سانحۂ پشاورایسا الم ناک اور اندوہناک سانحہ ہے جس سے پوری قوم سوگوار ہے۔اتنے دن گزرنے کے بعد بھی کسی کو یقین نہیں آرہا کہ کلیوں کو ایسے مسلا جا سکتا ہے، پھولوں کو ایسے روندا جاسکتا ہے۔ ورسک روڈ پر واقع پاک فوج کے زیرانتظام اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے ۱۳۴بچوں سمیت ۱۴۴؍افراد شہیدکو کیا ،۱۲۰ سے زائد زخمی ہوئے۔ اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی حملے میں شہید ہوئیں۔ قطار میں کھڑے کیے گئے بچے زورزور سے لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا ورد کرتے اور اللہ کے واسطے دیتے رہے، آسمان کی طرف دیکھتے فریاد کرتے رہے اور ہاتھ جوڑتے رہے لیکن انھیں معاف نہیں کیا گیا۔سب سے پہلی گولی اسلامیات کے استاد کو لگی۔ پھول جیسے بچے جن میں سے بعض قرآن کریم کے حافظ تھے۔ ان معصوم بچوں کے چہرے دیکھ کریوں محسوس ہورہا تھا جیسے یہ معصوم فرشتے ہیں جنھیں سفید کپڑوں میں لپیٹ کر مٹی کے حوالے کیا جارہا ہے۔ میں نے خود کئی بچوں کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس دوران یوں محسوس ہوا جیسے میرے اپنے بچے سامنے پڑے ہیں۔
حالیہ تاریخ میں بدامنی سے سب سے زیادہ نقصان پشاور شہر کو پہنچاہے۔ گذشتہ تین عشروں سے اس کے گلی کوچوں اور گلیوں بازاروں میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔سابق سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان پر حملہ آور ہوا تولاکھوں افغان مہاجرین نے ادھرکا رُخ کیا۔ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کا بدلہ روسی ایجنٹوں نے پشاور سے لیا اور اس کے معصوم شہری انتقام کا نشانہ بنے۔ امریکا، ناٹو فوجوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوا تو اس کا بھی سب سے زیادہ نقصان پشاور کو ہوا۔ یہاں کے شہریوں نے کئی بار انسانی چیتھڑوں کو دیواروں، درختوں اور شاخوں پر دیکھاہے۔ یہ کبھی پھولوں کا شہر تھا،لیکن گذ شتہ تین عشروں سے افغانستان میں استعماری قوتوں کی مسلط کردہ جنگوں کی وجہ سے اس کے چوک، چوراہے اور گلیاں اور بازار خون رنگ ہوگئے ہیں۔ پاک افغان بین الاقوامی سرحد کے آرپار گذشتہ تین عشروں میں اتنا بارود اور ایسے خطرناک ہتھیار استعمال ہوئے ہیں کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سینیر ڈاکٹروں کے ایک گروپ کاریسرچ کے بعد کہناہے کہ: ’’اس علاقے میں بعض ایسی بیماریاں اور علامات مریضوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے استعمال کے بعد دیکھنے کو ملتی تھیں۔ یہاں کی زمین اورپہاڑوں کے پتھروں، درختوں اورپانی کے چشموں نے جنگی ہتھیاروں کا اتنا زہریلا مواد جذب کیا ہے کہ آیندہ ۳۰۰سال تک اس کے اثرات رہیں گے‘‘۔ یہ اتنا بڑا انسانی المیہ ہے جو اب تک نظروں سے پوشیدہ ہے اور کوئی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
آرمی پبلک اسکول جہاں یہ قیامت ٹوٹی،پشاور کے حساس ترین علاقے میں واقع ہے۔ وہاں سے چند گز کے فاصلے پر سرکاری دفاتر ہیں، گورنر ہاوس، وزیر اعلیٰ ہاوس اور سیکرٹریٹ ہے۔ وہاں بغیر کسی رکاوٹ کے دہشت گردوں کے پہنچ جانے اور بڑے پیمانے پر بے گناہ بچوں کے قتلِ عام نے عوام الناس کے ذہنوں میں بے شمار سوالات پیدا کیے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اوران کے بے شمار ادارے حادثات کے بعد توچند دنوں کے لیے متحرک ہوتے ہیں لیکن ایسے حادثات کا قبل از وقت اِدراک کرنے میں ناکام کیوں رہتے ہیں؟ سانحے کے اگلے دن وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے پشاور میں پارلیمانی پارٹیوں کا سربراہی اجلاس بلایا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مل کر پشاور کا دورہ کیا، ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھے اور صورت حال کا جائزہ لیا۔ حالات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سب ایک ہوجائیں۔ اگر اس موقعے پر بھی سیاسی قیادت ایک نہ ہوتی تو پھرکبھی آپس میں مل بیٹھنا ممکن نہ ہوتا۔
