یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ تعلیم نہ صرف فرد کی ذاتی نشوونما، بلوغت اور رُشد و ہدایت کے لیے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے، بلکہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور عروج و زوال میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔اسلام کے انسانیت پر احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ اس نے تصورِ دین ،تصورِ انسان،تصورِ فلاح اور تصورِ کامیابی کو اکتسابِ علم کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے نہ صرف حضرت آدمؑ کواشیاء کےعلم بلکہ الہامی ہدایت سے نوازا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر اوّلین وحی جن پانچ آیات کی شکل میں نازل کی گئی، اس کا آغاز بھی پڑھنے اور ربِّ کریم کے اسماء کے ساتھ کیا گیا کہ دین کی بنیاد علم و حکمت پر ہے، توہم و قیاس پر نہیں۔ اس پہلو سے اسلام نے سابقہ مذاہب ِعالم میں تحریف اور اضافہ کیے جانے والے اساطیر الاولین (Mythologies) کی جگہ علم الیقین،وحی الٰہی اور علم نافع کی بنیاد پر انسانی زندگی، معاشرہ اور معیشت و سیاست کی تعمیر کو متعارف کرایا۔
لیکن تکلیف دہ حد تک پریشانی کا باعث یہ حقیقت ہے کہ مسلم ممالک جنھیں اپنے دین کی تعلیمات کی بنا پر علمی و تحقیقی میدان میں قیادت کا فریضہ انجام دینا چاہیے تھا، علمی ترقی اور ایجادات میں آج سب سے کم تر شمار کیے جاتے ہیں۔ وہی اہل ایمان جنھوں نےکل سائنسی میدان میں ۱۰۰۱؍ ایجادات کیں اور ان کی علمی قیادت سے دنیا کی دوسری اقوام نے استفادہ کیا، آج وہ مانگے کے اُجالے سے اپنی گزر اوقات کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان جسے مسلم دنیا میں علم و تحقیق میں سب سے آگے ہونا چاہیے تھا مسلسل ترقی ٔمعکوس کا شکار ہے ۔
ابتدائی جماعتوں سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک جو صورتِ حال اعداد و شمار پیش کرتے ہیں وہ قومی سطح پر فوری توجہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ ۲۰۲۳ء میں طبع کردہ National Achievement Test جسے کیمبرج یونی ورسٹی کے تعاون سے تیار کیا گیا کے مطابق پانچویں جماعت کے طلبہ و طالبات میں اردو، سندھی اور ریاضی کی تعلیم تمام صوبوں میں تنزل کا شکار ہے(ملاحظہ ہو ڈاکٹر عائشہ رزاق، New data , old insights دی نیوز ۱۸مارچ ۲۰۲۴ء )۔ نہ صرف یہ بلکہ گریڈ ۴ اور گریڈ۸ کے طلبہ میں بھی انگریزی،سندھی ، اردو اور ریاضی میں صورتِ حال بہت کمزورپائی گئی ہے۔ اس کمزوری کا ایک حل ملک کے بعض ماہرینِ تعلیم یہ پیش کرتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔یہ اصلاً ایک درآمد شدہ فکر پر مبنی تصور ہے اور ملک کو عملاً پانچ لسانی اکائیوں میں تقسیم کرنے کے گھناؤنے عمل کو خوب صورت بیانیہ کی شکل میں پیش کرتا ہے۔
پاکستان کے تناظر میں شمالی علاقہ ہو یا جنوبی یا وسطی، گاؤں ہو یا شہر، جو زبان دن رات بازاروں میں، گھروں اور کاروبار میں استعمال کی جاتی ہے وہ اردو ہے۔ اردو زبان تمام صوبوں، آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کو جوڑنے والی زبان ہے ۔یہ سائنسی و دیگر علمی تصورات کی وضاحت کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔ اسی بنا پر قائد اعظمؒ نے اسے قومی زبان قرار دیا تھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے دستور پاکستان کی روشنی میں سرکاری زبان قرار دیا ۔ چنانچہ اصل علاج اُردو ذریعۂ تعلیم اور یکساں قومی نصابِ تعلیم ہے، جس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اردو میں وہ تمام تر صلاحیت موجود ہے جو معاشرتی اور تطبیقی علوم (Applied Sciences) کی تدریس اور تحقیق کے لیے ضروری ہے۔ مزید یہ کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں ان کی قومی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور بچے تمام سائنسی تصورات کو اپنی قومی زبان میں سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ چین ، فرانس ، جرمنی، کوریا، پولینڈ، ہر جگہ ذریعۂ تعلیم قومی زبان ہے ۔
اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر ابتدائی تعلیم کو درپیش مشکلات میں بنیادی سہولیات کا موجود نہ ہونا، مثلا ًسرکاری اسکولوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت ، کلاس روم میں بیٹھنے کے لیے ڈیسک اور گنجائش اور کر سیوں کی عدم موجودگی،بجلی اور گرمی کے موسم میں پنکھوں کی عدم موجودگی، کھیلنے کے میدان اور کھیل کا سامان کا نہ ہونا ، بچوں کے لیے مناسب تعداد میں بیت الخلا، اسکولوں کے اساتذہ کے لیے تعلیمی اصولوں اور جدید طریقوں کے استعمال کی تربیت کا نہ ہونا، نیز اساتذہ میں تعلیم و تعلّم سے وابستگی کا فقدان تعلیم کے چند بنیادی مسائل ہیں۔ ایک استاد جو تعلیم کے فن سے آگاہ نہ ہو اور نہ وہ اس منصب کو اپنی اولین پسند کے طور پر اختیار کرے، بلکہ محض بے روزگاری سے بچنے کے لیے استاد بن جائے، وہ کس طرح طلبہ میں علم کی طلب اور تڑپ پیدا کر سکتا ہے؟ وہ حدسے حد ایک رٹا ہوا مواد کلاس میں دہرا سکتا ہے ، جس کا کوئی تعلق تعلیم و تربیت کے ساتھ نہیں پایا جاتا۔
ویسے بھی تعلیم سے تربیت کے لازمی حصہ کو،نامعلوم اسباب کی بنا پر اور گورے کی غلامی کے نتیجے میں Value Neutral تعلیم کے تصور (یعنی اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرنا)کے زیر عنوان نصاب سے خارج کر کے تعلیم کو صرف skills ، مہارتوں اور تکنیکی پہلوؤں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ تعلیم اسکول کی ہو یا اعلیٰ یونی ورسٹی کی، کسی درس گاہ میں آدابِ زندگی، ایمانداری ،پابندیٔ وقت، محنت ، سچائی، ہمدردی اور بہت سی بنیادی صفات پر توجہ نہیں پائی جاتی۔ یہاں تک کہ اقبال کی ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ جس کو ہرصبح ترنم کے ساتھ بچوں سے پڑھوایا جاتا تھا، اس کو بھی اسکولوں سے خارج کر دیا گیا ہے۔ آج نہ حمدباری تعالیٰ ہے ،نہ نعت رسولؐ ، نہ اقبال کا ترانہ، صرف اور صرف ’مہارت‘ اور اعداد و شمار کی تسبیح ہے اور ان میں بھی مہارت کی خاص فکر نہیں ہے ۔ تعلیم کے ابتدائی دور میں اقدارِ حیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات سے لاعلمی بعد کے آنے والے ہر تعلیمی دور پر اثر انداز ہو گی اور یہ بنیادی کمی طلبہ و طالبات کی شخصیت کو نامکمل رکھے گی ۔
اسکولوں میں تربیت یافتہ یعنی تعلیم کے شعبے میں سند رکھنے والے اساتذہ کا تناسب صفر کے برابر ہے کیونکہ جب سے تعلیم کو وفاق کی جگہ صوبائی شعبہ بنایا گیا ہے، اسکولوں میں ملازمت سیاسی پارٹی یا رشوت کی بنیاد پر دینا عام ہو گیاہے اور تعلیم و تعلم کو عموماً بے روزگار وں کو مصروف رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس کا کوئی تعلق استاد کی استعداد اور تعلیمی صلاحیت سے نہیں ہے۔ یہ صورتِ حال ملک کے تعلیمی مستقبل کے لیے سخت تشویش ناک ہے اور بلا تاخیر تمام صوبوں میں اساتذہ کی تطہیر اور پیشہ ورانہ تربیت کا بندوبست کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔صرف ان اساتذہ کو اسکولوں میں تعینات کرنا چاہیے جو اپنی پسند، رجحان ، مقصد حیات اور تعلیمی سند کی بنیاد پر استاد بننا چاہتے ہوں۔ اسکولوں کے معیار کے بلند کرنے میں اساتذہ کے ساتھ والدین بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر ’والدین اور اساتذہ کی ملاقات‘ (پیرنٹس، ٹیچرز میٹنگز) کا صحیح استعمال کیا جائے ،والدین کو ان کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی سے وقت پر آگاہ کرنے کے ساتھ ان کی عادات پر توجہ دینے اور انھیں پابندیٔ وقت کے ساتھ گھر پر دیئے گئے کام کو کرنے کی عادت ڈالی جائے تو تعلیمی معیار آہستہ آہستہ بہتر ہو سکتا ہے ۔دوسری جانب اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ والدین اپنے بچے کی تعلیمی کارکردگی کا دلچسپی کے ساتھ جائزہ لیں اور اسکول سے مطالبہ کریں کہ طالب علم میں جو کمزوری اور خامی ہے اس کو دُور کرنے کے لیے اساتذہ خصوصی وقت دے کر بچوں میں علمی ذوق کو ابھاریں ۔
حکومت کی جانب سے مرکزی اور صوبائی سطح پر کل قومی جی ڈی پی کا ۲۰۲۴ء میں ۱ء۷۷فی صد تعلیم کے لیے مختص کیا گیا(Pak Economic Survey 2023-24)۔ اگر مقابلہ کیا جائے تو ایشیا ہی کے دوسرے ممالک میں تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم چار سے پانچ فی صد مختص کیا جاتا ہے اور اس کا مقابلہ خلیج کے ممالک سے کیا جائے تو وہاں پر ۷سے ۹ فی صد تعلیم کے فروغ پر خرچ کیا جارہا ہے۔
ملک کی اعلیٰ تعلیم گاہوں میں۲۳-۲۰۲۲ء میں کل داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کی تعداد ۶۰ء۲ ملین رہی ہے ،جب کہ ملک کی آبادی ۲۴۰ ملین ہے اور تقریباً دو کروڑ طلبہ و طالبات جو عمر کے لحاظ سے تعلیم گاہ میں ہونے چاہیے تھے، اسکولوں سے باہر تعلیم سے محروم ہیں( پاک اکنامک سروے ۲۴-۲۰۲۳ء ،ص ۱۸۳)۔
طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد ۸۳ فی صد سرکاری جامعات میں اور ایک قلیل تعداد ۱۷ ٪ فی صد نجی یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے (پاکستان ایجوکیشنل اسٹیٹسٹکس ۲۱-۲۰۲۰ء ، ص ۱۵)۔
بنیادی تعلیمی شماریات کے لحاظ سے تعلیم کے فروغ پر جو رقم خرچ کی جا رہی ہے، اس میں کم از کم پانچ گنا اضافے کی ضرورت ہے، تاکہ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک صورتِ حال کو کچھ بہتر بنایا جائے اور اس سلسلے میں سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔ حالیہ صورتِ حال میں جب ملک سے بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جا رہے ہیں، تعلیم و تربیت پر خرچ کو اولیت دینے کی ضرورت ہے۔
مارچ ۲۰۲۴ء میں اسلام آباد میں ہونے والی وائس چانسلر زکمیٹی میں ملک کی بیش تر سرکاری اور نجی یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں نے دو دن کی نشست میں شرکت کی اور تعلیمی، انتظامی، مالی اور پیشہ ورانہ اور تحقیق کے حوالے سے درپیش مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔ مختلف زاویوں سے کیے گئے جائزوں میں یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ (HEC) اور یونی ورسٹیوں کو یکساں طور پر حکومت کی طرف سے مطلوبہ وسائل کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایچ ای سی کی گرانٹ میں مسلسل اضافے کی بجائے کمی کی جا رہی ہے، جس کی بنیاد پر ایچ ای سی اپنے کردار کو کما حقہٗ ادا نہیں کر سکتی ۔بظاہر ایچ ای سی کو۱۸-۲۰۱۷ء میں دی جانے والی مالی امداد ۶۳بلین روپے تھی جو۲۴- ۲۰۲۳ء میں ۶۶بلین کر دی گئی۔ لیکن اگر اسے روپے کی قدر میں کمی کے تناظر میں دیکھا جائے تو۱۸- ۲۰۱۷ء میں یہ امداد ۶۲۲ ملین ڈالر تھی جو ۲۴-۲۰۲۳ء میں ۲۳۸ملین ڈالر رہ گئی۔ ایسی صورت حال میں ایچ ای سی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف ، تربیتی کورس ، یونی ورسٹیو ں کے اساتذہ کو تحقیقی کام کے لیے گرانٹ دینے میں کوئی اضافہ کرسکے گی ،اُمید ِموہوم ہی کہی جا سکتی ہے ۔
ملک میں اس وقت ۱۵۴سرکاری یونی ورسٹیاں ہیں اور تقریباً ۱۰۹سے زائد نجی یونی ورسٹیاں ہیں۔ سرکاری یونی ورسٹیاں اوسطاً فی طالب علم تعلیم فراہم کرنے میں۵۰ ہزار ۹ سو روپے سالانہ خرچ کرتی ہیں، سرکاری یونی ورسٹیوں میں فیس اور طالب علم پر خرچ ہونے والی رقم میں کوئی تناسب نہیں ہے کیوں کہ ان میں فیس کو کم رکھا گیا ہے ۔ملک کی معاشی صورت حال کے پیش نظرفی طالب علم خرچ میں تواضافہ ہوا ہے لیکن فیس کم ہونے اورحکومتی امداد میں غیر معمولی تخفیف کی بنا پر یونی ورسٹیوں کے لیے معیاری اساتذہ کو رکھنا اور سہولیات فراہم کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۲۴-۲۰۲۳ء میں یہ خرچ تقریباً پانچ گنا ہو کر فی کس۲لاکھ۵۰ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ان حالات میں معیاری تعلیم فراہم کرنا ایک کرشمے سے کم نہیں ہے ۔
ہر باشعور فرد اس بات سے آگاہ ہے کہ معیاری تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تخصص رکھنے والے اساتذہ کے ساتھ جدید ترین علم سے مزین کتب خانے اور برقی ذرائع سے قابلِ حصول علمی مصادر کا ہونا ضروری ہے۔ گو ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ سرکاری یونی ورسٹیوں کو ترجیحاً اور نجی تعلیم گاہوں میں سے کچھ کو کتب اور رسائل تک رسائی دیتا ہے، لیکن اس میں مزید اضافہ کی ضرورت ہے۔ جو نجی یونی ورسٹیاں ایچ ای سی کے معیار پر اچھا تحقیقی کام کر رہی ہوں ، انھیں تحقیقی کام کے لیے مالی و دیگر وسائل فراہم کیے جائیں کیوں کہ یہ بھی قومی ترقی میں یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔آبادی کے تناسب سے یونی ورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور یونی ورسٹیوں کے پاس وہ تمام سہولیات ہوں جن میں تحقیق کے جدید ترین ذرائع کو استعمال کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارےکام مالی وسائل کے بغیر نہیں ہو سکتے اور جب اعلٰی تعلیم پر ہونے والے اخراجات کو مسلسل کم کیا جا رہا ہو تو کیا یہ خواب پورا ہو سکے گا ؟
سرکاری یونی ورسٹیوں میں مالی وسائل میں تخفیف کے ساتھ مناسب افرادِ کار کی فراہمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ملک میں ۱۵۴ سرکاری یونی ورسٹیوں میں سے ۵۱یونی ورسٹیاں بغیر کسی ہمہ وقت وائس چانسلر کے کام کر رہی ہیں، جب کہ بعض یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ ترین عہدہ پر ایسے افراد کو بھی مقرر کر دیا گیا ہے کہ جو بنیادی معیار پر بھی پورا نہیں اُترتے۔ تعلیم گاہوں میں علمی ماحول کی جگہ تجارتی ماحول پروان چڑھ رہا ہے اور حصولِ علم کی جگہ حصولِ روزگار طلبہ اور اساتذہ کی توجہ کا مرکز بن گیاہے۔
اس وقت تعلیم کے مستحق سوا دو کروڑ بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے سیاسی مفاد کے لیے یونی ورسٹیوں کے قیام کا اعلان کرنا مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا ،نہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے تربیت یافتہ اور تعلیم و تربیت کو مقصد حیات بنانے والے اساتذہ کے بغیر چند عمارتوں پر اسکول کا نام لکھ دینا اس کا حل ہو سکتا ہے ۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فروغِ تحقیق کے لیے گذشتہ تقریباً ایک عشرے میں ایچ ای سی کی جانب سے صرف ان مقالات کی طباعت کو اہمیت دی گئی جو impact factor رکھنے والے رسائل میں شائع ہوں۔ پھر یہ کہا گیا کہ وہ مقالات ہوں جن کو دیگر علمی تحقیقات میں citeکیا جا رہا ہو اور جو Q-1اور Q-2 کے درجے میں آتے ہوں۔ چنانچہ citation index کو معیار بنایا گیا۔ان رسائل میں مقالات کی طباعت کو انفرادی اور یونی ورسٹیوں کی درجہ بندی میں شمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔لیکن ایچ ای سی کی فراہم کردہ ہدایات کی روشنی میں بھی جو مقالات Q-1اور Q-2 رسائل میں طبع ہوئے ان میں بھی اکثریت ان موضوعات کی ہے جو نظری مسائل سے بحث کرتے ہیں اور جن کا عملاً کوئی فائدہ پاکستان میں صنعت اور زراعت کونہیں پہنچتاہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تطبیقی علوم ہوں یا معاشرتی علوم، دونوں میں پاکستان کے معاشرتی ،معاشی ، سیاسی،معیشت ،ریاستی، قانونی اور انسانی حقوق، اسلامی ثقافت، مغربی اسلاموفوبیا کی یلغار،لادینیت اور دہریت کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور فحاشی و عریانی ،مغربی فکر و ثقافت کی اندھی تقلید پر ، نظریۂ پاکستان کی روشنی میں معاشرتی و معاشی، اخلاقی مسائل کا تجزیہ اور حل تجویز کیے جائیں۔ایسے ہی سوشل میڈیا کا کردار، مصنوعی ذہانت (A I )سے پیدا ہونے والے مقالات میں ملک میں درپیش نفسیاتی ، علمی ، اخلاقی ، معاشرتی اور ثقافتی مسائل پر خصوصاً Digitalization اور مصنوعی ذہانت (آے ائی) کے زیر اثر پیدا ہونے والے مسائل پر توجہ دی جائے ۔
تحقیقی اخلاقیات کے حوالے سے آن لائن مقالات کی سہولت نے محققین کو دوسروں کی تحقیق کو کتر و بیونت کر کے اپنے نام سے طبع کرنے اور ثانوی مواد (secondary data) پر مبنی تحقیق کو اختیار کرنے کی سہولت فراہم کر دی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح بعض شعبوں میں تحقیقی مواد تک رسائی میں اضافہ ہو جائے اور ہم یہ سمجھیں کہ ہمارے ہاں بہت تحقیق ہو رہی ہے، لیکن ایسی تحقیق کا نہ کوئی وزن ہے، نہ وہ معاشرتی، معاشی اوراخلاقی ترقی پر کوئی اثر ڈال سکتی ہے ۔
اس دور میں جس تحقیق کی ضرورت ہے اسے جزوی علم کی جگہ کلی اور تقابلی تحقیق کہا جا سکتا ہے۔ Inter Disciplinary Research عموماً کسی مسئلے کا زیادہ جامع تجزیہ اور ہمہ گیرحل تجویز کرسکتی ہے۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جس شخص نے معاشیات میں یا کیمسٹری میں سند لی ہے، اس کے پاس قانون اور اخلاقی، معاشرتی اور ثقافتی مسائل اور اس کے اپنے شعبہ سے ان کے تعلق کے بارے میں کوئی مستند معلومات نہیں ہوتیں ۔ علم ہمہ گیریت کی جگہ چند زاویوں تک محدود ہو گیا ہےاور یہ ہماری تحقیق کا ایک بہت کمزور پہلو ہے ۔
ایک عام عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یونی ورسٹیوں اور ایچ ای سی میں تحقیق کے لیے مالی امداد میں کنجوسی سے کام لیا جاتا ہے۔اس لیے فنڈز کی کمی کے سبب تحقیق آگے نہیں بڑھ رہی۔ یہ ایک عذر لنگ ہے۔ جو شخص تحقیق کرنا چاہتا ہو اس کے لیے سو راستے تلاش کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ نہ صرف ملک بلکہ ملک کے باہر ایسے ادارے موجود ہیں جو انڈسٹری کے لیے مفیدتحقیق کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ۔شرط صرف یہ ہے کہ محقق اپنے شعبہ کا ماہر ہو، محنت کرنا جانتا ہو اور محنت کرنے پر آمادہ ہو اور تحقیق کا مقصد محض نکتہ سنجی نہ ہو بلکہ وہ واقعی عملی مسائل کے قابلِ عمل حل تجویز کرے۔
تحقیقی ثقافت کا احیا اس وقت ممکن ہے جب محقق میں اخلاص اور ایمان پایا جاتا ہو۔ وہ اللہ کے بندوں کے مسائل کے حل کے لیے اپنی صلاحیت کو، وقت کو ،وسائل کو لگانا چاہتا ہو اور علمی سرقہ کرنے (Cut Paste ) کو حرام سمجھتا ہو ۔حقیقی علمی ترقی کے لیے جامعات کو ایسے افراد کی ہمت افزائی کرنی ہوگی اور جامعات میں علمی فضا کو پروان چڑھانا ہو گا۔
سرکاری یونی ورسٹیوں کو حکومتی امداد پرانحصار کی جگہ خود انحصاری کو پروان چڑھانا ہو گا ۔ ایسے ہی نجی جامعات کو اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرنا ہو گا۔ تعلیم و تحقیق ہر برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں سب سے کم اہمیت کی حامل رہی ہے اور مستقبل قریب میں اس رجحان میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس لیے یونی ورسٹیوں کو خود انحصاری کی پالیسی کو اختیار کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں Alumni یا سابق طلبہ و طالبات کو جامعات کے معاملات میں سرگرم کردار کے لیے آمادہ کرنا ہو گا۔ جامعات کو اپنی تحقیق کوتطبیقی بنانا ہو گا اور ملکی صنعت کی ضروریات کے پیش نظر صنعتی مسائل و مشکلات کا ماہرانہ حل نہ صرف تلاش کرنا ہو گا بلکہ اس کو patent کرانے کے بعد صنعت کاروں کو فراہم کرنا ہو گا۔
عالمی سطح پر منعقد ہونے والی یونی ورسٹی وائس چانسلروں کی کانفرنسوں میں عموما ًاس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ یونی ورسٹی اور صنعتوں کے درمیان قریبی تعلق پیدا کیا جائے تاکہ یونی ورسٹیوں کو مالی اور صنعت کاروں کو ان کے مسائل کا پیشہ ورانہ حل فراہم ہو سکے۔ تاہم، یہاں یہ بات یاد رہے کہ پاکستان کے حوالے سے ہمارا مقصد دیگر یونی ورسٹیوں کی طرح صرف علم کے نام پر معاشی سرگرمی نہ ہو بلکہ علمی اور سائنسی تحقیق کا ہدف ’علم النافع‘کا پیدا کرنا اور اس کے ذریعے اللہ کی مخلوق کے جائز معاشی و معاشرتی اور سیاسی مسائل کا حل پیش کرنا ہو۔ اس کے ساتھ یونی ورسٹیاں اس معاشی ترقی کے نعرے کے زیر اثر محض مادی ترقی کے حصول تک محدود نہ ہو جائیں بلکہ وہ اللہ کے بندوں کی جامع تربیت ِاخلاق اور انسان کے مقصد ِوجود کے شعور اور معاشرتی حل، عدل کے قیام میں مددگار ہوں۔جامعات میں تعلیم و تحقیق میں مصروف نوجوانوں میں علم النافع کے تصور کو واضح کرنا ہوگا تاکہ ان کی تحقیقی جستجو عبادت کے دائرے میں داخل ہو سکے اور خدمت خلق کے اسلامی تصور پر عمل کرتے ہوئے وہ معاشرتی مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
علمی تحقیق کے جدید تناظر میں ’کھلے ماخذ‘ (open source) کورسز اور ’فاصلاتی تعلیم‘ (Online learning) میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ایک ضرورت بن گیا ہے اور اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کے اخلاقی مضمرات روزانہ خود مغربی صحافت اور تحقیقی ادب میں سامنے آرہے ہیں۔ گذشتہ ایک سال کے عرصہ میں شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرا ہو جس میں دو مرتبہ صرف نیویارک ٹائمز جیسے اخبار میں مصنوعی ذہانت کے مثبت استعمال کے ساتھ اس کے منفی اور غیراخلاقی استعمال پر امریکی جامعات سے وابستہ افراد کی تنقید نہ آرہی ہو۔ حقیقتاً مصنوعی ذہانت کو ۲۱ویں صدی کا دجال بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔ یہ انسان کی وہ تخلیقی کوشش ہے جس کے بعد وہ خود اپنے آپ کو حقیقی خالق کے آس پاس تصور کرنے لگاہے اور اس کانفس اسے اپنی ذہانت پرتکبر اور گھمنڈ پر میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود اس کے ذریعے معلومات کا چند لمحات میں انسانی خواہش کے مطابق مرتب ہوجانا اس کا کارنامہ ہے اور تعلیم میں اس کا استعمال کیا جانا مفید نتائج بھی پیدا کر سکتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ایجادات نے علم کی تخلیق کے نئے افق ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں۔ انھیں اخلاقی حدود میں استعمال کرنا آزمائش سے کم نہیں۔
ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ خصوصا ً طب، آئی ٹی اور فارمیسی میں با صلاحیت افراد کا بیرونِ ملک روزگار کے لیے کثرت سے جانا انسانی سرمائے کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ملک کے سوچنے سمجھنے والے اور تطبیقی علوم سے وابستہ افراد ملک کی معاشی، سیاسی صورتِ حال سے مایوس ہو کر ملک کو چھوڑ کر دوسری دنیاؤں میں اپنے لیے جگہ تلاش کریں تو ملک کی معاشی اور سیاسی صورتِ حال کو بہتر کون بنائے گا؟ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس رفتار کے ساتھ پاکستان کی معیشت کو ملک کی انتظامیہ نے خود تباہی کی طرف دھکیلا ہے اس کے پیش نظر کچھ افراد یہ سمجھنے پر مجبورہوئے ہیں کہ یہاں پر ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنا آسان کام نہیں ہے ۔ملک کی معاشی صورت حال کا سنبھالنا صرف اس وقت ممکن ہو سکتاہے جب ملکی سیاسی قیادت، انتظامیہ اور عدلیہ تینوں کی ترجیح ان کی اپنی ذات کی جگہ ملکی مفاد ہو اور اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے اداروں کے وقار کو بحال کریں اور ملک میں دستور کی بالا دستی اور جمہوری روایات کو فروغ دیا جائے۔
آمرانہ نظام کسی بھی دور میں ترقی اور خوشحالی کا ضامن نہیں رہا اور نہ پاکستان میں یہ خوشحالی لا سکتا ہے۔بیورو آف امیگریشن اور بیرون ملک روزگار کے شعبہ کے۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۳ء میں ۸ لاکھ ۶۲ ہزار سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ کر تلاشِ روزگار کے لیے باہر گئے ہیں۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے،جس پر قومی خزانے سے تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے لیے وسائل خرچ ہوئے ہیں ۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ ان کا اپنے خاندان کو چھوڑ کر تلاشِ روزگار میں بیرون ملک جانا معاشرتی، ثقافتی اور اخلاقی، ہر حیثیت سے بے شمار خطرات کو دعوت دے سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پاکستان سے جانے والے بڑی تعداد میں مزدور اور ہنرمند افراد کے خاندان سے دُور ہونے پر جو تحقیقات ہوئی ہیں ، وہ ظاہر کرتی ہیں کہ اس کے نتیجے میں چاہے ملک کے باہر سے کوئی رقم ان کے خاندان میں آئی ہو لیکن اس کی جو معاشرتی قیمت ادا کی گئی وہ اس رقم کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی ہے ۔
یہ کہنا کہ بیرون ملک پاکستانی پاکستان کی معیشت کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں ، اعداد و شمار کی حد تک متاثر کر سکتا ہے لیکن اس کے دور رس نتائج ملکی معاشرت اور ثقافت کے لیے خوش کن نہیں کہے جا سکتے ۔مزید یہ کہ جو صورتِ حال ۱۰ سال پہلے تھی وہ اب تبدیل ہو چکی ہے اور وہ ممالک جہاں مستری، ڈرائیور، تعمیرات کے کام میں مزدوری کرنے والے اور دیگر کم آمدنی والے شعبوں میں جانے والے افراد کی مانگ تھی، وہ اب آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ٹکنالوجی کا استعمال، خلیجی ممالک میں خود اپنی مقامی آبادی کو ان کاموں میں لگانا ان کی ایک ترجیح بن گیا ہے۔
اگر آیندہ بیرون ملک کام کرنے والوں کی طلب ہوگی تو صرف ان شعبوں میں جہاں آئی ٹی اور وہ skills انھیں آتی ہوں، جو ان ممالک میں ابھی موجود نہیں ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان میں پہلے مہارتوں (skills )کا تعین اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کرنے ہوں گے، تاکہ یہ باصلاحیت افراد باہر جا کر باعزت طور پر کام کر سکیں۔
اس وقت ملک میں صرف ایک Skills یونی ورسٹی ہے، جس کا مقصد مہارتوں میں تربیت دینا ہے ۔جب تک ہر یونی ورسٹی اپنے کاموں میں بطورایک ترجیح اسے شامل نہیں کرے گی، ہم اعلیٰ مہارتوں والے افراد نہ ملک میں اور نہ ملک کے باہر فراہم کر سکتے ہیں۔ جن شعبوں میں خود Skilled افرادکی ضرورت ہے ان کے ماہرین اگر ملک کے باہر کثرت سے جائیں گے تو ملک میں غربت اور بے روزگاری کے ساتھ قانون کے احترام میں مزید کمی ہوگی ۔اس لیے خصوصاًطب اور آئی ٹی میں ملک گیر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کو جن بے مثال صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان کی موجودگی میں وہ انسان کو خود اپنے پیدا کردہ مسائل کے حل تلاش کرنے کی سمجھ بھی دیتا ہے ۔چنانچہ غلطیوں کو دوبارہ نہ کرنے کا عزم اور اپنے خالق اور مالک کی طرف رجوع کرتے ہوئے معروضی طور پر معاشی، معاشرتی اور اخلاقی مرض کی تشخیص کرنا اولین اوربنیادی ضرورت ہے۔ ہمارا مسئلہ نہ انسانی سرمایہ کی کمی ہے، نہ قدرتی وسائل کی قلت۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہترین موسم، معدنیات، زرخیز زمین، اعلیٰ صلاحیت کے افراد سے نوازا ہے لیکن ہم نے ۷۵ سال میں سوائے ناقدری ،ناشکری اور نہ فرض شناسی کے کچھ اور نہیں کیا ہے۔ اصلاح کی راہ عمل بہت واضح ہے اور ہر پاکستانی سے خلوص، محنت، بے غرضی اور ایمان داری کا مطالبہ کرتی ہے ۔ہماری پہلی ترجیح ملک میں رائج نصابات پر اپنی قومی ضروریات کی بنیاد پر نظر ثانی اور تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ہم ۷۵ برس سے گورے کی میراث فرسودہ نظامِ تعلیم کو سنبھالے ہوئے ہیںاور نوجوان نسل کی نجات کو اسے اور ابوالہول کی تعلیم حاصل کر لینے کو سمجھ رہے ہیں، جب کہ یہ مغرب سے در آمد کردہ تصورِ تعلیم ہماری موروثی گورے کی غلامی میں مزید اضافہ اور استحکام پیدا کرتا ہے ۔
اس وقت بیش تر یونی ورسٹیوں میں عمومی تعلیم دی جا رہی ہے۔ تخصص اگر ہے تو صرف طب یا انجینئرنگ کی حد تک ہے۔ ادویہ سازی اور دیگر شعبوں میں گہرائی میں جا کر نئے راستے تلاش کرنا ہماری ترجیح نہیں رہا ہے ۔اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔Center of Excellence (خصوصی مراکز ِ دانش ) یا خصوصی یونی ورسٹیوں کے لیے ضروری نہیں کہ نئی یونی ورسٹیاں ہی قائم کی جائیں۔ ہر صوبے میں کم از کم ایک یا دو موجودہ یونی ورسٹیوں کو کسی تخصص کے لیے منتخب کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک کے باہر سے بھی طلبہ کو لا کر اعلیٰ تعلیم دی جا سکتی ہے، جو یونی ورسٹی کے لیے ایک اعزاز اور اس کے معاشی استحکام میں مددگار ہو گا۔ان چند تجاویز کو پیش کرتے وقت پیش نظر یہ اصول رہا ہے کہ ہمارے موجودہ وسائل ہی کی بنیاد پر ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ان تجاویز کے لیے صرف سرکاری اور نجی جامعات کے ساتھ تبادلۂ خیالات کے ذریعے ان کی ترجیحات میں رد و بدل کرنا ہوگا جس کے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت مفید نتائج نکل سکتے ہیں۔
ایک صحافی جو کہتے ہیں کہ ’مَیں مسلمان تھا،لیکن قرآن کریم کے نزول اور تحفظ کے بارے میں شبہات کی بنا پر اب قرآن کریم کو الہامی کتاب تسلیم نہیں کرتا، بلکہ ایک یا ایک سے زائد مصنّفین کی کاوش سمجھتا ہوں‘۔ پھر موصوف نے اپنے مفروضوں پر مبنی متعدد سوالات مرتب کرکے سوشل میڈیا پر پھیلا دیئے ہیں۔اگر وہ صرف ایک بات سمجھنے پر آمادہ ہو جائیں تو پھر ان سوالات کی ضرورت نہیں رہتی اور وہ بات بڑی آسان سی ہے۔
اس کتاب کے نازل کرنے والے نے خود ہر دور کے انسانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اگر اس جیسی دس سورتیں، ایک سورت یا اس جیسی ایک بات تصنیف کر سکتے ہوں تو کر کے لے آئیں۔ یہ دعوت ان عربوں کو بھی دی گئی تھی، جو دورِ نبویؐ میں اپنی عربی زبان پر عبور پر نازاں تھے،اور بعد کے تمام اَدوار میں نہ صرف عربی زبان میں بلکہ کسی بھی زبان کے بولنے والوں کو تاقیامت دعوت ہے کہ قرآن میں جس انداز میں نازل کردہ اخلاقی ،قانونی ،معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی، ثقافتی اور دیگر معاملات کے بارے میں اصول و ہدایات بیان کیے گئے ہیں ،ان کے معیارکی کوئی آیت یا سورۃ تحریر کرکے پیش کریں ۔
تاریخ گواہ ہے کہ آج تک عربی زبان کے تمام ماہر یا دیگر زبانوں اور علوم کے ماہر بشمول اُن مستشرقین، جنھوں نے قرآن و حدیث کے انڈکس مرتب کیے ہیں، کوئی فرد اس کھلی دعوت کا جواب نہیں دے سکا۔ اگر مذکورہ صحافی اپنے بارے میں یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ عتبہ اور دیگر شعرائے عرب جاہلی سے زیادہ ادبی اور شعری صلاحیت رکھتے ہیں تو انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، متبادل کلام پیش کریں اور اصحابِ علم ان کی تحریر کی معنویت،ادبیت اور علمی عظمت کا فیصلہ معروضی طور پر کرنے کے بعد یہ بتائیں کہ کیا ان کی تصنیف میں وہ جامعیت، فصاحت و بلاغت اور ہدایت پائی جاتی ہے، جو قرآن کا امتیاز ہے ؟ جہاں تک محض سوالات داغنے کا تعلق ہے، تو کسی بھی معقول بات پر جب اور جتنے چاہے کوئی انسان سوال اُٹھا سکتا ہے، لیکن محض لایعنی سوالات کسی مستند بات کو مشتبہ نہیں بناسکتے۔
رہے یہ سوالات ،تو یہ کوئی نئے سوالات نہیں ہیں۔ علوم القرآن سے عدم واقفیت رکھنے والوں کے ذہن میں ان سے بھی زیادہ سوالات ابھر سکتے ہیں۔ قرآن کریم خود انسانوں کو سوالات اٹھانے کی دعوت دیتا ہے۔ کیوں کہ اس کتاب کا مقصد تفہیم و تعلیم اور تذکیر کے ذریعے اپنا پیغام انسانوں تک پہنچانا ہے، لیکن سوال کرنے والے کا محض سوال اٹھانا کافی نہیں ہے، بلکہ موضوع کو سمجھ کر سوال کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ جتنا منتشر الخیال سوال ہوتا ہے، اتنا ہی جواب کے باوجود بھی غیرواضح رہتا ہے،اور یہ ایک ایسا سنجیدہ عمل ہے، جس میں کٹ حجتی تو بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے سوالات بیان کرنے سے قبل ہی مذکورہ صحافی نے اپنی مدح میں یہ بات بیان کی ہے کہ میرے سوالات ایسی نوعیت کے ہیں کہ کوئی دو اصحاب بھی ان کے جواب پر متفق نہیں ہو سکتے۔ بہرحال، یہاں ہم انتہائی اختصار سے سوالات میں اٹھائے گئے شبہات پرترتیب وار بنیادی معلومات درج کر رہے ہیں:
پندرہ سو سال سے امت کے تمام اہلِ علم کا اجماع ہے کہ قرآن کریم نہ صرف من جانب اللہ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے بلکہ اس کا ہر حرف جیسا نازل ہوا ویسا ہی محفوظ ہے۔ جس کی ایک زندہ مثال ۱۵۰۰ سال میں ہر سال رمضان کریم کے دوران دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان پائے جاتے ہیں، ہر رات کم از کم ایک پارہ مسجد میں موجود سیکڑوں افراد کے سامنے تلاوت کیا جاتا ہے۔ جس میں خود کئی حافظ قرآن ہوتے ہیں اور خصوصی طور پر مقرر کردہ سامع ہر لفظ کو غور سے سنتے ہیں اور اگر قاری کہیں بھول رہا ہو تو فوراً اس کی اصلاح کر دیتے ہیں۔ اس طرح ہرسال ، اور تواتر سے پندرہ سو سال سے بلا کسی ناغہ اس کتاب کو سنا جا رہا ہے ۔ اس طرح تواتر سے اس کتاب کے ہر لفظ کا صحیح مخرج اور صحیح حرکات کے ساتھ بغیر کسی تبدیلی کے تلاوت کیا جا نا اس کے صحیح شکل میں محفوظ ہونے کا عملی ثبوت ہے ۔ یہ کوئی قیاسی دلیل نہیں ہے ایک ایسی عینی شہادت ہے جس کی مثال دنیا کی کسی بھی اور کتاب کے حوالے سے نہیں پائی جاتی۔ اس زندہ روایت کی موجودگی میں اس بات کا امکان نہیں رہتا کہ کوئی شخص اپنی مرضی کے مطابق کوئی تحریف کر لے۔ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ایسے ہی جاری ہے۔ جس سال آپؐ کا وصال ہوا حضرت جبرئیل امینؑ نے دو مرتبہ آپؐ سے اس پورے کلام کو سنا اور ساتھ ہی صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے بھی سن کر اپنی یادداشت کی توثیق کی۔
عموماً رمضان میں تراویح میں حفاظِ قرآن کی تین نسلیں ایک وقت میں قرآن کریم کو آغاز سے اختتام تک سنتی ہیں۔ چنانچہ ایک پوتا اور اس کا والد اور اس کا دادا ایک ہی وقت میں کلام الٰہی کو سن رہے ہوتے ہیں۔ یہ قرآن کریم کی باحفاظت اسی شکل میں پائے جانے کی ایک عینی شہادت ہے، جو ہر سال دنیا کے تمام گوشوں میں کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم خود مشاہدہ کر سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں پوری دنیا میں تلاوت کیے جانے والے قرآن کریم میں وہ افریقہ میں کیا جا رہا ہو یا امریکا اور آسٹریلیا میں یا پاکستان اور ترکی اور ملایشیا، ہر جگہ وہی ایک قرآن ہے، جو الفاتحہ سے والناس تک ہر مسلمان گھرانے میں پایا جاتا ہے۔ اس عینی شہادت کے بعد یہ کہنا کہ ہر دور میں آیات بڑھائی اور گھٹائی جاتی رہی ہیں، ایسا ہی ہے کہ روشن سورج کے سامنے آنکھیں بند کر کے سورج کے نہ ہونے کا دعویٰ کیا جائے۔
جہاں تک تمثیلی انداز میں قرآن کی عظمت کے حوالے سے یہ کہا جانا کہ اس سے زمین اور پہاڑ بھی لرز اٹھتے تو حقیقت واقعہ یہی ہے کہ جو اس کلام کو سمجھ کر تو جہ کے ساتھ پڑھتا یا سنتا ہے ،اس پر خشیت طاری ہو جاتی ہے اور ذمہ داری کے احساس میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن جو اسے شک و شبہہ اور اعتراض برائے اعتراض کی نگاہ سے پڑھتا ہے ،اس کے دل کی سختی میں اضافہ کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن نے خود یہ بات واضح کر دی ہے کہ پہاڑ ہوں یا دریا اور درخت ہوں یا پرندے، ہرایک اللہ کے بتائے ہوئے قانون پر عامل ہوتے ہوئے سب پہلے مسلم ہیں۔
سائل کا کہنا ہے کہ ’چھ دن میں کائنات بنانے والا جو خدا ہے ،اس کو اس کتاب کے لکھنے میں ۲۳ سال لگ گئے‘، حالانکہ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ اس پوری کتاب کو رب کریم نے ایک قدر والی رات میں نازل فرمایا اور اسے ایک مقام پر محفوظ کر دیا اور آئندہ ۲۳ سال میں پیش آنے والے واقعات کی مناسبت سے متعلقہ آیات کو ۲۳ برسوں میں ہر موقعے کے لحاظ سے اس کی آیات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جاتی رہیں۔ اس میں حیرت کس بات پراورسائل خود طےکرے کہ ان کے سوال کی کوئی بنیاد ہے؟
تفصیلات میں جائے بغیر یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ عرب جاہلیہ میں بھی بعض اقدار کا غیر معمولی اہتمام کیا جاتا تھا، جن میں صلہ رحمی کی بڑی اہمیت تھی۔ خون کے رشتے کے لحاظ سے ابولہب آپؐ کا چچا تھا، جو انتہائی قریبی رشتہ ہے۔ وہ آپؐ کا سب سے زیادہ قریبی پڑوسی بھی تھا، لیکن اسلام دشمنی میں سب سے زیادہ پیش پیش تھا۔ چنانچہ جب آپؐ مختلف مواقع پر دعوتِ دین کے لیے نکلتے تو وہ آپؐ کے پیچھے چلتے ہوئے آپؐ کی ایڑیوں پر پتھر سے نشانہ لگاتا۔ حتیٰ کہ آپؐ کی ایڑیاں خون آلود ہو جاتیں۔اس کی بیوی آپؐ کے گھر کے سامنے غلاظت اور کانٹے ڈالتی رہتی۔ آپؐ کے دوسرے عزیز بھی آپؐ سے اختلاف رکھتے تھے، جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن جس شدت کے ساتھ ابو لہب نے قطع رحمی جاری رکھی، وہ اس بات کی متقاضی تھی کہ قرآن کریم ایک جانب قطع رحمی کی مذمت کرے اور دوسری جانب ابو لہب کو اس دنیا میں ہی خبردار کر دے کہ رسولؐ کو زخمی کرنے والے ہاتھ لازماًمستحق ہیں کہ ٹوٹیں ۔ چنانچہ وہ اپنی تمام تر دولت کے باجود اسلام دشمنی کی بنا پر نامرادہی رہے گا۔ یہ قرآن کریم کی جامعیت ہے کہ ان چند الفاظ میں ایک حقیقی واقعہ کی طرف صرف اشارہ کیا گیا اور اس اشارہ کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر دین کی مخالفت چچا بھی کرے گا تو اس کی سزا اور انجام دیگر مشرکین سے مختلف نہ ہوگا۔
