پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


مسلم دنیا ابھی مصر میں فوجی قیادت کے ہاتھوں جمہوریت کے قتل اور تحریکِ اسلامی مصر پر نئی ابتلا و آزمایش ، تیونس میں فوجی قوت کے استعمال کے بغیر اسلامی پارٹی کی گرفت ڈھیلی ہونے، عراق میں شیعہ اور سُنّی ٹکرائو اور شام میں بشارالاسد اور اسلام دوست شامی آبادی کے درمیان مسلح آویزش کے صدمات سے دوچار ہی تھی کہ یمن میں ایک نئے محاذ کے کھلنے سے خطے میں امن، سلامتی اور تحفظ کے نئے مسائل اُبھر کر سامنے آگئے۔

تقریباً ایک عشرہ قبل اُردن کے شاہ عبداللہ نے صدام حسین کا تختہ اُلٹنے کے موقعے پر امریکا کے اس اقدام پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں خطے میں shia cresent کا اثر بڑھے گا۔ گویا مسلم دنیا کو شیعہ سُنّی کی عینک سے دیکھ کر اس میں نااتفاقی اور ٹکرائو کا پیدا کیا جانا مغرب زدہ ذہن اور مغربی مراکز دانش (think tanks) کا محبوب موضوع آغاز ہی سے رہا ہے۔ عرب بہار ایک اعلیٰ جمہوری مقصد کے لیے برپا ہوئی تھی۔اسے بھی مغربی طاقتوں نے کامیاب نہ ہونے دیا اور شرق اوسط میں مسلم ممالک میں بدامنی، لاقانونیت اور آمریت کے فروغ کے امکانات کو زیادہ سے زیادہ قوی کرنے میں اپنی حکمت عملی کا استعمال کیا۔

عراق میں ایرانی تربیت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی قوت نے ان خدشات کو تقویت دی لیکن جلد ہی حزب اللہ نے اپنے اثر کو شام میں بھی بڑھا دیا۔ ایران کے معروف عسکری ماہر جنرل قاسم سلیمانی نے عراق میں بطور عسکری مشیر ایران کے القدس بریگیڈ کو جو ایران کے انقلابی Revoltionery guards کی شاخ ہے، براہِ راست اپنی نگرانی میں متحرک رکھا ہوا ہے۔

ان حالات میں ۲۶مارچ ۲۰۱۵ء کو سعودی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ اس کی فوج پڑوسی ملک یمن میں کارروائی کر رہی ہے تاکہ ’حقیقی حکومت‘ کو بحال کیا جاسکے۔ اس سے قبل منصور ہادی کو    ان کے قصرِصدارت پر قبضہ کر کے حوثی قبیلے کے جنگ  ُجو افراد نے عدن بھاگنے پر مجبور کردیا تھا اور جب حوثی قبیلے کی افواج عدن کے قریب پہنچیں تو وہ سعودی عرب میں پناہ گزین ہوگئے۔

حوثی قبیلے میں زیدی اور شافعی دونوں کی فقہ کے پیروکار پائے جاتے ہیں اور قبائلی نظام میں ایک سے زائد فقہی مسالک کا پایا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اس لیے ان میں ایک بڑی تعداد زیدی فقہ کو ماننے والوں کی بھی ہے جو شیعہ مسلک میں سب سے زیادہ اہلِ سنت کے قریب فرقہ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے دوران حوثی قبیلے نے اپنے آپ کو بہت منظم کرلیا ہے اور اب یہ گوریلا جنگ کے تمام طریقوں سے مکمل طور پر لیس ہے۔ یمن کے چپے چپے سے ان کی واقفیت، یمن کی معاشی بدحالی اور سیاسی انتشار کی بنا پر انھیں عوام کے ایک طبقے کی حمایت بھی حاصل ہوچکی ہے۔ اس لیے اس پورے قضیے میں فیصلہ کن امر جنگ اور اسلحے کا استعمال نہیں ہوسکتا۔ بعض مغربی مبصرین کا یہ انتباہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح جنگ کا راستہ اختیار کرنے کے نتیجے میں امریکا کے لیے ویت نام ایک مسئلہ بناتھا، ایسے ہی شرق اوسط میں موجودہ تنازع بڑی قبیح اور خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔

ان حالات میں یمن کے عبوری صدر (transitional president) کی دعوت اور ان کی حکومت کے دفاع اور بحالی کے لیے کیے جانے والے اقدام نے شرق اوسط کی صورت حال کو مزید  گمبھیر کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کا کردار بھی بڑا مخدوش اور حالات کو بگاڑ کی طرف لے جانے والا ہے۔ خانہ جنگی اب ایک علاقائی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جو پورے شرقِ اوسط کے لیے بڑی خطرناک ہے۔

تازہ ترین اطلاعات یہ بتاتی ہیں کہ مصر اور ۱۰ ہمسایہ ممالک کی مشترکہ فوج کے قیام اور سعودی عرب کے علاوہ دیگر مسلم ممالک کی ہوائی فوج کے حملوں میں حصہ لینے کے باوجود ابھی تک اس کارروائی کے متوقع اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے۔ مغربی ابلاغِ عامہ کے تبصروں اور تجزیوں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ تنہا ہوائی حملوں سے حوثی قبیلے کی پیش قدمی پر کوئی فیصلہ کن اثر پڑنا مشکل ہے۔ ان حملوں کے باوجود حوثی قبیلے نے عدن کی اہم بندرگاہ پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہے۔ ہادی کی ہمدرد فوج میں بھی پھوٹ کے آثار ہیں اور ان میں سے کچھ حوثی قبیلے کے ساتھ تعلقات استوار کررہے ہیں۔ اس بنا پر مغربی دانش وروں کا کہنا ہے کہ ہادی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے اور حوثی بغاوت پر قابو پانے کے لیے زمینی افواج کو میدان میں اُتارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں جو خود اپنے اندر بے پناہ خطرات اور ایک مستقل جنگ کے امکانات رکھتا ہے۔ ایسے حالات میں بالعموم دوبدو جنگ سے کہیں زیادہ گوریلا جنگ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے جس کا سلسلہ لامتناہی ہوسکتا ہے اور جس کی تباہ کاریاں بڑی بڑی عسکری طاقتوں کے لیے طویل عرصے تک برداشت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ان حالات میں مسلم دنیا اور مغرب دونوں کے لیے فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ خطے کو مزید خون خرابے اور طویل عدم استحکام سے بچانے کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔

اس تناظر میں سعودی عرب کے ہمسایہ اور دوست ممالک کا کردار کیا ہو اور مسئلے کو حل کی طرف کس طرح لے جایا جائے؟ یہ نہ صرف ہر سوچنے سمجھنے والے پاکستانی کے لیے بلکہ مسلم دنیا کے ہر شہری کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

مصر اور سعودی عرب کو اس سے قبل ۱۹۶۰ء کے عشرے میں جنوبی اور شمالی یمن کے باہمی تنازع کے تناظر میں اپنی عسکری قوت کا استعمال کرنے کا تجربہ ہوچکا ہے، اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دونوں ممالک قوت کے استعمال کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکے تھے بلکہ سعودی عرب کو اپنی جغرافیائی حدود کا ایک حصہ کھونا پڑا۔ مصر نے دوبارہ خلیج کی حکومتوں کے ساتھ مل کر جو اجتماعی فوج بنائی ہے اس میں اپنی افواج کو شامل کرایا ہے اور مصری بحری بیڑے نے عدن پر گولہ باری بھی کی ہے۔ عربوں کی مشترکہ فوج جو کچھ کر رہی ہے اس کے مثبت نتائج کا نکلنا مشکل ہی نظر آرہا ہے۔

اس نازک صورت حال میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر جو محتاط موقف اختیار  کیا ہے۔ اسے سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں گوپسند نہیں کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ    سعودی عرب کے ساتھ مکمل جذباتی اور دینی اتحاد کے پس منظر میں پاکستان کا کردار ایک قلبی دوست اور رفیق کار ہی کا ہونا چاہیے۔ جس کا ہدف جنگ کی آگ کو بجھانا، امن کے حالات پیدا کرنا، یمن کی بغاوت کو بطریق احسن قابو میں لانا، حقیقی مسائل کے حل کے امکانات کو روشن کرنا اور علاقے میں دوبارہ دوستا نہ ماحول پیدا کرنا ہے۔ سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کی حفاظت اور علاقے میں ایران کے کردار کو ان حدود کا پابند کرنا ہے جو علاقائی امن کے لیے ضروری ہے۔ نیز علاقے کو   فرقہ وارانہ جذبات کی انگیخت سے بچاکر اُمت کی وحدت اور بھائی چارے کے فروغ کی راہوں کو استوار کرنا ہے۔ یہ مشکل کام ہے لیکن کرنے کا اصل کام یہی ہے۔

اسلامی بین الاقوامی قانون کی بنیاد اصلاح اور ٹکرائو کو دُورکرنے پر ہے۔ سورئہ حجرات میں فرمایا گیا:

وَاِِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا ج فَاِِنْم بَغَتْ اِِحْدٰہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج فَاِِنْ فَآئَتْ فَاصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ط اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o (الحجرات ۴۹:۹) اور اگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑجائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر  اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔ اور انصاف کرو کہ      اللہ انصاف کرنے والوں کو  پسند کرتا ہے۔

اس آیت ِ مبارکہ میں قرآن کریم اہلِ ایمان کے درمیان قانون صلح و جنگ کے اصول کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے۔ پہلی بات جو بطورِ فریضہ بیان کی گئی ہے دو مسلمان گروہوں کے درمیان جنگ کی شکل میں صلح کروانا ہے۔ مسلمان تماشائی بن کر جنگ و جدال کو گوارا نہیں کرسکتا۔ امن اور صلح کی تمام کوششیں، ہرقسم کے دبائو کا استعمال جب ناکام ہوجائے تو پھر حکم دیا گیا ہے کہ یہ تحقیق کی جائے کہ ظالم کون ہے چاہے وہ کسی مسلمان کا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، ہم قبیلہ اور ہم برادری ہی کیوں نہ ہو۔

یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ تحقیق سے مراد مغربی میڈیا کی بے بنیاد افواہوں پر اعتماد نہیں ہے بلکہ اپنے ذرائع سے صحیح معلومات کاحصول ہے۔ اگر تحقیق سے یہ ثابت ہوجائے کہ ایک فریق ظلم کر رہا ہے تو پھر مظلوم کے ساتھ مل کر ظالم کی اصلاح کے لیے جنگ میں حصہ لینا فرض کردیا گیا ہے۔ یہاں بھی مطلوب یہ نہیں ہے کہ ’ظالم‘ کا صفایا کردیا جائے۔ اس کے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو بغیر کسی تحقیق کے آگ کے شعلوں میں تباہ کردیا جائے بلکہ ظالم کی اصلاح مقصود ہے۔ اس لیے فوراً یہ بات فرمائی گئی کہ اگر جنگ کے نتیجے میں ظالم راہِ راست پر آجائے تو پھر انصاف کا رویہ اختیار کرو۔ عدل مطالبہ کرتا ہے کہ ظالم کے زیر ہوجانے کے بعد نہ اسے غلام بنایا جائے ، نہ اسے ابدی دشمن سمجھا جائے، نہ اس کے بارے میں دل میں نفرت اور شک و شبہے کو جگہ دی جائے بلکہ اب وہ دوبارہ تمھارا بھائی ہے۔ سبحان اللہ! کتنا عادلانہ اور حکیمانہ فیصلہ ہے کہ جنگ کے زخموں کو اب اخوت کی محبت و درگزر کے مرہم سے مندمل کردیا جائے۔ یہاں کوئی مستقل حزبِ اختلاف اور دشمن گروہ کا وجود نظر نہیں آتا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ کام اللہ کے تقویٰ، خوف اور خشیت کے ساتھ کیا جائے تاکہ مستقل امن اور اعتماد بحال ہوسکے۔

قرآن کے اس بین الاقوامی قانون صلح و جنگ کے سلسلے میں اہلِ ایمان کے درمیان جنگ کی شکل میں ہدایت کی موجودگی میں مسلم ممالک کے لیے اس کے سوا کوئی اور شکل نہیں رہتی کہ وہ قرآن کے حکم پر خلوصِ نیت اور عظیم تر جدوجہد کے ساتھ اپنی حد تک کوشش میں کمی نہ کریں اور حالات کی سختی سے قطعاً نااُمید اور متاثر نہ ہوں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ کا محتاط رویہ اسی قرآنی اصول کا مظہر نظر آتا ہے۔ سعودی عرب سے ہمارا گہرا اور دیرینہ تعلق ہماری خارجہ پالیسی کا ایک ستون ہے اور پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے دوست اور پشتی بان اور دُکھ درد اور خوشی اور غم میں برابر کے شریک ہیں۔ حرمین شریفین کی تقدیس اور ان کا تحفظ ہماری مشترک ذمہ داری ہے۔ اور سعودی عرب کی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہو تو خطرے کی اس گھڑی میں اس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہمارا فرض ہے۔ لیکن اس واضح common interest کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سعودی عرب کے حقیقی دوست کی حیثیت سے اسے ہر اس گرداب میں پھنسنے سے بچانے کی کوشش کریں جو اس کے اور خطے کے لیے مشکلات اور مصائب کا باعث ہوسکتا ہے کہ حقیقی دوستی اور خیرخواہی کا یہی تقاضا ہے۔

ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ سعودی عرب کے مفاد کے پیش نظر مصالحت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پورا علاقہ ایک طویل المیعاد جنگ اور تنازعے کی دلدل میں دھنس سکتا ہے۔ ہماری اس راے کی بنیاد وہ زمینی حقائق ہیں جنھیں مغربی ابلاغِ عامہ غیرمعمولی طور پر غلط سلط کرکے پیش کر رہا ہے۔ یہ بات زوروشور سے اور بار بار کہی جارہی ہے کہ حوثی شیعہ قبیلہ ہے، جب کہ اس قبیلے میں زیدی اور شافعی دونوں مسالک کے پیروکار موجود ہیں۔یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ یمن میں اندرونی خانہ جنگی میں شیعہ سُنّی آپس میں نبردآزما ہوگئے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ یمن میں زیدی فقہ کے ماننے والے اور شافعی مذہب کے ماننے والے صدیوں سے ایک ساتھ معاشرتی تعلقات کے ساتھ موجود ہیں۔

بعض معتبر ذرائع نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ حوثی قبیلے نے بیش تر اسلحہ وہ استعمال کیا ہے جو ہادی کی حمایتی فوج کے ذخیروں سے حاصل کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ایرانی اسلحہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ کچھ ایرانی نیشنل گارڈ کے کمانڈر اور کارندے بھی حوثی قبائل کے ساتھ ہیں۔ یہ بہت تشویش ناک صورت حال ہے لیکن اس قضیے کو شیعہ سُنّی جنگ سے تعبیر کرنا حقائق اور مصالح دونوں کے خلاف ہے۔ گو،مغربی طاقتوں کی حکمت عملی آج سے نہیں، عراق کی جنگ سے یہی رہی ہے کہ کسی طرح شیعہ سُنّی کو ٹکرایا جائے تاکہ اندرونی امن قائم نہ ہو اور مغربی طاقتیں جس طرح چاہیں خطے کے وسائل سے فیض یاب ہوتی رہیں۔

سعودی عرب کے وسیع مفادات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سعودی عرب اور یمن میں جلد از جلد جنگ بندی ہو اور اعتماد کی فضا کو بحال کیا جائے۔ یہ مسئلہ دوممالک کی سرحدوں پر ہونے والی جنگ کا نہیں ہے بلکہ خود اندرونی استحکام کے لیے غیرمعمولی اہمیت کا ہے۔ اس وقت سعودی عرب کی آبادی کا ۲۰ فی صد حصہ یمنی الاصل افراد پر مبنی ہے اور یہ شیعہ نہیں بلکہ سُنّی ہیں۔ ماضی میں بعض معروف شخصیات جو سعودی عرب کی اعلیٰ وزارتوں پر فائز رہی ہیں ان کا قبائلی تعلق یمن کے قبائل سے ہے۔ دو معروف وزرا میں تیل کے وزیر اور وزیرتعلیم کا تعلق یمن سے تھا۔ اس لیے یہ تنازع دو ملکوں کا نہیں ہے بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ وسیع تر مفادات سے تعلق رکھتا ہے۔

اگر اس مسئلے کو فوری طور پر صلح اور مصالحت کی طرف نہیں لے جایا گیا تو یہ آگ محض سرحدوں پر نہیں رہے گی۔ پاکستان کا دوستی، اخوت اور ہرلحاظ سے قربت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس آگ کو پھیلنے سے روکیں کیونکہ جنگ اس کا حل نہیں ہے۔سعودی عرب سے یگانگت کے اظہار کا صحیح راستہ اس جنگ کو روکنا ہے اور ایران سے دوستی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اسے اس علاقے میں ہر ایسے کردار سے روکا جائے جو فساد کا باعث ہو۔ یہ راستہ نازک اور مشکل راستہ ہے اور وقت کا تقاضا یہی ہے۔

اس کے مقابلے میں امریکی مفاد یہی ہے کہ مسئلے میں زیادہ سے زیادہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر معاشی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو اور وہ اپنی اسلحے کی سوداگری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے سکے۔ وہ بظاہر یہی کہتا رہے گا کہ سعودی عرب اس کا روایتی حلیف ہے۔ اس لیے اس کی افواج اور اسلحہ اس کے لیے حاضر ہے ، جب کہ سعودی عرب کے تیل کو کم قیمت پر خریدنے کے بدلے اسلحہ دے کر وہ اپنی معیشت کوچمکاتا رہے گا اور سعودی عرب کو ایک ختم نہ ہونے والی جنگ میں دھکیل دے گا۔

ایران کو اس عرصے میں خطے میں جو برتری حاصل ہوئی ہے اور جس طرح اس کے روایتی ’بڑے شیطان‘ کے ساتھ تعلقات میں استواری آئی ہے خواہ وہ اس کی بڑی سیاسی فتح ہو، لیکن اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عراق اور شام میں اس کے کردار نے بڑے بنیادی سوالات کو اُٹھا دیا ہے۔  ایران کی ضرورت علاقے میں سب کے ساتھ دوستی ہے، علاقے میں تفرقہ اور گروہی اور فرقہ وارانہ تصادم سے بالآخر اس کو اور علاقے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔اسی طرح شام میں بشارالاسد کی حمایت میں ایران کے رضاکاروں کا حصہ لینا، اسلحہ فراہم کرنا ، لبنان اور عراق میں عسکری تربیت یافتہ  حزب اللہ کا کردار، ایران کے خطے میں عزائم کو کھول کر بیان کر رہا ہے۔

پاکستان اور ایران کے مشترکہ مفادات کا تقاضا ہے کہ پاکستان اس نازک موقعے پر ایران سے تعلقات کو کشیدہ نہ کرے بلکہ دونوں ممالک سے وسیع تر مفادات کے پیش نظر مصالحت اور صلح جوئی کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرے۔

مغرب کی حکمت عملی اس تنازعے میں واضح طور پر یہ نظر آرہی ہے کہ وہ جنگ جو آغاز میں اسلام اور مغرب کی جنگ قرار دی جارہی تھی، اور وہ دہشت گردی جس کا ہدف مغرب کو قرار دیا جا رہا تھا، اب وہ مسلمانوں کی اندرونی جنگ بن جائے اور وہ تمام مسلح گروہ جو کل تک مغرب کو نشانہ بنانے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے اب مسلکی اختلاف، قبائلی عصبیتوں اور علاقائی مفادات کے غلام بن کر ایک دوسرے کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنائیں۔ شام میں نام نہاد اسلامی حکومت کا قیام بھی اسی حکمت عملی کا ایک حصہ نظر آتا ہے۔

پاکستان کو اس نازک مرحلے میں عالم گیر اسلام دشمن قوتوں کے عزائم اور حکمت عملی کو سمجھتے ہوئے دشمن کی ہر چال کو ناکام بنانے کے لیے ہوش اور عقل کی بنیاد پر حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ جذبات اور وقتی مصالح سے بلند ہوکر ملّت کے وسیع تر مفاد کی بنیاد پر قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں مصالحت، بھائی چارہ اور جنگ کی آگ کو بجھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس عظیم کردار کو ادا کرنے کی توفیق دے، آمین!

نوٹ: یہ شذرہ طباعت کے لیے جا رہا تھا کہ سعودی عرب کے ایک فوجی سربراہ بریگیڈیئر جنرل احمدالعسیری کے بیان اور یمن کے صدر منصور ہادی کے اعلان سے یہ دل خوش کُن اطلاع ملی کہ سعودی حکومت اور اتحادی قوتوں نے فضائی آپریشن روک دیا ہے ، اور مسئلے کے سیاسی حل کی راہ اختیار کی جارہی ہے۔ نیز انسانی بنیادوں پر متاثرین کی امداد کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے، الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔

اللہ تعالیٰ مسلم ممالک کی قیادتوں کی رہنمائی فرمائے اور انھیں مل جل کر اپنے تمام اختلافی اُمور کو حل کرنے اور اپنے وسائل کو اُمت مسلمہ اور انسانیت کی خدمت میں استعمال کرنے کی توفیق دے۔ اور مغرب کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے پیٹ بھرنے کے بجاے اپنے عوام کی مشکلات کو دُور کرنے، غربت کا خاتمہ، صحت اور زندگی کی سہولیات کی فراہمی کے لیے استعمال کرنے کا سامان کریں۔ اور سب سے بڑھ کر تمام ممالک میں حقوقِ انسانی کی پاسداری، انصاف کے قیام اور اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی سعی کریں تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی و کامرانی حاصل ہوسکے۔

اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے ماننے والوں سے ہر قدم پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ    خالقِ کائنات کی نازل کردہ ہدایات و احکام کو غورو فکر اور تحقیق کے بعد اختیار کریں۔ اسی بنا پر قرآن و حدیث اسلام کو ’مذہب‘ نہیں بلکہ ’دین‘ قرار دیتے ہیں:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

’دین‘ قرآن کریم کی ایک جامع اصطلاح ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے سے عبارت ہے۔ دیگر مذاہب میں اگر ان کے بنیادی معتقدات پر سوال اٹھایا جائے تو نوبت اخراج تک جا پہنچتی ہے، جب کہ اسلام چاہتا ہے کہ حق کو شعوری طور پر جانچ پرکھ کر اختیار کیا جائے۔ عقل و فکر کا یہ کردار اتنا اہم ہے کہ اسے سنت ِانبیا ؑبنا دیا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حیات ثانی کے بارے میں رب کریم سے سوالات کے ذریعے تقویت ایمان چاہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سفرِحکمت میں حضرت خضر ؑسے سوالات کرنے میں تکلف محسوس نہیں کیا۔

اس تناظر میں کسی غیرمسلم یا کسی مسلمان کا اسلام میں تصورِ خلافت کے پائے جانے پر استفہام نہ کسی تعجب کا باعث ہونا چاہیے اور نہ یہ ضرورت ہے کہ ایسے سوالات کے پیچھے چھپے محرکات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بجاے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو سوالات اٹھائے جائیں، ان کا جواب ہدایت کے ان دو مستقل مآخذ و مصادر میں تلاش کیا جائے جو قیامت تک   تمام انسانیت کے مسائل کا حل واضح اور بیّن طور پر فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس اہم موضوع کا پوری علمی دیانت کے ساتھ معروضی (objective) انداز میں مطالعہ کیا جائے اور تعصب اور مرعوبیت کے ہرسایے سے اس بحث کو محفوظ رکھا جائے۔ اسلامی تحریکیں آج وجود میں نہیں آئی ہیں۔ ان کے افکار اور ان کا تاریخی کردار ایک صدی پر محیط ہے۔ دینی مدارس بھی صدیوں سے اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور جو نصاب آج رائج ہے، اس میں تبدیلی اور بہتری کی گنجایش تو بلاشبہہ ہے اور اس کی نشان دہی بھی کی جاتی رہی ہے اور کچھ اصلاحات لائی بھی گئی ہیں مگر جن نتائج کا شجرۂ نسب آج ان سے جوڑا جا رہا ہے، ان کی کوئی مثال برعظیم کی کم از کم ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ دین اور ریاست کے تعلق کو معروضی انداز میں دیکھا جائے۔

یہ سوال کہ ’خلافت‘ اسلامی اصطلاح ہے یا نہیں؟ اسے خود قرآن کریم سے کیا جائے اور جو جواب ملے، اسے محلے والوں کی ناراضی یا خوش نودی سے بلند ہو کر صدق دل سے مان لیا جائے۔ کیونکہ انسانی تعبیرات و تشریحات بظاہر کتنی ہی خوش منظر اور متاثر کن نظر آتی ہوں، ان کو اللہ کے آخری پیغام اور آخری ہادی علیہ الصلوٰۃو السلام کے ارشاد ات کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور اگر وہ ان سے ہم آہنگ نہیں ہیں تو ان کو رد کردیا جائے گا۔

تصورِ خلافت

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم میں خلافت کی اصطلاح اپنی مختلف شکلوں میں ۱۴ مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ سورئہ نور میں فرمایا گیا:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (النور ۲۴:۵۵) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے۔

اس آیت میں آگے چل کر فرمایا جارہا ہے کہ :

وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ م بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا  یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ o (النور ۲۴:۵۵) ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ) حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا، پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔

استخلاف فی الارض کی یہ قرآنی اصطلاح تقریباً اسی معنی میں سورئہ اعراف میں استعمال ہوئی ہے:

قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَ اصْبِرُوْا ج اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ قف یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ  ط وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْ م بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ط قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَ یَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ o(الاعراف ۷: ۱۲۸-۱۲۹) موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخر کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔

سورئہ انعام میں اسی حوالے سے فرمایا گیا:

وَ رَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُوالرَّحْمَۃِ ط اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْ م بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآئُ کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ o (الانعام ۶:۱۳۳)تمھارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمھاری جگہ دوسرے، جن کو چاہے، لے آئے جس طرح اس نے تمھیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے۔

ان تینوں مقامات پر استخلاف کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر رہا ہے کہ اس کا مفہوم اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ایک قوم کو خلافت یا حکمرانی کا دیا جانا ہے۔ ہم نے صرف ان تین مقامات کا ذکر اختصار کی خاطر کیا ہے ورنہ دیگر مقامات پر اور خود تخلیق آدم کے واقعے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ملائکہ سے انسان کا تعارف جس اصطلاح سے کرایا وہ خلیفہ ہی کی اصطلاح تھی۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم ایک نہیں ۱۴ مقامات پر اس اصطلاح کو اس کی مختلف شکلوں میں استعمال کر رہا ہے تو اسے اسلامی اصطلاح ہی ہونا چاہیے۔

اسلام کا مخاطب: فرد یا اجتماعیت

یہ سوال اٹھانا بھی کسی غیرمسلم اور مسلمان کے لیے ممنوع نہیں ہے کہ ’’کیا اسلام میں ریاست کا کوئی مذہب ہے؟‘‘ یا دوسرے الفاظ میں کیا اسلامی ریاست ایک سیکولر ریاست ہے؟ یا ایک وقت میں یورپ میں پائی جانے والی کلیسائی ریاست (Theocracy) کے مماثل ہے؟گو یہ سوال نہ تو نیا ہے اور نہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ایک نئی بحث (discourse) یا ردِّبیانیہ (counter narrative) یا صرف بیانیہ (narrative)کا عنوان دے کر ندرت خیال تصور کرلیا جائے۔ یہ بات مستشرقین اور مغربی جامعات سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر آنے والے دانش ور سیکڑوں مرتبہ دُہراتے رہے ہیں۔ ان دانش وروں کا اصل مسئلہ وہ تصورِ علم اور تصورِ تحقیق ہے جس کے زیر سایہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کو مکمل کرتے ہیں، چنانچہ غیرمحسوس طور پر وہ تجربی طریقِ تحقیق (Empirical Research Methodology) پر ایمان بالغیب لانے کے بعد، اسی عینک سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں اسلام سیکولر نظر آتاہے یا تھیاکریٹک۔ اس لیے ہم نے آغاز میں یہ گزارش کی کہ اسلام اور ریاست کے موضوع پر ایک معروضی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

’جوابی بیانیہ‘ کا مرکزی تصور یہ مفروضہ ہے کہ ’’اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں،   ان کا مخاطب بھی وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دعویٰ اپنے اندر صرف جزوی صداقت رکھتا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ اس کو ’نصف سچائی‘ (half truth) ہی کہا جاسکتا ہے جو ایک کے بعد دوسرے مغالطے کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے اور پورے بیانیے کو تضادات کی آماج گاہ بنادیتا ہے، اور صورتِ حال یہ ہوجاتی ہے    ؎

خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

بلاشبہہ فرد کی اصلاح اسلام کی دعوت کا اہم ستون اور نقطۂ آغاز ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فرد از اوّل تا آخر اجتماعیت کا حصہ ہے۔ وہ خود اس دنیا میں اپنی کسی مرضی سے وجود میں نہیں آتا۔ اللہ کی مشیت کے مطابق دو افراد کے لیے ایک اجتماعی فیصلہ اور عمل کے نتیجے میں اس کے سفرِحیات کا آغاز ہوتا ہے۔ دوسری مخلوقات کی طرح اپنی بقا اورترقی و تکمیل کے لیے اس کا انحصار بنیادی طور پر جینیاتی (genetic )عوامل پر نہیں بلکہ جینیاتی عمل کے ساتھ ساتھ اس کو سماجی اور اداراتی عوامل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مرغی کا چوزہ انڈے سے نکلنے کے ساتھ ہی اپنا رزق تلاش کرنے کی صلاحیت لے کر آتا ہے لیکن انسان کا بچہ ماں کی گوداور اس کے دودھ کا محتاج ہے۔ تہذیب اور ثقافت کا ورثہ اسے جینیات کے ذریعے نہیں، خاندان، تعلیم اور معاشرے کی آغوش میں حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایک خاندان، ایک معاشرے، ایک تہذیب و تمدن، ایک معیشت اور ایک ریاست میں نشوونما پاتا اور اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی دعوت کا مرکز و محور جہاں یہ فرد ہے، وہیں وہ معاشرہ، وہ اجتماع اور وہ ریاست بھی ہے جس سے اسے ہرلمحہ سابقہ درپیش ہے اور اس کی آماج گاہ ہے۔

بلاشبہہ اسلام جو نظامِ زندگی قائم کرنا چاہتا ہے، وہ فرد کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرد کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے مگر فرد کو جو مشن سونپا گیا ہے، وہ  صرف اپنی اصلاح اور تزکیے تک محدود نہیں اور آخرت میں ہرفرد کو فرداً فرداً جو جواب دہی کرنی ہے، وہ صرف اس کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ وہ زندگی کی تمام وسعتوں پر محیط ہے۔ اسلام کی دعوت فرد اور معاشرے دونوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسان کو پوری زندگی حق و باطل کی کش مکش کے درمیان بسر کرنی ہوتی ہے اور جو فرد اللہ کو اپنا رب تسلیم کرتا ہے، وہ پوری زندگی کو اس کی اطاعت اور بندگی میں دینے کا سودا کرتا ہے۔ اس لیے قرآن نے اس عہد کو خریدوفروخت کے ایک معاملے سے تعبیر کیا ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ ط وَ مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط وَ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ  o (التوبہ ۹:۱۱۱-۱۱۲) حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف باربار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے بیع کا معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ! ان مومنوں کو خوش خبری دے دو۔

سورئہ صف میں اہلِ ایمان کا کردار اس طرح واضح کیا گیا ہے:

یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا  تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا  تَفْعَلُوْنَ o اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ o (الصف ۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو،    تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

اور پھر ان کو یہ بشارت بھی دی کہ:

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الصف ۶۱:۸-۱۳) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ! اہلِ ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔

فرد کی زندگی حق و باطل اور نیکی اور بدی کے درمیان کش مکش کے درمیان گزرتی ہے اور فرد کی اصلاح کا مقصد اس کش مکش میں اس کے صحیح کردار کی ادائی ہے۔ اس پر گرفت صرف اس بات پر نہیں ہوگی کہ اس کے انفرادی کردار یا محرکات میں کیا خرابی یا کوتاہی ہے بلکہ اس پر بھی ہوگی کہ جس معاشرے میں وہ زندگی گزار رہا ہے، اس کو ظلم اور طاغوت کی حکمرانی سے نجات دلانے میں اس نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے کہ فرد کا اپنی ذات کا تزکیہ اور اجتماعی زندگی کی اصلاح اور تاریخ کے دھارے میں حق پرستی اور عدل وانصاف کی کش مکش کی جدوجہد میں تعاون ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ فرد کی اصلاح کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے مگر دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کا انحصار صرف فرد کی اصلاح پر نہیں بلکہ اصلاح یافتہ افراد کے اس کردار پر ہے جو وہ اپنی اصلاح کے ساتھ معاشرے کی اصلاح ، اور انسانی زندگی کے ادارے کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیر اور تشکیل نو کے لیے انجام دیتے ہیں، اور بالآخر تاریخ کے دھارے کو اللہ کی بندگی میں ڈھالنے اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام کے لیے انجام دیتے ہیں۔ فرد اجتماعیت کا حصہ ہے۔ معاشرے میں معیشت اور تمدن میں خیروشر کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میںاحقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے فرد جو کردار ادا کرتا ہے اور جدوجہد میں حصہ لیتا ہے، اس ہمہ گیر جدوجہد کا نام جہاد ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ جہاد اپنے نفس کی اصلاح اور نفسِ امارہ کو زیر کرنے سے شروع ہوتا ہے لیکن جہاد باللسان، جہاد بالعمل اور جہاد بالسیف سے عبارت ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ماضی میں جو مشن انبیاے کرام ؑنے انجام دیا، نبی آخرالزماںؐ کی سنت کے طور پر اب اُمت کی ذمہ داری ___ ہرہر فرد کی ہے۔ اُمت کا بحیثیت اُمت اس مقصد کے لیے اجتماعیت اور امامت کا قیام بھی ضروری ہے۔ فرد اور اجتماعیت دونوں کو اس وظیفے کو انجام دینا ہی ’اسلام‘ کا مقصود و مطلوب ہے۔ اس کا کام اقامت ِ دین ہے اور یہی استخلاف کا تقاضا ہے۔ شاہ ولی اللہ ازالۃ الخفا میں اُمت کے اس مشن کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

خلافت اس عمومی سربراہی اور ریاست ِعامہ کا نام ہے جو اقامت ِ دین کے کام کی تکمیل کے لیے وجود میں آئے۔ اس اقامت دین کے دائرے میں علومِ دینیہ کا احیا، ارکانِ اسلام کا قیام، جہاد اور اس کے متعلقات کا انتظام، مثلاً لشکروں کی ترتیب، جنگ میں حصہ لینے والوں کے حصص و مالِ غنیمت میں ان کا حق، نظام قضا کا اجرا، حدود کا قائم کرنا، مظالم اور شکایات کا ازالہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض کی ادائی شامل ہے اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور نمایندگی میں ہونا چاہیے۔

فرد کی اصلاح اس ہمہ گیر مقصد کے لیے ہے، خود مقصود بالذات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں متنبہ کردیا ہے کہ فرد کی محض اپنی ذات کی اصلاح کافی نہیں مگر معاشرے کے بگاڑ کی زَد بھی اس پر پڑتی ہے، اور اگر وہ اس کی اصلاح اور اسلامی اصولوں کے مطابق اجتماع کے ہرادارے میں انصاف اور عدل کے قیام سے غافل رہتا ہے تو وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ وَ اَنَّــہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ o وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (انفال ۸:۲۴-۲۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسولؐ تمھیں اُس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

اسلام کا طرئہ امتیاز ہی یہ ہے کہ اس نے فرد اور اجتماعیت کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ نہ انفرادیت کو اس حد تک آزاد چھوڑا ہے کہ انسان اپنی ذات کے سوا کسی کو خاطر میں نہ لائے اور نہ اجتماع ،جماعت اور ریاست کو ایک شتربے مہار بننے کا موقع دیا ہے کہ فرد، اس کی آزادی، حقوق اور تعمیر میں اور تشکیلی کردار کی نفی کردے اور اسے مشین کا ایک بے جان پرزہ بنا دے۔ اس نے فرد کو اہم ترین اکائی بنایا ہے لیکن جس کلمے کی بنیاد پر وہ اللہ کا بندہ بنتا ہے اور رب کے خلیفہ کا مقام حاصل کرتا ہے، اس کلمے کی بنیاد پر اسی لمحے ملت ِ اسلامیہ او رحزب اللہ کا رکن بن جاتا ہے اور جماعت کی تقویت کا باعث اور اس کے ڈسپلن کا پابند بن جاتا ہے۔ یہ توازن اور توافق زندگی کے ہر میدان میں قائم کیا گیا ہے خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا کام و دہن کی لذت سے، خاندانی زندگی سے ہو یا معاشی سرگرمی سے، سیاست سے ہو یا معاشرت سے، ادب سے ہو یا ثقافت سے۔ بقول اقبال   ؎

فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

آیئے، اسلام کے اس تاریخی کارنامے کے چند پہلوئوں پر غور کریں تاکہ اسلام اور ریاست کے تعلق کو سمجھنے اور استخلاف کے کردار کی ادائی اور اس کے  تقاضوں کے صحیح ادراک اور  ان کو پورا کرنے کے لیے جو منہج دین نے مقرر کیا ہے اور جس کا بہترین نمونہ حضور اکرمؐ نے مکہ اور مدینہ کی زندگی میں پیش فرمایا اور جس کا تسلسل دورِ خلافت راشدہ میں بہ تمام و کمال تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور اُمت کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا مینار ہے، اس منہج کی روشنی میں اجتماعیت کے بارے میں اسلام کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بات کا آغاز ہم خود عبادات پر غوروفکر سے کرتے ہیں۔

حاکمیت اعلٰی کا اختیار

اسلام کا تصور عبادت دیگر مذاہب سے جوہری طور پر مختلف اس بنا پر ہے کہ یہاں مسئلہ محض ذاتی نجات (Personal Salvation) کا نہیں ہے بلکہ اپنے ارد گرد کے افراد کی اصلاح اور اخروی کامیابی کی فکر کا ہے۔ آخرت میں جواب دہی بھی نہ صرف انفرادی ہے بلکہ ہر مسلمان کو جواب دینا ہوگا کہ اگر اس تک صرف ایک آیت ہی پہنچی تھی تو کیا اس نے اسے دوسروں تک پہنچایا؟ اپنے ماحول، معاشرے اور دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے اپنی صلاحیت و اختیار کو کہاں تک استعمال کیا؟ قرآن کریم نے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے:

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶)اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ 

اسلام کے تصور عبادت کی روح اجتماعیت میں ہے۔ وہ نماز ہو یا زکوٰۃ کا نظام یا عمرہ اور حج یا روزہ اور جہاد ہو، ہر عبادت اجتماعیت کا پہلو رکھتی ہے اور اجتماعی طور پر معروف کے قیام اور منکر اور فواحش کے انسداد کی تعلیم دیتی ہے۔

قرآن کریم نے توحید کی اساسی تعلیم کے ذریعے اس غلط فہمی کی اصلاح کر دی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کرسکتا ہے۔ توحید کا مطالبہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت محض اس گوشت کے لوتھڑے تک محدود نہ کردی جائے جس کا نام قلب ہے بلکہ اس قلب کو مزّکی کرنے کے بعد پورے جسم اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اس کی حکمرانی قائم کی جائے، تاکہ جسمِ انسانی کے ساتھ کاروبارِ حیات کے تمام شعبوں میں اللہ کی حاکمیت اور حتمی اقتدار کو نافذ کیا جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام فرد کا تو دین ہو لیکن جس نظام سیاسی میں وہ رہے وہ مشرکانہ، جاہلانہ یا مادہ پرست ہو۔ اگر ہم قرآن کریم سے اس کا جواب پوچھیں تو صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ تسلط، اقتدار، حکم اور حرفِ آخر اگر کسی کا ہے تو وہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے۔ صرف وہ مقتدرِ اعلیٰ (Sovereign) ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا:

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ ط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ   وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۳۹-۴۰)اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ اکیلا اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم اور تمھارے آباو اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماںروائی کا اقتدار (حاکمیت) اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی دین قیم (صحیح طریق زندگی) ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

اس آیت مبارکہ نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ (Sovereignty) کے الفاظ استعمال کرکے یہ بات طے کر دی کہ کوئی انسان Sovereign نہیں ہو سکتا۔ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔ حاکمیت کا دائرہ اثر صرف ذاتی معاملات میں نہیں بلکہ یکساں طور پر سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، قانونی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مسجد میں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اعظم، اعلیٰ اور اکبر ہو لیکن پارلیمنٹ میں پارلیمان اعلیٰ، اکبر اور اعظم بن جائے۔ اور پارلیمان طے کرے کہ اسلام کے کس حکم کو ماننا اور نافذ کرنا ہے اور کس کو نظر انداز کر دینا ہے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مسجد میں تو سجدے کا مستحق ہو لیکن بازار میں کھوٹے سکے سجدے کے مستحق بن جائیں،   یا نام نہاد ثقافتی دنیا میں عریانی، فحاشی اور صنم پرستی تہذیب کا معیار بن جائے۔

