اللہ سے غافل اہلِ دولت و ثروت اور حکومت اپنی قوت، حکمت اور عیارانہ سیاست کے زعم میں، اور اپنے سرپرستوں کی دنیوی طاقت اور تائید کے بھروسے پر، اپنے اقتدار کو ناقابلِ شکست سمجھ لیتے ہیں، اور ساری منصوبہ بندیاں اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے ان کی حکمرانی اور بالادستی کو دوام میسر رہے گا۔ وہ تاریخ کے نشیب و فراز سے بے پروا ہوکر اصل بالاتر قوت کی تدبیر کے امکانات کو ایک لمحے کے لیے بھی لائقِ توجہ نہیں گردانتے، اور قوت کے نشے میں مست ہوکر اپنی من مانی کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور ایسے ایسے کھیل کھیلتے ہیں کہ انسان تو کیا فرشتے بھی ششدر رہ جاتے ہیں۔ لیکن پھر قدرت کا ایک جھٹکا ان کے سارے شیش محل کو چکنا چور کردیتا ہے، اور ان کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ زمین و آسمان کے خالق و مالک نے سچ کہا ہے کہ وَ مَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo(اٰل عمرٰن ۳:۵۴) ’’وہ اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ اپنی تدبیر کرتا ہے اور اللہ ہی کی تدبیر غالب رہتی ہے‘‘۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے اربابِ قوت و اقتدار کا حال ہمیشہ یہ رہا ہے کہ
سامان سو برس کا ہے پَل کی خبر نہیں
اس کی تازہ ترین مثال تیونس میں رونما ہونے والے ان واقعات کے آئینے میں دیکھی جاسکتی ہے، جو ۱۷دسمبر ۲۰۱۰ء کو ایک چھوٹے سے قصبے سیدی بوزید میں ایک ۲۶سالہ گریجویٹ نوجوان محمد البوعزیزی کی خودسوزی کی کوشش سے شروع ہوئے اور احتجاج کی لہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے چار ہفتوں میں پورے تیونس میں ایسی ہلچل مچا دی کہ تاحیات صدارت کا مدعی اور بعدِحیات جانشین کے تقرر کا خواب دیکھنے والا کُلی اختیارات کا مالک، صدر زین العابدین بن علی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ اقتدار، دولت، پولیس، فوج اور ذاتی ملیشیا، کچھ بھی اس کے کام نہ آسکا۔ تیونس کے طول و عرض میں تبدیلی کے نقارے بجنے لگے، بن علی کی شخصی اور حزبی آمریت کا قلعہ زمین بوس ہوگیا اور ملک میں ایک نئے دور کے آغاز کی راہیں کھل گئیں جسے ’انقلابِ یاسمین‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ یہ تبدیلی عرب اور اسلامی دنیا میں دُور رس تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ بلاشبہہ انقلاب کا یہ عمل ابھی جاری ہے اور اپنی تکمیل کی منزل کی طرف رواں دواں ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انقلاب دشمن قوتیں اپنی چالوں میں مصروف ہیں اور اسے پٹڑی سے اُتارنے کا کھیل کھیل رہی ہیں، لیکن تمام قرائن اشارہ کر رہے ہیں کہ ان شاء اللہ تیونس اور اس کے بعد عرب اور مسلم دنیا کے متعدد ممالک کی زندگیوں میں ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ تبدیلی کی جو مضبوط لہر اُٹھی ہے اس کی کامیابی اور صحیح سمت میں پیش رفت کی دعائوں کے ساتھ اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس انقلابی رُو کے بارے میں غوروفکر کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی جائے۔
