۲۰۱۱ فروری

فہرست مضامین

کتاب نما

| ۲۰۱۱ فروری | کتاب نما

Responsive image Responsive image

برصغیر میں مطالعہ قرآن، (بعض علما کی تفسیری کاوشوں کا جائزہ)، محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: اسلامک بُک ہائوس، ۱۷۸۱ حوض سوئی والان، نئی دہلی،بھارت۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

قرآن کریم کا مطالعہ فرض ہے اور خوش بختی بھی۔ جن لوگوں نے اس پیغامِ ربانی کی تعلیم اور لوگوں کو اس سے وابستہ کرنے کے لیے کوششیں کیں، ان کے احسان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دنیا کے ہرخطے اور ہر زمانے میں یہ خدمت انجام دینے والے فرزانے اپنا فرض ادا کرتے رہے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس نے برعظیم پاک و ہند میں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں ہونے والی خدمت ِ قرآنی کے چند مرکزی دھاروں کو اپنی توجہ کا موضوع بنایا ہے۔

جناب رضی الاسلام نہ صرف ایک محقق اور دینی امور پر غوروفکر کرنے والے ہیں بلکہ اپنے نتائج فکر کو خوب صورتی سے بیان کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اُن کی فکرمندی اور تدبر کا محور ہے۔ کتاب چار حصوں میں تقسیم ہے۔

پہلے باب میں سرسیداحمد خاں کی تفسیر پر تنقید اور محاکمے کے ساتھ اس چیز کا تعین بھی کیا گیا ہے کہ خود یہ تفسیر مابعد تفاسیر پر کس پہلو سے اثرانداز ہوئی۔ دوسرے باب میں ایک مقالہ اس حوالے سے معلومات افزا ہے کہ خود یہاں بیسویں صدی میں عربی میں کس قدر تفسیری کام ہوا۔ مصنف کے مطابق بیسویں صدی میں پہلی مکمل عربی تفسیر مولانا ثنا اللہ امرتسری (م:۱۹۴۸ء) نے لکھی، اور مولانا سید سلیمان ندوی نے اس کے بارے میں فرمایا: ’’جلالین کی جگہ اس تفسیر کو رواج دیا جائے‘‘ (ص ۳۸)۔ ’’ازاں بعد مولانا حمیدالدین فراہی (م: ۱۹۳۰ء) نے عربی تفسیر میں نمایاں کام کیا، جو جامعیت، زورِ بیان اور قوتِ استدلال میں اپنا ہم سر نہیں رکھتا (ص۴۰)‘‘۔ اسی طرح  مولانا اشرف علی تھانوی (م: ۱۹۴۳ء) نے قابلِ ذکر حواشی لکھے۔ اس مقالے میں برعظیم کے عربی میں تفسیری ادب کا تعارف کرایا گیا ہے اور حروفِ مقطعات پر معلومات افزا بحث کی گئی ہے۔

تیسرے باب میں سید سلیمان ندوی کی خدمتِ قرآن کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’قرآنیات میں ان کی خدمات سیرت اور تاریخ کے مقابلے میں کسی طرح بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہیں، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ان کا خاص میدان قرآنیات کا ہے‘‘ (ص ۷۱)۔     پھر ان کی لفظی تحقیق کی دل چسپ مثالیں پیش کی ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی (م: ۱۹۹۷ء)  کے کلامِ عرب سے استشہاد اور لغوی تجزیے پر قیمتی مباحث اور حوالوں سے روشنی ڈالی ہے۔    مولانا سیدابوالحسن علی ندوی (م: ۱۹۹۹ء) کی قرآنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ:  ’’وہ الفاظِ قرآنی کی لغوی و لسانی تشریح کر کے قرآن کا اعجاز آشکارا کرتے ہیں--- کاش! انھوں نے پورے قرآن کی تفسیر لکھی ہوتی‘‘۔ (ص ۱۴۴)

