اگر ایک ہی شے کو ایک شخص سیاہ کہے، دوسرا سپید، تیسرا زرد اور چوتھا سرخ تو ممکن نہیں ہے کہ یہ چاروں معاً سچے ہوں۔ اگر ایک ہی فعل کو ایک بُرا کہتا ہے اور دوسرا اچھا، ایک اس سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کا حکم دیتا ہے تو کسی طرح ممکن نہیں کہ دونوں کی رائے صحیح ہو، دونوں برحق ہوں اور دونوں امر و نہی کا کھلا ہوا اختلاف رکھنے کے باوجود اپنے حکم میں درست ہوں۔ جو شخص ایسے متضاد اقوال کی تصدیق کرتا ہے اور ایسے متضاد احکام کو برحق قرار دیتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہوگا۔ یا تو وہ سب کو خوش کرنا چاہتا ہے، یا اس نے اس مسئلے پر سرے سے غور ہی نہیں کیا اور بے سوچے سمجھے رائے ظاہر کر دی۔ بہرحال دونوں صورتیں عقل اور صداقت کے خلاف ہیں اور کسی دانش مند اور حق پسند انسان کے لیے یہ زیبا نہیں کہ کسی وجہ سے بھی مختلف الخیال لوگوں کی تصدیق کرے۔
عموماً لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ دس مختلف خیالات رکھنے والے آدمیوں کے مختلف اور متضاد خیالات کو درست قرار دینا ’رواداری‘ ہے۔ حالانکہ یہ دراصل ’رواداری‘ نہیں، عین منافقت ہے۔ ’رواداری‘ کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ان کو ہم برداشت کریں، ان کے جذبات کا لحاظ کرکے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو، اور انھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس قسم کا تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے، بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں، اور خود ایک دستور العمل کے پیرو ہوتے ہوئے دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوں سے کہیں کہ ’آپ سب حضرات برحق ہیں‘، تو اس منافقانہ اظہار رائے کو کسی طرح ’رواداری‘ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔
صحیح رواداری وہ ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو دی ہے۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ:
یہی وہ ’رواداری‘ ہے، جو ایک حق پرست، صداقت پسند اور سلیم الطبع انسان اختیار کرسکتا ہے۔ وہ جس مسلک کو صحیح سمجھتا ہے اس پر سختی کے ساتھ قائم رہے گا، اپنے عقیدے کا صاف صاف اظہار و اعلان کرے گا، دوسروں کو اس عقیدے کی طرف دعوت بھی دےگا، مگر کسی کی دل آزاری نہ کرے گا، کسی سے بدکلامی نہ کرے گا، کسی کے معتقدات پر حملہ نہ کرے گا، کسی کی عبادات اور اعمال میں مزاحمت نہ کرے گا، کسی کو زبردستی اپنے مسلک پر لانے کی کوشش نہ کرے گا۔ باقی رہا حق کو حق جانتے ہوئے حق نہ کہنا، یا باطل کو باطل سمجھتے ہوئے حق کہہ دینا، تو یہ ہرگز کسی سچے انسان کا فعل نہیں ہوسکتا۔ اور خصوصاً لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرنا تو نہایت مکروہ قسم کی خوشامد ہے۔ ایسی خوشامد نہ صرف اخلاقی حیثیت سے ذلیل ہے بلکہ اس مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہوتی جس کے لیے انسان اپنے آپ کو اس پست منزل تک گراتا ہے۔ قرآن کا صاف اور سچا فیصلہ ہے کہ:
’جھوٹی رواداری‘ کا اظہار تو خیر سیاسی اغراض کے لیے کیا جاتا ہے اور اس دَور میں یہ ’جائز‘ ہے۔ کیونکہ مغربی ارباب ریاست کی کوششوں سے مدت ہوئی کہ اخلاق اور سیاست کے درمیان مفارقت کرا دی گئی ہے۔ لیکن افسوس کے قابل ان ’محققین‘ کا حال ہے، جو عقل کو سوچنے اور فکر کو حرکت کرنے کی زحمت دیئے بغیر اپنی مذہبی تحقیقات کا یہ عجیب نظریہ ظاہر فرمایا کرتے ہیں کہ ’’تمام مذاہب برحق ہیں‘‘۔ یہ جملہ اکثر ان لوگوں کی زبان سے سنا جاتا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ’ہم کوئی بات زبان سے نہیں نکالتے اور نہ تسلیم کرتے ہیں جب تک کہ اس کو میزانِ عقل میں تول نہ لیں‘۔ لیکن میزانِ عقل کا حال یہ ہے کہ وہ ان کی اس تحقیقِ انیق کو پرِ کاہ کے برابر بھی وزن دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ جن مختلف مذاہب کو معاً برحق ہونے کی سند عطا کی جاتی ہے، ان کے اصول میں سیاہ اور سفید کا کھلا ہوا فرق موجود ہے۔ ایک کہتا ہے کہ ’خدا ایک ہے‘۔ دوسرا کہتا ہے ’دو ہیں‘۔ تیسرا کہتا ہے ’تین ہیں‘۔ چوتھا کہتا ہے ’بہت سی قوتیں خدائی میں شریک ہیں‘۔ پانچویں کی تعلیم میں سرے سے خدا کا تصور ہی موجود نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پانچوں سچے ہوں؟
ایک انسان کو خدائی کے مقام میں لے جاتا ہے۔ دوسرا خدا کو کھینچ کر انسانوں کے بیچ میں اتار لاتا ہے۔ تیسرا انسان کو عبد اور خدا کو معبود قرار دیتا ہے۔ چوتھا عبد اور معبود دونوں کے تخیل سے خالی ہے۔ کیا صداقت میں ان چاروں کے لیے اجتماع کی گنجایش نکل سکتی ہے؟ ایک نجات کو صرف عمل پر موقوف رکھتا ہے۔ دوسرا نجات کے لیے صرف ایمان کو کافی سمجھتا ہے۔ تیسرا ایمان اور عمل دونوں کو نجات کے لیے شرط قرار دیتا ہے۔ کیا یہ تینوں بیک وقت صحیح ہوسکتے ہیں؟ ایک نجات کی راہ دنیا اور اس کی زندگی سے باہر نکالتا ہے۔ دوسرے کے نزدیک نجات کا راستہ دنیا اور اس کی زندگی کے اندر سے گزرتا ہے۔ کیا یہ دونوں راستے یکساں درست ہوسکتے ہیں؟ ایسے متضاد امور کو صداقت کی سند عطا کرنے والی شے کا نام اگر عقل ہے تو پھر جمع بین الاضداد کو محال قرار دینے والی شے کا نام کچھ اور ہونا چاہیے۔
مذاہب میں جو تصورات مشترک نظر آتے ہیں، افسوس ہے کہ سطحی نظر رکھنے والے ان کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے اور محض سطح پر نگاہ ڈال کر چند غلط مقدمات کو غلط طریقے سے ترتیب دے کر غلط نتائج نکال لیتے ہیں۔ حالانکہ دراصل یہ اشتراک ایک اہم حقیقت کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ پتہ دیتا ہے کہ درحقیقت یہ تمام مذاہب ایک ہی اصل سے نکلے ہیں۔ ان تمام تصورات اور تعلیمات کا مبدأ ایک ہے۔ کوئی ایک ذریعۂ علم ہے جس نے انسان کو مختلف ممالک، مختلف اوقات اور مختلف زبانوں میں، ان مشترک صداقتوں سے روشناس کیا۔ کوئی ایک بصیرت ہے جو مشرق و مغرب کا بُعد رکھنے والے اور سیکڑوں ہزاروں برس کا فصل رکھنے والے لوگوں کو حاصل ہوئی، اور اس بصیرت سے وہ سب کے سب ایک ہی قسم کے نتائج تک پہنچے۔ لیکن مذاہب جب اپنی اصل اور اپنے مبدأ سے دُور ہوگئے تو ان میں کچھ خارجی تصورات اور اجنبی معتقدات و تعلیمات نے راہ پالی، اور چونکہ یہ بعد والی چیزیں اس مشترک مبدأ اور مشترک بصیرت سے ماخوذ نہ تھیں، بلکہ مختلف طبائع، مختلف رجحانات اور مختلف علمی و عقلی مراتب رکھنے والے انسانوں کی طبع زاد تھیں، اس لیے انھوں نے ان مشترک بنیادوں پر جو عمارتیں تعمیر کیں، وہ اپنے نقشوں اور اپنی وضع و ہیئت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔
پس، حق اور صدق کا اگر حکم لگایا جاسکتا ہے تو اس اصل مشترک پر لگایا جا سکتا ہے جو تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے نہ کہ ان مختلف تفصیلی صورتوں اور ہئیتوں پر، جن میں موجودہ مذاہب پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ حق ایک جنس بسیط ہے، اس کے افراد میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ہم سیاہ اور سپید، سرخ اور سبز پر لفظ ’رنگ‘ کا اطلاق یکسانی کے ساتھ کرتے ہیں، اس طرح خدا ایک ہے اور خدا دو ہیں اور خدا کروڑوں ہیں کے مختلف احکام پر لفظ ’حق‘ کا اطلاق نہیں کرسکتے۔
یہ بات کہ تمام مذاہب کی اصل ایک ہے، اور ایک صداقت ہے جو مختلف قوموں پر مختلف زمانوں میں ظاہر کی گئی، قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اس کتاب میں بار بار کہا گیا ہے کہ ہر قوم میں خدا کے رسول اور پیغامبر آئے ہیں: وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا (النحل۱۶:۳۶)۔ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر۳۵:۲۴)۔یہ تمام انبیاء و رُسُل ایک سرچشمے سے صداقت کا پیغام حاصل کرتے تھے:جَآئُ وْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ (اٰل عمرٰن۳:۱۸۴)۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ان سب کا پیغام ایک ہی تھا، اور وہ یہ تھا: اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶) ’’خدا کی بندگی کرو اور تمام باطل معبودوں کو چھوڑ دو‘‘۔سب پر خدا کی طرف سے ایک ہی وحی آئی تھی:
ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو کچھ ہم پیش کر رہے ہیں، وہ ہماری اپنی عقل و فکر کا نتیجہ ہے، بلکہ سب یہی کہتے رہے کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے:
پھر ان میں سے کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ تم ہماری بندگی کرو، بلکہ سب یہی کہتے رہے کہ خدا پرست بن جائو:
یہ تھی وہ مشترک تعلیم جو تمام قوموں کو ان کے مذہبی رہنمائوں نے دی تھی۔
قرآن مجید کا بیان ہے کہ اوّل اوّل تمام انسان ایک ہی امت تھے، یعنی ایک خالص انسانی فطری حالت (State of Nature)میں تھے اور ان کے پاس خدا کی طرف سے راہِ راست کا علم آیا ہوا تھا۔(۲) پھر ان میں اختلاف ہوا، اور اختلاف اس وجہ سے ہوا کہ ان میں سے بعض لوگوں نے اپنی حد ِجائز سے گزرنے، اپنے فطری مرتبے سے زیادہ بلند مرتبہ حاصل کرنے، اور اپنے فطری حقوق سے بڑھ کر حقوق قائم کرنے کی کوشش کی۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء آنے شروع ہوئے تاکہ لوگوں کو حق کا صحیح علم دیں، اور ان کے درمیان اجتماعی عدل (Social Justice) قائم کریں۔ تمام انبیاء کا دنیا میں یہی مشن رہا ہے۔ جن لوگوں نے اس مشن کو قبول کیا اور نبی کے دیئے ہوئے علم کی ٹھیک ٹھیک پیروی کی، اور نبی کے بتائے ہوئے قانون کا اتباع کیا، صرف وہی حق پر ہیں اور باقی سب باطل پر ___وہ بھی باطل پر جنھوں نے نبی کے اتباع سے انکار کیا، اور وہ بھی باطل پر جنھوں نے نبی کی تعلیم کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال لیا:
یہ ’قرآن کا نظریۂ تاریخ‘ یا ’اخلاقی تعبیر تاریخ‘ (Moral Interpretation of History) ہے، جو تمدنی اختلافات کے معمے کی طرح مذہبی اختلافات کے معمے کو بھی نہایت تشفی بخش طریقے سے حل کر دیتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے پاس خدا کے نبی اسی لیے آتے رہے کہ جس فطری مسلک حیات سے وہ اپنی ’بغاوت‘ کے سبب ہٹ گئی تھیں، اسی کی طرف پھر انھیں لے جائیں اور انھیں حق اور عدل کے طریقے پر قائم کر دیں۔ مگر وہی بغاوت کا جذبہ جو ان کی گمراہی کا اصل سبب تھا، انھیں بار بار ہٹا کر پھر ٹیڑھے راستوں کی طرف لے جاتا رہا۔ پس، جو تھوڑے بہت صحیح تصورات اور اخلاق کے برحق اصول دنیا کی مختلف قوموں میں پائے جاتے ہیں، وہ سب انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کے وہ باقی ماندہ اثرات ہیں، جو اپنی ذاتی قوت کی وجہ سے قوموں کے اذہان اور ان کی زندگی میں جذب ہو کر رہ گئے۔
اس کے بعد قرآن جو دعویٰ پیش کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ جس ’’اسلام‘‘ کی طرف وہ بلا رہا ہے وہ وہی ’اصل دین‘ ہے، جس کو ابتدا سے تمام قوموں میں تمام انبیا علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوئی نرالا پیغام لے کر نہیں آئے ہیں، جو پہلے کبھی پیش نہ کیا گیا ہو: قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ(احقاف۴۶:۹) ’’اے نبیؐ! ان سے کہہ دوکہ میں کوئی نرالا پیغامبر نہیں ہوں‘‘، بلکہ آپ کا پیغام وہی ہے جو ہر نبی نے ہر قوم تک ہر زمانے میں پہنچایا ہے: اِنَّـآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَـمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِہٖ ج (النساء۴:۱۶۳ ) ’’ہم نے تمھاری طرف وہی پیغام وحی کیا ہے جو نوحؑ اور ان کے بعد کے نبیوں ؑ پر وحی کیا تھا‘‘۔
اس پیغام سے عرب، مصر، ایران، ہندستان، چین، جاپان، امریکا، یورپ، افریقا، غرض کوئی سرزمین محروم نہیں رکھی گئی۔ سب جگہ اللہ کے رسولؑ، اللہ کی کتابیں لے کر آئے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ بدھ، کرشن، رام، کنفیوشس، زردشت، مانی، سقراط، فیثاغورث وغیرہم انھی رسولوں میں سے ہوں۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اور ان دوسرے پیشوائوں میں فرق یہ ہے کہ ان کی اصل تعلیمات تولوگوں کے اختلافات میں گم ہوگئیں، مگر آنحضرتؐ نے جو کچھ پیش فرمایا وہ اصلی شکل میں محفوظ ہے۔
پس، حقیقت یہ ہے کہ ’اسلام‘ مذاہب میں سے ایک مذہب نہیں ہے بلکہ نوع انسانی کا اصل مذہب یہی ہے، اور باقی سب مذاہب اسی کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ مذاہب میں جو کچھ ’حق‘ اور ’صدق‘ پایا جاتا ہے، وہ اسی اصل اسلام کا بچا کھچا اثر ہے جو سب کے ہاں آیا تھا اور اختلافات میں گم کر دیا گیا۔ جس مذہب میں اس باقی ماندہ حق کی مقدار جتنی زیادہ ہے، اس میں اتنا ہی زیادہ ’اسلام‘ موجود ہے۔ رہے وہ اختلافات جو اصل ’اسلام‘ کے خلاف ہیں، تو یہ سب یقیناً باطل ہیں اور ان پر ’حق‘ کا حکم لگانا صریح ظلم ہے۔
بجائے اس کے کہ ہم اس جھوٹی رواداری کا مظاہرہ کریں، ہمیں تو اپنے تمام انسانی بھائیوں سے یہ کہنا چاہیے کہ ’’دوستو، براہ کرم تعصب اور تنگ نظری کو چھوڑ دو اور حق و باطل کی آمیزشوں پر جمے رہنے کے بجائے اس چیز کو قبول کرو، جو خالص اور بے آمیز حق ہے۔ حق کسی نسل یا قوم یا ملک کی موروثی جائیداد نہیں ہے، بلکہ تمام انسانیت کی مشترک میراث ہے۔ یہ میراث خداوند عالم کی طرف سے سب ملکوں اور قوموں اور نسلوں کو بانٹی گئی تھی۔ دوسروں نے اسے اگر گم کردیا اور اس کے ساتھ مخلوقات پرستی کے، ظلم و ناانصافی کے اور بے جا امتیازات کے زہر ملا لیے تو یہ ایک بدقسمتی تھی۔ ہماری اور تمھاری سب کی بدقسمتی تھی۔ کوئی وجہ نہیں کہ تم اس بدقسمتی کے ساتھ خواہ مخواہ چمٹے رہو صرف اس وجہ سے کہ تمھارے آبا و اجداد اس غلطی کے مرتکب ہوگئے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس میراث کو پاکر جوں کا توں پہنچا دیا اور اس کے اندر کسی مخلوق پرستی کا، کسی ظالمانہ اور غیر منصفانہ رسم و رواج کا اور کسی قسم کے بے جا امتیازات کا زہر شامل نہ ہوسکا، تو یہ ایک خوش قسمتی ہے، ہماری اور تمھاری اور سب نوع انسانی کی خوش قسمتی ہے۔ اس کا شکر ادا کرو اور اس سے فائدہ اٹھانے میں صرف اس لیے تامل نہ کرو کہ خدا کی یہ نعمت ایک عرب کے ذریعے سے تمھیں مل رہی ہے۔ حق تو اسی طرح کی عالمگیر نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جس طرح ہوا، پانی اور روشنی اس کی عالم گیر نعمتیں ہیں۔ پھر اگر ہوا سے تم محض اس لیے ناک بند نہیں کرلیتے ہو کہ وہ مشرق سے آرہی ہے، پانی کو تم اپنے حلق سے اتارنے میں صرف اس بنا پر تامل نہیں کرتے ہو کہ اس کا چشمہ فلاں سرزمین میں واقع ہے، اور روشنی سے فائدہ اٹھانے میں تم کو صرف اس وجہ سے کوئی تامل نہیں ہوتا ہے کہ وہ فلاں شخص کے چراغ سے نکل رہی ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ خالص حق کی جو نعمت تم کو محمدؐ عربی کے ذریعے سے مل رہی ہے اس کو لینے میں تم صرف اس لیے تامل کرو کہ اس کا پیش کرنے والا تمھاری سرزمین میں پیدا نہیں ہوا ہے‘۔[جون۱۹۳۴ء]
_______________
حواشی
(۱) ہروہ فعل جو حق کے خلاف ہو جھوٹ کی تعریف میں آجاتا ہے۔ ہر وہ جگہ جہاں مشرکانہ اعمال ہوتے ہوں یا جہاں مُلحد انہ خیالات ظاہر کیے جاتے ہوں، یا جہاں فحش اوربے حیائی کا ارتکاب ہوتا ہو، یا جہاں ظلم اورفسق کیا جاتا ہو، وہاںدراصل جھوٹ کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جہاں کسی انسان یا دوسری مخلوق کو خدا بناکر انسان اس کے آگے بندگی کرتا ہو، وہاں بھی جھوٹ کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ یہ جھوٹ کا وسیع مفہوم ہے اوراس جھوٹ کے گواہ نہ بننے سے مراد یہ ہے کہ مومن ایسے مقامات پر قصداً نہ جائے گا کہ ان افعال کو دیکھے اور ان کا شاہد بنے۔
(۲) یہ نکتہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ آج کل کے ’نظریۂ ارتقا‘ اورفلسفۂ تاریخ کے برعکس قرآنِ مجید کا بیان یہ ہے کہ زمین پر نوعِ انسانی کا آغاز جہالت کی تاریکی میں نہیں ہوا بلکہ خداداد علم کی روشنی میں ہوا تھا۔ خدا نے سب سے پہلے انسان، یعنی آدم علیہ السلام کو پیغمبر بنایا تھا اور ان کو الہام کےذریعے سے وہ علم دےدیا تھا جو زمین پر صحیح زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری تھا۔
(۳) آیت میں قرآن نے لفظ ’بغی‘ استعمال کیا ہے، جس کے معنی اپنی جائز حدسے گزرنے اور زیادتی اورسرکشی کرنے کے ہیں۔ قرآنِ مجید تمام اعتقادی گمراہیوں اوراجتماعی ظلم (Social Injustice) کی بنااس کوقراردیتا ہےکہ بعض انسانوں میں اپنی حد سے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، مثلاً بعض انسان دوسرے انسانوں کے خدا بن بیٹھتے ہیں اور ان سے اپنی بندگی کراتے ہیں۔ بعض خودتو خدا بننے کی ہمت نہیں رکھتے مگر کسی بُت یا خیالی دیوتا یا کسی قبر کے پُجاری یا مجاور بن جاتے ہیں اور ان معبودوں کے واسطے سے لوگوں پر اپنا اقتدار جماتے ہیں۔ بعض مذہبی عہدہ دار بن کر لوگوں کی فلاح و نجات کے ٹھیکے دار بنتے ہیں اور اس طرح برہمنیت اور پاپائیت وجود میں آتی ہے۔ بعض اپنی بہتر مالی حالت سے ناجائز فائدہ اُٹھاکر معاشی لوٹ کی مختلف صورتیں اختیار کرتے ہیں ۔ غرض یہ کہ انسان کو فطری حالت سے نکال کر اعتقادی اور سماجی حیثیات سے اختلاف میں مبتلاکرنے والی چیز دراصل یہی ’بغی‘ ہے۔
(۴) ’ترازو‘ سے مراد وہ کمال درجے کا متوازن (Well Balanced) نظامِ اجتماعی ہے، جو شریعت ِ الٰہی کی صورت میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے بھیجا گیا تاکہ انسانوں کے درمیان عدل قائم کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنے رسولوںؑ کے ذریعے جو تعلیمات اور ہدایات بھیجی ہیں، ایک مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ بے کم و کاست انھیں اختیارکرے، ان پر خود عمل کرے اور اللہ کے دوسرے بندوں تک انھیں پہنچائے۔ یہ عمل انفرادی طور سے بھی انجام دیا جاسکتا ہے اور اجتماعی طور سے بھی۔ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی میں اس کا جن انسانوں سے بھی سابقہ پیش آئے اور وہ اس ہدایت ِ ربانی سے محروم ہوں، انھیں اس سے باخبر کرے اور اپنے قول اور عمل سے ’حق‘ کی شہادت دے۔ مسلمانوں سے اجتماعی طور پر بھی مطلوب ہے کہ ان میں سے ایک یا ایک سے زائد گروہ ایسے ضرور رہنے چاہییں جو اس کام کو اپنا مشن بنالیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ اسے انجام دیں۔ قرآن و سنت کے بکثرت نصوص اس پر دلالت کرتے ہیں۔
اس دینی فریضے کی انجام دہی کے لیے بیسویں صدی عیسوی میں برصغیر کی مشہور دینی تحریک ’جماعت اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریک کے اکابر نے اس کام کی اہمیت، ضرورت اور وجوب پر قابلِ قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ اس کام کے واجب اور مطلوب ہونے پر قرآن و سنت کی متعدد تعبیرات دلالت کرتی ہیں، مثلاً دعوت، تبلیغ، وصیت، شہادتِ حق، امربالمعروف ونہی عن المنکر، انذار و تبشیر اور اقامت ِ دین وغیرہ۔
جماعت اسلامی نے مذکورہ بالا تعبیرات میں سے ’اقامت ِ دین‘ کو اپنے دستور میں شامل کیا ہے اور اسے اپنا نصب العین قرار دیا ہے۔ اس کے نزدیک:
’اقامت ِ دین‘ سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پور ے دین کی اقامت ہے خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہویا معیشت و معاشرت اورتمدن وسیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کوکسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے، اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اورسعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے،مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیرممکن نہیں ہے کہ دُنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اورحقیقی نصب العین وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔(دستور جماعت اسلامی، دفعہ ۴ (نصب العین)، ص ۱۴-۱۵)
جماعت اسلامی نے ’اقامت ِ دین‘ کی یہ تعبیر سورئہ شوریٰ کی درج ذیل آیت سے اخذ کی ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے، جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔
بعض حضرات جماعت اسلامی کے اس تصور پر مختلف اعتراضات کرتے ہیں اور چوں کہ جماعت کی اختیار کردہ تعبیر ’اقامت دین‘ سورئہ شوریٰ کی مذکورہ بالا آیت سے مستنبط ہے ، اس لیے ان کے بعض اعتراضات اس آیت کے سیاق میں بھی ہیں:
ان کا پہلااعتراض یہ ہے کہ ’’اس آیت میں دین قائم کرنے کا حکم پیغمبروں ؑ میں سے حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی ؑ کے ناموں کی صراحت سے دیا گیا ہے۔ اس لیے دین سے مراد صرف وہ چیزیں ہوسکتی ہیں، جو ان انبیاؑ کے درمیان مشترک ہیں، اس لیے وہ یہاں مراد نہیں ہوسکتیں‘‘۔
دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ’’ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ (م:۱۹۷۹ء) نے اس آیت کی جو تفسیر کی ہے، وہ جمہور مفسرین سے مختلف ہے۔ تمام مفسرین نے اس آیت میں ’دین‘ کو صرف ایمانیات تک محدود رکھا ہے، جب کہ مولانا مودودیؒ اس میں دین کے تمام احکام و جزئیات کو شامل کرتے ہیں‘‘۔
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ’’یہ آیت مکّی دور میں نازل ہوئی تھی، اس لیے اس کا اطلاق زیادہ سے زیادہ صرف ان احکامِ دین پر کیا جاسکتا ہے، جو اس وقت تک نازل ہوچکے تھے۔ دیگر احکام کو اس میں شامل نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ’’اقامت ِ دین کا حکم انفرادی طور پر ہے کہ ہرفرد اپنے طور سے دین پر عمل کرے۔ اس میں دوسروں کو دعوت دینے اور تبلیغ دین کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنے کا مفہوم نہیں پایا جاتا‘‘۔
بعض حضرات نے پانچواں نکتہ یہ اُبھارنے کی کوشش کی ہے کہ ’’قرآن سے احکامِ دین کے استنباط اور ان کے نفاذ کے لیے قرآن کی نزولی ترتیب کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے‘‘۔
آیندہ سطور میں ان اعتراضات کا جائزہ لیا جائے گا۔
سورئہ شوریٰ کی مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے آپؐ کے واسطے سے آپؐ کے پیروکاروں سے فرمایا ہے کہ میں نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم نوحؑ، ابراہیم ؑ، موسٰی اورعیسیٰ ؑ کو بھی دیا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طریقہ ان انبیاؑ کے درمیان مشترک ہے۔ اسی مضمون کی ایک آیت سورئہ انعام میں ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاؑ کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے:
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ ۰ۭ (انعام ۶:۹۰) یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انھی کے راستے پر تم چلو۔
یہی مضمون بعض احادیث میں اس انداز سے مذکور ہے:
اَلْاَنْبِیَاءُ اِخْوَ ۃُ لِعَلَّاتٍ ، وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ انبیاؑ سب علّاتی بھائی ہیں ،ان کا دین ایک ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، بَابُ قَوْلِ اللہِ وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ: ۱۶۱۷؛ صحیح مسلم، کتاب الفضائل: ۱۴۵۔ علّاتی بھائی سے مراد ایک باپ کی کئی صلبی اولادیں ہیں، جو الگ الگ مائوں سے ہوں۔ ’علّاتی‘ کے بالمقابل لفظ ’اخیافی‘ آتا ہے جس سے مراد ایک ماں کی مختلف اولادیں ہیں، جو کئی باپوں سے ہوں)
لیکن قرآن کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاؑ کو الگ الگ طریقے دیے گئے تھے، مثلاً سورئہ مائدہ میں تورات، انجیل اور قرآن کا تذکرہ کرنے کے بعد ان پر ایمان لانے والوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا۰ۭ(المائدہ ۵:۴۸) ہم نے تم میں سے ہرایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی۔
مذکورہ دونوں طرح کی آیات میں یہ تطبیق دی گئی ہے کہ انبیاعلیہم السلام کا جو طریقہ مشترک ہے، اس کا تعلق ’اصولِ دین‘ سے ہے اور جس طریقے سے اشتراک نہیں ہے اس کا تعلق ’فروعِ دین‘ سے ہے۔ امام رازیؒ نے لکھا ہے:
بعض آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انبیا و رُسل کے طریقے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور کچھ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے طریقے میں فرق ہے۔ (پھر اوّل الذکر کی مثال میں سورئہ شوریٰ کی آیت۱۳ اور سورئہ انعام کی آیت ۹۰ اور ثانی الذکر کی مثال میں سورئہ مائدہ کی آیت ۴۸ ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے) دونوں طرح کی آیات میں جمع و تطبیق دیتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ نوع اوّل کی آیات سے ان چیزوں کی طرف اشارہ ہے جو اصولِ دین سے تعلق رکھتی ہیں اورنوعِ ثانی کا اشارہ ان چیزوں کی طرف ہے، جن کا تعلق فروعِ دین سے ہے۔(النَّوْعُ الْاَوَّلُ مِنَ الْآیَاتِ مَصْرُوْفٌ اِلٰی مَا یَتَعَلَّقُ بِاُصُوْلِ الدِّیْنِ ، وَالنَّوْعُ الثَّانِیْ ، مَصْرُوْفٌ اِلٰی مَا یَتَعَلَّقُ بِفُرْوْعِ الدِّیْنِ ، التفسیر الکبیر، رازی، المکتبہ التوفیقیۃ ، قاہرہ، مجلد۶، جز۱۲، ص ۱۱)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اصولِ دین ، جو انبیاؑ کے درمیان مشترک ہیں، ان کے دائرہ میں صرف ایمانیات و عقائد آتے ہیں، یا احکام و طاعات میں سے بھی بعض چیزیں ان میں شامل ہیں؟ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمانیات کے علاوہ بعض دیگرچیزیں بھی ان میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ہرنبی ؑ نے اپنی اُمت کو صرف اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے ’عبادتِ الٰہی‘، اصولِ دین میں سے ہے۔ البتہ اس کے طریقے مختلف اُمتوں میں جدا جدا ہیں، اس لیے ان کا شمار فروعِ دین میں ہوگا اور ہر اُمت اپنے اپنے طریقے کے مطابق عبادتِ الٰہی کی پابند ہوگی۔
آیت زیربحث کی تفسیر میں تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں ’دین‘ سے مراد وہ اُمور ہیں جوانبیاؑ کے درمیان مشترک ہیں۔ بعض مفسرین نے ان امور کی تفصیل بیان کی ہے اور ان میں ایمانیات کے علاوہ دیگرچیزوں کو بھی شامل کیا ہے۔ ذیل میں دو علما کے بیانات درج کیے جاتے ہیں:
علامہ قاضی ابوبکر ابن العربی الاندلسی (م: ۵۴۲ھ) فقہ مالکی کے مشہور عالم ہیں۔ ان کی کتاب احکام القرآن فقہی تفاسیر میں اہم مقام کی حامل ہے۔ اسے تمام فقہی مسالک کے علما کے درمیان مقبولیت حاصل ہے۔ اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں انھوں نے لکھا ہے:
اس سے مراد وہ اصول ہیں، جن میں کسی شریعت کا اختلاف نہیں ہے۔ یعنی توحید، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب، قلب اور اعضاء و جوارح کے ذریعے اس کی جانب میلان، سچائی، عہد کی پاس داری، امانت کی ادایگی، صلہ رحمی، کفر، قتل اور زنا کی حُرمت ، مخلوق کو اذیت نہ پہنچائی جائے، خواہ وہ کیسے ہی کام کریں، جانور پر ظلم نہ کیا جائے، خواہ وہ کوئی بھی ہو،وقار کے خلاف گھٹیا کام کرنے کی حُرمت۔ یہ تمام چیزیں سب سے زیادہ مطلوب ہیں۔ ان کی حیثیت ’ایک دین‘ کی ہے اور ہرملّت کا اس میں اشتراک ہے۔ جتنے بھی انبیاء آئے ہیں ان کے درمیان ان امور میں کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر اُمور میں شریعتوں میں اختلاف رہا ہے۔ مختلف زمانوں میں جس جس چیز کی مصلحت اور حکمت متقاضی ہوئی، اللہ تعالیٰ نے مختلف اُمتوں کے لیے وہ چیز مشروع کی۔(احکام القرآن، ابن العربی، مطبعہ السعادۃ، مصر، ۲/۲۰۵۔ ٹھیک یہی تشریح علامہ قرطبیؒ (م: ۶۷۱ھ) نے بھی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے: الجامع لاحکام القرآن، قرطبی، الھیئۃ المصریۃ العامۃ، مصر، ۱۹۸۷ء، ۱۶/۱۱)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (م: ۱۱۷۶ھ) برصغیر ہند میں بارھویں صدی کے مشہور عالم ہیں۔ ان کا شمار مجدددین اُمت میں ہوتا ہے۔ ان کی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ کو آفاقی شہرت حاصل ہے۔ اس میں انھوں نے زیربحث موضوع پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ انھوں نے ایک باب قائم کیا ہے: باب بیان اصل الدین واحد والشرائع والمناھج مختلفۃ (اس چیز کا بیان کہ دین کی اصل ایک ہے اور شرائع و مناہج مختلف ہیں)۔ اس باب کی ابتدا میں انھوں نے دونوں طرح کی آیات درج کی ہیں۔ انبیا ؑ کے درمیان اشتراک ظاہر کرنے والی آیات میں سورئہ شوریٰ کی آیت۱۳ کے علاوہ یہ آیت بھی درج کی ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ پیغمبروںؑ سے خطاب کرکے فرماتا ہے:
وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ۵۲ (المؤمنون۲۳:۵۲) اور یہ تمھاری اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو۔
اور انبیاؑ کے درمیان اختلاف ظاہر کرنے والی آیات میں سورئہ مائدہ کی آیت۴۸ کے علاوہ یہ آیت بھی درج کی ہے:
لِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا ہُمْ نَاسِكُوْہُ (الحج ۲۲:۶۷) ہراُمت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے۔
پھر لکھا ہے:
جان لو کہ دین کی اصل ایک ہے جس پر انبیاعلیہم السلام متفق ہیں۔ اختلاف صرف شرائع و مناہج میں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام انبیا ؑ کا اس بات پر اجماع ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے، صرف اسی سے مدد چاہی جائے۔ اسے ان تمام چیزوں سے پاک قرار دیا جائے جو اس کی شان کے منافی ہیں، اس کے ناموں میں راہِ حق سے انحراف نہ کیا جائے اور یہ کہ اللہ کا اپنےبندوں پر یہ حق ہے کہ اس کی خوب تعظیم کریں اور اس معاملے میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں۔ اس کے سامنے سرتسلیم خم کریں، اپنے دلوں کو اس کی جانب مائل کریں۔ اس کے شعائر کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کریں، اور یہ کہ اس نے تمام واقعات کو ان کے وقوع سے پہلے مقدر کردیا ہے، اور یہ کہ اللہ کے ایسے فرشتے ہیں جو اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس چیز کا بھی انھیں حکم دیا جاتا ہے، اسے کرگزرتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنی کتاب نازل کرتا ہے اور انسانوں پر اپنی اطاعت فرض قرار دیتا ہے۔ اور یہ کہ قیامت برحق ہے، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا برحق ہے، جنّت برحق ہے، جہنّم برحق ہے۔ اسی طرح انبیاؑ کا نیکی کے مختلف کاموں (انواع البر) پر بھی اجماع ہے، مثلاً طہارت، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور طاعات کے قبیل کے نفلی کام، مثلاً دُعا، ذکر، تلاوتِ کتابِ الٰہی کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنا۔ اسی طرح نکاح، حُرمت ِ زنا، لوگوں کے درمیان قیامِ عدل،ایک دوسرے پر ظلم کی حُرمت، اہلِ معاصی پر حدود کے نفاذ، اللہ کے دشمنوں کے ساتھ جہاد، اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کےدین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جدوجہد پر بھی تمام انبیاؑ کا اجماع ہے۔ یہ ہے دین کی اصل۔(حجۃ اللہ البالغہ، شاہ ولی اللہ، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، ۱/۸۶-۸۷)
شاہ ولی اللہ مزید لکھتے ہیں:
اسی لیے قرآنِ عظیم نے ان چیزوں کی حقیقت سے کوئی بحث نہیں کی، الاماشاء اللہ۔ اس لیے کہ جن لوگوں کے درمیان ان کی زبان میں قرآن نازل ہورہا تھا، ان کے درمیان وہ چیزیں مسلّم تھیں۔ اختلاف صرف ان چیزوں کی صورتوں اور مظاہر میں ہے، مثلاً حضرت موسٰی کی شریعت میں نمازکے لیے بیت المقدس کی طرف رُخ کرنے کا حکم تھا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں کعبہ کی طرف رُخ کرنے کا حکم ہوا۔ حضرت موسٰی کی شریعت میں زانی کے لیے رجم کا حکم تھا اور ہماری شریعت میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم اور غیرشادی شدہ زانی کے لیے کوڑوں کی سزا مقرر ہوئی۔ حضرت موسٰی کی شریعت میں صرف قصاص کا حکم تھا اور ہماری شریعت میں قصاص اوردیت دونوں کا حکم دیا گیا۔ اسی طرح کا اختلاف دونوں شریعتوں میں عبادات کے اوقات، آداب اور ارکان کے معاملے میں ہے۔(ایضاً، ۱/۸۷)
ایک دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ ’’قدیم و جدید تمام مفسرین نے زیربحث آیت میں لفظ ’الدین‘ کااطلاق صرف ایمانیات پر کیا ہے، جن میں تمام شریعتوں کا اتحاد ہے، دیگر چیزوں کوشامل نہیں کیا گیا ہے‘‘۔یہ دعویٰ محتاجِ ثبوت ہے۔ اس کے جائزے کے لیے ذیل میں قدیم مشہور مفسرین کی کتابوں سے اس آیت کی تشریحات نقل کی جاتی ہیں:
حضراتِ تابعین میں مجاہدؒ (م:۱۰۰ھ) ، قتادہؒ (م: ۱۱۸ھ) اورمقاتل ؒ (م:۱۵۰ھ) کو علمِ تفسیرکے میدان میں شہرت حاصل ہے۔ ان کے تفسیری اقوال مختلف کتب ِ تفسیر میں منقول ہیں۔ مقاتلؒ فرماتے ہیں کہ ’دین‘ سے مراد توحید ہے۔(زاد المسیر فی علم التفسیر، ابن الجوزی، المکتب الاسلامی، بیروت،۱۹۸۷ء، ۷/۲۷۷)
قتادہ کا ایک قول یہ ہے کہ ’دین‘ یہاں توحید اور اخلاص اللہ کے معنٰی میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ دین سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے اسے حلال سمجھا جائے اور جس چیز کو حرام قرار دیا ہے، اسے حرام سمجھا جائے۔(جامع البیان فی تفسیر ای القرآن ، ابوجعفر محمد بن جریر طبری،المطبعۃ الکبریٰ، مصر ، ۱۳۴۸ھ، ۲۵/۱۰)
مجاہد ؒ آیت ِ زیربحث کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:
لَمْ یَبْعَثِ اللہُ نَبِیًّا قَــطُّ اِلَّا وَصَّاہُ بِـاِقَامَۃِ الصَّلاَۃِ وَ اِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ وَالْاِقْرَارِ لِلہِ بِالطَّاعَۃِ ، فَذٰلِکَ دِیْنُہُ الَّذِیْ شَـَرعَ لَھُمْ اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا ہے اسے حکم دیا ہے کہ نماز قائم کی جائے، زکوٰۃ ادا کی جائے اور اللہ کی اطاعت کا اقرارکیا جائے۔ یہ ہے اللہ کا دین جو اس نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔(معالم التنزیل، بغوی، بر تفسیر خازن، مطبعۃ التقدم العلمیۃ، مصر، ۱۳۴۹ھ، ۶/۹۹)
اب مختلف زمانوں سے تعلق رکھنے والے چند مفسرین کا ذکر کرتےہیں:
ان حضرات نے ’دین‘ کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے:
ھُوَ تَوْحِیْدُ اللہِ وَطَاعَتُہٗ وَالْاِیْمَانُ بِرُسُلِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ بِیَوْمِ الْجَزَاءِ وَسَائِرِ مَا یَکُوْنُ الرَّجُلُ بِـاِقَامَتِہٖ مُسْلِمًا / مُؤْمِنًا اس سے مراد ہے اللہ کی وحدانیت کااقرار، اس کی اطاعت، اس کے رسولوں،کتابوں اور یومِ جزا پر ایمان اور ان تمام کاموں کی انجام دہی جن پر اس کا مسلم /مومن ہونا موقوف ہے۔(الکشاف عن حقائق التنزیل، زمخشری ، مطبع مصطفیٰ البابی، الحلبی، مصر، ۱۹۸۳ء، ۳/۴۶۳۔ الجامع لاحکام القرآن، قرطبی، ۱۹۸۷، ۱۶/۱۰۔ مدارک التنزیل، نسفی، مع الشرح الاکلیل، مطبع اکلیل، بھرائج، ۶/۱۴۹؛ لباب التاویل فی معانی التنزیل، خازن ۶/۹۹؛ ارشاد العقل السلیم الٰی مزایا الکتاب الکریم برحاشیہ تفسیر کبیر، المطبعۃ العامۃ، مصر ، ۷/۶۶۰؛ روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم السبع المثانی، آلوسی، ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، مصر، ۲۵/۲۱۔ اس عبارت کا آخری لفظ زمخشری، قرطبی، خازن اورنسفی نے ’مسلم‘ اور ابوالسعود اور آلوسی نے ’مومن‘ استعمال کیا ہے۔)
ان مفسرین نے ’دین‘ کے مفہوم میں توحید اور ایمانیات کے ساتھ ’اطاعت ِ الٰہی‘ کو بھی شامل کیا ہے اور اس کا اطلاق ان تمام اعمال پر بھی کیا ہے جن کی انجام دہی مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے۔ چند اور مفسرین کے اقوال ملاحظہ ہوں:
ھُوَ الْاِیْمَانُ بِـمَا یَجِبُ تَصْدِیْقُہٗ وَالطَّاعَۃُ فِیْ أَحْکَامِ اللہِ اس سے مراد یہ ہے کہ جن چیزوں کی تصدیق ضروری ہے ان پر ایمان لایا جائے اور احکامِ الٰہی کی اطاعت کی جائے۔ (انوارالتنزیل واسرار التاویل، بیضاوی، داراحیاء التراث، العربی، بیروت، ۵/۶۸)
وہ دین، جسے لے کر تمام انبیاؑ آئے ہیں،یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور کسی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا جائے، جیساکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ’’ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا اسے وحی کی کہ کوئی معبودنہیں سواے میرے، اس لیے صرف میری عبادت کرو‘‘۔ اور حدیث میں ہے: ’’ہم انبیاؑ کے درمیان قدر مشترک یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اگرچہ ان کے شرائع اور مناہج میں اختلاف ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ہم نے تم میں سے ہرایک کے لیے شریعت اور منہاج مقرر کر دیا ہے‘‘۔(تفسیر القرآن العظیم ، ابن کثیر، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر، ۱۹۳۷، ۴۰/۱۰۹)
اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ اَیْ تَوْحِیْدَ اللہِ وَالْاِیْمَانَ بِہٖ وَطَاعَۃَ رُسُلِہٖ وَقَبُوْلَ شَـرَائِعِہٖ ، دین کا مطلب یہ ہے: اللہ کی وحدانیت کا اقرار، اس پر ایمان، اس کے رسولوں کی اطاعت اور اس کے احکام پر عمل۔(فتح القدیر، الجامع بین فنّی الروایۃ والدرایۃ من علم التفسیر ، شوکانی، دارالمعرفۃ، بیروت، ۴/۵۳۰)
مَا مِنْ نَبِیٍّ اِلَّا وَھُوَ مَأْمُوْرٌ بِـمَا أمِرُوْا بِہٖ مِنْ اِقَامَۃِ دِیْنِ الْاِسْلَامِ وَھُوَ التَّوْحِیْدُ وَمَا لَا یَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْاُمُمِ وَتَبَدّلِ الْأَعْصَارِ مِنْ اُصُوْلِ الشَّـرَائِعِ وَالْاَحْکَامِ ہرنبی ؑ کو وہی حکم دیا گیا جو تمام انبیاؑ کو دیا گیا تھا، یعنی دین اسلام کی اقامت۔ دین سے مراد ہے توحید اور وہ چیزیں جو اُمتوں اور زمانوں کے بدلنے سے نہیں بدلتیں، یعنی اصول شرائع و احکام۔(روح المعانی، ۲۵/۲۰)
وَجُمْلَۃُ الْقَوْلِ اِنَّ دِیْنَ اللہِ عَلٰی ألْسِنَۃِ أَنْبِیَائِہٖ وَاحِدٌ فِیْ أُصُوْلِہٖ وَمَقَاصِدِہٖ ، وَھِیَ تَوْحِیْدُ اللہِ وَتَنْزِیْہُہٗ وَ اِثْبَاتُ صِفَاتِ الْکَمَالِ لَہٗ وَالْاِخْلَاصُ لَہٗ فِی الْأُعمَالِ، وَالْاِیْمَانُ بِالْیَوْمِ الْآخِرِ ، وَالْاِسْتِعْدَادُ لَہٗ بِالْعَمَلِ الصَّالِـحِ خلاصہ یہ کہ اللہ کا دین اس کے انبیاؑ کی زبان میں اپنے اصول و مقاصد کے اعتبار سے ایک رہا ہے۔ وہ اصول یہ ہیں: اللہ کی وحدانیت کا اقرار، اس کی پاکی بیان کرنا، اس کے لیے صفاتِ کمال کا اثبات، اعمال میں اس کے لیے اخلاص، یومِ آخرت پر ایمان اور عملِ صالح کے ذریعے اس کے لیے تیاری۔(تفسیر المنار، ۶/۴۱۶-۴۱۷)
مفسرین کی اس فہرست میں قاضی ابن العربی مالکی اور شاہ ولی اللہ کو بھی شامل کرلینا چاہیے، جن کے اقتباسات اُوپر گزر چکے ہیں۔ آخر میں امام فخر الدین رازیؒ (م: ۶۰۴ھ) کی راے بھی نقل کردینی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
ضروری ہے کہ یہاں دین سے ، ان اعمال (جن کا انسانوں کو مکلف کیا گیا ہے) اور احکام کے علاوہ کوئی دوسری چیز مراد ہو، اس لیے کہ ان میں باہم اختلاف اور تفاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے شریعت اور منہاج مقرر کر دیا ہے‘‘۔ اس لیے ضروری ہے کہ دین سے مراد وہ اُمور ہوں جو شریعتوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے۔ اور وہ ہیں: اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوںـؑ اور یومِ آخر پر ایمان۔(التفسیر الکبیر، مجلد ۱۴، جز ۲۷، ص ۱۳۸)
اس اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام رازیؒ کے نزدیک دین سے مراد صرف ایمانیات ہیں۔ لیکن آگے چل کر انھوں نے لکھا ہے:
اَلْمُرَادُ ھُوَ الْأَخْذُ بِالشَّرِیْعَۃِ الْمُتَّفَقِ عَلَیْھَا بَیْنَ الْکُلِّ اس سے مراد اس شریعت پر عمل کرنا ہے، جس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام رازیؒ کے نزدیک اصولِ دین میں ایمانیات کے علاوہ اصولِ شرائع بھی شامل ہیں۔
مذکورہ بالا اقوالِ مفسرین پر دوبارہ نظر ڈالی جائے۔ ان سے صاف طور پر یہ دعویٰ غلط قرار پاتاہے کہ جمہور مفسرین نے آیت ِ زیربحث میں ’دین‘ سے صرف ایمانیات مراد لی ہیں۔ جمہور مفسرین نے یہ بات کہی ہے کہ اس آیت میں دین سے مراد اصولِ دین ہیں۔ فروعِ دین، جو مختلف اُمتوں میں الگ الگ ہیں اور وہ ان کی مکلف ہیں، وہ یہاں مراد نہیں ہیں۔ البتہ واضح رہے کہ ان مفسرین کے نزدیک یہ اصولِ دین زندگی کے تمام پہلوئوں کو محیط ہیں۔ اس کا اظہار ان کی تشریحات میں استعمال ہونے والے ان الفاظ سے ہوتا ہے: اللہ کی عبادت، اللہ کی اطاعت، اللہ کے رسولوں کی اطاعت ، اللہ کے احکام کی اطاعت،اللہ کے احکام پر عمل، اصولِ شرائع و احکام وغیرہ۔
اُوپر کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سورئہ شوریٰ کی آیت میں ’دین‘ سے مراد اصولِ دین ہیں اور فروعِ دین کا تذکرہ سورئہ مائدہ کی آیت ۴۸ میں ہے، جہاں انھیں شرعۃ و منہاج کہا گیا ہے۔ انھیں ’شریعت‘ بھی کہا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا دین اور شریعت کے درمیان کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ کیا دین پر عمل ایک چیز ہے اور شریعت پر عمل دوسری چیز؟ کیا دین پر عمل کا حکم دیا جائے تو کچھ چیزیں مراد ہوں گی اور شریعت پر عمل کا حکم دیا جائے تو کچھ دیگرچیزیں مراد ہوں گی؟بہ الفاظ دیگر کیا شریعت پر عمل کرنے سے دین پر عمل کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے؟
ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ ہراُمت ان ’فروعِ دین‘ پر عمل کی پابند ہے جن کا اسے مکلّف کیا گیا ہے اور جن فروعِ دین کا دیگر اُمتوں کو مکلّف کیا گیا ہے ان پر عمل اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ گویا ہراُمت اپنی شریعت پر عمل کی مکلّف ہے۔ وہ اپنی شریعت پر عمل کرے گی تو حقیقت میں اپنے دین پر عمل کرنے والی ہوگی۔
کوئی اُمت اپنی شریعت سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ حضرت موسٰی کی بعثت سے حضرت عیسٰیؑ کی بعثت تک جو اُمت تھی، اس کی شریعت، احکامِ تورات تھے۔ حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت احمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثتوں کے درمیان کی اُمت کی شریعت، انجیل میں مذکور تھی، اور اب تمھاری شریعت (اے اہلِ ایمان) صرف قرآن کی شکل میں موجود ہے، اس لیے اس پر ایمان لائو اور اس کے احکام پر عمل کرو۔(روح المعانی، ۶/۱۵۳)
اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ تمام انبیاؑ نے (بہ شمول ان انبیاءؑ کے جن کی صراحت سورئہ شوریٰ کی آیت میں موجود ہے) اپنی اُمتوں کو اللہ کی عبادت کا حکم دیا ہے۔ اس اعتبار سے عبادتِ الٰہی ’اصولِ دین‘ میں سے ہوئی۔ عبادت کے طریقے ہر اُمت کو جدا جدا بتائے گئے ہیں۔یہ طریقے ’فروعِ دین‘ میں سے ہوئے۔ ایک اُمت ان طریقوں کے مطابق، جن کی اسے تعلیم دی گئی ہے، اللہ کی عبادت کرے تو وہ اس ’فرعِ دین‘ پربھی عمل کرنے والی ہوئی اور اس ’اصلِ دین‘ پر بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت دین میں شامل ہے۔ شریعت پر عمل گویا دین پر عمل کرنا ہے۔ قدیم مفسرین میں علامہ قرطبیؒ نے شریعت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
الشَّـرِیْعَۃُ مَا شَـرَعَ اللہُ لِعِبَادِہٖ مِنَ الدِّیْنِ (تفسیر قرطبی، ۶/۲۱۱) شریعت سے مراد دین کی وہ چیزیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کیا ہے۔
دین اور شریعت کے درمیان اسی تعلق کی وضاحت کے لیے بسااوقات دونوں ہم معنٰی استعمال ہوتے ہیں۔ امام راغب اصفہانیؒ (م:۵۰۲ھ) فرماتے ہیں:
وَاسْتُعیْرَ لِلشَّـرِیْعَۃِ لفظ دین کا استعمال شریعت کے لیے بھی ہوتا ہے۔(راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، مصر ،۱۳۲۴ھ، ص ۱۷۵)
یہی بات علامہ رشید رضا مصری نے یوں کہی ہے:
اِنَّ الشَّـرِیْعَۃِ اِسْمٌ لِلْاَحْکَامِ الْعَمَلِیَّۃِ وَ اَنَّھَا أَخَصُّ مِنْ کَلِمَۃِ الدِّیْنِ وَاِنَّـمَا تَدْخُلُ فِیْ مُسْمَّی الدِّیْنِ مِنْ حَیْثُ اِنَّ الْعَامِلَ بِھَا یَدِیْنُ اللہَ تَعَالٰی بِعَمَلِہٖ وَیَخْضَعُ لَہٗ وَیَتَوَجَّہُ اِلَیْہِ مُبْتَغِیًا مَرْضَاتہٗ وَثَوَابَہٗ بِـاِذْنِہٖ (تفسیر المنار، ۶/۴۱۴) شریعت عملی احکام کا نام ہے۔ یہ لفظ ’دین‘ سے زیادہ خاص ہے، بلکہ وہ دین کے مفہوم میں داخل ہے، بایں طور کہ اس پرعمل کرنے والا اپنے عمل کے ذریعے اللہ کی اطاعت کرتا ہے، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور اس کی خوش نودی اور ثواب حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
یہی نہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی اُمت کے لیے اپنی ’شریعت‘ پر عمل کے بغیر’دین‘ پر عمل ممکن ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ’صلوٰۃ‘ (نماز) جو عبادتِ الٰہی کا ایک مظہر ہے، اصولِ دین میں سے ہے۔ اس کی تعلیم ہر پیغمبرؑ نے اپنی اُمت کو دی ہے۔ اسی طرح ہراُمت کی شریعت میں اس کی ادایگی کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ اب کسی اُمت کے لیے اپنی شریعت میں بتائے گئے ادایگی نماز کے طریقے کی پابندی کیے بغیر نماز کی اقامت ممکن ہی نہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس موضوع پر حجۃ اللہ البالغۃ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ انھوں نے بیان کیا ہے کہ ’’دین کی اصل ایک ہے جس پر تمام اُمتوں کا اتفاق ہے، البتہ ان کے شرائع و مناہج مختلف ہیں (ان کے کچھ اقتباسات گذشتہ صفحات میں گزر چکے ہیں)۔ ان میں اختلاف کی حکمتوں پر بھی انھوں نے مفصل بحث کی ہے۔ اس بحث میں انھوں نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ اُمتیں اپنے اپنے شرائع و مناہج پر عمل کی پابند ہیں۔ کسی اُمت کے لیے اپنی شریعت پر عمل کے بغیر دین پر عمل ممکن ہی نہیں ہے:
وَالْحَقُّ یَعْلَمُ اَنَّ الْقَوْمَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ الْعَمَلَ بِالدِّیْنَ اِلَّا بِتِلْکَ الشَّـرَائِعِ وَالْمَنَاھِجِ (حجۃ اللہ البالغۃ، ۱/۹۲) یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ لوگوں کے لیے شرائع و مناہج پر عمل کے بغیر دین پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں۔
جب دین پر عمل شریعت پرعمل کے بغیر ممکن ہی نہیں تو اس سے خو د بہ خود یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ دین پر عمل کا حکم دیا جائے تو اس سے شریعت پر عمل بھی لازم ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض مفسرین نے صراحت کی ہے کہ سورئہ شوریٰ کی آیت میں اقامت ِ دین کے حکم کا مطلب دین کے اصول اور فروع سب پر عمل کا حکم ہے۔علامہ عبدالرحمٰن بن ناصرالسعدی (م:۱۳۷۶ھ) موجودہ دور میں عالمِ عرب کے ایک مشہور مفسر ہیں۔ اصولِ تفسیر، فقہ و اصولِ فقہ،عقائد اور دیگر موضوعات پر ان کی قابلِ قدر تصانیف ہیں۔ ان کی تفسیر تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان، سات جلدوں میں ۱۴۰۴ھ میں الرئاسۃ العامہ لادارات البحوث العلمیۃ والافتاء والدعوۃ والارشاد ریاض، سعودی عرب سے شائع ہوئی ہے۔انھوں نے آیت ِ شوریٰ کی تفسیر میں لکھا ہے:
(اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ) أَیْ أَمْرَکُمْ أَنْ تُقِیْمُوْا جَـمِیْعَ شَـرَائِعِ الدِّیْنِ أُصُوْلِہٖ وَفُرُوْعِہٖ (تیسیرالکریم الرحمٰن، ۶/۵۹۹) کہ دین قائم کرو، یعنی اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ تمام شرائع دین، یعنی دین کے اصول اور فروع سب قائم کرو۔
شریعتوں کے مختلف ہونے کے کیا اسباب ہیں؟ اس سلسلے میں مفسرین نے دو باتیں لکھی ہیں: ایک تو یہ کہ اس اختلاف کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کی آزمایش کرتا ہے کہ وہ اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟ دوسرے یہ کہ شریعتوں کا مختلف ہونا حالات کی بنا پر ہوتا ہے۔بعض حالات میں اللہ تعالیٰ ایک حکم نازل کرتا ہے لیکن جب ان میں تبدیلی آجاتی ہے تو اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ اس حکم میں بھی تبدیلی کردیتا ہے۔ علامہ زمخشریؒ نے آیت ِ مائدہ کی جو تشریح کی ہے، اس میں یہ دونوں باتیں آگئی ہیں:
لِیَبْلُوَکُمْ فِیـْمَا آتَاکُمْ مِنَ الشَّـرَائِعِ الْمُخْتَلِفَۃِ ، ھَلْ تَعْمَلُوْنَ بِھَا مُذْعِنِیْنَ مُعْتَقِدِیْنَ أَنَّھَا مَصَالِـحُ قَدِ اخْتُلِفَ عَلٰی حَسَبِ الْأَحْوَالِ وَالْأَوْقَاتِ، مُعْتَرِفِیْنَ بِأَنَّ اللہَ لَمْ یَقْصِدُ بِاخْتِلَافِھَا اِلَّا مَا اقْتَضَتْہُ الْحِکْمَۃُ ، أَمْ تَتَّبِعُوْنَ الشُّبَہَ وَتُفَرِّطُوْنَ فِی الْعَمَلِ (کشاف، ۱/۶۱۸) تاکہ تم کو آزمائے، کہ اس نے جو مختلف شریعتیں تم کو دی ہیں ، کیا ان پر عمل کرتے ہو، اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ مختلف شریعت درحقیقت مصالح ہیں جن میں حالات اور زمانوں کے لحاظ سے فرق ہے ، اور اس اعتراف کے ساتھ کہ ان کے اختلاف اللہ تعالیٰ کا مقصد تقاضاے حکمت کی تکمیل ہے، یا شبہات میں پڑے رہتے ہو اور عمل میں کوتاہی کرتے ہو۔
اختلافِ شرائع کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی کہ اس کا ایک مقصد شریعت کا تشخص قائم رکھنا ہے۔ اس توجیہہ کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ان احکام کے اسرار معلوم کیے جاسکتے ہیں، جو آپؐ نے محض یہود کے ’تشبہ‘ سے بچنے کے لیے دیے تھے۔
بعض حضرات کی جانب سے ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ سورئہ شوریٰ کی آیت میں الدین کو صرف ’اساسیاتِ دین‘ کے معنی میں لینا ضروری ہے، اسے ’مکمل دین‘کے معنٰی میں نہیں لیا جاسکتا، کیوں کہ تمام انبیاؑ کو الدین قائم کرنے کا حکم ملا تھا ، مگر حضرت موسٰی کے سوا دوسرےپیغمبروں کو سرے سے سیاسی اور قانونی احکام دیے ہی نہیں گئے تھے۔یہ دلیل بے بنیاد ہے۔ دین کے بارے میں ’مکمل‘ اور ’ناقص‘ کی بحث مہمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاؑ کےواسطے سے اپنے بندوں کو جو احکام دیے ہیں ، ان کے لیے ان سب پر عمل ضروری ہے۔اس نے اپنے جس نبی کو جتنے احکام دیے، ان کی اُمت کے لیے وہی مکمل دین تھا۔ امام رازیؒ نے اس نکتے کی وضاحت بہت اچھے انداز میں کی ہے۔ امام قفالؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
دین کبھی ناقص نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ کامل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں جو شریعتیں نازل کی تھیں، وہ اپنے وقت میں کامل تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ جو چیز آج کامل ہے، وہ آیندہ کامل نہیںرہے گی۔ اس لیے وہ ان میں سے بعض چیزوں کو منسوخ کرتا اور بعض چیزوں کا اضافہ کرتا رہتا تھا۔ آخری زمانے میں اس نے مکمل شریعت نازل فرمائی اور اس کو قیامت تک باقی رکھنے کا فیصلہ فرمایا۔ حاصل یہ کہ شریعت ہمیشہ کامل تھی۔ پہلے کی شریعتیں ایک مخصوص زمانے تک کے لیے کامل تھیں اور شریعت ِ محمدیؐ قیامت تک کے لیے کامل ہے۔(تفسیر کبیر، ۳/۳۶۸)
سورئہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔
اس آیت میں تکمیلِ دین سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ابن الجوزیؒ نے پانچ اور ابن العربیؒ نے سات اقوال کا ذکر کیا ہے۔(زاد المیسر، ۲/۲۸۸، احکام القرآن، ۱/۲۲۸)
بہت سے مفسرین مثلاً زمخشریؒ، بیضاویؒ،قرطبیؒ اور آلوسیؒ وغیرہ نے دو اقوال نقل کیے ہیں۔ ان کے مطابق اس کا معنٰی استحکامِ دین بھی ہوسکتا ہے اور تمام احکامِ دین کا نزول بھی۔(کشاف، ۱/۵۹۳، بیضاوی، انوارالتنزیل (تفسیر بیضاوی) مطبع احمدی، دہلی، ۱/۲۱۵، تفسیرقرطبی، ۶/ ۶۱-۶۲) تکمیل دین کو اگر مؤخر الذکر مفہوم میں لیں تو بھی اس سے یہ مفہوم مخالف نہیں نکالاجاسکتا کہ پہلے دین ناقص تھا۔ اس نکتے کی وضاحت گذشتہ سطور میں امام رازیؒ کے حوالے سے کی جاچکی ہے۔
بعض مفسرین مثلاً ابن الجوزیؒ اور ابن العربیؒ وغیرہ نے اس کی ایک توجیہہ یہ کی ہے، جو بہت مناسب ہے کہ اس میں دین، شریعت کے معنی میں ہے اور اس کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ یہ شریعت اب قیامت تک کے لیے ہے، دیگر شریعتوں کی طرح اب وہ منسوخ نہیں ہوگی۔(زاد المیسر، ۲/۲۸۸، احکام القرآن، ۱/۲۲۸)
ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ سورئہ شوریٰ مکّی ہے۔ یہ عہد مکّی کے درمیانی دور میں نازل ہوئی تھی۔ اس کے نزول کے وقت مکمل دین نازل نہیں ہوا تھا۔ اس وقت تک جتنا قرآن نازل ہوا تھا، اس میں توحید، رسالت اور آخرت کا بیان تھا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد وغیرہ کے احکام بعد میں نازل ہوئے۔ لہٰذا ، اس سورہ میں جب دین قائم کرنے کا حکم دیا گیا تو اس سے دین کی وہی بنیادی تعلیمات (توحید، رسالت، آخرت) مراد ہوگی، جن کا بیان ہوچکا تھا۔ جو احکام ابھی نازل ہی نہیں ہوئے تھے انھیں کیوں کر اس کے مدلول میں شامل کیا جاسکتا ہے؟‘‘
