پاکستان کی تاریخ میں ۱۶دسمبر ۲۰۱۴ء ایک تاریک ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن دہشت گردوں کے ہاتھوں ۱۳۴ ؍اسکول کے معصوم بچوں کا سفاکانہ قتل ایک ایسا اندوہناک واقعہ ہے جس نے نہ صرف ہرپاکستانی بلکہ دنیا کے ہردردمند دل کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے۔ عملے کے ۱۰؍افراد بھی شہید ہوئے اور ۱۲۰ سے زائد زخمی ہوئے۔اس سفاکی پر جتنا بھی احتجاج کیا جائے وہ کم ہے۔ ایسے سانحے قوموں کو ان کے خوابِ غفلت سے بیدار کردیتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قوم اس امتحان اور آزمایش کا مقابلہ کس طرح کرتی ہے اور آیندہ ایسے واقعات کی پیش بندی کے لیے کیا اقدامات اُٹھاتی ہے۔
پاکستانی صحافت، دانش ور، کالم نگار، ایک عام شہری بلکہ جہاں کہیں بھی دو افراد چند لمحات کے لیے مل بیٹھتے ہیں اس واقعے پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ ایک چیز جو ان گفتگوئوں میں مشترک نظر آتی ہے وہ ان سفاک افراد کے بارے میں یہ راے کہ ایسے گھنائونے کام کے کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے۔ یہ لازماً سرحدپار سے آنے والے وہ افراد تھے جو پاکستان میں عدم استحکام، عدم تحفظ اور عالمی تناظر میں پاکستان کی معاشی ساکھ اور ترقی کو مجروح کرنے اور پاکستان میں کسی بیرونی سرمایے سے تجارتی فروغ کے دروازے بندکرنے کے خواہش مند تھے۔ اس لیے نہ صرف یہ کہ یہ مسلمان نہیں ہوسکتے بلکہ یہ پاکستانی بھی نہیں ہوسکتے۔ پھر یہ کون تھے؟ کیوں آئے اور انھیں اندر کیوں آنے دیاگیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر شہری کو پریشان کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں پہلی بات بڑی واضح ہے کہ سانحۂ پشاور کو پاکستان میں دہشت گردی کا تنہا واقعہ نہیں کہا جاسکتا۔ جنرل ضیاء الحق کی اندرونِ ملک پالیسی نے سندھ میں ایک دینی جماعت کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے جس لسانی تحریک کو آنکھیں بند کر کے پنپنے کا موقع دیا اور جس کے ہمسایہ ممالک کے حساس اداروں سے روابط سے پردہ اُٹھانے پر صلاح الدین مدیر تکبیر کو شہید کیا گیا، اور پھر ٹارچر سیل قائم کر کے معصوم نوجوانوں کو نشانہ بنایاگیا۔ یہ سب ہمارے ماضی کا حصہ ہیں۔ نہ صرف سندھ، بلوچستان میںسیکڑوں افراد کا اغوا اور قتل مختلف عنوانات کے تحت ہوتا رہا، بلکہ بلوچستان میں مسلکی منافرت پھیلانے کے لیے بڑی تعداد میں ہزارہ شیعہ فرقے کے افراد کی شہادت اسی سرگزشت کا ایک باب ہے۔ ملک کے ہر صوبے میں تھوڑے عرصے کے بعد کبھی کسی دیوبندی یا بریلوی عالم یا عسکری جماعت کے اہم فرد کا قتل، کبھی شیعہ عالم پر حملہ اور قتل کیا جانا، کبھی کسی سیاسی شخصیت کا قتل کیا جانا، یہ سب واقعات ایک تسلسل کے ساتھ گذشتہ ۳۰سال سے دن دہاڑے ہوتے رہے ہیں۔ انتظامیہ ہو یا نام نہاد سول سوسائٹی کی جانب سے اس پر سواے ایک وقتی ردعمل کے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جو مسئلے کی جڑ کو تلاش کرنے کے بعد اس کا جڑ سے خاتمہ کرے۔ اس کی جگہ صرف ایک بات تسلسل سے کہی گئی کہ اس تمام قتل و غارت کی بنیاد ’مذہب‘ یا دینی مدارس ہیں۔ اس لیے دینی مدارس کو ختم کیا جائے اور ملک سے مذہب کے اثرات کو دُور کیا جائے تاکہ یہاں ’روشن خیالی‘ اور لادینیت کا فروغ ہوسکے۔ اس فکر کو آگے بڑھانے میں ہمارے ابلاغی ذرائع خصوصاً برقی ابلاغی ذرائع نے بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ ابلاغ عامہ نے ایک جانب تو ایسے تمام واقعات کو بنیاد بناکر ’مذہبی‘ افراد اور دینی مدارس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اور دوسری جانب دہشت گردی اورقتل و غارت گری کو مسلسل دکھا کر لوگوں کے دل و دماغ کو دہشت گردی کے مناظر کا عادی بنادیا کہ کسی شہر میں ۱۰،۲۰؍افراد کا قتل ہوجانا، حتیٰ کہ بعض افراد کا زندہ جلادیا جانا بھی ان نام نہاد سول سوسائٹی کے ارکان کو جگانے میں ناکام رہا ہے۔
