حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہؓ کے گھر میں اس لیے رات گزاری کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوں کہ کیسے قیام اللیل فرماتے ہیں۔ کہتے ہیں: آپؐ بیدار ہوئے، پیشاب کیا، پھر اپنے ہاتھوں اور چہرے کو دھویا، پھر سوگئے۔ اس کے بعد پھر کھڑے ہوئے، مشکیزہ کی طرف گئے، اسے کھولا۔ پھر اس سے پیالے میں پانی ڈالا، اور ہاتھ سے اس کو اس کے ڈھکن کے ساتھ بند کر دیا۔ پھر ہلکا پھلکا وضو کیا، درمیانہ وضو، اور نماز پڑھنے کھڑے ہوئے۔ پھر میں آیا اور آپؐ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا تو آپؐ نے مجھے دائیں طرف کھڑا کر دیا۔ پھر آپؐ نے ۱۳ رکعت نماز پڑھی، پھر سوگئے یہاں تک کہ آپؐ نے خراٹے لینا شروع کیے۔ ہم آپؐ کو آپؐ کے سونے کے خراٹوں سے پہچان لیتے تھے۔ پھر آپؐ نماز کے لیے نکلے، اور آپؐ نے نماز پڑھی۔ آپؐ اپنی نماز میں یا اپنے سجدے میں یوں دعا کر رہے تھے: اے اللہ! میرے دل میں نور ڈال دے، میرے کان میں نور ڈال دے، اور میری آنکھوں میں نور ڈال دے، اور میرے دائیں نور ڈال دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے آگے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے، میرے نیچے نور کردے، میرے اُوپر نور کردے اور مجھے نور کردے‘‘۔ (مسلم، حدیث ۷۶۳)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا۔ آپؐ نے نور کے دائرے میں زندگی بسر کی اور آپؐ نور ہی نور بن گئے۔ اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی ’نور‘ میں چھوڑ گئے، جو سارے عالم میں پھیلا اور پھیلتا ہی جارہا ہے۔ایک وقت آئے گا کہ تاریکی ساری دنیا سے چھٹ جائے گی، نور کا دور دورہ ہوگا اور اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں بلند ہوجائے گا۔ورفعنا لک ذکرک!
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ بلندمرتبہ فرشتے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے ذکر کی مجالس تلاش کرتے ہیں۔ پھر جب کوئی مجلسِ ذکر پا لیتے ہیں تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ جب مجلس ختم ہوجاتی ہے تو وہ آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں، درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں، تم لوگ کہاں سے آرہے ہو، تو وہ جواب دیتے ہیں: ہم تیرے ایسے بندوں کے پاس سے آرہے ہیں جو تیری تسبیح و تحمید کرتے ہیں، تکبیریں پڑھتے اور لا الٰہ الااللہ کہتے ہیں اور تجھ سے سوال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: وہ مجھ سے کیا سوال کرتے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ: تجھ سے تیری جنت کا سوال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: کیا انھوں نے میری جنت کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: آپ کی دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: کیا انھوں نے میری دوزخ کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: پھر ان کا کیا حال ہوگا اگر وہ میری آگ کو دیکھیں؟ وہ جواب دیتے ہیں: وہ آپ سے استغفار کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو بخش دیا اور ان کے سوال کو پورا کر دیا اور جس چیز سے پناہ مانگتے ہیں اس سے انھیں پناہ دے دی۔ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ان میں ایک خطاکار آدمی بھی ہے جوراہ گزر رہا تھا کہ ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اسے بھی بخش دیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہم نشین ناکام نہیں ہوتا۔ (مسلم، حدیث ۶۸۳۹)
اللہ کا ذکر کرنے والوں کا اتنا اُونچا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے ان کے فضائل کو بیان فرماتے ہیں، اور ان کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ ان کے ساتھ ان کے ہم نشین کی بھی بخشش ہوجاتی ہے۔ پس جو اللہ کے ہاں اپنا ذکر کرانا چاہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اس کی اطاعت و بندگی میں لگ جائیں۔ اس مقصد اور مشن میں لگ جائیں جس کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، جس طرح رسولؐ اللہ نے ذکر کیا اس طرح سے ذکر کریں۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کیا، اسے غالب کیا، اسے ریاست کا دین بنایا۔ یہ ذکر کامل ذکر ہے، جو اس کامل ذکر کو اپنی راہ بنائیں۔ اللہ کے ہاں ان کا ذکر شروع ہوجائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں میں شامل ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ذکر اور اطاعت کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی: ۱- جو کسی قوم کی امامت کے لیے آگے بڑھے درآں حالیکہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں، ۲-جو آدمی نماز کو بلاعذر قضا کرنے کے بعد پڑھے، ۳- تیسرا وہ شخص جو آزاد آدمی کو اپنا غلام بنا لے۔ (ابوداؤد، حدیث ۵۹۳)