رہا کتابی شکل میں اپنی زندگی میں قرآن مجید کا تحریر کروا دینا تو اگر سوال کرنے والے فرد، قرآن کریم کے جمع کرنے کی تاریخ پر کسی تعارفی تحریر کا مطالعہ کرلیتے تو سوال کا جواب مل جاتا۔ ہرنزول کے موقعے پر ہمہ وقت موجود کاتبین وحی میں سے کسی کاتب کو آپؐ اسی لمحہ وہ قرآنی وحی تحریر فرما دیا کرتے تھے۔ قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ اسے ہاتھ نہ لگایا جائے، جب تک کوئی فرد پاک یا طاہر نہ ہو۔ یہ مکی دور کی آیت ہے۔
اس حوالے سے حضرت عمر ؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے چھ نبوی میں اسلام قبول کیا اور اس طرح قبول کیا کہ و ہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تھے کہ راستے میں معلوم ہوا کہ ان کی بہن اور بہنوئی بھی مسلمان ہوگئے ہیں ۔یہ پہلے ان کی طرف گئے تو قرآن کی تلاوت کی آواز سنی۔ دستک دی اور پکارا تو بہن اور بہنوئی نے جن صفحات سے وہ پڑھ کر تلاوت کر رہے تھے انھیں چھپا دیا ۔ حضرت عمر ؓ کے اصرار پر انھیں وہ کاغذ دکھائے گئے، لیکن یہ کہا گیا کہ جب تک وہ غسل نہ کر لیں انھیں ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ واقعہ کی تفصیل میں جائے بغیر اس سے یہ ثابت ہوا کہ چھ نبوی میں صحابہ کرامؓ کے پاس قرآن کے اجزا تحریری شکل میں موجود تھے اور پڑھنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا کہ قرآن آپ ؐکے وصال کے بعد ضبط ِتحریر میں لایا گیا اور جس نے جو چاہا لکھ کر منسوب کر دیا، ایک بے بنیاد مفروضہ ہے ۔
یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ روزِ اوّل سے قرآن کی ہر وحی نہ صرف آپؐ کے حافظہ میں اس ترتیب سے جس میں قرآن آج پایا جاتا ہے محفوظ ہو جاتی تھی، بلکہ اسے فوری طور پر کاتبین وحی، جن کا کام ہی یہ تھا کہ وہ ہمہ وقت آپؐ کے پاس موجود رہیں اور جب بھی وحی آئے اسے تحریر کریں۔وہ وحی کو آپؐ کی موجودگی میں تحریر کرلیتے تھے۔ رہا یہ سوال کہ اسے کتابچہ یا کتابی شکل میں کیوں مرتب نہیں کیا گیا؟ تو اس ضمن میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ وحی کا عمل جاری تھا اور کسی کو علم نہیں تھا کہ وحی کی تکمیل کب ہوگی ۔ تدوین اسی وقت کی جاتی ہے جب متن تکمیل کو پہنچ جائے۔ مزید یہ کہ چونکہ جو کچھ وحی ہوا ،وہ اسی ترتیب کے ساتھ لکھا جا رہا تھا جس ترتیب سے اسے قیامت تک محفوظ ہونا تھا اور وہ سب تحریرات محفوظ تھیں، اس لیے ان پر ایک جلد میں جلد سازی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس کام کے متوازی ایک دوسرا معجزانہ طریقہ حفاظت ِقرآن کا یہ اختیار کیا گیا تھا کہ اسے ترتیب ِنزولی کی جگہ اُس ترتیب سے جو حضرت جبرئیلؑ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کرتے تھے، یادداشتوں میں محفوظ کر لیا جاتا تھا۔جسے ہم نے معجزانہ طریقہ کہا ہے ،وجہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس کے تمام نسخے حاصل کر کے آپ سمندر میں ڈال دیں، اور اس کا کوئی ایک حافظ، بلکہ خود مصنف اسے دوبارہ جوں کا توں زبانی بیان کر سکے یا تحریری شکل میں تخلیق کر ڈالے۔ یہ صرف قرآن کریم ہے جس کو ان دو واسطوں سے روزِ اوّل سے محفوظ کیا گیا۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ قرآن کریم آپؐ کی حیات مبارکہ میں ایک کتابی شکل میں کیوں جمع نہ کر لیا گیا؟اگر یہ کتاب کسی انسان یا انسانوں کی اجتماعی تحریر ہوتی ،تو عین ممکن ہے کہ وہ لوگ اسے ترتیبِ زمانی سے ہی لکھتے۔لیکن قرآن کریم الہامی کتاب ہے، جس میں ربِّ کریم نے مکی دور میں پیش آنے والی آزمائش وابتلا کے حوالے سے اور اسلام کے بنیادی عقیدے پر ہدایات دی ہیں اور اس بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے مدنی دور میں نہ صرف عقیدہ بلکہ معاملات، قانون ،مسائل اور بین الاقوامی تعلقات پر جامع ہدایات دی ہیں۔ گو،یہ ہدایات ہر لمحہ پیش آنے والے واقعات کے سیاق میں نازل ہوئیں، لیکن بغیر کسی تبدیلی و تغیر کے ان ہدایات کا اطلاق قیامت تک ایسے سب مواقع پر ہوگا، جن میں ابتلا و آزمائش پیش آرہی ہو ۔
تیرہ سال اہل ایمان کو مکہ میں ابتلا و آزمائش کے پیش آئے اور جو آیندہ کسی بھی دور میں پیش آ سکتے ہیں۔ ایسے ہی مدنی دور میں تعمیرِ سیرت، معاشرہ ،معیشت، سیاست کے اصول بیان کر دیے گئے۔ اور پھر قرآن کریم کو اس طرح یک جا کر دیا گیا کہ وہ زمانی قید سے بلند ہو جائے اور تاریخی دستاویز کی جگہ تاریخ ساز ہدایت بن کر قیامت تک تمام مسائل کے حل کا راستہ دکھا سکے۔ اگر ایک مرتبہ قرآن کی حکمت ِترتیب کو سمجھ لیا جائے تو نہ کسی تفسیری مباحث میں جانے کی ضرورت ہے، نہ مغربی تصوّرِ ارتقا اور تجرباتی بنیاد پر بدلتی سائنس کی بنیاد پر مطالعے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔بلکہ تجزیاتی تحقیق کرنے کے لیے اس آفاقی کتاب کے اصولوں کو استعمال کر کے جدید ترین مسائل کا انسانیت دوست اور عادلانہ حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔یہ کتابِ اخلاق ہے، جو ہر شعبۂ حیات کے عملی اخلاق کا ضابطہ فراہم کرتی ہے۔اس میں معاشی اخلاقیات بھی ہیں اور سیاسی اخلاقیات بھی، نیز بین الاقوامی اخلاقیات بھی۔ یہ ثقافت کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے اور عقلی اور تجرباتی علوم کے لیے انسانیت دوست اصول بھی سکھاتی ہے۔ یہ سب اس لیے کہ اسے کسی محدود عقل والے انسان یا انسانوں نے نہیں بلکہ انسانوں کے خالق نے اپنے منتخب کردہ بندے پر ہدایت کی شکل میں نازل کیا ہے۔ ایک الہامی کتاب میں انسانی تحریر کی خصوصیات تلاش کرنا عقل کے منافی ہے۔
اگر موصوف کے بیان کے مطابق قرآن کے ۱۰پارے کوئی بکری کھا گئی تو اول تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ قرآن اتنی کثرت سے تحریری شکل میں موجود تھا کہ بکریاں تک ضرورت پڑنے پر اسے سبز گھاس سمجھ کر کھا لیا کرتی تھیں ۔ ایسی مضحکہ خیز افسانہ سازی کسی سنجیدہ جستجو سے مناسبت نہیں رکھتی۔ دوسرے اس خیالی واقعے سے صحافی صاحب کی اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں قرآن کریم کے اجزاء تحریری شکل میں موجود نہیں تھے۔اگر قرآن تحریر نہیں کیا گیاتھا تو بکری نے اسے کیسے کھا لیا؟تیسرے، یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس واقعے کے وقت کیا مدینہ منورہ کے اندر اور باہر صرف وہی ایک مسودہ تھا جسے بقول ’’صحافی بکری نے کھا لیا، اور دس پارے ضائع ہوگئے؟‘‘ یاسیکڑوں، ہزاروں سینوں میں اور سیکڑوں صحابہ کے گھروں میں وہ اوراق موجود تھے، جن کا مطالعہ وہ دن رات کرتے تھے؟حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کے واقعہ کی طرف اس سے قبل اشارہ کیا گیا ہے۔ان کی بہن اور بہنوئی قرآنِ کریم کے جس حصے کی تلاوت کررہے تھے اس میں کہا گیا تھا کہ اسے مت چھوئیں سوائے ان کے جو پاک اور طاہر ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ حکم حافظہ سے قرآن کی تلاوت کے بارے میں نہیں ہو سکتا اور اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن تحریری شکل میں صحابہ کے زیر مطالعہ دورِ نبویؐ میں ہی تھا۔
تاریخی طور پر حضرت ابوبکرؓ کے دور میں حضرت زید ؓ بن ثابت نے ایک مقررہ معیارِ شہادت کے بعد قرآن کے کاتبینِ وحی کے تحریر کردہ اجزاء کو قبول کرنے کے لیے یہ شرط رکھی کہ صرف وہ صفحات جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست سن کر قرآن لکھا گیا اور جن کے تحریر کیے جانے کے وقت دو صاحب ِایمان عینی شاہد موجود تھے۔ صرف ان تحریری اجزاء کو قبول کیا جائے گا۔ اس اصول کے بعد یہ بات سراسر لاعلمی یا فتنہ انگیزی پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کے بعض حصے بنی امیہ کے دور میں اپنے مفاد کے پیش نظر لکھ کر شامل کر دیے گئے۔ اس نوعیت کی قیاس آرائی مستشرقین صدیوں سے کر رہے ہیں۔ سوال کرنے والے نے اس بات کو اٹھا کر کسی ذہانت کا ثبوت نہیں دیا۔ حضرت زیدؓ اور صحابہ کرامؓ نے جس لہجے میں آپؐ کے سامنےقرآن تلاوت کیا تھا، اسی لہجہ ولحن میں ، اسی ترتیب کے ساتھ اسے یک جا کر دیا گیا،جسے مصحفِ حفصہؓ کا نام دیا گیااور اُم المومنین حضرت حفصہؓ کے ہاں اسے محفوظ کر دیا گیا ۔جس کی نقول کروا کے حضرت عثمانؓ نے اہم مراکز مکہ، کوفہ، بصرہ، مدینہ وغیرہ میں رکھوا دیں تاکہ لوگ اپنے مصحف کی اس کے مطابق تصحیح کرلیں۔اس کی نقول آج بھی تاشقند، برلن اور استنبول کے اسلامی عجائب گھر میں موجود ہیں۔ تاشقند کا نسخہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ یہ تفصیلات اور مزید تفصیلات علوم القرآن سے متعلق کتب میں موجود ہیں، اگر ان پر ایک نظر ڈال لی جاتی تو بلا وجہ کے اشکال پیدا ہی نہ ہوتے۔
جو بات مصدقہ روایات سے واضح ہے وہ یہ کہ ایک غیر متوقع صورت حال پیش آنے کی بناپر آپؐ نے صرف سیّدہ خدیجہؓ سے یہ کہا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ مجھے کچھ اوڑھا دو اور پھر وہ تفصیل انھیں بتلائی جس میں حضرت جبرائیلؑ کا آنا اور آپؐ کو سینہ سے لگا کر تین مرتبہ گرم جوشی سے بغل گیر ہونا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک غیر متوقع واقعہ اگر ہو تو ہر انسان پر اس کا اثر ہونا چاہیے۔ اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت موسٰی کی طرح یہ طلب اور خواہش نہیں تھی کہ انھیں نبی بننا ہے اور نہ وہ اس کے اُمیدوار ہی تھے، بلکہ اس کے برعکس نبوت کے لیے منتخب کیا جانا ان کے لیے حیران کن تجربہ تھا۔
ایک معمولی سی بات جو سائل کے ذہن میں نہیں ابھری وہ یہ ہے کہ اگر قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ انسانوں کا کلام ہے، تو ایسے ارفع و اعلیٰ کلام کے خالق انسان کو چاہیے تھا کہ وہ جو ساری عمراہل مکہ کے درمیان صادق و امین کے نام سے پکارا جاتا تھا ،خوشی خوشی کہتا کہ لوگو یہ میری تخلیق ہے،میرا کمال ہے، تم میری عظمت کو مانو اور میری پیروی کرو! وہ بجائے کریڈٹ لینے کے یہ کیوں کہتا ہے کہ یہ میرا کلام نہیں ہے،یہ من جانب اللہ مجھ پر نازل ہوا ہے؟کیا ایک ایسی شخصیت جس کے جانی دشمن بھی اس کی صداقت و امانت پر شہادت دیتے ہوں اور اعلانِ نبوت کے بعد بھی یہ کہتے ہیں کہ امانت اور صداقت میں آپ سے بہتر کوئی شخص مکہ میں نہیں ہے، ایسا شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکتا ہے کہ یہ کلام اس کا نہیں بلکہ اللہ کا ہے؟
یہ بات اس کلام الٰہی کی ہو رہی ہے، جس کے بارے میں عربی دان اور معروف شاعر عتبہ سن کر یہ کہتا ہے کہ ’’یہ نہ شعر ہے، نہ سحر، نہ کہانت بلکہ کچھ اور ہے‘‘۔یعنی یہ انسانی فکر اور انسانی صلاحیت سے ماورا ایک منفرد کلام ہے۔ اگر کوئی اس کلام کو سمجھنا نہ چاہتا ہو یا وہ سمجھنے کا طریقہ استعمال نہ کرنا چاہتا ہو، جو الہامی کلام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے، تو یہ اس کا اپنا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے مشرکین مکہ کی طرح یہ بات کہنا کہ ’’یہ کسی انسان نے لکھا ہے یا لکھوا دیا ہے ‘‘ ایک بےبنیاد بات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ نے پچھلی شریعتوں میں جو ہدایات بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کرنے والوں کے لیے نازل فرمائی تھیں،ان میں سے جن کو چاہا منسوخ کر کے ان کی جگہ ان جیسی یا ان سے بہتر ہدایات قرآن کریم میں ارشاد فرما دی ہیں ۔یہ بات اللہ تعالیٰ کے علیم اور قدیر ہونے کی واضح دلیل ہے۔ وہ پہلے سے علم رکھتا ہے کہ اس کے بندوں کے لیے کس وقت کون سی ہدایت زیادہ مفید اور سود مند ہے۔اس کی رحمت اور بندوں کی بھلائی اسے اس طرح کی تبدیلیوں پر آمادہ کرتی ہے، کیونکہ وہ سب سے زیادہ رحیم ہے۔لیکن قرآن کے نزول کے بعد قرآن نے خود یہ اعلان کر دیا کہ شریعت مکمل کر دی گئی ہے، اب اس میں کسی کو رَد و بدل کا اختیار نہیں ہے۔ اب صرف اس کتاب اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نجات کا باعث ہوسکتی ہے۔
قرآن کریم میں نسخ کے حوالے سے قرآن کریم سورۃ الانفال میں خود مثال دےکر واضح کر دیتا ہے کہ اگر ۲۰ صابر اہل ایمان میں ہوں تو وہ ۲۰۰ مشرکین پر غالب آئیں گے۔ پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ اگر ایمان کا معیار وہ نہ ہو، تب بھی سو صابر دو سو مشرکین پر غالب آئیں گے۔اس آیت میں نہ کہیں کسی صاحب ِفہم کے لیے تضاد ہے، نہ یہ کوئی نظر ثانی ہے بلکہ زمینی حقائق پر مبنی ایک صداقت بیان کی گئی ہے۔ گویا نسخ کا مفہوم لغوی طور پر یہاں پر تبدیل کرنے کا نہیں بلکہ تخصیص (qualification) کا ہے ۔جو کسی بھی قرآنی علوم سے آگاہ شخص کے لیے حیرت کا باعث نہیں ہو سکتا ۔اللہ کے کلام میں یہ وسعت ہی اسے عالم گیر بناتی ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں مسائل کے حل کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔
جہاں تک سوال حضرت عمر ؓ سے منسوب روایت کا ہے، قرآن کریم کے اس اعلان کے بعد کہ: الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳)’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ ( لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)۔ یہ کہنا کہ اس میں کوئی حکم یا آیت جو پہلے تھی اب نہیں ہے، قرآن کے قطعی اعلان کے منافی ہے ۔فقہاء اور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ہرمعاملے میں قرآنی حکم کو فوقیت حاصل ہوگی ۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ محض مفروضے کے طور پر اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ قرآن کا کوئی حکم آیا تھا جو ایک بوڑھے اور بوڑھی کے زنا کی حد ِسنگسار کو بتاتا تھا لیکن سورۂ نور کی آیت نے اسے منسوخ کر دیا، حقیقتِ واقعہ کے بالکل خلاف بے بنیاد تصور ہے۔ کیونکہ نہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علیؓ اور بعد کے آنے والوں نے غیر شادی شدہ کے زنا پر کوڑے اور شادی شدہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک قرآنی حکم کے خلاف یہ صاحبانِ علم ایک ایسا کام کرتے؟ مزید یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ ’شریعت‘ جس چیز کا نام ہے وہ صرف قرآن نہیں بلکہ قرآن و سنت دونوں کے مجموعے کا نام شریعت ہے۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ کے زنا کرنے پر حد جاری فرمائی ہے تو یہ خود شریعت ہے ۔اس بنا پر امام شافعی الرسالہ میں یہ بات وضاحت سے فرماتے ہیں کہ سنت ِرسولؐ ’شارع‘ بھی ہے اور ’شارح‘ بھی۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صحابہ کرامؓ خصوصاً خلفائے راشدین کے ہاں قرآن کا علم اور خصوصاً آیات الاحکام سے ان کی واقفیت سب سے زیادہ معتبر تھی۔ اس قسم کی بے بنیاد بات کا صرف ایک مقصد ہوسکتا ہے کہ قرآن کے اپنے بیان: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۹ (الحجر۱۵:۹) ’’ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘، کو مشتبہ بنا کر غلط قرار دینے کے لیے ایک بات کو حضرت عمرؓ سے منسوب کر دیا جائے تاکہ لوگ گمراہی میں مبتلا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فتنہ پھیلانے والوں کو ہدایت دے۔
The Developing Human Clinically Oriented in Embryology, Keith L. Moore Chair, Department of Anatomy, University of Toronto, 1983
قرآن کریم نے انسانی تخلیق کے جن مدارج کا ذکر کیا ہے، اس نصابی کتاب میں ان کی تصدیق کرتے ہوئے تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ قرآن کریم وہ عالمی اصول بیان کرتا ہے کہ جو تمام علوم میں ہدایت فراہم کرتے ہیں ۔ یہ تفصیلات میں نہیں جاتا اور ان کو اہلِ تحقیق کے ذمے کر دیتا ہے۔
پھر سائل کا یہ کہنا کہ رسولؐ اللہ نے نعوذ باللہ، نادرست آیات کی تلاوت کی تھی۔ ایسی بے سروپا بات وہی کرسکتا ہے جس نے سورئہ نجم کی آیات کا ترجمہ تک نہ پڑھا ہو۔ اگر کسی نے سورۂ نجم کی آیات کا ترجمہ ہی پڑھا ہو اُس میں کہاں ہے یہ بات کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاہتے اللہ سے منسوب کر کے کوئی بات بطور آیت فرما دیتے تھے ۔اگر واقعی اس قیاس میں کچھ صداقت ہوتی تو پھر اہل مکہ کوآپ ؐ کو فوراً ہی اپنا بادشاہ اور سربراہ بنالینا چاہیے تھا! اور یہ جھگڑا کس بات کا تھا؟ اگر آپؐ توحید کا انکار اور بتوں کا اقرار کر رہے تھے تو اہل مکہ کی مسلسل مخالفت اور ظلم و تشدد کیوں تھا؟اور خصوصاًمکی دور میں اس میں مسلسل شدت کیوں آتی رہی ؟کاش! سائل اپنے نفسیاتی مفروضوں سے نکل کر خود اپنے قائم کردہ مفروضوں پر غور کریں توانھیں اپنے موقف کی کمزوری کا علم ہو جائے گا ۔قرآن کریم کی حفاظت کی ضمانت اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے خود دی ہے، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قرآنی آیت میں تبدیلی، تاخیر یا تعجیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ قرآن کریم روزِ اوّل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حافظے اور بے شمار صحابہ کرامؓ کے حافظے میں جیسا کہ وہ ہے، بالکل اسی طرح محفوظ رہا ہے ۔ اس لیے کسی چھوٹے بڑے شیطان کی سازش سے اس میں کوئی تبدیلی اور تحریف نہ عقلاً ممکن ہے، نہ واقعتاً ہو سکتی ہے۔
قرآن کریم کے اس واضح فرمان کے بعددنوں، ہفتوں اور مہینوں کا حساب لگانا ایک طفلانہ حرکت ہے۔ قرآن کریم نے ایسے تمام معاملات کے بارے میں جو اصول خود بیان کر دیا ہے، وہ بڑا آسان ہے، یعنی اس کتاب میں جو واضح احکام و ہدایات ہیں ،ان پر شعوری طور پر عمل کیا جائے اور جو معاملات انسان کی محدود عقل سے بالا ہوں، ان پر ایمان بالغیب لایا جائے۔ پھر یہ بات بھی واضح کر دی کہ جن کے دل میں ٹیڑ ھ ہے، وہ اپنا سارا وقت انھی باتوں پر صرف کرتے ہیں جو مشتبہ بنا دی گئی ہیں ۔ظاہر ہے کہ جو بات واضح اور متعین ہے، اس پر کسی قسم کا شبہہ عقل کے منافی ہے۔ صرف جو بات مشتبہ محسوس ہو یعنی ہمارے احساسات کی پہنچ سے باہر ہو، اسی پر قیاس آرائی کی جا سکتی ہے ،جسے قرآن نے واضح الفاظ میں منع کیا ہے۔یہ ایسے ہی ہے کہ جس علم کو طبیعیاتی (Physical knowledge)یا تجرباتی علم (Experimental knowledge) کہا جاتا ہے اور جس کی domain ظاہری مادی اشیاء تک ہے ،اس کے ایک ماہر سے یہ سوال کیا جائے کہ جنت میں پھلوں کا رنگ اور ذائقہ کیا ہو گا ؟ یا اللہ تعالی ٰجس عرش پر ہیں اس کا سائز کیا ہے؟ وہ کس چیز کا بنا ہوا ہے؟ تو کیا یہ سوالات جن کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہے،ایک طبعیات کا ماہر ان کے جواب دینے کی صلاحیت کا دعویٰ کر سکتا ہے ؟
قرآن کریم انھی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اصلاً تورات اور اناجیل کا بھیجنے والا صرف اللہ وحدہٗ لا شریک ہے۔ اسی بنا پر ان کتب اور قرآن کریم میں بہت سی تعلیمات مشترک نظر آتی ہیں۔ سبب یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم ان کتب سے اخذ کیا گیا ہے بلکہ ان سب کا بھیجنے والا ایک ہی رحمٰن اور رحیم ہے۔ سابقہ کتب میں تحریف و تبدیلی کے اسباب جو قرآن کریم نے اور جو خود ان مذاہب کے ماننے والوں نے بیان کیے ہیں، وہ معروف ہیں۔ یعنی اُن مذہبی رہنماؤں کا اپنی رائے کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کر کے پیش کر دینا اور بعض احکام کو اپنے مفاد کے منافی ہونے کی بنا پر جان بوجھ کر چھپانا۔اس طرح اصل تعلیم گم ہو گئی، اور شرک کی مختلف شکلیں رواج پا گئیں۔ قرآن پاک میں ان اُمور کی تصحیح کر کے اصل تعلیمات کو واضح کر دیا گیا ہے۔
ظاہر سی بات ہے ’تثلیث‘ اور ’توحید‘ دو الگ چیزیں ہیں۔ توحید میں تحریف شدہ اُمور کی اصلاح کے لیے قرآن کریم کو نازل کیا گیا اور اس کی حفاظت کے دو بڑے ذرائع اختیار کیے گئے۔ ایک اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں،ہر وحی کے نزول کے وقت پہلے سے مقرر کردہ کاتبین کا تحریر کر لینا، اور ساتھ ہی ہر وحی کا حافظے میں اس ترتیب سے محفوظ کرنا، جو آغاز سے آج تک قرآن کریم میں پائی جاتی ہے۔ان دو ذرائع کے بعد یہ امکان نہیں رہتا کہ قرآن میں کوئی تبدیلی یا تحریف کی جا سکے۔قرآن اور دیگر کتب اس لحاظ سے بہت مختلف ہیں کہ وہ کتابیں اپنے مصنّفین کے ناموں کے ساتھ منسوب ہیں یعنی ’لوقا‘ کی کتاب یا ’جان‘ کی کتاب۔ قرآن کریم کے نہ الگ الگ مصنّفین ہیں، نہ اس کا ایک حرف کسی انسان کے ذہن کی پیداوار ہے۔ یہ وحی الٰہی ہے ! جیسے ہی وہ نازل ہوئی ، اسی شکل میں حافظے اور ورق پر اسے محفوظ کر لیا گیا۔
یہ تصور کہ قرآن کو ہڈیوں اور پتوں پر تحریر کیا گیا اصلاح طلب ہے۔ ہڈی سے مراد مرغ یا بکرے کی ہڈی نہیں بلکہ اونٹ کی چوڑی ہڈیوں سے بنائی ہوئی وہ پلیٹیں ہیں، جو تختی کی طرح تحریر کے لیے استعمال ہوتی تھیں اور پتوں سے مراد مصر قدیم کے تیار کردہ پیپرس کے اوراق ہیں ۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ملک میں ایک نیوکلیئر پلانٹ یا کسی اور اہم تنصیبات کے ارد گرد ۱۰کلومیٹر کے رقبہ کو محفوظ علاقہ قرار دے کر نوٹس لگا دیا جائے کہ ’جو ان حدود میں داخل ہوگا اسے گولی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے‘۔ اس وارننگ پر کسی بھی فرد کی نظر میں کسی زیادتی اور ظلم کا تصور تک نہیں پایا جاتا۔ دنیا میں کوئی بھی حکومت اپنے زیرانتظام کسی بھی جگہ کے بارے یہ اعلانِ عام کر سکتی ہے۔مگر اس قرآنی ہدایت میں اپنی طرف سے افسانہ تصنیف کرنا کہ مشرکین کی تاک میں بیٹھو اور انھیں جہاں پاؤ قتل کردو، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا، لیکن اس طرح کی بے بنیاد باتیں قرآن سے منسوب کرنا ایک صریح ظلم ہے۔
رہا یہ معاملہ کہ جو لوگ اللہ پر، یومِ آخرت پر، ایمان اور اعمال صالح پر عامل ہوں، چاہے اہل ایمان ہوں یا یہودی یا عیسائی یاصابی، اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ قرآن کے اصول کے مطابق ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر نیکی اور بدی کو نظر انداز نہیں کرتا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔البتہ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اُخروی اور دُنیوی کامیابی کے لیے اسلام پر ایمان لانا شرط ہے۔جو ایمان نہیں لائیں گے ان کے اعمال کا بدلہ کیا دیا جائے گا؟ یہ نہ انسانوں کا domain ہے، نہ وہ اس پر غور کرنے کے مکلف !یہ جس کا اختیار ہے وہی اس کا یومِ حساب میں فیصلہ کرے گا!اس بیان میں اور قرآن و حدیث کے توحید کی وضاحت میں نہ کوئی تضاد ہے نہ ابہام!
اس آیت کے پہلے مخاطب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اگر کسی کو آیت پر سب سے پہلے عمل کرنا چاہیے تو وہ بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں۔ سیرت پاک اور حدیث کو اٹھا کر دیکھیے کہ کیا کوئی ایک موقع بھی ایسا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی پر سختی کی ہو یا کسی سے بلند آواز سے بھی بات کی ہو۔ حضرت انس ؓ جو ۱۰ برس آپؐ کے گھر کے کاموں میں آپؐ کی مدد کرتے رہے ،جن سےآپؐ کے گھر کی کوئی بات پوشیدہ نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ ۱۰ برس کےعرصے میں مجھ کو آپؐ نے ایک مرتبہ اُف تک نہیں کہا۔ ظاہر ہے کہ گھر میں کام کرنے میں لازما ًبعض اوقات بے احتیاطی ہو جاتی ہے، جب ہم اپنے کسی بھی گھر والے یا ملازم کو سخت سُست کہنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
جو ہستی اپنے گھریلو کاموں میں مدد کرنے والے فرد کو ۱۰ برس میں نہ ہاتھ سے تکلیف پہنچائے اور نہ زبان سے کچھ کہے، وہ اس آیت کے آنے کے بعد کبھی اپنی ازواج پر سخت گیر بنا؟ نبی کریمؐ قرآن کی ہر تعلیم پر سب سے پہلے عمل کرنے والی ہستی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدہ عائشہؓ سے آپؐ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا!
قرآن کی تفسیر، اسوۂ رسولؐ کرتا ہے ، کسی سائل کا دماغ نہیں کرتا۔مسلمان کے لیے قرآن کی مستند تعبیر وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے عمل سے اختیار کی ۔قانون میں کسی دفعہ کا موجود ہونا عموما ًایک روک (deterrent) ہے۔ضروری نہیں کہ اس کا لازمی استعمال ہو، البتہ غیرمعمولی صورت میں بھی اگر اس قانون کے اطلاق کو خارج کر دیا جائے تو وہ قانون اپنی قوت کھو بیٹھتا ہے۔ اس لیے قانون میں انتہائی حد کا ہونا عقل اور تجربہ دونوں کے مطابق ایک جائز عمل ہے۔ رہا تشدد کا استعمال، وہ چاہے بیوی شوہر پر کرے یا شوہر بیوی پر، اس کو احادیث میں شدت سے رَد کیا گیا ہے۔
ایسی شعاع اور ایسے چھوٹے وجود (Unidentified Objects) سائنسی تحقیقات سے ثابت ہیں اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ خود سائنس دان ان وجود( objects )کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں ۔اس لیے اگر قرآن کریم نے ان کی طرف اشارہ کر دیا ہے تو اس میں کوئی اَنہونی بات نہیں۔ ایسے Fireballs, Shooting, Stars, Meteors پر سترھویں صدی سے تحقیقات ہوتی رہی ہیں اور ان کی روشنی میں جدید دور کے سائنس دان ان سے نکلنے والی شعاعوں، ان کی رفتار (۲۰ تا ۷۰ کلومیٹر فی سیکنڈ) کے بارے میں اپنے مشاہدات ، تصاویر کے ساتھ مقالات میں پیش کرتے رہے ہیں۔ شہاب ثاقب ایسے ہی Meteors کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔سائنسی طور پر اس کی شعائیں انتہائی تیز لیکن بہت کم عرصہ روشن رہتی ہیں۔ جیسے آسمانی بجلی کی چمک ایک لمحہ سے بھی کم وقت میں خود کو دکھا کر غائب ہو جاتی ہے۔(تفصیلات کے لیے دیکھیں Encyclopedia Britannica Macropodia, Chicago University Press 1974, P36-54)
قرآن کریم یہ نہیں کہتا ہے کہ شہابِ ثاقب کا وزن، شکل و جسامت وغیرہ کیا ہوتی ہے؟ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ ایک تیز روشن شعاع کسی بھی ایسے شیطان یا جِنّ کو جو ان حدود میں آنا چاہے جو ممنوع ہیں، تو یہ روشن شعلہ مزاحم ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا مشاہدہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس لیے یہ بات بیان کرتے وقت کسی جھجک کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔اگر سائنس اس پر کوئی ثبوت فراہم نہ بھی کرتی، جب بھی قرآن کا بیان خود اپنی جگہ دلیل ہے اور مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ مسلم سائنس دان قرآن کی بنیاد پر سائنسی مطالعہ کرتے ہیں ، بدلتی ہوئی سائنس کی بنیاد پر قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام انسانوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ آپؐ کا کسی مدرسے اور کالج یا یونی ورسٹی جائے بغیر قرآن کریم کے عظیم کلام کو نہ صرف سمجھنا بلکہ اس کی وضاحت فرمانا ہے۔ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کا کام تلاوتِ آیاتِ قرآن، تعلیمِ کتاب، تزکیہ اور حکمت ہے۔ یہ چار کام تین مقامات پر دہرائے گئے ہیں، جو بطور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آپؐ کو سونپے اور آپؐ نے ان چاروں ذمہ داریوں کو بدرجۂ کمال ادا فرمایا۔اسی طرح جب قرآن خود آپؐ کو کلام الٰہی کی تعلیم دینے کا اہل قرار دیتا ہے تو کیا کسی اور کو یہ حق ہو سکتا ہے کہ وہ آپؐ کی اس استعداد پر شبہہ کرے اور آپؐ کو نعوذ باللہ ’ناخواندہ‘ سمجھتے ہوئے منصب نبوت کا مستحق نہ سمجھے ؟
مشہور واقعہ ہے کہ ایک دعوتی وفد میں ایسے کچھ صحابہ کو جو قرآن کے حافظ تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں انھیں دھوکے سے شہید کر دیا گیا۔ایسے ہی حضرت ابوبکرؓ کے دور میں جنگ یمامہ میں حفاظ کی شہادت بھی ثابت کرتی ہے کہ ایک بڑی تعدادحفاظ قرآن کی موجود تھی جن کی تلاوتِ آیات میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔گویا قرآن کسی بھول یا تحریف کے بغیر جیسا نازل ہوا، ویسا ہی دورِ نبویؐ میں اور بعد کے ادوار میں مکمل طور پر محفوظ رہا۔اس لیے یہ واحد الہامی کتاب ہے، جس میں کسی زِیر زَبر تک کے اختلاف کا امکان نہیں پایا جاتا۔یہ کہنا حقائق سے آنکھیں بند کرنا ہے کہ کاتبینِ وحی نے اس میں جو چاہا اضافہ کر لیا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود جو لکھواتے تھے اسے پڑھ نہیں سکتے تھے۔اگر لکھوانے کا مقصد محض ایک یادداشت لکھوانا تھا جب تو یہ امکان ہو بھی سکتا ہے کہ کاتب ِوحی سے لکھنے میں کوئی حرف رہ جائے لیکن لکھوانے سے مقصد اس کی پانچ وقت نمازوں میں تلاوت تھا۔ تو نبی کریم ؐکے لیے کیسے ممکن ہے کہ ایک کلام میں تحریف ہو،آپؐ اسے سنیں اور پھر خاموش رہیں؟آج تک پندرہ سو سال میں ہر رمضان میں تراویح میں جو قرآن سنا جاتا ہے اگر قاری صرف ایک لفظ بھول جائے یا حرکات میں کوئی غلطی ہو جائے تو نہ صرف سامع بلکہ دیگر سننے والے افراد فوری طور پر اصلاح کر دیتے ہیں۔ دورِ صحابہؓ میں تو احتیاط اس سے بھی کئی درجے زیادہ تھی۔ اس لیے کسی کاتب کے ہاتھوں اضافے کمی کی بات ایک بے بنیاد قیاس ہے۔
یہ واضح کرنے کے بعد قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جب فرشتوں سے حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا تو اس وقت ابلیس بھی فرشتوں کی صف میں شامل تھا۔ جب حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا تو ابلیس نے اپنی انانیت اور تکبر، جس کا سبب اس کا آگ سے پیدا کیا جانا تھا، اس پرناز کرتے ہوئے مٹی سے بنائے ہوئے انسان کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ جو اس کے مردود کیے جانے اور جنت سے خارج کیے جانے کا سبب بنا ۔
یہ سارا معاملہ عبرانی میں ہوا ،عربی میں ہوا یا کسی اور زبان میں ہوا، اس سب کا کوئی تعلق اس بات کے ساتھ نہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے یا نہیں؟دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا قرآن کی تعلیمات میں کوئی بات ایسی ہے جو عقل کے خلاف ہے؟ ایک ایسا سوال کرنا جس کا کوئی تعلق ایک معاملہ سے نہ ہو، فکری دیانت کو مشتبہ کر دیتا ہے۔ساتھ ہی یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں، ایک غیر عقلی رویہ ہے ۔کیونکہ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں اس مکالمے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ قیاس کرنا کہ چونکہ قرآن عربی میں ہے اس لیے لازما ًاللہ تعالیٰ تمام انبیاؑ سے عربی میں تبادلۂ خیال کرتے ہوں گے ،ایک شخص کی اپنے ذہن کی پیداوار تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا کوئی تعلق نہ قرآن کی حقانیت سے ہے، نہ ابلیس کے واقعے کو ایک افسانہ قرار دینے سے۔
سائل کی ان باتوں میں نہ کوئی منطقی ربط ہے نہ صداقت کہ قرآن کی آٹھ سو سے زائد یا اس سے کم تفاسیر کیوں لکھی گئیں؟ قرآن آسان عربی زبان میں اللہ کا کلام ہے، جسے کسی دوسری زبان کے بولنے والے کے لیے اسے سمجھانے کے لیے ان کی زبان میں اس کی تعلیمات کو پیش کرنا ایک انسانی ضرورت ہے ۔اور یہ ضرورت نہ صرف قرآن کریم بلکہ ان تمام معاملات میں رہے گی، جن میں اخلاق اور قانون کے اصول پیش کیے گئے ہوں۔ لوگوں تک انھیں پہنچانے کے لیے مقامی زبانوں میں ان کے مفہوم اور مطالبات کو بیان کرنا ایک فطری عمل ہے۔ یہی شکل دیگر الہامی کتب کے ساتھ ہے جنھیں ان کے ماننے والوں نے ہر دور میں تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ اس میں کوئی حیرت اور پریشانی کی بات نہیں ہے۔ یہ بات انسانی ضرورت اور کلام الٰہی کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ بات کو سمجھنے کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ غالب یا اقبال کا کلام ایک عام شخص بھی سمجھ سکتا ہے اور ایک تشریح کے ذریعے اقبالیات کا کوئی ماہر اس کی خوبیوں کو مزید واضح بھی کر سکتا ہے ، اور ایسا کرنا کیا عقل کے منافی ہے؟ تفاسیر کی کثرت تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ کلام الٰہی پر جتنا غور کیا جائے گا اتنے ہی پہلو مزید واضح ہوتے چلے جائیں گے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یکے بعد دیگرے سیاسی اور معاشی بحرانوں سے گزرنے کے نتیجے میں ملکِ عزیز ایک گہرے نظریاتی بحران کی طرف جا رہا ہے۔ اس غیریقینی صورتِ حال میں نوجوان مروجہ جمہوریت سے بیزار ہو کر تبدیلی کے دیگر نظریات کو اپنانے پر غور کر رہے ہیں۔ معاشی پریشانی جو ہماری اپنی پیدا کردہ ہے اور بر سرِ اقتدار گروہ کی نا عاقبت اندیشی اور نا اہلیت کی اذیت ناک مثال ہے۔ ملک کے بعض ماہرینِ معاشیات کے مطابق صرف سات سال میں ہم اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں، لیکن ضرورت صرف پختہ عزم ،صیحح سمت کے تعین اور اخلاص و قربانی کے ساتھ حصولِ مقصد کی جدوجہد ہے۔ بڑے دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صاحبِ اقتدار افراد، وہ دورِ فراعنہ کے ہوں یا دورِ جدید، ہمیشہ قوت کو ہر مسئلہ کا حل سمجھتے رہے ہیں اور تاریخی تجربات سے سبق لینے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے عروج و زوال کے جو قوانین پوری کائنات میں نافذ کیے ہیں ،انسان ان سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اگر ایک جنگل میں شیر اپنی خونخواری کے خوف کی بنا پر بقیہ جانوروں کو خائف رکھ کر ان پر حکومت کرتا ہے، تو اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتا اور ہرآہٹ پر انجانے خطرات اسے گھیرے رہتے ہیں۔
اس وقت سب سے اہم معاملہ قومی،ملکی اور علاقائی یک جہتی کا ہے۔ عالمی طور پر تسلیم شدہ اصول ہے کہ ملک دشمن بیرونی عناصر ملک کے اندر محرومیت کا احساس رکھنے والے قائدین اور نوجوانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ ان کے جذبات کی شدت میں جتنا ممکن ہو اضافہ کرتے ہیں، اور ساتھ ہی اپنی طرف سے مکمل مادی، اخلاقی اور سیاسی حمایت کا یقین دلا کر علیحدگی پسندی کی طرف دھکیل دینے میں لگے ہوتے ہیں۔ ملک کے بعض صوبوں کے مقامی قائد جو کل تک قومی مسائل کے حل کی امید رکھتے تھے،اپنی سخت نا امیدی کا اظہار کرتے ہوئے ملک چھوڑ کر جانے پر آمادہ ہیں، لیکن بلند ایوانوں کے مکین شیش محل کو آہنی قلعہ تصور کیے اپنی روش بدلنے پر آمادہ نظر نہیں آتے ۔
حال ہی میں بنگلہ دیش جن تکلیف دہ مراحل سے گزرا اور جس عظیم انسانی جانی قربانی کے بعد ان نوجوانوں نے جنھیں گذشتہ ۵۰ برس سے صرف پاکستان دشمنی کا سبق پڑھایا گیا تھا۔ انھی نوجوانوں نے اس فرد کو جس نے بنگلہ دیش بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا، اس کےمجسمے کو اپنے ہاتھوں سے توڑ کر اپنی سیاسی آزادی کا اعلان کیا ۔یہ تاریخ کا پہلا موقع نہیں ہے کہ جب بھی ناانصافی، استحصال، جمہوری حقوق کی پامالی ،قید و بند اور قوت کے ذریعے اقتدار پر قائم رہنے کی کوشش کی جائے گی، اس کا رد عمل جلد یا بدیر سامنے آئے گا۔ اکثر ایسا رد عمل شدید اور خون آشام ہوتا ہے ، جس کے ممکنہ طور پر واقع ہونے سے برسراقتدارطبقہ ہمیشہ غافل رہتا ہے۔
سیاسی دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ قبل اس کے کہ صبر و برداشت کی حدیں پار کر کے عوام خصوصاً نوجوان ایک ناقابلِ واپسی مقام پر آ جائیں، ملکی سالمیت اور انسانی جان کے احترام کے پیش نظر مسائل کا حل غرور و تکبر کی جگہ گفت و شنید اور مفاہمت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جب بھی ذاتی اَنا کسی معاملے میں آڑے آئے گی، حالات خراب سے خراب تر ہوں گے۔
