سوال : سرکاری اہل کاروں کو جو نذرانے اور ہدیے اور تحفے ان کی طلب اور جبرواِکراہ کے بغیر کاروباری لوگ اپنی خوشی سے دیتے ہیں، انھیں ملازمت پیشہ حضرات بالعموم جائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتا۔ اس لیے یہ حلال ہونا چاہیے۔ اسی طرح سرکاری ملازموں کے تصرف میں جو سرکاری مال ہوتا ہے اسے بھی اپنی ذاتی ضرورتوں میں استعمال کرنا یہ لوگ جائز سمجھتے ہیں۔ میں اپنے حلقۂ ملاقات میں اس گروہ کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں مگر میری باتوں سے ان کا اطمینان نہیں ہوتا۔
جواب:ایک شخص یا اشخاص سے دوسرے شخص یا اشخاص کی طرف مال کی ملکیت منتقل ہونے کی جائز صورتیں صرف چار ہیں۔ ایک یہ کہ ہبہ یا عطیہ ہو برضا و رغبت۔دوسرے یہ کہ خریدوفروخت ہو، آپ کی رضامندی سے۔ تیسرے یہ کہ خدمت کا معاوضہ ہو، باہمی قرارداد سے۔ چوتھے یہ کہ میراث ہو، جو ازروے قانون ایک کو دوسرے سے پہنچے۔ ان کے ماسوا جتنی صورتیں انتقالِ ملکیت کی ہیں، سب حرام ہیں۔ اب دیکھنا چاہیے کہ جو روپیہ ایک افسر یا اہل کار کسی صاحب ِ غرض سے لیتا ہے، یا جو استفادہ وہ اس مال سے کرتا ہے جو دراصل پبلک کا مال ہے اور پبلک کاموں کے لیے اس کے تصرف میں دیا جاتا ہے، اس کی حیثیت کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ خریدوفروخت اور میراث کی تعریف میں تو آتا نہیں۔ پھر کیا وہ ہبہ یا عطیہ ہے؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک سوال کا جواب کافی ہے۔ کیا یہ ہبہ یا عطیہ ایک اہل کار کو اس صورت میں بھی ملتا، جب کہ وہ اس منصب پر نہ ہوتا، یا پنشن پر الگ ہوچکا ہوتا۔ اگر نہیں تو یہ عطیہ یا ہبہ نہیں ہے کیونکہ یہ اس کے منصب کی وجہ سے اس کے پاس آرہا ہے نہ کہ کسی ذاتی تعلق یا محبت یا ہمدردی کی بناپر۔ اب کیا یہ ان خدمات کا معاوضہ ہے جو ایک اہل کار اپنے منصب کے سلسلے میں انجام دیتاہے؟ ظاہر ہے کہ یہ درحقیقت معاوضہ بھی نہیں ہے۔ معاوضہ تو صرف وہ تنخواہ اور الائونس ہیں جو ملازم ہونے کی حیثیت سے آدمی کو ملتے ہیں۔ ان کے ماسوا جو کچھ اہل کار اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کے سلسلے میں حاصل کرتا ہے وہ یا تو خیانت ہے جو پبلک فنڈ میں سے کی جاتی ہے۔ یا ناجائز خدمات کا معاوضہ ہے جو شرائط ملازمت کے خلاف عمل کرنے کے بدلے میں آدمی کو ملتا ہے۔ یا جائز خدمات کا ناجائز معاوضہ ہے کیوںکہ شرائط ملازمت کے حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کا معاوضہ تو بشکل تنخواہ آدمی پہلے ہی لے چکا ہے، اس پر بھی مزید معاوضہ حاصل کرنا صریح طور پر حرام خوری ہے۔
یہ تو تھی اصولی بحث۔ اب دیکھیے کہ اس معاملے میں شرعی احکام کیا ہیں:
ابوحمید الساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرکاری ملازمین جو ہدیے وصول کرتے ہیں یہ خیانت ہے۔(مسند احمد)
ان ہی ابوحمید کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن اللتبیہ نامی ایک شخص کو قبیلہ ازد پر عامل بنا کر بھیجا۔ جب وہ وہاں سے سرکاری مال لے کر پلٹا تو بیت المال میں داخل کرتے وقت اس نے کہا کہ یہ تو ہے سرکاری مال، اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے ۔ اس پر حضوؐر نے ایک خطبہ دیا اور اس میں حمدوثنا کے بعد فرمایا: ’’میں تم میں سے ایک شخص کو اس حکومت کے کام میں جو اللہ نے میرے سپرد کی ہے عامل بناکر بھیجتا ہوں تو وہ آکر مجھ سے کہتاہے کہ یہ تو ہے سرکاری مال اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ لوگ خود ہدیے دیتے ہیں تو کیوں نہ وہ اپنے ابا اور اپنی اماں کے گھر بیٹھا رہا کہ اس کے ہدیے اسے وہیں پہنچتے رہتے؟(بخاری، مسلم ، ابوداؤد)
بُریدہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو ہم کسی سرکاری خدمت پر مقرر کریں اور اسے اس کام کی تنخواہ دیں، وہ اگر اس تنخواہ کے بعد اور کچھ وصول کرے تو یہ خیانت ہے۔(ابوداؤد)
ردیفع بن ثابت انصاری کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ یہ حرکت نہ کرے کہ مسلمان کے فَے (یعنی پبلک کے مال) میں سے ایک جانور کی سواری لیتا رہے اور جب وہ بیکار ہوجائے تو اسے پھر سرکاری اصطبل میں داخل کردے۔ اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو اس کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کے فَے میں سے ایک کپڑا برتے اور جب وہ پرانا ہوجائے تو اسے واپس کردے۔
عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی۔(ابوداؤد)
عدی بن عمیرۃ الکندی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! جو شخص ہماری حکومت میں کسی خدمت پر مقرر کیا گیا اور اس نے ایک دھاگہ یا اس سے بھی حقیر تر کوئی چیز چھپاکر استعمال کی، تو یہ خیانت ہے جس کا بوجھ اُٹھائے ہوئے وہ قیامت کے روز حاضر ہوگا۔(ابوداؤد)
یہ ہیں اس مسئلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، اور یہ اپنے مدعا میں اتنے واضح ہیں کہ ان پر کسی تشریح و توضیح کے اضافے کی ضرورت نہیں۔ جو لوگ اپنی حرام خوری کے لیے طرح طرح کے حیلے اور بہانے پیش کرتے ہیں اور اسے اپنی زبانی چال بازیوں کے ذریعے سے حلال بنانے کی کوشش کرتے ہیں، آپ ان سے کہیے کہ اگر حرام کھاتے ہو تو کم از کم اسے حرام تو سمجھو، شاید کبھی اللہ اس سے بچنے کی توفیق دے دے۔ لیکن اگر حرام کو حلال بنا کر کھایا تو تمھارے ضمیر مُردہ ہوجائیںگے، پھر کبھی حرام سے بچنے کی خواہش دل میں پیدا ہی نہ ہوسکے گی۔ اور جب خدا کے ہاں حساب دینے کھڑے ہوگے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت تمھارے بدلنے سے نہیں بدل سکتی۔ حرام حرام ہی ہے خواہ تم اسے حلال بنانے کی کتنی ہی کوشش کرو۔
پھر لوگوں سے کہیے کہ خدا اور آخرت اور حساب اور جزا و سزا، یہ سب تمھارے نزدیک محض افسانہ ہی افسانہ ہے، تب تو حلال و حرام کی بحث فضول ہے۔ جانوروں کی طرح جس کھیت میں ہریالی نظر آئے اس میں گھس جائو، اور جائز و ناجائز کی بحث کے بغیر کھائو جتنا کھایا جاسکے۔لیکن اگر تمھیں یقین ہے کہ اُوپر کوئی خدا بھی ہے، اور کبھی اس کے سامنے جاکر حساب بھی دینا ہے، تو ذرا اس بات پر بھی غور کرلو کہ آخر یہ حرام کی کمائی کس کے لیے کرتے ہو؟ کیا اپنے جسم و جان کی پرورش کے لیے؟ مگر یہ جسم و جان تو اس خدمت پر تمھارے احسان مند نہ ہوں گے بلکہ تمھارے خلاف خدا کے ہاں اُلٹا استغاثہ کریں گے کہ تو نے ہمیں اس ظالم کی امانت میں دیا تھا اور اس نے ہمیں حرام کھلاکھلا کر پرورش کیا۔ پھر کیا بیوی بچوں کے لیے کرتے ہو؟ مگر یہ بھی قیامت کے روز تمھارے دشمن ہوںگے، اور تم پر اُلٹا الزام رکھیں گے کہ یہ ظالم خود بھی بگڑا اور ہمیں بھی بگاڑ دیا۔ پھر آخر یہ عذابِ الٰہی کے خطرے میں اپنے آپ کو کس لیے ڈال رہے ہو؟ کون ہے جو اس ناجائز خدمت پر تمھارا احسان مند ہوگا؟ کس سے اس بے جا سعی پر صلے کی توقع رکھتے ہو؟ وہ غیرالٰہی نظامِ حکومت جس کے ایک جز کی حیثیت سے آپ لوگ کام کر رہے ہیں، بجاے خود ناپاک ہے۔ اس کی حیثیت بالکل خنزیر کے نظامِ جسمانی کی سی ہے جس کی بوٹی بوٹی اور رگ رگ میں حرام سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس کے کل پرزے بن کر آپ لوگ پہلے ہی گناہِ عظیم میں مبتلا ہیں۔ اب اس پر خیانت اور رشوت اور باطل طریقوں کے ارتکاب کا اضافہ کر کے اپنے آپ کو کیوں مزید خطرے میں ڈالتے ہو؟ کیا کبھی موت آنی ہی نہیں ہے؟ یا مرنے کے بعد کوئی جاے پناہ تجویز کر رکھی ہے جہاں خدا کی پکڑ سے بچ جانے کی اُمید ہے؟ (سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، اوّل،ص ۷۸-۸۲)
س : کمپیوٹر میں جن پروگراموں پر کام کیا جاتا ہے وہ عموماً چوری شدہ ہوتے ہیں اور مفت میں دستیاب ہیں۔ یہ چوری شدہ پروگرام نیٹ پر بھی دستیاب ہیں اور کھلے عام سی ڈی میں بھی جن کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ جن افراد یا کمپنیوں نے یہ پروگرام بنائے ہوتے ہیں ان کا ان پر بہت وقت اور پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ مغربی ممالک میں ان کی اچھی خاصی قیمت وصول کی جاتی ہے اور وہاں کے لوگ چوری شدہ پروگراموں کو استعمال کرنے کو غیراخلاقی حرکت تصور کرتے ہیں۔ ان پروگراموں کے بغیر کسی کمپیوٹر پر کوئی کام نہیں ہوسکتا، لہٰذا ان کا استعمال ضروری ہے مگر ان کی قیمت بہت زیادہ ہے اور سب لوگ اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ ان کو خرید سکیں اور کمپنیوں اور بڑے اداروں کے لیے تو ان کے لائسنس بہت ہی مہنگے ہیں۔کیا یہ چوری میں شمار ہوگا؟
ج:چوری شرعاً اس چیز کی شمار ہوتی ہے جو کسی ایسی جگہ میں محفوظ ہو جس تک دوسرے آدمی کی رسائی نہ ہو۔ کمرے کا تالا یا بکس کا تالا توڑ کر اس میں سے چیز نکالی جائے۔ چونکہ چوری شدہ پروگرام بقول آپ کے نیٹ پر بھی دستیاب ہیں اور کھلے عام ان کی سی ڈیز بھی دستیاب ہیں اس لیے اس کے روکنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ چوری شمار نہ ہوگی۔ جن لوگوں نے یہ پروگرام تیار کیے ہیں اور وہ اس کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انھیں اپنے بس میں رکھیں کہ وہ جسے دینا چاہیں دیں اور جس سے روکنا چاہیں روکیں۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص ان پروگراموں کو کسی طرح سے بلاقیمت و بلااجازت لے گا تو وہ چور شمار ہوگا۔ اگر کمپیوٹر پروگرام تیار کرنے والے چاہتے ہوں کہ لوگ ان کی اجازت سے یہ پروگرام چلائیں اور اس کی قیمت بھی دیں تو اخلاقاً لوگوں کو ان سے اجازت بھی لینا چاہیے اور قیمت بھی ادا کرنا چاہیے، کیونکہ موجودہ دور میں کاپی رائٹ کے تحت ان کا یہ حق بنتا ہے۔(مولانا عبدالمالک)
س : ہمارے کچھ ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اعانت ِ جماعت، زکوٰۃ کی مَد سے ادا کی جاسکتی ہے، جب کہ کچھ کا موقف ہے کہ زکوٰۃ کے آٹھ مخصوص مصارف ہیں جنھیں سورئہ توبہ میں بیان کردیا گیا ہے اور اعانت ِ جماعت ان مصارف میں نہیں آتی۔ لہٰذا زکوٰۃ کی مَد سے اعانت ادا نہیں کی جاسکتی۔ براہِ مہربانی وضاحت فرما دیں۔
ج:جماعت اسلامی دین کی سربلندی کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والی جماعت مجاہد فی سبیل اللہ ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے جو آٹھ مصارف بیان کیے ہیں، ان میں ایک مصرف جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ لہٰذا جماعت کی اعانت میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ اس میں کسی قسم کا تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)