہے کہ نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد میں اپنا وقت، صلاحیت، دولت، غرض جو کچھ ہمارے اختیار میں ہو، لگاتے وقت صبرواستقامت کے رویے کو اختیار کریں اور حالات کی نزاکت سے گھبرا کر یہ کبھی نہ سوچیں کہ اب تو یہ ملک ٹوٹنے کے قریب ہے۔ نااُمیدی کفر ہے اور رات کے بعد صبح کا نور اللہ کی سنت اور وعدہ ہے۔ ہماری ذمہ داری بس اتنی ہے کہ اپنی جانب سے کوششوں میں کوئی کسر نہ چھوڑیں اور سعی و جہد کے ساتھ اللہ پر توکل کریں اور یاد رکھیں کہ ہماری مساعی میں اضافہ ہی مسائل کا حل ہے ؎
کی محمدؐ سے وفا ُتو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۹ روپے۔ منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور-۵۴۷۹۰)