نہ صرف نوجوان بلکہ عوام بھی آج گہری مایوسی کا شکار ہیں۔ یہ مایوسی نہ صرف اُن نام نہاد نمائندوں سے ہے، جو انتخابات کے نتائج کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غاصبانہ طور پر پارلیمان تک پہنچے، بلکہ یہ مایوسی نظام سے بھی ہے۔وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ نہ صرف آج بلکہ ماضی میں بھی اس سے ملتے جلتے تماشے سابقہ ممبران پارلیمان کرتے رہے ہیں۔ گویا جمہوریت کے نام پر ایک ڈراما جاری ہے،جس کے کردار ہر تھوڑے عرصے کے بعد تبدیل ہو جاتے ہیں ، یا وہی کردار دوسرا بھیس بدل کر چہروں کو رنگ اور روغن کے ذریعے تبدیل کر کے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ نظام اور اداروں پر سے اس طرح اعتماد کا اٹھ جانا ملک وملت کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر پاسبان خود راہزن بن جائے تو پھر قانون اور عدل و انصاف کے خوب صورت تصورات بے معنی ہو جاتے ہیں اور ہر فرد اپنے آپ کو قانون کی قید سے آزاد سمجھنے لگتا ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت کا عملی تجربہ اگر کرنا ہو تو اسلام آباد ہو یا لاہور یا کوئی اور شہر کے کسی بھی چوراہے پر کھڑے ہو کر مشاہدہ کیجیے کہ جب ٹریفک کا اشارہ سرخ ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے صبر کرو اور دوسرے اطراف کی ٹریفک کو گزرنے دو۔ لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ اس وقت بھی کچھ افراد سرخ بتی کا احترام کیے بغیر اسے توڑتے ہوئے بغیر کسی احساسِ جرم کے اپنی گاڑیاں تیز رفتاری سے لے جاتے ہیں ، کیونکہ ان کی گاڑی اونچی اور زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کی تقلید میں بہت سے موٹر سائیکل سوار اور دیگر چھوٹی بڑی گاڑیاں بھی اپنا حق سمجھتے ہوئے اشارہ توڑ کر گزر جاتی ہیں۔ اس روش کے نتیجے میں ہر مصروف سڑک اور چوراہا قانون شکنی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
ایک عام شہری میں جب قانون کے احترام کا جذبہ سرد پڑ جائے تو وہ ٹریفک کی سرخ بتی کی پروا نہیں کرتا۔ جس کے نتیجے میں سڑکوں پر افراتفری ، اذیت انگیز بدنظمی پھیل جاتی ہے ۔ ایسے ہی کسی بھی ادارے کا سربراہ جب دستور کے احترام کے بجائے دستور شکنی کی روش اختیار کرتے ہوئے کبھی اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع، کبھی غیر قانونی مراعات و مالی و دیگر مفادات کے حصول اور زیادہ سے زیادہ مدت کے لیے اقتدار میں رہنے کی ہوس کا شکار ہو کرآئین و قانون کی پابندی کی سرخ لکیر سے آگے نکلتا ہے، تو اس کے نتیجے میں اداروں کی سطح پر بد نظمی ، بے قاعدگی اور آئینی و دستوری افراتفری کی صورت حال جنم لیتی ہے ۔ جس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
ہماری قومی تاریخ ذاتی مفادات کے لیے بدترین آئین و قانون شکنی کے تلخ واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ جس کے نتیجے میں ملک بھی دو لخت ہوا اور عوام الناس کو بھی جان ومال کے بدترین نقصانات اٹھانے پڑے ۔آج بھی ملک کے اکثر حصے آئین اورقانون کے عدم احترم اور اداروں کی بے راہ روی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان واقعات کا تسلسل اہلِ اقتدار اور اداروں کے ذمہ داروں کی بے حسی ، خود پرستی اور ملک و قوم سے کیے جانے والے آئینی حلف سے رُوگردانی کی نشان دہی کرتا ہے۔ جب قوم جبرو نا انصافی اور اصحابِ اقتدار کی بے حسی اور قانون شکنی کو دیکھتی ہے، تو وہ بھی قاعدوں اور ضابطوں کی سرحدیں عبور کر جاتی ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا سیکھنا چاہیے اور ہر شہری میں قانون اور دستور کے احترام کا جذبہ ہمہ وقت زندہ رہنا چاہیے۔ ابلاغ عامہ اور تعلیم دو ایسے ذرائع ہیں جو اس احساس کو جگانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ قوم کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ دستور اور قانون کے احترام کو بحال کیا جائے۔ بلاشبہہ معاشی پریشانی کے شکار افراد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان کی پریشانی چاہے وہ بجلی کے بل کی بنا پر ہو، یا اشیائے خورد و نوش کی گرانی کی وجہ سے، یا اس معاشرتی بگاڑ کی بنا پر جس میں خاندان کے ادارے کو سخت دھچکا پہنچا ہےاوربے شمار خطرات کا سامنا ہے۔ملکی افراتفری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دفتری ، کاروباری اور ادارہ جاتی زبوں حالی اور تنزل اور عدم اطمینان کے نتیجے میں عوام کی گھریلو زندگی شدت سے متاثر ہو رہی ہے۔ قریبی رشتوں میں قربت کی جگہ کھنچاؤ اور بدگمانی سے رشتوں میں فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔
ان تمام مسائل کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس وقت ریاست اور قوم کی اوّلین ترجیح جغرافیائی سالمیت ہونی چاہیے۔دو صوبے اور آزاد کشمیر جس کش مکش سے گزر رہے ہیں، شاید اربابِ اقتدار کو اس کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ یہی خام خیالی کی نفسیات ۱۹۷۰ء میں ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہوئے سول اور فوجی حکمرانوں کو تھی۔ وہ مطمئن تھے کہ ملک میں سب چین ہی چین ہے۔ وہ دیوار پہ لکھی تحریر جانتے بوجھتے بھی نہیں پڑھنا چاہتے تھے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے سوئے رہے تھے، جس کا خمیازہ ملک کو دولخت ہونے، ہزاروں فوجیوں کی ہزیمت انگیز گرفتاری اور ہزاروں لوگوں کی جانوں کی قربانی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ بدقسمتی سے آج پھر حکمران طبقہ کی جانب سے وہی تاریخ دوہرائی جار ہی ہے۔
اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی اوّلین ترجیح ملکی سالمیت کو ہونا چاہیے۔ جس کے لیے سیاسی آزادیوں کی بحالی ،عوامی جذبات کا احترام اور سابقہ انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا تدارک کسی تاخیر کے بغیر ہونا ضروری ہے تاکہ مفاہمت کی فضا پیدا ہو سکے۔ ملکی سالمیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب محروم طبقات کو ان کا حق دیا جائے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں سب سے زیادہ ناخواندگی بلوچستان میں ہے۔ تقریباً ۶۰ فی صد تعلیم کی عمر رکھنے والے بچوں کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں۔ یہی حال دیگر تعلیمی سہولیات اور ضروریات کا ہے۔ اسکولوں میں پینے کا پانی، چار دیواری، کمرئہ جماعت، بیت الخلا کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تربیت یافتہ اساتذہ اور تعلیمی سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث پس ماندہ علاقوں کے عوام معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔ معاشی طور پر جو امیدیں چین کی شاہراۂ تجارت (سی پیک)کے بننے سے وابستہ تھیں، وہ حکمران طبقہ کی ناعاقبت اندیشی اور چچا سام کی غلامی سے عملاً ناکام ہو چکی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ہم اپنے ہمدردوں کو بڑی مہارت سے اپنا مخالف بنانے کے عادی ہیں۔ افغانستان ہو یا چین، ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی کہ وہ ہم سے بدگمان ہو کر ہمارے دشمن کو اپنا دوست بنانے پر آمادہ ہوں۔
انڈیا اور بعض دیگر ممالک بلوچستان کی صورتِ حال کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان مخالف عناصر کو ہر قسم کی امداد فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر فوج جو آگے بڑھ کر محاذوں کی حفاظت کرنے کی عادی ہوتی ہے، وہ اپنے ہی ملک میں ، خود اپنے آپ کو ریت کی بوریوں کے پیچھے محفوظ بنانے میں لگی ہو، تو ملکی سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟
ہر ادارے کو احساسِ جواب دہی کے ساتھ اپنے کام کو ذمہ داری کے ساتھ کرنا ہوگا، جب ہی ملکی سالمیت برقرار رہ سکتی ہے۔ عدلیہ کا کردار جس طرح مشتبہ بنانے میں خود عدلیہ نے کام کیا ہے،وہ ایک ناقابلِ یقین حقیقت ہے۔ کوئی ادارہ اپنا اتنا دشمن نہیں ہو سکتا، جتنا عدلیہ نے اپنے ساتھ کر کے دکھایا ہے۔ ملک کے قانون دانوں کا فرض ہے کہ وہ دستوری ذرائع سے عدلیہ کے احترام کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
۱- تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میثاق تحفظِ دستور اور جغرافیائی وحدت پر نہ صرف متفق ہو کر دستخط کریں بلکہ بلوچستان ، خیبر پختون خوا ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جا کر عوام اور دانش وروں کے ساتھ براہِ راست تبادلۂ خیالات کے ذریعے صوبائی آزادی کی تحریک کی جگہ ملکی وحدت کے تصور کو حکمت کے ساتھ ذہنوں میں جاگزیں کریں ۔
۲- فوری طور پر گوادر کی ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات اور چین کی شاہراۂ تجارت (سی پیک) کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی اور معاشی اقدامات کیے جائیں، تاکہ گوادر منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کو روکا جا سکے ۔
۳- ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے سلسلے میں فوری مذاکرات کے ذریعے معاملات کو بہتر بنایا جائے اور امریکی مفاد کی جگہ پاکستان کے مفاد کو اوّلیت دی جائے ۔
۴- تمام سیاسی کارکنوں کو جیلوں سے اور جنھیں جبری لاپتا یا اغوا کیا گیا ہے، اگر وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، تو انھیں عدالتوں میں پیش کیا جائے، بصورت دیگر انھیں باعزّت طور پر رہا کیا جائے ۔
۵- اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور میں وقتی سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی تبدیلی کو برداشت نہ کیا جائے ۔
۶- ملکی معاشی پالیسی پر یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں سے وابستہ ماہرینِ معاشیات کو مدعو کرکے جامع مشاورتی عمل کا آغاز کیا جائے۔ جس میں زراعت، پانی کے وسائل اور صنعتوں کے مسائل خصوصاًفیصل آباد اور سیالکوٹ کی مقامی صنعتی پہچان کو بحال کیا جائے۔ زرعی زمینوں کو رہائشی سہولیات میں تبدیل کرنے کو سخت قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے، اور جو زرعی زمین گذشتہ تین برسوں میں رہائشی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی ہے، اس میں زراعت کے نظام کو بحال کیا جائے ۔
۷- تعلیمی زبوں حالی اور خصوصاً آئی ٹی کے ذریعے فاصلاتی نظامِ تعلیم اور براہِ راست تعلیم کو ملا کر تعلیم عام کرنے کے مشن کو عملی شکل دی جائے۔ اس میں اساتذہ اور طلبہ کو بطور رضاکار استعمال کیا جائے اور انھیں بغیر کسی معاشی معاوضہ کے بعض سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ یہ کام خوشی کے ساتھ کر سکیں ۔
انسان عموماًکسی عمل کے اچھے نتائج اور کامیابی کو اپنے زورِ بازو اور ہنر مندی کا نتیجہ سمجھتا ہےاور ناکامی کو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تصور کرتے ہوئے صبر کی طرف مائل ہوتا ہے ، جب کہ قرآن کریم، اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے رحم و کرم اور انسان کی بھلائی کے حوالے سے یہ اصول بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر رحمت و شفقت کو اپنے اوپر فرض کر چکا ہے۔ چنانچہ خرابی ،ظلم و فساد اور غارت گری کے واقع ہونے میں بنیادی طور پر انسان کی اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کا دخل ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں یہ قیمتی اصول بیان کیا ہے:
وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۳۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۳۰) تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے ، تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔
یہ اس لیے کہ ربِّ کریم نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے ۔وہ اپنے بندوں پر ظلم وزیادتی نہیں کرتا ۔ اپنے بندوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں ڈالتا اور ہمیشہ اپنے بندوں پر رحم و کرم کی بارش کرنے پر آمادہ رہتا ہے، اس کے کرم کی کوئی انتہا نہیں ؎
کرم ہی سے تیرے پھولوں سے دامن بھر گیا میرا
کرم ہی سے تیرے کچھ اور گنجائش نکل آئی
اس لیے اگر کسی معاشرے میں انسانی حقوق کی پامالی، قید و بند اور تعذیب، پکڑ دھکڑ اور زباں بندی اور افواہ سازی کا دور دورہ ہو اور حق و انصاف کی آواز بلند کرنے والوں اور حق و انصاف کے لیے نکلنے والوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو، تو صرف ظالم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا کافی نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ شہادتِ حق کا تقاضا ہے کہ احتسابِ نفس کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ ظلم کے غالب آنے میں خود مظلوموں کی اپنی کوتاہی و پسپائی کا کتنا دخل ہے؟ یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر شہادت حق اور امر بالمعروف کا فریضہ مؤثرانداز میں ادا نہ کیا جائے تو معاشرے میں جو اخلاقی خلا پیدا ہو گا، اسے ابلیسی قوتیں ہی پُر کریں گی۔ گویا استقامت سے ہٹ کر اپنے فرائض و واجبات کو ادا نہ کرنا فطری طور پر ظلم اور نا انصافی کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے، کیوں کہ ابلیسی قوتیں ہمیشہ اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کہیں سے کوئی خلا ملے اور وہ اس میں گھس کر ظلم و فساد برپا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے برعکس اگر غیر متزلزل طور پر استقامت کے ساتھ حق کی شہادت ادا کی جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ ظلم ، جبر اور مکر کی تمام چالیں آخر کار ناکام ہو جاتی ہیں اور اللہ ربّ العزت کی تدبیر ہی غالب آکر رہتی ہے: وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۵۴ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴) ’’اور انھوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا۔ اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے‘‘۔
ملک عزیز میں ایک عرصہ سے یہ ایک علمی بحث کی جا رہی ہے کہ ایک عادل ڈکٹیٹر اور عوام کے ایک منتخب کردہ لیکن بد عنوان شخص دونوں میں افضل کون ہے؟اول الذکر کا نقص مطلق العنان ہونا ہے جو قرآن و سنت کے منافی ہے ،جب کہ آخر الذکر کو اگرچہ نام نہاد لبرل جمہوری انتخابات میں کامیابی ہوئی ہے لیکن وہ بدعنوانی کے لیے معروف ہے۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام نہاد جمہوریت، اسلامی ریاست کی روح کے منافی ہے۔یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ فوجی حکمران ہو یا ’عوامی ووٹ‘سے برسر ِاقتدار آنے والا سربراہ، ماضی میں دونوں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اگر کسی چیز میں کامیاب رہے ہیں، تو وہ مہنگائی،بے روزگاری ، عدم تحفظ کو بڑھانااور معاشرے میں ناانصافی اور ظلم کو فروغ دینا ہے۔ گویا اگر انتخاب کیا بھی جائے تو ایک طرف گڑھا ہے اور دوسری طرف کھائی۔
اس صورتِ حال میں کیا چوکیدار کی تبدیلی سے حالات میں بہتری ہوسکتی ہے ؟ کیا ایسے حالات میں نااُمید ہو کر ایک ہچکولے کھاتی کشتی کے بادبان سے ہاتھ کھینچ کر اسے ہوا اور پانی کی موجوں پر چھوڑ دیا جائے یا بادِ مخالف کو بادبان کا رُخ موڑ کر منزل کی طرف جانے کا ذریعہ بنایا جائے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو ہر محب وطن کو درپیش ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ کشتی کو ہوا اور موجوں پر چھوڑ دیا جائے ،جہاں اللہ کی مرضی ہو چلی جائے۔بعض سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کی روشنی میں جس میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ایک دو منزلہ کشتی میں سفر کیا جا رہا ہو اور نچلی منزل والے پانی کے حصول کے لیے کشتی کے تلے میں سوراخ کر رہے ہوں اور اوپر کی منزل والے ، اگر انھیں اس کام سے نہ روکیں گے تو دونوں منزلوں والے کشتی کے ساتھ غرق ہوں گے۔اس لیے ان ناسمجھ افراد کو سوراخ کرنے سے روکنا دوسروں پر فرض ہوگا۔
اس حدیث میں یہ سبق ہے کہ تماش بین بن کر کشتی کو ناسمجھ لوگوں کے حوالے کر دینا دین کے منشا کے منافی ہے۔جس کشتی میں آج پاکستانی قوم سوار ہے، اس پر جن ملاحوں کا قبضہ ہے وہ خود ہی کشتی میں سوراخ کرنے میں لگے ہیں۔اس وقت اس بحث سے قطع نظر کہ کشتی لکڑی سے بنی ہے یا لوہے سے، پہلے کشتی کو ڈوبنے سے بچانا عقلی تقاضا ہے۔اس کے بعد یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کشتی کی ساخت میں کیا تبدیلی کی جائے اور اسے کس طرح مکمل طور پر اسلام کے ابدی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے؟
اس سوال کا آسان اور مختصر جواب جس کے لیے کسی لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے، یہ ہے کہ اصل حل تو یہی ہے کہ اسلام کے دیے ہوئے جامع اور کامل نظامِ حیات کو نافذ کیا جائے، کیونکہ ربِّ کریم نے اس نظام کو بھلائی اور نیکیوں کی بنیاد پر عدل اور حق کے تقاضوں کے پیش نظر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مدینہ کی فلاحی ریاست کی شکل میں جاری کروا کر اس کی عملیت اور جامعیت کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ۔ لیکن کیا یہ نفاذِ نظامِ اسلامی صرف نیک خواہشات اور مطالبات کے ذریعے ہو جائے گا؟ یا پھر اس کے لیے پہلے قوم کو اپنے نصب العین کا واضح تعین کرنے کے ساتھ ،حصول نصب العین کے لیے بنیادی ایمانی ،انسانی اور مادی وسائل کی تیاری اور فراہمی اور ماحول کی سازگاری کو واضح حکمت عملی اورمستقل مزاجی اور استقامت کے ساتھ قائم کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی؟ایسے افرادِ کار تیار کرنے ہوں گے جو بے غرضی اور بے نفسی کے ساتھ اپنی ہرشے اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے لگانے پر آمادہ ہوں۔ تحریک اسلامی نے اس مسئلے کے حل کے لیے جو راستہ سوچ سمجھ کر منتخب کیا ہے وہ اقامت دین کے ذریعے اصلاح حال اور تبدیلیٔ نظام کا واضح نقشہ ہے۔ یہاں یہ بحث لا حاصل ہے کہ پہلے اوپر سے نظام تبدیل ہو یا مضبوط بنیادوں پر ایک ایک اینٹ رکھ کر حصولِ مقصد کی جدوجہد اختیار کی جائے، یا بیک وقت دونوں کام کیے جائیں؟
حصول مقصد کے لیے تدبیر اور حکمت عملی جب تک زمینی حقائق کی بنیاد پر نہیں بنے گی، کامیابی نہیں ہو سکتی۔البتہ یہ بات ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جو بھی حکمت عملی اختیار کی جائے اس کی بنیاد صرف قرآن اور سنت کو ہونا چاہیے۔کامیابی کا انحصار نصب العین کے واضح ہونے کے ساتھ صحیح اور بروقت حکمت عملی کے اختیار کرنے پر ہے۔ نظامِ ظلم کی جگہ نظامِ عدل کا قیام استقامت ،صبر اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی توفیق اور نصرت کے ساتھ مشروط ہے۔
اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے عوام الناس کے ذہنوں سے شریعت کے بارے میں ایک بے بنیاد اور منتشر الخیال تصورِ شریعت کو دُور کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر ان کے ذہن میں شریعت کے نفاذ کا مفہوم واضح شکل اختیار کر سکےاور وہ ایک روایتی اور محدود تصورِ شریعت سے نجات حاصل کر سکیں۔ اس گئے گزرے ماحول میں بھی ایک پڑھا لکھا شہری ہو یا ایک دیہاتی، اگر اس سے پوچھا جائے کہ جس اخلاقی ،معاشی ،سیاسی اور معاشرتی بحران میں ملک و ملت مبتلا ہیں اس سے کس طرح نکلا جا سکتا ہے؟تو اس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ اس کا حل نہ سرمایہ دارانہ معیشت و سیاست میں ہے ، نہ اشتراکی تصورِ حیات میں ، دنیا ان دونوں نظاموں کے تباہ کن نتائج کو بھگت رہی ہے ۔ دونوں نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ لادینیت مشرق و مغرب میں کسی مسئلے کو حل نہیں کر سکی ۔ اس لیے اسلام کے عالم گیر اور آزمودہ نظامِ شریعت کا نفاذ ہی مسائل کا واحد حل ہے۔ لیکن اگر اگلا سوال یہ کیا جائے کہ شریعت کے نفاذ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ عموماً جواب ملتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹنا اور کسی کو بدنام کرنے والے یا افواہ سازی کرنے والے کو کوڑے مارنے اور کسی اخلاقی مجرم کو سنگسار کرنے کا نام شریعت کا نفاذ ہے ۔ اگر مزید سوال کیا جائے کہ کیا صرف ان سزاؤں کے نفاذ سے نظام میں اصلاح ہو جائے گی؟ تو عموما ًیہی کہا جاتا ہے کہ آخر دورِخلافت میں شریعت کے نفاذ نے امن و امان ،تحفظ اور معاشی خوش حالی دی تھی ،اس لیے آج بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن ہمارے خیال میں اس میں مزید گہرائی میں جا کر عقلی دلائل کے ساتھ شریعت کے مجموعی مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تحریک اسلامی تبدیلیٔ نظام کو اسلامی نظام حیات کے نفاذ کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ گویا نہ صرف قانون بلکہ تمام ریاستی نظام کو وہ تعلیم ہو یا معیشت و سیاست اور ثقافت، ہر شعبہ کو اسلامی اخلاقی اصولوں کا تابع کیا جانا شریعت کا نفاذ ہے ۔لیکن عوام الناس کا تصورِ نفاذِ شریعت اور تحریک اسلامی کا تصورِ نفاذِ شریعت عملاً ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جس کی بنا پر ایک وسیع ابلاغی خلا مستقلاً موجود رہتاہے اور اس فرق کو دُور کرنے کی فوری ضرورت ہے۔کسی بھی مسلم ملک میں عوامی رائے معلوم کی جائے تو نفاذِ شریعت کا مطلب حدود کا نفاذ ہی لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک زمانے میں اسلامی نظام کے قیام کے نعرے کے تحت حدود آرڈیننس جاری کر کے یہ تصور دیا گیا کہ ایک فوجی حکومت نے عوامی خواہش کے احترام میں یہ اقدام اٹھایا ہے۔
اس تصورِ نفاذِ شریعت نے نہ صرف اسلام کے سیاسی استعمال کے تصور کو فروغ دیا بلکہ وسیع پیمانے پر اسلامی شریعت اور حدود کے نفاذ کے نعرے کو یکساں تصور کیا جانے لگا۔ساتھ ہی ملک کے لبرل ابلاغ عامہ اور بیرونی برقی ابلاغ خصوصاً بی بی سی نے دستاویزی فلمیں بنا کر یہ تاثر گہرا کردیا کہ خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنا،گھر میں قید کرنا اور اخلاقی جرائم کی سزا میں کوڑے مارنا اورچادر سے ڈھانک کر کلاشن کوف سے گولی مارنے اور سنگسار کرنے کا نام ہی نفاذِ شریعت ہے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔ ایک جانب اسلامی حدود کے نفاذ کو سفاکیت قرار دے کر اسلام دشمنی کی گئی اور دوسری جانب حدود کا نشانہ خواتین کو بنا کر عالم گیر پیمانہ پر مسلم دنیا میں خواتین کے ساتھ ظالمانہ رویے کے تصور کو ذہنوں میں راسخ کر دیا گیا،جو شریعت کے بنیادی مقصد سے عدم آگاہی کا واضح ثبوت ہے۔اس تصورِ شریعت کو مغربی ابلاغ عامہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور دل کھول کر اس کی تشہیر کی گئی، حتیٰ کہ پڑھے لکھے مسلمانوں میں بھی نفاذشریعت کا خوف دل و دماغ میں سرایت کر گیا۔تحریک اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو عام فہم انداز میں عوام کے سامنے رکھے اور اہل علم کے ذریعے پورے ملک میں سیمیناروں اور سماجی مجلسوں اور علمی نشستوں کے ذریعے نفاذِ اسلام کی مثبت اور جامع تصویر کو ذہنوں میں واضح کرے۔
دوسرے الفاظ میں نفاذِ شریعت کے مغربی ابلاغ عامہ کے قائم کردہ مسخ شدہ تصور کی جگہ قرآن و سنت پر مبنی مثبت اور تعمیری تصور کو ہر سطح پر آسان زبان میں واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلا ًشریعت کے سات معروف مقاصد یعنی lتوحید l عدل l حفظِ نفس l حفظِ دین l حفظِ عقل lحفظِ نسل اور lحفظِ مال ہیں۔
ان میں ایک سب سے اہم مقصد انسانی جان کا تحفظ ہے ۔ یعنی امن عامہ کی صورتِ حال کو اس درجہ بہتر بنا دیا جائے کہ گلیوں ، بازاروں اور گھروں میں ہر فرد محفوظ و مامون ہو ، کوئی کسی کو راہ چلتے گولی کا نشانہ نہ بنا سکے ۔ کوئی راہ چلتے کسی فرد یا کاروبار میں مصروف کسی تاجر کوا سلحے کی نوک پر لوٹنے کا تصور بھی نہ کر سکے ۔ خواتین ، بچے اور معاشرےکے ہر طبقےکی جان و مال اور عزّت و آبرو کو بھرپور ریاستی تحفظ حاصل ہو۔ اسلامی شریعت کے انسانی جان کو تحفظ دینے اور انسانی حقوق کے حوالے سے نفاذِ شریعت کا یہ پہلو آج اچھے خاصے پڑھے لکھے مسلمانوں کی نگاہ سے بھی اوجھل ہے۔اس کی جگہ نفاذِ شریعت کا تصور صرف پھانسی ، کوڑے اور سنگسار کرنے کے ساتھ وابستہ ہوکر رہ گیا ہے ۔
انسانی جان کے تحفظ کے مقصد ِشریعت پر اگر ایک اور پہلو سے نگاہ ڈالی جائے تو بات زیادہ آسان ہو جائے گی یعنی انسانی جان کا تحفظ اس وقت ممکن ہے، جب عوام کو غذا اور فضا میں جراثیم ، آلودگی اور ہر قسم کی ملاوٹ اورگندگی سے پاک، صاف و شفاف پانی، غذا اور ماحول فراہم کیا جائے ۔ گویا نفاذِ شریعت کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف شہروں میں بلکہ گاؤں اور قصبوں میں بھی آلائشوں اور گرد آلود پانی کی جگہ صاف پانی وہوا فراہم کی جائے، تاکہ عوام طرح طرح کی بیماریوں کے شکار نہ ہوں۔ انسانی جان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب سڑکوں اور بازار میں جو انسان سانس لے رہے ہیں انھیں وہ ہوا میسرآئے جس میں کاربن اور دیگر گیسوں کی آمیزش اور مضر صحت اجزا موجود نہ ہوں۔ گویا ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ شریعت کے نفاذکے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔
انسانی جان اسی وقت محفوظ ہو سکتی ہے، جب زندگی بچانے والی معیاری اور اصلی ادویات عوام کو مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں ۔ جعلی ادویات کی تیاری اور ان کی بازار میں فراہمی اور فروخت پر سخت پابندی ہو، چنانچہ ایسے افراد اور اداروں کے خلاف قانونی کاروائی مقاصد شریعت کا ایک لازمہ ہے ۔ گویا شریعت نافذ ہو گی تو سرکاری اداروں کو پوری قوت سے جعل سازوں کو نہ صرف جعلی ادویات کی تیاری سے روکنا ہو گا بلکہ اگر کوئی فرد یا ادارہ یا گروہ اس مکروہ کاروبار میں ملوث پایا جائے تو عدل و انصاف کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے میں ایسے جعل ساز دشمنوں کو مثالی سزائیں دی جائیں گی۔ اس پہلو پر اگر درست طور پر عمل نہ کیا جارہا ہواور جعلی ادویات کی تیاری و فروخت کی آزادی ہو،تو اس کا مطلب ہے کہ مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد چاہے کتنی ہی بڑھ جائے ، اس کے باوجود شریعت نافذ نہیں ہوئی ۔انسانی جان کے تحفظ کے اصول اور مقصد کے جامع مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر شہری کو اس کی جسمانی ضرورت کے لحاظ سے نہ صرف معیاری غذا، شفاف پانی، معیاری ادویات اور آلودگی سے پاک ہوا کی فراہمی ممکن بنائی جائے بلکہ اس کی دیگر بنیادی ضروریات کو بھی ریاستی نگرانی میں پورا کیا جائے ۔
انسانی جان کے تحفظ کا ایک بنیادی مطالبہ یہ بھی ہے کہ انسانوں کو دھوپ ،گرمی ،سردی، بارش اور دیگر ماحولیاتی خطرات سے سے محفوظ رکھنے کے لیے لباس اور سر چھپانے کے لیے گھر میسر ہو۔ اس کے ساتھ انسان کی بنیادی ضرورت یہ علم ہے کہ کس چیز میں خیر ہے اور کس میں شرہے، کیا چیز حلال ہے اورکیا حرام ؟کیونکہ شریعت کا معروف اصول ہے کہ حلال اور طیب طور طریقے زندگی کو ترقی دیتے ہیں اور حرام اور خبیث اطوار زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور تباہ کرتے ہیں۔ گویا انسانوں کو معروف و منکر کی تعلیم فراہم کرنا ، حق و صداقت سے آگاہ کرنا ، فسق و فجور کے تباہ کن اثرات سے خبردار کرنے کا نام نفاذِ شریعت ہے۔
ایک ریاست پانی ،غذا، مکان، کاروبار، خاندانی زندگی فراہم کر دے لیکن یہ نہ بتائے کہ کیا چیز اخلاقی اور قانونی طور پر جائز یا حلال اور کیا حرام ہے تو جان کا تحفظ کیسے ہوگا؟ کیا محض روٹی، کپڑا اور مکان دینا اور حلال و حرام ذرائع معیشت ، سیاست ، معاشرت اور ثقافت پر توجہ نہ دینے کا نام نفاذِ شریعت ہے؟ گویا جس شریعت کا نفاذ تحریک اسلامی چاہتی ہے، وہ قرآن و سنت کے دیے ہوئے اصولوں اور مقاصد کے مجموعے اور کُلی نفاذِ قرآن و سنت کا نام ہے۔ یہ صرف حدود کے نافذکرنے کا نام نہیں ہے، حدود اسلام کے وسیع تر نظام کا ایک جزو ہیں، لیکن کُل نہیں ہیں۔
ہم نے شریعت کےسات بنیادی مقاصدیعنی توحید، عدل ،حفظ نفس، حفظ عقل،حفظ دین، حفظ نسل اور حفظ مال میں سےصرف ایک مقصد اور اصول کو عام فہم مثالوں کے ذریعے ایک عام شہری کے لیے واضح کرنے کوشش کی ہے، بقیہ چھ مقاصد اور اصولوں میں سے ہر ایک وضاحت کا مستحق ہے۔ فی الوقت صرف ایک کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ مغرب اور مغرب زدہ افراد کا شرعی سزاؤں کے پہلو کو مبالغہ آمیز حد تک ڈرامائی انداز میں بیان کرنے کا مقصد نفاذِ شریعت کے ان پہلوؤں پر پردہ ڈالنا رہا ہے، جن کا ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے۔
آغاز میں یہ بات کہی گئی تھی کہ ملک میں اصلاح کے تناظر میں اکثر کہا جاتا ہےکہ ایک عادل ڈکٹیٹر یا ایک ظالم عوامی منتخب کردہ نمائندہ میں سے بہتر کون ہو گا ؟
حالانکہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ دو برائیوں میں کم تر برائی کی جگہ وہ کون سی صفات ہیں، جن کے حامل افراد کو قیادت پر لایا جائے؟ گویا اصل حل دو برائیوں میں سے ایک کو اپنے اوپر مسلط کرنا نہیں ہے بلکہ اصلاح حال اور تبدیلیٔ نظام ہے۔ جس کے لیے تین بنیادی وسائل ضروری ہیں: lایمان l انسانِ مطلوب اور lماحولیاتی وسائل کی مناسب منصوبہ بندی۔ ان وسائل کی تیاری اور فراہمی کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ یہ کام صبر آزما اور مستقل مزاجی کے ساتھ جذبات و احساسات پر قابو رکھتے ہوئے کرنا ہوگا۔ وقتی مسائل میں اُلجھ کر یہ کام نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے ترجیحات کا تعین اور حد بندی لازمی ہے۔ نیکی کا فروغ اور غلبہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک کارکن ہو یا قائد، اس کا کردار و عمل اس کے عقیدہ اور دعوت کا عملی ثبوت پیش کر رہا ہو۔ وہ بات کہنا جس پر ایک شخص خود عمل نہ کرر ہا ہو ، قرآن پاک کی نگاہ میں فسق ہے، جو ایمان کے منافی ہے۔
اصلاحِ حال صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب نفاذِ شریعت اور اقامت دین کے اس عام فہم تصور کو ہرباشعور شہری کے ذہن نشین کرا دیا جائے تاکہ وہ دل کی آمادگی کے ساتھ نفاذِ شریعت اور اقامت دین کی جدوجہد میں رضاکارانہ طور پر شامل ہو اور ہر بستی اور وادی میں نیکی ،خیر ،فلاح اور سعادت کا پرچم لہرائے ۔تحریک اسلامی جب اقامت دین کی بات کرتی ہے تو اولاً اس کی مراد اصلاحِ عقیدہ یعنی زندگی میں توحید کے اثرات کا ظاہر ہونا ہے۔اگر زبان سے تو لا الٰہ الااللہ کہا لیکن تمام اُمیدیں بیرونی قرضہ جات سے وابستہ ہیں اور ا سے رزق دینے والا تسلیم کیا جا رہا ہے، تو یہ عقیدۂ توحید کے منافی عمل ہے۔تحریک کی پہلی ترجیح اپنے کارکنوں اور تمام انسانوں کے عقیدہ کی اصلاح ہے اور اصلاح کی روشنی میں معیشت اور سیاست کے دیوتائوں کی جگہ اللہ ربّ العالمین کی حاکمیت کا نفاذ ہے۔
جہاں تک سوال قیادت کا ہے ، یعنی موروثی سیاست اور قوت کے استعمال سے اداروں پر قبضہ کرنے والوں میں سے ایک کا انتخاب، تو دونوں طریقے مقاصد شریعت کے منافی ہیں۔ قرآن و سنت کسی فوجی یا غیر فوجی یا پارلیمانی آمر کو حاکمیت کا حق نہیں دیتے۔ اس کے مقابلے میں بغیر کسی دباؤ کے آزادی کے ساتھ ایک امانت دار، متقی، صاحب ِعلم و عمل اور دینی فراست اور انتظامی صلاحیت رکھنے والے فرد کو عوامی انتخاب کے ذریعے ذمہ داری سونپنے کا نام نفاذِ شریعت کی سمت ایک سفر ہے ۔اسلام نے اس بات کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ قرآن و سنت کی جانب سے یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ اپنی امانتیں، امانت دار افراد کے سپرد کرو کیوں کہ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو فتنہ و فساد، ظلم اور استحصال کا ہونا فطری امر ہے۔
اگر ایک دیہاتی سے بھی یہ سوال پوچھا جائے کہ اگر ہم نے ایک شخص کو پانچ سال دن رات طبّ کی تعلیم و تربیت دے کراسے سکھایا ہے کہ انسانی جسم کے اعضاء کس طرح کام کرتے ہیں اور کس طرح انھیں صحت مند رکھا جا سکتا ہے؟ پھر کم از کم دو سال کسی ہسپتال میں مصروف رکھ کر عملا ًمریضوں کے مسائل کو سمجھنااور ان کا حل کرنا سکھایا ہے۔لیکن اگر اس سات سالہ تعلیم و تربیت کے بعد ہم اسے فوج کے سربراہ کے طور پر مقرر کر دیں تو کیا ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی اسے سمجھ داری قرار دے گا ؟اور سمجھے گا کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر ملک کے اندرونی اور بیرونی دفاعی خطرات کو سمجھ کر ملک کا دفاع کیسے کرسکے گا؟ اسی طرح اگر ایک شہری کو جس نے کبھی بندوق بھی نہ چلائی ہو مسلح افواج کا سربراہ بنا دیا جائے تو کیا وہ سرحدوں کا دفاع کر سکے گا؟ کیا کوئی صاحب ِعقل ایسا کارنامہ انجام دے سکتا ہے؟
قرآن و سنت کا دو ٹوک فیصaلہ ہے کہ مطلوبہ صلاحیت اور صفات کے بغیر کسی کا حاکم مقرر کیا جانا یا خود حاکم بن جانا امانت کے منافی اور خیانت ہے۔ اس لیے گڑھےاور کھائی میں سے کسی ایک کے انتخاب کی جگہ دین کی واضح تعلیمات کی روشنی میں اہلیت، امانت، علم و سیرت و کردار والے فرد ہی کو ملکی قیادت سپرد کرنا دین اسلام کا تقاضا ہے ۔
دین کو اس کے بھیجنے والے نے خود آسان بنا کر بھیجا ہے۔ اس کو بلا وجہ فلسفیانہ اُلجھاؤ میں ڈال کر مشکل بنانا دین کے مقصد اور مدعا کے خلاف ہے۔ ’قیادت کا مستحق کون ہے؟‘ جیسا سوال قرآن نے ایک لفظ سے حل کر دیا ہے کہ اس کا اہل ہونا شرط ہے( امانتیں ان کے اہل کے حوالے کرو)، اور جو اہل نہ ہو اس کا کسی ذمہ داری کو قبول کر لینا یا اسے ذمہ داری سپرد کرنا دونوں اسلام سے واضح انحراف ہے۔ جب بھی دین سے انحراف کیا جائے گا نتائج منفی اور نقصان دہ ہوں گے اور جب قرآن کی ہدایت پر عمل ہوگا اور قیادت اہلیت رکھنے والے افراد کو جو اللہ کے خوف، سیرت و کردار کے لحاظ سے صرف اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں ، وہ خود عہدے کے طالب نہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے عدل، سکون ،تحفظ اور ترقی قوم کا مقدر ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت کے عالمگیر اخلاقی اصولوں پر عمل کرنے اور ان کے مملکت میں نفاذ کا نام شریعت کی حکومت ہے۔مسلمان مفکرین اور فقہاء نے بادشاہت اور آمریت دونوں کو یکساں برائی قرار دے کر صرف کراہت کے ساتھ، فتنہ اور فساد سے تحفظ کی حد تک گوارا کیا ہے۔
تحریکاتِ اسلامی دعوتی، اصلاحی اور اجتہادی تحریکات ہونے کے سبب عسکری قوت کی جگہ قوتِ ایمانی اور کردار اور سیرت کی تعمیر کے ذریعے وہ تبدیلی لانا چاہتی ہیں، جو اندر سے ہو، دیرپا ہو اور دستور و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جائے۔یہ عام انقلابی تحریکات کی طرح محض قوت کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتیں۔ اس بنا پر ان کے اہداف طویل المیعاد ہوتے ہیں۔ فوری تبدیلی کی جگہ بتدریج تبدیلی ان کا شعار ہے۔ یہی چیز پروگرام، اہداف اور حکمت عملی پر غالب رہنی چاہیے۔
بیسویں صدی کی مسلم دنیا میں مختلف محاذوں پر اہل علم نے جو کارنامے انجام دیئے، ان کی اہمیت کے پورے احساس کے ساتھ، ان تمام کوششوں میں برصغیر میں اُبھرنے والی فکری انقلابی تحریک جس کی قیادت علامہ اقبال اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے کی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جمال الدین افغانی(۱۸۳۸ء-۱۸۹۷ء)، محمد عبدہٗ (۱۸۴۹-۱۹۰۵ء)،امیر شکیب ارسلان (۱۸۶۹ء-۱۹۴۶ء)اور سیّد احمد خان (۱۸۱۷ء-۱۸۹۸ء)نے اپنے اپنے شعبے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں ،لیکن ان کے اثرات اپنے دائرہ کار تک محدود رہے۔
علامہ اقبال، حسن البنا اور سیّد مودودی کی اجتہادی فکر اور دعوتی قیادت نے دعوتِ فکر کوایک منظم عملی تحریک اور منصوبۂ اصلاح میں تبدیل کیا۔ جس کے اثرات ایشیا، یورپ، افریقہ، لاطینی امریکا اور شمالی امریکا وغیرہ میں نہ صرف رجالِ کار کی شکل میں بلکہ دعوتی اداروں اور تحریکات کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ علّامہ اقبال، حسن البناء، سیّد قطب اور سیّد مودودی کی تحریریں دُنیا کی ۴۵ سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوکر دُنیا بھر میں پھیل چکی ہیں۔ یہاں پر ان تحریروں کے اثرات کا جائزہ مقصود نہیں ہے، بلکہ صرف یہ اشارہ کرنا ہے کہ ان کی فکر کے زیر اثر مسلم دنیا میں اسلامی احیاء کے کن زاویوں پر کام ہوا اور کن پر کام کی ضرورت ابھر کر سامنے آئی۔
مسلم دنیا میں کسی بھی احیائی کام کے لیے اس بات کی ضرورت تھی ،اور آج یہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ مغربی فکر کو جسے ’عالم گیریت‘ کے عنوان کے تحت بہت سلیقے اور چابک دستی کے ساتھ پوری مسلم دنیا میں نظامِ تعلیم، سیاسی اداروں، عدالتی نظام اور دفاعی نظام کے ذریعے مسلط کیا گیا اور نتیجتاًمسلم تہذیب اور مسلم معاشرت اس کا پہلا ہدف قرار پائے ۔ما بعد جدیدیت کے دور میں فکرِمودودی نے پہلا اہم کام الحاد، مادیت ،یورپی ثقافت کے عالم گیریت کے نام پر سامراجی حاکمیت کی شکل میں مسلم ممالک میں رائج کیے جانے کاتنقیدی محاکمہ کیا۔ پھر سرمایہ دارانہ ، ملحدانہ اور اشتراکیت پر مبنی تصورات کا علمی رَدّ کے ساتھ اسلامی نظامِ حیات کو بطور بہتر اور اعلیٰ متبادل کے پیش کیا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا میں ایک فکری انقلاب ،توحیدی فکر کی شکل میں مغرب کے پیدا کردہ عصری، معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کا متبادل حل پیش کرے۔ اس کا فکری معیار وہ ہو جو مغربی فکری سحر کو توڑ کر اسلامی فکر و تہذیب کے خط و خال کو عرق ریزی کے ساتھ پیش کرتا ہو۔