تیونس ایک مسلمان ملک ہے جس کی تاریخ تیرہ سو سال پر محیط ہے۔ اسلام کی روشنی افریقہ کے اس علاقے میں پہلی ہجری صدی (۶۹۸ء) میں پہنچی اور ۱۸۸۳ء میں فرانس کے غلبے تک یہ حسین و جمیل ملک اسلامی قلمرو میں ایک نگینے کے مانند دمکتا رہا۔ درمیان میں یورپ کی عیسائی یلغار (Crusade) کے زمانے میں اسے نصف صدی (۱۵۲۴ء-۱۵۷۴ء) کے لیے ہسپانیہ کے تسلط کا تلخ تجربہ بھی ہوا۔ اوّلین بارہ سو سال میں تیونس نے مسلمان حکمران خاندانوں (عرب، بربر، فاطمی، موحدون اور عثمانیہ سب ہی) کے اقتدار کا مزا بھی چکھا۔ عوامی سطح پر تصوف کے تمام ہی بڑے سلسلوں کے اثرات اس سرزمین پر رہے۔ خاص طور پر قادریہ، الرحمانیہ، عیساویہ، تیجانیہ اور عروسیہ۔ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی جامع الزیتونیہ دینی، اصلاحی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز رہی اور ابن خلدون جیسا نابغۂ روزگار مفکر اور سیاسی مدبر بھی اسی سرزمین کا گلِ سرسبد تھا۔ ابتدا ہی سے اہلِ تیونس مالکی مذہب کے پیرو تھے۔ گو عثمانی دور میں آبادی کے ایک حصے نے حنفی مسلک اختیار کیا اور اس طرح مالکی اور حنفی فقہ دریا کے دو دھاروں کی طرح اس علاقے کو سیراب کرتے رہے اور بڑی ہم آہنگی کے ساتھ یہ کام انجام دیتے رہے۔ واضح رہے کہ جامع الزیتونیہ نے ۱۲۰۷ء میں باقاعدہ جامعہ الزیتونیہ (زیتونیہ یونی ورسٹی) کا درجہ حاصل کرلیا تھا جہاں تمام دینی علوم کے ساتھ لغت، سائنس اور طب کے ہرشعبے کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ نیز زیتونیہ کے مدارس کا سلسلہ ملک کے طول وعرض میں قائم تھا اور مرکزی جامعہ میں ہزاروں طلبہ علم کے چشمے سے فیض یاب ہوتے تھے۔
تیونس کی تاریخ کا تاریک دور فرانس کا نوآبادیاتی زمانہ تھا، جو ۱۸۸۳ء میں معاہدہ لومارسک (Treaty of Lu marsc)کی چھتری تلے شروع ہوا اور ۱۹۵۵ء تک جاری رہا۔ مارچ ۱۹۶۵ء میں تیونس آزاد ہوا، مگر آزادی کے ساتھ ہی اہلِ تیونس کی آزمایش کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔ جس میں اقتدار بیرونی حکمرانوں سے منتقل ہوکر اپنی ہی سرزمین کے دو آمروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوگیا، یعنی حبیب بورقیبہ (۱۹۵۶ء-۱۹۸۷ء) اور زین العابدین بن علی (۱۹۸۷ء-۲۰۱۱ء)۔ فرانس نے اپنے زمانۂ تسلط میں تیونس کے شریعت کے قانون کو ذاتی زندگی کے امور تک محدود کردیا۔ اس کے ساتھ تیونس پبلک لا کو بھی فرانس کے نظام قانون کے مطابق ڈھال دیا گیا۔ یوں زبان، تعلیم، تہذیب و تمدن اور معیشت اور سیاست، ہر شعبۂ زندگی کو فرانس کی تہذیب کے رنگ میں رنگنے کے سامراجی ایجنڈے کو بڑی بے دردی اور قوت سے آگے بڑھایا گیا۔ اس دور میں دین کی روشنی اگر کہیں سے میسر تھی تو وہ خانقاہیں اور مساجد اور مدرسے تھے۔
فرانسیسی سامراج کے خلاف جو عوامی تحریک رونما ہوئی وہ دینی اور خود دنیوی تعلیمی اداروں ہی کی مرہونِ منت تھی۔ حبیب بورقیبہ اگر جدید تعلیمی اداروں کی پیداوار تھا، تو عبدالحمید ابن بادیس، توفیق مدنی اور خود حوری بومدیان زیتونیہ ہی کے تعلیم یافتہ رہنما تھے۔ یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ استعمار سے آزادی کی تحریک کے دوران میں، آزادی کی تحریک کا ہدف صرف فرانسیسی سامراج سے نجات ہی نہ تھا بلکہ تیونس کے اسلامی تشخص کی حفاظت اور دینی اقدار کی سربلندی بھی تھا۔ حبیب بورقیبہ کی ۱۹۲۹ء اور اس کے بعد کی تقاریر اس پر شاہد ہیں کہ خود اس نے اسلام کو تیونس کی شناخت کے طور پر پیش کیا اور بار بار مسلمان عورت کے حجاب کو اس شناخت کا مظہر قرار دیا۔ لیکن یہ ایک عظیم بدقسمتی تھی کہ آزادی کے حصول کے فوراً بعد اس (حبیب بورقیبہ) کی دستور پارٹی اور اس کی قیادت نے رنگ بدلا اور اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال میں ملکی سیاست، قانون اور تہذیب و ثقافت کا رشتہ اسلام سے کاٹنے کا ’کارنامہ‘ انجام دیا۔ کبھی ’اسلامی اصلاحات‘ کا تقاضا قرار دیا اور کبھی بڑی ڈھٹائی سے ترقی اور جدیدیت کا سہارا لے کر ملک کے قانون، تعلیم اور اجتماعی زندگی کے تمام ہی شعبوں پر سیکولر تہذیب اور قانون کو مسلط کیا۔ اس طرح جدیدیت کے نام پر لادینیت اور مغربیت کا کھیل شروع ہوگیا۔ تعددِ ازدواج پر پابندی اور عائلی قانون بشمول قانونِ وراثت کی تبدیلی سے اس ’سیکولر یلغار‘ کا آغاز ہوا۔ مسجدو محراب اور مدرسہ اور خانقاہ کو سرکاری نظام کے تسلط میں لایا گیا۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں مفقود اور بنیادی حقوق پامال کیے جانے لگے۔ قوت کا ارتکاز ایک مطلق العنان حکمران کے ہاتھ میں ہوگیا جس نے روزے جیسی فرض عبادت تک پر شب خون مارتے ہوئے اسے معاشی ترقی سے متصادم قرار دے کر منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ گو، بالآخر اس آخری اقدام کی حد تک بورقیبہ کو منہ کی کھانی پڑی لیکن بحیثیت مجموعی اجتماعی زندگی کے پورے نظام، بشمول حجاب پر پابندی اور شراب اور جوے کی ترویج اور سیاحت کے فروغ کے نام پر مغربی اقوام کے تمام گندے اور مذموم کاروبار کی کالک اپنے منہ پر مل گیا۔
قوم کے اجتماعی ضمیر اور حکمرانوں کے مقاصد اور اہداف میں تناقض اور تصادم نے اس ملک کو، جو قدرتی وسائل سے مالا مال تھا، حکومت اور عوام کی مسلسل کش مکش کی آگ میں جھونک دیا۔ یک جماعتی آمریت نے ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا اور اسلامی قوتوں اور اشتراکی تصورات کے تحت کام کرنے والی جماعتوں اور گروہوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ روحانی اور صوفی سلسلوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ ان سلسلوں سے وابستہ ہزاروں نوجوانوں، اور اسی طرح اسلامی تحریک کے کارکنوں کو پابندسلاسل کیا گیا۔ اس صورت حال کے نتیجے میں اسلام کے نام لیوا ہزارہا لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اس ریاستی استبداد سے تبلیغی جماعت جیسی غیرسیاسی مذہبی تحریک بھی محفوظ نہ رہی۔
ان نامساعد حالات میں دینی غیرت رکھنے والے نوجوانوں نے جامعہ تیونس کے پروفیسر شیخ راشد الغنوشی اور ان کے معاون عبدالفتاح مورو کی قیادت میں پہلے الانتجاہ الاسلامی اور پھر حزب النہضہ کے پرچم تلے جمہوریت کے قیام، بنیادی حقوق کے تحفظ، معاشی انصاف کے حصول، قانون کی بالادستی، کثیرجماعتی سیاست کے فروغ اور اسلامی اقدار اور شعائر کی ترویج کے لیے منظم جدوجہد کا آغاز کیا۔ اسلامی تحریک نے فکری، دعوتی اور سیاسی تبدیلی کے محاذوںپر بیک وقت کام کیا۔ ان کے جاری کردہ رسالوں المعارفہ، مستقبل اورالفجر کے مضامین نے فکری انقلاب برپا کیا۔ اس دعوت اور پیغام کو اقتدار نے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔بورقیبہ اور اس کی خفیہ ایجنسی (مخابرات) کے سربراہ زین العابدین بن علی نے جو ۱۹۸۷ء میں بورقیبہ کو ہٹاکر خود صدرِ مملکت بن گیا، ساری قوت اسلامی تحریک کو کچلنے اور اس کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کی۔ مغربی اقوام خصوصیت سے فرانس اور امریکا نے تیونس کے اس استبدادی ٹولے کی پوری پوری پشت پناہی کی۔ شیخ راشدالغنوشی نے بھی برسوں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، انھیں عمرقید تک کی سزا دی گئی جس کی گرفت سے نکل کر انھیں جلاوطنی کی زندگی اختیار کرنا پڑی۔ وہ ابھی تک برطانیہ میں مقیم اور وطن واپسی کے منتظر ہیں!
