گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں مشرق وسطیٰ میں جو نمایاں اور اہم انقلابی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں وہ ایک جانب مغرب و مشرق کے اہلِ فکر کے لیے غور کرنے کا مواد فراہم کرتی ہیں، تو دوسری جانب مسلمان اہلِ فکر کے لیے ایک چیلنج کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔
مصر میں ۸۰ سالہ دورِاستبداد کا آغاز ۱۹۵۲ء میں فوجی آمریت سے ہوا۔ یہ آمریت وقت کے دھارے کے لحاظ سے اپنی کینچلی بدلتی رہی، تاہم اس کے زہرِ استبداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس طویل دورِ استبداد کا خاتمہ مصر کی جدید تاریخ میں پہلے عوامی صدر ڈاکٹر محمد مُرسی کے منتخب ہونے پر ہوا۔ لیکن اقوام عالم کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ طاغوتی اور فرعونی قوتیں اپنی شکست آسانی سے قبول نہیں کرتیں اور ایک زخم خوردہ سانپ کی طرح سے دائیں اور بائیں جس طرف سے ممکن ہو ڈسنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ بالکل اسی طرح مصر میں موجود نظام (status quo) کی حامی جماعت، یعنی فوج اور عدلیہ نے اس انقلابی عوامی تبدیلی کو بے اثر اور ناکام بنانے میں اپنی مشترکہ قوت اور چال بازیوں کے ذریعے جو اقدامات کیے وہ قرآن کریم کی زبان میں کیدالشیطان کی بہترین مثال ہیں۔
یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ مغرب اور خصوصاً امریکا اور اسرائیل کی دلی خواہش اور حمایت کے باوجود حسنی مبارک کے سابق وزیراعظم کا، جو فضائیہ کا ریٹائرڈ جنرل تھا، ناکام ہونا بھی ایک معجزے سے کم نہیں کہا جاسکتا۔ آخر وقت تک فوجی کونسل نے پوری کوشش کی کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم انتخابی نتائج میں تاخیر کرکے عوام کو نفسیاتی طور پر جانچا جائے کہ وہ ان کی مزعومہ دھاندلی کو کہاں تک برداشت کرسکتے ہیں۔ جب تمام ذرائع سے انھیں یہ یقین ہوگیا کہ دھاندلی نہیں چل سکے گی تو مجبوراً یہ اعلان کیا گیا کہ ایک معمولی تناسب کے فرق کی بناپر اخوان المسلمون کے نامزد صدر محمد مُرسی کو کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔ لیکن دوسری جانب اس انتخاب کو بے اثر بنانے اور فیصلہ کن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے فوج اور عدلیہ کے دماغوں نے جو کسی تبدیلی کے لیے آج بھی تیار نہیں ہیں، اور فروری ۲۰۱۱ء میں مصر میں نوجوانوں کی تحریک کے علی الرغم، جس میں جانی قربانیاں بھی دی گئیں اور پورے ملک نے حصہ لے کر فوج اور بدعنوان عدلیہ کی حاکمیت کو رد کر دیا تھا، موجود نظام کو برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے وہ ان تمام تحریکات کے لیے قابلِ غور ہیں جو بدعنوانی، اقرباپروری، ظلم و استحصال کے نظام کی جگہ عدلِ اسلامی اور معاشرتی فلاح پر مبنی نظام لانا چاہتی ہیں۔ یہ انقلابی جماعتیں چاہے مصر میں ہوں، لیبیا میں ہوں یا پاکستان میں، انھیں اسی نوعیت کے حربوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ خیال کہ اسلامی انقلاب محض مطالبوں، مظاہروں، نعروں اور جلسوں سے آجائے گا اور طاغوت بھلے مانس انداز میں اقتدار کی کنجی سرجھکا کر اسلامی تحریکات کے منتخب شدہ نمایندوں کے حوالے کردے گا، ایک واہمہ اور سادہ لوحی سے کم نہیں کہا جاسکتا۔
فوج نے عوامی صدر کے انتخاب کے حتمی اعلان سے قبل موجود نظام کے تحفظ اور اپنی مدافعت کے لیے جو اقدامات کیے ان میں اولاً: بدعنوان عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو اس بنا پر تحلیل کرنا کہ اس کی ۳/۱ نشستوں کے انتخاب میں ان کے خیال میں کوئی بے ضابطگی ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ اس پارلیمنٹ میں اخوان المسلمون کو ملک کے ۸۰سالہ دورِآمریت و استبداد میں پہلی مرتبہ ۴۴ فی صد سے اکثریت حاصل ہوئی تھی۔
ثانیاً: دستور کی معطلی کا اعلان اور نئے دستور کی تشکیل کے تمام اختیارات پارلیمنٹ کی جگہ فوجی کونسل کو منتقل کرنے کا حکم نامہ۔
ثالثاً: ملک کے داخلی، خارجی اور مالی معاملات میں فیصلے کا اختیار فوج کو دیا جانا، یعنی بجٹ اور ملک کی اندرونی و بیرونی پالیسی فوج طے کرے گی۔
رابعاً: پارلیمنٹ کے آیندہ انتخابات کا فوج کی مرضی کے مطابق کیا جانا، اور عدلیہ میں تقرر کا حق بھی فوج کے ہاتھ میں رہنا۔
خامساً: ملک میں عملاً مارشل لا لگانا کہ فوج جسے چاہے امن عامہ کے خطرے کی بنا پر گرفتار کرسکے۔
یہ تمام مدافعانہ اقدامات جس ذہن کا پتا دیتے ہیں وہ مصر میں نہیں، ہر اُس ملک میں پایا جاتا ہے جہاں بدعنوان، لالچی، بے ضمیر، ظالم، خودغرض، اقرباپرور فرماں روا عوام الناس پر ان کی مرضی کے خلاف مسلط ہیں۔ یہ اقدامات ایک شکست خوردہ ذہن کی دلیل ہیں جو اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے اردگرد کے ہرتنکے اور شاخ کے سہارے اپنے انجام سے بچنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے لیکن وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْن کو بھول جاتا ہے۔
مصر میں تحریکِ اسلامی کی کامیابی کو نہ صرف مصری فوج اور عدلیہ نے بلکہ مغرب خصوصاً امریکا نے بھی ایک انتہائی تلخ گھونٹ کے طور پر گوارا کیا ہے۔ دونوں کی مسلسل کوشش ہے کہ اب بھی کسی طرح مصر کے منتخب صدر کو یا تو مکمل طور پر بے اثر کردیا جائے اور تمام اختیارات فوجی کونسل اور عدلیہ کے ہاتھوں میں رہیں، یا مُرسی کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ اخوان المسلمون سے وابستہ اُمیدیں ٹھنڈی پڑجائیں اور اخوان کی تصویر مصری عوام میں داغ دار بن جائے۔ چنانچہ بار بار یہ بات کہی جارہی ہے کہ اخوان المسلمون ایک انتہائی قدامت پرست جماعت ہے اور عیسائی اقلیت اور خواتین کے لیے سخت خطرہ ہے۔
اس بات کو بار بار دہرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مُرسی سرکاری طور پر یہ اعلان کریں کہ وہ عیسائی اقلیت اور خواتین کو کابینہ اور دیگر مناصب میں ان کے عمومی تناسب سے زیادہ اہمیت دیں گے۔ مُرسی کے حالیہ بیان سے کہ ان کے ایک نائب صدر عیسائی اور ایک خاتون ہوں گی، اس حکمت عملی کے اثرات کی جھلک نظر آتی ہے۔
مغربی قوتوں کا دل کی ناگواری اور مجبوراً مُرسی کو صدر مان لینے کا یہ مطلب لینا بھول ہوگا کہ وہ واقعی ان کے اقتدار کی حمایت اور تائید کریں گے۔ مغربی سیاست کاروں کا متفقہ عقیدہ آج تک یہی ہے کہ ایک سیکولربدعنوان اقرباپرست اور اخلاقی طور پر کنگال جماعت یا فرد کو، ایک اسلام پسند لیکن حق گو، مخلص اور ایمان دار شخص یا جماعت کے مقابلے میں فوقیت دینا ان کے مفاد میں ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی شکل میں دل کی آمادگی کے ساتھ ایک اسلام پسند کو برسرِاقتدار دیکھنا گوارا نہیں کریں گے۔ یہ بات بھی بار بار دہرائی جارہی ہے کہ اسلام پسند جماعت کا برسرِاقتدار آنا، اسرائیل کی سالمیت کے لیے اور اس کے منطقی نتیجے کے طور پر امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ خطرے کی یہ گھنٹیاں امریکا اور اسرائیل دونوں کے ہاں اس وقت گھڑیال کی شکل اختیار کرجائیں گے جب صدر بھی اسلام پسند ہو اور پارلیمنٹ میں بھی اخوان کی اکثریت ہو۔ اس بات کو سیاسی زبان میں بار بار دہرانے کامقصود یہی ہے کہ صدر مُرسی اسرائیل کو یقین دلائیں کہ اسے ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا، ساتھ ہی امریکا کو بھی یقین دہانی کرائیں کہ وہ اس کے دشمن نہیں ہیں۔ مغربی صحافت اس بات کو بھی اُچھال رہی ہے کہ مُرسی نے امریکا کی مشہور یونی ورسٹی، یونی ورسٹی آف سائوتھ کیلی فورنیا (USC) سے تعلیم حاصل کی ہے اور ان کے بچے وہاں پیدا ہوئے ہیں جس کی بنیاد پر بچوں کی شہریت امریکی ہے، تاکہ اخوان اور دینی حلقوں میں ان کی وفاداری اور امریکا کی جانب رویے کو مشتبہ بناکر اندرونی کھنچائو پیدا کیا جاسکے۔ خصوصاً نوجوان اخوان کو، جو نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا میں ہر اُس فرد کو شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کا کوئی تعلق امریکا سے ہو ، یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ مُرسی پر بھروسا نہ کرو۔ یہ منفی سیاست طاغوتی قوتوں کا خاصا ہے، اس لیے اس پر کسی حیرت کی ضرورت نہیں۔
اوّلاً: قانون کے حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ اخوان برسرِاقتدار آکر نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں پر شرعی سزائیں نافذ کریں گے۔ یہ وہ ہوّا ہے جو ہرمسلم ملک میں برسرِاقتدار طبقہ قیامت تک استعمال کرتا رہے گا اور اس بنیاد پر سیکولر افراد کے تحفظ اور حمایت حاصل کرنے کے لیے عوامی جذبات کو متاثر کرتا رہے گا۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں تقریباً ۲۰فی صد عیسائی اقلیت ہو، اسلام کا نفاذ ظلم ہوگا۔ ان اعتراضات کو اُٹھاتے وقت ایک تیر سے دو شکار کرنے کی حکمت عملی کی بنا پر قرآن و سنت کو بالواسطہ طور پر عملی زندگی سے خارج کرنے کی طرف واضح اشارے بھی کیے جاتے ہیں اور کیے جاتے رہیں گے۔
دوسرا اہم خطرہ مطلق العنانی دور کا غالب آجانا ہے۔ مغربی اور سیکولر طبقہ اپنی ذہنی ساخت کی بنا پر ہمیشہ اسلام کو مذہب اور مذہب کو مذہبی آمریت اور مطلق العنانی سے تعبیر کرتا ہے۔ اس میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیں۔ خود پاکستان کے نام نہاد دانش ور یہ بات ہرمحاذ پر دہراتے ہیں، حتیٰ کہ عوام کو اس جھوٹ پر یقین آجائے۔ یہ لوگ اپنی ڈفلی بجاتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ حسنی مبارک، قذافی، اسد، صدام اور الجزائر، تیونس اور مراکش کے آمروں نے جس مطلق العنانی کا عملی مظاہرہ ایک آدھ سال نہیں ۳۰،۳۰ سال کیا، اس کی بنیاد مذہب تھا یا سیکولرزم؟
یہ ایک اہم اندرونی خطرہ ہے جس کا مُرسی اور ان کے رفقا کو صبروحکمت کے ساتھ سامنا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے انھیں تبدیلیِ اقتدار کے بعد اپنے طرزِعمل کو قابو میں رکھنا اور اقتدار کی بنا پر اقرباپروری اور مراعات کا غلط استعمال نہ کرنا، عوام کے ساتھ اپنا رابطہ بھلے انداز سے قائم رکھنا، اور نوجوان نسل کی توقعات پر پورا اُترنا جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن تحریک کی تربیت کا امتحان ایسے ہی مواقع پر ہوتا ہے۔ اس لیے پوری اُمید کی جاسکتی ہے کہ اخوان سے وابستہ افراد اس زیادہ نازک امتحان میں پورے اُتریں گے، ان شاء اللہ۔
صدر مُرسی اور امریکی انتظامیہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی اور امریکا کس حد تک مصر کے عوامی صدر کی حمایت کرے گا؟ یہ امکانات سے بھرا ہوا ایک سوال ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلقات کی نوعیت چینی بازی گر کے رسی پر ہاتھ چھوڑ کر چلنے سے کم مشکل نہیں ہوگی۔
ہمارے لیے اخوان المسلمون کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہوگا، خاص طور پر اس لیے کہ ہم گذشتہ ۳۰ برس سے انھیں نظرانداز کرکے تنہا کرتے رہے ہیں۔
اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ امریکی انتظامیہ بادل ناخواستہ ہی مُرسی سے بات چیت کرے گی، جب کہ پس پردہ مصری فوجی قیادت کے ساتھ سازباز میں برابر کی شریک رہے گی۔ دوسری جانب دنیا کو دکھانے کے لیے صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ جسے عموماً جمہوریت، حقوق انسانی، اور عالمی امن کادورہ پڑتا رہتا ہے اور جس نے عملاً ان تینوں معاملات میں ہمیشہ منفی کردار ادا کرتے ہوئے جمہوری قوتوں کے مقابلے میں فوجی اور شاہی آمروں کی حمایت کی ہے اور آج بھی کررہی ہے، اس حکومت نے خود اپنے ملک میں اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی پر سواے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے اور کچھ نہیں کیا ہے۔ وہی انتظامیہ صدر اوباما کے بقول یہ کہنے پر مجبور ہے کہ:
جب مصری عوام جمہوریت، عزت و وقار اور امکانات کے لیے آگے بڑھیں گے، اور اپنے انقلاب کے وعدوں کو پورا کریں گے تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ (ترجمان وائٹ ہائوس، اتوار، ۲۴ جون ۲۰۱۲ئ، بحوالہ نیویارک ٹائم، ۲۶ جنوری ۲۰۱۲ئ)
امریکا نے گذشتہ ۳۰ سال سے زائد عرصے میں اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں مصر کی فوجی آمریت اور اسرائیل کے صہیونی ظالم حکمرانوں سے اپنے آپ کو مکمل وابستہ رکھا ہے۔ اب بدلے ہوئے سیاسی نقشے میں اخوان المسلمون کے صدر کے ساتھ جو اخوان کا سابق رکن بھی ہے تعلقات استوار کرنا دو طلاقوں کے بعد رجوع سے کم مرحلہ نظر نہیں آتا، لیکن اس تلخ گھونٹ کو مسکراتے ہوئے پئے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں۔
اگر امریکا میں تھوڑی بہت عقل ہو تو اسے اس وقت مصری عوام کا مزاج اور جذباتی کیفیت کو سمجھنا چاہیے۔ اسے اپنے آپ کو فوج سے دُور اور عوامی نمایندوں سے قریب کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن امریکی سیاست کی ۵۰ سالہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ امریکی انتظامیہ کی ذہانت سے ایسے دانش مندانہ فیصلے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اوّلاً: عوامی دبائو کو برقرار رکھنا۔ چنانچہ تحریر چوک پر ہزارہا اخوان کی موجودگی اس مطالبے کے ساتھ کہ پارلیمنٹ بحال کی جائے، فوج اپنی قوت اور چالاکی سے لیے ہوئے دستوری اور حفاظتی اختیارات سے دستبردار ہو اور صدر کو اس کے اختیارات دیے جائیں___ دن رات اپنی یک جہتی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
دوم: صدر مُرسی دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر جن میں سیکولر جماعتیں شامل ہیں، یہ کوشش کررہے ہیں کہ جمہوریت کے مستقبل پر کوئی آنچ نہ آنے پائے، اور تمام سیاسی جماعتیں مل کر پارلیمنٹ کی برتری اور آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں۔
سوم: صدر مُرسی کوشش کر رہے ہیں کہ فوج کے ساتھ بھی مذاکرات بند نہ ہوں، اور انھیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ سیاسی اختیارات سے دستبردار ہوں۔ یہ سب سے زیادہ نازک، حساس اور مشکل معاملہ ہے اور فوج پر کسی مسئلے میں بھی بھروسا کرنا جوے بازی سے کم نہیں۔ لیکن شریعت کی اصطلاح میں ضرورت کی بنا پر اِس اقدام کو کرنا ہوگا تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے۔
تحریر چوک پر دھرنا کافی نہ ہوگا۔ اخوان المسلمون کو ملک کے نوجوانوں کو ساتھ ملا کر ایک ملک گیر مہم جیسی فروری ۲۰۱۱ء میں چلائی گئی، چلانا ہوگی۔ یہ کام محض دھرنے سے نہیں ہوسکتا۔ جب تک فوج اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لے کہ عوامی قوت اسے بہا لے جائے گی، اس وقت تک فوج اپنی موت کے حکم نامے پر دستخط نہیں کرے گی۔
اوّل: ملک گیر پیمانے پر نوجوانوں کی ایک پُرامن مہم جس میں فوج کے منتخب شدہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کے ذریعے برخواست کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا جائے، اور یہ تجویز کیا جائے کہ اگر عدلیہ کو پارلیمنٹ کی ایک تہائی نشستوں پر یہ اعتراض تھا کہ ان میں کوئی بے ضابطگی کی گئی ہے تو ان ۳/۱ نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرائے جائیں، نیز جن نشستوں میں کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی انھیں برخواست کرنا عدل کے منافی ہے۔ یہ کام سیاسی مہم سے کرنے کا ہے اور عوام کو ساتھ لے کر چلنے سے اس میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
دوم: اس بات کی ضرورت ہے کہ اخوان کی قیادت اپنے دائرۂ اثر کو وسیع کرنے کے لیے جمہوریت کے تحفظ کی بنیاد پر ان سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملائے جو چاہے اسلام سے دل چسپی نہ رکھتی ہوں لیکن ملک میں جمہوریت کا نفاذ دیکھنا چاہتی ہیں۔
تیسرے، عوامی مہم کے ذریعے فوجی کونسل کے لامحدود اختیارات کو جن میں بجٹ، خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کی منظوری شامل ہے، پارلیمنٹ کو منتقل کرنا تاکہ پارلیمنٹ عوام کی نمایندہ ادارے کی حیثیت سے ان معاملات پر فیصلہ کرسکے۔ دستوری عدالت (Consititutional Court) کے جج جنھیں حسنی مبارک نے اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ دستوری مباحث میں جو کچھ آمر چاہتے ہوں عدالت بھی اسی کی توثیق کردے، یہ کام نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے عوامی مہم چلانا ہوگی۔ اگر عوامی مہم حسنی مبارک کو ہٹاسکتی ہے تو یہ کام بھی کیے جاسکتے ہیں۔
چوتھے، نئی حکومت کو ردعمل دینے کے بجاے اقدامی طور پر بعض فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا: سیکولر اور امریکی لابی بار بار وہ مسائل اُٹھائے گی جن پر صدرمُرسی کے مثبت یا منفی موقف اختیار کرنے سے مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔ اگر صدرمُرسی ردعمل کے طور پر یہ کہیں کہ وہ امریکا کے دشمن نہیں ہیں بلکہ دوستی چاہتے ہیں، تو وہ نوجوانوں کی حمایت کھوبیٹھیں گے، جو بظاہر ایک امریکی اور فوجی ہدف معلوم ہوتا ہے۔ فوج اور امریکا، دونوں یہ چاہیں گے کہ اخوان کی صفوں میں انتشار واقع ہو، اور کم از کم اخوان کے علاوہ جو مذہبی جماعتیں خصوصاً سلفی حضرات ہیں ان کے ساتھ اختلافات میں اضافہ ہوجائے تاکہ پارلیمنٹ بننے کی شکل میں اخوان کی قوت مؤثر نہ ہو۔ اگر صدر مُرسی ردعمل کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ وہ امریکا کے مخالف ہیں تو اسے بھی ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا، کہ فوج کی رگ جان ۱ئ۳ بلین ڈالر کی امریکی امداد اگر بند ہوجاتی ہے تو مصر کیا کرے گا؟ گویا بجاے ردعمل کے طور پر کوئی بات کہنے کے صدر کو بہت سوچ سمجھ کر ایسا موقف اپنانا ہوگا کہ وہ نہ تو اپنی نوجوان قوت کو مایوس کریں اور نہ امریکی اور فوجی عزائم کو کامیاب ہونے دیں۔
یہ کہنا فطری طور پر بہت آسان ہے کہ اخوان کو چاہیے کہ وہ مصر میں ترکی کا ماڈل اختیار کریں۔ اپنی تصویر کو جو اس وقت تک قدامت پرست، بنیاد پرست، جہادی، خواتین کے حقوق کو پامال کرنے والی، اور اقلیتوں کو تہس نہس کردینے والی جماعت کی ہے، بدلنے کے لیے ایسے اقدامات کرے جس سے اس کی ایک متوازن، معتدل اسلامی جماعت کی شبیہ اُبھر کر سامنے آئے۔ لیکن ہماری اس تمام تر خواہش کے باوجود فوری طور پر یا مختصر عرصے میں ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔ ذہنی تصویر کا درست کرنا ایک طویل نفسیاتی اور ابلاغی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے اور اخوان المسلمون ان شاء اللہ اسے کر بھی سکتے ہیں لیکن مقابلتاً ایک طویل حکمت عملی کے ذریعے۔
طیب اردگان کو جس مقام پر وہ آج پہنچے ہیں، اس کے لیے ۳۰سال سے اُوپر واضح منصوبہ، ہدف اور افرادی قوت کے ساتھ کام کرنا پڑا۔ تب جاکر وہ اپنا یہ تشخص بنا سکے اور وہ مقام حاصل کرسکے جس کی بنا پر آج مغرب ہو یا مشرق، ترکی کے ماڈل کی بات کرتا ہے۔
یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے اور اس پر علیحدہ گفتگو کی ضرورت ہے لیکن فی الوقت اس حد تک کہا جاسکتا ہے کہ صدر مُرسی کو اپنے بیانات میں اردگان کی طرح توازن پیدا کرنا ہوگا، تاکہ ایک جانب وہ اپنی اصل قوت نوجوان اخوان کو جو نظریاتی طور پر کفر کے ساتھ تعاون کو کفر قرار دینے کے عادی ہیں، نہ تو مایوس کریں اور نہ انھیں کوئی الگ پریشر گروپ (pressure group) بننے دیں اور اسی قوت کو تحریکِ اسلامی کے لیے صحیح طور پر استعمال کرسکیں۔
ڈاکٹر مُرسی ایک غیرجذباتی شخصیت رکھتے ہیں لیکن انھیں موجودہ حالات میں عوامی قوت کو ساتھ رکھنے کے لیے چند ایسے اقدامات لازماً کرنا پڑیں گے جن کا تعلق ملک کی معیشت اور عوام کے انسانی حقوق کے تحفظ سے ہے، جب کہ سلفی بھائیوں کی ترجیح اسلامی شریعت کے بعض پہلوئوں کے نفاذ کی ہوگی۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ مکی دور سے مدنی دور تک کے تدریجی عمل کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت کی بالادستی کو متاثر کیے بغیر پہلے شریعت کے اُن پہلوئوں کو نافذ کیا جائے جن کا تعلق اللہ کے بندوں کی جان، مال اور عزت کے تحفظ سے ہے، یعنی ان کے معاشی اور انسانی حقوق۔ اس کے بعد ان پہلوئوں کا نفاذ ہونا چاہیے جنھیں عام تصور میں شرعی نظام کہا جاتا ہے جس سے مغرب و مشرق اپنے خطرے اور خوف کا اظہار کرتا رہا ہے۔
ترکی کے تجربے میں ہمیں کیا مطالعاتی نکات ملتے ہیں، اور کیا مصر اور پاکستان کے مسائل کا حل ترکی کے تجربے کے دہرانے سے ہوسکتا ہے، ایک تفصیل طلب موضوع اور علیحدہ گفتگو کا مستحق ہے۔
دنیا کی تمام معلوم تہذیبوں میں کسی نہ کسی شکل میں مذہب اور جنس کا تصور پایا جاتا ہے۔ مغربی مذہبی مفکرین عموماً اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ مذاہب سے صدیوں قبل بھی انسان کسی نہ کسی ماورا ہستی کی طرف اپنے تحفظ اور اپنی ضرریات کے حصو ل کے لیے متوجہ ہوتا تھا۔ ان تمام تہذیبوں اور مذاہب نے جنس کے بارے میں عموماً دو طرزِ فکر اختیار کیے۔ بعض تہذیبوں نے جنس کو نظرانداز کرنے کو روحانیت سے تعبیر کیا، اور بعض نے جنس کو قابلِ پرستش خیال کیا۔ کلاسیکل ہندوازم میں جنس پرستی مذہب کا ایک جزولاینفک رہی۔ دوسری جانب اسی شدومد کے ساتھ ہندوازم میں ایسے واضح رجحانات بھی موجود رہے ہیں جن میں جنس کو دبا کر اور بالخصوص عائلی زندگی کو ترک کرکے جنگل، بیابان یا صحرا اور پہاڑوں میں جاکر تجرد اختیار کرنے کو روحانیت کی معراج قرار دیا گیا ہے۔
یہ افراط و تفریط اور جنس کے بارے میں دو انتہائیںدیگر مذاہب میں ہی نہیں، مسلم معاشرے میں بھی نظرآتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنس کے موضوع پر بات کرنا، اور وہ بھی کھلی محفل میں، مہذب معاشروں میں عموماً معیوب اور غیراخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنس کو مکمل طور پر نظرانداز کرکے کسی بھی انسانی معاشرے کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔ پھر انسان کیا کرے؟ اسلام افراط و تفریط کی جگہ توازن و اعتدال کی راہ کو انسانیت کا منشور قرار دیتا ہے، اور اُمت مسلمہ کو ’اُمت وسط‘ کہنے کے ساتھ ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں عدل کو اختیار کرے۔ اسی بنا پر اسلام کا تصورِ جنس مشرق و مغرب کے مروجہ تصورات سے بنیادی طور پر مختلف ہونے کے سبب ایک الگ تشخص کا حامل ہے۔
جدید دنیا یا دورِ جدید سے عموماً وہ دور مراد لیا جاتا ہے جو یورپ میں نشاتِ ثانیہ کے بعد مادہ پرستی ( Materialism)، افادہ پرستی (Utilitarianism)، انفرادیت پسندی (Individualism) اور لادینیت (Secularism) کی چار بنیادوں پر تعمیر ہوا۔ جدیدیت کے اس روایتی طرزِفکر نے اس تصور کی فلسفیانہ بنیادوں کو معرضِ بحث میں لاتے ہوئے ایک جدید تثلیث کو جنم دیا۔ یہ تثلیث اُس روایتی تصور سے بالکل مختلف تھی جس نے قرونِ وسطیٰ میں کلیسائی چرچ کو عروج دیا اور جس کی بنیاد عیسائی عقیدہ تھا۔ اس قدیم روایتی تثلیث میں خدا، روح القدس اور حضرت عیسٰی ؑ تین بنیادی عناصر تھے۔ نوجدیدیت نے جس تثلیث پر اپنی بنیاد رکھی اس میں اثباتیت (Positvism)، ارتقائیت (Evolutionism) اور جنسیت بنیادی ارکان قرار پائے۔ چنانچہ آگسٹ کومٹے August Comte(۱۷۹۸ئ-۱۸۵۷ئ) کی فکر نے مادے کی صداقت اور حسّی تجربے کی قطعیت کا پرچار کیا جس کی کوکھ سے کارل مارکس (۱۸۱۸ئ-۱۸۸۷ئ) کی فکر نکلی۔ ایسے ہی چارلس ڈارون (۱۸۰۹ئ-۱۸۸۲ئ) نے حیاتیاتی ارتقا (Biological Evolution) کو بنیاد بناتے ہوئے نہ صرف حیوانات و نباتات، بلکہ علومِ عمرانی میں بھی ارتقائی فکر کے متعارف ہونے کی راہ ہموار کردی۔ اسی دوران سگمنڈ فرائڈ (۱۸۵۶ئ-۱۹۴۰ئ) نے جنس، لاشعور اور تحت الشعور کی بنیاد پر انسانی رویوں اور طرزِعمل کی تعبیر کا تصور پیش کیا۔ نتیجتاً اس کی فکر میں شعوری عمل کی اہمیت کو کم اور تحت الشعور اور لاشعور کو زیادہ بنیادی مقام حاصل ہوگیا۔
جدیدیت (Modernity)، نوجدیدیت (Post Modernity) اور ماوراے نوجدیدیت (Beyond Post Modernism) کی تحریکات پر نظر ڈالی جائے تو ان میں بعض اجزا مشترک نظر آتے ہیں۔ ان اجزا میں اوّلین مقام مادیت اور حسّی تجربے کی بنیاد پر حاصل ہونے والے علم کو حاصل ہے۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یورپی فکر کے ان تینوں ارتقائی اَدوار کی بنیاد محدود اور قابلِ یقین تصورِ علم (epistimology)پر ہے جو حسّی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا اہم عنصر انفرادیت پسندی، اور اس سے ملحقہ تیسرا عنصر اخلاقی اضافیت (ethical relativism)ہے۔
یورپ میں جنس کے حوالے سے بیداری، آزادی اور انحراف کی فکری بنیاد حسّی تصورِ علم ہی ہے۔ اس بنا پر یورپ میں انسانی معاشرتی علوم کی بنیاد بعض ایسے مشاہدات پر رکھی گئی ہے جو بنیادی طور پر حیوانی مشاہدات کہے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ روایتی نفسیات کی بنیاد چوہوں کا بھول بھلیوں کے پیچ دار راستوں سے گزر کر پنیر کے ٹکڑے تک پہنچنا، انسانی نفسیات کے بہت سے مفروضوں کی بنیاد بنا۔ اس کے نتیجے میں انسان کا مخالف جنس کی طرف جبلّی طور پر ملتفت ہونا، یا انسان کا معاشی حیوان ہونا، یا انسان کا معاشرتی حیوان ہونا وہ اصطلاحات ہیں جو پتا دیتی ہیں کہ مغرب میں علوم عمرانی انسان کو بنیادی طور پر حیوان تصور کرتے ہوئے اس کے رجحانات، ترجیحات، ضروریات، حاجات اور تحینات کا اندازہ قائم کرتے ہیں۔
دورِ جدید کی اس تثلیث میں انسانی تہذیب کو جن تین بنیادی ستونوں پر تعمیر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک کا تعلق انسان کے وجود کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اسے بتایا گیا کہ انسان ایک ارتقا یافتہ حیوان ہے۔ اس لحاظ سے اس میں بے انتہا حیوانیت پائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی اعمال بھی کرسکتا ہے۔ دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ وہ ایک معاشی حیوان ہے اور اس کی تمام سرگرمیوں کا محور معاشی فلاح ہونی چاہیے۔ تیسری بات یہ سمجھائی گئی کہ وہ ایک جبلی انسان ہے۔ اس کے اندر بعض instincts (فطری جبلتیں) اور drives (کچھ کرنے کا جذبہ) پائی جاتی ہیں۔ اس لیے وہ جو کام بھی کرتا ہے ان کی وجہ سے کرتا ہے۔
انسان فطری طور پر اقتدار اور قوت اپنی جبلی قوت کی بنا پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ جرمنی کے بعض مشہور مفکرین نے جہاں اسے اپنی فکر کی بنیاد بنایا، وہاں فرائڈ نے یہ تصور پیش کیا کہ انسانی اعمال کے پسِ پشت ایک ایسی قوت پائی جاتی ہے جس کا اصل مقصد اور اصل محور ایک ناقابلِ تعبیر (ineffable) چھپی ہوئی طاقت ہے جس کو آپ الفاظ سے واضح نہیں کرسکتے۔ فرائڈ اس کو Libido (مخفی قوت) کا نام دیتا ہے، اس کے مطابق یہ انسان کے ان تمام افعال کے پسِ پشت قوتِ محرکہ ہے جو وہ معاشرے میں کرتا ہے۔
ان تین بنیادی تصورات نے مغرب کی لادینی تہذیب کو اس کا تشخص دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام تصورات جو قدیم کہلاتے تھے، جن میں خاندان کی اقدار کا احترام تھا، معیشت کے حوالے سے یہ احساس تھا کہ وہ محض منفعت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ اور مقاصد بھی ہونے چاہییں، ان تمام چیزوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک ایسی تہذیب وجود میں آئی جس نے انسان کی حیوانیت کو، خواہ وہ انسان کی ساخت کی بنیاد پر ہو ، یا معاشی بنیاد پر، یا جنس کی بنیاد پر، انسان کی اصل پہچان قرار دیا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا اصل کارنامہ اس کا وہ تصورِ علم نظر آتا ہے جس نے روایت پرست انسان کو الہامی علم کے ذریعے توہمات سے نکال کر، حیوانیت کی سطح سے بلند کر کے اشرف المخلوقات قرار دیا، اور جنس کے موضوع کو بجاے ایک جبلت کے، یا ایک instinctive drive کے، ایک شعوری اور اخلاقی عمل قرار دیا۔ اس غرض کے لیے نہ صرف اخلاقیات کا ایک ضابطہ فراہم کیا گیا، بلکہ اس کے لیے اجر اور ثواب کو بھی متعین کردیا گیا، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس لحاظ سے یہ انقلابی فکر تھی جو اسلام نے پیش کی ، لیکن اس سارے کام کو کرتے ہوئے جو دائرہ کار مقرر کیا گیا وہ جنس کو آزاد کر کے اور اسے انسانی دائرے سے نکال کر نہیں، بلکہ جنس کو خاندان کے اخلاقی دائرے میں رکھتے ہوئے زیربحث لاتا ہے۔
آج جب جنسیت، sexulaity ، libido کی بات ہوتی ہے تو ہم اکثر مغربی فکر کے ارتقائی مراحل اور فکری پس منظر کو نظرانداز کرجاتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ جنس ایک مستقل موضوع ہے جو خاندان سے الگ ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ جنس پر اخلاقی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے بات کرے اور خاندان کے تناظر میں جنس کو زیربحث لائے۔ وہ اسے اللہ تعالیٰ کے ایک انعام کے طور پر، ایک امانت کے طور پر اور ایک احسان کے طور پر بیان کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’اور اللہ ہی نے تمھارے گھروں کو تمھارے لیے سکون کی جگہ بنایا‘‘ (النحل ۱۶: ۸۰)۔ ایسے ہی فرمایا گیا: ’’اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ اس نے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی۔ بلاشبہہ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں‘‘ (الروم ۳۰:۲۱)۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقدِنکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا۔
اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ رشتہ جو جنس کے ذریعے قائم ہونے جا رہا ہے، اس رشتے سے قبل ایک اخلاقی تعلق پیدا کیا جائے جو سکون، رحمت اور مؤدت کا ہو ، جس کے نتیجے میں انسانیت کو بھلائی مل سکے۔ یہ وہ فریم ورک ہے جو اسلام نے فراہم کیا ہے۔ اس فریم ورک میں رہتے ہوئے اس نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر حلال و حرام کے دائرے کو سمجھتے ہوئے لذت کا حصول ہو، تو وہ ایک بُری چیز نہیں ہے، بلکہ ایک اچھی اور مطلوب چیز ہے جو آنکھوں کو ٹھنڈک فراہم کرتی ہے، لیکن اس لذت کے حصول میں بھی اصل مقصد سامنے رہنا چاہیے۔
