[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپؐ کا پہلا عظیم الشان کارنامہ انصار و مہاجرین کے درمیان نظامِ مواخات کا قیام تھا۔ اس کے ساتھ ہی مکّے کے اہلِ ایمان کو مدینے (دارالاسلام) کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا، کیوں کہ مدینۂ طیبہ ایک شہری ریاست بن چکا تھا، جس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان چند واضح شرائط پر ایک معاہدہ میثاقِ مدینہ طے پاگیا کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا، اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں دونوں فریق متحد ہوکر مدینے کا دفاع کریں گے۔ میثاقِ مدینہ مسلمانوں کے نزدیک اس لیے اہم تھا کہ اس معاہدے کے مطابق قوت و اقتدار کا مرکزی کردار آنحضوؐر کی ذات کو تسلیم کرلیا گیا تھا۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی تاریخ اور یہود حجاز کے طرزِعمل پر ایک نگاہ ڈالی جائے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ساتھ جو معاہدہ کیا، وہ کیوں ضروری تھا، اور اس کے حقیقی اسباب کیا تھے؟]
عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انھوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑسکے۔ اور عرب سے باہر کے یہودی مؤرخین و مصنفین نے اُن کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے، جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آکر وہ اپنے بقیہ ابناے ملّت سے بچھڑگئے تھے ، اور دنیا کے یہودی سرے سے اُن کو اپنوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ انھوں نے عبرانی تہذیب، زبان، حتیٰ کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کر لی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کتبات ملے ہیں، اُن میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا، اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہودِ عرب کی تاریخ کا بیش تر انحصار اُن زبانی روایات پر ہے جو اہلِ عرب میں مشہور تھیں، اور ان میں اچھا خاصا حصہ خود یہودیوں کا اپنا پھیلایا ہوا تھا۔
حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے آخر عہد میں یہاں آکرآباد ہوئے تھے۔ اس کا قصّہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت موسٰی ؑنے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عَمالِقَہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں۔ بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آکرفرمانِ نبی کی تعمیل کی، مگر عَمالقہ کے بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوب صورت نوجوان تھا، اسے انھوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اُس وقت حضرت موسٰی ؑکا انتقال ہو چکا تھا۔ اُن کے جانشینوں نے اِس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت ِ موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انھوں نے اِس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا، اور اسے مجبوراً یثرب واپس آکر یہیں بس جانا پڑا (کتاب الاغانی، ج ۱۹، ص ۹۴)۔ اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ ۱۲ سو برس قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ لیکن درحقیقت اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے،اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہلِ عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔
دوسری یہودی مہاجرت، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق ۵۸۷ قبلِ مسیح میں ہوئی، جب کہ بابِل کے بادشاہ بُختِ نَصَّر نے بیت المَقدِس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتربتر کر دیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اُس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آکر وادی القُریٰ، تَیماء اور یثرب میں آباد ہوگئے تھے (فُتوح البُلدان، البلاذُرِی)۔ لیکن اِس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔
درحقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب سنہ ۷۰ء میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتلِ عام کیا، اور پھر سنہ ۱۳۲ء میں انھیں اس سرزمین سے بالکل نکال باہر کیا، اُس دَور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آکر انھوں نے جہاں جہاں چشمے اور سرسبز مقامات دیکھے، وہاں ٹھیر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سُودخواری کے ذریعے سے اُن پر قبضہ جما لیا۔ اَیلہ، مَقنا، تبوک، تَیماء، وادی القُریٰ، فَدَک اور خیبر پر اُن کا تسلّط اسی دَور میں قائم ہوا۔ اور بنی قُرَیَظہ، بنی نَضِیر، بنی بَہدَل اور بنی قَینُقَاع بھی اُسی دور میں آکر یثرب پر قابض ہوئے۔
