پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


۱۹۷۹ء میں ایران کا اسلامی انقلاب کئی پہلوئوں سے امت مسلمہ اور خصوصاً اسلام کی تحریکی فکر رکھنے والے افراد کے لیے نفاذِ اسلام کی ایک نوید بن کر اُبھرا۔تاریخی نقطہ نظر سے علاماتی (symbolic)خلافت عثمانیہ کے زوال سے جو دَور شروع ہوا‘ اس میں امت مسلمہ اپنے مستقبل اور اختیار و قوت کے دوبارہ حصول کے لیے مسلسل سرگرداں رہی۔ چالیس کی دہائی سے مسلم ممالک میں سیاسی آزادی کا دَور شروع ہوا اور یہ امید بندھی کہ پاکستان‘ انڈونیشیااورشرق ا وسط کے بہت سے ممالک‘ سیاسی آزادی کے ساتھ ثقافتی اور نظریاتی آزادی بھی حاصل کر لیں گے‘ لیکن یہ امیدیں بڑی حد تک ناتمام رہیں۔ اس پس منظر میں ایرانی انقلاب اسلامی قوتوں کے لیے غیر معمولی طور پر اپنی جدوجہد پر اعتماد میں اضافہ کا باعث بنا۔ تحریکات اسلامی کے قائدین نے نہ صرف ذاتی بلکہ اجتماعی طور پر ایران میں طاغوتی ملوکیت کے خاتمہ اور اسلامی نظام کے قیام کے عزم کو خوش آمدید کہتے ہوئے نمایندہ افراد کے وفد کی شکل میں تہران جا کر امام خمینی کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ یورپ اور امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ایک غیر اسلامی معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں‘ اسلامی انقلاب کی کھل کر حمایت کی۔

یہ انقلاب ان قوتوں کے لیے سخت تشویش کا باعث بنا جو ایران کو اپنی بین الاقوامی سیاست کا سب سے زیادہ مستحکم ستون سمجھتے تھے۔ یورپ و امریکہ کے بیشتر ممالک نے اسے لادینی جمہوریت‘ اباحیت اور مغرب زدگی کے لیے ایک’’بنیاد پرست‘‘ خطرہ قرار دیتے ہوئے پورے خطے کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنی شروع کی۔ اسی دوران ایرانی طلبہ کی جانب سے (پاسدارانِ انقلاب کے تعاون سے) امریکی سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنانے کے واقعے نے ایران کے خلاف امریکی جذبات کو مشتعل کرنے اور ایران میں امریکہ

کے خلاف نفرت اور غصہ کو بھڑکانے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ممکن ہے کہ یہ واقعہ بعض قوتوں کے لیے ایک منطقی ضرورت ہو لیکن اس ایک واقعہ کے اثرات معاشی‘ سیاسی اور جذباتی سطح پر ایران کے حوالے سے پورے عالم اسلام پر پڑے۔ اس مفروضہ کو حقیقت مانتے ہوئے کہ اسلام اور مغربی سامراجی طاقتوں کے درمیان کوئی مکالمہ اور تبادلہ خیال‘ اظہار قوت کے علاوہ نہیں ہو سکتا‘ نہ صرف ایران بلکہ دیگر مسلم ممالک کے خلاف بھی معاشی اور سیاسی پابندیوں کا حربہ استعمال کیا گیا۔

اس حکمت عملی کا ردعمل واضح تھا۔ چنانچہ ہر دو جانب سے زبانی جنگ اور موقع ملنے پر ایک دوسرے کو زِک پہنچانے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس دوران میں نہ صرف مغربی سامراج بلکہ خود ایران میں زمینی حقائق کے پیش نظر ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے پر بھی غور ہوتا رہا۔ داخلی حالات نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ یہ عمل سرعت سے ہو‘ لیکن نئی صدی کے آغاز پر صدر خاتمی کی ایرانی قیادت نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے اور بڑے ’’شیاطین‘‘ کے ساتھ بھی مکالمہ کو ممکن قرار دیتے ہوئے اس کے آغاز کی طرف پیش قدمی کا اعلان کیا۔

