’’جیل میں ہم پر اکثر تشدد ہوا، لیکن سب سے زیادہ تشدد اس وقت ہوتا جب ہم میں سے کوئی وہاں نماز پڑھتے ہوئے پکڑا جاتا‘‘___ تیونس کی جیل سے رہائی پانے والا نوجوان راقم کو آپ بیتی سنا رہا تھا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: ’’ایک مسلمان ملک میں نماز ادا کرنا کیوں کر جرم ٹھیرا؟‘‘ کہنے لگا: ’’مجموعی طور پر تو نماز جرم نہیں ہے، لیکن نماز چونکہ دین داری کی علامت بھی ہے اور اگر کسی نوجوان میں دین داری کی کوئی علامات پائی جائیں تو یہ اس کی ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی علامت ہے۔ اس لیے نوجوانوں کا نماز ادا کرنا جرم قرار پایا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ نماز کے وقت مساجد میں جماعت کھڑی ہوجاتی تو اچانک مساجد کے دروازوں کے باہر پولیس کی لاریاں کھڑی کردی جاتیںاور نمازیوں میں سے نوجوانوں کو الگ چھانٹ کر لاریوں میں ٹھونس کر لے جاتیں۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ فجر کے وقت رہایشی آبادیوں کا جائزہ لیا جاتا کہ کس کے گھر میں بتیاں روشن ہیں۔ اس وقت اگر کوئی اُٹھ کر نماز پڑھنے لگ جاتا ہے تو یقینا پکا بنیاد پرست ہے۔
جیل بیتی دوبارہ شروع کرتے ہوئے پوچھا کہ: پھر آپ لوگوں نے تشدد کے خوف سے نماز چھوڑ دی؟ ہنس کر کہنے لگا: ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے مختلف تدبیروں سے نماز پڑھنا شروع کردی، کبھی اشاروں سے، کبھی کوٹھڑی میں چھپ کر… لیکن جلاد بھی بضد تھا کہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنا ہیں۔ انھوں نے کوٹھڑی کی چھت میں سوراخ کروا کے اُوپر عارضی تختے رکھ دیے۔ دن رات کے کسی وقت وہ کوٹھڑی کے پچھواڑے سے اُوپر چڑھتے اور اچانک تختہ ہٹاکر چھاپہ مارتے کہ کہیں کوئی ’دہشت گردی‘ کا ارتکاب تو نہیں کر رہا۔ ہم نے باری باری کمبل میں لیٹ کر نماز پڑھنا شروع کر دی۔ جلاد آتے تو حیرانی سے پوچھتے: یہ اتنی گرمی میں کمبل کیوں اوڑھ رکھا ہے؟ ہم بتاتے طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘۔
تیونس میں دین کے خلاف مخاصمانہ روش کا آغاز صدر حبیب بورقیبہ کے دور میں ہوا تھا۔ سابق صدر زین العابدین بن علی اس کا وزیرداخلہ تھا۔ ملک میں اسلامی عناصر کے خلاف اس ساری کارروائی کا ذمہ دار وہی تھا۔ صدر حبیب بورقیبہ اپنی یہ تمام تر کارروائیاں ’روشن خیالی‘ کے عنوان سے کر رہا تھا۔ اس نے حجاب (سر پر اسکارف رکھنے) کو جرم قراردیتے ہوئے کسی بھی باحجاب خاتون کو تعلیمی اداروں میں داخلے، سرکاری دفاتر میں ملازمت، یا ہسپتال سے علاج کروانے پر پابندی عائد کردی۔ اس کی ظالم پولیس اہل کار سر پر اسکارف رکھنے والی کسی بھی خاتون کا حجاب سرراہ نوچ ڈالتے۔ حبیب بورقیبہ نے ایک بار خود بھی اس روشن خیال کارروائی میں حصہ لیا۔ اس نے ایک ہال میں اجتماع منعقد کیا، جس میں کچھ خواتین کو سر پر اسکارف رکھ کر شریک کروایا گیا اور پھر صدر بورقیبہ نے دورانِ تقریب ان میں سے ایک خاتون کو اسٹیج پر بلایا اور اس کا اسکارف سر سے نوچ کر پائوں تلے روندتے ہوئے کہا: ’’آیندہ اس رجعت پسندی کا ارتکاب نہ کرنا‘‘۔