لیکن ۱۳۴ معصوم بچوں کے خون نے، اس سے قطع نظر کہ ان کے والدین کا تعلق فوج سے تھا یا نہیں، قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور جس سول سوسائٹی کے اصرار نے اسلامی شریعت سے انحراف کرتے ہوئے پاکستان میں قتل کی سزا کو منسوخ کر انے میں بنیادی کردار ادا کیا، آج وہی سول سوسائٹی اس سانحے کے بعد اس کے ذمہ داروں اور دیگر دہشت گردوں کے لیے سزاے موت کے نفاذ کی حمایت کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔ اسلام کے نظامِ عدل میں جو احکامات خالق کائنات نے انسانوں کے معاشرے میں امن برقرار رکھنے کے لیے دیے وہ ابدی حیثیت رکھتے ہیں اور آخر انسان ٹھوکریں کھاکر ان کی طرف پلٹتا ہے۔
خوداحتسابی کی ضرورت ہے، الزام تراشی کی نہیں۔ اس سانحے میں فوج کے محفوظ مقام تک آنے کے لیے کئی سیکورٹی چیک پوسٹ عبور کیے گئے ہوں گے۔ مجرم دندناتے ہوئے آئے اور قتل و غارت گری کرگئے، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
سانحۂ پشاور کو اگر گذشتہ ۳۰سال کے تناظر میں دیکھا جائے تو جن تنظیموں سے وابستہ یا ماضی میں ان سے وابستہ اور اب خود آزاد وجود کی حامل تنظیموں نے ملک میں بدامنی اور انتشار کی فضا پیدا کی ہے۔ ان کے وجود میں آنے کی تاریخ پر بھی تنقیدی نگاہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا کرایے پر کام کروانے کے لیے تنظیموں کا بنانا بجاے خود ایک اخلاقی، دستوری اور شریعت کے نقطۂ نظر سے مباح فعل ہے؟ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اسلام کے ابدی قانون اور پیغام میں قتلِ ناحق کو چاہے وہ صرف ایک انسان کا ہو، تمام انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیا اسلامی شریعت میں کہیں بھی اس بات کی گنجایش پائی جاتی ہے کہ عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو چاہے وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہوں، سفاکانہ قتل کا نشانہ بنایا جائے؟ کیا نبی رحمتؐ نے کسی موقعے پر ایسے فعل کو جائز قرار دیا؟ کیا خلفاے راشدین نے بچوں، عورتوں اور معمر افراد کے قتل پر آنکھیں بند رکھیں؟ اگر یہ تاریخی حقیقت ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی قرآن و سنت اور خلفاے راشدین کی پیروی کا دعویٰ بھی کرے اور قرآن وسنت کے واضح احکام کو پامال بھی کرے۔
پھر مسئلے کا حل کیا ہو؟ کیا چھاپہ ماروں کو مروجہ عسکری طریقوں سے کیفرکردار تک پہنچایا جاسکتا ہے؟ کیا دنیا کے دیگر مقامات پر چھاپہ مار تنظیموں کو روایتی فوجی کارروائی سے ختم کیا جاسکا؟ اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا مسلح ماردھاڑ کرنے والوں کے وجود میں آنے کا سبب ان کی نام نہاد مذہبی شدت پسندی ہے یا وہ پیشہ ورانہ دہشت گرد ہیں جنھیں سرحدپار سے اسلحہ ، مالی امداد اور تربیت دے کر پاکستان کو غیرمستحکم رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً یہ بات قومی اخبارات میں آتی رہی ہے کہ بھارتی ساخت کا اسلحہ ملک کے مختلف حصوں میں پکڑا گیا ہے۔ یہ بات بھی بار بار سامنے آتی رہی ہے کہ افغان سرحد اس کام کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ اگر یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے تو پھر اس دہشت گردی کا الزام ’مذہب‘ کے سر تھونپنا ایک گھنائونی سازش ہے۔
اوّلاً: ملک کے نظامِ تعلیم میں سوشل اسٹڈیز، اُردو اور انگریزی زبان کے نصابات میں ایسے موضوعات پر مؤثر تحریرات کی شمولیت جو اسلام کے نظامِ عدل، حقوقِ انسانی اور خصوصاً حقوقِ نسواں، معاشی عدل، معاشرتی اداروں خصوصاً خاندان کا تحفظ اور خاندانی اقدار پر مبنی ہوں۔ ان تحریروں کو پہلی جماعت سے بارھویں جماعت تک سرکاری اور غیرسرکاری اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر نہ صرف پڑھایا جائے، بلکہ طلبا اور طالبات کو الگ الگ ایسی سرگرمیوں میںمشغول کیا جائے جہاں وہ ان تعلیمات پر عمل کرسکیں۔ غریبوں، بے آسرا افراد، بیماروں اور مصیبت زدہ افراد کی مدد کرنے کے ذریعے اسلامی تعلیمات پر عمل کرسکیں۔