یہ اعتراض کرتے وقت بعض باتوں کو خلط ملط کردیا گیا ہے اور ان کے ذریعے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جس زمانے میں جو حکم دیا ہے اس پرعمل کے وہ پابند ہیں۔ بعد میں اس نے اس سے متعلق کچھ اور جزئی احکام دیے تو ان اضافہ شدہ احکام پر بھی عمل ان کے لیے لازم ٹھیرا اور وہ بھی سابقہ حکم کے مدلول میں شامل ہوگئے۔
مثال کے طورپر مکی سورتوں میں سے سورئہ روم (آیت۳۱) ، سورئہ انعام (آیت ۷۲) اور سورئہ اعراف(آیت ۲۹) میں نماز قائم کرنے کا حکم موجود ہے۔ سورئہ روم ہجرتِ حبشہ کے موقعے پر، یعنی نبوت کے پانچویں سال اور سورئہ انعام اور سورئہ اعراف مکّی دور کے آخر میں نازل ہوئی تھیں۔ اس وقت تک نماز کے سلسلے میںجتنے احکام نازل ہوچکے تھے، حضراتِ صحابہؓ انھی احکام پرعمل کے پابند تھے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد نماز کے تفصیلی احکام بیان کیے گئے، طہارت اوروضو کے آداب اور طریقے بتائے گئے۔ اب اَقِیْمُوْالصَّلٰوۃَ کے حکم میں یہ تمام تفصیلات بھی شامل ہوگئیں۔ اس وقت تمام صحابہ، خواہ وہ قدیم الاسلام ہوں یا ہجرتِ مدینہ کے بعد انھیں قبولِ اسلام کی سعادت حاصل ہوئی، اقامت ِ صلوٰۃ کے حکم میں نماز کے بارے میں اس وقت تک نازل ہونے والے تمام جزئی احکام کو شامل سمجھتے تھے اور ان پر عمل کرتے تھے۔ وہ یہ تفریق نہیں کرتے تھے کہ مکّی سورتوں میں اَقِیْمُوْالصَّلٰوۃَ کا مطلب کچھ اور ہے اور مدنی سورتوں میں کچھ اور۔
یہی معاملہ زکوٰۃ کا ہے۔ اس کی ادایگی کا حکم (آتُوْا الزَّکٰوۃَ ) ہجرتِ مدینہ کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہونے والی سورتوں میں موجود ہے، مثلاً البقرۃ (آیات: ۴۳، ۸۳، ۱۱۰)، النساء (آیت ۷۸)، المزمل (آیت ۲۰)۔ اسی طرح اس کا حکم سورئہ نور (آیت ۵۶) اور سورئہ مجادلہ (آیت۱۳) میں بھی ہے، جو ۵ ہجری میں نازل ہوئی تھیں۔ اس وقت تک زکوٰۃ کے بارے میں جتنا حکم دیا گیا تھا اس پر عمل مطلوب تھا۔ زکوٰۃ کے مصارف کا بیان سورئہ توبہ (آیت ۶۰) میں ہوا ہے، جو غزوئہ تبوک (۹ہجری) کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس کے نصاب کا تعیین بھی فتح مکہ (۸ہجری) کے بعد ہوا ہے۔ ان احکام کے نازل ہونے کے بعد آتُوْا الزَّکٰوۃَ کے مدلول میں یہ جزئی احکام بھی شامل ہوگئے۔ بعد کے مسلمان مدنی دور کی ابتدا میں نازل ہونے والی سورتوں میں آتُوْا الزَّکٰوۃَ پڑھیں گے تو اس پر ان کا عمل اسی وقت صحیح ہوگا جب وہ زکوٰۃ کی ادایگی اس کے تفصیلی اور جزئی احکام کے مطابق کریں گے۔ اُمت کی پوری تاریخ میں کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ عہدنبوی کے بعد کے مسلمان ادایگی زکوٰۃ کے حکم کے معاملے میں ابتدائی مدنی دور میں نازل ہونے والی اور آخری مدنی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں فرق کریں گے۔ اوّل الذکر سورتوں میں آتُوْا الزَّکٰوۃَ سے مراد کچھ اور لیں گے اور آخرالذکر سورتوں میں کچھ اور۔
انھی دونوں مثالوں پر اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ کے حکم کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ سورئہ شوریٰ مکّی عہد کے درمیانی عرصے میں نازل ہوئی تھی۔ اس وقت تک دین کے جتنے احکام نازل ہوچکے تھے وہ ’اقامت ِ دین‘ کے حکم میں شامل تھے۔ بعد میں جوں جوں مزید احکامِ دین نازل ہوتے گئے، وہ بھی اس میں شامل ہوتے گئے، یہاں تک کہ جب تکمیل دین کا اعلان کردیا گیا تو اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ کے حکم کے تحت پورے دین پر عمل لازم ٹھیرا۔ اب بعد کے مسلمانوں کے لیے یہ کہنا روا نہیں ہے کہ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ کا اطلاق دین کی صرف ان تعلیمات پر ہوگا جو اس آیت کے وقت ِ نزول تک آچکی تھیں۔
ایک عجیب و غریب اعتراض یہ وضع کیا گیا ہے کہ مولانا مودودیؒ اور ان کے ہم نوا احکامِ دین کے بیان اور نفاذ میں قرآنِ کریم کی ترتیب نزولی کا اعتبار نہیں کرتے۔ وہ قرآن کو ایک ’ریفرنس بک‘ کے طور پر لے کر اس سے احکامِ دین کی فہرست مرتب کرنے لگتے ہیں، جب کہ ہردور میں علما نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل آوری، نزولی ترتیب ہی کے مطابق ہوگی‘‘۔
یہ بات کہ احکامِ قرآنی کے بیان اور نفاذ میں اس کی نزولی ترتیب کا اعتبار کیا جائے گا، انتہائی غلط ہے اور یہ دعویٰ کہ ہر دور میں علما نے یہی کہا ہے، بلادلیل ہے۔ دعویٰ کرنے والوں نے کسی ایک عالم کا بھی نام ذکر نہیں کیا ہے۔ اُمت کی پوری تاریخ میں کسی عالم نے یہ بات نہیں کہی ہے۔ کوئی عالم ایسی مہمل بات کہہ بھی کیسے سکتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم ایک کتاب کی صورت میں دفعتاً نازل نہیں ہوا ہے، بلکہ ۲۳سال کے عرصے میں حالات اور ضروریات کے مطابق تھوڑا تھوڑا نازل کیا گیا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ نزولِ قرآن کے زمانے میں وجوبِ احکام میں تدریج پیش نظر رہی ہے۔ لیکن تدریجی مراحل سے گزرنے کے بعدکوئی حکم جب اپنی آخری شکل میں آگیا تو آیندہ اس کے بیان اور نفاذ میں اس آخری شکل کوسامنےرکھا گیا۔ اس کے تدریجی مراحل کی رعایت نہیں کی گئی۔ مثال کے طورپر مکّی دور میں احکام کا نزول ہوا، لیکن بعد میں اسلام قبول کرنے والوں کے معاملے میں کبھی اس کی رعایت نہیں کی گئی کہ ایک طویل عرصے تک انھیں صرف توحید، رسالت اور آخرت کی باتیں گوش گزار کی گئی ہوں، پھر بتدریج تھوڑے تھوڑے احکام سے انھیں روشناس کرایا گیا ہو۔
مختلف احکام کا نزول بھی عہد ِ نبوی میں بتدریج ہوا، مثلاً مکی سورتوں، سورئہ بنی اسرائیل (آیت۳۲) ، سورئہ فرقان (آیات ۶۸-۶۹) اور سورئہ مومنون (آیات ۵ -۷) میں زنا کی مذمت اور اس سے بچنے کی تلقین کی گئی۔ پھر مدینہ کے ابتدائی دورمیں نازل ہونے والی بعض سورتوں (مثلاً: سورۃ النساء، آیت ۱۵) میں اس سے متعلق کچھ احکام دیے گئے۔ آخر میں ۶ہجری میں نازل ہونے والی سورئہ نور(آیت ۲) میں زنا کی سزا کا بیان ہوا ۔ اسی طرح شراب کی حُرمت بھی بتدریج ہوئی۔ پہلے سورئہ بقرہ (آیت ۲۱۹) میں بتایا گیا کہ شراب میں گناہ ہے۔ پھر سورئہ نساء (آیت۴۳) میں یہ حکم دیا گیا کہ نماز کے موقعے پر شراب نوشی سے اجتناب کیا جائے۔ آخر میں سورئہ مائدہ (آیات ۹۰-۹۳) کے ذریعے اس کی قطعی حُرمت کا اعلان کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں اسلام قبول کرنے والوں پران احکام کانفاذ بتدریج نہیں کیا گیا کہ پہلے انھیں کچھ عرصے تک ارتکابِ زنا اور شراب نوشی کی چھوٹ دی گئی ہو اور پھر ان سے روکا گیا ہو اور ان کی حُرمت بیان کی گئی ہو۔
کتب ِ سیرت میں وفد ِ ثقیف کے بارے میں جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں، ان سے اس سلسلے میں بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ غزوئہ تبوک (۹ہجری) کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بہت سے وفود مختلف علاقوں سے آئے اور قبولِ اسلام کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ ان میں طائف کے قبیلہ ثقیف کا وفد بھی تھا۔ ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ انھیں نماز سے معاف رکھا جائے۔ آپؐنے ان کی یہ بات منظور نہیں کی۔(سیرۃ النبیؐ، ابن ہشام، مصر ۱۹۳۷ء، ۴/۱۹۷؛ السیرۃ النبویۃ، ابن کثیر، دارالمعرفۃ، بیروت، ۱۹۸۳ء، ۴/۵۶)
اسی طرح ان لوگوں نے سود خوری، زناکاری اور شراب نوشی کی آپ سے اجازت چاہی اور کہا کہ ہمارے لیے ان کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مگر آپؐ نے ان چیزوں کی حُرمت بتاتے ہوئے ان کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔(السیرۃ النبویۃ، ابن کثیر، ۴/۶۲)
اسی طرح آج کے دور میں جب اسلام کا تعارف کرایا جائے، یا اس کی تعلیمات اور احکام لوگوں کے سامنے پیش کیے جائیں توضروری ہے کہ مکمل اسلام سے انھیں آگاہ کیا جائے اور اس کے تمام عقائد و ایمانیات اور شرائع و احکام بیان کیے جائیں۔ تکمیل دین کے بعد احکام و شرائع کو بیان کرنے میں تدریج ملحوظ رکھنا کسی طور پر صحیح نہیں ہے۔
اعتراض کرنے والے دراصل ایک خلط ِ مبحث کا شکار ہوئے ہیں۔ انھوں نے جس معاملے کو ’احکامِ اسلام کے بتدریج نفاذ‘ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، اس کا تعلق ایک دوسرے اصول سے ہے اور وہ یہ ہے کہ ہرشخص بقدرِ استطاعت مکلّف ہے۔ اس اصول پر قرآن و سنت کی متعدد نصوص دلالت کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۶) اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔
یہ مضمون قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں بیان ہوا ہے (ملاحظہ کیجیے البقرہ۲۳۳، الانعام: ۱۵۲، الاعراف: ۴۲، المؤمنون:۶۲، الطلاق: ۷ وغیرہ)۔
اسلام کے احکام وشرائع اپنی جزئیات و تفصیلات کے ساتھ بیان کیے جائیں اور ہرشخص ان میں سے اتنے حصے کا مکلّف ہوگا، جتنے کی وہ استطاعت رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر احکام طہارت بیان کرنا ہو تو پانی کے ذریعے وضو کا طریقہ اور پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمّم کا طریقہ دونوں کو بیان کیا جائے گا۔ جو شخص پانی سے محروم ہو یا پانی ہوتے ہوئے بھی وضو نہ کرسکتا ہو ، وہ وضو کا مکلّف نہ ہوگا، اس کے لیے تیمّم کفایت کرےگا۔ احکامِ نماز کے ضمن میں قیام، رکوع، سجدہ اور دیگر تفصیلات بیان کی جائیں گی۔اب جو شخص بیماری یا کسی اور عُذر سے کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکتا ہو وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کا مکلّف نہ ہوگا۔ وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا۔ بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکتا ہو تو لیٹ کر پڑھے گا۔ ہلنے جلنے پر قادر نہ ہو تو اشارے سے پڑھے گا۔
زکوٰۃ ، روزہ اور حج کے احکام بیان کیے جائیں گے۔ جوان کی استطاعت رکھتے ہوں گے وہ ان کے مکلّف ہوں گے اور جو استطاعت نہیں رکھتے ہوں گےوہ مکلّف نہیں ہوں گے۔ اس اصول کو علماے اسلام نے بھی اپنی تصانیف میں بیان کیا ہے۔ علّامہ ابواسحاق شاطبیؒ (م:۷۹۰ھ) کی کتاب الموافقات فی اصول الشریعۃ،علمِ شریعت کے موضوع پر بڑی اہم تصنیف ہے۔ اس میں مذکور ہے:
ثَبَتَ فِی الْاُصُوْلِ أَنَّ شَـرْطَ التَّکْلِیْفِ أَوْ سَبَبَہٗ الْقُدْرَۃُ عَلَی الْمُکَلَّفِ بِہٖ، فَـمَا لَا قُدْرَۃَ لِلْمُکَلَّفِ عَلَیْہِ لَا یَصِحُّ التَّکْلِیْفُ بِہٖ شَـرْعًا اصولِ شریعت میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کسی شخص کے کسی چیز کے مکلّف ہونے کی شرط یا سبب یہ ہے کہ وہ اس پر قادر ہو۔ جس کام کے کرنے کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو، اس کا اسے مکلّف قرار دینا شرعی طور پر صحیح نہیں ہے۔(الموافقات فی اصول الشریعۃ، شاطبی ، مصر ،۱۰۷۰ھ)
اسی طرح جب اسلام کا تعارف کرایا جائے گا تو اس کے عقائد و ایمانیات کو بھی بیان کیا جائے گا، عبادات کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں گی، معاملات سے متعلق اس کے احکام کا بھی تذکرہ کیا جائے گا، دیوانی اور فوج داری قوانین بھی زیربحث آئیں گے۔ سماجی، معاشی اور سیاسی میدانوں میں اس کی تعلیمات سے بھی آگاہ کیا جائے گا، غرض مکمل اسلام پیش کیا جائے گا، لیکن افراد اپنے اپنے حالات اور استطاعتوں کے مطابق مکلّف ہوں گے۔ جو لوگ کسی وجہ سے بعض احکام پر عمل سے معذور ہوں گے وہ ان کے مکلّف ہی نہیں ہوں گے۔
ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ سورئہ شوریٰ میں اقامت ِ دین کا جو حکم دیا گیا ہے، اس کے مخاطب افرادِ اُمت انفرادی طور پر ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کو اپنی ذات پرقائم کرو اور اس کے احکام پر خود عمل کرو۔ اس میں دوسروں کودعوت دینے اور ان کے درمیان دین کی تبلیغ کے لیے اجتماعی طور سے جدوجہد کرنے کا مفہوم نہیں پایا جاتا۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے۔ متعدد مفسرین نے صراحت کی ہے کہ اس میں دوسروں کو دعوت دینے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔
أَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ: فِیْہِ وَجْھَانِ ، أَحَدُھُمَا ، اِعْمَلُوْا بِہٖ ، الثَّانِیْ: اُدْعُوْا اِلَیْہِ ، وَیَحْتَمِلُ وَجْھًا ثَالِثًا: جَاہِدُوْا عَلَیْہِ مَنْ عَانَدَہٗ دین کو قائم کرنے کی دو توجیہات ہوسکتی ہیں: ایک یہ کہ اس پر عمل کرو، دوسری یہ کہ اس کی طرف دعوت دو۔ اس میں ایک تیسری توجیہہ کا بھی احتمال ہے، وہ یہ کہ جو اس سے دشمنی رکھے اس سے جنگ کرو۔(ماوردی، النکت والعیون (تفسیرالماوردی)، الکویت، ۱۹۸۲ء، ۳/۵۱۴)
(أَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ) اَیْ اِجْعَلُوْہُ قَائِمًا ، یُرِیْدُ دَائِمًا مُسْتَمِرًّا مَحْفُوْظًا مُسْتَقِرًّا مِنْ غَیْرِ خِلَافٍ فِیْہِ وَلَا اضْطِرَابٍ دین کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرو کہ وہ ہمیشہ قائم، جاری و ساری، محفوظ اور مستحکم رہے۔ نہ کوئی اس کی مخالفت کرے اور نہ اس کی تعلیمات میں کوئی اضطراب پیدا ہو۔(تفسیرالقرطبی، ۱۶/۱۱، البحرالمحیط، ابوحیان الاندلسی، دارالفکر، بیروت، ۱۴۲۰ھ، ۹/۳۲۹)
اَلْمُرَادُ بِـاِقَامَتِہٖ تَعْدِیْلُ أَرْکَانِہٖ ، وَحِفْظُہٗ مِنْ أَنْ یَقَعَ فِیْہِ زِیْفٌ ، أَوْ الْمُوَاظَبَۃُ وَالتَّشَمُرُّ لَہٗ دین کی اقامت سے مراد یہ ہے کہ اس کے ارکان کو ٹھیک طریقے سے ادا کیا جائے، اس میں زیغ و انحراف آنے سے اس کی حفاظت کی جائے، پابندی کی جائے اور اس کے لیے سرگرم رہا جائے۔(ارشاد العقل السلیم: ۷/۶۶۰، یہی تشریح علامہ آلوسیؒ (م: ۱۲۷۰ھ) نے بھی کی ہے۔ روح المعانی، ۲۵/۲۱)
اِقَامَۃُ الْعَدْلِ بَیْنَ النَّاسِ ، وَ تَحْرِیْمُ الْمَظَالِمِ ، وَ اِقَامَۃُ الْحُدُوْدِ عَلٰی أَھْلِ الْمَعْاصِی ، وَالْجِہَادُ مَعَ أَعْدَاءِ اللہِ ، وَالْاِجْتِھَادُ فِیْ اِشَاعَۃِ أَمْرِ اللہِ وَدِیْـنِہٖ (حجۃ اللہ البالغہ، ۱/۸۷)اور لوگوں کے درمیان عدل قائم کرنا، ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا، اہل معاصی پر حدود قائم کرنا، اللہ کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنا، اللہ کے حکم اور دین کی اشاعت کے لیے جدوجہد کرنا۔
(أَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ) تُقَیْمُوْنَہٗ بِاَنْفُسِکُمْ وَتَجْتَھِدُوْنَ فِیْ اِقَامَتِہٖ عَلٰی غَیْرِکُمْ وَتُعَاوِنُوْنَ عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقوْیٰ وَلَا تُعَاوِنُوْنَ عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (تیسیر الکریم الرحمٰن، ۶/۵۹۹) دین کو قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ تم اسے اپنی ذات پر قائم کرو اور دوسروں پر بھی اسے قائم کرنے کی کوشش کرو اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو اور بُرائی اور جارحیت کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔
ان تشریحات سے واضح ہے کہ اقامت ِ دین کا مطلب صرف انفرادی طور پر دین کی پیروی نہیں ہے، بلکہ اس میں دین کی دعوت و اشاعت، اس کی حمایت و حفاظت اور اس کے نفاذ کی کوششیں بھی شامل ہیں۔
جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے مکمل اسلام پرعمل کرنے اور اس کی طرف دعوت دینے کا جو تصور پیش کیا ہے، وہ صرف کسی ایک آیت پر منحصر نہیں ہے۔ قرآن کریم میں بہ کثرت آیات ہیں، جن میں سے بعض میں صراحت سے اور بعض میں اشاروں میں اس کا حکم دیا گیا ہے اور اسے اُمت مسلمہ کا فرضِ منصبی قرار دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں زیربحث موضوع پر متعدد کتابیں موجود ہیں، مثلاً: فریضہ اقامت دین (مولانا صدرالدین اصلاحیؒ)، اساس دین کی تعمیر(صدرالدین اصلاحیؒ)، اقامتِ دین: اسلام کا تقاضا (مولانا سیّد حامد علیؒ)، اقامتِ دین فرض ہے (مولانا سیّداحمد عروج قادریؒ)، اُمت مسلمہ کا نصب العین (مولانا سیّد احمد عروج قادریؒ)،اقامتِ دین کا سفر (ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ)۔ جو حضرات اس موضوع پر سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں انھیں ان کتابوں سے رجوع کرنا چاہیے۔
بخل، جود و کرم اور سخاوت کی ضد ہے۔ لغت میں ’بخل‘ کے معنی ہیں انسان کے پاس جو کچھ مال و دولت ہے اس کو روک کر رکھنا، دوسروں کو نہ دینا اور خرچ نہ کرنا۔ اس کے اصطلاحی معنی علامہ راغب اصفہانی کے نزدیک یہ ہیں: بخل، ضروریاتِ زندگی کو روک کر رکھنا، جن اُمور میں خرچ کرنا لازمی ہو، ان میں خرچ نہ کرنا۔ علامہ ابن حجر نے بخل کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: اَلْبُخْلُ ھُوَ مَنْعُ مَا یُطْلَبُ مِـمَّا یُقْتَضٰی (بخل ان ضروریات پر خرچ نہ کرنے کا نام ہے جن پر خرچ کرنا وقت اور حالات کا تقاضا ہو)۔ القیومی نے کہا ہے: اَلْبُخْلُ فِی الشَّـرْعِ ھُوَ مَنْعُ الْوَاجِبِ (شریعت میں بخل واجبی خرچ سے رُکنے کا نام ہے)۔
’بخل‘ ایک مزاجی کیفیت کا نام ہے ۔ جس شخص کو یہ بیماری لگ جاتی ہے، وہ خود دنیا کی ساری چیزوں کا مالک بن کر رہنا چاہتا ہے، لیکن کسی کو کچھ بھی نہیں دینا چاہتا۔ اس کے دل و دماغ میں خودغرضی اور خودنمائی سمائی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے ہر رویے سے تنگی جھلکتی ہے۔ مزاج و طبیعت میں بخل نظر آتا ہے۔ اس مزاجی کیفیت کی جھلک کبھی مال و دولت میں دکھائی دیتی ہے، کبھی علم و فن میں اس کا رنگ ظاہر ہوتا ہے اور کبھی اخلاق و عادات اور رویے میں اس کی آہنگ سنی جاتی ہے۔
بخیل شخص مال و دولت پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے ، نہ خود کھاتا ہے، نہ دوسروں کو کھانے دیتا ہے۔ وہ اگر عہدے اور منصب کو حاصل کرلیتا ہے یا پھر قوت و طاقت کا مالک بن جاتا ہے تو سارے اختیارات اپنی مٹھی میں رکھتا ہے۔ اس کے ماتحت کام کرنے والے پریشان رہتے ہیں۔ پورا نظام تباہ و برباد ہوکر رہتا ہے۔ اسی طرح بخیل شخص اگر علم و فن کے خزانوں پر قابض ہوجاتا ہے تو اس کے فیض سے انسانیت محروم رہتی ہے۔ قرآن نے اس طرح کے رویے پر سخت وعید سنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللہِ ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۰) ’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا، جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس ہے چھپائے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسولؐ کے بعد سب سے بڑا سخی وہ شخص ہے جس نے علم کو سیکھا اور اس کو پھیلایا‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب العلم)۔
بخیل شخص کے اخلاق، معاملات اور رویے میں بھی تنگی کا ہی مظاہرہ ہوتا ہے۔ وہ شفقت، ہمدردی، احسان، رواداری،حُسنِ سلوک جیسے اوصاف سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ دوسروں کو پھلتا پھولتا، خوش حال اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کی ذات سے دوسروں کو کلفت اور زحمت ہی ملتی ہے۔ اسے پھول سے الجھن ہوتی ہے، وہ راستوں میں کانٹے ڈالنے کا ہی کام کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس رویے پر ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۵ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ۶ۙ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۷ۧ (الماعون۱۰۷: ۴ - ۷) پھر تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں میں غافل رہتے ہیں اور جو دکھاوا کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی معمولی چیزوں کو مانگنے پر نہیں دیتے۔
دین اسلام نے انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے کام آنے کی تعلیم دی ہے۔ حدیث میں انسانوں کی پریشانیوں کو دُور کرنے اور انھیں خوش کرنے کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’نیکی کا حکم دینا، بُرائی سے روکنا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادینا، بہرے کو بات سمجھا دینا، اندھے کو راہ دکھا دینا، کمزوروں کو سواری پر چڑھا دینا، اچھی اور پیاری باتیں بولنا، یہاں تک کہ اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے‘‘ (بخاری، مسلم ابن حبان)۔
لوگوں کے لیے سلامتی اور بھلائی کی دُعا نہ کرنا بھی بخل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَبْخَلُ النَّاسِ مَنْ بَخِلَ بِالسَّلَامِ (ابن حبان، الصحیح الالبانی)’’وہ شخص بہت بڑا بخیل ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلْبَخِیْلُ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ (ترمذی، حسن صحیح) ’’بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود و سلام نہ بھیجے‘‘۔
اچھے جذبات اور احساسات کا اظہار نہ کرنا بھی بخل ہے۔ اس کوتاہی سے کتنے خاندان بکھر جاتے ہیں، کتنے جوڑے بچھڑ جاتے ہیں، بچے یتیم ہوجاتے ہیں، گھر اُجڑ جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف دوسروں کے لیے بہتر جذبات و احساسات کا اظہار کرنے سے تعلقات استوار ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ وَأَنَـا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ (ترمذی) ’’تم میں بہتر شخص وہ ہے جو تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں‘‘۔
بہت سے بچے جذبات کے بخل کی وجہ سے گوشہ گیر ہوجاتے ہیں۔ انھیں انسانوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ مزاج میں چڑچڑاپن اور یک رُخا پن آجاتا ہے۔ بعض بچے تشدد اورانحراف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ سکون کی تلاش میں نشہ آور چیزیں استعمال کرنے لگتے ہیں۔ رقم نہ ملنے کی صورت میں انھیں چوری کی لت لگ جاتی ہے۔ پھر وہ ہر طرح کی سماجی بُرائیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔
بخیل شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے: ’چمڑی چلی جائے دمڑی نہ جائے‘۔ وہ جسمانی طور پر بڑے سے بڑا خسارہ برداشت کر لیتا ہے لیکن اس کے ہاتھ سے چند سکّے نہیں نکلتے۔ وہ دولت کے لیے سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ اخوت، محبت، رشتہ، عزت، ہرچیز کو دولت جمع کرنے کی ہوس میں ضائع کر دیتا ہے۔ ایسے انسان سے لوگ دُور رہتے ہیں۔ ان سے تعلقات باقی نہیں رکھنا چاہتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
السَّخِیُّ قَرِیْبٌ مِنَ اللہِ ، قَرِیْبٌ مِنَ الْجَنَّۃِ ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّاسِ ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّارِ، وَالْبَخِیْلُ بَعِیْدٌ مِنَ اللہِ ، بَعِیْدٌ مِنَ الْجَنَّۃِ ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّاسِ ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّارِ (ترمذی، دارقطنی) سخی اللہ سے قریب ہوتا ہے، جنّت سے قریب ہوتا ہے، لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جہنم سے دُور ہوتا ہے۔ بخیل اللہ سے دُور ہوتا ہے، جنّت سے دُور ہوتا ہے، لوگوں سے دُور ہوتا ہے اور جہنم سے قریب ہوتا ہے۔
وہی چیز باقی رہتی ہے جو نفع بخش ہو، اور جو نفع بخش نہ ہو اللہ اس کو مٹا دیتا ہے:
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً ۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ ۰ۭ (الرعد ۱۳:۱۷) جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔
انسانی تعلقات کو خراب کرنے میں تنگ دلی اور شُح نفس اور بخل کا اہم کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تباک و تعالیٰ نے مرد اور عورت کے تعلقات کی خرابی کے موقعے پر ارشاد فرمایا: وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ (النساء۴:۱۲۸) ’’نفس تو تنگ دلی کی طرف جلد ہی مائل ہوجاتے ہیں‘‘۔
تنگ دل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے تعلقات منقطع کرلیتے ہیں، جب کہ کشادہ دل اور سخی افراد لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ عفوو درگزر سے کام لیتے ہیں۔ ایسے میں لوگوں سے ان کے خوش گوار تعلقات باقی رہتے ہیں۔ عربی کا شاعر کہتا ہے:
اِذَا قَلَّ مَالُ الْمَرْءِ قَلَّ صَدِیْقُہٗ
ضَاقَتْ عَلَیْہِ أَرْضُہٗ وَسَمَاءُہٗ
[انسان کی فیاضی اور سخاوت میں جب کمی آجاتی ہے، تو اس کے دوست کم ہو جاتے ہیں اور اس کے لیے زمین و آسمان تنگ ہوجاتے ہیں]۔
تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَالدِّرْھَمِ وَالْقَطِیْفَۃِ وَالْخَمِیْصَۃِ اِنْ اُعْطِیَ رَضِیَ وَاِنْ لُمْ یُعْطَ لَمْ یَرْضَ (بخاری) ہلاک و برباد ہوں درہم و دینار کے بندے، ہلاک و برباد ہوں ریشم و حریر کے خوب صورت کپڑوں کے بندے۔ اگر اسے عطیہ دیا جائے تو خوش ہوتا ہے اور اسے کچھ نہ دیا جائے تو ناراض ہوتا ہے۔
عربی کا شاعر کہتا ہے ؎
یُظْھِرُ عَیْبَ الْمَرْءِ فِی النَّاسِ بُخْلُہٗ
وَیَسْتُرُہٗ عَنْھُمْ جَمِیْعًا سَخَاؤُہٗ
[آدمی کا بخل لوگوں میں اس کے عیوب کو کھول دیتا ہے، اور فیاضی اور سخاوت انسان کے عیبوں پر پردے ڈال دیتی ہے۔]
خون خرابہ اور قتل : بخیل شخص مال سمیٹ سمیٹ کر رکھتا ہے اور اس کے اعزہ و اقارب، مفلوک الحال اور پریشان رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان کے دل میں اس سے نفرت کی آگ بھڑکتی ہے۔آئے دن اخبارات میں ایسی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں جن سے بخل اور کنجوسی کا تعلق جڑتا ہے۔ بخل کی وجہ سے لوگوں کے حقوق غصب ہوتے ہیں اور ظلم ہوتا ہے اور ہرظلم تباہی و بربادی پر منتج ہوتا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے:
اِتَّقُوْا الظُّلْمَ فَاِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَاتَّقُوْا الشُّحَّ فَاِنَّ الشُّحَّ أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حَمَلَھُمْ عَلٰی أَنْ سَفَکُوْا دِمَاءَ ھُمْ وَاسْتَحَلُّوْا مَحَارِمَھُمْ (مسلم) ظلم سے بچو، ظلم قیامت کے دن انسان کے لیے تباہی کا ذریعہ ہوگا۔ بچو بخل اور شُحِ نفس سے۔ نفس کی تنگی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک و برباد کردیا ہے، کیونکہ اسی چیز نے انھیں خون خرابہ پر آمادہ کیا اور عزت و ناموس کوبرباد کیا۔