یثرب میں آباد ہونے والے [تین] قبائل میں سے بنی نَضِیر اور بنی قُرَیَظہ زیادہ ممتاز تھے ، کیونکہ وہ کاہنوں (Cohens یا Priests) کے طبقے میں سے تھے، انھیں یہودیوں میں [بنوقَینُقاع کے مقابلے میں] عالی نسب مانا جاتا تھا اور ان کو اپنی ملّت میں مذہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینے میں آکر آباد ہوئے، اُس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انھوں نے دبا لیا اور عملاً اِس سرسبز و شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد سنہ ۴۵۰ء یا ۴۵۱ء میں یمن کے اُس سیلابِ عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورئہ سبا کے دوسرے رکوع میں [آیا] ہے۔ اِس سیلاب کی وجہ سے قومِ سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غَسّانی شام میں، لَخمی حِیرَہ (عراق) میں، بنی خُزاعہ جدّہ و مکّہ کے درمیان، اور اَوس و خَزرَج یثرب میں جاکر آباد ہوئے۔ یثرب پرچونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے اوّل اوّل اَوس و خَزرَج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چارو ناچار بنجر زمینوں پر بس گئے، جہاں اُن کو قُوتِ لایمُوت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخرکار ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غَسّانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اَوس و خَزرَج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے، بنی نَضِیر اور بنی قُرَیَظہ شہر کے باہر جاکر بسنے پر مجبور ہوگئے۔ تیسرے قبیلے بنی قَینُقاع کی چونکہ اِن دونوں یہودی قبیلوں سے اَن بن تھی، اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لیے اُسے قبیلۂ خَزرَج کی پناہ لینی پڑی۔ اور اُس کے مقابلے میں بنی نَضِیر و بنی قُرَیَظہ نے قبیلۂ اَوس کی پناہ لی، تاکہ اطرافِ یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے، آغازِ ہجرت تک، حجاز میں عموماً اور یثرب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایاں خدوخال یہ تھے:
اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہلِ عرب کو وہ اُمّی (gentiles) کہتے تھے، جس کے معنی صرف اَن پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان اُمّیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و ناجائز طریقے سے مار کھانا اسرائیلیوں کے لیے حلال و طیب ہے۔ سردارانِ عرب کے ماسوا، عام عربوں کو وہ اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ انھیں دین یہود میں داخل کرکے برابر کا درجہ دے دیں۔ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، نہ روایاتِ عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرور ملتا ہے جو یہودی ہوگئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کے بجاے صرف اپنے کاروبار سے دل چسپی تھی۔ اِسی لیے حجاز میں یہودیت ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض چند اسرائیلی قبیلوں کا سرمایۂ فخروناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علما نے تعویذ گنڈوں اور فال گیری اور جادُوگری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا، جس کی وجہ سے عربوں پر اُن کے ’علم‘ اور ’عمل ‘کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔
یہ حالات تھے جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپؐ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اوّلین کام کیے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ اَوس اور خَزرَج اور مہاجرین کو ملاکر ایک برادری بنائی، اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا، جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔
اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ [نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں] یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن اُمور کی پابندی قبول کی تھی:
اِنَّ عَلَی الْیَہُوْدِ نَفَقَتُہُمْ وَعَلَی الْمُسْلِمِیْنَ نَفَقَتُہُمْ ، وَ اِنَّ بِیْنَہُمُ النَّصْرُ عَلٰی مَنْ حَارَبَ اَہْلَ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ ، وَ اِنَّ بَیْنَھُمْ النُّصْحُ وَالنَّصِیْحَۃُ وَالْبِرُّ دُوْنَ الْاِثْمِ ، وَاِنَّہُ لَمْ یَاثَمْ اِمْرَؤٌ بِحَلِیْفِہٖ ، وَ اِنَّ النَّصْرَ لِلْمَظْلُوْمِ، وَ اِنَّ الْیَہُوْدَ یُنْفِقُوْنَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ مَا دَامُوا مُحَارِبِیْنَ ، وَ اِنَّ یَثْرَبَ حَرَامٌ جَوْفُھَا لِاَہْلِ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ …… وَ اِنَّہُ مَا کَانَ بَیْنَ اَہْلِ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ مِنْ حَدَثٍ اَوْ اِشْتَجَارِ یُخَافُ فَسَادُہُ فَاِنَّ مَرَدَّہُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاِلٰی مُحَمَّدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ …… وَ اِنَّہُ لَا تُجَارُ قُرَیْشٌ وَلَا مَنْ نَصَرَہَا، وَ اِنَّ بَیْنَہُمُ النَّصْرُ عَلٰی مَنْ دَہِمَ یَثْرِبَ - عَلٰی کُلِّ اُنَاسٍ حِصَّتَہُمْ مِنْ جَانِبِھِمْ الَّذِیْ قِبَلَہُمْ (ابن ہشام، ج ۲ ، ص ۱۴۷ تا ۱۵۰)
یہ کہ یہودی اپنا خرچ اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا، حملہ آور کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیرخواہی کریں گے اور ان کے درمیان نیکی و حق رسانی کا تعلق ہوگا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا۔ اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی، اور یہ کہ جب تک جنگ رہے ، یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اُس کے مصارف اٹھائیں گے۔ اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے۔ اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے… اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی، اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آور ہو، اس کے مقابلے میں شرکاے معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے… ہر فریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہوگا۔
یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معانِدانہ روش کا اظہار شروع کر دیا اور ان کا عناد روز بہ روز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ تین تھے:
___ایک یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو محض ایک رئیسِ قوم دیکھنا چاہتے تھے جو اُن کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کرکے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوی مفاد سے سروکار رکھے، مگر انھوں نے دیکھا کہ آپؐ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں خود اُن کے اپنے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانا بھی شامل تھا)، اور معصیت چھوڑ کر اُن احکام الٰہی کی اطاعت کرنے اور اُن اخلاقی حُدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیا بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ اُن کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ عالم گیر اصولی تحریک اگرچل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔
___دوسرے یہ کہ اَوس و خَزرَج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر، اور یہ دیکھ کر کہ گردوپیش کے عرب قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اِس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اِس اسلامی برادری میں شامل ہو کر ایک ملّت بنتے جا رہے ہیں، انھیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کے لیے انھوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی، وہ اب اِس نئے نظام میں نہ چل سکے گی، بلکہ اب ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا، جس کے آگے ان کی چالیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔
___تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدّن کی جو اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کر رہے تھے، اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام ناجائز طریقوں کا سدّباب شامل تھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سُود کو بھی آپؐ ناپاک کمائی اور حرام خوری قرار دے رہے تھے، جس سے انھیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپؐ کی فرماں روائی قائم ہوگئی تو آپؐ اسے قانوناً ممنوع کر دیں گے۔ اِس میں ان کو اپنی [معاشی اور سماجی] موت نظر آتی تھی۔
ان وجوہ سے انھوں نے حضوؐر کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپؐ کو زک دینے کے لیے کوئی چال، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکنڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرّہ برابر تأمُّل نہ تھا۔ وہ آپؐ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے، تاکہ لوگ آپؐ سے بدگمان ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تھے، تاکہ وہ اِس دین سے برگشتہ ہو جائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے تھے، تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جا سکیں۔ فتنے برپا کرنے کے لیے منافقین سے سازباز کرتے تھے۔ ہر اُس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔ اَوس اور خَزرَج کے لوگ خاص طور پر اُن کے ہدف تھے، جن سے اُن کے مدت ہاے دراز کے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ جنگ بُعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ اُن کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش کرتے تھے، تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اُخوت کا وہ رشتہ تار تار ہو جائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیاتھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لیے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں سے ان کا پہلے سے لین دین تھا، ان میں سے جوں ہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا، وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے، اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے اور عَلانیہ کہتے تھے کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمھارا دین کچھ اور تھا، اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے اس لیے ہم پر تمھارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔(تفہیم القرآن ،جلد پنجم،ص ۳۷۰-۳۷۷)
[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور دعوتِ اسلامی سے یہود کے مُعانِدانہ طرزِعمل کا اظہار تو مکی زندگی میں بھی ہوتا رہتا تھا، اور قرآن مجید کی مکی سورتوں میں اس کے شواہد بھی موجود ہیں، لیکن حضوؐر کی مدینہ تشریف آوری پر ایک معاہدے کی پابندی قبول کرلینے کے باوجود، حضوؐر اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کے خلاف ان کا عناد ایک تدریج کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا۔ آغاز اس معاہدے کے فوراً بعد ہوا، پھر اس کی شدت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ غزوئہ بدر (سنہ ۲ ہجری) تک پہنچتے پہنچتے ان کا یہ طرزِعمل معاہدے کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور دشمنی میں تبدیل ہوگیا۔ غزوئہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش پر جو فتحِ مبین حاصل ہوئی، اس نے انھیں اور زیادہ مشتعل اور بے قابو کردیا اور ان کے بُغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اُٹھی۔ یہود کی اس کھلی کھلی معاندانہ روش کی بنا پر آگے چل کر حضوؐر نے ان کے تینوں بڑے قبائل (بنوقَینقُاع، بنونَضیر اور بنوقُرَیَظہ) کے خلاف جو سخت اقدامات فرمائے ان کی تفصیل آیندہ صفحات میں اپنے اپنے مقام پر آئے گی۔]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کتابُ اللہ کے خلاف یہود کی دشمنی، ان کا بُغض، ان کی نفرت اور ان کی مُعانِدانہ روش کس درجے کی تھی؟ اس کا نقشہ مدنی زندگی کے آغاز میں نازل ہونے والی سورتوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ کھینچا گیا ہے، قرآن حکیم، خاص طور سے سورۃ البقرہ کے حوالے سے، یہود کے مُعانِدانہ طرزِعمل کی ایک جھلک سطورِ ذیل میں پیش کی جا رہی ہے:
اَوس اور خَزرَج کے نومسلموں (یعنی گروہِ انصار) سے خطاب کرکے فرمایا گیا: اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْ م بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ o (اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بُوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔)
(الف)نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان [لانے سے پہلے قبائلِ مدینہ اَوس اور خَزرَج کے] لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوت،کتاب، ملائکہ ،آخرت، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں، وہ سب انھوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سنی تھیں۔ اور یہ بھی انھوں نے یہودیوں ہی سے سنا تھا کہ دُنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں، اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دُنیا پر چھاجائیں گے۔ یہی معلومات تھیںجن کی بنا پر اہلِ مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چرچا سن کر آپؐ کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جُوق در جُوق ایمان لائے۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کتب ِآسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمت ِ ایمان میسّر ہوئی ہے، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے۔ چنانچہ یہی توقعات لے کر یہ پُرجوش نومسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفینِ اسلام اس سے یہ استدلال کرتے تھے کہ معاملہ کچھ مُشتَبہ ہی معلوم ہوتا ہے، ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہلِ کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس بزرگ جانتے بُوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کر لیتے۔ اس بنا پر [سورۂ بقرہ کی متعدد آیات میں] بنی اسرائیل کی تاریخی سرگذشت بیان کرنے کے بعد [یہاں] ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں، ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمھاری دعوتِ حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو دل شکستہ ہوجائو گے۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سن کر تم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، انھی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں۔ دین ِ حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیںاور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دَوڑے چلے آئیں گے۔
(ب) [سورئہ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت میں]’ایک گروہ‘ سے مراد [یہود] کے علما اور حاملینِ شریعت ہیں۔ ’کلام اللہ‘ سے مراد تورات، زَبور اور وہ دوسری کتابیں ہیں جو ان لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں۔ ’تحریف‘ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دوسرے معنی پہنا دینا، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ نیز الفاظ میں تغیر و تبدل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں ___ علماے بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تحریفیں کلامِ الٰہی میں کی ہیں۔( تفہیم القرآن ،جلد اوّل، ص ۸۷)
[نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر یہودی پیشوائوں کے اندر یہ مرض شدت اختیار کرگیا تھا۔ اسی سورئہ بقرہ کی آیت ۷۶ تا ۱۲۱ میں یہود اور ان کے مذہبی پیشوائوں کی حالت پر جو تبصرہ کیا گیا ہے، اس کے درج ذیل نِکات سے اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ، اس کی کتاب اور اس کے دین کے ساتھ کس قسم کا برتائو کر رہے تھے اور اُن کی دینی اور اخلاقی پستی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔]
۱- اللّٰہ کے متعلق ان کا فاسد عقیدہ: [اُن کے علما] وہ آپس میں ایک دُوسرے سے کہتے تھے کہ تورات اور دیگر کتبِ آسمانی میں جو پیشین گوئیاں اِس نبی کے متعلق موجود ہیں، یا جو آیات اورتعلیمات ہماری مقدّس کتابوں میں ایسی ملتی ہیں جن سے ہماری موجودہ روش پر گرفت ہو سکتی ہے، انھیں مسلمانوں کے سامنے بیان نہ کرو، ورنہ یہ تمھارے رب کے سامنے ان کو تمھارے خلاف حجت کے طور پر پیش کریں گے۔ یہ تھا اللہ کے متعلق ان ظالموں کے فسادِ عقیدہ کا حال۔ گویا وہ اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ اگر دُنیا میں وہ اپنی تحریفات اور اپنی حق پوشی کو چھپا لے گئے، تو آخرت میں ان پر مقدّمہ نہ چل سکے گا۔ اِسی لیے بعد کے جملۂ معترضہ میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کیا تم اللہ کو بے خبر سمجھتے ہو۔
۲- کلام اللّٰہ میں تحریف اور آمیزش: اُن کے علما--- نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ کلامِ الٰہی کے معانی کو اپنی خواہشات کے مطابق بدلا ہو، بلکہ یہ بھی کیا کہ بائبل میں اپنی تفسیروں کو، اپنی قومی تاریخ کو، اپنے اوہام اور قیاسات کو، اپنے خیالی فلسفوں کو، اور اپنے اجتہاد سے وضع کیے ہوئے فقہی قوانین کو کلامِ الٰہی کے ساتھ خلط ملط کردیا اور یہ ساری چیزیں لوگوں کے سامنے اس حیثیت سے پیش کیں کہ گویا یہ سب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہوئی ہیں۔ [مزید برآں ]ہر تاریخی افسانہ، ہر مُفسر کی تاویل، ہرمُتکلم کا الٰہیاتی عقیدہ، اور ہر فقیہ کا قانونی اجتہاد، جس نے مجموعۂ کتبِ مقدسہ (بائبل) میں جگہ پا لی، اللہ کا قول (Word of God) بن کر رہ گیا۔ اُس پر ایمان لانا فرض ہوگیا اور اس سے پھرنے کے معنی دین سے پھر جانے کے ہوگئے۔(ایضاً، ص ۸۸-۸۹)
[اس پر فرمایا گیا:] فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ق ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط فَوَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَ وَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ o (پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نَوِشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے، تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت۔(ایضاً)