اسلام میں داخلہ کوئی جزوقتی کام نہیں ہے کہ جمعے کے دن مسجد میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو رب مان لیا جائے اور بقیہ دنوں میں ذاتی مفاد، شہرت اور دولت، پارلیمان کی رکنیت علامت ِبندگی بن جائے۔

خلافت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ سیاسی نظام جس میں حکومت اور حکام اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہوں۔ یہ نہ تھیاکریسی ہے نہ آمریت، نہ فوجی ڈکٹیٹرشپ، نہ موروثی بادشاہت اور ملوکیت۔

خلافت، تاریخ کی روشنی میں، انبیاے کرام کی پیروی کرتے ہوئے خالق کائنات کی شریعت کو اس کی زمین پر اور اس کی مخلوق پر نافذ کرنے کا نام ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ہوں یا حضرت سلیمان علیہ السلام یا حضرت دائود علیہ السلام، ان سب کا اسوہ استخلاف فی الارض، یعنی   اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہے۔ قرآن کریم کا خود اس معاملے کو واضح کردینے کے بعد کسی دانش ورانہ نکتہ سنجی کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔

اگر پھر بھی اصرار کیا جائے تو معروضی طور پر اس دور کے معروف مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی تالیف اسلامی ریاست (مطبوعہ لاہور، دارالتذکیر ۲۰۰۲ئ) کے صفحات ۱۸ تا ۲۴ کا مطالعہ کر لیا جائے۔ کم از کم وہ حضرات جو مجازی طور پر انھیں کسی وقت اپنا استاد مانتے رہے ہوں، ان صفحات کا مطالعہ ان کے تصورِ خلافت کے خطوط پر چھائی ہوئی دھند کو بآسانی دُور کر دے گا۔

مولانا اصلاحی اس حوالے سے خلافت کے آٹھ تضّمنات پر روشنی ڈالتے ہیں: ۱- یہ کہ خلافت کا شعور خود انسانی فطرت کا مقتضا ہے۔ ۲- یہ کہ اس زمین پر انسان کا فطری منصب ایک خود مختار اور مطلق العنان ہستی کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب کا ہے۔ ۳- یہ کہ اس زمین پر اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ۴- یہ کہ منشاے تخلیق کے اعتبار سے اس منصب کے اہل سارے انسان ہیں۔ ۵- اس منصب کی ذمہ داریوں کی ادائی میں اگر انسان اللہ کی اطاعت نہ کرے تو فساد فی الارض کا ہونا یقینی ہے۔ ۶- یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بغیر ہدایت و رہنمائی کے نہیں چھوڑا ہے۔ ۷- یہ کہ خلافت کی اساس وطن، نسل، نسب یا قبیلہ نہیں ہے بلکہ خلافت ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہے۔ ۸- یہ کہ اسلام کا سیاسی نظام عدل و مساوات کو یقینی بناتا ہے۔

اسلام میں تصورِ قومیت

اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے جس طرح عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انھیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ  (مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔ تحریک پاکستان کے مخالفین کا استدلال یہی تو تھا کہ مسلمان کوئی الگ قوم نہیں ہیں۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم، مولانا حسین احمد مدنی مرحوم اور جمعیت علماے ہند کے دیگر زعما نے اس تعبیر پر ایمان رکھتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیا، جب کہ علامہ اقبال، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا مودودی نے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے تصور کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب مسئلۂ قومیت میں جمعیت علماے ہند کے تصورِ قومیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں رد کیا اور مسلم لیگ نے اس کتاب کو بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا۔ مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے حوالے سے قائد اعظم محمدعلی جناح نے ایسوسی ایٹڈ پریس امریکا کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے تصور ِ قومیت کی وضاحت اس طرح کی تھی:

ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف بہت گہرا ہے اور اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک قوم ہیں، ہماری نمایاں ثقافت اور تہذیب، زبان اور ادب، فن اور تعمیرات، نام اور نام رکھنے کا نظام ہے۔ نسبت اور تناسب کا شعور، قانون اور اخلاقی ضابطے، رواج اور جنتری، تاریخ اور روایات، میلان طبع اور اُمنگوں کے اعتبار سے۔ مختصراً زندگی اور زندگی کے متعلق ہمارا اپنا نمایاں نقطۂ نظر ہے بین الاقوامی قانون کے جملہ ضابطوں کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدسوم، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، امریکی نامہ نگار سے گفتگو، بمبئی، یکم جولائی ۱۹۴۲ئ، ص ۶۷)

قرآن کریم اہل ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک سیسہ پلائی دیوار اور ـ’خیر اُمت‘ یا ’اُمت وسط‘ کے نام سے پکارتا ہے۔ اس امت کی بنیاد نہ رنگ ہے، نہ نسل، نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحدیں۔ اس کا نظریۂ حیات اسے ایک قوم میں تبدیل کر دیتا ہے۔ پاکستان کا وجود میں آنا اس کی روشن دلیل ہے۔ برعظیم کے پٹھان ہوں یا پنجابی یا سندھی اور بلوچ، ان کی پہچان اور تشخص واحد قوم کی شکل میں پاکستانی ہونا ہے۔

مولانا حسین احمد مدنی مرحوم پر علامہ اقبال کی شدید تنقید اور یہ سوال اُٹھانا کہ ہند میں مسلمان سیّد بھی ہیں، مرزا بھی ہیں، افغان بھی ہیں لیکن ان سب حوالوں کے ساتھ کیا وہ مسلمان   بھی ہیں؟ دراصل نسل اور ذات پر مبنی قومیت کے علَم برداروں کے موقف پر یہ بات واضح کرنا تھا کہ ان کی یک جہتی اور ایک قوم ہونے کی اصل بنیاد اسلام ہے۔

قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرکے اس   غلط فہمی کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ کی اصلاح کر دی ہے۔ فرمایا گیا:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ (نظام) نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔

ان چار اہم کاموں کو کون کرے گا؟ کون زکوٰۃ وصول کرکے تقسیم کرے گا؟ محصلین زکوٰۃ کا تقرر کون کرے گا؟ کیا لوگ بزعم خود محـصلین زکوٰۃ بن جائیں گے؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ریاست پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل کو بھلائی کے قائم کرنے اور منکروفحش کو   دُور کرنے میں صرف کرے اس کی تمام انتظامیہ منکر کو مٹانے میں لگ جائے۔

آیت کا واضح مفہوم سیاسی اقتدار کے ذریعے بھلائی کو عام کرنا اور منکر و فحش کو دُور کرناہے۔ اگر اسلام ایک انفرادی دین ہے تو پھر قرآنی قوانین و حدود کا اجرا کون کرے گا؟ قاضی کا تقرر کون کرے گا؟ جہاد کا اعلان کون کرے گا؟ کیا یہ سب کام انفرادی طور پر کیے جائیں گے اور اگر کیے جائیں تو کیا کوئی نظم و ضبط اور قانون کا احترام ہو سکتا ہے؟ یا اسلام کے ہر حکم کی روح کے مطابق تعمیل اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار اور ریاست مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تابع ہو۔

یہ کہنا کہ شرک، کفر اور ارتداد یقینا سنگین جرائم ہیں لیکن ان کی سزا کوئی انسان نہیں دے سکتا، قرآن کریم کے واضح احکامات سے متصادم ہے۔ قرآن کریم مسلسل نبی کریمؐ اور اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ:وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo ’’ ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے‘‘ (انفال ۸:۲۹)۔ نہ صرف یہ بلکہ رسولؐ اللہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو جنگ پر ابھاریں۔یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ (انفال۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر ابھارو‘‘۔ اللہ چاہتا ہے کہ مشرکین اور کفار کے خلاف گھوڑے تیار رکھے جائیں ۔

آخر ان تمام احکامات کی ضرورت کیا تھی اگر کفروشرک کی سزا صرف یوم الحساب کے بعد ہی دی جانی تھی! مشرکین اور کفار کا آخری ٹھکانا تو جہنم ہو گا ہی لیکن اس دنیا میں ان کے خلاف جہاد کا حکم دوٹوک الفاظ میں دیا گیا ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ط وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ o (التوبہ ۹:۷۳)’’اے نبی، کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئو۔ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جاے قرار ہے‘‘۔

شرک اور کفر ہی نہیں جو لوگ اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کرتے یا زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ ان کو بھی اس دنیا میں سزا دے۔  ’’جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں،  یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔یہ ذلت و رُسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے‘‘(المائدہ ۵:۳۳)۔ اس دنیا میں سزا کا نفاذ کون کرے گا اگر ریاست قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اگر ہر گمراہی کی سزا صرف آخرت میں دی جانی ہو؟ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ خلط ِمبحث نہ کیا جائے اور قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے واضح احکام کو بلا کسی دلیل کے مختلف فیہ نہ بنا یا جائے۔ اس طرزِ فکر (mind-set) کو نہ تو جدت سے اور نہ اجتہاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اختلافِ راے بلاشبہہ اُمت کے لیے رحمت ہے لیکن اسی وقت تک جب اختلاف ادب کے دائرے میں کیا جائے۔ اسلام کی بنیادوں کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ نکالنا دین کی حکمت سے متعارض رویہ ہے۔

قرآن کریم اور دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان، قرآن و سنت کو پارلیمان سے بالا قرار دیتا ہے، اس لیے اگر تمام دانش ور مل کر بھی یہ مطالبہ کریں کہ پارلیمان حرفِ آخر ہونی چاہیے، تو قیامت تک نہ اُمت ِمسلمہ کا ضمیر اور نہ دستورِ پاکستان اس طرزِ فکر کو درست تسلیم کرے گا۔

انتھا پسندی کی تکرار

ہمارے ملک کے ابلاغِ عامہ میں، خواہ وہ اخباری صحافت ہو یا برقی ابلاغِ عامہ، گذشتہ دودہائیوں سے مسلسل ایک بات کی تکرار کی جارہی ہے کہ دینی مدارس کا نصاب انتہاپسندی پیدا کرتا ہے۔ ایک سوال عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ اگر یہ وہی نصاب ہے جسے مُلّا نظام الدین سیالوی نے مرتب کیا تھا اور جسے دیوبند، سہارن پور اور بریلی کے مدارس میں اور بعض اصلاحات کے ساتھ فرنگی محل اور بعد میں ندوۃ العلماء میں بطور بنیاد کے استعمال کیا گیا تو کیا ان تمام مدارس سے صرف دہشت گرد اور انتہاپسند ہی پیدا ہوئے؟

کیا صورتِ حال کچھ ایسی نہیں ہے کہ جہادِ افغانستان کے بعد جب ہوا کا رُخ بدلا تو جو  کل تک مجاہد تھے،وہ دہشت گرد قرار دیے جانے لگے۔ مزید یہ کہ جن مدارس کے طلبہ کو تربیت دے کر طالبان کے نام سے افغانستان کی حکومت کے خلاف کھڑا کیا گیا وہی ہوا کا رُخ بدلنے پر شدت پسند اور جدیدیت کے لیے خطرہ بن گئے۔

یہ سوال بھی غورطلب ہے کہ کیا سیکولر تعلیم اعتدال پسندی، رواداری، صبروتحمل اور انکساری پیدا کرتی ہے یا سیکولرازم خود ایک انتہاپسندانہ تصور ہے جو اپنی حقانیت کے علاوہ کسی اور بات کو حق نہیں مانتا، اور خصوصاً دین کو ذاتی معاملہ قرار دے کر مسجد، چرچ یا مندر تک محدود کردینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ کیا اسی کا نام رواداری، برداشت اور تکثیریت (Pluralism)ہے؟

اسی سلسلۂ کلام میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اسلامی تحریکات اور مذہبی و سیاسی جماعتیں شب و روز انتہاپسندی کی تبلیغ کرتی ہیں۔ اس تجاہلِ عارفانہ پر سواے حیرت کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی وہ واحد ادارہ ہیں جنھوں نے فرقہ واریت، مسلک پرستی اور تنگ نظری اور عدم رواداری کے خلاف ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریکات ِاسلامی اجتہادی تحریکات ہیں جو مروجہ محدود مذہبیت سے ہٹ کر دین کی جامع اور متحرک تصویر پیش کرتی ہیں تو بے جانہ ہوگا۔ انڈونیشیا، ترکی، شام، سوڈان ہو یا ’پاکستان اسلامی تحریکات نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اور اپنے اپنے انداز میں ہمیشہ شدت پسندی اور انتہاپسندی کے منطقی رد اور علمی محاکمے کے ذریعے ایک متوازن اور عدل پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کی ہے۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں بھی جن کی پہچان میں مسلک کا بھی ایک کردار اور رنگ ہے، مثلاً: جمعیت علماے پاکستان یا جمعیت علماے اسلام یا جماعت اہلِ حدیث یا تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ، وہ بھی دستوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں، اور پاکستان کے دستور میں طے شدہ شورائی اور جمہوری نظام ہی کو اپنی سیاست کا مرکز و محور بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ جس دستور کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور جس میں اسلام کے کم سے کم تقاضوں کو سمودیا گیا ہے، اس پر اس کی اصل روح کے مطابق مکمل طور پرعمل کیا جائے اور جو بھی اس دستور کا منکر یا اس سے منحرف ہو اس سے اپنا رستہ جدا رکھیں۔

حقیقت پسندی کا تقاضا

پاکستان کے تناظر میں تحریکِ اسلامی نے ہمیشہ دستوری ذرائع سے ہی ملک میں اصلاح اور تبدیلی کو درست سمجھا ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔علمِ سیاست کا ہرطالب علم اس امر سے آگاہ ہے کہ ریاست مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ یہ تینوں اعضا دستور کے تحفظ کے ذمہ دار اور امین ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر ایک دستور جس پر ایک ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہو، ریاست کو اسلامی قرار دیتا ہو اور حکمرانی کے لیے بھی اسلام پر ایمان اور اسلام کے نفاذ کا عہد، عہدنامۂ صدارت و وزارتِ عظمیٰ میں شامل ہو، تو پھر یہ کہنا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے، ایک خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن اسے دستور سے وفاداری نہیں کہا جاسکتا۔

اسلام حکمرانی کے آداب میں اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ حکمران اور قاضی بغیر کسی تعصب اور فرقہ پسندی کے عدل اور مکمل عدل کے ساتھ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے معاملات کا فیصلہ کریں۔ اس لیے ریاست اور ریاست کے اہل کاروں کا ایمان دار ہونا ہی عدل و انصاف کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ایمان اور تقویٰ میں جتنی کمی ہوگی، ظلم و ناانصافی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ایک سیکولر نظام اپنے آپ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ سے آزاد قرار دیتا ہے، اس لیے ایسے نظام میں خداخوفی کے ساتھ فیصلہ کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں رہتا۔ چنانچہ نفسا نفسی، اقرباپروری اور ظلم و استحصال بغیر کسی رکاوٹ کے معاشرے کو اپنا شکار بنا لیتا ہے۔

اسلامی ریاست انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے اور مدینہ منورہ میں قائم کی جانے والی اسلامی ریاست میں ہمیں وہ اصول کارفرما نظر آتے ہیں جو قیامت تک کسی بھی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اس کے بانیوں کی نگاہ میںصرف اور صرف یہی تھا کہ یہاں قرآن و سنت کا نظام رائج ہو اور یہ دنیا کے سامنے اسلامی ریاست کی شکل میں ایک قابلِ عمل نمونہ پیش کرسکے۔

ایک جانب یہ اصرار کہ نمازِ عید اور جمعہ سربراہِ مملکت پڑھائے اور دوسری جانب یہ تصور کہ ریاست سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے___ ایک گہرے تضاد کا پتا دیتا ہے۔ دین اسلام مکمل نظامِ حیات ہے۔ یہ مناسکِ عبودیت کو مسجد تک محدود نہیں کرتا بلکہ عدلیہ اور مقننہ کو بھی اللہ کی بندگی کا پابند بناتا ہے۔ مقننہ وہی قانون سازی کرسکتی ہے جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس لیے ریاست کے فرائضِ منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ملک سے قتل و غارت گری کو ختم کرنے کے لیے اپنی قوتِ نافذہ استعمال کرے۔ وہ ظلم و بغاوت کو دُور کرے۔ وہ انسانوں کو ان کے حقوق دلائے اور مقاصد ِ شریعت جو مقاصد ِ انسانیت بھی ہیں کا تحفظ کرتے ہوئے دین، جان، عزت، عقل، نسل اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی ریاستی سرپرستی اور نگرانی میں انجام دے۔

اسلامی ریاست کا اپنا تشخص ہے اور وہ روایتی مذہبی ریاست (Theocracy) اور لبرل لادینی قومی ریاست (Liberal Secular Nation State) دونوں سے یکسر مختلف ہے۔ اس میں کسی مذہبی گروہ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی راے دوسروں پر مسلط کرے، یا اللہ کے نام پر اپنی حکمرانی قائم کرے۔ اسی طرح یہ لبرل سیکولر ریاست سے بھی مختلف ہے جہاں عوام کی حاکمیت کے نام پر ریاست اخلاق اور اقدار کی ہرقید سے آزاد ہوجائے اور حلال و حرام اور حق و باطل کو انسانی اغراض اور اہوا کا تابع بنا دے۔

مغرب میں جسے ’قومی ریاست‘ (National State)کہا جاتا ہے، وہ اپنا ایک خاص تاریخی پس منظر رکھتی ہے اور اس کا کوئی ایک متفق علیہ ماڈل بھی نہیں ہے۔ نیز قومی ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں بستی ہیں اور  تمام اقلیتوں کے مساوی حقوق کے دعووں کے باوجود رنگ، نسل، زبان، قومیت، مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر اقلیتوں سے امتیازی سلوک کیاجاتا ہے۔ پھر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد استعماری طاقتوں نے اپنے مفاد کے مطابق اور اپنے اقتدار اور اثرات کو دوام دینے کے لیے سیاسی نقشے کی کتربیونت کی ہے اور مختلف تعصبات کو فروغ دے کر اپنے مفاد میں ریاستوں کو وجود بخشا ہے اور انھیں قومی ریاستوں کا عنوان دیا ہے۔ عرب دنیا اور افریقہ میں یہ کھیل بڑی چالاکی اور عیاری سے کھیلا گیا اور اب بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود متعدد قومی ریاستوں پر مذہب کی چھاپ موجود ہے۔ فرانس سیکولرزم کے نام پر ایک نظریاتی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ اسرائیل مُصر ہے کہ وہ ایک یہودی ریاست ہے۔ نیپال ایک ہندو ریاست اور برما ایک بدھ مت کی علَم بردار ریاست ہے۔ عیسائیت کہیں Liberation Theology اور کہیں Christian Democracy کے جھنڈے تلے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اور بھارت جسے سب سے بڑی جمہوری ریاست کہا جاتا ہے وہ ’ہندوتوا‘ کی نقیب ہے مگر ساتھ ساتھ ’سیکولر نیشن اسٹیٹ‘ ہونے کی بھی دعوے دار ہے۔

 یورپ اور امریکا کی جدید تاریخ پر نظرڈالیں تو اس نیشن اسٹیٹ نے عالمی سامراجی نظام کے فروغ اور دنیا کو الم ناک جنگوں کی آگ میں جھونکنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور دوسری جنگ ِعظیم کے بعد خود یورپ میں جو ہوائیں چل رہی ہیں، ان کا عنوان Beyond Nation State ہے اور یورپی یونین پانچ ریاستوں سے ۱۹۵۸ء میں اپنے سفر کا آغاز کرکے آج ۲۸ریاستوں کا ایک Supranational Political Order قائم کرنے کے سفر میں سرگرمِ عمل ہے۔ ایک کرنسی اور ایک مرکزی بنک بن گیا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ اور یورپین کورٹ وجود میں آچکے ہیں لیکن ہمارے دانش ور ہیں کہ ابھی تک ’نیشن اسٹیٹ‘ ہی کو نمونہ اور مثالیہ بنانے پر مصر ہیں۔

اسلامی ریاست اللہ کی حاکمیت، انسان کی خلافت، قرآن و سنت کی بالادستی اور تمام انسانوں کے درمیان انصاف اور عدل کے ساتھ مشاورت کی بنا پر حکمرانی کا تصور دیتی ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ محض ایک سیاسی مصلحت نہیں بلکہ دین کا تقاضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت کا ثمرہ ہے۔ اسلام کے نام پر اگر چند گروہ کوئی غلط رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی غلطی پر بھرپور گرفت اور ہرغلط کاری کا سدباب ہونا چاہیے لیکن اس طرح کے انحرافات کی بنیاد پر اسلامی ریاست  کے تصور ہی کو غیرضروری قرار دینا ایک ایسی جسارت ہے جس سے دین کا حلیہ ہی بگڑ جائے گا۔ وہ کون سا مذہب اور نظریہ ہے جس کے نام پر کچھ لوگوں نے غلط کاری نہ کی ہو۔ جو بھی کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے اس پر گرفت اور غلطی کے حجم کی مناسبت سے جوابی اقدام حق بجانب ہے لیکن اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ ایسے بودے سہارے لے کر دین کے مسلمات ہی کو مسخ کرنے اور نت نئے بیانیے وضع کرنے کا راستہ کھولا جائے۔ یہ فتنہ اور فساد کا راستہ ہے اور ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

 

سوال: دعوتِ دین اور سیاسی و انتخابی جدوجہد دو بالکل مختلف میدانِ کار ہیں جو بالکل مختلف افراد کار، دعوت و پیغام، اسلوب اور طریقۂ کار کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل پہلو غور طلب ہیں:

۱- جب ایک دینی جماعت عوام کو دعوتِ دین دیتی ہے تو وہ سچائی، نیکی، عملِ صالح اور آخرت کی دعوت دیتی ہے اور اس میں وہ عوام کی پسند وناپسند کو سامنے نہیں رکھتی، جب کہ ایک سیاسی جماعت کو اپنے پیغام یا دعوت میں عوام کی پسندو ناپسند کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔

۲- دینی جماعت جب عوام کو حق اور عملِ صالح کی دعوت دیتی ہے تو عوام کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ کل ہم سے یہ کوئی مطالبہ نہیں کریں گے، جب کہ سیاسی جماعت کا معاملہ ایک سودے بازی (bargaining) یا کچھ لو اور دو (give & take) والا ہوتا ہے کہ عوام آج ہمیں ووٹ دیں، کل ہم ان کے مسائل حل کریں گے۔

۳-دینی جماعت سے عوام کو کوئی توقعات نہیں ہوتیں، جب کہ سیاسی جماعتوں سے عوام توقعات وابستہ کرتے ہیں۔

۴- دینی جماعت کو نتائج کی پروا نہیں ہوتی، چاہے لوگ اس کی دعوت قبول کریں یا نہ کریں، جب کہ سیاسی جماعت کی کامیابی اور ناکامی کو ووٹوں اور نشستوں کی تعداد سے پرکھا جاتا ہے۔

۵- دینی جماعت کا کارکن نیکی و حق کا کھلم کھلا نمونہ ہوتا ہے جو ہر جگہ اپنے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے۔ وہ اپنے قائد یا کارناموں کی بات نہیں کرتا، جب کہ سیاسی جماعت کا کارکن عوام کی سوچ اور مسائل کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے۔ اپنی قیادت اور پارٹی کے کارنامے گنواتا ہے، عوام کو سہانے خواب دکھاتا اور ووٹ کا مطالبہ کرتا ہے۔

۶- دینی جماعت کا کارکن تشہیر یا پروپیگنڈے پر بہت کم توجہ دیتا ہے، جب کہ ایک سیاسی جماعت کی سرگرمیوں میں تشہیر و پروپیگنڈے کی بہت اہمیت ہے اور ان کا مقصد حصولِ اقتدار ہے۔

یہ وہ ابہام (confusion) ہے جو مجھے اُوپر سے نیچے تک ہرجگہ نظر آتا ہے۔ ہم نے کام تو بہت بڑا اُٹھا لیا ہے___ دعوتِ دین ، سیاسی جدوجہد، رفاہی کام، بین الاقوامی معاملات___ لیکن ہرمیدان کی وسعت اور جزئیات کا پوری طرح اِدراک نہیں کرپائے۔ خیال رہے کہ کامیابی کے لیے صرف اخلاص کافی نہیں بلکہ واضح حکمت عملی بھی درکار ہے۔

جواب: ان سوالات سے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ تحریک سے وابستہ ساتھیوں میں سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت ہے۔ تنقیدی ذہن کے ساتھ سوچنا ہی تحریک کو زندہ رکھتا ہے۔ اسی بناپر حدیث نبویؐ میں اختلاف راے کو رحمت قرار دیا، اور قرآنِ کریم نے اس پہلو کو  ایک زیادہ جامع اصطلاح، یعنی شوریٰ سے تعبیر کرتے ہوئے حکم دیا کہ اپنے تمام اُمور میں مشاورت کرو۔ ظاہر ہے مشاورت اسی وقت ہوگی جب ایک سے زیادہ آرا سامنے آئیں اور ہرتجویز پر غور کرنے کے بعد جب کسی ایک راے پر اتفاق یا اجماع ہوجائے توپھر عزم اور توکل کا سہارا لیا جائے۔

 سوالات کی ترتیب کے لحاظ سے چند قابلِ غور پہلو تحریر کیے جارہے ہیں۔

یہ طے کرنے کے لیے کہ کیا دعوتِ دین کی جدوجہد اور سیاسی اور انتخابی جدوجہد دو مختلف میدان ہیں، ہمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ قرآن کریم میں انبیاے کرام ؑ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے حوالے سے یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ حضرت سلیمان ؑ، حضرت دائود ؑاور حضرت یوسف ؑنے، جن اُمور کو ہم آج سیاست اور گورننس سے تعبیر کرتے ہیں، نہ صرف اپنی دعوت کا لازمی جزو سمجھا بلکہ عملاً نظامِ حکمرانی کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا:

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ ج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ  o وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ ط (یوسف ۱۲:۵۵-۵۶) یوسف ؑ نے کہا:ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ اس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔

گویا حضرت یوسف ؑ کا دائرۂ اختیار محض مالیات تک محدود نہ تھا بلکہ آپ تمام اُمور مملکت پر اختیار رکھتے تھے اور جہاں جہاں عزیزِ مصر کا اثر تھا وہاں وہاں آپ کا حکم چلتا تھا۔

 حضرت موسٰی ؑ کے تذکرے میں بھی ملتا ہے: ’’یاد کرو جب موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمھیں عطا کی تھی۔ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا‘‘۔(المائدہ ۵:۲۰)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مکی دور میں جو دعا رب کریم نے آپؐ کو     تعلیم فرمائی وہ محض مشرکین کے شر سے محفوظ رکھنے کی نہیں تھی بلکہ اقتدار کے ذریعے اقامت دین کی دُعا تھی۔’’اور دعا کرو کہ پروردگار مجھ کو جہاں کہیں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا، اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال، اور اپنی طرف سے ایک اقتدار [سُلْطَانًا] کو میرا مددگار بنادے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۸۰)

ان قرآنی آیات پر غور کیا جائے تو انبیاے کرام کے مشن میں دعوتی تسلسل، دعوتی ہمہ گیریت اور خود مقصد ِ نبوت میں اسلامی اقتدار کا قیام بالکل واضح نظر آتا ہے۔ اگر مکہ مکرمہ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ دین، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ہوتی تو مشرکینِ مکہ کو اس پر معاندانہ اور مخالفانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر انھوں نے حرمِ مکہ میں تین سو سے اُوپر خدائوں کو جگہ دے رکھی تھی تو ان میں ایک کے اضافے سے قیامت نہیں آجاتی۔ اس لیے مسئلہ ایک نئے  خدا کے اقرار کا ہی نہ تھا بلکہ توحید یا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے کا مطلب ہی یہ تھا کہ زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لے آیا جائے ا ورتمام خدائوں کو یک قلم منسوخ کردیا جائے۔   آخرانگریز کے دورِ غلامی میں مسلمان برعظیم پاک و ہند سے حج کے لیے بھی جاتے تھے، مسجدیں بھی آباد تھیں اور صاحب ِ نصاب حضرات زکوٰۃ بھی دیتے تھے اور بھلائی کی تلقین بھی کی جاتی تھی۔ مکہ مکرمہ میں اصل مسئلہ یہی تھا کہ اگر توحید کو قبول کرلیا جاتا تو پھر سود کا بت، قبائلی فخر کا بت،  تبرجات الجاہلیہ پر مبنی ثقافت و معاشرت، ہرشعبۂ زندگی کو اللہ کی بندگی میں آنا پڑتا۔ توحید کو ماننے کا پہلا تقاضا ہی یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر ارباب کو زندگی سے خارج کیا جائے اور معیشت ہو یا سیاست، عبادت ہو یا ثقافتی سرگرمی، ہرہرکام کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کردیا جائے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ مسجد میں اللہ کی حاکمیت ہو اور پارلیمان میں، عدلیہ میں، معاشی منڈی میں کوئی دوسرا اسلوب ، طریقہ اور اصول کارفرما ہو۔ مسجد میں سجدہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو کیا جائے اور تجارت میں مالی مفاد کو خدا بنا لیا جائے اور جب ایک شخص پارلیمنٹ میں ہو تو ہوا کا رُخ دیکھ کر بات کرے! اس لیے دعوت کا میدان اور سیاسی میدان دو الگ چیزیں نہیں ہوسکتے۔ دونوں کا مقصد  اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو اس زمین پر قائم کرنا ہے۔

جو سوال اُٹھایا گیا ہے یہ اس سے قبل بھی بہت سے ذہنوں کو پریشان کرتا رہا ہے، چنانچہ فکری اور معاشرتی اصلاح پہلے یا سیاسی انقلاب پہلے پر سیدمودودیؒ کا جامع تبصرہ یہ ہے: ’’بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ اور بلاشبہہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اُوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رُونما ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔ اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں ذہنی انقلاب واقع نہ ہو اس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق استعمال کرتے رہیں یا ان اختیارات کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق کام میں لائیں۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔ حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رُونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جاسکتا… حکومت کی طاقت نہ صرف بجاے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے، بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ مؤثر، نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ آخر اس حماقت اور جہالت کا ارتکاب ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع، اخلاق کے بگاڑنے اور فسق و فجور پھیلانے میں لگے رہیں‘‘۔(رسائل و مسائل، چہارم، ص۱۷۹-۱۸۸)

تبدیلیِ نظام اور قیامِ عدل کے لیے ایک طریقۂ کار تو یہ ہوسکتا ہے کہ موجودہ نظام کی خامیوں کے پیش نظر اس سے اپنے آپ کو الگ کر کے تعمیر کردار پر توجہ دی جائے اور جب ایک طویل عمل کے نتیجے میں ایسے افراد تیار ہوجائیں تو پھر سیاسی تبدیلی کی طرف توجہ دی جائے۔ دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ کسی عسکری قوت کے ذریعے پورے نظام کو درہم برہم کر کے نئے سرے سے نظام کو صالح بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ ایک تیسری شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس طرح آپ ایک ایسا مکان خریدیں جس کی چھت ٹپک رہی ہو، دروازے بوسیدہ ہوں، بجلی کا نظام صحیح کام نہ کر رہا ہو توبجاے پورے مکان کو منہدم کر کے نئے سرے سے مکان تعمیر کرنے کے آپ ترجیحات کا تعین کریں اور مکان کی خرابیوں کو دُور کرتے جائیں۔ انسانی معاشرہ اور میکانکی معاشرہ میں یہی فرق ہے۔ اس میں بیک وقت دعوتِ نماز اور دعوتِ قیامِ عدل پر عمل کیے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی۔

دوسری بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ کیا ’دینی جماعت‘ تو عملِ صالح کی دعوت دے اور سیاسی جماعت عوام کے دل جیتنے کے لیے سیاسی حربے استعمال کر کے اقتدار حاصل کرلے۔ کیا یہ دوعملی اسلام کا مقصود و مطلوب ہے؟ کیا قرآن کریم اور سنت ِ رسولؐ یا خلفاے راشدین کی سیاسی زندگی سے اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ بات بڑی آسان اور واضح ہے۔ اسلام جس سیاسی نظام کا قیام چاہتا ہے، اس کی بنیاد تقویٰ، اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نفاذ، شفافیت، عدم مداہنت، اصول پرستی، حق کے اظہار، عدل کے قیام، امانت، اہلیت اور احتساب پر ہے۔ اسلام میں صرف سیاست یا صرف دین کا کوئی تصور، نہ قرآن میں پایا جاتا ہے نہ سنت ِ رسولؐ ، نہ خلفاے راشدین کی مثال میں۔ خلفاے راشدین نے اقتدار کو دین کے قیام اور استحکام کے لیے استعمال کیا۔ یہی وہ دعوت ہے جو تحریک اسلامی کی قیادت خصوصاً مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے شعوری طور پر پیش کی۔

یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ ’دینی جماعتوں‘ کی کامیابی یا ناکامی کا معیار نشستوں کی تعداد ہے۔ کیا حضرت نوحؑ کی طویل دعوتی جدوجہد اور حضرت موسٰیؑ کے اپنی قوم کو دعوت دینے کے نتیجے میں ساری قوم یا اس کی اکثریت آپ کے ساتھ آگئی تھی؟ کیا یہ ان حضرات علیہم الصلوٰۃ کی ناکامی تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمان میں نشستوں کی تعداد نظریاتی جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی کا   حتمی پیمانہ نہیں ہوسکتی۔ ان کی کامیابی کا پیمانہ خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی مقدور بھر کوشش اور ربِ کریم پر اعتماد و توکّل ہے۔ ترکی میں اب سے ۲۰سال قبل وہاں کی اسلامی تحریک نے ۱۰ فی صد سے بھی کم نشستیں حاصل کیں لیکن اگلے انتخابات میں اس میں اضافہ ہوا، اور آخرکار تیسرے انتخاب میں وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ہمارے ہاں انتخاب کا نظام، انتخابات میں قوت کا استعمال اور نفاذِ تحریکِ اسلامی کی حکمت عملی کا بروقت بننا اور صحیح روح کے ساتھ اس کا نفاذ، یہ اور دیگر تنظیمی اور مالی وجوہات مل کر نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خود سیاسی سرگرمی تحریک کے نقطۂ نظر سے ایک دعوتی سرگرمی ہے جس میں کارکن اور قیادت عوام کے سامنے اپنی دعوت اور مسائل کا اسلامی حل پیش کرتے ہیں۔ اس عمل میں معمولی سی کوتاہی نتائج کو متاثر کرسکتی ہے۔ دوسری جماعتیں جو خالص سیاسی مقاصد کے لیے وجود میں آتی ہیں، ان کی کامیابی کا سبب تنہا ان کا ’نظریہ‘ نہیں ہوتا بلکہ اکثر وہ غیراخلاقی ذرائع ہوتے ہیں جن کا استعمال تحریکِ اسلامی کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ غیراخلاقی ذرائع سے کامیابی سے افضل چیز اپنے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کسی نشست کا کھو دینا ہے، تو بے جا نہ ہوگا، بلکہ اصولی سیاست کے فروغ کا ناگزیر تقاضا ہے۔

یہ بات غیر اسلامی سیاست میں تو ممکن ہے کہ کچھ لو اور دو کے ذریعے ووٹ لے لیے جائیں لیکن اسلامی تحریک کی اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا کہ دینی جماعت سے عوام کوئی توقعات نہیں رکھتے، مشاہدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پاکستان کی تین مسلکی جماعتیں اپنے واضح مسلکی پس منظر کے باوجود عوام کی نگاہ میں ان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اسی بنا پر انھیں ووٹ ملتے ہیں۔جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جسے مسلکی جماعت نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی رکنیت کے لیے کسی کا دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث یا جعفری ہونا شرط نہیں ہے۔ ہرمسلمان جو اس کے دستور سے اتفاق رکھتا ہو اس میں شامل ہوسکتا ہے، جب کہ جو جماعتیں مذہبی کہلاتی ہیں ان کے نام ہی اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ دراصل مسلکی جماعتیں ہیں۔ اس کے باوجود سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں لوگ انھیں ان کے مسلک سے وابستگی کے باوجود ووٹ توقعات کے پیش نظر ہی دیتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ تحریکِ اسلامی کی سیاسی جدوجد کا بنیادی مقصد اپنی دعوت کا پہنچانا ہے۔ اس لیے وہ نتائج سے بے پروا ہوکر اللہ کی رضا کے لیے کام کرتی ہے۔ اس جدوجہد میں اگر رب کریم اپنے فضل اور نصرت سے اسے کامیاب کردے تو یہ اس کا انعام ہے۔

تحریکِ اسلامی کے کارکن کسی کو جتائے بغیر خلوص سے معاشرتی اصلاح کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ لوگ خود مخلص اور مطلبی افراد میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ پروپیگنڈا اور تشہیر کے مقابلے میں تحریک تحدیث ِنعمت کی تعلیم دیتی ہے، ناگزیر تشہیر کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ تاہم قیادت اور کارکن دونوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ نفس کے شیطان سے ہمہ وقت چوکنے رہیں اور باہمی احتساب کے ذریعے ایک دوسرے کو نصیحت بھی کرتے رہیں۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تحریک کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مذاکروں میں اور سوشل میڈیا پر زیادہ سرگرمی کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کرنا چاہیے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حصولِ مقصد کے لیے حکمت عملی بہت واضح ہونی چاہیے۔ اگر ماضی میں اس پہلو سے کوئی کمی رہی ہے تو اسے اب دُور کیا جانا چاہیے۔

دعوتِ دین، عوامی مقبولیت اور حصولِ اقتدار میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ کوئی شرعی قباحت جیساکہ حضرت سلیمان ؑ کی زبان سے قرآن کریم میں یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایسی سلطنت کی توفیق دے جس کی کوئی مثال نہ پائی جاتی ہو۔ پھر تحریکِ اسلامی جس کا مقصد معاشرہ، معیشت اور اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں لانا ہے، وہ اس کے حصول کے لیے جدوجہد کیوں نہیں کرسکتی۔ اس جدوجہد اور انبیا ؑ کے دعوت و طریق کار میں تضاد کہاں پایا جاتا ہے۔

دعوتِ دین اور سیاسی جدوجہد دو الگ دائرے نہ قرآن کریم میں ہیں، نہ سنت ِ رسولؐ میں اور، نہ سنت خلفاے راشدین میں۔ اس لیے تحریک ِ اسلامی بھی اس فرق کو تسلیم نہیں کرتی۔ معاشرتی اصلاح کے لیے تمام ذرائع کا استعمال شریعت کی رُو سے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جو جماعتیں اپنے آپ کو خالص سیاسی جماعت کہتی ہیں وہ دین کو اپنا ذاتی معاملہ سمجھتی ہیں،   اس لیے صرف سیاست کرنے میں لگی رہتی ہیں۔تحریکِ اسلامی اس لحاظ سے ایک ’خالص سیاسی جماعت‘ نہ کبھی تھی نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ اس کی دعوت ہمہ گیر ہے۔ یہ زندگی کو خانوں میں نہیں بانٹتی اور یہ کلیسا اور ریاست کی تفریق کو رد کرتی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

پاکستان کی تاریخ میں ۱۶دسمبر ۲۰۱۴ء ایک تاریک ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن دہشت گردوں کے ہاتھوں ۱۳۴ ؍اسکول کے معصوم بچوں کا سفاکانہ قتل ایک ایسا اندوہناک واقعہ ہے جس نے نہ صرف ہرپاکستانی بلکہ دنیا کے ہردردمند دل کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے۔ عملے کے ۱۰؍افراد بھی شہید ہوئے اور ۱۲۰ سے زائد زخمی ہوئے۔اس سفاکی پر جتنا بھی احتجاج کیا جائے وہ  کم ہے۔ ایسے سانحے قوموں کو ان کے خوابِ غفلت سے بیدار کردیتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قوم اس امتحان اور آزمایش کا مقابلہ کس طرح کرتی ہے اور آیندہ ایسے واقعات کی پیش بندی کے لیے کیا اقدامات اُٹھاتی ہے۔