اگر پوری قوم کے اندر بخل کی روش پیدا ہوجائے تو اللہ اسے ذلیل و رُسوا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اگر کہیں وہ تمھارے مال میں سے مانگ لے اور سب کا سب تم سے طلب کرلے تو تم بخل کرو گے اور وہ تمھارے کھوٹ اُبھارلائے گا، دیکھو تم لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ اس پر تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کرتے ہیں حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے۔ اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘ (محمد۴۷: ۳۷-۳۸)۔
بخل کی شدت جہاں دین و ایمان کو کھا جاتی ہے، وہیں اس سے دلوں میں نفاق بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ انسانی سماج کی بہت ساری بُرائیاں اس کے بطن سے پیدا ہوتی ہیں۔ حرص، طمع، شُح نفس، تنگ دلی، تنگ ظرفی، بددیانتی، بے مروتی، بے رحمی، بزدلی، پست ہمتی، نفرت، بُغض و عداوت، حسد، یہ وہ سماجی بُرائیاں ہیں جن کا کہیں نہ کہیں رشتہ بخل سے جاملتا ہے۔
اسلام نے زکوٰۃ، نفلی انفاق اور صدقات کی ترغیب دے کر اس کی مکمل بیخ کنی کی ہے۔ مسکینوں کو کھانا نہ کھلانے، اور ان پر رحم نہ کرنے کو جہنم میں جانے کا سبب بتایا ہے:
مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۴۴ۙ(مدثر۷۴:۴۲) تم کو دوزخ میں کیا چیز لے گئی؟ کہیں گے: ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔
سورئہ ہمزہ میں بخیل کی اس خام خیالی پر ضرب لگائی گئی ہے کہ مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا: الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ۲ۙ يَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ۳ۚ كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَۃِ۴ۡۖ (الھمزہ۱۰۴:۲-۴) جس نے مال کو اکٹھا کیا اور اس کو گن گن کر رکھا کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا، ہرگز نہیں، وہ ضرور دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
بخل کی انھی تباہ کاریوں کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو خصلتیں مومنوں میں جمع نہیں ہوسکتی ہیں: بخل اور بدخلقی (ترمذی)۔فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، ’’اے اللہ! میں بزدلی اور بخل سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ (ابوداؤد)۔
قائداعظم محمد علی جناح کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ وہ واحد مؤرخ ہیں جنھوں نے چندجملوں میں قائد کی شخصیت اور کردار کو سمو دیا۔ لکھتے ہیں:’’دنیا میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کا رخ پلٹتے ہیں۔ ان سے کہیں کم دنیا کا نقشہ تبدیل کرتے ہیں۔ اور شاید ہی کسی نے ایک قومی ریاست تشکیل دی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے‘‘ ۔والپرٹ نے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔
ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ قائداعظم کے قلبی تعلق کا آغاز تحریک پاکستان کی صورت گری سے قبل شروع ہوتاہے۔ جموں و کشمیر کی تاریخ پر اتھارٹی، جسٹس یوسف صراف لکھتے ہیں کہ محمدعلی جناح غالباً ۱۹۲۶ء اور۱۹۲۸ء کے عرصے میںراولپنڈی کے راستے سری نگر تشریف لے گئے۔ ان کی اہلیہ محترمہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ دورانِ سفر قائدا عظم نے اپنی گاڑی خود چلائی اور کشمیر کی پُربہار فضاؤں نے انھیں اپنے حصار میں لے لیا۔ اس سفر کی رُوداد تاریخ میں کہیں گم ہوگئی۔
۱۹۳۶ءمیں قائداعظم اگرچہ سری نگر سیر وسیاحت ہی کی غرض سے آئے، لیکن شیخ محمدعبداللہ کے اصرار پر ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کے سلسلے میں پیش ہوئے۔ انھوں نے پہلی پیشی پر ہی مقدمہ جیت لیا۔صدیوں سے پسے ہوئے کشمیریوں نے ان کی شخصیت میں ایک عظیم رہنما کی جھلک دیکھی، جس نے چند برسوں بعد اس خطے کا سب سے بڑا لیڈر ہونا تھا۔اسی دورے میںمسلم کانفرنس کی دعوت پر قائداعظم نے سری نگر کی پتھرمسجد میں جلسۂ میلاد کی صدارت بھی کی۔ چودھری غلام عباس ان دنوں مسلم کانفرنس کے صدر تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں قائداعظم کی شخصیت اور مسلمانوں کے لیے ان کی دلیرانہ جدوجہد کاتفصیل سے ذکر کیا۔
قائداعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا: ’’مجھے جموں و کشمیر کے عوام کی بیداری دیکھ کر خوشی ہورہی ہے۔ ایک آزادی پسند جو اپنے عوام کی آزادی کے لیے ۲۴گھنٹے جدوجہد کرتا ہے، لازمی طور پر آپ کی کاوشوں کا خیرمقدم کرے گا۔ میں آپ کی تحریک کی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں‘‘۔
شیخ عبداللہ کے انڈین نیشنل کانگریس سے تال میل کی انھیں خبر تھی۔چنانچہ انھوں نے ’مسلم کانفرنس‘ کو ہدایت کی کہ وہ اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ شیخ عبداللہ جموں و کشمیر میں ایک مقبول لیڈر تھے، مگر ان کی راہیں مسلم دھارے سے جدا ہورہی تھیں۔وہ کانگریس کے جال میں پھنس چکے تھے۔ قائداعظم نے مسلم کانفرنس اور چودھری غلام عباس کی بھرپور تائید شروع کی۔ اسی دوران میں ہندستان میں جاری سیاسی اور نظریاتی کش مکش، سرزمین کشمیر پر بھی منتقل ہو ئی، جو آج تک برپا ہے۔
۱۹۴۴ء میں چودھری غلام عباس نے قائداعظم سے دہلی میں طویل ملاقات کی۔ قائداعظم نے انھیں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔چودھری غلام عباس مرحوم اپنی کتاب کشمکش میں لکھتے ہیں: اس ملاقات سے [مسلم] لیگ اور مسلم کانفرنس کے درمیان، بالخصوص حضرت قائداعظم اور میرے مابین جو اخلاقی اور روحانی رشتہ قائم ہو ا،اس سے ہمارے ارادے اور حوصلے زیادہ مضبوط ہو ئے۔
قائداعظم تیسری اور آخری مرتبہ۱۹۴۴ء میں نیشنل کانفرنس اورمسلم کانفرنس کی مشترکہ دعوت پر جموں کے راستے سری نگر کے لیے روانہ ہوئے۔ سوچیت گڑھ سے جموں تک ۱۸کلو میڑ کا فاصلہ انھوں نے کھلی کار میں طے کیا۔چودھری غلام عباس ان کے بائیں جانب بیٹھے تھے۔ چودھری غلام عباس نے اپنی کتاب کشمکش میں اس دن کو یاد کرتے ہوئے لکھا :
جلوس کے راستوں کو اس آب وتاب ،سج دھج اوراہتمام سے آراستہ کیاگیا تھا کہ ایسی تیاری مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے باپ داداؤں کی رسم تاج پوشی پر بھی نہ کی گئی ہوگی۔استقبال سے قائداعظم بہت مسرور نظر آتے تھے۔ ان پر اس قدر گل پاشی کی گئی کہ قائداعظم بھی جو عمومی طور پر اپنے جذبات چھپا کررکھتے تھے نے کہا: یہ سب جنت سے کم نہیں۔
اگلے روز ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ہندستان کے۱۰ کروڑ مسلمان جموں وکشمیر کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔وہ آپ کی خوشی اور غمی میں شریک ہیں۔
شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے قائداعظم کے اعزاز میں سری نگر کے پرتاب پارک میں ایک عظیم الشان جلسۂ عام کا اہتمام کیا۔ایک لاکھ سے زائد لوگ قائداعظم کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ انجانی خوشی قائداعظم کے چہرے سے عیاں تھی۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے میرا ایسا استقبال کیا کہ بادشاہ بھی اس پر فخر کرسکتاہے۔ اپنا مدعا بیان کرنے سے قائداعظم کہاں چونکتے تھے۔ کہا :یہ میرا نہیں بلکہ مسلم لیگ کے صدر کا استقبال ہے۔
سری نگر میں قیام کے دوران شیخ عبداللہ کو اپنے ڈھب پر لانے کی انھوں نے بہت کوشش کی۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان تقسیم ہوں یا کانگریس کے جال میں پھنسیں۔افسوس! شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔
شیخ عبداللہ پر بھارتی قوم پرستی کا بھوت سوارہوچکا تھا۔ چنانچہ قائداعظم نے اپنا وزن مسلم کانفرنس کے پلڑے میں ڈال دیا۔نتیجہ یہ کہ شیخ عبداللہ، قائداعظم کے خلاف سرعام گفتگو کرنے لگے اور پنڈت نہرو کے ساتھ دوستی کا راگ الاپنے لگے۔ سری نگر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:’’میں چودھری غلام عباس اور مسلمانان ریاست کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ اور ہندستان کے مسلمان ان کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے‘‘۔ ان الفاظ سے قائداعظم کی کشمیریوں سے محبت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم کو کہیں زیادہ سنگین مسائل کا سامنا تھا ۔مہاجرین کا ایک سیلاب امڈ آیاتھا۔وائسرائے ہندمائونٹ بیٹن کو قائداعظم نے مشترکہ گورنر جنرل تسلیم نہ کیا تو وہ دشمنی پر اتر آیا۔ گورداس پور ضلع بھارت کے حوالے کر کے بھارت کو ریاست جموں وکشمیر تک زمینی راستہ فراہم کردیا گیا۔ اسلحہ، گولہ بارود اور فوج کی تقسیم اور تنظیم نو جیسے مشکل مسائل درپیش تھے۔ افغانستان کے حکمران پختونستان اور پٹھانستان کے نام پر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں عدم استحکام پیدا کررہے تھے۔ان مشکلات کے باوجود قائداعظم کی نظروںسے کشمیراوجھل نہ ہوا۔ وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ اس مسئلے کا کوئی پُرامن حل نکل آئے۔
ممتاز مؤرخ رشید تاثیر لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے معاً بعد قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے مہاراجا ہری سنگھ کو تین خط لکھے کہ وہ ڈاکٹروں کے مشورے پر سری نگر میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ مہاراجا بھانپ گیا کہ قائداعظم مسلم رہنماؤں پرپاکستان میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ لہٰذااس نے بہانہ بنایا کہ وہ ان کے شایان شان ضروری انتظامات نہیں کرسکیں گے۔
اکتوبر ۱۹۴۷ء کے آغاز میں قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کو مہاراجا کے اصل ارادوں کا پتا لگانے اور نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں کو پاکستان کی طرف مائل کرنے کے لیے سری نگر بھیجا گیا۔ کے ایچ خورشید نے گرفتاری سے قبل تقریباً چار ہفتوں تک متعدد سیاسی ملاقاتیں کیں۔ انھوں نے سری نگر سے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے قائداعظم کو آگاہ کیا کہ ’’مہاراجا پاکستان سے الحاق کے خلاف ہے۔ کشمیر ی مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں‘‘۔ اور انھوں نے تجویزدی: ’’پاکستان کو جنگ کے بار ے میں سوچنا چاہیے۔ پاکستان کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہنا ہوگا‘‘۔
کے ایچ خورشید کو جموں و کشمیر پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ۱۳ ماہ کی طویل جیل کے بعد وہ قیدیوں کے تبادلے میں کراچی پہنچے۔ اس وقت تک گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح انتقال کرچکے تھے۔ قائداعظم کی زندگی میں گورنر جنرل ہاؤس میںکےایچ خورشید کی اسامی خالی رہی مگر ان کا دل ایسے گورنر جنرل ہاؤس میں نہ لگا، جہاں محمد علی جناح کے قدموں کی چاپ سنائی دے اور نہ ان کے سگار کا دھواں اٹھے۔ انھوں نے اپنا بوریا بستر اٹھایا اور لاہور سدھار گئے ۔
ستمبر۱۹۴۷ء کے آخر میں شیخ عبداللہ کو پراسرار طور پرجیل سے رہاکردیا گیا۔ آخری کوشش کے طور پر ایک تین رکنی اعلیٰ سطحی وفد حکومت پاکستان کی رضامندی کے ساتھ سری نگر روانہ کیا گیا، تاکہ شیخ عبداللہ کو ہندستان کے بجائے پاکستان میں شامل ہونے پر راضی کرسکے۔ میاں افتخار الدین، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور اس وقت کے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے منیجر ملک تاج الدین اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سری نگر پہنچے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح عمری آتش چنار میں ڈاکٹر تاثیر کہ جنھیں پاکستان میں لوگ ایم ڈی تاثیر کہتے ہیں (جو سلمان تاثیر کے والد تھے) کے ساتھ تبادلۂ خیال کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ مسلم لیگ اور نیشنل کانفرنس کے مابین تعلقات کار کو اَزسر نواستوارکیا جائے اور ماضی کی کشیدگی کو دفن کردیا جائے۔ ان مذاکرات میں شیخ عبداللہ دوٹوک موقف اختیار کرنے سے انکاری تھے۔ غالباً پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے وہ ٹھوس یقین دہانی چاہتے تھے۔تاثیر اوران کے درمیان طے پایا کہ فی الحال شیخ عبداللہ کے معتمد خاص خواجہ غلام محمد صادق حکومت پاکستان سے مذاکرات کریں۔ بعدازاں شیخ عبداللہ خود قائداعظم سے ملاقات کے لیے لاہور آئیں گے۔ مگر پاکستان سے بات چیت کے نتائج کا انتظار کیے بغیر شیخ عبداللہ اچانک دہلی چلے گئے۔ ہوائی اڈے پر وزیراعظم پنڈت نہرو نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور شیخ عبداللہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔وہ وزیراعظم کے خاص مہمان کے طور پر دہلی میںٹھیرائے گئے، جہاں انھوں نے بھارت سے الحاق کے طریق کار کو حتمی شکل دینا تھی اور پاکستان کواندھیرے میں رکھ کر بھارت کے ساتھ مستقبل وابستہ کرنے کا اعلان کرنا تھا۔پاکستان ان کے عزائم اور چالوں کو بھانپ چکاتھا۔ چنانچہ لاہور میں غلام محمد صادق کو کسی نے گھا س نہ ڈالی۔
چودھری محمد علی [م:۲دسمبر ۱۹۸۲ء] جو ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے بعد پہلے وزیر خزانہ مقرر ہوئے، اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Emergence of Pakistan میں لکھتے ہیں: حکومت پاکستان نے اپنے سیکرٹری خارجہ کو ۱۵؍اکتوبر کوسری نگر بھیجا تاکہ جموں وکشمیر کی حکومت کے ساتھ متنازعہ مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔ لیکن مہاراجا ہری سنگھ کے وزیر اعظم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔ کشمیر کے مستقبل کو پُرامن طور پر طے کرنے کی غالباً یہ آخری سیاسی کوشش تھی، جسے ضائع کردیا گیا۔
بھارت کے دارالحکومت دہلی میں مائونٹ بیٹن، پنڈٹ نہرو اور شیخ عبداللہ کشمیر کے مستقبل کے تانے بانے بن رہے تھے۔ وہ قدم بہ قدم ایک ایسا فیصلہ کرنے کی جانب گامزن تھے، جسے عوامی تائید حاصل نہ تھی ۔ ان تین بڑے سیاستدانوں نے بالآخر تقسیم ہند کے فارمولے، جغرافیائی حقائق اور مقامی آبادی کی خواہشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرکے برصغیر کے امن اور خوش حالی کو یرغمال بنادیا۔
۲۷؍اکتوبر کو اطلاع ملی کہ مہاراجا ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کردیئے ہیں اور بھارتی فوجی دستے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتررہے ہیں۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل سرڈوگلس گریسی کو ٹیلی فون پر حکم دیا کہ وہ فوری طور پر کشمیریوں کی مدد کے لیے فوج روانہ کریں۔گریسی قائداعظم کا حکم مانتے تو اگلے چند گھنٹوں بعد پاکستانی فوج سری نگر راولپنڈی روڈ کے ذریعے بانہال پاس کاٹ چکی ہوتی اور سری نگر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرلیتی۔ یوں بھارتی فورسز کا کم ازکم وادی کشمیر میں جماؤ کا راستہ مسدود ہوجاتا۔
جنرل گریسی نے بہانہ بنایا کہ وہ بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج کے مشترک کمانڈر انچیف سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل سرکلاڈے آکن لیک کی اجازت کے بغیرکشمیر میں فوج نہیں بھیج سکتا۔ ٹھیک چھے ماہ بعد اسی جنرل گریسی نے قائداعظم کو سفارش کی کہ وہ کشمیر میں پاکستانی فوج داخل کرنے کا حکم دیں، اور مئی ۱۹۴۸ء میں پاکستانی فورسز نے کشمیر کے دفاع کی ذمہ دار ی سنبھالی۔
چودھری غلام عباس کے سوانح نگار بشیر احمد قریشی لکھتے ہیں: چودھری غلام عباس جیل سے رہا ہوکر پاکستان پہنچے توقائداعظم سے ملاقات کے لیے کراچی تشریف لے گئے۔ گورنر جنرل ہاؤس پہنچے تو قائد اعظم محمد علی جناح نے گیٹ پر آ کر خود اُن کا استقبال کیا۔
شیخ عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے گذشتہ برس ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کئی بار قائداعظم کو یاد کیا اور کہا کہ وہ سچے اور صاحب ِبصیرت رہبر تھے، جو جانتے تھے کہ ہمارا مستقبل ہندستان میں محفوظ نہیں۔آج فاروق عبداللہ دکھی ہیں اور قائداعظم کی باتیں انھیں یاد آتی ہیں۔
فاروق عبداللہ کی اس نوحہ گری پر ۱۰-اورنگ زیب روڑ دہلی میں قائداعظم کی شیخ عبداللہ سے گفتگو یاد آتی ہے، جسے انھوں نے اپنی خود نوشت آتشِ چنار میں درج کیا ہے: میں نے جناح صاحب کو متحدہ قومیت کے حق میں دلائل دیے۔ وہ بے تابی سے میری باتیں سنتے رہے۔ اُن کے چہرے کے اتار چڑھائو سے لگتا تھا کہ وہ ان باتوں سے خوش نہیں، لیکن حق یہ ہے کہ انھوں نے کمال صبر سے میری ساری گفتگو سنی اورآخر میں ایک مردِ بزرگ کی طرح فہمایش کے انداز میں کہنے لگے: ’’میں نے سیاست میں اپنے بال سفید کیے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ہندو پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے زندگی بھر ان کو اپنانے کی کوشش کی، لیکن مجھے ان کااعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ وقت آئے گا، جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے‘‘۔
۱۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو مطلع کیا کہ قائداعظم اب فقط چند دنوں کے مہمان ہیں۔ اسی دن جناح پر بے ہوشی کا غلبہ ہوا، اور اس بے ہوشی کے عالم میں ان کی زبان سے بے ربط الفاظ ادا ہو رہے تھے: ’کشمیر… انھیں فیصلہ کرنے کا حق دو… آئین… میں اسے مکمل کروں گا… بہت جلد… مہاجرین… انھیں ہر ممکن… مدد دو…پاکستان…‘۔
انعام یافتہ برطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے کتاب The Meadow میں بتایا ہے کہ جولائی ۱۹۹۵ء میںجنوبی کشمیر میں ایک غیر معروف عسکری تنظیم ’الفاران‘ کے ذریعے اغوا کیے گئے پانچ مغربی سیاحوں کو بچایا جا سکتا تھا،کیونکہ ’را‘ اور دیگر بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکار اغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔دونوں برطانوی صحافیوں نے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ’’سرکاری اداروں نے چاروں سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے‘‘۔
اسی طرز پر ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کو بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ بھی اس لحاظ سے منفردتھاکہ امریکی سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں یعنی ’انٹیلی جنس بیورو‘، ’را‘ سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کی پیشگی اطلاع تھی۔ان دونوں مصنفین نے اپنی دوسری کتاب The Seige میں انکشاف کیا ہے کہ ’’اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں۲۶؍اطلاعات ان اداروںکوموصول ہوئیں، جن میں ایسے حملوں کی پیش گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشان دہی کی گئی تھی۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔
خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست ۲۰۰۸ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی، جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریق کار پر بھی معلومات در ج تھیں۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر ۲۰۰۸ء میں اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکا اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دی گئی ، تاکہ حملہ آوروں کو ہوٹل تک پہنچنے میں کوئی تکلیف نہ ہو‘‘۔
پچھلے دو عشروں سے زائد عرصے کے دوران ان سبھی واقعات کا مشاہدہ اور رپورٹنگ کرنے کے بعد جب یہ خبر آئی کہ بھارت کے ایک انتہائی قوم پرست ٹی وی چینل ری پبلک کے اینکر اور منیجنگ ڈائرکٹر ارناب گوسوامی کو فروری ۲۰۱۹ء میں کشمیر کے پلوامہ علاقے میں ہوئے خود کش حملے اور بعد میں پاکستان کے بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملوں کی پیشگی اطلاع تھی، تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
دراصل ممبئی پولیس نے ٹی وی ریٹنگ، یعنی ٹی آر پی میں ہیرا پھیری کے الزام میں گوسوامی اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کمپنی کے سربراہ پارتھو داس گپتا کے خلاف ۴۰۰۳صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کورٹ میں دائر کی ، جس میں ۱۰۰۰صفحات پر مشتمل ان دونوں کے درمیان ’وٹس ایپ‘ پر ہوئی گفتگو کی تفصیلات ہیں۔ ان ’پیغامات‘ سے گوسوامی کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ اس قدر قربت ظاہر ہوتی ہے، کہ بالا کوٹ پر ہوئے فضائی حملوں سے سرینگر کی ۱۵ویں کور کے سربراہ کو لاعمل رکھا گیا تھا ، مگر گوسوامی کو ۲۳فروری ۲۰۱۹ء، یعنی تین دن قبل ہی بتایا گیا تھا۔ گوسوامی ’چیٹنگ‘ کے دوران داس گپتا کو بتا رہے ہیں کہ ’’پاکستان کے خلاف کچھ بہت ہی بڑا ہونے والا ہے، جس سے بڑے آدمی( مودی )کو انتخابات میں بڑا فائدہ ہوگا‘‘۔ اسی دن رات کو۱۰بجے وہ بتار ہے ہیں کہ ’’کشمیر پر مودی حکومت ایک بڑا قدم اٹھانے والی ہے‘‘۔ ۲۳فروری کو جب خود کش حملے میں ۴۰سیکورٹی اہلکاروں کے مارے جانے کی اطلاع آئی ، تو اس کے چند منٹ بعد گوسوامی ’وٹس ایپ‘ پر شادیانے بجا رہے ہیںاورگویا کہہ رہے ہیں کہ ’’ایک بڑا معرکہ سر ہوگیا‘‘۔ یہ موڈ اس کے برعکس تھا جو شام کو ری پبلک ٹی وی کے اسٹوڈیومیں تھا، جہاں سوگوارای کا عالم تھا اور لمحہ بہ لمحہ جنگی جنون طاری کیا جا رہا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمان پر حملہ کے بعد دہلی یونی ورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو سزائے موت صرف اس بنا پر سنائی گئی تھی کہ انھوں نے کشمیر ی زبان میں ٹیلی فون پر بات کرکے اپنے بھائی سے اس واقعے پر مبینہ طور پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور پوچھا تھا ’’کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟ ‘‘ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا تھا کہ ’’ دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟ ‘‘ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا ــ: ـ’چھایہ ضروری‘ یعنی کہ’’ کیا یہ ضروری تھا؟‘‘ پولیس نے اس کو لکھا ’یہ چھے ضروری‘ یعنی ’یہ ضروری تھا‘۔ یہ تو ہائی کورٹ کا بھلا ہوا کہ وہ بری ہوگئے۔ اوراگراسی روایت کو بنیاد بنایا جائے، تو گوسوامی کے لیے سزائے موت سے بھی بڑی سزا تجویز ہونی چاہیے۔
اس گفتگو کے تین ماہ بعد مودی نے انتخابات میں اپوزیشن کا صفایا کرکے واضح برتری حاصل کی۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ بالا کوٹ پر فضائی حملے کسی فوجی یا اسٹرے ٹیجک نکتہ نگاہ سے نہیں بلکہ قومی تفریح اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔چنگیز خان اور ہلاکو خان کو فوت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ مگر مُردہ جسموں پر خوشیاں منانا اور ان کو انتخابات میں بھنانا اور اس پر مستزاد اپنے آپ کو قوم پرست بھی جتلانا، مودی اور اس کے حواریوں ہی کا خاصّہ ہے۔ ان کے اس طرح کے رویوں سے چنگیز اور ہلاکو کی روحیں بھی شرم سے پانی پانی ہوتی ہوںگی۔
یہ جولائی ۱۹۸۷ء کی بات ہے، جب سری لنکا کے صد جے آر جئے وردھنئے اوربھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے بعد سری لنکا نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے شمالی اور شمال مشرق میں تامل اکثریتی علاقوں کو متحد کرکے ایک علاقائی کونسل تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ ’’دفاع، خارجہ پالیسی اور مالی معاملات، یعنی کرنسی کے علاوہ بقیہ تمام معاملات میں یہ کونسل خود مختار ہوگی‘‘۔ اس کے بعد سری لنکا حکومت نے پارلیمنٹ میں باضابطہ قانون سازی کرکے آئین میں ۱۳ویں ترمیم کی مگر اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ تامل ٹائیگرز، یعنی ایل ٹی ٹی ای اور سنہالا بدھ قیادتوں نے اس ترمیم کو مسترد کردیاتھا۔ تامل ٹائیگرز تو مکمل آزادی سے کم کسی بھی فارمولا پر راضی نہیں تھے، سنہالا بدھ ملک کے اندر تامل خود مختار علاقہ قائم کرنے کے مخالف تھے۔
سری لنکا کے آئین میں اس۱۳ویں ترمیم کو وہی حیثیت حاصل ہے، جو بھارتی آئین میں دفعہ ۳۷۰اور ۳۵-اے کو حاصل تھی، جس کی رُو سے ریاست جموں و کشمیر کو چند آئینی تحفظات حاصل تھے۔ ان دفعات کو اگست ۲۰۱۹ء میں بھارتی حکومت نے نہ صرف منسوخ کرکے ریاست ہی تحلیل کردی۔ اب بھارتی حکومت کا سری لنکا حکومت کو تامل ہند و اقلیت کے سیاسی حقوق کی پاس داری کرنے کا وعدہ یاد دلانا حددرجے کا تضاد ہے۔
بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کی طرز پر ہی بھارت نے سری لنکا میں تامل اقلیت کو شمالی صوبہ جافنا کو آزاد کروانے پر اُکسایا تھا، اور اس کے لیے بھارتی ریاست تامل ناڈوکو مستقر (بیس)بنا کر تامل انتہا پسندوںکوگوریلا جنگ کے لیے تربیت دینی شروع کردی تھی۔ کانگریس کے ایک مقتدر لیڈراور ایک سابق وزیر نے ایک بار مجھے بتایا کہ ’’اگر ۱۹۸۴ء میںوزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقے جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی‘‘۔ تامل ناڈو کے سابق وزیرا علیٰ کے کرونا ندھی نے بھی ایک بار دہلی کی ایک نجی محفل میں بتایا کہ ’’مسزگاندھی نے سری لنکا کو۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیاتھا‘‘۔ یاد رہے سری لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکا جانے والے پاکستانی سویلین جہازوں کے لیے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑدیا۔ کروناندھی یہ بھی یاد دلاتے تھے کہ ’’۱۹۸۷ء میں دہلی کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کی موجودگی میں۴۰لاکھ روپوں سے بھرا ایک سوٹ کیس تامل ٹائیگرز کے کمانڈر ویلوپلائیپربھاکرن کے حوالے کیا تھا‘‘۔
جب بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی، تو سری لنکا کے سنہالا بدھ لیڈروں اور سری لنکا کے موجودہ وزیرا عظم مہندا راجاپکشا نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق اب بھارت، سری لنکا پر ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ کے لیے زور نہیں ڈال سکے گا۔ تامل تجزیہ کار شاستری راما چندرن کے مطابق جموں و کشمیر پر آئینی سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے بعد بھارتی حکومت کے پاس سری لنکا کو ۱۳ویں ترمیم کے نفاذ پر مجبور کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا ہے۔ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کے ایک بزرگ سیاست دان وی گوپال سوامی المعروف ویکو نے مودی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ’’کشمیر پر اس کے فیصلے کے مضمرات سفارتی سطح پر خاصے پیچیدہ ہوں گے اور سری لنکا کی تامل آبادی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘‘۔ راما چندرن ، جنھوں نے سری لنکا پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ’’گوٹا بایا راجا پکشا اور ان کے بھائی مہندا راجا پکشا نے اکثریتی سنہالا بدھ آبادی کو تامل ہندو آبادی اور بھارت کا خوف دلا کر انتخابات میں اسی طرح لام بند کیا، جس طرح مودی نے بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان سے، ہندو اکثریتی آبادی کو خوف زدہ کرکے ووٹ بٹورے‘‘۔