آگے چل کر مولانا صدر الدین اصلاحی کی قرآنی خدمات پر سیرحاصل معلومات دی ہیں، جن سے عام طور پر لوگ ناواقف ہیں، اور یہ تفصیلات تجزیاتی اعتبار سے نہایت قیمتی ہیں۔ یاد رہے کہ مولانا صدر الدین اصلاحی نے تفسیر تیسیرالقرآن لکھی اور تفہیم القرآن کی تلخیص مرتب کی۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’مولانا مودودیؒ نے قرآن مجید کا جو ترجمہ مختصر حواشی کے ساتھ شائع کیا، اس کے حواشی اگرچہ تفہیم القرآن ہی کے حواشی کا اختصار ہیں، لیکن انھوں نے کچھ حواشی بالکل نئے سرے سے بھی لکھے ہیں۔ اسی طرح ترجمہ اگرچہ تفہیم القرآن ہی کا دیا گیا ہے، مگر اس میں کہیں کہیں مولانا مودودی نے چھوٹی موٹی لفظی ترمیمیں کی ہیں‘‘۔ (ص ۱۸۳)

چوتھے باب میں قرآنی علوم اور موضوعات پر وہ ۳۲ تبصرے پیش کیے ہیں ، جنھیں فاضل مصنف نے بڑی دیدہ ریزی سے تحریر کیا ہے۔ یہ حصہ اس اعتبار سے ایک قیمتی دستاویز ہے جس میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدمتِ قرآن کے باب میں کن عشاق نے کس پہلو اور کس ندرت کے ساتھ اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ جناب رضی الاسلام کی اس کتاب کے مطالعے میں موضوع پر ان کی جانب سے کسی رورعایت کا شائبہ نہیں ملتا ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ وہ ہر لفظ کو گہری فکر کے ساتھ لکھ رہے ہیں، اور ایسا کیوں نہ ہو؟ کلامِ ربانی کی پیش کاری کا مقدمہ ہے۔ (سلیم منصور خالد)


The Muslim Delusion: Islam between Orthodoxy and Enlightenment [مسلم فریب خیالی: اسلام، قدامت پرستی اورروشن خیالی کے درمیان] ، ڈاکٹر اقبال سید حسین۔ ناشر: ہائر ایجوکیشن کمیشن،  اسلام آباد۔ اشاعت: ۲۰۱۰ء۔ صفحات: ۱۴۴۔قیمت: ۵۰۰ روپے۔

کسی ملک کے شہریوں خصوصاً نوجوانوں کی تعلیم و تربیت، حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستانی حکومت اور اس کے ذیلی ادارے اس ذمہ داری کو کس خوبی اور تندہی سے ادا کررہے ہیں، اس کی ایک مثال یہ تصنیف ہے۔ نصابِ تعلیم میں اسلام کے اساسی تصورات کی کتربیونت،   جہاد کا اخراج، ’روشن خیالی‘ اور ’آزاد رَوی‘ کا بگھار اور ’جدیدیت کی چاشنی‘ تو نئی درسی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ گریجویشن کی سطح پر ’مطالعۂ پاکستان‘ کے ذریعے بعض اداروں سے اسلامیات کے مضمون کا تقریباً اخراج اس کے مظاہر ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے ابتدائی مدارس سے لے کر جامعات تک میں نئی نسل کی ’آب یاری‘ کس تندہی سے کی جارہی ہے، یہ سنجیدہ تحقیق کے لیے ایک دل چسپ اور چشم کشا موضوع ہوسکتا ہے۔

اسلام، قدامت پسندی، جہاد اور دہشت گردی وہ عنوان ہیں جن پر سماجیات کے علما سے عامی تک سبھی زور شور سے گفتگو کرر ہے ہیں۔ پاکستان میں دوسرے سرکاری اداروں کی طرح    اعلیٰ تعلیم کی نگہباں مقتدرہ (ہائر ایجوکیشن کمیشن: HEC) بھی ’دہشت گردی کو جنم دینے والی قدامت پسندی‘ کے خلاف اس ’مقدس جنگ‘ کی حامی ہے۔

