شاید تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلمانوں کے تمام بڑے بڑے فرقوں کے اکابر علما نے بالاتفاق وہ اصول مرتب کیے ہیں جن پر قرآن و سنت کے منشا کے مطابق ایک اسلامی ریاست کی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے اشخاص اور افراد متفرق طور پر تو بارہا ان مسائل کے متعلق اپنی تحقیقات بیان کر رہے ہیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایک مجلس میں بیٹھ کر مختلف عقائد و مسالک کے نمایندہ علما نے خالص علمی بحث و تحقیق کے بعد اسلامی مملکت کے تصور اور اس کے بنیادی اصولوں کے متعلق اس قدر واضح اور مستند بیان تیار کیا ہو۔ یہ ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے جس کی نظیر اب تک کی اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی اور توقع کی جاسکتی ہے کہ ان شاء اللہ ہماری آیندہ تاریخ کی تشکیل میں اس کا حصہ نہایت اہم ہوگا۔ اب کسی کے لیے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ مسلمان جیسی کچھ بھی حکومت بنابیٹھیں وہ ’اسلامی حکومت‘ ہے۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلام ایک دین کی حیثیت سے ریاست اور سیاست کے لیے اپنے کچھ مخصوص اصول رکھتا ہی نہیں ہے۔ اب کسی کے لیے یہ موقع باقی نہیں رہا ہے کہ اپنے خودساختہ بنیادی اصولوں اور دستوری خاکوں پر ’اسلامی‘ لیبل لگا کر جعلی نوٹوں کی طرح انھیں بازار میں چلا سکے۔ اب یہ دعویٰ کرنے کی بھی گنجایش نہیں ہے کہ مسلمان فرقوں کے مذہبی نزاعات ایک اسلامی حکومت کے قیام میں مانع ہیں۔ اب اس جاہلانہ بدگمانی کے فروغ پانے کا بھی امکان نہیں رہا ہے کہ دورِجدید میں ایک ترقی پذیر ریاست کے لیے اسلام کے اصولِ سیاست موزوں نہیں ہیں۔ اب یہ جھوٹ بھی نہیں چل سکتا کہ ایک اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ علماے پاکستان کے مستند اور متفق علیہ بیان نے ان تمام غلط فہمیوں کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسا چارٹر ہے جو خدا کے فضل سے صرف پاکستان ہی کی حکومت کا سنگِ بنیاد ثابت نہ ہوگا، بلکہ دوسرے مسلمان ملکوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بنے گا۔ جن مسلمان ملکوں میں اس وقت تک لادینی ریاستوں کی نقل اُتاری جارہی ہے، وہ سب ان شاء اللہ اس چارٹر سے ہدایت پائیں گے۔(’اسلامی مملکت کے بنیادی اصول‘، ترجمان القرآن، جلد۳۵، عدد ۴، ربیع الاول، ربیع الآخر، ۱۳۷۰ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء، ص ۵۷-۵۸)