یاد رہے بھارت کے خفیہ اداروں کی نظر میں حساس صوبوں کی فہرست میں جموں و کشمیر کے بعد تامل ناڈو دوسرے نمبر پر ہے۔
دستورِ ہند میں دفعہ ۳۷۱ اور ۳۵-اے ختم کرنے کے بعد اگست۲۰۱۹ء سے تاحال وادیِ کشمیر میں محصور کشمیریوں پر بھارتی مسلح افواج کے ظلم کی نئی نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مسلح فورسز کے ہاتھوں مقامی نہتے شہریوں پر تشدد روز کا معمول ہے۔ مختلف دیہاتی باشندے بتاتے ہیں کہ انھیں لاٹھیوں اور موٹی تاروں سے مارا گیا اور انھیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ یہ رپورٹ بی بی سی لندن پر معروف صحافی سمیر ہاشمی نے پیش کی ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ’’میں نے جموں و کشمیر کے جنوبی اضلاع میں کم از کم نصف درجن دیہات کا دورہ کیا، جہاں مجھے ان دیہات کے لوگوں کی زبانی راتوں کو چھاپے، مارپیٹ اور تشدد کے بارے میں تفصیلات سننے کو ملیں۔ 'ڈاکٹروں اور محکمہ صحت کے حکام، بیماریوں سے قطع نظر کسی بھی مریض سے متعلق صحافیوں سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں‘‘۔
بی بی سی کی اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’ایک گاؤں کے رہایشیوں کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے دہلی اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان عشروں پرانے انتظام کو ختم کرنے کے متنازعہ فیصلے کے اعلان کے کچھ ہی گھنٹوں بعد بھارتی فوج گھر، گھر پہنچ گئی۔ایک مظلوم نے بتایا کہ میرے جسم کے ایک ایک حصے پر تشدد کیا گیا‘‘۔
دو بھائیوں نے بتایا کہ ’’ہم صبح سویرے اُٹھے تو ہم کو باہر ایک علاقے میں لے جایا گیا، جہاں گاؤں کے تقریباً نصف درجن مرد شناخت پریڈ کے لیے موجود تھے۔ بھارتی فوجیوں نے ہم سب کو مارا پیٹا۔ ہم ان سے پوچھتے رہے کہ 'ہمارا قصور کیا ہے؟ لیکن انھوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی،اور بس وہ ہمیں مارتے رہے‘‘۔
اپنی رُوداد ظلم سناتے ہوئے ایک فرد نے بتایا کہ ’’انھوں نے ہمارے جسم کے ہر حصے پر شدید ضربیں لگائیں۔ انھوں نے لاتیں ماریں، ہمیں لاٹھیوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے اور تاروں سے مارا۔ انھوں نے ہماری ٹانگوں کے پیچھے مارا اور جب ہم بےہوش ہوجاتے تو وہ ہمیں اٹھانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیتے۔ ہمیں ڈنڈوں سے مارتے اور ہم چیختے تو ہمارے منہ کو مٹی سے بھر دیا جاتا‘‘۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم انھیں کہتے کہ ہم بے قصور ہیں، آپ ہمارے ساتھ کیوں یہ کر رہے ہیں؟ مسلح کارندوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی۔ ہم نے انھیں کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں بس ہمیں گولی ماردیں۔ ایسا کہنے کا سبب یہ تھا کہ یہ تشدد ناقابلِ برداشت تھا‘‘۔
اس رپورٹ کے مطابق ایک نوجوان نے بتایا کہ ’’سیکورٹی فورسز مسلسل مجھ سے پوچھتی رہیں کہ 'پتھر پھینکنے والوں کے نام بتاؤ۔ میں نے اہلکاروں کو کہا کہ مجھے کسی کا نہیں پتا، جس کے بعد انھوں نے مجھے اپنی نظر کی عینک، کپڑے اور جوتے اتارنے کا حکم دیا۔جب میں نے اپنے کپڑے اتار دیئے تو انھوں نے مجھے دو گھنٹوں تک ڈنڈوں اور سلاخوں سے بے رحمی سے مارا ،اور جب میں بے ہوش ہوگیا تو مجھے ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے‘‘۔
اس نوجوان لڑکے نے کہا کہ’’ 'اگر ان لوگوں نے میرے ساتھ یہ ظلم دوبارہ کیا تو میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ میں بندوق اٹھاؤں گا کیونکہ میں روز روز کا یہ ظلم اور ذلّت برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔ رُوداد بتاتے ہوئے اس نوجوان نے کہا کہ’’ 'اہلکاروں نے مجھے کہا کہ اپنے گاؤں میں ہرایک کو خبردار کردو کہ اگر کسی نے فورسز کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تو وہ بھی اسی طرح کے نتائج کا سامنا کریں گے‘‘۔
رپورٹ کے مطابق ’’جن لوگوں نے بھی ہم سے بات کی وہ سمجھتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز نے دیہاتیوں کو ڈرانے کے لیے یہ سب حربے اختیار کیے ہیں تاکہ وہ احتجاج سے خوف زدہ رہیں‘‘۔
بی بی سی سے گفتگو کے دوران ایک ۲۰ سال کے نوعمر لڑکے نے کہا کہ’’ فوج نے دھمکی دی کہ اگر میں کشمیری فائٹرز کے خلاف مخبر نہ بنا تو مجھے پھنسا دیا جائے گا۔ لیکن جب میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تو انھوں نے مجھ پر بدترین تشدد کیا کہ دو ہفتوں بعد بھی میں کمر کے بل نہیں لیٹ سکتا۔ اگر یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو میرے پاس اپنا گھر چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ وہ ہمیں ایسے مارتے ہیں جیسے ہم کوئی جانور ہیں۔ وہ ہمیں انسان تصور نہیں کرتے‘‘۔
رپورٹ کے مطابق ایک اور شخص نے اپنے جسم پر متعدد گہرے زخم بھی دکھائے اور کہا کہ ’’مجھے زمین پر گرایا گیا اور پھر ۱۵،۱۶ سپاہیوں نے تاروں، بندوقوں، ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا‘‘۔ میں نیم بے ہوش تھا کہ انھوں نے میری داڑھی کو اتنے بُرے طریقے سے کھینچا، جس سے مجھے لگا کہ میرا جبڑا ٹوٹ جائے گا اور میرے دانت باہر نکل کر گر جائیں گے‘‘۔
اس نوعیت کے مظالم ڈھانے کا انداز کچھ اس طرح سے ہے کہ کبھی تشدد اورظلم کا یہ وحشیانہ طوفان ضلع کے ایک حصے میں اُٹھایا جاتا ہے ، اورپھر چند روز بعد کسی دوسرےعلاقے میں یہ درندگی مسلط کی جاتی ہے۔ ان ہولناک واقعات نے ہمارا جینا حرام کردیا ہے۔ افسوس کہ مسلم اُمت سورہی ہے۔
۲۹دسمبر ۲۰۲۰ء بدھ کی شام کوحسب معمول سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر ایک خبر آئی کہ لاوے پورہ سرینگر’ ہو کر سر‘ میں عسکریت پسندوں اور فوج کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی ہے۔ اورپھر ۳۰ دسمبر کو فوج نے پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ تین عسکریت پسندوں کو مار دیا گیا ہے۔ اس کے فوراً بعد ان مبینہ عسکریت پسندوں کے لواحقین نے پولیس کنٹرول روم کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ تینوں عسکریت پسند نہیں ہیں اور ان کا قتل فوج کی جانب سے جان بوجھ کر کیا گیا ہے ۔ اسی دوران پولیس کا ایک اور بیان سامنے آیا، جس میں کہاگیا کہ ’’اگرچہ ہلاک شدگان میں کوئی بھی جنگجوئوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے، لیکن ان میں سے دو نوجوان جنگجوئوں کے معاونین تھے، ہو سکتا ہے کہ تیسرا حال ہی میں شامل عسکریت ہو اہو‘‘۔
ان تینوں کو گھر سے دُور ایک دوسرے ضلع بانڈی پورہ میں دفن کر دیا گیا، جہاں پہلے غیرمقامی عسکریت پسندوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ مرحومین کے لواحقین تا دمِ تحریر احتجاج اور مطالبہ کررہے ہیں کہ’’ہمارے بچوں کو جُرم بے گناہی میں مارا گیا ہے۔ان کی لاشیں ہمیں واپس کی جائیں تاکہ ہم اسلامی طریقے سے ان کی تدفین عمل میں لائیں‘‘۔ یاد رہے کہ ان نوجوانوں میں سے اطہر کے والد نے اپنے مقتول بچے کی قبر خود کھود رکھی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جب تک میرے ۱۶سالہ اکلوتے بیٹے کی نعش نہیں ملتی تب تک میں انتظار میں رہوں گا۔
اس جھڑپ کے حوالے سے پوری وادی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ پہلے بھی یہاں فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کومار کر گمنام قبروں میں دفن کردیا گیا، جن میں سے چند بے گناہوں کی بے گناہی بھی ثابت ہوگئی ہے جس کی مثال ۲۰۱۰ء میں مژھل فرضی جھڑپ ،۲۰۲۰ ء میں شوپیاں میں تین معصوموں کا قتل اور ۲۰۰۱ء میں پتھری بل فرضی انکاؤنٹر شامل ہیں ۔۲۰۱۰ء میں بھی اسی طرح کی ایک فرضی کہانی گھڑی گئی، جس میں ۳۰؍اپریل۲۰۱۰ء کو ریگولر آرمی کے چار راجپوت یونٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’ہم نے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا‘‘۔ حالاں کہ واقعہ یہ تھا کہ مژھل سے دُور دوسرے ضلع بارہمولہ کے نادی ہل علاقے میں تین نوجوان (شہزاد احمد خان ، ریاض احمد لون اور محمد شفیع لون) اچانک غائب ہوگئے، یا غائب کردیے گئے۔ اُن کے گھر والوں کو اُن کے بارے میں کوئی اتہ پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ بڑی تلاش کے بعد ۱۰مئی کو گھر والوں نے تینوں نوجواان کی گمشدگی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے لئے احتجاج بھی کیا۔ اس احتجاج سے پولیس کے کان کھڑے ہو گئے اور انھوں نے اس کیس میں دل چسپی لینی شروع کردی اور گھر والوں سے پوچھ گچھ کر کے اس بات کا سراغ لگا لیا کہ نوجوانوں کا اغوا ہوا ہے۔تینوں نوجوانوں کے گھر والوں نے پولیس کے سامنے ایک مقامی سابق اسپیشل پولیس افسر پر شک ظاہر کیا اور مذکورہ ایس پی اونے پولیس والوں کے سامنے اعتراف کیا کہ ان تینوں نوجوانوں کے اغوا میں اُس کا ہاتھ ہے ۔اس کے بعد اس کہانی میں ایسی باتیں اخبارات میں سامنے آئیں، جن سے ایک انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کس طرح سے ایک انسان ’انعام‘ کی خاطر معصوم اور بے گناہ انسانوں کا قتل کرنے سے گُریز نہیں کرتا اور پھر بارہمولا سے مژھل سیکٹر میں ان کو گولی مار کرقتل کردیا گیا۔
اسی طرح کا ایک اور فرضی انکاؤنٹر ۲۰۲۰ء میں شوپیان میں رچایا گیا، جس میں راجوری کے تین معصوم نوجوان مزدوروں کو قتل کرنے کے بعد فوج نے بڑے فخر سے یہ دعویٰ کیا کہ ہم نے تین پاکستانی دہشت گردوں کو مار گرا یا اورجن سے فلاں فلاں قسم کے ہتھیار بھی ضبط کیے گئے ہیں۔ اس درد انگیز کہانی کا تذکرہ پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں کچھ اس طرح سے کیا ہے کہ ’’۱۸؍جولائی کی رات کو کیپٹن بوپیندر سنگھ عرف میجر ’بشیر احمد خان‘ اور دو مقامی افراد تابش نذیر ملک اور بلال احمد لون کے خلاف ۱۴۰۰ صفحات پر مشتمل چارج شیٹ شوپیان سیشن کورٹ میں دائر کی گئی ۔ چارج شیٹ میں پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ۱۸ جولائی کی رات کیپٹن بوپیندر سنگھ نے ان دو مقامی افراد کی مدد سے چوگام علاقے سے راجوری کے تین نوجوانوں کو اُن کے کرائے کے گھر سے اغوا کیا۔ اس کے بعد دلی کے نمبر پلیٹ والی کار میں ان تینوں نوجوانوں کو بٹھا کرامشی پورہ، شوپیاں لے جایا گیا۔ جہاں ایک باغ میں ان تینوں کو کیپٹن نے پیچھے سے گولیاں مار دیں۔ اس کے بعد ان نوجوانوں کی نعشوں پروہ ہتھیار بھی رکھے گئے جو وہ گاڑی میں اپنے ساتھ لائے تھے ۔تب کیپٹن نے انھیں خطرناک دہشت گرد قرار دیا اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ غیر ملکی ہیں۔ پھر انھیں بارہمولہ کے گانٹھ مولہ کے قبرستان میں دفنایا گیا جہاں عموماً غیر مقامی عسکریت پسندوں کو دفن کیا جاتا ہے ( واضح رہے کرونا وائرس کی بیماری پھوٹنے کے بعد سے اب تک مقامی عسکریت پسندوں کو بھی غیرمقامی قبرستانوں میں دفن کیا جا رہا ہے)۔
اس فرضی انکاؤنٹر میں مارے گئے نوجوانوں کی شناخت بعد میں ابرار احمد ۱۶سال، امتیاز احمد۲۵سال اور ۲۰سالہ محمدابرار کے طورپر ہوئی تھی، جو ایک روز قبل ہی راجوری سے شوپیاں مزدوری کے لیے آئے تھے۔ اس انکاؤنٹر کے بعد چونکہ ان تینوں نوجوانوں کا رابطہ گھر والوں سے منقطع تھا، تو ان کے لواحقین نے مقامی تھانے میں ایک رپورٹ درج کرائی اور میڈیا میں بھی یہ خبر پھیل گئی جس کی وجہ سے ان کے لواحقین چند ثبوتوں کی مدد سے انتظامیہ پر دبائو ڈانے میں کامیاب ہوگئے اور تب انتظامیہ نے مکمل انکوائری کی یقین دہانی کرائی۔ جس کے بعد شوپیاں پولیس نے مقتولین کے رشتہ داروں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے تو ان کے ڈی این اے ان تینوں نوجوانوں سے جاملے پھر کہیں ان کی قبر کُشائی کی گئی اور اُن کی میتیں وارثوں کو سونپی گئیں۔
کشمیر میں اسی ’افسپا‘ کی آڑ میں کئی عشروں سے فرضی انکاؤنٹر ہوتے آ رہے ہیں۔ اسی طرح ۲۰۰۰ء میں پتھری بل میں بھی ایک فرضی انکاؤنٹررچایا گیا، جس میں پانچ بے گناہ افراد کو اسی کالے قانون کی آڑ میں موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔یہ ایک ایسا وحشی قانون ہے جس نے کشمیر کے ہزاروں گھر برباد کر دیے، ہزاردں بچوں کویتیم کر دیا اور بوڑھے ماں باپ کو اپنے سہاروں سے ہاتھ دھونا پڑا ۔اسی قانون کی آڑ میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بڑے الم ناک ریکارڈ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوگئے۔
اس صورتِ حال کے حوالے سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انسانی جانوں کو موت کے گھاٹ اُتارکر شہرت اور تمغے حاصل کرنے کا یہ ایک نشہ ہے، جس کو فوجی ’افسپا‘ کو استعمال کر کے ایسے گھنائونے واقعات انجام دے رہے ہیں ۔ایک اور معروف ماہر قانون کا کہنا ہے کہ آئے روز کے فرضی انکاؤنٹر کشمیر میں مزاحمتی تحریک کو عبرت کا نشان بنانے کی ایک کوشش ہے۔بہر حال معصوم انسانوں کا قتل کسی بھی طور قابل برداشت نہیں ہے وہ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں اور کسی بھی ذات اور مذہب کے ماننے والے کے ساتھ ہو۔ ۲۰۱۸ء میں بھارتی وزارتِ داخلہ نے تسلیم کیا کہ ’افسپا‘ قانون کے تحت سب سے زیادہ خلاف ورزی جموں و کشمیر میں ہوتی ہے ۔۲۰۱۸ء میں بھارتی وزارت دفاع نے پارلیمنٹ میں ایک بیان میں کہا کہ پچھلے تین عشروں میں وزارت نے کسی بھی فوجی اہلکار کے خلاف کارروائی کا کوئی بھی حکم نہیں دیا ہے ۔
یاد رہے ’افسپا‘ بھارت میں اس وقت جموں و کشمیر کے علاوہ شمال مشرق کی چھے ریاستوں میں بھی لاگو ہے ۔یہ قانون شورش زدہ علاقوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔جموں وکشمیر میں ۱۹۸۹ء میں شروع ہونے والی عسکری تحریک کے بعد اسے یہاں لاگو کیا گیا۔یہ ایک ایسا کالا قانون ہے جس کے تحت بھارتی فوج جموں وکشمیر میں کسی بھی جگہ آپریشن انجام دینے کے علاوہ کسی بھی شخص کو شک کی بُنیاد پر بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کے اختیارات رکھتی ہے۔ اس قانون سے کشمیر میں فوجیوںکو انسانی جانوں سے کھیلنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ جموں وکشمیر میں جتنی بھی زیادتیاں یا فرضی انکاؤنٹر انجام پاتے ہیں اس سب کے پیچھے یہی کالا قانون ’افسپا‘ ہے، جس کو بھارتی فورسز ڈھال کے طور پر استعمال میں لاکر زیادتیوں کی مرتکب ہورہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل اور انسانی حقوق کی علَم بردار عالمی تنظیمیں، کشمیر میں اس قانون کے تسلسل و تواتر پر افسوس کا اظہار کر رہی ہیں۔ خود بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دانش ور بھی اس قانون کو جمہوری اور انسانی اقدار کے خلاف قراردے چُکے ہیں۔
جتنا جلد ہو سکے اس کالے قانون کو جموں و کشمیر سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔ جو کوئی بھی انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں، ان کے خلاف عبرتناک کارروائی کی جانی چاہیے، تب نوجوانوں کا بے گناہی کی پاداش میں اپنی انمول زندگیوں سے ہاتھ دھونا بند ہو سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر ایسے معاملات میں اگرچہ تحقیقات وغیرہ کی باتیں دہرائی جاتی ہیں، مگر عملاً وہ وقت گزاری کا بہانہ ہیں۔
ان غیر مبہم ، واضح اور مستند تحریری و تقریری بیانات کے مطالعے کے بعد کوئی بھی صاحبِ عقل یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ قائداعظم کا بیانیہ اسلامی پاکستان، اسلامی معیشت ، اسلامی معاشرت اور اسلامی ثقافت کے علاوہ کوئی اور تھا۔اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر اور ایک دوسرے موقعے پر جسٹس منیر کے قائد اعظم سے منسوب ایک گمراہ کن بیان کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہےتاکہ وہ نسل جو قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہوئی ہے حقائق سے آگاہ ہو اور قائد اعظم کی اصل تصویر ان کے سامنے آ سکے۔
ٹیلی ویژن کے دانش وَر اور یونی ورسٹیوں میں پڑھانے والے ’سیکولر‘ اسکالرز بار بار کہتے ہیں کہ جناح صاحب نے ۱۱؍ اگست کی تقریر میں مذہب اور ریاست کو الگ کر کے اپنے سابقہ موقف سے انحراف کر لیا۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر درج کردہ درجن بھر سے زیادہ بیانات جو ان کے اپنے قلم سے تحریر کردہ ہیں اور جو تقاریر وہ لکھ کر پڑھتے تھے ان میں مسلسل ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ پاکستانیت کا مطلب اسلامیت اور نظریۂ پاکستا ن کا مطلب اسلام کے علاوہ کچھ نہیں۔ یاد رہے یہ سب بیانات ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ءکے بعد کے ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ہم محض ایک مفروضے کے طور پر سیکولر طبقے کی ذہنی اختراع کو مان بھی لیں تو ان ساری تحریروں ،بیانات کے بعد۱۱؍ اگست کے خطاب کی کوئی حیثیت باقی رہتی ہے؟ ہم چند لمحات کے لیے اگر یہ مان بھی لیں کہ قائد نے تمام زندگی میں صرف ۱۱؍ اگست کو ہی ایک تقریر کی، تب بھی حقیقت وہ نہیں ہے، جو مخصوص طبقے کا دعویٰ ہے۔
آئیے اس تقریر کو جو تحریری تھی اور جس کا مسودہ ڈاکٹر زوار حسن زیدی کی مرتب کردہ دستاویزات میں پایا جاتا ہے، خود پڑھ کر دیکھیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ یہ تقریر دستور ساز اسمبلی کے صدر کا عہدہ سنبھالتے وقت کی گئی ۔ تقریر کا متن مع حوالہ درج ذیل ہے:
As you know, history shows that in England conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some states in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class.... The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of great Britain and they all are members of the nation. Now, I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State (Qua‘id -i-Azam M. Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48 Ministry of Information, Government of Pakistan, Islamabad, 1989, P271)
جیساکہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہوگا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی زیادہ ابتر تھے جیساکہ آج ہندستان میں پائے جاتے ہیں۔رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھائے۔ آج بھی ایسے ممالک موجود ہیںجہاں ایک مخصوص فرقےسےامتیاز برتا جاتاہے اوران پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں…
انگلستان کےباشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آنےوالے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور ان ذمہ داریوں اوراس بارِ گراں سے سبکدوش ہوناپڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کےاس مرحلے سے بہ تدریج گزر گئے۔ آپ بجاطورپر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ، اب جو چیز موجودہے وہ یہ کہ ہرفرد ایک شہری ہے اورسب برطانیہ عظمیٰ کے یکساں شہری ہیں۔ سب کےسب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا، نہ ہندو، ہند و رہےگا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے (قائداعظم: تقاریرو بیانات ، جلدچہارم، ص ۳ ۶۰)۔
اس تقریر کو پُراسرار بنانے کے لیے ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا گیا کہ اس کے مسودہ کو کہیں چھپاکر رکھا گیا تھا اور قوم کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی، جب کہ یہ صریح غلط بیانی ہے۔ یہ تقریر ہراس مجموعہ میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں قائد کے خطابات کو سرکاری یا غیر سرکاری طور پر یک جا کیا گیا ہے۔ ہمارایہ حوالہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات کی جانب سے طبع کردہ ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۸ء کی تقاریر و بیانات کی مطبوعہ کتاب سےہے ۔ جس پر اس وقت کی وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کا پیش لفظ ہے۔اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ اس کو عوام سے چھپایا گیا ۔اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ تقریر میں کیا کہا گیا۔
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اس تقریر کا پس منظر بیان کرتے ہیں ، جس کا جاننا بہت ضروری ہے:
Islamic ideology recognizes a distinction of meaning in the words "mazhab" and "din". "Mazhab" means personal faith, view point or path, whereas "din" means a body of those universal principles of Islam which are applicable to entire humanity. Therefore, in this sense, Pakistan does not have any specific mazhhab; because it is neither founded on nor projects the personal viewpoint of any particular Muslim sect. This very important aspect of the Sate of Pakistan was clarified by the Quaid-e-Azam in his famous Presidential address to the Constituent Assembly on August 11, 1947:
"You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan.You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State" (Dr. Javed Iqbal, Ideology of Pakistan, Lahore,Sang-e-Meel Publication, 2005 P.16).
نظریۂ اسلام ’مذہب‘ اور’دین‘ کے معنوں میں امتیاز روا رکھتا ہے۔ ’مذہب‘ کا مطلب ہے ذاتی اعتقاد، نقطۂ نظر یا راستہ، جب کہ ’دین‘ کا مطلب ہے اسلام کے وہ عالم گیر اصول جو تمام نوعِ انسانی پر لاگو ہوتے ہیں۔ لہٰذا، اس مفہوم میں تو پاکستان کا کوئی مخصوص مذہب نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ اس بنیاد پر قائم ہوا ہے اور نہ یہ کسی مخصوص مسلم فرقے کی فکر کو فروغ دیتا ہے۔ ریاست پاکستان کے اس نہایت اہم پہلو کی وضاحت قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ءکو قانون ساز اسمبلی سے اپنے مشہور صدارتی خطاب میں کر دی تھی: ’’آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے گرجوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مسجدوں یا کسی بھی عبادت کی جگہ پر جانے کے لیے پاکستان کی ریاست میں آزاد ہیں۔ آپ جس بھی مذہب، ذات اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، اس کا ریاست کے اُمور سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘‘۔
گویا قائد نے پہلی بات یہ کہی کہ ملک کی آزادی کے بعد جدوجہد آزادی کے دوران جو فرقہ وارانہ قتل و غارت ہوا اب اس سے آگے نکلنے کی ضرورت ہے۔ ایک نئی فکر کے تناظر میں بین المذاہب تعلقات پر غور کی ضرورت ہے ۔چنانچہ برطانیہ کی مثال دے کر یہ بات کہی کہ وہاں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقے یا مسلک کے افراد نے ایک عرصے تک ایک دوسرے کا قتل عام کیا لیکن آخر کار وہ سمجھ گئے کہ ان سب کو ملک کے دستور و قانون کے مطابق امن اور احترام کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہو گا ۔ایسے ہی اب پاکستان بننے کے بعد اس کے قیام کے دوران جو ہندو مسلم اور سکھ فساد او رقتل وغارت کی گئی اسے بھلا کر ملک میں قانون کی برتری کو قائم کرنا اورقانون پر اعتمادبحال کرنا ہو گا ۔اور یہ کرتے وقت برطانیہ کی مثال کو سامنے رکھنا ہو گاکہ وہاں پر اب نہ کوئی کیتھولک ہے نہ پروٹسٹنٹ بلکہ دونوں فرقے یکساں شہری کی حیثیت سے ایک دوسرے کا احترام کررہے ہیں۔ گو ذاتی طور پر وہ اپنے مسلک پر عمل کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی پاکستان بننے کے بعد ریاست کسی کو محض ہندو یا عیسائی یا پارسی ہونے کی بنا پر تفریق کا نشانہ نہیں بننے دے گی۔ وہ ریاست کی نگاہ میں یکساں شہری ہوں گےاور ان کا مسلکی یا مذہبی معاملہ ان کی ذات تک ہوگا۔
اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے قائد نے برطانیہ کی مثال اس لیے پیش کی کہ مسلک کی بنیاد پر جس طرح عیسائی وہاں قتل و غارت کر رہے تھےایسے ہی تقسیم ملک کے دوران ہندو مسلم فسادات ہوئے۔اس میں نہ کسی سیکولر ازم کی طرف اشارہ ملتا ہے اور نہ یہ بات کہ پاکستان میں اسلام ریاست کی بنیاد نہیں ہو گا ۔لیکن لبرل دانش وَروں نے پوری تقریر پڑھے اور سمجھے بغیر محض لفظ Religionکے استعمال کی بنیاد پر ایک خیالی محل تعمیر کر ڈالا اور اسے اتنی بار دُہرایا کہ لوگوں کو یقین آ جائے۔اسے علمی دیانت اور اصول تحقیق سے واضح انحراف کی ایک شکل ہی کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی مندرجہ بالا وضاحت کے بعد کہ مذہب یاReligionسے مراد مسلک ہےجو ایک ذاتی پسند ہے، جب کہ اسلام دین، یعنی مکمل نظام حیات ہے،اس مغالطے کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود اس سے قبل نصف درجن تقاریر و بیانات میں قائد اعظم اسلام کی تعریف جس طرح کرتے ہیں ، اس کو مسجد کی نماز تک محدود ایک ذاتی مذہب نہیں کہا جا سکتا ۔وہ واضح طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے، جو معاشی، سیاسی، معاشرتی ،قانونی، ثقافتی شعبوں میں الہامی ہدایات فراہم کرتا ہے اور یہ وہ بات ہے جو ان کے بقول ہندوؤں اور بعض مسلمانوں کے ذہن میں نہیں آتی۔
دوسرا بڑا ظلم کرنے والا کوئی انگریز یا امریکی مستشرق نہیں بلکہ پاکستان کی عدالت عالیہ سے وابستہ ایک فرد ہے جو بہت سے دیگر مصنّفین کو گمراہ کرنے کا واحد ذریعہ بنا۔ جسٹس منیر اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں تحریر کرتے ہیں :
The pattern of government which the Qua’id –i–Azam had in mind was a secular democratic government.This is apparent from his interview which he gives to Mr Doon Campbell ,Reutter’s correspondent in New Dehli in 1946, in the course of which he said: "The new State would be a modern democratic state with sovereignty resting in the people and the members of the new nation having equal rights of citizenship regardless of religion cast or creed" (M.Munir, From Jinnah to Zia , Lahore, Vanguard book,1980,P29).