مصنف کہتے ہیں: ’’ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں، مگرتعجب ہے کہ مسلمان ابھی تک دیومالائی داستانوں (myths)، عقیدوں (dogmas) اور شدت پسندی (orthodoxy) اور قدامت پسندی (conservatism) کی بھول بھلیوں کے اسیر ہیں اور اپنی فہم وفراست کوترقی دینے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے‘‘ (ص۱۷)۔ مصنف کے نزدیک   حالیہ دور میں روشن خیال اور ترقی پسند حلقوں کی طرف سے معاشرے کو راہ پر ڈالنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں، ’نظریاتی اسٹیبلشمنٹ‘ اور ’مذہبی قدامت پسندی‘ کی طرف سے اس کی سخت مزاحمت کی جارہی ہے۔

مصنف بجا طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے پرانے قبائلی نظام کی جگہ عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کی پاس داری کرنے والا ایک روشن خیال نظامِ حیات پیش کیا جس نے قدیم دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا، اور ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور ثمرآور معاشرے کی راہ ہموار کی تھی، مگر آج مسلم دنیا میں عقیدہ پرستی، اور عدم برداشت کا دور دورہ ہے (ص ۲۲)۔ اُن کے خیال میں ’ترقی‘ ایک سیکولر یا غیر مذہبی تصورہے، جو قرونِ وسطیٰ کی اُس فکر سے مطابقت نہیں رکھتا، جس میں ہم ڈوبے ہوئے ہیں (ص ۲۶)۔ وہ کہتے ہیں کہ ۱۴ صدیاں بیت گئیں لیکن آج بھی مسلمان جدید فکر سے اُسی طرح دُور ہیں، جیسے قرونِ اولیٰ کے غاروں میں بسنے والے (ص ۲۹)۔ دینی مدارس، محبت اور بصیرت سے عاری ہیں (ص ۳۶)۔ روشن خیالی جو مسلمانوں کا ورثہ تھی، مُلّاوں کے تاریک حجروں میں تحقیر اور استہزا کا نشانہ بنی ہوئی ہے… جب کہ جدیدیت میں حُسن و آہنگ کی تمام انسانی جہات کا فروغ ہے(ص ۳۹)۔ اُن کے نزدیک سائنس اور صنعتی انقلاب نے روشن خیالی کے لیے جو راہ ہموار کی ہے، اس نے انسانی تہذیب کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا ہے مگر مسلمان ترقی کے اس تصور سے بے بہرہ ہیں۔ (ص ۴۰)

مصنف ایک طرف تو مغربی مصنفین کے حوالے سے یہ دکھاتے ہیں کہ عرب، شرقِ اوسط اور ہسپانیہ کے مسلم علما اور سائنس دانوں کی فکر و تحقیق سے یورپ میں علم کی شمع روشن ہوئی، جن میں جابر بن حیان سے لے کر ابن سینا کے نام آتے ہیں، اور اسلامی فکر کو نکھارنے میں غزالی اور شیخ احمد سرہندی سے لے کر مولانا مودودی (پندرھویں صدی ہجری) تک کا حصہ ہے (ص۵۴-۵۵)۔ ’’تاہم آج کے مسلمان فکری بلوغ سے محروم ہیں… وہ غیرصحت مند اور غیراخلاقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں… بددیانتی، کرپشن، دھوکے بازی، ان کے کردار کی صورت گری کرتے ہیں (ص۱۲۰)۔ انھوں نے خیال کرلیا ہے کہ سائنس، مذہب کے خلاف ہے، اور اس طرح کی کہانیوں پر یقین کرلیا ہے جو بتاتی ہیں کہ دنیا ایک بَیل کے سینگوں پر کھڑی ہے‘‘ (ص ۱۲۲)۔ ’’مسلمان اگرچہ قرآن اور نبی [صلی اللہ علیہ وسلم] کی روایات پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن اپنی زندگی میں اُن اصولوں کو نافذ نہیں کرتے… یوں مُلّا کی قدامت پرستی، انسانی فکر اور حیات کے اعلیٰ مقاصد کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہے‘‘ (ص۱۲۴)۔ مصنف بار بار اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کی طرف رجوع کو ترک کردیا ہے،اس لیے وہ آج کے معاشرے کو پیش آمدہ چیلنج کا جواب نہیں دے سکتے (ص ۱۲۶)۔ قرآنی احکام کو چھوڑ کر وہ خود پرست مُلّائوں کے دکھائے ہوئے خوابوں اور داستانوں میں کھوئے ہوئے ہیں، جن کے خیالات سے ذرا سی رُوگردانی اسلام سے انحراف اور کفر کے فتوے کی طرف لے جاتی ہے (ص ۱۲۶)۔ ان قدامت پسندوں کا خیال ہے  کہ ساری دنیا ان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ اسی ذہنیت سے وہ جہادی کلچر اور  دہشت گردی وجود میں آتی ہے، جس کا ظہور امریکا کے ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور خودکش حملوں میں ہوتا ہے۔ (ص ۱۳۲-۱۳۳)