ڈھائی سو سال کی ذہنی ،سیاسی، ثقافتی اور صحافتی غلامی نے مسلم ممالک کی آبادیوں کے ذہنوں کو اس طرح یورپ کے فکری سانچے میں ڈھال دیا ہے کہ آج ہر وہ قدر جو یورپی سند رکھتی ہو، عالمی طور پر ترقی کا پیمانہ سمجھی جاتی ہے۔ بڑی واضح مثال برطانیہ کے دو پیشہ ورانہ ادارے یعنی Times کی Ranking علمی درجہ بندی اور دوسرا Q.S (کوالٹی سسٹم)کی درجہ بندی ہیں ،جو نہ صرف مسلم دنیا بلکہ عملاً ان تمام ممالک میں جن پر یورپی سامراج کے اثرات رہے ہیں اور ہیں، وہ ان کی جامعات کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر اور یونی ورسٹیوں میں طالبانِ علم داخلہ لینے کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔جو پیمانے انھوں نے بنا دیئے ہیں وہی طے کرتے ہیں کہ کون سی جامعہ ترقی کر رہی ہے اور کون سی جامعہ رُوبہ زوال ہے؟ ایسے ہی HDI (ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس)جو یہ طے کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کس معیار کی ہے اور خود انسان کتنے ترقی یافتہ ہیں؟ اس کا پیمانہ یہ ممالک اور ان کے دانش ور نہیں بلکہ مغرب طے کرتا ہے ۔ حتیٰ کہ اگلی صدی میں جن ممالک اور قوموں کو زندہ رہنا ہے یا رہنے کا حق نظری طور پر ملنا چاہیے۔ ان کے ۱۷ معیارات SDG's (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز)بھی یورپ اور امریکا متعین کرتا ہے ۔جس کی بنیاد پرنہ صرف مسلم ممالک بلکہ پوری دنیا کے نظامِ تعلیم کو پڑھایا جائے گا ، خواتین کے حقوق کون سے ہوں گے؟ وہاں کا سیاسی نظام کس قسم کا ہو گا؟ غرض ان کی قومی ضروریا ت وہ ممالک نہیں بلکہ مغرب طے کر کے دیتا ہے اور ان ممالک کا کام صرف ان اہداف کے حصول کے لیے اپنے تمام وسائل کا لگا دینا ہے۔
یہی شکل نام نہاد انسانی حقوق کی ہے ۔ انسانی یا حیوانی حقوق (ہم جنسیت کا ریاستی سطح پر جائز اور قابل قبول طرز عمل ہو نا)مغربی سامراجی ادارے طے کرتے ہیں ، چنانچہ ان SDG'sکا نعرہ بھی اقوام متحدہ کے نقارخانے میں گونجتا ہے۔ پھر مسلم ممالک میں ان کے زیراثر طاقت ور حلقے فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ آیندہ ۲۰ یا ۳۰سال میں ہم ان تمام معیارات پر اپنے فکری آقاؤں کی خواہش کے مطابق عمل کرکے اباحیت، مادیت اورعریانیت کا نفاذ اور خاندانی نظام سے نجات حاصل کرنے کے بعد برضا و رغبت مغربی استحصالی ،معاشی اور سیاسی نظام کے جال میں مکمل طور پر پابند سلاسل ہونے کا اعزاز حاصل کر لیں گے۔ اس بات کو دُکھ کے ساتھ نہیں بلکہ فخر اور خوشی کے شادیانوں کے ساتھ سربراہانِ ممالک اور وزرائے بے اختیار اپنے بیانات میں پے درپے بیان فرماتے ہیں۔لیکن اللہ کی مشیت ان کے تمام منصوبوں سے بر تر ہے___ان شاء اللہ، مسلم ممالک کے باشعور نوجوان اس خواب کو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔
یہ وہ بنیادی کام ہے جس کے بغیر تمام سیاسی سرگرمیاں، جلسے، جلوس اور عوامی مقبولیت کے دعوے اور مظاہرے بے معنی ہیں۔ اسلام کا تصورِ علم وحی کی صداقت، کاملیت، عملیت اور عالم گیریت پر مبنی ہے۔ یہاں علم نہ محض تجرباتی ہے، نہ محض قیاسی، نہ محض استقرائی یا استخراجی ،اور نہ صرف حسی تجزیاتی یا وجدانی، بلکہ ان تمام معروف اور رائج ذرائع علم سے ماورا،صدق ،حق ،علم نافع اور معروف پر مبنی وہ علم ہے،جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد اور انسانی فطرت اور مقصد حیات اور مقاصد شریعت کی بنیاد پر اصلاح، ترقی اور سعادت و کامرانی کی ضمانت دیتا ہے۔
جب کہ مروجہ علم کی تقسیم یہ ہے کہ علم دنیاوی چیز ہے۔ چنانچہ انجینئرنگ، میڈیکل اور دیگر شعبہ ہائے علم دنیاوی سمجھے جاتے ہیں، جو روزی کمانے کے لیے ہیں۔ ان کے برعکس یہ تصور کیا جاتا ہے کہ دینی علوم قرآن و حدیث، فقہ، کلام وغیرہ کا تعلق تو صرف روحانی بالیدگی کے لیے ہے۔ یہ ایک سخت غیر اسلامی تقسیم ہے جو مسلم دنیا میں صدیوں سے رائج ہے۔ وحی الٰہی قرآن کریم کی شکل میں ہو یا اس کی تطبیقی شکل میں سنت رسولؐ کی شکل میں ہو، ہر دو شکلوں میں زندگی کو غیر منقسم اور توحید کا مظہر تسلیم کرتی ہے۔ انسان کی معیشت ،معاشرت ،سیاست ،جنگ و جدل، کائینات میں تحقیق و جستجو ہرشے کو دین کا حصہ اور دین کی رہنمائی پر مبنی قرار دیتی ہے۔ وحی کی کاملیت، جامعیت اور عملیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ محراب و منبر تک محدود نہیں ہے بلکہ عدالتیں ہوں یا ایوان نمائندگان یا معاشی منڈیاں اور دانش وروں کے قیاسی محل، ہر انسانی سرگرمی کو وحی الٰہی کے مطابق تشکیل دینا اور اسلام کو ’نظریہ‘ کی جگہ ’نظام‘ سمجھتے ہوئے اس کے نفاذ کے لیے فکر ،جان ، مال کو کھپا دینا ،علمِ نافع کے پیدا کرنے کے لیے تمام ذہنی قوتوں کو صرف کر دینا، دین کا مقصد و مدعا ہے۔
دینی اور دنیاوی تعلیم کی تقسیم کا تصور دراصل ایک سیکولر تصور ہے کیونکہ سیکولرزم آسان لفظوں میں Dualism یا ثنویت کا نام ہے کہ زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک خانہ مسجد اور کلیسا کا ہو، اور دوسرا خانہ مارکیٹ، سٹاک ایکسچینج اور پارلیمنٹ کا پھر ان دونوں کا کوئی اتحاد اور امتزاج نہ ہونے پائے۔ اسلامی یا اخلاقی علم اس دو عملی کو توحیدی نظام میں تبدیل کرتا ہے۔ اس لیے علم کی تعریف اور علمِ نافع کا حصول اور معاشرے میں مختلف جہتوں میں عملی ترقی، جب تک توحید ی تصورِ علم کے مطابق نہیں ہوگی، نہ ہم ذہنی غلامی سے نکل سکتے ہیں اور نہ اللہ کی حاکمیت تمام شعبوں پر قائم کر سکتے ہیں۔
مسلم دنیا کے مقتدر طبقے اسلام کو نظریہ تو مانتے ہیں، نظام نہیں مانتے۔ وہ حرم کعبہ کی طرف جاتے وقت اللہ اکبر، لا اِلٰہ اِلَّا اللہ اور لہ الحمد ولہ الملک کا اعلان تو بلند آواز میں کرتے ہیں، لیکن بادشاہتوں اور سودی تجارتی منڈیوں اور بنکوں کے بغیر زندگی کو نامکمل بھی سمجھتے ہیں۔اس لیے اسلام کو بطور نظامِ حیات سمجھنے اور کم از کم اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی میں نافذ کر کے اس کی عملیت کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف ایسی نوجوان نسل کرسکتی ہے، جس کے خون میں ایمان کی حرارت ہو اور نسل پرست سفید فام یورپی سامراجیت کی غلامی سے اس کا ذہن اور روح پاک ہو چکی ہو۔ الحمدللہ، آج ایسے سیکڑوں نہیں لاکھوں نوجوان مسلم اور غیر مسلم دنیا میں موجود ہیں، اور یہی اسلام کی نشاتِ ثانیہ یعنی زوال سے عظمت کی سمت کے سفر کا ذریعہ بنیں گے، ان شاءاللہ ۔
مسلم دنیا میں مساجد اس وقت سرکاری ،لادینی نظام یا نظام بادشاہی کی صدائے بازگشت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ ملایشیا ہو یا ترکی یا کچھ اور، نام نہاد مسلم ممالک مطبوعہ سرکاری خطبہ جس میں آج تک سلطان کو ظلِ اللہ کا درجہ دیا گیا ہے،عوام الناس کے سامنے سنا دیا جاتا ہے۔ ان تمام مساجد میں حلقۂ غور و فکر قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ عوام میں بھی دین کے نظریے کی جگہ نظامِ تربیت ہونے کا تصور واضح کیا جا سکے اور زمامِ کار کی تبدیلی کے لیے افرادی قوت کو فکری تطہیر و عملی تنظیم کے ذریعے یکجا کیا جائے ۔
عوامی اجتماعات اور ’عوامی قوت‘ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایک نظریاتی تحریک اور ایک عوامی تحریک میں بنیادی فرق ہے۔تحریکات اسلامی کی اصل پہچان ان کی سیرت و کردار کی اثر انگیزی ہے، کثرت تعداد نہیں۔قرآن کریم نے ۲۰صابرین کو ۲۰۰ گمراہ افراد پر غالب قرار دیا ہے، یعنی اصل قوت تقویٰ، صبر، استقامت اور توکل علی اللہ کی ہے، عددی اکثریت کی نہیں۔اسلامی احیاء کے لیے اصول بھی قرآنی ہی ہوں گے۔ کسی مقام پر کسی سیاسی جماعت کے کامیاب ہو جانے سے ایک اصول وجود میں نہیں آتا۔ اصول و صداقت وہ ہے، جو قرآن و سنت کے نصوص پر مبنی ہو۔تحریکات اسلامی کو اپنی علمی ،سیرت و کردار اور عصری مسائل سے آگاہی کے ساتھ ان کے قابلِ عمل اسلامی حل انسانوں کے سامنے پیش کرنے ہوں گے۔
یہ کام محض دعوے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بنا کر مالی وسائل فراہم کرنے اور افرادی وسائل کی تلاش و تیاری کی ضرورت ہے ۔ایسے افراد کار کی تیاری جو قرآن و سنت، فقہ اور جدید علمی رجحانات پر عبور رکھتے ہوں اوران میں تخلیقی صلاحیت ہو۔ جب تک ایسے افراد کی ایک جماعت زندگی کے ہر شعبے میں تیار نہ ہوجائے، تحریکات اسلامی مطلوبہ تبدیلی نہیں لاسکتی ہیں۔ خواہشوں سے زیادہ ٹھوس انسانی وسائل کی تیاری تحریکات کا ہدف ہونا چاہیے ۔ یہ کام وہی کرسکتے ہیں جو مستقلاًحصولِ علم اور تحقیق کے عادی ہوں۔شہرت کی جگہ گوشہ نشینی کے ساتھ اس علمی جہاد کے ذریعے معاشرے کے عام انسانوں کو اسلام کے عظیم پیغام کے عملی پہلو سے متعارف کرا سکتے ہوں۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ لادینیت اور مغربیت کے فروغ کے باوجود مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان میں دینی مدارس کے ذریعے تعلیم پانے والے مدرسہ کے مسلک سے وابستہ طلبہ غیرشعوری طور پر اپنے مسلک کو راجح اور دیگر مسالک کو مشتبہ تصور کر لیتے ہیں۔ یہ بنیادی کام ہے کہ دین کی اس وسعت کو جس میں شور یٰ کی فرضیت نے تبادلۂ خیالات،مشاورت، بحث و مباحثہ اور تقلید ِجامد کو توڑنے کی راہ پیدا کی ہے، اس کا شعور عام کیا جائے۔ اس بات کو آگے بڑھایا جائے کہ صرف قرآن و سنت کے براہِ راست فہم سے عصری مسائل پر اظہارِ خیال کیا جائے، تاکہ آہستہ آہستہ مسلکی ذہنی جمود سے نکالا جاسکے۔ درحقیقت ملت اسلامیہ کی بنیاد پر اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر اور غزہ اور فلسطین میں کوئی دشمنِ اسلام کسی کا مسلک نہیں پوچھتا ، صرف مسلمان ہونا اس کے شہید کیے جانے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔
یہ کام صرف تحریکات اسلامی ہی کر سکتی ہیں کیونکہ وہ اپنی اپنی جگہ فقہی رہنمائی حاصل کرنے کے باوجود، وسیع تر دائرے میں اپنے آپ کو اُمت سے وابستہ سمجھتے، قرار دیتے اور عملاً چل کر دکھاتے ہیں۔وہ نہ مولانا مودودی اور نہ شہید حسن البنا کو، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے مترادف قرار دیتی ہیں، اور نہ تحریکات اسلامی کے ان داعیوں نے اپنی رائے کو تحریک پر نافذ کرنے کی کوئی کوشش یا مثال قائم کی ہے۔
دلوں کو جوڑے بغیر اور مسلکی فاصلوں کو کم کیے بغیر، کوئی اصلاحی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تحریکی افراد خود فقہ کا تقابلی مطالعہ اور خصوصا ً رواس قلعجی کی موسوعة فقہ الاسلامی جس کا ترجمہ اردو میں ہوچکا ہے، اس کا سبقاً سبقاً مطالعہ کیا جائے تاکہ وہ توسیع فکر پیدا ہو جو تحریکات اسلامی کا خاصہ ہے ۔
تحریکات اسلامی کی نوجوان قیادت کو اپنے اپنے دائر کار سے نکل کر عالمی تناظر میں رُوبہ زوال مغربی تہذیب کا براہِ راست تحقیقی مطالعہ کرنا چاہیے اور اسلامی تحریکات کے آیندہ ۲۵برسوں میں جو فکری اور عملی تقاضے اور محاذ سامنے آنے والے ہیں ، خصوصاً برقی ابلاغ عامہ اور مصنوعی ذہانت (AI)کے کثرت سے استعمال کو سامنے رکھتے ہوئے طریقِ دعوت، دعوتی مواد اور داعی کی مطلوبہ شخصیت و کردار کے حوالے سے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔بعض عوامل مشترک ہیں اور بعض مخصوص ہیں، جو مشترک ہیں ان میں تعاون اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا اور ان کو تسلیم کرنا ہی تحریکی حکمت عملی کا مطالبہ ہے۔
مختلف مقامات پر حالات اور مقامی تناظر میں حکمت عملی کا فرق ایک فطری عمل ہے جسے نظر انداز کرنا بھولپن ہے۔ اس لیے ایک مقام کی حکمت عملی کو دوسری جگہ آنکھیں بند کرکے اختیار کرنا بھولپن ہی نہیں حماقت بھی ہوگا، ایسے بھولپن کی بنا پر خصوصاً نوجوان کارکن ، تیونس اور ترکی کی مثال بطورِ تقلید بغیر کسی تحقیقی مطالعے کے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ان خطوط پر کام کیا جائے تو تحریک جلد اپنا مقصد حاصل کر لے گی ۔ یہ تصور ، عقلی اور تحریکی دونوں زاویوں سے سخت نظرثانی کا مستحق ہے ۔ حقائق وہ نہیں ہیں، جو تخیل و تصور میں قیاس کرلیے گئے ہیں۔
تحریکات اسلامی کو ردعمل کی ذہنیت سے نکلنا اور جاہلیت کے منابع کو سمجھ کر ان سے خطاب کرنا ہوگا۔ اس طرح ایک صحت مند مکالمہ جو قرآنی مطالبہ ہے، انھی شرائط پر کرنا ہوگا۔ بعض مسلم ممالک نے مغرب کی نقالی میں جو کوششیں کی ہیں، وہ سخت معذرت پسندانہ رویے کی مظہر ہیں۔اسلام کے واضح اور ابدی اصولوں پر مبنی دینی، عملی، معاشرتی، معاشی، سیاسی مسائل کو مخاطب کرتے ہوئے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں بغیر کسی معذرت خواہی کے جہاد، خواتین کے حقوق ، جنسی بے راہ روی، اسلامی ریاست اور پاپائیت پر مبنی عیسائی تصور وغیرہ پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ عالمی آبادی کا پھیلاؤ ، موسمی تغیرات، معاشی اور دفاعی حکمت عملی، مظلوم مسلم اقلیات اور مظلوم مسلم اکثریتی عوام کے مسائل پر زمینی حقائق کی روشنی میں تبادلۂ خیال کیا جائے تو نظر آئے گا کہ جتنی مسلم دنیا میں مسلم آبادی مظلوم اور بے بس ہے، شاید اس سے کچھ کم وہ ان نام نہاد جمہوری ممالک میں نہیں ہے جو اپنے لبرل اور جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود اپنی نسلی قوم پرستی کی بنا پر وہ مغربی آٹھ بڑے قبیلے ہوں(گروپ آف جی ۸) یا ۲۲ ممالک کا اتحاد، دوسروں کو تو چھوڑیں ایک طرف، وہ خود اپنے عوام کو بھی حقوق دینے میں ناکام رہے ہیں جن پر دن رات تقاریر کی جاتی ہیں ۔اس مکالمے کے لیے تحقیقی مواد کی تیاری، موضوعات اور کس وقت کس موضوع کو اٹھایا جائے ،یہ سب کام غور وخوض کے بعد کرنے کی ضرورت ہے اور اس حکمت عملی کی تیاری میں مسلم ممالک کی تحریکی قیادت کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
گذشتہ پانچ عشروں میں بار بار اس عزم کے اظہار کے باوجود کے بس چند دنوں میں، ملّت کے مفاد کو پیش نظر رکھنے والا چینل وجود میں آجائے گا، آج تک اس کام کو ترجیح کا مستحق نہیں سمجھا گیا۔ آج کا دور بر قی ترسیل کا ہے ۔ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت کے استعمال کے بغیر کوئی نظریاتی جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ ایک نہیں دس ایسے اداروں کی ضرورت ہے، جو اسلامی تہذیب و تمدن اور اس کے حرکی واطلاقی پہلو کی دعوت و فکر کے مختلف پہلوؤں کو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ پیش کرسکیں۔ (کسی حد تک الجزیرہ کی مثال سامنے ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کس فکر کا نمایندہ ہے، اس نے اپنا ایک مقام پیشہ ورانہ حیثیت سے منوایا ہے)۔
پہلے ہی بہت وقت ضائع ہوچکا ہے۔ اب مزید گنجایش نہیں ہے اور بغیر کسی تاخیر کے نہ صرف مستقل چینل بلکہ آن لائن بیسیوں چینل اور سوشل میڈیا پر متاثر کن پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اس تعمیری فکر کو عمومی سطح پر نوجوانوں کے لیے ،بچوں کے لیے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لیے، خواتین کے لیے، تاجروں کے لیے اور دیگر پیشہ ورانہ افراد کے لیے ان کی ضرورت کے پیش نظر مرتب کر کے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ کام کسی بڑے سرمایے کا محتاج نہیں ،صرف ترجیح اور چند پُرعزم افراد کا اپنے کو اس کے لیے وقف کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریکات اسلامی کو اپنی ترجیح میں اولین ترجیح، فکری تطہیر اور تحریکی فکر کے نمائندہ افراد کار کی تیاری کو رکھنا ہوگا۔ تحریک کو عوامی بنانے کی خواہش میں اس اوّلین ترجیح پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ مغرب سے ہمارا مقابلہ محض معاشی اور مادی یا سائنسی تحقیقی میدان میں نہیں ہے، بلکہ اصل مقابلہ فکری، ثقافتی، معاشرتی اور خاندانی سطح پر ہے۔اس کے لیے تحقیق پر مبنی مطالعے کی مسلسل کاوشوں اور ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے، جو تعلیم کو قرآ ن و سنت کی بنیاد پر ایک بالکل نئی متحرک شکل دے سکے۔
کسی ملک کی معیشت کی سمت کا اندازہ کرنے کے لیے عموماً جو پیمانہ اختیار کیا جاتا ہے، اس میں تین چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں: ایک عام شہری کو روزگار، تعلیم اور صحت کے لحاظ سے کیا سہولیات حاصل ہیں؟ اور ایک عام شہری اپنے روزانہ کے اخراجات کے لیے کم از کم کتنی آمدنی پیدا کر پا رہا ہے؟ آمدنی کا کم از کم پیمانہ عموماً تین اعشاریہ چھ پانچ ڈالر یا ایک ہزار پندرہ روپے سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ایک محنت کش اس معیار سے بھی کم، یعنی مشکل سے دوڈالر روزانہ میں گزارا کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ افراد جو اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں، عیش و عشرت کی حدود کو بھی پار کر چکے ہیں۔ لیکن ان کی مزید دولت کے حصول کی ہوس میں ذرہ برابر کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ملک میں روزانہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ، بے روزگاری ، عدم تحفظ، گلی کوچہ و بازار میں جرائم کی وارداتوں میں اضافہ جیسے معاشرتی مسائل نہ ان کو نظر آتے ہیں اور نہ انھیں اس کی کوئی پریشانی ہوتی ہے۔
ملک کے معاشی عدم استحکام کا ایک بڑا بنیادی سبب سیاسی اور فیصلہ کن اداروں پر قابض افراد کا مالی وسائل کو قوم کی ترقی کی جگہ اپنی ذات کے لیے مصرف میں لانا ہے۔ اس سیاسی و معاشی دہشت گردی، بددیانتی، استحصال اور ظلم نے عالمی اداروں کے اندازوں کے مطابق پاکستان کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکال کر غریب ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے،بلکہ کئی غریب افریقی ممالک کی معیشت پاکستان کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔
اس معاشی لُوٹ مار میں نوکر شاہی کے ساتھ دیگر ادارے بھی یکساں شریک نظر آتے ہیں۔ ۲۴؍ اپریل ۲۰۲۴ءکے اخبار ایکسپریس ٹریبون کی اشاعت میں سائرہ سموں کے مضمون ’اندرونی دشمن‘کے مطابق ملکی معیشت کی بدحالی کا بڑا سبب اندرونی دشمن یعنی وہ ادارے ہیں جن کا کام معیشت ،صحت، دفاع، تعلیم اور عدل و انصاف کو شفا ف طور پر قائم کرنا تھا، لیکن وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر اقتدار کی باہمی رسّہ کشی کا شکار ہیں۔
حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کی تاریخ رکھنے والی دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی باری کے دوران ملکی معیشت کو خسارے سے نکالنے کے بجائے خسارے میں مزید اضافے کا کارنامہ انجام دیتی رہی ہیں۔ پاکستانی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں سالِ رواں کے مالی سال کے پہلے نو ماہ میں مالی خسارہ ۴ ہزار ۳۳۷؍ ارب روپے سے آگے نکل چکا ہے،جب کہ متوقع حکومتی آمدنی ۵ہزار ۳۱۳ ؍ ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ملک پر واجب الادا سود کی مد میں اس وقت تک قرض حاصل کی ہوئی رقم پر ۵ہزار ۵۱۷ ارب روپے لگے ہیں، جب کہ اصل قرض جوں کا توں برقرار ہے۔ ناکارہ حکومت کو چلانے کے لیے گذشتہ نو ماہ میں ۵۱۶ ارب روپے خرچ کیے گئے، وہیں حکومت کی جانب سے رعایت (سبسڈیز)دینے پر ۴۷۳؍ ارب روپے صرف ہوئے ہیں۔
یہ اعداد و شمار کسی بھی ہوش مند شخص کے حواس گم کرنے کے لیے کافی ہیں، لیکن حکومت اور پارلیمان سے وابستہ افراد کی شاہ خرچیاں، دورے اور پُرتعیش گاڑیوں کی خریداری میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔حکومت کی آمدن اور اخراجات میں عدم توازن کسی سرکاری عہدے دار کو پریشان نہیں کر رہا۔ یہی شکل درآمدات اور برآمدات میں فرق کی ہے۔ اشیاء کی درآمد سے ملک کو ہر سال کم از کم ۱۲ سے ۱۴؍ ارب ڈالر کا خسارہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے غیر ذمہ داری کی انتہا یہ ہے کہ حال ہی میں ملک میں گندم کی اعلیٰ پیداوار کے باوجود ہم نے بیرون ملک سے گندم درآمد کی کہ چند افراد کمیشن بناسکیں۔
اس وقت ملک میں افراط زر کی شرح۲۵ فی صد ہے اور ایک عام شہری کے لیے ایک اوسط درجہ کے گھر میں بجلی، گیس اور پٹرول کے خرچے کے لیے وسائل سخت تنگ ہو چکے ہیں اور ریاستی بینک (اسٹیٹ بینک) میں بیرونی زر مبادلہ میں صرف آٹھ بلین ڈالر ہیں جو مشکل سے دو ماہ کے درآمدی اخراجات کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق نو کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر تھوڑے عرصہ بعد اضافہ ایک معمول بن چکا ہے ،جس کا فوری اثر ایک عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے اور ضروری استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی شہراور شہر سے باہر سفر کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر گذشتہ تین برسوں کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں کا مقابلہ کیا جائے تو بجلی کا ایک یونٹ جو ۳۲ روپے کا تھا ،آج ۶۰ روپے کا ہے ۔ڈالر جو ۱۸۹روپے کا تھا،آج ۲۷۹روپے کا ہے۔ پٹرول جو ۱۵۰ روپے لیٹر تھا، آج ۳۰۰ روپے کی حد کو چھو رہا ہے ۔
آئی ایم ایف کے ساتھ جب بھی مذاکرات ہوتے ہیں ان کی تان ٹیکس میں اضافہ پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر ہر دور میں حکومت نے سر جھکا کر انھیں قبول کیا اور قرض کے ساتھ ٹیکس میں اضافے کا براہِ راست اثر عام شہری پر ہی پڑا لیکن ملک میں بڑے تجارتی مراکز روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار کر رہے ہیں اور وہ ٹیکس کی گرفت سے آزاد ہیں اورملکی معیشت کی موٹی مچھلیاں ہمیشہ کی طرح محفوظ ہیں ۔ آئی ایم ایف کی تاریخ بتلاتی ہے کہ دنیا کے کسی ملک نے آئی ایم ایف کے قرضوں کے ذریعے اپنی معیشت کوآج تک مستحکم نہیں کیا اورخود انحصاری اختیارکرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ اگر کوئی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا تو صرف اور صرف قرض کے جال سے نکل کر اپنے اندرونی وسائل کے سہارے پیٹ کاٹ کر اخراجات میں کمی ، اپنی درآمدات میں کمی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو کاروبار میں زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کر کے ہی کامیاب ہو سکاہے۔
جب تک حکومت ِپاکستان اپنے شاہانہ اخراجات کو کم نہیں کرے گی اور سرکاری افسران، ممبران پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کے ممبران رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہوں کو کم اور مراعات کو ختم نہیں کریں گے ،کوئی بیرونی قرض ملکی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی زبوں حالی کا انتہائی فطری تعلق ہے۔ ۷۶ برس سے جو سیاسی جماعتیں باری باری ملکی وسائل کا استحصال کرتی رہی ہیں ،جب تک وہ اپنی فطرت کو نہیں بدلیں گی ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی ۔یہ ایسے حقائق ہیں جن کو جاننے کے لیے کسی کا ماہرِ معاشیات ہونا شرط نہیں ہے۔
نو دولتی معاشروں میں نمود و نمائش اور چمک دمک مرکزی مقام حاصل کر لیتی ہے اور وہ افراد جو اپنے کاروبار میں کامیابی کے ساتھ نفع کماتے ہیں بجائے بچت اور اس کے بعد اس کے مناسب مصرف کے اپنی دولت کی نمائش کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔اس کا اظہار ان گاڑیوں کا شہر میں استعمال ہے جو صرف پیشہ وارانہ ریس ٹریک پر چلنے کے لیے بنتی ہیں۔ ایک جانب کروڑوں روپے کی مالیت کی گاڑیاں ہر شہر میں دندنا رہی ہیں ، دوسری طرف غربت اور بے روز گاری عروج پر ہے ۔ نمود و نمائش کی اس ذہنیت کو ختم کرنے اور اس دولت کو جو نمائش پر ضائع کی جا رہی ہے صحیح استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔
یہ کام تنہا کوئی حکومتی حکم نامہ نہیں کر سکتا ،اس کے لیے ابلاغ عامہ اور سوشل میڈیا پر ایسے مباحثے منعقد کروانے کی ضرورت ہے جن میں ان طبقات کے افراد کو دعوت دی جائے اور اہل دانش ان سے تبادلۂ خیال کے ذریعے انھیں سماجی رویوں کی تبدیلی کی طرف متوجہ کریں۔ مزید یہ کہ ایسی پُر تعیش اشیاء کی درآمد اور ان کے استعمال پرغیر معمولی ٹیکس عائد کیا جائے۔ بعض ممالک مثلاً سنگاپور میں ایک سے زائد گاڑی والوں پر پابندی ہے کہ وہ اپنی پسند کی گاڑی صرف مخصوص دنوں میں استعمال میں لا سکتے ہیں۔
ملکی معیشت کو تباہی کے قریب لانے میں ان تجارتی اداروں کا بھی بڑا دخل ہے جو حکومت کی زیر سرپرستی چل رہے ہیں۔ وزارت خزانہ کی۲۰۲۰- ۲۰۲۲ء کی رپورٹ کی رُو سے اس عرصہ میں ان اداروں سے ۳۹۵ ٹریلین روپے کا خسارہ ہوا،اس نوعیت کے ۲۵؍ اداروں میں مجموعی طور پر ۶۶۵ بلین اور ایسے ہی ۳۱ اداروں کو تقریباً ۳ بلین کا خسارہ ہوا۔صرف ان خساروں میں چلنے والے اداروں کو نفع بخش اداروں میں تبدیل کر لیا جائے تو معیشت کہیں سے کہیں جا سکتی ہے۔لیکن یہی وہ ادارے ہیں جو سیاسی جماعتوں کے ایسے کارکنوں کا مرکز ہیں جنھیں بغیر کسی فنی مہارت کے محض سیاسی وابستگی کی بنیاد پر اداروں میں بھرتی کیا گیا ہے اور جو معاشی تباہی کا ایک سبب ہیں۔ضرورت سے زیادہ افراد کی بھرتی ، انتہائی کمزور اور نااہل قیادت نے ان اداروں کو سفید ہاتھی بنا دیا ہے جو وسائل کھانے میں سب سے آگے ہیں اور پیداوار میں سب سے پیچھے ۔
ان اداروں میں سرفہرست ’پاکستان اسٹیل ملز‘ اور ’پی آئی اے‘ کا نام آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے ملک کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اگر انھیں سیاست کاروں کے تسلط سے نجات مل جائے اور یہ پیشہ ورانہ بنیاد پر کام کریں۔ ان کا اصل مسئلہ ضرورت سے دس گنا افراد کو سیاسی دباؤ سے ملازمت دینا ،جدید ٹکنالوجی کا استعمال نہ کرنا اور ان کے خساروں پر آنکھیں بند رکھنا ہے۔ اب وہی سیاست دان جنھوں نے اپنے پسندیدہ افراد بھرتی کر دیے ہیں اور جو انتظامی امور میں اعلیٰ ترین عہدوں تک نااہل افراد کو مقرر کرانے میں سرگرم رہے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ اُونے پونے داموں ان اداروں کو کسی تیسرے فرد کے نام سے خرید کر اپنے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کرسکیں۔
قومی تجارتی اداروں کو اچھی انتظامیہ اور غیر سیاسی ماحول کے ذریعے تین برسوں میں نفع بخش بنایا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے قوم اور ملک کے مفاد پر فوقیت اور مخلص اور پیشہ وارانہ قیادت کی ضرورت ہے ، جس کی کمی نہیں ہے لیکن اسے موقع نہیں دیا گیا ہے ۔ پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کو دیانت دار انتظامیہ کے ذریعے نفع بخش اداروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اگر سیاسی اور غیر ضروری افراد کو اداروں سے فارغ کر دیا جائے اور صرف اہلیت کی بنیاد پر تمام عہدوں پر تقرریاں ہوں۔
حکومت کی جانب سے معاشی ترقی سے لاپرواہی اور چلتے ہوئے اداروں کو زوال کی طرف دھکیلنے کا ظلم عرصہ سے جاری ہے۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے اقتصادی ترقی کے حوالے سے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ کراچی کے سائٹ ایریا میں کپڑوں کی رنگائی کی صنعت گذشتہ ۱۵ برسوں میں علاقہ میں پانی کی عدم فراہمی کی بنا پر بند ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے بعض ادارے کورنگی منتقل ہو گئے ،بعض نے بنگلہ دیش اور انڈیا میں سرمایہ کاری کر کے اپنا کاروبار وہاں منتقل کر دیا ۔لیکن سندھ کی انتظامیہ کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ ایک چلتی ہوئی صنعت کی ہمت افزائی کر سکے اور اس کی ضروریات کو پورا کرسکے۔یہ صرف ایک مثال ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ جب حکومتیں بھیک مانگ کر اپنی تنخواہوں کی ضمانت حاصل کرنے کی عادی ہو جائیں تو پھر ملک پر غربت اور بے روزگاری کا تسلط ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کا ایک فریب یہ ہے کہ وہ ایک عام شہری کو ان تمام اشیاء کی خرید پر اُبھارتا ہے جو اس کی عمومی قوت خرید سے باہر ہوں اور اس غرض کے لیے وہ شیطان کی طرح اسے یقین دلاتا ہے کہ تم جو کچھ خریدنا چاہتے ہو وہ آنکھیں بند کر کے لے لو اور پھرقسطوں میں اس کی رقم ادا کر دینا۔صرف ہر قسط میں تھوڑی سی رقم ’حقِ خدمت‘ کے طور پر تم سے لے لی جائے گی ،جس کا صاف لفظوں میں نام سود ہے۔جو شخص ایک مرتبہ اس جھانسے میں آگیا وہ تمام عمر مقروض رہتا ہے اور ہر ماہ اپنی آمدنی میں سے بمشکل سود کی رقم ادا کر پاتا ہے ،لیکن اصل قرض ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔
یہ عمل جہاں ایک فرد کے ساتھ ہوتا ہے ویسے ہی پوری قوم کے ساتھ حکومتی ادارے اس عمل میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک یا ایشیائی بینک، ان سب کا کام یہی ہے کہ ملکی ترقی کے منصوبوں کے نام پر ان اداروں سے قرض لیا جاتا ہے ،اور پھر نہ کبھی وہ منصوبے پورے ہوتے ہیں اورنہ کبھی قوم قرض کے جال سے نکل پاتی ہے۔یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ آج تک اگر کسی بھی ملک نے قرض لیا تو معاشی ترقی تو ایک طرف وہ مسلسل اس قرض کی ادائیگی کے چکر میں سود در سود دینے کے بعد بھی مکمل معاشی آزادی حاصل نہیں کر سکا۔ہماری کہانی کچھ مختلف نہیں ہے۔ اگر ہمیں معاشی ترقی کرنی ہے تو اولین ترجیح عالمی اداروں کے قرض سے نجات ہے جو معاشی ماہرین کی رائے کے مطابق ممکن ہے اور ایسے ممالک کی مثال موجود ہے جو قرض سے نکلے اور اس سے نجات پانے کے بعد خود انصاری کی راہ پر گامزن ہوئے ۔
اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے ترقی(UNDP) کے انسانی ترقی کے پیمانے Human Development Index کے لحاظ سے ۱۹۲ ممالک میں پاکستان۱۶۴واں ملک ہے جسے’نچلی ترقی‘ کا ملک گردانا جاتا ہے۔ ایسے ہی عالمی ادارہ کے SDG کے ۱۶۹اہداف میں سے پاکستان حد سے حد ۳۵ کو پورا کر پایا ہے،گویا یہاں بھی پاکستان ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ بیرونی ادارےاس کا ایک حل یہ تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کوا عداد و شمار کی قید میں لایا جائے یعنی اسے ڈیجیٹلائز (digitize) کیا جائے تاکہ وہ بہت سے افراد جو حکومت کو کوئی ٹیکس نہیں دے رہے ہیں ان سے بھی مطلوبہ رقوم حاصل کی جا سکیں، لیکن اس تجویز سے صرف اس وقت فائدہ ہو سکتا ہے جب ملک کے بڑے تاجر اور خصوصاًزمیندار اپنی آمدنی پر عائد ٹیکس ادا کریں۔
المیہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ انھی افراد کے قبضے میں ہے، جو سب سے زیادہ ٹیکس کی چوری میں ملوث ہیں اور وہ ہر ایسے قانون کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، جس سے ان کے ذاتی مفاد پر زد پڑتی ہو۔ جب تک ملک سے بڑی زمینداریاں ختم نہیں ہوں گی اور بڑے کاروباروں کو ٹیکس کا پابند بنانےکے لیے سیاسی قوت استعمال نہیں کی جائے گی مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا۔
ملک کی زرعی پالیسی کو فوری طور پر منظم خطوط پر ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ بڑے زمین داروں سے ٹیکس حاصل کیا جا سکے، ساتھ ہی زراعت کو درپیش مسائل پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔قیام پاکستان سےقبل پنجاب کی زرعی زمینیں پورے ہندوستان کو گندم اور چاول فراہم کرتی تھیں ۔آج ہم اپنی ملکی ضروریات کے لیے بھی باہر سےاناج درآمد کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے فصلیں اچھی ہو جائیں، تو کسان کو فائدہ پہنچانے کی جگہ گندم خریدنے میں بھی تردد کرتے ہیں اور ملکی دولت کو اپنے ہاتھوں تباہ کرتے ہیں۔
ملک کو درپیش معاشی زبوں حالی کے اس طائرانہ جائزے کا مقصد نوجوانوں میں پہلے سے موجود تھکاوٹ ،مایوسی اور بے بسی میں اضافہ کرنا نہیں ہے۔ لیکن جب تک مرض کی نوعیت کا تعین نہ ہو علاج تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے چند تلخ حقائق کا جاننا مستقبل کے سنوارنے کے لیے ضروری تھا۔ اب ہم اختصار کے ساتھ مستقبل کی تعمیر کی طرف آتے ہیں۔
اگر کسی درخت کو دیمک لگ جائے تو محض اس کی شاخوں کی تراش خراش اور اس کے تنے پر دوا چھڑکنا کافی نہیں ہو سکتا، جب تک زمین کی گہرائی میں جا کر دیمک کو جڑ سے ختم نہ کیا جائے۔ جس معاشی نظام کی بنیاد ضرورت مند اور محنت کش کے استحصال پر ہو، جو ان ضرورت مندوں کے حقوق کو دن رات پامال کررہا ہو ۔ ایسے جابرانہ نظام میں چند جزوی تبدیلیاں ہو سکتا ہے وقتی طور پر چند افراد کو مطمئن کر دیں لیکن تبدیلیٔ نظام کے بغیر معاشی عدل و انصاف کا قیام ناممکن ہے۔گذشتہ نصف صدی سے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی جگہ اسلامی عادلانہ نظامِ معیشت کے نفاذ کی مہم چل رہی ہے۔
فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کے فل بینچ نے حکومت وقت کو مقررہ مہلت میں سودی نظام کی جگہ اسلامی معیشت کے نفاذ کا پورا نقشہ بنا کر دیا ہے، جو صرف سیاسی قوت نافذہ کا منتظر ہے۔ تبدیلی کے آغاز کے لیے کسی توپ و تفنگ کی ضرورت نہیں ،جو مراحل سٹیٹ بینک کی مقررکردہ کمیٹی نے تجویز کیے ہیں، انھیں جب چاہیں عملی شکل دی جا سکتی ہے۔
ملک میں جامع معاشی ترقی کے منصوبہ کی تشکیل اور بہ تدریج نفاذ کے لیے اسلامی معیشت اور بینکاری کے ایک ورکنگ گروپ کو وقت کے تعین کے ساتھ یہ ہدف دیا جا سکتا ہے کہ وہ ملک میں صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے ملک کے چیمبرز آف کامرس کے تعاون سے دو ماہ میں ایک منصوبۂ عمل تیار کرے ،جسے پارلیمان کے ذریعے ملک میں عمل میں لایا جائے۔ معاشی ترقی سے مراد چند مراعات زدہ افراد کے مفاد کا تحفظ نہیں ہے بلکہ وسیع پیمانہ پر ملک کے اندر تجارت، زراعت، پھلوں اور پھولوں کی مناسب ترقی کا منصوبہ ہے۔ دنیا کے کئی ممالک صرف زراعت اور پھلوں اور پھولوں کی برآمد کے ذریعے اپنی معیشت کو مستحکم کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے چار موسم، زرخیز زمینیں اور وہ تمام وسائل دیے ہیں جو زراعت کے لیے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ملک گیر پیمانے پر قابلِ کاشت زمینوںمیں پیداوار بڑھانے کے ذرائع کا استعمال اور قابلِ کاشت زمینوں کو رہائشی آبادیوں کے تعمیری منصوبوں میں تبدیل کرنے پر قانونی پابندی کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والے وقت میں ملکی آبادی میں اضافہ کے بعد غذائی ضروریات کی تکمیل اور غذائی اجناس کے برآمد کے ذریعے معاشی ترقی کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس وقت ملک میں ایسے تحقیقی ادارے جو زراعت کے حوالے سے کسان کی عملی رہنمائی کر سکیں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ہماری فی ایکڑ پیداوار گندم کی ہو یا چاول کی اور ایسے ہی پھلوں کی، ہم ہر میدان میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں، جب کہ ہمارے پھل اور چاول کی اس کی اعلیٰ قسم ہونے کی بناپر بھاری مانگ موجود ہے ۔ایک عرصہ سے ہمارے چاول کو ہمارا دشمن ملک اپنے ملک کا ٹھپہ لگا کر فروخت کرتا رہا ہے اور اب اس نے ہمارے یہاں کے بیج اپنے ہاں لگا کر ہماری مارکیٹ کو اپنے قبضے میں کرنا شروع کر دیا ہے ۔لیکن ہم آنکھیں بند کیے یہ سب کچھ گوارا کر رہے ہیں۔ ملک کی صلاحیت کو بہت تنگ نظری کے ساتھ کم تر سمجھ لیا گیا ہے،جب کہ ہماری زراعت سونے کی طرح ملکی معیشت کو استحکام دے سکتی ہے۔ملک کی زرعی پالیسی کی تیاری میں نہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں بلکہ کسان بورڈوں اور تنظیمات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ زمینی حقائق کی روشنی میں ملک گیر پالیسی وہ ہو جو قابلِ عمل ہو اور جسے متعلقہ افراد خود تیار کریں۔
بیرونی سرمایہ صرف اس وقت ملک میں آتا ہے، جب ملک میں سیاسی استحکام کے ساتھ قانونی تحفظ اور شفافیت پائی جائے، معاہدوں کا احترام ہو اور بیرونی صارف کو مقامی قوانین میں سہولت ملے۔ لازمی طور پر کوئی سرمایہ کار بھی اپنے منافع پر سمجھوتہ نہیں کرتا ۔لیکن ملکی قانون نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی صارف کو بھی بغیر طویل کارروائیوں کے ملک میں تجارت کے مواقع فراہم نہیں کرتا۔ مشرق وسطیٰ کے اکثر ممالک میں ایک ماہ کے عرصہ میں ایک بیرونی صارف اپنی کمپنی قائم کرکے کام کا آغاز کر سکتا ہے ۔پاکستان میں فرسودہ نظام اور برقی ذرائع کے استعمال نہ کرنے کی بنا پر اور رشوت اور ناجائز حصہ داری کے مطالبوں کے سبب بیرونی سرمایہ کار آتے ہوئے گھبراتا ہے۔زمینی حقائق کو جانتے ہوئے صورتِ حال کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ چھوٹے، درمیانی اور بڑے کاروبار کو فروغ دیا جا سکے۔