مغربی سامراج اور اہل فکر نے بھی اس دوران اپنے موقف پر واضح نظرثانی کی کوشش کی۔ چنانچہ ایران کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’ماضی کی تلخ یادوں کو دفن کیا جائے اور اگر ایران نئی صدی میں کوئی تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو عالم گیریت (globalization)کی حقیقت کو مانتے ہوئے اپنے رویے میں تبدیلی کرے‘ نعروں کی نفسیات سے اپنے آپ کو آزاد کرے‘ اپنے تیل کے ذخائر پر بے جا اعتماد و فخر پر نظرثانی کرے‘ اپنے عوام کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مغرب کے ساتھ تجارتی تعاون پر غور کرے اور خاص طور پر خود پیدا کردہ اندرونی معاشی اضمحلال کو کسی بیرونی ’’شیطان‘‘ کے سرمنڈھنے کی کوشش ترک کرے‘‘۔

مغربی پالیسی سازوں کا کہنا یہ ہے کہ تیل فروخت کرنے والی اقوام کو تیل خریدنے والی اقوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہوگا اور ]نام نہاد[ جدید معاشی نظام (N.E.O)میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر بعض بنیادی سمجھوتے (adjustment)کرنے ہوں گے۔

ابھی حال ہی میں ایران کی وزارت خارجہ کے زیر اہتمام تہران میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ایران کے پالیسی ساز مغربی مفکرین کے ان خیالات کو تحمل اور صبر کے ساتھ سننے کے بعد ایک نسبتاً زیادہ عملی(pragmatic) حکمت عملی وضع کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اسلامی فقہ کا ایک مستقل مضمون سیاست شرعیہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بدلتے حالات میں شریعت کے ابدی‘ کلی اور جامع اصولوں کی مددسے کس طرح ایک نئی صورت حال کا حل تلاش کیا جائے۔ مصلحت عامہ کا اصول بھی (جسے مصالح مرسلہ بھی کہا جاتا ہے) وسیع تر حکمت کے پیش نظر‘ شریعت کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے‘ ایک صورت حال کا حل تلاش کرنے میں مدد کرتا ہے۔

بہ ایں ہمہ اس طرح کی صورت حال میں چند بنیادی سوالات زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اولاً ایک نظریاتی انقلاب کی مدعی جماعت کے لیے اصل اہمیت طویل المیعاد ہدف و حکمت عملی کی ہے یا قلیل المیعاد اور فوری حصول منفعت کی؟ اور کسی فوری اور قلیل المیعاد مقصد کے حصول کے لیے کس حد تک اصل ہدف کو وقتی طور پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ ثانیاً عملیت پسندی (pragmatism) کی سرحدیں کہاں تک ہیں؟ ایک حدیث نبویؐ میں جہاں حلال اور حرام کے بیّن ہونے کے ساتھ ساتھ مشابہات سے اعراض کا حکم دیا گیا ہے‘ اس کی روشنی میں ’’اضطرار‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کی حدود کا تعین کس طرح کیا جائے؟ ثالثاً مادی طور پر ایک مستحکم فریق کے ساتھ مادی طور پر ایک غیر مستحکم فریق کے مکالمے اور احترام مفادات کی شکل کیا ہوگی؟