پاکستانی صحافت، دانش ور، کالم نگار، ایک عام شہری بلکہ جہاں کہیں بھی دو افراد چند لمحات کے لیے مل بیٹھتے ہیں اس واقعے پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ ایک چیز جو ان گفتگوئوں میں مشترک نظر آتی ہے وہ ان سفاک افراد کے بارے میں یہ راے کہ ایسے گھنائونے کام کے کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے۔ یہ لازماً سرحدپار سے آنے والے وہ افراد تھے جو پاکستان میں عدم استحکام، عدم تحفظ اور عالمی تناظر میں پاکستان کی معاشی ساکھ اور ترقی کو مجروح کرنے اور پاکستان میں کسی بیرونی سرمایے سے تجارتی فروغ کے دروازے بندکرنے کے خواہش مند تھے۔ اس لیے نہ صرف  یہ کہ یہ مسلمان نہیں ہوسکتے بلکہ یہ پاکستانی بھی نہیں ہوسکتے۔ پھر یہ کون تھے؟ کیوں آئے اور انھیں اندر کیوں آنے دیاگیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر شہری کو پریشان کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں پہلی بات بڑی واضح ہے کہ سانحۂ پشاور کو پاکستان میں دہشت گردی کا تنہا واقعہ نہیں کہا جاسکتا۔ جنرل ضیاء الحق کی اندرونِ ملک پالیسی نے سندھ میں ایک دینی جماعت کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے جس لسانی تحریک کو آنکھیں بند کر کے پنپنے کا موقع دیا اور جس کے ہمسایہ ممالک کے حساس اداروں سے روابط سے پردہ اُٹھانے پر صلاح الدین مدیر تکبیر کو شہید کیا گیا، اور پھر ٹارچر سیل قائم کر کے معصوم نوجوانوں کو نشانہ بنایاگیا۔ یہ سب ہمارے ماضی کا حصہ ہیں۔   نہ صرف سندھ، بلوچستان میںسیکڑوں افراد کا اغوا اور قتل مختلف عنوانات کے تحت ہوتا رہا، بلکہ بلوچستان میں مسلکی منافرت پھیلانے کے لیے بڑی تعداد میں ہزارہ شیعہ فرقے کے افراد کی شہادت اسی سرگزشت کا ایک باب ہے۔ ملک کے ہر صوبے میں تھوڑے عرصے کے بعد کبھی کسی دیوبندی یا بریلوی عالم یا عسکری جماعت کے اہم فرد کا قتل، کبھی شیعہ عالم پر حملہ اور قتل کیا جانا،  کبھی کسی سیاسی شخصیت کا قتل کیا جانا، یہ سب واقعات ایک تسلسل کے ساتھ گذشتہ ۳۰سال سے     دن دہاڑے ہوتے رہے ہیں۔ انتظامیہ ہو یا نام نہاد سول سوسائٹی کی جانب سے اس پر سواے  ایک وقتی ردعمل کے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جو مسئلے کی جڑ کو تلاش کرنے کے بعد اس کا جڑ سے خاتمہ کرے۔ اس کی جگہ صرف ایک بات تسلسل سے کہی گئی کہ اس تمام قتل و غارت کی بنیاد ’مذہب‘ یا دینی مدارس ہیں۔ اس لیے دینی مدارس کو ختم کیا جائے اور ملک سے مذہب کے اثرات کو دُور    کیا جائے تاکہ یہاں ’روشن خیالی‘ اور لادینیت کا فروغ ہوسکے۔ اس فکر کو آگے بڑھانے میں ہمارے ابلاغی ذرائع خصوصاً برقی ابلاغی ذرائع نے بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ ابلاغ عامہ نے ایک جانب تو ایسے تمام واقعات کو بنیاد بناکر ’مذہبی‘ افراد اور دینی مدارس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے،  اور دوسری جانب دہشت گردی اورقتل و غارت گری کو مسلسل دکھا کر لوگوں کے دل و دماغ کو  دہشت گردی کے مناظر کا عادی بنادیا کہ کسی شہر میں ۱۰،۲۰؍افراد کا قتل ہوجانا، حتیٰ کہ بعض افراد کا زندہ جلادیا جانا بھی ان نام نہاد سول سوسائٹی کے ارکان کو جگانے میں ناکام رہا ہے۔

لیکن ۱۳۴ معصوم بچوں کے خون نے، اس سے قطع نظر کہ ان کے والدین کا تعلق فوج سے تھا یا نہیں، قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور جس سول سوسائٹی کے اصرار نے اسلامی شریعت سے انحراف کرتے ہوئے پاکستان میں قتل کی سزا کو منسوخ کر انے میں بنیادی کردار ادا کیا، آج وہی سول سوسائٹی اس سانحے کے بعد اس کے ذمہ داروں اور دیگر دہشت گردوں کے لیے سزاے موت کے نفاذ کی حمایت کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔ اسلام کے نظامِ عدل میں جو احکامات خالق کائنات نے انسانوں کے معاشرے میں امن برقرار رکھنے کے لیے دیے وہ ابدی حیثیت رکھتے ہیں اور آخر انسان ٹھوکریں کھاکر ان کی طرف پلٹتا ہے۔

خوداحتسابی کی ضرورت ہے، الزام تراشی کی نہیں۔ اس سانحے میں فوج کے محفوظ مقام تک آنے کے لیے کئی سیکورٹی چیک پوسٹ عبور کیے گئے ہوں گے۔ مجرم دندناتے ہوئے آئے اور قتل و غارت گری کرگئے، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

سانحۂ پشاور کو اگر گذشتہ ۳۰سال کے تناظر میں دیکھا جائے تو جن تنظیموں سے وابستہ یا ماضی میں ان سے وابستہ اور اب خود آزاد وجود کی حامل تنظیموں نے ملک میں بدامنی اور انتشار کی فضا پیدا کی ہے۔ ان کے وجود میں آنے کی تاریخ پر بھی تنقیدی نگاہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا کرایے پر کام کروانے کے لیے تنظیموں کا بنانا بجاے خود ایک اخلاقی، دستوری اور شریعت کے نقطۂ نظر سے مباح فعل ہے؟ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اسلام کے ابدی قانون اور پیغام میں قتلِ ناحق کو چاہے وہ صرف ایک انسان کا ہو، تمام انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیا اسلامی شریعت میں کہیں بھی اس بات کی گنجایش پائی جاتی ہے کہ عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو چاہے وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہوں، سفاکانہ قتل کا نشانہ بنایا جائے؟ کیا نبی رحمتؐ نے کسی موقعے پر ایسے فعل کو جائز قرار دیا؟ کیا خلفاے راشدین نے بچوں، عورتوں اور معمر افراد کے قتل پر آنکھیں بند رکھیں؟ اگر یہ تاریخی حقیقت ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی قرآن و سنت اور خلفاے راشدین کی پیروی کا دعویٰ بھی کرے اور قرآن وسنت کے واضح احکام کو پامال بھی کرے۔

پھر مسئلے کا حل کیا ہو؟ کیا چھاپہ ماروں کو مروجہ عسکری طریقوں سے کیفرکردار تک پہنچایا جاسکتا ہے؟ کیا دنیا کے دیگر مقامات پر چھاپہ مار تنظیموں کو روایتی فوجی کارروائی سے ختم کیا جاسکا؟ اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا مسلح ماردھاڑ کرنے والوں کے وجود میں آنے کا سبب ان کی نام نہاد مذہبی شدت پسندی ہے یا وہ پیشہ ورانہ دہشت گرد ہیں جنھیں سرحدپار سے اسلحہ ، مالی امداد اور تربیت دے کر پاکستان کو غیرمستحکم رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً یہ بات قومی اخبارات میں آتی رہی ہے کہ بھارتی ساخت کا اسلحہ ملک کے مختلف حصوں میں پکڑا گیا ہے۔ یہ بات بھی بار بار سامنے آتی رہی ہے کہ افغان سرحد اس کام کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ اگر یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے تو پھر اس دہشت گردی کا الزام ’مذہب‘ کے سر تھونپنا ایک گھنائونی سازش ہے۔

اس فتنے سے نکلنے کے لیے ایک سہ رُخی قومی حکمت عملی کی ضرورت ہے:

اوّلاً: ملک کے نظامِ تعلیم میں سوشل اسٹڈیز، اُردو اور انگریزی زبان کے نصابات میں ایسے موضوعات پر مؤثر تحریرات کی شمولیت جو اسلام کے نظامِ عدل، حقوقِ انسانی اور خصوصاً حقوقِ نسواں، معاشی عدل، معاشرتی اداروں خصوصاً خاندان کا تحفظ اور خاندانی اقدار پر مبنی ہوں۔ ان تحریروں کو پہلی جماعت سے بارھویں جماعت تک سرکاری اور غیرسرکاری اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر نہ صرف پڑھایا جائے، بلکہ طلبا اور طالبات کو الگ الگ ایسی سرگرمیوں میںمشغول کیا جائے جہاں وہ ان تعلیمات پر عمل کرسکیں۔ غریبوں، بے آسرا افراد، بیماروں اور مصیبت زدہ افراد کی مدد کرنے کے ذریعے اسلامی تعلیمات پر عمل کرسکیں۔

ثانیاً: جو نوجوان انتہاپسند عسکری تنظیموں کے زیراثر یہ سوچنے پر آمادہ ہوگئے ہیں کہ جو کچھ انھیں ’جہاد‘ کے نام پر سمجھایا گیا ہے صرف وہی اسلام ہے، انھیں براہِ راست قرآن وسنت سے روشناس کراتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کے جامع تصور سے آگاہ کرنا اوراس بات کو یقینی بنانا کہ لازمی طور پر افضل جہاد وہی ہے جسے قرآن کریم نے نفس اور مال کے ساتھ جہاد کہا ہے، لیکن    اس افضل جہاد سے قبل جس اہتمام اور تیاری کی ضرورت ہے کیا اس کے بغیر جو، جب اور جہاں چاہے اور جس طرح چاہے جہاد کرسکتا ہے؟ یہ کام علماے کرام کا ہے کہ وہ بغیر کسی معذرت اور مداہنت کے قرآن و سنت کے واضح احکام کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کریں اور نوجوانوں کو اپنے موقف پر نظرثانی کا موقع فراہم کریں۔

کوئی بھی نظریاتی گروہ محض قوت کے استعمال سے ختم نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صحیح نظری شکل کو پیش کیا جائے اور ایک کھلے مکالمے کے ذریعے ذہنوں کے زاویوں کو بدلا جائے۔ یہ عمل صبر طلب ہے۔ یہ عمل قرآن و سنت کے جادۂ عدل و اعتدال کو براہِ راست پیش کرنے کا عمل ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کلامِ عزیز انسانوں کے قلب و دماغ کو تبدل کرنے کی اعلیٰ ترین صلاحیت رکھتا ہے۔

ثالثاً: معاشرے اور ملک سے استحصال، اقرباپروری، پارٹی کی بندگی، معاشی ظلم، اخلاقی زوال اور گھنائونی حد تک بداخلاقی کے رواج میں ابلاغ عامہ جو کردار ادا کر رہے ہیں اس کی اصلاح ریاستی، معاشرتی اور انفرادی، ہرسطح پر کرنے کی ضرورت ہے۔ ابلاغِ عامہ کا کام نہ صرف صحت مند انداز میں کمزوریوں کی نشان دہی ہے بلکہ ان کے حل کی طرف اُمیدافزا انداز میں راہ دکھانا بھی شامل ہے۔ اگر ایک عام شہری کو عدالتوں سے عدل نہ ملے ، ہسپتالوں میں دوا نہ ملے، تجارتی اداروں میں ملازمت نہ ملے، اور گھراور معاشرے میں ہرجگہ فحاشی، استحصال اور ظلم کا دور دورہ ہو، تو اس کا موجودہ نظام کے خلاف کھڑے ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ مغربی ممالک کے زیراثر ان کے مفادات کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ لینے کی بھی اصلاح کی جائے، اور اپنے قومی مفاد کو مغربی سامراجی طاقتوں کے مفادات سے الگ کر کے ترجیحات میں تبدیلی کی جائے۔ زوال کی کم تر حد تک پہنچ جانے کے باوجود آج بھی اس ملک اور قوم پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے جو انعامات ہیں وہ اَن گنت ہیں۔ اس نے ہمیں چاروں موسم دیے ہیں اور ان کے لحاظ سے پھل، میوے اور ہرقسم کی غذائیں دی ہیں، معدنیات دی ہیں، ایسے افراد دیے ہیں جو اس گری ہوئی حالت میں بھی دنیا میں سب سے زیادہ اللہ کے نام پر خیرات کرتے ہیں اور پاکستان تمام دنیامیں سب سے زیادہ خیراتی اور فلاحی کاموں پر خرچ کرنے والی قوم ہے۔ ان تمام اچھی خصوصیات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مثبت فکر کے ساتھ قوم کی تعمیرنو کے لیے قرآن و سنت کے راستے کو اختیار کرنا ہوگا۔ اسی میں ہماری فلاح ہے، اسی میں ہمارا مستقبل ہے، اسی میں ہمارا اتحاد اور بقا ہے۔

ان مثبت اقدامات کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے گھنائونے جرائم کے مرتکب افراد کو قانون کے مطابق قرارواقعی سزا ملے۔ سیاسی جماعتوں کا معاشرے میں جرم، ناانصافی، قتل و غارت گری کو برداشت کرنا ہی بگاڑ اور تباہی کا اصل سبب ہے۔ جس معاشرے میں ظلم اور جرم دونوں کا تدارک نہیں کیا جاتاوہ تباہی سے نہیں بچ سکتا۔

اس سانحے کے پیش نظر فوری او ردیرپا اقدامات کی ضرورت ہے۔ پورا نقشۂ کار بننا چاہیے اور اس کے مطابق اقدامات اُٹھانے چاہییں۔ ہزاروں میل کا فاصلہ پہلے قدم سے ہی طے ہوتا ہے۔ منزل کے تعین کے بغیر جو قدم اُٹھے گا وہ بے سمت ہوگا۔

بلوچستان میں مسلکی بنیاد پر ہزارہ شیعوں کی تعداد ہزاروں کے بجاے سیکڑوں میں لکھی جائے۔

گذشتہ دو عشروں سے پاکستان کے صحافیانہ حلقوں میں، خصوصاً انگریزی زبان کے اخبارات و رسائل میں، بار بار ایک سوال مختلف انداز سے اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا ریاست کو اپنی بقا اور ترقی کے لیے کسی نظریے کی ضرورت ہے؟ یا ریاست بغیر کسی نظریے سے وابستگی کے شہریوں کے حقوق ادا کرسکتی ہے؟ اس نوعیت کے سوالات کا اُٹھایا جانا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔

حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ وہ صحافی اور دانش ور جو انگریزی اخبارات میں مقالہ نویسی کرتے ہیں عموماً جن کتب سے پاکستان کی تاریخ اخذ کرتے ہیں وہ برطانوی اور امریکی جامعات میں  جنوبی ایشیا کے شعبوں سے وابستہ ان اساتذہ کی لکھی ہوئی ہیں، جو مغربی علمی روایت میں فکری تربیت پانے کے بعد مغربی ذہنی سانچے اور پیمانوں سے تحریکِ پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں۔ چونکہ  ان کا مفروضہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کی سیاسی تحریکات یا تو ردعمل کے طور پر وجود میں آتی ہیں، یا معاشی استحصال کو دُور کرنے اور معاشی ترقی میں مقام پیدا کرنے کے لیے، اور یا پھر کسی جذباتی وابستگی کی بناپر جسے عموماً ’مذہبی انتہاپسندی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ تاریخی اور سیاسی مطالعہ جس ملک کا بھی ہو تحقیقی مفروضے عموماً ایک ہی رہتے ہیں۔

یہ ایک ایسا غیرمحسوس عمل ہے جسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی عموماً محسوس نہیں کرپاتے۔ طریق تحقیق اگر تجربی(empirical) ہو تو نتائج بھی اعداد وشمار کی شکل میں سامنے آئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تحقیق کی بنیاد دین و سیاست کی تفریق پر ہو اور نتیجہ تحقیق دین و سیاست کی یک جائی کا نکل آئے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ۲۰۰سال سے نہ صرف یورپ و امریکا بلکہ ان تمام ممالک میں جو کبھی ان کے غلام رہے ہوں یا ان کی ذہنی غلامی کے شکار ہوں ان سب دانش وروں نے مذہب اور سیاست کی یک جائی کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ جہاں کہیں ایسے امکانات نظر آئے تو ’مذہب‘ کو منافرت، شدت پسندی، عسکریت اور جذباتیت سے تعبیر کرتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کردی۔

انگریز کی چھوڑی ہوئی علمی روایت اور نظامِ تعلیم نے وہی ذہنی سانچے تیار کیے جو انگریز کی غلامی سے سیاسی آزادی کے باوجود زبان، ثقافت، تعلیم، معیشت و معاشرت میں ہمیشہ انگریز کو اپنا معیار سمجھتے رہے۔ان کے ترقی کے پیمانے اور نگاہ کے زاویے وہی رہے جو انگریز سے وراثت میں پائے تھے۔ اگر شعوری طور پر کچھ دانش ور یہ انتخاب کرتے ہیں کہ وہ صرف مغربی فکر کے پیمانوں سے ہرچیز کو ناپیں اور تولیں گے تو اس میں علمی طور پر کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ ایسا کرنے میں آزاد ہیں لیکن علمی اور تحقیقی دیانت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے علمی تعصب کے ساتھ معروضیت (objectivity) کا دعویٰ نہ کریں۔ اگر ایک فرد یہ سمجھتا ہے کہ ’مذہب‘ بطورِ ریاست کی نظریاتی بنیاد نہیں ہونا چاہیے تو وہ اپنی بات دلائل سے پیش کرسکتا ہے لیکن اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ قطعیت کے ساتھ یہ اصرار بھی کرے کہ صرف ا س کا تجزیہ اور اخذکردہ نتائج حق ہیں اور باقی سب کچھ محض جذباتیت ہے۔

ان کلمات کے ساتھ ہم موضوع پر نظری او رتاریخی حقائق کی روشنی میں ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔

ریاست اور نظریہ:

ریاست کی تعریف عموماً یہ کی جاتی ہے: ’’حدودِ مملکت، ریاستی اداروں، مثلاً مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور دفاع یا ایک خودمختار ریاست کی سیاسی ثقافت (political culture)‘‘۔ ایسے ہی وطنی ریاست (nation state) کو ایک ریاست کے شہریوں اور نظام کے تشخص سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ بھی جو ایک زبان، نسل، جغرافیائی خطہ یا ایک مشترکہ تاریخ و ثقافت سے وابستہ ہوں ایک خودمختار علاقے کی بنیاد پر وطنی ریاست قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں آج تک کوئی ایسی ریاست وجود میں نہیں آئی جس کا کوئی ’مذہب‘ نہ ہو، حتیٰ کہ وہ جو اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہتے ہیں، لادینیت کو ان کے نظام میں وہی مقام تقدس حاصل ہوتا ہے جو اٹلی میں پائی جانے والی ویٹی کن (Vatican) یا کیتھولک ریاست میں عیسائیت کا ہے۔

پاکستان کا وجود اور نظریہ:

برعظیم میں مسلمانوں نے تقریباً ۸۰۰ سال حکومت کی اور اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اسلامی قانون اور معاشرت میں بنیادی اسلامی اصولوں کا احترام و عمل جاری رہا۔ سربراہانِ حکومت میں سے بعض نے بادشاہت کی غیراسلامی روایت کے ساتھ ساتھ اپنے کردار سے اعلیٰ اسلامی رویے کا اظہار کیا اور اکثر نے اسلام سے اپنے روایتی تعلق سے آگے اور کوئی قابلِ ذکر کام نہ کیا۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کہ: ’’برعظیم پاک و ہند میں تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسی وقت رکھ دی گئی تھی جب پہلے مسلمان نے یہاں قدم رکھا تھا‘‘۔ گویا وہ سلاطین ہوں یا مغل شہزادے، اپنی تمام بے راہ روی کے باوجود انھوں نے اسلام سے اپنی وابستگی کو ہرسطح پر برقرار رکھا۔ لیکن جب مسلمان فرماں روا نااہلیت،  ناعاقبت اندیشی، خودغرضی، عیش وعشرت اور نفسانفسی کا شکار ہوگئے تو پھر ریاست کا زوال یقینی ہوگیا۔ قوانین فطرت مسلم اور غیرمسلم دونوں کے لیے یکساں ہیں۔

چنانچہ سمندر پار سے آنے والوں اور گھر کے باغیوں کے تعاون سے تجارتی منڈیوں کے بہانے آنے والے انگریزوں نے ملک پر غاصبانہ قبضہ کرلیا اور پھر تقریباً ۲۰۰ سال مسلمان غلامی کا شکار رہے۔ اس غلامی سے نکلنے کے لیے جس سیاسی تحریک کا آغاز ہوا وہ آغاز میں مشترک تھی، لیکن جلد مسلمانوں کو یہ یقین ہوگیا کہ اپنے مفادات کا تحفظ وہ ہندو اکثریت کے حوالے نہیں کرسکتے اور انھیں اپنے دین و ثقافت پر عمل کرنے کے لیے ایک آزاد خطے کی ضرورت ہے۔ اس احساس کے تین اہم پہلو اس وقت بھی او رآج بھی غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں:

  • اوّلًا: اگر اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور محض نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تک محدود نہیں ہے، تو اس کا قیام اور اس پر عمل ایک آزاد ریاست کے بغیر ممکن نہیں۔ اسلام اور پاکستان کے اس تعلق کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ پاکستان بننے کے بعد بعض بااثر علما نے سیاست دانوں پر دبائو ڈال کر یا بعد میں آنے والے فوجی آمر نے پاکستان کے اصل تصور کو جو بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے دیا تھا ،اپنے مفاد کے لیے اسلام سے وابستہ کردیا__ ایک تاریخی جھوٹ اور    بانیِ پاکستان کے تصور سے فکری اور سیاسی بغاوت ہے۔ پاکستان کے قیام سے قبل ۱۵جون ۱۹۴۵ء کو فرنیٹر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی کانفرنس کو اپنے تحریری پیغام میں قائداعظم کے الفاظ اس پہلے پہلو کو روزِ روشن کی طرح واضح کردیتے ہیں:

میں نے اکثر یہ بات واضح کی ہے کہ اگر مسلمان باوقار اور لائق احترام لوگوں کی طرح سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے: پاکستان کے لیے لڑیئے، پاکستان کے لیے زندہ رہیے اور اگر ناگزیر ہو تو حصولِ پاکستان کے لیے مرجایئے، یا پھر مسلمان اور اسلام دونوں تباہ ہوجائیں گے۔

ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے: اپنی قوم کی تنظیم کرنا، اور یہ ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں،   نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں، اور اسلامی آدرشوں اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔

پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم نظری بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔ (فرنٹیر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام پیغام، ۱۵جون ۱۹۴۵ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدسوم، ص ۴۳۸)

  • دوسرا اہم پہلو غیرمنقسم برعظیم کے تناظر میں مسلمانوں کے معاشی مستقبل کا تھا۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہندو سودخوار مالی وسائل پر قابض ہو ، کسی بھی مسلمان کے لیے سودی کاروبار سے بچنا ناممکن تھا۔ اسی بناپر بعض علما نے برعظیم کو حالت ِ جنگ میں تصور کرتے ہوئے ۵۰ فی صد بُرائی کو مجبوری کی بناپر وقتی طور پر مباح قرار دے دیا تھا، یعنی مجبوری کی شکل میں ایک مسلمان سود پر رقم قرض لے۔ گویا سود ادا تو کردے لیکن خود سود وصول نہ کرے۔ اگر بطورِ مفروضے کے انگریز سامراج کے جانے کے بعد مسلمان ایک غیرمسلم اکثریت کے ملک میں بطور اقلیت کے رہتے تو کیا قیامت تک یہ ممکن تھا کہ وہ سودی نظام سے نکل سکیں؟ اسی بات کو مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے قائداعظم کے نام اپنے خط میں واضح الفاظ میں رکھا۔

۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو علامہ اقبال، قائداعظم کو لکھتے ہیں:

روٹی کا مسئلہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان نے محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ گذشتہ ۲۰۰سال میں نیچے ہی نیچے جا رہا ہے۔ عام طور پر وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کی غربت کی وجہ ہندوئوں کا مقروض ہونا یا سرمایہ داری ہے۔ جواہرلال کے الحادی سیکولرازم کی مسلمانوں سے زیادہ پذیرائی کی توقع نہیں ہے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟

خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید خیالات کی روشنی میں اس کے ارتقا میں ایک حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے ایک طویل اور گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ قانون سمجھا جائے اور اس کا اطلاق کیا جائے تو ہرشخص کو زندہ رہنے کا حق مل جائے گا۔ لیکن اس ملک میں ایک مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اسلامی قانون اور اس کا نفاذ اور ترقی ناممکن ہے۔

  • تیسرا اہم پہلو خالصتاً سیاسی تھا، یعنی وہ تمام نام نہاد ’دانش ور‘ جو آج پاکستان میں یہ فکر رکھتے ہیں بشمول بعض ہندستانی علما اور ماہرین تعلیم کے جو یہ ایمان رکھتے تھے کہ غیرمنقسم خطے میں مسلمان کو اپنے مفادات کا تحفظ پارلیمنٹ میں متناسب نمایندگی حاصل کرکے مل جائے گا۔ وہ اگر آج زندہ ہوتے تو اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ بھارت کی پارلیمنٹ میںمسلمانوں کا وزن اور اثر کیا ہے؟ [ہمارا اشارہ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی اورڈاکٹر محمد مجیب رحمہم اللہ کی طرف ہے]۔

لیکن قائداعظم کی نگاہ دُوربین نے اس سیاسی پہلو کو بہت پہلے بغور سمجھنے کے بعد جو بات کہی وہ آج بھی ویسے ہی سچ ہے جیسی وہ اس وقت تھی۔ ان کے اپنے الفاظ میں:

دو سال قبل مَیں نے شملہ میں یہ کہا تھا کہ جمہوری پارلیمانی نظام ہندستان کے لیے نامناسب ہے۔ کانگریس پریس میں ہر طرف میری مذمت کی گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ میں اسلام کو نقصان پہنچانے کا مجرم ہوں۔ اس لیے کہ اسلام جمہوریت پر یقین رکھتا ہے۔ جہاں تک میں نے اسلام کو سمجھا ہے وہ ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتاجو غیرمسلموں کی اکثریت کو مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی اجازت دے۔ ہم ایسے نظامِ حکومت  کو قبول نہیں کرسکتے جس میں غیرمسلم محض عددی برتری کی وجہ سے ہم پر حکومت کریں اور غالب رہیں۔ مجھ سے سوال کیا گیا کہ جمہوریت نہیں تو پھر میں کیا چاہتا ہوں __ فاشزم، نازی ازم یا آمریت؟ میں کہتا ہوں کہ جمہوریت کے ان چیمپینز نے اب تک کیا کیا ہے؟ انھوں نے ۶کروڑ لوگوں کو اُچھوت بناکر رکھا ہوا ہے۔ انھوں نے ایسا نظم بنایا ہے جو ایک گرینڈ فاشسٹ کونسل کے علاوہ کچھ نہیں۔ انھوں نے ڈمی وزارتیںقائم کیں جو مقننہ یا راے دہندگان کے سامنے نہیں بلکہ گاندھی کے ایک منتخب گروہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ پھر جمہوریت مغرب کے مختلف ملکوں میں مختلف انداز رکھتی ہے۔ اس لیے فطری طور پر مَیں اس نظریے پر پہنچا ہوں کہ ہندستان میں جہاں حالات مغربی ممالک سے بالکل مختلف ہیں، حکومت کا برطانوی پارلیمانی نظام اور نام نہاد جمہوریت قطعی طور پر نامناسب ہیں۔(مسلم یونی ورسٹی یونین، علی گڑھ، ۶مارچ ۱۹۴۰ء سے خطاب، Speeches, Statements & Messeges of the Quaid-e-Azam ، جلد دوم، ص ۱۱۵۸-۱۱۵۹)

پاکستان کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد بانیِ پاکستان کے تصورِ پاکستان میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ ۱۵جون ۱۹۴۵ء کے مندرجہ بالا بیان میں جو بات قائد نے کہی تھی وہ اسی بات پر آخردم تک قائم رہے۔ چنانچہ ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو لاہور میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا:

لمحہ بھر کے لیے بھی اس خیال کو اپنے دل میں نہ لایئے کہ آپ کے دشمن اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس صورتِ حال سے ہم دوچار ہیں، اسے معمولی بھی نہ خیال کیجیے۔ اپنے دلوں میں جھانکیے اور دیکھیے کہ کیا آپ نے اس نئی اور عظیم مملکت کی تعمیر میں اپنا حق ادا کردیا ہے؟

کام کی زیادتی سے گھبرایئے نہیں۔ نئی اقوام کی تاریخ میں کئی ایک مثالیں ہیں جنھوں نے محض عزم اور کردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہرآب دار سے ہوئی ہے اور آپ کسی سے کم بھی نہیں۔ اوروں کی طرح، اور خود اپنے آباواجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہ ہوں گے۔ آپ کو صرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ آپ ایسی قوم ہیں جن کی تاریخ قابل، صلاحیت کے حامل کردار اور بلندحوصلہ اشخاص سے بھری ہوئی ہے۔ اپنی روایات پر قائم رہیے اور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کردیجیے۔

اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر    آمادہ ہوگا جن کا نصب العین اندرونِ ملک بھی امن اور بیرونِ ملک بھی امن ہوتا ہے۔(پنجاب یونی ورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں عوام سے خطاب، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم،ص  ۳۸۹-۳۹۰)

قائداعظم نہ صرف ایک سیاسی مدبر تھے وہ ایک ماہر قانون دان کی حیثیت سے ایک ایک لفظ کے معنی اور اثرات سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے نقاد بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ   وہ کھرے انداز میں بات کرنے کے قائل تھے اور کبھی ذومعنی با ت نہیں کہتے تھے۔ اپنے مقام کا احترام رکھتے ہوئے انھوں نے امریکی عوام کو خطاب کرتے ہوئے فروری ۱۹۴۸ء میں دستورِپاکستان کے حوالے سے جو بات کہی وہ ان کے تصورِ پاکستان کی پوری وضاحت کردیتی ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں:

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳سوبرس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپائوں کی حکومت ہو۔ غیرمسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو  حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمورِ پاکستان میں اپنا جائزکردار ادا کرسکیں گے۔ (امریکا کے عوام سے نشری خطاب،کراچی، فروری ۱۹۴۸ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۲۱-۴۲۲)

اس اقتباس میں دستور سازاسمبلی کے پہلے صدر کی حیثیت سے بغیر دستوریہ کی راے کو متاثر کیے محتاط الفاظ میں وہ آخری فیصلہ دستور ساز اسمبلی کا تسلیم کرتے ہوئے ہر بات صاف الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ بہرصورت جو بھی دستور بنے گا وہ بنیادی طور پر اسلامی اصولوں کا مظہر و مرقع ہوگا اور اُس جمہوریت کا عکس ہوگا جو۱۳سو سال پہلے اسلام نے عہدنبویؐ میں قائم کی تھی، جس میں انسانی مساوات، عدل اور شفافیت پائی جاتی تھی۔

ساتھ ہی وہ یہ بات بھی وضاحت سے کہہ رہے ہیں کہ یہ نظام تھیاکریسی یا پاپائیت نہیں ہوگا جس میں چند مذہبی علَم بردار خدا بن کر فیصلہ کریں۔ یہ بعینہٖ وہی بات ہے جو مرحوم مولانا مودودی نے، علامہ اقبال نے، علامہ محمد اسد نے اپنی تحریرات میں کہی کہ اسلام میں تھیاکریسی نہیں ہے۔ خلافت اور شورائیت کا واضح مفہوم اللہ تعالیٰ اور انسانوں کے سامنے جواب دہی اور احتساب کے ساتھ حکومت کرنا ہے جو اسلام کی روح ہے۔ اس میں کوئی بڑے سے بڑا عالمِ دین اپنے آپ کو  منزہ عن الخطاقرار دے کر تھیاکریسی کے طرز پر فیصلے صادر نہیں کرسکتا۔

دستور سازی کی بنیاد کو واضح طور پر بیان کرنے کے ساتھ ہی قائداعظم نے ان تمام غباروں میں سے ہوا نکال دی جو دین و سیاست کے الگ ہونے اور ریاست کا کوئی مذہب نہ ہونے کی ڈفلی بجابجا کر اپنے آپ کو خوش اور دوسروں کی آنکھ میں دن کی روشنی میں دھول ڈالنے میں آج بھی ملک میں دانش ورانہ ادائوں کے ساتھ مصروف پائے جاتے ہیں۔ بانیِ پاکستان کے اپنے الفاظ میں:

آپ نے دنیا کو فسطائیت کی مصیبت سے نجات دلانے اور اسے جمہوریت کے لیے محفوظ کرنے کے لیے خطہ ارض کے دُور دراز گوشوں میں بہت سی لڑائیاں لڑی ہیں۔ اب آپ کو اپنے وطن میں اسلامی جمہوری، معاشرتی عدل اور انسانی مساوات کے فروغ اور بقا کے لیے سینہ سپر ہونا ہوگا۔(ملیر چھائونی میں فوجی افسروں اور جوانوں سے خطاب، ۲۱فروری ۱۹۴۸ء،  قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۱۹)

بانیِ پاکستان نے بات محض جمہوریت کی نہیں کی بلکہ جو اصلاح استعمال کی وہ Islamic Democracy ہے اور اس کے ساتھ اسلامی معاشرتی عدل کا اضافہ کیا۔ اگر بانیِ پاکستان کے ذہن میں ’مذہب‘ ایک ذاتی معاملہ تھا تو اُوپر درج کیے گئے تمام بیانات سے ان کا مدعا کیا تھا؟ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا کہ ان کے نقاد بھی ان کے خلوص، نڈر، دوٹوک بات کرنے اور نفاق سے پاک رویے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اتنے واضح طور پر اپنا مدعا بیان کرنے کے بعد بھی اگر کوئی ان پر تہمت لگاتا ہے کہ وہ پاکستان کے دستور کو اسلام سے خالی اور ملک کو ’سیکولر‘ بنانا چاہتے تھے تو اس میں قصور بانیِ پاکستان کا نہیں ان نام نہاد دانش وروں کی دانش کا نظر آتا ہے۔

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ۲۳فروری ۱۹۴۸ء کو بانیِ پاکستان جن الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں انھیں پڑھنے کے بعد صرف بصیرت اور بصارت سے محروم شخص ہی ان کے تصورِ پاکستان کو ’سیکولر‘ کہہ سکتا ہے، جب کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے کسی ایک خطاب یا بیان میں لفظ سیکولر نام لینے کو ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔  بانیِ پاکستان کہتے ہیں:

یہ مملکت جو کسی حد تک اس برصغیر کے ۱۰کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرضِ وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ (امریکاکے عوام سے نشری خطاب، کراچی، فروری۱۹۴۸ء، قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۴۲۰)

بانیِ پاکستان کی نگاہ میں اسلام اور پاکستان کا رشتہ کیا تھا اسے سمجھنے کے لیے نہ صرف بانیِ پاکستان کے بیانات و تقاریر بلکہ خود ان کی اپنی فکر اور حیات کو بغور سمجھنے کی ضرورت ہے۔  بعض اوقات ہم تک تاریخی معلومات بھی آدھی یا اُس سے کم پہنچتی ہیں اور بقیہ معلومات غیرارادی یا ارادی طور پر نظروں سے اوجھل کردی جاتی ہیں۔ خواجہ عبدالرحیم تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکنوں میں شمار ہوتے تھے۔ ۲۴مارچ ۱۹۴۰ء کو قراردادپاکستان کے ایک دن بعد انھوں نے اپنے گھر پر قائداعظم اور دیگر عمائدین کو مدعو کیا۔ بانیِ پاکستان نے وہاں پر جو بات کہی وہ غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے:

تم نے اور چودھری رحمت علی نے جو نام ۱۹۳۰ء میں تجویز کیا تھا اس پر بہت سرگرمی سے ہندو پریس میں بات ہورہی ہے۔ خواجہ رحیم نے قائداعظم سے پوچھا: پھر آپ کے خیال میں مملکت کا نام کیا ہونا چاہیے؟ علامہ اقبال بھی اس نام کو پسند کرچکے تھے۔ اس پر قائداعظم نے کہا: اگر تم لوگ اور مسلم قوم کو یہ نام پسند ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں سواے اس کے کہ پمفلٹ پر تم نے جو نام لکھا ہے وہ Pakistan ہے ، اس میں ’I‘ اسلام کے لیے اضافہ کردو جو ان تمام صوبوں کے درمیان جوڑنے والی کڑی ہے۔ خواجہ رحیم نے قائد کا یہ پیغام چودھری رحمت علی کو پہنچایا جو اُن دنوں کراچی میں آئے ہوئے تھے۔ چند دنوں کے بعد قائد علی گڑھ گئے جہاں ان کا استقبال ’قائداعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں سے ہوا۔اس پر آپ نے کہا کہ یہ درست نہیں ہے کہ ایک فانی شخص کو زندہ باد کہا جائے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان زندہ باد کہا جائے۔ پھر آپ نے دہرایا کہ ’’اگر ہند کے مسلمان اپنے ملک کا یہ نام رکھنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں صرف اس میں ’I‘ کا اضافہ کرلے جو اسلام کی علامت ہے اور جو تمام صوبوں کے درمیان اتحاد کا حصہ رہے۔ (سلطان زہیر اختر، شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات، ۱۹۹۸ء، ص ۲۴)

گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی صحافت اس مضحکہ خیز سطح پر اُتر آئی ہے کہ ملک کے انگریزی اخبارات میں قائداعظم کا خاکہ نصف چہرے پر ڈاڑھی کے ساتھ دکھایا گیا ہے! مسلمان کو تو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ جو اس کے ساتھ بھلائی کرے اس کے احسان اور شکر کا اظہار کرے، کجا یہ ہ وہ اس کا خاکہ اُڑا کر اپنے نفس کی تسکین کرے! کاش! تاریخ کا چہرہ مسخ کرکے حقائق کو توڑ مروڑ کر گمراہ کن انداز میں دیکھنے اور پیش کرنے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے ۱۹۳۹ء کے خطاب کو ایک نگاہ ڈال لیتے جو۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کو لاہور کے روزنامہ انقلاب میں طبع ہوا۔ قائد کے الفاظ یہ تھے:

میں نے بہت دنیا دیکھی ہے اور کافی دولت مند ہوں۔ زندگی کی تمام آسایشوں کا مَیں نے لطف اُٹھایا ہے۔ میری واحد خواہش یہ ہے کہ مسلمان ایک آزاد کمیونٹی کی حیثیت سے پھلے پھولیں۔ میں اس دنیا کو ایک صاف ضمیر کے ساتھ چھوڑنا چاہتا ہوں اور   اس احساس اور اطمینان کے ساتھ کہ جناح نے اسلام کے مقاصد سے دھوکا نہیں کیا۔ مجھے آپ سے کسی تعریف یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں میرا دل، میرا ضمیر اور میرا ایمان میری موت کے وقت یہ ثابت کرے کہ جناح اسلام اور مسلمانوں کے مقاصد کا دفاع کرتے ہوئے مرا۔ اللہ یہ شہادت دے کہ جناح کفر کی طاقتوں کے خلاف اسلام کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے ایک مسلمان کی طرح جیا اور مرا۔(صفدر محمود، Quaid Wanted Islamic Democratic Progressive State ڈان، ۲۳ مارچ ۲۰۰۲ء)

نہ صرف یہ بلکہ جولائی ۱۹۴۷ء میں قائد نے ۱۰-اورنگ زیب روڈ، دہلی اپنے گھر پر مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم کو دعوت دی۔ مولانا نے پوچھا: پاکستان کا دستور کس نوعیت کا ہوگا؟ بانیِ پاکستان نے جواب دیا: قرآن پاکستان کا دستور ہوگا۔ میں نے قرآن ترجمے کی مدد سے پڑھا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کوئی دستور قرآنی دستور سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ میں نے یہ جنگ (آزادی) مسلمانوں کے ایک سپاہی کی حیثیت سے جیتی ہے۔ میں قرآنی دستور کا ماہر نہیں ہوں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اور آپ کی طرح کے دیگر علما مل کر قرآنی دستور تیار کریں۔ (سعید راشد، قائداعظم گفتار و کردار، لاہور، مکتبہ میری لائبریری ۱۹۸۶ء)

اسلام اور ریاست کے تعلق کے حوالے سے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے تحقیقی شعبے کا افتتاح کرتے وقت یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو قائداعظم نے اپنی وفات سے صرف دو ماہ پہلے جو خطاب کیا وہ یہ شہادت دیتا ہے کہ قرآنی دستور کی طرح وہ اسلامی معاشیات اور بنکاری کو پاکستان میں رائج دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں:

آپ کا تحقیقی شعبہ،بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا مَیں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتطار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچاسکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُور کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ برعکس اس کے  گذشتہ صدی میںدو عالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اس کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوصف جس بدترین ابتری کی شکار ہے وہ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیںگے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیںگے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف یہی اسے بچاسکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ (اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں خطاب، کراچی، یکم جولائی ۱۹۴۸ء ، قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص ۵۰۱)

ان مصدقہ بیانات اور خطابات کے بعد کسی کا معصوم سی شکل بناکر یہ کہنا کہ ہم نہیں جانتے قائد کس طرح کا پاکستان، کس طرح کا دستورِ پاکستان اور کس طرح کی معیشت ملک میں نافذ کرنا چاہتے تھے، اگر بدنیتی نہیں تو کم از کم تاریخی حقائق سے مذاق نظر آتا ہے۔

جن بنیادی اُمور کو بانیِ پاکستان نے اپنی واضح اور مدلل بات سے طے کردیا تھا انھیں نئے سرے سے ایک issue بنانا بجاے خود منفی اور فکری انتشار کا پتا دیتا ہے۔ ان تمام حقائق کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک علمی بددیانتی یہ بھی کی جاتی ہے کہ قائد کے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کے دستورساز اسمبلی کے خطاب کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے محض دو جملوں کو بار بار دہرا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ ’مذہب‘ کو ایک ذاتی معاملہ اور سیاست سے الگ تصور کرتے تھے۔ یہ بانیِ پاکستان پر    ایک گھنائونا اتہام ہے کیونکہ اس پورے بیان میں انھوں نے نہ سیکولر کا لفظ استعمال کیا نہ اس طرف کوئی اشارہ کیا۔ جو بات انھوں نے کہی اگر ان کے اپنے الفاظ میں سُن لی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر محض بطور مفروضہ ہم وقتی طور پر یہ مان بھی لیں کہ اس خطاب میں انھوں نے مذہب کو سیاست سے الگ کردیا تو اُوپر درج کیے گئے سارے بیانات جو قیامِ پاکستان سے قبل اور اس تنہا تقریر، یعنی ۱۱؍اگست کے بعد دیے گئے ہیں، ان کی حیثیت کیا تھی؟ ان تمام  تقاریر و بیانات میں جو ۱۱؍اگست کے حوالے کے بعد والے ہیں وہ واشگاف الفاظ میں نہ صرف اسلام بلکہ شریعت کی بنیاد پر پاکستان کے نظام کا ذکر کرتے ہیں۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی میں خالق دینا ہال میں بار ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے،    یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔

قائداعظم نے فرمایا: آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح ۱۳سو برس پیش تر ہوتا تھا.....

جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔

اسلام نہ صرف رسم و رواج ، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔

ہم نے صفحات کی تنگی کے پیش نظر قائد کے واضح اور بلندآہنگ بیانات کو صرف نقل کردیا ہے۔ ان میں سے ہرخطاب اور بیان پر اگر کوئی تجزیاتی مضمون تحریر کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو خصوصی طور پر ان خطابات کو بغور پڑھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستانیات کے نام سے انھیں جو کچھ پڑھایا گیا ہے اس کے ماخذ برطانوی اور امریکی مصنّفین کی پاکستان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابیں ہیں، جن کا بنیادی مفروضہ ہی یہ ہے کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور ایک سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ یہ دونوں مفروضے حق و صداقت سے دُوری اور قیاس و گمان کی بنیاد پر تاریخ مسخ کرنے کی مثال کہے جاسکتے ہیں۔ ظلم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بانیِ پاکستان اور پاکستان کے تصور کو جانے اور سمجھے بغیر اخباری اور برقی صحافت میں غیرمعتبر باتوں کو اتنی کثرت سے بیان کیا جائے کہ ناظرین افواہ کو حقیقت ماننے پر مجبور ہوجائیں۔

انسانی تاریخ میں برپا ہونے والے انقلابات کا جائزہ لیا جائے تو یوں نظرآتا ہے جیسے مکافاتِ عمل کا ایک سلسلہ ہے جس پر غور کرنے سے کامیابی یا زوا ل اور تباہی کا راستہ واضح شکل میں نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اگر تاریخی حقائق سے آنکھیں بند کرلی جائیں تو سورج کی روشنی بھی منظر کو صاف طور پر نہیں دکھاسکتی۔ قرآن کریم نے اسی انسانی فطرت کے پیش نظر جگہ جگہ اور باربار نئے سے نئے پیرایے میں اہلِ دانش، اہلِ ہوش اور اہلِ فکر کو پکارا ہے: کدھر جارہے ہو؟  این تذھبون! آنکھیں کھولو، مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ، زمین کو، آفاق کو، اپنی ہستی کو تجزیاتی نگاہ کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق کردہ اشیا میں ایسی خوب صورتی ، ایسا تناسب، ایسا حُسن رکھ دیا ہے جو ہر دیکھنے والے کو اس کی قدرت، کمال اور قوت سے آگاہ کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ دیکھنے والے کے پاس نگاہِ بینا ہو اور اس نے عقل کے دروازے بند نہ کردیے ہوں۔ فرمایا گیا: دیکھو آسمانوں اور زمین میں، رات اور دن کے اختلاف میں منہ بولتی روشن نشانیاں ہر اُس فرد کے لیے رکھ دی گئی ہیں، جو سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔  (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰)

کلامِ عزیز کی روشن آیات اور حق و صداقت کے یہ جواہر باشعور تحریکی کارکنوں کو متوجہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ: بازار میں اور دفتر میں، گھر میں اور مسجد میں، جہاں کہیں بھی ہوں، اس کی حمد، اس کے کلام پر غوروفکر اور اس کے حضور رات کی تنہائی میں اپنی بندگی کا ثبوت پیش نہیں کریں گے، ان کے کام میں برکت پیدا نہیں ہوگی۔

اس عظیم کتابِ ہدایت، ذکریٰ اور نور کے سایے میں زندگی گزارنے کا عہد کرنے والے ہرلمحے اپنے رب سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ انھیں ان افراد میں سے کردے، جنھیں وہ خود جہنم کی آگ سے محفوظ کر دے گا اور اپنے دامنِ عفو و مغفرت میں، اپنی اُس رحمت میں جس کی وسعتیں زمین اور آسمانوں کی مجموعی وسعتوں سے زیادہ ہیں، لیتے ہوئے نہ صرف اُخروی زندگی میں ہی نہیں بلکہ اس دنیا کی زندگی میں، یہاں کے کاروبارِ حیات میں شرمندگی اور ناکامی سے بچاتا رہے، اوران میں شامل نہ کرے جو اپنے اُوپر ظلم کرنے والے ہوں۔ ان ابدی کلماتِ ہدایت کو اگر روزمرہ کی زندگی کی سرگرمیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو نقشۂ عمل بڑا واضح نظر آتا ہے۔

  • اوّلاً :اس بات کا شعوری طور پر اعلان کہ اصل قوت، اقتدار اور حاکمیت صرف اور صرف  اللہ رب العالمین کی ہے۔ چنانچہ اردگرد پائی جانے والی بیرونی قوتیں ہوں یا عوام کی طاقت،   عالمی منڈیوں پر سرمایہ دارانہ نظام قابض ہو یا نام نہاد سائنسی اور ٹکنالوجی پر عبور رکھنے والوں کے عظمت و کمال کے یک قطبی دعوے، یا پھر حکومت پر قابض افراد کا اپنی انتظامیہ اور قانونی اداروں اور عسکری قوت کی بنا پر بزعمِ خود ناقابلِ فنا اور غالب قوت ہونے کا دعویٰ ہو__ ان تمام ظاہری قوتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اللہ کے جو بندے حق کی گواہی کے لیے کھڑے ہیں، وہ بندے صرف  ایک بات کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا، اس کی صداے حق نے بندگیِ رب کی دعوت دی اور ہم نے بندگی کی اس دعوت کو قبول کر لیا۔ ہم نے اپنے آپ کو، اپنے نفس، اپنی برادری،اپنے خاندان، اپنی نسلیت، اپنی زبان، اپنے رنگ اور خون، اپنی سیاسی وابستگی ، اپنی مسلکی وفاداری، اپنے مادی مفادات، اپنے بزرگوں کی روایات و رسوم، غرض ہرہر چیز کو نکال کر صرف اُس ہستی کی بندگی میں دے دیا جو تمام مراسمِ عبودیت، قربانیوں ، دعائوں، سجدوں اور اعترافات کی مستحق ہے___ اسی کا نام توحید ہے۔

اس اعلانِ توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ کو اپنا رب ماننے والا ہر شخص اور خصوصیت سے  تحریکِ اسلامی کا ہر کارکن اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ وہ جس مالک کی بندگی میں آنے کا اعلان زبان سے کرتا ہے، اُس عہد کا پاس کرتے ہوئے اُس نے اپنی زندگی کے ایک دن میں، ہفتے کے   سات دنوں میں اور مہینے کے ۳۰دنوں میں کتنا وقت اپنے کاروبار اور پروفیشن کی ترقی میں صرف کیا، اور کتنے لمحات احتسابِ نفس کرتے ہوئے، اپنے ہرہرکام کو ستایش اور خودپرستی کی شکل میں نہیں، بلکہ اپنے کام میں کمی اور کمزوری تلاش کرنے میں صرف کیے۔

معاشرتی بگاڑ اور فریضۂ اقامت دین

یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے ہے، جو بدنظمی کے عادی اور قانون شکنی پر فخر کرتے ہیں، جو مادیت کے غلام اور سیاسی مفادات کے بندے ہیں۔ یہ لوگ ہلڑبازی،     ناچ گانے کے رسیا ہیں۔ ہماری باتیں سن کر ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔ بھلا ہم انھیں کیسے تبدیل کریں؟ کیوں نہ ہم بھی انھی نسخوں کو استعمال کریں؟ شاید اسی طرح بات دلوں میں اُتر جائے! لیکن وہ شعور جو قرآن کریم دیتا ہے وہ ایک نئے زاویے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ حسنِ صوت کو تو تسلیم کرتا ہے لیکن چیخ پکار اور دھمکیوں کی سیاست کی جگہ حکمت ِدعوت اورموعظۂ حسنہ کی حکمت عملی سے روشناس کراتا ہے۔

یہ حکمت عملی وہی ہے جو انبیاے کرام ؑ نے ہر دور میں اختیار کی۔ یہ دعوت بھی وہی ہے جسے   انبیاے کرام ؑ نے ہر دور میں اپنے دور کے اُن جباروں، ناچ گانوں کے رسیا اور اپنی ذاتی عظمت اور اپنی شخصیت اور بزعمِ خود اپنی کرشمہ سازی پر فخر کرنے والوں کے سامنے پیش کی۔ یہ لوگ انبیا ؑ کی دعوت کا مذاق اُڑانے کے عادی تھے۔ اس کے باوجود انبیاے کرام ؑ بددل نہیں ہوئے، مایوس نہیں ہوئے اور انھوں نے دعوت کا کام جاری رکھا۔ ایسے افراد ہر دور میں رہے ہیں اور دعوتِ دین کا اعجاز یہی ہے کہ وہ ایسے افراد کو جو گمراہی کے گرو سمجھے جاتے ہوں، انھیں خیارکم فی الاسلام میں تبدیل کردیتی ہے۔ یہ دعوت ان لوگوں کو جو ہادیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہوں،   پلک جھپکتے شمعِ رسالت کے پروانے بنادیتی ہے۔ یہی تو وہ چیلنج ہے، جسے ایک داعی اور ایک کارکن کو اپنے رب کی نصرت پر بھروسے کے ساتھ آگے بڑھ کر اختیار کرنا ہے۔ یہی اقامت ِ دین کا تقاضا ہے۔

اس دعوت اور دعوت کے طریق کار کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں نمود و نمایش اور ریا کا کوئی دخل نہ ہو۔ خودستائی اور ہربات کی تان ’میں‘ پر آکر نہ ٹوٹتی ہو۔ اس دعوت کے طریقے میں حکمت ِ دین کو اختیار کیا گیا ہو، یعنی دعوتی ترجیحات متعین ہوں اور ایک ترتیب سے ،ایک منصوبے کے تحت اقدامات کیے جائیں۔ اگر رب کریم نے ایسے مواقع پیدا کردیے ہوں کہ کسی مقام پر برسوں سے قابض سیاسی قوتوں کی نااہلی، خرابی اور بدمعاملگی کی بنا پر عوام کوئی اور راستہ تلاش کرنے لگے ہوں، تو ایسے حالات میں اپنے رب کے ساتھ اپنی وابستگی میں اضافہ، اپنی کمزوریوں کا جائزہ اور اس کی نصرت کے سہارے روشن مستقبل کی حکمت عملی پر بلاتاخیر دن رات کی محنت سے کام میں لگ جانا ہی دینی مصلحت ہے۔

اقامت ِ دین کی جدوجہد اور جہاد فی سبیل اللہ کو دن اور رات کی متاعِ حیات سمجھتے ہوئے اختیار کیا جائے، اس تگ و دو اور جہاد کا مقصد نہ محض حصولِ اقتدار ہو، نہ عوامی مقبولیت و شہرت،     نہ علمی کمال کا اعتراف، بلکہ صرف اور صرف وتوفنا مع الابرار کی تمنا اور اس تمنا کی تکمیل کے لیے ہمہ تن شہادتِ حق میں مصروف ہوجانا ہو۔

اس جدوجہد میں مصروف ایک کارکن ہو یا قائد، اس کا ہر چھوٹا یا بڑا عمل، وہ جو عالم الغیب والشہادہ ہے ،اسے اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہے اور ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ایک عام دیکھنے والی آنکھ یہ سمجھتی ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں کسی اجتماع گاہ میں کرسیوں کی صف بنانا، یا دریاں بچھانا، یا شرکاے اجتماع کا خوش دلی سے استقبال کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے، لیکن وہ جو  سراپا رحم و رحمت ہے، وہ ایسے کام کو بھی جس میں جیب سے ایک پیسا خرچ نہ ہو رہا ہو، ایک صدقہ قرار دیتا ہے۔ لکھنے والے اس چھوٹے سے عمل کو بھی ایسے لکھتے ہیں جیسے اس نے اپنی جیب سے سونے کا پہاڑ اللہ کی راہ میں انفاق کر دیا ہو۔

مستقبل کی حکمت عملی کے تقاضے

اقامت ِ دین کی مستقبل کی حکمت عملی کا ہدف جہاں اس دنیا میں متوقع نتائج کے تناظر میں ہونا ہے، وہاں اُس سے بھی زیادہ آخرت میں کامیابی کے نقطۂ نظر سے طے ہونا چاہیے۔ اس دنیا میں سیاسی اتحاد ہو یا معاشی اتحاد، وقتی افہام و تفہیم ہو یا طویل المیعاد اسٹرے ٹیجک تعاون، ایسے تمام معاہدوں پر غور کرتے ہوئے مقصود و مطلوب حصولِ اقتدار نہیں بلکہ حصولِ رضاے الٰہی ہونا چاہیے۔ اس جادۂ حق پر عمل کرتے ہوئے حصولِ مقصد کے لیے عمرنوح ہی کیوں درکار نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے یہود و نصاریٰ کے حوالے سے بُرہانِ قاطع ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ وہ کبھی اسلامی جماعت کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ اگر یہودو نصاریٰ کے رویے پر اصولی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو وہ طرزِعمل غیریہودی اور غیرنصاریٰ میں بھی پایا جاسکتا ہے، یعنی جو اپنے وعدوں کو مسلسل توڑنے اور ان کے خلاف عمل کرنے کی ایک تاریخ رکھتے ہوں۔

اس تناظر میں تحریکاتِ اسلامی کو اپنے روشن مستقبل کے حوالے سے یہ سخت فیصلہ کسی نہ کسی مرحلے میں کرنا پڑتا ہے کہ ایک وقتی مفاد کو ترجیح دی جائے یا ابدی کامیابی کے لیے طویل جدوجہد کے راستے کو اختیار کیا جائے۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میںحکمت دین (جو اللہ کی طرف سے ایک عطیہ ہے) کے ساتھ زمینی حقائق کا جامع علم رکھنا انتہائی اہم اور ضروری ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کہیں مڈٹرم انتخابات کا معاملہ ہو تو اپنی مقبولیت و شہرت کا اظہار کرنے کے لیے ہرہرمقام سے افراد کو قیادت کے لیے کھڑے کر دینا جذباتی اعتبار سے تو شاید قابلِ فہم ہو مگر طویل عرصے کی حکمت ِعملی کے اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ ہماری کامیابی کا انحصار اصولی اور اخلاقی برتری پر ہے، عوامی برتری پر نہیں۔ ممکن ہے قریب تک دیکھنے والی نگاہ کے لیے ایک اچھا کام ہو، لیکن وہ جو دُور رس نگاہ رکھتا ہو اس کے لیے فوری اور بھاری کامیابی کی جگہ وہ عمل جو چاہے چھوٹا نظرآئے مگر دیرپا ہو اور مطلوبہ تبدیلی کے لیے مؤثر ذریعہ بنے، کہیں زیادہ اہم ہے۔ انبیاے کرام ؑ اور اہلِ حق کی نظر ظاہری سے زیادہ اس کامیابی پر رہی ہے جو جوہری اعتبار سے دین کے قیام کے لیے ممدومعاون ہو اور سب سے بڑھ کر جو آخرت میں جواب دہی کے وقت ساتھ دے سکے۔ گویا سیاسی حکمت عملی ہو یا انسانوں کو دین کی طرف بلانے کے ذرائع، ہرشعبے میں اصل ہدف آخرت کی کامیابی اور ’ابرار‘ کے ساتھ جنت میں داخلے کی طلب ہو، تو پھر دنیوی اعتبار سے بھی مفید اور دیرپا اثرات رُونما ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی یہی توشۂ نجات ہوں گے۔ اس پس منظر میں ہماری کامیابی اور ناکامی کا معیار محض دنیا طلب قوتوں سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کبھی یہاں کی ظاہری ہاری ہوئی بازی بھی بہت بڑی کامیابی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

ایک ظاہربین نگاہ کے لیے تو قریب المیعاد کامیابی ہی قوت کا مظہر ہوتی ہے کہ کسی طرح اقتدار پر قابض ہوجائے۔ کسی طرح ایک مروجہ نظام کو چیخ پکار کے ذریعے ایک نام نہاد، غیرمنصفانہ، غیرجمہوری نظام قرار دے کر گلی کوچے میں ہلڑبازی کرنے والوں کی مدد سے گرا کر کرسیِ اقتدار پر قبضہ کرلیا جائے۔ مگر ایسی تبدیلی صرف قصرِاقتدار کے پہرے داروں کی تبدیلی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن وہ جو بجاے خود نہ اقتدار کا طالب ہو، نہ سیدھے یا ٹیڑھے قوتِ نافذہ پر قبضہ کرلینے کو فتح سمجھتا ہو، بلکہ اُس کے لیے اصل مقصود اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی ہوتی ہے، وہ اُس راستے کو اختیار کرتا ہے جو چاہے طویل ہو لیکن ہرقدم انبیاے کرام ؑ کے نقوشِ پا کی پیروی میں آگے بڑھ رہا ہو۔

وہ جو روشن مستقبل اور اُخروی کامیابی کے لیے پکارتے ہیں، جو نمازوں میں خشیت اختیار کرتے اور اپنی عبادات میں توازن و اعتدال اختیار کرتے ہیں، جو اپنے وعدوں اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں، جو اپنی پاک بازی پر قائم رہتے ہیں، جو اپنے اہلِ خانہ کو اپنے عمل سے دعوت دے کر نارِ جہنم سے بچانے والے ہوتے ہیں___ ایسے ہی اہلِ ایمان کے لیے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں صرف ۲۰ افراد ہوں تو ۲۰۰ پر غالب آئیں گے۔ دنیا ہجوم جمع کر کے اپنی قوت کا مظاہرہ کرتی ہے اور غضب ناک ہجوم کے بل پر نظاموں کو تہس نہس کرنے کا اعلان کرتی ہے، جب کہ ربِ کریم ان اہلِ ایمان کی صرف ۲۰ کی نفری کو جنھیں ہم کسی شمارقطار میں نہیں لاتے ۲۰۰؍افراد پر بھاری ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں۔ سوچنا ہوگا کہ وہ ۲۰؍ افراد کیا اپنی قوتِ ایمانی،  ایثار و قربانی، مقصد کی لگن، منزل کے واضح شعورسے کس حد تک آگاہ ہیں۔ اگر ان کا تصورِ منزل دھندلا گیا ہو، اگر ایثاروقربانی کی جگہ نفسا نفسی ہو، اگر قوتِ ایمانی کی جگہ محض افرادی قوت کو کامیابی کا پیمانہ بنابیٹھیں، تو یہ قصور حکمت ِعملی کا نہیں ان افراد کا ہے جو آغازِ سفر ہی کو اپنی منزل سمجھ بیٹھے ہوں۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو راہِ حق میں داعی بن کر نکلا ہے، کیا اُس نے واقعی وہ ہجرت کی ہے جو اسے ان تمام تعلقات اور وابستگیوں سے آزاد کرے، جو ماضی میں اس کی زندگی کا حصہ رہی ہیں؟ کیا وہ اب بھی اپنے کاروبار میں وسعت و برکت کی بنا پر اپنے آپ کو طاقت ور انسان سمجھتا ہے؟ کیا وہ اب بھی قیادت و سربراہی کرنے والے افراد کے اردگرد رہ کر اپنے مستقبل کے روشن امکان تلاش کرتا ہے؟ کیا وہ منظرنامے میں نظر نہ آنے کو پسند کرتا ہے اور اُس اینٹ کی طرح جو منوں  ملبے کے بوجھ تلے دب کر بنیاد کا حصہ بن جاتی ہے اور جسے کبھی کوئی پرچم لگاکر نمایاں نہیں کیا جاتا، خاموش کارکن کی حیثیت سے اپنے دعوتی کام میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ کیا وہ اللہ کی راہ میں باطل کے خلاف جدوجہد کرتے وقت نہ صرف اپنے وقت، اپنی صلاحیت، اپنے مال، بلکہ اپنی جان کو بھی بازی پر لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔

ایسے افراد کے لیے ان جنتوں کا وعدہ ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جہاں ہر وہ شے ہے جو ایک متلاشیِ حق کو خوش، مطمئن اور مسرور کرسکتی ہے۔ اس حقیقی منزل تک پہنچنے کا راستہ جس وادی سے گزرتا ہے، وہ یہی چند روزہ دنیا ہے جہاں اصل کارزارِ حیات حق و باطل کی کش مکش ہے۔ جہاں ایک شخص کو صرف اور صرف ہدایتِ الٰہی اور سنتِ رسولؐ سے اپنی حکمت عملی اور  طریق کار کو اخذ کرنا ہے۔ ہمارے لیے غورطلب بات یہ ہے کہ کیا ہم ان ۲۰؍افراد میں سے ہیں جن کی کامیابی کا وعدہ وہ ہستی کر رہی ہے جس کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے!

اس منزل کے حصول کے لیے جو وصیت قرآن کریم فرماتا ہے وہ بڑی واضح، عملی اور جامع ہے، یعنی اہلِ ایمان کا صبر کی روش کو اختیار کرنا اور مضبوطی کے ساتھ، یکسو ہوکر اسلامی دعوت میں لگ جانا۔ موعظۂ حسنہ اور حکمت کے ساتھ دین کو بلاکسی تردد اور مداہنت کے پیش کرنا۔ وہ ایوانِ حکومت ہو یا عوامی اجتماع، حق کی بات کو پہنچانا اور اس میں کمی بیشی نہ کرنا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ بعض سیاسی اتحادوں سے وقتی فائدے ہوسکتے ہیں، جو شاید دعوت کی توسیع میں آسانی پیدا کردیں گی، اس کے باوجود ان قوتوں کے ساتھ شامل نہ ہونا جو اپنی ذاتی زندگی میں اور سیاسی تاریخ میں دین کا احترام نہ کرتی ہوں۔ عقل کہتی ہے کہ کشاکش کا حصہ بننے سے تنہا صدیوں تک جدوجہد کرنا زیادہ برکت کا باعث ہے۔

بلاشبہہ بعض مشروط اتحاد ایسے ہوسکتے ہیں جو وقتی مصلحت کی بنا پر کیے جائیں لیکن وہاں بھی اس بات کا خیال رکھنا کہ تحریک کسی ایسے کام میں تعاون نہ کرے جو دین کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہو۔ جس طرح کفر ملت واحدہ ہے ایسے میں قرآن کریم چاہتا ہے کہ اسلامی جماعت کے افراد کی پہچان صبر، ربط باہمی اور تقویٰ ہو: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الِ عمرٰن ۳:۲۰۰) ’’اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر پر قائم ہوجائو، صبر پر ثبات کے ساتھ قائم رہو، آپس میں جڑجائو، ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سے، تمھارے دل اور تمھارے احساسات سب یک جان ہوجائیں‘‘۔

اصْبِرُوْا کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا اور فوری طور پر کہا گیا وَ صَابِرُوْا، یعنی یہ ایک انفرادی صفت ِ محمودہ نہیں ہے بلکہ اسے اجتماعی طور پر اختیار کیے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی۔ اس صبر کا مفہوم    نہ صرف انفرادی طور پر استقامت ہے بلکہ تحریک کا مجموعی طور پر اس طرزِعمل کو اختیار کرنا ہے جو  اس کے اخلاص، تقویٰ، بے لوثی اور صرف اور صرف رضاے الٰہی کے حصول کا مظہر ہو۔

تحریکاتِ اسلامی کی مستقبل کی حکمت عملی میں جائزہ و احتساب کو مرکزیت حاصل ہے کہ ہماری آج تک کی پالیسی میں کہاں خلا تھا، کہاں عاجلانہ اقدام کیا گیا، اور کہاں مستقبل کے مطالبات کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی اختیار کی گئی، جس کی بنیاد قرآن و سنت کے اصول ہوں، تو پھر وہ غیبی نصرت، جس کا وعدہ ماضی میں انبیاے کرام ؑ کی اُمتوں سے کیا گیا تھا، جس کا وعدہ اُمت محمدیہؐ سے کیا گیا ہے، وہ نصرت آئے گی۔

حالیہ سیاسی بحران: چند غورطلب پہلو

قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع بارہا آتے ہیں جب دیکھنے والی آنکھ یہ سمجھے کہ ملک میں افراتفری ہے،قانون کو پامال کیا جا رہا ہے، حکومت اور مہذب معاشرہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہے، حکومت ماضی اور حال سے کوئی سبق لیے بغیر اپنی روش پر قائم ہے، معیشت غیرمستحکم ہے، ثقافتی یلغار جاری ہے۔ جس ملک کو پسندیدہ قرار دیا جاتا ہے وہ ہماری شہری آبادی پر بم باری کر رہا ہے اور سیاسی بیانات میں خصوصاً کشمیر کے حوالے سے وہ باتیں دہرا رہے ہیں جن کا ہرلفظ زہر، عناد اور تکبر سے بھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں دارالحکومت میں دھرنے کی شکل میں دو سیاسی جماعتوں نے اپنی حمایت اور قوت کے مظاہرے کے ساتھ ایسی صورت حال پیدا کردی کہ اچھے خاصے باشعور افراد بھی ملک کی سالمیت، یک جہتی اور تحفظ کے حوالے سے خاصے فکرمند نظر آتے ہیں۔

اس تناظر میں کیا ایک عام شہری سیاسی منظرنامے کے پیش نظر مستقبل کو روشن اور کامیابی سے ہم کنار دیکھ رہا ہے یا اُس میں ہمت اور ارادے میں کمی اور شدید مایوسی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے؟ اس حوالے سے برقی ابلاغ عامہ نے خصوصاً جو کردار ادا کیا ہے، قوم اسے کس نگاہ سے دیکھتی ہے، اور اس عرصے میں جو سیاسی مطالبات بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں، ان کے کیا اثرات ملک کے اندر اور عالمی تناظر میں پاکستان کی تصویر (image) پر پڑ رہے ہیں؟ ملک میں سیاسی ارتقا کے نقطۂ نظر سے دو جماعتوں کی مہم جمہوری روایت کو تقویت دے گی یا تبدیلی یا انقلاب کا نعرہ دوبارہ قوم کو اُس مقام پر لاکھڑا کرے گا کہ ماضی کے چار مارشل لائوں کی طرح ایک مرتبہ پھر خدانخواستہ سیاسی بساط کو لپیٹ دیا جائے، اور فوج ملک کی نجات دہندہ بن کر ایک پیشہ ورانہ نمایندہ حکومت  اپنی سرپرستی میں قائم کرنے کے بعد یہ طے کرے، کہ اسے دوبارہ اپنی بیرکوں میں واپس جانا ہے، یا ماضی کی طرح کم از کم ۱۰ برسوں کے لیے ملک میں اصلاح کے نام پر فوج کو سابقہ فوجی سربراہوں کی طرح جمہوریت کے احیا کے نام پر جمہوریت کا قتلِ عام کرنا ہے؟

یہ وہ چند سوالات ہیں جو آج قوم کے ہرباشعور فرد کو پریشان اور متفکر کر رہے ہیں۔ یہ سوالات کوئی نئے سوالات نہیں ہیں۔ ماضی میں جب بھی فوج نے سیاسی اقتدار سنبھالا تو اسی نوعیت کے سوالات قوم کے ذہن میں اُبھرے تھے۔ اب ان کی شدتِ تاثیر میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ عامہ مسلسل مایوسی اور الزام تراشی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک جانب حکومت مخالف صحافتی اتحاد اور دوسری جانب حکومت حمایتی صحافتی اتحاد جس طرح حالات کا رُخ دکھا رہا ہے،   اس نے ابلاغ عامہ کی غیرجانب داری اور معلومات کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کرنے اور براہین پر مبنی واقعات پیش کرنے پر سے قوم کے اعتماد کو اُٹھا دیا ہے اور ابلاغ عامہ صحافتی دیانت (professional integrity) سے عوام کو حالات و واقعات سے مطلع کرنے کے بجاے خود سیاسی پریشر گروپوں کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔

جب برقی ابلاغ عامہ دن کے کم از کم ۱۰ گھنٹے مسلسل دو متضاد تصاویر پیش کر رہے ہوں،  ایک حکومت کے اقدامات کی توثیق اور عقلی جواز اور دوسری جانب چند ہزار افراد کے ایک ہجوم کا مطالبہ کہ اپنی ناکارہ کارکردگی کی بنا پر حکومت ِوقت مستعفی ہوجائے اور پانچ سال تک انتظار کرنے کے بجاے فوری طور پر مستعفی ہوجائے اور چند ماہ میں تازہ انتخابات کرائے جائیں، تو نہ صرف مغالطہ بلکہ حالات سے مایوسی کا رجحان بھی تقویت پکڑنے لگتا ہے۔

ان حالات سے نجات کی راہ کیا ہو اور کس طرح فوج کی دخل اندازی کے بغیر حالات کو  صحت مند اور تعمیری رُخ پر لے جایا جائے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر ملک کے ہرباشعور شہری کو  غور کرنے کی ضرورت ہے۔

دو سیاسی جماعتوں کے گذشتہ مہینوں کے احتجاجی منظرنامے نے بعض بنیادی پہلو اُجاگر کیے ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کے عوام پاکستان میں دو پارٹیوں اور فوج کے یکے بعد دیگرے ملک پر حکمرانی کرتے رہنے سے تنگ آچکے ہیں اور اب دو نام نہاد بڑی پارٹیاں عوام کے اعتماد سے محروم ہو چکی ہیں۔ دونوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ فرق صرف انیس بیس کا ہے۔ جب ایک پارٹی پانچ سال حکومت کرتی ہے تو لوگ ایک ایک دن گن کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں کب ان سے نجات دے گا، اور جب دوسری پارٹی برسرِاقتدار آتی ہے تو محض چند دن کے لیے تویہ احساس اُبھرتا ہے کہ شاید یہ اپنی ماضی کی غلطیوں پر نادم ہوکر قوم کو معاشی، سیاسی، اخلاقی اور اندرونی وبیرونی خطرات سے محفوظ کرنے میں کوئی پیش رفت کرے گی، لیکن چند ماہ کے بعد ہی یہ اُمید دم توڑتی نظر آتی ہے اور پھر تبدیلی کے انتظار کی گھڑیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

لیکن آخر کب تک؟ یہی وجہ ہے کہ حالیہ احتجاج نے قوم کی ایک نفسیاتی ضرورت کو پورا کیا اور اسے بلندآواز سے یہ اعلان کرنے کا موقع دیا کہ وہ دو موروثی سیاست والی جماعتوں کی جگہ ایک تیسری نجات دہندہ قوت کی منتظر ہے۔ یہ ایک انتہائی مثبت طرزِعمل ہے جو اُبھر کر سامنے آیا ہے۔

اس فضا میں جو سوالات ہرباشعور شہری کے ذہن میں اُبھر رہے ہیں وہ بھی کچھ غیراہم نہیں ہیں، مثلاً یہ کہ ملک کی آبادی کا تقریباً نصف یا ۶۰ فی صد حصہ نوجوان آبادی کا ہے اور کم از کم ایک سیاسی پارٹی نے ان نوجوانوں کو سابقہ انتخابات اور حالیہ احتجاج کی مہم میں شامل کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ اگر نوجوانوں کو صحیح طور پر متحرک کیا جائے تو ملکی حالات میں اصلاح کے لیے ایک تیسرے عنصر کا اُبھرنا اور کامیاب ہونا ایک ممکن بات ہے۔ بزرگ اور معمر سیاست کاروں کی سیاسی دانش مندی، تجربہ اور حکمت کے اعتراف کے ساتھ اب دَور نوجوان قیادت کا ہی ہے۔ اس لیے وہی سیاسی جماعت قیادت کی زیادہ مستحق ہوگی جو بڑی تعداد میں نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے کر ان کی قوت کو تعمیری رُخ دے اور روایتی سیاست سے ہٹ کر قومی مفادات کے حصول اور عوام کی مشکلات کے حل کے لیے خود قوم کی عملی شرکت کے ذریعے تبدیلی کی راہ ہموار کرے۔

یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ تبدیلی کی ضرورت پر قومی اجماع ہے لیکن تبدیلی کون سی؟ اور نوجوانوں کو متحرک کرنے والا کون سا نعرہ؟مستقبل کی تعمیرواصلاح کی کون سی حکمت عملی اور کون سا ٹھوس قابلِ عمل منصوبہ قوم کو اس دلدل سے نکال سکے گا؟

۱۸ کروڑ انسانوں نے اپنی آنکھوں سے تبدیلی کے نام پر ہرشب نوجوانوں کو موسیقی اور رقص میں مصروف جو منظر دیکھا، اس پر قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ تبدیلی لانے کے دعوے دار   ایک جانب جس معاشی اور سیاسی حل کا ذکر کر رہے ہیں، کیا ان کے پاس کوئی واضح پروگرام ہے اور کیا ایسی ٹیم موجود ہے جو اہلیت اور دیانت کے ساتھ انقلابی تبدیلیوں کا سفر کامیابی سے انجام دے سکے؟ محض جوش اور بھنگڑوں کے ذریعے تو یہ کام انجام نہیں پاسکتا۔ اس کے لیے جہاں نوجوان خون ازبس ضروری ہے، وہیں مقصد اور منزل کا صحیح شعور رکھنے اور اعلیٰ صلاحیت اور اچھے اخلاق کی حامل نئی قیادت بھی بشرط لازم ہے۔ ضرورت ایسے نوجوانوں کی ہے جو اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے دیے ہوئے تصورِ پاکستان پرسنجیدگی سے یقین رکھتے ہوں۔ جن کے شب و روز اس ملک کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں صرف ہورہے ہوں، جنھیں محض موسیقی اور رقص کی کشش کھینچ کر نہ لائی ہو بلکہ وہ سوچ سمجھ کر اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہوں اور جن سے اعلیٰ کارکردگی اور بہترین اخلاق دونوں کی توقع کی جاسکے۔

اس پہلو سے دیکھا جائے تو جس طرح ایک طوفان کی طرح تبدیلی کا نعرہ اُبھرا اور اسے پذیرائی ملی، اس رفتار سے شام کی محفلوں، بیانات اور عمل میں تضاد نے اُس تیسرے راستے (option ) کی اُمید کی لَو کو مدہم کردیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ نوجوانوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے انھیں محض شورشرابے اور اُچھل کود کی جگہ ایک واضح نقشۂ عمل دے کر متحرک کیا جائے، تاکہ قوم مایوسی اور نااُمیدی سے نکل سکے اور نوجوان علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان کو عملی شکل دے سکیں۔

ملک کی دو آزمودہ سیاسی پارٹیوں اور دیگر جماعتوں نے اس سیاسی ارتعاش کے دوران جس عزم کے ساتھ دستورِ پاکستان کی پاس داری پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے، چاہے اس کا سبب ان کی اپنی کوئی ذاتی ضرورت ہی کیوں نہ ہو، اس کے باوجود یہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کے مقابلے میں جن جماعتوں نے دستور اور اسمبلی کے ادارے کو یا عدلیہ کو نظرانداز کرتے ہوئے ماوراے دستور اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، شاید انھیں جلد یا بدیر اپنے موقف کی کمزوری کا احساس ہوجائے گا۔

سیاسی عمل کا تحفظ اور تسلسل ملکی مسائل کے دیرپا حل کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ملک سے افلاس، بھوک، تعلیم کی کمی، مغرب کی اندھی تقلید اور غلامی، ریاستی اداروں کی کمزوری، فرقہ واریت، اسلام کے نام پر تشدد کا استعمال، اور تشدد کو دُور کرنے کے بہانے اسلام پر ہاتھ صاف کرنے کی خواہش، جہاد کو دہشت گردی سے وابستہ کرنا، بعض علاقائی اور قبائلی روایات کو پہلے اسلام قرار دینا اور پھر ان کے پردے میں دراصل اسلام پر تنقید کرنا، ان مسائل کو جو ہمارے آج اور مستقبل سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، انھیں بلاضرورت اُبھار کر پیش کرنا___ یہ اور ان جیسے مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ قوم کے سامنے ایک ایسا واضح اور قابلِ عمل نقشۂ کار پیش کیا جائے جو بجاے نظری حل پیش کرنے کے، عملی حل پیش کرے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کا فیصلہ تو مفکرِپاکستان علامہ اقبالؒ اور بانیِ پاکستان محمد علی جناحؒ کے ۱۰۰ سے زیادہ ارشادات کی روشنی میں قرارداد مقاصد اور دستور پاکستان میں دوٹوک الفاظ میں رقم کیا جاچکا ہے کہ اس ملک کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے۔ اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ دستور میں دیے ہوئے قومی پالیسی کے اصولوں کی روشنی میں عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، مفاد پرست طبقات کی گرفت سے قوم کو نجات دلائی جائے اور تعمیرو تشکیلِ نو کے لیے صحیح ترجیحات کے تعین کے ساتھ ان پر عمل درآمد کے لیے حکمت عملی اور مدت کے تعین کے ساتھ نقشۂ کار پیش کیا جائے، تاکہ قوم جس تیسری قیادت کی تلاش میں ہے، اُس قیادت کی طرف سے قوم کے سامنے ایک قابلِ عمل منصوبہ آسکے۔ نعروں، احتجاجوں اور دھرنوں کی جگہ معاشی، معاشرتی، تعلیمی، قانونی، ضلعی سطح پر پیش آنے والے مسائل کے حل شریعت کی روشنی میں ترتیب دینے کے ساتھ، ملک کے نوجوانوں کو اُس تبدیلی کے عمل میں مصروف کیا جائے جو مصلحانہ جہاد کا درجہ رکھتی ہو۔

تحریکِ اسلامی کے لیے امکانات

قرآنِ کریم نے ہمیں بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت ِعملی شیطان کی سو حکمت ِعملیوں پر غالب ہوتی ہے۔ پاکستان لازمی طور پر ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جب عوام نے ایک تیسرے حل اور تیسری پسند کے بارے میں کھل کر حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تحریکِ اسلامی نے اس بحران میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے اپنے ناقدین اور حامیوں اور حمایتیوں دونوں کی نگاہ میں ایک اچھا مقام حاصل کیا ہے، اور آج پاکستانی عوام اس بات کے شاہد ہیں کہ سنجیدہ،  بے لوث، قابلِ اعتماد اور تعمیری رُخ پر لے جانے والی قیادت تحریک میں موجود ہے۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ بلاتاخیر ملک کے نوجوانوں کو تحریک سے وابستہ کرنے کے لیے شہروں اور ضلعوں کی بنیاد پر ایک منصوبۂ عمل بنایا جائے۔ اس میں اس بات کا خیال رہے کہ   ہم کن تعمیری سرگرمیوں کو اختیار کرسکتے ہیں اور کم سے کم مدت میں نوجوانوں کی کتنی تعداد کو دعوتِ حق سے روشناس کرانے کے بعد ان کی زندگیوں میں عملی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ کردار کی تبدیلی اور    خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی بندگی اختیار کیے بغیر نوجوانوں کا کوئی جمِ غفیر ایک ہجوم تو فراہم کرسکتا ہے، حقیقی سماجی تبدیلی نہیں لاسکتا۔

آج تحریک کے لیے سنہری موقع ہے کہ تاریخ اسلامی تحریک کو ایک کلیدی کردار کی دعوت دے رہی ہے جس میں ملک و ملّت سے تمام مخلص اور خیرخواہ عناصر کو جمع کر کے اور نوجوانوں کی قوت کو صحیح طور پر منظم کر کے پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست کی اس منزل کی طرف رواں دواں کیا جاسکتا ہے جو تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد اور ہدف تھا۔

اس تبدیلی کی بنیاد محض ہمارے دعوے نہیں ہوسکتے۔ ہمیں قوم اور خصوصیت سے نوجوانوں کو  متعین طور پر ایک ایسا منشور اور نقشۂ کار دینا ہوگا جو ان کی اُمنگوں، قوتوں اور صلاحیتوں کو تعمیری اور مثبت رُخ پر لے جائے، اور وہ ہنگاموں اور بھنگڑوں کی ثقافت سے نکل کر اقبال کے شاہینوں کی طرح نئے اُفق اور نئے محاذوں پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے سہارے ملک و ملّت کا پرچم سربلند کرسکیں۔

قرآنِ کریم تعداد کی قوت کی جگہ تقویٰ، ایمان، اخلاص اور ایثار و قربانی کی بنیاد پر ایک نئی نسل کی تعمیر چاہتا ہے۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا وہ صرف ایسے ۲۰ باشعور، مخلص، عادل نوجوانوں کو تربیت دے کر یہ اصول بیان کرتا ہے کہ یہ ۲۰ اللہ کے سپاہی، ۲۰۰ مسلح اور اعلیٰ ٹکنالوجی سے لیس افراد کو بآسانی شکست دے سکیں گے۔ گویا سوال صرف ۲۰ نوجوانوں کا ہے۔ یہ تربیت یافتہ نوجوان جن کے سامنے منزل واضح ہو اور لائحہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کرلیا گیا ہو، اپنے سے ۱۰گنا زیادہ باطل نظام کے ماننے والوں پر بھاری رہیں گے۔ یہ اعلان اُس کی طرف سے ہے جو انسانوں اور کائنات کا خالق ہے۔ جس کا ہر وعدہ سچا ہوتا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ نوجوانوں کو متحرک و سرگرم کرکے  ملک گیر پیمانے پر عوام کی انتظار کی گھڑیوں کا جواب فراہم کیا جائے!