۳- یھودی عوام کی خوش خیالیاں: [رہے عوام تو ان کا یہ ] حال تھا، علمِ کتاب سے کورے تھے۔ کچھ نہ جانتے تھے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں دین کے کیا اُصول بتائے ہیں، اخلاق اور شرع کے کیا قواعد سکھائے ہیں، اور انسان کی فلاح و خُسران کا مدار کن چیزوں پر رکھا ہے۔ اس علم کے بغیر وہ اپنے مفروضات اور اپنی خواہشات کے مطابق گھڑی ہوئی باتوں کو دین سمجھے بیٹھے تھے اور جھوٹی توقعات پر جی رہے تھے(ایضاً)۔ [ان کے بارے میں فرمایا:] ان میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کا ہے، جوکتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد اُمیدوں اور آرزوئوں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔
۴- خود فریبی کی انتھا: [کلامِ الٰہی کے ساتھ یہ معاملہ کرنے اور خوفِ خدا سے بے نیاز ہوجانے کے بعد اُن کی خود فریبی اور جسارت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ بمطابق ارشاد الٰہی] وہ کہتے تھے: دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں، اِلاَّ یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ [اس پر فرمایا گیا:] اِن سے پوچھو: کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمّے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ اُس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمھیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطاکاری کے چکّر میں پڑا رہے گا،وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا۔(ایضاً، ص ۸۸-۹۰)
یہ یہودیوں کی عام غلط فہمی کا بیان ہے، جس میں ان کے عامی اور عالم سب مبتلا تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کچھ کریں، بہرحال چونکہ ہم یہودی ہیں، لہٰذا جہنم کی آگ ہم پر حرام ہے، اور بالفرض اگر ہم کو سزا دی بھی گئی، تو بس چند روز کے لیے وہاں بھیجے جائیں گے اور پھر سیدھے جنت کی طرف پلٹا دیے جائیں گے۔
۵- کتابُ اللّٰہ پر جزوی ایمان:نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد سے پہلے مدینے کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنے ہمسایہ عرب قبیلوں (اَوْس اور خزْرَج) سے حلیفانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ جب ایک عرب قبیلہ دُوسرے قبیلے سے برسرِجنگ ہوتا، تو دونوں کے حلیف یہودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ایک دُوسرے کے مقابلے میں نبردآزما ہو جاتے تھے۔ یہ فعل صریح طور پر کتاب اللہ کے خلاف تھا اور وہ جانتے بوجھتے کتاب اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ مگر لڑائی کے بعد جب ایک یہودی قبیلے کے اسیرانِ جنگ دُوسرے یہودی قبیلے کے ہاتھ آتے تھے، تو غالب قبیلہ فدیہ لے کر انھیں چھوڑتا اور مغلوب قبیلہ فدیہ دے کر انھیںچھڑاتا تھا، اور اس فدیے کے لین دین کو جائز ٹھیرانے کے لیے کتاب اللہ سے استدلال کیا جاتا تھا۔ گویا وہ کتاب اللہ کی اس اجازت کو تو سر آنکھوں پر رکھتے تھے کہ اسیرانِ جنگ کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے، مگر اس حکم کو ٹھکرا دیتے تھے کہ آپس میں جنگ ہی نہ کی جائے۔(ایضاً، ص ۹۱-۹۲)
[چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:] اَفَـتُؤْمِنُوْنَ بِـبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِـبَعْضٍ، تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کُفر کرتے ہو؟ (ایضاً، ص ۹۱)
۶- جبریل علیہ السلام سے یھود کی دشمنی: یہودی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل ؑکو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ رحمت کا نہیں عذاب کا فرشتہ ہے(ایضاً، ص ۹۶)۔ [فرمایا گیا:] اِن سے کہو کہ جو کوئی جبریل ؑ سے عداوت رکھتا ہو، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل ؑ نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن تمھارے قلب پر نازل کیا ہے---اس بنا پر تمھاری گالیاں جبریل ؑ پر نہیں، بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں۔ [پھر] یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے، لہٰذا تمھاری گالیوں میں تورات بھی حصے دار ہوئی۔۱۰؎
۷- انبیا کے مقابلے میں سرکشی اور سنگ دلی: [سورۂ بقرہ کی آیت ۸۷ میں ان کے ایک سنگین جرم کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:] پھر یہ تمھارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمھاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمھارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔ [اس کے بعد اگلی آیت ۸۸ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:] وہ کہتے ہیں: ہمارے دل محفوظ ہیں۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پِھٹکار پڑی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔(ایضاً، ص ۹۲-۹۳)