یہ امر بھی غوروفکر کا متقاضی ہے کہ عالم گیریت (globalization)اور یک قطبی (unipolar) قوت ہونے کی دعوے دار ریاست کے ساتھ معاشی تعلقات کا تانا بانا کیا صرف معیشت کے میدان تک محدود رہے گا یا غالب معاشی قوت کی ثقافت‘ اس کی اقدار حیات‘ اس کا طرزِ زندگی اور مقصد حیات‘ محسوس اور غیر محسوس اثرات بھی معاشی سرگرمی اور تعلقات کے ہمراہ سرحدیں پار کر کے کم ترقی یافتہ ممالک پر اثرانداز ہوں گے؟ حقیقت واقعی یوں ہے کہ ابلاغ عامہ کے انقلاب نے جغرافیائی سرحدوں کو اضافی بنا دیا ہے اور ثقافتی اثرات‘ ایسے مقامات پر بھی جن کے نظریاتی ثقل کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے‘ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ایک معمولی مشاہدہ جو میں نے خود کانفرنس کے دوران کیا ‘یہ تھا کہ بعض ایرانی خواتین روایتی ’’مانتو‘‘ (سیاہ چادر) تو لازماً استعمال کر رہی تھیں‘ جس سے وہ تمام شرعی تقاضے پورے ہو رہے تھے‘ جو ایک مسلمان خاتون کی پہچان کہے جا سکتے ہیں‘ لیکن گذشتہ دس سال کے عرصے میں اس چادر کی پیمائش میں قابل محسوس فرق واقع  ہوا ہے۔ انقلاب کے فوراً بعد یہ ٹخنوں بلکہ پائوں تک تھی جب کہ آج یہ نصف پنڈلی پر آگئی ہے جس کی بنا پرجینز جو پہلے مکمل طور پر چھپ جاتی تھی‘ غیر ثقافت کے اثرات کی چغلی کرتی نظر آتی ہے (یہاں صرف اس پہلو کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ شدت جو بہرصورت دین کا جزو پہلے بھی نہ تھی اب وسعت میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے اور اس بنا پر ان طبقات کی پریشانی‘ جو دین کو غلو اور شدت ہی کے تناظر میں درست سمجھتے ہیں‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں)۔

ایرانی طرزِ عمل اور طرزِفکر میں محسوس یا غیر محسوس طور پر سامنے آنے والی اس تبدیلی کے مثبت اور  منفی اثرات نہ صرف ایران بلکہ ان تمام افراد پر پڑیں گے جو ایران کے انقلاب کو ایک شیعی انقلاب کے تصور سے بلند ہو کر عالمی تناظر میں اسلام اور طاغوت کی کش مکش کا مظہر سمجھتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ قدامت پسند لیکن بااختیار حلقوں میں ایسی کسی تبدیلی کی مضبوط مخالفت بھی موجود ہے۔ خود تحریکات اسلامی کے لیے بھی یہ صورت حال لمحہ فکریہ فراہم کرے گی کہ نظریے سے مکمل وفاداری اور اصولیت کے باوجود وہ کون سے دائرے ہیں جہاں ’’عملیت‘‘ اختیار کرنی ہوگی اور کس طرح ایک ایسی حکمت عملی وضع کی جائے گی جو تحریکات اسلامی کی نظریاتی اساس اور امتیاز کو تحلیل کیے بغیر ان کے دور رس اہداف کے حصول میں مددگار ہو سکے۔

اسلام کا مزاج اصلاً دعوتی اور اصلاحی ہے‘ اس لیے مکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے سخت ترین دشمن سے بھی مکالمے کے ذریعہ تعلق پیدا کرنا فرائض دعوت میں شامل ہے۔ اس کی واضح مثال اللہ تعالیٰ کا اپنے سچّے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہنا ہے کہ جائو اور فرعون کو دعوت اسلام دو‘ وہ حد سے گزر گیا ہے‘ اور یہ بات بھی واضح فرما دی تھی کہ اس مکالمے کا مزاج اور انداز متشدد نہ ہو‘ بلکہ ’’قول لیّن‘‘ انتہائی مناسب اور نرم انداز گفتگو اختیار کیا جائے تاکہ وہ ہدایت کی طرف آ سکے۔ گویا شرک اور طاغوت سے نفرت تو کی جائے گی لیکن مشرک اور طاغی کو مسلسل مکالمے کے ذریعے حق کی دعوت دی جاتی رہے گی۔ یہاں نفرت شرک سے ہے ‘مشرک سے نہیں۔