قرآن کریم نے توحید کو انبیاے کرام ؑ کی دعوت کا مرکزی مضمون قرار دیا ہے۔ ہر دور میں ہراُمت کو دعوت دیتے وقت انبیاے کرام ؑ نے صرف یہی کہا : اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶)، یعنی ایک مثبت رویہ اور طرزِعمل کو اختیار کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اپنے آپ کو ہرقسم کے باغیانہ اور نافرمانی کے رویے سے نکال کر اللہ کی پناہ میں آجانا۔ اسلام اللہ کی بندگی، اللہ کی حاکمیت، ربوبیت اور آخرت میں مالکِ حقیقی ماننے اور اپنے عمل سے اطاعت کے رویے کے اظہار کا نام ہے۔ توحید کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ رب کریم اپنی رحمت و ربوبیت میں جوشِ کمال کے سبب یہ چاہتا ہے کہ اسے خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خلوص کے ساتھ مدد، رہنمائی اور دست گیری کی جائے۔ ایسا کرنے میں اللہ کا بندہ،نہ صرف ربِ کریم کے عبد کی حیثیت سے اس کی عبادت کر رہا ہوتا ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایک اعلیٰ صفت کو ادنیٰ انسانی درجے پر اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے اخلاقِ حمیدہ کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔

تحریکِ اسلامی کی دعوت کا بنیادی نکتہ بھی اللہ تعالیٰ کی بلاشرکت غیربندگی اور اللہ کی حاکمیت کو زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے ہر باشعور کارکن کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ دین کی دعوت چند مراسمِ عبودیت کی طرف بلانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ  اللہ کے بندوں کو مشکلات سے نکالنے، ان کی خدمت کے ذریعے ربِ کریم کو خوش کرنے کا نام ہے۔ مکہ مکرمہ میں دعوتِ توحید محض نظری دعوت نہ تھی، بلکہ مظلوم کو ظالم کے چنگل سے نکالنے اور لوگوں پر سے بوجھ اُتارنے کا نام تھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے ہزارہا اشرفیاں ان معمر اور کمزور افراد کو رہا کرانے میں صرف کردیں جن سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس طرح حضرت ابوبکرؓ نے خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے کام کا اجر اپنے رب کے پاس محفوظ کرلیا۔

قرآنِ کریم کے بنیادی مضامین سے ایک اہم مضمون انفاق فی سبیل اللہ ہے جس کی وضاحت خود قرآن کریم نے کردی ہے: یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ط وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o (البقرہ ۲:۲۱۵)’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا‘‘۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ فعل خیر کی اصطلاح کا استعمال حقوق العباد کی ادایگی میں غیرمعمولی وسعت پیدا کردیتا ہے: وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o (البلد۹۰:۱۲-۱۶)’’ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا‘‘۔ یہ وہ فعلِ خیر ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o(الحج ۲۲:۷۷) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو اور نیک کام کرو اسی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہوگی‘‘۔

سورئہ ماعون میں مزید فرمایا گیا: اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o (الماعون۱۰۷:۱-۳)’’تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ یومِ آخرت اور دین کا انکار صرف اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان سے انکار تک محدود نہیں، بلکہ حقوقِ انسانی کی ادایگی کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو احکام دیے ہیں ان کا مکمل اہتمام بھی ضروری ہے، اور مسکین کو کھانا نہ کھلانا اور یتیم کے حقوق کی ادایگی کا اہتمام نہ کرنا بھی دین اور آخرت کے انکار کے مترادف ہے۔ حقوقِ انسان کی ادایگی کے لیے اس سے بڑا چارٹر اور کون سا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ اقامت ِ صلوٰۃ اور انفاق کا حکم دیا گیا ہے اور یہ ناقابلِ تقسیم ہے۔ حقوق العباد کی ادایگی کے بغیر ایمان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔

حدیث فعلِ خیر کی مزید وضاحت کرتی ہے اور اہلِ ایمان کو اللہ کے بندوں کے حوالے سے ذمہ داریوں سے آگاہ کرتی ہے کہ ربِ کریم جو رحمت ہی رحمت ہے، کرم اور بندوں کی بھلائی کے جذبے سے بھرپور ہے، ہم سے کیا توقع رکھتا ہے۔

حدیث قدسی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا رہا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی۔ انسان گھبرا کر عرض کرے گا: اے میرے رب! تو سارے جہانوں کا پروردگار، تو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن اس کے باوجود تو اس کی تیمارداری کے لیے نہیں گیا۔ اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا: اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:  کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔

اسی طرح رب العالمین فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا: اے دوجہاں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے پانی کیسے پلاتا؟ فرمایا جائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا ثواب پاتا‘‘۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ)

حدیث قدسی واضح پیغام دے رہی ہے کہ اگر اللہ کو خوش کرنا ہے تو اس کا راستہ اس کے بندوں کی خدمت ہے۔ جب اہلِ ایمان کی جماعت زمین پر بسنے والوں سے رحمت و شفقت کا سلوک کرے گی تو الرحم الراحمین جو سراپا عفو و درگزر اور محبت و کرم ہے وہ زمین پر بسنے والوں پر رحمت کرے گا۔ اگر ایک ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی ہو، اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے سبب اللہ کی طرف سے ایک سخت انتباہ (red warning) کے طور پر پانی کے ریلے نے اللہ کے بندوں کو، حیوانات کو گھر سے بے گھر کر دیا ہو، تو عقل کا تقاضا ہے کہ نہ صرف اس پیغام کو سمجھا جائے، بلکہ جو لوگ سیلاب سے متاثر نہ ہوئے ہوں وہ اپنے رب کا شکر ادا کرنے اور متاثرین کی امداد کے ذریعے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے گھروں سے نکل آئیں۔

اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ جب کسی آبادی میں ظلم، حقوق کی پامالی، اپنے احکامات کی خلاف ورزی، سودی کاروبار، فحاشی اور عریانی کو حد سے گزرتا دیکھتا ہے، تو وہ آبادی والوں کو مختلف آفات کے ذریعے متنبہ کرتا ہے کہ وہ سنبھل جائیں اور جس دنیاطلبی، منافع خوری اور دولت کے  جمع کرنے کے لیے وہ بڑی بڑی زمینوں پر کاشت کاری اور کئی کئی منزلہ مکانوں کی تعمیر کے ذریعے اپنی بڑائی اور تکبر کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، ان سب کو پانی کے ایک ریلے سے تباہ کردیتا ہے کہ انسان سبق لے اور اس کی طرف لوٹ آئے۔ دوسری جانب دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والے دل رکھنے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ سیلاب سے بچ گئے تو ان کی نجات ہوگئی۔ جب تک وہ اپنے فرائض، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جیساکہ ان کا حق ہے، ادا نہیں کریں گے وہ بھی خطرے سے محفوظ نہیں ہوسکتے ۔ اگر کسی رحم و کرم کی بنا پر ان کی گرفت فوری طور پر اس دنیا میں نہیں ہوسکی تو بہرصورت آخرت میں اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ بلاشبہہ اللہ کی گرفت سب سے زیادہ شدید گرفت ہے اور اُس سے بچنے کے لیے اگر انسان اس دنیا میں اپنی تمام جمع کردہ پونجی بھی لگا دے تو سودا بہت سستا ہے۔

قرآن و سنت کا بڑا واضح رجحان یہ نظر آتا ہے کہ وہ ایک بندئہ مومن اور خصوصاً ان افراد میں جو اپنے آپ کو تحریکِ اسلامی سے وابستہ تصور کرتے ہیں، اجتماعیت کا احساس جاگزیں کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کی اعلیٰ پہچان اس کی اجتماعیت میں ہے جو اس کے ہرہر مطلوب عمل میں پائی جاتی ہے۔ وہ نماز ہو، روزہ ہو، حج ہو یا جہاد، اجتماعیت کے بغیر اس سے صحیح استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔  اسلام میں عبادات جہاں انفرادی نجات کے لیے ضروری ہیں وہیں اجتماعی فلاح کا بھی ذریعہ ہیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی تفریق جائز نہیں۔ اس کا اظہار پانچ وقت اذان کے کلمات میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اس اجتماعیت میں قرآن کریم نہ صرف خاندان کی مرکزیت کو بلکہ خاندان سے باہر کے حلقے کے افراد کو بھی شامل کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان اُس فطری داعیے کو جو اپنے والدین یا اولادکی ضروریات پورا کرنے کا انسانوں ہی میں نہیں حیوانات تک میں پایا جاتا ہے، اسے مزید آگے بڑھائیں اور اللہ کی مخلوق کو اس میں اہم مقام دیں۔ فرمایا گیا: ’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئو، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایے سے ، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان خدمت گاروں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے‘‘۔ (النساء ۴:۳۶)

اس آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کے مطالبے کے فوراً بعد جس فریضے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ والدین کے ساتھ احترام، خدمت اور بھلائی کا رویہ ہے۔ پھر اسے مزید وسعت دیتے ہوئے اجتماعیت کی روح پیدا کرنے کے لیے حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اقربا جو  رشتہ دار بھی ہوں اور پڑوس میں بھی ہوں، اور پھر وہ جو رشتہ دار تو نہ ہوں لیکن صرف پڑوسی ہوں،  پھر جو مستقل پڑوسی نہ ہوں بلکہ وقتی طور پر پڑوسی بن گئے ہوں جیسے ویگن میں سفر کرتے وقت برابر بیٹھا شخص یا ٹرین یا جہاز میں ساتھ سفر کرنے والا، ان سب کے حقوق ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ گھر کے خدمت گار ہوں، یا جن پر ایک شخص کو حاکم بنا دیا گیا ہو اس کے تمام ماتحت، ان کے ساتھ بھلائی کا رویہ اور ان کی خدمت اختیار کی جائے تاکہ صحیح اجتماعیت معاشرتی فلاح کی ضامن ہو۔

معاشرے کے بے بس، ضرورت مند افراد کی امداد اور مصیبت زدہ افراد کو وسائل فراہم کرنا اللہ کی مخلوق کے حقوق میں شامل ہے۔ یہ کسی پر احسان کرنا نہیں ہے بلکہ خود اپنے اُوپر احسان کرنے کی ایک شکل ہے۔ اسی بات کو کئی مقامات پر یوں فرمایا گیا کہ ’’ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘۔ (المعارج ۷۰:۲۵)

اسی تصور کو قرآن کریم نے انفاق فی سبیل اللہ کی جامع اصطلاح سے بیان کیا ہے کہ ’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں او ر مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی [خیر] بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبرہوگا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۱۵)

اسی سورۃ میں چند آیات کے بعد دوبارہ اس طرف متوجہ فرماتے ہوئے کہا گیا: ’’پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ بھی تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو‘‘۔ اس طرح    اللہ تمھارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو‘‘۔(البقرہ ۲:۲۱۹)

یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ نہ صرف ان رشتوں پر جو معروف ہیں بلکہ ان اللہ کے بندوں پر جو اجنبی اور غیرمعروف ہیں، خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی اور اللہ کو خوش کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مزید یہ کہ ایک شخص کی اپنی ضروریات سے زائد جو کچھ بھی ہو وہ اسے اللہ کی راہ میں لگادے تاکہ یہ عملِ خیر اس کے لیے توشۂ آخرت بن جائے۔احادیث صحیحہ بھی اسی بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک شخص اگر حلال کمائی خود اپنی اولاد اور بیوی پر اور ماں باپ پر خرچ کرتا ہے تو یہ ایک قسم کا صدقہ ہے۔ اسی طرح اپنے ایک بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔

صدقے کا غلط العام تصور جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ صدقہ دراصل سچائی کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک کام کا کرنا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا: وَ اٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً (النساء ۴:۴) ’’اور عورتوں کے مہر صدقِ دل کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔

صدقِ دل کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ جہاد بجاے خود وہ عمل ہے جس کو قرآنِ کریم نے سب سے افضل قرار دیا اور پھر اسے صدقِ دل سے کرنا، اپنے وقت کا، مال کا اور اپنی جان کا صدقہ ہے۔یہ صدقہ نہ صرف قابلِ محسوس اور قابلِ پیمایش (measurable) اعمال میں ہے، بلکہ اجتماعیت کی روح پیدا کرنے والے رویوں میں بھی ہے۔ اگر ایک صاحب ِ ایمان اپنے بھائی یا بہن کو مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے تو اس کا مسکرانا صدقہ ہے۔ سبحان اللہ، وہ دین کتنا اعلیٰ ہوگا جو مسکراہٹ کو بھی عبادت کا حصہ بنادے اور اپنے پاس سے ایک روپیہ خرچ کیے بغیر محض اپنے بھائی کو دیکھ کر محبت و الفت کے اظہار کے لیے مسکرانے کو صدقہ قرار دے دے۔

احادیث ِ شریفہ میں خدمت ِ خلق اور رفاہِ عامہ کے لیے اپنے مال، وقت، صحت کو لگانا صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں رفاہی کاموں کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس کی حاکمیت اعلیٰ کے قیام، اور ایک بندے کی عاجزی اور صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کی خدمت کرنے کے عمل کے ساتھ ہے۔ حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ سے روایت ہے، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر مسلمان پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ اس پر صحابہ نے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس صدقے کے لیے کچھ نہ ہو تو کیا کرے؟ فرمایا: اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرے ،جو ملے ا س سے خود بھی فائدہ اُٹھائے اور دوسروں پر خرچ کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ فرمایا: کسی ضرورت مند اور مصیبت زدہ کی (مال کے علاوہ کسی اور طریقے سے) مدد کرے۔ عرض کیا گیا: اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کیا کیا جائے؟ فرمایاکہ: معروف کا حکم دے۔ عرض کیا گیا کہ: اگر کوئی شخص یہ بھی نہ کرسکے تو اس کے لیے کیا ہدایت ہے؟ فرمایا: وہ بُرائی سے رُک جائے۔ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب کل معروف صدقہ، مسلم، کتاب الزکوٰۃ)

موجودہ حالات میں اس حدیث کی صداقت اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے والا ایک شخص ہو یا بمشکل نان جویں پر گزربسر کرنے والا شخص، حتیٰ کہ ایک ایسا شخص بھی جو  یہ بھی نہ کرسکتا ہو کہ کسی کو بھلائی کا حکم دے، دعوتِ دین دے، دین کا علم سکھائے، تو ایسا شخص بھی   اللہ تعالیٰ کو خوش کرسکتا ہے صرف اپنے آپ کو بُرائی سے روک کر۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ  الرحم الراحمین کس کس طریقے سے اپنے بندوں پر رحم و کرم کرنا چاہتا ہے کہ اگر ایک شخص نے    کسی مصیبت زدہ کی، سیلاب سے متاثر خاندان کی مالی مدد کر دی، کھانا کھلا دیا، کپڑا دے دیا، تو    یہ لازماً صدقہ ہے۔ لیکن اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرسکے اور صرف ان مصیبت زدہ افراد کا ہاتھ پکڑ کر سواری پر سوار کرا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔

ایک دوسری حدیث میں یہی بات فرمائی گئی ہے کہ کسی کو سواری پر سوار کرا دینا بھی صدقہ ہے۔ راستے سے ایک کانٹے یا پتھر کا ہٹانا بھی صدقہ ہے، تاکہ معاشرتی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور ایک صاحب ِ ایمان اپنی ذات سے باہر نکل کر یہ سوچے کہ وہ معاشرے کو کیا دے رہا ہے۔ معاشرے کی بھلائی کے لیے کون سے کام کر رہا ہے، یا وہ صرف روزمرہ کی دفتری کارروائیوں کی حد تک اسلام پر عامل ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام مخلوق اللہ کی عیال (کنبہ) ہے، سو ان میں سے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا شخص وہ ہے جو اُس کے عیال کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہے‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دُور کرے گا، جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی فراہم کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی سترپوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی سترپوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعا)

حدیث کے آخری کلمات غیرمعمولی طور پر تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتے ہیں اور آج ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی نفسا نفسی کا حقیقی علاج ہیں، یعنی جب تک ہم اپنے بھائی کی مدد، اس کی مشکل کے حل اور اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہیں گے، تو خود ہمارے لیے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرتا رہے گا۔ جب اجتماعیت کو چھوڑ کر ہم فرد بن جائیں، محض اپنی نجات ، محض اپنے مفاد کی فکر ہوگی، تو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اور حمایت بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس حدیث کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لَایَرْحَمُ اللّٰہُ مَنْ لَّا یَرْحَمُ النَّاسُ، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری، کتاب التوحید)

جو لوگ آفات و مصائب کا شکار ہوں، جو گھر سے بے گھرہوگئے ہوں، جن کے مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہوں، جن کے کھیت اور گھر طوفانی پانی کی نذر ہوگئے ہوں، ان سے زیادہ امداد کا مستحق کون ہوسکتا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے اسلام کی دعوت ان مصائب کے شکار افراد کی دلجوئی، ان کی مالی اور جسمانی مدد ہے لیکن یہ اُسی وقت تک عبادت ہے جب اس سے  کوئی غرض وابستہ نہ ہو۔ نہ ستایش نہ تمغہ، نہ سرٹیفیکیٹ، یا کوئی سیاسی مفاد بلکہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کو خوش کرنے کے لیے اس کے بندوں کی خدمت۔

ایک آخری بات یہ کہ اللہ کے بندوں کی خدمت اور امداد کرتے وقت تحریکی کارکنوں اور اداروں کو (مثلاً الخدمت) یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آفات و مصائب میں گرفتار افراد میں سے بعض تو وہ ہوں گے جو خود آگے بڑھ کر امداد طلب کریں گے یا اُس کے خواہاں ہوںگے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوں گے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے یا اپنا دُکھ درد بیان کرنے سے گریزاں ہوں گے۔ ایسے سفیدپوش ،خوددار، غیرت مند، قناعت کرنے اور سوال نہ کرنے والے افراد کو نظرانداز کرنا اور بظاہر ضرورت مند نہ سمجھنا قرآنی دعوت کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ  نہ صرف ان کی جو آنکھوں کے سامنے امداد کی توقع کر رہے ہوں، بلکہ ان کی بھی جو آگے بڑھ کر امداد مانگنے سے گریز کریں ، یکساں بلکہ زیادہ امداد کی جائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب ِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خودداری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۷۳)

خدمت ِ خلق اسلامی دعوت کا ایک لازمی جز ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کی ترجیحات میں اس کا مقام اعلیٰ ہونا چاہیے اور ربِ کریم کے حضور اس کا اجر اس کی خصوصی رحمت کی بناپر حدوشمار سے زیادہ ہے۔ اس لیے ایسے مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، جن میں حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے، ہم معاشرے میں بھلائی اور نیکی پھیلانے کا کام صداقت اور دل کی یکسوئی کے ساتھ کرسکیں۔ اگر دیکھا جائے تو تحریکِ اسلامی کی دعوت اس کے سوا کیا ہے کہ لوگوں کو   موعظۂ حسنہ کے ذریعے نصیحت کی جائے۔ خود ایسا کرنا بھی صدقہ اور عبادت کا حصہ شمار کیا جاتا ہے۔

حضرت تمیم بن ادس الداریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین سراپا خیرخواہی [نصیحۃ] ہے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: کس کے لیے خیرخواہی ہے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کے رسول ؐکے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے سربراہوں کے لیے، اور اُمت کے عام لوگوں کے لیے۔(بخاری)

عام مسلمانوں کی خیرخواہی یہی ہے کہ ان کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کے حصول میں ان کی مدد کی جائے۔ ان کے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کیا جائے، اور رحم و شفقت کے رویے کے ساتھ ہر مصیبت زدہ کو مصیبت سے نجات دلانے میں اپنی تمام قوت صرف کردی جائے۔ معاشرے میں ظلم و استحصال کا خاتمہ اور عدل و سلامتی کے نظام کے قیام کی جدوجہد اس نصیحت کا لازمی جزو ہے۔ یہی وہ دین کی اجتماعی فکر ہے جس کی بنا پر مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہوجاتے ہیں کہ اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو تمام جسم اس کی کسک کو محسوس کرے، اور  ایک صاحب ِ ایمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔

اگست ۲۰۱۴ء کا یہ مہینہ پاکستان پر بہت ہی بھاری پڑا ہے۔ اس وقت ملک اور قوم جس خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہیں، اس پر ہر محب وطن دل گرفتہ اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دست بہ دُعا ہے کہ حکومت اور اسے چیلنج کرنے والے دونوں ہی گروہ ذاتی اور گروہی مفادات اور اَنا کے ہر جذبے سے بلند ہوکر، اس ملک کے مفاد میں، جو تاریخ اور ملت اسلامیہ پاک وہند کی ہم سب کے ہاتھوں میں بڑی قیمتی امانت ہے، افہام و تفہیم کے ذریعے دستور، قانون اور اجتماعی اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی حل نکالیں، اور جو خطرات سیاسی اُفق پر منڈلا رہے ہیں ان کے پورے اِدراک کے ساتھ تصادم اور خون خرابے کی ہرشکل سے اجتناب کریں۔ جماعت اسلامی نے الحمدللہ اس زمانے میں مفاہمت اور مسائل کے سیاسی حل کے لیے جو کوششیں بھی کی ہیں ہم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ    ان کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ جماعت اسلامی اس جدوجہد میں تنہا نہیں، دوسری سیاسی اور دینی قوتیں بھی اپنااپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہمیں توقع ہے اور شب و روز اللہ تعالیٰ سے دُعا کررہے ہیں کہ وہ ان کوششوں کو بارآور فرمائے اور یہ ملک تصادم، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، تنقید اور تنقیص میں ہرحد کو پامال کردینے اور کفن اور قبرستان کے المیے سے بچ جائے، اور ملک و ملت کے بدخواہ جو خطرناک کھیل پورے عالم اسلام میں کھیل رہے ہیں اس سے پاکستان محفوظ رہے۔ بلاشبہہ حالات بے حد سنگین ہیں لیکن ہمیں اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور ہرسطح پر اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے حدوحساب ہے اور اس کا ارشاد بھی یہی ہے کہ اہلِ ایمان کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں (لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط  الزمر ۳۹:۵۳)۔

یہ صورتِ حال کیوں رُونما ہوئی، بگاڑ کے اس مقام تک پہنچنے میں کس نے کیا اور کتنا کردار ادا کیا اور مسئلے کے مستقل حل خصوصیت سے نظامِ حکمرانی کی اصلاح، حقیقی اسلامی جمہوریت کے فروغ، اور ایک عوام دوست فلاحی معاشرے کا قیام، انتخابی نظام کی تشکیلِ نو، سیاسی اختلاف اور تبدیلی کے طریقے کے بارے میں صحیح حدود کا تعین اور ان کے مطابق عملی جدوجہد کے آداب کا تعین اور ان کا احترام، اختلاف کی حدود اور تنقیدواحتساب کی زبان___ یہ سب وہ اُمور ہیں جن پر کھل کر بات کرنے اور قومی اتفاق راے کے ذریعے سیاست کو صحیح خطوط پر استوار کرنے، اور ہرسطح پر اور ہر قوت کے لیے دستور اور قانون کی حدود میں رہ کر اپنے اپنے پروگرام کے مطابق جدوجہد کرنے کے مکمل اور کھلے مواقع فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ان شاء اللہ !

آیندہ ہم ان اُمور کے بارے میں اپنی معروضات پیش کریں گے لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ سے ہدایت، رہنمائی اور توفیق کی دعائوں کے ساتھ حکومت اور اسے چیلنج کرنے والی قوتوں سے پوری دل سوزی کے ساتھ یہی درخواست کرتے ہیں کہ تصادم سے ہرقیمت پر پرہیز کریں۔ ہرپارٹی چند قدم پیچھے ہٹائے اور ملک و قوم کے اعلیٰ مفاد میں بیچ کا راستہ نکالنے اور ماضی کے اُمور پر انتقام کی جگہ آگے کے حالات کی اصلاح کو اولیت دے۔ احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے بھی مناسب ماحول بنانا ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ احتساب قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے،  ورنہ احتساب انتقام بن جاتا ہے جو بڑے فساد کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ اس سے بچنا اس وقت ہم سب کے لیے ضروری ہے۔

ان حالات میں، اس دُعا اور گزارش کے ساتھ ہم اس مہینے کے ’اشارات‘ کو کچھ اصولی باتوں کی یاددہانی کے لیے مخصو ص کر رہے ہیں تاکہ ہم سب اپنا اپنا جائزہ     لے سکیں اور نفس کی اُکساہٹوں سے بلند ہوکر اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ ایک مظلوم قوم اور ملک کے مفاد کی خاطر وہ راستہ اختیار کریں جو فساد سے پاک اور خیروصلاح کی راہوں کو استوار کرنے کا ذریعہ بن سکے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا سکتۃ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (اعراف ۷:۲۳) ’’اے رب، ہم نے اپنے اُوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘___ (مدیر)

قرآنِ کریم نے اہلِ ایمان کی جماعت اور معاشرے کو باہم دگر محبت ، نرمی، رواداری،  گرم جوشی، عفو و درگزر اور اخوت و یک جائی کی صفات سے متصف جماعت قرار دیا ہے۔ یہ وہ پہلو ہیں جو اہلِ ایمان کے اپنے رب کو رب مان کر اس پر مستقیم ہوجانے اور اپنی عبادات اور قربانیوں کو صرف اللہ کے لیے خالص کردینے کے نتیجے میں شخصیت کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں۔ ان صفات پر مبنی جماعت جہاں آپس میں ریشم کی طرح نرم ہوتی ہے، وہاں ایک محبت کرنے والے باپ کی طرح بیک وقت گرفت کرنے والی اور شفیق، اور ایک درگزر کرنے والے بھائی کی طرح نظرانداز  کرنے والے معاشرے کی مثال ہوتی ہے۔

ربِ کریم نے اس جماعت کے بارے میں یوں بیان فرمایا : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹) ’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اہلِ ایمان کی دو بنیادی صفات کو، جو ان کی پہچان قرار دی گئی ہیں نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک مثبت صفت جس کا تعلق ان کے باہمی تعلقات اور معاملات سے ہے۔ یہ ہے کہ جب وہ آپس میں کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اپنے جائز حق کو بھی اپنے بھائی کے لیے قربان کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ جب ان کے ایک بھائی کو دنیا کے کسی خطے میں تکلیف پہنچتی ہے وہ غزہ ہو، بنگلہ دیش ہو، تھائی لینڈ ہو، کشمیر ہو، عراق ہو، مصر ہو یا شام، اس کے درد کی کسک وہ نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ ایک رحیم شخصیت ہونے کی بنا پر اس کو سکون پہنچانے، امن دینے، ان کی جان و مال کے تحفظ میں اپنی تمام قوت صرف کردیتے ہیں۔

ایک رحیم ماں یا باپ یہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ ان کا لخت ِ جگر درد میں مبتلا ہو اور وہ سکون کی نیند سو سکیں۔ ان کی بے چینی اور اضطراب محض پریشانی کی حد تک نہیں بلکہ ان کے عمل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ آگے بڑھ کر اپنا مال، اپنی جان، اپنی قوت، اپنی صلاحیت ہرشے کے ساتھ اپنے بھائی کو ظلم سے بچانے، اس کی جان کا تحفظ کرنے، اس کے مال کو ظالم سے بچانے کے لیے بے خطر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ یہ ایک عظیم عطیہ الٰہی ہے کہ وہ جو کل تک ایک دوسرے کے مال پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے، قبائلی تعصبات اور نسلی دشمنیوں میں گھرے ہوئے تھے، اس نے انھیں آپس میں رحیم بنا کر ان کے دلوں کو، ان کی روحوں کو، ان کی فکر کو، ان کے طرزِعمل کو ایک اعتماد کے رشتے میں جوڑ دیا اور وہ دیکھتے دیکھتے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔

 دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کفار پر سخت (اشداء) ہوتے ہیں۔ ایک تو خود   کفر میں سخت ہونا ہے جس کا تذکرہ سورئہ توبہ میں یوں ہوا: اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّ نِفَاقًا (التوبہ ۹:۹۷) ’’یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں‘‘۔کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو شدید قرار دیا گیا ہے: وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (البقرہ ۲:۱۹۶) ’’خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔ دوسری جانب کفار پر سخت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ جب اہلِ ایمان اور اہلِ کفر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوتے ہیں تو پھر خون اور خاندان یا قبیلے کی محبت درمیان میں نہیں آتی۔ نظریاتی جنگ میں اہلِ ایمان اہلِ کفر کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ دین کے معاملے میں کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے اور اپنے موقف پر جم کر استقامت کے ساتھ کفر کو اس کے انجام تک پہنچاتے ہیں۔

پھر کیا وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کبھی فرقہ پرستی کے نام پر اور بعض اوقات قبائلی عصبیت اور جغرافیائی قومیت کی بنیاد پر ایک مسلمان دوسرے کے سامنے صف آرا ہوجاتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ جنھیں باہم شیروشکر ہونا چاہیے تھا نہ صرف زبان سے بلکہ ہاتھ سے اپنے بھائی کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں؟انفرادی اور معاشرتی سطح پر تشدد، عدم رواداری اور عدم برداشت کیوں پیدا ہوتی ہے؟ کیا اس کا علاج مزید شدت، عسکریت اور قوت کے ساتھ اس کو دبانے سے کیا جاسکتا ہے یا ان برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کرنے کے لیے کسی خاص حکمت عملی کی ضرورت ہے؟ اس تحریر کا مقصد ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔

انسانی معاشرے میں بُرائی، ظلم و استحصال اور طاغوت کا آغاز غیرمحسوس طور پر ایک بظاہر معصومانہ غلطی سے ہوتا ہے اور وہی غلطی جو کل تک غیرمحسوس تھی انسان کو گھنائونے جرم تک لے جاتی ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ برائی کا آغاز انسان کے دل پر ایک چھوٹے سے داغ سے ہوتا ہے۔ اگر مسلمان توبہ کرلے اور نیکی کی طرف پلٹ آئے تو یہ داغ مٹ جاتا ہے لیکن اگر وہ دوبارہ غلطی کا ارتکاب کرے تو یہ داغ بڑھتا رہتا ہے، حتیٰ کہ یہ پورے قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ جب پورا قلب اس کی گرفت میں آجاتا ہے تو پھر انسان کے ذہن سے برائی کے برائی ہونے کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ ہم عموماً یہ بات کہتے ہیں کہ کیا کوئی انسان ایسا گھنائونا جرم کرسکتا ہے کہ وہ ایک بچی یا بچے کو زیادتی کا نشانہ بنائے، یا کسی مسلمان بھائی پر قتل کی نیت سے ہاتھ اُٹھائے، یا کسی راہ چلتے کو، یا مسجد میں اللہ کے حضور اپنا سر جھکانے والے کو مسجد میں گھس کر  نشانۂ قتل بنائے؟ اس حدیث ِ مبارکہ میں سمجھایا گیا ہے کہ شقاوتِ قلبی کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم جن دلوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ شقاوتِ قلبی میں پتھر بلکہ اس سے زیادہ سخت ہوجاتے ہیںکیونکہ بعض پتھر ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو پھٹ پڑتے ہیں اور ان سے پانی کا چشمہ رواں ہوجاتا ہے۔ لیکن جو قلب احساسِ بندگی کو دبا کر نفسی نفسی کے زیراثر داغ دار ہوچکے ہوں پھر وہ انسان جن کے دل میں ایک دھڑکنے والا قلب ِ سلیم نہ ہو بلکہ پتھر کا ایک ٹکڑا ہو تو وہ نہ اپنی آنکھ سے سچائی اور جھوٹ میں تمیز کرسکتے ہیں، نہ اپنے کان سے اچھی اور فحش بات میں تمیز کرسکتے ہیں۔   قرآن کریم نے صحیح کہا ہے: صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸) ’’یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے‘‘۔

عدم رواداری، شدت پسندی، ظلم، ناانصافی، حقوق پر ڈاکا، بچوں اور خواتین کے ساتھ ظالمانہ رویہ، معاشرے میں دھوکا دہی، رشوت، عدم تحفظ، غرض تمام برائیوں کا آغاز ایک فرد کے دل کے داغ دار ہو جانے سے ہوتا ہے اور جب کئی دل داغ دار ہوجائیں تو پورے معاشرے میں فساد و بدامنی پھیل جاتی ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی

اس داخلی سبب کے ساتھ ساتھ بعض بیرونی عناصر بھی انسان میں انتقام، توڑ پھوڑ، ظلم و استحصال کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انسانوں کے حقوق کا پامال کرنا ہے۔ اگر ایک معاشرہ یا ریاست اپنے باشندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرے اور خود آسایش اور ثروت کی زندگی گزارے تو حقوق سے محروم افراد میں انتقامی جذبہ اُبھرنا ایک فطری عمل ہے۔ ایک حدیث میں اس طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے پڑوسی کو عمدہ اور قیمتی پھل نہ کھلا سکتا ہو تو  کم از کم پھل کھانے کے بعد ان کے چھلکے اپنے دروازے کے سامنے گلی میں نہ پھینکے۔ احساسِ محرومی اور فقر انسان میں جو ردعمل پیدا کرتا ہے حدیث میں اسے شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور شرک ایک شخص کو کسی بھی ایسے کام پر آمادہ کرسکتا ہے جو اسلام کے اعلیٰ اخلاقی رویے کی ضد ہو۔ چوری، ڈاکا، قتل کا ایک سبب یہی احساسِ محرومی ہوتا ہے کہ ایک فرد یہ سمجھتا ہے کہ جس دولت میں سے اسے کچھ ملنا چاہیے تھا وہ صرف چند افراد کے قبضے میں ہے، اس لیے وہ اسے غیر اسلامی ذرائع سے چھین کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ریاست اور معاشرہ اپنی اس ذمہ داری سے اسی وقت عہدہ برآ ہوسکتا ہے جب وہ ناداروں کو ان کا حق دے، بے علم افراد کو تعلیم سے آراستہ کرے اور بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرے۔ یہ شہریوں کے وہ حقوق ہیں جو اسلام نے آج سے تقریباً پندرہ سو سال قبل قرآن اور سنت کے واضح احکامات کی شکل میں ہم کو دیے ہیں۔ ہم نہ ان احکامات سے واقفیت حاصل کرنے کی جستجو کرتے ہیں اور نہ انھیں معاشرے اور ریاست میں نافذ کرنے کی۔ آخر زکوٰۃ کو ایک عبادت اور فریضہ قرار دینے کا مقصد اور کیا تھا۔ زکوٰۃ کو ایک ٹیکس قرار دینا زکوٰۃ کے مفہوم اور روح سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ یہ دراصل معاشرے سے افلاس، فقر، بھوک، جہالت، بیماری اور     عدم تحفظ کے خاتمے کے شرعی نظام کا نام ہے۔ نہ صرف زکوٰۃ بلکہ وسیع تر پیمانے پر صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے اسلامی معاشرے کے ہر مجبور، نادار اور ضرورت مند کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

تعلیم

معاشرے اور فرد میں بغاوت و انتقام کا جذبہ پیدا کرنے میں جہالت کا کردار اہم ہے۔ اسی بنا پر قرآن و سنت میں تعلیم کو ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ تعلیم محض چند صلاحیتوں کا پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ بنیادی اخلاقی رویوں کے اختیار کرنے کا نام ہے۔ وہ تعلیم اُمت کے لیے زہر ہے جو اخلاق و آداب اور تعمیر سیرت کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک اعلیٰ معاشی مزدور تو پیدا کرتی ہو لیکن اسے اخلاق، عدل و انصاف، سچائی، پابندیِ عہد اور انسانوں کے حقوق سے آگاہ نہ کرتی ہو۔

گھر کا ماحول

انسانی کردار کی تعمیر کی پہلی بنیاد گھر کی چار دیواری میں رکھی جاتی ہے۔ اگر ایک بچے کو  ماں باپ کی طرف سے محبت، توجہ اور اچھے اخلاق و عادات کو پیدا کرنے پر متوجہ نہ کیا جائے اور بچوں کو مصروف رکھنے اور ان کے سوالات سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے  ٹی وی اسکرین کے حوالے کردیا جائے، تو پھر وہ روزِ اوّل سے تشدد ، ماردھاڑ ، قتل و غارت، چالاکی ، دھوکادہی اور عریانیت و فحاشی کو کارٹونوں کی شکل میں بار بار دیکھ کر اُس حدیث کے مصداق احساسِ مروت، احساسِ شرم، احساسِ فرض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتے ہیں جس میں دل کی سختی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔جدید تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ ایک بچہ عموماً دن میں چار تا آٹھ گھنٹے ٹی وی کے سامنے گزارتا ہے، اور مسلسل چار تا آٹھ گھنٹے تک جب آنکھ کے پردے پر تشدد کے مناظر دہرائے جائیں تو ان کے نقوش یادداشت کے پردے پر مرتسم ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک بچے کا ہنسنا، رونا، روٹھنا، مطالبہ کرنا، چلنا، اپنے چہرے سے مختلف قسم کے تاثرات کا اظہار کرنا، غرض اس کا پورا کردار کارٹون کے کردار کا ایک چربہ بن جاتا ہے۔

گھریلو رویے

جنسی مساوات (Gender Equality) کے زیرعنوان خاندان کے تقدس و احترام کو بڑی تیزی کے ساتھ پامال کیا جارہا ہے اور اس میں ابلاغِ عامہ اور سرکاری تعلیم کے نصاب کا بڑا دخل ہے۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، دونوں شکلوں میں جو کتب استعمال کی جارہی ہیں ان میں انفرادی امتیازات (individualities) اور جنسی مساوات کو مثالوں اور بیانات کی شکل میں بار بار دہرایا جاتا ہے،حتیٰ کہ ایک طالب علم اس مغربی تصور ہی کو حق سمجھتا ہے۔ یہ تصور نہ صرف  اس کی ذاتی شخصیت بلکہ اس کی خاندانی زندگی کو اجتماعیت کی جگہ انفرادیت میں تبدیل کردیتا ہے۔ ایک شوہر اور بیوی دونوں اپنی اَنا، ذاتیت اور انفرادیت کے خول میں گرفتار رہتے ہیں۔ ان کی فکر، ان کا طرزِعمل، ان کا اظہارِ محبت بھی اسی کا اسیر ہوتا ہے اور کسی لمحے بھی اپنے آپ کو بدلنے کے لیے  آمادہ نہیں ہوتے۔ شوہر کی ہرمعاملے میں اپنی پسند ، وہ کھانا ہو، لباس ہو، گھر کا رہن سہن ہو، تفریح ہو، باہمی تعلقات ہوں، اور ایسے میں بیوی کا اپنی ذاتی پسند پر اصرار ، گھریلو عدم تعاون، جذباتی فاصلے اور آخرکار گرم گفتاری اور پھر گھریلو تشدد تک پہنچتا ہے۔ جدید اعداد و شمار، انتہائی تشویش ناک حد تک یہ پتا دیتے ہیں کہ اس وقت ۸۰، ۸۵ فی صد شادیاں اس بحران یا انتشار سے دوچار ہیں۔ یہ وبا ایک معاشرتی کینسر کی شکل اختیار کرگئی ہے اور جب تک تشدد، خودرائی اور انفرادیت کے بتوں کو گھر کے اندر مسمار نہیں کیا جائے گا، ان بتوں کی پرستش سے معاشرہ پاک نہیں ہوسکتا۔

جو بچے ایسے ماحول میں تربیت پائیں گے جہاں گھر روزانہ ایک معرکۂ جنگ کی شکل پیش کرتا ہو وہ معاشرے کو امن و سکون نہیں دے سکتے۔ جو بچہ باپ کو ماں پر ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہے یا جو  ماں باپ اپنے بیٹے کو اپنی بہن کو دھکا دے کر گرانے پر سزا نہیں دیتے وہ گھریلو اور معاشرتی فساد کو کبھی نہیں روک سکتے۔

معاشی استحصال

جس کھیت سے دہقان کو تو روزی میسر نہ ہو لیکن اس کھیت کے مالک کے گھر میں ہر شام محفلِ موسیقی اور پُرتکلف دعوتیں ہورہی ہوں وہ کب تک اپنی ناداری پر نازاں ہوسکتا ہے۔ معاشرے میں معاشی ظلم و استحصال جب بھی بڑھے گا ، عدم تحفظ، تشدد اور توڑپھوڑ کے عمل میں اضافہ ہوگا۔ اس برائی کا دُور کرنا نہ صرف ریاست بلکہ معاشرے کے ہرفرد کا فرض ہے۔ اجتماعی اصلاح کا احساس اس کے لیے مناسب اداروں کا قیام اور سیاسی اور سماجی تحریکات کا ان معاملات میں آگے بڑھ کر اصلاح کا آغاز کرنا ہی معاشرے کو دوبارہ امن و سکون دے سکتا ہے۔