سربراہی اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں نے قیام امن اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔ ہماری طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ملک میں استحکام اورقیام امن کے لیے عدل و انصاف کی حکمرانی ضروری ہے۔ قصاص اللہ کا حکم ہے مگر یورپی یونین کے دبائو کی وجہ سے اسے معطل کر دیا گیا ہے۔ آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن عملی طور پر اس سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ اسے عملاً نافذ اور حدود اللہ پر عمل درآمد کیاجانا چاہیے، اوریہ مناسب موقع ہے کہ آئین کی جن اسلامی دفعات کوعملی طور پر معطل کیا گیا ہے، انھیں بحال کیا جائے۔ ہماری تجاویز کا تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خیرمقدم کیا۔ قانون نافذ کرنے میں کسی قسم کے بیرونی دبائو کو یکسر مسترد کر دینا چاہیے۔قصاص اللہ تعالی کا حکم ہے اورقرآن مجید میں اسے زندگی قرار دیا گیا ہے:
وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ ۲:۱۷۹)عقل و خرد رکھنے والو!تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے اُمید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے ۔
جب کوئی قتل کا مرتکب ہوتا ہے اورجرم ثابت ہوجاتا ہے تو صدر پاکستان ، ریاست اورحکومت کویہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سزا کو معاف کر دے یا اس پر عمل درآمد نہ کرے۔ قاتل کو معاف کرنے کا حق وارث کاہے ،ریاست یا اس کے سربراہ کا نہیں۔ حکومت صلح کی کوشش کرواسکتی ہے لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں یورپ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے حدوداللہ کو معطل کرنا قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان میں جب حدود اللہ کے نفاذ کی بات ہوتی ہے تو یورپ سے متاثر بعض عناصراس پر واویلا کرتے ہیں کہ ملک کو اسلامی شریعت کے نفاذ کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ ایسے تمام عناصر کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اس کی منزل اسلامی نظام ہی ہے۔ مسلمانان پاکستان کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی نظام قابلِ قبول نہیںہے۔ اسلامی نظام سے ہی ملک کو خوش حالی و ترقی نصیب ہوگی۔ اسلامی پاکستان بنے گا تو امن آئے گا،رزق میں کشادگی ہو گی اورقوم کے اندر وحدت پیدا ہوگی۔
اس اجلاس میں ہم نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اگر پورے اخلاص کے ساتھ ۲۰۱۵ء کو امن کا سال قرار دیتے ہوئے سیاسی قیادت اور قوم اس کے لیے یکسو ہو جائیں تو امن کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر وزیراعظم کو قیام امن کے لیے اعتماد اور مینڈیٹ دیا گیا۔اب یہ وزیراعظم اور حکومت کا امتحان ہے کہ وہ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ایسا جائز راستہ اختیار کرے کہ اس کے نتیجے میں امن یقینی ہوجائے۔ حکومت کا اولین کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنی قوم ،اپنے بچوں اورمائوں بہنوں کو تحفظ دے۔ یہ ذمہ داری مرکزی حکومت کی بھی ہے اور خیبرپختونخوا حکومت کی بھی ۔ اپنے بچوں کو تحفظ فراہم نہ کرپانا، کسی ایک حکومت یا ادارے کی نہیں ، سب کی اجتماعی ناکامی ہے ۔ پوری قوم کی نظریں اس وقت وفاقی حکومت پر ہیں۔ وہ بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے اپنی کمزوریوں اور غلطیوںکا جائزہ لیں اور ان کے ازالے کی فوری کوشش کریں تاکہ آیندہ اس طرح کا کوئی روح فرسا واقعہ نہ ہو۔ ماضی کا تجربہ یہ ہے کہ ہر سانحے اور حادثے کے بعد کچھ عرصے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اورادارے متحرک ہو جاتے ہیں لیکن پھرسانحے کو بھلا دیا جاتا ہے اور معمول کی کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ سانحات اور حادثات کے تدارک کے لیے جامع لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے اور قیام امن کے لیے امریکا اور یورپ کے بجاے اللہ تعالی اور اپنی قوم اور آئین و قانون کی طرف دیکھنا چاہیے۔