ملک میں محنت کش اور معاشی کارکن کے مرتبہ اور حقوق کا تحفظ اعلیٰ کارکردگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔معاشی عدل اور محنت کش کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کے ساتھ ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے جو جلد انصاف کی فراہمی کریں اور کاروبار کرنے والوں کو قانون کے احترام پر آمادہ کر سکیں ۔اس میں خواتین اور کم عمر معاشی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو بعض صنعتوں میں خصوصی مقام حاصل رہا ہے ۔ مثلاً سیالکوٹ کے ساتھ کھیل اور جراحت کے سامان کا نام خود بخود ذہن میں ابھر تا ہے۔فیصل آباد ٹیکسٹائل کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ ان میدانوں میں اضافے اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہاں کی تیار کردہ اشیا اپنے معیار کے لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز رہیں۔ان اشیاء کی تیاری میں جو خام مال اور جو فنی محنت درکار ہوتی ہے اس کی تربیت اور سائنسی اصولوں پر اس میں مہارت کے لیے ان صنعتوں سے وابستہ افراد کو ایسے ادارے ،جامعات کی وابستگی کے ساتھ قائم کرنے پر متوجہ کیا جائے جو ان فنون میں تربیت اور مارکیٹ کی ضروریات کے پیش نظر افرادی قوت تیار کر سکیں۔
ان صنعتوں میں کام کرنے والوں میں خواتین کے لیے خصوصاً ایسا اہتمام کیا جائے کہ وہ اپنے گھر سے صنعتی ترقی کے کاموں میں شرکت کر سکیں اور خاندان کا نظام متاثر نہ ہو اور ان کی صلاحیت کا استعمال بھی کیا جا سکے ۔عالمی طور پر ان صنعتوں میں بچوں کے حوالے سے جو پابندیاں ہیں ان کو ملحوظ رکھا جائے تاکہ ہماری مصنوعات عالمی مارکیٹ میں اپنا وقار قائم رکھ سکیں۔
ملک کی معاشی ترقی خصوصاً طویل المیعاد ترقی میں یونی ورسٹیوں کا بنیادی کردار ابھی تک صحیح طور پر ادا نہیں کیا جا سکا ہے۔یونی ورسٹیوں کے نصابات میں صنعتوں کے حوالے سے نظرثانی اور جدید آئی ٹی کے استعمال کے ساتھ ایجادات پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ دیگر ممالک میں بہت سے فنی ادارے خود اپنی یونی ورسٹیاں قائم کرتے ہیں، مثلاً سام سنگ اور دیگر عالمی مصنوعات بنانے والے اداروں کی اپنی یونی ورسٹیاں ہیں، جو نہ صرف ان کی ضرورت بلکہ ان شعبوں میں اعلیٰ تحقیق کے ذریعے ان مشکلات کا حل نکالتی ہیں جو اس صنعت کی ترقی کے لیے ضروری ہوں۔ پاکستان میں ہماری معلومات کی حد تک کسی ایک دوا ساز کمپنی ،کپڑے کی صنعت اور دیگر شعبوں میں کاروبار کرنے والے بڑے اداروں نے آج تک اپنے شعبے میں تحقیق کے لیے تحقیقی کام پر توجہ نہیں دی۔ اس طرح نہ صرف عمومی تعلیم بلکہ ان شعبوں میں تربیت یافتہ افراد فراہم کیے جا سکتے ہیں، جو ملک اور ملک کے باہر hands on تربیت یافتہ ہوں اور محض نظری طور پر دوا سازی اور انتظامی امور وغیرہ سے واقف نہ ہوں بلکہ اپنے شعبے میں عملاً کام کر کے تجربہ کا سرٹیفکیٹ بھی رکھتے ہوں۔
ہر شعبۂ حیات اپنا ایک اخلاقی ضابطہ رکھتا ہے۔ ہمیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ ہمارا دین جامع اور کامل ہونے کی بنا پر ایک ’دیانت دار تاجر‘ (honest trader)کے بارے میں نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں اعلیٰ ترین درجات کا وعدہ فرماتا ہے اور ایسے تاجر کو انبیاؑ ،صلحا اور شہدا کے ساتھ حیاتِ اُخروی میں مقام دیتا ہے۔اس امر کی ضرورت ہے کہ معاشی ترقی کے منصوبہ میں اسلامی معاشی اخلاقیات کو نصابی وزن دیا جائے، تاکہ معاشرہ سرمایہ دارانہ ذہنیت سے محفوظ رہ سکے۔ ہرمعاشی ترقی اپنے ساتھ شیطان کی تیار کردہ پوری ایک فہرست لاتی ہے جو سرمایہ دار کو ایک خودغرض، نفع خور ،نفس پرست شخص میں تبدیل کر دیتی ہے ۔اسلامی معاشی اخلاقیات کی نہ صرف تعلیم بلکہ تجارتی اور زراعتی شعبوں میں ترویج اور اس کا اطلاق ہمارے معاشرے کو ایک عادلانہ، معاونت کرنے والا، ہمدردی اور غم خواری پر مبنی برادری میں تبدیل کر سکتا ہے، اور ان اخلاقیات سے لاپرواہی مغربی سرمایہ دارانہ ظالمانہ استحصالی نظام کے قریب لا سکتی ہے۔ ہماری معاشی ترقی اس وقت اللہ کو راضی کر سکتی ہے جس میں ہم اپنے دین پر مبنی اور قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں زراعت ہو یا صنعت، تعلیم ہو یا پیشہ ورانہ تربیت، ہر کام کو اس اخلاق کا پابند بنا لیں جو تمام انسانیت کے لیے فلاح اور ہماری آخرت میں کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
قرآن کریم کا ترقی کا پیمانہ ہر شعبۂ علم و عمل میں ماہرانہ مقام کا حصول ہے۔ انبیائے کرامؑ نے اقامت دین کے مجموعی تصور کے پیش نظر دعوتِ دین کے ساتھ مختلف شعبوں میں کارکردگی میں امتیاز حاصل کیا ۔حضرت داؤدؑ کا زرہ سازی میں کمال ،حضرت نوحؑ کا جہاز سازی میں مہارت، حضرت سلیمانؑ کا اُمورِ مملکت میں، جب کہ حضرت یوسفؑ کا منصوبہ بندی میں قائد ہونا اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تجارت ہو یا عدالت، ہر شعبہ میں اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونا، نیز خود قرآن کریم نے یہ کہہ کرکہ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم ۶۸:۴)آپؐ کے ماننے والوں کے لیے ایک زندہ مثال بیان کر دی کہ کسی بھی شعبۂ حیات میں کم تر درجہ ناقابلِ قبول ہے اور زندگی کے ہرمعاملے میں اتقان اور حُسنِ کارکردگی ایمان کا تقاضا ہے۔آج بھی امت مسلمہ کے نوجوانوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ معرکۂ حق و باطل میں اپنے سے کئی گنا طاقت ور باطل کو اپنی قوتِ ایمانی سے زیر کرسکتے ہیں۔ تازہ ترین مثال غزہ، فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کی ہے۔
انسانیت پر اسلام کے احسانات میں سے بڑا تحفہ ایک ایسے اسلامی معاشرے کا قیام ہے، جو پندرہ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک اپنی بنیادی خصوصیات کے ایک بڑے حصے پر اعتماد اور فخر کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ پھر الحاد اور تشکیک کے موجودہ دور میں باحیا، صالح نوجوانوں ، محصنات اور ایک محفوظ خاندان کے لیے اپنی مثال آپ ہے۔ انسانیت کے تہذیبی سفر میں یہ انقلابی تبدیلی ایک ایسے معاشرتی ماحول میں وجود میں آئی، جہاں فحاشی اور عریانی نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا اور برائی کو برائی سمجھنے کا احساس بھی دلوں سے جاتا رہا تھا۔قرآن کریم کی آفاقی تعلیمات اور رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی پاکیزہ سیرت نے اس زہریلے ماحول کو ایک صحت مند ،پُرامن، پُرسکون اور مودت و رحمت سے بھرپور معاشرے اور خاندان میں تبدیل کر دیا۔ یہ بنیادی تبدیلی کسی طویل عرصے میں ارتقائی مراحل سے گزر کرعمل میں نہیں آئی بلکہ دعوت کے آغاز کے ساتھ ہی صرف دو عشروں میں اپنے نقطۂ کمال تک پہنچ گئی۔ لیکن پھر اپنوں کی نااہلی اور عدم توجہ اور مسلم معاشرے میں بیرونی اور اندرونی در اندازیوں کے نتیجے میں مسلم معاشرے کا توازن متاثر ہوا۔ اخلاقی بے راہ روی نے اسے بگاڑ کی راہ پر ڈال دیا۔ ساتھ ہی گذشتہ دو صدیوں میں مغرب کی سیاسی، فکری اور معاشی غلامی اور لادینی اور مادیت پرست تہذیب کی مسلم معاشرے پر یلغار کے زیراثر مسلمان اہل ثروت نے اپنی کوتاہ نظری کے سبب ان خرابیوں کو اپنانا شروع کردیا، جو مادہ پرست تہذیب خصوصاً مغربی استعماری دنیا میں رچ بس چکی تھیں ۔
ان خرابیوں میں سرِ فہرست خاندان کے تقدس کا پامال کرنا تھا۔ خودمغربی معاشرہ گذشتہ ایک صدی میں جس تیزی کے ساتھ اباحیت اور وحشت کی حدوں کو چھوتی جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ طلاق کی کثرت، ناجائز تعلقات ،فیشن اور خود نمائی کے نام پر فحاشی اور عریانیت مغرب میں اپنے عروج پر پہنچی اور معاشی اور سیاسی عالمگیریت کے ساتھ یہ متعدی وبا مسلم معاشروں میں پھیل گئی ۔ پاکستان کے حالیہ معاشرتی حالات پر اس تناظر میں نظر ڈالی جائے، تو ایک پریشان کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار کی رُو سے تو ۲۲-۲۰۲۱ء میں وزارت داخلہ اور نیشنل پولیس بیورو اسلام آباد کے مطابق ۱۱لاکھ ۱۹ہزار ۸سو ۱۷ جرائم کا اندراج کیا گیا۔ جن میں قتل کے ۱۰ ہزار ۷۸،اغوا کے ۲۸ہزار ۱۷،ڈاکا اور چوری کے ۴۲ہزار ۴سو ۳۰ اور دیگر جرائم کے ۲ لاکھ ۵۳ہزار۷ سو ۴۲ مقدمات کو زیرِ تفتیش لایا گیا۔ صوبائی بنیادوں پر دیکھا جائے تو ۲۰۲۲ء میں پنجاب میں ۷ لاکھ ۵۹ہزار ۸سو ۱۶ ، سندھ میں ایک لاکھ ۱۹ہزار ۴ سو ۹۹، خیبر کے ایک لاکھ ۸۵ ہزار ۳سو ۶۶ ، بلوچستان میں ۱۹ہزار ۴ سو ۴۳، اسلام آباد میں ۲۱ہزار ۴ سو ۹۰ جرائم کا ارتکاب ہوا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق صرف پنجاب میں ۲۰۲۳ء میں سول نوعیت کے ایک لاکھ ۴۶ہزار ۴ سو ۲۱ مقدمات عدالتوں میں درج کیے گئے۔ جن میں طلاق، خلع، بچوں کی حوالگی جیسے مقدمات شامل ہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب میں ہر گھنٹے میں تین طلاقیں دی گئیں (روزنامہ دنیا ، ۹ دسمبر ۲۰۲۳ء)۔ اسی طرح کی ایک خبر میں روز نامہ جنگ (۲۶دسمبر ۲۰۲۳ء) کے مطابق لاہور کے فیملی کورٹس ، گارڈین کورٹس ، دیگر عدالتوں سے حاصل شدہ اعداد وشمار کے مطابق پسند کی شادی میں سالانہ ۴۲۶ فی صد اضافہ ہوا ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے۔گویا رواں سال میں ہر گھنٹہ میں عدالتوں میں ۵۰مقدمات دائر ہوئے ۔ ایک لاکھ ۴۳ہزار ۸سو ۹ مقدمات کے فیصلے ہوئے ، جب کہ ایک لاکھ ۶۵ہزار مقدمات زیر التوا رہے۔
پاکستان میں ’طلاق‘ اور ’خلع‘ کے واقعات میں اضافہ کے حوالے سے گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن کی جانب سے عوامی رائے کے جائزے کو دیکھا جائے تو اس رجحان میں اضافہ کے اسباب میں سب سے زیادہ یعنی ۴۸ فی صد کے نزدیک صبر کا فقدان ہے۔ ۳۳ فی صد کی رائے میں اس کا سبب دین سے دُوری ہے۔ ٪ ۲۷ فی صد کے خیال میں مغربی تہذیب کا نفوذہے، جب کہ ۱۲ ٪ فی صد کے مطابق اس کا سبب خواتین کا برسر روزگار ہونے کی بنا پر خود انحصاری پر مبنی آزادی کا تصور ہے۔ مزید ۹ فی صد کا خیال خود مردوں میں شادی میں دلچسپی میں کمی کا پایا جاناہے۔
ان اسباب میں ایک داخلی ربط پایا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان مسائل کا بڑا سبب لوگوں کی دینی تعلیمات سے عدم واقفیت کی بنا پر عجلت پسند اور بے صبرا ہونا ہے۔ گویا ۸۱ فی صد افراد کے رویہ کا سبب دین سے دُوری ہے ۔مغرب سے درآمد کردہ تحریک آزادیٔ نسواں کے بنیادی تصورات میں یہ بنیادی بات شامل رہی ہے کہ چونکہ یورپی معاشرہ بنیادی طور پر مردوں کی فوقیت کا پدرانہ معاشرہ رہا ہے ،جس میں معاشی عوامل کی بنا پر مردوں کی حاکمانہ نفسیات خواتین کے بارے میں یہ تصور رکھتی رہی ہے کہ وہ ذہانت،مشقت، تاجرانہ صلاحیت اور سیاسی فراست میں مرد کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے مرد کے مساوی نہیں سمجھی جا سکتیں ۔اس تصور کا رد عمل یورپ اور امریکا میں تحریک آزادیٔ نسواں کی شکل میں ۱۹ویں صدی میں رُونما ہوا اور جن مسلم ممالک پر یورپی سامراج کا تسلط تھا، وہاں پر اس کی پذیرائی نے مسلم معاشرے میں بھی ایک صنفی دوڑ کی کیفیت پیدا کر دی اور خواتین کی جانب سے نہ صرف مساوات بلکہ اپنی خود مختاری کے حصول کو ایک مطالبہ کی شکل دے دی گئی ۔خواتین کے معاشی دوڑ میں شامل ہونے کا فطری نتیجہ خاندان کے نظام کا معطل اور تباہ ہونا تھا۔
مغرب سے درآمد کیا ہوا ملکی ترقی کا ایک پیمانہ یہ قرار پایا کہ کسی ملک کی کتنے فی صد خواتین سرکاری دفاتر میں،عدالتوں میں، کاروبار میں اور مختلف انتظامی ذمہ داریوں پر سرگرم عمل ہیں۔ ظاہر ہے جو شعبے روایتی طور پر اپنی پیشہ ورانہ ضروریات کے لحاظ سے مردوں کے زیر اثر تھے، وہاں پر خواتین کا عمل دخل کم تھا، مثلاً فوج ، یا سڑکوں اور عمارتوں میں تعمیراتی کام لیکن ’مساوات مرد و زن‘ کے نعرے کو اتنی تکرار کے ساتھ دُہرایا اور باربار استعمال کیا گیا کہ مسلم ممالک میں سے ایک آمرمطلق صدر معمر قذافی نے اپنے محافظ عسکری دستہ میں بڑی تعداد میں خواتین کو شامل کرنا اپنی ترقی کی علامت سمجھا۔لیکن اس تمام تحقیر آمیز غلامانہ ذہنیت کے باوجود ایسے افراد اورممالک کو ترقی یافتہ ممالک نے اپنی برادری کی فہرست میں شامل کرنے پر غور کرنے کا تکلف بھی نہ کیا۔ مشہور مثال ہے کہ ’کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا‘۔
مغرب کی اندھی پیروی اور ’مساوات مرد و زن‘ پر ایمان لے آنے کے نتیجے میں انفرادیت پسندی اور صنفِ نازک کا اپنے بارے میں یہ دعویٰ زور پکڑ گیا ہے کہ وہ مرد سے زیادہ قوی ہے۔ ویسے بھی یہ عام انسانی نفسیات ہے کہ جب بھی جنگ اناؤں (egos)کی ہوگی تو اس میں کسی کی فتح اور کسی کی شکست ممکن نہیں ہوا کرتی۔ خاندان کی بنیادی اینٹ خلوص اور ایثار و قربانی سے مرکب ہے۔ جب مقابلہ نفسا نفسی کا ہو تو زندگی کا سفر جس کے لیے کم از کم دو پہیے درکار ہوتے ہیں کیسے پُرسکون طور پر چل سکتا تھا ؟ اگر دونوں پہیے الگ الگ سمت میں گھومنا چاہیں تو گاڑی میں ٹوٹ پھوٹ کا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
جن اسباب کا تذکرہ جائزوں میں نظر آتا ہے ان کے حوالے سے مجلہ Clinical Social Work and Health Intervention کی جلد نو شمارہ نمبر۲ میں ۲۰۱۸ء میں مطبوعہ مقالہ میں جس کا عنوان High Ratio of Divorce and its Rationale in Pakistan ہے، اور جس کے مصنّفین کا تعلق بلوچستان یونی ورسٹی سے ہے،ایک تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ زمینی حقائق پر مبنی اس جائزے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کے معاشی سرگرمی میں مصروف ہونے کی بنا پر ایک دوسرے کے لیےمناسب وقت کا میسرنہ ہونا، معاشی سرگرمی میں مصروفیت کے ساتھ مزاج میں صبر و استقامت میں کمی کا واقع ہونا ، شریک حیات کے انتخاب میں مناسب غور و فکر کے بعد فیصلہ نہ کرنا ،ایک دوسرے کی اچھائی کو وزن دینے کی جگہ کمزوری کو زیادہ محسوس کرنا طلاق کی کثرت کا سبب ہے۔ ایک اور تحقیق کی رُو سے گذشتہ دو عشروں میں کثرت سے ٹی وی چینل وجود میں آئے اور ان میں جو ڈرامے، ٹاک شو پیش کیے گئے اور پیش کیے جا رہے ہیں وہ اسلامی تصورِ معاشرت کے برعکس اخلاقی بے راہ روی، خود خاندان کے اندر محترم رشتوں کی پامالی ،گفتگو اور طرز عمل میں بے احتیاطی ، فحاشی اور اباحیت کو پیش کرتے ہیں ۔ایک شادی شدہ خاتون کا اپنے شوہر کے بھائی یا شوہر کا اپنے بیوی کی بہن کے ساتھ قریبی تعلق اس طرح پیش کیا جاتا رہا ہے، جیسے وہ ایک روز مرہ کا قابلِ قبول اخلاقی رویہ ہو !
تجزیاتی مضامین میں یہ بات بھی ابھر کر سامنے آئی ہے کہ اسلام کے اخلاقی اور خاندانی تصور کو یا تو بالکل لاعلمی کی بنا پر اور یا پھر جان بوجھ کر ’مذہب‘ کا مذاق اڑانے کے لیے ابلاغِ عامہ میں ایسے انداز سے زیر بحث لایا جاتا رہا ہے جو غیر اخلاقی رویوں کے بارے میں برداشت کے بہانے برائی کے برائی ہونے کے احساس کو ختم کردے اور حرام کو حلال میں تبدیل کر دے۔ یہ ابلاغی نفسیات عالم گیر پیمانہ پر مغرب ہو یا مشرق، ہر جگہ مصروفِ عمل رہی ہے۔
عدم برداشت کی اس روش کو جانچنے کے لیے مثال کے طور پر ۱۰؍ اپریل کو بہاولنگر میں پولیس اور فوج کے درمیان مبینہ تنازع ملک میں قانون اور دستور کے عدم احترام کی صورت حال کی ایک افسوس ناک مثال ہے ۔ اگرچہ امن و امان کے ذمہ دار اداروں کے آپس میں دست و گریبان ہونے کے واقعات کی تعداد کم ہے ۔لیکن کسی ایسے واقعے کا ہونا خود امن و امان ، امن عامہ، اور سرکاری اداروں میں عدم برداشت اور حدود سے تجاوز کرنے کا واضح ثبوت ہے۔ پھر اسی طرح ۵مئی کو کھاریاں میں خواجہ سراؤں کے درمیان مبینہ تنازعے میں پولیس کی جانب سے خواجہ سراؤں پر جسمانی تشدد اور جواب میں خواجہ سراؤں کا علاقہ صدر کے پولیس تھانہ پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرنا، قانون کو ہاتھ میں لینا اور قانون کے محافظ افراد کا مبینہ طور پر اپنی حدود سے تجاوز کرنا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا ہے ۔ اور اخلاق او ر قانون کا احترام جو کسی معاشرے کی بقا کے لیے لازمہ کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کا وقار سخت مجروح ہو چکا ہے ۔
اس صورتِ حال میں ا صلاحِ احوال میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور معاشرے کے باشعور افراد کا فرض ہے کہ وہ منکر کے مٹانے اور معروف کے قیام کے لیے قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ کے تحت دینی حکمت کے ساتھ اس رجحان کو تبدیل کرنے میں اپنی فکری اور تجزیاتی ذہانت کا بھرپور استعمال کریں ۔
اس ضمن میں پہلا کام خود اپنے گھر کا جائزہ لینا اور اپنے خاندانی معاملات میں معروضی طور پر اصلاح کی غرض سے انفرادی و اجتماعی طرزِ عمل کا احتساب کرنا ہے کہ ، گھر کا ماحول، بچوں کا لباس، ان کی مصروفیات خصوصیت سے تفریحات کی نوعیت کیا ہے؟ تعلیمی درس گاہ کا انتخاب کس بنا پر کیا گیا ہے؟گھر میں بچوں اور بیوی کے ساتھ کتنا وقت گزارا جا رہا ہے ؟ کیا گھر میں نمازِ باجماعت یا کم از کم صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کا اہتمام ہے ؟ان مصروفیات کے تجزیے کے ساتھ ایک عملی نقشہ بھی بنانے کی ضرورت ہےکہ اگر ایک صاحب خانہ اور ان کی اہلیہ دونوں ملازمت یا اپنا کاروبار کر رہے ہیں، تو اس کاروبار کے نتیجے میں حاصل ہونے والے معاشی فائدہ ( financial gain) میں اور خاندانی اور معاشرتی خسارے میں کیا تناسب ہے ؟اگر ان دونوں کی محنت و مشقت ان کے بچوں کے لیے ہے، تو کیا ان کی اس آمدنی سے بچوں کی سیرت و کردار ایسی تعمیر ہو رہی ہے کہ وہ بڑے ہوکر معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی کردار کا نمونہ پیش کر سکیں، یا وہ ہوا کے رخ پر مادیت، لذتیت اور انفرادیت کو اختیار کر رہے ہیں اور ان میں اخلاص، ایثار و قربانی ،وفا ، حیا اور خاندان کے تقدس کے تصورات کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا؟
اس تجزیاتی عمل یا احتساب کے لیے کسی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا شرط نہیں ہے، نہ اسے نفسیات میں اعلیٰ ترین ڈگری درکار ہے۔ ایک معمولی عقل کا انسان بھی اس ذاتی تجزیہ کے بعد یہ معلوم کر سکتا ہے کہ وہ اور اس کی اہلیہ دن میں کم از کم آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد جب شام کو تھک ہار کر گھرمیں داخل ہوتے ہیں، تو کیا ان کے مزاج میں بے صبری، چرچڑاہٹ، غصہ پایا جاتا ہے، یا وہ خوش مزاجی اور حسِ مزاح کے ساتھ آپس میں بچوں کے ساتھ پیش آتے ہیں؟ کیا گھر کے افراد بشمول شوہر،بیوی اور بچوں کے کھانے کے دوران یا گھر کے باہر کسی ہوٹل میں گھنٹہ سوا گھنٹہ کھانے کے دوران آپس میں بات کرتے ہیں، تو کیا ان کی نظر یں موبائل پر آنے والے پیغامات اور ٹی وی کی خبروں اور ٹاک شو پر جمی ہوتی ہیں، یا وہ آپس میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات کر رہے ہوتےہیں؟کیا انھیں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے معاملات پر توجہ کے ساتھ بات کرنے کا کوئی موقع ملتا ہے یا ساتھ بیٹھے ہوئے بچے اور وہ خود ، ہر ایک کے ہاتھ میں اس کا اپنا موبائل ہوتا ہےاور وہ اس پرچیٹ کر رہا ہوتا ہے ؟ کیا ہم ایسے خاندان کو ایک مربوط خاندان کہہ سکتے ہیں ؟ یا ہر فرد کا اپنی دنیا میں گم ہونا اور صرف مروتاً کھانے کی میز پراور ٹی وی کے کمرے میں صوفے پر کچھ دیر غائب دماغی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے کمرے میں واپس چلے جانے کو رحمت، مودّت ، ایثار و قربانی سے متصف خاندانی ماحول کہا جا سکتا ہے ؟
یہ ذاتی جائزہ اگر ایمانداری سے لیا جائے تو ایک صاحب ِخانہ بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جس چیز کا نام نسلوں کا فاصلہ (Generation gap) ہے، وہ کسی بیرونی سامراج نے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ خود اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ مسلمان اور بظاہر تحریکی گھرانے کے افراد نے اپنے ہاتھوں اپنے گھر میں رائج کیا ہے۔اس آئینہ میں اپنی ایک جھلک دیکھ لی جائے تو پھر صورتِ حال کی سنگینی اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں آسانی ہو سکتی ہے اور اصلاحِ احوال کا تعلق زمینی حقائق سے وابستہ ہوسکتا ہے۔
بلاشبہہ معلومات،عددی ابلاغ اور مصنوعی ذہانت کے دور میں بعض معلوماتی اور ابلاغی آلات سے فرار ممکن نہیں، لیکن کیا ایسا ممکن نہیں کہ کھانے کی میز پر بیٹھنے والے خاندان کے افراد اپنے اپنے موبائل یا آئی پیڈ کو چھوڑ کر ۲۴ گھنٹے میں سے صرف ۴۵ منٹ وہ ایک دوسرے سے بات کر سکیں، یا کسی موضوع پر سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ معلومات میں اضافہ کر سکیں؟
دوسرا بنیادی کام گھر سے باہر تعلیمی اداروں کا ہے کہ چھٹی جماعت سے ، دسویں جماعت تک کے تعلیمی نصاب میں ایک بااخلاق، معتدل ،بامروت و محبت آمیز خاندان کے خدوخال شامل کیے جا ئیں۔ خاص طور پر خاندانی زندگی کی اہمیت، تقدس اور ایک پرسکون خاندان کے نتیجے میں معاشرے میں توازن و برداشت، صبر و استقامت اور تشدد کے عدم استعمال کو تعلیمی نظام کے ذریعے شخصیت کا حصہ بنایا جائے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ چھٹی جماعت کی عمر میں ایک بچے میں اتنا شعور آجاتا ہے کہ اگر اس مرحلے میں اسے خاندان کی اہمیت و عظمت پر یکسو کر دیا جائے، تو پھر ایک پُرامن معاشرے کا وجود میں آنے کا امکان روشن ہو سکتا ہے۔
تیسرا اہم کام ملک کے ابلاغ عامہ خصوصاً برقی ابلاغ عامہ کا تنقیدی اور معروضی جائزہ لے کر ان تصورات کو علمی و تحقیقی اور دستاویزی شہادت کے ساتھ پیش کیا جائے، جو آنے والی نسلوں کو مغربی سامراجی تسلط، ذہنی غلامی، ثقافتی نقالی اور اخلاقی بیماریوں سے بچا سکیں اور مثبت، تعمیری رجحانات پیدا کریں ۔فحاشی و عریانی کی جگہ حیا اور عصمت و عفت پر مبنی ڈرامے، نغمے، مباحثے، مکالمات وغیرہ پیش کیے جائیں اور ابلاغ عامہ کے اس مثبت کردار کو درجہ بندی (ranking) کا بنیادی پیمانہ بنایا جائے۔ مقامِ عبرت ہے کہ اس وقت برقی ا بلاغ عامہ(Digital Media) سب سے زیادہ بے حیائی، مغربیت اور غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اُردو میں کسی تبصرہ کے لیے بھی رومن کو استعمال کیا جاتا ہے اور گفتگو میں کثرت سے انگریزی الفاظ اس طرح استعمال کیے جاتے ہیں کہ تین چوتھائی گفتگو انگریزی میں اور ایک تہائی کی حد تک اردو کا استعمال مشاہدہ میں آتا ہے۔
چوتھا بنیادی کرنے کا کام ان افراد کا ہے جو اپنے آپ کو تحریک اسلامی کی فکر سے وابستہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، کیا ان کے گھر ،ان کے پڑوس اور محلے میں وہی ماحول ہے جو بغیر کسی تردد کے مغرب کی اباحیت پسند تہذیب سے مستعار لیا گیا ہے، یا ان کے رویے،طرز فکر ، رہن سہن ، طور طریقے دین کی تعلیمات پر مبنی ہیں؟ بات وہی اثر کرتی ہے جو انسان کے اپنے عمل سے ظاہر ہوتی ہو۔ الفاظ کتنے بھاری بھرکم کیوں نہ ہوں جب تک کردار اور الفاظ میں مطابقت نہ ہو ابلاغ نامکمل رہتا ہے۔
تحریک سے وابستہ افراد کا گھرانہ ایسا ہونا چاہیے جو کسی بھی دیکھنے والے کے لیےصیحح اسلامی طرز عمل کا نمونہ ہو اور دین اور اس کی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرتا ہو ۔اس غرض کے لیے تحریک اسلامی کو اپنے ہر گھر میں ایک مثالی خاندان کے نقشہ کو رائج کرنا ہوگا، تاکہ گھر کا ہر فرد اخلاقی، معاشرتی انقلاب کا نمایندہ سپاہی بن سکے اور اس کی گفتگو، سوچ اور عمل یکسوئی کے ساتھ قرآن و سنت کی عملی تشریح پیش کر رہا ہو ۔اگر خدانخواستہ تحریکی گھرانوں میں فکری انتشار، بول چال اور رہن سہن میں مغرب کی اندھی نقالی ،تحریکی تصورات میں عدم پختگی پائی جائے گی، تو ایسے گھروں کے سربراہ چاہے علمی مقالات تحریر کر لیں یا خطیب ِعصر بن جائیں، ان کی کسی بات کا کوئی اثر اور نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔ یہ قرآنی ضابطہ ہے کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں!
اسی طرح ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اور اپنی آنے والی نسل کے تحفظ و ترقی کے پیش نظر جہاں کہیں وہ اپنی بات پیش کر سکتا ہے، چاہے وہ کاروباری مرکز ہو یا پارلیمنٹ اور عدلیہ یا جامعہ، وہ اپنی تمام ذہنی قوت کو ایسے حالات پیدا کرنے میں صرف کرے جو خاندان کے ہر فرد میں احساس ذمہ داری ،احساس جوابدہی ،اخلاقی رویہ اور معاملات میں سچائی، امانت اور خیر خواہی کی ہمت افزائی کرتا ہو ۔دعوت اور اقامتِ دین کا قیام جب تک گھر اور محلہ سے نہیں ہوگا، اس کی جڑیں مضبوط نہیں ہو سکتیں۔ یہ خاندان اور محلہ ہی ہے جو پورے معاشرے کی اصلاح کی بنیاد ہے۔
تحریک اسلامی جس سیرت و کردار کے انقلاب اور معاشرتی ، اخلاقی ، معاشی ، اور سیاسی اصلاح کی جدوجہد کر رہی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حالیہ صورت حال کا تنقیدی جائزہ لے کر اضمحلال اور اخلاقی زوال کے اسباب کو متعین کیا جائے، اور پھر قائد تحریک اسلامی کے پیش کیے ہوئے سوچے سمجھے چار نکات پر مبنی منصوبۂ عمل کو توازن کے ساتھ عمل میں لایا جائے ۔خاندان اور محلہ میں اقامت دین کے بغیر معاشرہ اور دستور ساز ادارے مسلمان نہیں بن سکتے۔اگر گھر کے اندر ہی یک رنگی، فکری اتحاد اور عملی یکسوئی نہیں ہوگی، تو زبان سے نکلے ہوئے کلمات اور قلم سے وجود میں آنے والے فکری نگینے مصنوعی چمک دمک سے مزین ہوں گے۔وہ اس نور سے محروم رہیں گے جو قرآن و سنت کی شکل میں بطور ایک رحمت انسانوں کے لیے بھیجا گیا ہے۔۳۵ سے ۴۰ سال میں دل و دماغ جس غیر سنجیدہ عوامی ماحول کے عادی ہو گئے ہوں، ان کو دوبارہ صحیح رُخ پر لائے بغیر اصلاح احوال کا کام نہیں ہو سکتا۔یہ ایک دلیرانہ ، پر عزم ، صبر آزما لیکن مثبت نتائج پیدا کرنے والا عمل ہے۔ اس مقصد سے زمین میں ڈالا گیا ہر بیج شجر طیبہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔زمین نم ہے، بیج موجود ہے، ارادہ اور قوت میں کوئی کمی نہیں ہے!پھر انتظار کس کا؟کیا حالیہ گمراہی ، معاشرتی زوال، اخلاقی دیوالیہ پن ، عرب جاہلیت سے بد تر ہے کہ اسے بدلا نہ جا سکے ؟
قرآن و سنت کے وہ عملی حل جو جاہلی ماحول اور انسان کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے آج بھی اپنی تازگی کے ساتھ موجود ہیں۔ضرورت صرف توازن کے ساتھ تطہیر فکر و نظر، تزکیۂ اخلاق و عمل، تعمیر کردار و سیرت،مثالی خاندان اور مثالی معاشرہ کے لیے افراد سازی اور تنظیم کی ہے۔ وہ تنظیم جس میں بےغرضی ہو، للہیت ہو ، خلوص ہو اور جاہ طلبی نہ ہو۔ جس میں ہر کارکن قیادت کی صلاحیت رکھتا ہو۔
ایسے افرادِ کار کی تیاری کے بغیر قوت کا مظاہرہ، جلسے جلوس کی کثرت ،منکر اور طاغوت کی جگہ معروف اور حق کے قیام میں کوئی مدد نہیں کر سکتے۔صبر و استقامت کی راہ ،واضح ومتعین منزل اور افرادی زادِ راہ ہی وہ مسنون طریقہ ہے جو کسی بھی تحریک اسلامی کو فرد،معاشرہ اور نظام کی صالح تبدیلی کی ضمانت دے سکتا ہے۔
کسی تحریک (movement )کا دورانِ سفر اپنے سے یا کسی اور کا اس تحریک سے یہ سوال کرنا کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟___ ایک سادہ لیکن پُر معنی سوال ہے جس کا یہ مفہوم لینا درست نہیں ہوگا کہ وہ اپنے مقصد، اپنی ساخت اور اپنے طریقِ کار سے غیر مطمئن ہے،یا اس میں کسی انحراف کی بنا پر یہ سوال اُٹھا رہی ہے۔ درحقیقت یہ سوال اس لحاظ سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ وہ جس مقصد اور دعوت کو اپنی بنیاد سمجھتی ہے، اس کے حصول کے لیے اسے مزید کن اقدامات اور کس حکمت عملی کی ضرورت ہے، نیز کن پہلوؤں کو مزید قوی کرنا اور کن پہلوؤں کا اضافہ کرنا ہے؟
اس داخلی احتسابی اور تجزیاتی زاویے سے اگر تحریک اسلامی کے نصب العین، مقصد اور حکمت عملی پر ایک نظر ڈالی جائے، تو وہ دیگر سیاسی، معاشی ،ثقافتی ،مذہبی تحریکات سے بنیادی طور پر مختلف نظر آتی ہے۔گو، ان میں سے بعض اختلافات اتنے شدید نہیں کہے جا سکتے جنھیں سیاہ اور سفید کی طرح مکمل طور پر مختلف کہا جاسکے۔
یہ سوال کہ تحریک کیا ہے اور کیا نہیں؟ ہر انتخابی نتیجے کے بعد اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ ہر قومی انتخاب کے بعد صحافتی حلقوں میں اور خود کارکنوں میں اس سوال پر گفتگو کا پایا جانا حیران کن نہیں کہا جا سکتا اور انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی معاملہ توقع کے برعکس نظر آئے، تو ہر ذی فہم شخص اس کے اسباب کو تلاش کرنا چاہتا ہے تاکہ آیندہ کامیابی کے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر سکے۔
اقامتِ دین کی دعوت وجدوجہد تمام انبیائے کرام ؑ کا اسوہ ہے۔ قرآن کریم ان کی دعوت کا مرکزی مضمون اطاعت الٰہی اور طاغوت سے اجتناب کو قرار دیتا ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ (النحل ۱۶:۳۶)’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘ ۔
قرآنی زبان میں اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ ،انتہائی مختصر الفاظ میں نہ صرف انسان کے مقصد وجود کو بلکہ دنیا میں مسلمان کے مشن اور طرزِ حیات کو دوٹوک انداز سے پیش کردیتے ہیں۔ یہاں بات یہ کہی گئی کہ سوچ سمجھ کر اس کی بندگی اختیار کرو، جو تمھارا اور ساری کائنات کا خالق ہے۔ اور جو طاغوتی ادارے اور افراد ،تکبر اور غرور کی بنا پر خود کو کوئی چیز سمجھتے ہیں، ان سے نہ صرف اجتناب برتو بلکہ ان کی جگہ حقیقی خالق کی حاکمیت کو قائم کرو۔ یہ تمام باتیں محض دو الفاظ میں بیان کرنا درحقیقت قرآن کریم ہی کا اعجاز ہے۔
اس نصب العین کے حصول کے لیے انبیائے کرام ؑ نے خصوصاً خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نےاقامتِ دین کے لیے اللہ کے احکامات کو جوں کا تو ں، اسی شکل میں کہ جس میں وہ نازل ہوئے پہنچا کر افرادِ کار کی تعمیرِ سیرت یا تزکیہ کے کام کو انتہائی حکمت کے ساتھ سرانجام دیا، اور اس منہجِ دعوت کو سمجھ کر اختیار کرنے والوں کے لیے اقامت ِدین کے فریضے کو لازمی قرار دیا۔گویا اقامت ِدین دعوتِ الی القرآن اور اصلاح و تعمیر سیرت کو علیٰ منہاج النبوۃ حکمت و دانش کے ساتھ سرانجام دینے کا نام ہے۔
قرآن کریم واضح الفاظ میں یہ تعین کر دیتا ہے کہ اقامتِ دین ہی وہ فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لیے انبیائے کرامؑ اور امت مسلمہ کو برپا کیا گیا:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو دے چکے ہیں، اور اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو(اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ ) اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ ۔
یہاں قرآن کریم نے ایک عبد کی حیثیت سے اللہ کی بندگی کی اُس سنت کو جو حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ نے قائم کی تھی، اُمت مسلمہ کے حوالے سے اقامتِ دین سے تعبیر کیا جس کی ہدایت اور وصیت سیّدنا ابراہیم ؑ سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو کی تھی۔ اقامتِ دین کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر دیتا ہے۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو سیدھا کر دیا جائے یعنی اس کی اصل حالت پر واپس لے جایا جائے۔ چنانچہ سورۂ کہف میں حضرت موسٰی اور حضرت خضر ؑ کے قصے میں دیوار کو سیدھا یا درست کر دینے کے لیے یہی اصطلاح استعمال ہوئی: يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ۰ۭ ۖ(الکہف۱۸:۷۷)۔
اس کا دوسرا مفہوم بھی قرآن ہی واضح کرتا ہے یعنی کسی عمل کو جیسا کہ اس کا حق ہے ادا کیا جائے۔ مثلاً اقامتِ صلوٰۃ اسی وقت صحیح طور پر ہوگی جب صلوٰۃ کو اس کی ظاہری اور باطنی شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔چنانچہ اقامتِ دین کا قرآنی مفہوم یہ ہوگا کہ دین کو اس طرح قائم کرنا جیساکہ اس کا حق ہے اور جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی، حضرت عیسٰی ؑاور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامتِ دین کو عملاً قائم کر کے اس کا حق ادا کر کے دکھایا: ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۲۸ۭ (الفتح ۴۸:۲۸) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔
اس قرآنی پس منظر میں دیکھا جائے تو اقامتِ دین کی تحریک حضرت نوحؑ سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا ؑ کا مقصد اور مشن رہا ہے، جس کا اظہار بار بار قرآن کریم نے صلوٰۃ کی اقامت کے الفاظ میں کیا ہے۔ نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے قیام کو قرآن نے ریاست اور معاشرہ دونوں کی ذمہ داری میں شامل کیا ہے: اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج۲۲:۴۱) ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
دین کو جیساکہ اس کا حق ہے قائم کرنا اور اس کے بنیادی ارکان صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا قیام جن کا تعلق نہ صرف تزکیۂ نفس اورتزکیۂ مال کے ساتھ ہے، بلکہ معروف کے قیام کی جدوجہد اور منکر کو مٹانے کے لیے ذرائع کا استعمال میں لانا اقامتِ دین کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں اگر زمین میں قوتِ نافذہ (تمکین )کے حصول کا مقصد وہ ہے جو یہاں بیان کیا گیا یعنی اقامتِ صلوٰۃ، نظامِ زکوٰۃ کا قیام اور اچھائی اور خیر کا حکم دینا اور برائی اور منکر سے روکنا تو اقامتِ دین ہے، اور اگر زمین میں اختیار و اقتدار اس لیے مطلوب ہے کہ ذاتی فائدہ ، شہرت حاصل ہو تو یہ دنیا طلبی اور دنیا پرستی ہے۔
عصر حاضر میں تحریک اسلامی کی دعوت اور جدوجہد کا محرک یہی اقامتِ دین کا قرآنی حکم ہے۔ کیونکہ امت مسلمہ کو جو عالمگیر ذمہ داری اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے تفویض فرمائی ہے وہ دین کو مجموعی طور پر قائم کرنا اور طاغوت کی حاکمیت کو مٹانا ہے۔ یہ کام اپنی نوعیت کے لحاظ سے اجتماعی جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے اور تحریک اسلامی کے قیام کا مقصد اس اجتماعی جدوجہد کے لیے افرادِ کار کی تیاری اور ان کی سیرت سازی ہے۔
قرآن کریم دین کی جامع اصطلاح سے مکمل دین مراد لیتا ہے۔ وہ اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں کسی جزوقتی مومن کی گنجایش نہیں پائی جاتی کہ جمعہ کے دن پاک صاف ہو کر اللہ کی کبریائی ، عظمت و حاکمیت کا اقرار کرے اور ہفتہ کے بقیہ دنوں میں کہیں مال کا بندہ ہو، کہیں شہرت کا ، کہیں برادری اور کہیں اپنی پارٹی کا۔ مجموعی عبودیت سے مراد وہ طرزِ حیات ہے جس میں اللہ کی بندگی کو زندگی کے تمام معاملات میں شعوری طور پر اختیار کر لیا جائے۔ اس لیے اقامتِ دین کی جدوجہد بھی اس کوشش کا نام ہے جس میں کلّیت ہو اور دین کے کسی جز وکی نہیں بلکہ مکمل دین کا قیام مقصود ہو، اور اس طرح مقصود ہو جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک مثالی معاشرہ اور ریاست قائم کر کےدین کی اقامت کی مثال پیش فرمائی۔
جن تحریکات اسلامی نے اپنا دعوتی اور سیاسی کام الگ کرنے کا تجربہ کیا ان کے معروضی مطالعہ کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جہاں یہ تجربہ کیا گیا اور اس کے نتائج وہ نہیں نکل سکے جن کے پیش نظر اسے کیا گیا تھا، بلکہ اس سے ذہنی خلفشار میں اضافہ ہی ہوا۔ زمینی حقائق یہ اشارہ کرتے ہیں کہ تحریک اسلامی کا اصولی اور عملی موقف یہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دعوتی اور سیاسی کام کو دو الگ دائروں میں تقسیم نہ کرے۔ اس کا سیاسی عمل بھی دعوتی اسلوب اور حکمت عملی پر مبنی ہوگا تو وہ اپنی فکری وحدت کو برقرار رکھ سکے گی، ورنہ سیاسی معاملات میں لبرل بننے کی تمنا اسے اصل دعوتی، اصلاحی اور تربیتی مقصد اور راستے سے غیر محسوس طور پر دور بلکہ منحرف کرسکتی ہے۔