[گویا اُن کا کہنا یہ ہے کہ] ہم اپنے عقیدہ و خیال میں اتنے پختہ ہیں کہ تم خواہ کچھ کہو، ہمارے دلوں پر تمھاری بات کا اثر نہ ہوگا۔ یہ وہی بات ہے جو تمام ایسے ہٹ دھرم لوگ کہا کرتے ہیں جن کے دل و دماغ پر جاہلانہ تعصّب کا تسلط ہوتا ہے۔ وہ اسے عقیدے کی مضبوطی کا نام دے کر ایک خوبی شمار کرتے ہیں، حالانکہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ اپنے موروثی عقائد و افکار پر جم جانے کا فیصلہ کر لے، خواہ ان کا غلط ہونا کیسے ہی قوی دلائل سے ثابت کردیا جائے۔
۸- کتابُ اللّٰہ اور رسولؐ اللّٰہ کی تکذیب:[آیت ۸۹ میں قرآن کے بارے میں ان کے طرزِعمل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:] اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتائو ہے؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دُعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آگئی، جسے وہ پہچان بھی گئے، تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔
[پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ] نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد سے پہلے یہودی بے چینی کے ساتھ اُس نبی کے منتظر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیا نے کی تھیں۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مٹے اور پھر ہمارے عروج کا دَورشروع ہو۔ خود اہلِ مدینہ اس بات کے شاہد تھے کہ ِبعثتِ محمدیؐ سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہودی آنے والے نبی کی اُمیّد پر جِیا کرتے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیۂ کلام یہی تھا کہ ’’اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کرلے، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے‘‘۔ اہلِ مدینہ یہ باتیں سنے ہوئے تھے، اسی لیے جب انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حالات معلوم ہوئے تو انھوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا، کہیں یہ یہودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہودی ، جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے تھے، اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے۔
اور یہ جو فرمایا کہ ’وہ اس کو پہچان بھی گئے‘ تواس کے متعدد ثبوت اسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت امّ المومنین حضرت صَفِیَّہ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپؐ سے ملنے گئے۔ بڑی دیرتک آپ ؐسے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سنا:
چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟ والد: خدا کی قسم، ہاں۔ چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟ والد: ہاں۔ چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟ والد: جب تک جان میں جان ہے، اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔ (ابن ہشام، جلد دوم، ص۱۶۵، طبع جدید)
[علماے یہود کی اس بے جا ضد اور انکارِ حق پر تبصرہ کرتے ہوئے آیت ۹۰ میں فرمایا گیا:] خدا کی لعنت اِن منکرین پر! کیسا بُرا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلّی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے، اس کو قبول کرنے سے صرف اِس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا، لہٰذا اب یہ غضب بالاے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت ذلّت آمیز سزا مقرر ہے۔
[اس ارشادِ الٰہی کے مطابق:] یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والا نبی ان کی قوم میں پیدا ہو، مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا، جسے وہ اپنے مقابلے میں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہو گئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا، جب اس نے ان سے نہ پوچھا اور اپنے فضل سے خود جسے چاہا، نواز دیا، تو وہ بگڑ بیٹھے۔(ایضاً، ص ۹۳-۹۵)
[اس تفصیل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر، گروہِ یہود، یثرب کے اندر معاشی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ایک قابلِ لحاظ حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب خیال فرمایا کہ چند شرائط کے ساتھ اُن سے ایک معاہدہ کرلیا جائے۔ نیز درج بالا تفصیل سے یہودِ مدینہ کی مختصر تاریخ، اُن کی اخلاقی اور مذہبی حالت، ان کے قومی نصب العین (آنحضوؐر سے دشمنی)، اسلام سے ان کے تعصّب اور عناد اور بحیثیت مجموعی ’’ہمچو ما دیگرے نیست‘‘ پر مبنی ان کے منفی رویوں کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔] (انتخاب، ترتیب و تدوین: عبدالوکیل علوی، حفیظ الرحمٰن احسن، رفیع الدین ہاشمی)