وہ طرزِ حکومت جو قائداعظم کے ذہن میں تھا وہ ایک سیکولر جمہوری طرزِ حکومت تھا۔ اس کا اظہار ان کے اس انٹرویو سے ہوتا ہے جو انھوں نے رائٹر کے نمایندے ڈون کیمپبل کو ۱۹۴۶ء میں نئی دہلی میں دیا تھا۔ اس انٹرویو میں انھوں نے کہا: ’’نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں حاکمیت اعلیٰ عوام اورنئی قوم کے ارکان کی ہوگی جن کو مذہب، ذات یا مسلک سے قطع نظر شہریت کے یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔
پاکستانی نژاد برطانوی محقق سلینا کریم نے اپنی محققانہ تصنیف Secular Jinnah and Pakistan: What the nation Does't know میں جسٹس منیر کی تحریر اور خصوصاً رائیٹر کے نمایندے Doon Campbell کے انٹریوو کا تجزیہ کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا وہ ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہے :
The date of the Reuter’s interview of Jinnah with Doon Camble provided by Munir was simply the year 1946. No proper reference was provided anywhere in the book.The actual date of this interview is 21May 1947. The full transcript of the interview appears in the first volume of Z.H.Zadi’s Jinnah Papers. This in turn was obtained from an original typewritten document containg corrections in Jinnah’s own handwriting as well as his signature, conforming the textual authority of this particular interview. In particular wording of the text as given by Munir does not appear in the interview (Saleena Karim, Secular Jinnah and Pakistan: What the Nation doesn’t know, Karachi, Paramount Publishing Enterprises, 2010, P.30).
جناح کی رائٹر کے نمایندے ڈون کیمپبل سےانٹرویو کی تاریخ جو [جسٹس ] منیرنے دی ہے وہ محض ۱۹۴۶ء ہے۔ کتاب میں کوئی معقول حوالہ کہیں بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ اس انٹرویو کی اصل تاریخ ۲۱مئی ۱۹۴۷ء ہے۔ انٹرویو کا مکمل متن زیڈ ایچ زیدی کے Jinnah Papers کی پہلی جلد میں سامنے آیا ہے۔ یہ درحقیقت ٹائپ کیےہوئے اس اصل مصدقہ دستاویز سے حاصل کیا گیا ہے جس پر جناح کی اپنی تحریر میں تصحیح کے ساتھ ساتھ دستخط موجود ہیں جو اس مخصوص انٹرویو کی مستند حیثیت کی تصدیق کرتے ہیں۔ متن کے وہ مخصوص الفاظ جن کی نشان دہی [جسٹس]منیر نے کی ہے انٹرویو میں نہیں ملتے۔
سلینا کریم کی تحقیق کے مطابق اور ڈاکٹر زوار حسن زیدی کی سرکاری نگرانی میں طبع شدہ کتاب میں موجود قائد اعظم کے اپنے ہاتھ سے اصلاح شدہ مسودہ میں جسے ان کے سیکرٹری نے ٹائپ کیا اور انھوں نے اس کی اصلاح کرنے کے بعد آخر میں اپنے دستخط بھی کیے ،وہ الفاظ نہیں پائے جاتے جو جسٹس منیر نے قائد سے منسوب کر کے یہ بات پھیلا دی کہ وہ مغربی طرز کی سیکولر ریاست چاہتے تھے۔ دستاویز کے الفاظ یہ ہیں :
But the Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of government.Its parliament and cabinet, responsible to the parliament, will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect , which will be the final deciding factor with regard to the policy and programme of the government that may be adopted from time to time (Saleena Karim, 2010, p30-31).
لیکن حکومت پاکستان صرف ایک عوامی نمایندہ اور جمہوری طرز کی حکومت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کی پارلیمنٹ اورکابینہ، پارلیمنٹ کو جواب دہ اور بالآخر یہ دونوں راے دہندگان اور عوام کو بلاامتیاز ذات، مسلک یا فرقہ جواب دہ ہوں گے، اورحکومت وقتاً فوقتاً جو حکمت عملی اورپروگرام بناتی ہے اس ضمن میں یہ عنصر حتمی فیصلہ کن ہوگا۔
The question Doon Campbell asked was : on what basis will the central administration of Pakistan be set up?? In other words he wanted to know the thought of Jinnah regarding the nature of Pakistan. He wanted to know whether it would be a secular state or a religious state and how this would affect its relationship with neighboring countries? It was an opportunity for Jinnah to call Pakistan a secular state if he chose, and this would have surly suited the western audience for whose benefit the interview was being conducted (Saleena Karim, 2010, p-31).
ڈون کیمپبل نے جو سوال پوچھا تھاو ہ یہ تھا: پاکستان کی مرکزی انتظامیہ کن بنیادوں پر قائم ہوگی؟ دوسرے لفظوں میں وہ پاکستان کی نوعیت کے بارے میں جناح کے خیالات جاننا چاہتا تھا۔وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا یہ ایک سیکولر ریاست ہوگی یا ایک مذہبی ریاست اورکس طرح یہ اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو متاثر کرے گی؟ جناح کے لیےیہ ایک اچھا موقع تھا، اگر وہ چاہتے تو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دےدیتے، اور یہ بات مغربی سامعین کو یقیناپسند آتی جن کےمفاد کے پیش نظر یہ انٹرویو منعقد کیا گیا تھا۔
جسٹس منیر نے جو الفاظ قائد سے منسوب کیےوہ اصل دستاویز میں نہیں پائے جاتے،مثلاً قائد نے درج ذیل الفاظ قطعاً استعمال نہیں کیے:
the new state would be a modern democratic state.
اور نہ sovereigntyکا لفظ ہی استعمال کیا اور نہ religionکا۔ سلینا اپنی کتاب میں یہ بھی کہتی ہیں کہ اگر واقعی قائد سیکولر ریاست چاہتے تھے تو یہ بہت اچھا موقع تھا کہ بیرونی اخباری نمایندہ اس بات کو دنیا میں پھیلا دیتا لیکن قائد نے ایسا نہیں کیا۔دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک ماہر قانون جس کی ساری عمر دستاویزات جانچنے ، پرکھنے اور ان پر فیصلے کرنے میں گزرتی ہے کس منہ سے سو فی صد غلط بیانی کر تا ہے؟ مگر حقائق یہی ہیں اور سلینا کریم نے اصل مسودہ تلاش کر کے جسٹس منیر کی ہی نہیں بلکہ ان کو اپنا ماخذ مانتے ہوئے بہت سے غیر مسلم اور مسلم ماہرین کے خیال کی مستند تردید کردی ہے۔
دستورپاکستان اور شریعت
بانی ٔپاکستان نے میلاد النبی کی ایک تقریب میں کراچی کے وکلا کی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ۲۵جنوری۱۹۴۸ء کو واضح الفاظ میں بیان کیا کہ نظریہ پاکستان کے جو دشمن بے بنیاد افواہیں پھیلا رہے ہیں اور ان کا اشارہ خصوصاً ڈاکٹر خان کی طرف تھا جو سرحدی گاندھی باچاخان کی طرح دو قومی نظریہ اور قیام پاکستان کےمخالف تھے ۔قائد اعظم نے صاف طور پر یہ بات کہی کہ جو شریعت ۱۳۰۰سال پہلے درست تھی وہی آج بھی درست ہے اور وہی دستور کی بنیاد ہو گی:
He could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Sharia. The Qua’id-e-Azam said “the Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago. The Governor General of Pakistan said that he would like to tell those who are misled "some are misled by propagating" that not as the Muslim but also the non-Muslims have nothing to fear and its idealism have taught democracy. Islam has taught equality, justice and fair play to everybody. What reason is there for anyone to fear democracy, equality of man, freedom and the highest standard of integrity and on the basis of fair play and , justice for everybody. The Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah said, Let us make it (the future constitution of Pakistan). We shall make and we will show it to the world (Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah Speeches and Statements, 1947-48, Government of Pakistan, 1989, p125).
وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوںکا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرناچاہتاہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پراسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا‘‘۔
گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا: جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں ،یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے ہیں ، انھیں بتا دینا چاہتاہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموںکو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
اسلام اوراس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نےہرشخص کومساوات، عدل اورانصاف کا درس دیا ہے۔ کسی کو جمہوریت، مساوات اورحُریت سے خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے، جب کہ وہ دیانت کےاعلیٰ ترین معیارپرمبنی ہو اور اس کی بنیاد ہرشخص کے لیے انصاف اور عدل پررکھی گئی ہو۔ قائداعظم محمدعلی جناح نےفرمایا: ’’ہمیں اسے (پاکستان کا آیندہ دستور) بنا لینے دیجیے۔ ہم یہ بنائیں گے اور ہم اسے ساری دنیا کو دکھائیں گے‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم،ص ۴۰۲)
قائد اعظم کے دستور پاکستان کے شریعت پر مبنی ہونے کے بیان کی مزید تائید قائد کے ان اقدامات سے ہوتی ہے جو انھوں نے اس حوالے سے کیے ۔ ہم یہاں صرف دو ایسے شواہد کا ذکر کریں گے ، جن کی سند کی ضرورت نہیں ۔ اول علامہ محمد اسد کو قائد کے مشورے پر ’قومی تعمیر نو‘ کے ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا کہ وہ اسلامی دستور کا مسودہ تیار کریں۔ دوسرے دستور ساز اسمبلی میں ایک شعبہ تعلیمات اسلامی بورڈ مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری مولانا ظفر احمد انصاری کی زیرنگرانی قائم کیا گیا ۔جس کی صدرات مولانا سید سلیمان ندوی کے سپرد کی گئی اور اس بورڈنے قرارداد مقاصد اور دستور میں اسلامی دفعات کی تیاری کا فریضہ انجام دیا ۔
اسلام کے معاشی نظام پر بات کرتے ہوئے،انتقال سے بہ مشکل دوما ہ قبل یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شعبہ تحقیق کا افتتاح کرتے ہوئے قائد نے اپنے خطاب میں پاکستان میں مروجہ سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلامی معاشی نظام کے نفاذ پر زور دیا :
I shall watch with keenness the work your Research organization, in evolving banking practices compatible with the Islamic ideals of social and economic life. The economic system of the West has created almost insolvable problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world... The adoption of western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contended people. We must work our destiny in our own way and prove to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of mankind and social justice. We will thereby be fulfilling our mission as Muslims and giving to humanity the message of peace which alone can save it,and secure the welfare, happiness and prosperity of mankind (ibid, p 271).
آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طورطریقوں کو معاشرتی اوراقتصادی زندگی کےاسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کےسلسلے میں جو کام کرے گا مَیں اس کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروںگا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیئے ہیں اور ہم میں سے اکثرکو یہ محسوس ہوتا ہےکہ شاید کوئی معجزہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسےاس وقت سامنا ہے.... مغربی اقدار، نظریئے اور طریقے خوش و خرم اورمطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اوردُنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصورپر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچاسکیں گے کہ صرف یہی اسے بچاسکتا ہے اورانسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ (قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلدچہارم، ص ۵۰۱)
یہ حقیقت ہر باشعور پاکستانی کے علم میں ہے کہ ۱۹۳۳ء میں کمیرج یونی ورسٹی کے چند طلبہ جن میں چودھری رحمت علی اور ان کے رفیق کار خواجہ عبد الرحیم شامل تھے ، شمالی ہند میں مسلمانوں کی اکثریت کے پیش نظر ان صوبوں کے ناموں میں سے حروف لے کر ملک کے لیے ایک نام تجویز کیا تھا جو ’پاک-ستان‘ تھا۔اس تجویز کے محرک چودھری رحمت علی تھے۔
جو بات قوم کے علم میں نہیں لائی گئی وہ یہ ہے کہ ۲۴مارچ ۱۹۴۰ء کو، یعنی قرارداد پاکستان کے اگلے روز لاہور میں خواجہ عبدالرحیم نے قائد اعظم اور مسلم لیگ کی دیگر اعلیٰ قیادت کو اپنے گھر پر چائے پر مدعو کیا ۔ اس موقعے پر قائد اور خواجہ عبدالرحیم کی گفتگو غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ، کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی ٔپاکستان کے دل و دماغ میں پاکستان اور اسلام کا کیا تعلق تھا اور پاکستانیت یا پاکستانی قومیت کی بنیاد کس تصور پر ہے؟
“On March 24, 1940, a day after the Lahore Resolution, Khawaja Abdurrahim one of those who in Cambridge proposed the name of the country invited the Quai’d at his residence. The Quai’d told him Rahim the name you gave in 1930 is highly talked about in Hindu press.Khawaja Rahim asked the Quai’d then what should be the name in your view, Allama Iqbal in those days had already endorsed this name. The Quai’d said "if you people and the Muslim nation likes this name I have no objection, except in the name you have on the pamphlet Pakstan add 'I' which stands for Islam and is the link between these provinces". Khawaja Rahim conveyed it to Chaudary Rahmat Ali, who was visiting Karachi those days (Sultan Zaheer Akhter, Shayed Keh Tery Dil main uter jai meri baat, Rawalpindi, Tanzim Karkunan-i-Pakistan, 1998, p 23-24).
۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء ، قرارداد لاہورکےایک روز بعد، خواجہ عبدالرحیم نے جو ان میںسے ایک ہیں جنھوں نے کیمرج میں ملک کا نام تجویز کیاتھا، قائداعظم کو اپنی رہایش گاہ پر مدعو کیا۔ قائد نے ان سے کہا کہ ۱۹۳۰ء میں جو نام آپ نے تجویز کیا ہے ہندو پریس میں اس کا بہت چرچا ہے۔ خواجہ رحیم نے قائدسےپوچھا کہ ان کی رائے میں ملک کا کیا نام ہونا چاہیے؟ علامہ اقبال پہلے ہی اس نام کی تصدیق کرچکے تھے۔ قائد نے کہا: ’’اگر آپ لوگ اور مسلم قوم اس نام کو پسند کرتی ہے تو مجھے اس پرکوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے پمفلٹ پر جو نام ’پاک -ستان‘ لکھا ہے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرلیں جو اسلام کی نمایندگی کرتا ہے اور ان صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ خواجہ رحیم نے چودھری رحمت علی کو اس سے آگاہ کیا جو ان دنوں کراچی کے دورے پر تھے۔
کیا اس چونکا دینے والے انکشاف کے بعد بھی کوئی شخص قائد کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کا تصور پاکستا ن اسلام کے علاوہ کچھ اور تھا؟
قائد اعظم کی فکر کا تسلسل اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے پاکستان کا حصول ہر دور میں ان کی تقاریر اور بیانات کا موضوع رہا لیکن ’لبرل‘ دانش وروں ، نوکر شاہی ، ابلاغ عامہ پر قابض تجزیہ نگاروں نےبھرپور کوشش کی کہ قائد کو ایک سیکولر شخص کے طور پر projectکیا جائے۔ خود قائد کا اپنا اسلام سے تعلق کتنا گہرا تھا،اس کا اندازہ مندرجہ ذیل تقریر سے کیا جا سکتا ہےجو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجتماع منعقدہ ۱۹۳۹ء میں کی گئی:
I have seen enough of the world and possess a lot of wealth.
I have enjoyed all comforts of life. Now my only desire is to see the Muslims flourish and prosper as an independent community. I want to leave this world with a clean conscience and content with the feeling that Jinnah had not betrayed the cause of Islam and the Muslims. I do not want your praise nor any certificate. I only want that my heart, my conscience and my faith should prove at the time of my death that Jinnah died defending Islam and cause of the Muslims. May my God testify that Jinnah lived and died a Muslim fighting against the forces of "Kufar" and holding the flag of Islam high (Address at All India Muslim League 1939 reported in Daily Inqalab Lahore, October 22, 1939, Quoted by Dr.Safdar Mehmood, "Quaid wanted Islamic, democratic state, Dawn Pakistan Day Supplement" , March 23, 2002, P5).
میں دُنیا کافی دیکھ چکا ہوں اورکافی دولت رکھتا ہوں۔ میں زندگی کی تمام سہولتوں سے لطف اندوز ہوچکا ہوں۔ اب میری واحد تمنا یہ ہےکہ مسلمانوں کو کامیاب، خوش حال اورآزاد قوم کی طرح دیکھوں۔ میں اس دنیا کو صاف ضمیر اورپورے اطمینان کے ساتھ اس احساس کے ساتھ چھوڑنا چاہتا ہوں کہ جناح نے اسلام کے مقصد اورمسلمانوں سے بے وفائی نہیں کی۔ مجھے آپ کی تعریف یا کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا دل، میراضمیراور میرا ایمان موت کے وقت یہ ثابت کرے کہ جناح مسلمانوں اورمسلمانوں کے مقصد کا دفاع کرتے ہوئے فوت ہواہے۔ میرا خدا گواہی دے کہ جناح ’کفر‘کی قوتوں کےخلاف ایک مسلمان کی طرح جیا اور اسلام کےپرچم کو سربلند کرتے ہوئے جان دی۔
ہم آخر میں صرف دو مزید حوالے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کا تعلق قائد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اس کے راوی نامورمسلم لیگی لیڈر مولانا حسرت موہانی ہیں:
In 1945, Maulana Hasrat Muhani went to see the Quai’d at his Delhi residence (10- Aurangzeb Road) and was told he does not like to meet people at this evening hour. It was time for Magrib prayer, the maulana prayed in the lawn, and then started walking in the corridor. He heard some whispers and thought the Qua’id is talking with someone, he tried to peep into his room. What he saw was reported by him: "The Quai’d was sitting on prayer rug and was praying to Allah for the success of the Muslims with tears and sobs" (Agha Ashraf, Muraqa Quaid-i-Azam, Lahore, Maqbool Academy, 1992).
۱۹۴۵ء میں، مولانا حسرت موہانی، قائدسے ملنے کے لیے دہلی میں ان کی رہایش گاہ (۱۰- اورنگ زیب روڈ) پر گئے۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ شام کے ان اوقات میں لوگوں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ یہ مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ مولانا نے باغیچے میں نمازادا کی اور پھر برآمدے میں چہل قدمی شروع کردی۔ ا نھوں نے سرگوشی سنی اور سمجھا کہ قائد کسی سے بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے ان کے کمرے میں جھانکنے کی کوشش کی۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا ان کے بقول: ’’قائدجائے نماز پر بیٹھے تھے اور وہ آنسوئوں اور سسکیوں کے ساتھ مسلمانوں کی کامیابی کے لیے اللہ سے دُعاگو تھے‘‘۔
دوسری اہم دستاویز وہ عہد نامہ ہے جو مسلم لیگ کے عہدے داران نے دہلی میں ۹،۱۰؍اپریل ۱۹۴۶ء کو منعقدہ اجلاس میں اٹھایا ۔اس عہد نامہ کا آغاز قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت ۱۶۱ سے ہو رہا ہےاور اختتام سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۰ پر ہوتا ہے ۔
عہدنامے کا آغاز سورئہ انعام کی آیت سے ہوتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۶۲ۙ (انعام ۶: ۱۶۱) ’’میری نماز ، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور مرنا ، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
عہد نامہ کا اختتام بھی قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۰ پر ہو رہا ہے: رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۲۵۰ۭ (البقرہ ۲:۲۵۰) ’’اے رب ہمارے دلوں میں صبر ڈال دے اور ہمارے پاؤں جمائے رکھ اور اس کافر قوم پر ہماری مدد کر‘‘۔
اس عہد نامہ کے الفاظ اور ان پر قائد اعظم کے دستخط اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیتے ہیں کہ ان کی پوری جدوجہد ِقیام پاکستان کا مقصد کیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنی زندگی اور موت کو کس عقیدہ سے وابستہ سمجھتے تھےاور اس وابستگی کے اظہار میں کسی معذرت کے بغیر پوری استقامت کے ساتھ قائم تھے۔
ایک بنیادی سوال اس عہد نامہ کے حوالے سے یہ ہے کہ کیا اس عہد نامہ کے کرنے والے بہ شمول ایک ماہر قانون اور بے باک اور نڈر قائد یہ عہد ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے اُٹھا رہے تھے ؟ کیا قائد اعظم نے اپنے دستخط کرتے وقت اس عہد نامہ کو پڑھ کر اور سمجھ کر دستخط کیے تھے یا محض مروتاً دستخط ثبت کر دیے؟ ایک ماہر قانون جس نے زندگی میں کوئی جھوٹا مقدمہ ہاتھ میں لینا پسند نہیں کیا۔کیا وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اس عہدنامے پر دستخط کر سکتا ہے ؟قائد کے کردار ، عزم ، جرأت اور دوٹوک بات کرنے کی روایت کی روشنی میں ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے دانش وَروں اور لبرل ازم کے سہارے زندہ رہنے والے افراد نے قائد کی حیات اور فکر پر بھاری ظلم کیا ہے اور پاکستان کے تصور کو مسخ کرنے کی ایک ناپاک کوشش کی ہے۔
دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو بات ایک غیر مسلم محقق نے سمجھ لی اور جس کا اظہاروہ اپنی ایک مشہور کتاب میں کرتا ہے ، اس پر ہمارے بہت سے دانش وَر آج بھی جانتے بوجھتے شکوک میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کیوں وجود میں آیا؟ کنا ڈا کے تقابل ادیان کے ماہر کینٹول اسمتھ جنھوں نے ایک عرصہ علی گڑھ میں گزارا پھر تحریک پاکستان کے دوران لاہور کے فورمین کرسیچین (FC) کالج میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے اور جو اردوسے بہت اچھی واقفیت رکھتے تھے جس کا راقم چشم دید گواہ ہے، وہ تصور پاکستان کو یوں چند الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
In the Pakistan case…the whole raison detre of the state was Islam:it was Islam that first brought it into being, and that continued to give it meaning. The purpose of setting up the state was to enable Muslims here to take up once again the task of implementing their faith also in the political realm".
…Pakistan came into being as already an Islamic state not because its form was ideal but because, in so far as, its dynamic was idealist To set up an Islamic State then was the beginning not the end of an adventure.To achieve an Islamic state was to attain not a form but a process (Wilfred Cantwell Smith, Islam in Modern History, New York, Mentor Books 1957, P 217-219).