اس میں شک نہیں کہ آج کے بیش تر ممالک میں بحیثیت مجموعی مسلم معاشرہ ہماری اصل اسلامی روایات اور اقدار سے بہت دُور جاچکا ہے، لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں اس کی وجہ مذہب سے لگائو نہیں، بلکہ اس سے دُوری اور وہ نام نہاد’روشن خیالی‘ ہے، جس نے انسان کو ایک ’جبلّی حیوان‘ بنادیا ہے۔ ہمارے روایتی مدارس اور علما اگرچہ عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم انھوں نے اس اسلامی ورثے کو محفوظ رکھنے میں ایک کردار ضرور ادا کیا ہے، جو اگر ضائع ہوجاتا، تو مستقبل میں کوئی نشاتِ ثانیہ بھی ممکن نہ ہوتی۔ دینی اور غیرمذہبی دونوں طرح کے تعلیمی ادارے،  قومی تشخص کو بحال کرنے اور روحانی اور مادّی اقدار کو ہم آہنگ کرکے ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ دردمند اصحاب کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ ہماری پستی اور زوال کے لیے یک طرفہ طور پر دینی مدارس اور ’مُلّائوں‘ کو موردِ الزام قرار دینا، مصنف کی ناانصافی ہے، کیوں کہ زمامِ کار جس مقتدرہ کے ہاتھ میں ہے وہ مذہبی نہیں بلکہ سیکولر ہے۔ بیش تر مسلم ملکوں میں پالیسی ساز ادارے ’جدید تعلیم یافتہ‘ غیرمذہبی اربابِ کار کے قبضے میں ہیں۔ اس لیے صرف دینی طبقات کو اس افسوس ناک صورتِ حال کا ذمہ دار کہنا درست نہ ہوگا۔

اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں اس کتاب کو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے باقاعدہ نصابی و درسی کتب تو قرار نہیں دیا ہے لیکن گریجویشن کے تمام طلبہ کے لیے اس کے مطالعہ کی سفارش کی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کمیشن اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کرکے نئی نسل کی تعمیر   کس رُخ پر کرنا چاہتا ہے۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


پچپن سالہ مراسلت کے چند نقوش، نعیم صدیقی، مقبول الٰہی ۔ ناشر: الفیصل ناشران کتب، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۰۷۷۷۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

مولانا مودودیؒ نے دعوتِ دین کے لیے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو پکارا تو اگرچہ ان کی پکار پر لبیک کہنے والی سعید روحیں گنتی میں کم تھیں، مگر یہ سب ایمان، جذبے اور فکرودانش سے سرشار تھیں۔ انھی حضرات میں ایک نمایاں نام جناب نعیم صدیقی کا ہے، جن کی ساری زندگی ہم سفری میں گزری، پھر وہ ۲۵ ستمبر ۲۰۰۲ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ وہ بیک وقت ایک دانش ور، منصوبہ ساز اور شاعر و ادیب بھی تھے اور ایک مربی و استاد بھی۔