’روشن خیال‘ بورقیبہ اور اس کا وزیرداخلہ زین العابدین بن علی یہ تمام کارروائیاں ’اسلام کے حقیقی پیروکار بلکہ دینی پیشوا‘ ہونے کے دعوے کے ساتھ کرتے تھے۔ موسمِ گرما میں رمضان المبارک آیا تو ایک روز اعلان ہوا کہ صدر مملکت ریڈیو، ٹی وی پر قوم سے براہِ راست خطاب فرمائیں گے۔ دوپہر کے وقت صدر صاحب سرکاری ٹی وی کی اسکرین پر نمودار ہوئے اور اعلان فرمایا: ’’میں صدر مملکت ہونے کے ناتے مسلمانوں اور ان کے تمام امور کا ذمہ دار اور ان کے مفادات کا محافظ ہوں، اور گرمی کی شدت کی وجہ سے چونکہ لوگوں کی قوتِ کار متاثر ہورہی ہے، اس لیے میں ’ولی امرالمسلمین‘ ہونے کے ناتے اعلان کرتا ہوں کہ لوگ اس سال رمضان میں روزے نہ رکھیں۔ یہ کہنے کے بعد براہِ راست خطاب کے دوران کچھ نوش کرتے ہوئے روزہ چھوڑ دینے کا عملی مظاہرہ کیا۔
چند مزید مناظر بھی ملاحظہ کیجیے: ’ولی امرالمسلمین‘ ہونے کے دعوے دار صدر مملکت نے اعلان فرمایا کہ قرآن میں وراثت کے اصولوں کے مطابق مرد کا حصہ خواتین سے دگنا بتایا گیا ہے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں، اس وقت خواتین معاشی زندگی میں عملاً شریک نہیں تھیں، اس لیے یہ حصے رکھے گئے۔ آج ہماری خواتین ترقی کی دوڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لے رہی ہیں، اس لیے اب وراثت میں مردوں اور خواتین کا حصہ برابر ہوگا۔ اب یہ وہاں کا باقاعدہ قانون ہے۔
’روشن خیال‘ بورقیبہ کے نزدیک عدم مساوات کا ایک یہ پہلو بھی بہت قابلِ اعتراض تھا کہ مرد کو تو چار بیویاں رکھنے کی اجازت دے دی گئی لیکن عورت کے ساتھ زیادتی ہوگئی کہ اسے چار شوہر رکھنے کی اجازت نہ ملی، اس لیے اس نے مردوں پر بھی پابندی عائد کر دی۔ قانون بن گیا کہ مرد بھی صرف ایک ہی شادی کرسکتا ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو جیل جانا پڑے گا۔
حبیب بورقیبہ کی اس ’روشن خیالی‘ کے خلاف جس نے بھی آوازِ احتجاج بلند کی اسے ’لاپتا افراد‘ میں شامل کر دیا گیا۔ پھر ایک روز اچانک اعلان ہوا کہ وزیرداخلہ زین العابدین بن علی نے صدر بورقیبہ کا تختہ اُلٹ دیا ہے۔ کہا گیا: صدر اپنے بڑھاپے اور بیماری کے باعث امورِ مملکت انجام دینے کے قابل نہیں رہا، اور مزید چند برس گمنامی میںگزارکر، اسے بھی قبر میں اُترنا پڑا۔
زین العابدین نے اپنے آقا کا تختہ اُلٹا تو یہ ۷نومبر ۱۹۸۷ء کا دن تھا۔ مکمل اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ ملک میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالیںگے۔ مگر کہاں؟ وہی جبر کا نظام قائم رہا۔ زین العابدین کے ۲۳ سالہ دورِ اقتدار میں پانچ بار انتخابات ہوئے اور ہرمرتبہ ہردل عزیز صدر کو ۹۰ فی صد سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔ حجاب، داڑھی اور نماز روزے سمیت دینی شعائر کی اسی طرح تضحیک و توہین ہوتی رہی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۳سالہ دورِاقتدار میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد کو ان کے خیالات و نظریات کی سزا کے طور پر جیلوں کی ہوا کھانا پڑی۔ اسلامی تحریک ’تحریکِ نہضت‘ کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی سمیت ہزاروں کی تعداد میں تیونسی شہری کسی نہ کسی طرح ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور گذشتہ تقریباً دو عشروں سے ملک بدری کی زندگی ہی گزار رہے ہیں۔ ’تحریک نہضت‘ کے جن ہزاروں کارکنان اور قائدین کو گرفتار کیا گیا ان میں تحریکِ نہضت کے سابق صدر محمد عاشور بھی تھے۔ انھیں ۱۰برس کی قید کے بعد ڈیڑھ سال قبل رہا کیا گیا لیکن رہائی پانے کے چند ہی روز بعد ایک صحافی نے انٹرویو کرتے ہوئے سوال کیا: کیا آپ ۱۰برس کی اس قیدبامشقت کے بعد بھی ’تحریک نہضت‘ کا ساتھ دیں گے؟ پیرانہ سالی کا شکار ہوتے ہوئے محمدعاشور نے کہا: اسلامی تحریک میں شمولیت کا فیصلہ دنیا کی کسی جزا یا سزا سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ یہ سودا تو خالق کائنات کے ساتھ کیا ہے۔ اگلے ہی روز محمدعاشور کو ’تحریک نہضت‘ سے وابستگی کے الزام میں اُٹھا کر پھر سے جیل میں بند کر دیا گیا۔ مزید ڈیڑھ سال، یعنی مجموعی طور پر ساڑھے گیارہ برس کی قید کے بعد انھیں گذشتہ نومبرکو رہا کیا گیا تھا۔
ایک محمد عاشور ہی نہیں ضمیر کے ہزاروں قیدی، قلم بردار ہزاروں صحافی اور اپوزیشن قرار دیے جانے والے بے حساب شہری جیلوں میں سڑتے رہے۔ سیکڑوں افراد نے مسلسل بھوک ہڑتال کیے رکھی۔ بڑی تعداد میں قیدیوں کے اہلِ خانہ کو یہی معلوم نہ تھا کہ ان کے پیارے دنیا میں ہیں یا قیدِحیات سے ہی گزر چکے۔ اگرچہ کسی بھی غیر جانب دار صحافی یا تیونسی حکومت کی ’روشن خیالی‘ کے بارے میں منفی راے رکھنے والے کسی معروف شخص کے لیے تیونس کے دروازے بند تھے، لیکن گذشتہ کئی سال سے وہاں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔ حجاب پر تمام تر پابندیوں کے باوجود حجاب کے تناسب میں واضح اضافہ ہو رہا تھا۔ نمازوں میں نوجوانوں کی شرکت کو جرم بنا دیا گیا تھا لیکن رمضان المبارک اور نمازِ جمعہ میں مساجد اتنی بارونق ہونا شروع ہوگئی تھیں کہ نماز کے وقت سے کافی پہلے مساجد نہ پہنچ سکنے والوں کو باہر سڑک پر نماز پڑھنا پڑتی تھی۔
ایسے میں جب تیونس کے شہر میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان نے بھوک اور فاقوں سے تنگ آکر خودسوزی کرنے کی کوشش کی، اور وہ اس کوشش میں شدید زخمی ہوگیا، تو پورے شہر میں اس سے اظہارِ ہمدردی اور حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ڈکٹیٹر کی ملیشیا نے مظاہرین کے خلاف حسب ِ سابق طاقت کا استعمال کرنا چاہا تو عوام مزید بپھر گئے۔ موبائل فون کے کیمروں اور انٹرنیٹ کی مدد سے یہ مناظر مختلف عرب ٹی وی چینلوں بالخصوص الجزیرہ پر آنا شروع ہوگئے، اور پھر تیونس کے مظلوم و مقہور عوام نے ایک دنیا کو حیرت زدہ کر دینے والی تاریخ رقم کردی۔ سفاک حکمران سمجھتاتھا: ’’اس کی کرسی بہت مضبوط ہے‘‘ لیکن نہتے عوام کے دو ہفتے کے مظاہروں کے بعد ہی سٹم گم ہونے لگی۔ پہلے اعلان کیا: بے روزگار نوجوان پریشان نہ ہوں، جلد ہی ان کے لیے ۳ لاکھ نوکریوں کا انتظام ہوجائے گا۔ یہ اعلان کرنے اور گولیاں چلانے کے باوجود مظاہرے جاری رہے تو حکومت کے تین وزرا کو فارغ کر دیا گیا۔ دوبارہ اعلان کیا بدعنوانی برداشت نہیں کروں گا، حالانکہ ملکی نظام میں بے تحاشا بدعنوانی کی کہانیاں بچے بچے کی زبان پر تھیں۔ مظاہرے پھر بھی جاری رہے تو اعلان کیا: عوام پریشان نہ ہوں چھے ماہ بعد عام انتخابات میں انھیںاپنی مرضی کی حکومت بنانے کا موقع دیا جائے گا۔ مظاہروں کا سلسلہ قصرین اور سیدی بوزید سے باہر پھیلتے پھیلتے دارالحکومت تیونس تک پہنچ گیا۔ اب تک ۵۰ شہری شہید ہوچکے تھے، سیکڑوں زخمی تھے۔ سفاک ڈکٹیٹر نے اعلان کیا: آیندہ انتخاب میں چھٹی بار امیدوار بننے کا کوئی ارادہ نہیں، عوام چند ماہ صبر کرلیں۔ ترقی کا نیا دور شروع ہوجائے گا۔ لیکن مظاہروں کا ریلا تھا کہ کہیںتھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