پاکستان کے معاملے میں …ریاست کا حقیقی مقصد اسلام تھا: یہ اسلام ہی تھا جو سب سے پہلے اسے معرضِ وجود میں لایا اورجس نے اس کے مفہوم کا تعین کیا۔ ریاست کا مقصد مسلمانوں کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ ایک بار پھراپنے ایمان پرعمل پیرا ہوسکیں اور میدانِ سیاست میں بھی…
پاکستان ابتدا ہی سے ایک اسلامی ریاست کےطور پر معرضِ وجود میں آیا، محض اس لیے نہیں کہ اس کا وجود مثالی تھا بلکہ اس کا محرک اصولِ پسندی تھا۔ ایک اسلامی ریاست کا قیام ایک مہم کا انجام نہیں بلکہ آغاز تھا۔ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل محض ایک وجود کا حصول نہیں بلکہ ایک عمل کا آغاز تھا۔
یہ وہ چند ناقابل تردید حقائق ہیں جن کے تذکرہ سے وہ تاریخِ تصورِ پاکستان جو ہمارے ملک کے نام نہاد لبرل و سیکولر طبقہ کے تعلیم یافتہ مؤرخین نے ’ معرو ضیت‘ کے نام پر تحریر کی اور جو ہماری نسلوں کو قیام پاکستان سے آج تک پڑھایا گیا، تاکہ ان کے ذہنوں میں وہی ’مذہب‘ و ’سیاست‘ کی تفریق جاگزیں ہو جس نظریہ کی پیداوار یہ دانش وَر خود تھے۔معروضیت کا تقاضا ہے کہ ان حقائق کو ہر مسلم و غیر مسلم پاکستانی کے علم میں لایا جائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ اس عظیم انعام اور تحفہ ، پاکستان کی امانت کا حق ادا کر سکے اور اپنے تشخص اور پہچان کو صوبائیت ، علاقائیت ، فرقہ واریت اور مسلکیت سے الگ کر کے پاکستان کا مقصد کیا لاالٰہ الا اللہ کو اپنی زندگی اور ملک کے نظام میں عملاً نافذ کر سکے۔(مکمل)
اجتہادکا لفظ ’جہد‘ سے مشتق ہے، جس کے لغوی معنی ایسی کوشش کے ہیں، جس میں مشقت شامل ہو۔ اجتہاد اپنے اصطلاحی معنی میں فکرواستنباط کے ذریعے حکمِ شرعی معلوم کرنے کا نام ہے۔ اجتہاد اپنے شرعی معنی میں اس مربوط اور منظم طریقۂ استنباط کا نام ہے، کہ جس کسی مسئلے کے بارے میں قرآن و سنت کی نص موجود نہ ہو، اس میں قرآن و سنت کی تعلیمات میں مضمر اصولوں کو سامنے رکھ کر ’اصول قیاس‘ کے تحت اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی خاطر حکم شرعی معلوم کیاجائے۔
یہ ہدایت ہمیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں جسے ’حدیث معاذ‘ کہا جاتاہے، زیادہ وضاحت اور قطعیت کے ساتھ ملتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر مقرر فرمایا، تو ان سے پوچھا کہ: ’’جب تمھارے سامنے کوئی معاملہ فیصلے کے لیے لایا جائے گا، تو تم اس کا فیصلہ کیسے کرو گے؟‘‘ حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ ’’میں مقدمات کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا‘‘۔ فرمایا: ’’ لیکن اگر تمھیں قرآنِ مجید میں کوئی ایسا حکم نہ ملے جس سے رہنمائی حاصل کرسکو تو اس صورت میں کیا کرو گے؟‘‘ عرض کیا: ’’میں ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کروں گا‘‘۔فرمایا: ’’اگر سنت بھی اس مسئلے میں خاموش ہو تو؟‘‘ عرض کیا: ’’میں اس مسئلے کا فیصلہ اپنے اجتہاد سے کروں گا‘‘۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس مسئلے میں قرآن کریم یا سنت نبویؐ کا واضح حکم موجود ہو ، اس میں اجتہاد جائز نہیں بلکہ ’مردود‘ ہے، البتہ جس کسی مسئلے کے حکم میں قرآن و سنت خاموش ہوں، ان میں اجتہاد نہ صرف جائز بلکہ ’محمود‘ ہے۔
اسلام کی تاریخ میں جو اسباب دروازئہ اجتہاد کے بند ہونے اور تقلیدی رویے کے اپنائے جانے کا باعث بنے، وہ بڑی حد تک اسلام میں بے جا عقلیت پسندی کے رجحانات ، مسلمانوں میں تصوف پر مسیحیت کے اثرات، اور خاص طور پر بغداد کی تباہی کے سبب پیدا ہوئے تھے۔ ان اسباب نے اسلام کی فکری نشوونما کو تقریباً مفلوج کرکے ر کھ دیا تھا۔ البتہ بعد کے اَدوار میں بھی کچھ ایسے افراد پیدا ہوئے، جو اپنی ذاتی حیثیت میں اجتہاد اضافی کا فریضہ انجام دیتے رہے، لیکن یہ عمل صرف ان کے اپنے اپنے مذاہب ِ فقہ کی حدودکے اندر رہا، یعنی ان مسائل کی حد تک جو فقہی مذاہب کے بانیوں نے غیرحل شدہ چھوڑ دیے تھے۔ اس کے علاوہ بعض صورتوں میں اجتہاد کا عمل مختلف مذاہب [مکاتب ِ فکر]کی قانونی آرا کے تقابلی مطالعے اور متفرق مسائل کے انتخاب و ترجیح کی صورت میں بھی جاری رہا اور اس طرح معاملے کے کسی خاص پہلو پر غوروفکر کے ذریعے اسلامی فقہ کے دائرے میں جو وسعت پیدا ہوئی، اس سے اجتہاد اضافی کے لیے بھی مواقع پیدا ہوتے رہے۔
ہمارا آج کا مسلم معاشرہ بے شمار سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل سے دوچار ہے، جنھیں صرف اس صورت میں حل کیا جاسکتا ہے، جب کہ ہم اجتہاد سے کام لیں، خصوصاً ایسے معاملات میں جن کے متعلق قرآنِ مجید یا سنت ِ رسولؐ میں کوئی براہِ راست اور واضح نص موجود نہیں۔ ایسے مسائل کےضمن میں ہم موجودہ تجارتی لین دین اور اس سے متعلقہ اُمور کا ذکر کرسکتے ہیں، جن میں بیمہ، ذاتی ملکیت کا حق، قومی ملکیت میں لے لینے کا تصور، جدید مالی قوانین اور محاصل، [میڈیکل سے متعلقہ گوناگوں مسائل و معاملات]، نظامِ حکومت، اسمبلیوں کے لیے عوامی نمایندوں اور سربراہِ مملکت کے انتخاب کا طریقہ، جمہوری معمولات کے سیاق و سباق کے حوالے سے بالغ راے دہی کا نظام، بین الاقوامی قانون سے متعلق مسائل جیسے بودوباش سے تعلق رکھنے والے معاملات وغیرہ۔
اجتہاد کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اسے کسی صورت اور حالت میں، قرآن و سنت کے احکام کے خلاف نہ ہونا چاہیے۔ اسے لازمی طور پر اسلامی مقاصد سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ جو افراد یا جماعتیں انفرادی طورپر یا اجتماعی صورت میں اجتہاد سے کام لیں ، انھیں نہ صرف یہ کہ دینی علوم اور ان کے اصول و کلیات سے مکمل طور پر آگاہ ہونا چاہیے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صاحبانِ تقویٰ اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل ہوں، تاکہ وہ دینی مسائل میں استنباط و استخراج کا فریضہ، اپنی ذاتی پسند و ناپسند اور نفسانی خواہشات و احساسات کے تقاضوں سے بالاتر رہ کر انجام دے سکیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اجتہاد کی وہ کون سی حدود ہیں، جن کا اسلامی معاشرے میں بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق متعلقہ قوانین میں ترمیم و اصلاح کے دوران ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے؟ بالفاظ دیگروہ کون سا طریقہ ہے، جس کے ذریعے اسلامی نظامِ اجتہاد کو ہمارے جدید معاشرے میں بروئے کار آنا چاہیے؟نیز یہ کہ وہ اسلامی قانون کیا ہے؟
گویا اجتہاد کے ذریعے قانون میں ترمیم نہیں کی جاتی بلکہ اس کے ذریعے قانون سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اصول اجتہاد کے تحت وہ تمام معاملات جن کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کے احکام اور ہدایات واضح اور قطعی ہیں، ان میں کسی ترمیم اور تبدیلی کی گنجایش نہیں۔ اسی طرح جن معاملات پر کتاب وسنت کی روشنی میں صحابۂ کرامؓ کا اجماع ہوچکا، ان سے انحراف ممکن نہیں کیونکہ وہ شاہدین اوّل ہیں۔ انھی کی روایت کے ذریعے ہم تک قرآن پہنچا۔ وہ نبی کریمؐ کی صحبت سے مستفیض تھے اور علومِ نبوت کے براہِ راست حامل اور شارح تھے اور جو علم صحابۂ کرامؓ نے براہِ راست رسولؐ اللہ سے حاصل کیا اور اس کی تعبیر و تشریح کی،وہ معلم کتاب کی منشا و مراد ہے۔
البتہ وہ مسائل و معاملات کہ جن کے بارے میں کتاب وسنت کی عبارات مختلف یا ایک سے زائد معنی کی متحمل ہیں اور ان کی تعبیر و تشریح میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے، ان کے متعلق اُمت کے فقہا ماحول، مقتضیات اور مملکت کے مفاد کے پیش نظر کسی ایک تعبیرو تشریح کو ترجیح دے سکتے ہیں یا کوئی جدید تعبیر و تشریح اختیار کرسکتے ہیں، اور جن مسائل کے بارے میں اصل ہدایات تو کتاب و سنت میں موجود ہیں، لیکن تفصیلات اور جزئیات موجود نہیں، ان کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے احکام وضع کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ مسائل جن کا کتاب و سنت یا اسلامی فقہی ادب میں کوئی ذکر نہیں ہے، عہدِحاضر کے جدید مسائل ہیں، ان کے متعلق اجتہاد کے ذریعے قوانین وضع کیے جاسکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ اجتہاد کے ذریعے وضع کیے جانے والے قوانین کتاب وسنت کی روح اور منشا کے خلاف یا منافی نہ ہوں۔
لہٰذا، نہ صرف یہ کہ [ہرعہد کی طرح] موجودہ دور میں بھی اجتہاد کا جواز موجود ہے بلکہ اس سے کام لیا جانا ضروری ہے۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ہم ترقی پذیر بنیادوں پر اسلامی معاشرے کی تجدیدواحیا اور تنظیمِ نو کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ جس چیز کی ہمیں آج کے دور میں ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہم صرف اسلامی تعلیمات اور ہدایات کی روشنی میں خارجی قوتوں اور مغرب کے ذہنی اور ثقافتی غلبے سے متاثر ہوئےبغیر اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ اچھائیوں اور بُرائیوں کا اپنے اندر ادراک اور شعور پیدا کریں۔
اس لیے جب ہم اجتہاد کے عمل اور طریقے کی پیروی کریں تو ہمیں نص کی جانب سے بے توجہی نہ برتنی چاہیے اور نہ قرآن و سنت کے باقاعدہ علم سے بے بہرہ ہونے اور اسلامی قانون اور فلسفۂ قانون کے اصولوں سے لاعلم ہونے کی غلطی کرنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام پاپائیت پر یقین نہیں رکھتا، لیکن وہ ہرعمومی علم رکھنے والے شخص کو نہ یہ حق دیتا ہے اور نہ دے سکتا ہے کہ وہ اجتہاد کا اہم اور محنت طلب فریضہ اپنے ہاتھ میں لے۔ اجتہاد کا دروازہ بلاشبہہ کھلا ہے لیکن داخلے کا حق صرف ان لوگوں کو حاصل ہے، جو اجتہاد کی تمام شرائط پوری کرتے ہوں، یعنی علم دین بھی اور پارسائی کی زندگی بھی۔
اسی طرح تعدد ِ اَزواج کے معاملے میں بھی عراق، شام، مراکش، اُردن،پاکستان اور کچھ دیگر مسلم ممالک میں مردوں کے اس اختیار پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ بیویاں اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہیں۔ تاہم، تیونس کے قانون میں تو تعددِ اَزواج پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس معاملے میں تیونس کا قانون دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں منفردہے۔ مصر میں تمام طلاقیں ، سواے اس طلاق کے جو دخول سے پہلے دی گئی ہو، یا وہ جس کا معاوضہ لے لیا گیا ہو، یا وہ تین طلاقیں جو تین طہر میں دی گئی ہوں، ۱۹۲۹ء کے قانون کی رُو سے رجعی قرار دے دی گئی ہیں ۔ سوڈان میں ایکٹ ۱۹۳۵ء کے مطابق ایک وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دے دیا گیا ہے۔ شام میں بھی ایکٹ ۱۹۵۳ء کی رُو سے ایسا ہی قانون اپنا لیا گیا، جیسا مصر میں رائج ہے۔تاہم لبنان اور انڈونیشیا میں ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو غیررجعی سمجھا جاتا ہے۔ ہندستان کے مسلمانوں میں بھی یہی صورت رائج ہے۔ پاکستان میں عائلی قوانین کے آرڈی ننس مجریہ ۱۹۶۱ء کے تحت طلاق سوائے اس صورت کے، جب کہ اس سے رجوع کرلیا گیا ہو، یونین کمیٹی کے چیئرمین کو خاوند کی جانب سے جس نے طلاق دی ہے ، قطع نظر اس امر کے کہ ایک طلاق دی ہے یا دو تین یا زیادہ طلاقیں اور یہ کہ ایک وقت میں دی ہیں، یا مختلف اوقات میں، طلاق کا نوٹس ملنے کی تاریخ سے ۹۰ دن گزر جانے کے بعد مؤثر ہوتی ہے۔
پھر قانونِ وراثت میں روایتی قانون کے مطابق یتیم پوتے پوتیاں اپنے دادا کی وراثت سے محروم رہتے ہیں، لیکن مصر کے قانون انتظام وصیت کے تحت لازمی میراث کا طریقہ رائج کیا گیا ہے کہ یتیم پوتوں اور پوتیوں کو اپنے دادا کی میراث میں اتنے حصے کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جتنا حصہ ان کے والدین کو زندہ ہونے کی صورت میں ملتا۔ تاہم، یہ حصہ کُل میراث کے ایک تہائی حصے سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ یہی طریقہ شام نے ۱۹۵۳ء میں، تیونس نے ۱۹۵۷ء میں، مراکش نے ۱۹۵۸ء میں اور عراق نے ۱۹۵۹ء میں اپنایا۔تاہم، شامی اور مراکشی قوانین کے مطابق لازمی میراث کا یہ طریقہ صرف فوت شدہ بیٹے کی اولاد تک محدود ہے۔ فوت شدہ بیٹی کی اولاد پر اطلاق نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس پاکستان میں عائلی قوانین کے آرڈی ننس مجریہ ۱۹۶۱ء کی رُو سے دادا کی میراث میں یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے حصے کے متعلق قرار دیا گیا ہے کہ اگر جانشینی کا آغاز ہونے سے پہلے مورث کا کوئی بیٹا یا بیٹی وفات پاچکی ہو تو اس بیٹے یا بیٹی کی اولاد جو آغاز ِ جانشینی کے وقت زندہ موجود ہو، حسب مراتب اس حصے کے مساوی حصہ وصول کرلے گی، جتنا حصہ اس بیٹے یا بیٹی کو ملتا اگروہ زندہ ہوتے۔ یوں پاکستان کا قانون دیگر مسلم ممالک کے قانون سے بالکل مختلف ہے۔
اوقاف کے معاملے میں جن میں وقف علی الاولاد بھی شامل ہے،مصرکے قانون وقف مجریہ ۱۹۴۶ء کی رُو سے بنیادی تبدیلیاں بروئے کار لائی گئی ہیں، یہاں تک کہ اگر وقف خیراتی ہو تو یہ عارضی اورمستقل دونوں صورتوں میں جائز ہے ، لیکن اگر وقف خیراتی نہ ہو تو مستقل طور پر اسے وقف کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چنانچہ وقف علی الاولاد کی مدت، حیات واقف کو مستثنیٰ کرتے ہوئے صرف دو نسلوں یا ۶۰سال تک جو بھی پہلے ختم ہو، محدود کردی گئی ہے۔تاہم، کسی مسجد کے وقف یا مسجد کے حق میں وقف کو، اگر وہ محدود مدت کے لیے ہو تو اسے ناجائز قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ایسا وقف مستقل بنیادوں پر کیا جائے۔ لبنان میں بھی اوقاف کی قانونی حیثیت یہی ہے، جب کہ بہت سے دوسرے ممالک میں جہاں مسلمان آباد ہیں، اوقاف کا روایتی قانون رائج ہے۔
ایسا کمیشن جدید دور میں ادارہ اجماع کے اغراض و مقاصد پورے کرے گا اورفقہی ذکاوت کے ذریعے قبولیت عام کی ضمانت مہیا کرے گا اور اُمت کی اجتماعی خواہش کےلیے قابلِ قبول بھی ہوگا۔ اس عمل میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی حدود میں رہتے ہوئے اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اجتہاد کے طریقے پرعمل پیرا ہوکر قوانین کو وسیع تر بنیادوں پر تمام مسلّمہ فقہی مذاہب کے اسلامی قانون کے ذخیرئہ کتب و مواد پر مبنی ہونا چاہیے اور ان قوانین کی تدوین کے لیے کسی ایک فقہی مسلک پر انحصار نہ کرنا چاہیے۔
ہمیں یقین ہے کہ اجتہاد کا عمل اپنا شان دار کردار ادا کرے گا اور دورِحاضر میں اسلام کی ذہنی و فکری نشاتِ ثانیہ میں براہِ راست اور بھرپور حصہ لے گا۔ اجتہاد سے جدید تہذیب کے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور مسلم معاشروں میں اس وقت جو جمود پایا جاتا ہے، وہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ اجتہادکے نتیجے میں بلاشبہہ ساری دنیا کے مسلمان ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور وہ چیز حاصل ہوگی جو ہمارا بنیادی مقصد ہے، یعنی عالمِ اسلام کا اتحاد۔
تعلیم کیا ہے ؟ وہ عمل جس کے ذریعے ایک نسل اپنی حاصل کردہ معلومات ، تجربات ،عملی مہارتوں اور اپنے عقیدہ واطوار کو نو خیز نسل کی طرف منتقل کرتی ہے۔ پہلے ا س عمل کا زیادہ تر حصہ گھروں کے دائروں میں تکمیل پاتا تھا۔ ماں کی گود اور باپ کے فیضانِ نظر کا مکتب اکتفا کرتا تھا ۔ پھریہ عمل قبیلے یا دیہی کمیونٹی تک وسیع ہو گیا۔ بعد میںجب انسانی معلومات اور تجربات کا پھیلائو بڑھ گیا تو باقاعدہ مکتب ومدرسہ کے ادارے وجود میں آئے۔ اور اب، جب کہ شاخ در شاخ علوم کی پہنائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہر شاخ بجاے خود چمن بد اماں ہے، تعلیم کاعمل یونی ورسٹیوں اور جامعات وکلیات کے بھاری بھر کم نظام کا منت کش ہو گیا ہے۔
اسی بنیادی سرمایۂ شعور سے ہر معاشرے کا کلچر بنتا ہے اور اسی کے مطابق اس کی ساری تہذیب تشکیل پاتی ہے ۔اس کلچر یا تہذیب کو تعلیم کے ذریعے ہر نسل دوسری نسل کی طرف بڑی احتیاط اور بڑی سر گرمی سے منتقل کرتی ہے۔ اسی تہذیب کے مطابق اس کی اجتماعیت بنتی ہے۔ اسی کے مطابق اس کا نیشنل ٹائپ بنتا ہے۔ اسی کے مطابق اس کا نظامِ اقدار ، اس کا سلسلۂ اطوار اور اس کا تصور کردار نمودار ہوتا ہے ۔ پس اگر وہ اپنے امتیازی تہذیبی شعور کو آیندہ نسلوں تک پہنچانے میں کوتاہی کرے تو اس کا نتیجہ بجز اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ اخلاف اپنے تہذیبی وجود کو کھو بیٹھیں، اپنا مقصد گم کر دیں ، اپنے تصورِ کردار سے محروم ہو جائیں، اپنے معتقدات کی عمل انگیز روح کو ضائع کر دیں، اور اپنی اجتماعیت کی شکست وریخت کا تماشا کریں۔
پس میں جس تہذیبی نظریۂ تعلیم پر گفتگو کر رہا ہوں ، اس کے لحاظ سے اوّلیت اس امر کو حاصل ہے کہ پورے نظام تعلیم میں اس تہذیبی شعور اور تجربے کو اوّلیت اور غلبہ حاصل ہونا چاہیے جس کے بل پر کوئی قوم قائم ہے اور جس کی تحریک ہی سے وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو کر مزاحم قوتوں کے ہر چیلنج کا جواب دینے کے قابل ہوتی ہے۔ تہذیبی نظریۂ تعلیم پر غور کرتے ہوئے ہمیں خود اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہمارا امتیازی تہذیبی وجود کیا ہے ، کیسے بنتا ہے اور اس کی بنا کیا ہے ؟
پس ہم ملت اسلامیہ سے وابستہ لوگ کائنات وحیات کا خدا پرستانہ اعتقاد رکھتے ہیں۔ ہم تمام نظریات وافکار کی آخری کسوٹی علمِ وحی کو مانتے ہیں۔ ہم خدا کے رسولوں کے اسوہ کو انسانی کرداروں کے لیے معیار سمجھتے ہیں۔ ہم حق وباطل اور خیر وشر کی ایک خاص تقسیم کے قائل ہیں۔ ہم پائیدار اخلاقی بنیادوں کے مطابق انسانِ مطلوب کا خاکہ سامنے رکھتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں انسانی مراتب اور رابطوں اور باہمی حقوق وفرائض کا ایک متعین ومخصوص معاشرتی ڈھانچا وقعت رکھتا ہے۔ ہم دولت ومحنت کا تعاون عدل واحسان کے ذریعے قائم کرتے ہیں۔ ہم مرد وزن کے دو طرفہ مساویانہ حقوق کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے ادارے کو مستحکم رکھنے کے لیے مرد کو ادارے کی لیڈر شپ پر فائز کرتے ہیں۔ اسی طرح جنگ وصلح کے حدود ، مجلسی آداب وشعائر، اور ایک مخصوص قسم کا ذوق جمال و زیبائی ہمارے تہذیبی سرمایے کے لازمی اجزا ہیں۔ ہمارے اساسی عقائد کے مطابق جو خدا پرستانہ تہذیب نمودار ہوتی ہے ، اس میں ایک خاص نہج کی ہیئت اجتماعیہ جگہ پا سکتی ہے۔
ہم پر مصیبت یہ آئی کہ ایک بیرونی قوم نے ہمیں غلامی میں جکڑ کر نظامِ تعلیم کے ذریعے اپنی مادّہ پرستانہ تہذیب کو ہم پر ٹھونسنے کا عمل جاری رکھا۔ اس عرصے میں ہمارے عقیدے، ہمارے مقصد اور معیارِ انسان مطلوب ، یعنی ہمارے اساسی تہذیبی شعور کو بری طرح تباہ کیا گیا۔ ہمارا پورا نیشنل ٹائپ غارت ہونے لگا۔ ہمارے امتیازی تہذیبی وجود کے تمام اجزا پراگندا ہونے لگے۔ ہمارا تصورِ اجتماعیت نگاہوں سے گم ہونے لگا، اور ہماری ملّی خودی جوتجدید واحیا کے لیے قوتِ محرکہ تھی، تعلیم کے تیزاب میں پڑ کر راکھ ہونے لگی۔ ہمیں اگر بچایا ہے تو قرآن وحدیث کے اس علم نے جو ایک مشعل کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ رہا۔ اور جس سے بہرہ مند کرنے کے لیے ہمارے ان علما ، لیڈروں، ادیبوں، مصنفوں اور صحافیوں نے اپنی محنتیں صرف کیں جو مغربی سامراج کی غلامی کے قفس میں بھی اپنی ایمانی روح کو سلامت رکھ سکے۔
ایک کے بعددوسری اور تیسری تعلیمی پالیسی پچھلی کوششوں سے بہت بہتر ہے، مگر اس کا بھی مطلوب صرف یہ ہے کہ ہر مضمون میں اسلام کے عناصر کو شامل کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ مغرب سے مستعار علوم اور افکار اور نصابیات میں جو مادّہ پرستانہ تصورِ کائنات وحیات ، نظریۂ ارتقا کے تحت انسان کا جو حیوانی تصور، نفسیاتی اور تاریخی جبریت کا جو فلسفہ ، اخلاق کا جو افادی نظریہ، ادب، سائنس اور ٹکنالوجی کا جو دیوتائی مرتبہ ، اور تحلیل وتحریم اور قانون سازی میں عوامی جذبات وخواہشات کی برتری کی جو فکر شامل ہے ، اسے تبدیل کیے بغیر آخر یہ کیسے ممکن ہو گا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسان پیدا ہوں جن کا تقاضا اسلام کا تہذیبی نظام کرتا ہے۔
ہمیں تو ایسی یونی ورسٹیاں اور کالج درکار ہیں جن سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان اسلامی انقلاب کے سپاہی بن کر نکلیں ۔ وہ اپنے دین اور اپنے نظریات وتصورات اور اپنی تہذیب کے اطوار واقدار کی برتری کا یقین رکھتے ہوئے دنیا بھر کی اقوام کے سامنے ان کے نقیب بنیں۔ یہ اصل مطلوب اگر حاصل ہو تو علمِ ماحول اور علمِ اشیا کا جو ذخیرہ جہاں سے بھی ملے اَزخود اپنی جگہ پر نصب ہو جائے گا، لیکن اگر تہذیبی شعور اور ملّی خودی ہی زندہ وتوانا نہ ہو تو آپ اس کی کمر سے اگر سائنس یا ٹکنالوجی کی تلوار باندھ بھی دیں تو آخر بقاو ارتقا کا جہاد کیسے عمل میں آجائے گا؟ خالی سائنس اور ٹکنالوجی تو محض بے مقصد خدمت گزار فراہم کرتی ہے جنھیں کسی بھی قوم اور کسی بھی تہذیب کی گاڑی میں قلی بنا کر جوتا جا سکتا ہے۔
آج سے ہمیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہمار ا مقصد محض اسلامیات پڑھانے سے پورا نہیں ہوسکتا ، خواہ اسے ہر مضمون میں شامل کر دیا جائے، بلکہ اسلامی نظام تعلیم وہ ہو گا جو غیر اسلامی اور مادّہ پرستانہ تہذیبوں کے افکار ونظریات کے خلاف نوجوانوں کو ایمانی جہاد لڑنے کے قابل بنا سکے اور انھیں اسلام کے مکمل تہذیبی شعور سے مسلح کر سکے۔
مغرب کی استعماری طاقتوں نے جب شرق اوسط، افریقہ اور جنوبی ایشیا کے ممالک پر سیاسی اور فوجی طاقت کے ذریعےقبضہ کیا تو انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ مسلمانوں کو ان کی مضبوط دینی اور تہذیبی روایات کی وجہ سے مستقل طور پر غلام بنانا آسان نہیں۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں میں خوئے غلامی پیدا کرنے کے لیے ان کی تہذیب، ثقافت، زبان اور نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ برصغیر میں ۱۸۳۵ء میں لارڈ میکالے کا نظام تعلیم نافذ کیا گیا، لیکن درحقیقت اس کا مقصد مغربی اقدار اور تہذیب کے لیے راستہ ہموار کرتے ہوئے اسلامی اقدار کو مسخ کرنا، لادینیت کو فروغ دینا اورایسے افراد تیار کرنا تھا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندستانی ہوں، لیکن اپنی سیرت، اخلاق، سوچ، افکار اور نظریات کے حوالے سے مغربی تہذیب کے ترجمان ہوں۔ اس کے علاوہ اس نظام تعلیم کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ برصغیر کے لوگوں کومغربی تہذیب سے مرعوب کرکے، یورپی مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ کھپت کے لیے اس خطے کو ایک وسیع مارکیٹ کے طور پر استعمال کیا جائے۔
اس نئے نظام تعلیم کے تحت پرائمری وثانوی تعلیمی ادارے، کالج، یونی ورسٹیاں قائم کی گئیں اور بعد ازاں تعلیم کو مفت اور لازمی بھی قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں صدیوں سے قائم مساجد، مدارس اور خانقاہوں کی سرکاری امداد بند کرکےانھیں مفلوج کر دیا گیا۔ جن جائیدادوں سے ان مدارس کی معاونت ہوتی تھی انھیں ضبط کرلیا گیا اور صرف چند مدارس باقی بچے جن کے مہتمم بہت سخت جان ثابت ہوئے۔ تعلیم کے میدان میں علی گڑھ تحریک کےساتھ ساتھ دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء اور جامعہ ملیہ جیسی تحریکیں بھی اٹھیں، لیکن یہ ادارے تعلیم کے نام پر آنے والے مغربی تہذیب و اقدار کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس جدید مغربی تعلیم سے نہ صرف مسلمانوں کا تعلیمی معیار پست ہوا بلکہ ان کا روایتی، دینی ذوق اور تخلیقی صلاحیتیں بھی مفقود ہوگئیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد دینی عقائد و روایات، تہذیبی و ثقافتی اقدار اور ملکی ضروریات کے مطابق نظام تعلیم تشکیل دینے کے بجائے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو ہی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اپنا لیا گیا۔ اس نظام تعلیم کے زیر اثر آج ایک ایسی نسل تیار ہو چکی ہے، جو بظاہر تعلیم یافتہ ہے لیکن ذہنی طور پر مغرب کی غلام ہے۔ انھیں اپنے دین اورتہذیب کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ علم نہیں، جو اسلامیات لازمی اور مطالعہ پاکستان کے چند اسباق میں پڑھایا جاتا ہے لیکن وہ مغربی تہذیب کی تمام خرافات کی نقالی کا علم رکھتے ہیں۔ وہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسلام اور پاکستان کے وفادار بننے کی بجائےسیکولر نظریات و ثقافت کے علَم بردار اور مغرب کے وفادار بن جاتے ہیں۔
ہم صرف قابل ڈاکٹروں، انجینیروں، سائنس دانوں اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین ہی کو تیار نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے افراد کی بھی ضرورت ہے، جو محب وطن ہوں اور قومی و ملّی تقاضوں کو پورا کرتے ہوں۔ اس کے بغیر قومی، ملّی، اور دینی مقاصد و ضروریات کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔
ہمارے ملک کی باگ ڈور ایسے طبقے کے ہاتھ میں ہے، جو مغرب کی پیروی میں ہماری نصابی کتب میں موجود دینی تعلیمات پر نت نئے سوالات اٹھاتا رہتاہے۔ مثلاً مذہب دور رفتہ کی یادگار ہے، آج کے دور میں چودہ سو سال پہلےکا نظا م نہیں چل سکتا، مادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سائنس وٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کو بھی اپنایا جائے، مذہب جدید تمدنی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہماری سول و ملٹری بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی ساری تعلیم و تربیت بھی چونکہ مغربی اداروں میں ہوتی ہے اس لیے وہ بھی پاکستان میں مغربی تہذیب و ثقافت ہی کی ترویج کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس لیے پاکستانی سیاست میں صرف وہی لوگ اقتدار کے سرچشموں پر کنٹرول حاصل کرتے ہیں جو مغرب کے وفادار ہوں۔ ان مغرب زدہ حکمرانوں نے بے شمار این جی اوز کو یہاں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو نسوانی اور انسانی حقوق کے نام پر معاشرتی بگاڑکا مشن سرانجام دے رہے ہیں۔
ان این جی اوز نے بیوروکریسی اورسیاسی اشرافیہ کے ساتھ مل کر میڈیا کی آزادی پر کام کیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغرب کی کئی خرافات کو ہمارے معاشرے میں فروغ دیا۔ مغربی رہنمائی میں کام کرنے والا میڈیا نہ صرف ڈس انفارمیشن کے ذریے معاشرے میں انتشار پیدا کرتا ہے، بلکہ صوبائیت، لسانیت اور قومیت کا زہر گھولتا ہے، اور اخلاق باختہ ڈراموں، فلموں، کارٹون، ماڈلنگ اور اشتہارات کے ذریعے نوجوان نسل کے اخلاق کا جنازہ نکال رہا ہے۔ میڈیا ہماری نئی نسل کو کشمیری، فلسطینی اور افغانی بھائیوں کے دُکھ درد میں شریک ہونے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے انھیں ناچ گانے میں مست رکھتا ہے۔ میڈیا کی آزادی کے فوراً بعد۲۰۰۷ء میں ان این جی اوز نے حدود آرڈی ننس کے خلاف مہم چلائی، اسلامی سزائوں کو غیر انسانی قرار دیا اور خواتین کے حقوق کے نام پر ایسی قانون سازی کروائی جو مادر پدر آزادی کے لیے راستہ ہموار کر رہی ہے۔
میڈیا اور خواتین کی آزادی کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب سے اسلامی تعلیمات کو خارج کرنے کے کام میں بھی تیزی لائی گئی۔ ۲۰۰۴ء میں اسلام آباد کی ایک این جی او 'ایس ڈی پی آئی نے پاکستان کے نصاب کے جائزے پر مبنی ایک ریسرچ پیپر متعارف کروایا۔ مقتدر حلقوں میں اس این جی او کا اس قدر اثر و رسوخ ہے کہ سیاسی اشرافیہ نے اس ریسرچ پیپر و رپورٹ کے مندرجات کی صداقت چیک کیے بغیر اس کو درست مان لیا۔اس رپورٹ میں پاکستان میں پہلے سے موجود نصابی کتب کو ہدف تنقید بنایا گیاحالانکہ ان کے مؤلفین بھی زیادہ تر لبرل اور سیکولر حضرات ہی تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’ایک ترقی پسند، اعتدال پسند اور جمہوری پاکستان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ نصابی کتب ہیں۔ اس لیے ٹیکسٹ بک بورڈ اور وزارت تعلیم کے نصابی ونگ کو ختم کردینا چاہیے___اور یہ کہ معاشرے میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی وجہ محض مذہبی مدارس ہی نہیں بلکہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی ادارے اور ٹیکسٹ بک بورڈ بھی ہیں‘‘۔
اس رپورٹ میں پاکستان کو اسلامی ریاست کہنے پر تنقید کی گئی اور سوال اٹھایا گیا اور یہ مفروضہ پیش کیا کہ اس سے غیر مسلم پاکستانی عدم تحفظ کا شکار ہوتےہیں۔ پھر یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ اسلامیات لازمی کےعلاوہ دیگر لازمی درسی کتب میں قرآن مجید کی آیات کیوں شامل کی گئیں؟ اس رپورٹ کے مصنّفین نے اس بات پر رنجیدگی کا اظہار کیا کہ ملک کے دفاع کو شہری کا اولین فرض کیوں کہا جاتا ہے اور محمد بن قاسم ، عزیز بھٹی، راشد منہاس، لانس نائیک محفوظ شہید وغیرہ کے نام درسی کتب میں کیوں شامل ہیں؟ دفاعی اخراجات اور جدید ہتھیاروں کی تحصیل کا جواز کیوں پیش کیا گیا؟
اس رپورٹ میں خواتین کے چادر اوڑھنے اور معقول لباس زیب تن کرنے کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا اور ہوم اکنامکس کالجوں کے قیام کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے خواتین کے لیے مخصوص شعبوں میں جانے کے راستے رُک جاتے ہیں، جس سے مردوں کی برتری قائم رہتی ہے۔ اس رپورٹ میں عورتوں اور مردوں کے لیے الگ القاب اور صیغوں پر بھی اعتراض کیا گیا۔