یہ کتاب اُنھی کے نقوشِ فکر کا ایک جان دار حوالہ ہے، جو جناب مقبول الٰہی اور نعیم صدیقی مرحوم کے مابین خط کتابت پر مشتمل ہے۔ مقبول الٰہی سول سروس کے اُن گنے چُنے افسران میں سے ہیں جنھوں نے سرکاری مصروفیات کے باوجود قلم و قرطاس سے رشتہ برقرار رکھا۔ اُردو اور انگریزی کے ساتھ عربی اور فارسی پر دسترس رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کی متعدد کتابوں کے مترجم بھی ہیں۔   علم و ادب اور فکرودانش نعیم صاحب سے ان کی دوستی کا سب سے اہم حوالہ ہے۔کہنے کو تو یہ خطوط ہیں، مگر حقیقت ہے کہ ان خطوط کا دامن فکرودانش اور احساس کے موتیوں سے معمور دکھائی دیتا ہے۔ عام لوگ خطوط کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہیں، حالانکہ خطوں پر مشتمل ان اکثروبیشتر چھوٹے چھوٹے ادب پاروں میں مشاہدے کا نچوڑ اور علم کا عطر سمٹ کر آجاتا ہے (افسوس کہ آیندہ نسلیں خط نویسی کی اس نعمت سے محروم رہ جائیں گی کہ برقی ڈاک [ای میل] اور برقی پیغامات [ایس ایم ایس]نے اس صنفِ ادب و علم کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے)۔

نعیم صدیقی کے خطوں کے بعض حصے دعوتِ فکر دیتے ہیں، مثلاً: ’’عقائد اسلامی اگر موجود ہوں گے تو ان کا نیچرل اثر انسان کی عملی زندگی میں ضرور ظاہر ہوگا، اور اگر یہ اثر نمودار نہ ہو رہا ہو تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان عقائد میں کوئی ایسی تبدیلی یا ایسا ضعف آگیا ہے، یا ان کے ساتھ ایسے اضداد جمع ہوگئے ہیں، یا ان کا شعور اتنا مُردہ ہوگیا ہے کہ ان سے ان کے اثرات ظاہر نہیں ہورہے… اب یہ ہرآدمی کا اپنا کام ہے کہ وہ قرآن کھول کر دیکھ لے کہ ایمان، شرک، فسق، نفاق وغیرہ حالتوں میں سے کس حالت میں وہ مبتلا ہے، اور اللہ کے ہاں کس نوعیت کے لوگوں کے ساتھ اس کا شمار ہوگا‘‘ (ص۱۷)۔ ان سطور میں خود احتسابی کا معیاری اور آسان پیمانہ ہر کلمہ گو کو فراہم کردیا گیا ہے۔

آشوبِ عصر کو وہ ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں: ’’شرافت، دین داری اور تقویٰ کے لبادوں میں نفسانیت کے دیووں اور پریوں کو رقصاں دیکھا۔ مجھے اب اندازہ ہوا کہ ہمارا قحطِ انسانیت کتنی وسعتیںاختیار کرگیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ملک (اور پوری دنیا) کے دردناک اور خطرناک حالات ہیں۔ معلوم نہیں، کب کیا ہوجائے‘‘ (ص ۷۹)۔ پھر اپنے بارے میں لکھتے ہیں: ’’میں خود ’ٹاٹ سکول‘ کا تعلیم یافتہ ہوں‘‘( ص ۱۵۱)۔ ایک خط میں اپنے مخاطب سے کہتے ہیں: ’’صرف مشورہ دوں گا، استادی کا شوق ہے نہ صلاحیت، خود بہت غلطیاں کرتا ہوں‘‘ (ص۲۲)۔ اپنے رفقا کی صلاحیت کا اعتراف کرنے میں ان کا یہ جملہ دیکھیے: ’’رفیع الدین ہاشمی صاحب، اقبال اور اقبال سے متعلق شائع ہونے والے لٹریچر پر اتھارٹی ہیں‘‘۔ (ص ۹۴)