اس اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے مطالبے کے بعد حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسی بنانے کا اعلان کیا ہے،اور اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی سے ایک ممبر لیا گیاہے۔ جماعت اسلامی کی نمایندگی قومی اسمبلی میں اس کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ کر رہے ہیں اور ان کے ذریعے جماعت اسلامی نے اپنی تجاویز کمیٹی میں پیش کی ہیں۔ہمارے خیال میں اس واقعے کی وجہ سے چند نمایشی اور وقتی اقدامات کے بجاے پورے سسٹم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس کا مقابلہ یک رُخی حکمت عملی سے نہ ہوگا بلکہ اس کے لیے کثیرجہتی حکمت عملی درکار ہے۔ قوت کا استعمال کرتے ہوئے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھا جائے۔
مسلمانوں کو قتل کرنا کافروں کا کام ہے۔ حجۃ الوداع کے موقعے پر حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ دیکھو میرے بعد کافروں کی طرح نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔ ایک اور حدیث میں آنحضوؐرنے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی نے ایک انسان کو قتل کرنے کے لیے اُقتل پورا نہیں کہا، صرف اُق کہہ کر ارادہ کیا اورابھی بات مکمل نہیں کی تو وہ بھی قتل میں شریک ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تلوار یا تیر لے کر مسلمان کی طرف اشارہ نہ کرو، اس سے بھی اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مروی حدیث میں آپؐنے فرمایاکہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور حقیقت میں مہاجر وہ ہے جو ان باتوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔کسی انسان کا قتل آنحضوؐر کو اتنا ناپسند تھا کہ جب ایک جنگ کے دوران بھی صحابی نے کلمہ پڑھ لینے والے دشمن کو قتل کیاتو آپؐ نے اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا اور صحابی کو بلا کر پوچھا کہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا تواسے قتل کیوں کیا؟ صحابی نے جواب دیا کہ حضوؐر اس نے توخوف کی وجہ سے کلمہ پڑھا تھا تو نبی مہربانؐ نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔ حضور نبی کریمؐ نے جنگ کے بھی آداب سکھائے اور اس کے اصول متعین فرمائے کہ خواتین ، بچوںاور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھانا ،پودوںاور فصلوں کو تباہ نہ کرنا، عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانا، دشمن کی لاش کا مثلہ نہ کرنا، کسی کی شکل کو نہ بگاڑنا۔
اصولی طور پر کسی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کا حق کسی فرد یا کسی جماعت اور گروہ کو نہیں ہے، یہ ریاست اور حکومت کا کام ہے۔ اسی طرح حدود جاری اور تعزیرات قائم کرنابھی ریاست اور حکومت کے ذمے ہے۔کوئی فرد یا گروہ کسی چور کو پکڑ کر اس کا ہاتھ نہیں کاٹ سکتا۔ اس راستے پر چلنے کے نتیجے میں معاشرے میں انتقامی جذبات پروان چڑھتے ہیں اور پورا معاشرہ فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ برائی دیکھ کر ہاتھ سے منع کرنے کا حکم بھی حکومت کے لیے ہے۔جو حکومت میں نہیں ہے اور جس کی ذمہ داری نہیں ہے اس کا کام دعوت دینا ہے، افہام و تفہیم کے ذریعے منع کرنا ہے، اوراگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل میں نفرت اور ناگواری کا اظہار کرنا ہے۔ ایک انسانی معاشرے میں ریاست کا کام ریاست کو کرنا ہے اوربحیثیت فرد ایک مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنا فرض ادا کرنا ہے ۔ اگر کسی تنظیم اور گروہ نے من مانی کرتے ہوئے ازخود اپنے آپ کو قاضی کے منصب پر فائز کر لیا اوراپنی عدالتیں لگا کر سزائیں دینا شروع کر دیں، تو اس سے معاشرے میں فساد برپا ہوجائے گا اورہر چوک اور چوراہے اور ہر گلی اور بازارمیں خون خرابہ ہوگا اور پورا ملک دار الفساد بن جائے گا۔