ایک روز اچانک خبر آئی: صدر نے اپنی بیوی لیلیٰ اور باقی سب اہلِ خانہ کو بیرونِ ملک بھیج دیا۔ مظاہرے جاری تھے۔ صدر نے سختی سے نمٹنے اور فوج کو سڑکوں پر بلا کر گولی چلانے کا حکم دیا۔ ۷۷؍افراد پہلے ہی جاں بحق ہوچکے تھے۔ بری فوج کے سربراہ جنرل رشیدعمار نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفا پیش کردیا۔ حالات تیزی سے بدلنے لگے اور اچانک خبر آئی کہ صدر زین العابدین بن علی ملک سے فرار ہوگیا۔ لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے۔ فوج اور پولیس کے سپاہی عوام سے گلے ملنے لگے۔ لوگوں کو تو جیسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ جو خود کو فرعون سمجھتا اور عوام کی جان کا مالک گردانتا تھا، اتنی جلد ڈھ گیا۔ صرف تقریباً تین ہفتے کی عوامی تحریک، جس میں عوام نے گولیاں برداشت تو کیں لیکن خود کوئی گولی نہیں چلائی، اور اتنی بڑی کامیابی تیونس ہی نہیں پوری دنیا میں لکھا اور پکارا جانے لگا: تیونسی جلاد چلا گیا، ڈکٹیٹر سے نجات مل گئی، شاہِ تیونس بھاگ گیا، تیونسی مارکوس، تیونسی چائو شسکو… تیونسی دارالحکومت کی خالی سڑکوں پر ایک شخص دیوانہ وار چلّا رہا تھا:’’تیونس آزاد ہوگیا‘‘۔ آج اسے اپنے دل کی بات کہنے سے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ آج اسے اور اس کے ضمیر کو قید رکھنے والا خود سر چھپانے کو جگہ تلاش کر رہا تھا۔
سبحان اللّٰہ… تعز من تشاء وتذل من تشاء… وتلک الایام نداولھا بین الناس … ہم اس سلسلۂ ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔ وہ جو نماز اور شعائر دین کو دہشت گردی کے مترادف قرار دیتا تھا، اس کے جاتے ہی نماز کا وقت ہونے پر سرکاری ٹی وی پر پہلی بار باقاعدہ اذان کی آواز سنائی دی۔ لوگوں کے لیے یہ اسی طرح کے لمحات تھے جیسے کمال اتاترک کے جانے اور ترک زبان میں اذان کے بجاے پھر دوبارہ سے عربی زبان میں بلالی اذان بلند ہوئی تھی، اور لوگ بے اختیار سڑکوں پر ہی رب کے حضور سجدہ ریز ہوگئے تھے۔ آج تیونسی عوام سرکاری ٹی وی پر اذان سن کر اسے اپنا اعلان فتح قرار دے رہے تھے۔
اس کے بعد وزیراعظم محمدالغنوشی نے خود کو خود ہی عبوری صدر مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ عوام نے اسے مسترد کر دیا۔ اگلے ہی روز اسپیکر کو عبوری صدر قرار دے دیا۔ عوام نے اسے بھی مسترد کر دیا۔ ملک میں موجود براے نام چھوٹی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے ایک قومی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا، جس کے اکثر وزرا پرانی کابینہ سے ہی تھے اور تین وزیر اپوزیشن جماعتوں سے، لیکن عوام نے اسے بھی مسترد کر دیا اور اپنے مظاہرے جاری رکھے۔ اگلے ہی روز اپوزیشن جماعتوں نے اپنے وزرا واپس ہونے کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں، سابق نظام کے باقی ماندہ کل پُرزوں سے زیادہ یہ فیصلہ کن اور حساس مرحلہ خود تیونسی عوام کا امتحان ہے۔ انھیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ اپنی قربانیوں اور ادھوری کامیابی کو ہی اصل کامیابی سمجھ کر بیٹھ جاتے ہیں، یا پوری مسلم دنیا میں اُمید کے دیپ روشن کردینے کے بعد خود اپنی جدوجہد کو بھی اس کے منطقی نتیجے تک پہنچاتے ہیں اور عالمِ اسلام کو بھی مایوسی کے آسیب سے نجات دلانے کا سبب اور ذریعہ بنتے ہیں۔