سیاسی عدم استحکام

معاشرے میں جب سیاسی عدم استحکام ہوگا اور کسی کو یقین نہیں ہوگا کہ کل کیا ہونے والا ہے، حکومت کتنے دن کی مہمان ہے تو قانون نافذ کرنے والے  اداروں کا تقدس بھی متاثر ہوگا، اور جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اثر معاشرے میں نہیں ہوگا تو بدامنی ، قانون شکنی اور فساد زمین پر پھیلے گا۔ بیرونی دشمن ہمیشہ یہی حکمت عملی اختیار کرتا ہے کہ کسی ملک کو اندورنی خلفشار میں مبتلا کردے تو پھر بغیر کسی جنگ یا عسکری فتح کے وہ دوسرے ملک کو ناکارہ بنا سکتا ہے۔ جب بھی سیاسی عدم استحکام اور بدامنی ہوگی معاشی بدحالی اور بدانتظامی کا دور دورہ ہوگا تو یہ مزید استحصال، ظلم اور    عدم تحفظ کو پیدا کرے گا۔ اس طرح بیرونی سرمایہ کار اس ملک کا رُخ کرتے ہوئے ہچکچائیں گے  اور مقامی سرمایہ کار اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرنا چاہیںگے۔ نتیجتاً معاشی انتشار، زوال اور بے روزگاری اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوگا۔

اس لیے معاشرتی توڑ پھوڑ کے عمل کو چند خوب صورت سیاسی بیانات سے دُور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے حکومت ِ وقت اور معاشرے کے ذمہ دار ارکان کو یکساں طور پر اپنے فرائض کو پورا کرنا ہوگا۔

اخلاق و کردار

کسی بھی معاشرے کے بگاڑ میں سب سے بنیادی دخل اس معاشرے کی اخلاقی اقدار کا  ہوتا ہے۔ اگر اخلاق گر گیا تو معاشرہ بھی گرے گا اور اگر اخلاق اعلیٰ اور بلند ہوگا تو معاشرہ بھی   صاف ستھرا، پُرامن اور پُرسکون ہوگا۔

ہم نے مغرب کی اندھی نقالی میں اپنے اخلاقی سرمایے کو ایک طرف لپیٹ کر رکھ دیا ہے اور ہرہرشعبے میں مغربی اخلاق و اقدار کے منفی پہلوئوں کو عالم گیریت کے نام پر سینے سے لگا لیا ہے۔ چنانچہ مغرب کی پابندیِ وقت، محنت کرنے کی عادت، عوام کو جواب دہی، عدالتوں میں قانون کی بالادستی جیسی عادات کی جگہ مغربی فحاشی ، آزادی کے نام پر احترام اور تقدس کو تارتار کرنا، مساوات کے نام پر خواتین کا استحصال اور انھیں ایک معاشی کھلونا بنا دینا، دین کی جامع تعلیمات کی جگہ اسلام کو مذہب قراردینا اور پھر مذہب کو تمام معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی، معاشی، سیاسی اور قانونی معاملات سے خارج کرنے کو ترقی پسندی کا نام دے دیا ہے۔

اسلام کے اعلیٰ اخلاقی نظام کی جگہ ہم نے لادینی مفاد پرست اخلاقیات کو ہرسطح پر رائج کرنے کے لیے اپنے ابلاغِ عامہ کو بداخلاقی کے ہراول دستے کا مقام عطا کردیا ہے۔ ہمارا ابلاغِ عامہ ملک سے مایوسی، ملک کے محافظوں سے نفرت، ملک کی اخلاقی اقدار کی جگہ ہندوانہ ثقافت کو رائج کرنے میں پیش پیش ہے، اور ہر وہ بُرائی جو سرحد پار کے معاشرے میں رائج ہو اسے مزید بدتر شکل میں ہمارے ہاں متعارف کرانے میں مصروف ہے۔

اس غیر اخلاقی عمل کو ہم نے ’ابلاغِ عامہ کی آزادی‘ کے خوش کن نعرے کی شکل دی ہے اور آزادیِ اظہار کی ایک نئی تعریف ایجاد کی ہے جس کے نتائج معاشرے میں جابجا نظر آرہے ہیں۔

رواداری اور برداشت : اسلامی حکمت عملی

ہر وہ معاشرہ جو اسلامی تصور صبر، قناعت، مسابقت فی الخیرات، اخوت، قربانی اور   تعاون علی البر کی جگہ درآمد کیے ہوئے ہندوانہ یا مغربی تصورات و اقدار کو اختیار کرے گا، اس میں معاشرتی توڑ پھوڑ کا عمل فطری طور پر ہوگا اور قوتِ برداشت کی جگہ فوری فائدے کے حصول کی نفسیات کارفرما ہو گی۔

قرآن و سنت کا دیا ہوا حل نہ صرف آسان ہے بلکہ انتہائی عملی ہے۔ زندگی کے ہرمرحلے کے لیے اس نے جو حکمت عملی دی ہے ہم نے اسے اپنی ناسمجھی کی بنا پر پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اسلام کایہ حل نہ وقت میں قید ہے نہ مکان میں بلکہ ہر دور میں اور ہرمقام پر یکساں قابلِ عمل ہے۔ اس حکمت عملی کے چند نمایاں پہلو یہ ہیں:

فرد میں اعتدال:

توازن اور عدل کا رویہ:قرآن کریم کاہر فرمان ایک فرد، خاندان، معاشرے اور ریاست ہر سطح پر امن و سکون پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ہمیں اسے گھر، تعلیم گاہ اور معاشرے میں متعارف کرانا ہوگا۔

قرآنِ کریم کی بنیادی تعلیمات میں توحید کے بعد سب سے اہم تعلیم، عدل، توازن اور اعمال کو جیساکہ اس کا حق ہے ادا کرنے کی ہے۔ ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور عدل کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ توازن سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کی روش سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘ (المائدہ ۵:۸)۔ یہ عدل انسان کے ذاتی، خاندانی، معاشرتی اور بین الانسانی معاملات میں خوب صورتی اور حُسن پیدا کرتا ہے اور اس عدل کی کمی ، ظلم، استحصال اور ناانصافی کو پیدا کرتی ہے۔ اس لیے عدل کے بغیر کسی معاشرے میں بھلائی اور اصلاح نہیں ہوسکتی ۔ معاشی بدحالی سے زیادہ عدل کا فقدان تباہی کا باعث بنتا ہے۔

معاشرتی حقوق کی ادایگی:

وہ حقوق والدین کے ہوں یا بیوی اور بچوں اور پڑوسیوں کے، ہمیں انھیں اولیت دینا ہے اور مغربی انفرادیت کے خول سے نکل کر اسلام کے اجتماعیت کے تصور کو اختیار کرنا ہے۔اسلام ایک جامع اجتماعی نظام ہے، یہ محض ایک فرد کی انفرادی اصلاح کا نسخہ نہیں ہے۔ حقوق کی ادایگی باہمی رواداری، اخوت کو پروان چڑھانے اور طبقاتی نظام سے نجات کا ذریعہ بنے گی۔ فقرا و مساکین کی ضروریات کا پورا کرنا کوئی ’خیراتی‘ کام نہیں ہے۔   یہ انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ اس لیے فرمایا گیا: وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۵۱:۱۹)یعنی’’ تمھارے اموال میں سائل اور محروم کا حق ہے‘‘۔

مسلمان کے مسلمان پر حقوق کو تعلیم گاہوں، دفتروں، تجارتی مراکز، غرض ہر مقام پر تعلیمی اور دیگر ذرائع کا استعمال کرکے ان حقوق کی آگاہی اور ان پر عمل کو ضابطہ بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں جو کم از کم عملی کام کرنے ہوں گے وہ اختصار سے درج ذیل ہیں:

غصہ پر قابو:

یہ وہ شیطانی عمل ہے جو ایک انسان کو چند لمحات کے لیے عقل و دانش کی جگہ انتقام اور زیادتی کی طرف لے جاتا ہے۔ ارشاد رحمۃ للعالمینؐ ہے: ’’جو (خلافِ حق بولنے سے) اپنی زبان کی حفاظت کرے گا، اللہ اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا، اور جو اپنے غصے کو روکے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عذاب کو اس سے ہٹائے گا،اور جو خدا سے معافی مانگے گا خدا اس کو معاف کردے گا‘‘۔(عن  انسؓ، مشکوٰۃ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسٰی ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: ’’اے میرے رب! آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سے کون سب سے پیارا ہے؟‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہ جو انتقامی کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے‘‘۔(عن ابوہریرہؓ، مشکوٰۃ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’طاقت ور وہ شخص نہیں ہے جو کُشتی میں دوسروں کو پچھاڑ دیتا ہے بلکہ طاقت ور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقعے پر اپنے اُوپر قابو رکھتا ہے (یعنی غصے میں آکر کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا جو اللہ او رسولؐ کو ناپسند ہو)۔(عن ابوہریرہؓ، بخاری)

جھوٹ سے نجات:

ہر وہ شے جھوٹ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے گئے معاہدۂ اطاعت و فرماں برداری سے ٹکراتی ہو۔ ایفاے عہد، خوش کلامی، عفو و درگزر، امانت داری یہ وہ احکامات ہیں جن کے خلاف کوئی عمل کرنا جھوٹ پر عمل کرنا ہے۔

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس شخص کے اندر ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ اس کو ترک کردے۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں: جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے، اور جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی سے اس کا جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے‘‘۔(عن عبداللہ بن عمروؓ، بخاری، مسلم)

تعلقات کی اصلاح اور دوغلے پن سے نجات:

ہمارے معاشرے میں دوعملی اور دورُخاپن ایک بیماری کی شکل اختیار کرگیا ہے جو آخرکار تشدد و ٹکرائو کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں دورُخے پن کو ختم کر کے اخلاص اور بھلائی کی تلقین کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’جو شخص دنیا میں دو رُخاپن اختیار کرے گا تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی‘‘۔( عن عمارؓ، ابوداؤد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم قیامت کے دن بدترین آدمی اُس شخص کو پائو گے جو دنیا میں دو چہرے رکھتا تھا۔ کچھ لوگوں سے ایک چہرے کے ساتھ ملتا تھا اور دوسرے لوگوں سے دوسرے چہرے کے ساتھ‘‘۔(متفق علیہ)

صوبائی،قبائلی ، سیاسی عصبیت:

ظلم اور عدم رواداری کا ایک بڑا سبب برائی کا دفاع، اپنی برادری یا قبیلے کا ساتھ دینے کی بنا پر کرنا ہے۔ یہ ایک عظیم گناہ اور معاشرتی بگاڑ کا ایک بڑا سبب ہے۔ جو شخص اس مرض میں گرفتار ہوا اس کی آنکھ وہی دیکھتی ہے جو اس کی برادری، قبیلہ یا جماعت اسے دکھائے۔

ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض کی نشان دہی یوں فرمائی: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیںہے جو عصبیت کی دعوت دے، اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے، اور وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی حالت میں مرے‘‘۔( عن جبیر بن مطعمؓ، ابوداؤد)

راوی کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ’’اپنے لوگوں سے محبت کرنا کیا عصبیت ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم کے معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دے‘‘۔(عن ابونسیلہؓ، مشکوٰۃ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص (کسی ناجائز معاملے میں) اپنی قوم کی مدد کرتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی اُونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور یہ اس کی دُم پکڑ کر لٹک گیا ہو تو یہ بھی اس کے ساتھ جاگرا‘‘۔(عن ابن مسعودؓ، ابوداؤد)

جھوٹی گواھی:

ہم اکثر اپنی وابستگیوں اور تعلقات کے اتنے غلام ہوجاتے ہیں کہ عدل اور حق ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ لسانی عصبیت ہو یا قبائلی اور نسلی عصبیت ان بتوں کو پوجنے کے لیے ہم ایسی اصطلاحات ایجاد کرلیتے ہیں جو ہمیں محبت کے نام پر نفرتوں کو پھیلانے کی آزادی دے دیں۔

کسی طاغوتی طاقت کو امن و سلامتی کا رکھوالا سمجھنا، کسی سودی قرض دینے والے ادارے کی ہرطرح کی شرائط تسلیم کرکے قوم کو قرض کے بوجھ تلے دبا دینا، کسی نام نہاد عالمی ادارے کو خوش کرنے کے لیے اسلامی شریعت کے منافی دستوری ترمیمات کے ذریعے شرعی احکام کو پامال کرنا، اپنے ذاتی مفاد اور معاشی فائدے کے لیے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال دینا___ یہ سب معاملات شہادت زور (جھوٹی گواہی) کی تعریف میں آتے ہیں اور جب تک ان سے توبۃ النصوح نہ کی جائے اور ان کی طرف پھر کبھی رُخ نہ کیا جائے اس وقت تک معاشرے میں امن و سکون، رواداری اور اخوت و محبت پیدا نہیں ہوسکتی۔

آج شہادت زور ٹی وی اسکرین پر ہو یا عدالت میں یا کسی عظیم الشان اجتماع میں، اسے ایک فنکارانہ صلاحیت اور چابک دستی قرار دیاجاتا ہے۔ اس کی اصلاح کے بغیر معاشرہ اور فرد بھلائی اور سکون حاصل نہیں کرسکتا۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے: ’’خریم بن فاتکؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی اور جب لوگوں کی طرف رُخ پھیرا تو بیٹھے رہنے کے بجائے آپؐسیدھے کھڑے ہوگئے اور تین بار فرمایا: ’’جھوٹی گواہی دینا اور شرک کرنا دونوں برابر کے گناہ ہیں‘‘۔(ابوداؤد)

پھر آپؐ نے پڑھا: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ (تو تم ناپاکی یعنی بتوں سے دُور رہو اور جھوٹی بات کہنے سے دُور رہو اور خدا کے لیے یک سُو ہوجائو، شرک چھوڑ کر توحید اختیار کرو)۔

شہادتِ زور کو الرجس قرار دینا خود اس کے گھنائونا ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جھوٹی گواہی محض عدالتوں میں نہیں بلکہ ایمان کے دعوے کے بعد نماز کی ادایگی نہ کرنا، زکوٰۃ کا ادا نہ کرنا، ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہنا، طاغوتی قوتوں کے خلاف کلمۂ حق بلند نہ کرنا غرض زندگی کے تمام معاملات میں اس اہم تعلیم کا دخل ہے۔ اسلامی شخصیت کی تعمیر اسی وقت ہوسکتی ہے جب شہادتِ زور سے مکمل طور پر نجات حاصل کی جائے۔

افواھوں کی سرکوبی:

آج آزادیِ صحافت اور آزادیِ راے کے نام پر جس بے دردی کے ساتھ حقائق کا گلا کُندچھری سے ذبح کیا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ بن گیا ہے۔ یہ افواہیں بُرائی کے فروغ اور ظلم و استحصال کے لیے سازگار فضا پیدا کرتی ہیں اور لوگوں کو ورغلا کر سڑکوں پر آکر توڑپھوڑ اور معصوم شہریوں کی اِملاک کو نقصان پہنچانے پر اُبھارتی ہیں۔ اس فتنے کی اصلاح بلاتاخیر کرنی ہوگی۔ دین کی حکمت کو قیامت تک سب سے زیادہ سمجھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’شیطان آدمی کے بھیس میں کام کرتا ہے، وہ لوگوں کے پاس آکر جھوٹی باتیں بیان کرتا ہے۔ پھر لوگ جدا ہوجاتے ہیں (یعنی مجلس ختم ہوجاتی ہے اور یہ لوگ منتشر ہوجاتے ہیں) تو ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے کہ مَیں نے یہ بات ایک آدمی سے سنی ہے جس کا چہرہ تو مَیں پہچانتا ہوں لیکن نام نہیں جانتا‘‘۔ ( عن ابن مسعودؓ، مسلم)

خیرخواھی اور حق گوئی:

معاشرے کے ہر کلمہ گو فرد کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے اصلاح اور نیکی کے قیام کے لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دینا ہوگا۔ وہ افراد جو اپنے آپ کو اسلامی تحریک سے وابستہ سمجھتے ہوںان پر یہ فریضہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ہرہرسطح پر اپنے ہاتھ،اپنی زبان اور اپنے دل کے ساتھ امربالمعروف ونہی عن المنکر اور خیرخواہی اور نصیحت کے فریضے کو انجام دیں۔

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’دین خلوص و خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔ یہ بات آپؐ نے تین دفعہ فرمائی۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کس کے لیے خلوص اور خیرخواہی؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے اجتماعی نظام کے سربراہوں کے لیے، اور عام اہلِ اسلام کے لیے‘‘۔(عن تمیم داریؓ، مسلم)

خلوصِ نیت سے اصلاحِ احوال کے لیے بھلائی کا مشورہ دینا، امر بالمعروف کرنا اور اس مشورے میں کوئی تخصیص نہ کرنا دین کا تقاضا ہے۔ یہ نصیحت ہرہرسطح پر کرنی ہوگی۔ وہ ایوانِ اقتدار ہو یا کسی تحریک کا نظم، وہ عام کارکن ہوں یا مرکزی ذمہ داران، اس سے کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک یہ پُرخلوص تنقید ہوتی رہے گی ادارے، تحریکات اور ملک کے سربراہان راہِ راست پر رہیں گے۔ جب مصلحت، بزرگی اور منصب کے احترام کی بنا پر حق بات کا نہ کہنا عام ہو جائے تو پھر نہ کوئی ادارہ، نہ کوئی گھر، نہ کوئی جماعت اور نہ کوئی ملک صحیح خطوط پر ترقی کرسکتا ہے۔

 تعلق باللّٰہ:

دین کے تمام معاملات کا انحصار تعلق باللہ پر ہے۔ اس لیے امربالمعروف اور نصیحت ہو یا افواہوں کو رد کرتے ہوئے حق کی گواہی دینے کا مرحلہ، تحریک کے اندر کسی کمزوری کی نشان دہی اور خلوصِ نیت کے ساتھ اس کی اصلاح کی کوشش ہو یا احتسابِ نفس اور ذمہ داران کا احتساب، ہرہرعمل کی بنیاد تعلق باللہ پر ہے۔ جتنا ہمارا تعلق اپنے رب سے، اس کے بھیجے ہوئے  کلامِ قرآنِ مجید اور اس کے مقرر کردہ ہادی اعظمؐ اور خاتم النبیینؐ سے انتہائی قریبی نہیں ہوگا، ہماری کوئی کوشش بارآور نہیں ہوسکتی۔ ربِ کریم کا وعدہ ہے اور اس کا ہر وعدہ حق ہوتا ہے کہ جب اہلِ ایمان اللہ کو رب مان کر اس پر استقامت سے جم جاتے ہیں اور کسی اور کی حاکمیت ماننے کو تیار نہیں ہوتے، تو وہ اَن دیکھی قوتوں سے ان کی نصرت کرتا ہے اور کامیابی کو ان کا مقدر بنا دیتا ہے۔

معاشرہ، خاندان اور ریاست سے تشدد کا خاتمہ مزید تشدد سے نہیں دین کی حکمت اور دین کی واضح تعلیمات کے نفاذ ہی سے ہوسکتا ہے۔ عدل کا قیام، سچائی کا فروغ اور امانتوں کا ان کے اہل افراد کے سپرد کرنا کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔

اکیسویں صدی کا آغاز جن واقعات سے ہوا، انھوں نے اسلام اور مغرب کی تاریخی آویزش کو ایک نئی شکل دے دی اور ہر دو فریق جن خدشات، خطرات اور تنازعات کا شکار ہوئے، وہ عالمی نقشے پر بعض بنیادی تبدیلیوں کا سبب بن گئے۔ مغربی اقوام خصوصاً امریکا کے سامراجی عزائم عملی شکل اختیار کر گئے اور مغرب کے تمام حقوق انسانی، سرحدی آزادی، ملکی خود مختاری اور امن عالم کے نام نہاد نعروں کی قلعی کھل کر سامنے آگئی۔ مغرب کے بعض نمایندہ مفکرین نے سیاسی، سامراجی عزائم کو نئے عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کا چوغا پہنا کر مسلم ممالک کے توانائی کے وسائل پر عسکری قوت سے قبضہ کرنے کے گھنائونے عمل کو امریکا کی ـ’قومی سا لمیت کے تحفظ‘ کا نام دیا۔ ۱۹۹۲ء میں امریکی مفکر سیموئل پی ہن ٹنگٹن نے اپنے ایک مقالے میں جس تہذیبی ٹکرائو کے خدشے کا اظہار کیا تھا وہ عملاً پہلے سے تحریر شدہ ایک کہانی کے خاکے کی طرح ستمبر ۲۰۱۱ء میں افغانستان اور عراق پر یلغار کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔ واقعات کے اس منطقی تسلسل نے مسلم ممالک کی غالب آبادی کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان کے فرماںروا جس امریکا یا مغرب دوستی کا دم بھرتے ہیں وہ کتنی کھوکھلی، ناپایدار اور مغرب کے مفاد پر مبنی ہے۔

نائن الیون نے جہاں منفی تاثرات پیدا کیے، وہیں خود مغرب میں اس سانحے نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تجسّس اور حقیقت حال کو سمجھنے کی خواہش کو بیدار کیا۔ اس واقعے کے ایک ماہ کے اندر امریکا کے کتب فروشوں کے پاس قرآن کریم کے جتنے نسخے انگریزی ترجمے کے ساتھ موجود تھے، فروخت ہو گئے اور اسلام پر کتب کی بڑی مانگ پیدا ہو گئی۔ قرآن کریم نے بالکل صحیح کہا ہے کہ بعض چیزوں سے انسان کو کراہت آتی ہے، جب کہ ان میں رحمت ہوتی ہے، اور بعض چیزیں اچھی معلوم ہوتی ہیں، جب کہ ان میں ضرر ہوتا ہے۔ اسلام اور مغرب کی اس تازہ آویزش نے دونوں جانب دانش وروں اور محققین کو اس نئی صورتِ حال کے تجزیے اور اس کے پس ِ منظر میں چھپے اسباب پر تفکر کی دعوت دی، اور مغرب جو اپنے سامراجی دورسے استشراق کے زیرِ عنوان مسلم ممالک کی زبانوں، ثقافت اور تاریخ کو سمجھنے میں مصروف تھا، اب اس کی اس کاوش میں مزید اضافہ ہوا۔

مکالمہ___ تاریخ کے تناظر میں

اگر تاریخ کے آئینے میں اس صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو ساتویں صدی عیسوی میں ظہور اسلام کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اہلِ کتاب کو دعوتِ مکالمہ دینے میں پہل کرتے ہوئے مختلف سطح پر رابطہ اور تبادلۂ خیال کی راہیں نکالیں۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے  نامۂ مبارک، جو مختلف عیسائی و غیر عیسائی فرماںروائوں کو لکھوائے گئے تھے ، رابطے کے اولین اقدامات کہا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور خصوصاً اہل ِکتاب کو باربار دعوتِ فکر دیتے ہوئے مشترک بنیادوں پر اس مکالمے کا آغاز کرنے کی دعوت دی۔ اس بنا پر     یہ خیال کرنا درست نہ ہو گا کہ اسلام اور مغرب کا مکالمہ کوئی نئی چیز ہے۔ یہ مکالمہ اسلامی ریاست اور معاشرے کے دورِ عروج میں بھی رہا اور مسلمانوں کے دورِ زوال بلکہ مغربی سامراج کی محکومی کے دوران بھی جاری رہا ،گو ہر دور کے لحاظ سے مکالمے کے دائرے اور زاویے بدلتے رہے۔

قرآنی زاویے سے اس مکالمے کا پہلا مقصد الہامی ہدایت کو ماننے والے مذاہب میں قُرب پیدا کرنا ہے، تا کہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے لیے جس میں اسلامی نظام نافذ ہو چند مشترک بنیادوں پر اہلِ کتاب کو معاشرتی اور عائلی تعلق کے دائرے میں لے آیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام نے اہلِ ایمان مسلمان مردوں کو صالح اہلِ کتابیہ سے عقد نکاح کی اجازت دے کر اہلِ کتاب کے ساتھ خاندانی تعلق کے قیام کو ممکن بنایا، لیکن اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ایک مسلمان خاتون کسی اہلِ کتاب سے نکاح کر سکے۔ وجوہات بڑی واضح ہیں۔ اس طرح مادی طور پر خاندانی رشتہ تو قائم ہو جاتا ہے لیکن گھر کے تمام امور کا فیصلہ اسلامی شریعت کو تسلیم نہ کرنے والے کے ہاتھ میں رہتا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ آیندہ آنے والی اولاد بھی غیر اسلامی اصولوں پر پرورش پاتی ہے، جب کہ اہلِ کتابیہ سے شادی کی شکل میں گھر کا ماحول اور اولاد کی تربیت مکمل طور پر ایک صاحب ِ ایمان کی سرپرستی میں ہوتی ہے۔ یہ موقع تفصیلات میں جانے کا نہیں ہے ہم صرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان مکالمہ محض نظری سطح پر نہیں بلکہ خاندان، تجارت اور بین الاقوامی امور پر ہر سطح پر ظہور ِ اسلام سے رہا ہے، اس لیے کثرتیت (Pluralism) کی بات اسلام کے تناظر میں کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔

تاریخی حیثیت سے مغرب اور عیسائی دنیا کا تعلق اتنا قریبی رہا ہے کہ عموماً مغرب دوستی یا مغرب دشمنی کو عیسائی دوستی اور دشمنی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے، جب کہ مغرب نے سولھویں صدی عیسوی کے بعد شعوری طور پر عیسائیت سے اپنا فاصلہ بڑھانے کے عمل___ آزادیِ راے، جمہوریت، انفرادیت، مادیت، مثبتیّت (Positivism) ___کو اپنی فکری بنیاد قرار دیا اور سرمایہ دارانہ فکر کو  اپنا بنیادی نظریہ اور پہچان قرار دیتے ہوئے اپنے معمولات میں ہفتہ میں ایک دن کا کچھ حصہ   اپنے مذہب کے لیے مخصوص کرنے میں اپنی بھلائی جانی، اور مذہب اور دیگر معاملات کے درمیان   عدم تعلق اور فاصلہ رکھنے کو علمی اور عملی حیثیت سے اتنی تکرار کے ساتھ پیش کیا کہ دیارِ مغرب کے باہر بسنے والے افراد بھی اپنی تمام ’مذہبیت‘ کے باوجود زندگی کی اس دوئی میں عملاً مبتلا ہو گئے۔

لیکن غیر مغربی معاشروں کو جب اور جہاں بھی اس خرابی کا شعور ہوا، ان کے دانشوروں اور علما و اساتذہ نے اس پہلو پر توجہ دی۔ چنانچہ تاریخ کے ہر دور میں اصلاح و تجدید کی کوششوں کا بنیادی نکتہ یہی رہا کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لایا جائے۔

یہاں صرف یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مغرب سے مکالمہ ہو یا مجادلہ، دونوں شکلوں میں مشترک بنیادوں پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے بعض بدیہی پہلو نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ مغرب جس فکر کا ملغوبہ ہے اس کی روح ’مذہب‘ کو محدود کرنے میں مضمر ہے۔ چنانچہ سیکولرازم عموماً یہ نہیں کہتا کہ خالق کائنات، انسانوں کے مالک اور رب کا مکمل انکار کیا جائے، بلکہ صرف اتنی بات کہہ کر اس مقصد کو حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ کے دائرہ کار کو مسجد، کلیسا اور ہیکل تک محدود کر دیا جائے۔ مسلمان ہو یا عیسائی یا یہودی وہ اپنے مقررہ دن اور مقررہ وقت پر اپنے عبادت خانے میں جا کر جو چاہے کرے لیکن ہفتہ کے بقیہ دنوں میں کاروبار ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا ثقافتی سرگرمیاں،  ان تمام معاملات میں ’مذہب‘ کو دخل دینے کا اختیار نہ ہو۔ دین اور دنیا کی یہ تفریق مغربی ذہن اور مغربی تہذیب کی بنیاد ہے۔ اسی کو ہم لادینیت یا سیکولر ازم کہتے ہیںجسے لامذہبیت یا الحاد کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ لادینیت مذہب کو غیر فعال بنانے اور زندگی کو دو خانوں میں بانٹ دینے کا نام ہے۔ یہ ذہن اور یہ فکر اگر ایک ایسے شخص کے اندر پائی جاتی ہو جو ہر جمعہ کو نماز پڑھتا ہو اور ہفتہ کے بقیہ دنوں میں سر پر نماز کی ٹوپی پہن کر اسٹاک ایکسچینج میں بازی لگاتا ہو ،تو اس کا نماز کی    ٹوپی پہننا اور جمعہ کو باقاعدگی سے نماز ادا کرنا اسے غیر سیکولر نہیں بنا سکتا۔ سیکولرازم وہ بنیادی مرض  ہے جس کے زہریلے اثرات مغربی تہذیب اور مغرب کے ہر ہر شعبۂ حیات میں سرایت کر چکے ہیں، اور اب یہ زہر اس کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے مغرب خود اپنے اس اندرونی مرض کا احساس بھی نہیں کر پاتا۔

مکالمے کی سطحیں

مغرب سے مکالمے کی طرف بڑھتے وقت اس تاریخی پس منظر پر نگاہ دوڑائی جائے تو اسلام کا مکالمہ کم از کم چھے محاذوں یا چھے سطح (levels) پر کرنا ہوگا۔

تصورِ حیات:

ان میں سب سے اول سطح تصور حیات ہے، یعنی مغربی تہذیب جس تصور حیات کی نمایندگی کرتی ہے اور اسلام جو تصور حیات دیتا ہے، ان میں کون سی چیزیں مشترک ہیں اور کہاں پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ کن مقامات پرمفاہمت کی شکل کا امکان ہے اور کہاں پر کوئی تعاون نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک ان حدود کا تعین نہ کر لیا جائے مکالمہ اور مکالمے کا تذکرہ ایک نمایش سے زیادہ نہ ہو گا۔ کسی بھی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کے لیے ضروری ہے کہ قواعدِ عمل اور موضوعات کا تعین پہلے کرتے ہوئے گفتگو کو انھی نکات تک محدود رکھا جائے۔

مغربی تصورِ حیات تین بنیادوں پر قائم ہے۔ اولاً: انسان کی معاشی ضروریات اس کی تمام مساعی کا محرک اور کامیابی کا پیمانہ ہیں۔ چنانچہ مادیت اور مادی ترقی زندگی کا اولین مقصد ہے۔   ثانیاً: زندگی گزارنے کے لیے خوشی اور لذت کا حصول، انسان کی تمام توجہات کا مرکز ہونا چاہیے۔ چنانچہ لذیذ کھانے، تفریحی سفر، شام کے اوقات میں ثقافت کے نام پر حصولِ لذت و خوشی کے لیے موسیقی، ڈراما اور ٹاک شوز، فیشن شوز میں شرکت ایک بنیادی داعیہ اور ضرورت ہے۔ ثالثاً: ’مذہب‘ ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس لیے مذہب کو زندگی کے دیگر معاملات میں داخل ہونے سے روکا جائے اور کائنات اور انسانی معاشرہ دونوں کو کسی الٰہی ہدایت کا پابند نہ بنایا جائے ۔انسان اپنی ذاتی راے اور قوتِ فیصلہ سے اپنے معاملات طے کرے۔ اخلاق اور مذہب ایک اضافی چیز ہے۔ انفرادیت (Individualism) یا فرد کی مکمل آزادی کہ وہ جو چاہے کرے، مغربی تہذیب کی پہچان ہے۔

تصورِ حیات کی سطح پر اسلام ان تمام تہذیبوں سے اختلاف کرتا ہے، جو مغرب میں ہوں یا مشرق میں، اور جن کی بنیا داُوپر تحریر کردہ تثلیث ہو۔ اسلام انسان کو ایک اخلاقی مخلوق قرار دیتے ہوئے زندگی کے تمام معاملات عالم گیر اخلاقی اصولوں کے مطابق کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر جھوٹ بولنا اور عدل نہ کرنا انفرادی سطح پر غلط ہے، تو معاشرتی اور ملکی اور عالم گیر سطح پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔ یہ وقت کے ساتھ نہ تبدیل ہوتا ہے اور نہ فرد کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی صوابدید اور عقل کے مطابق سچ اور عدل کی تعریف کرلے۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد ایک ایسے خالق کے وجود پر نہیں ہے جو کائنات بنانے کے بعد کسی گوشے میں آرام کر رہا ہو، بلکہ وہ حي و قیوم(زندۂ جاوید ہستی) اور عزیز و علیم(صاحب ِ اقتدار و صاحب ِ علم ہستی) ہونے کی بنا پر، ہر لمحے اپنی مخلوق کی نگرانی اور بھلائی میں مصروفِ عمل ہے۔ وہ انسان کو اس کی ضروریات کے پیش نظر ہدایت سے نوازتا ہے اور وقتاً فوقتاً الہامی ہدایت کی شکل میں عالم گیر اخلاقی ضابطہ اور قانون دیتا ہے، تا کہ معاشرے میں عدل و اخوت اور رواداری قائم ہو اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکے نہ ڈالے جاسکیں۔ وہ اپنے بندوں کو مال، صحت اور وسائل دیتا ہے، تاکہ وہ اس کے نمایندہ اور خلیفہ ہونے کی حیثیت میں ان وسائل کو انسانیت کی فلاح کے لیے امانت کے احساس کے ساتھ توازن و اعتدال سے استعمال میں لائیں۔ اسلامی نظریۂ حیات اس دنیا کو ایک تجربہ گاہ قرار دیتے ہوئے، انسان کی محدود زندگی کا مقصد تعمیری، اصلاحی اور اخلاقی طرزِ عمل سے ایک طرف مثالی عادلانہ معاشرہ قائم کرناقرار دیتا ہے، جس میں ایک جانب انسان خوشی، لذت اور اطمینان پاتا ہے اور دوسری طرف اس دنیا میں اخلاقی طرزِ عمل اختیار کرنے کے نتیجے میں وہ آنے والی ابدی زندگی میں انسان سے بہترین اجر اور انعامات سے نوازے جانے کا حقیقی اور سچا وعدہ فرماتا ہے۔

اس حیثیت سے دیکھا جائے تو تصورِ حیات میں اختلاف کے باوجود ایسے اُمور میں جہاں انسانوں کا مجموعی مفاد ہو اسلام اور وہ تہذیبیں جو لذت، دولت اور فرد کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں، انتہائی محدود اور مخصوص صورتوں ہی میں تعاون علی البرّ کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام سے وابستہ افراد کا یہ فریضہ بھی ہے کہ وہ اپنے تصور حیات کی وضاحت اور تعارف کے لیے دیگر تہذیبوں کے ساتھ تبادلۂ خیالات اور مکالمے کا مناسب استعمال کریں، تاکہ حق، عدل، اخوت اور عالمی انسانی برادری کے عالم گیر اصولوں پر تعاون کی فضا پیدا ہو سکے۔

تعلیم و تحقیق:

مکالمے کی دوسری سطح تعلیم اور علمی تحقیق ہے، یعنی اسلام کے ماننے والے افراد اشاعت ِعلم، تصورِ علم، علم کی مختلف شاخوں اور مناہج پر عبور حاصل کرنے کے بعد نتائجِ فکر کو انسانی برادری کے سامنے پیش کریں، اور اس طرح اسلامی فکر عالمی سطح پر دیگر انسانوں کو غوروفکر اور اسلامی نظامِ حیات کی برکتوں سے متعارف کرا سکے۔ تاریخی طور پر مسلمان نہ صرف علوم اسلامی کے ماہربنے،بلکہ طب، ریاضی، طبیعیات، کیمیا اور دیگر علوم کے یورپ تک پہنچنے کا ذریعہ بنے۔ اور آگے چل کر مسلم دنیا سے مغرب کی جانب علوم کی یہ منتقلی ایک علمی مکالمے کی شکل میں یورپ کی ترقی کی بنیاد بنی اور یورپ بالخصوص علم کی استخراجی حکمتِ عملی (Deductive method) کی جگہ علم کی استقرائی حکمتِ عملی  (Inductive method)  سے آشنا ہُوا۔

معیشت:

مغرب کے ساتھ مکالمے کی تیسری سطح معیشت کا میدان ہے۔ جہاں آج اس حقیقت کے باوجود کہ یورپ و امریکا کے معاشی ادارے اور بین الاقوامی معاشی تنظیمات، مثلاً  عالمی تجارتی تنظیم (WTO)، عالمی بنک اور آئی ایم ایف مغربی سامراجیت کے زیر سایہ ترقی پذیر اقوام کو معاشی محکوم بنانے میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب مغرب میں سرمایہ دارانہ معیشت اور سودی بنکاری کی ناکامی اب نوشتۂ دیوار سے زیادہ ایک منہ بولتی حقیقت ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اسلامی معیشت کے عادلانہ اصول، اخلاقی طرزِ عمل اور شراکت کی بنیاد پر تجارت کا فروغ ایسے اصول ہیں، جو آج بھی علمی اور عملی مکالمے کے ذریعے مغرب کے سامنے پورے اعتماد اور فخر کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔

مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہو یا ہندو بنیے اور یہودی سود خواری کا نظام، ان نظاموں کا زوال ایک زیادہ ذمہ دار متبادل معاشی نظام کی ضرورت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ تاریخ کے اس نازک دور میں اسلام اور مغرب کا معاشی سطح پر مکالمہ اور اسلامی اصولوں کی اشاعت مغرب کے گرتے ہوئے معاشی نظام کو ایک نئی زندگی سے روشناس کر ا سکتا ہے۔

بنیادی اخلاقی اقدار:

اسلام اور مغرب کے مکالمہ کی ایک اور سطح ان بنیادی اقدار کے دوبارہ متعارف کرانے کا عمل ہے جو کچھ عرصہ قبل خود مغرب میں بھی قابل احترام سمجھی جاتی تھیں، لیکن مادیت، انفرادیت اور لذتیت کی تثلیث پر ایمان و عمل نے ان اقدار کو متزلزل کر دیا ہے۔   ان اقدار میں نظامِ خاندان کا احیا اور اسلامی خاندان کے تصور کا مغرب کے سامنے پیش کیا جانا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مغربی تہذیب ہی نہیں، کسی بھی تہذیب کی بقا اور احیا اس کی آنے والی نسلوں پر منحصر ہوتا ہے ۔ اگر آنے والی نسلوں کو اخلاقی اقدار سے روشناس نہ کرایا جائے، ان کی تربیت گھر اور تعلیم گاہ میں نہ ہو، انھیں قربانی، ایثار، حق گوئی، عدل اور رواداری کی صفات گھر کے ماحول اور تعلیم گاہ میں نظر نہ آئیں تو اس تہذیب کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔ مغرب اور اس کی نقالی میں بہت سی دیگر اقوام نے خاندان کے ادارے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے، شادی دیر سے کرنے اور تنہا رہنے کے تصور کو، اور ’انسانی حقوق‘ کے نام پر حیوانی حقوق سے بھی کم تراِس تصور کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یک جنسی شادی کے تصور کو یورپ اور امریکا میں قانونی تحفظ فراہم کر کے، انسانی تہذیب کی مکمل طور پر تباہی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ روم اور یونان اپنے فلسفہ اورادب کی ترقی کے باوجود، اپنی اخلاقی بے راہ روی اور خاندان کے نظام کے تباہ ہونے کے بعد سنبھالا نہیں لے سکے، تو مشینوں پر پلنے والی تہذیب اور ٹکنالوجی پر فخر کرنے والی اقوام کب تک مشینی کُل پرزوں کے سہارے تہذیب و ثقافت کی گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالا دے سکیں گی۔ اس مکالمے میں اسلام، مغرب کو بہت کچھ دے سکتا ہے اور عالمِ انسانیت کی بقا اور احیا کے لیے صحت مند اور آزمودہ اقدار فراہم کر سکتا ہے۔

شدت پسندی اور جہاد:

اسلام اور مغرب کے مکالمے کی ایک سطح دہشت گردی، سفاکیت اور خودکش ذہنیت کے حوالے سے وہ غلط العام ابلاغی اور دانش ورانہ یلغار ہے، جس نے اسلام اور اسلامیان کو بہت سے مقامات پر ایک معذرت پسندانہ رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کر دیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ قرآن و سنت کی بنیاد پر جہاد اسلامی کی حقیقی صورت کو واضح کیا جائے، کہ یہ ظلم و استحصال اور ناانصافی کو دور کرنے ، امن، اخوت، محبت اور انسانیت کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ اسلامی جہاد کے صحیح خدوخال کو واضح کیا جائے۔ اب سے تین چوتھائی صدی قبل مولانا محمد علی جوہر ؒکی خواہش پر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو تحریر اس حوالے سے لکھی تھی (الجہاد فی الاسلام) جدید تناظر میں اسی معیار اور وزن کی علمی تحریر کے ذریعے اس سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ابلاغِ عامہ جس تکرار کے ساتھ بعض الزامات کو دہراتا رہا ہے، حتیٰ کہ بہت سے صحیح الفکر افراد بھی اس مغالطے میں آ چکے ہیں کہ اسلام شدت پسندی اور دہشت گردی کو گوارا کرتا ہے، اس پروپیگنڈے کا علمی سطح پر جواب دیا جائے اور مغرب کے دانش وروں اور ابلاغ عامہ کو اس طرف متوجہ کیا جائے۔ یہ نہ صرف دو تہذیبوں کے باہم افہام و تفہیم کے لیے بلکہ خود دعوتِ اسلامی کے مستقبل کے لیے غیرمعمولی اہمیت کا حامل موضوع ہے اور اس پر بلاکسی تاخیر کے علمی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

عورت کا مقام اور حقوق:

خواتین کے حوالے سے مغرب اور مغرب زدہ مسلمانوں نے جن شبہات اور اعتراضات کو بار بار دہرایا ہے ان پر بھی مکالمے کی ضرورت ہے، تاکہ ہر دو جانب سے رجوع کے بعد اسلام کی صحیح تعلیمات کھل کر سامنے آ سکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام مساواتِ مرد و زَن کو بنیادی انسانی خمیر (Constituent) کی سطح پر تسلیم کرتا ہے، یعنی مرد اور عورت دونوں کا خالق اللہ ہے اور دونوں کو ایک ہی جان سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس اصولی موقف کے بعد اسلام ہر دو صنفوں کے حقوق و فرائض اور معاشرے میں کردار کی روشنی میں عادلانہ بنیاد پر دائرۂ کار کو متعین کرتا ہے، اور اس میں بعض اوقات مردوں کو اور اکثر اوقات عورتوں کو فضیلت دیتا ہے۔ لیکن غیر مسلم تہذیبوں کے اثرات جو صدیوں سے مسلم معاشرے میں نفوذ کرتے رہے ہیں، ان کے سبب بہت سے ایسے رواج نہ صرف مسلم معاشرے میں بلکہ عالمی طور پر دیگر معاشروں میں رائج ہوگئے جن کا کوئی رشتہ اسلام سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ یہ قبائلی روایتی عصبیت اور نام نہادمردانگی کے تصور پر مبنی رویے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ٹکراتے ہیں، اور بعض اوقات مسلمانوں کا انھیں اختیار کرنا ایسا ہی ہے جیسے بعض مسلمان اپنے پیدایشی اسلام کے باوجود غیر اخلاقی حرکات کا ارتکاب کرتے ہوں۔ کیا ان کے اس انحراف کو اسلام سے منسوب کیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک یورپی جو صرف اتوار کے دن چرچ جاتا ہو اور بقیہ تمام دنوں میں سخت بد اخلاقیوں کا ارتکاب کرتا ہو، تشدد کو پسند کرتا ہو، اس کے اس عمل کی بنا پر ہم عیسائیت کو اس کی بے راہ روی کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں؟ لیکن جب انسانی ذہن ابلاغ عامہ کی زہر پھیلانے والی یلغار کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر عقل کی آنکھ بند ہو جاتی ہے اور وہ محض سنی سنائی بات پر یقین کر بیٹھتا ہے۔ مغرب کے ساتھ مکالمے کا ایک اہم پہلو اسلام کے حوالے سے خواتین کے حقوق اور ان کا مقامِ فضیلت ہے جس پر غیر معمولی سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ علمی سطح پر کام کی ضرورت ہے۔

اسلام اور مغرب کے مکالمے کے موضوعات اورکس کس سطح پر اس مکالمے کو ہونا چاہیے، کے حوالے سے ایک طویل فہرست پیش کی جاسکتی ہے لیکن ہمارا مقصود کوئی حتمی فہرست ِ موضوعات پیش کرنا نہیں، بلکہ صرف اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ ٹکرائو اور آویزش کی جگہ علمی اور فکری مکالمہ  ایک ایسی تعمیری کوشش ہے جسے ہمیشہ اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر صرف ان چھے بنیادی مباحث پر علمی اور سنجیدہ مکالمے کو آگے بڑھایا جائے تو نہ صرف ان سے متعلق مغا لطوں کو دُور کیا جاسکتا ہے، بلکہ اسلام اور مغرب کی آویزش میں کمی اور افہام و تفہیم کے ذریعے اسلام کے عالمی پیغام کو متعارف کرایا جاسکتا ہے۔(بہ شکریہ مغرب اور اسلام، شمارہ ۳۹، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد)

روزہ جہاں تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے وہاںیہ ایک نئی ثقافت ، ایک نئی فکر اور ایک نئے تصورِ حیات سے روشناس کرانے کا نام بھی ہے۔چنانچہ رمضان ایک ایسی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے جس کی بنیاد تقویٰ اور توحید ہے۔ یہ تہذیب اپنے مظاہراور اپنے اثرات کے لحاظ سے ایک منفرد پہچان اور شخصیت کی حامل ہے۔ ہم عام طور پر ثقافت اس مجموعی تہذیبی عمل کو کہتے ہیںجس میں اس تہذیب کی اقدارِ حیات، فنونِ لطیفہ، شعر و ادب، فن تعمیر، قانون، تعلیم معاشرت او رمعیشت اس تہذیب کے نظریے کی عکاسی کرتی ہوں، مثلاً مغربی ثقافت کی بنیادی قدر (value) مادہ پرستی اور لذت پرستی ہے۔ چنانچہ مغربی تہذیب کی معیشت ہو یا شعر وادب، فنون لطیفہ ہو یا تعلیم اور قانون، تمام شعبوں میں مادیت اور لذت پرستی اور لادینیت کے واضح اثرات پائے جاتے ہیں۔

مغربی ہی نہیںکوئی بھی مادی تہذیب ایسی نہیں پائی جاتی جو زندگی کو دو خانوں میں تقسیم   نہ کرتی ہو، یعنی مادی اور روحانی معاملات۔ مغربی تہذیب کے معاشی اور سیاسی نظام میں مادیت کو مرکزی اور کلیدی مقام حاصل ہے۔ اس تہذیب میں مذہب کو ایک ذاتی فعل سمجھا جاتا ہے۔ گویا لادینی نظام میں مذہب کو صرف اس حد تک آزادی ہوتی ہے کہ ایک شخص جن کاموں کو مذہبی سمجھتا ہو انھیں اپنی ذات کی حد تک کر سکے۔ گرجا میں جا کر عبادت کرنی ہو یا شادی بیاہ کے موقعے پر مخصوص مذہبی رسوم، وہ ان سب کا اہتمام کرتا ہے لیکن اس کی معیشت اور سیاست میں مذہب کے لیے کوئی مقام نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ مغربی تہذیب میں مذہب کو انفرادی معاملہ سمجھتے ہوئے ایک ذاتی سرگرمی قرار دیا جاتا ہے۔ اس بنیادی تصور کا انعکاس مغربی تہذیب کے ہر ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی بنیاد توحید، یعنی اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت پر ہوتی ہے۔ چنانچہ معاشرتی مسائل ہوں یا معاشی، سیاسی اُمور ہوں یا ثقافتی، ان سب کی بنیاد تقویٰ اور توحید کے قرآنی اصولوں پر رکھی جاتی ہے۔

ثقافت اور تہذیب کی اصطلاحات میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے اور یہ اکثر بطور متبادل کے استعمال ہوتی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ثقافت کا بڑا حصہ ان اصول و مبادی پر مبنی ہوتا ہے جو کسی نظریۂ حیات کی اساس ہوتے ہیں، مثلاً وہ کائنات کے بارے میں کیا تصور رکھتے ہیں، ان کا خالق کائنات کے بارے میں کیا عقیدہ ہے، وہ اچھائی اور برائی کے کن معیارات کو اپنی زندگی کے معاملات کو طے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ اصول و مبادی اور یہ ثقافت ایسے علم کو، ایسی معیشت کو، ایسی معاشرت کو اور ایسی تہذیب (civilization) کو پیدا کرتے ہیں جو بنیادی ثقافتی اقدار کی نمایندہ ہوں، مثلاً اسلامی ثقافت کی بنیاد توحید اور تقویٰ پر ہے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ   تہذیبی مظاہر (manifestations) میں شرک کا وجود نہ ہو مثلاً فن تعمیر میں جان دار تصاویر، وہ انسانوں کی ہوں یا جانوروں کی، ان کا استعمال نہ کیا جائے۔ چنانچہ اسلامی فن تعمیر ہو یا خطاطی اور مصوری اس کے اعلیٰ نمونوں میں انسانی شکل اور حیوانی مجسمے اور شکلیں نہیں بنائی جاتی ہیں۔

اسلامی ثقافت کی بنیاد:

اسلامی ثقافت کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ رمضان المبارک تقویٰ پیدا کرنے والا مہینہ ہے اور تقویٰ کا واضح مظہر وہ زبان، وہ لباس، وہ غذا ہوگی جو تقویٰ پر مبنی ہو، مثلاً تقویٰ مطالبہ کرتا ہے کہ لباس سادہ اور ساتر ہو، غذا حلال ہو، زبان فحش نہ ہو اور اس میں نرمی و احترام پایا جائے۔ چنانچہ جو تہذیب بھی ان بنیادوں پر قائم ہوگی اس کے ماننے والوں کے طرزِ عمل اور بودو باش میں توحید اور تقویٰ کی جھلک ہوگی۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو رمضان ایسی ثقافت کو متعارف کراتا ہے جو توحید اور تقویٰ پر قائم ہے اور جس کااظہار تہذیبی اداروں میں پایا جاتاہے۔

روزہ ایک الہامی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے، چنانچہ رمضان کا پورا عرصہ اس بات کی تربیت دیتا ہے کہ ایک شخص سوچنے کے زاویے کون سے اختیار کرے۔ اس کے علم کاماخذ اور مصدر کیا ہو؟ صداقت سے کیا مراد ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ عدل کی حقیقت کیا ہے؟ اسلامی ثقافت ان تمام بنیادی سوالوں کے واضح جواب فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ اس مہینے کا آغاز جس چیز سے ہوتا ہے وہ رضا کارانہ طور پر اللہ کی بندگی میں آنا اور حاکمیت الٰہی کا اقرار ہے کہ ایک انسان اپنی قسمت کا، اپنے معاملات کافیصلہ کرنے والا خود نہیں ہے بلکہ یہ دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ اُس کا خالق ، اُس کا مالک، اُس کا رب کس چیز سے خوش ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملہ کو طے کرنے کی بنیاد کیا محض ذاتی راے، محض ذاتی تجربہ، محض ذاتی مشاہدات ہوں یا فیصلے کی بنیاد اللہ کی بھیجی ہوئی وحی اور ہدایت ہوگی رمضان جس ثقافت کو قائم کرتا ہے اس کی پہچان للہیت ہے، یعنی ہر کام کو کرنے سے قبل یہ جائزہ لینا کہ اس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوں گے یا ناراض۔ یہی تقویٰ کی عام فہم تعریف ہے۔

اسلامی ثقافت جس تہذیب کو قائم کرتی ہے اس میں توازن، سادگی اور تقویٰ کا اظہار ہرعمل میں پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لباس ایک تہذیبی علامت ہے۔ ایک شخص جو لباس پہنتا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا مقصد حیات کیا ہے؟ کیا وہ معاشرے میں بسنے والے افراد کو اپنے لباس کے ذریعے اپنی دولت اور معاشی مقام و مرتبے سے آگاہ کرنا چاہتا ہے، یا ساتر اور سادہ لباس کے ذریعے اپنی سادگی اور نمایشی کاموں سے بچنے کی عادت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔اس لیے اگر کوئی ایسا لباس استعمال کرے جس سے نمایش مقصود ہو تو ایسا لباس اسلامی ثقافت و تہذیب کے منافی ہوگا۔  رمضان کے دوران نہ صرف لباس بلکہ گفتگو میں بھی اسلامی اخلاقی اصولوں کا لحاظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رمضان میں جو ماحول پیدا ہوتا ہے وہ ہر اچھی بات کو پھیلانے میں مدد گار ہوتا ہے اور ہربُری بات کو روکنے میں امداد کرتا ہے۔

رمضان الکریم جس ثقافت کو متعارف کرانا چاہتا ہے اس کی پہچان زبان کی احتیاط ، نگاہ کی احتیاط، کان کی احتیاط، معاملات میں احتیاط ہے۔ گویا کہ یہ ایک ایسی تہذیبی تبدیلی ہے جو ایک ماہ کے عرصے میں ایک نئی تہذیبی روایت اور ماحول کو پیدا کرتی ہے۔ جس میں تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب تعاون کرو) اور وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔المائدہ ۵:۲)کی جھلک نظر آتی ہے۔

شریعت کا احترام اور اسلامی اقدار کی پابندی:

ثقافت کے عناصر ترکیبی میں قانون بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کے دوران اسلامی شریعت کے ہر ہر حکم کی پیروی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس ماہ کی تربیت شریعت کے احترام اور پابندی کی عادت کو مستحکم کر دیتی ہے۔ اسلامی ثقافت کی بنیادی اقدار میں سے ایک اہم قدر خواتین کا احترام اور ان کو جنسِ تجارت  بنانے (commercialization ) سے اجتناب ہے۔ اسلامی ثقافت مطالبہ کرتی ہے کہ خواتین کے اعلیٰ مقام کو پامال نہ کیا جائے اور ان کے جسم کو معاشی فائدے کے حصول کے لیے استعمال نہ کیا جائے، چنانچہ اشتہارات میں خواتین کا استعمال اسلامی ثقافت کی ضد ہے۔ اسی طرح اسلامی ثقافت چاہتی ہے کہ مردو زن میں اختلاط نہ ہو کیونکہ یہ برائی کی جانب پہلے قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔ رمضان کے دوران اس ثقافتی قدر کو باربار یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اجتماعات ہوں یا تقریبات، ان میں مرد اور عورتیں الگ الگ نشست و برخواست رکھیں۔ بعض مسلم ممالک میں ابلاغ عامہ کو چلانے والے ادارے مغربی اورسرحد پار کی غیر اسلامی تہذیبوں کے زیر اثر رمضان میں بھی اپنے خیال میں جو ’دینی‘ پروگرام کرتے ہیں ان میں ایک نوجوان اور دوسری جانب ایک بنی سنوری خاتون کو بٹھا کر اسلامی معاشرت پر قرآن و حدیث کے حوالے سے بات چیت یا سوال و جواب کراتے ہیں۔ یہ رمضان کے تقدس کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ حدیث نے حیا کو ایمان کا بڑا حصہ قرار دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جس میں حیا نہیں وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت حیا کی ثقافت ہے اور اس ماہ میں خصوصی طور پر حیا کا اختیار کرنا روزے کو مقبول بنا دیتا ہے۔ حیا محض شرم کا نام نہیں ہے بلکہ حیا ایک وسیع تصور ہے۔  اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بزرگوں کا احترام اور بچوں کے ساتھ شفقت و محبت کس طرح اختیار کی جائے۔

روز مرہ معاملات اور قرآنی تعلیمات:

رمضان کے دوران دین کے علم میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔ مالی اختیارات میں فضول خرچی سے بچتے ہوئے ہاتھ کی کشادگی کس طرح اور کس حد تک اختیار کی جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دوران اپنے اہل خانہ اور دیگر مسلمانوں پر کثرت سے خرچ کرتے تھے۔ اس انفاق کی ثقافت کو کس طرح رائج کیا جائے۔ خصوصاً ایسے افراد کی امداد جو ہاتھ پھیلانے میں شرم محسوس کرتے ہوں، ان کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔ گھروں میں قرآن کریم کی تعلیمات کو کس طرح رائج کیا جائے اور روایتی طورطریقے جو صدیوں سے گھروں میں رواج پا گئے ہیں کس طرح ان کی جگہ اسلامی اخلاقی ضابطوں کو نافذ کیا جائے۔ یہ پورا مہینہ ان تمام معاملات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں آنے کے اعلان کے ساتھ خلوص نیت سے قرآنی تعلیمات کو بتدریج اپنی زندگی میں، اپنے گھر میں اور اپنے معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے مؤثر  عملی اقدامات کیے جائیں۔

اپنے روز مرہ کے معاملات اور تعلقات کو اللہ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا نام ہی توحید ہے۔ جب ایک شخص اپنے آپ کو ان تمام غلامیوں سے نکالتا ہے جو بچپن سے جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک غیر محسوس طور پر اس پر اثر انداز ہوتی ہیں، وہ برادری کی روایات ہوں، والدین اور بزرگوں کے سکھائے ہوئے طریقے ہوں یا معاشرے سے اخذ کی ہوئی عادات، جب ایک شخص ان سب کو جانچنے کے لیے توحید کی کسوٹی استعمال کرتا ہے، تو پھر اس کے تعلقات، فکر اور معاش، سیاست، گھر کے فیصلے، سب کی بنیاد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو جاتی ہے۔ یہی روزے کا مقصد ہے کہ انسان میں تقویٰ کی روش پیدا ہو، وہ اپنے قلب، دماغ، جسم خواہشات ہر چیز کو اللہ کی    خوش نودی کا تابع بنائے۔ یہی توحیدی ثقافت ہے جو ہر انسانی عمل کو اللہ کی بندگی میں لے آتی ہے۔

احترامِ انسانیت:

ایک اور اہم خصوصیت جو یہ ثقافت ہمارے اندر پیدا کرتی ہے وہ احترام آدمیت اور احترام انسانیت ہے، یعنی روزے کے دوران اس بات کی شدت سے ممانعت ہے کہ ایک شخص کے ہاتھ سے کسی کو نقصان پہنچے، زبان سے کسی کو تکلیف پہنچے، اس کی گفتگوئوں سے کسی کی دل آزاری ہو۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کا ایسا کرنا اسلامی ثقافت کی روح کے منافی ہوگا۔ گویااحترام انسانیت کے ساتھ وہ طرزِ عمل جوروزہ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے یہ ہے کہ ایک مومن نہ کسی سے بلند آواز سے مخاطب ہو، نہ کسی پر ہاتھ اُٹھائے، نہ کسی کی جان لے، نہ کسی کو تکلیف پہنچائے،بلکہ اس مہینے میں اپنی تربیت اس طرح کرے کہ وہ دوسروں کی جان، مال اور عزت کا محافظ بن سکے۔

احترامِ مال:

ایک اور اہم پہلو جو اس ثقافت کی پہچان ہے وہ یہ ہے کہ افراد کے ساتھ معاملات میں، بالخصوص مالی معاملات میںدیانت داری کو اختیار کیا جائے۔ چنانچہ یہ ثقافت ہمارے اندر مال کے احترام اور حُرمت کااحساس پیدا کرتی ہے کہ اگر سونے کا ڈھیر بھی کسی کے سامنے پڑا ہو تو وہ اس کو ہاتھ بھی نہ لگائے کیونکہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ جو شخص روزے کے دوران سخت پیاس اور بھوک میں بہترین کھانا سامنے ہونے کے باوجود اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھاتا، وہ یہ کیسے کرسکتا ہے کہ عام حالات میں کسی دوسرے کی دولت پر ہاتھ ڈالے۔ گویا اس ثقافت کی ایک بنیاد وہ احترا م ہے جو دوسرے کی ملکیت یا مال کے بارے میں یہ ثقافت ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتی ہے۔

عمل کے لیے شعوری رویہ:

اس ثقافت کا ایک اوراہم پہلو جو روزہ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سارے معاملات کی بنیاد ایک شعوری عمل ہو، عقلی رویہ ہو جس میں ایک شخص سوچنے سمجھنے کے بعد یہ طے کرے کہ مجھے کوئی کام کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔  مثلاً ایک شخص اگرمعمولی سی فہم بھی رکھتا ہو، تو وہ یہ بات تسلیم نہیں کرے گا کہ اپنی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے منشیات کا استعمال کرے، یا شراب کا استعمال کرے جو اس کواپناغلام بنا لیں۔ یہ رویہ عقل و شعور کا نہیں ہوسکتا۔ روزہ ایسی فضا پیدا کرتا ہے جس میں منشیات کے خلاف جہادکا جذبہ پیدا ہو جائے اور ایک شخص بجاے منشیات کا غلام بننے کے ایسا عقلی رویہ اختیار کرے جس میں شعوری طور پر یہ دیکھ سکے کہ اس کے لیے کیا چیز مفید ہے اور کیا نقصان دہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک ظلم یہ ہے کہ اشتہارات کے ذریعے بچوں کو بھی ایسے مشروبات پینے کی ترغیب دی جاتی ہے جو طبی معلومات کی روشنی میں صحت کے لیے مضر ہیں اور آہستہ آہستہ منشیات تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ رمضان کے دوران ان مُضِر مشروبات کے اشتہار افطاری کے حوالے سے دکھائے جاتے ہیں جو اسلامی ثقافت سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

رمضان وہ ثقافت پیدا کرتا ہے جس میں محض شعوری رویہ ہی نہیں بلکہ انسانوں کے حوالے سے بھی یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ انسان اپنی فطری ضروریات کو اخلاقی ضابطے میں رہتے ہوئے کس طرح پورا کرے۔چنانچہ روزہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ روزے کے دوران کن کاموں سے اجتناب کیا جائے، مثلاً جنسی ضرورت کا پورا کرنا۔ اسلامی ثقافت میں جنس بجاے خود ناپسندیدہ چیز نہیں ہے۔ روزے کے دوران جنسی تعلق قائم نہ کرنا تزکیہ اور تربیت کا ایک ذریعہ ہے لیکن روزہ مکمل کرنے کے بعد جائز تعلق قائم کرنا تقویٰ کی علامت ہے۔ قرآن کریم رہبانیت اور مجرد رہنے کی ممانعت کرتا ہے اور ترغیب دیتا ہے کہ اہل ایمان خاندانی زندگی گزاریں۔ چنانچہ وہ حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں میں سے جو مجرد ہوں ان کے نکاح کر دیے جائیں۔ رمضان میںجنسی تعلق کے حوالے سے قرآن پاک اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اگر اجازت نہ دی گئی تو بعض افراد خیانت کریں گے، اس لیے روزے کے افطار کے بعد سے سحر کے وقت تک ایک شخص کو جائز خواہشات کو پورا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ گویا اس ثقافت کی بنیاد جائز تعلقات کا احترام ہے، اُن کا باقی رکھنا، اوران کے حقوق کا ادا کرنا ہے۔ روزے کے دوران بعض کاموں سے رُک جانا اور افطار کے بعد انھی کاموں کا مباح ہو جانا یہ پیغام دیتا ہے کہ روزے کی اصل روح اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کا احترام ہے۔ یہ حدود جنسی تعلقات سے متعلق ہوں یا غذا اور آرام سے متعلق، ان پر عمل کرنا ہی روزے کو باعث اجر بناتا ہے۔

محبت و اطاعتِ رسولؐ:

روزہ ہمارے اندروہ ثقافت پیدا کرتا ہے جواللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وجود کے احساس کے ساتھ ساتھ، اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ؐکی محبت ہمارے دلوں میں اُتارتی ہے۔ ہم ہر معاملے میں یہ چاہتے ہیں کہ یہ دیکھیں کہ خاتم النبینؐ نے کس کام کو کس طرح سے کیا۔ چنانچہ آپؐ کی سنت اور آپؐ کے عمل کی پیروی ہمارے ایمان میں وہ قوت اور تازگی پیدا کردیتی ہے جو اس با برکت موسم کا امتیاز ہے۔ روزے کے ذریعے جو ثقافت پیدا ہوتی ہے وہ گویا توحیدی ثقافت ہے۔ وہ ثقافت عدل والی ہے۔ وہ احترام اور حیا کی ثقافت ہے۔ وہ احترام مال کی ثقافت ہے۔  وہ احترام عقل و شعور کی ثقافت ہے ۔وہ اطاعتِ رسولؐ کی ثقافت ہے۔ اس کے اندر وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک معاشرے کو پُرامن بنا سکتی ہیں۔ اس ثقافت کو وجود میں لانے اور اس کی حیات کو روح فراہم کرنے والی شے قرآن کریم ہے جس کے نزول کی شان میں یہ عبادتوں والا مہینہ اس کلام عزیز کے بھیجنے والے نے خود منتخب فرمایا۔ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ کا اشارہ اسی جانب ہے کہ یہ محترم مہینہ ہے جو ایسی ثقافت کو وجود میں لاتا ہے جس میں ہرعمل اللہ تعالیٰ کی رضا کا پابند ہے۔ اس مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے۔ فرمایاگیا: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَــیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ (البقرہ۲:۱۸۵)، یعنی یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا جو ہدایت ہے انسانوں کے لیے۔ یہ فرق بتانے والا ہے اچھائی میں اور برائی میں۔ یہ ہر چیز کو واضح بیان کردیتا ہے اور ہمیں سمجھا دیتا ہے کہ کون سے کام کرنے کے ہیں اور کون سے نہ کرنے کے۔

عالم گیر ثقافت:

رمضان جو ثقافت پیدا کرتا ہے وہ کوئی نمایشی اور مصنوعی ثقافت نہیں ہے، بلکہ ایک عالم گیر ثقافت ہے جس میں تمام انسانوں کے لیے بھلائی، ہدایت اور کامیابی کا راز ہے۔ یہ مہینہ قرآن کے ساتھ قریبی تعلق پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ اس میں ہر صاحب ایمان کتاب کے ساتھ ایک ذاتی اور گہرا تعلق پیدا کرتا ہے۔ وہ زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ توحید کی اکائی کے تحت زندگی کے تمام کاموں میں یک جہتی، یگانگت اور وحدانیت پیدا کرتا ہے۔

روزہ اس ثقافت کو پید ا کرتا اور پروان چڑھاتا ہے جو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میںہمیں تعمیراور ترقی کے تمام مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ اُس ثقافت کی مخالفت کرتا ہے جو برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغربی یا ہمسایہ ملکوں کی غیر اخلاقی ثقافت کو ہم تک پہنچاتی ہو۔ یہ ثقافت، علاقائیت، رنگ و نسل، زبان اور جغرافیائی حدود کی غلام نہیں ہے بلکہ آفاقی اور   عالم گیر ہے۔ قرآن کریم اپنے بارے میں یہی کہتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے، چنانچہ اس کی ثقافت بھی عالم گیر ثقافت ہے۔ یہ عالمی امن، احترامِ انسانیت اور حقوق انسانی کو بحال کرنے والی ثقافت ہے۔ اس کی پہچان اخلاقی رویہ اور انسانوں کے حقوق کو جیسا ان کا حق ہے ادا کرنا ہے۔ یہ حقوق و فرائض کی واضح تقسیم پر مبنی ثقافت ہے۔ (مقالہ نگار کی کتاب روزہ اور ہماری زندگی کا ایک باب۔، ناشر: منشورات، لاہور)

 حقیقت ِ حال اور مستقبل

عالمی سطح پر گذشتہ نصف صدی سے عمرانی علوم (سوشل سائنسز) کی جانب تدریسی اور تحقیقی میدانوں میں انحطاط کا رحجان محسوس کیا جا رہا ہے۔ بظاہر اس کا سبب طلبہ اور حکومتوں کا ٹیکنالوجیکل مضامین میں دل چسپی لینا اور جامعات میں انجینیرنگ، کمپیوٹر سائنس، بیالوجیکل اور فزیکل سائنسز میں داخلوں اور سہولیات پر زیادہ توجہ دینا نظر آتا ہے۔ اس رحجان کا اثر عمرانی علوم کے شعبوں میں داخلوں میں کمی اور اطلاقی علوم میں داخلوں میں کثرت کے ساتھ طلبہ اور طالبات کے تناسب میں بھی نظر آتا ہے۔ عموماً میڈیکل کالجوں اور ڈینٹل کالجوں میں طالبات کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ یہ تناسب اکثر ۶۰،۷۰ فی صد طالبات اور تقریباً ۳۰، ۴۰ فی صد طلبہ کی تعداد کی شکل میں کم از کم اسلام آباد کی جامعات میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

بالعموم عمرانی علوم کو طلبہ اور والدین وہ اہمیت نہیں دیتے جس کے یہ مستحق ہیں۔ ان علوم میں تاریخ، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات اور اسلامی علوم وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔ وہ طلبہ جو  اطلاقی علوم (Applied Sciences) میںداخلے نہ حاصل کر سکیں عموماً عمرانی علوم میں داخلہ لے کر  عمرانیات، نفسیات، معاشیات، سیاسیات یا اداراتی علوم میں ایم اے کرنے کے بعد عام طور پر تدریس سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ڈگری کالجوں میں اپنے مضمون کو جیسا کہ انھوں نے اپنے اساتذہ سے پڑھا تھا، پڑھا کر ایک پُرسکون زندگی گزارنے پر قناعت کرتے ہیں۔ عمرانی علوم پڑھانے والے اساتذہ میں سے بہت کم افراد ایسے ہیں جو ان علوم کے فکری اور نظریاتی ارتقا سے واقفیت اور اس پورے عمل پر گہری نگاہ رکھتے ہوں۔ اکثر اساتذہ کا ہدف کورس کی کتاب میں درج اصطلاحات و مضامین کی کچھ وضاحت اور ان میں پیش کیے گئے تصورات کو طلبہ تک منتقل کرنا ہوتا ہے۔ بہت کم اساتذہ ایسے پائے جاتے ہیں جو کورس کی مقررہ کتابوں کے علاوہ تحقیقی مضامین اور تازہ طبع ہونے والی کتب سے استفادہ کرتے ہوں یا طلبہ کو ان کی طرف متوجہ کرتے ہوں۔ نتیجتاً عمرانی علوم علمی حیثیت سے جس مقام پر کھڑے ہوں انھیں وہیں پر رہنے دیا جاتا ہے، جب کہ فزکس، کیمسٹری اور دیگر سائنسز کے بارے میں جدید تحقیقات، کم از کم ایم ایس اور ایم فِل کی سطح پر ضرور علم میں لائی جاتی ہیں۔ جدید علمی تحقیقات سے کما حقہ واقفیت اور ان کے تجزیہ و تحلیل کے بعد ہی ان علوم میں آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ گذشتہ ۱۰ برسوں میں ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) نے جامعات کی زمرہ بندی اور اساتذہ کی ترقی کے حوالے سے جو علمی پیمانے بنا کر نافذ کیے ہیں     اس کے نتیجے میں کم از کم عالمی جرائد میں پاکستانی اساتذہ کے مضامین کی اشاعت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، اور امید کی جاسکتی ہے کہ نہ صرف تعداد کے لحاظ سے بلکہ اپنے اعلیٰ معیار کی بنا پر    ان مضامین سے نئی ایجادات میں بہت مدد ملے گی۔ اس خوش آیند پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے  اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ جو عمرانی علوم اور اطلاقی علوم ہماری جامعات میں پڑھائے جا رہے ہیں وہ کس حد تک قومی تعلیمی مقاصد و اہداف پر پورے اُترتے ہیں۔ ہم اس سلسلے میں چند گزارشات اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں:

مغربی عمرانی علوم کی فکری اساس

تاریخی طور پر عمرانی علوم یا Social Sciences اور Behavioral Sciences کی اصطلاحات متبادل طور پر استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ انھیں Human Sciences بھی کہا جاتا ہے جو شاید زیادہ جامع اصطلاح کہی جا سکتی ہے۔ اصطلاح کی افضلیت سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو گذشتہ ڈیڑھ سو سال سے پاکستان میں جو عمرانی علوم پڑھائے جا رہے ہیں یہ انگریز کے دورِ غلامی سے آج تک ایک تسلسل کی شکل میں یورپی جامعات میں اب سے ڈیڑھ سو سال قبل پڑھائے جانے والے مضامین کا ایک چربہ ہیں، حتیٰ کہ نصابی کتب بھی جوں کی توں ہیں۔ گذشتہ ۵۰برسوں میں یورپ اور امریکا میں ان علوم میں جو اضافے اور تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں ہماری جامعات  ان سے بڑی حد تک بے خبر انھی کتب اور تصورات کو ہمارے طلبہ کو پڑھا رہی ہیں جو انگریز کے دورِغلامی میں ہم پر لادینی نظامِ تعلیم میں نافذ کی گئی تھیں۔

جنوب مشرقی ایشیا کی بعض جامعات میں عمرانی علوم کے اِس پہلو پر علمی مکالمہ جاری ہے۔ پاکستان کے تناظر میں عمرانی علوم کے فکری اور نظریاتی پہلو پر تنقیدی نگاہ ڈالنا بہت ضروری ہے۔

عمرانی علوم کسی بھی معاشرے میں پائے جانے والے انسانوں کے باہمی تعلقات اور معاشی، سیاسی، قانونی، ثقافتی، تعلیمی اور عائلی تعلقات سے بحث کرتے ہیں۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی طرزِ عمل (behavior) کا جائزہ لیتے ہیں اور نہ صرف اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس کے بارے میں تبدیلی اور ممکنہ ردعمل سے بھی مطلع کرتے ہیں۔ چنانچہ علمِ معاشیات نہ صرف انسان کے معاشی ذرائع پیداوار، تقسیم وسائل بلکہ دولت اور وسائل کے پیداواری عمل میں لگائے جانے اور حصولِ منفعت کے حوالے سے اندازے قائم کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے اور انسان کے معاشی طرزِ عمل کی سمت کا تعین کرنے میں موجودہ معلومات کی بنیاد پر مستقبل کے نقشے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ایسے ہی علمِ عمرانیات (سماجیات) کسی بھی معاشرے میں پائے جانے والے بنیادی ادارہ، خاندان اور اس سے متعلقہ قانونی، اخلاقی اور دیگر پہلوئوں سے آگاہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ انسان کس طرح معاشرے سے متاثر ہوتا ہے، معاشرہ کیسے وجود میں آتا ہے اور اس کے ترقی کرنے یا زوال کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ قانون اور تعلیم کا کردار معاشرے میں کیا ہے اور اخلاقی اقدار کیسے وجود میں آتی ہیں۔

جہاں تک سوشل سائنسز یا عمرانی علوم کے طریقِ تحقیق کا تعلق ہے اس کا ماخذ بھی یورپ میں استعمال کیے جانے والے تجربی طریقے (Empirical Methods) ہیں۔ چنانچہ معاشیات ہو یا عمرانیات جو پیمانے ترقی(Progress, Development) کو ناپنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، ان کی فکری بنیاد یورپی تصورِ حیات (World View) ہی فراہم کرتا ہے۔ اگر سماجی ترقی کا اندازہ کرنا ہو تو یورپی تصورِ حیات میں جو معیارِ زندگی (Quality of Life)، گھر کی مکانیت اور اس میں سہولیات کا ہونا، سڑکوں، بجلی اور ذاتی سواری کا ہونا، اوسط عمر، خاندان میں افراد کی تعداد، غرض وہ بہت سے پہلو جنھیں تجربی طور پر اعدادو شمار میں لایا جا سکتا ہے وہی ترقی، کامیابی اور ڈویلپمنٹ کے اشاریے (Indicators) قرار دیے جاتے ہیں۔

اس وضاحت سے جو بات کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اور عالمِ اسلام میں جو عمرانی علوم، عمرانیات یا معاشیات پڑھائے جاتے ہیں اور جس کی بنیاد پر کسی ملک یا معاشرے کو  ترقی یافتہ، کسی کو پس ماندہ اور کسی کو زیرِ ترقی کہا جاتا ہے ، ان سب کو ناپنے کے پیمانے ان ممالک کے اپنے حالات، تصورِ حیات، معاشرتی روایات، اقدارِ حیات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ان کا مقصد و ماخذ مغربی تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن ہیں۔

بعض حضرات اس تاثر کا اظہار کرتے ہیں کہ عمرانی علوم کا تعلق نہ کسی خاص مذہب سے ہے نہ کسی خاص ثقافت سے، یہ تو معاشرے میں پائے جانے والے حقائق کا عکس ہوتے ہیں۔ حقیقت واقعہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ تصورِ معاشرہ کا مفہوم آسان زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاشرے میں جو انسان پایا جاتا ہے اس کا تصورِ حیات، تصورِ کامیابی، تصورِ فلاح اور تصورِکائنات اور تصورِ الٰہ یا رب کیا ہے؟ کوئی بھی معاشرہ اُس تصورِ حیات کا عکس ہوتا ہے جو اس میں پائے جانے والے انسان اختیار کرتے ہیں۔ مغربی علومِ عمرانی فرد، معاشرے اور ریاست کے بارے میں اور بالخصوص الٰہ، رب اور کائنات کے بارے میں جو تصور رکھتے ہیں وہی ان کے معاشرے کو تشخص فراہم کرتا ہے، چنانچہ مغرب میں عمرانی علوم کو جن بنیادوں پر اٹھایا گیا ہے ان میں انسان ہی کائنات کا مرکز قرار پاتا ہے۔ انسانی خوشی، تسکینِ خواہش اور رضامندی ہر معاشرتی عمل کی بنیاد تسلیم کی جاتی ہے۔

فلسفیانہ اصطلاحات میں مغربی تہذیب و ثقافت کی بنیاد Individualism (انفرادیت پسندی)، Hedonism (حصولِ لذت)، Materialism (مادہ پرستی) اور Relativist Ethics (اضافی اخلاقیات) پر قائم ہے۔ چنانچہ ایک فرد طے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی تسکین کے لیے کتنی دولت کمائے اور اپنی نجی زندگی میں کن چیزوں کو جائز اور کن کو ناجائز قرار دے۔ گویا خاندانی تعلق ہو یا کاروباری، ملازمت ہو یا کاشت کاری، دوستی ہو یا دشمنی، وراثت کا معاملہ ہو یا سیاسی اقتدار، ہرانسانی فیصلے کی بنیاد انسان کا اپنا ذاتی مفاد، دولت، لذت یا تسکین فیصلہ کن مقام کی حامل اقدار ہیں اور انسان کو کسی بیرونی غیرجانب دار، مفادات سے بالاتر ہستی کی ہدایت کی ضرورت نہیں۔

مغربی سوشل سائنسز کے تمام شعبے اس بنیادی تصورِ حیات و کائنات کو اپنی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ عمرانیات کا پہلا کُلیہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے کیوں کہ وہ انسانوں کے ساتھ گروہ کی شکل میں مل جل کر رہتا ہے۔ یہاں جو بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور ایک لادینی افادیت پرست (Utilitarian) تصور کو اسلام کے عالمی اخلاقی تصور سے ممتاز کرتی ہے وہ  مغربی علوم عمرانی میں انسان کا بنیادی طور پر حیوان ہونا ہے، جب کہ اسلامی تصورِ حیات اللہ تعالیٰ کو  خالق و حاکمِ کائنات اور انسان کو اس کا خلیفہ قرار دیتا ہے اور انسان کا وجود محض حیوانی نہیں بلکہ حیوانی پہلو کے ساتھ اس کی اصل شناخت اس کا روحانی، ملکوتی اور اخلاقی وجود ہے جو اسے استخلاف کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا اہل بناتا ہے اور دنیا کے سارے وسائل کے صحیح تصرف کو اس کی جولان گاہ بنا دیتا ہے۔

مغربی سوشل سائنسز کی آغوش میں تربیت پانے والا ذہن آغاز سے ہی اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ انسانی نفسیات کی بنیاد اس کی انا، لذت، قوت اور قبضہ کرنے کی جبلّت (Instinct) ہے اس لیے وہ ہمیشہ ان محرکات کی بنا پر کام کرے گا۔ یہ وہی اصول ہیں جو، بصد معذرت، چوہوں پر تجربات کرکے حاصل کیے جاتے ہیں اور پھر انسانوں پر لاگو کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ روایتی نفسیات کا دائرہ انسان کو دو پائوں پر چلنے والے بڑے چوہے میں تبدیل کر دیتا ہے جو پنیر (cheese) کی خوشبو پر بھول بھلیوں سے تیزی سے گزرتا ہوا آخر جا کر پنیر کو کتر لیتا ہے۔

سگمنڈ فرائڈ اور دیگر ماہرین نفسیات انسان کی زندگی کے تقریباً تین چوتھائی اعمال اور فیصلوں کو اس کے لاشعور اور تحت الشعور کا کارنامہ سمجھتے ہیں، جب کہ اسلام انسانی زندگی کے تمام کاموں کو شعوری اور ارادی عمل (نیت، ارادہ) سے وابستہ قرار دیتا ہے۔ اس طرح تصورِ انسان اور تصورِ حیات کا بنیادی فرق عمرانی علوم کے ہر ہر شعبے میں نمایاں نظر آتا ہے۔ مسلم دانشور کا اصل مسئلہ اس کی وہ فکری اور ذہنی مرعوبیت ہے جس کی بنا پر وہ لادینی مغربی عمرانی علوم کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ اب وہ ان کے فکری سانچوں سے نکلنا بھی چاہے تو بآسانی نہیں نکل سکتا۔ وہ گندے تالاب کی مچھلی کی طرح اپنے اردگرد کے بُرے ماحول میں فرحت محسوس کرتا ہے کیوں کہ اسے ابھی تک تازہ اور صحت مند پانی میں تیرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

نصف صدی قبل الجزائری مفکر مالک بن نبی نے اس صورتِ حال کو محض ایک لفظ میں یوں بیان کیا تھا کہ Colonizibility یعنی محکومانہ ذہنیت سیاسی اور تہذیبی محکومیت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اسی بات کو FANON نے Neo-Colonialism کی اصطلاح سے واضح کرنا چاہا۔ دراصل ہمارے علومِ عمرانی مغربی لادینی (Secular) جمہوریت، انفرادیت پسندی (Individualism)، مادیت (Materialism) اور لذتیت (Hedonism) کے ارکان اربعہ پر ایمان بالغیب لاتے ہوئے ان مفروضوں کو انسانی فکر اور معاشرے کی تخلیق و ارتقا کی بنیاد سمجھتے ہیں اور ہر وہ فکر جو ان مفروضوں سے ٹکراتی ہے اسے قدامت اور روایت پرستی قرار دے دیتے ہیں۔ ہمارے دانش ور بھی انھی تصورات کی تشہیر کرتے ہیں اور کبھی اس دامِ خیال سے باہر نکل کر ان تصورات پر تنقیدی نظر نہیں ڈالتے۔