جنگ عظیم اول کے بعد عالمِ اسلام کو استعماری طاقتوں نے تقسیم در تقسیم کیا ،اور برطانیہ ، فرانس، اٹلی اوردیگر ممالک نے مسلم ممالک پر قبضے کیے۔ فرانس اور برطانیہ نے ۱۹۱۷ء میں اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی اور خطے کی تقسیم کے نتیجے میں آزاد مسلم ممالک وجود میں آئے۔ اس تقسیم کا مقصد آزاد مسلم ممالک کے درمیان خانہ جنگی کروانا اور ان کی معدنیات پر ہاتھ صاف کرنا تھا۔ خزانے لوٹ کر اپنے ممالک میں پہنچائے گئے۔ جب مسلمانوں کی تہذیب اور زبان کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو ہر خطے میں ایسے لوگ اٹھے جنھوں نے ان استعماری طاقتوںکے خلاف طویل جدوجہد کرکے آزادی کی شمعوں کو روشن اور خوابیدہ مسلمانوں کو بیدارکیا۔پاکستان سے لیبیا تک آزاد ممالک وجود میں آگئے۔ اقوام متحدہ کے نقشے پر جگہ جگہ مسلم ریاستیں نمودار ہوئیں اور انھوں نے وحدت و ترقی کا سفر شروع کیا۔ ان ریاستوں میں قدرت کے عنایت کردہ پوشیدہ ذخائر تھے۔ تیل کے سمندر اور سونے وہیرے جواہرات کے ذخائر دریافت ہوئے۔
ترقی و خوش حالی کی طرف مسلمانوں کا گلوبل مارچ شروع ہوا تو سامراجی قوتوں نے پہلا وار پاکستان پر کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنادیا۔ عراق، جہاں کی فوج اور کرنسی دونوں مضبوط تھیں، اسے پہلے ایران اور پھر کویت سے لڑا یااورپھر اس پر براہ راست حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اورکارپٹ بمباری کے ذریعے وہاں کی فوج کو منتشر اور وحدت کو پارہ پارہ کیا۔عراقی صدر صدام حسین کو پھانسی دی اور شیعہ سُنّی فسادات شروع کروا کر ملک کو تقسیم کر دیا۔ افغانستان نے روسیوں کے خلاف طویل جہاد میں ۱۵لاکھ شہدا کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی، مگر ابھی شہدا کا خون خشک نہیں ہوا تھا اورافغان قوم نے آزادی کی بہار نہیں دیکھی تھی کہ اس پر بھی ۵۲-بی بم بار طیاروں سے بمباری ہوئی اور ۴۶ممالک کی فوجوں نے امریکی قیادت میں افغانستان کو قبرستان بنادیا۔ لیبیا میں براہ راست کارروائی کرکے وہاں نظام کو درہم برہم کیا گیااور اس وقت وہاں پر مسلح تنظیمیں ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہی ہیں۔ شام میں لاکھوں مسلمان شہید کر دیے گئے اور تباہی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ۔ ہر طرف یہی استعماری قوتیں مدد دے رہی ہیں اوران کی سازشوں سے اس وقت تقریباً اسلامی ممالک میں باہمی جنگیں جاری ہیں۔
عالمی استعماری قوتیں ہمیشہ سے اسلامی ممالک میں جمہوریت کی حوصلہ شکنی کر تی رہی ہیں اور ہر جگہ بادشاہوں اور فوجی آمریت کو سپورٹ کیاہے۔ آمرانہ حکمرانی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مفیدمطلب حکومتوں کو بروے کار لایاگیا ہے۔ جہاں بھی عوام حق راے دہی کے ذریعے اپنے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، وہاں اسے سازشوں کے ذریعے سبوتاژکر دیا جاتا ہے۔ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ الیکشن میں جیت گیامگر اسے اس لیے تسلیم نہیں کیا گیا کیوں کہ اس کی منزل اسلام تھی۔فوج کے ذریعے وہاں جمہوریت کا گلا دباکر ۸۰ہزار کارکنان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ فلسطین میں حماس کی جیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور تبصرہ کیا گیا کہ دو سَروں والا سانپ ہے جس کے ایک سر پر ووٹ ہے اور دوسرے پر گولی۔مصرکو طویل عرصے کے بعد جمہوری حکمران ملا تو اس کے خلاف سازش کی گئی اورفوج کو استعمال کرکے ہزاروں کارکنان کو شہید کرنے کے بعد صدر محمدمرسی کو ہزاروں کارکنان کے ساتھ جیل میں ڈال دیا گیا۔پاکستان میں بھی امریکا اور یورپ نے ہمیشہ فوجی آمریت کی حمایت کی۔ جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کو ترجیح اور جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں فوجی ڈکٹیٹروں کوزیادہ امداد دی۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں وہ فوائد نہیں لیے جاسکتے جو ڈکٹیٹر سے لیے جا سکتے ہیں۔ جمہوری حکومت، عوام اور اداروں کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے، جب کہ ڈکٹیٹرکی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں اور وہ مغرب کا محتاج ہوتا ہے۔