تیونس کا اصل مسئلہ ، متعدد دوسرے عرب اور مسلمان ممالک کی طرح یہی ہے کہ مغربی سامراج سے آزادی کے بعد بھی وہ مغرب کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکے اور سامراجی استبداد کا ایک نیا دور شروع ہوگیا، جس میں اصل کارفرما قوت مغربی اقوام ہی ہیں۔ البتہ اب وہ بلاواسطہ حکمرانی کے بجاے بالواسطہ حکمرانی کا کام انجام دے رہے ہیں، اور ان ممالک کی مفاد پرست اشرافیہ ان کے آلۂ کار کا کردار ادا کرر ہی ہے۔ ان کا مقدر ان چار مصیبتوں سے عبارت ہے: ذہنی غلامی، سیاسی محکومی، معاشی گرفت اور تہذیبی جال۔ یہ چوہری غلامی کی وہ لعنت ہے جس کے خلاف عرب اور بیش تر اسلامی دنیا کے عوام آج نبردآزما ہیں۔ تیونس ہویا مصر، لیبیا ہویا مراکش، اُردن ہویا شام، بنگلہ دیش ہو یا پاکستان، ہمارا اصل مسئلہ ہی عالمی سامراجی قوتوں اور مقامی اشرافیہ کے آمرانہ نظام کا گٹھ جوڑ ہے، اور تیونس میں رونما ہونے والی انقلابی تحریک نے ایک بار پھر اس بنیادی حقیقت کو مرکز توجہ بنادیا ہے۔ لندن کے اخبار دی گارڈین کی ایک تازہ اشاعت میں تیونس کے ایک دانش ور ہشام مطار نے پورے عالمِ عرب کے دل کی کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے:
میری پیدایش سے بھی پہلے ہم عرب، دو طاقتوں کی گرفت میں ہیں جو بظاہر ناقابلِ شکست ہیں۔ ایک ہمارے بے رحم آمر جو ہم پر جبر کرتے ہیں اور ہماری تحقیر کرتے ہیں، اور دوسرے مغربی طاقتیں، جو یہ پسند کرتی ہیں کہ ہم پر ان کے وفادار مجرم حکومت کریں، بجاے اس کے وہ منتخب راہنما جو ہمارے سامنے جواب دہ ہوں۔ ہم اس تاریک انجام کی طرف بڑھتے رہے کہ ہم ہمیشہ ان درندوں کی گرفت میں رہیں گے۔ تیونس کے عوام نے ہمیں تباہی کے گڑھے کے کنارے سے پیچھے کھینچ لیا ہے۔
تیونس، عالمِ عرب اور مسلم دنیا کے کرب ناک حالات میں تیونس کے ’انقلابِ یاسمین‘ کا یہی وہ پیغام ہے جس کا ادراک ضروری ہے اور جس کی وجہ سے امریکا اور یورپ کے ساتھ خود عرب اور اسلامی دنیا کے حکمرانوں کے ایوانوں میں ایک زلزلہ سا آگیا ہے اور ہر طرف کہرام مچا ہوا ہے۔ ہم نہایت اختصار سے تبدیلی کے اس منظرنامے کے چند پہلوئوں کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں:
۱- سب سے پہلی بات مسئلے کی اصل نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ آج ہم جس مصیبت میں مبتلا ہیں اس کی جڑ وہ بگاڑ ہے جس نے آزادی کے بعد تیونس ہی نہیں، بیش تر مسلم ممالک پر تسلط حاصل کرلیا ہے اور وہ ہے دہری غلامی جس کی ایک مثال تیونس ہے، یعنی:
(ا) مغربی استعماری اقوام کی ہمارے سیاسی، معاشی، قانونی اور تہذیبی نظام پر گرفت اور جدیدیت، سیکولرزم، معاشی ترقی، روشن خیالی ، آزاد روی (لبرلزم)، مارکیٹ اکانومی اور نام نہاد عالم گیریت کے حسین عنوانوں کے ذریعے ہمارے فکرونظر، ہمارے میڈیا، ہماری تعلیم، ہمارا نظامِ حکومت اور ہماری معیشت کو اپنی گرفت میں لانا اوراپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا۔
