انیسویں دستوری ترمیم کے حوالے سے میں چاہوں گا کہ سب سے پہلے اس بات کو واضح کردوں کہ ملک عزیز میں اداروں کے درمیان تصادم کی ایک فضا بن رہی تھی۔ اس فضا میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا ۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کا فیصلہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں اس تصادم کو راہ پانے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا، بلکہ ملک میں دستور، دستوری اداروں اور طاقت کے تکون (trichotomy of power) کو جو سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے، بڑے مؤثرانداز میں تقویت دی گئی۔ اس کے لیے میں سپریم کورٹ کو اس کی دانش مندی، دُوراندیشی اور حقیقت پسندی پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہاں پر یہ بات بھی ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ اس فیصلے کی رو سے یہ بات طے ہوگئی ہے کہ پاکستان کا دستور سپریم ہے اور دستور میں قانون سازی، پالیسی سازی اور دستوری ترامیم کا حق صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے وہاں دستوری فلسفۂ قانون (jurisprudence) میں دو اصول تسلیم کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ دستور کا ایک بنیادی ڈھانچا (basic structure of the constitution) ہوتا ہے جسے عام دستوری ترمیم کے طریقے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، اور دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ دستور کی کسی ترمیم کو بھی ڈھانچے کی بنیاد پر کالعدم (null and void) قرار دے سکتی ہے۔ پاکستان کے دستوری فلسفۂ قانون میں اس کا تصور نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے جہاں دستور کے بنیادی ڈھانچے کی بات کی ہے، وہیں یہ اصول بھی واضح کر دیا ہے کہ اس اسٹرکچر (ڈھانچے) کا اہتمام اور تحفظ بھی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے اس بنیاد پر کوئی مداخلت نہیں کی۔ اس سلسلے میں یہ امر بھی پیش نظر رکھنا مفید ہوگا کہ اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے، یعنی ۱۹۹۲ میں حاکم خان کیس، اس کا ایک پیراگراف سامنے رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ بحث مباحثہ اور تنازع (controversy) ختم ہوجائے۔ اس میں کہا گیا ہے:
اس کے مطابق، اس کیس میں، اگر عدالت عالیہ یہ سمجھے کہ دفعہ ۴۵ کی شقیں بعض لحاظ سے اسلامی احکامات کے خلاف ہیں، تو اسے یہ عدم مطابقت پارلیمنٹ کے علم میں لانا چاہیے، اس لیے کہ صرف یہی دستور میں ترمیم کرنے کا اختیار رکھتی ہے، اور ایسی قانون سازی کا آغاز کرسکتی ہے جو زیربحث شق کو اسلامی احکام کے مطابق کردے۔
دستور میں ترمیم کے اختیار کے سلسلے میں اس اصول کو تسلیم کیا جانا ایک بڑی قابلِ ذکر کامیابی ہے۔ دوسری بات جس کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے جو اسلام اور جمہوریت دونوں کا تقاضا ہے اور جسے ۱۹ویں ترمیم میں ایک مرکزی تصور کے طور پرتسلیم کیا گیا ہے، وہ عدلیہ کی آزادی کا تصور ہے۔ دورِ خلافت راشدہ میں نظامِ قضا کو جس اصول پر قائم کیا گیا، اس میں بلاشبہہ قاضی کا تقرر خلیفہ کرتا تھا، لیکن تقرر کے بعد قاضی مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ہوتا تھا اور قضا کا پورا نظم اس کی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ ہماری پوری تاریخ میں عدلیہ کی آزادی اسلامی قضا کی روایات کا ایک مرکزی تصور رہی ہے۔ آزادی کا سب سے زیادہ انحصار جج کی صلاحیت اور اس کے کردار پر ہے۔ بلاشبہہ ججوں کے تقرر کے طریقۂ کار کا بھی اس میں ایک حصہ ہے، لیکن اصل عامل جج کا کردار اور دستور اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور ہے۔ یہاں میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک حوالہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا جس میں وہاں کے ایک چیف جسٹس نے صاف الفاظ میں تحریر کیا ہے:
یہ جج کا کردار ہے جو عدلیہ کی آزادی کو یقینی بناتا ہے نہ کہ تقرر کا طریقہ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدلیہ کی آزادی براہِ راست اس شخص کے کردار سے مربوط ہے جس کو جج کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ہے۔ حلف اُٹھانے کے بعد امید کی جاتی ہے کہ جج آزادی سے کام کرے گا۔
یہ بات ہمیں اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ عدلیہ کی آزادی کا آغاز ججوں کے صحیح تقرر سے ہوتا ہے، لیکن بالآخر اس کا انحصار جج کے کردار اور شخصیت پر ہے۔ اب ججوں کے تقرر کے طریق کار کے بارے چند اصولی باتیں سمجھنا ضروری ہیں: اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ جو قانون اور روایات ہمارے ملک میں کارفرما رہی ہیں، وہ کوئی اچھی مثال پیش نہیں کرتیں۔
برطانیہ کے نوآبادیاتی دور سے چیف ایگزیکٹو، چیف جسٹس کے مشورے سے ججوں کا تقرر کیا کرتاتھا۔ یہ سلسلہ ۵۰ کے عشرے تک جاری رہا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بالعموم ججوں کا تقرر اہلیت کی بنیاد پر ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ اس دور میں عدلیہ آزاد تھی۔ اس میں دیانت تھی اور کردار تھا۔ انھوں نے بالعموم اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کیا، لیکن بدقسمتی سے جسٹس محمد منیر کے دور سے حالات بدلنے لگے۔ فیلڈمارشل ایوب خان کی صدارت کے زمانے میں ججوں کے تقرر کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا، اس میں ذاتی پسند، قرابت داری اور سیاسی وفاداریوں کا عمل دخل شروع ہوگیا۔ اس معاملے میں ہماری تاریخ میں پچھلے ۴۰سال خاصے تاریک رہے ہیں۔ آپ جناب حامدخان کی کتاب Constitutional and Political History of Pakistan (پاکستان کی دستوری اور سیاسی تاریخ) کو دیکھیں، جس میں نام لے لے کر ایک ایک واقعہ دیا گیا ہے کہ کس طریقے سے ججوں نے جو تجاویز دیں، ان میں ایک بڑی تعداد کی سفارش جس بنیادپر ہوئی، وہ ذاتی پسند وناپسند، قرابت داری اور دوستیوں اور مفادات کے اشتراک کی بنیاد پر تھیں، جن میں اہلیت و صلاحیت اور کردار کو نظرانداز کردیا گیا۔ پھر سیاست دانوں نے بھی اپنے اپنے دور میں بدقسمتی سے یہی کام کیا۔ میں نام نہیں لینا چاہتا لیکن جن حضرات کی نگاہ سے سابق سینیٹر جسٹس (ر) عبدالرزاق تھہیم کی کتابjudiciary and Judges(عدلیہ اور جج) گزری ہے، وہ گواہی دیں گے کہ یہ داستان بڑی تلخ اور شرم سار کرنے والی ہے کہ ماضی میں ججوں کے تقرر کے سلسلے میں کیا کچھ کیا جاتا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کی خودنوشت پڑھیے۔ آپ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ کس طریقے سے اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے شوہر جناب آصف علی زرداری کو ان سے یہ بات کرنے کے لیے بھیجا کہ حکومت انھیں دو ججوں کو نظرانداز (supersede) کرکے چیف جسٹس بنانا چاہتی ہے، لیکن مطالبہ یہ تھا کہ پہلے وہ وزیراعظم صاحبہ کو اپنا استعفا لکھ کر دے دیں، جس پر کوئی تاریخ درج نہ ہو، تاکہ جب چاہیں وہ ان کو نکال سکیں۔ خواہ معاملہ سیاست دانوں کا ہو یا ججوں کی سفارش کا، دونوں کی مثالیں اچھی نہیں ہیں۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں ۱۸ویں اور ۱۹ویں ترمیم کے ذریعے کچھ تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ججوں کے تقرر کے سلسلے میں کسی کو صواب دیدی اختیار (discretion) حاصل نہیں ہے، نہ چیف جسٹس کو، نہ چیف ایگزیکٹو کو۔ دوسری یہ کہ تقرر کے طریقۂ کار کو اداروں سے مشاورت کی شکل دی گئی ہے، تاکہ کسی ایک فرد یا ادارے کو بالادستی حاصل نہ ہو۔ ہرمعاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر جو بھی سفارش مرتب کی جائے، وہ دو چھلنیوں سے گزرے گی: ایک جوڈیشل کمیشن اور دوسری پارلیمانی کمیٹی۔ اس طرح ہرپہلو سے بحث کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے جو میرٹ پر ہوں گے اور توقع ہے کہ شفاف ہوں گے۔