آدمی کو چاہیے کہ کسی بھی ایسے کام سے پرہیز کرے جو اس کی نماز کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ ان تین برائیوں کو بطور مثال کے ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سی برائیوں کا بھی ذکر آیا ہے کہ ان کے مرتکب کی نماز قبول نہیں ہوتی، مثلاً شراب، جوابازی وغیرہ۔ اس لیے تمام برائیوں سے بچنا چاہیے تاکہ نماز کی قبولیت کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ نہ رہے، کیونکہ نماز تمام بے حیائیوں اور منکرات سے روکتی ہے (القرآن)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی نماز اسے بے حیائی اور برائی سے نہ روکے، اس کی نماز کوئی نماز نہیں ہے۔
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ دعائیں کیں۔ ہمیں ان میں سے کچھ بھی یاد نہ ہوسکا۔ اس صورت حال کی آپؐ سے شکایت کی۔ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں ایسی دعا نہ بتلائوں جس میں یہ ساری دعائیں جمع ہوجائیں؟ تم یوں دعا کرو:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرُ مَا سَأَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّعَا اسْتَعَاذ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ وَاَنْتَ الْمُسْتَعَانَ وَعَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ (ترمذی، حدیث ۳۵۲۱) اے اللہ! ہم آپ سے وہ تمام بھلائیاں مانگتے ہیں جو تجھ سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہیں، اور ان تمام برائیوں سے جن سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے، پناہ مانگتے ہیں۔ تُو ہی مددگار ہے، مرادوں تک پہنچانا بھی تجھ پر ہے اور کسی طرف پھرنا اور قوت نہیں مگراللہ کی مدد سے۔
کیسی جامع دعا ہے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کے ساتھ کیسا پیار ہے، اور آپؐ نے اُمت کے لیے کس قدر آسانیاں فراہم کر دی ہیں۔ یہ حدیث اس کا بہترین نمونہ ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ایک شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ایک کام کرتا ہے اور لوگ اس سے اس کام کی وجہ سے محبت کرتے ہیں، تو آپ ؐ نے فرمایا: یہ مومن کے لیے دنیا میں نقد بشارت ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۴۲۲۵)
جو لوگ نیکی اور بدی اور نیک و بد میں تمیز کا مادہ رکھتے ہیں وہ نیک لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلق قائم کرتے اور ان کے ساتھ ہمدردی و غم گساری کرتے ہیں۔ ان کی مدد کرتے اور ان سے مدد لیتے ہیں۔ ان کو دوسروں سے آگے کرتے ہیں، بدکاروں کو پیچھے کرتے ہیں۔ اس طرح پورے معاشرے کو اسلامی بنانے کی راہ پر چلتے ہیں۔ جن اہلِ ایمان سے لوگ محبت، اعزاز و اکرام کا سلوک کریں انھیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور انھیں اللہ تعالیٰ کی بندگی پر اپنی کمرہمت باندھ کر رکھنی چاہیے کہ یہی اصل شکرگزاری ہے۔
حضرت سھل بن حنیفؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے شہادت کا سوال کرے، اللہ تعالیٰ اسے شہادت کے مرتبے پر فائز کر دیں گے، اگرچہ اسے اپنے بستر پر موت آئے۔ (ترمذی، کتاب الجہاد، حدیث ۱۶۵۳)
یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے کہ وہ بندے کو محض کام کے ارادے پر اس کام سے سرفراز فرما دیتے ہیں چاہے وہ عملاً اس کام کو سرانجام دے سکا ہو یا نہ دے سکا ہو۔ شہادت کے سچے طلب گار کو شہیدوں کی صفوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ شہادت کے مرتبے پر فائز ہونا کسی مومن کے لیے کتنا مشکل ہے۔ کیا وہ کام جو محض ارادے سے حاصل ہوجائے مشکل شمار ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے بلند درجات کو کس قدر آسان بنا دیا ہے۔ بس خلوص، ہمت اور جذبے کی ضرورت ہے۔ بے شمار خوش نصیب اپنے گھر اور ماحول میں چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے شہادت کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