کسی ملک و قوم کی ترقی کا انحصار اس کے تصورِ حیات کی عظمت پر ہوتا ہے اور اس تصورِ حیات کا عکس علوم میں نظر آتا ہے۔ ہمارے سماجی علوم کی تشکیلِ جدید ہماری اپنی اخلاقی اقدار پر کرنے کے لیے ہمیں مغربی فکر کی اندھی تقلید سے نکل کر اسلام کی آفاقی اقدار کی بنیاد پر تصورِ علم اور اصنافِ علم کو نئے سرے سے مدون کرنا ہو گا تاکہ ہر شعبۂ علم سے وابستہ محقق کائنات اور خالق کائنات کے باہمی تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح اور ایک اخلاقی معاشرے، اخلاقی معیشت، اخلاقی سیاست اور اخلاقی ثقافت کی تعمیر کرسکے۔

مغربی معاشرہ ہو یا معیشت و سیاست و اخلاق، ہر ہر شعبے میں جو ترقی ایک نگاہِ ظاہر بین کو نظر آتی ہے اس کی اصل یہی چار اصول ہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا۔ معاشرے کے قیام کا آغاز خاندان کی اکائی سے ہوتا ہے۔ مغربی عمرانیات اور سماجیات میں خاندان کی تعریف اور اس پر ایمان بالغیب لانے کے نتیجے میں خود ہمارے معاشرے میں اکیسویں صدی میں خاندان کی تعریف یہی کی جاتی ہے کہ شوہر بیوی اور ان کے حد سے حد دو بچے۔ اسی بنیادی اکائی کی بنیاد پر ایک خاندان کی معاشرتی اور معاشی ضروریات کا تعین کرتے ہوئے ایک فرد اپنے مستقبل کا نقشہ ذہن میں بناتا ہے، یعنی اگر وہ چاہتا ہے کہ اپنا مکان خود تعمیر کرے تو اس میں اس کا ماسٹر بیڈ روم ہو گا اور ان’دوبچوں‘ کے لیے ایک کمرہ تاکہ بالغ ہونے کے بعد وہ خود اپنی فکر کریں اور جو کمرہ ان کے استعمال میں تھا وہ یہ معمر ماں باپ کسی اور مصرف میں لا سکیں۔ اس مکان میں دادا دادی یا نانا نانی یا بچوں کی پھوپھی یا خالہ یا کسی بھی عزیز کے لیے تصوراتی طور پر کوئی جاے رہایش نہیں پائی جاتی۔ اس تصور کی بنیاد پر گھروں اور شہروں کی منصوبہ بندی ( Town Planning) کی جاتی ہے اور اس کی روشنی میں پانی کی فراہمی، سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر قرب و جوار میں کسی باغ کا بنایا جانا متوقع تعداد کے لحاظ سے بچوں کے اسکول، ہسپتال یا بازار کا تعین کیا جاتا ہے۔

گویا بنیادی مفروضہ اگر یہ ہو کہ ایک ’خوش حال‘ گھرانہ صرف وہ ہے جہاں حد سے حد ایک یا دو بچے پائے جائیں تو یہ انفرادی بلکہ اجتماعی فیصلہ جن محرکات پر مبنی ہوتا ہے وہ بقیہ تین ارکان، یعنی لذتیت، مادیت اور دنیویت (غیرمذہبی سوچ) ایک فرد کو اپنے فیصلوں میں خودمختار سمجھتے ہوئے اخلاق کو انفرادی پسند کا تابع بنا دیتے ہیں، اور وہ حد سے حد دو بچوں والے ’خوش حال گھرانے‘ کے خودساختہ تصور میں گم رہتا ہے۔ اگر صرف سماجیات اور معاشرے کے نقطۂ نظر سے اس مثال پر غور  کیا جائے تو محض دو نسلوں میں اس ’خوش حال‘ گھرانے میں پیدا ہونے والے  یہ دو بچے اگر لڑکے تھے تو جب یہ بڑے ہوتے ہیں تو بذات خود بہن کے وجود سے آگاہ نہیں ہوتے اور ان کی اولاد ساری عمر کسی پھوپھی کا تصور نہیں کر سکتی۔

اگر یہ پیدا ہونے والے بچے دو لڑکیاں ہیں تو یہ خود بھائی کے وجود سے غیرآگاہ اور ان کی اولاد کسی ماموں سے مکمل طور پر ناآشنا رہتی ہے۔ اگر ان دو میں سے ایک لڑکا ہو ایک لڑکی ہو تو لڑکے کی اولاد چچا یا تایا کے رشتہ سے ناآشنا اور لڑکی کی اولاد خالہ کے تصور سے لا علم رہتی ہے۔    یہ لاعلمی محض نظری نہیں کہی جا سکتی یہ اسلامی شریعت میں ’قطع رحمی‘ کی تعریف میں آ سکتی ہے۔     یہ رشتوں کا توڑنا اور دفن کر دینا جو تہذیب و ثقافت پیدا کرے گا وہ محض فرد کے گرد گھومے گی۔ اس میں اجتماعیت نہیں پائی جائے گی اور جب اجتماعیت نہیں ہو گی تو معاشرت اور معاشرے کی بنیادی اکائی ہی ختم ہو جائے گی۔ گویا مغربی لادینی عمرانیات اور سماجیات کا یہ بظاہر ’معصوم‘ نعرہ کہ خاندان کا مطلب کیا ہے اورجسے___ بلا تخصیص تمام معاشرتی علوم کی کتب میں، پاکستان ہو یا دیگر مسلم ممالک ___ بچوں کو پڑھایا جاتا ہے، اور جس عمرانیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی ایک شخص یونی ورسٹی میں استاد بنتا ہے وہ اسی تصورِ خاندان اور معاشرے کی بنیاد پر تمام تحقیق اور ملک کی معیشت، سیاست اور دفاع کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔

اس لیے یہ سمجھنا کہ عمرانی علوم محض تفریح طبع کے لیے ہوتے ہیں اور اطلاقی علوم ہی ترقی کی طرف لے جاتے ہیں، ایک لاعلمی پر مبنی تصور ہے، اور جیسا کہ ہم نے ایک روز مرہ کی مثال سامنے رکھ کر یہ بات واضح کی ہے کہ کس طرح مغربی لادینی اور انفرادیت پسند تصورِ خاندان ایک تہذیب کُش فکر ہونے کی بنا پر انسانی ثقافت کو تباہی و بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر انسانی معاشرے سے معاشرتی اقدار کو خارج کر دیا جائے اور خاندان جو رشتوں سے وابستہ ہوتا ہے ان رشتوں ہی کو انسانی یاد داشت سے نکال دیا جائے تو تہذیب کس بنیاد پر آگے بڑھے گی؟ آج مسلم دنیا میں مغربی لادینی علوم عمرانی کے بنیادی تصورات پر اندھا ایمان لانے کے نتیجے میں جو خاندانی انتشار، اضمحلال اور زوال پیدا ہو رہا ہے اس کے اسباب بڑے واضح ہیں لیکن ان کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ماہرین تعلیم اور منصوبہ بندی کو اپنے ذہن کو مغربی استعماری (Colonial) فکر کے جال سے نکالنا ہو گا۔ مغربی عینک سے ہر فکر کا مطالعہ کرنے کی عادت کو ترک کرنا ہو گا اور ایک علمی ماہیت قلبی (Epistemic Paradigm Shift) سے گزرنا ہو گا۔ گویا بنیادی اصطلاحات جن پر علوم عمران کو قائم کیا گیا ہے خود ان فکری بنیادوں کی جگہ متبادل فکری بنیاد پر علوم عمرانی کی تشکیلِ جدید کرنا ہو گی۔

اس تشکیلِ جدید کو اسلام کے تصورِ رب اور اس کے عالم گیر اخلاقی اصولوں پر قائم کرنا ہو گا تاکہ نئے علوم عمرانی ہرہر شعبے میں توحید، عدل، امانت و خلافت اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بنیادی الہامی اصولوں کی روشنی میں معاشیات، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات، تاریخ ، ادب،  تہذیب و ثقافت، غرض ہرہرشعبۂ علم میں اُس علم کے مقاصد، مناہج و اہداف اور ان کے حصول کے اخلاقی طریقوںپر عمل کرسکیں۔

اگریہ کام نہیں کیا گیا تو مغربی لادینی علوم عمرانی بشمول تصورِ جمہوریت، ہمیں غیر محسوس طور پر غلامی میں گرفتار رکھے گا اور ہم گندے پانی کی مچھلی کی طرح اپنے ماحول کے پاک صاف، ترقی یافتہ اور معیارِ زندگی میں مسلسل اضافے کے خام تصورات میں محو خواب رہیں گے۔

ترقی کی بنیاد جب تک ایک ملت کی تہذیبی اقدار، تصورِ حیات اور تصور ِ فلاح نہیں ہو گا، اگر وہ کوئی مادی ترقی کر بھی لے، اس کے ہا ں سڑکیں اور پل تعمیر ہو جائیں ، بڑے بڑے بازار  بن جائیں، سات ستاروں والے ہوٹل تعمیر ہو جائیں، جب بھی وہ ملت مفلسی کا شکار رہے گی۔    یہ مفلسی فکر میں بھی ہو گی، رشتوں کے احترام میں بھی ہو گی اور انسانیت کے احترام میں بھی۔     یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اگر ایک ملت انسانیت میں مفلسی کا شکار ہو تو پھر اس کی ٹکنالوجی میں ترقی اس کو تباہی سے نہیں بچا سکتی۔

ماضی کی اقوام جن کا تذکرہ قرآن کریم میں پایا جاتا ہے، جو پہاڑوں کو تراش کر محلات بناتے تھے، جو اہرامِ مصر جیسے حیران کن تعمیراتی کارنامے بغیر کسی ’مغربی ٹکنالوجی‘ کے انجام دے  سکتے تھے، ان سب اقوام نے جب الہامی ہدایت و اقدار کو چھوڑ کر یہ دعویٰ کیا کہ وہ خود مقامِ ربوبیت پر فائز ہیں یا دوسرے الفاظ میں وہ یک قطبی طاقت ہیں جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا، (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی)، تو پھر ان کی تمام مادی قوت انھیں تباہی سے نہیں بچا سکی۔ آج ان کی ترقی کے قصے تاریخ کے صفحات میں دفن ہیں۔ روم و ایران اور یونان دیو مالائوں سے زیادہ اہم مقام نہیں رکھتے۔

مسلم ماہرین علوم عمرانی کے لیے اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ کس طرح مغربی لادینی تصورِ علم سے اپنے آپ کو آزاد کریں اور علومِ عمرانی کی تشکیل وحی الٰہی، توحید، عدل، امانت، خلافت، عالم گیر اسلامی اخلاقی تعلیمات، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد پر رکھ کر ایک نئی روایت ِعلم کی تدوین توحید کی بنیاد پر کریں جو انسانیت کے لیے رحمت و ترقی کا زینہ بن سکے۔

توحید کی بنیاد پر علوم ِعمرانی اور اخلاقی علوم کی تدوین جدید کے لیے ضروری ہو گا کہ ان کی اساس قرآنِ کریم کے فراہم کردہ تصورِ علم یا Epistimology پر ہو، یعنی وحی الٰہی اور ہدایت ربانی سے جو علم حاصل ہو وہ علم کی اعلیٰ ترین اور حقیقی شکل قرار پائے اور تجرباتی، حسّی یا جبلّی ذرائع علم اس کے تابع ہوں۔ قرآن کریم ہر صفحے پر انسان کو مشاہدہ، تجربہ اور تجزیہ و تحلیل کی دعوت دیتا ہے اور انسانی معاشرے کی تعمیر عدل، معروف اور حقوق کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس بنا پر وحی کے ذریعے حاصل ہونے والے مطلق علم اور حواس خمسہ اور انسانی عقل کے ذریعے تخلیقِ علم میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ انسانی عقل اور وحی الٰہی کے باہمی تعامل سے اطلاقی علم وجود میں آتے ہیں۔ ایسے ہی وحی کی بنیاد پر وجود میں آنے والے علومِ عمرانی میں حاکمیت الٰہی اور حقوق العباد کو مرکزی مقام ملتا ہے۔ اس طرح جو علم پیدا ہوتا ہے وہ نہ صرف انسانی فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے بلکہ وہ انسانیت کے وسیع تر مفاد، قیامِ امن اور قیامِ عدل کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے۔ آج بلا کسی تاخیر کے اس تخلیقی عمل کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف مسلمان بلکہ تمام انسانیت عادلانہ معاشرے اور سیاسی استحکام کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکے۔ (بہ شکریہ: ــمغرب اور اسلام، شمارہ نمبر ۴۰، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد )

(آخری قسط)

قرآن و سنت کی موجودگی میں دستور سازی کیوں؟

ایک اور بحث جو اُٹھائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی شکل میں دستور کے ہوتے ہوئے کسی پارلیمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون سازی کرے۔ یہاں بھی پورے خلوصِ نیت کے باوجود ان اصطلاحات کا مفہوم ذہن میں واضح نہ ہونے کے سبب یہ سوال اُبھرتا ہے۔ قرآن و حدیث کے دستور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان دو مصادر کو ہرمعاملے میں فوقیت حاصل ہوگی لیکن ان دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے حالات و واقعات کے لحاظ سے نئے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اجتہاد، قیاس اور اجماع کے اصولوں کا استعمال کیا جائے گا۔ اجتہاد کا مطلب ہی یہ ہے کہ نصوص میں کوئی اجتہاد نہیں ہوتا، بلکہ جہاں نصوص خاموش ہوں وہاں نصوص کی روشنی میں راے کے قائم کرنے کا نام اجتہاد ہے۔ اگر اجتہاد کی بنیاد پر ایک صورتِ حال پر دوسری کو قیاس کرنا ہو تو اسے قیاس کہتے ہیں، اور جب اجتہاد پر ایک دور کے علما کا اتفاق ہوجائے تو اسے اجماع کہا جاتا ہے۔  وہ تمام مسائل اجتہادی کہے جاتے ہیں، جن کے بارے میں قرآن و سنت میں متعین طور پر واضح ہدایات موجود نہ ہوں۔

اسلامی نظامِ حکومت میں شوریٰ کو جو مرکزی مقام حاصل ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خلیفہ باوجود اپنے تقویٰ، علم اور فقہی علم کے، ایک انسان ہے۔ وہ کوئی معصوم ہستی نہیں ہے۔ اس کو دوسرے اہل الراے کے مقابلے میں اپنے یقین اور اپنی راے کو اس درجے اہمیت دینے اور    اس کے مانے جانے پر اصرار کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی تنہا راے کے مقابلے میں دوسرے     اہل الراے کی متفقہ راے یا ان کی اکثریت کو ردّ کردے۔ اگر ایک امرِاجتہادی میں کوئی خلیفہ اپنے یقین کو اس درجے شک و شبہے سے بالاتر سمجھتا ہے تو دوسرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ایک معصوم شخص سمجھتا ہے۔مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب اسلامی ریاست (مطبوعہ دارالفکر، لاہور) میں یہی پوزیشن واضح کی ہے اور اس وضاحت کے بعد مولانا اصلاحی فرماتے ہیں: ’’خلیفہ کے لیے مجلس شوریٰ کی اکثریت کے فیصلوں کی پابندی ضروری ہونے کی اول دلیل تو وہ ہے جو صاحب ِ احکام القرآن ابوبکرجصاصؒ نے دی ہے کہ یہ شوریٰ کی فطرت کا اقتضا ہے کہ اہلِ شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے۔ اس لیے کہ یہ بات بالکل بے معنی سی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں شوریٰ کا حکم تو اس شدومد سے دیا جائے اور مقصود صرف یہ ہو کہ چند لوگوں کو شریکِ مشورہ کر کے ذرا ان کی دل داری اور عزت افزائی کردی جائے۔ خلیفہ کے لیے ان کے مشوروں کی پابندی ضروری نہ ہو۔ صاحب ِ احکام القرآن کے نزدیک یہ شکل لوگوں کی دل داری اور عزت افزائی نہیں، ان کی دل شکنی اور توہین کے مترادف ہے‘‘۔(اسلامی ریاست، ص ۳۹)

اس دلیل کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ ’’ایک شخص کے مقابلے میں ایک جماعت کی راے اپنے اندر صحت و اصابت کے زیادہ امکانات رکھتی ہے‘‘، مولانا فرماتے ہیں: ’’اس وجہ سے عقل و فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ خلیفہ اپنی تنہا راے کے مقابلے میں یا اپنے ہم خیال افراد کی  راے کے حق میں اکثریت کی راے کو ردّ نہ کرے۔آخر ایک اجتہادی یا مبنی بر مصلحت معاملے میں اس کو یہ علم کس طرح ہوا کہ اس کی راے صحیح اور دوسروں کی راے غلط ہے۔ صحت اور غلطی کا امکان دونوں طرف ہے لیکن صحت کا غالب امکان اس طرف ہے جس طرف اکثریت ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر فرد کے مقابل میں جمہور کے مسلک اور انفرادی اجتہاد کے بالمقابل اجماع کو شریعت میں ترجیح دی گئی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۹)

ہم نے اس طویل اقتباس کو اس لیے دینا پسند کیا کہ بعض حضرات پارلیمان کے حوالے سے یہ بات کہتے ہیں کہ اکثریت تو نااہل ہوتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ پاکستان میں اس وقت جو پارلیمنٹ پائی جاتی ہے اور جسے دستور شوریٰ کا نام دیتا ہے، اس میں نااہل افراد چاہے زیادہ ہوں، لیکن کیا اس بنا پر ایک اسلامی اصول کو ردّ کرنا شریعت سے مطابقت رکھتا ہے؟ ہونا یہ چاہیے کہ اصول بدلنے کے بجاے پارلیمنٹ میں ہی ایسے افراد لائے جائیں جو اہل، امانت دار اور دین کا علم رکھنے والے ہوں۔

دین کا کام کرنے والوں کو منفی فکر کی جگہ مثبت فکر کو اپنانا چاہیے اور قرآنِ کریم میں کسی ایک لفظ کے من مانے مفہوم نکالنے سے بچنا چاہیے۔ اگر قرآنِ کریم منکرینِ حق کے بارے میں کہتا ہے کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو عقل استعمال نہیں کرتے یا سمجھتے نہیں، تو اکثر کا یہ مفہوم لینا کہ مسلمانوں میں بھی اکثریت جاہلوں کی ہی ہوگی، بہت نامناسب بات ہے۔ شوریٰ کے اصول کی وضاحت کرتے ہوئے ہم یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو ماننا کسی بھی جماعت کے امیر پر دینی طور پر واجب ہے۔ یہی شکل باشعور پارلیمنٹ میں بھی اختیار کی جائے گی۔

اگر پاکستان کا دستور یہ کہتا ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے، اور دستور کی دفعہ یہ کہتی ہے: شوریٰ یا پارلیمنٹ جو دستورسازی بھی کرے گی وہ قرآن و سنت کے مطابق ہوگی، اس کے خلاف نہ ہوگی لیکن بعض ممبران پارلیمنٹ اس کی خلاف ورزی کریں، تو معقول رویہ کیا یہ ہوگا کہ پارلیمان کو توڑ دیا جائے، دستور کو پھینک دیا جائے اور ایک ’جہاد‘ کے ذریعے نیا نظام نافذ کردیا جائے، یا پارلیمان میں ایسے افراد کو لایا جائے جو دستور کی پابندی اور قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کریں۔

یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ شریعت اور قانون سازی کی اصطلاحات معروف علمی اصطلاحات ہیں۔ انھیں سمجھے بغیر جو تعبیر کسی کے ذہن میں آجائے اسے لے لینا اور عاجلانہ نتائج اخذ کرلینا ایک غیردانش مندانہ رویہ ہے۔ شریعت کی اصطلاح صرف قرآن و سنت کے لیے استعمال ہوتی ہے، جب کہ قانون سازی روزِ اوّل سے ان اسلامی اداروں نے کی ہے، جو شریعت اور حالاتِ حاضرہ کا علم رکھتے ہوں۔ اگر قرآن کریم یا حدیث شریف میں براہِ راست ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا ذکر نہیں پایاجاتا، تو یہ کام قرآن و سنت سے واقف ماہرین کا ہوگا کہ وہ قرآن و سنت کے واضح احکام اور بالواسطہ ہدایات کو سامنے رکھتے ہوئے اس نئے معاملے میں اجتہاد کے بعد قانون سازی کریں۔ ان کا یہ کرنا دینی فریضہ ہوگا، دین سے انحراف نہیں ہوگا۔ قانون سازی ہمیشہ انسانی اداروں نے ہی کی ہے۔ یہ ایک دینی اور معاشرتی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو اجتہاد کی کوئی گنجایش اسلام میں نہیں ہونی چاہیے تھی۔ آخر امام مالک ہوں یا امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ہوں یا امام احمد  ابن حنبل، یا امام جعفر صادق یا امام ابن تیمیہ یا امام شاہ ولی اللہ دہلوی ہوں، ان حضرات نے قرآن و سنت کی بنیاد پر جو اجتہاد کیا اور پھر اس پر اجماع ہوا اور مسلم ریاستوں نے اس کی بنیاد پر قانون سازی کی، تو کیا یہ سب شرک کے مرتکب ہوئے؟

دین میں توازن اور عدل شرط ہے۔ جذباتیت سے بلند ہوکر اور دین کے مصادر کو سبقاً سبقاً سمجھنے کے بعد ان معاملات پر راے قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ نوجوان نسل کسی انتہاپسندی کی شکار نہ ہو۔ قانون سازی کی بنیاد ہمیشہ قرآن و سنت رہی ہے اور رہے گی لیکن قانون سازی    ہمیشہ ادارے اور افراد ہی کریں گے۔ اور ان کا ایسا کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفا اور بعد میں آنے والے ائمہ فقہا کی روایت پر عمل کرنا ہے۔ دورِجدید میں یہ کام پارلیمنٹ کرسکتی ہے اگر اس میں ایسے افراد منتخب ہوں، جو قرآن و سنت اور اسلامی فقہ میں مہارت رکھتے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ ایسے بااختیار بورڈ بنائے جو اسے قانون سازی میں مدد دیں۔ یہ خیال نہ شرعی طور پر اور نہ عقلی طور پر درست ہے کہ بغیر کسی قانون سازی کے صرف قرآن و حدیث کو دستور مان لینا مسائل کا حل ہے۔ جہاں تک قرآن و حدیث کے دستور ہونے کا تعلق ہے، یہ تو  وہ بنیادی حقیقت ہے جو شرطِ ایمان ہے اور اس میں کسی اختلاف کی گنجایش نہیں، لیکن عقلِ عام (common sense ) کو استعمال کر کے یہ دیکھا جائے کہ کیا دنیا میں کسی جگہ بھی دستور اور قانون دونوں کا مفہوم ایک پایا جاتا ہے؟ کیا ایسے ممالک نہیں ہیں جہاں تحریری دستور نہیں ہے  لیکن قانون ہے یا جہاں چند صفحات کا دستور ہے، جب کہ بیسیوں جلدوں میں قانون ہے۔ کیا  فتاویٰ عالم گیری جو اورنگ زیب عالم گیر یا مجلّہ احکام عدلیہ جو عثمانی فرماں روا نے وضع کیا، قرآن کریم اور حدیث کے ہوتے ہوئے ایک کافرانہ، مشرکانہ یا طاغوتی اقدام تھا؟

نفاذِ شریعت اور ترجیحات کا تعیّن

دعوتِ دین کی حکمت عملی اور نفاذ احکامِ شریعت کی حکمت عملی ایک اہم موضوع ہے اور جب تک اس میں اولیات یا ترجیحات (priorities) کا تعین نہ کیا جائے، حصولِ مقصد میں دقت اور مشکل پیش آسکتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہو یا کہیں اور، قرآن و سنت اور انبیاے کرام ؑ کے طریقِ دعوت کو سامنے رکھتے ہوئے مقام اور صورتِ حال کی مناسبت سے حکمت عملی کا وضع کرنا، ہرمقام پر درست حکمت عملی ہوگی، جو حالات اور مقامات کے لحاظ سے وضع کی جائے، جب کہ ہر حکمت عملی کا مشترک نکتہ اللہ کی حاکمیت کا قیام اور طاغوت کا انکار ہوگا۔

خلافت علی منہاج النبوہ کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور دیگرمعاملات میں ایک جانب اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ’القرآن‘ کو اور دوسری جانب قرآن کی تشریح اور اس پر مبنی تشریع کو اختیار فرمایا، اسی طرح دین کے مکمل ہوجانے کے بعد آپؐ کے بعد خلفا نے قرآن و سنت کو مصدراوّل مانتے ہوئے، حالات کی مناسبت سے مشاورت و اجتہاد کو استعمال کیا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے اجتہادات غیرمعمولی طور پر یہ شہادت دیتے ہیں کہ قانون سازی مشاورت کے ساتھ کیسے کی جاتی ہے۔

خلفاے راشدین کے بعد سب سے بڑا سانحہ، انتخاب سربراہِ مملکت کے حوالے سے، انتخابی خلافت کو موروثی حکومت میں تبدیل کرنے کا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس تحریف کے امکان کو سمجھتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں، گو وہ علم و تجربے اور تقویٰ میں کسی سے کم نہ تھے اور خلیفہ بننے کی شرائط پر پورے اُترتے تھے، یہ حکم دیا کہ وہ مشاورت میں شامل رہیں لیکن انھیں خلیفہ نہ بنایا جائے تاکہ موروثی حکومت کا آغاز نہ ہوسکے۔ یہی شکل حضرت علیؓ کی شہادت میں پیش آئی، جب آپؓ سے پوچھا گیا کہ کیا حضرت حسنؓ کو خلیفہ بنایا جائے تو آپؓ نے فرمایا: یہ فیصلہ لوگ مسجد میں کریں گے، میں نہ منع کرتا ہوں نہ حکم دیتا ہوں۔ گویا خلیفہ کے انتخاب کا حق عوام کو دیا جانا سنت ِ خلفاے راشدین ہے۔

خلافت ِ راشدہ کے بعد جو لوگ حکمران ہوئے، بہ استثنا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، وہ حکمران تو مانے گئے لیکن انھیں خلیفہ نہیں مانا گیا۔ گو، وہ خود کو خلیفہ کہتے اور کہلواتے رہے۔ اسی بناپر اُمویوں کی حکومت دمشق میں ہو یا قرطبہ میں، فاطمین کی حکومت مصر میں ہو ، عثمانیوں کی حکومت ترکی اور  شام و عراق پر ہو،ان میں سے کسی کو بھی ہم صحیح معنوں میں خلافت اور حکمرانوں کو خلیفہ نہیں کہہ سکتے۔  ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسلمان سلاطین کا دور تھا۔ عثمانیوں کی حکومت کو خلافت راشدہ کا تسلسل کہنا تاریخ کے ساتھ ظلم ہے۔

ایک بنیادی سوال جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے، یہ ہے کہ اگر ایک اُموی فرماں روا اپنی زندگی میں اپنے بعد حکومت کرنے کے لیے اپنے بیٹے یا بھائی کو مقرر کرتا ہے،  تو اس کا یہ کرنا، قرآن کریم کی آیت اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (انعام ۶:۵۷) کے مطابق درست ہے یا غلط؟ یہی سوال فاطمین مصر اور عثمانی فرماں روائوں کے حوالے سے اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

ہمیں چاہیے کہ جذبات سے بالاتر ہوکر قرآن و سنت کے مطالعے کے بعد پہلے یہ طے کریں کہ حاکمیت اعلیٰ سے مراد کیا ہے؟ پھر قرآن و سنت کو دستور مانتے ہوئے یہ طے کریں کہ اس دستور کی روشنی میں قانون سازی کون کرے اور جو یہ کام کرے گا اس کی خصوصیات کیا ہونی چاہییں؟ پھر اِن خصوصیات کے افراد کو اُن اداروں میں لایا جائے جو قانون سازی کرنے کے ذمہ دار قرار دیے گئے ہوں۔

یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ چونکہ ۶۶سال میں جو لوگ پارلیمنٹ میں منتخب ہوئے وہ کردار اور عمل کے لحاظ سے اچھے نہیں تھے، اس لیے پارلیمنٹ کا ادارہ ہی غلط ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ عدلیہ میں ایسے جج مقرر ہوجائیں جو رشوت خور ہوں، تو کیا اس بناپر عدلیہ کے ادارے کو ختم کرنا بہتر ہوگا یا ایسی شرائط کا لگانا جن کی بناپر عدلیہ میں صرف ایمان دار لوگ آسکیں۔

پھر یہ کہنا کہ مغربی جمہوریت میں فیصلے کے لیے ۵۱ فی صد ووٹ کا ہونا کافی ہے، جب کہ اسلام کسی تناسب کا قائل نہیں ہے، سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ فقہ اسلامی کے بنیادی اصولِ اجماع کا مطلب کیا ہے؟ کیا اجماع ہمیشہ ۹۰ فی صد افراد کی راے پر ہوگا یا ۵۱ فی صد راے پر بھی اجماع ہوجائے گا؟

جمہوریت اور عملی مسائل

ایک سوال جو بار بار اُٹھایا جاتا ہے، یہ ہے کہ کیا مغربی جمہوریت کی اصلاح ہوسکتی ہے اور اگر اصلاح کی جائے تو کس طرح؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اگر ایک مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس پر غور کیا جائے تو شاید ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ایک مشرک جو سات پشتوں سے شرک میں پلابڑھا ہو، مسلمان ہوسکتا ہے یا نہیں، یا جب تک اس کے جسم کے خون کا ہرقطرہ جو حرام پر پلا بڑھا تھا، نکال کر جسم میں نیا اور پاک خون ڈال کر پہلے پاک صاف نہ کیا جائے، اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا تو ایسی صورتِ حال میں عقل کا فیصلہ کیا ہوگا؟

قرآن کریم نے سود کی ابدی حُرمت کے ساتھ کیا یہ بات نہیں کہی کہ جو حرام ماضی میں کھاچکے وہ کھاچکے اب آیندہ ایک رتی کے برابر سود بھی نہ لیا جائے۔ اس لیے اگر ایک تنظیمی ڈھانچا ایسا ہے جس میں ایک بادشاہ ہے یا فوجی آمر، یا غیرفوجی آمر ہے، اس کے تحت بے بس پارلیمنٹ ہے، بے بس عدلیہ ہے، بے بس پولیس ہے، بے بس سول انتظامیہ ہے اور اس تنظیم کو درست کرنا ہو تو کیا محض آمر کو مار کر تمام نظام ایک دم درست ہوجائے گا یا سارے نظام کو تہس نہس کرکے نئے سرے سے ایک تنظیمی ڈھانچا بنایا جائے گا، یا یہ طے کیا جائے گا کہ سب سے اہم اور اوّلین اقدام  کیا ہو۔ عقل کہتی ہے کہ سب سے پہلے آمریت یا بادشاہت کی جگہ ایسے افراد کو لایا جائے، جو    عدل و انصاف کے علَم بردار ہوں اور موروثی بادشاہت یا آمریت کے قائل نہ ہوں۔ ایسے ہی عدلیہ میں ایک تدریج اور ترتیب کے ساتھ ایسے افراد کو لایا جائے، جو اللہ کا خوف رکھتے ہوں اور دینی علم کی دولت سے مالامال ہوں، نیز اس کے ساتھ ہی نظام میں قانون سازی سے وہ تبدیلیاں لائی جائیں جو نظام کو اسلامی اصولِ عدل کے مطابق بناسکیں۔

اس کے مقابلے میں یہ راے بھی لازماً قابلِ غور ہوسکتی ہے کہ ایک سہانی صبح کو عدلیہ، پارلیمنٹ، پولیس، فوج، قصرصدارت، کابینہ، غرض ہرادارے کو تحلیل کرکے ایک نئے نظام کا اعلان کردیا جائے۔ اس راے کے قائم کرنے سے کسی کو روکنے کا حق نہیں لیکن کیا یہ راے انسانوں کی دنیا میں آج تک قابلِ عمل ہوسکی؟ کیا افرادِکار کی تیاری، اداروں میں قانون سازی کے ذریعے اصلاح و تبدیلی اور بتدریج اصلاحی عمل کے بغیر دنیا میں کہیں بھی کوئی نظام کامیاب ہوا ہے؟ کیا صحابہ کرامؓ  کی سیرت سازی، تزکیہ و تربیت اور مصائب و مشکلات سے گزارے بغیر ممکن تھی، اور کیا آج بھی انسانوں کی ماہیت ِقلبی کے بغیر اسلامی نظام نافذ ہوسکتا ہے؟

بلاشبہہ ایک مسلمان کی معاشی ظلم کے خلاف جدوجہد ہو، مشرکانہ، کافرانہ فکر کے خلاف مہم ہو، اپنی جان و مال کے ساتھ طاغوت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا ہو، نفس کے مطالبات کے خلاف جنگ کرنا ہو، یہ سب جہاد کی تعریف میں آتے ہیں۔ لیکن جہاد اسباب کی تیاری کے بغیر، جہاد حکمت عملی کے بغیر، جہاد اہداف کے تعین کے بغیر، جہاد ترجیحات کے بغیر ایک نیک خواہش تو ہوسکتا ہے، ایک تعمیری عمل نہیں ہوسکتا۔

  • ایک ضمنی بحث یہ بھی اُٹھائی جاتی ہے آخر ووٹ کیوں دیا جائے؟ بیعت کیوں نہ لی جائے؟ اس کی مثال ایسی ہی ہے اگر کسی کو پیاس لگے یا غسل کی ضرورت ہو تو وہ نہر پر جاکر چلّو سے پانی پیے اور غسل کر کے آئے کیوںکہ اب سے سیکڑوں سال قبل گھروں میں نل نہیں ہوتے تھے، اس لیے نل کے پانی سے غسل کرنا بدعت سمجھ لیا جائے۔ آخر بیعت کس چیز کا نام تھا؟ کیا بیعت کا مقصد یہ  نہ تھا کہ ایک شہری یہ وعدہ کر رہا ہے کہ وہ فلاں شخص کے احکامات کو مانے گا، جب تک ان میں کوئی بات شریعت کے منافی نہ ہو۔ اسلام میں کسی نے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی ہو یا سیکڑوں میل دُور ایک کاغذ کے پُرزے پر یہ لکھ کر کہ میں اس شخص پر اعتماد کرتا ہوں، وہ پرچی ایک ڈبے میں ڈالی ہو، دونوں صورتوں میںاطاعت صرف معروف میں ہے، منکر میں نہیں۔ اس لیے یہ قیاس کرنا کہ اگر  ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت ہوگی تو حالات خودبخود درست ہوجائیں گے، صرف ایک وہم ہے۔  کیا جن لوگوں نے عباسی فرماں روائوں کے گورنروں کے ہاتھ پر بیعت کی، ان کی بیعت سے  فرماں روائوں میں روحانیت پیدا ہوگئی؟ انتخابات کے دوران کون سی اصطلاح استعمال کی جائے، ایک ضمنی بات ہے۔ کوئی حرج نہیں اگر ووٹ کو بیعت کا نام بھی دے دیا جائے، لیکن بیعت کے ذریعے اگر افراد ناکارہ اور نالائق منتخب کیے جائیں، تو کیا بیعت انھیں قابل اور ایمان دار شخص بنادے گی؟
  • بالعموم ایک سوال یہ بھی اُٹھایا جاتا ہے کہ موجودہ جمہوری طرزِ حکومت میں، گو انتخابات میں ہررجسٹرڈ شہری کو ووٹ کا حق ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگ کسی اُمیدوار کو جانتے ہیں کہ وہ کیسا ہے۔ پھر اگر جائزہ لیا جائے تو جو لوگ منتخب ہوتے ہیں انھیں کُل آبادی کے مقابلے میں ایک بہت کم تعداد نے ووٹ ڈالے ہوتے ہیں، مثلاً ایک علاقے میں ۵۰لاکھ ووٹ ہوں تو اوّل تو اس میں سے ۳۰،۴۰ فی صد لوگ ووٹ دینے آتے ہیں۔ گویا آدھے تو آئے ہی نہیں۔ پھر ان میں تقسیم ہوتی ہے اور اگر اُمیدوار دو ہوں تو یہ دو حصوں میں اور اگر ۱۰ ہوں تو یہ ۱۰ حصوں میں تقسیم ہوکر بہت کم تعداد رہ جاتی ہے، اور جو کامیاب ہوتا ہے اسے عملاً ۵۰لاکھ افراد کے ۷ فی صد افراد نے منتخب کیا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ نمایندگی حقیقی نمایندگی نہیں کہی جاسکتی۔

یہ مسئلہ پاکستان میں نہیں، تمام دنیا میں جہاں بھی انتخابات کے ذریعے لوگ منتخب کیے جاتے ہیں، پایا جاتا ہے۔ اس کا حل نظام کو اُٹھا کر پھینک دینا نہیں ہے بلکہ تعلیم، ابلاغ عامہ اور انتخابات کی اہمیت کے پیش نظر عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے عمل کی ضرورت ہے۔ اگر انتخابات سے چھے ماہ پہلے سے عوام کو ان معاملات کا شعور دلایا جائے تو ووٹروں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور عوام اچھے اور نیک افراد کو ووٹ دینے کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ایک تعلیمی اور ابلاغی معاملہ ہے۔ اس کا کوئی تعلق جمہوریت کے اچھے یا بُرے ہونے سے نہیں ہے۔

اگر جائزہ لیا جائے تو چاروں خلفاے راشدین کے انتخاب میں حل و عقد کی حیثیت بنیادی تھی۔ اہلِ مدینہ نے جس کو منتخب کیا، پورے عالمِ اسلامی نے اس کی قیادت کو تسلیم کیا۔ یہ تعداد  کُل مسلم آبادی کا ایک بہت چھوٹا تناسب رکھتی تھی۔ اس کے باوجود خلافت قائم ہوئی اور لوگوں نے اس کی اطاعت اور تعاون میں کمی نہیں کی۔عوام کے انتخابات میں زیادہ تعداد میں حصہ لینے کے پہلو کو تعلیم اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعے بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد ووٹ کا استعمال کرسکیں۔

یہ سوال کہ کیا جمہوریت اسلام سے قریب ہے؟

ایک غیرضروری سوال نظر آتا ہے۔ اسلامی تحریکات خصوصاً جماعت اسلامی پاکستان نے ہمیشہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کی ہے اور اپنے لٹریچر اور دیگر ذرائع کے استعمال سے اسلامی نظام کے قیام ہی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن تحریکاتِ اسلامی یہ بات بھی تسلیم کرتی ہیں کہ مغربی لادینی جمہوریت کی تمام خامیوں کے باوجود اگر کسی ملک کا دستور حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کے لیے تسلیم کرتا ہو اور شریعت پر مبنی قانون کے نفاذ کا دعویٰ کرتا ہو، تو عبوری دور کے لیے ایسے نظام میں شرکت نہ شرک کی تعریف میں آتی ہے نہ کفر اور نہ طاغوت کی۔ اگر ووٹ، عوامی راے کے استعمال اور پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے اسلامی نظام تعلیم، معیشت و قانون اور ابلاغِ عامہ میں صحت مند تبدیلی لائی جاسکتی ہے تو اس کی کوشش کرنا تحریکاتِ اسلامی کا فرض ہے۔ دین یہ مطالبہ کرتا ہے کہ دعوت و اصلاح کے لیے تمام ممکنہ ذرائع کو استعمال کیا جائے اور صرف ان کاموں سے بچا جائے، جہاں قرآن و سنت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حلال و حرام کو قرآن و سنت نے طے کردیا ہے لیکن مباح کے دائرے میں آنے والی چیزوں کو بغیر کسی دلیلِ شرعی کے حرام قراردینا، دینی حکمت کے منافی ہے۔ جب تک ایک ملک کا دستور  اللہ کی حاکمیت کا اقرار اور شریعت کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے، اس دستور کے تحت سیاسی، معاشی اور دیگر سرگرمیاں  نہ شرک ہوسکتی ہیں نہ کفر۔

اگر پارلیمان کوئی قانون خلافِ شریعت بنانا چاہتی ہو جیساکہ ماضی میں ہوا کہ تحفظ خواتین کے نام پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کی ہوئی سزائوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، تو ایسے قوانین کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر کے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کا ایک غلط فیصلہ بجاے خود پارلیمنٹ کے ادارے کو قابلِ گردن زدنی نہیں بنادیتا۔یہ تصور کہ پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار ہی نہیں ہے، ایک بے بنیاد بات ہے۔ اگر دستورپاکستان پارلیمان کو یہ حق دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمان کی ہرقرارداد ہمیشہ درست ہوگی۔ پارلیمان انسانوں کا اجتماع ہے اور  اگر یہ انسان قرآن و سنت کے معیار پر پورے اُترتے ہوں، تو اُمید کی جاتی ہے کہ وہ جو قانون بھی بنائیں گے اس کی بنیاد شریعت ہوگی۔ خلافت راشدہ میں بھی شوریٰ یہ کام کرتی تھی۔ آج بھی شوریٰ یا پارلیمان یہ کام کرسکتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد دستورساز اسمبلی میں  علما پر مبنی ایک تعلیماتِ اسلامی بورڈ قائم کیا گیا تھا، جس میں ملک کے جید علما بشمول مولانا سیّد سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع اور علامہ جعفرحسین مجتہد شامل تھے۔ ان کی سفارشات کی روشنی میں دستور کا اولین مسودہ تیار کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ فوجی اور غیرفوجی آمروں نے دستور پر صحیح معنوں میں عمل نہ کرنے دیا۔ اس میں قصور نہ دستور کا ہے نہ پارلیمان کا، بلکہ وہ افراد اللہ اور اہلِ پاکستان کے سامنے جواب دہ ہیں، جو اس کام میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