ثانیاً: جو نوجوان انتہاپسند عسکری تنظیموں کے زیراثر یہ سوچنے پر آمادہ ہوگئے ہیں کہ جو کچھ انھیں ’جہاد‘ کے نام پر سمجھایا گیا ہے صرف وہی اسلام ہے، انھیں براہِ راست قرآن وسنت سے روشناس کراتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کے جامع تصور سے آگاہ کرنا اوراس بات کو یقینی بنانا کہ لازمی طور پر افضل جہاد وہی ہے جسے قرآن کریم نے نفس اور مال کے ساتھ جہاد کہا ہے، لیکن اس افضل جہاد سے قبل جس اہتمام اور تیاری کی ضرورت ہے کیا اس کے بغیر جو، جب اور جہاں چاہے اور جس طرح چاہے جہاد کرسکتا ہے؟ یہ کام علماے کرام کا ہے کہ وہ بغیر کسی معذرت اور مداہنت کے قرآن و سنت کے واضح احکام کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کریں اور نوجوانوں کو اپنے موقف پر نظرثانی کا موقع فراہم کریں۔
کوئی بھی نظریاتی گروہ محض قوت کے استعمال سے ختم نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صحیح نظری شکل کو پیش کیا جائے اور ایک کھلے مکالمے کے ذریعے ذہنوں کے زاویوں کو بدلا جائے۔ یہ عمل صبر طلب ہے۔ یہ عمل قرآن و سنت کے جادۂ عدل و اعتدال کو براہِ راست پیش کرنے کا عمل ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کلامِ عزیز انسانوں کے قلب و دماغ کو تبدل کرنے کی اعلیٰ ترین صلاحیت رکھتا ہے۔
ثالثاً: معاشرے اور ملک سے استحصال، اقرباپروری، پارٹی کی بندگی، معاشی ظلم، اخلاقی زوال اور گھنائونی حد تک بداخلاقی کے رواج میں ابلاغ عامہ جو کردار ادا کر رہے ہیں اس کی اصلاح ریاستی، معاشرتی اور انفرادی، ہرسطح پر کرنے کی ضرورت ہے۔ ابلاغِ عامہ کا کام نہ صرف صحت مند انداز میں کمزوریوں کی نشان دہی ہے بلکہ ان کے حل کی طرف اُمیدافزا انداز میں راہ دکھانا بھی شامل ہے۔ اگر ایک عام شہری کو عدالتوں سے عدل نہ ملے ، ہسپتالوں میں دوا نہ ملے، تجارتی اداروں میں ملازمت نہ ملے، اور گھراور معاشرے میں ہرجگہ فحاشی، استحصال اور ظلم کا دور دورہ ہو، تو اس کا موجودہ نظام کے خلاف کھڑے ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ مغربی ممالک کے زیراثر ان کے مفادات کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ لینے کی بھی اصلاح کی جائے، اور اپنے قومی مفاد کو مغربی سامراجی طاقتوں کے مفادات سے الگ کر کے ترجیحات میں تبدیلی کی جائے۔ زوال کی کم تر حد تک پہنچ جانے کے باوجود آج بھی اس ملک اور قوم پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے جو انعامات ہیں وہ اَن گنت ہیں۔ اس نے ہمیں چاروں موسم دیے ہیں اور ان کے لحاظ سے پھل، میوے اور ہرقسم کی غذائیں دی ہیں، معدنیات دی ہیں، ایسے افراد دیے ہیں جو اس گری ہوئی حالت میں بھی دنیا میں سب سے زیادہ اللہ کے نام پر خیرات کرتے ہیں اور پاکستان تمام دنیامیں سب سے زیادہ خیراتی اور فلاحی کاموں پر خرچ کرنے والی قوم ہے۔ ان تمام اچھی خصوصیات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مثبت فکر کے ساتھ قوم کی تعمیرنو کے لیے قرآن و سنت کے راستے کو اختیار کرنا ہوگا۔ اسی میں ہماری فلاح ہے، اسی میں ہمارا مستقبل ہے، اسی میں ہمارا اتحاد اور بقا ہے۔
ان مثبت اقدامات کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے گھنائونے جرائم کے مرتکب افراد کو قانون کے مطابق قرارواقعی سزا ملے۔ سیاسی جماعتوں کا معاشرے میں جرم، ناانصافی، قتل و غارت گری کو برداشت کرنا ہی بگاڑ اور تباہی کا اصل سبب ہے۔ جس معاشرے میں ظلم اور جرم دونوں کا تدارک نہیں کیا جاتاوہ تباہی سے نہیں بچ سکتا۔
اس سانحے کے پیش نظر فوری او ردیرپا اقدامات کی ضرورت ہے۔ پورا نقشۂ کار بننا چاہیے اور اس کے مطابق اقدامات اُٹھانے چاہییں۔ ہزاروں میل کا فاصلہ پہلے قدم سے ہی طے ہوتا ہے۔ منزل کے تعین کے بغیر جو قدم اُٹھے گا وہ بے سمت ہوگا۔
بلوچستان میں مسلکی بنیاد پر ہزارہ شیعوں کی تعداد ہزاروں کے بجاے سیکڑوں میں لکھی جائے۔