دین ایک وحدت اور اکائی ہے۔ یہ عقائد ،انفرادی اور اجتماعی معاملات، معاشی ،سیاسی، قانونی دائروں میں حاکمیت الٰہی کے نفاذ کے ذریعے وحدت پیدا کرنے کا نام ہے۔ الہامی اصول و اخلاق ہر شعبۂ حیات میں یکساں طور پر نافذ کیے جائیں گے تو فرد، معاشرہ اور ریاست میں توازن و اعتدال ہوگا۔ ان اجزاء کو یا ان میں سے کسی ایک جزکو جب بھی الگ کیا جائے گا، انجام تصورِ دین سے دُوری ہی ہوگا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں جب سے ’توحیدی وحدت‘ کی جگہ ثنویت ، دو رنگی (Dualism) نے لی اور دین و سیاست دو الگ خانوں میں تقسیم ہوئے، وہ مرکزِ وحدت سے دُور ہوتے گئے اور روحانیت کے نام پر ایک الگ دنیا اور سلطانی نظام کے نام پر ایک دوسری دنیا پروان چڑھی جس نے وحدتِ دین کے مظاہر اور اُمت کے وجود تک کو تقسیم کردیا۔
تحریک اسلامی کا انقلابی کردار اس حوالے سے یہی ہے کہ اس نے دین کی ناقابلِ تقسیم وحدت کو دوبارہ زندہ کیا اور امت کی فکری قیادت کی۔ تحریک کا اصل مسئلہ اہداف میں توازن ہے۔ دینی حکمت عملی میں کسی ایک جزو کو الگ کر کے یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
l تحریک اسلامی کیا نہیں ہـے: عام طور پر مذہب کے نام پر جو جماعتیں وجود میں آتی ہیں، وہ کسی مذہبی مسلک سے اپنی وابستگی کو اپنی بنیاد بناتی ہیں۔ ان جماعتوں کے نام ہی فقہی مذہب یا مسلکیت کو ظاہر کرتے ہیں اور ایک لحاظ سے اس کی ممبرشپ اس مسلک تک محدود سمجھی جاسکتی ہے۔
جماعت اسلامی یا تحریک اسلامی کا قیام کسی مذہبی مسلک کی بنیاد پر وجود میں نہیں آیا بلکہ اس میں ہر دینی مسلک کے افراد شامل ہو سکتے ہیں اور شامل رہے ہیں۔ گویا یہ صحیح معنوں میں دینی جماعت کہی جانے کی مستحق ہے اور یہ اس کا امتیاز ہے۔
تحریک اسلامی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس کی بنیاد نہ لسانی ہے، نہ علاقائی عصبیت پرہے اور نہ موروثیت پر، بلکہ یہ تمام مسلمانوں کو جو قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہوں،ایک اخلاقی اجتماعیت میں متحد کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ یہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد پر قائم ہے،جس کے حصول اور تحفظ کے لیے لاکھوں مسلمانانِ ہند نے اپنی جان و مال اور عزّت کی قربانی دی تھی۔ جماعت اسلامی بانیان پاکستان کے اسلامی تصورِ پاکستان کے نفاذ کو اپنی سیاسی جدوجہد کا مقصد قرار دیتی ہے۔ اس لیے یہ ایک نظریاتی جماعت ہے،جس کا ایک واضح سیاسی اور دستوری کردار ہے۔
تحریک اسلامی روزِ اوّل سے خفیہ طریقِ کار اور قوت کے استعمال سے تبدیلی لانے کے عمل کو غلط سمجھتی ہے، اور اپنے دستور اور منشور میں وضاحت سے یہ بات دہراتی ہے کہ وہ پُرامن دستوری جدوجہد کی پابند ہے۔ اس زاویے سے تحریک اسلامی شدت پسند جماعتوں کی تعریف میں نہیں آتی۔ بلکہ جمہوری دستوری ذرائع کے لحاظ سے یہ واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے جس میں باقاعدگی کے ساتھ بغیر کسی انتخابی مہم کے ارکان آزادانہ رائے کا استعمال کر کے اپنے امیر اور شوریٰ کا انتخاب کرتے ہیں۔ کسی اور سیاسی جماعت میں اس طرح کی شفافیت نہیں پائی جاتی۔
تحریک اسلامی ندوۃ المصنّفین کی طرح کی کوئی علمی و تحقیقی جماعت نہیں ہے، لیکن اس کا ایک بنیادی مقصد دین کے فہم کو فکری اور نظری بنیادوں پر دورِ جدید کے تناظر میں عام کرنا ہے۔ یہی وہ اعلیٰ مقصد تھا جس کے لیے مارچ ۱۹۳۳ء میں مولانا مودودی نے ترجمان القرآن کا اجرا کیا اور بعد میں پٹھان کوٹ میں ایک علمی ، فکری اور تحقیقی ادارہ قائم کیا، تاکہ دین کی تعلیمات کو جدید نسل تک پہنچایا جاسکے۔ لیکن اس سب کے باوجود جماعت اسلامی محض ایک علمی یا فکری ادارہ نہیں ہے۔ یہ اہم کام اس کی دعوتی ترجیحات کا اوّلین اور لازمی حصہ ہے، کیوں کہ وہ دین کی تعلیمات کو براہِ راست قرآن و سنت کی بنیاد پر عام فہم انداز میں پیش کرتی ہے۔
تحریک اسلامی دین کی کلّی تعبیر کی قائل ہے یعنی یہ دین و سیاست میں کوئی تفریق نہیں کرتی اور اقامتِ دین کو اس وقت مکمل سمجھتی ہے ،جب ایک مسلمان کی زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور طاغوت سے مکمل نجات پائی جائے۔ اس لحاظ سے یہ اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔
ان چند ابتدائی گزارشات کی روشنی میں انتخابات کے نتائج کو اگر دیکھا جائے تو جماعت کے کارکن ہوں یا ہمدرد، سب کے ذہنوں میں جو سوالات گردش کرتے ہیں، ان پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات اس سلسلے میں یہ کہی جاتی ہے کہ تحریک اسلامی کو اپنے دینی تشخص اور سیاسی کردار میں تقسیمِ کار پر غور کرنا چاہیے۔ اس کا ایک سیاسی ونگ ہو جو سیاسی مسائل کی بنیاد پر عوامی حمایت حاصل کرے، اور ایک دینی ونگ ہو جو دعوت و تبلیغ میں مصروف رہے۔
اس سوال پر اقامتِ دین کے حوالے سے غور کیا جائے تو اقامتِ دین اس کلّی طرز عمل کا نام ہے، جس میں سیاسی اور غیر سیاسی کی تقسیم کرنا عملا ًناممکن ہے۔ اگر گھر گھر جا کر دعوت دین پیش کی جا رہی ہو، تو اس کا مقصد محض دینی معلومات نہیں ہو سکتیں۔ اس کے اثرات معاشرتی اور سیاسی سطح پر ہونے لازمی ہیں۔ اس لیے یہ دانش ورانہ تقسیم نظری تو ہو سکتی ہے عملاًممکن نہیں۔ اس تناظر میں اقامتِ دین کی دعوت کا مقصد خود بانی ٔ جماعت سیّد مودودی کے الفاظ میں صرف تین نکات میں پیش کیا جاسکتا ہے:
۱- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں اُن کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اُس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے اُس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے اور جب وہ مسلمان ہے، یا بنا ہے، تو مخلص مسلمان بنے، اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
۳- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فُساق و فُجار کی رہنمائی اور قیادت و فرماںروائی میں چل رہا ہے اور معاملاتِ دُنیا کے انتظام کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔(روداد جماعت اسلامی، سوم،ص ۵۶-۵۷)
گویا سیاسی اور خالص دعوتی اور تبلیغی کام کی تقسیم تحریک اسلامی کے قیام کے تصور سے مناسبت نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی تحریک نہیں جس نے محض سیاسی مقاصد کے لیے مصلحتاً ایک مذہبی لبادہ اُوڑھ لیا ہو اور نہ اس کے مزاج میں خانقاہ اور تزکیۂ نفس کا یہ تصور ہے کہ ایک فرد کو اجتماعی زندگی سے کاٹ کر روحانی ترقی کے زاویے میں محدود کر دے۔ بلکہ یہ فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح و تربیت کے ذریعے نظام زندگی سے طاغوت کو خارج کر کے معیشت ،سیاست، معاشرت، عدلیہ، تعلیم، غرض ہر شعبۂ حیات کو اللہ کی بندگی میں لانے کی دعوت دیتی ہے۔
تحریک کے قیام کا ایک بڑا محرک بر صغیر میں مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امکانات تھے۔ یہ بات واضح ہو کر سامنے آر ہی تھی کہ جلد ملک کو تقسیم ہونا ہے اور ایک نیا خطۂ ارض اسلامی ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔ انگریز کی غلامی سے آزادی کے بعد مسلم لیگ جو اس وقت مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تھی ، قیادت کی سطح پر بالعموم ایسے افراد پر مشتمل تھی، جو اس عظیم کام کے لیے نہ صلاحیت رکھتے تھے اور نہ ان کا علمی اور ثقافتی پس منظر اس ذمہ داری میں مددگار ہو سکتا تھا۔ اس لیے اگر ملک کو اسلامی نظریۂ حیات کی بنیاد پر چلانا اور یہاں پر اسلامی نظام نافذ کرنا حصولِ پاکستان کا مقصد تھا، تو اس کے لیے وہ افرادِ کار کہاں تھے، جو اس خواب کو عملی شکل دے سکیں؟ یہی وہ فکر تھی جس نے قائد تحریک اسلامی مولانا مودودی کو ایسے صالح افراد کی تلاش اور ایک ایسی جماعت کے قیام پر اُبھارا، جو وجود میں آنے والے نئے ملک کے لیے اعلیٰ سیرت و کردار کے حامل منتظمین اور کارکنان فراہم کر سکے۔ یہ ایک نئے انسان کی تلاش تھی، جو ایمان دار، دیانت دار، سچا، ایثار و قربانی کرنے والا اور بے غرض ہو۔ جسے اقتدار کی ہوس نہ ہو اور جو اپنے رب کی رضا کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو اور قیادت کی مطلوبہ صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
قیامِ پاکستان سے قبل اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا:
ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے محض تنظیم اور محض ایک چھوٹے سے ضابطہ بند پروگرام پر لوگوں کو چلانے اور عوام کو کسی ڈھرّے پر لگادینے سے ہمارا کام نہیں چلتا۔ ہمیں عوام میں عمومی تحریک (Mass Movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیرِ افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دُوہرےفرائض کو سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلادینے کے لیے جلدی نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہلِ دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور ان کو کھنگال کر ایسے صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے جو آگے چل کر عوام کے لیے لیڈر بھی بن سکیں اور تہذیبی و تمدنی معمار بھی۔( روداد جماعت اسلامی، اوّل،ص ۹۸)
ان صالح افراد کی تلاش کے ساتھ تحریک کو درپیش چیلنج یہ تھا کہ ان افراد کی فکری اور عملی تربیت اور سیرت سازی کی جائے تاکہ ملک میں اخلاقی تبدیلی کا آغاز ہو سکے۔ آج جو صورتِ حال ملک میں پائی جاتی ہے، وہ بھی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان صالح نوجوانوں کو جو سرکاری اداروں پر اعتماد کھوچکے ہیں اور جن کے سامنے سوائے احتجاج کے اور کوئی منزل نہیں ہے۔ انھیں ہنگامہ آرائی کی جگہ اپنی فکر اور شخصیت کو قرآن و سنت میں ڈھالنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ انھیں ایک تنظیم میں لاکر ان کی صلاحیتوں کو ترقی دی جائے اور تعمیری فکر ، مثبت رویہ اور پُرامن دستوری ذرائع کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کی جائے۔
یہ کام دیر طلب ہے، استقامت اور صبر سے کرنے کا ہے۔ یہ محض نعروں سے نہیں ہو سکتا۔ تحریکی افراد کو اپنے سنجیدہ اور متاثر کن کردار سے اسے کرنا ہوگا۔ ہر تحریکی کارکن کا علم مغربی اور اسلامی فکرو ثقافت میں دوسروں سے بڑھ کر ہونا چاہیے تاکہ وہ علمی اور عملی طور پر خود ایک نمونہ ہوں اور نوجوانوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ یہ کام صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرنا ہوگا۔
ہمیں ایسے افراد کو تیار کرنا ہے جو نہ صرف علم بلکہ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ عالمی معاشی نظام، سیاسی فکر ہو یا معاشرتی تصورات ،وہ جدید علوم اور اسلامی مصادر سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت کی علمی تربیت اور کردار سازی کے بغیر عوام کے ایک ہجوم کو چند جذباتی نعروں کے ذریعے جمع کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اصل کرنے کا کام دعوت و اصلاح و تربیت ہے۔ جس کے مطلوب انسانی اور مالی وسائل مہیا کرنے ہوں گے۔ دیر پا کلّی اخلاقی انقلاب کے لیے دعوتی ترجیحات میں توازن پیدا کرنا ہوگا، اور اوّلین نکات کو اوّلیت دینی ہوگی۔ تطہیر فکر، تعمیر سیرت ،تنظیم، انسانی وسائل کو مستحکم کیے بغیر سیاسی جدوجہد اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکتی۔ عوام کی نگاہ میں متبادل (choice) بننے کے لیے سیرت و کردار سازی ہی وہ عنصر ہے جو تحریک کو ممتاز اور قابل اعتماد بنا سکتا ہے۔ سیاسی جلسے اور جلوس رائے عامہ کی تشکیل کے لیے ناکافی ہیں۔
دوسرا اہم محاذہمارے اپنے گھر ہیں۔گذشتہ چند برسوں میں تحریکی گھرانے بھی سیاسی معاملات میں تقسیم ہو گئے اور بہت سے تحریکی گھرانوں کے نوجوانوں نے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دیے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ خاندان کی اکائی کو بحال کیا جائے اور اس عمل میں حق کی حمایت، لاقانونیت اور غیرجمہوری اقدامات کی کھل کر مخالفت کی جائے تاکہ تحریک کے سیاسی عدم تعصب ، عادلانہ روش ، صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کی حمایت اور کسی ادارے سے خائف یا پیروی کرنے کے منفی تاثر کو دُور کیا جا سکے اور اس کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے آسکے۔
پابندیوں اور غیرمنصفانہ کارروائیوں پر ردعمل:تحریک اسلامی ایک مثبت اور پیش قدمی کرنے والی تحریک ہے۔ اس کا کام رد عمل کے طور پر کام کرنا نہیں ہے۔ اسے اصول کی بنیاد پر ہی تنقید کرنا ہے، اور تنقید میں عدل و توازن کا دامن پکڑے رکھنا ہے۔اپنے قول اور عمل میں مثبت اور تعمیری رویے کی ضرورت ہے۔ ملکی حالات کے پیش نظر نوجوانوں میں شدت سے انتظامیہ کے خلاف رَدعمل پایا جاتا ہے۔ اس کی فوری اصلاح اور اس قوت کو مثبت اور تعمیری کاموں میں لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف جماعت اسلامی کرسکتی ہے۔ اس کے پیش نظر ہر شہر میں ایسے تعمیری منصوبے شروع کرنے ہوں گے، جو نوجوانوں کو تعمیری کاموں میں مصروف کریں۔ ان کی عملی تربیت معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل تلاش کرنے کا ذریعہ ہو اور وہ مثبت فکر اختیا ر کر سکیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ۸ فروری ۲۰۲۴ء کو ہونے والے انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کے شمار اور اعلان کردہ نتائج میں کوئی منطقی ربط نہیں پایا جاتا ۔ اس حقیقت کا اظہار جماعت اسلامی کے سندھ کی صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے عدل و دیانت پر مبنی بیان سے ہوتا ہے۔ انھوں نے سرکاری اعلان کردہ اپنی کامیابی کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کے مخالف پی ٹی آئی کے نمایندے کو ڈالے گئے ووٹ ان کے حق میں پڑنے والے ووٹوں سے زیادہ تھے، لیکن سرکاری اعلان میں انھیں تحریف کر کے جیتنے والے کو ہارنے والا بنا دیا گیا۔ یہ اخلاقی جرأت ہمارے یقین میں اضافہ کرتی ہے کہ جماعت اسلامی جس قسم کا انسان اور معاشرہ پیدا کرنا چاہتی ہے، اس میں حق گوئی، عدل اور بےغرضی کوٹ کوٹ کر بھری جاتی ہے۔ چنانچہ تحریک کا کارکن اپنے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے حق کی حمایت کو اپنا فرض سمجھتا ہے ۔ایسا فرد ہی انسانی معاشرے میں مثبت، صحت مند اور عادلانہ تبدیلی لا سکتا ہے۔ یہ جماعت اسلامی کی بڑی اخلاقی فتح ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی اصول پرستی اور بے لوثی پائی جاتی ہے۔
انتخابات میں اعلان شدہ نتائج کی صداقت کو نہ صرف سیاسی جماعتوں نے بلکہ ملک کے ہر باشعور شہری، حتیٰ کہ بیرون ملک کے ابلاغ عامہ نے بھی غلط اور جمہوری روایات کے مکمل منافی قرار دیا ۔ یہ بدقسمتی ہے کہ نتائج کو اپنی پسند کے مطابق ظاہر کرنے والوں کے ضمیر ابھی تک بیدار نہیں ہوسکے۔اگرچہ ’ن‘ لیگ کے چند سنجیدہ افراد نے بھی نتائج کی تبدیلی کے عمل کو شرمناک اور ان کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں براجمان ہونے والوں کی حیثیت پر اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ نفس لوامہ جب تک زندہ ہے، یہ یاد دہانی کراتا رہتا ہے کہ حق و باطل میں فرق کیا جائے اور حق بات کا اظہار کیا جائے، چاہے اس سے اپنی ذات کو نقصان پہنچتا ہو ۔
عالمی طور پر نتائج میں کسی تحریف کو نہ صرف ایک قانونی اور اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے آمرانہ نظام کا پیش خیمہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے تحریک اسلامی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کو آمریت سے بچانے کے لیےاور ملک کے نظام کو دستورِ مملکت کے مطابق جمہوری اداروں اور جمہوری روایات کے احیا کے لیے پُرامن ذرائع سے ملک گیر جدوجہد برپا کرے ۔
ان انتخابات نے اس عام تاثر کے برعکس کہ عوام کو جو چاہے رقم سے خرید سکتا ہے یا سرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے دباؤ میں ان سے ووٹ ڈلوایا جا سکتا ہے ، یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچادی ہے کہ پاکستانی عوام خصوصاً نوجوانوں میں ملکی مسائل کا شعور نہ صرف بیدار ہے بلکہ وہ تمام پابندیوں اور آزمایشوں کے باوجود استقامت اور صبر کے ساتھ پُرامن رہتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال اورظلم کے خلاف جمہوری انداز میں آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ احتجاج کے اظہار کےلیے توڑ پھوڑ کی جگہ صبر و استقامت اور پرامن احتجاج زیادہ مؤثر طرزِ عمل ہے ۔
انتخابات میں بے ضابطگی کےعلاوہ جمہوری روایات کو پامال کرتے ہوئے بعض اندازوں کے مطابق ملک میں بڑی تعداد میں سیاسی کارکن اس وقت جیلوں میں نظر بند ہیں۔ انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اس کے جائز حق سے محروم رکھا گیا ہے اور اس کے کارکنان پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں ۔ مزید یہ کہ پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت پارلیمنٹ کےا سپیکر، وزیراعظم اور صدر مملکت کے عہدوں پر من پسند افراد کو بٹھایا جا چکا ہے، جب کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عملاً کوئی انتظامی اختیار نہیں رکھتی۔ ان سب استحصالی اقدامات اور اپنے خیال میں حزبِ اختلاف سے نجات حاصل کر لینے کے باوجود، سیاسی قیدیوں کو رہا نہ کرنا غیر معمولی احساسِ عدم تحفظ و عدم استحکام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سیاسی آزادی کی بحالی کے لیے آواز بلند کرنا اور قوم کو ساتھ لے کر کلمۂ حق بلند کرنا ایک قومی فریضہ ہے ۔ ایک اصولی اور نظریاتی اساس پر قائم ہونے والی جماعت کا فرض ہے کہ تمام اختلافات اور تلخ تجربات سے بلند ہو کر اصولی طور پر حق کی حمایت اور ظلم و استحصال کی کھل کر مخالفت کرے۔ نوجوانوں کی راہنمائی کے لیے بھی ضروری ہے کہ پر امن دستوری ذرائع سے ظلم کے خلاف آواز اٹھتی رہے اور نفاذ جمہوریت کی تحریک ایک تسلسل سے آگے بڑھتی رہے۔
ملک گیر پیمانے پر تمام خواتین اور سیاسی کارکنان کی رہائی کے لیے منظم مہم وقت کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں سیاسی بنیاد پر خواتین کو جیلوں میں بند کرنا پاکستان کی سیاسی روایت سے انحراف اور ایک ظالمانہ اقدام ہے۔ ایک مہذب معاشرے میں چادر اور چار دیواری کا احترام بنیادی اخلاقی اور انسانی فریضہ شمار کیا جا تا ہے۔ اسلام نے جو عزت و احترام کا مقام خواتین کو دیا ہے اس کی مثال کسی اور معاشرے میں نہیں پائی جاتی۔ سیاسی گرفتاریوں خصوصاً خواتین کی رہائی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر سیاسی اختلافات سے بلند ہو کر بات کرنا ، اسلامی روایات کا تقاضا اور تحریک اسلامی کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
انتخابات میں مقتدر اداروں کی غیر دستوری دخل اندازی کے باوجود ایک بے نشان سیاسی جماعت کو ملک گیر سطح پر عوامی حمایت کا حاصل ہونا تحریکی نقطۂ نظر سے غیر معمولی توجہ کا مستحق ہے۔ ماضی کے انتخابات کے نتائج کا نظریاتی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو صرف جماعت اسلامی کو نظریاتی اور اصولی پارٹی کہا جا سکتا تھا کیونکہ اپنے اپنے منشور میں کیے گئے وعدوں کے باوجود، دیگر سیاسی پارٹیاں الگ الگ ناموں کے ساتھ، عملاً اقتدار کی دوڑ میں شریک اور ذاتی مفاد پرست افراد کا ایک مجموعہ بنی رہی ہیں ۔ جماعت ایک بے لوث اصلاحی اور اصولی پارٹی ہے۔ مزید یہ کہ جماعت وہ واحد دینی اور نظریاتی پارٹی رہی ہے ،جس کا وجودعوامی سطح پر ملک کے تمام صوبوں میں پایا جاتا ہے، جب کہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ، ایک سندھ اوردوسری پنجاب میں سیاسی جڑیں رکھنے کی مدعی رہی ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی صورتِ حال کو بہتر بنایا ہے۔ خیبر پختونخوا ، پنجاب اور سندھ تینوں جگہ اس کے امیدواروں کو عوام نے ووٹ دیا۔ مگر یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کراچی کے علاوہ دیگر مقامات پر جماعت اسلامی اپنی مقبولیت میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کرسکی۔ کیا اس کا سبب پی ٹی آئی کی قیادت کا بظاہر مظلوم ہونا اور عوام کا انھیں ہمدردی کی بنا پر ووٹ دینا تھا، یا واقعتاً پی ٹی آئی کے منشور اور پروگرام سے آگاہی کی بنا پرعوام نے اس سے وابستہ افراد کو انتخابی نشان نہ ملنے کے باوجود اور غیر معروف سیاسی نشانوں پر بھاری تعداد میں ووٹ دیئے؟ اس کے کیا محرکات تھے اور پی ٹی آئی کی حکمت عملی کیا تھی ؟ سیاسی جلوس اور اسٹریٹ پاور کے اظہار کے بغیر محض سوشل میڈیا کے ذریعے انھوں نے کس طرح عوام کو ساتھ ملایا؟ یہ سب پہلو زمینی حالات کے حقیقت پسندانہ ادراک اور تجزیے کے طالب ہیں۔
اس پہلو پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ مقتدر حلقوں کے ہاتھوں پس پردہ جو کچھ ہوا اگر وہ نہ ہوتا، تو کیا ملک گیر سطح پر ہمارا ووٹ بنک ہمارے اندازے کے مطابق ہوتا؟ اس اندازے اور حقائق کے درمیان توازن پیدا ہونا چاہیے۔
انتخابات کے حوالے سے ایک سے زائد پیشہ ورانہ جائزوں اور تجزیوں کی ضرورت ہے، جو اس شعبہ کے ماہرین سے کرائے جائیں، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اگر کسی مقام پر جماعت کے امیدوار کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کو زیادہ ووٹ ڈالے گئے، تو کیا اس کا سبب اس امیدوار کا عوامی سطح پر فلاحی کاموں میں سر گرم ہونا تھا یا اس پارٹی کی شہرت کی بنا پر اسے ووٹ ملے ؟ جماعت کے امیدوار کی مہم میں کس جگہ کیا خامی رہی ؟ خود امیدوار کے حوالے سے یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امیدوار کی عمر، ظاہری وضع قطع، علمی استعداد ،محلے کی مسجد میں نماز باجماعت میں حاضری، اس کا پیشہ یا کسی مقامی معاشرتی و فلاحی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ، کس چیز نے ووٹر کو متاثر کیا؟ کیا دو معروف جماعتوں سے عدم اطمینان اور تیسری بڑی پارٹی کے معتوب ہونے کی بنا پر ووٹر نے جماعت کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہا، تاکہ کم از کم ووٹ کا وزن ایک جگہ پڑے، یا اس نے جماعت اسلامی کی دعوت ، امیدوار کی صلاحیت پر اعتماد کی بنا پر جماعت کے امیدوار کو پسند کیا ؟ ووٹر کی پسند ناپسند کا اندازہ کرنا آیندہ کے لیے رہنمائی فراہم کرنے اور خود تحریکی دعوتی سرگرمی کے لیے بھی بنیادی مواد فراہم کر سکتا ہے ۔
انتخابات سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی تصدیق اور تجزیہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ جب تک دعوت کے مخاطب کی نفسیات، زندگی کے بارے میں تصور اور معاشرتی اور معاشی تصورات کا اندازہ نہ کیا جائے، دعوت کی حکمت عملی طے نہیں کی جاسکتی۔ کیا وجہ ہے کہ پورے پنجاب میں سے جنوبی پنجاب کے دوحلقوں میں جماعت کے نمایندہ کو ۱۱ہزار سے زیادہ ووٹ ملے ہیں، جب کہ کراچی اور خیبرپختونخوا میں ۳۰،۳۰ہزار سے زیادہ ووٹ جماعت کے نمایندے کو ملے ہیں۔ اس فرق کا گہری نظر اور زمینی حقائق کی روشنی میں بے لاگ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ۲۵کروڑ آبادی کے ملک میں ملک گیر سطح پر جماعت کو ۲۵لاکھ ووٹ ملے ہیں، مگر یہ منتخب نمایندے کی شکل میں کیوں نہیں ڈھل سکے؟
انتخابات میں حصہ لینا تحریک اسلامی کے مجموعی کام کا ایک لازمی جزو ہے، جسے اقامتِ دین کی جامع اصطلاح سے بیان کیا جاتا ہے ۔تحریک کا اصل کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ، اس کے بندوں تک ان کے ربّ کا پیغام پہنچانا اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کی رہنمائی میں اپنے طرز عمل کے ذریعے دین کی تعلیمات کو متعارف کروانا ہے، اور تحریک اور اس کا ہرکارکن عند اللہ اس دعوتی فریضے کے لیے جواب دہ یا مسئول ہے۔ چونکہ انتخابات یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ عوام سے بڑے پیمانے پر رابطہ ہو، ان کی اخلاقی اورسیاسی تعلیم و تربیت کی جائےتاکہ وہ دیانت دار اور امانت دار افراد کو اپنا نمایندہ منتخب کریں۔ اس لیے سیاسی محاذ پر کام دعوتی کام کا ایک حصہ ہے،اسے محض ووٹ بنک بڑھانے کا ذریعہ سمجھنا سادہ لوحی ہے۔لیکن اقامت دین کے دیگر اُمور جن میں تربیت و تزکیۂ سیرت اور اجتماعیت اور نظم و ضبط کا پیدا کرنا شامل ہے، نظر انداز نہیں ہونے چاہییں ۔ ہماری انتخابی مہم کا حاصل محض ووٹوں کی گنتی اور نشستوں کی تعداد نہیں ہونا چاہیے، بلکہ توسیع دعوت، تعمیر کردار ، تطہیر افکار کرتے ہوئے سیاسی ، معاشی ،معاشرتی اور ثقافتی نظام کی اصلاح کی کوشش ہونا چاہیے، تاکہ عام سیاسی جماعتوں اور تحریک کے مزاج اور مقصد کے فرق کو ایک عام ناظر بھی محسوس کر سکے۔
اس لیے ضروری ہے کہ پورے ملک میں جہاں جہاں تحریک نے امیدوار کھڑے کیے تھے، ان کے حق میں جس شخص نے بھی ووٹ دیا، اس سے رابطہ اور تحریکی لٹریچر کے ذریعے یا قرآنی حلقۂ درس اور سیرت پاکؐ کے مطالعے کے ذریعے اسے تحریک کے قریب لانے کے منصوبہ پر فوری عمل کیا جائے اور اس میں ایک لمحہ کی تاخیر نہ ہو ۔یہ دور اعداد و شمار (Data) جمع کرکے، تجزیہ کرنے اور اس کی بنیاد پر قابلِ عمل منصوبہ بندی کرنے کا دور ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ کوئی تحریکی امیدوار کامیاب ہوا یا نہیں ، ووٹ دینے والے ہر فرد سے ذاتی رابطہ اور حکمت کے ساتھ انھیں اپنی دعوت پہنچانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے نتیجے میں جماعت مرکزی پارلیمنٹ میں کوئی جگہ حاصل نہ کرسکی اور صوبائی سطح پر صرف کراچی میں ایک اور بلوچستان میں دو نشستیں حاصل ہوسکیں۔ سبب بہت واضح ہے۔ بعض مؤثر ادارے جن افراد کو لانا چاہتے تھے ریاستی قوت استعمال کرتے ہوئے انھیں ایوان تک پہنچا دیا گیا۔ان حقائق کے باوجود یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ فارم ۴۵ کے مطابق جماعت نے ملک گیر پیمانے پر اس انتخاب میں اور سابقہ انتخابات میں مرکز اور صوبوں میں کل کتنے ووٹ حاصل کیے اور کیا حاصل شدہ ووٹ اس کے متوقع ووٹوں کی تعداد سے مطابقت رکھتے تھے ؟
لیکن اس جائزے اور سروے کے نتائج کا انتظار کیے بغیر زمینی حقائق کی روشنی میں فوری طور پر دعوتی حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ داعی تحریک اسلامی سیّد مودودی نےایسے مواقع کے بارے میں اپنے ایک تاریخی خطاب میں جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا، یہ بات فرمائی تھی کہ تحریک کے کام میں اگر رکاوٹ کا پہاڑ بھی سامنے آ جائے تو تحریک رُکتی نہیں۔ وہ پہاڑی نالے کی طرح پہاڑ کے دائیں اور بائیں سے راستہ تبدیل کر کے اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی ہے، اور پہاڑ اپنی جگہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں جو لوگ بھی ہیں، ان سے سرگرم تعلقات کے ذریعے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے کون افراد نظریۂ پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں اور ملک کے دستور کی روشنی میں ملک میں اخلاقی اور اصلاحی کام کو ترجیح دیتے ہیں؟ ان کے ساتھ ان موضوعات پرجن کا تعلق نظریۂ پاکستان اورآئین پاکستان میں درج جمہوری روایات سے ہے، باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے رابطہ استوار کیا جائے۔
اس سلسلے میں ان موجود افراد کو علمی اور فکری زاویے سے جس تعاون کی ضرورت ہے وہ فوراً فراہم کیا جائے ۔ان نمایندگان سے ذاتی رابطہ پورے خلوص کے ساتھ قائم کیا جائے، انھیں مختلف موضوعات پر مواد کی فراہمی، تحریک سے وابستہ افراد کے ذریعے کی جائے۔اس عمل سے کسی پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچے تو ہمیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے ۔ ہمارا مقصد دین اور نظریۂ پاکستان کا نفاذ ہے۔ اگریہ کام ہمارے ہاتھ سے نہ بھی ہو لیکن کسی اور کے ذریعے ہو جائے تو یہ ہماری ہی کامیابی ہے۔
ان بنیادی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ چند امور پر فوری توجہ دی جائے:
ایک عام شہری ہی نہیں پڑھے لکھے جہاں دیدہ افراد بھی سیاسی مہم کا مقصد حصولِ اقتدار و اختیارات ہی سمجھتے ہیں، اور انتخابات میں کسی پارٹی کی کامیابی سے یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر عوام سے کیے گئے وعدوں پر کام کرے گی۔ انتخابات سے پہلے، دوران انتخابات اور انتخابات کے بعد، ہر مرحلے میں تحریکی فکر یہ مطالبہ کرتی ہے کہ سیاسی جدوجہد کا مقصدحصولِ اقتدار کی جگہ اقامت دین کے لیے زمین کی تیاری کی جائے اور ذاتی اقتدار کی جگہ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کے نفاذ کی کوشش کو اپنی گفتگو، حکمت عملی اور رابطہ مہم میں مرکزی مقام دیا جائے۔ انتخابات کےنتائج سے قطع نظر تحریک کے ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ اقامت دین اور اپنے مخاطبین کی فکری تربیت اور عملی تنظیم میں کمی نہ آنے دے اور سیاسی مہم کے دوران اور اس کے بعد بھی اپنے اصل مشن اور مقصد کے حصول کے لیے اس کے پاس واضح نقشۂ عمل ہو ۔ اصل مشن اور مقصد کے حصول کے لیے خود کو اوردوسروں کو یاد دہانی اور تاکید میں کمی نہ آنے دے۔ جگہ جگہ قرآنی حلقوں کا قیام اور سیرت پاکؐ کی روشنی میں تعمیر سیرت کی نشستوں اور تربیت گاہوں کا جتنا زیادہ اہتمام کیا جائے گا، اللہ کے کلام اور اللہ کے رسولؐ سے جتنی قربت ہوگی، دعوت کو اتنی ہی کامیابی ہوگی۔
دستور ریاست ِ پاکستان جن سیاسی آزادیوں کا تحفظ دیتا ہے تحریک کو ان کے حصول کے لیے ملک گیر مہم برپا کرنی چاہیے، تاکہ جن افراد کو جبراً لاپتہ کیا گیا ہے، ان پر کھلی عدالت میں کارروائی ہو، اور جو سیاسی کارکن خصوصاً خواتین اس وقت بلا کسی اخلاقی جواز کے جیلوں میں ہیں، اور جن صحافیوں کو ان کی حق گوئی کی بنا پر قید کر دیا گیا ہے، ان کو رہا کر ایا جائے اور ملک میں دستور میں دیے گئے جمہوری حقوق کو بحال کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تہذیبی اور سیاسی روایات اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کی حفاظت میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔
اداراتی دخل اندازی سے جن افراد کو برسر اقتدار لایا گیا ہے، وہ ایک حزبِ اختلاف کے موجود ہونے کے باوجود ایسی قانون سازی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں جو بیرونی دشمنانِ پاکستان کی مرضی کے مطابق ہو۔ ماضی میں بھی دشمنانِ وحدت ملت کی کوشش ہمیشہ یہ رہی کہ ملک میں سیاسی عدم توازن پیدا کرکے ایسے افراد کو اقتدار میں لایا جائے، جو ذہنی طور پر مغربی سامراج کے غلام اور تابع دار ہوں۔
عدالت عظمیٰ پاکستان کے ایک حالیہ فیصلے سےبراہِ راست فائدہ قادیانیوں کو ہوا ہے اور ایسے اہم فیصلے کا انتخابات سے دو دن قبل آنا ایک معنی خیز اقدام کہا جا سکتا ہے ۔ایک عرصے سے بیرونی دشمن اس مہم میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح قادیانیوں کو جن کا وجود تاج برطانیہ کا مرہونِ منت تھا اور جو مرزا غلام احمد کے تحریری بیانات کے مطابق برطانوی مفادات کے تحفظ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے، مذہبی آزادی کے بہانے قادیانیت کی ترویج کے دروازے کو کھول دیا جائے۔ ایسے ہی ایک دوسرے فتنہ یعنی مخنث افراد سے ہمدردی کے نام پر جنسی تبدیلی اور اباحیت کے دروازے کو بھی کھول دیا جائے تاکہ پاکستانی نوجوان ان دو شیطانی وباؤں کا شکار ہو کر اپنی تعمیری اور اصلاحی صلاحیتوں سے محروم ہو جائیں ۔ ان دونوں فتنوں پر ملک گیر پیمانہ پر علمی مجالس کا انعقاد ، رائے عامہ کی ہمواری اور قانون ساز اداروں میں ہونے والی پس پردہ سرگرمیوں سے آگاہی قومی فلاح کے لیے بہت ضروری ہے۔ حزبِ اختلاف کا چوکنا رہنا اور تحریک کی جانب سے ان دونوں معاملات میں مددگار فکری و عملی اثاثہ (supporting material) اور اخلاقی حمایت فراہم کرنا لازم ہے۔
ملک ِ عزیز میں موجودہ سیاسی عدم استحکام اور فکری انتشار کا بنیادی سبب ملکی اداروں کا اپنے دائرۂ کار کے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے شعبوں کو اپنے زیر تسلط لانے کا کھیل ہے، جو ملک کے دستور کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ملکی سالمیت اور بقا کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہر شعبہ دوسرے شعبے کے دائرۂ کار کا احترام کرتے ہوئے تعاون تو کرے، لیکن اس کا استحصال نہ کرے۔ اس حقیقت واقعہ کے نتیجے میں گذشتہ دو برس کے دوران میں جس تیزی سے عوام کا اعتماد مقتدر اداروں سے اٹھا ہے اور اداروں کی عزّت ان کی اپنی غیر دانش مندی کی بنا پر برباد ہوئی ہے،اس کو دوبارہ استوار کرنے کے لیےغیر معمولی محنت، دیانت، امانت اور سچائی کی ضرورت ہے۔
جس معاشرے میں عدل اور قانون کا احترام ختم ہو جاتا ہے، وہاں انتشار اور خودغرضی رواج پا جاتی ہے اور اخلاقی زوال زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر جاتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جن اقوام نے اخلاقی زوال کی روک تھام نہیں کی انھیں کوئی طاقت صفحۂ ہستی سے مٹنے سے نہیں روک سکی۔ اُمت مسلمہ کی پہچان اس کا وہ اخلاقی طرزِ عمل ہے، جسے قرآن کریم نے امر بالمعروف اور عملِ صالح کے الفاظ سے واضح کیا ہے ۔اس کے مقابلے میں اگر معروف کی جگہ ’منکر‘ اور ظلم و جبر کو اختیار کیا جائے، تو اس مدت ِمہلت کے گزرنے پر جس کا علم صرف اللہ کو ہے، وہ قوم اپنا وجود اور جواز کھوبیٹھتی ہے۔ قومی سطح پر معروف کا قیام اور منکر کا مٹانا قرآن کریم کی رو سے امت مسلمہ اور تحریک اسلامی کا فرض منصبی ہے ۔اس فرض کی ادائیگی کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
سیاسی عدم استحکام اداروں کے دائرۂ کار کے اختلاط اور معاشی اضمحلال کا ایک بڑا سبب برسرِاقتدار آنے والوں کی وہ غلامانہ ذہنیت ہے، جو اپنے ذاتی مادی مفاد کو قومی وقار پر فوقیت دیتی ہے۔ یہ ٹولہ بیرون ملک ہر اس ملک کے فرماں روا کے سامنے کاسۂ گدائی اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا جہاں سے قرض ملنے کی توقع ہو۔ ایسے مالی قرضے کو یہ اپنا کارنامہ دکھانے کے ساتھ اس قرض کی رقم کو کسی دوسرے قرض کی ادائیگی میں استعمال کرلیتا ہے، اور اسے اپنی فنی مہارت کہہ کر اپنے آپ کو خوش کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ پالیسی معیشت کو قطعاً بہتر نہیں بنا سکتی ۔
عالمی مالی اداروں سے مزید قرض یا سود کی ادائیگی کے بارے میں مہلت کی مہنگی بھیک کی جگہ ان اداروں سے مکمل گلو خلاصی کی ضرورت ہے۔ تحریک کو چاہیے کہ ماہرین کی مدد سے قوم کے سامنے اس مرض کا علاج تجویز کرے تاکہ ملک میں معاشی ترقی اور اپنی ذات پر اعتماد پیدا ہوسکے۔ بے ساکھیوں کی مدد سے چلنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔جب تک جسم کو صحت مند نہیں بنایا جائے گا عارضی نسخے کسی بھلائی کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتے۔
برسر اقتدار طبقہ نے یہ جاننے کی بنا پر کے بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی تعداد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست سے بیزار ہے، ان کے دستوری حق کو ان سے چھین کر انھیں ووٹ دینے سے محروم کیا۔ یہ قومی سطح کی بددیانتی ہے اور تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے حق کے لیے قوم کو اعتماد میں لے اور دستوری ذرائع سے یہ بات تسلیم کرائے کہ وہ برقی ذرائع سے اپنے ووٹ دے سکیں۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ملکی معیشت میں بیرون ملک پاکستانیوں کے کردار کے پیش نظر ان تک تحریک کی دعوت مؤثر انداز میں پہنچائی جائے ۔ان میں پاکستان سے وابستگی کو مزید مستحکم کیا جائے اور ان کی نا اُمیدی کو دُور کیا جائے اور ملکی مسائل پر ان کی آراء کو عوام اور نمایندہ ایوانوں میں پہنچایا جائے ۔اس غرض سے بیرون ملک پاکستانیوں کی قائم کردہ تنظیمات سے رابطہ اور ان کی مثبت رہنمائی بے حد ضروری ہے۔ وہ پاکستان کا اثاثہ ہیں اور ملک سے دُور ہونے کے سبب ملک کے بارے میں یہاں بسنے والوں سے زیادہ ملک کے تحفظ و ترقی کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ ان میں دعوت دین کا فروغ، ان کی پاکستانیت کو زیادہ مستحکم اور فعال بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
اللہ تعالیٰ اپنے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کی حفاظت فرمائے ۔ یہ وہ ملک ہے جو ۲۷رمضان المبارک کی شب قدر کو وجود میں آیا اور دورِحاضر میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والا پہلا ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے مستحکم اور قوی تر بنائے اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر کرے اور ہمیں پاکستان میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی توفیق دے، آمین!