ہمارے ہاں یہ سوال بار بار اُٹھایا جاتا ہے کہ اگر دورِ جدید میں ہمیں جنسی بے راہ روی کو روکنا ہے تو اس کے لیے جنسی تعلیم لازمی کردینی چاہیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک منفی فکر کی علامت ہے۔ تعلیمی نصاب میں الگ سے جنسی تعلیم فراہم کرنا اور ’محفوظ طریقوں‘ سے اپنی خواہش پوری کرنا سکھانا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ خود مسئلہ ہے۔ مسئلے کا اصل حل تعلیمی حکمت عملی ہے۔ جب تک ہم اپنے نصاب کے اندر خاندان کی اہمیت، خاندان کے حقوق اور فرائض کو شامل نہیں کریں گے، اس وقت تک یہ سمجھنا کہ اگر بچوں کو یہ بات سمجھا دی جائے کہ خاندانی منصوبہ بندی کیا ہوتی ہے، جنسی امراض کیا ہوتے ہیں اور ان سے کس طرح سے بچا جائے، اس سے ایک باعفت اور باعصمت معاشرہ وجود میں آجائے گا تو یہ سراسر ایک واہمہ ہے۔ یہ صداقت سے خالی مفروضہ ہے! اس لیے ہمیں اپنے فکری زاویے کو تبدیل کرنا ہوگا اور بجاے اس بات کو دہرانے کے جو مغرب بار بار کہہ رہا ہے، یعنی اگر ایڈز کے مہلک اور جان لیوا مرض کو روکنا ہے تو جنسی آگاہی ( sexual awareness) پیدا کی جائے، کنڈوم کلچر کو عام کیا جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ کس طرح سے محفوظ جنسی بے راہ روی اختیار کرسکتے ہیں(گویا ناجائز جنسی تعلق بجاے خود کوئی بُری بات نہیں ہے)۔ اس نوعیت کے تمام نعرے اسلامی تصورِحیات کے منافی ہیں۔ جس چیز کو اسلام نے حرام قرار دے دیا ہو آخر اس کو ’محفوظ سیکس‘ کہہ کر کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ اختیار فرد یا معاشرے یا ریاست کو کس نے دیا ہے؟ گویا جو بات مغرب کہہ رہا ہے ہم اسے کسی بھی انداز میں کہیں، وہ نقصان ، خرابی اور تباہی کی طرف ہی لے کر جائے گی۔
مسئلے کو اصولی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ہمیں خاندان کی اہمیت کو اپنے نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔ قرآن و حدیث میں جہاں کہیں بھی جنس سے متعلق بات کی گئی ہے اس کا انداز تعلیمی اور اسلوب اخلاقی ہے۔ اسلامی فقہ طہارت، بلوغ اور اس سے وابستہ مسائل کا ذکر کرتا ہے اور ہر موقع پر حلال اور اخلاقی طریقوں پر زور دیتا ہے اور لذت کے حرام طریقوں کو فحش سے تعبیر کرتا ہے۔ شوہر اور بیوی کا تعلق ہو یا ایک نوجوان کا شادی سے قبل صالحیت کے ساتھ زندگی گزارنا، اسلام زندگی کے ہر دور میں اخلاقی ضابطے کے ذریعے اس کی خواہشات کو تعمیری انداز میں ترقی کے موقع فراہم کرتا ہے۔
احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے ان میں سے ایک کا تعلق جوانی گزارنے سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے،ا س سے قبل نہیں۔حدیث یہ بھی تعلیم دیتی ہے کہ جب بچہ عمر کے اس مرحلے میں داخل ہو رہا ہو جب جنسی لذت کا احساس جنسِ مخالف کے جسم سے مَس کرکے ہوسکتا ہے تو بچوں کے بستر الگ کردیے جائیں۔یہ ایک مہذب طریقہ ہے جس سے بچے کو یہ احساس ہوگا کہ وہ اب بلوغ کے قریب پہنچ رہا ہے۔ فقہی کتب کے ذریعے احتلام اور ماہواری کی تعلیم دینی فرائض میں سے ہے۔ ایسے ہی جسم سے فاضل بالوں کے صاف کرنے کا تعلق نہ صرف طہارت سے بلکہ اعضا کی صحت سے ہے۔ یہ سب اُمور تعلیمی حکمت عملی کے ذریعے فقہ کے حوالے سے بغیر جنسی تعلق پیدا کرنے کی خواہش بیدار کیے سمجھائے جاسکتے ہیں۔ ان کے لیے پوشیدہ اعضا کی تصویرکشی کی نہ ضرورت ہے اور نہ حکمت۔
جنس کے حوالے سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی جنس کی بات کرتے ہیں تو اسے ہم عام طور پر خواتین سے وابستہ کردیتے ہیں لیکن انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنسی تعلق ان دو اکائیوں کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ جن میں سے ایک اکائی ایسی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہرلحاظ سے پُرکشش بنایا ہے۔ اس بنا پر ہمارا ادب ہو یا زمینی حقائق، وہ اس کا انکار نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس بنا پر صنفِ نازک کو کمرشلائز کردینا، اس کو ایک object بنا دینا، یہ لازمی طور پر ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اس سے لازماً بچنا چاہیے۔ اسی طرح مرد کو بھی حُسن دیا گیا ہے۔ اس میں بھی کشش پائی جاتی ہے لیکن اگر مقابلتاً دیکھا جائے تو ہمارے ادب اور شعر کا مرکز اگر کوئی رہا ہے تو وہ خاتون ہی رہی ہے اور اس میں دونوں پہلو شامل رہے ہیں ، جمال کے بھی اور جنس کے بھی۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلامی تصورِ حیات کی روشنی میں مرد اور عورت دونوں کے بارے میں بجاے جنسِ محض ہونے کے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی مخلوق کی حیثیت سے جسے اخلاقی وظیفے سے آراستہ کیا گیا ہے، غور کیا جائے۔ گویا برتری اور فضیلت کی بنیاد نہ محض جنسی کشش ہو، نہ کسی کا مونث یا مذکر ہونا بلکہ اخلاقی تفضیل۔ یہی وہ فضیلت و برتری ہے جسے قرآن کریم نے مختلف مقامات پر وضاحت سے بیان کیا ہے۔ خصوصاً سورئہ احزاب میں (۳۳:۳۵) جہاں یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاقی طرزِعمل کی بنیاد پر اجر و انعام کا وعدہ فرمایا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔
بچوں میں جنس کے بارے میں فطری طور پر تجسس ہوتا ہے جسے نہ دبانے کی ضرورت ہے نہ اُبھارنے کی، بلکہ تعلیمی نفسیات کی روشنی میں عمر کے مرحلے کے لحاظ سے تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ وہ کسی دوسرے کے اعضا کی طرف اس لیے نہیں دیکھیں کہ یہ گناہ ہے، اپنے اعضا کسی کو دکھائیں نہیں کہ یہ بھی اللہ کو پسند نہیں ہے۔ انھیں جس جنس میں پیدا کیا ہے اس پر اللہ کا شکر کریں اور بلوغ کے قریب، جب جنسی اعضا کا زیادہ احساس ہوتا ہے، ذمہ داری اور ضبطِ نفس کے ساتھ پیش آئیں۔ عصمت و عفت کی تعلیم اور شرم و حیا کا تصور دراصل جنسی تعلیم ہی کے اجزا ہیں۔ اس کے برخلاف جنسی اعضا کی تصاویر بنا کر پانچویں اور چھٹی جماعت کے بچوں کو تولیدی عمل سے آگاہ کرنا انھیں پریشان خیالی اور بے راہ روی کی طرف لے جانے کا ایک بہت ’کامیاب‘ طریقہ ہے جس سے لازمی طور پر بچنا ہوگا۔ ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کو مل کر ان مسائل پر مناسب لوازمہ تیار کرنا ہوگا۔
گفتگو کا موضوع عالمِ اسلام ہو یا اُمت ِمسلمہ، ایک بنیادی سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ ہم بات کس اُمت مسلمہ کی کر رہے ہیں اور کیا اس کا کوئی حقیقی وجود بھی پایا جاتا ہے یا یہ محض ایک نظری مسئلہ ہے؟ گو، گذشتہ چند ماہ میں پیش آنے والے واقعات نے نہ صرف اُمت مسلمہ کے وجود کے عینی شواہد فراہم کر دیے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس بات کو بھی پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ اُمت مسلمہ میں جان ہے، حرکت ہے، فعّالیت ہے اور وقت کے جباروں اور بیرونی قوتوں کے پروردہ حکمرانوں اور ان کے ظالمانہ نظام کو اُکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ اُمید کا دمکتا سورج بھی اگر بعض مایوس ذہنوں میں جو زندگی کا صرف تاریک پہلو دیکھنے کے عادی ہوں اُمید کی کرن روشن نہ کرسکے اور عوامی صحافت کے مایوس کن تبصروں کے زیراثر قنوطیت کے طلسم سے نہ نکال سکے، تو قصور روشنی کا نہیں ان کی اپنی فکرونگاہ ہی کا ہوسکتا ہے۔
اُمت مسلمہ وہ اُمت ہے جسے روزِ اول سے اس کے خالق و مالک نے توحید کے اصول کے پیش نظر دو حوالوں سے اپنے کلام عزیز میں بیان فرمایا ہے۔ اوّلاً: کل بنی نوع آدم کو حضرت آدم علیہ السلام کی ذُریت ہونے کی بنیاد پر اُمت واحدہ فرما کر اس عالم گیر اصول کی تشریح کر دی کہ تمام انسان اصلاً ایک خاندان سے ہیں۔ ان کے رنگوں کا اختلاف، زبانوں میں فرق کا پایا جانا، ان کے قد، غذا، لباس وغیرہ میں بظاہر تنوع پایا جانا ایک ظاہری معاملہ ہے۔ قرآنی عمرانیات اور علم الانسان میں نہ کسی گورے کو کسی کالے پر، نہ کسی امیر کو کسی غریب پر، نہ کسی نام نہاد اعلیٰ منصب والے کو کسی بظاہر کم حیثیت والے فرد پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ، اس لیے تمام انسانیت ایک اُمت واحدہ ہے:
وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ط (یونس ۱۰:۱۹) ابتدائً سارے انسان ایک ہی اُمت تھے، بعد میں انھوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے۔
یٰٓـاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
گویا اُمت ِمسلمہ نہ کسی زبان سے وابستہ لسانی گروہ ہے، جس کا غلط اعادہ اکثر مغربی تجزیوں میں بجاے اُمت مسلمہ کے ’عرب دنیا‘ کہہ کر کیا جاتا ہے۔ نہ یہ کوئی نسلی اُمت ہے کہ اسے عرب یا عجم کے کسی قبیلے سے منسوب کیا جائے، اور نہ یہ کوئی جغرافیائی اُمت ہے کہ اسے ایشیائی، افریقی یا وسط ایشیائی لوگ کہا جائے۔
قرآن کریم اس اُمت کو صرف اس کے اللہ کی بندگی اور حق و صداقت پر قائم ہوجانے کی بنا پر اس کے اخلاقی عمل کی بنیاد پر اُمت مسلمہ قرار دیتا ہے۔ اسی بنا پر یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اس میں بڑائی کا معیار تقویٰ، پرہیزگاری، عملِ صالح اور عملِ خیر ہے۔ جو ان صفات میں دوسروں سے بڑھ کر ہوگا وہ اللہ کی نگاہ میں عزت کا مستحق ہوگا اور وہی اس دنیا میں اللہ کا زیادہ محبوب بندہ ہوگا۔
قرآن کریم نے اُمت مسلمہ کے اس صفاتی پہلو کے پیش نظر اُمت مسلمہ کی تعریف ہی یہ بیان کی ہے کہ یہ وہ اُمت ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقصد سے وجود میں لائی گئی ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اس سے قبل اسی سورۂ مبارکہ میں فرمایاگیا تھا: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (اٰل عمران ۳:۱۰۴) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔
ان دونوں آیات پر اس تناظر میں غور کیا جائے کہ آغاز میں اُمت ِانسانی ایک تھی۔ ایک ماں باپ کی اولاد کا نظریۂ حیات، عقیدہ اور عمل مختلف نہیں ہوسکتا لیکن وقت کے گزرنے اور تعداد میں اضافہ ہونے اور فطری طور پر سیروسفر اور ضروریاتِ زندگی کی تلاش و حصول کے نتیجے میں دُوردراز علاقوں میں جاکر بس جانے کی بنا پر عقیدہ و عمل کے اختلاف صدیوں کے عمل کی بناپر وجود میں آگئے۔ انسانیت کو دوبارہ قریب لانے کے لیے یہ امر منطقی ہے کہ اسے پھر اپنے خالقِ حقیقی کی طرف بلایا جائے اور اس کی بندگی کی دعوت دے کر دلوں کو جوڑا جائے۔ اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کا مقصدِ وجود ہی یہ بیان فرمایا کہ یہ وہ اُمت ہے جو بھلائی، خیر، معروف اور حق کی طرف بلاتی ہے اور برائی، ظلم، ناانصافی اور جہالت کو دُور کرنے اور مٹانے کے لیے اپنے تمام وسائل کا استعمال کرتی ہے۔ گویا قرآن کریم نے اُمت مسلمہ کی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مقصد کو بھی واضح طور پر بیان فرما دیا کہ اس کا مقصد محض اقتدار، محض دولت، محض تسلط نہیں ہے بلکہ معروف اور حق کا پھیلانا اور برائی کا مٹانا ہے۔ یہ ایک مشن رکھنے والی اُمت ہے، اور اگر اسے وسائلِ حیات پر قدرت اور حکومت و اقتدار کے حصول کی دعوت دی گئی ہے تو وہ بھی اس مقصد کے حصول کے لیے طریقہ اور تدبیر کی حیثیت سے ہے۔
اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن کریم اُمت مسلمہ کے نصب العین کے حوالے سے واضح رہنمائی کرتا ہے اور اسے ایک متحرک، بااصول اور بامقصد افراد کی جماعت قرار دیتے ہوئے نیکی کے قیام، حق و صداقت، عدل و اخوت کے نظام، اللہ رب العزت کی حاکمیت کے قیام یا دوسرے الفاظ میں اقامت دین کو اُمت مسلمہ کا نصب العین قرار دیتا ہے۔
قرآن کریم کا یہ امتیاز ہے کہ وہ ایک اصطلاح یا ایک مختصر جملے میں علم و عرفان کے ایک ذخیرے کو بیان کردیتا ہے۔ چنانچہ جب وہ یہ کہتا ہے کہ اقامت دین کی جائے تو ان دو الفاظ میں ایک انقلابی منشور فراہم کردیتا ہے جس کا شعور حاصل کرنا اور جسے عملاً اللہ کی زمین پر عملاً نافذ کرنا اُمت مسلمہ کا نصب العین اور ہدف قرار پاتا ہے۔
قرآن کریم اس نصب العین کو مسلمان کے بنیادی عقیدے سے وابستہ کرتا ہے اور اللہ پر ایمان کا پہلا تقاضا قرار دیتا ہے۔ ایک فرد جب شعوری طور پر اِس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس نے اردگرد کے بے شمار خدائوں کو چھوڑ کر، ان سے اپنے آپ کو کاٹ کر صرف اور صرف خالق کائنات کی بندگی میں دے دیا ہے، تو پھر یہ اقرارِ عظمت و حاکمیت اُس کے دل و دماغ کی دنیا تک محدود نہیں رہتا۔ پھر اس کا کھانا پینا اوڑھنا بچھونا، آرام کرنا اور سعی و عمل، دوستیاں اور دشمنیاں، پسند و ناپسند، غرض ذاتی معاملات ہوں یا معاشی اور معاشرتی، یا سیاسی اور بین الاقوامی، ہرہرمعاملے کا فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسا کرنے سے رب کریم، حاکم ارض و سما ناراض ہوگا یا خوش۔ وہ شعوری طور پر پکار اُٹھے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَـہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶: ۱۶۲-۱۶۳) ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا مَیں ہوں۔
حدیث شریف میں ایک شخص کے ایمان لانے کو اُس کے عمل سے وابستہ کرتے ہوئے یوں فرمایا گیا ہے کہ: ’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کرلی‘‘(عن ابوامامہ، بخاری)۔ گویا ایک شخص کا قول و عمل ہی نہیں بلکہ اس کی پسند و ناپسند کا اللہ تعالیٰ کی خوشی کاتابع ہو جانا ہی اس کے عبد اور بندے ہونے کا ثبوت ہے، ورنہ وہ مسلمانوں جیسے نام کے باوجود اپنے رب کا باغی ہی رہتا ہے۔
خاندان پر اس جواب دہی اور مسئولیت کو ایک حدیث صحیح میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: ’’تم میں سے ہرشخص محافظ و نگران ہے، اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی جو اس کی نگرانی (مسئولیت) میں دیے گئے ہیں۔ پس امیر جو لوگوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی اور مرد اپنے گھر والوں کی نگران ہے، پس اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی اور بیوی شوہر کے گھر اور اولاد کی نگران ہے، اور اس سے اولاد کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی (عن ابن عمر، بخاری، مسلم)۔ گویا انفرادی سطح پر اقامت دین کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور اہلِ خانہ کے حوالے سے دین کی ہدایات کا نفوذ اُمت مسلمہ کے ہر فرد کا نصب العین ہے۔
حدیث شریف نے اس اصلاحِ معاشرہ کے فریضے کو واضح الفاظ میں یوں سمجھایا ہے کہ ’’وہ شخص جو اللہ کے احکام کو توڑتا ہے اور وہ جو اللہ کے احکام کو توڑتے ہوئے دیکھتا ہے مگر اسے ٹوکتا نہیں، اس کے ساتھ رواداری برتتا ہے، ان دونوں کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کچھ لوگوں نے ایک کشتی لی اور قرعہ ڈالا۔ اس کشتی میں اُوپر نیچے مختلف درجے ہیں۔ چند آدمی اُوپر کے حصہ میں بیٹھے اور چندنچلے حصے میں۔ جو لوگ نچلے حصہ میں بیٹھے تھے وہ پانی کے لیے اُوپر والوں کے پاس سے گزرتے تاکہ دریا سے پانی بھریں تو اُوپر والوں کو اس سے تکلیف ہوتی۔ آخرکار نچلے حصے کے لوگوں نے کلھاڑی لی اور کشتی کے پیندے کو پھاڑنے لگے۔ اُوپر والے حصے کے لوگ ان کے پاس آئے اور کہا: تم یہ کیا کرتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہمیں پانی کی ضرورت ہے اور دریا سے پانی اُوپر جاکر ہی بھرا جاسکتا ہے اور تم ہمارے آنے جانے سے تکلیف محسوس کرتے ہو، تو اب کشتی کے تختوں کو توڑ کر دریا سے پانی حاصل کرلیتے ہیں۔ حضوؐر نے یہ مثال بیان کر کے فرمایا: اگر اُوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیتے اور سوراخ کرنے سے روک دیتے تو انھیں بھی ڈوبنے سے بچا لیتے اور اپنے آپ کو بھی بچا لیتے۔ اور اگر انھیں ان کی حرکت سے نہیں روکتے اور چشم پوشی کرتے ہیں تو انھیں بھی ڈبوئیں گے اور خود بھی ڈوبیں گے۔ (عن نعمان بن بشیر، بخاری)
اس خوب صورت مثال سے واضح ہے کہ اگر معاشرے میں برائی پھیلے گی ، وہ فحاشی ہو، بدامنی ہو، چوری ہو، بداخلاقی ہو، یا جھوٹ اور بے ایمانی ہو، تو معاشرے کا ہر فرداس سے متاثر ہوگا۔ اگر معاشرے میں بھلائی، معروف اور حق پھیلے گا تو معاشرے کے ہر فرد کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح اگر نفسانفسی کی بنا پر معاشرے کی اصلاح نہ کی گئی تو جو لوگ چشم پوشی کر رہے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیں گے۔
قرآن کریم بار بار اپنے ماننے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ کدھر جارہے ہیں، این تذھبون۔ اصل حاکم و مالک کو بھول کر عارضی اور بذاتِ خود مجبور ’خدائوں‘ کی طرف کیوں مدد کے لیے دیکھتے ہیں، جب کہ اصل حامی و ناصر، قوت والا اور تمام انسانوں کی ضروریات پورا کرنے والا صرف اور صرف اللہ رب کریم ہے، جس کے ہاں تمام انسانوں کی حاجات پوری کرنے کے بعد بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اللہ کی طرف رجوع اور زمین پر اس کی حاکمیت و اقتدار کو قائم کرنا، گویا اُمت مسلمہ کے نصب العین کا چوتھا تقاضا ہے اور اس کی تکمیل کے بغیر وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔
اسلام جس تبدیلیِ نظام کی دعوت دیتا ہے، وہی انبیاے کرام ؑکی دعوت کا نقطۂ آغاز رہا ہے۔ چنانچہ تمام انبیاے کرام نے ایک ہی بات کی دعوت دی: یعنی وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶) ’’ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ اگر اُمت مسلمہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے یکسو ہوکر جدوجہد کرے گی تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کو کم تعداد میں ہونے کے باوجود باطل قوتوں کی کثرت پر بھی غلبہ دے گا۔ قَالَ الَّذیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً م بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۲۴۹)’’لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انھوں نے کہا: بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔
اقامت دین کے لیے جدوجہد میں بالعموم کفر اور ظلم کی کثرت کو دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ حق اتنے بڑے ہجوم پر کیسے غالب آئے گا؟ شیطان وساوس کے ذریعے اس احساس کو بعض اوقات نفسیاتی یقین تک پہنچا دیتا ہے۔ قرآن کریم اس کارد کرتے ہوئے ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ اہلِ ایمان کو اس مقابلۂ حق و باطل میں دل مضبوط کر کے اپنے رب پر اعتماد کر کے اپنی قوت کو بازی پر لگانے میں کوئی تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ط اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ o (انفال ۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میںسے ۲۰ آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔
پہلا یہ کہ کفر کی کثرت انھیں حق کے قیام اور دین کی سربلندی کی جدوجہد سے غافل نہ کردے۔ اس لیے فرمایاگیا کہ اے نبیؐ! انھیں مسلسل جدوجہد اور جہاد پر اُبھاریے۔
دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ اُمت مسلمہ کا اپنے نصب العین کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ایک بابرکت عمل ہے کہ اس میں اللہ کی مدد سے ۲۰ صابر و باشعور ۲۰۰ بے شعور افراد پر غالب آئیں گے۔ گویا اصل بنیاد تعداد (quantity)نہیں ہے بلکہ کیفیت (quailty) ہے۔ اسی لیے جو اصطلاح مجاہدین کے لیے یہاں استعمال کی گئی وہ صابروں کی ہے، یعنی وہ اسلامی کارکن جو مقصدِحیات کے شعور کے ساتھ مسلسل مشکلات میں اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، جو مخالف قوتوں کی تعداد سے خائف نہیں ہوتے بلکہ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے مستقلاً استقامت کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ یہی وہ صابرین، مجاہدین اور متقین ہیں جن کی کامیابی کا وعدہ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں۔
آخری بات یہاں یہ سمجھائی جارہی ہے کہ مخالف افراد وہ ہیں جو شعور نہیں رکھتے، جب کہ اقامت دین کی جدوجہد میں شامل افراد کو زندگی کے مقصد کا شعور ہے، اور وہ نصب العین سے آگاہ ہیں۔ وہ حدِ نگاہ تک نہ صرف اپنے مقصد و ہدف سے آگاہ ہیں بلکہ مستقل طور پر منزل پر نگاہ جمائے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہہ اور تذبذب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت پر پورے اعتماد کے ساتھ اپنے وسائل کی کمی کے باوجود انھیں اس دنیا اور آخرت میں کامیابی پر پورا یقین ہے۔
نصب العین کا یہ ادراک اور وژن کا نہ صرف واضح ہونا بلکہ اس پر عین الیقین ہی وہ بنیاد ہے جو عمل میں تبدیل ہوتی ہے تو مشکلات کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں، اور ظلم و طغیان کی آندھیاں زمین بوس ہوجاتی ہیں، اور اللہ کی نصرت دائیں سے اور بائیں سے، اُوپر سے اور نیچے سے آکر اپنے صابر بندوں کو کامیابی سے ہم کنار کرتی ہے۔
اہلِ کتاب کے سیاق و سباق میں قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نصرت و رحمت کے حوالے سے غور کرنے والوں کے لیے اہم مواد فراہم کرتا ہے:
وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ o وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ طمِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵: ۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے)یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور خداترسی کی رَوِش اختیار کرتے تو ہم ان کی بُرائیاں اِن سے دُور کردیتے اور اِن کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش انھوں نے تورات اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو اِن کے رب کی طرف سے اِن کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اُوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں، لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے۔
گویا اعتصام بالقرآن والسنہ وہ نسخہ ہے جس کے نتیجے میں اُمت مسلمہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرسکتی ہے۔ اللہ کا جو وعدہ اہلِ کتاب سے ہے وہی اُمت کے ان افراد سے ہے جو نصب العین کا شعور رکھتے ہوں اور صبرواستقامت کے ساتھ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہوں۔
قرآن و سنت کے مثبت اور تعمیری نقطۂ نظر پر غور کیا جائے تو بعض اوقات شیطان انسان کو جن حیلوں، بہانوں سے اقامت دین کی جدوجہد کے حوالے سے مایوسی، نااُمیدی اور نصب العین کے بارے میں شکوک میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، ان کی قلعی کھل جاتی ہے۔ کبھی وہ یہ کہتا ہے کہ کفروطاغوت اور فحاشی کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ اتنی مختصر جماعت کے ساتھ کب تک کرو گے؟ بہتر ہے وقت کے دھارے کے ساتھ بہنا سیکھو۔ جو جھوٹ، مکر اور فریب کی سیاست عام سیاسی بازی گر کرتے ہیں، تم بھی وہی کرو کہ کامیابی کا راستہ یہی ہے۔ کبھی وہ کہتا ہے کہ اس فتنے کے دور میں اضطراری طور پر ایسے بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں جو عام حالات میں شریعت کے منافی ہیں۔ کبھی وہ اس طرف لے جانا چاہتا ہے کہ مکمل دین کی اقامت کی جگہ دین کی بعض وہ تعلیمات جن پر کسی کو اعتراض نہ ہو، انھیں اختیار کرلیا جائے۔ چنانچہ اُمت مسلمہ کے ادوارزوال میں عموماً روحانیت اور قلبی کیفیات پر زیادہ توجہ ہوجاتی ہے، اور طاغوتی نظام کو ایک مجبوری کے طور پر پہلے گوارا اور بعد میں بلااِکراہ قبول کرلیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا دائرہ نماز کے فرائض و واجبات اور مکروہات کی تفصیل تک محدود ہوجاتا ہے اور معاشی، معاشرتی، ثقافتی معاملات میں شیطان اور اس کی ذُریت کو چھا جانے کا پورا موقع فراہم کردیا جاتا ہے۔
اقامتِ دین کا مفہوم مکمل دین کی اقامت ہے، یعنی چاہے کوئی معاملہ ذاتی زندگی سے متعلق ہو یا معاشرت سے یا معاش و سیاست سے، ہرہرشعبۂ حیات میں قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات کو بغیر کسی معذرت کے نافذ کرنا ہی اقامت ِ دین ہے۔ اقامت دین کے جن پانچ مراحل کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے، یہ الگ الگ کرنے کا کام نہیں ہے بلکہ ان سب کو متوازی طور پر کرنے کا نام اقامت دین ہے۔ نصب العین کا شعور، ترجیحات کا تعین، حکمت عملی کی تشکیل اور قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی وہ ذرائع ہیں جو اقامت دین کی جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار کر سکتے ہیں۔ تحریکِ اسلامی کے لیے اس پُرآشوب دور میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنے نصب العین کے پیش نظر ایسی حکمت عملی وضع کرے جو بغیر کسی مفاہمت، معذرت یا مقصدِحیات سے انحراف کے، قوم کو اعتماد، یک جہتی اور صبرواستقامت کے ساتھ ترقی کی طرف لے جاسکے۔
مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بالعموم منفی تاثر پایا جاتا ہے جو مبنی برحقیقت نہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل ’بنیاد پرست، ’دقیانوس‘، ’دہشت گرد‘، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ مزید یہ الزام بھی دیا جاتا ہے کہ مسلمان جمہوریت کو ناپسند کرتے ہیں اور دنیا پر شریعت مسلط کرنا چاہتے ہیں، نیز مغرب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ایک طویل عرصہ سے جہاد کے بارے میں بھی مغرب میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ ان غلط مفروضوں اور مبہم اور غیرحقیقی تصورات کی بنیاد پر مغرب کی عالمِ اسلام کے بارے میں بنائی جانے والی حکمت عملی مزید غلط فہمیوں کو پھیلانے اور نتیجتاً مسلمانوں کے ساتھ محاذآرائی کی شکل اختیار کرچکی ہے جس سے دنیا کا امن بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ان حالات میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کا حقیقی موقف کیا ہے، اور ان کا پُرتشدد ردعمل کن وجوہات کی بنا پر سامنے آرہا ہے؟ بالکل اسی طرح مغرب کی حکمت عملی کا حقیقت پسند اور غیرجانب دار جائزہ، نیز مسائل کے حل کے لیے مبنی برانصاف لائحہ عمل کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ اس پس منظر میں اگر مغربی مفکرین کی طرف سے کوئی معروضی مطالعہ سامنے آئے تو ایسے جائزے کو عالمی امن کے قیام کی کوششوں کی طرف ایک صحت مند اقدام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
راجر ہارڈی نے اپنی کتاب The Muslim Revolt [مسلم بغاوت ] میں سیاسی اسلام کے تناظر میں مذکورہ بالا مسائل کے پیش نظر جامع تجزیہ پیش کیا ہے اور سوڈان، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا، ملایشیا، پاکستان اور ایران میں درپیش مسائل کا غیر جانب داری سے جائزہ لیا ہے۔ مصنف بی بی سی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مسلم مفکرین، سرگرم لوگوں (activists) اور عوام سے براہِ راست رابطے میں رہا ہے۔ ہارڈی نے بہت سے عصری سیاسی و سماجی مسائل پر مسلم اسکالروں، عوام اور حکمران طبقے کے ردعمل پر مبنی قیمتی معلومات تنقیدی نقطۂ نظر سے پیش کی ہیں۔
’سیاسی اسلام‘ کا سفر اسلام کو بطور معاشرہ اور تہذیب کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش سے ہوتا ہے۔ عمومی تاثر کے برعکس ہارڈی یہ محسوس کرتا ہے کہ عربوں نے اصولی طور پر اسلام کو تلوار کے زور پر مسلط نہیں کیا۔ ان کی زبان عربی منصفانہ انداز میں بتدریج پھیلی اور مذہب مزید آہستگی سے اب بھی پھیل رہا ہے۔ یہ صرف ۱۰ویں اور ۱۳ویں صدی عیسوی کا زمانہ ہی نہ تھا جب مشرق وسطیٰ کے باشندوں نے اسلام قبول کیا....عملی مقاصد کے حصول کے لیے ریاست نے ایک خالص عرب مہم جوئی کے بجاے بطور مسلم ریاست کردار ادا کیا۔ (ص ۱۱-۱۲)
ہارڈی مسلمانوں میں عالمی سطح پر پائی جانے والی اسلامی ریاست یا شریعہ بطور قانون کے نفاذ کی خواہش کو جاننے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اس نے قائداعظم محمد علی جناح کے تصورِ پاکستان کو جس سادگی سے پیش کیا ہے اس پر اسے موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ اس کے تجزیے میں بھی قائداعظم کے بارے میں عمومی غلط فہمی پائی جاتی ہے، یعنی یہ کہ وہ سیکولر اور لبرل تھے (ص ۵۹)۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے وجود میں آجانے کے بعد پاکستان کے ایک اسلامی ریاست ہونے کے تصور کو بارہا پیش کیا (دیکھیے: امریکی عوام سے خطاب، ۲۳ فروری ۱۹۴۸ئ)۔ اپنے ایک دوسرے بیان میں انھوں نے ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے جنھوں نے مسئلے کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے: ’’بلاشبہہ جب ہم اسلام کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس کی تحسین نہیں کرتے۔ اسلام محض اصولوں، روایات اور روحانی طریقوں کا نام نہیں ہے۔ اسلام ہرمسلمان کا ضابطۂ حیات بھی ہے جو اس کی زندگی اور رویے کو ترتیب دیتا ہے، حتیٰ کہ سیاست اور اقتصادیات کو بھی۔ یہ عزت و احترام، اعلیٰ اخلاقی اقدار، صحیح رویے اور سب کے لیے انصاف جیسے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہے‘‘۔
ہارڈی کا یہ نقطۂ نظر کہ مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں نہیں جیت سکتیں اور ان کے ووٹ بنک کا موازنہ جب دیگر سیاسی جماعتوں سے کیا جاتا ہے تو محدود ہے، تنقیدی تجزیہ چاہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایک عام ووٹر کو کبھی بھی سیکولر اور ’مذہبی‘ گروہوں کے درمیان انتخاب کا مرحلہ درپیش نہیں آیا۔ حتیٰ کہ وہ جو ’سیکولر‘ کہلاتے ہیں ہمیشہ عوام کی اسلام سے وابستگی کو استعمال کر کے ان کا استحصال کرتے رہے اور ان کی حمایت حاصل کرتے رہے۔ اس کی نمایاں مثال پاکستان پیپلزپارٹی ہے جس کے راہنما ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی جذبات کو سیاسی طور پر اس وقت استعمال کیا جب انھوں نے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا، قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا اور پاکستان میں شراب کی کھلے عام فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کی تھی۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی جو متفقہ طور پر ان کے دورِ امارت میںمنظور کیا گیا، پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا اور دستوری طور پر ریاست کو اس بات کا قانوناً پابند کیا گیا کہ ۱۰ سال کے اندر اندر پاکستان کا قانونی نظام مکمل طور پر اسلامی کردیا جائے گا۔ان تاریخی حقائق کے تناظر میں جب ضیاء الحق کو پاکستان میں اسلامائزیشن کا علَم بردار (چیمپئن) قرار دیا جاتا ہے تو یہ ان کے ساتھ غیرضروری فیاضی اور بے جا تحسین کے مترادف ہے۔ (ص۳۱-۶۳)