(ب) اس نوسامراجی انتظام میں خود ہمارے اپنے ملک کے بااثر عناصر اور اشرافیہ کو آلۂ کار بنانا خواہ ان کا تعلق سول قیادت سے ہو یا فوج اور بیوروکریسی کے افراد ہوں یا ادارے، خصوصیت سے این جی اوز۔ جمہوریت، معاشی امداد اور عالم گیریت وہ خوش نما عنوان ہیں، جن کے تحت مغرب کے ایجنڈے پر مقامی کارندے یہ کھیل کھیلتے ہیں، اپنی قوم اور اس کے وسائل کو بری طرح لوٹتے ہیں تاکہ جب بھی ان کا پردہ چاک ہو تو اپنی محفوظ پناہ گاہوں کا رُخ کرلیں۔ فسطائی نظام اور بدعنوانی پر مبنی اس انتظام کا لازمی حصہ ہیں۔ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اس لیے بھی کہ مسلمان اُمت کی روح میں اس کا دین و ایمان رچے بسے ہیں، صرف جبرواستبداد ہی وہ طریقہ ہے جس سے ان پر ان کے دین، ان کی اخلاقی اقدار اور ان کی تہذیبی روایات سے متصادم کوئی نظام مسلط کیا جاسکتا ہے۔ حقیقی جمہوریت کا نفاذ و ترویج (democratization) اور اسلامائزیشن ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں اور مغرب کے ایجنڈے کا فروغ ممکن ہی ہے صرف ایک آمرانہ نظام اور فسطائی قیادت کے ذریعے۔ جگرمرادآبادی نے اس طرف اشارہ کیا تھا جب انھوں نے کہا ؎
جمہوریت کا نام ہے، جمہوریت کہاں
فسطائیت حقیقت عریاں ہے آج کل
مسلم ممالک میں آمرانہ حکمرانی (autocratic rule) اور من مانی اور استبدادی قوت (arbitrary power)کا نظام اور قیادتوں کا اپنے شخصی مفادات کے حصول کے لیے مغربی اقوام، ان کے مقاصد، تہذیب اور مفادات کا خادم ہونا ایک دوسرے سے مربوط اور لازم و ملزوم ہیں اور جس تبدیلی اور انقلاب کے لیے مسلمان عوام بے چین اور مضطرب ہیں، وہ ان دونوں مصیبتوں سے نجات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کا ہدف چہرے بدلنا نہیں ہے، اس پورے انتظام اور دروبست کو تبدیل کرنا ہے، اور انقلاب اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک اس اصل مسئلے کا حل نہ تلاش کرلیا جائے۔
تیونس میں انقلاب کی ابھی ابتدا ہوئی ہے اور مغربی اقوام اور مقامی مفاد پرست عناصر کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ چند نمایشی تبدیلیاں کرکے پرانے نظام کے لیے نئی زندگی حاصل کرنے کی کوشش کریں، اور جب تک اس خطرے کا سدباب نہ کرلیا جائے انقلاب نامکمل ہوگا اور تبدیلی کا عمل پٹڑی سے اُتر سکتا ہے جس کی پیش بندی ضروری ہے۔
۲- دوسری بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ مغربی اقوام کا مقصد اپنے مفادات اور اہداف کا حصول ہے، جن کی خاطر وہ بڑی سے بڑی قلابازی کھا سکتے ہیں۔ تیونس میں حبیب بورقیبہ جب تک ان کے مقاصد کی خدمت کرتا رہا، وہ ان کا پسندیدہ شخص تھا، لیکن انھوں نے دیکھا کہ اس کی گرفت کمزور ہونے لگی ہے تو اپنا دوسرا مہرہ زین العابدین بن علی کی شکل میں آگے بڑھا دیا۔ وہ بورقیبہ کا قریبی ساتھی اور خفیہ سروس کا سربراہ تھا۔ اس طرح ایک غیرخونیں انقلاب کے ذریعے اس نئے مہرے کو ملک کی کمانڈ کے مقام پر لے آئے اور بورقیبہ کو ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا۔ پھر بن علی نے ۲۳سال تک ان کے مقاصد کے حصول میں اپنا کردار ادا کیا اوراس دور میں اس کی تمام بدعنوانیاں، عوام دشمنیاں اور حقوق کی پامالیاں ان کو نظر نہ آئیں، حتیٰ کہ جب دسمبر۲۰۱۰ء میں احتجاجی لہریں بڑھیں تو فرانس کے وزیرداخلہ نے فرانس سے فسادات کو روکنے اور ہنگاموں کو فرو کرنے کے لیے خصوصی تربیت یافتہ پولیس (Riot Police) تک بھیجنے کی بات کی، لیکن جب بن علی کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی تو فرانس کے صدر سرکوزی نے پناہ تک دینے سے معذرت کرلی، بالکل اسی طرح جس طرح اس سے پہلے شاہِ ایران کو امریکا نے پناہ دینے سے انکار کیا تھا۔ جس دوستی کی بنیاد مفاد پر ہوتی ہے اس کا انجام اس سے مختلف ہو نہیں سکتا، لیکن اقتدار کے نشے میں مست کتنے ہی حکمران ہیں جو اپنے سامنے کی ایسی بات کا بھی ادراک نہیں رکھتے، فاعتبروا یااولی الابصار۔