امریکا اور اس کے مغربی حواری چاہتے ہیں کہ عالمِ اسلام میں جنگ ہواور مسلمان آگے بڑھ کر تعلیم وترقی کے میدان میں ان کا مقابلہ کرنے کے بجاے آپس میں دست و گریباں رہیں اور ایک دوسرے سے لڑکر تباہ ہوتے رہیں۔ اس وقت جہاں جہاں جنگ ہو رہی ہے تو یہ ان کی باقاعدہ طویل منصوبہ بندی کی وجہ سے ہے۔ امریکا اور مغرب کی اسلحہ سازی کی صنعت ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اسی لیے وہ جنگوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اپنے لیے نئی مارکیٹ تلاش کرتے ہیں۔ جنگ ہوتو ان کی اسلحہ انڈسٹری ترقی پاتی اور زرمبادلہ کماتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس کتاب اور دلیل کی قوت ہے اور مغرب کی جنگی مشینری کا مقابلہ اسی سے کیا جاسکتا ہے ۔ ضروری ہے کہ امریکا و یورپ کی سازش کا شکار ہونے کے بجاے نئی نسل کے ہاتھ میں قلم اور کتاب دی جائے اور لائبریریوں اور لیبارٹریوں کو آبادکیا جائے۔ مسلمانوں کا شان دار ماضی ان کے شان دار مستقبل کی نوید ہے۔ مغرب کے زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ان کے پاس عدل و انصاف پرمبنی اسلامی نظام ہے۔
انسان کی جسمانی و روحانی اور معاشرتی و معاشی اور تہذیبی ضرورتوں کوصرف اسلام ہی پورا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کا پسندیدہ نظام اور عدل و انصاف کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
اِعْدِلُوْا قف ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط (المائدہ۵:۸) عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ مومن کو قصداً قتل کرنے والے کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اللہ کا غضب اور لعنت ہے اس پر اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا گیا ہے۔
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُوْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاوُہ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ وَاَعَدَّ لَہ عَذَابًا عَظِیْمًاo (النساء ۴:۹۳)رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔
بڑے عذاب جہنم کا اعلان اور غضب و لعنت اس لیے ہے کہ اللہ رب العالمین بحیثیت خالق اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے اور جو مخلوق کو نقصان پہنچاتا ہے ، اس پر غضب ناک ہوتا ہے ۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ جس نے ایک نفس کو بغیر کسی وجہ کے قتل کیا تو یہ ایسے ہی جیسے اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا ہو، اور جس نے ایک انسان کو بچایا تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے ساری انسانیت کو بچایا :
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
قرآن کریم میںبارہا جہنم کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ اس حدیث ِمبارکہ کے مفہوم سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جہنم میں آگ کے بہت بڑے بڑے گڑھے ہیں اور ہر گڑھا بذات خود ایک عذاب ہے لیکن ہر گڑھا اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہے کہ میرے پڑوس میں آگ سے بچا۔ جہنم ایسی جگہ ہے جہاں آگ دوسری آگ سے پناہ مانگتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو کائنات میں اپنا خلیفہ بنا کر اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ اسے کائنات اور اپنے پورے نظام میں وی آئی پی کا درجہ دیا ہے ، توجو بھی اس کو ذلیل اور رُسوا کرتا ہے، اس پر اپنی خدائی مسلط کرنے کی کوشش کرتا اور انھیں اپنا بندہ اور غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرماتا۔