تیونس میں عوامی جدوجہد کے پہلے مرحلے میں کامیابی کے اثرات فوراً ہی دیگر عرب ممالک میں بھی اپنا آپ منوانے لگے۔ پڑوسی ملک الجزائر میں بھی عوامی مظاہروں کا دھیما دھیما آغاز ہونے لگا۔ تیونسی نوجوان محمد البوعزیزی کی خودسوزی کی کوشش اور احتجاج سے تیونس میں عوامی انقلاب کا آغاز ہوا تھا۔ مختلف عرب ممالک میں اب تک کئی عرب ممالک میں نوجوانوں نے اسی کی تقلید شروع کر دی ہے۔ اب تک الجزائر میں چار، موریتانیا، مصر اور یمن میں ایک ایک نوجوان خودسوزی کرچکا ہے۔ ان کوششوں سے ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ اصل بات خود سوزی میں نہیں۔ یہ تو محمد البوعزیزی کے غصے اور مایوسی کا ایک ایسا مظہر تھا کہ اسلامی تعلیمات جس سے سختی کے ساتھ روکتی اور خبردار کرتی ہیں۔ تعلیم یافتہ محمد البوعزیزی کے سبزی کے ٹھیلے کو بھی جب شہر کی انتظامیہ نے اُٹھاکر پھینک دیا تو اس نے دوبارہ ٹھیلا بنا لیا مگر اسے بھی اُٹھا لیا گیا اور البوعزیزی کو بھی پولیس اسٹیشن لے گئے۔ وہاں گالم گلوچ کے ساتھ ساتھ خاتون کانسٹیبل نے اس کے منہ پر طمانچے بھی رسید کیے۔ اس توہین اور زیادتی پر احتجاج کرنے وہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچا۔ اس نے بھی بری طرح دھتکار دیا تو اس نے اس کے دفتر کے سامنے ہی خودسوزی کرلی۔ اس کی ماں ایک انٹرویو میں بتارہی تھی کہ محمد تین سال کی عمر میں یتیم ہوگیا تھا۔ لٹتے پٹتے، محنت کرتے اب وہ گھر سنبھالنے کے قابل ہوا تھا کہ اس کی ساری جمع پونجی لوٹ لینے کے ساتھ ہی ساتھ اس کی توہین و بے عزتی بھی کی گئی۔ ظلم و جبر کے اس ماحول میں اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی بھی نہ تھا، نہ انصاف فراہم کرنے کا کوئی ادارہ ہی باقی بچا تھا۔ وہ جان سے گزر گیا، لیکن اس کی یہ کوشش پوری قوم کی آزادی کی بنیاد بن گئی۔
عرب ممالک میں خود سوزی کرنے والے بلکہ پوری مسلم دنیا کے نوجوانوں کے سامنے اصل بات یہی رہنی چاہیے کہ پوری قوم کا اُٹھ کھڑے ہونا، بندوق اُٹھانے یا خود کش حملوں کے ذریعے انارکی پھیلانے کے بجاے گولیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جانا، لاشوں پہ لاشے گرتے چلے جانے کے باوجود اپنے احتجاج کو جاری رکھنا اور ثابت قدم رہنا ہی بالآخر انقلاب کی بنیاد بنتا ہے۔ تیونس میں انقلاب آنے کے بعد اب تمام عرب ممالک کے حکمرانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ کہیں ان کے عوام بھی ڈکٹیٹرشپ، کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی اور حکمرانوں کی لوٹ مار کے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ فوراً ہی کئی ممالک نے ’احتیاطی تدابیر‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ پڑوسی ملک الجزائر میں اشیاے خوردونوش کی قیمتیں فوراً آدھی کر دی گئی ہیں۔ شام میں فوراً تنخواہیں دگنی کردی گئی ہیں۔ مصر میں تیل کی قیمتوں میں مجوزہ اضافہ واپس لے لیا گیا ہے۔ کویت میں تو سارے کویتی شہریوں کو ایک ایک ہزار دینار (یعنی تقریباً تین لاکھ روپے) فی کس اور ۱۴ ماہ کے لیے غذائی اشیا مفت کردینے کا اعلان کر دیا ہے۔
روزنامہ لی مونڈ کے مطابق صدر زین العابدین بن علی کے فرار سے پہلے اس کی بیوی بیگم لیلی الطرابلسی نے اسٹیٹ بنک سے ڈیڑھ ٹن سونا نکلوایا اور پھر دیگر دولت کے ساتھ وہ سونا بھی ساتھ لے کر دبئی چلی گئی۔ تیونسی ذمہ دار بتا رہے تھے کہ بیگم صاحبہ کا حکم جب بنک کے گورنر کو پہنچا کہ ڈیڑھ ٹن سونا فوراً بھجوادو تو اس نے تصدیق کرنے کے لیے صدرمملکت کو فون کیا کہ خاتونِ اوّل کا یہ حکم موصول ہوا ہے کیا کروں؟ صدر مملکت نے جواب میں فرمایا: اگر تمھیں یہ یقین ہوگیا تھا کہ حکم بیگم صاحبہ ہی کا ہے تو پھر دیر کیوں کی؟ مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ فوراً سونا بھجوا دو۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ بیگم صاحبہ ۱۹۹۲ء میں بن علی سے شادی سے پہلے ایک بیوٹی پارلر چلاتی تھیں، شادی کے بعد ملک چلانے لگ گئیں۔ صدر کی دولت کا ابتدائی اندازہ ۱۲ ارب ڈالر، یعنی ۱۰کھرب روپے سے بھی زائد کا لگایا جا رہا ہے۔ لیکن اب معلوم نہیں اس میں سے کتنی ہاتھ آتی ہے، سوئٹزرلینڈ کے بنکوں نے مظاہروں کا بہانا بناکر اپنے بنکوں میں موجود اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔
بن علی تو فرانس ہی میں زیرتعلیم رہا۔ اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیکورٹی اور انٹیلی جنس میں اعلیٰ تعلیم امریکا سے حاصل کی۔ مغرب کے نزدیک ان دونوں حکمرانوں کی سب سے اہم کارکردگی یہ تھی کہ انھوں نے اسلام پسندی، یعنی رجعت پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ سختی سے نمٹا۔ اسلامی تعلیمات مسخ کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہوں کو جیلوں میں بند کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں خود کو ڈکٹیٹر اور فرعون بنائے رکھا، لیکن جیسے ہی غریب عوام نے عزت و آزادی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا، تمام مغربی آقائوں نے منہ موڑ لیا۔ ملک سے فرار کا بھی کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا، رات کی تاریکی میں لیبیا کے صدر قذافی نے گاڑیوں کے قافلے میں لیبیا آنے کا راستہ دیا، وہاں سے اٹلی پہنچا۔ مگر اٹلی، مالٹا اور فرانس سب نے پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ پھر مصری صدر کی وساطت سے سعودیہ میں پناہ ملی۔
تیونس میں عوامی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تو سب سے پہلے فرانسیسی وزیرخارجہ نے پیش کش کی تھی کہ اگر ملک میں’امن و استحکام‘ کے لیے خصوصی پولیس فورس کی ضرورت ہو تو فرانس بھجوا سکتا ہے۔ پھر جب آتش و آہن سے اپنے عوام کو کچلنے والا اچانک ریت کے گھروندے کی طرح ڈھے گیا تو اس کے لیے اپنے تمام در بند کرتے ہوئے اسی فرانسیسی وزیرخارجہ نے بیان دیا: ’’ہم تیونسی عوام کی راے کا احترام کرتے ہیں اور اسے کامیابی حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں‘‘۔