تیسری چیز یہ کہ اس میں عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کا حصہ ہوگا، محض کسی ایک کا نہیں۔ اس پر بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیںاور مجھے دکھ سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ بہت سے وکلا نے جو لائق بھی ہیں اور محترم و معتبر بھی، ان میں سے بعض نے اپنے بیانات اور خصوصیت سے میڈیا ٹاک شوز میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ: ’’دنیا میں کہیں بھی پارلیمنٹ کا کردار نہیں پایا جاتا اور یہ کہ ان نامزدگیوں کو خالص عدلیہ کی تجویز پر منحصر ہونا چاہیے‘‘۔ یہ بات امرواقعہ کے خلاف ہے۔ Parliaments of The Worldکی جلددوم کا آخری باب اسی موضوع سے متعلق ہے۔ اس کی رو سے دنیا کے ان ۷۰ممالک میں جن کے جمہوری نظام کی تفصیلات اس میں دی گئی ہیں، ۳۲ ایسے ہیں جہاں پر پارلیمنٹ کا کوئی نہ کوئی واضح کردار ہے، مثلاً جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ میں پارلیمنٹ باقاعدہ عدلیہ کو منتخب کرتی ہے۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں امریکا اور برطانیہ کی پوزیشن یہ ہے کہ امریکا میں سینیٹر حضرات صدر کو نجی طور پر نام تجویز کرتے ہیںاور پھر باضابطہ طور پر صدر نام تجویز کرتا ہے جسے سینیٹ منظور کرتا ہے۔ اسی طرح ججوں کی معزولی کا بھی سینیٹ ہی کو اختیار ہے۔
برطانیہ کی مثال لیجیے: برطانیہ میں صدیوں سے لارڈ چانسلر جو ایک سیاسی منصب ہے، جو دارالامرا کا اسپیکر ہوتا ہے وہ ساری سفارشات دیا کرتا تھا۔ برطانیہ میں ۲۰۰۵ء میں نیا دستوری ایکٹ منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت اب یہ اختیار ایک جوڈیشل کمیشن کو سونپا گیا ہے۔ اس جوڈیشل کمیشن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ۹ لیگل ممبر، ۳سینیر جج، ایک سرکٹ جج، ایک عام مجسٹریٹ، ایک ڈسٹرکٹ جج، ایک عام مجسٹریٹ (non-judicial)، ایک رکن ٹریبونل کے حلقے سے، ایک بیرسٹر، ایک مشیر (وہ وکیل جو عدالت میں پیش نہیں ہو مگر قانونی رہنمائی و معاونت کا کام انجام دیتا ہے) اور چھے عام شہریوں پر مشتمل ہوگا جس کی سربراہی ایک جج نہیں کرے گا، بلکہ ایک عمومی ممبر کرے گا۔ عملاً اس کمیشن کی پہلی سربراہ جو خاتون بنی ہے اس کا نام بیروینس اوشا پراشا ہے۔ یہ دارالامرا کی ایک ممبر ہے، کوئی جج نہیں ہے۔ گویا کہ اس میں پارلیمنٹ کی بھرپور نمایندگی موجود ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہ کمیشن ججوں کے ناموں کی تجویز لارڈ چانسلر کو کرے گا اور لارڈ چانسلر کمیشن کی کسی تجویز کو مستردکرسکتا ہے، یا دوبارہ غور کرنے کے لیے بھیج سکتا ہے۔ دوبارہ غور کرنے کے بعد اولین طور پر تجویز کردہ نام دوبارہ آسکتا ہے، لیکن اگر لارڈ چانسلر کسی نام کو مسترد کرتا ہے تو کمیشن دوبارہ وہی نام نہیں بھیج سکتا۔ اس کو دوسرا نام بھیجنا پڑے گا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ لارڈ چانسلر دو سے زیادہ نام مسترد نہیں کرسکتا۔ ایک بار پھر واضح کر دیا جائے کہ لارڈ چانسلر کوئی جج نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک سیاسی عہدہ ہے اور ہائوس آف لارڈز کا سربراہ بھی لارڈ چانسلر ہی ہوتا ہے۔ تیسرا نام اسے قبول کرنا پڑے گا۔
ان تمام معلومات کی روشنی میں، مَیں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اصل اصول یہ ہے کہ عدلیہ کے تمام تقرر اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔ یہ صواب دیدی نہ ہوں اور تمام تقرریوں میں عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کا کردار ہو۔ ۱۹ویں ترمیم میں ان اصولوں کا اہتمام کیا گیا ہے کہ ۱۸ویں ترمیم کے مجوزہ نظام میں جو خامیاں رہ گئی تھیں عدالت عظمیٰ کی تجاویز کی روشنی میں ان کی اصلاح بھی کردی گئی ہے۔میری نگاہ میں یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