ملت اسلامیہ بالعموم اور پاکستانی قوم بالخصوص اس وقت بہت بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ ایک انتہائی افسوس ناک صورت حال کا سامنا ہے۔ قتل و غارت گری کا ایک بازار ہے جو اسلام کے نام پر سجایا گیا ہے ۔ جو ذبح ہو رہا ہے وہ اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کا ورد کر رہا ہے اور جس نے اس کے گلے پر چھری رکھی ہے وہ بھی لا الٰہ الا اللّٰہ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اسلام کتنا مظلوم ہو گیا ہے اور دینِ رحمت کو کیسے یرغمال بنا لیا گیا ہے؟ سارے عالم کے لیے سراپارحمت وشفقت نبی کی امت کا آج یہ حال ہو گیا ہے۔ اس چہرے کے ساتھ دنیا کو اسلام کی دعوت کیسے دی جائے گی؟جب بھی پشاور جیسا کوئی سانحہ ہوتا ہے تو ایک مخصوص لابی اسے اسلام اور مذہب کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے حالانکہ مذہب اس سارے معاملے میں بذاتِ خود مظلوم ہے ۔ دین تو نام ہی انسان کے عقیدے اور جان و مال کی حفاظت کا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسانی جان کے بچانے کو پوری انسانیت کو بچانا قرار دیا ہے۔
سانحۂ پشاور کے بعد ہم نے قوم سے اپیل کی کہ اپنے رب کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں کہ مسلمان پر جب بھی سخت وقت آتا ہے تو وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دعا و التجا کے ذریعے اس سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چھت نہیں کہ جہاں پناہ لی جائے۔ مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ خوشی کے لمحے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اورتکلیف کے لمحے میں صبراور دعا کرتا ہے۔ پوری قوم دعا گو ہے کہ ان بچوں کی شہادتوں کے بدلے اللہ تعالیٰ وطن عزیزکو امن کا تحفہ اورسکون کی نعمت عطا فرمائے ۔
بحیثیت مسلمان اور بحیثیت قوم ہمیں ایک طویل جدوجہد درپیش ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک کارکن کے طور پر ہمیں آبادی کے ۵۰ فی صد سے زائدنوجوان نسل کو اسلام کا حقیقی پیغام دینا ہے اور اسے منظم کرنا ہے۔ شرح تعلیم میں اضافہ کرنا ہے اور سکول اور کالجوں کے علاوہ مساجد کو بھی عبادت کے ساتھ تعلیم کا مرکز بنانا ہے۔ رنگ ، نسل، علاقے، زبان اور مسلک کی بنیاد پر اختلافات ختم کرکے اپنی قوم کو ایک امت بنانا ہے۔وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کے دل پر دستک دی جائے اور اسے ذہن نشین کرایا جائے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام میں ہے۔ اس نظام سے بے وفائی کے نتیجے میں ہم آدھا ملک کھو چکے ہیں اور باقی ماندہ ملک خطرات سے دوچار ہے۔
ملک اور قوم کو بحران سے نکالنے اور تحریک پاکستان کا وعدہ ایفا کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے اسلامی پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ ہماری منزل ایک خوش حال اور ترقی یافتہ پاکستان ہے، اور یہ اسلامی پاکستان ہی سے ممکن ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ملک کے مؤثر ادارے اور مراعات یافتہ طبقے موجودہ صورتِ حال اور اسٹیٹس کو کے ساتھ ہیں اور سیاست و جمہوریت اور ریاست و حکومت کو انھوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ بنک غریبوں کا استحصال کرکے اسی اسٹیٹس کو ،کو آکسیجن مہیا کرتا ہے،اور نام نہاد آزاد میڈیا اسی کو مسلط رکھنے میں پیش پیش ہے مگرہمیں اپنے رحمان و رحیم رب کے اس وعدے پر کامل یقین ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَـنَہْدِیَنَّہُمْ سُـبُلَنَا ط وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِـنِیْنَ o (العنکبوت۲۹:۶۹) جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقینا اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے ۔