عملاً دیکھا جائے تو فرانس نے اب بھی تیونسی عوام کی راے کا کوئی احترام نہیں کیا ہے۔ اس کی اب بھی پوری کوشش ہے کہ سابقہ نظام کے زیادہ سے زیادہ افراد ہی آیندہ بھی حکمران رہیں۔ اس وقت بھی سابق اسپیکر فواد المبزع کو صدر اور سابق وزیراعظم محمدالغنوشی کو پہلے صدر اور پھر وزیراعظم بنایا گیا ہے۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے تمام حکومتی ذمہ داران نے سابق حکمران پارٹی ’التجمع الدستوری‘ سے استعفا دے دیا ہے اور وزیراعظم نے بیان دیا ہے کہ ’’ماضی سے مکمل براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔ ساتھ ہی تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اب تک ۱۸۰۰سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے لیکن بہت سے خاندان اب بھی اپنے گم شدہ افراد خانہ کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تیونس کے حالیہ عوامی انقلاب سے پہلے تیونس میں حالات بظاہر معمول پر تھے۔ ۱۴دسمبر کو لبنان سے شائع ہونے والے معروف پندرہ روزہ سیکولر سیاسی رسالے نے ’بن علی کے تیونس‘ کے عنوان سے ٹائٹل اسٹوری شائع کرتے ہوئے اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے اور ساری عرب دنیا کو اس کی تقلید کی دعوت دی تھی۔ ان معمول کے حالات میں بھی اتنی بڑی تعداد میں سیاسی قیدی جیلوں میں بند تھے۔ اسی لیے عبوری حکومت کے تمام ظاہری اقدامات کے باوجود عوام نے اپنے مظاہرے بند نہیں کیے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سابقہ حکومت کے تمام افراد کو ایوانِ اقتدار سے نکال کر قرار واقعی سزا دی جائے۔
تحریکِ اسلامی تیونس بھی عوام کے شانہ بشانہ میدان میں ہے۔ اگرچہ عوامی تحریک کا کوئی قائد نہیں اور پوری قوم ہی یک جا ہوکر سڑک پر ہے، اب ملک بدر سیاسی قیادت واپس آرہی ہے۔ زیرزمین قیادت بھی سامنے آرہی ہے۔ سیکولر رجحانات والے اپوزیشن لیڈر منصف المرزوقی آچکے ہیں اور اسلامی تحریک، تحریکِ نہضت کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی بھی جلد واپسی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف تین بار عمرقید کے عدالتی احکامات بھی موجود ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ جلاد کے ساتھ اس کے سارے جائرانہ احکامات کا بھی خاتمہ ہوگیا ہے، اس لیے وہ بہرصورت ملک جائیں گے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے واویلا شروع کر دیا ہے کہ راشد الغنوشی خمینی کی طرح واپس آنا چاہتے ہیں۔ شیخ راشد کا کہنا ہے کہ نہیں، ہر شہری کی طرح انھیں بھی ایک آزاد ملک میں سانس لینے کا حق ہے۔ میں خمینی بننے یا کسی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے نہیں جا رہا۔ تحریک کی قیادت بھی تحریک کے سپرد کر دوں گا اور اپنے عوام کے ساتھ مل کر قوم کی کشتی کو منزل تک پہنچانے میں سعی کرکے انقلابی جدوجہد میں دیگر بہت سے عوامی نعروں کے علاوہ نوجوان معروف تیونسی شاعر ابوالقاسم الشابی کی نظم بآواز بلند گا رہے ہیں:
اذا الشعب یوماً أراد الحیاۃ
فلا بد أن یستجیب القدر
ولا بد للیل أن ینجلی
ولا بد لقید أن ینکسر
(جب قوم زندہ رہنے کا فیصلہ کرلے تو پھر تقدیر بھی ضرور اس کا ساتھ دیتی ہے۔ پھر (ظلم کی) تاریک رات چھٹ جاتی ہے اور قید کی زنجیریں ٹوٹ گرتی ہیں۔)
تیونس کے عوام نے ثابت کر دیا کہ پورے عالمِ اسلام کے عوام کی تقدیر خود ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