گذشتہ چند برسوں سے پاکستان سیاسی انتشار اور معاشی مشکلات میں گرفتار چلا آرہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ملکی قیادت پر اعتماد کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ مایوسی، نا اُمیدی، جھنجلاہٹ اور منفی طرزِ فکر میں غیر معمولی اضافہ ہواہے ۔جس کا ایک پہلو ملک سے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی (Brain drain)ہے ۔ جدید تعلیم یافتہ، ذ ہین اور باصلاحیت نوجوان ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے، اورغیر یقینی سیاسی حالات کے پیش نظر بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک سے باہر جارہے ہیں۔ ایسی ہی مایوسی اور دل گرفتگی اس وقت بھی پیدا ہوئی تھی، جب برطانوی سامراجی طاقت نے مسلم بادشاہت کا خاتمہ کیا اور برصغیر میں اپنی حکومت قائم کی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی سلطنت ِ عثمانیہ جس کی طرف مسلمان امیدوں کے ساتھ دیکھتے تھے، اپنے ہی گھر کی مصطفےٰکمال کی سیکولر قوم پرست قیادت نے ان اُمیدوںکا چراغ گُل کرتے ہوئے علامتی خلافت تک کا خاتمہ کر دیا۔ اس صدمہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں کو شدید دُکھ ، افسوس اور مایوسی کی فضا میں دھکیلا اور ہجرت کی تحریک کو جنم دیا۔
اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ وہ اپنے اس بندے کو بھی اپنی شفقت اور محبت سے محروم نہیں کرتا، جو بظاہر سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہو۔ اسی رحمت کی بنا پر رحیم و کریم رب نے ہر دور میں ایسے رجالِ کار پیدا کیے، جو اس کے بھیجے ہوئے دینِ مبین پرمبنی نظامِ حیات کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں۔
الحمدللہ! قیام پاکستان سے قبل ایک ایسی تحریک وجود میں آئی، جس کے سامنے اسلام کا حرکی تصور نہ صرف نظری طور پر بلکہ عملی طور پربھی موجود تھا اور یہ تھی جماعت اسلامی جو ۱۹۴۱ء میں منظم صورت میں سامنے آئی۔ اس سفر میں جماعت اسلامی کے بانی نے قرآن وسنت کے تابع حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک دعوتی اور اصلاحی تحریک منظم کی، اور اقامت دین کے لیے تربیت یافتہ افراد تیار کرنے کا آغاز کیا۔
مولانا مودودیؒ نے قوم کو علمی، فکری اور عملی قیادت فراہم کی اور ایسے افرادِ کار کی تیاری کا راستہ دکھایا جو اسلامی نظام حیات کا شعوررکھتے ہوں۔ اس تحریک کے دستور میں اس نصب العین کو واضح الفاظ میں یوں بیان کیا گیا:’’جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملا ًاقامت ِدین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاح اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔(دستور جماعت اسلامی، دفعہ ۴)
اقامت دین کی جامع قرآنی اصطلاح، اللہ کے دین کو زندگی کے ہر شعبہ میں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں نافذ کرنے کا نام ہے۔یہ دین کے کسی ایک پہلو اور اسلام کی کسی ایک تعلیم کو کُل قرار دینے کا نام نہیں ہے۔اللہ سے تعلق، تزکیہ، کردار سازی اور اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں حصہ لینا دین کا لازمی تقاضا ہے۔ البتہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ تنہا سیاسی جدوجہداقامت دین نہیں ہے، بلکہ یہ اس جامع جدوجہد کا صرف ایک حصہ ہے۔ تحریک کو وہ سیاسی جدوجہد مطلوب ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بھیجے ہوئے نظام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے نفاذ کے لیے ہو، جس میں کسی فرد کی ذاتی غرض، حصولِ اقتدار کے ذریعے اپنی نمایش مقصود نہ ہو۔ گویا سیاسی جدوجہد اصل میں توسیع دعوت کا ایک ذریعہ بنے ۔
دستور جماعت کے مطابق، جماعت کوئی ایسے ذرائع استعمال نہیں کرے گی، جو صداقت اور دیانت کے منافی ہوں یا جن سے فساد فی الارض کا خطرہ ہو۔ دستورِ جماعت یہ بھی طے کر دیتا ہے کہ وہ مطلوبہ اصلاح اور اسلامی نظام کے قیام کی انقلابی جدوجہد کے لیے جمہوری اور دستوری ذرائع استعمال کرے گی اور نصب العین کے حصول کی یہ جدوجہد کھلم کھلا اور علانیہ ہو گی۔دستور کی یہ واضح دفعات اگر تحریکی کارکنوں کے سامنے وضاحت کے ساتھ موجود ہوں، تو دعوتی کام میں پیش آنے والی مشکلات ہوں یا سیاسی رکاوٹیں اور سیاسی ناکامیاں، حالات جو بھی ہوں نہ کارکن اورنہ قیادت مایوسی کا شکار ہو گی اور نہ اس میں غصہ، نفرت، جھنجلاہٹ اور انتقام کے جذبات اُبھر سکیں گے ۔
اللہ پر توکّل کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک کارکن جتنی قوت اور اختیار رکھتا ہو، اس میں ہرممکنہ کوشش میں یکسوئی کے ساتھ لگا رہے۔ اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنا سب کچھ اس کی راہ میں لگا دے ، پھر نتائج کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے ،کیونکہ صرف وہی علم رکھتا ہے کہ کس وقت کس نوعیت کی کامیابی مفید ہے اور کس وقت کامیابی میں تاخیر مفید ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے صرف رحم وکرم، محبت اور یسّر پسند کرتا ہے۔ اس پہلو پر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کو مکہ میں تیرہ سال آزمایشوں کی بھٹیوں سے گزار ے بغیر صرف ’کُن‘ فرما کر غالب کردیتا۔ اور اہل ایمان کے لیے پہلے سال میں کامیابیوں کے دروازے کھول دیتا اور مکّہ میں اسلامی ریاست قائم ہو جاتی ۔ لیکن مالک اور آقا کی حکمتیں وہی جانتا ہے۔ وہ علام الغُیوب ہے۔ انسانی عقل اپنی محدوددیت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات پر جلد جذباتی فیصلے کر بیٹھتی ہے، جب کہ دین صبر و استقامت دونوں کی تلقین کرتا ہے۔
عام طور پر اسلامی تحریکات کو سیاسی جدوجہد میں جب مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تو خود تحریک کے اندر اور باہر سے اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ عموماً رد عمل کے طور پر سارا الزام بیرونی قوتوں یا مدِمقابل عناصر پر رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ سیکولر اور لادینی عناصر کو کامیاب اور تحریکی نمایندوں کو ناکام بنانے کے ذمہ دار ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے مواقع پر نہ صرف زمینی حقائق پر مبنی تجزیہ و تحلیل کرتے وقت ممکنہ حد تک معروضی طور پر اپنی کارکردگی، منصوبہ بندی اور منصوبۂ عمل پر عمل درآمد میں انتظامی اور تربیتی کمزوریوں کا خصوصی طور پر جائزہ لے، کوئی رائے قائم کرنے میں جلدبازی نہ کریں اور پہلے سے قائم کردہ گمان پر اصرار سے بھی اجتناب کریں۔ انتخابی مہم میں اپنے اصولوں اور عوام کی نفسیات و مسائل پر اپنے موقف اور بیانیہ کو کڑی تنقیدی نگاہ سے دیکھیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بھی وہی چیزیں دُہرا رہے ہیں جن سے بچنے کی ضرورت تھی؟ کسی بھی جماعت کے الیکشن میں متوقع اہداف کے حصول میں یکساں طور پر اندرونی اور بیرونی عوامل کا دخل ہوتا ہے ۔اختصار کے ساتھ ان میں سے چندعوامل کی طرف توجہ دینا ضروری ہے:
نظریاتی اور اصولی تحریکات اپنے منشور پر غیر معمولی توجہ دیتی ہیں تاکہ عوام کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ وہ کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔ چنانچہ معیشت، تعلیم، دفاع، معاشرتی فضا، قانون اور امن کی صورتِ حال، خواتین کے حقوق، بین الاقوامی پالیسی، زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی وہ موضوعات ہیں، جن پر سیاسی جماعتیں اپنا موقف مرتب کرتی ہیں اور اس کے اہم نکات کو مہم میں عام شہریوں تک پہنچاتی ہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک غیر جانب دار تعلیمی اور تحقیقی ادارے PIDEنے اپنے سیاسی جماعتوں کے منشوروں کے تجزیہ میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منشوروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا، مگر جماعت اسلامی کو اس تقابل میں شامل نہیں کیا ۔ اس تعصب اور جانب داری کو تسلیم کرتے ہوئے، جو اس قسم کے نیم سرکاری اداروں میں پائی جاتی ہے ، سوچنا چاہیے کہ ہم اس مقابلے میں نمایاں کیوں نہیں ہوئے؟
ہم اپنے منشور کو کس طرح عوامی سطح پر ایک ایسی زبان میں پیش کریں کہ عوام اسے اپنے دل کی آواز سمجھیں۔ یہ چیز خود منشور سے زیادہ اہم پہلو ہے۔ ہر جماعت کا ایک مزاج ہوتا ہے اور قیادت اپنے بیان اور تقریروں میں جن باتوں پر زور دیتی ہے ،وہ خود تو اس سے مطمئن ہوتی ہے، لیکن اصل چیلنج اپنے سے باہر کے حلقوں اور عوامی رد عمل کا اندازہ کرناہوتا ہے، جس میں عام طور پر معروضیت (objectivity) اختیار نہیں کی جاتی۔ جو لوگ اس کے انتظامی امور کے ذمہ دار ہوتے ہیں، تحریکی قیادت کی کہی ہوئی بات کی توثیق کرتے ہوئے، وہ قیادت کے سامنے اپنی مقبولیت اور مؤثر ہونے ہی کی بات کرتے ہیں، جس سے قیادت کے ذہن میں بھی اپنی مقبولیت کا غیر حقیقی تصور راسخ ہو جاتا ہے، جب کہ بعد میں پیش آنے والے واقعات اس تصور کی تردید کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ ذیلی حلقے، نظم اور اردگرد کے لوگ ایک مبالغہ آمیزتصویر کشی کرتے ہیں ،جس پر اعتبار کرنے کا نتیجہ ایک بالکل برعکس صورتِ حال کا آئینہ دار بن کر سامنے آتا ہے۔
ایک اہم نفسیاتی غلطی یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے علاوہ دیگر جماعتوں یا ان کی قیادت کے بارے میں ہمیشہ منفی بات سوچی، کہی اور دُہرائی جاتی ہے۔ اس باب میں زبان اور لہجہ دونوں وہ ہوتے ہیں جن کی ایک داعی سے توقع نہیں کی جاتی۔ مختلف سطح پر قیادت اپنے خیال میں دوسرے کی تحقیر اور الزام تراشی کو کلمۂ حق کا اظہار سجھتی ہے جو تجربے کی روشنی میں غلط حکمت عملی ہے ۔ اصل چیز اپنی کارکردگی اور صلاحیت کو مثبت انداز سے، لیکن خودنمائی کے بغیر پیش کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو مشرکین کے بتوں تک کو تحقیرآمیز الفاظ اور لہجے میں پکارنے سے منع کیا ہے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا قرآن کے اس واضح اصول کی پیروی ہر مقام پراور ہرمقرر نے کی ؟یہ ایک بڑا بنیادی اور اہم سوال ہے۔ اپنی کارکردگی یا اپنے پیش نظر مجوزہ تبدیلی کے پروگرام کی مثبت نمایندگی کی جگہ اگر مدِمقابل پارٹیوں پر ہمیشہ منفی انداز میں بات کی جائےتو عوام اسے تعصب سے تعبیر کرتے ہیں اور حق بات کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔
اس بات کے جائزے کی بھی ضرورت ہے کہ ہرحلقے میں کتنے اجتماعات ہوئے، جن میں صرف منشور کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا اور دیگر افراد کی کارکردگی پر لعن طعن نہیں کی گئی۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہنگائی، اقرباپروری، لُوٹ مار، فحاشی، بیرونی قوتوں کی غلامی، مسلم اُمّہ کے مفاد سے لاپروائی جیسے موضوعات پر بات نہ ہو ۔بلکہ ان تمام موضوعات پر لازمی کھل کر بات کہے بغیر مہم نہیں چل سکتی، لیکن بنیادی اصول یہ ہے کہ بات کیسے کی گئی کہ اس کا رد عمل مثبت رہا؟ دلوں کو جیتنے کا اور نرم گفتاری کے ساتھ دلوں کو مسخر کرنے کا رہا یا تلخ وتُرش الفاظ کے ذریعے دوسروں کی کارکردگی کی تردید کرنے کا رہا؟ یہ جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم، موعظہ حسنہ اور قول لین (نرمی سے گفتگو) کا حکم دیتا ہے اور وقت کے فرعون سے بات کرنے کے لیے یہ نہیں کہتا کہ اس کے تمام کرتوتوں پر سخت تنقید کے بعد اسے حق کی دعوت دی جائے، بلکہ واضح طور پر کہتا ہے کہ طرز تخاطب میٹھا ہو، جو اس کو ہدایت سےقریب لے آئے۔ تنقید ہمیشہ مخالف کو دفاعی نفسیات پر اُبھارتی ہے، جو بات کی معقولیت اور مقبولیت کے راستے میں دیوار بن جاتی ہے۔ آج کے عوام سوشل میڈیا کی وجہ سے باخبر ہیں اور اشارتاً بات کہنے کو بھی سمجھ جاتے ہیں۔
اپنے جائزے میں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ دعوتی مہم اور سیاسی مہم کےفرق کو سمجھا جائے۔ ایک نظریاتی اور اصولی جماعت کی سیاسی مہم بھی اصلا ًدعوتی مہم ہوتی ہے، جس میں للہیت، استغفار،اللہ سے استعانت اور خصوصاً قرآن و سنت کے پیغام کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ بے شک اقامت دین کا مفہوم ہر سننے والے کے ذہن میں الگ ہوسکتا ہے۔ لیکن تحریک اسلامی کا فرض ہے کہ وہ سیاسی مہم میں اقامت دین کے مفہوم کو اس طرح بیان کرے کہ دیگر مسلکی جماعتوں کے موقف اور اس کے موقف میں فرق نمایاں ہو سکے۔ایک عام دیہاتی بلکہ شہری بھی جماعت اسلامی کو سیکولر جماعت نہیں بلکہ دینی جماعت سمجھتا ہے۔ اس لیے اس کے موقف میں قرآن و سنت کی دعوت کی توقع رکھتا ہے۔ وہ اگر صرف دوسروں پر تنقید ہی سنے، جو ہر دوسری جماعت بھی کر رہی ہوتی ہے تاکہ وہ دوسروں کو تاریک تر دکھا کر اپنے آپ کو روشن ترین دکھا سکے،تو وہ عام شہری، جماعت کو بھی مسلکی جماعتوں یا دیگر عام جماعتوں کی طرح سمجھنے لگتا ہے۔ مخاطب کی نفسیات کے پیش نظر اپنے موقف کا پیش کرنا دعوتی مہم میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
انتخابی مہم کا جلسہ مسجد میں ہو رہا ہو یا میدان میں، ایک سننے والے کے لیے اہم چیز اعداد و شمار پر مبنی غیر جانب دارانہ موقف اور اس کے بعد تحریک کی جانب سے اس مخصوص مسئلے کا مجوزہ حل پیش کرنا ہے ۔ یہ اسلوب ہمارے طرزِ بیان کو مؤثر بناتا ہے، جب کہ ماضی کے حکمران کا نام لے کر یا اس جماعت کا نام لے کر اس کی ناکامی کا مبالغہ آمیز تذکرہ، تحریک کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے جلسے میں موجود عام سامعین بھی بجائے قریب آنے کے کچھ دور ہو جاتے ہیں۔دعوتی مہم کا ہدف اور مقصد ہم خیال اور ہمدرد بنانا ہوتا ہے، لوگوں کو دُور کرنا نہیں۔ اس بات کے جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم نے دعوتی اخلاقیات اور انبیا علیہم السلام کی سنت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس مہم میں کتنے دل و دماغ جیتے اور کتنوں کو دُور کیا؟
جن مقامات پر تحریک ماضی میں کسی اتحاد کا حصہ رہی ہو، خاص طور پر ان مقامات پر اس کے قول سے زیادہ اس کی کارکردگی لوگوں کو فیصلہ کرنے میں کارگر ثابت ہوتی ہے ۔ایسے مقامات پر محض نظری گفتگو اور دعوے متوقع نتائج پیدا نہیں کر سکتے۔
دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے مقامات پر عام شہریوں سے ہمارے رابطے میں کیا کمی رہی ہے؟ مقامی مسائل میں ہم نے آگے بڑھ کراگر ان کے مسائل کو کسی اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود حل نہیں کیا تو محض ہمارے خطبات کی تکرار اور پوسٹروں کی بھرمار انھیں متاثر نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا کسی ایک شہر میں نہیں، ایک گاؤں میں یا ایک محلے میں دعوتی مہم کے حصے کے طور پر ہر ہفتہ ایک طبی کیمپ لگایا گیا اور ڈاکٹر صاحب اور عملے نے خوش اخلاقی کے ساتھ مریضوں کی تیمارداری اور صحیح تشخیص کے ساتھ ان کی امداد کی؟ اگر اس نوعیت کے فلاحی کام کیے ہیں تو وہاں کسی عظیم الشان جلسے کی ضرورت نہیں ہوگی،بلکہ عوام بغیر کسی تقریر سنے اور سیاسی جلسے کا انعقاد کیے تحریک کو ووٹ دیں گے۔ اگر کسی مقام پر تحریکی فکر کے کسی ادارے، اسکول یا کالج نے تحریکی مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ادارے میں طلبہ وطالبات کی ذہنی، فکری، عملی تربیت کا فریضہ سرانجام دیا ہو اور اس میں اساتذہ و معلمات اور ماحول وہ رہا ہو، جیساکہ تحریک ملک میں تعلیمی ادارے قائم کرنا چاہتی ہے، تو اسکول اور کالج کا ہر بچہ اور اس کے والدین کا ووٹ تحریک کے حق میں ہوگا۔
یہ چھوٹے چھوٹے کام ریاستی اقتدار کے بغیر بھی کیے جا سکتے ہیں اور جب یہ دعوتی جذبے کے ساتھ رضائے الٰہی کے حصول اور آخرت میں اجر کی نیت سے کیے جائیں گے، تو جس کے لیے یہ کام کیے جا رہے ہیں وہ وعدہ فرماتا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچ ہی ہوتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو جنّت دے گا، چاہے وہ اس دنیا میں اقتدار نہ بھی حاصل کر سکیں، مگر وہی اصل کامیاب افراد ہیں۔
۷۵سال کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے جوش و خروش کے زاویہ سے حالیہ انتخابات تمام انتخابات سے زیادہ کامیاب انتخابات ہیں کیونکہ اس انتخاب نے جس عوامی شعور کو بیدار کیا، وہ اس سے پہلے کبھی وجود میں نہیں آسکا۔ ماضی میں ہارنے والی جماعت پہلا کام یہ کرتی تھی کہ پریس کانفرنس میں انتخابات کو متنازع اور غلط قرار دے۔ لیکن آج چند لیڈر نہیں، بلکہ ملک کا بچہ بچہ انتخابات کا ناقد ہے۔ انتخابی دھاندلی کے مختلف طریقوں پر عام بحث و مباحثہ کر رہا ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔
یہ عوامی شعور اس لیے ایک حقیقت ہے کہ اس کی بنا پر جن سیاسی جماعتوں کو سرکاری انتظامیہ ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی ہمدردی پر بھروسا تھا، یا جو اپنی ناجائز دولت کے ناجائز استعمال پر اعتماد کرتے تھے ،ان سب کو اس عوامی شعور نے کھلے عام آئینہ دکھا کر ایسے اُمیدواروں کو ووٹ دے کر ان تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا، جن پر انتظامی یا عدالتی وسیلوں کو برق رفتاری سے استعمال کرتے ہوئے، پاک صاف ہو کر دوبارہ قسمت آزمائی کرنے والوں کو بھروسا تھا۔ یہ عوامی شعور وہ اثاثہ ہے جسے ملک کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تما م عناصر کو پارٹی تعصبات سے بالاتر ہوکر مثبت انداز میں صحیح رُخ دینے کی ضرورت ہے۔
ان انتخابات کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ اس زمین کی زرخیزی میں کمی نہیں ہے۔ عوام کو اپنی قوت کا اندازہ ہو گیا ہے، وہ پُرامن تبدیلی کے لیے متحد ہیں۔ ان کی اس ذہنی اور جذباتی کیفیت کو مزید مثبت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ قوت جو تعمیری کام کر سکتی ہے، وہ کسی شیطانی بہکاوے میں آکر لاوے کی طرح پھٹ نہ پڑے ۔ اللہ سے اچھی امید کے ساتھ اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد، دستوری ذرائع کا استعمال، قول لین کے ساتھ کرنا ہی دین کی حکمت ہے ۔ جن حالات میں انتخابات ہوئے ہیں، وہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہیں کہ آنے والے چند برسوں میں اداروں پر اعتماد کی بحالی ہی سب سے مشکل کام ہے، جس پر پوری قوم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ملکی ادارے غیرجانب دار اور ملکی مفاد کو اوّلیت نہیں دیں گے اور اپنے مفادات کے غلام بنے رہیں گے، ملک میں استحکام نہیں آسکتا۔ قومی سرمایے سے قوت اور اختیار حاصل کرنے والے طاقت ور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں واپس جانا ہوگا اور یہ فیصلہ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے دُہرا دیا ہے۔ یہ ووٹ جو عوامی شعور نے دیا،اس کا مظاہرہ آج سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ زیرِ لب الزام اور محدود سطح پر لعن طعن ہمیشہ تھا، لیکن قوم نے بڑے پیمانے پر آزاد نمایندوں کے حق میں ووٹ دے کر ان اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے جو سیاسی منجم لگا رہے تھے، اور جو ہر آمرانہ، سرمایہ دارانہ ماحول میں پلنے بڑھنے والے اہلکاروں کے ذہن میں پائے جاتے ہیں۔
قومیں ایسے ہی وجود میں آتی ہیں۔ جب خاکہ اُبھر کر سامنے آتا ہے اس میں رنگ بھرنے کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔ یہ رنگ محبت ،اطاعت، ایمانداری اور دین اور ملک کے مفاد کو محفوظ کرے گا۔تحریک اسلامی کو صبغت اللہ کو اپنی پہچان بنانا ہوگا۔اگر اس کا ہر اقدام دعوتی اور اصلاحی جذبے کے ساتھ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ملک ِعزیز کو اپنے قیام کے مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ یہ ملک بنا ہی اس لیے تھا کہ یہاں وہ نظام عدل قائم ہو جس کا درس ہمیں مدینہ منورہ میں قائم کردہ ریاست سے ملتا ہے۔ قائداعظم، علّامہ اقبال اور سیّد مودودی ایسی ہی عادلانہ، نہ کہ آمرانہ ریاست کے قائل اور علَم بردار تھے۔
_______________
دُنیا کے ملکوں کے دساتیر میں جن شہری حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے، ان میں آزادیٔ رائے ، اجتماع، ملکیت، جان و مال، شہرت وغیرہ کا تحفظ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تمام انسانوں کے لیے جو ہدایت نازل فرمائی ہے،وہ سب دساتیر سے زیادہ اکرامِ انسانیت کی تعلیم دیتی اور ایسے قوانین فراہم کرتی ہے، جو آنے والے ہردور میں انسانوں کی جان، مال، عزّت، شہرت اور آزادیٔ فکر وغیرہ کو بنیاد شمار کرتی ہے۔
اسلام کا یہ اعجاز ہے کہ وہ نامکمل ہدایات نہیں دیتا۔ اگر ایک عمل کی آزادی دیتا ہے تو ساتھ ہی وہ حدود بھی متعین کردیتا ہے، جنھیں پار کرنا، قانون کو حرکت میں لے آتا ہے۔ قرآنِ عظیم نےدین اسلام کی اقامت کے حوالے سے واضح الفاظ میں اُمت مسلمہ کو باضابطہ طور پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور حاکمیت ِ اعلیٰ کے قیام کے لیے ذمہ داری سونپی ہے۔ قیامت تک یہ ذمہ داری ادا کرنے اور جواب دہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ مگر ساتھ یہ بات بھی طے کردی ہے کہ کسی فرد پر جبری طورپر کوئی تعلیم نافذ نہیں کی جائے گی۔ کسی غیرمسلم کو مجبور کرکے مسلمان نہیں بنایا جائے گا۔
لیکن چند ایسے افراد کا ایک گروہ اور ان کی پشت پناہی کرنے والے بعض بیرونی اور اندرونی ادارے، جو ببانگ ِدہل اپنی تحریروں میں دُنیا کے تمام مسلمانوں کو اس وقت تک ’کافر‘ ماننے پر اصرار کرتے ہیں، جب تک کہ وہ اُن کے وضع کردہ ایک جھوٹے مدعیِ مسیح و نبوت کو اپنا رہنما نہ مان لیں۔ ان قادیانی یا مرزائی یا احمدی افراد کی شائع کردہ ایک تصنیف تفسیرصغیر کی طباعت اور پاکستان اور ملک سے باہر اس کی تقسیم کرنے والے ایک فرد کے خلاف ملکی قانون کی رُو سے ایک مقدمہ (FIR) ۲۲/۶۶۱، ۶ دسمبر ۲۰۲۲ء کو چناب نگر تھانے میں دائر کیا گیا کہ ’’پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ ۲۰۱۱ء کے سیکشن ۱۷ ، ۹ (ب) اور ’تعزیراتِ پاکستان‘ (Pakistan Penal Code) کے سیکشن ۲۹۸-سی اور ۲۹۵-بی کے تحت سزا دی جائے، چنانچہ اسے قید کردیا گیا۔
مجرم کی جانب سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجداری درخواست دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے ایک فنی نکتہ کی بناپر یعنی مجرم نے یہ جرم ۲۰۱۹ء میں کیا تھا، اور قانون کا نفاذ ۲۰۲۱ء میں ہوا اور چونکہ مجرم کے جرم کرتے وقت یہ قانون حرکت میں نہیں تھا، اس لیے اس قانون کے تحت اس کی گرفتاری غیرقانونی تھی۔
محترم چیف جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ نصیحت بھی فرمائی ہے: ’’(۶) عقیدے کے متعلق مسائل سے نمٹتے وقت عدالتوں پر لازم ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں…(۱۶) مذہب کے خلاف جرائم سے نمٹتے ہوئے جذبات، حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں‘‘___ چنانچہ فنی بنیاد پر مجرم کو رہا کردیا گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے قطع نظر جو پہلو زیادہ غورطلب ہے، وہ یہ کہ اگر تفسیرصغیر ، جیساکہ نام سے ظاہر ہے، قرآن کی تفسیر ہونی چاہیے، اور ۹۷ فی صد مسلم آبادی کے ملک میں ایک ایسا فرد، جو قرآن کے واضح حکم یعنی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل نہیں ہے ، اور ایک جھوٹے مدعی کو نبی یا مجدد مانتا ہے تو FIR میں درج دیگر دفعات، جن کا تعلق توہینِ قرآن و رسالتؐ سے ہے،انھیں فیصلے میں کیوں مکمل طور پر ایسے نظرانداز کردیا گیا ہے، جیسے ان کا ذکر فردِ جرم میں ہوا ہی نہ ہو؟
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ: کیا آزادیٔ رائے کا اصول، چاہے وہ دستور ِ پاکستان میں ہو، ایک غیرمسلم قادیانی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی من مانی تفسیر قرآن کو ملکی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے (دیکھیے: ۲۹۸-سی، پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈ ایکٹ ۲۰۱۱ء، سیکشن ۷،۸،۹) تفسیرصغیر کے عنوان سے مسلمانوں کو دھوکا دےکر ایک ایسی تحریر جو قادیانی فکر کی نمایندگی کرتی ہے، مسلمانوں میں تقسیم کرے؟ کیا اسی کا نام آزادیٔ اظہار ہے؟
پاکستان کا ہرمسلمان شہری شریعت کے منافی یہ حق کسی قادیانی، فرد یا ادارے کو دینے پر تیار نہیں ہے، اور نہ یہ حق دستورِ پاکستان اور ’قانون تعزیراتِ پاکستان‘ کسی غیرمسلم کو دیتے ہیں۔ اندریں حالات، اس فیصلے کو قانونی کارروائی کے ذریعے کالعدم کرانا ایک دینی اور قومی فریضہ ہے۔
رمضان کے روزوں کی فضیلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (بخاری، مسلم ،ابو داؤد)، ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔
اس پورے ایک ماہ کی تربیت و اصلاح کو تین مراحل میں تقسیم کرتے ہوئے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ انعامات سے نوازا گیا ہے، جن سے مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں نوازا گیا: پہلا انعام یہ ہے کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو (اللہ عزوجل امت محمدیؐ کو) نظرِ رحمت سے دیکھتا ہے اور جسے اللہ (نظرِ رحمت سے) دیکھتا ہے، اسے کبھی عذاب نہیں دیتا ۔دوسرا یہ کہ (روزہ دار) کی منہ کی بُو (دن بھر بھوکا رہنے سے ) جب وہ شام کرتے ہیں، اللہ کے ہاں کستوری کی مہک سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے۔ تیسرا یہ کہ فرشتے ہر رات دن میں ان کے لیے دعا کرتے ہیں ۔چوتھا یہ کہ اللہ اپنی جنت کو یہ کہہ کر حکم دیتا ہے کہ میرے بندوں کے لیے آمادہ و تیار ہو جا اور زینت کر لے، وہ (روزے دار)دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میری عزت افزائی میں آرام کریں گے۔ پانچواں یہ کہ جب آخری رات ہوتی ہے تو اللہ ان کی مغفرت فرماتا ہے (بیہقی ، عن جابر بن عبداللہ)۔
اس نوعیت کے انعام وبرکت کا ذکر اس حدیث میں بھی آتا ہے، جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے، اور جس شخص نےرمضان میں قیام کیا (رات کو کھڑے ہو کر عبادت کی) ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے وہ تمام قصور جو اس سے پہلے کیے ہوں گے،معاف کر دیے جائیں گے، اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کر دیے جائیں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کیے ہوں گے (متفق علیہ)۔
رمضان کے روزوں کی فضیلت کو سمجھنے کے لیے اس ماہ میں روزے کی شانِ نزول کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں جس معاشرے اور ریاست میں دین کی اقامت ہونی تھی، اس کے لیے تین عناصر لازمی تھے: ایسی سرزمین جہاں حاکمیت الٰہی کو اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ نافذ کیا جا سکے، ایسی افرادی قوت جو اقامت دین کرنے کی خصوصیات و کردار سے آراستہ ہو، اور ایسا پیمانہ جو افراد اور معاشرے کی صالحیت، للہیت اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع و طاعت کو جانچنے میں مدد کر سکے___ ان تین بنیادی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے لیے ہجرت کے بعد اسلامی معاشرے کی تعمیر حاکمیت الٰہی اور اقامت دین کی صورتِ حال کا تعین کرنے کے لیے دو ایسے اقدامات تعلیم کیے گئے، جن کے بغیر یہ اہم کام ممکن نہیں ہوسکتا تھا یعنی تربیت نفس، قلب، ذہن اور جسم کے لیے ایک ماہ کا نظام تربیت اور اس نظام تربیت سے گزرنے والوں کے لیے جانچنے کا پیمانہ جہاد۔
یہ پہلا رمضان تھا، جس میں ایک جانب تزکیۂ نفس و اخلاق اور دوسری جانب تقویٰ، قرب الٰہی اور اطاعت ِرب اور اطاعت ِ رسولؐ کا پیمانہ اجتماعی جہاد کی شکل میں اہل ایمان کے لیے مقرر کیا گیا۔ ۱۷رمضان کو ہونے والے معرکۂ بدر نے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی کہ اہل تقویٰ اور اللہ کی مغفرت کے مستحق مجاہدین فی سبیل اللہ ہوتے ہیں یا جان بچا کر بیٹھنے والے قائدین؟ صیامِ رمضان کی فرضیت کو اس کے ممکنہ نتیجہ(out come) یعنی حصولِ تقویٰ سے وابستہ کر دیا گیا، کیونکہ تقویٰ کے بغیر نہ فرد، نہ معاشرہ اور نہ اقامت دین کا کوئی تصور ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس تقویٰ، توکل علی اللہ اور اطاعت الٰہی اور رسول کو جاننے کا پیمانہ جہاد بھی فرض کر دیا گیا، تاکہ کسی بھی دور میں اقامت دین کی جدوجہد کے لوازمات ،مطلوبہ نظامِ تربیت اور تعمیر سیرت کے ساتھ اسے جانچنے کا پیمانہ بھی سامنے آجائے۔
رمضان کے روزے نہ صرف اہل ایمان کی سیرت و کردار میں ظلم و استحصال کے خلاف عملی جدوجہد کرنے کی استطاعت پیدا کرتے ہیں بلکہ اس روایتی نفس کشی کی اصلاح بھی کرتے ہیں، جس کا تصور بعض دیگر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے ماننے والے بھوک، پیاس، نیند اور آرام اور جنسی خواہش سے آزاد ہونے کو معرفت ِنفس سمجھتے ہیں۔اسلام انسان کی فطرت سے انحراف نہیں کرتا۔ یہ جسم ونفس کی ضروریات کی نفی نہیں کرتا بلکہ انھیں ایک مصلح قوت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ بقول مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ:’’اسلام جس ضبط کا قائل ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے انسان کی خودی اپنے خدا کے آگے سرِ تسلیم خم کر دے، اس کی رضا کی طلب اور اس کے قانون کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لے، اس کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھ لے، پھر اس مسلم و مومن خودی کو اپنے جسم اور اس کی طاقتوں پر حاکمانہ اقتدار، اور اپنے نفس اور اُس کی خواہشوں پر قاہرانہ تسلط حاصل ہو، تاکہ وہ دنیا میں ایک مصلح قوت بن سکے‘‘۔( نشری تقاریر ،ص ۸۰-۸۱)
رمضان کے روزوں سے جو تربیت اور تعمیرِ سیرت و کردار مقصود تھی، اس کو بھی قرآن کریم نے مبہم نہیں چھوڑا بلکہ چند الفاظ میں وضاحت سے بیان کر دیا، یعنی اس ماہ کی فضیلت اور برکت کا سب سے اہم سبب اس ماہ میں قرآن کریم کی شکل میں انسانوں کے لیے ہدایت کا مکمل نظام نازل کرنا ہے ،جو بذات خود شان کریمی کا ایک مظہر ہے کہ وہ جو مکمل طور پر عفو و درگزر سے اوراپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے۔ اپنے بندوں کو ٹھوکریں کھا کر حق و صداقت تک پہنچنے سے بچانے کے لیے اس نے اپنی جانب سے اسی ماہ میں وہ کلامِ عزیز نازل کیا ، جو قیامت تک انسانیت کے لیے واحد راہِ نجات و کامیابی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۸۳ (البقرہ۲:۱۸۳)اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
اس ایک ماہ کی تربیت سے اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب اس مہینہ میں اس کی اصل روح اور مقصد کو سامنے رکھا جائے اور قرآن کریم سے وہ حقیقی تعلق قائم کیا جائے جو اقامت ِدین کی اولین شرط ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ (البقرہ۲:۱۸۵)رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔
قرآن ِ کریم کی شکل میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے اس ماہ میں جو رحمت اہل ایمان اور تمام انسانوں کے لیے نازل کی گئی ہے اس کااوّلین مطالبہ بلکہ حق یہ ہے کہ اسے صحیح طریقے سے تلاوت کیا جائے اورساتھ ہی اس کے مفہوم پر غور کرتے ہوئے اپنی سیرت و کردار کو اس کے رنگ میں رنگ لیا جائے۔ صبغت اللہ کو اختیار کرنے سے یہی مراد ہے کہ ایک صاحبِ ایمان شخص اور ایک صاحب ِایمان معاشرہ اپنے ہر عمل اور اقدام کو کرنے سے پہلے یہ دیکھے کہ اس کے اس عمل سے اس کا ربّ خوش ہوتا ہے یا ناراض؟ تقویٰ اسی رضائے الٰہی کے حصول اور اللہ کے غضب سے بچنے کا نام ہے۔ جب تک اس کلامِ حق کی تلاوت صحیح طور پر نہ کی جائے اور اس کے معنی ومفہوم کو سمجھ کر وظیفۂ عمل نہ بنایا جائے، اس وقت تک ہمارا یہ کہنا کہ ہم اللہ ،اس کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کو مانتے ہیں صرف ایک زبانی دعویٰ ہے۔
قرآن کریم کے ذریعے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے اس عظیم کلام کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کے فہم کو اپنے فکر و عمل میں اس طرح ڈھالا جائے جس کی زندہ مثال حیات طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب کسی نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کیا تھا تو ان کا انتہائی مختصر لیکن جامع جواب یہی تھا کہ کیا تم نے قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا؟ آپؐ کا ہر عمل قرآن کریم کی تفسیر و تشریح تھا۔قرآن پر جتنا تفکر و تدبر کیا جائے گا، اتنا ہی ایک صاحب ِایمان سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہوگا ۔اس کا سوچنا، کاروبار کرنا، فیصلے کرنا ہرمعاملہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہوگا۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر اقامت ِدین کا فریضہ جیسا کہ اس کا حق ہے، ادا نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین زندگی بھر کے تمام معاملات میں قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما بناتے تھے اور یہی ان کی اقامت دین کی کوششوں کی کامیابی کا سبب تھا۔
قرآن کریم کا تیسرا اہم حق یہ ہے کہ قرآن کے سائے میں تعمیر سیرت کرنے کے ساتھ دعوتِ قرآن کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی جہدِ مسلسل ہو۔ گویا قرآن کو سمجھنے، اس پر تفکر اور تدبر کرنے کا تقاضا ہے کہ قرآن کی دعوت کو قائم کرنے کی جدوجہد میں شامل ہوکراور اس مقدس کام میں اپنی تمام متاع ِ حیات کو لگا دیا جائے ۔یہی وہ قیمتی ترین سرمایہ کاری ہے ، جس میں نہ کبھی نقصان ہوا نہ کمی بلکہ ہر لمحہ رب کریم کی غیر محدود رحمت کے سبب اضافہ اور بڑھوتری ہی ہوتی ہے۔
قرآن کریم جس تقویٰ کو پیدا کرتا ہے وہ ایک صاحب ِایمان کو حقیقی حریت سے آشنا کرتا ہے۔ وہ جو کل تک دن میں تین چار مرتبہ زبان کی لذت اور معدہ کی پکار پر کھانے پینے کا عادی تھا، جس کا دن بھر کا مشغلہ کہیں سبز ،کبھی سیاہ چائے، کبھی کافی ، کبھی پھلوں کا رس پینا تھا۔ وہ اپنے جسم کو لذّتِ کام و دَہن کی غلامی سے آزاد کر کے صبح سے شام تک ایک گھونٹ پانی یا چائے کے بغیر نہ تھکن محسوس کرتا ہے ،نہ اس کی طبیعت میں چڑچڑاہٹ پیدا ہوتی ہے بلکہ ہر آنے والے مہمان کے ساتھ مسکرا کر اور رمضان کی مبارکباد کے ساتھ اس کا استقبال کرتا ہے۔ وہ جو کل تک آٹھ نو گھنٹے سونے کو بھی کافی نہیں سمجھتا تھا کہ اس کے نفس کا حق ادا نہیں ہوا، اب فجر سے مغرب تک روزہ رکھنے کے بعد گرم جوشی کے ساتھ عشاء کی نماز اور پھر ایک ڈیڑھ گھنٹے مزید تراویح میں شرکت میں لذت اور سکون محسوس کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ چاہتا ہے کہ سحری سے پہلے بھی کم از کم دو رکعت تہجد پڑھ لے اور فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کر لے ۔یہ جوش اور ولولہ،یہ ایمان کی تازگی اس مبارک مہینہ کی رحمت و برکت ہی سے ہوتی ہے۔یہی وہ حریت و آزادی ہے، جس کا مطلب اپنی خودی اور نفس کو اللہ کی رضا کا تابع کرنا ہے ۔ یہ رمضان کے روزوں سے پیدا ہوتی ہے اور جس کی لذت ایک مسلمان محسوس کرتا ہے۔ اسی کا نام تقویٰ ہے۔
یہ پورا مہینہ انفرادی اور اجتماعی تربیت کے ذریعے اہلِ ایمان کو اپنی سیرت و کردار میں وہ صفات پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے،جن کے بغیر اقامت دین کا کام آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سب سے پہلی صفت صبر کی ہے۔ صبر کا ایک مفہوم وہ ہے کہ جو ہر بچہ اور بڑا جانتا ہے یعنی اپنی روز مرہ زندگی میں قناعت کا رویہ اختیار کرنا۔ بغیر کسی شکایت کے جو کچھ اللہ نے دیا اس پر شکرگزار ہونا، لیکن صبر کا وہ مفہوم جو قرآن کریم نے ہمیں سمجھایاہے بہت وسیع ہے ۔ اس میں دوچیزیں بنیادی ہیں۔ اوّلاً: حق پر جمنے کے ساتھ اعتماداور توکّل، اور دوسرے جہد ِ مسلسل ۔ یہی اقامتِ دین کی روح ہے اور یہ رمضان کے روزوں سے حاصل ہونے والی ایک بنیادی صفت ہے۔ ایک روزے دار صرف اللہ کے لیے بھوک و پیاس، جسمانی آرام، جائز لذت سے نہ صرف رُکتا ہے بلکہ ان تمام مواقع سے اپنے آپ کو بچاتا ہے جو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف کوئی رجحان پیدا کرتے ہوں۔ یہاں صبر میں سب سے زیادہ نمایاں پہلو استقامت کا نظر آتا ہے جو اقامتِ دین کے لیے ایک لازمی صفت ہے۔
اقامت دین کی جدوجہد کے لیے نہ صرف انفرادی صالحیت ، تقویٰ اور احسان ضروری ہے، بلکہ اجتماعی طور پر ایک ایسی جماعت کا وجود میں آنا ضروری ہے جو اپنے فکر و عمل میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی فرماں بردار ہو۔ جو کسی اقتدار ،منفعت، شہرت ،منصب اور لالچ کی غلام نہ ہو بلکہ اس جماعت کا ہر فرد اور بذاتِ خود و ہ جماعت شہرت، منصب اور منفعت سے بلند ہو۔ اس کے سامنے کامیابی صرف اور صرف آخرت کی کامیابی ہو ۔اگر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ دنیا میں اس جماعت کو اقامتِ دین میں کامیابی دے دیں تو یہ ان کا فضل و کرم ہے، لیکن اس جماعت کا اصل ہدف اور نصب العین اصلاً آخرت کی کامیابی ہو۔
اللہ کی حاکمیت اپنی ذات پر ، اپنے خاندان پر، اپنے معاشرہ میں اور اللہ کی زمین پر قائم کرنا اقامت دین کا پہلا مطالبہ ہے اور اس مقصد کے لیے فرد اور جماعت کا بے غرض ہونا پہلی شرط ہے۔للہیت کے ساتھ صرف اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت کو اپنے گھریلو معاملات میں، معیشت میں، اخلاق میں ،سیاست میں، غرض زندگی کے تمام معاملات میں صرف اللہ کی رضا کو مقصود بنانا ہی اس کا مقصود ہو۔ جب تک فرد اور جماعت اس حوالے سے ایک سطح پر (on one page) نہیں ہوں گے اقامت دین کا کام نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ دین کا کُلی قیام محض حصول اقتدار نہیں ہے بلکہ پوری زندگی کے معاملات میں بہ شمول افراد اور ریاست اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا قیام ہے۔ رمضان کے روزے اسی حاکمیتِ اعلیٰ کے قیام اور اقامت دین کے لیے مطلوبہ کردار اور سیرت یا تقویٰ کی تیاری کے لیے فرض کیے گئے ہیں۔
امام غزالیؒ نے روزہ کے آداب کو چھ مختصر نکات میں انتہائی مؤثر اور مدلل انداز میں بیان کیا ہے:
ان چھ آداب کا اہتمام روزہ کو نہ صرف تربیت و اصلاح اور حقیقیِ ضبط نفس کا ذریعہ بناتا ہے بلکہ اس دنیاوی زندگی میں ظلم و استحصال، کفر و طاغوت اور شرک کے خلاف جہاد کرنے کے لیے بہترین قوت، صلاحیت اور استعداد پیدا کرتا ہے۔