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر منیر الدین چغتائی نے کہا تھا کہ یہ نظریۂ پاکستان اور پاکستان کے وجود کے خلاف کھلی جنگ ہے۔ ہمارے نام نہاد مفکرین کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستانی نصاب تعلیم سے ایسی تمام چیزیں نکال دی جائیں، جو ہمارے نظریۂ حیات کی بنیاد اور جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں۔
دل چسپ یا عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان اور حکومت پاکستان کو اپنے ملک کاتعلیمی نصاب تبدیل اور اپ ڈیٹ کرنے میں اتنی دل چسپی نہیں جتنی بین الاقوامی اداروں کو ہے۔ ورلڈ بنک اور یو ایس ایڈ پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی بے شمار منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ یہاں کا تعلیمی نظام مکمل طورپر ان کی نگرانی میں چلا یا جائے۔ یوایس ایڈ کے منصوبوں میں اساتذہ و منتظمین کی تربیت، تعلیمی وظائف، ریسرچ اسکالروں کی مالی امداد، بالغ طلبہ و طالبات کی غیر ملکی سیر و سیاحت اور کئی دیگر پروگرام شامل ہیں۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کی رپورٹوں میں بھی پاکستان کا نصاب تعلیم خصوصی نشانے پر ہوتا ہے اور اس سلسلے میں خدمت بجا لانے کے لیے مقامی این جی اوز ہر وقت تیار ہوتی ہیں۔
اس کمیشن کی ۲۰۱۶ء کی رپورٹ اور سفارشات میں کہا گیا کہ ’’پاکستان کی نصابی کتب میں جنگوں اور جنگی ہیروز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کی فتح سندھ، سلطان محمود غزنوی کا ۱۷مرتبہ سندھ پر حملہ فخریہ انداز سے نصابی کتب میں کیوں شامل ہے؟تہذیب و ثقافت کے اظہار کے لیے ناچ گانا اور شادی بیاہ کی رسومات کو دکھانے کے بجائے جنگوں کو کیوں پیش کیا جارہا ہے؟ اس رپورٹ کے لیے ایک مقامی این جی او ’پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن‘ نے تحقیق کرکے سفارشات تیار کی تھیں۔ ا س این جی او نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس کی طرف سے پیش کی گئی سفارشات کی بنیاد پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں کی نصابی کتب میں تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں۔
اس رپورٹ میں پاکستان میں اسلامی عقیدے پر اصرار کی مخالفت کی گئی اور کہا گیا کہ پاکستان میں اسلام کو شناخت کی اعلیٰ ترین خاصیت کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ یہ سفارشات بھی پیش کی گئیں کہ نصابی کتب میں مذہبی آزادی واقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی باتیں اور عقیدے کی تعلیم کے بجائے غیرجانب دار باتیں شامل کی جانی چاہییں اور اسلام ہی درست مذہب ہے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ اس فائونڈیشن کے سرکردہ لوگوں نے حکومتی وزیروں، گورنروں اور بااثر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔
پاکستان میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے زمانے سے امریکا اور یورپ کے دبائو پر تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اور جس کے تحت قرآنی آیات کو نصاب سے نکالا گیا تھا وہ ابھی رُکا نہیں بلکہ خطرناک حد تک آگے بڑھ چکا ہے، بلکہ تحریکِ انصاف کی حکومت میں یہ سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ جاری ہے اور مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کابینہ سے منظور ہو کر منظر عام پر آچکی ہے۔ وفاقی وزیرتعلیم نے ۲۰۲۱ء سے یکساں قومی نصاب کا ملک بھر میں نفاذ اور ان بنیادی نکات کا اعلان کیا ہے، جن پر یکساں قومی نصاب تعلیم تشکیل دیا جا رہا ہے۔ یہ تعلیمی پالیسی کوئی قانون نہیں بلکہ تعلیم کے فروغ کے لیے رہنما خطوط اور ایک فریم ورک ہے، جس کی روشنی میں نصاب تعلیم، عملی منصوبہ اور قوانین وضع کیے جائیں گے۔
پاکستان میں مغربی ممالک کے فنڈز پر چلنے والی این جی اوز اور لبرل حلقوں کواس نئی تعلیمی پالیسی سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ جس نصاب تعلیم کو وہ سیکولر خطوط پر استوار کر چکے ہیں اس میں اب تبدیلی لانا مشکل ہوگا۔ موجودہ حکومت کی طرف سے نئی تعلیمی پالیسی متعارف کروانے کے بعد صوبہ پنجاب (جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے) کے تمام بورڈز میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کےنصاب میں مطالعہ پاکستان کی جو کتب پڑھائی جا رہی ہیں، وہ فیمنسٹ ماہرین کی تیار کردہ ہیں۔
فیمنسٹ ماہرین نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی مطالعہ پاکستان کی دونوں کتب میں ’تحفظ نسواں‘ کے عنوان سے ایک باب شامل کیا ہے۔ ان کتب میں حقوقِ نسواں، عورتوں کی آزادی، خودمختاری اور مساوات کے مغربی تصورات کو ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کا سہارا لیا گیا ہے۔ یعنی ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ مذہب عہد رفتہ کی یادگار ہے، آج کی جدید تمدنی ترقی ومعاشرت میں رکاوٹ ہے اوردوسری طرف اسی مذہب کے متون سے عورت کی اس آزادی اور خودمختاری کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو وہ مذہب سے بغاوت کے نتیجے میں حاصل کرنا چاہتی ہے۔
مرد و عورت کے صنفی کردار کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جدید غیرمذہبی معاشروں میں مردوں اور عورتوں کے سماجی تعلقات زیادہ مضبوط ہوتےہیں اور عورتوں کو برابرکے مواقع ملتے ہیں،جب کہ مذہبی معاشروں میں یکساں سہولتیں میسر نہیں ہوتیں۔ مذہبی معاشروں پر تنقید کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ان میں صنفی کردار کا تعین کرتے وقت عورت پر کچھ مخصوص کام تھوپ دیے جاتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مردوں کے کام سرانجام نہیں دے سکتی حالانکہ مرد اور عورت یکساں طور پر ہر کام کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں، مثلاً کھانا پکانا، صفائی کرنا، بچوں کی دیکھ بھال کرنااورگاڑی چلانا وغیرہ۔ مذہب کے زیر اثر صنفی کردار سازی کے ذریعے مرد اور عورت کو مخصوص معاشرتی کردار نبھانے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، مثلاً لڑکے کو بیٹ یا ہاکی دو، لڑکی کو گڑیا، لڑکا باہر کےکام کرے، لڑکی گھر داری کرے وغیرہ اور اس عمل میں لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ صنفی کردار کے تعین میں مذہب اور مذہبی اداروں کے علاوہ والدین، خاندان، گھر، محلہ، معاشرہ، اسکول، تعلیمی ادارے، ذرائع ابلاغ، کام کی جگہ، ریاست، حکومت اور سیاسی ادارے بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے طلبہ و طالبات کو یہ تاثر دیا گیا کہ جب تک ان تمام اداروں سے مذہبی تعلیمات اورروائیتی اقدار کی بیخ کنی نہ کی جائے اس وقت تک ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
اسی باب میں شادی اور نکاح کے موضوع پر بتایا گیا کہ مذہبی معاشروں میں مرد اور عورت کو شادی کے سلسلے میں فیصلہ کن اختیار نہیں دیا جاتا۔ عموماً مرد کے اس آزادانہ فیصلے کو تو تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن عورتوں پر کئی پابندیاں عائد ہیں۔ ایک طرف قرآن و سنت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ والدین بچوں اور بچیوں کا نکاح ان کی رضامندی سے کریں اور دوسری طرف ان مغربی تصورات کی وکالت کی گئی ہے، جو مغرب میں خاندانی نظام کا خاتمہ کر چکے ہیں۔
مغرب میں فیمنسٹ تحریک کا سارا زور اس بات پر ہے کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان خلیج پیدا کی جائے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر عورتوں کو مردوں سے نفرت کرنے پر ابھارا جا رہا ہے۔ جو مرد، تہذیبی اقدار، ثقافت اور معاشرت پر قائم رہنے پر مصر ہیں، ان کے اس رویے کو 'زہریلی مردانگی '(Toxic Masculinity ) کا نام دیا جاتا ہے۔ پنجاب بورڈ کی انٹر میڈیٹ کی مطالعہ پاکستان کی کتاب میں بھی اسی اصطلاح کو استعمال کیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ ’زہریلی مردانگی‘ مردانہ برتری کا منفی رجحان ہے جس کے تحت خواتین کو مردانہ بالادستی کا احساس دلا کر ان پر جارحیت، رعب اور دبدبہ سے نظم و ضبط قائم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مردانہ برتری کے اظہار کو چونکہ معاشرہ اور مذہب تقویت دیتا ہے، اس لیے خواتین بھی اس پر یقین کر لیتی ہیں اور یہ عمل خواتین کے اکیلے سفر کرنے، حصولِ تعلیم، ملازمت کرنے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔ اس موقع پر ایک دفعہ پھر اسلامی متون کا سہارا لیا گیا اور حضرت شعیبؑ کی بیٹیوں اور حضرت موسٰی کا قصہ اور کئی احادیث مبارکہ پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام مرد و زن کی مساوات کا درس دیتا ہے جنھوں نے مختلف شعبوں میں کامیابیاں سمیٹیں، انھیں مذکورہ باب میں طالبات کے لیے آئیڈیل قرار دیا گیا ہے۔
میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی مطالعہ پاکستان کی دونوں کتب کے مذکورہ باب میں قومی و پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ وومن پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۱۰ء، جنسی ہراسمنٹ ایکٹ ۲۰۱۰، کم عمری کی شادی پر پابندی ایکٹ۲۰۱۵ء اور خواتین تحفظ ایکٹ ۲۰۱۶ء کو تمام تفصیلات کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ ان قوانین کو منظور کروانے میں این جی اوز، فیمنسٹ تنظیموں اور مغرب کے سیاسی و مالی اداروں کا خاص کردار تھا۔ اس لیے طالب علموں کو ان کارناموں سے روشناس کروانا ضروری سمجھا گیا۔ طلبہ و طالبات کو بتایا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد، دنیا کے تمام پسماندہ معاشروں کا مسئلہ ہے کیونکہ مرد، خواتین کو کم تر سمجھتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین سے امتیازی سلوک، بدسلوکی، گھر میں خاوند کا ناروا رویہ،اور لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں والدین کی تنگ نظری وغیرہ خواتین کے لیے عام عمل ہیں۔
ان ابواب میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ عورتوں کے خلاف ہونے والی جنسی ہراسمنٹ، جنسی پیش رفت، جنسی بد سلوکی، جنسی حملہ، چھیڑ چھاڑ، برہنہ تصاویر و ویڈیوز کی اشاعت اور دیگر تمام جنسی جرائم کا آغاز مغرب میں ہوا۔ آج بھی امریکا کے ایک قومی سروے کے مطابق وہاں ہر پانچ خواتین میں سے ایک کے ساتھ اس کی زندگی میں کم ازکم ایک بار زنا یا اقدام زنا کا واقعہ ضرور پیش آتا ہے۔
مطالعہ پاکستان کی ان کتب میں طالبات کو اس بات سے آگاہ کرنا بھی ضروری خیال کیا گیا ہے کہ اگر خواتین اپنی آزادی میں کوئی رکاوٹ محسوس کریں تو پنجاب کے تمام اضلاع میں موجود دارالامان کی ’مفت ہیلپ لائن‘ پر رابطہ کر سکتی ہیں اور ’عارضی پناہ گاہ‘ کے لیے درخواست بھی کر سکتی ہیں۔ ایسی خواتین اپنے مجرموں سے تحفظ کے لیے ایک حفاظتی حکم نامہ بھی حاصل کر سکتی ہیں، جس کو یقینی بنانے کے لیے عدالت مجرموں کو جی ایس پی ٹریکنگ بریسلٹ پہنا دے گی، جس کے بعدوہ اس عورت سے دُور رہنے پر مجبور ہوں گے۔ مجرم جب بریسلٹ اتارے گا تو مرکز انسداد تشدد برائے خواتین کو خود کار طریقے سے اطلاع مل جائے گی اور اس کے نتیجے میں مجرم کو چھے ماہ اضافی قید ہوگی۔ اگر عورت کی جان، عزّت اور وقار کو مزید خطرات لاحق ہوں تو مجرم کو گھر سے جانے کا حکم دیا جائے گا مگر عورت کو گھر سے نہیں نکالا جا سکتا۔ عدالت مجرم کو یہ حکم بھی دے سکتی ہے کہ وہ متاثرہ عورت کے مقدمے، روزگار، طبی اخراجات وغیرہ برداشت کرے۔ اور آخر میں یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ تمام عورتوں، معاشرے اورریاست کو چاہیے کہ بدنامی کی وجہ سے اختیار کی جانے والی خاموشی کو ترک کریں اور کھلے عام عورتوں کی آزادی اور خودمختاری پر گفتگو کریں۔
آپ ذرا غور کریں کہ لبرل، آزاد خیال اور فیمنسٹ ماہرین کو نصابی کتب میں: قرآنی آیات، 'ملک کادفاع شہریوں کا اولین فرض ' اور اور راشد منہاس، لانس نائیک محفوظ شہید جیسے ہیروز کے ناموں کی شمولیت پر اعتراض تھا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ یہ موضوعات تو دینی ماہرین، ملٹری ہسٹری، اکنامکس آف وار اورملٹری اسٹیڈیز کے ہیں، انھیں چھوٹے لیول کی درسی کتب میں شامل کرنے کا کیا جواز ہے؟ اب انھی ماہرین کو جینڈر اسٹڈیز، ایم اے اور ایم فل سوشیالوجی میں پڑھائے جانے والے فیمنزم کے نظریات اور فلسفیانہ تصورات کو ان چھوٹے لیول کی کتابوں میں داخل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ انھوں نے اس بات پر بھی سنجیدگی سے سوچنا گوارا نہیں کیا کہ وومن پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۱۰ء، جنسی ہراسمنٹ ایکٹ ۲۰۲۰ء، کم عمری کی شادی پر پابندی ایکٹ ۲۰۱۵ء اور خواتین تحفظ ایکٹ ۲۰۱۶ء میٹرک و انٹرمیڈیٹ کے طلبہ و طالبات ان موضوعات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
مغربی یورپ اور شمالی امریکا و کینیڈا، جہاں کے تمام تعلیمی ادارے فیمنسٹ تحریک کے کنٹرول میں ہیں، وہاں بھی یہ نظریات یونی ورسٹی لیول سے نیچے نصاب کا حصہ نہیں ہیں۔ وہاں یہ نظریات سوشل سائنسز یا وومن اسٹیڈیز و جینڈر اسٹڈیز کے گریجویٹ و انڈر گریجویٹ لیول کےمضامین میں شامل ہیں، لیکن دیگر مضامین پڑھنے والے طلبہ و طالبات کے لیے ان کا مطالعہ لازمی نہیں۔ وہاں کے بہت سے ماہرین کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انڈر گریجویٹ لیول کے سوشل سائنسز کے طالب علموں کو یہ تھیوریز بتا کر ان کا ذہن کیوں خراب کیا جا رہا ہے؟ طالب علموں کو یہ سکھانا کہ دنیا کو ظلم کی عینک سے کس طرح دیکھنا چاہیے، یہ صرف خطرناک ہی نہیں بلکہ خود ایک ظالمانہ فعل ہے۔ اس سے زیادہ ظلم کی کوئی اور بات نہیں ہو سکتی کہ پروفیسرز حضرات آپ کو سوشیالوجی کے ہر سبق کا مطلب صرف یہ بتا رہے ہوں کہ آپ بحیثیت عورت ایک ’شکار‘ ہیں۔
یورپ اور امریکا کے ماہرین جن نظریات و تجربات کی حقیقت سمجھنے کے بعد انھیں عذاب قرار دے رہے ہیں، ہمارے مقامی لبرل و فیمنسٹ ماہرین، وہی تجربات دہرا کر اپنی قوم کو عذاب میں مبتلا کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ ان تجربات سے شاید پاکستان اور اسلام کے دشمن تو خوش ہو جائیں لیکن ہماری مذہبی، سیاسی، تعلیمی اور صحافتی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی پر آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمارے یہ ماہرین اس بات سے صرف نظر کیوںکر رہے ہیں کہ مغربی یورپ اور شمالی امریکا میں جہاں جہاں فیمنسٹ تحریک کے زیراثر، کچھ عشرے پہلےقانون سازی ہوئی، وہاں سنگین قسم کی معاشرتی پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ اس قانون سازی کے تحت ہر شعبۂ زندگی میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ اہمیت اوراولیت دے دی گئی۔ ان کے خانگی قوانین میں شادی و طلاق کے امتیازی قوانین، بچوں کی حوالگی کے وقت عورت کی حمایت، عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو زیا دہ لمبی سزائیں، عورتوں کے لیے مردوں کی نسبت زیادہ تعلیمی وظائف، عورتوں کی بیماریوں پر زیادہ فنڈز اور مردوں کی بیماریوں پر کم فنڈز مختص کرنے، عورتوں کےکہنے پر مردوں کو جبراً ناجائز بچوں کا والد قرار دینے، مردوں پر تشدد اور ریپ کے الزامات لگانے، تعلیمی امتیازات اور کئی دوسرے امتیازات شامل ہیں۔
ان امتیازی قوانین سے سفید فام مردوں میں ’مردانگی کا بحران‘ پیدا ہو گیا ہے۔ نتیجتاً وہ بھی اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور یہ عمل اب 'مردوں کےحقوق کی تحریک 'کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ آپ غور کریں کہ جب کسی ملک اور قوم کے تمام مرد اور عورتیں اپنے اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے تو کون کس کو حقوق دے گا؟ دونوں اصناف ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہوںگی تو آنے والی نسل کی تعلیم و تربیت کون کرے گا؟ اس طرح توخاندانی نظام کی تباہی سے انسانیت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ نسائی حقوق کے ماہرین اور مردوں کے حقوق کے ماہرین یہ بات سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ ایک صنف کے حقوق کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے دوسری صنف پر مرتب ہونے والے اثرات کو جانے اور سمجھے بغیر آپ جو کام بھی کریں گے، کبھی انسانیت پر اس کے مثبت اور دیرپا اثرات مرتب نہیں ہو سکتے۔
حکومت پاکستان اور وزارت تعلیم سے گزارش ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء میں اعلان کردہ نکات اور رہنما اصولوں کی روشنی میں تمام صوبوں کے نصاب تعلیم کو فوری پر قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے اور اس میں سے لبرل، سیکولر اور فیمنسٹ نظریات کے حامل مواد کو خارج کیا جائے۔ حکومت اس عہد کی پابندی کرے کہ وہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل ۳۱ کے مطابق یہاں کے عوام کو انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق بسر کرنے کی سہولیات بہم پہنچائے گی، اور بین الاقوامی سطح پر ایسا کوئی معاہدہ نہ کرے گی، جو اسلام اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے خلاف ہو۔
قرآن و حدیث سے عام قاعدہ یہ معلوم ہوتاہے کہ ہرشخص کا اپنا عمل ہی اس کے لیے مفید ہے۔ ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے آخرت میں مفید نہ ہوگا لیکن بعض احادیث سے یہ استثنائی صورت بھی معلوم ہوتی ہےکہ ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی جتنی احادیث بھی ہمیں ملی ہیں، ان سب میں کسی خالص بدنی عبادت کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایسی عبادت کا ذکر ہے، جو یا تو صرف مالی عبادت ہے جیسے صدقہ،یا مالی و بدنی عبادت ملی جُلی ہے، جیسے حج۔اسی بنا پر فقہا [کا] ایک گروہ اسے مالی اوربدنی عبادات دونوں میں جاری کرتا ہے اوردوسرا گروہ اس کو ان عبادات کے لیےمخصوص کرتا ہے جو یا تو خالص مالی عبادات ہیں یا جن میں بدنی عبادت مالی عبادت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک یہ دوسرا مسلک اس لیے مرجح ہے کہ قاعدئہ کلیہ میں اگر کوئی استثناء کسی حکم سے نکلتا ہو تو اس استثناء کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حدتک وہ حکم سے نکلتا ہے۔ اسے عام کرنا میری رائے میں درست نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پہلے گروہ کے مسلک پر عمل کرتا ہے تو اسے ملامت نہیں کی جاسکتی کیونکہ شریعت میں اس کی گنجایش بھی پائی جاتی ہے۔
ایصالِ ثواب کامیت کے لیے نافع ہونا یا نہ ہونا اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، تو اس کا سبب دراصل یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کی نوعیت محض ایک دُعا کی ہے، یعنی ہم اللہ سے یہ دُعا کرتے ہیں کہ یہ نیک عمل جو ہم نےتیری رضاکےلیے کیا ہے اس کا ثواب فلاں مرحوم کو دیا جائے۔ اس دُعا کی حیثیت ہماری دوسری دُعائوں سے مختلف نہیں ہے۔ اور ہماری سب دُعائیں اللہ کی مرضی پر موقوف ہیں۔ وہ مختار ہے کہ جس دُعا کو چاہے قبول فرمائے اورجسے چاہے قبول نہ فرمائے۔
ایصالِ ثواب ہر ایک کےلیے کیا جاسکتا ہے۔ خواہ متوفی سے کوئی قربت ہو یا نہ ہو، اورخواہ متوفی کا کوئی حصہ آدمی کی تربیت میں ہو یا نہ ہو۔ جس طرح دُعا ہر ایک شخص کے لیے کی جاسکتی ہے، اسی طرح ایصالِ ثواب بھی ہرایک کے لیے کیا جاسکتا ہے۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۵، عدد۵، فروری ۱۹۶۱ء، ص۴۷-۴۸)
مجموعہ التفاسیر (سات جلدیں)،مفسر:مولانا لال محمد۔ مرتبہ: حاجی محمد مبین۔ ناشر: اقراء اکیڈمی، نزد قاسم خان میڈیکل سٹور، زرغون روڈ، کوئٹہ۔ فون: ۳۸۱۸۶۷۲-۰۳۰۰۔
زیرنظر تفسیر اعلیٰ درجے کی تحقیق و تجزیے کی بنیاد پر لکھی گئی ہے جس میں کم و بیش تمام معاصر فتنوںکا بھرپور تعاقب کیا گیا ہے۔ خاص طورپر لادینیت، پرویزیت اور قادیانیت کی تردید کے لیے بہت گہرائی سے نقدوجرح کی گئی ہے۔ اسی طرح قرآنِ عظیم کے پیغام کو بڑے مؤثراورمفصل انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ محترم قاری عبدالمالک کاکڑ نے اسے بڑی محنت اور محبت سے شائع کیا ہے۔ مولانا لال محمد صاحب کے اس علمی کارنامے سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔(مولانا عبدالمالک)
قانونِ تحفظ ناموسِ رسالتؐ، مرتبہ: محمد متین خالد۔ ناشر: علم وعرفان، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔فون: ۳۷۲۲۳۵۸۴-۰۴۲۔ صفحات: ۴۱۵۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔
پاکستان میں دیگر فتنوں کے ساتھ ساتھ ایک فتنہ توہین رسالتؐ کا بھی ہے۔ جس کاارتکاب بعض اوقات غیرمسلموں اور ملحدوں کے ہاتھوں دانستہ طور پر یابعض اوقات بعض افراد کی جانب سے انجانے میں بھی سامنے آتا ہے۔ یہ چیز جہاں اسلامیانِ پاکستان کےدلوں کو زخمی کرتی ہے، وہیں امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔اس موضوع پر تعزیراتِ پاکستان میں قانون سازی کو نشانہ بنانے اورتبدیل کرنے کے لیے بے دین طبقہ، مغرب زدہ تنظیمیں اور میڈیاپر قابض حضرات آئے دن کوئی نہ کوئی تیر پھینکتے رہتے ہیں۔
جناب متین خالد نے اس مسئلے کے جملہ پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کے لیے پاکستان کے ایوانِ پارلیمنٹ میں برپا مباحث اور اعلیٰ عدلیہ کی مسندوں سے ایوانِ عدل میں تحریر کیے گئے فیصلوں کو بہت راست فکری سے موضوع بنایا ہے۔ مثال کے طورپر جون، جولائی ۱۹۸۶ء میں قومی اسمبلی میںہونےوالی بحث اور پھرسینیٹ میں یکم اکتوبر ۱۹۸۶ء ، جون، جولائی ۱۹۹۲ء اور مئی ۲۰۰۷ء میں قومی اسمبلی کے مباحث کو بلاکم و کاست پیش کردیا گیا ہے۔
دوسرے حصے میں ۹ قیمتی مضامین، زیربحث موضوع کااحاطہ کرتے ہیں۔ یہ کتاب ارکانِ پارلیمنٹ، صحافیوں اور اساتذہ کوبالخصوص پڑھنی چاہیے۔ (س م خ)
قائداعظم اورمسلم اقتصادیات،محمودعلی۔اُردو ترجمہ: اشتیاق الحسن۔ ناشر: نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ، ۱۰۰-شاہراہ قائداعظم، لاہور۔فون: ۹۹۲۰۲۱۳-۰۴۲۔صفحات: ۱۷۸۔ قیمت:درج نہیں۔
قائداعظم کی زندگی اورجدوجہد پر نظر ڈالتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض ایک قانون دان نہ تھے ، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عالمی تعلقات پر گہری نظررکھنے والے مدبر اورمعاشی مسئلے پرسوچنے والے عملی انسان بھی تھے۔
محمودعلی مرحوم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ عملی سیاست دان کے طور پرانھوں نے تحریک پاکستان اورپھر تعمیر پاکستان میں حصہ لیا۔اس نسبت سے وہ قائداعظم کے ایک نوجوان کارکن بھی تھے۔ مصنف نے اس کتاب میں قائداعظم کے معاشی نقطۂ نظر ، مسلمانوں کی معاشی حالت سدھارنے کے لیے فکرمندی اور پاکستان کی معاشی تنظیم کےلیے ان کی رہنمائی کو یک جا کردیا ہے۔ اس مختصر کتاب سے ہمیں سوچنے کے وہ اُفق دکھائی دیتے ہیں، جنھیں ہماری سیاسی و فوجی قیادتوں نے مجرمانہ حد تک نظرانداز کرکے، ملک کو اقتصادی دیوالیہ پن کی طرف دھکیل دیا ہے۔(س م خ)
نظریۂ پاکستان اور قائداعظم، ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ناشر: مکتبہ تعمیر انسانیت، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار،لاہور۔ فون: ۷۲۳۷۵۰۰-۰۳۳۳۔صفحات:۱۳۶۔قیمت:۳۰۰ روپے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل اگرچہ اُردو ادب کے استاد ہیں، لیکن ان کے ذوقِ تحقیق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قلم تاریخ کے میدان میں خوب رواں ہے اور تاریخ کے موضوع پر بڑے معرکہ کی تحریریں انھوں نے سپردِقلم کی ہیں۔
اس کتاب میں شامل چھے مقالات ، پاکستان کی نظریاتی جہت کو اُجاگر کرنے کی کامیاب دلیل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے غیرروایتی انداز سے پاکستان کے قیام کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے، سرزد ہونے والی کوتاہی کی نشان دہی کی ہے۔ بھولی بسری یاد ’ریاست حیدر آباد دکن‘ کاتذکرہ تواب شاید پروفیسر عقیل صاحب ہی کا حصہ رہ گیا ہے۔ حیدرآباد دکن کی تحریک ِپاکستان اورمسلمانوں کی بہتری اور ترقی سے نسبت کا حوالہ اس کتاب کا اہم پہلو ہے۔(س م خ)
غمزئہ خوں ریز، محمدفاروق۔ ناشر: شعیب سنز پبلشرز، جی ٹی روڈ، منگورہ ،سوات۔صفحات: ۶۰۰۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔ فون: ۷۲۲۵۱۷- ۰۹۴۶۔
اس کتاب کا بنیادی موضوع بقول مصنف: ’’تصوف اور شریعت‘کا تعلق ہے۔ لیکن دیگر موضوعات (کچھ اولیائے کرام کے حیرت انگیز واقعات، جہادِ افغانستان اورکشمیر، جماعت اسلامی، اُمت مسلمہ وغیرہ) پر بھی بکثرت اوربطوالت قلم اُٹھایا گیا ہے‘‘۔ چھے سو صفحات پرمشتمل یہ کتاب دراصل مصنف کی آپ بیتی اور ذہنی سفر کی داستان ہے۔ مصنف کا آبائی تعلق سوات سے ہے۔ انھیں بچپن ہی سے مطالعے کا شوق تھا، چنانچہ اوائل ہی میں سیّد مودودیؒ کی کتابوں سے ابتدائی شناسائی حاصل کرلی تھی (ص۵۷)۔
شعور کی اگلی منزلوں کی طرف بڑھتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’ہم ایک ایسی دُنیا کے باسی ہیں جس میں چاروں طرف خدا کی ہرنعمت تو موجود ہے، مگرروحانی آسودگی کی دولت ِ عظیم کا فقدان ہے۔ آج کا بدقسمت انسان سکونِ قلب کی اس نعمت ِخداوندی سے محروم ہے‘‘ (ص۲۳)۔ اسی سکونِ قلب کی تلاش اس کتاب کا موضوع ہے۔
مصنّف نے بتایا ہے کہ لکھنے پڑھنے میں میری دل چسپی ختم ہوگئی تھی لیکن اپنے دوست ڈاکٹر فخرالاسلام کی تجویز پر لکھنا شروع کیا۔اس لکھنے میں انھوں نے بہت سے سبق آموز اورفکرانگیز نکات کی طرف قارئین کو توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک، بریگیڈیئر (ر) سعداللہ خان۔ اُردو ترجمہ: منصورامین۔ ناشر: ریڈرز، پہلی منزل، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۴۱۶۷۶۱- ۰۳۰۰۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔
مشرقی پاکستان میں منظم بدامنی پھیلا کر، بھارت کی پشت پناہی سے ۱۹۷۱ء میں بغاوت برپا کی گئی۔ اُس زمانے میں بھارتی فوج کی نگرانی اورتربیت سے تیارکردہ دہشت گردوں نےوہاں بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں کیں۔ ان کارروائیوں کا نشانہ غیربنگالی پاکستانی، ایک پاکستان پریقین و اعتماد رکھنےوالے بنگالی پاکستانی اورپاک فوج کے اہل کار تھے۔
بریگیڈیئر سعد اللہ خان اُن دنوں دفاعِ پاکستان کی گراں قدرذمہ داریاں ادا کررہے تھے۔ زیرمطالعہ کتاب میں انھوں نے اختصار کے ساتھ ان حالات و واقعات کو بیان کیاہے، جو سیاسی اوردفاعی نقطۂ نظرسےانھیں درپیش تھے۔ منصورامین نے سعداللہ خان صاحب کی کتاب East Pakistan to Bangladesh کا اُردو ترجمہ کرکے اہم خدمت انجام دی ہے۔ (س م خ)
جنوری ۲۰۲۱ء کے شمارےمیں ’اشارات‘ ،’قانونِ امتناع جنسی استحصال‘ پر جناب ڈاکٹرانیس احمد کی گرفت اور حالات وواقعات کا تجزیہ قابلِ قدر ہے۔ افسوس کہ پاکستان کا مجموعی ماحول ایک بے تُکے سیاسی دنگل اور میڈیا کے بے سمت شوروغوغے میں ملوث نظرآتا ہے، جب کہ دوسری جانب سیکولر اور مقتدر قوتیں من مانی قانون سازی کرتی جارہی ہیں۔ترجمان اس ماحول میں غنیمت ہے کہ جہاں سے رہنمائی کی روشنی میسر آتی ہے۔
جناب مجیب الرحمان شامی کے قلم سے پلٹن میدان کے اس بدقسمت اُجڑے ہوئے جلسے کی اعلیٰ درجے کی مرتب شدہ رُوداد پڑھ کر وہ سارے زخم تازہ ہوگئے، جو زخم میرے سامنے اس جلسے کے بے گناہ شرکا کو لگے تھے، اور ایسے زخمیوں میں، مَیں بھی شامل تھا۔ تب میں سالِ اوّل کا طالب علم تھا۔ ۱۸جنوری ۱۹۷۰ء کا وہ جلسہ درحقیقت بھارتی سازش کی مجسم تصویر اورپاکستان کی مارشل لا حکومت کی مکمل بے بسی کا ایسا نوحہ تھا کہ جس میں عوامی لیگ اورشیخ مجیب کو ظلم، وحشت اوردرندگی کا کھلا لائسنس دینے کی باقاعدہ تاج پوشی کی گئی تھی۔
جنوری کے شمارےمیںدل چسپ، معلومات افزا اور قیمتی مضامین شائع کرنے پر شکریہ قبول کیجیے۔ خاص طور پر افتخار گیلانی کا مضمون ’لو ّجہاد کےنام پر ہندو فسطائیت‘ اور وحید مراد کا ’اسلام اورمسلمانوں پر متعصبانہ اصطلاحاتی حملہ‘ بالکل زندہ چیلنج کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مجیب الرحمان شامی کے مضمون ’مَیں کیسے بھول جائوں‘ نے تاریخ کے دردناک منظر کو تازہ کر دیا ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے مختصر مگر جامع مضمون ’نیند سےبیدار ہوجائو‘ نے پیغامِ اقبال کو پوری قوت سے بیان کیا ہے، اورجاوید نامہ جیسی عظیم کتاب کے مطالعے کا شوق پیدا کیا ہے۔ تاہم ’اشارات‘ بہت اچھے ہونے کےباوجود بعض حوالوں سے تشنہ محسوس ہوئے۔ محترم ڈاکٹر ظفرالاسلام اصلاحی نے گناہ سے پرہیز کی مؤثر نشان دہی فرمائی ہے۔
جناب محمد منیر کا مضمون ’اسلامی معاشیات کی گم شدہ جنّت ‘ اس شان دار سلسلۂ مضامین کی کڑی ہے، جو جناب ایچ عبدالرقیب صاحب کے قلم سے ترجمان میں شائع ہوتے آرہے ہیں۔ ان دونوں حضرات نے معاشی مسئلے کی تفہیم اور عصرحاضر میں اسلام کی تطبیق پر نئے انداز سے بہت قیمتی رہنمائی فرمائی ہے۔