ان خطوط میں ہمیں غم روزگار کا ماتم نہیں بلکہ آشوبِ شہر کا نوحہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ جذبے کی آنچ کی میٹھی گرماہٹ اور مقصد سے بھرپور زندگی گزارنے والے فرد کی دلی کیفیات کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ درحقیقت یہ خطوط ایک طرح کی خود کلامی بھی ہیں اور دعوتِ فکر بھی۔ ہم سب جناب مقبول الٰہی کے شکریے کے مستحق ہیں کہ ان قیمتی خطوط کو محفوظ رکھا اور پیش فرمایا۔ (س- م - خ)


میری تحریکی یادداشتیں، چودھری محمد اسلم۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۳۴۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

اللہ کی راہ میں جدوجہد میں گزرنے والے تمام لمحے، سعادت کے لمحے ہیں، جن سے راہروانِ شوق جذبہ حاصل کرتے ہیں، جب کہ غیروابستگان کے ذہنوں میں ان لوگوں کو دیکھ کر تجسّس اور حیرت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی ایسے سعادت مند لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے معاشرے کے عقائد و افکار کے زنگ آلودہ قفل کھولے اور زندگی کو اسلام سے نسبت دینے کا پیغام عام کرنے کے لیے ذاتی آرام و آسایش کو تج دیا۔ ایسے ہی ایک فرد چودھری محمد اسلم ہیں، جنھوں نے کارزارِ حیات کی کچھ جھلکیوں کو زیرتبصرہ کتاب میں رقم کیا ہے۔

یہ کتاب تین دائروں کا احاطہ کرتی ہے: ذاتی مشاہدات و تجربات، ضلع گوجرانوالہ کے علاقے میں جماعت اسلامی کے کام کے پھیلائو کے خدوخال اور چیلنجوں کا ذکر اور پاکستان کی تاریخ کے کچھ ابواب پر اظہارخیال۔ پہلے دو امور پر تو ایک حد تک معلومات میں ندرت و دل چسپی کا عنصر موجود ہے، جب کہ تیسرے باب کے لیے الگ سے بحث کی جاتی تو اور زیادہ بہتر ہوتا۔ بہرحال اسی وسیلے کو استعمال کرتے ہوئے ملکِ عزیز کے دوسرے علاقوں سے بزرگ بھی اگر اپنی یادداشتیں قلم بند کرلیں تو یہ مفید مشق ثابت ہوسکتی ہے، کہ جس میں گئی رُتوں کی خوشبو سے فکروذہن کو معطر کیا جاسکتا ہے۔ (س- م - خ)


مسئلہ کشمیر کی نظریاتی اور آئینی بنیادیں، تحریکِ آزادیِ کشمیر اور کشمیری نیشنلزم، پروفیسر الیف الدین ترابی۔ ناشر: انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ،   آئی ٹین فور، اسلام آباد۔ صفحات (بالترتیب): ۳۲، ۶۰۔ قیمت: ۸۰ روپے، ۱۲۵ روپے۔

مسئلہ کشمیر، جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی مظلومانہ غلامی، بھارت کی مکارانہ ڈپلومیسی اور حکومت ِ پاکستان کی ایک قدم آگے دو قدم پیچھے پالیسی کا عنوان ہے۔ ڈوگرہ راج سے شروع اس المیے کا حل تو دُور کی بات ہے، ہر آنے والا دن ان سے نظرانداز کرنے کی سعی و نامسعود کا حوالہ بنتا ہے، مگر وہاں مسلمانوں میں آتشِ حریت تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ دو مختصر مگر جامع کتابیں، مسئلے کی نظریاتی، آئینی اور قومی شناخت کے معاملے کو زیربحث لاتی ہیں۔ محترم مؤلف نصف صدی سے اسی موضوع پر تحقیق و تصنیف سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے جامعیت کے ساتھ زیربحث موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ پاکستان کے اہلِ فکرونظر میں مسئلے کی اہمیت اور ان کی ذمہ داریوں کو اُجاگر کرنے کے لیے ان کتابچوں کا مطالعہ مفید ہوگا۔ (س- م - خ)