رمضان کے روزے ایک مسلمان کے دل و دماغ کو وہ غذا فراہم کرتے ہیں جو ان کی حقیقی تقویت کا باعث ہو۔جس طرح ایک ماہر قلب ایک شخص جس کا قلب کسی مرض کا شکار ہو، اس کو نہ صرف کوئی دوا بلکہ ساتھ ہی کچھ ورزشیں، کھانے پینے اور اوقات کار کے بارے میں ہدایات دیتا ہے ۔ایسے ہی رمضان کے روزے قلب و دماغ کی قوت کے لیے یہ آزمودہ نسخہ تجویز کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی زندگی کو بے شمار آقاؤں کی غلامی سے نکال کر صرف ایک اللہ کی بندگی اختیار کر لے، صرف اس کا عبد اور عابد بن کر اپنے قلب و دماغ کو یکسو کر لے۔ اللہ کا بندہ بننے سے جو قوت ملتی ہے، اس کی اعلیٰ مثال مکہ کی موسم گرما میں تپتی ہوئی سنگلاخ وادی میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال ؓ کا طرزِ عمل ہے جو قیامت تک ایک زندہ مثال رہے گا۔ جلتی ہوئی سنگلاخ زمین پر چت لٹا کر ان کے سینے پر پتھر کی گرم سلیں رکھ دی جاتیں اور تپتی زمین پر گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹا جاتا ہے لیکن وہ تمام غلامیوں سے آزاد ہو کر جس رب کے ہو رہے تھے اسی کا نام احد، احد کہہ کر پکارتے ہیں اور ظلم و تشدد انھیں ایک لمحے کے لیے مفاہمت پر آمادہ نہیں کرپاتا۔
اللہ سے تعلق جڑنے کے بعد حضرت بلالؓ نے عزیمت کی جو مثال قائم کی وہ ہمیشہ اہل ایمان کے لیے ایمان اور یقین کے روشن راستے کی نشان دہی کرتی چلی آرہی ہے ۔ ان کے سینے پر پر پتھر کی گرم سلیں رکھ کر کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا رب مان لو تو ان کا جواب صرف یہی ہوتا ہے کہ نہیں میں تو صرف اس ربّ کا بندہ ہوں جو احد ہے ،جس کا کوئی مثل نہیں، جویکتا ہے، جو تمام کائنات کا مالک ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو قلب اور دماغ کو یکسو کر دیتی ہے اور ایک مسلمان اِس قوت کی بنا پر ظلم و استحصال کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
یہی قوتِ ایمانی ہے کہ چار ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے پر بھی غزہ اور فلسطین کے مظلوم مسلمان اپنے سے دس گنا زیادہ بڑی آبادی اور دنیا کی چوتھی عسکری طاقت کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہیں اور انھوں نے نہ عربوں پر بھروسا کیا نہ ترکوں اور پاکستانیوں پر، بلکہ وہ صرف اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر ایمان رکھتے ہیں ۔یہی تقویٰ اور ایمان کا پیمانہ ہے ،یہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہی اقامت دین کے لیے اپنے آپ کو منظم کرنا ہے۔ گویا قوت ایمانی جو رمضان کے روزہ سے حاصل ہوتی ہے اگر اسے صحیح طریقے سے دل و دماغ میں جاگز یں کر لیا جائے، تو پھر میدان بدر ہو یا حنین، جو ایک مرتبہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے بھیج کر ان کی امداد فرماتے ہیں ۔
اہم اورقابلِ غور پہلو صرف یہ ہے کہ کیا واقعی جو لوگ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے نکلے ہیں کیا ان کا اللہ پر ایمان و توکّل اور طرزِ عمل اس معیار کا ہے، جس کی بنا پر رب کریم فرشتے بھیجتے ہیں، یا ابھی ان کی استقامت اور اللہ کی حاکمیت کو اپنی سیرت اور اپنی معاشرت میں مکمل طور پر نافذ کرنے میں کوئی کمی ہے؟ مدینہ کا معاشرہ اور ریاست اسی وقت وجود میں آئی جب تحریک اسلامی کے کارکن اور قیادت آزمایشوں کی بھٹی سے گزر کراور ہر تکلیف دہ مرحلہ سے کامیاب ہو کر مکہ کی سنگلاخ چٹانوں سے مدینہ کی زرخیز زمین میں پہنچے، تو اس کے پاس وہ افراد کار تھے جو آزمائشوں میں ثابت قدم اور ہر لمحہ تقویٰ اور ایمان اور احسان میں ترقی کی طرف گامزن تھے۔
رمضان کے روزے انفرادی اور اجتماعی اصلاح اور فلاح کی ضمانت ہمیں صرف اس وقت دیتے ہیں جب قرآن کریم کے ساتھ ہمارا تعلق کتاب کو محض پڑھنے کی جگہ کتاب پر عمل کرنے والا ہو اور اس کتاب کے ذریعے تزکیۂ نفس ،تزکیۂ مال، تزکیۂ اوقات اور تزکیۂ معاشرتی رسومات کرنے والا ہو۔ رمضان کا حق ایک صاحب ایمان پر یہ ہے کہ اس کا استقبال محض مسجد کے میناروں پر چراغاں کر کے نہ کیا جائے بلکہ دل کی ویران بستی کو اس کے نور سے منور کیا جائے۔اس کی دعوت انقلاب کواپنے ذاتی معاملات اور معاشرہ میں اللہ کی حاکمیت کے قیام اور اللہ کے دین کو اپنی مجموعی شکل میں اللہ کی زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کا کام تیز سے تیز تر کیا جائے۔ اپنے گھروں میں اس ہدایت اور فرقان کی روشنی میں تعمیر سیرت و کردارکی جائے۔ اس ابدی ہدایت کی سربلندی کے لیے معاشرہ سے استحصال، جہالت، جاہلانہ رسومات کی غلامی، مغربی استعمار سے مرعوبیت، بیرونی اداروں کی غلامی اور خصوصاً ملک کے دستور کی خلاف ورزیوں کو دور کیا جائے۔ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اس کے حصول کی جدوجہد کے لیے سرگرم ہوا جائے ۔
اس ماہ کی ۲۷ویں شب کی اہمیت اور برکت پر نہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم جیسی لازوال نعمت کے نزول کے حوالے سے بلکہ خود قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو غور و فکر کا موضوع بنایا جائے اور جس طرح قرآن کریم نے شرک اور بت پرستی کے فتنہ کو دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دور کیا، ایسے ہی آج اس عظیم کلام کے ذریعے پاکستان سے بدعتوں، بد عنوانیوں، دہشت گردی، معاشی استحصال ، نظام خاندان کے انہدام،معاشرتی زوال اور سیاسی بےیقینی کو دُور کر کے ملک کے دستور کی روشنی میں ایسے افراد کو برسرِ اقتدار لایا جائے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے وفادار، ایماندار، سچے اور امین ہوں ۔جو نظریۂ پاکستان کے محافظ اور اسلامی طرزِ حیات پر عامل ہوں۔ جن کا ماضی ہر قسم کی بد عنوانیوں سے پاک ہو اور جو بے لوثی کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی اس عظیم نعمت و امانت پاکستان میں اللہ کے دیے ہوئے نظام کو نافذ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے زیادہ وعدہ کی پابندی کوئی اور نہیں کر سکتا ۔ اس کا وعدہ ہے کہ وہ ایسے افراد کو جو خلافت فی الارض کی امانت کے اہل ہوں اور اس جدوجہد میں مخلص ہوں، جو اپنی ذات کی نمایش کی جگہ غلبۂ حق و صداقت اور عدل اجتماعی کو اہمیت دیتے ہوں، ایسے افراد کو وہ جنتوں کا وارث بنائے گا اور عین ممکن ہے کہ وہ انھیں اس دنیا میں میں بھی سلطنت اور اقتدار بخش دے ۔ اگر اس وعدہ کی تکمیل میں تاخیر ہے تو اس کا واضح سبب اہل امانت میں صلاحیت کا فقدان ہے کیوں کہ وہ صرف اصحاب رُشد وکمال ہی کو قیادت دیتا ہے ۔
ملت اسلامیہ کی تاریخ میں بیسویں صدی میں دو ایسے اہم واقعات کا ظہور ہوا، جنھوں نے مغربی مفکرین اور خصوصاً مستشرقین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا اس جدید لادینیت کے دور میں ایک صدیوں پرانا سیاسی نظام، جس کی بنیاد انسانوں کی محدود عقل کی بنیاد پر وجود میں آنے والے قوانین پر نہیں بلکہ کئی سو سال پرانی الہامی شریعت پر ہو ، قابل عمل اور قابل نفاذ ہو سکتا ہے ؟ اس سوال کے اُبھرنے کا ایک بڑا سبب بیسویں صدی میں ابھرنے والی دو اہم اسلامی تحریکات اخوان المسلمون (۱۹۲۸ء) اور جماعت اسلامی (۱۹۴۱ء ) کی دعوت کا بنیادی نکتہ قرآن و سنت پر مبنی اسلامی معاشرہ اور ریاست کا قیام تھا، جو مغرب کی زمان و مکان کی غلام، لادینی سیاسی فکر سے براہِ راست ٹکراتا تھا۔
دوسرا اہم واقعہ ۱۹۴۷ء میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی غرض سے وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کا قیام تھا ۔ جو اسلام کے نام پر اسلامی نظام حیات اور تہذیب ِ اسلامی کے احیا اور قیام کی ایک کوشش تھی اور جس کا سہرا برطانوی لادینی سیاسی نظام سے بخوبی آگاہ ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سرتھا، جنھوں نے اپنے بیانات اور تقاریر میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں اور اس خطے میں اسلام کی بقا کے لیے ایک لازمی شرط ہے ۔
مغربی سیاسی فکر، کلیسائی عیسائیت سے بغاوت کے نتیجے میں وجود میں آئی، جس میں قانون سازی ، معیشت اورمعاشرت کو عوام کے نمایندوں کی مرضی کا تابع کر دیا گیا اور یہ تصور راسخ کرلیا گیا کہ لادینی جمہوریت ہی دور جدید کے مسائل حل کر سکتی ہے ۔ عیسائیت (یا دیگر مذاہب) کے دور کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ البتہ ذاتی سطح پر ایک فرد اگر چاہے تو وہ عیسائیت یا اپنے کسی بھی عقیدے اور مذہب کی تعلیمات کو اختیار کر سکتا ہے۔ گویا زمان و مکان کی حدود اور دائرہ کار کو ذاتی اور عوامی یا Public place میں تقسیم کر دیا گیا اور اسی تصور کو ’جدیدیت‘ اور تہذیب کے ’نقطۂ کمال‘ سے تعبیر کیا گیا۔
اس مغربی فکری تناظر میں تحریکات اسلامی کا قیام اور ان کے نصب العین میں فرد ،خاندان، معاشرہ اور ریاست کو صرف ایک اصول یعنی توحید کا تابع قرار دینا،مغربی ذہن کے لیے ناقابلِ فہم معاملہ تھا ۔ آج اسلام کے سیاسی نظام کے قیام کی ہر کوشش کو Political Islam یا ’سیاسی اسلام‘ جیسی توہین آمیز اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے ،جب کہ اسلامی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی نظام کا قیام مستشرقین اور مغربی دانش وروں کی نگاہ میں ایک ناقابلِ عمل تصور ہے۔
’سیاسی اسلام‘ کی تعریف مغربی دانشوروں کی نگاہ میں اسلام کی وہ تعبیر ہے جس میں اسلام محض عبادات و رسومات تک محدود نہ ہو بلکہ وہ ذاتی حدود سے نکل کر عوامی حدود میں دخیل ہو اور معاشی ، سیاسی اور معاشرتی معاملات میں ’شریعت‘کے اطلاق کی کوشش کرے۔ مغربی لادینی جمہوریت، ذاتی اور عوامی دائروں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے پر ایمان رکھتی ہے اور یقینی حد تک یہ سمجھتی ہے کہ معاشی ترقی( Economic Development) اور معاشی فلاح (Economic Well being) صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب معاشی، سیاسی، قانونی اور انتظامی اُمور میں مذہب کا کوئی دخل نہ ہو۔
یہ وہ بنیادی عنصری فرق ہے، جس کی بنا پر دنیا میں کوئی بھی اسلامی تحریک ، وہ اخوان المسلمون ہو، جماعت اسلامی ہو، نورسی تحریک ہو وغیرہ۔ اگر اس کے نصب العین میں فرد کی تعمیرِ سیرت کے ساتھ معاشرے، معیشت ،قانون اور سیاسی نظام کی اصلاح شامل ہے تو وہ ’رجعت پسند‘، ’بنیاد پرست‘ ، ’انتہا پسند‘ ، حتیٰ کہ ’تشدد پسند‘ کہلانے کی مستحق بن جاتی ہے۔اور اس پر Political Islam یعنی ’سیاسی اسلام‘ کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے ۔اس فکر کے برخلاف اسلام اصولی طور پر لادینیت کی کوکھ سے پیدا ہونے والے ہر نظام کو چیلنج کرتے ہوئے معیشت، معاشرت، ثقافت، سیاست اور قانون، غرض یہ کہ ہر شعبۂ حیات کو ایک آفاقی عالم گیر اخلاقی ضابطے کا پابند بنانا چاہتا ہے۔ تحریک اسلامی کا یہ مزاج بیسویں صدی کی پیداوار نہیں ہے (یہ مستشرقین اور مغربی دانش وروں کی غلط فہمی ہے کہ تحریکاتِ اسلامی سامراجی نظام کے ردِ عمل کے طور پر وجود میں آئی ہیں یا یہ کہ یہ ایک ایشیائی معاملہ ہے)۔
اسلام کی تعلیمات اور تصور حضرت ابراہیم ؑسے لے کر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک توحید پر مبنی ہے۔ یہ تصور جو صرف ذاتی زندگی (personal space) میں نہیں بلکہ معاشی، قانونی، سیاسی، بین الاقوامی اور ثقافتی میدانوں میں الہامی تصور حلال و حرام ،قرآنی تصور تقویٰ،احسان، عدل، عفوو درگزر ،بین الانسانی تعاون البر اور منکر، فحش اور رذائلِ اخلاق کے خلاف منظم جدوجہد کا نام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان تعلیمات کی تازگی میں نہ کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اگر دین ابراہیمیؑ میں تقویٰ کا مطلب اللہ تعالی کی خشیت تھا تو شریعت محمدیؐ میں بھی یہ تصور جوں کا توں پایا جاتا ہے۔اگر صداقت کا مطلب دین ابراہیمیؑ میں طاغوت کے سامنے توحید کو بلاکسی معذرت و نظرثانی کےپیش کرنا تھا، تو آج بھی صداقت و امانت کا مفہوم وہی ہے۔ اخلاق ایک اضافی عمل نہیں ہے بلکہ اسلام اخلاق کو مطلق طور پر ایک عالم گیر فریضہ کے طور پر متعین کر دیتا ہے،جو اپنے اندر ہرپیش آنے والی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے اور مشکلات و مسائل کو زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قرآن نے اس جامع اور آفاقی اخلاق کو عملاً کر کے دکھانے والے کے لیے یہ کہا تھا: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۴ (القلم ۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں‘‘۔ کیونکہ آپؐ نے ذاتی اخلاقی طرزِ عمل سے لے کر عسکری، سیاسی، معاشی، ثقافتی، قانونی ہرشعبہ میں مثالی اخلاقی طرز ِعمل کو عملاً نافذ کر کے وہ قابلِ عمل سنت قائم فرمائی جو ترقی اور خوش حالی لانے کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
مغرب کے ’سیاسی اسلام‘ کے تصور کا ایک پہلو خواتین کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ مغربی مفکرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’جب تک خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی دوڑ میں شامل نہیں کیا جائے گا اور ان کا دائرہ کار صرف گھر کی چار دیواری تک محدود رہے گا ،ایک جدید معاشرہ اور ترقی یافتہ ماحول پیدا نہیں ہو سکتا‘‘۔اکبر الٰہ آبادی اور علامہ محمد اقبال نے سو سال پہلے قوم کو خبردار کر دیا تھا کہ خواتین کو ان کے اصل دائرہ سے نکال کر معاشی دوڑ میں شامل کرنے کے نتیجے میں کیا منظر نامہ وجود میں آئے گا؟
یہاں یہ بات واضح طور پر کہنے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ اور مغربی دانش وروں کے ہاں تعمیروترقی کا جو تصور بطور ایک قاعدے اور کلیے کے پیش کیا جاتا ہے، وہ عملاًصرف معاشی سرگرمی سے تعلق رکھتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی ملک میں ۵۰ فی صد یا اس سے زیادہ تعداد میں خواتین معاشی دوڑ میں شامل ہوں تو اسے ترقی یافتہ ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تصور بھی ذہنوں میں بٹھا لیا گیا ہے کہ ’سیاسی اسلام‘ خواتین کو تعلیم ، معاشی سرگرمی اور سیاسی معاملات میں حصہ لینے کا اختیار نہیں دیتا ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت نے ہر مسلمان خاتون پر حصولِ علم کو فرض قرار دیا ہے۔ پھر زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جملہ معلومات کے حصول اور اپنی معاشرتی وثقافتی ذمہ داریوں کے ساتھ معیشت ،قانون سازی اور دیگر معاملات میں علم، تجربہ اور تخصص کی بنا پر حصہ لینے کو خواتین کے بنیادی حقوق میں شامل کیا ہے۔لیکن چونکہ یہ تمام حقوق ایک ’دین‘ دیتا ہے ، اس لیے دین کی پیروی کو ’قدامت پرستی‘ قرار دیا جاتا ہے ۔
جس چیز کو مغرب سمجھنے سے قاصر ہے وہ یہ ہے کہ مغرب میں جو اخلاقی، معاشرتی اور ثقافتی اضمحلال اور زوال واقع ہوا ہے ،اس کا ایک بڑا بنیادی سبب معاشی خوش حالی کے نام پر خاندان کی یکجہتی اور مرکزیت کا ختم کیا جانا ہے۔خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی دوڑ میں شامل کرنے کا قدرتی نتیجہ خاندان کا منتشر ہونا تھا۔اسلام وہ واحد دین ہے جس نے زکوٰۃ کی فرضیت مرد اور عورت دونوں پر واجب کی ، دونوں کے دولت کے پیدا کرنے ،خرچ کرنے، صرف کرنے کے ساتھ معاشی فوائد کے حصول کو دینی سرگرمی میں شامل کیا اور ساتھ ہی خاندان کو بھی تحفظ فراہم کیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ تنگ نظری اور خود غرضی کی بنا پر خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی ذاتی یا روایتی و قبائلی خواہش کو شریعت سے منسوب کر دیا جائے ، یا عملاً اس سلسلہ میں کوتاہی کی جائے۔
گویا’سیاسی اسلام‘ پر یقین رکھنے والے مغربی یا مشرقی مفکرین کا یہ تصور کہ اسلام کے نفاذ سے خواتین حقوقِ انسانی سے محروم کر دی جائیں گی ،مکمل طور پر بے بنیاد تصور ہے اور قرآن و سنت کی واضح ہدایات سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتا۔ آج ابلاغ عامہ ہو یا علمی تحقیق کا میدان، ہر جگہ یہی بات دہرائی جا رہی ہے کہ ’طالبانائزیشن‘ ہی ’سیاسی اسلام‘ کی عملی شکل ہے اور اس میں خواتین کی تعلیم اور حقوق ِانسانی پر عمل کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔
جس طرح یورپ کو سوویت یونین کے خوف اور جنگ عظیم کے اثرات نے بہت سے کام کرنے پر آمادہ کیا، جن میں NATO (ناٹو) کا قیام بھی شامل ہے۔ اسی طرح ’سیاسی اسلام‘ کو ایک خوفناک جِنّ یا عفریت قرار دے کر یورپی اقوام کو اسلام سے ذہنی طور پر متنفر کرتے ہوئے انھیں ’سیاسی اسلام‘ کے خلاف جا رحانہ اقدامات کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے ۔ یوں اسلام اور یورپی عوام کے درمیان ذہنی اور ثقافتی بُعد میں روز بروز اضافہ واقع ہو رہا ہے۔ اگرچہ دوسری جانب اسلام دشمن قوتوں کے بعض جارحانہ اقدامات نے خود اسلام کے بارے میں تجسس پیدا کیا ہے اور حقیقتِ حال معلوم کرنے کی خواہش کے ساتھ جن افراد نے قرآن کی طرف رجوع کیا ہے ، ان میں سے بڑی تعداد نہ صرف اسلام سے قریب آئی ہے بلکہ بعض نے اسلام پر ایمان لانے کا اظہار بھی کیا ہے۔
’سیاسی اسلام‘ کے حوالے سے یہ بات بھی بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ اس کی قیادت روایتی علما نہیں کر رہے بلکہ سیکولر یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے ایسے نوجوان ہیں جو ماضی قریب یعنی ساٹھ کی دہائی میں اشتراکی فکر سے متاثر تھے اور کارل مارکس کو حُریت کا پیغمبر سمجھتے تھے۔ وہ اپنے موقف سے رجوع کر کے ’سرخ نظام‘ کی جگہ اب ’سبز نظام‘ یعنی نظامِ مصطفیٰ ؐکے علَم بردار بن گئے ہیں۔ لیکن ان میں چونکہ اشتراکیت زدہ افراد کی طرح انتہا پسندی اور تشدد کی طرف رجحان بھی پایا جاتا ہے،اس لیے یہ مغرب کے لیے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی خطرناکی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ روایتی علما کی طرح محض عقیدے پر زور نہیں دیتے ۔یہ اسلام، سائنس اور ٹکنالوجی کو یکجا کر کے ایک نئے ’عادلانہ نظام‘ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ جدید معاشرے کی ایجاد کردہ سہولیات کا استعمال بھی کرتے ہیں اور اس کی بیخ کنی بھی کرنا چاہتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: اولیورائے کی کتاب The Failure of Political Islam ،ص۳)۔ ’سیاسی اسلام‘ کو ناکام قرار دینے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سیاسی اسلام جغرافیائی حدود میں محدود تصور نہیں ہے بلکہ یہ عالمی تبدیلی کا داعی ہے اور مغرب کی لادینی تہذیب کے مقابلے میں وسائل اور اختیارات سے محروم ہے، اس بنا پر عملاً کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے یورپی ذہن میں ریاست کا تصور جغرافیائی حدود پر مبنی ہے اور اسلام کی عالم گیریت، ریاست کی بنیاد جغرافیائی سرحد کو قرار نہیں دیتی۔
اولیورر ائے ’سیاسی اسلام‘ کے جغرافیائی حدود سے ماورا اور پوری امت مسلمہ کی ایک باوقار قیادت کی یک جہتی کے تصور کو جدید تہذیب کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے، ’سیاسی اسلام‘ کو آمریت اور جبر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کو اسلام میں مذہب اور سیاست کی عدم تفریق، یورپ کے ’تاریک دور‘میں چرچ کے مظالم کی یاد دلاتی ہے اور نفاذ شریعت کو کلیسا کی پاپائیت سمجھتے ہوئے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہےکہ مغربی سیکولر جمہوریت ہی انسانیت اور مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ (ایضاً،ص ۱۳)
عالمی سطح پر دانش ورانہ حلقوں، بین الاقوامی کانفرنسوں، یورپی اور امریکی یونی ورسٹیوں کے شعبہ ہائے تقابلی سیاست ، عمرانیات ، مذہب، معیشت اور خصوصاً اسلام کےعصری انقلابی پہلو پر کام کرنے والے لوگوں کا ایک مخصوص نقطۂ نظر بنتا ہے۔ ان کے زیرانتظام چلنے والے تھنک ٹینکس کی تحقیقات کا مطالعہ کرے گا، پھر ان کے مذاکروں اور مکالموں میں جو فرد بھی شرکت کرے گا وہ ایک نہیں پندرہ بیس محققین کی زبان سے اعداد و شمار پر مبنی ’سیاسی اسلام‘ پر مقالات اور تقاریر سننے کے بعد اگر مکمل نہیں تو کم از کم نصف قائل ہو کر نکلے گا کہ واقعی سیاست میں اگر ’مذہب‘کا عمل دخل ہوا تو’سیاسی اسلام‘ ملک و ملت اور دنیا کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔
مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک تاریخی طور پر ایک ایسی نفسیاتی اور معاشرتی فضا میں وجود میں آئے، جو فرانس اور برطانیہ کے مشرقِ وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ بنا کر سلطنتِ عثمانیہ کی بندر بانٹ کر نے کا نتیجہ تھا ۔ اس لیے وہ اپنی قومی عصبیتوں میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اپنی اصل تاریخ اور فکر سے لاتعلق ہو گئے اورروز ِاوّل سے استعماری فکر و تعلیم میں تربیت پانے کے سبب دین و سیاست کے عدم اتحاد کے تصور کو ہی حق و صداقت پر مبنی سمجھ بیٹھے۔
نہ صرف یہ بلکہ عیسائی اور یہودی ماہرین سماجی علوم نے ان کے دل و دماغ میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کہ کویتی ایرانی سے ، قطری مصری سے، سعودی یمنی سے ، عراقی شامی سے قومیت کی بنا پر برتر ہے۔ قومیت کے اس دو آتشہ زہر نے ہر اس فرد کو جو چاہے عربی دانی کا دعویٰ کرتا ہو، قرآن کریم کے اصولِ اخوت اور امت مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کی جگہ نسلی ،لسانی اور قبائلی تفریق کی بنا پر قومیت پرستی پراس حد تک یقین دلا دیا ہے اور ایسے اقوال ایجاد کر لیے گئے جو قرآن و سنت سے براہِ راست ٹکراتے ہیں، مثلاً حُبُّ الوطن من الإیمان (یعنی وطن سے محبت ایمان کا جز ہے)۔ایسے اقوال کو بنیاد بنا کر لادینی قومیت کے لیے راہیں نکالی گئیں اور اسلام کی عالم گیر فکرپر نقب لگائی گئی، جو اسلام دشمن قوتوں کا ہدف تھا۔
اس تناظر میں اگر پاکستان پر ایک نظر ڈالی جائے تو منظر نامہ فوری توجہ طلب نظر آتا ہے ۔ ۷۵سال سے معاشی پالیسی ہویا تعلیمی اور ثقافتی، تینوں محاذوں پر مقدور بھر کوشش کی گئی کہ برسرِاقتدارآنے والی پارٹی یا مقتدر قوت اپنے ذاتی مفاد کی پرستش کرے اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دے۔ چنانچہ وسائل کی تقسیم اور اس سے زیادہ اہم وسائل کا درست استعمال کبھی حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہا ۔وہ حضرات جو مثلا ًبلوچستان کے مجبور و مظلوم عوام کو غلام رکھنے کے لیے مشہور تھے، انھی سرداروں کو صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرانے کے لیے منتخب کیا گیا جو نسلا ًبعد نسل انگریز کے وظیفوں پر پلتے رہے تھے۔ جنھیں انگریز نے اپنی وفاداری پر خطابات اور وسیع زمینی قطعات سے نوازا تھا۔ کیا کوئی صاحب ِعقل ایسے حکمرانوں سے یہ امید کر سکتا ہے کہ جو اپنے عوام کو ’کم تر انسان‘ اور اپنا ’غلام‘ سمجھتے ہوں ، وہ ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں؟ لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود ہماری مقتدر قوتوں نے آنکھیں بند کر کے انھی کو اپنے سیاسی اتحادوں میں شامل کر کے ظلم و استحصال اور محرومی کے شجر کو پھلنے پھولنے دیا ۔
بانی ٔپاکستان قائداعظم نے ایک مرتبہ نہیں بارہا یہ بات دُہرائی تھی کہ اب یہاں نہ کوئی بنگالی ہوگا، نہ پنجابی، نہ بلوچی بلکہ سب پاکستانی ہوں گے اور انھیں ان کے حقوق دیے جائیں گے۔ ۱۱؍اگست کی وہ تقریر جس کا وظیفہ پاکستان کے یورپ زدہ دانش ور دُہراتے ہیں ، اسی تقریر میں قائداعظم نے عصبیت، چور بازاری، کرپشن اور چودھراہٹوں کے بخیے ادھیڑے تھے اور قوم کو اس کے اصل اندرونی دشمنوں سے آگاہ کیا تھا، لیکن قوم اگر انھی راہ زنوں کو راہنما بنا کر خوش ہو تو اس میں کوئی کیا کر سکتا ہے؟ خالق ارض و سما تو اسی صورتِ حال کی مناسبت سے فرما چکا ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (الرعد۱۳:۱۱)
پاکستان کے تناظر میں ’سیاسی اسلام‘کے تصور کو دیکھا جائے تو تقلید پسند روایتی علما اور مفکرین بغیر یہ تصور کیے کہ شریعت کے وہ اصول جنھیں وہ طلبہ کو حفظ کراتے ہیں ،کیا کہتے ہیں اور انھیں ہم کس طرح آج استعمال کر سکتے ہیں؟ ان دو کلمات پر مبنی اپنے طول طویل خطبوں سے لوگوں کے دل گرماتے ہیں: ’’ہر مسئلے کا حل ’خلافت‘اور شریعت کا نفاذ ہے‘‘۔ بلاشبہہ اپنی جگہ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن کیا انھوں نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت فرمائی کہ ’خلافت اور شریعت‘ ایک ایسے ماحول میں جہاں عوام کو ان تصورات کی کوئی آگہی نہ ہو، محض ان کے فرمانے کی بنا پر، وہ جو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں ، ان کی بات پر یقین کرلیں گے؟سیاسی تبدیلی کو اُوپر سے نیچے تک، اور نیچے سے اُوپر تک کیسے نافذ کیا جائے گا؟ کیا محض تقریروں اور نعروں سے یہ عظیم کام انجام پاسکے گا؟کیا ماحول تیار کیے بغیر ایک انتہائی اعلیٰ نظام محض ایک سرکاری اعلامیہ سے نافذ کیا جا سکتا ہے؟
ان بنیادی سوالات کے معقول جوابات کے بغیر روایتی علما کی بات اثر نہیں کر سکتی۔ دوسری جانب وہ حضرات جو جوشِ ایمانی میں یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی انقلاب ہی ہر مسئلے کا حل ہے،یا کسی مسلح سرگرمی سے اچانک قبضہ کر کے تمام برائیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے، کیا وہ کبھی غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں کہ خود مکہ مکرمہ میں انقلابی حکمت عملی کے بے انتہا روشن امکانات ہونے کے باوجود، ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکمت عملی پر کبھی توجہ فرمائی؟ اگر حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ، ہر ایک قرآن کریم کی رو سے اپنے سے دس گنا افراد کے لیے کافی تھے، تو کیا ایک شب ایسی نہیں ہوسکتی تھی، جس میں تمام سردارانِ مشرکین کو تہہ تیغ کر کے اسلامی ریاست کے نفاذ کا اعلان مکہ ہی میں کر دیا جاتا اور وہ ساری آزمائشیں جو بدر و اُحد اور حنین و خندق کی تھیں، ان کی ضرورت ہی پیش نہ آتی؟
دین اسلام عقل و ہوش ،تاریخ، مقامی صورتِ حال، مستقبل کے نتائج کے ہر ہر پہلوپر غور کرنے کے بعد کوئی اقدام تجویز کرتا ہے۔ اسلام نہ جذباتیت کا غلام ہے اور نہ محض عقل کا پابند، یہ حکمتِ دین کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بہرحال، اس جملۂ معترضہ سے قطعِ نظر پاکستان کے تناظر میں تقلید پسند علمااور مفکرین نے جو اپنے رسائل کے سرورق پر’ خلافت‘اور’شریعت‘کی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں، وہ نقشۂ عمل پیش نہیں کیا، جسے قوم سمجھ سکتی اور جو قابلِ عمل (viable)بھی ہوتا۔
’ سیاسی اسلام‘ کو سب سے زیادہ ان پاکستانی دانشوروں نے اپنے لیے باعثِ رحمت سمجھا جو ذہنی طور پر پہلے ہی صبغتہ اللہ کی جگہ، اپنے آپ کو یورپ کے رنگ میں رنگ چکے تھے، اور پاکستان کی اکثر یونی ورسٹیوں میں اپنی اسی خام دانش کو بکھیرنے کا مقدس فریضہ انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے نہ صرف اس تصور کو خود تسلیم کیا بلکہ قائداعظمؒ سے بھی منسوب کر دیا۔ پھر اس علمی بددیانتی کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ آج اکثر یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے اساتذہ اورطلبہ یہی سمجھتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور سیکولر نظام کے حامی تھے ۔
وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قائداعظمؒ ایک سچا، نڈر، بااصول اور کسی کے سامنے نہ جھکنے والا انسان تھا۔ جس نے کبھی ساری عمر ایک جھوٹا کیس بطور وکیل پسند نہیں کیا، اور جس نے کبھی دوغلی بات نہیں کی۔ اس نے سو سے زیادہ مقامات پر جو بات کہی، اس تمام تفصیل کو ان کے صرف دو خطبے بیان کر دیتے ہیں۔ اگر صرف یہ دو بیانات ہی قوم نے کھلے ذہن کے ساتھ پڑھ اور سمجھ لیے ہوتے تو آج ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قائد کے یہ اور دوسرے بیانات کسی ’مظاہرے‘ یا ’علما کے دھرنے‘کے ردعمل میں نہیں دیے گئے، بلکہ ایک سوچنے سمجھنے والے اور ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولنے والے شخص کے الفاظ ہیں:
In Pakistan we shall have a state which will be run according to the principles of Islam.It will have its cultural, political and economic structure based on the principles of Islam. The non-Muslims need not fear because of this, for fullest justice will be done to them.... they will have their full cultural, religious, political and economic rights safeguarde. As a matter of fact they will be more safeguarded than in the present day so-called democratic parliamentary form of Government.(Address at the Hostel Parliament of Ismail Yusuf College, Jogeshwari (Bombay), 1st February 1943. M.A Harris (ed) 1976, p.173.
پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جسے اسلام کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ اس کا ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچا اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا… غیرمسلموں کو کسی قسم کے اندیشے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، ان سے پوری طرح عدل کا معاملہ کیا جائے گا۔ وہ مکمل طور پر اپنے ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور معاشی حقوق میں محفوظ و مامون ہوں گے۔ درحقیقت انھیں آج کل کی نام نہاد پارلیمانی جمہوری حکومت سے زیادہ تحفظ ملے گا۔
یہ تین باتیں کہنے والا نہ توکبھی کسی کی دھمکی کے زیراثر تھا اور نہ دھمکی دی تھی، نہ وہ کسی جذباتی دباؤ میں یہ بات کر رہا تھا، کیونکہ وہ یہ بات ۱۹۴۵ء میں کہہ رہا ہے ۔ پھر وہ ایک نڈر شخص ہے جو یہی بات شملہ میں کہہ چکا ہے ، یہی بات علی گڑھ میں کہی کہ یہ نام نہاد مغربی پارلیمانی نظام ہمارے لیے ناکارہ ہے۔
اولیور رائے دیگر مفکرین کے پیمانے سے دیکھا جائے تو وہ شخص جس کی فکر اتنی واضح اور غیرمبہم طور پر اسلامی ہو،اسے کیا کوئی ذی ہوش شخص سیکولر قرار دے سکتا ہے؟
دوسرا اہم بیان جسے قوم سے جان بوجھ کر مخفی رکھا گیا وہ ۲۳ مارچ کو لاہور کے مشہورِ زمانہ کنونشن، جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی،اس کے اگلے دن کا واقعہ ہے ۔ ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء کو خواجہ عبدالرحیم جو چودھری رحمت علی کے ساتھی اور پاکستان کا نام تجویز کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھے، انھوں نے اپنے گھر پر قائداعظم اور دیگر مسلم لیگی زعما کو چائے پر مدعو کیا۔ اس نشست میں جو گفتگو ہوئی وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ قائدا عظم نے ان سے کہا کہ ’’جو نام تم لوگوں نے ۱۹۳۰ء میں تجویز کیا تھا، اس پر ہندو پریس میں بڑی گفتگو ہو رہی ہے۔ خواجہ عبدالرحیم نے کہا: ’’پھر آپ کے خیال میں ملک کا نام کیا ہونا چاہیے ؟علامہ اقبال بھی اس نام کو پسند کر چکے ہیں‘‘۔ قائداعظم نے جواب دیا:
if you people and the Muslim nation likes this name I have no objection, except in the name you have on the pamphlet Pakstan add ‘I` which stands for Islam and is the link between these provinces.
اگر آپ لوگ اور مسلم قوم اس نام کو پسند کرتی ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے پمفلٹ پر جو نام ’پاک- ستان‘ لکھا ہے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرلیں جو اسلام کی نمایندگی کرتا ہے اور ان صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔
خواجہ عبدالرحیم نے قائد کا یہ پیغام چودھری رحمت علی کو جو ان دنوں کراچی میں تھے پہنچا دیا۔ (سلطان ظہیر اختر، شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات، راولپنڈی، تنظیم کارکنان پاکستان، ۱۹۹۸ء، ص ۲۳-۲۴)
پاکستان کے نام کی تاریخ کا یہ باب ۷۵سال سے قوم سے مخفی ہے۔ دوبارہ سوال یہی ہے کہ جو شخص ملک کے نام کو اسلام کے بغیر نامکمل سمجھتا ہو، وہ کس قسم کے پاکستان کا خواہش مند تھا؟ پھر ایک ماہر قانون دان منطقی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ نئے ملک کے مجوزہ نام میں P جو پنجاب سے لیا گیا ،A جو افغانستان سے لیا گیا،Kجو کشمیر سے لیا گیا اور stan سندھ، بلوچستان کے لیے استعمال کیا گیا، لیکن ان سب صوبوں کو کیا چیز جوڑے گی ؟ ان کی عصبیتوں کو کون سنبھالے گا ؟ ان میں اتحاد کون پیدا کرے گا ؟ چنانچہ عقلی اور منطقی طور پر وہ یہ مشورہ دیتا ہے کہ چاہے علامہ اقبال نے یہ نام پسند کر لیا ہو، تب بھی اس میں اسلام کے لیے ’I‘ کا اضافہ کیا جائے۔
چودھری رحمت علی کے تحریر کردہ پمفلٹ Now or Never میں جو نام تجویز ہوا، وہ PAKSTANتھا۔( ملاحظہ ہو اصل خط کی نقل جس میں’ I‘کے بغیر ملک کا نام تجویز کیا گیا تھا)
Pakistan میں ’I‘ کا اضافہ قائداعظم کی خواہش پر ہوا اور ’I‘ سے مراد اسلام ہے۔
’سیاسی اسلام‘ پر ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھنے والے مغرب زدہ پاکستانی دانش وروں کے سوچنے کے لیے صرف یہ دو اقتباسات کافی ہیں کہ وہ قائد کو کس کھاتے میں رکھنا پسند کریں گے۔ ’بنیاد پرست‘، ’مقلد‘، ’بند ذہن‘، ’روایت پرست‘، ’ سیکولر‘ یا ایک سچا، نڈر، بے باک ، دوٹوک بات کہنے والا؟ یا لنکن اِن سے بار ایٹ لا کرنے والا، برطانیہ کے نظام ،وہاں کی معیشت، معاشرت، ثقافت سے براہ راست آگاہ شخص، لیکن اس کے باوجود اسلام کو بغیر کسی معذرت اور تردد کے کھل کر ملک کا نظام قرار دینے والا روشن دماغ، ترقی پسند رہنما!
اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ کیا وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آجانے کے راستے کو اختیار کرے، جس میں کچھ compromise (سمجھوتے) کرنے پڑیں یا وہ ’انقلابی‘بن کر سٹریٹ پاور کے ذریعے اقتدار میں آجائے ۔ یا پھر بجاطور پر وہ اپنے دستور میں واضح درج شدہ پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے، بغیر کسی سازشی حربے کے، کھلے ماحول میں دستوری جدوجہد کے ذریعے ان منطقی مراحل کو اختیار کرے، جن کی دستور جماعت اسلامی خود وضاحت کرتا ہے۔ یعنی پہلے اس ذہن کو ہموار کرنا، جس میں شجر طیبہ کا بیج ڈالنا ہے، فکری اور عملی تطہیر، تربیت اور خاندان اور معاشرہ کی اصلاح کے نتیجے میں زمامِ کار کا صالح افراد کے ہاتھ میں آنا۔
اس پہلے مرحلے کو جب تک بنیادی اہمیت نہیں دی جائے گی جو دیوار بھی تعمیر ہوگی وہ آسمان تک جا کر بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔اولین ترجیح عظیم الشان جلوس اور جلسوں کی جگہ دلوں کی کائنات میں تبدیلی ہے، ذہنوں کا اتحاد ہے اور اَرواح کی یکجائی ہے۔ فکر کی اصلاح اور راستی ہے۔یہ کام محض خطبوں سے نہیں بلکہ باہمی ربط، قربانی، اخوت، باہمی امداد اور خصوصاً للہیت ہی سے ہوسکتا ہے۔ اطمینان قلب، ذکر الٰہی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ایسے قرآنی اجتماعات کی ضرورت ہے جن میں آخرت اور سنت پر عمل کو اُجاگر کیا جائے تاکہ عوام میں دین سے محبت اور دین کے لیے اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے کی تڑپ اور طلب پیدا ہو۔ یہ کام محض جلسے، جلوس نہیں کر سکتے۔ یہ ایک سنجیدہ، گہرا، سوچا سمجھا، محنت طلب اور طویل المعیادکام ہے۔
دوسری اہم چیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی مرکزیت اور اس کی روح اور الفاظ کا تحفظ اور اس چیزسے عوام کو آگاہ کرنا ہے ۔کیونکہ ۹۹ فی صد پڑھے لکھے افراد بھی دستور پاکستان کی اسلامی دفعات سے مکمل طور پر لا علم ہیں ۔یہ دستورکا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں نظام تعلیم ، معاشی نظام، سیاسی نظام، معاشرت، ثقافت، غرض ہر شعبۂ حیات کو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔
نفاذ شریعت کسی سیاسی جماعت یا کسی گروہ کا مطالبہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر دستور پاکستان نامکمل ہے۔اس دستوری فریضے کو سیکولر طبقے نے ایک متنازعہ مسئلہ جان بوجھ کر بنایا ہے اور اس میں دانش وروں کو الجھا کر رکھ دیا ہے، تاکہ دستور پاکستان پر عمل نہ ہو سکے ۔ اس لیے تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے اپنے کارکنوں کو دستور پاکستان کا شق وارشعور دے اور پھر اس دستور کے عملی نفاذ اور تحفظ کو اپنی ترجیح قرار دے ۔اس مطالبہ کی مخالفت سیکولرزم پر ایمان بالغیب لانے والا بھی نہیں کر سکے گا۔
تیسری اہم چیز اس قومی مرحلے میں اس کی قطعیت (polarity) ہے، جس میں تقسیم در تقسیم کو دُور کرنا کہ جس کا اس وقت ملک شکار ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمام ملکی ادارے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر قومی مفاد نہیں بلکہ ذاتی خواہش کی وفادارانہ اطاعت میں ایک فریق کو ’پاک باطن‘ اور دوسرے کو ’مکمل شیطانیت‘ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔یہ امر نہ صرف انسانی عقل و عدل اور اسلامی شریعت کے منافی ہے، بلکہ جو بھی شریعت اسلام پر ایمان رکھتا ہو، اس کا فرض ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے، چاہے اس سے اس کو سیاسی فائدہ ہو یا نقصان۔ یہ کتمانِ حق کسی بھی شکل میں مفید نہیں۔ ملکی یک جہتی اس وقت ہوگی جب اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے ہر فریق کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہو اور عوام بغیر کسی رکاوٹ کے حقائق پر مبنی تجزیہ کے بعد اپنی رائے استعمال کر سکیں۔
قطعیت کی نفی اور تقسیم محض سیاسی محاذ پر نہیں ہے ۔ یہ گھروں کے اندر تک پہنچ چکی ہے اور اسے دوبارہ ملکی اور قومی اتحاد میں تبدیل کرنا ایک اہم قومی فریضہ ہے ۔دو صوبے خاص طور پر اس کی شدت اور کرب کو دن رات محسوس کر رہے ہیں۔ موسم کی شدت میں گھر میں بیٹھنے والی خواتین تک سڑکوں پر آ کر اپنے رنج و الم کا اظہار کر رہی ہیں ۔اس صورتِ حال کو فوری طور پر محبت، رواداری، تحفظ، اخوت کے ماحول سے بدلنے کی ضرورت ہےاورموجودہ حالات میں تحریک اسلامی ہی وہ غیر جانب دار ملک گیر اور مؤثر تحریک ہے، جو اس قومی فریضہ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔
_______________
گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران ماہ نامہ ترجمان القرآن کی ادارت اور مشاورت سے وابستہ ممتاز محقق، استاد، دانش ور اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ۲۵جنوری ۲۰۲۴ء کو ۸۳ برس کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔ احباب سے اپیل ہے کہ ان کی مغفرت اور خدمات کی قبولیت کے لیے دُعا فرمائیں۔ ادارہ