ہارڈی مسلمانوں کے ساتھ مغرب کے دہرے اخلاقی معیار پر بھی کڑی تنقید کرتا ہے۔ اس کے خیال میں یہ کہنے میں کہ قانون کا احترام کرنے والے اور محنتی مسلمانوں کے ساتھ عام شہریوں کی طرح پیش آیا جاتا ہے، ناگزیر حد تک تضاد پایا جاتا ہے۔ ان کی مساجد کی نگرانی کی جاتی ہے، ان پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ انفرادی اور خاندانی رویوں میں تبدیلی لائیں، اور ریاستی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر قانون سازی میں سختی کے نتیجے میں شہری آزادیاں متاثر ہورہی ہیں۔ مغرب کے اس دہرے اخلاقی معیار کے نتیجے میں وہ اسلام کا نیا حریف بن گیا ہے۔ ہارڈی کی یہ تصنیف کثیرثقافتی باہمی بقا کا بھی ایک اہم مطالعہ ہے۔ (ص۱۸۵)
مصنف دہشت گردوں اور اسلام پسندوں کو ہدف بنانے کے نام پر بے گناہ شہریوں پر قوت کے استعمال اور ڈرون حملوں کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ مراد ہوف مین کے نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’سرد جنگ کی طرح یہ نئی جنگ بھی ایک نظریاتی جہت رکھتی ہے جوکہ ’سوفٹ پاور‘ (سفارت کاری، انٹیلی جنس، پروپیگنڈا، اقتصادی امداد وغیرہ) جیسے ہتھیاروں کے حساس استعمال کی متقاضی ہے لیکن سرد جنگ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے درمیان ایک اہم فرق ہے۔ ناٹو اور وارسا پیکٹ کا جب موازنہ کیا جاتا ہے تو امریکا کی لازمی طور پر حکومتوں سے محاذآرائی تھی نہ کہ عوام سے جو اتحادی یا امکانی اتحادی تھے۔ اب امریکا ریڈیکل اسلام کے خلاف جسے ہمیشہ عوام کی تائید حاصل ہوتی ہے، غیرمقبول مسلم حکومتوں کا اتحادی ہے۔ یہ پوری دلجمعی کے ساتھ کسی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے زیادہ کمزور موقف ہے‘‘۔ (ص ۱۸۷-۱۸۸)
ہارڈی عالمی جہاد کا بھی جائزہ لیتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کا سبب انسانیت کی تذلیل پر مبنی روایات ہیں۔ ان روایتوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مغرب___ روایتی فوجی اور اقتصادی طاقت اور عالم گیریت کے نئے ہتھیار سے مسلح___ اسلام کے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہے۔ (ص۱۹۱)
مغرب کی جارحیت فلسطین، عراق، افغانستان، کشمیر اور وسطی ایشیا کی جمہوریائوں سے محاذآرائی پر مبنی خطے میں پوری طرح عیاں ہے۔ جہاد کے حمایتی تشدد کو مغربی جارحیت سے نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور اس کا جواز مذہب سے مہیا کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تذلیل سے نجات دلاتا ہے اور ندامت کو فخر سے اور بے بسی کو قوت میں بدل دیتا ہے (ص ۱۹۲)۔ اس موقف کا اظہار بھرپور تاثر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہارڈی کی راے میں جڑواں ٹاور پر حملہ جہادیوں کے اس مضبوط موقف کی تسکین کا باعث تھا۔القاعدہ کا نقطۂ نظر مسلم نوجوانوں کو تشخص، نظریہ اور ایک ایسا ذریعہ فراہم کرنا ہے جو انھیں یہ بتاتا ہے کہ وہ کون ہیں، انھیں کیوں اس پر عمل کرنا چاہیے،اور کیا کرنا چاہیے۔ (ص ۱۹۳)
امریکا کی ۲۰۰۱ء میں افغانستان اور ۲۰۰۳ء میں عراق پر جارحیت نے مغرب کی اسلام کے خلاف عالمی جنگ کے القاعدہ کے موقف کی تصدیق کردی۔ اس کی مزید تائید ابوغرائب جیل میں قیدیوں کی تذلیل کے قصے اور گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے کردی۔ اس سب نے نام نہاد القاعدہ کے حربوں اور حکمت عملی کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا اور امریکی پالیسیوں کی مسلم دنیا میں ناپسندیدگی اور حمایت سے محرومی میں اضافہ کیا۔
ہارڈی کے تجزیے کی روشنی میں ۲۰۰۹ء میں وائٹ ہائوس کی مسلم دنیا سے متعلق حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے، اوّلاً: سی آئی اے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو تیزی سے اس کے صحیح مقام پر واپس لانے میں زیادہ سرگرمِ عمل دکھائی دیتی ہے۔یہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں متعین اہداف پر حملوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ یہ حکمت عملی القاعدہ کو اپنے دفاع پر مجبور کردیتی ہے۔ دوم: سرکاری بیانات میں ’جہادی‘ یا ’مسلم‘ دنیا کی اصطلاحات سے اجتناب کرتے ہوئے ’دنیا میں پائے جانے والے مسلمان‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ گو، اس سے حتمی تجزیے کے طور پر امریکا کے مسلمانوں کے بارے میں رویے میں امریکا اور بیرونِ امریکا میں کوئی بڑا تغیر واقع نہیں ہوا، اور نہ مسلمانوں کے امریکا کے مسلمانوں کے مفادات کے خلاف محاذ آرائی اور تصادم کے تصور میں ہی کوئی تبدیلی آئی ہے۔ سوم: ان حالات پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے جو تشدد اور انتہاپسندی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ غربت کے خاتمے اور شرحِ خواندگی میں اضافے کے پروگراموں نے توجہ حاصل کرلی ہے۔ چہارم: امریکی حکام اور ماہرین پر یہ بات بھی عیاں ہوتی جارہی ہے کہ مسائل کو فوجی قوت کے استعمال سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم دنیا کے پسے ہوئے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی حل بھی تلاش کیا جانا چاہیے۔ پنجم: امریکا کو مسلم دنیا میں اپنی حکمت عملی کے نفاذ کے لیے عالمی دبائو بڑھانے کے لیے دنیا کی دیگر اقوام کو بھی اس میں شریک کرنا چاہیے۔ناٹو افواج کی افغانستان ، عراق اور لیبیا وغیرہ میں براہِ راست مداخلت نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو ایک کثیرقومی جدوجہد بنادیتی ہے۔ ششم: عراق، افغانستان اور پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے غیرمعمولی کاوشیں لازماً کی جانی چاہییں۔ یہ نئی حکمت عملی ایک عام آدمی میں اس یقین کو پختہ کرتی ہے کہ مسلم دنیا میں آمر حکمران، اسلام پسندوں، بنیاد پرستوں اور جہادیوں کو پیدا کرنے کا سبب ہیں، جب کہ امریکا اور اس کے اتحادی آزادی، حریت ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے علَم بردار ہیں۔ تاہم کوئی بھی اس زمینی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ مصر، تیونس، مراکش، یمن وغیرہ کے جابروں اور آمروں کو امریکا کی مسلسل حمایت حاصل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی جنگ ِ عظیم کے بعد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں آمر حکمرانوں کی تخلیق کے پیچھے تھے۔
نائن الیون کے بعد نام نہاد لبرل جمہوری معاشرے کے ودیعت کردہ تضادات مزید نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ نہ صرف مسلم دنیا میں بلکہ امریکا اور یورپ میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے مسلمانوں کو بھی پہلے سے قائم تصورات کی بنا پر ’ماڈریٹ‘، ’ریڈیکل‘، ’لبرل‘،’دقیانوسی‘یا ’بنیاد پرست‘ قرار دیا گیا۔ اس طرح سے مسلمانوں کے بارے میں قائم کیا گیا تاثر ان کی شخصیت کا حقیقی عکس نہیں ہے۔ یہ عمومی تاثر کہ ’مسلمان جمہوریت سے نفرت‘ کرتے ہیں یا ’مسلمان ہماری آزادی سے نفرت‘ کرتے ہیں، جیساکہ بش نے دعویٰ کیا تھا، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں حقیقی تصور کو جاننے میں ایک رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
لاعلمی یا حقیقی مسائل کو پوری طرح قصداً جانے بغیر کیے جانے والے فیصلے صحیح پالیسی فیصلوں کے نہ ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ ہارڈی کا یہ تاثر مبنی برحقیقت ہے: ’’مسلم دنیا کے مرکز سے لے کر موریتانیہ سے مینڈانائو تک بیش تر علاقوں میں مسلمانوں کو بُری حکمرانی کا سامنا ہے، ان کے انسانی حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے، اور ان کی معاشی ترقی روک دی گئی ہے۔ یہ مسائل حقیقی ہیں اور مغرب کو ان کا براہِ راست ذمہ دار بھی نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ لیکن بیرونی قوتوں کے کردار کو نظرانداز کرنا___ ان کی غوروفکر سے عاری مداخلت، ان کی آمر حکمرانوں پر عنایات، ان کا انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں دہرا معیار___ مسئلے کے ایک اہم پہلو سے آنکھیں بند کرلینے کے مترادف ہے‘‘۔ (ص ۲۰۱)
غلط تصورات پر مبنی خارجہ پالیسی کسی بھی ابلاغی خلا کو پُر نہیں کرسکتی، اور نہ باہمی اعتماد ہی کو قائم کرسکتی ہے۔ امریکا اور یورپی حکومتی پالیسیوں کی عالمی سطح پر مسلمانوں کی طرف سے مخالفت کی ایک بڑی وجہ ان کی ناقص ڈھل مل خارجہ پالیسی، اور یہ تصور ہے کہ فوج، طاقت اور دولت ہی مسئلے کا حل ہیں۔ سابق برطانوی خارجہ سیکرٹری ڈگلس ہرڈ یہ کہنے میں پوری طرح حق بجانب تھے: ’’ہم نے غزا، فلوجا اور چیچنیا میں بہت سے لوگوں کو ہلاک کر کے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔ ان علاقوں میں اپنے رویے سے اسرائیلی، امریکی اور روسی ہر وقت دہشت گردوں کو تیار کر رہے ہیں‘‘۔ (بی بی سی ریڈیو- ۴، ۲۲؍اپریل ۲۰۰۴ئ)
مسلمان ممالک پر طولانی قبضہ اور ڈرون حملے صورت حال کو مزید خراب کرنے کا باعث بنیں گے، جب تک کہ دہشت گردی کو فروغ دینے کا یہ سلسلہ بند نہ کیا جائے، اور تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کا ذہن تبدیل کرنے کی نرم پالیسی نہیں اپنائی جاتی۔ ایسے میں محض متاثرہ علاقوں میں سماجی ترقی کے لیے دی جانے والی خیراتی امداد کوئی بہتری نہیں پیدا کرسکتی۔
مغرب اور عالمی مسلم کمیونٹی کے باہمی تعلقات کے مستقبل کا انحصار نام نہاد امن افواج کے انخلا میں ہے جو کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر عوام پرکھلم کھلا حملوںمیں ملوث ہے۔ یورپ اور امریکا کی اسرائیل، افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور پاکستان کے بارے میں خارجہ پالیسی ایک حقیقی تبدیلی مسلمانوں اور مغرب کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کرسکتی ہے۔ یہ مغرب اور بنی نوع انسان کے مفاد میں ہے کہ عالمی امن کے حصول کے لیے اور مسلم دنیا میں مجروح عوام کے احترام اور حقوق کی بحالی کے لیے مزاحمت اور تصادم کو کم کرے۔
زیرتبصرہ کتاب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عالم اسلام کے بارے میں خارجہ پالیسی میں مثالی تبدیلی تجویز کرتی ہے۔ مغرب کی جمہوریت، آزادی (لبرلا ئزیشن) اور عالم گیریت کے نام پر مسلم دنیا کے معاملات میں بلاجواز مداخلت مسلمانوں کو مزید برگشتہ کرے گی اور پُرامن بقاے باہمی کے امکانات کو مزید کم کرے گی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مسلم دنیا میں غیرمقبول، کرپٹ آمر حکومتوں کی خفیہ یا کھلی حمایت اور سرپرستی بھی بند ہونی چاہیے۔ اگر ہم دنیا میں ایک پُرامن عالمی نظام چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے ذہن اور نفسیات، اسلامی اقدار اور تمدن کو سمجھنے کے لیے ایک مخلصانہ سوچ کو سب سے پہلے سامنے آنا چاہیے۔ اس لیے کہ ’’ایک نئی سوچ کے بغیر جو کہ اسلام کے تصورِ حیات اور عالمِ اسلام کے عدم اطمینان کی وجوہات پر یقینی گرفت رکھتی ہو یہ ممکن نہیں۔ دوسری صورت میں مسلمانوں کی بغاوت صدیوں تک جاری رہے گی‘‘ (ص ۲۰۲)۔ (تبصرہ: مسلم ورلڈ بک ریویو، برطانیہ، جلد ۳۲، شمارہ ۲، ۲۰۱۲ئ۔ ترجمہ: امجد عباسی)
The Muslim Revolt: A Journey Through Political Islam )
راجر ہارڈی، ناشر: C.Hurst & Co ، لندن، ۲۰۱۰ئ، ISBN: 9781849040327، صفحات: ۲۳۹)
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ وَ اِذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْٓئً ا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ وَ مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ (الرعد۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔
اُمت مسلمہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو دو حقیقتیں واضح طور پر نوشتۂ دیوار نظر آتی ہیں: اوّلاً یہ ایک اُمت ِ مرحومہ ہے جس پر اللہ کی خصوصی نگاہِ رحم اور عفو و درگزر ہے اور بے شمار خامیوں کے باوجود اس میں نمو اور زندگی کی رمق کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی خصوصی عنایت سے ۱۵۰۰ سال سے باقی رکھا ہے۔ جس وقت بغداد تباہ ہو رہا تھا اور علم کے اس مرکز کے بیش قیمت کتب خانے اُس دور کی یک قطبی طاقت کے ہاتھوں اس طرح تباہ ہو رہے تھے جس طرح ہماری آنکھوں کے سامنے بغداد کی حالیہ تباہی میں لاکھوں بے گناہ شہید کیے گئے، شفاخانے تباہ کیے گئے، مساجد و مدرسے مسمار کردیے گئے___ اور یہ سب کچھ کس عنوان سے ہوا؟ جمہوریت کی برآمد، تہذیب ِ مغرب کی تعلیم اور روشن خیالی کے کھوکھلے نعرے! عین اسی لمحے اُمت مسلمہ میں ایسے مفکرین اور قائد اُبھر رہے تھے جنھوں نے اس اُمت کو اس کا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جب ہلاکو خان بغداد کے علمی مرکز کو تباہ کر رہا تھا تو دیکھنے والی آنکھیں ہرطرف خون، قتل و غارت، تباہی، مسلمان کی بے بسی، کس مپرسی اور بے وقعتی کو دیکھ رہی تھیں، لیکن دوسری جانب علم و حکمت، آگہی اور اُمید و رجا کی دو شمعیں نہ صرف روشن ہو رہی تھیں، بلکہ افسردہ و پژمردہ حال کو روشن مستقبل میں تبدیل کرنے کی تدبیریں کر رہی تھیں۔ یہ دو شمعیں اُمت مسلمہ کو ہمت، جوش، ولولہ، عزمِ نو کی تعلیم اور تغیرِ حالت کے لیے جہادِ نو کی طرف دعوت دے رہی تھیں۔ اس دورِ ابتلا نے جن شخصیات کو وجود بخشا وہ کوئی اور نہیں، امام تقی الدین ابن تیمیہ (۱۲۶۳ئ-۱۳۲۸ئ) اور مولانا جلال الدین رومی (۱۲۰۷ئ-۱۲۷۳ئ) تھے۔
یہ حقیقت واقعہ، اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اُمت ِمسلمہ اپنی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ میں جب بھی اپنے ہاتھوں پستی کی طرف گئی، اللہ تعالیٰ نے اسی اُمت میں سے اُمید کی لہر پیدا کی ہے۔ جب سلطنت مغلیہ کا چراغ گُل ہو رہا تھا اور ادیب و شاعر شہرآشوب تحریر کر رہے تھے، اسی دوران میں مدوجزر اسلام بھی تحریر ہو رہی تھی اور تحریکاتِ جہاد وجود میں آرہی تھیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ علمی محاذ پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے جانشین اسلامیانِ ہند ایک نئے دور کی طرف پیش قدمی کررہے تھے۔ چنانچہ جلد ہی علامہ اقبال اور سیدمودودی کی فکر نے اُمت کو اُمید اور منزل و مقصد ِ حیات کا شعور دینے کے ساتھ تبدیلیِ قیادت کے لیے بنیادی لوازمات کی نشان دہی کے ساتھ ایک لائحہ عمل بھی تجویز کیا۔
مشرق وسطیٰ بھی گذشتہ ۶۰برسوں سے ایسے ہی دورِ زوال، اندرونی عدمِ استحکام، بیرونی سیاسی، معاشی و عسکری تسلط و دخل اندازی اور اپنوں کی بے وفائی کا شکار رہا ہے۔ عموماً یہی وہ عوامل ہیں جو قوم کو مایوسی، نااُمیدی، نفسانفسی اور انتشار کی طرف لے جاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون بھی عجیب ہے کہ وہ مُردہ زمین سے لہلہاتی کھیتی پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات عاقبت نااندیشی کرنے والے ہاتھوں سے خود اپنے ہاتھوں لگائی، لہراتی کھیتی کو تہس نہس کرنے کی آزادی بھی دیتا ہے۔ آج تیونس میں جو اُمید کی لہر، مستقبل کی تابناکی اور قوم میں زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں، یہ اس دورِمایوسی ہی کی پیداوار ہیں، جو اَب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ سورئہ رعد کی درج بالا آیت مبارکہ نے جن دو اُمور پر ہمیں متوجہ کیا ہے وہ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ تبدیلی کا آغاز اندر سے ہوگا، بتدریج ہوگا، صبروحکمت سے ہوگا اور ایک حکمت عملی وضع کرنے سے ہوگا۔ جب تک افرادِ کار کی ایسی قوی جماعت صبرواستقامت کے ساتھ تیار نہ کی جائے جو شدید آزمایشوں میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، جن کے سامنے قریب المیعاد اور طویل المیعاد اہداف و مقاصد واضح ہوں اور جو مداہنت کے بغیر اپنے اصولوں پر قائم رہیں، اس وقت تک تبدیلی کا آغاز نہیں ہوسکتا۔
تیونس میں اسلامیان نے اس صبرآزما اور استقامت والے راستے اور جمہوری عمل کے ذریعے سے جسے بعض اوقات کفروشرک سے تعبیر کیا جاتا ہے، حکمت کے ساتھ آج وہ مقام حاصل کرلیا ہے جس کے نتیجے میں وہ بنیادی اسلامی تبدیلیاں جمہوری اور دستوری ذرائع سے لاسکتے ہیں جنھیں مغرب اپنی دوغلی اخلاقی شہرت کے باوجود ’بنیاد پرستی‘، ’طالبانائزیشن‘، ’انتہا پسند قبضہ‘ نہیں کہہ سکتا۔ مغربی صحافت اس وقت جو بات بار بار دُہرا رہی ہے وہ یہ ہے کہ راشد الغنوشی کی حرکت نہضت معتدل اسلامیان (moderate islamists) کی جماعت ہے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام سے مکمل وابستگی اور اسلامی شعائر کے اہتمام کے باوجود اور جب کہ راشد الغنوشی کی فکر، اخوان المسلمون کے مقابلے میں سید موددوی سے زیادہ متاثر ہے، اور ان کی صاحب زادی اسکارف کے استعمال کے ساتھ پارٹی کی طرف سے سیاسی بیانات دیتی ہیں، نہضت پارٹی کو ’بنیاد پرست‘ کیوں نہیں کہا گیا، دوسرے الفاظ میں حکمت عملی میں کس نوعیت کی تبدیلی تحریکِ اسلامی کی امیج یا ابلاغی تصویر میں تبدیلی پیدا کرسکتی ہے۔
تیونس میں نہضت پارٹی نے ۲۱۷ کی پارلیمنٹ میں ۸۸ نشستیں حاصل کر کے ۴۱ فی صد نشستیں حاصل کی ہیں اور دیگر جماعتوں سے تناسب کے لحاظ سے یہ فرق بہت بھاری ہے۔ ڈیموکریٹک فورم نے ۱۰ فی صد، کانگریس براے ری پبلک نے ۱۴ فی صد، پروگریسیو پارٹی نے چھے فی صد، پاپولرفرنٹ نے ۱۳ فی صد اور دیگر جماعتوں نے ۱۶ فی صد نشستیں حاصل کی ہیں۔
یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ تیونس کے عوام نے مغربیت، اباحیت، شراب اور فواحش کے سرکاری سرپرستی کے طویل دور سے گزرنے کے باوجود واضح اکثریت کے ساتھ تحریکِ اسلامی پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے، وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خاموش اکثریت کو اگر صحیح حکمت عملی سے پیغام پہنچایا جائے تو تبدیلیِ قیادت نہ صرف ممکن ہے بلکہ اگر اللہ کی نصرت شاملِ حال ہو تو یقینی ہے۔
تیونس میں مغربی سیکولر جمہوریت کے زیراثر ہونے والے انتخابات میں نہضت پارٹی کی شرکت اسلامی شریعت کے فقہی اصول ضرورۃ کی ایک عملی مثال ہے۔ گویا ایسے حالات میں کہ جب دوبرائیاں سامنے ہوں اور ایک کم تر برائی میں اُمت ِمسلمہ کی مصلحت ہو تو اس نیت کے ساتھ کہ اگر کوشش کر کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیابی سے نوازتا ہے تو اس غیراسلامی سیاسی نظام کے تحت کوشش کرکے اسے بدلا جاسکے گا، تو ایسا اقدام اسلامی شریعت کے منشا کے مطابق ہوگا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک ایسے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اُس نظام میں ذمہ داری قبول کرنا بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اعلیٰ تر مقصد کے حصول کے لیے اور جھوٹے خدائوں کی جگہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اور نظامِ خلافت کے قیام کے لیے حکمت عملی کے طور پر ایسے وقتی اقدامات کرنا شریعت کے اصولوں کی پیروی ہوگی اور اسے اسلام سے ’انحراف‘ یا مغربی جمہوریت کی توثیق نہیں کہا جاسکے گا۔
تیونس میں تحریکِ اسلامی کی دستوری جدوجہد سے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ ان تحریکاتِ اسلامی کے لیے خاص طور پر قابلِ غور ہیں، جو صلاحیت اور افرادی قوت رکھنے کے باوجود توڑ پھوڑ اور اسٹریٹ پاور یا شب خونی انقلاب کے مقابلے میں دیرپا اصلاحی اور تعمیری عمل کے بعد (جو ممکن ہے سو سال سے بھی زیادہ طویل مدت کا متقاضی ہو) متوقع تبدیلی قیادت لانے میں یقین رکھتی ہیں، جن کا شعار قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۶۹) ’’جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے اور یقینا اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے‘‘۔
سورئہ عنکبوت کی اس آخری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اہلِ ایمان خصوصاً تحریکِ اسلامی کے کارکنان کے لیے معانی کا ایک خزینہ بند کر دیا ہے۔
اسلام کی دعوت ایک دعوتِ انقلاب ہے۔ یہ ظلم، طاغوت، استحصال، ناانصافی، غیرعادلانہ تقسیم دولت، آمریت، شخصی حکومت، انانیت، کبر، غرض ان تمام صفات کے خلاف اعلانِ جہاد ہے جو عموماً عصری سیاسی اور معاشی قائد قوتوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ دعوتِ انقلاب انسان کی فکر، شخصیت، معاملات اور طرزِعمل کو ہرقسم کی خود پرستی اور مفاد پرستی سے نکال کر توجہ کا مرکز صرف ایک چیز کو بنادیتی ہے، اور وہ ہے: خلوصِ نیت کے ساتھ ہرکام کو ربِ کریم کی خوشی کے لیے کرنا۔ تحریکاتِ اسلامی کی دعوت کا پہلا نکتہ یہی ہے کہ وہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں اسی جانب اشارہ ہے کہ ہمارے جو بندے صرف اپنے رب کی رضا کے لیے مجاہدہ، جہاد، جدوجہد اور انتہائی کوشش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں مصائب و آزمایش برداشت کرنے کے لیے تنہا نہیں چھوڑ دیتا، وہ انھیں صحیح راستہ سُجھاتا ہے۔
لیکن اس الٰہی ہدایت کی نوعیت کیا ہے۔ اس پر سبُلنا کا استعمال یہ واضح کرتا ہے کہ جب اہلِ ایمان اپنے رب کی خوشی کے لیے دنیا سے ٹکر لیتے ہیں اور یہ جاننے کے باوجود کہ اصول سے تھوڑا سا انحراف بڑے فائدے دلوا سکتا ہے،اصول پر قائم رہتے ہیں، اور مجاہدہ اور جہاد کے راستے کو اختیار کرتے ہیں، تو پھر رب کریم انھیں مشکلات و مصائب میں نہ تو مایوس ہونے دیتا ہے اور نہ بے بسی میں چھوڑتا ہے بلکہ انھیں ہدایت کے راستے دکھاتا ہے۔ قرآن کریم نے بار بار ہمیں یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ راستہ (صراط مستقیم) تو صرف ایک ہی ہے: اللہ کی بندگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا، لیکن یہاں پر ’راستے‘ فرما کر یہ بات سمجھانی مقصود ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے جو جہاد اور مجاہدہ کیا جائے گا، اور حصولِ مقصد کے لیے کون کون سی حکمت عملیاں اور نقشہ ہاے عمل اختیار کیے جائیں گے، اور کس طرح فتح مکہ اور مدینہ منورہ کے راستے عمل میں لائی جائے گی۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ مکہ مکرمہ میں دعوت کا مرکزی نکتہ توحید و رسالت تھا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی معاشی، سیاسی اور اعتقادی حاکمیت منزل و مقصد تھی جس کی سزا حضرات بلالؓ، خبابؓ، صہیبؓ ، سلمانؓ ، ابوبکرؓ، ابوذر غفاریؓ، اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور خود خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس شہر میں دی جارہی تھی جو امن کا، سلامتی کا، رحمتوں کا اور فضل کا مرکز بنایا گیا تھا۔ لیکن جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب پر ظلم و تعذیب کا بازار گرم تھا، کیا اللہ نے انھیں تنہا چھوڑ دیا؟ کیا انھیں مکہ میں کفروشرک کی قوتوں کے ہاتھوں ختم ہونے دیا؟ یا ہجرت کو سبیل بنایا اور اس حکمت عملی کے مزید آٹھ سال بعد اسباب و افراد کی تیاری کے بعد مکہ میں اللہ تعالیٰ کے نام کو سربلند (علیا) کرنے کے ہدف تک پہنچایا۔
ہجرت ایک حکمت عملی اور ایک سبیل تھی۔ اس آیت مبارکہ میں سمجھایا جارہا ہے کہ تحریک اسلامی کو چاہیے کہ اخلاصِ نیت اور ہدف کو نگاہ سے اوجھل کیے بغیر، مستقل مزاجی اور صبرواستقامت سے جادۂ حق پر قائم رہتے ہوئے ایک سے زائد راستے اللہ کی ہدایت پر تلاش کرے۔ اللہ تعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کو جو اپنا رُخ اس کی طرف کردیں (اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ …) ’راستے‘ دکھاتا ہے۔ ان راستوں کو اختیار کرنا ہی مجاہدہ اور جہاد ہے۔ جہاد کی افضل ترین شکل کو قیامت تک کے لیے نفس اور مال کے ہدیے سے تعبیر کرتے ہوئے قرآن و سنت یہ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان کھلے ذہن، واقعات کے تجزیے اور ترجیحات کی روشنی میں مختلف حکمتوں اور متبادل راستوں پر غور کریں۔
تبدیلیِ قیادت جہاں ایک ہدف ہے، وہیں ایک راستہ اور حکمت عملی بھی ہے۔ اسی بنا پر سورئہ حج میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے، برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘ (الحج ۲۲:۴۱)۔گویا حصولِ اقتدار بذاتِ خود کوئی حتمی مقصد نہیں ہے بلکہ امربالمعروف، نہی عن المنکر اور نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے نفاذ کا ذریعہ ہے۔ اگر اللہ کے دین کو مکمل طور پر قائم کرنا تحریکاتِ اسلامی کا مقصد ہے تو انھیں سیاسی جدوجہد کرنی ہوگی۔ طویل، صبر آزما دور سے گزرنا ہوگا اور اس جہاد کے بعد جب اقتدار حاصل ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی شریعت کو ہر شعبۂ حیات میں بتدریج نافذ کرنا ہوگا۔
اوّلاً: نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد کی شرطِ اول خلوص نیت ہے، نہ اپنی ذات کو نمایاں کرنا، نہ یہ سمجھنا کہ کوئی فرد تنہا نجات دہندہ ’مہدیِ موعود‘ اور ’مسیحا‘ بن کر اقتدار سنبھالتے ہی چھڑی گھماکر انقلابی تبدیلیاں لے آئے گا۔ تمام جدوجہد اور جہاد کا مرکز صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہی ہو، اپنی ذات، حتیٰ کہ جماعت کو بت نہ بنا دیا جائے بلکہ ہر سرگرمی کو صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے وابستہ کر دیا جائے۔
دوسری بات یہ قابلِ توجہ ہے کہ یہ ’مجاہدہ‘ میدانِ جہاد میں بھی ہوگا اور معیشت وسیاست اور معاشرت کے میدان میں بھی۔ گویا جہاد کو اس کے وسیع تر مفہوم میں سامنے رکھنا ہی قرآن کریم کا مطلوب ہے۔ تیسرا اہم پہلو جو اس سے وابستہ ہے، یہ ہے کہ اس جہاد کے راستے پر چلتے وقت خلوصِ نیت سے جو قدم اُٹھایا جائے گا، اس کے نتیجے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کو ’راستے‘ اور سبیلیں سجھائے گا۔ ضرورت، زمینی حقائق اور ترجیحات کی روشنی میں ایک سے زائد حکمت عملیاں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے نتیجے میں سوچنی ہوںگی اور وسیع تر مصلحتِ عامہ کے دائرے میں ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
تحریکی کارکنوں کے لیے خصوصاً یہ بات سوچنے کی ہے کہ قرآن کریم کس طرح ایسے مراحل کے لیے جب ہم یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جو دعوتی یا سیاسی حکمت عملی ہم نے سوچی تھی وہ کام کیوں نہیں کررہی، مطلوبہ نتائج کیوں ظاہر نہیں ہو رہے، سُستی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ قرآن کریم ایسے تمام مواقع پر جہاں مایوسی اور جمود کا امکان ہوتا ہے، ہمیں اللہ پر اعتماد کے ساتھ نئے راستے تلاش کرنے کی ہدایت کرتا ہے،۔ گویا جو تحریکات اپنی کسی حکمت عملی میں تبدیلی کرنے میں تردد و تکلف کرتی ہیں وہ قرآن کی اس ہدایت کے خلافِ عمل کرتی ہیں۔ ہم نے تیونس کی تحریک اسلامی کی حکمت عملی کی طرف اس بنا پر اشارہ کیا ہے کہ وہ اُس دور سے گزری جس سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ یہی شکل مصر میں رہی جس پر ہم اس تحریر میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
چوتھا اہم پہلو جو اس آیت مبارکہ سے سامنے آتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا قدم قدم پر رہنمائی کرنا اور اپنے ’محسن‘ بندوں کو تنہا نہ چھوڑنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ ایمان کا ملجا و ماویٰ، ان کا حقیقی سہارا، ان کی حتمی اُمید اگر کوئی ہے تو وہ اپنے رب کے ساتھ تعلق اور اس کی نصرت و مدد کی طلب ہے۔ ’مجاہدہ‘ دستوری جدوجہد ہو یا میدانِ کارزار میں سرگرمی، پُرامن حکمت عملی ہو یا عسکری منصوبہ بندی، حکمت عملیاں مختلف ہوسکتی ہیں اور بعض بظاہر ایسی بھی ہوسکتی ہیں جنھیں مداہنت (compromise) سے تعبیر کیا جائے گا لیکن تحریک کی زندگی اور کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب وہ قرآنی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک سے زائد راستوں (options) اور سبیلوں پر کھلے ذہن کے ساتھ آمادہ رہے اور کسی ایک حکمت عملی کی شکار اور اس کی مقید نہ ہوجائے۔
تیونس کے حالیہ انتخابات میں ایک دل چسپ اور قابلِ غور پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ ایک ایسی جماعت اریدھا یا پٹشن پارٹی، جو تیونس میں کوئی شہرت نہیں رکھتی تھی، جس کا بانی اور قائد ہاشمی حمدی لندن سے ایک سیٹلائٹ ٹی وی چلاتا ہے، اس جماعت کو بھی ۱۳ فی صد نشستیں صرف اس بنا پر مل گئیں کہ اُس نے اپنے علاقے کے مفلوک الحال عوام سے فوری طور پر معاشی آسانیاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ گویا انتخابی حکمت عملی کا درست ہونا، عوام الناس کے مسائل سے وابستہ ہونا اور مناسب اندازمیں رُوبہ عمل لانا بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور ایک غیرمعروف جماعت بھی صحیح حکمت عملی کی وجہ سے اچھی خاصی نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔
اس پس منظر میں تحریکِ اسلامی کے لیے آگے بڑھنے اور عوام الناس میں موجود تبدیلی کی خواہش کو اس کے منطقی نتائج تک پہنچانے کے امکانات بے حد روشن نظر آتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ایک سے زائد سیاسی حکمت عملی سوچ سمجھ کر وضع کی جائیں اور خود اپنے بازوئوں کو مضبوط کرکے اپنے وسائل اور انسانی قوت کا صحیح استعمال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے تبدیلیِ قیادت اور نظامِ اسلامی کا قیام کوئی مشکل کام نہیں۔
اس عمل میں جو بات کلیدی حیثیت رکھتی ہے وہ اس بات کا اعادہ ہے کہ ہمارا مقصد کیا صرف سیاسی قوت کا حصول ہے یا تبدیلیِ قیادت، نظامِ ظلم، نظامِ تفریق اور بدعنوانی کی جگہ نظامِ حق، نظامِ عدل اور قانون کی بالادستی ہے۔ اگر ہمارا نقطۂ آغاز دین حق اور نظامِ عدل کا قیام ہے تو پھر ہمیں اپنی نظریاتی اساس کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا ہوگا۔ تربیت ِ کردار اور ان صفات کے پیدا کرنے پر خصوصی توجہ کرنی ہوگی، جو تبدیلیِ قیادت کے لیے شرط کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمیں طویل المیعاد اور قریب المیعاد اہداف میں فرق کرتے ہوئے اسی مناسبت سے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
قرآن کریم نے تبدیلیِ قیادت کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی مثال کو بار بار ہمارے سامنے رکھا ہے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قرآن کریم ہمیں یہی بات سمجھاتا ہے کہ آپؐ نے اپنے دادا حضرت ابراہیم ؑ کے اسوہ، دعوت اور دین کو اختیار فرمایا اور تبدیلیِ قیادت کے ذریعے کفروظلم کے نظام کو ختم کرکے عدل و حق پر مبنی اسلامی ریاست قائم فرمائی۔
حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت کے حوالے سے قرآن کریم کا فرمان ہے: ’’اب کون ہے جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے نفرت کرے۔ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کرلیا ہو، اس کے سوا کون یہ حرکت کرسکتا ہے۔ ابراہیم ؑتو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چُن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا۔ اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اُس سے کہا: ’مسلم ہوجا‘ تو اس نے فوراً کہا: ’مَیں مالکِ کائنات کا مسلم ہوگیا‘۔ اس طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب ؑاپنی اولاد کو کرگیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا‘‘۔ پھر کیا تم اُس وقت موجود تھے جب یعقوب ؑ اس دنیا سے رخصت ہورہا تھا۔ اس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ ان سب نے جواب دیا: ہم اس ایک الٰہ کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں: ابراہیم ؑ،اسماعیل ؑاور اسحاقؑ نے الٰہ مانا، ہم اس کے مسلم ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۳۰-۱۳۳)
اوّلاً: دین اصلاً اسلام ہی ہے جس کی تعلیم حضرت ابراہیم ؑ اور ان سے قبل حضرت نوحؑ نے دی (الصفات ۳۷:۸۳) اور جسے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اصل حالت میں ہمارے سامنے عملاً نافذ کرکے دکھا دیا، اس لیے دنیا کے تمام نظام وہ اشتراکی ہوں یا سرمایہ دارانہ، وہ جاگیردارانہ حیلے اور ظلم ہوں یا ساہوکارانہ دھوکے، ان سب کی جگہ اسلام کا نفاذ ہی انبیاے کرام ؑکی دعوت کا پہلا اور بنیادی نکتہ تھا اور یہی تحریکِ اسلامی کی دعوت ہے۔
اسلام کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ مفاد پرست معیشت، قوت واقتدار کی ہوس والی سیاست، اور برادری اور ذات پات والی معاشرت ان سب کی جگہ اللہ کی بندگی والی سیاست، حلال پر مبنی معیشت اور حقوق و فرائض اور عفو ودرگزر اور محبت پر مبنی معاشرت کا قیام تحریکِ اسلامی کا مقصد ہے۔ یہی دعوتِ ابراہیمی ؑہے۔ یہی اسوئہ محمدیؐ ہے۔
دوسری قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور بعدکے انبیاؑ کی طرح تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن اور ہرمتفق پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دین کو مضبوطی سے پکڑ لے۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس طرح کرے کہ مرتے وقت اولاد بھی اسلام پر عامل رہنے اور جھوٹے خدائوں کو اختیار نہ کرنے کی شہادت دے سکے گی۔ یہ جھوٹے خدا قومیت، لسانیت، برادری، ذاتی مفاد اور غیراللہ سے اُمیدیں باندھنا، اور وقتی طور پر اُبھر آنے والی بیرونی قوتوں کو اپنا سہارا ماننا ہے۔ اہلِ ایمان کا واحد سہارا اگر کوئی ہے تووہ صرف اللہ وحدہٗ لاشریک، مالک الملک ہے اور وہی اپنے بندوں کی مدد کرسکتا ہے۔
تیسری بات ہمارے سمجھنے کی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکے اسوے میں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور تسلیم و رضا کی ایسی مثال ہے جو قیامت تک کے لیے ایک نمونہ اور آیت بنا دی گئی ہے، یعنی ذبحِ عظیم، اس پر غور کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہم نے نہ صرف عیدقربان کے موقع پر بلکہ ہر امتحان کے موقع پر اپنی کن محبتوں کو اللہ کے لیے قربان کیا ہے اور کن محبتوں کو اللہ کے لیے قربان کرنے پر آج آمادہ ہیں۔ یہ محبتیں اولاد کی ہوں، اہلِ خانہ کی ہوں، مال کی ہوں، صاحب ِ اختیار افراد سے قربت کی ہوں، ذاتی مفاد کی ہوں یا خودساختہ احتراموں کی ہوں، ان سب محبتوں کو صرف اور صرف اللہ کی بندگی کے عوض قربان کرنا ہوگا۔ جب تک ان پرتیز چھری نہ پھیری جائے، جانور کی قربانی محض خون کا بہانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو نہ خون پہنچتا ہے نہ گوشت۔ اسے تو صرف وہ بندگی، وہ اطاعت، وہ سپردگی، وہ ادا پہنچتی ہے جس میں ہرعمل کا مقصد صرف اس کی خوشی ہو۔
ابوالانبیا ؑ کے اسوے میں ہمارے لیے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس سچے، مستقیم بندے کو جو مقامِ امامت دیا اور اس نیک بندے کے ذریعے جو تبدیلیِ قیادت عمل میں آئی اس کے لیے اسے بھی آزمایش سے گزرنا پڑا۔ ’’یاد کرو جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اُتر گیا تواس نے کہا: میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ابراہیم ؑ نے عرض کیا: اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۲۴)
کیا تحریکِ اسلامی اور اس کے کارکن واقعی ایسی آزمایشوں سے گزرچکے ہیں کہ تبدیلیِ قیادت کا وعدہ پورا کر دیا جائے اور اقتدار کا انعام، زمین پر خلافت کی صورت میں عطا کردیا جائے، یا ابھی آزمایش سے مزید گزرنا ہوگا کہ وہ منزل جس کا وعدہ ہے، آنکھوں کے سامنے آجائے؟
آج ہم جن حالات سے گزررہے ہیں اگر ان کا تنقیدی تجزیہ کیا جائے تو وہ اس یقین میں اضافہ کرتے ہیں کہ عالمی طور پر لادینی قوتوں کا دور ختم ہورہا ہے اور ان معاشروں میں بھی جہاں بظاہر فواحش کا دور دورہ تھا، وہ خاموش اکثریت جو کل تک بے اثر تھی، ایک فیصلہ کن قوت میں تبدیل ہوگئی ہے اور استحصالی نظام کی جگہ اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام میں مصروفِ عمل ہے۔ وہ صبحِ نو جس کے انتظار کی طوالت نے اُمت ِمسلمہ میں عارضی مایوسی پیدا کر دی تھی، نگاہوں کے سامنے ہے۔ قومیت و عصبیت کے جھوٹے خدائوں کی جگہ مالکِ حقیقی کا حکم اس کی زمین پر نافذ ہونے کا وقت آگیا ہے۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنان، رب کریم کے ان بندوں کے لیے جنھیں سورئہ عنکبوت میں ’محسنین‘ کہا گیا ہے، یعنی وہ جو اپنے رب کی اطاعت میں احسان، حُسن و اتقان اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے یہ یاد دہانی موجود ہے کہ وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے تبدیلیِ نظام، تبدیلیِ قیادت اور نفاذِ شریعت کے لیے مسلسل جہاد کو اپنا شعار بنانے کے ساتھ زمینی حقائق کے پیشِ نظر، وسیع تر تحریکی اور دینی مصالح کو سامنے رکھتے ہوئے کھلے ذہن کے ساتھ ایک سے زائد حکمت عملی پر غور کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ وسیع تر تحریکی مصالح کے پیشِ نظر طویل المیعاد اور قریب المیعاد منصوبہ بندی وضع کرنے کے لیے اجتہادی طریقہ اختیار کریں۔ تحریکاتِ اسلامی دراصل اجتہادی تحریکات ہیں، جو دین کے بنیادی مقاصد اور اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہر دور میں نئے راستے تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کا مسلسل جہاد انھیں اُس قوتِ ایمانی سے نوازتا ہے جو مشکلات کے پہاڑوں سے نہ گھبراتی ہے، نہ مایوس ہوتی ہے اور نہ اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوڑتی ہے۔ اس کے کارکنوں کا اعتصام باللہ انھیں اپنے رب کے قریب ہونے کا مسلسل احساس دلاتا ہے اور آخرکار ان کی جدوجہد کا انجام کلمۃ اللہ کے سب سے زیادہ بلند ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
مصر میں انتخابات کے پہلے دور کے نتائج نے مغربی سیاسی تجزیہ نگاروں، مسلم دنیا کے لادین عناصر، اسرائیل اور اُس کے پشت پناہ ممالک کو ان زمینی حقائق سے روشناس کردیا ہے جن کو دیکھنے اور ان کا اعتراف کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ تقریباً ۶۰برس سے مصر پر مسلط لادین عناصر اپنی تمام تر سیاسی حکمت ِعملی، عارضی فوجی کونسل کی حمایت اور مغربی ممالک کی ’نیک خواہشات‘ کے باوجود ہرمحاذ پر ناکام رہے۔ اس کے مقابلے میں ۶۰برس سے جبروتشدد اور ظلم واستحصال کا نشانہ بننے والی تحریکِ اسلامی کے سیاسی محاذ کو عوام الناس کی بھاری اکثریت نے، ان مقامات پر بھی جو قدرے اباحیت پسند شمار کیے جاتے ہیں اور جہاں پر شہری آبادیاں بظاہر دینی معاملات میں کچھ زیادہ روشن خیال شمار کی جاتی ہیں، کامیابی سے ہم کنار کیا۔ نہ صرف تحریکِ اسلامی کو بلکہ غلو کی طرف مائل سلفی اُمیدواروں کو بھی قابلِ ذکر نمایندگی حاصل ہوئی۔
انتخاب کے تینوں مراحل کے نتائج اب آگئے ہیں۔ سرکاری اعلان کے مطابق حزب الحریہ والعدالہ (Freedom & Justice Party) کو جو اخوان المسلمون کا سیاسی محاذ ہے، کُل ووٹوں کا ۴۶ فی صد حاصل ہوا ہے، اور اس طرح ۴۹۸ کے ایوان میں ان کو الحمدللہ ۲۳۰ نشستیں حاصل ہوچکی ہیں اور ۹ کی مزید توقع ہے (یہ ان ۱۸ نشستوں کے سلسلے میں ہیں جن کا انتخاب دوبارہ ہو رہا ہے)۔ سلفی تحریک کے سیاسی محاذ حزب اللہ کو ۲۳ فی صد ووٹ اور ۱۱۳ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام پسند قوتوں کو دو تہائی ووٹ (۶۹ فی صد) کی تائید حاصل ہے۔
یہ تناسب نہ صرف مصر کے لادین عناصر بلکہ خود یورپ اور امریکا کے دانش وروں کے لیے ناقابلِ یقین تصور کیا جارہا تھا۔ اسرائیل جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے مصر کو عملاً اپنا حلیف سمجھتا رہا ہے، اسلامی عناصر کے اُوپر آنے سے سخت مضطرب ہے کیونکہ تحریکِ اسلامی کا فلسطین کی آزادی پر موقف ۱۹۴۸ء سے آج تک اسرائیل کی آنکھ کا سب سے بڑا کانٹا رہا ہے۔ مصر میں تحریکِ اسلامی کے سیاسی محاذ کا وجود میں آنا اور ایک مناسب سیاسی حکمت ِعملی کا وضع کیا جانا دیگر تحریکاتِ اسلامی کے لیے ایک لمحۂ فکریہ فراہم کر رہا ہے۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کا اصل مشن اور مقصد حاکمیت ِالٰہی کے قیام کے ذریعے تمام انسانوں کے لیے ایک ہمہ جہتی نظامِ عدل کا قیام ہے۔ یہ نظام دلوں کی تائید اور انفرادی، خاندانی اور اجتماعی زندگی کے تمام اداروں کی کارکردگی کے ساتھ خود سیاسی قوت کے تعمیری استعمال سے وجود میں آتا ہے۔ دعوت و اصلاح کا عمل جہاں فرد اور ْخاندان کی اصلاح کرتا ہے وہیں معاشی، معاشرتی، قانونی اور سیاسی محاذ پر بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عملی طور پر شریعت کے کُلی نظام کے نفاذ کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ سیاسی حکمت ِعملی اس کُلی عمل کا ایک لازمی عنصر ہے۔
۸۳برس تک مسلسل جدوجہد کرنے، سخت آزمایشوں اور ابتلا سے گزرنے اور تقریباً ۵۸برس تک جابرانہ حکومتوں کے کالے قانون کے زیراثر غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود مصر میں تحریکِ اسلامی کا اُبھرنا، جہاں دعوت کی صداقت کی دلیل ہے وہاں قرآن کریم کی اُس پیش گوئی کی عملی تعبیر بھی ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم انھیں اعلیٰ انعامات سے نوازیں گے۔ یہ جہاد فکری، اخلاقی، معاشرتی ، سیاسی بھی اور ضرورت پڑنے پر عسکری بھی۔ البتہ تحریکاتِ اسلامی کو سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کسی مرحلے میں جہاد کے کس پہلو پر زیادہ توجہ دی جائے۔
بالکل اسی طرح اخوان کی تصویر (image) کو مشرق و مغرب میں عسکریت پسند، تشددپسند ، انتہا پسند مشہور کر کے مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اخوان المسلمون کے سوچنے سمجھنے والے افراد نے اس تاثر کی اصلاح کے لیے نہ تو مداہنت اختیار کی،نہ جہاد پر کسی معذرت کا اظہار کیا اور نہ اپنی سرگرمیوں کو صرف عقائد و عبادات تک محدود کرنے پر غور کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے عصرِحاضر کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اصل مشن ’’اللہ ہماری غایت ہے، رسولؐ ہمارے قائد و رہنما ہیں، اور جہاد ہمارا راستہ ہے‘‘ سے انحراف کیے بغیر اپنی تربیتی اور تنظیمی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک آزاد سیاسی محاذ کو قائم کیا، جو مقامی اور ملکی مسائل پر عوام کے تعاون سے حل کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ اس حکمت ِعملی سے ایک جانب اخوان کے حلقۂ اثر میں وسعت پیدا ہوئی، تو دوسری جانب نیا خون اور نئے چہرے ملک میں اصلاح کے عمل کی خواہش کے ساتھ سامنے آئے، اور نوجوان آبادی کو خصوصاً اپنے آپ کو منظم کر کے قیادت کا فرض ادا کرنے کی تربیت ملی۔
ملکی مسائل میں غربت کا خاتمہ، معاشی اور سماجی ترقی کا حصول، دولت کی منصفانہ تقسیم، روزگار، صاف پانی کی فراہمی، زمینوں کی عادلانہ تقسیم، خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد وہ مسائل تھے جن پر زیادہ توجہ دی گئی۔ اس کے مقابلے میں وہ مسائل جو کہ بنیادی ہیں لیکن جن سے عوام کی سوچ پر زیادہ اثر نہیں پڑتا، مرکزِ توجہ نہیں بنائے گئے۔ اخوان کے حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ امریکااور اسرائیل کو شدت سے ناپسند کرتے ہیں لیکن سیاسی حکمت ِعملی میں ان کا زیادہ زور جمہوری روایت کا احیا، خواتین کے حقوق کی فراہمی اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر رہا۔
حصولِ مقصد کے لیے حکمتِ عملی بنانے کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ جو ترجیحات ۵۰،۶۰برس پہلے طے کی گئی تھیں، ان سے سرموانحراف نہ کیا جائے، بلکہ وقت اور ضرورت کے لحاظ سے حکمت ِعملی وضع کرنا خود شریعت کا مطالبہ ہے۔ بلاشبہہ مقاصد اور اخلاقی اور روحانی اقدار کے فریم ورک میں نئے حالات کی روشنی میں مسائل کے نئے حل کی تلاش شریعت کا ایک مسلّمہ اصول ہے اور اس کے نتیجے میں تبدیلیِ حالت کی بنا پر حکم میں تبدیلی شرعی اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے۔ اس لیے اخوان المسلمون کا اپنے دعوتی اور تربیتی نظام کے ساتھ بطور تحریک اسلامی قائم رہنا اور ایک سیاسی محاذ کا بنانا شریعت کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔
ترکی میں بھی تحریکِ اسلامی نے اپنا تاثر ایک معاشی اصلاح، اور یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش مند رفاہِ عامہ کے کاموں کو اہمیت دینے والی جماعت کے طور پر پیش کیا جس کے نتیجے میں بہت سے ذہنوں سے وہ خدشات جو مغرب کے منفی پروپیگنڈے سے پیدا کیے گئے تھے، آہستہ آہستہ دُور ہوئے۔ ترکی پر اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر صرف اس جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ بعض اوقات تحریکاتِ اسلامی کو اپنے مقصد، منزل، طریق کار پر پورے اعتماد کے ساتھ ایسی حکمت ِعملی اختیار کرنی پڑتی ہے جو حصولِ مقصد کے لیے مباح اور ترجیحات میں تبدیلی کی متقاضی ہو۔
مصر میں تحریکِ اسلامی نے اپنے نظم اور نظامِ تربیت کو برقرار رکھتے ہوئے جو حکمت ِعملی اختیار کی ہے وہ دیگر تحریکات کے لیے غوروفکر کا ایک اہم پہلو نمایاں کرتی ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ جو حکمت ِعملی کسی ایک مقام پر کامیاب ہو، بعینہٖ وہی حکمت ِعملی کہیں اور بھی اختیار کی جائے۔ ہاں، اگر زمینی حقائق کا تجزیہ یہ بتائے کہ اس حکمت ِعملی سے حصولِ مقصد میں آسانی ہوگی تو محض اس بنا پر کہ چونکہ وہ حکمت ِعملی کسی اور مقام پر کارگررہی،لہٰذا اس کے اختیار کرنے سے احتراز کیا جائے، مناسب نہیں۔نیز ضروری نہیں کہ ایک مقام کے تجربات کو من و عن دوسری جگہوں پر اختیار کیا جائے۔ مختلف اجزا اور پہلوئوں میں انتخاب اور ترمیم و تصحیح (modification) کا عمل بھی جذب و انجذاب کے اس وسیع ترعمل کا حصہ ہے۔
مصر کی تحریک اسلامی کے سربراہوں سے جب یہ کہا گیا کہ وہ مصر میں ترکی ماڈل کیوں نہ اختیار کریں، تو ان کا جواب یہی تھا کہ ہم اپنا ماڈل خود تعمیر کرنا پسند کریں گے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک تحریکی ضرورت ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کی قیادت ایسے معاملات میں کھلے ذہن کے ساتھ غوروفکر کرے اور ایک دوسرے کے تجربات و مسائل سے آگاہی اور استفادہ کرے۔
اوّلاً، گذشتہ ۸۳برس کے عرصے میں اقامت ِدین کی جدوجہد میں نظامِ تربیت کے ذریعے ایسے افراد کی تیاری جو اپنے مقصدحیات کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہوں اور جن کا تعلق زندگی کے ہرشعبے سے ہو۔ چنانچہ ڈاکٹر، انجینیر، اساتذہ، تاجر، قانونی ماہرین اور کسان، ہرہرطبقے میں دعوت کے نفوذ کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے کے لیے متبادل قیادت اور ایک ایسی افرادی قوت کی تیاری جو تبدیلی کی صلاحیت رکھتی ہو،اخوان کی حکمت ِعملی کا حصہ رہی۔
ثانیاً، نوجوان نسل میں اسلامی فکر کا احیا اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کی حکمت ِعملی۔ اس غرض کے لیے دعوت کے دائرۂ اثر کو وسیع کرنے کے ساتھ عوام تک یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اس جماعت کے افراد ایمان داری، حق پرستی اور مستقل مزاجی اور اعتماد کے ساتھ بغیر کسی ذاتی مفاد کے ملک میں امن، عدل، تعلیم اور معاشی خوش حالی چاہتے ہیں۔ اخوان کے دفاعی اور تعلیمی ادارے اور اجتماعی زندگی میں، syndicates میں ان کی مؤثر کارکردگی نے قوم میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ ان کے ذریعے دیانت دار اور اہلیت کی حامل قیادت برسرکار آسکتی ہے۔یہی وہ عنصر ہے جو اخوان کے سیاسی محاذ کے طور پر حالیہ واقعات میں اُبھر کر سامنے آیا اور جس پر مصری عوام نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
ثالثاً، تحریک اور اس کے سیاسی محاذ میں قریبی ربط کے باوجود ایک فاصلہ رکھنا تاکہ عملی معاملات میں اصولوں سے انحراف نہ ہو، اور سیاسی مہم میں پیش آنے والے بعض معاملات میں سیاسی محاذ کو رکاوٹ بھی پیش نہ آئے۔ یہ احتیاط اور توازن غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر تحریک کے مرکز قوت پر اس کے دیگر اعضا میں عدم تعاون کی شکل پیدا ہوجاتی ہے۔
اس پورے عرصے میں اخوان المسلمون نے اپنی امریکا مخالف پالیسی میں کوئی نرمی اختیار نہیں کی، لیکن اپنے دروازے امریکا کے اہلِ فکر کے لیے بند بھی نہیں کیے۔ یہ کرنا اس لیے ضروری تھا کہ عالمی سطح پر اخوان کے بارے میں جو تاثر پہلے ہی سے قائم کرلیا گیا تھا، اس میں ان کا غیرجمہوری اور تشدد پسند ہونا مرکزی حیثیت رکھتا تھا، اور تحریک کے نئے تشخص میں یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی تھی کہ وہ جمہوری ذرائع سے اسلام کی عظمت چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں اخوان کی مذاکراتی (dialogue)پالیسی کو بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔
بظاہر تین مسائل غور طلب ہیں: کیا اپنے اصولی موقف کے ساتھ تحریکِ اسلامی نے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایسی حکمت ِعملی وضع کی جو عوام میں اُمید اور ان کے مسائل کے حل کے امکانات کو روشن کرسکے؟ امریکا کی مخالفت اور ملک کی سلامتی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ملک میں اس کے عمل دخل کو ختم کرنے کی جدوجہد، وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، لیکن ضروری ہے کہ ان اُمور کے ساتھ قوم کو پوری قوت سے ان اُمور پر مرکوز کیا جائے جن کا تعلق ایک عام آدمی کی زندگی سے ہے۔ ایک مزدور اور کسان اور تاجر جن مسائل کا سامنا روزانہ کرتا ہے، ان کا تعلق اس کی معاشی بدحالی، انرجی کی قلت، قیمتوں میں ہوش ربا اضافے، غربت، عدمِ مساوات، تعلیم اور صحت سے محرومی، بنیادی حقوق کی پامالی اور عدم تحفظ کے شدید احساس سے ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ سیاسی معاملات میں ابلاغِ عامہ کا مؤثر استعمال ہے۔ پاکستان ہویا کوئی اور ملک، آج سیاسی جنگ دراصل ابلاغی جنگ ہے۔ جب تک ایک سیاسی جماعت کو ابلاغِ عامہ میں مرکزی مقام حاصل نہ ہو، اپنی تمام تر تنظیمی، افرادی اور اخلاقی قوت کے باوجود وہ عوام کی نگاہ میں ایک سیاسی جماعت تو رہتی ہے لیکن جیتنے والی جماعت کی شکل اختیار نہیں کرپاتی۔ ابلاغی جہاد کو جب تک مرکزیت حاصل نہیں ہوگی علمی و فکری اور سیاسی و رفاہی کام کے اثرات معاشرے میں ظاہر نہیں ہوسکتے۔ نیز ابلاغ کے میدان میں جو انقلابی تبدیلیاں گذشتہ تین چار عشروں میں ہوئی ہیں اور جن میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا نے غیرمعمولی اہمیت حاصل کرلی ہے، ان سب کا مؤثر استعمال ہماری جدوجہد کی کامیابی کے لیے ازبس ضروری ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ عوامی سطح پر متعین طور پر ایسے مقامات کا انتخاب جہاں پر تحریک سے وابستہ افراد نے سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہو، اور ان مقامات سے ایسے بااثر افراد کا منتخب کرنا جن کی ساکھ ایک ایمان دار شخص کی ہو، اور لوگ ان پر اعتماد کرتے ہوں، کو سیاسی محاذ پر متعارف کرانا اور ان سے مسلسل رابطے کے ذریعے ان کی نظریاتی رہنمائی کرتے رہنا بھی ضروری ہے۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ راے عامہ کے آزادانہ جائزے ( polls) کے ذریعے عوامی رجحانات کا اندازہ کرنے کے بعد حکمت ِعملی وضع کی جائے۔ گو، تحریکی ذرائع سے ملنے والا فیڈبیک بھی اہمیت رکھتا ہے، لیکن آزاد ذرائع سے آنے والی معلومات بعض اوقات غیرمتوقع طور پر اہم اور فیصلہ کن ہوتی ہیں۔ سیاسی حکمت ِعملی اور اس کے نفاذ کے مدارج کو واضح اور متعین ہونا چاہیے تاکہ تمام عناصر یک جا ہوں اور متوقع اہداف کے حصول میں آسانی پیدا ہوسکے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اس کے راستے پر صرف اس کی رضا کے حصول کے لیے حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو وہ غیبی قوتوں کے ذریعے ان کی مدد کرے گا۔ بلاشبہہ اس کی نصرت کے بغیر کوئی حکمت ِعملی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنo (حم السجدہ ۴۱:۳۰-۳۱) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنّا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے‘‘۔
۸ کروڑ ۵۰ لاکھ کی آبادی پر مشتمل مصری عوام، فوجی آمرحسنی مبارک کے ۳۰سالہ جابرانہ دور کے عوامی قوت کے ذریعے خاتمے کے باوجود اپنے خوابوں کی تعبیر کے منتظر اور نام نہاد سپریم کونسل کی شاطرانہ چالوں کا ہدف ہیں۔ حسنی مبارک کی جانشینی ان فوجی سربراہوں نے اختیار کی جن کی اپنی سلامتی حسنی مبارک سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنے میںتھی، اور جو ہوا کے رُخ کو دیکھ کر یہ سمجھ چکے تھے کہ اب حسنی مبارک کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ چنانچہ وہ معصوم چہرے کے ساتھ عوامی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھے اور مصری انقلابی نوجوانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ چند ہفتوں میں اقتدار عوام کے حوالے کردیںگے۔ طاغوتی طاقتوں کا یہ حربہ نیا نہیں ہے۔ عموماً اسی عہد کے ساتھ پاکستان، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں بعض نام نہاد نجات دہندہ سامنے آئے ہیں اورپھر سالہا سال تک اقتدار سے چمٹے رہنے کے بعد بھی بخوشی کرسی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں۔
مصر کے تناظر میں جہاں فوج حسنی مبارک کے طویل آمرانہ دور میں معاشی اور سیاسی فوائد سے فیض یاب ہوتی رہی، وہیں فوج کی تربیت اور اس کی فکری رہنمائی امریکی حکومت کے ہاتھ میں رہی۔ اس بنا پر فوج کی اعلیٰ اور درمیانہ قیادت امریکا کی پروردہ ہونے کے سبب امریکا نواز تسلیم کی جاتی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ کے حالیہ بیان کو جس میں اس نے سپریم کونسل سے کہا ہے کہ وہ جلد اقتدار کی منتقلی کی کارروائی شروع کرے، اگر بغیر کسی پس منظر کے پڑھاجائے تو بہت جمہوریت پسندانہ نظر آتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصری عوام امریکا کے مصر میں عمل دخل کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ چونکہ فوج امریکی حکومت سے قریبی تعلق رکھتی ہے اس لیے امریکی وزیرخارجہ کے بیان کا اصل مقصد خود اپنی صفائی پیش کرناہے کہ امریکا فوجی کونسل کے مستقل طور پراقتدار پر قابض رہنے کی حمایت نہیں کرتا۔ گو حقیقتاً یہ امریکا ہی تھا جس نے ۳۰سال حسنی مبارک کی اندھادھند حمایت کی، اور جہاں کہیں بھی فوجی یا غیر فوجی آمر مسلم دنیا میں اقتدار پر قابض ہوئے امریکا نے ہمیشہ ان کی حمایت اور سرپرستی کا نیک فریضہ جمہوریت کے وظیفے کے ساتھ جاری رکھا ہے۔
جہاں تک عوام کے تاثرکا تعلق ہے وہ خود مغربی ذرائع کے مطابق واضح طور پر اسلامیان (Islamists) کے حق میں ہے۔ نیویارک ٹائمز کے تجزیہ نگار کے مطابق ۸۰ فی صد عوام اخوان المسلمون کو پسند کرتے ہیں اور اگر آج غیر جانب دار انتخابات کرائے جائیں تو وہ بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں کامیاب ہوں گے۔ مصری پارلیمنٹ کی ۴۹۸ نشستوں کے لیے تقریباً ۶ہزار اُمیدواروں کو میدان میں آنا ہے۔ ملک کی زرعی علاقوں اور دیہاتوں کی آبادی روایتی طور پر اسلام سے تعلق رکھتی ہے اور اگر اسے بغیر کسی دھاندلی اور دبائو کے ووٹ کا حق دیا جائے تو اسلامی جماعتوں خصوصاً اخوان المسلمون کو ووٹ دے گی۔ اخوان نے ۱۹۲۸ء سے عوامی سطح پر کام کیا ہے، عظیم قربانیاں دی ہیں اور ہر دور میں آمروں کے مظالم کا نشانہ بنے ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے عزم و استقامت کے ساتھ اپنی دعوت کو دیہاتوں اور شہروں میں ہرجگہ بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔
آج بھی اخوان کے رہنما عدل و حریت کا علَم لے کرمیدان میں آئے ہیں اور اپنے روایتی شعار کی جگہ نئی سیاسی زبان کا استعمال کرتے ہوئے عوام کے بنیادی مسائل روٹی، روزگار، پانی کی فراہمی، زمینوں کی عادلانہ تقسیم، خواتین کے حقوق کی بحالی جیسے اہم بنیادی مسائل کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنارہے ہیں۔ نتیجتاً مصر کی آبادی کا بڑا حصہ مصر میں اسلامی عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کی بحالی کے لیے اخوان کے موقف کی تائید کرر ہاہے۔ یہ امر امریکی حکومت کے لیے بہت اضطراب اور فکرمندی کا باعث ہے۔ گو وہ عرصے سے یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ غیرسرکاری طور پر اخوانی رہنمائوں سے رابطہ رکھے لیکن اس کی اپنی ترجیح فوجی یا نیم فوجی قیادت کے دوبار ہ آجانے میں ہوگی کیونکہ اس طرح وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے چند افراد سے معاملہ طے کرتا ہے، جب کہ عوامی نمایندوں کی حکومت کی شکل میں اس کے لیے اتنی تعداد میں افراد کا خریدنا اور انھیں امریکی مفاد کی حمایت پر قائم رکھنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود ظاہری طور پر امریکی حکومت عوامی خواہش کواچھی طرح جاننے کے باوجود کوشش کرے گی کہ اسلامی قوتوں کے درمیان آپس میں مقابلہ ہوکر ووٹ تقسیم ہوجائیں اور سیکولر اور سوشلسٹ ذہن کی جماعتوں کو کامیابی حاصل ہو اور اس طرح اسلامی قوتوں کو واضح اکثریت نہ مل سکے۔
تیونس میں بھی امریکی حکمت عملی یہی تھی لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے وہاں تحریک اسلامی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اس عشرے میں جو بظاہر تحریکاتِ اسلامی کا عشرہ نظرآرہا ہے، مصر میں حالات جس رُخ پر جارہے ہیں اس میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان شاء اللہ اخوان المسلمون مناسب اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ گو مصر کی قبطی عیسائی آبادی جو اندازاً ۱۰ فی صد بتائی جاتی ہے اسلامی تحریک کی کامیابی کی مخالفت کرے گی ۔ نہ صرف عیسائی بلکہ بعض آزاد خیال مسلمان بھی تحریکاتِ اسلامی کے بارے میں یہ غلط تصور رکھتے ہیں کہ یہ ’قدامت پرست‘، ’انتہاپسند‘ اور ماضی میں بسنے والی جماعتیں ہیں۔ حقیقت حال بہت مختلف ہے۔ اخوان المسلمون کی قیادت کی بڑی تعداد ان افراد پر مبنی ہے جو مغرب کی اعلیٰ درس گاہوں سے انجیینرنگ، میڈیکل سائنسز، عمرانی علوم اور دیگر شعبہ ہاے علم میں اعلیٰ سندات لے کر مصروفِ عمل ہیں۔ اخوان کے رہنما عصام العریان نے اپنے حالیہ بیان (۱۷نومبر ۲۰۱۱ء) میں واضح طور پر یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت جمہوریت اور جمہوری ذرائع پر یقین رکھتی ہے اور وہ انتخابی نتائج جو بھی ہوں انھیں تسلیم کریں گے۔ انھوں نے مزید یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت حقوقِ انسانی کی بحالی اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد میں یقین رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ اخوان کے زیراثر جو سیاسی جماعت میدان میں ہے اس کا ایک نائب صدر ایک عیسائی قبطی ہے۔
دوسری جانب مصر کی فوجی سپریم کونسل عوامی انقلاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود یہ چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ کے انتخابات تو ہو جائیں لیکن فوج کو فیصلہ کن مقام حاصل رہے۔ اس کے لیے اس کا اصرار ہے کہ اصل فیصلے فوج کی اعلیٰ قیادت کرے، چنانچہ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ۱۰۰ نمایندوں پر مبنی ایک کمیٹی بنے گی جو ملک کے نئے دستور کومرتب کرے گی جس میں دستوری طور پر سپریم کونسل کو حتمی فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا!
گویا اس جمہوری جدوجہد اور قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد بھی وہی ڈھاک کے تین پات! فرق صرف یہ ہے کہ حسنی مبارک کی جگہ فیلڈمارشل طنطاوی اور اس کا ٹولہ ملک پر قابض رہے اور پارلیمنٹ محض ایک غیرمؤثر عوامی نمایندوں کے ادارے کے طور پر کام کرتی رہے۔ اس بات کا اظہار مصر کے معروف اخبار الاھرام کے تجزیہ نگار عماد جاد نے بھی کیا ہے کہ مصر کے عوام کی ۵۰فی صد آبادی اس امر پر متفق ہے کہ مصری سپریم کونسل انقلاب کو ناکام بنانے اور اس کی روح کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس بنا پر انتخابات کا عمل شروع کرانے اور اقتدار منتقل کرنے میں شعوری طور پر تاخیر کی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ۲۰۱۳ء تک یہی کونسل حکمران رہے گی۔
نیوزویک کے تبصرہ نگار نے مصری عوام سے براہِ راست انٹرویو کرنے کے بعد جو راے قائم کی ہے وہ بھی ہمارے لیے غور کے زاویے فراہم کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کو بعض حلقے ’سلفی‘ کہہ کر ان کے بارے میں ذہنوں میں تحفظات پیدا کرنے میں مصروف ہیں لیکن اس کے اپنے تجربے کے مطابق جن کو سلفی کہا جا رہا ہے، یہ وہ حضرات ہیں جو نماز، روزے کی پابندی کے ساتھ عوامی فلاحی کاموں میں مصروفِ عمل ہیں۔ چنانچہ غریبوں کو طبی امداد کی فراہمی اور غریبوں کے علاج کے لیے خون کے عطیات جمع کرنے اور دیہی آبادی میں غریب اور ضرورت مند افراد کے لیے ضروری سہولتیں فراہم کرنے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔
ا س کا کہنا ہے کہ ملک کی ایک اقلیت ضرور یہ راے رکھتی ہے کہ حکومت میں اسلام کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے لیکن عوام الناس کی بھاری اکثریت جو کُل آبادی کا تقریباً ۸۰ فی صد ہے، قرآنی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ لوگ بدعنوانی، بے ایمانی، حکمرانوں کی نفسا نفسی اور اپنی ذات کے لیے ہرکام کرنے کی روش سے تنگ آچکی ہے۔ اب وہ عدل و انصاف چاہتے ہیں اور اس بنا پر اخوان المسلمون کا اپنی سیاسی جماعت کے لیے حریت اور عدل کا اختیار کرنا عوامی جذبات کی صحیح نمایندگی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں تحریکِ اسلامی کے لیے غور کرنے کے کئی زاویے سامنے آتے ہیں۔ انتخابی حکمت کے حوالے سے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کن مسائل کو مرکزی اہمیت دی جائے۔ اندرونی مسائل اور بیرونی مسائل میں ترجیحات کا تعین غیرمعمولی طور پر معروضیت اور خود احتسابی کا متقاضی ہے۔
پاکستان میں تحریکِ اسلامی نے امریکا کی دخل اندازی کی پالیسی کی ہرسطح پر مستقلاً مخالفت کی ہے اور عوامی سطح پر ’بھاگ امریکا بھاگ‘ کے نعرے کو عوامی مقبولیت کی حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس سلسلے میں دیکھاجائے تو جماعت کے اس طرزِعمل کا عکس تقریباً عالمی تحریکاتِ اسلامی کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ مصر ہو یا تیونس، تحریکاتِ اسلامی نے امریکی دخل اندازیوں پر مسلم مفاد کے خلاف بین الاقوامی پالیسی اختیار کرنے پر امریکا کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ لیکن کیا اسے الیکشن کا ایشو بنانا عوامی حمایت کے حصول میں مددگار ہوگا یا اس کے مقابلے میں ملک میں بجلی کا بحران، ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافے، بے روزگاری، ملکی اداروں کی تباہی، عدلیہ کے فیصلوں کو نظرانداز کرنا، اہم مناصب پر نااہل افراد کی تقرری، ملک میں لاقانونیت، بدامنی اور عدم تحفظ، فرقہ واریت کا برداشت کیا جانا اور ملک میں کرپشن کا طوفان وہ مسائل ہیں جن کا تعلق ایک عام شہری سے ہے، اور کسی بھی نمایندہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان بنیادی مسائل کے حل کے لیے اپنا مجوزہ حل پیش کرے۔
خارجہ پالیسی کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے حالات کو بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن مسئلہ focus کا ہے، یعنی وہ چیز جو عوام کو متحرک کرنے کا مؤثر ذریعہ بن سکے۔ اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریکِ اسلامی مصر نے سیاسی محاذ پر ایک نئے نام سے جدوجہد کا آغاز کر کے یہ مثال قائم کی ہے کہ تحریک بغیر کسی تضاد کا شکار ہوئے اپنے دستوری اہداف کے حصول کے لیے نیم خودمختار تنظیم یا ادارہ قائم کرسکتی ہے جس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ ایسے ادارے سے وابستہ افراد تحریک کی اخلاقی اور دستوری پابندیوں سے آزاد تصور کیے جائیں گے۔ اس کا مقصد صرف مخصوص سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہے جو تحریک کے سیاسی مقاصد کے حصول میں راے عامہ ہموار کرسکے۔ اس کا یہ مطلب لینا بھی درست نہ ہوگا کہ تحریک صرف تزکیۂ نفس اور تربیت اخلاق کے لیے ہے اور ذیلی سیاسی جماعت سیاسی ہنگامہ خیزی کے لیے۔ نہ اسے کوئی اصولی انحراف کہا جاسکتا ہے۔ تحریکات کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مباحات کے دائرے میں رہتے ہوئے اور حرام سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے کس طرح حصولِ مقصد کے لیے حکمت عملی میں وقت کے لحاظ سے تبدیلی پیدا کی جائے۔ اگر کسی ایسی حکمت عملی سے تحریک کی پہنچ زیادہ وسیع دائرے تک ہوسکتی ہے تو ایسا کرنا تحریکی مفاد اور دستور کی روح کے مطابق ہی سمجھا جائے گا۔
تحریکاتِ اسلامی کو عموماً دو محاذوں پر مخالفین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک شریعت کا نفاذ، دوسرا خواتین کی آزادی کا مسئلہ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اصولوں سے انحراف کیے بغیر واضح طور پر یہ بات سمجھائی جائے کہ شریعت کے نفاذ سے ہمار ی مراد کیا ہے۔ کیا اسلام کا نظامِ قانون صرف سزائوں پر مشتمل ہے یا اسلامی شریعت دراصل عدل و انصاف کے قیام کا نام ہے۔ اس عدل میں نہ صرف انفرادی طور پر عدل شامل ہے بلکہ ایک فرد کے اپنے نفس کے حقوق کا صحیح طور پر ادا کرنا، اہلِ خانہ کے حقوق کی ادایگی، اعزہ و اقربا اور دوستوں کے حقوق کی ادایگی بھی شامل ہے، اس کے ساتھ ہمسایوں اور خصوصاً اہلِ حاجت کے حقوق کی ادایگی معاشرے میں بھلائی کے قیام اور بُرائی کے مٹانے کی کوشش، معاشی استحصال کا خاتمہ اور معاشی عدل کا قیام بھی۔ اسی طرح معاشرتی معاملات میں خواتین کو جو حقوق اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیے، ان کا نفاذ، ان کی تعلیم، صحت، عزت و احترام، گھر اور معاشرے میں ان کا تحفظ۔ پھر ثقافتی میدان میں عدل کا قیام کہ جن اقدار پر ثقافت کی بنیاد ہے، ان کا فروغ اور جو صفات اسلام ناپسند کرتا ہے، ثقافت سے ان کا خاتمہ۔ غرض عدل و انصاف کا قیام بذاتِ خود ایک ایسا موضوع ہے جس پر اگر ایک عام شہری کو اس کی زبان میں اس کے معاشرے کی مثالوں کی مدد سے بات سمجھائی جائے تو وہ سب سے بڑا شریعت کا حامی بننا پسند کرے گا۔ اسی طرح خواتین کی آزادی کی حدود، اور ان معاملات میں ان کے حقوق کے لیے جنگ جنھیں ہمارے معاشرے میں برادری، قبیلے کی روایت اور ذات پات کی ناک کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ ان معاملات پر کھل کر موقف کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ تمام امور انتخابی منشورمیں وضاحت سے آنے چاہییں اور اس کے ساتھ چھوٹے بڑے اجتماعات، ٹی وی پر گفتگو، اخبارات میں بیانات، پمفلٹ اور کتابچوں کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال بھرپور طریقے سے کرنا ہوگا، کیونکہ آج کی اصل زبان سوشل میڈیا کی زبان ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، فیکس بُک وغیرہ کے ذریعے پیغامات اور دیگر ذرائع کا استعال ہی ان موضوعات پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرسکتا ہے۔
امریکا کی سامراجی پالیسیوں اور کارروائیوں کی بھرپور مخالفت کے ساتھ عالمی سطح پر مغربی ممالک کے ایسے معاملات میں تعاون کے امکانات کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جن میں مسلمانوں کا مفاد شامل ہو، یا جو آج کے عالم گیریت کے ماحول میں ہرملک کے لیے اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس لیے خود ان ممالک کے بارے میں سوچی سمجھی راے تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جہاں ایک طرف اُمت مسلمہ کے مفاد کے خلاف اقدام کا مقابلہ کیا جائے وہیں انسانیت کے مشترکہ مفاد اور باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے سب کے ساتھ معاملہ کیا جاسکے، اور عدل اور مشترکات کے حصول کے لیے ہر دروازہ کھلا رکھا جائے۔
مصر، تیونس، لیبیا، شام، یمن، کویت، بحرین، غرض مسلم ممالک میں حالیہ صورت حال پر باربار مختلف زاویوں سے غور کرنے اور اس تناظر میں تحریکِ اسلامی کی اپنی حکمت عملی پر تنقیدی نگاہ سے غور کرنا ہی تحریک کے آگے بڑھنے اور ایک صحیح فیصلے تک پہنچنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ حالات جس رُخ پر جارہے ہیں ان میں تحریکِ اسلامی کی کامیابی اور مقبولیت میں اضافے کے گہرے نقوشِ نظر آرہے ہیں۔عزم و استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ ان حالات کے جائزے کے ساتھ اپنی حکمت عملی میں نئی صبح کے انتظار کے ساتھ ہمیں اپنے وسائل کی تنظیمِ نو کرنی ہوگی۔
انسانیت پر اسلام کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ وہ مایوس، افسردہ، دل برداشتہ اور نااُمید انسان کے دل میں جو اپنی غلطیوں، سیاہ کاریوں اور گمراہیوں کے سبب ہمت ہار بیٹھا ہو اور مایوسی کے عالم میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کو ختم کرنے میں نجات سمجھنے لگا ہو، اُمید اور عفو و مغفرت کی شمع روشن کرتا ہے۔ یوں اس کا اعتماد بحال کرکے اسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصرت کے ذریعے کامیابی کی شاہراہ پر لاکھڑا کرتا ہے۔ یہ تباہی کے گڑھے تک پہنچی ہوئی انسانیت کو ترکِ دنیا، نفس کشی اور عزلت کی جگہ بلندی، کامیابی اور کارزارِ حیات میں اعلیٰ مقام تک پہنچنے کی تعلیم و ہدایت دیتا ہے۔ یہ ہدایت نظری نہیں بلکہ عملی طور پر اسے نااُمیدی کے اندھیروں سے نکال کر مستقبل کی تعمیر میں سرگرم کردیتی ہے۔ اسلام نام ہے: سلامتی کا، فلاح و سعادت کا، اور دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کا۔
اس کے علی الرغم انسان اپنی محدود نظر، متعین فکر اور محدود تجربے کی بنا پر پیش آنے والی مشکلات، مصائب اور وقتی آزمایشوں سے پریشان ہوکر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ جن مصائب کا شکار ہے، ان سے کوئی نجات نہیں ہوسکتی۔ خصوصاً جب کسی قوم یا ملک کو اس کے قیام ہی سے ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو جن میں صالح، پُراعتماد اور باصلاحیت قیادت کا فقدان ہو، اور سیاست کار ہوں یا دیگر کارندے، وہ مستقلاً ملک و قوم کے اثاثوں کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے وسائل کا ناجائز استعمال کرتے رہے ہوں، تو قوم کا سیاست دانوں اور حکمرانوں سے مایوس ہونا ایک قابلِ فہم عمل ہے۔ اگر غیر جانب دار طور پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد سے ایسے حالات سے گزرا ہے جس میں ہرمشکل کے موقع پر بعض حضرات نے یہ محسوس کیا کہ اس سے بڑی آزمایش اور کیا ہوگی؟ چنانچہ ۱۹۴۸ء میں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا اپنے خواب کو ناتمام چھوڑ کر رخصت ہو جانا اور ان کے جانشینوں کا جماعتی سیاست اور جوڑتوڑ میں اُلجھ جانا خود ایک ایسا سانحہ تھا جسے فالِ بد سمجھا گیا۔ بعد میں پیش آنے والی ہر آزمایش کے موقع پر بعض افراد یہی کہتے رہے کہ اب ملک کا سنبھلنا اور اصلاح کا ہونا بہت مشکل ہے۔ لیکن اگر تاریخ کے دوسرے رُخ کو دیکھا جائے تو پاکستانی اُمت مسلمہ نے ہر آزمایش اور امتحان کا مقابلہ عزم، ہمت اور جواں مردی سے کیا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ ہو یا کشمیر پر بھارت کا قبضہ اور بیرونی ممالک کا دبائو ہو، یا اندرونِ ملک پیدا ہونے والے خلفشار، پاکستانی قوم نے اپنے مالی وسائل کی کمی اور افرادی قوت کے محدود ہونے کے باوجود سیاسی اور معاشی دونوں میدانوں میں مشکلات کا سرتوڑ مقابلہ کیا۔ اس عرب دنیا کے مقابلے میں جس میں جو آمر مسلط ہوا وہ ۴۰، ۵۰ برس تک اقتدار پر قابض رہا، پاکستان میں کوئی آمر ۱۰برس سے زیادہ اپنے اقتدار کو باقی نہ رکھ سکا۔ مکمل معاشی بے سروسامانی میں اپنے سفر کا آغاز کرنے والی پاکستانی قوم نے اپنی آزادی کے ۱۰سال کے اندر معاشی ترقی کا ریکارڈ قائم کیا، اور جب بھارت کی معیشت سنبھلنے کی ہرکوشش کے باوجود مسلسل بحران کا شکار تھی اور اس کی عدم ترقی کے ریکارڈ کو ’ہندو ریٹ آف گروتھ‘ کا نام دیا جا رہا تھا، پاکستان کی معیشت سے اوسطاً ۵ سے ۶ فی صد سالانہ کا ریکارڈ قائم کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پوری دنیا کی مخالفت اور معاشی اور سیاسی پابندیوں کے گرداب میں گرفتار ہونے کے بعد اپنی ایٹمی صلاحیت کو اس انداز میں ترقی دی کہ دنیا ششدر رہ گئی، اور یورینیم کی افزودگی کا وہ عمل جس کے لیے امریکا نے ۱۰سال کا عرصہ لیا تھا اسے سات، آٹھ سال میں حاصل کرکے دنیا میں اپنے آپ کو ایٹمی طاقت کے طور پر منوا لیا۔
اگر صرف اس پہلو پر غور کیا جائے کہ یہ قوم اپنے سائنس دانوں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کے سبب عوام کی غربت اور تعلیم کی کمی کے باوجود ایک ایٹمی طاقت بن سکتی ہے، تو یہ اس کے باصلاحیت اور پُرعزم ہونے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
پھر ایسا کیوں ہوتا ہے، کیا وجہ ہے کہ آج ملکی صحافت ہو یا برقی میڈیا پر تجزیہ کار اور میزبان سب کی تان جس بات پر آکر ٹوٹتی ہے اس کا نام مایوسی، نااُمیدی اور کسی حل کا نظر نہ آنا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جو مایوسی اور نااُمیدی گذشتہ ۲۳برس سے مغربی میڈیا پاکستان کے بارے میں پھیلاتا رہا ہے کہ خاکم بدہن یہ ایک ناکام ریاست ہے اور اس کے خیالی نقشے بھی شائع کیے گئے۔ اس بیرونی فکر نے کس طرح خود ہمارے ملک کے صحافیوں اور برقی ذرائع ابلاغ کے ذہنوں کو اپنا ہم آہنگ بنالیا۔
بظاہر یہ معلوم ہوتاہے عالم گیریت کے زیرعنوان ابلاغِ عامہ کے ذریعے جس فکر کو مغربی حکمت ساز فروغ دینا چاہتے ہیں، وہ اس کے لیے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے خود ملک کے باشندوں کے اذہان کو متاثر کرتے ہیں، اور پھر ان کے ذریعے جس ملک میں انھیں عدم توازن پیدا کرنا ہو، مایوس کن اطلاعات اور تجزیوں کے ذریعے عوام الناس کو بھی اس نااُمیدی میں مبتلا کردیتے ہیں۔
قرآن کریم کا مطالعہ اس حوالے سے کیا جائے تو اقوامِ سابقہ میں بھی اس مرض کے سرایت کرجانے کے شواہد ملتے ہیں اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی ملتی ہے کہ اس مرض کا علاج کس طرح کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سچے انبیاے کرام علیہم السلام کو ہرمرحلے میں شدید آزمایش و ابتلا کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے پیروکار عموماً یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ، اللہ کی مدد کب آئے گی۔ ان دو قرآنی الفاظ کی تفصیل تلاش کی جائے تو یہ ایسے مواقع پر استعمال ہوئے جب دین حق پر عمل کرنے والوں کو طاغوت، کفر اور ظلم و استحصال کے نمایندوں نے قوت کے نشے میں کبھی زندہ دفن کیا، کبھی گڑھوں میں ڈال کر آگ میں جلا دیا اور کبھی ان کے جسموں کو آروں سے چیر کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
ان انفرادی اور اجتماعی آفات و آزمایشوں سے گزرتے ہوئے اہلِ ایمان یہ سوال کرتے ہیں کہ کب تک ظلم کو برداشت کیا جائے گا؟ کب تک اہلِ ایمان کا خون بہے گا؟ آخر وہ صبح کب طلوع ہوگی جو عدل وانصاف اور حق کے غلبے کا پیش خیمہ ہو؟ سورۂ بقرہ میں اس حوالے سے ہمارے لیے غوروفکر کے لیے ایک سرمایہ فراہم کردیا گیا ہے۔ فرمایا گیا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘، اُنھیں خوش خبری دے دو۔ اُن پر اُن کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوںگی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۵۳-۱۵۷)
بات کا آغاز اس ہدایت سے کیا گیاکہ اہلِ ایمان کے صرف دو سہارے ہیں: یعنی صبر اور نماز۔ صبر نہ تو لاچاری کا نام ہے، نہ مایوسی کا، نہ غم و اندوہ سے نڈھال ہونے کا، نہ اُمید کا دامن چھوڑ دینے کا، بلکہ استقامت، پامردی، اُمید، اعتماد و ایمان کے ساتھ رب کریم کی ہدایت پر جم جانے اور ایمان کی بقا کے لیے ہرشے کو بازی پر لگادینے کا نام ہے۔ صابرون اور مجاہدون کا استعمال قرآن کریم نے بطور مترادف کے کیا ہے، یعنی وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد جادۂ حق پر جم جائیں، استقامت اختیار کرلیں۔
اس استقامت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کفر، ظلم اور طاغوت اہلِ ایمان کو کمزور کرنے کے لیے اپنے تمام حربے استعمال کرے گا اور ابلیس، جو انسان کا ازلی دشمن ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی آزمایشوں کے صرف تاریک پہلو کو انھیں دکھانا چاہے گا اور اہلِ ایمان کو یہ سوچنے پر اُبھارے گا کہ آخر ہم مسلمان ہیں تو پھر خوف، خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں میں گھاٹے میں کیوں مبتلا کیا جا رہا ہے؟
ان آیات پر غور کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کے حالات کے پیش نظر اس وقت نازل ہورہی ہیں جب پاکستانی اُمت مسلمہ روزانہ یہ دیکھتی ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے پُرامن اور نہتے اہلِ پاکستان کے ان کے گھروں، ان کی جانوں، ان کے مالوں اور ان کی ہر چیز کو تباہ کیا جارہا ہے۔وہ روز یہ دیکھتی ہے کہ وہ روپیا جو کل تک قوی تھا اپنی قوت کھوچکا ہے اور آمدنیوں میں شدید کمی واقع ہوگئی ہے۔ وہ یہ دیکھتی ہے کہ ملک کے اندر جانوں کا تحفظ اور ملک سے باہر پاکستانیوں کی عزت و احترام، ہرہرمعاملے میں اس کی آزمایش ہورہی ہے۔
اس فکر کا جواب ہدایت ِ ربانی میں دے دیا گیا کہ وہ اہلِ ایمان جو صبر کرنے والے ہیں وہ مصیبت پڑنے پر اپنے آپ کو اپنے رب سے جوڑتے ہیں، اس کی طرف لپکتے ہیں، اس کا دامن تھامتے ہیں، اُس سے مدد طلب کرتے ہیں، اس کے سامنے سربسجود ہوکر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اور آیندہ ان کا اعادہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ اس کی رحمت طلب کرتے ہیں۔
اہلِ ایمان کے اس مبنی بر صبر رویے کا انجام بھی اللہ کی کتاب میں واضح کر دیا گیا:’’انھیں خوش خبری دے دو، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہوگی۔ اُس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے لوگ ہی راست رَو ہیں‘‘۔
آج پاکستان جس پُرآزمایش دور سے گزررہا ہے اس میں بار بار یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ قوم اپنے سیاسی رہنمائوں پر اعتماد نہیں کرتی۔ فوج جو ماضی میں ایک ممکنہ لیکن وقتی حل سمجھی جاتی تھی، وہ بھی فوجی حکمرانوں ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف کے اَدوار کے پیش نظر اپنا وقار کھو چکی ہے۔ دو نام نہاد ’بڑی پارٹیوں‘ کا معاملہ بھی قوم کی نگاہ میں بدتر اور کم بدتر برائی کا ہے۔ پھر اُمید کی کرن کہاں سے روشن ہوگی؟ یہ عجب انسانی نفسیات ہے کہ جب اسے کوئی صدمہ پیش آتا ہے، غم کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اس سے وقتی طور پر مغلوب ہوکر سمجھتا ہے کہ بس دنیا کا خاتمہ ہونے والا ہے اور ہر بات اپنی حد کو پہنچ چکی ہے۔ اب کوئی اصلاح نہیں ہوسکے گی!
وہ اپنے سامنے کے حقائق کو بھول جاتا ہے یا ابلیس اسے ان کی طرف سے غافل کردیتا ہے اور ان میں مایوسی کی فضا پیدا کردیتا ہے۔ لغوی طور پر ابلیس بروزن افعیل اِبلاسٌ سے مشتق ہے جس کے معنی سخت نااُمیدی کے باعث غمگین ہوکر ششدر و متحیر ہوجانے کے ہیں، جب کہ قرآن کریم انسان کو ہدایت کرتا ہے۔
(اے نبیؐ) کہہ دو، اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے ، وہ تو غفور و رحیم ہے۔ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جائو اُس کے قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمھیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی اختیار کرلو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی۔ قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ (الزمر ۳۹: ۵۳-۵۵)
ابلیس کا بہترین، اسمِ بامسمّٰی حربہ اہلِ ایمان کو مایوس کرنا ہے اور مایوسی کامیابی، فتح و کامرانی اور حصولِ مقصد کی دشمن ہے۔ قومیں جنگ اسلحے کی کمی یا زیادتی کی بنا پر نہ ہارتی ہیں نہ جیتتی ہیں بلکہ صرف اور صرف اُمید، اعتماد اور اللہ کی مدد پر یقین کے سہارے فتح مند ہوتی ہیں۔ قرآن اہلِ ایمان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف قدم بڑھائیں، اسی کی امداد اور سہارا انسان کو کامیابی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔
اسلام جس اُمید اور اعتماد کی تعلیم دیتا ہے اس کی عملی مثال اسوئہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتی ہے۔ جس وقت مکہ مکرمہ میں آپؐ اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور ہر جانب سے مخالفت، مزاحمت اور مصائب کا سامنا ہوتا ہے، حتیٰ کہ آپؐ کے عزیز چچا محبت بھرے انداز سے آپؐ کو سمجھانا چاہتے ہیں تو ایسے معاندانہ ماحول میں جب کہیں سے روشنی نظر نہ آرہی تھی، آپؐ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند لاکر رکھ دیں، تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آئوں گا۔ اللہ اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود ہی اس پر نثار ہوجائوں گا‘‘ (سیرت النبیؐ، شبلی نعمانی، ص ۲۲۱)۔ اللہ پر اعتماد، مایوسی کو قریب نہ آنے دینا، اللہ سے کامیابی کی مسلسل مدد طلب کرنا ہی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا شعار ہے۔
اسوئہ حسنہ پر غور کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ مشکل ترین مصائب و خطرات کا سامنا کرتے وقت جو کلمات دہن مبارکؐ سے نکلتے ہیں، وہ اُمت کے لیے قیامت تک مشعلِ راہ کا کام دیتے رہیں گے۔ آپؐ ہجرت فرماتے ہیں، راستے میں غار میں آپؐ اور حضرت ابوبکرصدیقؓ موجود ہیں۔ دشمن آپؐ کو تلاش کرتا ہوا عین غارکے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ ایسے موقعے پر اُمید، نصرتِ الٰہی اور ایمان کا اظہار جن الفاظ سے ہوتا ہے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کا کسی بھی مصیبت سے سامنا ہو، اسے کسی قیمت پر بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے: تم نے اگر نبیؐ کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں (حضور نبی کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ) غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ ۹:۴۰)’’غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے۔
پاکستان کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ بجلی کے مصنوعی بحران کے باوجود، اس ملک کے پاس ۲۰۰ سال کے لیے توانائی کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ ملک دنیا کا دودھ برآمد کرنے والا پانچواں اور پھل برآمد کرنے والا چوتھا ملک ہے۔ اس کی آبادی میں ۶۰ فی صد سے زیادہ ۳۰سال کی عمرکے نوجوان ہیں۔ اس ملک کے پاس ایٹمی قوت ہے۔ یہ سال کے چار موسموں والا ملک ہے۔ بے شک یہاں کے حکمران نااہل خائن اور بدعنوان ہیں اور حالات ایسے تھے کہ تبدیلی کا امکان نظر نہ آتا تھا، اور عام تاثر یہ تھا کہ فوج کی پشت پناہی رکھنے والے آمر (مشرف) کو کوئی نہیں ہلاسکتا، مگر ہم نے دیکھا کہ ۲۰۰۷ء میں وکلا کی عوامی تحریک کے ذریعے وہ حالات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں اعلیٰ عدالت تو بحال ہوئی مگر مغرور آمر کو ملک سے رخصت ہونا پڑا۔
اس قوم کے نوجوانوں میں اسلام سے جو محبت اور تعلق پایا جاتا ہے اس کا ایک اظہار ۱۵۔۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو لاہور کی جامعہ پنجاب میں منعقد ہونے والا اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا سالانہ اجتماع ہے جس میں ۵۰ہزار نوجوانوں نے پورے ملک سے ایسے حالات میں شرکت کی، جب لوگ لاہور سے دُور رہنے میں اپنی سلامتی سمجھتے تھے۔ یہ نوجوان اُس لاہور میں جمع ہوئے جہاں ہر فرد ڈینگی بخار کے خوف میں مبتلا تھا اور جہاں کسی لمحے بھی تخریبی کارروائی کا امکان ہوسکتا تھا لیکن ان تمام خدشات کے باوجود یہ صالح نوجوان جس عزم اور جس نعرے کے ساتھ جمع ہوئے وہ پوری قوم کے لیے پیغامِ اُمید ہے، یعنی ’’امید بنو، تعمیر کرو سب مل کر پاکستان کی‘‘۔
مشرق وسطیٰ میں واقع ہونے والی عرب بہار (Arab Spring) کی طرح یہ پاکستانی نوجوانوں کی بہار ایسے وقت آئی ہے جب ملک کا ہر باشندہ اشیاے فروخت کی مہنگائی، بجلی و توانائی اور گیس کی نایابی، ڈرون حملوں اور امریکا کی دھمکیوں کی بنا پر خود کو غیرمحفوظ تصور کرتا ہے۔ اس اجتماع نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ابھی اس قوم کا لہوگرم ہے، اس میں زندگی اور توانائی ہے، اسے اپنے مقصدِ وجود سے آگاہی ہے اور اس پر فخر کے ساتھ آگے بڑھنے، تعمیر وطن کرنے اور پاکستانی موسمِ بہار کی نوید بننے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اجتماع کے بعد ایک لاکھ نوجوانوں کا لاہور میں پُرامن مارچ قوم کے اعتماد کی بحالی اور خود طاری کردہ مایوسی سے نکالنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔
۲۰۱۰ء میں مسلم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو مختلف ممالک میں بڑی مضبوط آمریتیں قائم نظر آتی ہیں۔ تیونس ہو یا مصر، یمن ہو یا شام اور لیبیا، ملک میں کوئی فوجی آمر یا بادشاہ ۳۰،۴۰سال سے حقوقِ انسانی کی پامالی اور ظلم و استحصال اور جبرواستبداد کے بل بوتے پر قابض چلا آرہا تھا۔ ان کے عوام مہنگائی، عدم تحفظ کا شکار اور معاشرتی عدل سے محروم تھے۔ ان کا ایک بڑا طبقہ دو وقت کی روٹی اور روزمرہ ضروریات بھی بمشکل حاصل کرپا رہا تھا۔ ستم بالاے ستم کہ مصر جو قدرتی وسائل سے مالا مال تھا، اور اربوں ڈالر کی غیرملکی امداد وصول کررہا تھا، اس کے عوام ۴۰فی صد غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے، جب کہ حسنی مبارک کے ذاتی حساب میں ۴۰؍ارب ڈالر موجود تھے۔ ۸لاکھ کی آبادی والے ملک لیبیا کا فوجی آمر قذافی مغربی ممالک میں ۲۰۰؍ارب ڈالر اپنے اور اپنے خاندان کے حسابات میں رکھے ہوئے تھا جس پر اب مغربی اقوام کا قبضہ ہے، لیکن ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی غربت میں مبتلا تھا۔ یہ حکمران اس زعم میں مبتلا تھے کہ ان کے لیے کوئی یومِ حساب نہیں لیکن اللہ کا قانون کچھ اور ہی ہے۔ آج تاریخ ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ ان حالات میں، جب کہ پولیس، فوج، خفیہ ادارے، ہر شعبہ ان جابروں کا حامی تھا ان ممالک کے عوام نے اللہ کی مدد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کے لیے اُٹھ کر ان ظالم فرماں روائوں کو ان کے انجام تک پہنچانا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان تاریخ کے جس مقام پر کھڑا ہے، اس میں بھی الحمدللہ ایسی ہی بہار کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس ملک کے نوجوان اور عوام اب مزید ناانصافیوں اور بدعنوانیوں کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اب اس دستور کو بدلنا ہے۔ ایک نئی صبح طلوع ہونی ہے۔ ظلم کی بساط کو لپیٹنا ہے اور عدلِ اجتماعی کے اسلامی اصولوں پر مبنی نظام کو برپا ہونا ہے ؎
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے
تاریخِ عالم اس بات کی گواہ ہے کہ کل تک جن نظاموں کو بڑا مستحکم کہا جاتا تھا، آج لوگ ان پر فاتحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں۔ اشتراکیت کو جس طرح اپنی سب سے بڑی تجربہ گاہ میں شکست ہوئی اور سابقہ سوویت یونین شکست و ریخت کا نشانہ بنا، بالکل اسی طرح آج دنیا کے ۸۰ممالک کے ۹۷۰ شہروں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عوام الناس یک جہتی کے مظاہرے کررہے ہیں جن میں دانش ور اور نوجوان پیش پیش ہیں۔ سودی کاروبار اور سرمایہ دارانہ نظام کی اس ناکامی کا بنیادی سبب وہاں کے بنکار اور سیاست کاروں کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ امریکا اور یورپ کی حکومتیں قرضوں پر چلنے والی معیشت کو سہارا دینے کے لیے عوامی بنکوں سے لی ہوئی رقوم کو ڈوبتی معیشت کو وقتی طور پر بچانے کے لیے جو کچھ کررہے ہیں، وہاں کے عوام اس سے آگاہ ہیں اور اس استحصالی نظام کو مزید ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عظیم اسلامی مفکر سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۷۰سال قبل جو پیش گوئی کی تھی کہ: ’’ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد لندن اور پیرس کی یونی ورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا‘‘ (شہادت حق)___ آج وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔کل تک جو سرمایہ دارانہ نظام سوویت یونین کے انتشار کے بعد یہ کہہ رہا تھا کہ تاریخ نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور اب سرمایہ دارانہ نظام اور سیکولر جمہوریت فتح مندی کے ساتھ دنیا کا واحد نظام ہیں، وہی دانش ور آج امریکا اور یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کی تدفین کے منتظر ہیں۔
ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ یہ ایک اہم اور فطری سوال ہے۔ ہم اس حوالے سے صرف چند نکات پر اکتفا کریں گے:
پہلی بات جو شرطِ ایمان ہے یہ کہ پاکستان کی اُمت مسلمہ اپنے رب سے اپنا رشتہ تازہ اور مستحکم کرے۔ یہی وہ رشتہ ہے جو شاہراہ ترقی کی طرف لے جاتا ہے اور اس میں کمی لازمی طور پر عدم استحکام اور انتشار کی طرف لے جاتی ہے۔
دوسرا اہم پہلو اپنے آپ کو مایوسی سے نکالنا ہے۔ مایوسی اسلام کی نگاہ میں کفر ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں کو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھنے اور مدد طلب کرنے کا حکم دیتا ہے۔
تیسری چیز معاشرے کے صالح عناصر کو یک جا کرنا، انھیں منظم کرنا اور عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے ساتھ عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ اب مزید انتظار کا وقت نہیں۔ اب انھیں نکلنا ہوگا اور جس طرح وکلا کی پُرامن تحریک نے ایک فوجی آمر سے نجات دلائی، ایسے میں عوام کی پُرامن تحریک امریکا نواز فرماں روائوں سے نجات دلا کر صالح قیادت کو اُوپر لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
چوتھی قابلِ توجہ چیز ملک کی معاشی، معاشرتی، سیاسی ترقی کے لیے غوروفکر کے بعد ایک قلیل المیعاد اور ایک طویل المیعاد منصوبے کی تیاری ہے۔ اس کام میں عوام، دانش ور، طلبہ، وکلا، غرض ہر شعبے کے افراد کو اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کو اپنا رب ماننے کے بعد اس پر استقامت اختیار کرلیتے ہیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ غیبی قوتوں کے ذریعے ان کی امداد فرماتے ہیں۔ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں اس میں توبۃً نصوحاً کے ساتھ اس عزمِ نو کی ضرورت ہے کہ قوم اس ملک میں صحت مند تبدیلی لانے کے لیے ایسے افراد کو اپنا نمایندہ بنائے جو دین کی عظمت، ملکی مفاد اور ملک کے تحفظ کو بنیادی اہمیت دیتے ہوں۔ ایسے افراد کی کمی نہیں ہے لیکن انھیں اب نکلنا ہوگا اور قائداعظمؒ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہوگا کہ یہاں اسلام کے معاشرتی اور معاشی عدل کی بنیاد پر وہ جمہوری نظام قائم ہو جس میں قرآن و سنت کو فیصلہ کن مقام حاصل ہو۔
گذشتہ تین مہینوں (اگست، ستمبر، اکتوبر) میں ہمارے رفقا نے پورے ملک میں عالمی ترجمان القرآن بہت سے نئے ہاتھوں میں پہنچایا ہے۔ اس مہم میں جس نے جو کام کیا، اس کے لیے دوڑدھوپ کی، کچھ پیسے خرچ کیے، کسی سے بات کی، کسی کے لیے دعا کی، ہر کام کراماً کاتبین نے لکھا ہے اور یقینا اس کا اجر ملے گا۔ لیکن اس اجر کو بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ جن کو نمونہ پہنچایا گیا ان سے رابطہ کر کے باقاعدہ مطالعے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ جس گھر میں یہ رسالہ جائے گا اور چھوٹے بڑے اسے پڑھیں گے اوراس کی وجہ سے کوئی نیک کام کریں گے یا زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی تو صدقہ جاریہ کے طور پر اس کا اجر اس کام کو کرنے والوں کو ملتا رہے گا۔ اس لیے نمونہ پہنچادینے ہی کو مکمل کام نہ سمجھیے اور فقط اسی پر اکتفا نہ کیجیے۔
سہ ماہی مہم تو آپ کو متحرک کرنے کا اور اس طرف توجہ دلانے کا ایک بہانہ تھی۔ یہ رسالہ ایک پیغام کاعلَم بردار ہے۔ اس کا ایک مشن ہے، اس کا تاریخی کردار ہے جو یہ آج بھی ادا کررہاہے۔ جب بھی آپ اس رسالے کو پڑھیں، ضرور یہ سوچیں کہ جو اس سے محروم ہیں ان تک کس طرح پہنچائیں۔ رشتہ داروں میں، دوست احباب میں، طالب علموں میں، دفتر اور کاروبار کے ساتھیوں میں___ یہ سب آپ کے اس مشن کا ہدف ہونا چاہییں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سرگرم ہونے کا، اور بہت زیادہ اجر سمیٹنے کا جذبہ دے اور آسانیاں فراہم کرے، آمین۔ پروفیسر خورشیداحمد
مشرق و مغرب میں علومِ عمران کی بنیاد جن تصورات پر ہے، ان میں سے ایک کا تعلق اقلیت اور اکثریت کے باہمی تعلق، نفسیات، معاشی مضمرات اور سیاسی اور ثقافتی حکمت عملی سے ہے۔ ایسے خطوں میں جہاں مسلمان ایک بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ملک کی مجموعی آبادی میں کم تر تناسب رکھتے ہوں، عموماً غیر محسوس طور پر ایک اقلیتی نفسیات وجود میں آجاتی ہے، جس میں مدافعانہ اور معذرت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اکثریت سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اقلیت کے انسانی حقوق کے حصول کے لیے مدد و تعاون کریں۔ بعض اوقات اکثریت کے ساتھ سیاسی یا معاشی الحاق کر کے اپنے حقوق کے حصول کے لیے بھی جدوجہد کی جاتی ہے، چنانچہ ثقافتی تشخص ہو یا معاشی خودانحصاری یا معاشرتی تحفظات (مثلاً پرسنل لا وغیرہ)، ان سب کے حوالے سے اقلیت بمقابلہ اکثریت کا ماڈل انسانوں کے زاویۂ نگاہ اور تصورِ مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہرصدیقی برعظیم پاک و ہند کے علمی حلقوں میں ایک معروف شخصیت اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے حوالے سے ایک بلندپایہ استاد کا مقام رکھتے ہیں۔ دینی و تاریخی موضوعات پرآپ کی اعلیٰ تحقیقی تصانیف علمی حلقوں میں آپ کا سکّہ منوا چکی ہیں۔ زیرنظر کتاب: مکّی اسوہ نبویa، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، آپ کے آٹھ خطبات پر مشتمل ہے جن کے عنوانات یہ ہیں:
حرفِ آغاز میں مصنف نے ہم عصر اور دیگر علما و مؤرخین کے کام پر ایک مجموعی تبصرہ یہ کیا ہے: ’’ہمارے علما نے اسلام کو گذشتہ صدیوں میں ایک حاکم مذہب بنا کر پیش کیا۔ اس کی فقہ اسلام کے صرف نظامِ حاکمیت کو اُجاگر کرتی ہے۔ اس کی عام دینی تعلیمات کے بارے میں یہ تصور و عمل بنا کہ وہ حکمرانی کی فضا میں بارآور ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ریاست کا قیام اور اقتدار کا حصول ایک بنیادی عنصر بن گیا۔ اس حد تک تو بات ٹھیک تھی کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو غالبیت حاصل کرنے پر اُبھارتا ہے اور مغلوبیت و محکومیت کو مجبوری میں برداشت کرتا ہے، لیکن اسلام کی ہر آن و ہر حال میں غالبیت و حکمرانی کے تصور نے بڑی خرابی برپا کی۔ علما و فقہا اور اہلِ راے کے علاوہ یہ فکروتصور عوام الناس کے دلوں اور دماغوں میں اس طرح راسخ ہوگیا کہ حکمرانی مسلمانوں کی سائیکی بن کر رہ گئی۔ اتفاق سے تاریخی ارتقاء ات اور انقلابات نے بھی اسلام کو ایک حکمراں مذہب اور غالب نظامِ حیات بنا کر پیش کیا‘‘۔ (ص vii،viii)
مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: ’’تاہم اس دورِ ابتلا و آزمایش اور زمانۂ مغلوبیت و محکومیت میں علما و عوام دونوں کے ذہن سے حکمرانی کی خوبو نہیں گئی۔ علما، صاحبانِ فکرودانش اور اہلِ بینش و قلم ہونے کے باوجود اسلامی نظام کی حکمرانی کی تاریخ لکھتے رہے اور عوام، ان کے ایجاد کردہ نشے میں سرمستِ خوے سلطانی رہے۔ ان کی فکروعمل میں اسلام اور اسلامی ریاست کے شان دار ماضی کی حکمرانی کے کارنامے جلوہ آرائی کرتے رہے اور وہ اپنی تحریروں سے حکمرانی و سلطانی کے نغمے بکھیرتے رہے جن سے عوام الناس بھی حظ و نشاط حاصل کرتے اور حکمرانی کے جلوے دیکھتے رہے۔ دونوں میں سے کسی کو حقیقتِ حال کو سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
’’اس دورِ مغلوبیت میں اسلامی علوم و فنون کے ذخیرے میں برابر اضافے ہوتے رہے اور ان میں سے بہت سے عظیم الشان و بے مثال بھی ہیں۔ تفسیر و حدیث ہو یا فقہ و تفقہ، تاریخ و سیرت ہو یا کلام و فلسفہ یا دوسرے سماجی اور سائنسی علوم و فنون، سب مالا مال ہوئے لیکن ان سب کی بنیاد قدیم علوم و فنون کے اساطین پر استوار تھی۔ قرونِ حاکمیت میں جو نہج، بنیاد، طریقہ اور فکری و تحریری انداز استوار ہوگیا تھا، اسی پر بعد کی تمام کتابیں لکھی جاتی رہیں، حتیٰ کہ فقہ اور تاریخ میں بھی اسلامی ریاست کے اندازِ حکمرانی کی حاکمیت قائم رہی اور کسی کو بھی فقہِ اقلیت مرتب کرنے کی توفیق ہوئی اور نہ تاریخِ مغلوبیت رقم کرنے کی ہمت پڑی‘‘۔ (ص viii - ix)
اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: ’’یوں تو پوری سیرتِ طیبہ کا اصل تجزیہ و تحلیل باقی ہے اورمدتوں باقی رہے گا مگر مکّی دور کا تجزیہ تو انتہائی ناقص ہے۔ ہمارے بزرگ اہلِ قلم میں سے کسی نے یہ نہیں سوچاکہ اسلامی تاریخ اور نبوی سیرت کا ارتقا خالص دورِ محکومی میں ہوا تھا‘‘۔ (ص x)
مصنف کا یہ خیال ہے کہ: ’’اس حقیقت کا ادراک بھی ذرا کم کم ہے کہ مکّی دور اسلام کا دورِمغلوبیت تھا اور مسلمانوں کا زمانہ اقلیت۔ ان ابتدائی ۱۳ برسوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو احکام مکّی سورتوں میں دیے گئے، ان کا تجزیہ تو بالکل ہی نہیں کیا گیا اور جو کیا گیا وہ تجزیہ ہی نہیں۔ واقعاتِ تاریخ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کیسے مرتب کی؟ اس کا پتا بھی نہیں چلتا اور ان کے تجزیے کی روشنی میں اقلیت کی تاریخ، فلسفۂ تاریخ، طریقِ زندگی، منہجِ عمل اور اندازِ فکر مرتب کرنے کا ہوش بھی نہیں آیا۔ حالانکہ اس مکّی دورِ اقلیت میں اسلام کے ایک خاص انداز اور مسلمانِ عالم کی ایک حیثیت کے لیے کامل دستور موجود ہے‘‘۔ (ص x)
اس ضمن میں ہماری پہلی گزارش یہ ہے کہ مکّی دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ کا ایک زاویہ یہ ہوسکتا ہے کہ اسلامی تحریک کو ایک ’اقلیت‘ اور مشرکینِ مکّہ کو ایک اکثریت مان لیا جائے لیکن اس میں جو امر مانع نظر آتا ہے، وہ اسلام کا بنیادی مزاج ہے۔ کلمۃ اللہ کی پہچان اس کا عُلیہ، بلند اور بلند ترین ہونا ہے، اور تعداد میں کم ہونے کو ’محکومیت‘ قرار دینا مکّہ کی دعوتی تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کہا جاسکتا۔ اسلام یا اسلامی جماعت محکوم تو جب ہوتی جب مکّہ میں کوئی سیاسی، معاشرتی اور معاشی اقتدار ہوتا جس میں اقلیت کی تعداد کے تناسب سے کوئی نمایندگی کی جگہ ہوتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اقلیتی حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہے ہوتے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ حق کے پیروکار چاہے ۱۰۰ سے کم ہوں، ان سے ہزارہا افراد خائف و لرزاں ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس حوالے سے جو اصول سورئہ انفال میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ۲۰ صابرین ہوں تو ۲۰۰ مشرکین پر غالب آئیں گے۔ اس تناظر میں مکّہ میں مسلمان ’محکوم‘ کس زاویے سے بن سکتے ہیں۔ وہ تو قلتِ تعداد کے باوجود اہلِ مکّہ کے لیے ایک عظیم خطرہ تھے۔
دوسری گزارش یہ کہ مکّی دور کو محکومیت کی طرح ’مغلوبیت‘ کہنا بھی محلِ نظر ہے۔ ’مغلوبیت‘ اس ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کو کہا جاتا ہے جس میں بعض صلاحیتوں کے باوجود کوئی فرد یا قوم دوسری قوم، تہذیب یا ثقافت سے مرعوب ہوکر اس کے اطوار، طرزِفکر یا انداز کو اپنا لے اور اس کا اپنا تشخص دب جائے، جب کہ مکّی دور میں لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اظہار جمعیت ِ صحابہؓ کی ہر ہر ادا سے ہوتا ہے۔ توحید کا مطلب ہی یہ تھا کہ لا غالب الا ھوتو وہ ’مغلوب‘ کیسے ہوتے؟
’حرفِ آغاز‘ کے بعد آنے والے سات ابواب محترم پروفیسر صاحب کے تاریخی واقعات کو تحقیقی انداز میں پیش کرنے کی دلیل ہیں۔ مراجع و مصادر بھی اسی بات کی شہادت دیتے ہیں لیکن ان سات ابواب میں گو، انتہائی قیمتی مواد ہے لیکن مسلم اقلیتوں کے مسائل سے بجاے خود گہرا تعلق نظر نہیں آتا۔ اگرچہ جابجا اقلیت کی اصطلاح کا استعمال ہوا ہے، البتہ آخری باب پوری کتاب کا حامل کہا جاسکتا ہے۔ اس باب میں مسلم اقلیتوں کے حقیقی مسائل کے حوالے سے داعیانہ حکمت عملی کی روشنی میں جو تجاویز دی گئی ہیں، وہ قابلِ تعریف ہیں، تاہم بعض مفروضات سے شدید اختلاف کیا جاسکتا ہے، مثلاً: ’’سیرتِ نبویؐ میں مسلم اقلیتوں کے لیے اسوئہ نبوی موجود ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی تعلیمات و الٰہی ارشادات کے پس منظر میں ۱۳ برسوں تک مکّی مسلم اقلیت کی تعمیروارتقا کا ایک نقشہ تیار کیا۔ قریشِ مکّہ اور اکابر شہرِ الٰہی کی اشرافیہ کی روایاتِ حکمرانی اس مسلم اقلیت کا پیش منظر تھیں‘‘۔ (ص ۲۷۹)
آٹھویں باب کے افتتاحی مجلے کا بقیہ نصف میری ناقص راے میں نہ تاریخی طور پر اور نہ فکری طور پر ہی قابلِ قبول ہے۔ گویا کہا یہ جا رہا ہے کہ مکّی دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کے پس منظر میں جو منہج دعوت اختیار فرمایا، وہ مسلمانوں کو اقلیت مانتے ہوئے بنایا گیا اور مدینہ سے بالکل مختلف حکمت عملی اس غرض سے بنائی کہ اسلام جہاں کہیں بھی ایسی صورت حال میں ہو کہ غیرمسلموں کی اکثریت ہو تو مکّی دور کی ہرسنت کو مدنی دور کی ہر سنت پر فوقیت دی جائے۔ مزید یہ کہ کیا واقعی مکّی اسوہ کسی ’اقلیت زدہ مغلوب‘ ذہنیت کا پتا دیتا ہے؟ کیا مکّی دور سے ’تبرج جاہلیہ‘ کے ساتھ کوئی مفاہمت اختیار کی گئی یا اس کو کھلم کھلا چیلنج کیا گیا؟
ایسے ہی یہ کہنا کہ: ’’اسی نظامِ قدرت اور قانونِ فطرت کے مطابق یہ اصول و عمل طے پاگیا کہ مسلم اقوام ہمیشہ اقلیت سے آغاز کریں گی، قوانینِ الٰہی اور ارشاداتِ نبویؐ کے مطابق عمل کریں گی، تو رفتہ رفتہ اقلیت کے عنصری نشوونما کا قانون جاری ہوگا اور وہ ان کو مختلف مراحل ارتقا اور درجاتِ ترقی سے گزار کر اکثریت کی طرف لے جائے گا‘‘۔ (ص ۲۸۱) یہ ایک مفروضہ ہے جس کی کوئی دلیل اورثبوت فراہم نہیں کیاگیا۔
بہ ایں ہمہ یہ باب ہر داعی کے لیے غور کا مواد فراہم کرتاہے۔ گو ایک اقلیتی زاویے سے بات کی گئی ہے لیکن اکثر نکات میں عصرحاضر کے اقلیتی مسائل سے گہری واقفیت کا عکس پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اقلیتوں کے تعلیمی، ثقافتی، معاشی، ابلاغی مسائل پر پھر ہجرت کے حوالے سے مختلف احکامات وغیرہ سے4 عمدہ بحث ہے۔
اگر مصنف محترم اقلیت و اکثریت کی جگہ فرد اور جماعت اور مکّے میں مسلم اقلیت کی جگہ حزب اللہ اور اس کی مخالف کفر، طاغوت، مشرک اور ضلالت کی جماعت کے تناظر میں ان عملی مسائل کا جائزہ لیتے تو شاید مکّی دور کے ماڈل کی بہتر تشریح ہوسکتی تھی۔
اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے کتاب کی طباعت کا بہت اچھا اہتمام کیا ہے۔ یہ کتاب علمی کتب خانوں میں ایک قیمتی اضافہ ہوگی۔
(مکّی اسوہ نبویa، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی۔ ناشر:اسلامک ریسرچ اکیڈمی، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات: ۳۲۵۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔)
انسان کی تخلیق کے حوالے سے قرآن کریم میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ایک ایسی جامع اصطلاح بیان فرمائی ہے جو انسان کی پوری زندگی میں ہونے والے اعمال اور ان کے انجام کا احاطہ کرلیتی ہے۔فرمایا گیا: یاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ o الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَ o فِیْٓ اَیِّ صُورَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ o (الانفطار ۸۲:۶-۸) ’’اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے اس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ میں جہاںانسان کو یاد دہانی کی جارہی ہے کہ وہ اپنی اصل کو نہ بھولے ، وہاں اسے اللہ تعالیٰ کے اس احسان سے بھی آگاہ کیا جارہا ہے کہ خالق کائنات جو عادل ہے، وہ نہ کسی پر زیادتی کرتا ہے اور نہ کسی معاملے میں بے جا گرفت کرتا ہے۔ انسان کو بناتے وقت نہ صرف ہرلحاظ سے بہترین شکل میں پیدا کیا، بلکہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نوک پلک کا خیال رکھتے ہوئے اسے انتہائی متناسب بنایا، جیساکہ سورۃ التین میں کہا گیا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (التین ۹۵:۴) ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔
جس طرح ایک مصور تصویرکشی سے قبل اپنے ذہن میں ایک نقشہ بناتا ہے اور یہ بھی طے کرتا ہے کہ اس کی تخلیق کا استعمال کیا ہوگا، اسی طرح خالق کائنات نے انسان کو بہترین ساخت اور توازن کے ساتھ پیدا کرنے سے قبل ہی یہ بات فرشتوں کو سمجھا دی تھی کہ اس کا مقصد اور کردار کیا ہوگا، اسے کہاں زندگی بسر کرنی ہوگی، اور کیا اسے بے لگام چھوڑ دیا جائے گا یا جس طرح اس کی تخلیق میں نِک سُک کا خیال رکھا گیا اسی طرح انسان کو ایسی ہدایت سے نوازا جائے گا جو جامع اور کامل ہو، اور اس کی زندگی کے تمام معاملات میں ہدایت فراہم کرے۔ سورۃ الاعلیٰ میں اسی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی o وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰیo (الاعلٰی ۸۷:۲-۳) ’’جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی‘‘۔
انسان کی یہ بہترین تخلیق جہاں خالق کے خود کمال کے اعلیٰ ترین درجے پر ہونے کی دلیل ہے، وہیں اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اگر اس نے، جو عادل ہے اور انسان کو تعدیل کے ساتھ پیدا کیا ہے، تو انسان کا فرض ہے کہ وہ عدل کو اپنا وتیرا بنائے اور عدل و توازن کے قیام کے لیے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خلیفہ کی حیثیت سے اس نظامِ عدل کو قائم کرے، جس کا مکمل نقشہ خالق کائنات نے اپنے کلام اور صاحب ِ کلام کے ذریعے انسانوں تک پہنچا دیا ہے، تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں عدل قائم کیا جاسکے کہ کارِنبوت کا اصل ہدف یہی ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہے‘‘۔(الحدید ۵۷:۲۵)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ’میزان‘ اور ’حدید‘ کی وضاحت ان تاریخی الفاظ میں کرتے ہیں: ’’میزان، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی طرح تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہائوں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے… انبیاے علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا[یعنی لوہے کا نازل کیا جانا] خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیامِ عدل کی محض ایک اسکیم پیش کردینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا، بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہوسکے، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جاسکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جاسکے‘‘۔ (تفہیم القرآن، پنجم، ص ۳۲۲)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت اوراس سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کہ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) ’’پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘، اور پھر یہ بشارت کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘، اس بات کا ثبوت ہے کہ عدل اور اس کا قیام ہی وہ محور ہے جس کے گرد زندگی کا پورا نظام گردش کرتا ہے اور کائنات کی تخلیق کا مرکزی نکتہ بھی میزان ہی کا قیام ہے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انسان کو معتدل و متناسب بناکر جو مقصد اور مشن اس کے سپرد کیا وہ بھی اس ترکیب تخلیق سے گہری مناسبت رکھتا ہے، یعنی ایک ایسا متوازن، معتدل اور متناسب نظام کا قیام جس میں ظلم و استحصال،اللہ سے بغاوت، اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی، انسانی حقوق کی پامالی نہ پائی جاتی ہو، اور فرد، معاشرہ، معیشت، سیاست، ثقافت، قانون، تعلیم، غرض ہر شعبۂ حیات میں مکمل عدل پایا جائے۔ نظامِ عدل کے قیام کے لیے قرآن و سنت نے جو اصول، لوازمات اور لائحہ عمل بتایا ہے اسے جب اور جہاں کہیں اختیار کیا جائے گا معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے راستے کشادہ ہوجائیں گے اور جب اور جہاں کہیں بھی ان اصولوں سے انحراف کیا جائے گا متضاد نتائج سامنے آئیں گے۔
قرآن کریم عدل کی جامع اور مثبت اصطلاح کو ظلم، فساد، عدوان اور طاغوت کی اصطلاحات کی مخالف اصطلاح کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جو لوگ زمین میں فساد اور ظلم پھیلاتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنے عادل، مطیع اور متقی بندوں کے ذریعے تبدیل کرتا ہے تاکہ زمین میں قیامِ عدل ہو اور انسان افراط و تفریط کی جگہ متوازن طرزِ حیات اختیار کرسکیں۔ فرمایا گیا: وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ (البقرہ۲:۲۵۱) ’’اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا‘‘۔
عدل کے قیام اور عدل اختیار کرنے کا مفہوم عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ دو افراد کے درمیان غیرجانب داری کے ساتھ کسی تنازعے کا فیصلہ کردیا جائے۔ قرآن کریم نے اس طرف واضح اشارہ کیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴:۵۸) ’’مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ اسی طرح گواہوں کے حوالے سے بھی عدل کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے کہ عادل افراد کو گواہ بنایا جائے: فَاِِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ (الطلاق ۶۵:۲) ’’پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمے پر پہنچیں تو یا انھیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو، یا بھلے طریقے سے اُن سے جدا ہوجائو اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب ِ عدل ہوں‘‘۔
اگر غور کیا جائے تو نظام عدالت ہو، عدالت میں گواہی ہو، یا خاندانی معاملات میں کسی دو افراد کا گواہ بنانا ہو، ان سب کا قریبی تعلق اُس مجموعی نظام کے ساتھ ہے جس کا قیام اور جس کے لیے جدوجہد کو انسان کا مقصد تخلیق قرار دیا گیا ہے، یعنی زمین پر اللہ کے حکم کا نفاذ اور زندگی کے تمام معاملات میں خالق کائنات کی رضا کو اختیار کرتے ہوئے اصلاحِ احوال، تزکیۂ مال، تزکیۂ وقت، تزکیۂ صلاحیت کرتے ہوئے خلافتِ الٰہیہ کا قیام۔
قرآن کریم نے زمین پر خلافتِ الٰہیہ کے قیام کو ان افراد سے وابستہ و مشروط کردیا ہے جو خود جادۂ عدل و توازن پر قائم ہوں۔ اسی بنا پر تخلیقِ انسان کے حوالے سے قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کو بنانے کے بعد اور صحیح شکل و صورت دینے کے بعد اسے ہرلحاظ سے متوازن و معتدل بنایا گیا ہے۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس جانب پایا جاتا ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی عظیم صفت عدل کے تناظر میں انسان کو اپنا خلیفہ بنانے کے لیے اس توازن و عدل پر تخلیق فرمایا جو اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی تناظر میں قرآن کریم نے اُمت مسلمہ اور اُمت مسلمہ میں ایک ایسے گروہ اور جماعت کی ضرورت پر زور دیا ہے جو نقطۂ اعتدال و توازن یا وسط کو اختیار کرلے اور یہی اس کی پہچان بنے۔ وہ غلو، شدت پسندی، اور انتہا کے رویے کے مقابلے میں توازن، عدل اور میانہ روی کو اختیار کرنے والی اُمت ہو: ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔(البقرہ ۲:۱۴۳)
اسلامی عدل اجتماعی کی بنیاد کسی قیاسی سوشل کنٹریکٹ پر نہیں ہے جس کی تعبیر ہر دور میں صاحب ِ اختیار افراد اپنے مفاد کے پیش نظرکرتے رہیں۔ اسلامی اخلاق و قانون کا ماخذ کسی فرد یا کسی گروہ کی اپنی پسند یا ناپسند نہیں، بلکہ خالق انسان کی جانب سے نازل کردہ وہ قوانین و اصول ہیں جو انسانوں کو دہرے اخلاقی معیار سے نجات دلاکر زندگی کے تمام معاملات کو توحیدی نقطۂ نظر سے دیکھ کر ایک وحدانیت میں لے آتے ہیں۔ جس انسانی معاشرے میں دہرے اخلاقی معیار پائے جاتے ہوں وہ عدلِ اجتماعی سے محروم رہتا ہے۔
آزادی کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک شخص کو شعور کی آزادی اور فیصلے کی آزادی حاصل ہو۔ اس پر ایسے تصورات اور ایسی ثقافت کو زبردستی مسلط نہ کردیا جائے جو اس کے بنیادی عقائد و تصورات سے ٹکراتی ہو۔ چنانچہ آج عالم گیریت کے سہارے یک قطبی سامراجیت اپنی ثقافت کو جس طرح دنیا بھر کی اقوام پرتعلیم، معاشی حکمت عملی، سیاسی دبائو کے ذریعے مسلط کرنے میں مصروفِ عمل ہے، یہ جارحیت کی ایک واضح شکل ہے۔ یہ آزادیِ راے کو معطل یا مقید کردینا ہے۔ یہ انسانوں کے ذہنوں کو ابلاغِ عامہ کے ذریعے اپنا محکوم بنا کر غیرمؤثر کردینا ہے۔ اسلامی عدلِ اجتماعی ہرفرد کو آزادیِ راے، آزادیِ اجتماع اور آزادیِ عمل دے کر شعور وآگہی اور معروف و منکر کی آفاقی بنیادوں کی روشنی میں کسی عمل کو اختیار کرنے یا رد کرنے کا پورا حق دیتا ہے۔ اس کے بالمقابل آمریت ہو یا بادشاہت، سرمایہ دارانہ نظام ہو یااشتراکیت زدہ نظام، اپنی معاشی اور سیاسی گرفت (grip) کی بنا پر عملاً انسانوںسے ان کی قوتِ فیصلہ چھین لیتا ہے اور انھیں اپنی سامراجیت کا غلام بنا لیتا ہے۔ اسلامی نظامِ عدل اس استحصال سے نجات کا نام ہے۔
کسی بھی انسانی معاشرے میں حادثات کے نتیجے میں کل تک جو صاحب ِ وسائل تھا وہ مفلوک الحال بن سکتا ہے۔ معاشی میدان میں قیمتی تجارتی سامان لے کر ایک بحری جہاز روانہ ہوتا ہے اورمنزل پر پہنچنے سے قبل غرق ہوکر تمام اثاثوں کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسے مواقع زندگی میں کسی بھی وقت پیش آسکتے ہیں۔ اس لیے اسلامی عدلِ اجتماعی میں تکافل اجتماعی کا تصور اسلامی معاشرے کے قیام کے ساتھ ہی وجود میں آگیاتھا، اور ایسے مواقع پر انسانی ہمدردی اور تعاون کی بنیاد پر تکافلِ اجتماعی کا ادارہ جس میں معاشرے کے افراد اپنا حصہ ڈالتے ہیں، اس نقصان کو پورا کرتا ہے۔
اللہ کی زمین پر اس کا حکم اور نظام قائم کرنے کے لیے اہلِ ایمان میں ایک ایسی منظم جماعت ضروری ہے جو منزل اور مقصد کا واضح شعور رکھتی ہو اور جس کا ہدف صرف اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات کا نافذ کرنا ہو: ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۱۰۴)۔ گویا نظامِ عدل اپنے آپ نافذ نہیں ہوجائے گا بلکہ اس کے لیے مسلسل جدوجہد، ایثاروقربانی اور جوش اور ولولہ کے ساتھ کوشش کرنی ہوگی۔ یہی وہ جماعت ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں کہا گیا ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (البقرہ ۲:۱۴۳)’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک اُمت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘۔
انسان پر شہادت کا یہ فریضہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس صالح جماعت سے وابستہ ہر فرد اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہوئے برابر احتساب کرتا رہے کہ اس کا طرزِعمل کہاں تک عدل سے مناسبت رکھتا ہے۔ کیا وہ اپنے نفس کو پال کر فربہ کر رہا ہے، یا نفس کشی کے ذریعے اپنے اُوپر ان سہولتوں کو حرام کررہا ہے جو اس کے رب نے اسے بطور انعام و فضل دی ہیں؟ کیا وہ اپنی غذا میں، اپنے لباس میں، اپنے رہن سہن میں، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ تعلق و حقوق کی ادایگی میں یا اپنے ہمسایے کے حقوق کے حوالے سے عدل و توازن اور وسط کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، یا اس کے اہلِ خانہ والدین، بیوی، بچے اس کی عدم توجہ کا شکار ہیں؟ جس دعوت کو لے کر وہ دنیا کو بدلنے کے لیے نکلا ہے اس دعوت کا کتنا حصہ خود اس کے اپنے گھر میں رائج ہوسکا ہے؟ جس نظامِ عدل کے قیام کے لیے اُس نے اپنی زندگی کا سودا اپنے رب سے کیا ہے، اُس عدل کا عکس اس کے اپنے معاملات اور کاروبار میں کتنا نظر آتا ہے؟ ایک جانب وہ دنیا سے استحصال، زیادتی اور باطل کو ختم کرنے کے لیے نکلا ہے، تو کیا دوسری جانب اپنے کاروبار میں بھی اُس نے عدل کے اس پہلو کو نافذ کیا ہے؟ کیا وہ خود اپنے ملازمین کے ساتھ عدل کررہا ہے؟ کیا وہ کارخانہ جو وہ بطور کاروبارچلا رہا ہے اس میں تمام معاملات میں توازن اور تناسب پایا جاتا ہے، یا وہ بھی اُس ردعمل کا شکار ہے جو آج مسلم معاشروں کی ایک بنیادی بیماری ہے؟ کیا سورۂ صف کی وہ آیت اس کے ذہن میں تازہ رہتی ہے کہ ’’تم وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں، اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں ‘‘ (الصف ۶۱: ۲-۴)۔ کیا اس کے کاروبار میں وہ شفافیت ہے جو وہ نظامِ عدل قائم ہونے کے بعد دیکھنا چاہتا ہے؟ کیا وہ اپنے عہد، اپنے وعدے جو وہ گاہکوں سے کرتا ہے پورے کر رہا ہے اور اشیا کا وہ معیار (quality) جس کی قیمت وہ لے رہا ہے گاہک کو مل رہی ہے؟ گویا عدل جب تک ایک کارکن کے گھر اور اس کے کاروبار میں داخل نہیں ہوگا اور قابلِ محسوس طور پر اس کا نفاذ نہیں ہوگا، اس وقت تک انسان کے مقصد اور خلافتِ الٰہیہ کے قیام کے مطالبات شرمندۂ تعبیر ہی رہیں گے۔
اس سے ایک قدم آگے چل کر دیکھا جائے تو یہ عدل اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ معاشرے میں جہاں کہیں بھی ظلم و استحصال، زیادتی اور حقوق کی پامالی پائی جاتی ہے وہ اس کو دُور کرنے کے لیے عادلانہ رویے کے ساتھ کہاں تک اپنے ہاتھ، اپنی زبان اور اپنے دل کا وہ استعمال کررہا ہے جس کی طرف خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامِ حق کے لیے جو ترجیح متعین فرما دی ہے وہ قیامت تک کے لیے ویسی ہی رہے گی، یعنی ہاتھ سے برائی کو مٹانے کے لیے ممکنہ وسائل کا استعمال ہمیشہ اوّلیت پر رہے گا۔ جو شخص جتنے وسائل رکھتا ہے اس کی جواب دہی اسی کے مطابق ہے۔ اس لیے اگر اس کے ہاتھ کا اختیار صرف اس کے دفتر تک ہے، گھر تک ہے، فیکٹری تک ہے اور وہ اس اختیار کا استعمال نہیں کرتا تو جادۂ عدل کے منافی کام کر رہا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے صلاحیت دی ہے کہ وہ باطل کو مٹانے کے لیے قلم کا استعمال کرے اور وہ ایسا نہیں کر رہا تو یہ عدل کے منافی ہے۔ اگر کسی کو اللہ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے قول سے حق کی دعوت پہنچا سکتا ہے اور برائی کو مٹانے کے لیے سچائی کا استعمال کرسکتا ہے اور وہ ایسا نہ کرے تو وہ ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ جہاں تک دل میں برائی کو بُرا سمجھنا ہے تو، وہ تو اضعف الایمان ہے اور نظامِ عدل قائم کرنے کی جدوجہد میں سرگرم کارکن سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اضعف الایمان پر کسی صورت میں مطمئن ہوجائے۔
گویا نظامِ عدل کے قیام کے لیے ایک ایسی اُمت وسط کی ضرورت ہے جس کا قول و فعل یکساں ہو اور جس نے اپنی ذات اور اپنے خاندان اور کاروبار میں عدل کو عملاً نافذ کر دیا ہو، یا نافذ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہو۔ شیطان، جو قرآن کے مطابق انسان کا کھلا دشمن ہے، دن کے ۲۴گھنٹوں میں کسی ایک لمحے کے لیے بھی اپنے مشن اور مقصد سے غافل نہیں ہوتا اور طاغوت، ظلم، فساد اور برائی کے لیے ہمہ وقت کارکن کے طور پر مصروف رہتا ہے، اسے بے شمار مواقع پر ناکامی کا سامنا ہوتا ہے اور اس کی کوششیں بارآور نہیں ہوتیں لیکن وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا ___ کیا وہ نظامِ عدل قائم کرنے والوں کے دلوں میں بار بار یہ سوال اُبھارتا ہے کہ برسوں کی کوشش کے باوجود آخر نظامِ عدل قائم کیوں نہیں ہو پایا؟ بات بہت آسان ہے۔ اگر جائزہ لے کر دیکھا جائے تو جب تک اس نظام کے لیے صحیح افرادی قوت، صحیح وسائل اور صحیح فضا پیدا نہ ہوجائے نتائج کے بارے میں غور کرنا بہت قبل از وقت ہوگا۔ پھر کیا قرآن کریم ہمیں یہ نہیں سمجھاتا کہ بعض اوقات پورے خلوص، ہمت، توجہ، قربانی اور ہمہ وقت کام کرتے رہنے کے باوجود مشیت الٰہی اپنی کسی حکمت کی بنا پر نتائج کو مؤخر کردیتی ہے، اور رب کریم اپنے بندوں پر فضل و کرم کی بنا پر اس جہادِ خیر میں کچھ اور دیر مصروف رکھ کر اس تاخیر کو ان کے اجر اور درجات میں اضافے کا ایک سبب بنا دیتا ہے۔ اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر جو بنیادی سوال ہمارے لیے اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا انفرادی اور خاندانی سطح پر اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے کے ساتھ ہماری کوششوں سے معاشرے سے برائی، ظلم و استحصال کو ختم کرنے اور نیکی، بھلائی، عدل اور حق کو قائم کرنے کی جدوجہد آگے بڑھی ہے؟ کیا لوگوں میں اس کا احساس پیدا ہوا ہے؟ کیا معاشرے میں کوئی حرکت اور آگہی نظر آرہی ہے یا ہماری ساری جدوجہد محض اپنے خاندان اور کاروبار تک ہی اثرات پیدا کر رہی ہے؟
عقل مطالبہ کرتی ہے کہ اگر بھلائی کے پودے کا بیج گھر میں لگا ہے یا کاروبار میں، تو یہ شجرطیبہ محض اُس مقام پر فائدہ نہیں پہنچائے گا جہاں اسے بویا گیا ہے۔ قرآن کریم اِس بلیغ مثال کے ذریعے نظامِ عدل کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی مساعی اور قربانیوں کو اُس بیج سے تعبیر کرتا ہے جو کلمۂ طیبہ اور اسلام کے نظامِ عدل کی جڑ اور بنیاد ہے۔ ایک مرتبہ جب یہ پودا اپنا اکھوا نکالتا ہے تو پھر تندوتیز ہوائیں اس کا راستہ نہیں روک سکتیں اور نہ تمازتِ موسم۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ اپنے تنے کو مضبوط کرتا ہے، اس پر کھڑا ہوتا ہے، اس کی شاخیں فضائوں میں پھیل کر ہر راہ گزر کو سایہ اور اس کے پھل ہر مسافر کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ یہ کڑوے کسیلے شجرخبیثہ کی طرح نہیں ہوتا کہ نہ سایہ، نہ ذائقہ، نہ فائدہ۔
اس پس منظر میں اگر غور کیا جائے تو پاکستان ہو یا عالمِ اسلام کا کوئی ملک، حتیٰ کہ نظامِ کفر پر چلنے والا کوئی بھی ملک، جب اس کے معاشرے سے عدل اُٹھ جاتا ہے تو پھر کوئی قوت اس کا دفاع اور تحفظ نہیں کرسکتی۔جو قوم معاشی معاملات میں عدل سے ہٹ جائے اور اس کے لینے کے پیمانے کچھ اور ہوں اور دینے کے کچھ دوسرے ہوجائیں، یا پھر وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو بھول کر اس کی بندگی کی جگہ مالی منفعت کو اپنا خدا بنا لے تو پھر وہ اللہ کے عذاب کی مستحق ہوجاتی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سزا دینے میں تاخیر کرتا ہے تو صرف اس بنا پر کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مجرموں کو ڈھیل دے کر انھیں سنبھلنے اور اپنی اصلاح کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دے، اور جو لوگ نظامِ عدل قائم کرنے نکلے ہیں انھیں بھی موقع دے کہ وہ گمراہوں کو راہِ راست پر لانے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں۔
نظامِ عدل کے علَم برداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں کہیں وسائل کے استعمال سے معاشی سرطان کی اصلاح کرسکتے ہوں اور جہاں زبان و قلم سے آواز اُٹھا سکتے ہوں، وہاں اس میںکسر نہ اُٹھا رکھیں تاکہ اتمام حجت ہوسکے اور اگر اللہ کی مشیت شاملِ حال ہو تو مفسدین کو ہدایت مل جائے اور عذاب سے بچائو بھی ہوجائے۔ کیونکہ جب عذاب آتا ہے تو پھر بستی کے سب لوگ اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بستیوں کے باغیوں کو تنگی کے بعد خوش حالی دے کر اصلاح کا موقع دیتے ہیں۔ لیکن اگر نہ تنگی میں نہ خوش حالی میں وہ جاگتے نہیں اور دعوتِ اصلاح کو رد کرتے رہتے ہیں تو پھر اچانک انھیں عذاب آپکڑتا ہے: فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَo (اعراف ۷:۹۱) ’’مگر ہوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی آفت نے ان کو آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے‘‘۔
معاشی عدل کے ساتھ سیاسی عدل بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اقتدار کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں ہو جو نہ وعدوں کے سچے ہوں، نہ ذمہ داری کے امین اور مستحق ہوں، جو قومی دولت کو اپنی خاندانی جاگیر اور ذاتی ملکیت تصور کرتے ہوں، جو لسانی، نسلی، علاقائی عصبیت میں سرتاپا ڈوبے ہوئے ہوں، جن کا عمل اور قول متضاد ہو اور جو اللہ کی حدود کو پامال کرنے میں پیش پیش ہوں، جو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی قرآنی سزائوں کو پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر بدلنے پر فخر محسوس کرتے ہوں، جن کے بارے میں قرآن کریم صاف کہتا ہے کہ: ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں… وہی فاسق ہیں‘‘ (المائدہ ۵:۴۴-۴۷)۔ ایسے افراد اور ایسے نظام سے نجات حاصل کرنے اور اسلام کے عدلِ اجتماعی کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا وہ دینی فریضہ ہے جس سے کسی بھی صاحب ِ ایمان کو بری نہیں کیا گیا۔
اہلِ ایمان کی ایک اہم خصوصیت ظلم کے نظام کی جگہ نظامِ عدل کے قیام کی جدوجہد ہے:
وَ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ oیٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۷-۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
یہاں اہلِ ایمان کو متوجہ کرتے ہوئے پہلی بات یہ سمجھائی جارہی ہے کہ قیامِ نظامِ عدل کی جدوجہد کرتے ہوئے اولین چیز جو انھیں شعوری طور پر اختیار کرنی ہوگی وہ صرف اللہ کے لیے راہِ راست، صراطِ مستقیم اور سواء السبیل پر قائم ہونا ہے۔ اپنا رُخ مشرق و مغرب سے موڑ کر صرف اللہ کی رضا کو متاعِ عزیز بنانا ہے۔ یہ کام نہ تمغۂ کارکردگی کے لیے ہے، نہ کسی مجلس میں مقامِ تقرب کے لیے، نہ کسی جماعت میں مقامِ قیادت تک پہنچنے کے لیے ہے بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاصِ نیت کے ساتھ ہے۔ یہی مومن کے ہرعمل کی پہچان ہے۔
دوسری بات یہ سمجھائی جارہی ہے کہ ہمیشہ انصاف کی گواہی دی جائے، یعنی ایک تو گواہی دینے میں عدل برتا جائے اور دوسرے یہ کہ عدل و انصاف کی سربلندی کی جدوجہد میں شامل ہوکر عدل کے قیام کو روشن اور قریب تر بنایا جائے۔ اس عمل میں انتہاپسندی کی جگہ توازن، وسط اور قسط کو اختیار کیا جائے۔ ہرقسم کے غلو اور شدتِ پسندی سے چاہے وہ اپنی راے پر بے جا اصرار ہو یا ہرمعاملے میں انتہائی رویہ اختیار کرنا ہو، ہر دو سے اپنے آپ کو نکال کر توازن و اعتدال کو اختیار کیا جائے۔ اس روش کو تقویٰ سے قریب بیان کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ تقویٰ خود ایک متوازن طرزِعمل کا نام ہے۔ تقویٰ انتہاپسندی کا نام نہیں ہے، حتیٰ کہ عبادات میں بھی تقویٰ کا مطلب وہ توازن ہے جس کی مثال خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے ملتی ہے۔
جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ اپنے ذوقِ عبادت میں رات بھر نوافل اور دن بھر روزے سے رہتے تھے۔ ان کے والد حضرت عمرو بن عاصؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بیٹے کی انتہاپسندی کی شکایت کی تو حضور نبی کریمؐ نے انھیں طلب کیا اور دریافت فرمایا: کیا تم نے دن میں روزہ اور رات بھر نماز پڑھنے کو اپنا معمول بنا رکھا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، یارسولؐ اللہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ طریقہ چھوڑ دو، روزے بھی رکھو اور ناغہ بھی کیا کرو۔ رات کو نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو، کیونکہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری آنکھ کابھی تم پر حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اور تمھارے مہمانوں، ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے۔ جو ہمیشہ بلاناغہ روزہ رکھے گا اس نے گویا روزہ رکھا ہی نہیں۔ ہر مہینے میں تین دن نفلی روزے رکھ لینا (رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ)، ہمیشہ روزہ رکھنے کے حکم میں ہے۔ اس لیے تم ہر مہینے بس تین روزے رکھ لیا کرو اور مہینے میں ایک قرآن (تہجد میں) ختم کرلیاکرو۔
حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تم دائود علیہ السلام کی طرح ایک دن روزہ رکھو ، ایک دن افطار کرو اور اس کے علاوہ تہجد میں سات دنوں میں ایک مرتبہ قرآن ختم کرلیا کرو۔ (بخاری، مسلم، مسنداحمد)
گویا قرآن کریم سے محبت اور تعلق کی نوعیت کیا ہو، خود اپنے نفس کے حقوق نیند، آرام، خاندانی تعلق اور دیگر معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے ساتھ روزہ کا اہتمام کرنا ہو تو اس میں بھی توازن و اعتدال ہو۔ یہی صورت حال ہمیں اس حدیث مبارکہ میں ملتی ہے جس میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض اصحاب کے بارے میں یہ اطلاع ملنے پر کہ کوئی تمام رات نوافل کا اہتمام کرنا چاہتا ہے اور کسی نے مسلسل روزے کا عہد کیا ہے اور کسی نے نکاح نہ کرنے کی قسم کھائی ہے، ان تینوں اصحاب کو طلب فرما کر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ آپؐ ان سے زیادہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا تقویٰ اور خشیہ کرتے ہیں اور رات کے کچھ حصے میں عبادت اور کچھ میں آرام فرماتے ہیں۔ کبھی روزہ رکھتے ہیں، کبھی ناغہ کرتے ہیں اور نکاح آپؐ کی سنت ہے۔ یہاں بھی مقصود توازن و اعتدال کی تعلیم ہی تھی۔
بلاشبہہ انفرادی سطح پر عدل کا اختیار کرنا اسلام کے اوّلین مطالبات میں سے ایک اہم تعلیم ہے۔ قرآن و سنت جتنی شدت سے عدل کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہی اسی شدت کے ساتھ عدل اجتماعی کے قیام کو اُمت مسلمہ کا مقصد اور ہدف قرار دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام اور دیگر مذاہب اور نظاموں میں بنیادی فرق اسلام کا تصورِ اجتماعیت ہی ہے۔ دیگر مذاہب فرد کی نجات، فرد کی روحانیت اور فرد کے تزکیے پر زور دیتے ہیں، جب کہ اسلام عبادات کا معاملہ ہو یا معاشی اور معاشرتی مسائل، ہرشعبۂ حیات میں عدل اجتماعی کو اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ مصالح عامہ اور فلاحِ انسانیت کے پیش نظر قوانین کو مدون کرتا ہے۔
اسلام کے اتنے جامع عدلِ اجتماعی کی موجودگی میں کیا وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ میں معاشی بدحالی، تعلیمی زبوں حالی اور فکری و عملی انتشار اور سیاسی عدم استحکام پایا جاتاہے؟ عالمِ اسلام کس طرح اپنی اصلاح کرسکتاہے، اور کیا اسلامی عدلِ اجتماعی ایک عالمی نظامِ عدل کے قیام کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے؟
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پندرہ سو سال کی گردش کے بعد تاریخ کے جس موڑ پر پہنچ گئی ہے اس میں ساتویںصدی عیسوی میں پائے جانے والے رجحانات اور معاشی، معاشرتی اور اخلاقی زبوں حالی سے گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگر وہ قدیم جاہلیت تھی تو آج جدید جاہلیت ہے۔ اگر اس وقت انسان اپنی قبائلی عصبیت، نام و نسب پر فخر اور ذاتی مفاد کے لیے ہرکام کرنے پر تیار تھا، تو آج کا انسان بھی اپنے ذاتی مفاد کا بندہ اور خودساختہ عصبیتوں کا پرستار نظر آتا ہے۔ فوری فائدے کے حصول کے لیے وہ عظیم تر مفاد کو قربان کر دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ بے روزگاری، آمریت، معاشی اور سیاسی استحصال نے انسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ وہ گوناگوں مسائل و مشکلات میں اس حد تک گھرگیا ہے کہ اسے منزل کا شعور بھی نہیں رہا۔ اس کسمپرسی میں وہ اپنے مسائل کا حل دوسروں کے تجویز کردہ نسخوں میں تلاش کررہا ہے، جب کہ خود اس کے پاس ایسا نسخۂ کیمیا موجود ہے جو اُس کے تمام امراض کا تشفی بخش علاج کرسکتا ہے۔ اس بے خبری کی کیفیت میں اغیار کی بظاہر معاشی ترقی اور سیاسی تسلط نے اسے یہ بات باور کرا دی ہے کہ ترقی کا آسان نسخہ اغیار کی نقالی ہی میں ہے۔ لیکن کیا واقعی نقالی اُمت مسلمہ کو اس کے معاشی، سیاسی، فکری اور اخلاقی بحران سے نکال سکتی ہے؟ کیا مانگے کا اُجالا اس کے دل کے ویرانوں کو منور کرسکتا ہے، اور کیا اس مانگے کے اُجالے کے ذریعے اُمت مسلمہ اپنے آزاد وجود کو تسلیم کروا سکتی ہے؟ یہ بنیادی اور اہم سوالات اپنی عملی اہمیت کی بنا پر نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔
قیام نظامِ عدل کی ایک ایسی تحریک جسے آج سے پندرہ سو سال قبل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا تھا، آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ جس طرح اس تحریک کے قیام کے وقت آپؐ کے سامنے ہدف اور مقصد واضح تھا، اسی طرح آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ تحریکاتِ اسلامی کی جدوجہد میں مقصد کا تصور (vision) کہاں تک واضح ہے۔ یہ کہیں دھندلا تو نہیں گیا اور مقصد اور ہدف کے پیشِ نظر جو حکمت عملی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع فرمائی تھی کیا اس میں تبدیلیِ حالات اور وقت کے لحاظ سے کسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
آج بھی تحریکِ اسلامی کو نظامِ عدل کے قیام کے لیے اس ترتیب کو پیش نظر رکھنا ہوگا لیکن مدینہ میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب سے سبق لیتے ہوئے تمام ذہنی مغالطوں سے آزاد ہوکر اپنے تصورِ تبدیلی و اصلاح کو محض اپنے معاشرے اور ملک تک محدود نہیں رکھنا ہوگا۔ مدینہ میں قائم ہونے والا نظامِ عدل ایک عالمی نظامِ عدل کے قیام کا پیش خیمہ تھا۔ مکہ کے راستے مدینے میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست ایک عرب مملکت نہ تھی، بلکہ تمام دنیا سے ظلم، استحصال، کفر اور طاغوت کو ختم کرنے کی ایک تحریک تھی۔ اس کا ہدف عالم گیر عدل کا قیام اور تمام انسانوں کو سامراجیت، نسلی عصبیت، علاقائی محدودیت، لسانی قوم پرستی اور انسانوں کی انسانوں پر حاکمیت سے نجات دلاکر خالق کائنات کی حاکمیت اور العادل کے دیے ہوئے نظامِ عدل و توازن کو دنیا کے تمام گوشوں میں قائم کرنا تھا۔
یہ عالم گیر تحریک براے قیامِ عدل اُس تصور کی ضد ہے جو عالم گیریت (globalization) کے نام پر سامراجی نظام نافذ کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ آج دنیا جس چیز کو عالم گیریت کے نام سے پکارتی ہے وہ انسانوں کو انفرادی آزادی سے محروم کرنے، مغرب کی بزعمِ خود ’’اعلیٰ اور برتر تہذیب ومعاشرت‘‘ کو دیگر اقوام پر نافذ کرنے، اور ان کی معاشی، سیاسی اور ثقافتی آزادی کو چند عالمی اداروں کا غلام بنانے کادوسرا نام ہے۔ اسلام جس عالم گیر نظامِ عدل کی دعوت دیتا ہے وہ انفرادی آزادی، آزادیِ راے، آزادیِ عمل، آزادیِ دین اور انسانی حقوق کی فراہمی پر مبنی ہے۔
اس نظام کے قیام کے لیے ہرفرد کو خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اُٹھنا ہوگا، اور ظلم و استحصال اور غربت و بے روزگاری سے متاثر افراد کے حقوق کی بحالی کے لیے اپنے آپ کو منظم کرکے بھلائی کو غالب کرنے اور برائی کو مٹانے میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ یہ کام محض نظری باتوں سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے انسانی وسائل کو یک جا کرنا ہوگا، اور انسانوں کی قوت کو منظم کر کے نظامِ عدل کے قیام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنا ہوگا۔
رمضان کریم ایک ایسا مبارک اور رحمتوں والا مہینہ ہے جس کا انتظار اور استقبال ایک عام مسلمان ہی نہیں، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم جن پر ہمارے والدین قربان ہوں، خصوصی عبادات کے ذریعے فرمایا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ شعبان ہی سے اس ماہ کے لیے کمرکس لیا کرتے تھے لیکن رحمت للعالمینؐکا اپنی اُمت کی آسانی کے لیے یہ خصوصی اظہارِمحبت تھا کہ، گو خود تمام شعبان روزہ رکھتے لیکن اُمت کو آخری دو ہفتوں کی رخصت دے کر صرف شعبان کے اوّلین حصے میں روزہ رکھنے کی تلقین فرماتے۔ اسی بنا پر نصف شعبان کا روزہ افضل ہے اور اوّلین دوہفتوں میں روزے رکھنا سنت کی پیروی ہے۔
اس مہینے کی اہمیت اور اس کے انقلابی اثرات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس میں روزہ رکھنا فرض کردیا گیا ہے اور راتوں میں تراویح پڑھنا نفل (یعنی سنت) ہے۔ اس ماہ میں ایک فرض کا ادا کرنا دوسرے کسی مہینے کے ۷۰فرض ادا کرنے کے برابر ہے۔ یہ مہینہ مواساۃ ،یعنی ہمدردی کرنے والا مہینہ ہے۔
جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ اس ماہ میں روزہ رکھا تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرما دے گا۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت کا دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرباشعور مسلمان مرد، عورت اور بچہ اس ماہ میں خصوصی اہتمام کے ساتھ تلاوتِ قرآن، وقت پر نمازوں کا اہتمام، صدقات و خیرات اور غربا و مساکین کی امداد کرنے میں مسابقت کرتا ہے۔ اس کی برکتیں اَن گنت، اس کے انعامات غیرمحدود اور اس کی لذت اپنی مثال آپ ہے۔
اس سال رمضان ایسے حالات میں آرہا ہے کہ اُمت مسلمہ کا ہرفرد مسلم دنیا کے حکمرانوں اور مروجہ استحصالی نظام کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہاہے اور ایسے بہت سے حکمران جنھیں اپنی کرسی کے مضبوط ہونے کا یقین تھا، پڑوسی ممالک میں اپنی جان بچانے کے لیے پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس صورت حال میں یہ مہینہ جو مواساۃ کا، رحمت کا، مغفرت کا، عفو و درگزر کا، صبرواستقامت کا مہینہ ہے، جس کا مقصد رحمت کی فضا پیدا کر کے پوری اُمت مسلمہ کو دنیا کی تمام غلامیوں سے نکال کر صرف اور صرف اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی طرف بلانا ہے، ایک عام مسلمان سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ کیاصرف عبادات کا خلوصِ نیت کے ساتھ کرلینا اور نوافل کا اہتمام کرلینا اُمت مسلمہ کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کافی ہوگا؟ یا ہمیں غوروفکر کے ساتھ اپنے حالات کا جائزہ اور احتساب کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ اس ماہ میں ہماری ترجیحات کیا ہوں؟
تقریباً ۱۵۰۰ سال قبل جب پہلی مرتبہ رمضان کا مہینہ اپنی رحمتوں کے ساتھ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب پر سایہ فگن ہوا تو ابھی ۱۷دن بھی نہ گزرے تھے کہ اُمت مسلمہ کو ایک ایسی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جو اس کے وجود کو ختم کرنے کی خاطر نظامِ کفرواستحصال کی طرف سے اس پر مسلط کی گئی تھی۔ آج جدید جاہلیت پر مبنی تہذیب اور اس کے سرمایہ دار قائد اُمت مسلمہ کے خلاف اپنی جدید ترین ٹکنالوجی کے ساتھ نبردآزما ہیں۔ جس طرح اس وقت اصحابِ رسولؐ میں سے کسی کے پاس نیزہ تھا تو تلوار نہ تھی، تلوار تھی تو ڈھال نہ تھی، خَود تھا تو زرہ نہ تھی، اسی طرح آج بھی اُمت مسلمہ جنگی آلات کے لحاظ سے کم تر مقام رکھتی ہے۔ لیکن جس چیز نے قرن اوّل میں اُمت مسلمہ کو فتح مند کیا تھا، وہ اس کی اسلحہ میں برتری نہ تھی، بلکہ اس کا وہ کردار و تقویٰ تھا جس کی تیاری میں اسے ۱۳سال آزمایشوں کی دہکتی بھٹیوں سے گزرنا پڑا تھا۔ اللہ کے یہ چند بندے اپنے کُند بھالوں کے باوجود ایمان کی غیرمحدود قوت، کردار کی عظمت، خلوص کی کثرت اور رب کریم سے اپنے تعلق کی فراوانی کی بنا پر اپنے سے تین گنا زیادہ تعداد اور ۱۰ گنا زیادہ مسلح قوت سے نہ صرف ٹکرلینے بلکہ آخرکار اس قوت کو توڑنے اور شکست دینے کی نیت سے نکلے تھے۔ ان کے رب نے ان کو وہ عزم دیا تھاجو غیرمتزلزل ہو اور ایسی استقامت دی تھی جو فتح و کامرانی کا پیش خیمہ ہو۔
آج اس پُرآشوب دور میں اس برکتوں والے مہینے کے ذریعے ہمیں اولاً اپنے آپ کو باطل کی تمام محکومیوں سے نکال کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی میں دینا ہوگا۔ یہ بندگی کامیابی کے لیے شرطِ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنا رہنما بنانا ہوگا کہ بہترین اسوہ اور بہترین قابلِ عمل نمونہ اگر کوئی ہے تووہ صرف آپؐ کی حیاتِ مبارکہ ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں دشمن کی حکمت عملی اور منصوبوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ کس کس راستے سے وہ ہم پر حملہ آور ہورہا ہے۔ دشمن کی جنگی حکمت عملی کا اوّلین نکتہ اُمت مسلمہ کو ثقافتی، ابلاغی اور برقی اتصالات (ذرائع ابلاغ) کے ذریعے مغلوب کرنا ہے۔
مغرب کی ثقافتی یلغار کا ایک بڑا ذریعہ جدید اتصالات ہیں، چنانچہ فیس بک (facebook) اور یوٹیوب (youtube) کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں کو دین سے دُور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں قرآن کریم کی دعوت کے ذریعے نوجوانوں میں دینی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنا سیکھیں، لہوولعب میں ضائع نہ کریں۔ اسلامی معلومات کو برقی میڈیا سے دل نشیں انداز سے پیش کیا جائے۔ یہ مہینہ جو قرآن کا مہینہ ہے اس میں قرآن کریم کے بہت سے پہلو جدید ٹکنالوجی کے ذریعے عام کیے جاسکتے ہیں، مثلاً سابقہ اقوام کے قصے اور کائنات کے حوالے سے قرآن کریم کے دلائل۔
اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل میں سے ایک بنیادی مسئلہ فرقہ بندی نیز علاقائی اور قومی عصبیتوں کا اُبھارا جانا ہے تاکہ اُمت مسلمہ اتحاد سے محروم رہے۔ قرآن کریم نے اُمت مسلمہ کو ایک بنیان مرصوص سے تعبیر کیا تھا، جب کہ مغرب کی لادینی فکری یلغار اسے الگ الگ قومیتوں میں تقسیم دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ مہینہ اتفاق واتحاد کا مہینہ ہے۔ اس میں دلوں کے اتحاد کی بنیاد قرآن کریم ہے۔ اس ماہ میں ہرہرمحلے میں حلقہ ہاے مطالعہ قرآن کا قائم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عصبیت لسانی ہو یا نسلی، ان سب کا علاج صرف اس کلامِ عزیز پر جمع ہوجانا ہے۔
یہ مہینہ زندگی میں اعتدال اور توازن پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ حکم ہے کہ بغیر سحری روزہ نہ رکھا جائے اور نہ سحری اتنی زیادہ ہو کہ دن میں ایک روزہ دار پریشان رہے۔ ایسے ہی افطار میں توازن ہو اور بجاے اپنے اُوپر اسراف کرنے کے اہلِ محلہ، غریبوں، مسکینوں، قرض داروں، غرض ان تمام افراد پر خرچ کیا جائے جو مسائل کا شکار ہوں۔ لیکن اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو یا کسی کی مشکل کا دُور کرنا، ہرمعاملے میں متوازن رویہ اختیار کرنا ہی رمضان کا پیغام ہے۔
معاشرے سے معاشی ظلم و استحصال اور عدم توازن کو دُور کرنا اور تمام شہریوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے مناسب اقدامات کرنا، ایک اسلامی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں اس جانب عدم توجہ پائی جاتی ہے۔ اس مبارک مہینے میں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ مالی استحصالی نظام سے نجات اور اسلامی معیشت کے عادلانہ نظام کے لیے زمین ہموار کرنے کی کوشش کی جائے۔ یونی ورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کو ان موضوعات پر اظہارِ خیال کی دعوت دی جائے اور جہاں کہیں بھی ابلاغ عامہ تک رسائی ہو، اسلامی نظامِ معیشت، اسلامی بنکاری اور تکافل کے حوالے سے عوام کو فکری رہنمائی فراہم کی جائے اور اسلامی بنکاری کے حالیہ تجربات کو تعاون و اشتراک سے دوسروں تک پہنچایا جائے تاکہ سودی کاروبار سے بتدریج نجات ملے۔
اس مبارک مہینے کا ایک مقصد تزکیۂ نفس ہے کہ انسان اپنے نفس کو قابو میںرکھنا سیکھے اور اپنی خواہشات کو اللہ کی بندگی کا تابع بنا دے۔ یہ ان تمام ترغیبات کے خلاف ایک مسلسل جہاد ہے جو انسان کو غیرمحسوس طور پر برائی کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ یہ مہینہ ہمیں سادگی اور کفایت شعاری کی تعلیم دیتا ہے اور چاہتا ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا، جن کا شمار کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں، شکر ادا کرنے کے لیے اللہ کی دی ہوئی دولت، وقت اور صلاحیت کو اُس کے دین کے غلبے کے لیے استعمال کیا جائے اور ان تحریکوں کا ساتھ دیا جائے جو دنیا سے طاغوتی نظام کو مٹانے اور اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لیے کوشاںہیں۔ اس مقصد کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب انسانوں میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے ذریعے ایک فکری انقلاب لایا جائے اور اس فکری انقلاب کے دائرہ کار کو خاندان، معاشرے اور معیشت وتعلیم کے شعبوں تک وسعت دے دی جائے۔ اس مہینے میں اللہ کے بندوں کے دلوں کی دنیا میں انقلاب لایا جائے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت اختیار کی جائے۔ قرآن کریم ہدایت کرتا ہے کہ اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوئوں پر لیٹے، ہر حال میں اللہ کے ذکر کو اختیار کرتے ہیں۔ اس ماہِ مبارک میں مسنون دعائوں کے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔
رمضان کریم کی برکات میں سے ایک بڑی برکت اس کا آخری عشرہ ہے۔ اس میں وہ قوت والی طاق رات ہے جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا۔ اس کلام کی عظمت و شوکت اس بات کی متقاضی تھی کہ اسے ایک قوت والی رات ہی میں نازل کیا جائے۔ آج قرآن کریم کی یہ قوت ہی وہ محرک ہے جس نے عالمِ اسلام کے نوجوانوں میں رجوع الی القرآن اور رجوع الی اللہ کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس عظیم رات میں جو انقلاب تاریخ عالم میں برپا ہوا، اس کے اثرات زندگی کے ہرشعبے میں نمایاں ہوئے۔ اس رات کے بعد، انسانوں کا تصورِ کائنات، تصورِ انسان، تصورِ الٰہ اور مقصدحیات کا تصور، غرض ہرہرشعبے میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ کل تک جو انسان سیاروں، ستاروں اورچاند سورج کی پرستش کرتا تھا، اب ان سب کے خالق رب العالمین کا بندہ بن گیا۔ کل تک جو انسان جانوروں اور بتوں کے سامنے جھکتا تھا، ان سے ڈرتا تھا، ان سے اپنی مرادیں مانگتا تھا اور بعض اوقات خود کو ربِ اعلیٰ سمجھ بیٹھتا تھا، اب اُس انسان نے اپنی اصل عظمت کو پہچانا اور عبدیت کو انسان کی معراج سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو تمام غلامیوں سے نکال کر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت کے آگے سرتسلیم خم کر دیا۔ کل تک اگر زندگی کا مقصد لذت، مال و دولت کی کثرت اور اقتدار کی ہوس تھا، تو اب زندگی کا مقصد صرف حاکمِ حقیقی کی رضاکا حصول اور اس رضا کے حصول کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا اہتمام قرار پایا۔ اس ایک رات نے زمین و آسمان کا نقشہ بدل دیا اور ایک ایسی اُمت کے وجود کی بنیاد رکھی جسے رب کریم نے انسانوں کی قیادت و امامت کے لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے، زمین سے ظلم کو مٹانے اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے ایک مقصد اور مشن کے ساتھ تمام انسانوں پر جواب دہ بنا دیا۔
آج اُمت مسلمہ اگر اپنی اصل قوت کا صحیح شعور و آگہی رکھتی تو اس کا سر کسی عالمی قوت کے سامنے نہ جھکتا۔ وہ اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کو اپنے عوام کی فلاح کے لیے استعمال کرتی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نظامِ حیات کو اللہ کی زمین پر نافذ کرکے زمین و آسمان سے برسنے والے فضل و رحمت کی مستحق بن جاتی۔
آج سب سے زیادہ ضرورت اسی شعور و آگہی کی ہے۔ اگر اُمت مسلمہ اپنی اصل سے آگاہ ہوجائے تو کوئی قوت اسے زیر نہیں کرسکتی۔ یہ اصل اس کی قوتِ ایمانی ہے، یہ اصل اس کا اعتصام باللہ ہے، یہ اصل اس کی قرآن کریم سے رغبت اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی اور پیروی ہے۔ آج اُمت مسلمہ پر باطل قوتوں کی جانب سے یلغار کا سبب یہی ہے کہ اسے اس کی اصل قوت کا خطرہ ہے۔ اس مہینے میں شب و روز اس تعلق کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہرمسلمان ایک چلتا پھرتا قرآن اور ایک بہترین داعی بن کر معاشرے کی فلاح وبہبود کے کاموں میں دوسروں سے آگے نکل سکے۔ یہ مہینہ ان تمام بھلائیوں اور نیکیوں میں مسابقت کا مہینہ ہے جو رب کریم کو پسند ہیں اور اسے خوش کرنے والی ہیں۔
یہ مہینہ ظلم و استحصال کے خلاف منظم جہاد کا مہینہ ہے کہ کفر کی ہرہرچال کو سمجھ کر دین کی فراست اور حکمت کے ساتھ اس چال کوتوڑا اور معروف کے قیام کے لیے مثبت اقدامات کو اختیار کیا جائے۔ یہ ماہ مثبت فکر، مثبت عمل اور مثبت کوشش کا مہینہ ہے۔ اس میں بھلائی کے لیے نکلنے والوں کی نصرت اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے کرتے ہیں۔ اس ماہ میں کی گئی منظم جدوجہد اہلِ ایمان کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں تبدیل کردیتی ہے اور بعض اوقات اپنی قلت تعداد کے باوجود وہ اپنے سے ۱۰ گنا زیادہ نفری پر غالب آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ کی برکات سے استفادے کی توفیق دے، ہرعمل خیر میں برکت دے، اور ہر کوشش کو خصوصی نصرت سے نوازے، آمین!
مسلم دنیا گذشتہ دو صدیوں میں عظیم سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی انقلابوں کا اور بیرونی طاقتوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اُمت کے اندرونی خلفشار، انتشارِ فکری، معاشی اضمحلال اور عسکری پس ماندگی نے اسے بیرونی طاقتوں کے لیے ایک تر نوالہ بنا دیا۔ چنانچہ انیسویں صدی میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ جو کل تک مسلمانوں کی عالمی طاقت کا مظہر تھے، دیکھتے ہی دیکھتے یورپی سامراجی طاقتوں کے زیراثر آگئے۔ برطانیہ نے ۱۸۸۲ء میں مصر کو زیرنگیں کیا اور اس دوران فرانس نے الجزائر، تیونس، مراکش اور شام پر تسلط قائم کیا۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے نتیجے میں اطالویوں نے لیبیا کو اپنے دائرۂ اثر میں شامل کرلیا۔
ایک جانب مغربی سامراج اپنے توسیعی عزائم کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنے قدم جما رہا تھااور دوسری جانب اللہ تعالیٰ کے قانون کی پیروی کرتے ہوئے اُمت مسلمہ میں بیداری کی تحریک اس کی بے سروسامانی کے باوجود اُبھر رہی تھی۔ چنانچہ شیخ عبدالکریم الریفی نے ۱۹۲۰ء میں ریف میں اسپین کی افواج کو شکست دے کر ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی لیکن جلد مراکش پر قابض فرانسیسی سامراج سے ٹکر ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ ادھر سوڈان میں محمداحمدالمہدی کی قیادت میں برطانیہ کے خلاف تحریکِ آزادی برپا ہوئی، اور اسی عرصے میں لیبیا میں افسانوی کردار کے حامل مجاہد عمرمختار نے اطالوی سامراج کا ۲۰سال تک پامردی سے مقابلہ کیا۔ یہ تحریکات اور ان کے بانی، گو مکمل طور پر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن انھوں نے بیرونی سامراج کے خلاف جس جدوجہد کو اپنے خون سے سینچا وہ بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔
مسلم دنیا سے مغربی سامراج کے پسپا ہونے کے بعد حالات ایک نیا رُخ اختیار کرگئے۔ اب مغربی سامراج کی جگہ اس کے تربیت یافتہ فوجی سربراہ، سلاطین اور آمروں کا دور شروع ہوا۔ چنانچہ مصر میں جمال عبدالناصر کے بعد حسنی مبارک، لیبیا میں معمرقذافی، یمن میں علی عبداللہ صالح، یا بحرین میں خلیفہ خاندان کی حکومت کو براہِ راست امریکی اور یورپی اقوام کی حمایت اور امداد حاصل رہی۔ ان آمروں اور بادشاہوں نے اپنے عوام کو اپنی ناجائز دولت اور ظلم و جور کے ذریعے خاموش رکھنے اور اپنے ذاتی اقتدار کو قائم رکھنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔
آج مسلم دنیا میں جو انقلابی لہر نظر آرہی ہے وہ اسی آمریت اور ملوکیت و سلطانی کے خلاف عوام الناس کے اتحاد کی مظہر ہے۔ لیکن بات اتنی آسان بھی نہیں ہے۔گو، بنیادی طور پر ہرانقلابی تحریک کا آغاز اندر سے ہوتا ہے اور جب تک اندرونی عناصر اس میں شامل نہ ہوں کوئی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی، لیکن حالیہ تحریکات میں بیرونی ہاتھ، وسائل اور دولت کا استعمال جس آزادی سے کیا جا رہا ہے وہ مغربی لادینی جمہوریت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اور مسلم دنیا کو کسی نہ کسی طرح اپنی گرفت میں رکھنے اور اس کے وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کے ایجنڈے کا ایک اہم پہلو ہے۔
لیبیا پر ناٹو کے ذریعے امریکی حملہ جس عنوان سے بھی کیا جا رہا ہو، اسے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور ننگی جارحیت کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۵۰ء تک محدود اندازوں کے مطابق توانائی کے جس بحران کی پیشن گوئی کی جارہی ہے، نہ صرف ناٹو کے ذریعے امریکی جارحیت بلکہ دیگر مسلم ممالک میں امریکی مداخلت کا اس کے ساتھ انتہائی منطقی تعلق ہے۔ لیبیا اور یمن میں خلافِ قانون کارروائی (dirty work) کے لیے امریکا اپنی فوج کی جگہ ان ممالک کو استعمال کر رہا ہے جو وہاں کے جغرافیائی، فضائی اور انسانی مسائل کے حوالے سے بطور سابقہ سامراجی حکمران ذاتی تجربہ رکھتے ہیں اور جو وہاں کی گلیوں اور شہروں سے مانوس ہیں۔ دوسری جانب قذافی اور یمن کے صدر کے خاندان کے افراد اپنی ناجائز جمع کردہ دولت اور تعلقات و وسائل کا پوری قوت سے استعمال کر رہے ہیں تاکہ انقلاب کی بڑھتی ہوئی لہروں کی شدت کو کم کیا جاسکے۔
موجودہ صورت حال میں یمن پر ۳۳سال سے اور لیبیا پر چار عشروں سے حکومت کرنے والے آمروں کی حکمت عملی تقریباً وہی ہے جو حسنی مبارک نے ۳۰سال اختیار کیے رکھی، یعنی اگر ہمیں حکومت سے ہٹایا گیا تو ’اسلامیان‘ جنھیں مختلف عنوانات سے یاد کیا جاتا ہے، ملک پر قابض ہوجائیں گے۔ اسلامی شدت پسندی، بنیاد پرستی،اسلامی جہاد اور اس سے ملتے ہوئے دیگر الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے یورپ اور امریکا کو اسلامی ریاست کے خطرات دکھا کر اپنے اقتدار کو مزید طول دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کا ’خطرہ‘ نہ صرف مشرق وسطیٰ اور افریقہ بلکہ خود پاکستان کے حوالے سے بھی ایک سیاسی حقیقت ہے، اور اس خطرے کی گھنٹی کے بجنے میں گذشتہ عشرے میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
اس تناظر میں مسلم قیادت کے لیے چند امور خاص طور پر قابلِ غور ہیں:
مسلم قیادت کے لیے قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ کیا وہ اس منفی اور تخریبی اندازِفکر کی جگہ ملک کے روشن مستقبل، یک جہتی اور محفوظ ہونے کے مثبت تصورات کو عوام تک پہنچارہی ہے، یا وہ بھی بیرونی قوتوں کی اس ابلاغی سازش سے جسے ملکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے کیا جا رہا ہے غیرشعوری طور پر متاثر ہوجاتی ہے۔ اسلام اُمید، اللہ تعالیٰ سے بہترین توقع اورزندگی کے روشن پہلوئوں پر مبنی مستقبل کی تعمیر کی دعوت دیتا ہے۔ مایوسی اور نااُمیدی کورد کرتا ہے اور اسے ایمان کے منافی قرار دیتا ہے۔ مسلم قیادت کو اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس کے طرزِعمل سے مایوسی کا اظہار نہ ہو بلکہ وہ اُمت مسلمہ میں اُمید، اعتماد اور منزل کا یقین پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
جغرافیائی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے مسلم دنیا کو ایک سبزپٹی کی شکل دے رکھی ہے کہ تجارتی قافلوں اور ریل، شاہراہوں اور سمندری راستوں پر ہرطریقے سے اشیاے تجارت کے نقل و حمل میں کوئی دقت پیدا نہیں ہوسکتی۔ صرف مسلم قیادت کو اس طرف یکسوئی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ مخفی سرمایہ نہ صرف مسلم دنیا کو معاشی خودانحصاری فراہم کرسکتا ہے بلکہ تھوڑے عرصے میں مسلم دنیا کو ایک متحدہ بلاک کی طرف لے جاسکتا ہے۔
یاد رہے معاشی تعلقات کی بنیاد محض معاشی مفاد کبھی نہیں ہونی چاہیے بلکہ حلال اور مباح تجارت و معیشت کی ترقی اور حرام سرمایہ دارانہ استحصالی معیشت سے نجات کی بنیاد پر مسلم دنیا کا اتحاد یورپی معاشی اتحاد سے زیادہ حقیقی، پایدار اور باہمی منفعت کا حامل ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد اخوت، خوفِ خدا اور بھلائی میں تعاون اور برائی کے خلاف اتحاد پر ہوگی۔ آج جب امریکا کے معاشی، سیاسی اور اخلاقی زوال کی پیشن گوئی خود امریکی ماہرین علومِ عمرانیات و معاشیات کر رہے ہیں، مسلم قیادت کے لیے معاشی خودانحصاری کا حصول ایک اہم ضرورت کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس ضمن میں عملی اقدامات میںتاخیر مزید مسائل و مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔
مسلم قیادت ہی وہ واحد عنصر ہے جو پاکستان میں بڑھتی ہوئی عصبیت اور لسانی منافرت کے مظاہر کے خاتمے اور مختلف المسالک و مذاہب گروہوں کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرتوں کو دُور کرنے میں اپنا مثبت کردارادا کرسکتی ہے۔ کیا ایک دن میں ۸۰؍افراد کا ظالمانہ قتل تحریکی فکر سے وابستہ افراد کو اُس مثبت کردار کی دعوت نہیں دیتا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورئہ حجرات (۴۹:۹-۱۰) میں فرمایا گیا ہے کہ اگر دو مسلم گروہوں میں جھگڑا ہوجائے تو اپنے بھائیوں میں صلح کرائو، اگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوں تو تحقیق کرنے کے بعد دونوں میں سے جو ظالم ہو اس کے خلاف مظلوم کا ساتھ دو، اور جب وہ ظلم سے باز آجائیں تو اپنا ہاتھ روک کردلوں کو جوڑتے ہوئے اخوت پیدا کرنے اور عدل کے رویے پر عامل ہونے کی کوشش کرو۔
یمن میں خواتین نے جمعہ کے اجتماع میں سڑکوں پر مساجد کے باہر نماز قائم کرکے، اپنے غم و غصے اور احتجاج کا اظہار کیا۔ یہ ایک پُرامن طریقہ ہے جو عوام کو متحرک کرنے اور انھیں مسائل کے حل کے لیے متحد کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہم لگے بندھے انداز سے ہٹ کر سوچنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم اس دائرے کوتوڑنے کی شعوری کوشش کرسکتے ہیں جس میں مفاد پرست سیاست دان عصبیتوں کو ہوا دے کر، بعض اوقات امن عامہ کو خراب کرکے، اور بعض اوقات محلاتی سازشوں کے ذریعے فوج یا سیاسی جماعتوں میں وقتی اتحاد پیدا کرکے اپنا مطلب پورا کرتے رہے ہیں۔ یہ عمل ایک تسلسل سے ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ مسلم دنیا کے انقلابات خصوصی طور پر پیغام رسانی کے ذریعے انقلاب کے طریقے کو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے ایک صحت مند، اسلامی تبدیلی کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
مسلم قیادت کو لیبیا، یمن، اور بحرین کے واقعات دعوت دیتے ہیں کہ وہ لگے بندھے انداز سے ہٹ کر غور کرے اور عوامی مسائل و مشکلات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کے لحاظ سے ایسی حکمت عملی وضع کرے جو اُمت کو مکڑی کے جالے سے آزاد ہونے، اپنے پائوں پر کھڑے ہونے، اور تحریکاتِ اسلامی کے نصب العین، یعنی رضاے الٰہی کے حصول میں کامیابی سے ہم کنار کرسکے۔
مغربی ابلاغ میں ’عرب بہار‘ (Arab Spring) کا ذکر ۲۰۱۱ء کے آغاز سے اُبھرنے والی انقلابی تحریک کے حوالے سے مسلسل کیا جا رہا ہے۔ تیونس کے چنبلی یا سفید انقلاب اور اس کے متوازی مصری انقلاب نے اردگرد کے مسلم ممالک میں ایک نئی فضا پیدا کردی جس میں یمن، بحرین، لیبیا اور شام دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ شام کی صورت حال دیگر ممالک کے تناظر میں خاصی پیچیدہ ہے۔ اختصار کے پیش نظر ہم صرف پانچ نکات پر بات کریں گے۔
کسی بھی ملک میں انقلابی صورت حال اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے اپنے شہری صورت حال کے پیش نظر پیش قدمی کریں لیکن مسلم دنیا میں خصوصاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیل اور دیگر ذخائر کا پایا جانا مغربی سامراجیوں کی توجہ اور دل چسپی کا مستقبل سبب رہا ہے، چنانچہ شام کے حوالے سے امریکی کردار بہت پرانا ہے۔ ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۹ء کے درمیان امریکی حکومت نے حسبِ عادت عوام کو ’جمہوریت‘ کا تحفہ دینے کے بہانے دخل اندازی کا آغاز کیا۔ چنانچہ برطانوی اور امریکی خفیہ اداروں نے مشترکہ طور پر بادشاہت کا تختہ اُلٹنے کی سازش میں شرکت کی اور حالات کو بد سے بد تر کی طرف لے جانے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی دوران ۱۹۵۳ء میں دونوں اداروں نے وزیراعظم مصدق کے خلاف ایران میں کھل کر مالی اور افرادی قوت کا استعمال کیا۔
ـموجودہ صورت حال میں امریکا دمشق کے انسانی حقوق کے مرکز صَبا، جس کا براہِ راست تعلق (U.S. National Endowment for Democracy) سے ہے، اور دیگر اداروں، مثلاً ڈیموکریسی کونسل اور انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے کھلے عام مالی امداد دی جارہی ہے اور سیاسی کارکنوں اور عسکری گروہوں کی تربیت کا کام کیا جا رہا ہے۔ امریکا کی یہ دوعملی کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ جہاں یہ آمروں، فوجی ڈکٹیٹروں کی پشت پناہی میں سب سے آگے ہے وہیں ’جمہوریت‘ کے نام پر سیاسی خلفشار پیدا کر کے اور ملک میں خانہ جنگی پیدا کرکے براہِ راست اقوام متحدہ یا اپنی فوجی مداخلت کے لیے فضا تیار کرنا اس کی حکمت عملی کا ایک ستون ہے۔ یہ شکل مکمل طور پر شام میں پائی جارہی ہے۔
دوسرا اہم پہلو شام میں شیعہ اور سُنّی اختلافات کے ذریعے صورت حال کو نازک بنانا ہے۔ اس میں نہ صرف امریکا اور اسرائیل بلکہ ایران اور عراق کی پالیسیوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ چنانچہ شام نے عراق میں شیعوں کی حمایت کے ذریعے مالکی کی حکومت کی حمایت اور فوجی امداد کے ذریعے عراق میں شیعہ اقتدار کے قیام میں سرگرمی سے حصہ لیا جس کے نتیجے میں نہ صرف شام کی سُنّی آبادی بلکہ اردگرد کے ممالک خصوصاً سعودی عرب اور خلیج کے امرا نے ردعمل کے طور پر سنیوں کی حمایت میں اپنی بھلائی محسوس کی۔ اس سلسلے میں الجزیرہ کا کردار غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔ خلیجی ممالک نے شام کو ۲۰ ملین ڈالر کی امداد کی پیش کش اسی غرض سے کی ہے۔
تیسری جانب ابوموسیٰ الزرقاوی کی فکر رکھنے والے گروہوں نے جن کی تعداد اچھی خاصی ہے اور جو عراق کی جنگ میں حصہ لے چکے تھے، شام کی سُنّی آبادی کے تحفظ کے لیے ملک گیر مہم شروع کی جس میں بیرونِ ملک کے سُنّی عناصر نے جنھیں مغربی ابلاغ عامہ ’سلفی‘ کے لقب سے یاد کرتا ہے، حصہ لیا اور اس وقت ان کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ اصلاً بلدالشام جو جغرافیائی طور پر لبنان، شام، فلسطین پر مبنی تھا، اس کی آزادی ہونی چاہیے کیونکہ اس خطے پر اب شیعہ بلکہ علوی اقتدار ہے، جو خود معروف شیعہ مذہب سے کٹا ہوا ایک فرقہ ہے۔ اسد اور اس کے حامی جن کا تعلق علوی فرقے سے تمام کلیدی مناصب پر قابض ہیں۔
چوتھی جانب یورپی ممالک خصوصاً فرانس یہ چاہتا ہے کہ ملک میں انتشار میںاضافہ ہو اور اس طرح اسرائیل کو جو خطرہ شام یا ایران سے ہوسکتا ہے اس میں کمی واقع ہو اور اسرائیل کی دفاعی قوت میں اضافے کا باعث ہو۔
پانچواں پہلو تحریکِ اسلامی کے حوالے سے خصوصی طور پر قابلِ غور ہے۔ شیخ یوسف قرضاوی جو نہ صرف ایک اعلیٰ درجے کے عالم اور فقیہ ہیں، ان کا اخوان المسلمون سے تعلق ان کی ہربات کو براہِ راست یا بالواسطہ مشرق وسطیٰ کی تحریک اسلامی سے منسلک کردیتا ہے۔ انھوں نے اپنے بعض بیانات میں شدت سے بشارالاسد کی حکومت کی مخالفت کا اظہار کیا ہے، جب کہ شام کے بعض دینی عناصر بشارالاسد کے واضح شیعہ طرزِعمل اور سُنّیوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کے باوجود یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اسد کے جانے کے بعد اس کے جانشین اس سے بہتر نہیں ہوں گے۔
ان حالات میں مسلم قیادت کے لیے غور کرنے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سیاسی انتشار و انقلاب کی اس فضا میں کیا وہ اپنا وزن کسی ایک فریق کی طرف ڈال کر کوئی فوری ہدف حاصل کریں یا اس دورِ فتنہ میں اپنا الگ تشخص برقرار رکھتے ہوئے قیادت اور معاشرے کی اصلاح کے طویل المیعاد ہدف کے لیے کام کریں۔ یہ سوال غالباً صرف شام کے لیے نہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک میں بھی دینی قیادت کے لیے ایک کلیدی سوال ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ شدید ہے۔