مغرب سے جس مکالمہ کی طرف صدر خاتمی نے اپنی متعدد گفتگوئوں میں اشارہ کیا ہے ہمیں اس کی اخلاقیات کے تعین کے لیے بھرپور طور پر‘ قرآن و حدیث سے مدد لینی ہوگی اور واضح اصول اور نظریاتی بنیادوں پر اس کے خدوخال کا تعین کرنا ہوگا۔ اسلام کا دعوتی مزاج مطالبہ کرتا ہے کہ اسلامی فکروعقیدہ‘ ثقافت اور معاشرت کی ترویج و تحفظ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے‘ ہاں فکر وعقیدہ کی مکمل آزادی کے ساتھ دیگر اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ پراعتماد طور پر مکالمہ اور تبادلہ خیالات اسلامی دعوت کے منشور کا لازمی جزو ہے۔ چنانچہ اہل کتاب کے حوالہ سے قرآنی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ آئو اے اہل کتاب ‘ہم کیوں نہ ایک مشترک بنیاد سے اس مکالمہ کا آغاز کریں اور دیکھیں کہ کن معاملات میں تعاون ہو سکتا ہے اور کن معاملات میں اختلاف کے باوجود ایک احترام کا تعلق قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس مکالمہ کو نظری سطح سے آگے بڑھاتے ہوئے معاشرتی سطح پر قیامت تک کے لیے عملاً قائم کر دیا گیا اور نہ صرف اہل کتاب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کو‘ جو مکالمہ اور تبادلہ خیالات کا ایک موثر ذریعہ ہے‘ جائز قرار دیا گیا بلکہ ان کے ساتھ معاشرتی تعلق‘ جس میں سب سے زیادہ قریبی تعلق شوہر اور بیوی میں ہو سکتا ہے‘ ممکن قرار دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان مرد کو کسی اہل کتاب خاتون سے نکاح کی اجازت اس جانب ایک مثبت اور عملی اقدام کی حیثیت رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور عقیدہ کے تحفظ کے لیے ایک مومنہ کے کسی اہل کتاب مرد سے نکاح کی ممانعت بھی کر دی گئی ہے۔

ہمیں اپنے تجزیہ میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ میں اس مکالمے کے لیے کون سے اصول طے فرمائے تھے۔ بالخصوص انسانی حقوق اور معاملات کے حوالے سے میثاق مدینہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں انسانی جان اور عزت کا احترام ایک قدر مشترک ہوگا۔ نہ صرف یہ بلکہ بین الانسانی مساوات کے اصول کی بھی پیروی کی جائے گی۔ قرآن کریم  نے یہ بات بھی متعین کر دی ہے کہ مقامات عبادت خواہ وہ مسجد ہو‘ کلیسا ہو یا سیناگاگ اور ٹمپل‘ امت مسلمہ ان کے تحفظ اور آزادی کے لیے ہمیشہ اپنے وسائل کا استعمال کرے گی۔ اس عمومی پس منظر میں دوسری جانب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ عالم گیریت کے نام پر کس طرح مغربی سامراجی طاقتیں اپنی پسند کی معیشت‘ معاشرت اور ثقافت کو تمام انسانوں کے لیے معیار قرار دیتے ہوئے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔

مزید یہ کہ بادی النظر میں عالم گیریت کے نام پر جو تہذیب و ثقافت اور معاشرت دیگر ممالک پر برضا و رغبت یا بالجبر مسلط کی جا رہی ہے‘ کیا یہ انسانی حقوق پر ایک حملہ نہیں ہے؟ ایک بامعنی ثقافتی مکالمے کے آغاز سے پہلے ہمیں اس ثقافتی یلغار کی گرفت اور اس کے وسیع اثرات و مضمرات کا اندازہ کرنا ہوگا۔ یہ اور دیگر متعلقہ پہلو ہمیں مزید غوروفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