بحث کا یہ پس منظر بنا چکنے کے بعد [زیڈ-اے] سلہری صاحب جماعت اسلامی کے نام پر اعتراض اُٹھاتے ہیں اور وہ شان دار استدلال کرتے ہیں کہ آدمی عش عش کر اُٹھتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس نام کے معنی یہ ہیں کہ جماعت کے علاوہ دوسرے تمام لوگ اسلام کے دائرے سے باہر ہوگئے۔ جی ہاں! مسلم لیگ نام کی اگر ایک جماعت موجود ہو تو وہ گویا یہ کہتی ہے کہ اور جتنی بھی جماعتیں ہیں وہ مسلمانوں کی نہیں غیرمسلموں کی ہیں۔ اگر ایک جمعیت العلما موجود ہو تو وہ گویا اپنے نام کے ذریعے یہ اعلان کرتی ہے کہ باقی سب جمعیتیں ’جہلا‘ کی ہیں۔ کوئی ادارئہ خدمت ِ خلق موجود ہو تو گویا یہ نام رکھ کر وہ دوسرے تمام اداروں کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ سب خدمت ِ نفس کے ادارات ہیں۔ اسلامیہ کالج اگر کوئی پایا جائے تو وہ گویا پکار پکار کر دوسرے تمام کالجوں کا غیراسلامی ہونا واضح کرتا ہے۔ ’طلوعِ اسلام‘ نام کا کوئی جریدہ نکلے تو اس کا سرورق گویا دوسرے تمام جرائد کو ’طلوعِ کفر‘ کا اُفق قرار دیتا ہے۔ اداروں اور جماعتوں کو چھوڑ کر اسی دلیل سے افراد کو لیجیے تو ماننا پڑے گا کہ اگر کسی شخص نے اپنا نام غلام محمد رکھ لیا ہو تو گویا وہ دوسرے کروڑوں بھائیوں کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ عبادالشیطٰن ہیں۔ کوئی شخص اگر’سعادت‘ اپنا تخلص اختیار کرلے تو باقی دنیا پر نحواست کا تخلص خواہ مخواہ چپک جائے گا۔ یہ دلیل بازاری سطح کے لوگوں سے تو پہلے بھی سنی تھی لیکن اس پر بڑی مایوسی ہوئی کہ پاکستان کا ایک ممتاز اخبارنویس بھی اس کو ایک بُرہانِ قاطع بنا کے لے آیا۔ اس بُرہانِ قاطع کی بنیاد پر سلہری صاحب چاہتے ہیں کہ ’جماعت اسلامی‘ کے نام کو ممنوع (ban) ٹھیرا دیا جائے۔ (’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۳، عدد۴، ربیع الثانی ۱۳۷۴ھ، جنوری ۱۹۵۵ئ، ص۳۶-۳۷)
_______________