۳- مغربی اقوام اور مقامی حکمران دونوں ہی ایک اور بھی کھیل کھیل رہے ہیں جس کا مظہر یہ حکمت عملی ہے کہ ایک قوم کے ایمان، اس کے نظریاتی عزائم اور تہذیبی تمنائوں کو محض مادی ترقی، مال و متاع کی خیرات اور ترغیب و ترہیب کے ہتھکنڈوں سے ہمیشہ کے لیے اپنے قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ توقع انسانی فطرت کے خلاف ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ایسی حکمت عملی بالآخر ناکام ہوتی ہے۔ لیکن ہردور کے ظالم اور جابر حکمران اس تاریخی حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں۔ تیونس کے حالیہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ حکمت عملی تارِ عنکبوت کے مانند ہے، لیکن کم لوگ ہیں جو ایسے واقعات سے سبق لیتے ہیں۔ زین العابدین بن علی کو اپنی فوج اور سوا کروڑ کے اس ملک میں ایک لاکھ ۳۰ہزار امریکا کی تربیت یافتہ مسلح پولیس فورس اور میڈیا اور معلومات کے تمام ذرائع پر سرکاری کنٹرول کے زعم میں کسی عوامی ردعمل کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن بظاہر بے بس انسانوں کی اس بستی میں اندر ہی اندر جو لاوا پک رہا تھا اس کا کسی کو ادراک نہ تھا۔ مگر راکھ کے ڈھیر سے پھر ایک ایسی چنگاری نکل آئی جس نے پورے ملک میں مزاحمت اور بغاوت کی آگ بھڑکا د ی۔
ایک مشہور عرب صحافی اور دانش ور رامی جی خوری (Rami G. Khouri) نے اس طرف متوجہ کیا ہے جب وہ کہتا ہے: ’’کس طرح بن علی کی پولیس اسٹیٹ کو جب دیرپا عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو تیزی سے بکھر کر رہ گئی‘‘۔ (ہیرالڈ ٹریبون، ۲۲ جنوری ۲۰۱۱ء)
صرف پولیس اسٹیٹ ہی کے پاے چوبیں نہیں، مغربی اقوام کی پوری حکمت عملی ہی کسی حقیقی اور مضبوط بنیاد سے عاری ہے، چنانچہ حقیقی عوامی ردعمل کے آگے اس کی ناکامی ایک تاریخی حقیقت ہے۔
۴- تیونس کے حالیہ واقعات نے مسلمان ممالک میں سیکولرزم، سرمایہ داری اور مغربیت کی ہر طرح سے ترویج اور اسلامی لہر کو ’دہشت گردی‘ کے نام پر قوت کے ذریعے روکنے کی حکمت عملی کی ناکامی کے بارے میں غوروفکر کے لیے نئے زاویے فراہم کیے ہیں۔ تیونس میں یہ تجربہ فرانسیسی سامراجی اقتدار کے ۸۰سال اور بورقیبہ، بن علی ٹولے کے تسلط کے ۵۵سال سے جاری ہے لیکن تیونس کے عوام کے حصے میں اپنے دین اور تہذیب سے دُوری کے ساتھ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، قرضوں کی لعنت اور آزادی اور عزتِ نفس سے محرومی ہی کی سوغات آئی ہے۔ ۱۵ سے ۲۵ سال کے نوجوان جو آبادی کا ۲۵فی صد ہیں، ان میں بے روزگاری کا تناسب ۳۰ فی صد سے متجاوز ہے۔ مارکیٹ اکانومی جسے معاشی ترقی اور خوش حالی کا مجرب نسخہ قرار دیا جاتا ہے، وہ مریض کو اور بھی محرومیوں کا شکار کرنے کا باعث ہوا ہے۔ سیکولر قیادت نے استبدادی نظام کے ساتھ معاشی استحصال، دولت کی ظالمانہ حد تک غیرمنصفانہ تقسیم اور اس کے نتیجے میں اقتصادی ناہمواریوں اور ملک و ملّت کی بیرونی دنیا پر محتاجی کے تحائف عطا کیے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو انقلاب کو جنم دیتے ہیں۔ جب قوم کروٹ لیتی ہے تو پھر بڑے سے بڑے آمر کے پائوں اُکھڑ جاتے ہیں۔ تیونس کی انقلابی رَو کا یہ پیغام دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کے لیے ہے۔ یہ دوسرے ممالک کے مصیبت زدہ عوام کے لیے نئی زندگی کا پیغام اورغاصب حکمرانوں اور ان کے مغربی آقائوں کے لیے بھی ایک ’صداے ہوش‘ (wake up call) کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح قدرت کا قانون ہے کہ رات کے بعد صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے، اسی طرح ظلم کی رات بھی جو چھوٹی یا لمبی تو ہوسکتی ہے مگر ہمیشہ کے لیے سورج کی روشنی کا راستہ نہیں روک سکتی:
یوں اہلِ توکّل کی بسر ہوتی ہے
ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے
ایک قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جس طرح پہاڑوں کی سنگلاخ زمین پر پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے اسی طرح انسانی تخیل، اُپج اور سوچ بچار کی صلاحیت ہزاروں دروازوں کو کھولنے کی صلاحیت پیدا کرلیتی ہے۔ تیونس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر حکومت کا عملی تسلط تھا۔ مسجد ومنبر پر حکومتی فکر کی حکمرانی تھی، لیکن موبائل فون، انٹرنیٹ اور فیس بک کی اعانات، جنھیں آبادی کا ۱۸ فی صد استعمال کررہا ہے، مزاحمت کی تحریک کو منظم اور مربوط اور مؤثر ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
بلاشبہہ آج کے پاکستان کے حالات تیونس کے حالات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ یہاں بھی امریکا کی گرفت ہماری قیادت، ہماری پالیسیوں اور ہمارے سیاسی اور معاشی نظام پر اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب ملک کی آزادی ایک نمایشی شے بنتی جارہی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جس طرح امریکا کے مطالبات کے آگے سپر ڈالی گئی اور زرداری گیلانی حکومت نے اس غلامانہ پالیسی کو اور بھی وفاداری کے ساتھ آگے بڑھایا ہے، اس کے نتیجے میں قومی عزت اور غیرت کا تو خون ہوا ہی ہے، اور ملک کی آزادی بُری طرح مجروح ہوئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ملک کا امن و امان تہ و بالا ہوگیا ہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے، فوج اور عوام میں تصادم اور ٹکرائو بڑھ رہا ہے، ’دہشت گردی‘ کا دائرہ وسیع تر ہورہا ہے، امریکی ڈرون حملے اور ان کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معصوم انسان شہید اور وسیع وعریض علاقے تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ معیشت کا یہ حال ہے کہ صرف اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے ۵۰ سے ۱۰۰ ارب ڈالر تک کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اور اشیاے ضرورت کی قلّت نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس کے ساتھ حکمرانوں کی عیاشیاں، بدعنوانیاں روز افزوں ہیں اور ہر طرف بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ قیادت کے ایک اہم حصے کے مفادات اور اثاثے ملک سے باہر ہیں اور ان کو اپنے اقتدار کے لیے ہی نہیں اب تو ذاتی حفاظت کے لیے بھی بیرونی قوتوں کا سہارا درکار ہے۔ ملک میں حکمرانی کا عمل مفقود ہورہا ہے اور مفادات کی پرستش کا بازار گرم ہے۔ حکمرانی اور معیشت کی حالت یہ ہے کہ ؎
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
کیا ہماری قیادت تیونس کے ’انقلابِ یاسمین‘ سے کوئی سبق لینے کے لیے تیار ہے یا اس لمحے کا انتظار کر رہی ہے، جب:
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا