رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیادی طور پرجو چیز پیش کی وہ یہ تھی کہ اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نہیں ہے۔ زمین خدا کی ہے، ہوا اور پانی اور روشنی اور ہر وہ چیز جس پر ہم زندگی بسر کرتے ہیں، سب کچھ خدا کا ہے۔ یہ جسم جو ہمیں حاصل ہے اور اس کے اندر جو طاقتیںہیں اور اس کے جو اعضا ہیں، سب خدا کے بخشے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ حق پہنچتا ہی نہیں کہ ہم خوداقتدارِاعلیٰ کا دعویٰ کریں، یا کسی ایسے شخص یا گروہ، یا ادارے کا دعویٰ قبول کریں جو اقتدارِاعلیٰ کا مدعی ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّلین بات جو انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش فرمائی اور جس پر ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دی، وہ یہی تھی کہ ملک بھی اللہ تعالیٰ کا ہے، حکم بھی اللہ تعالیٰ کا ہے اوراس کے سوا کسی کو انسان کے لیے قانون بنانے کا حق نہیں ہے۔
دوسری بات جو اسی طرح بنیادی اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو براہِ راست قانون نہیں دیتا، بلکہ اپنے رسولوں کے ذریعے سے دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے منتخب کیے ہوئے حکمران نہیں تھے نہ خود بنے ہوئے حکمران تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس منصب پر مقرر فرمایا تھا کہ آپ لوگوں کو تعلیم بھی دیں، ان کی تربیت بھی کریں، ان کے ذہن وفکر اور اخلاق کو بھی ٹھیک کریں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام بھی پہنچائیں اور جو لوگ ان احکام کو قبول کر کے ان کے برحق ہونے پر ایمان لائے ان کے ذریعے سے احکامِ الٰہی کو نافذ بھی فرمائیں۔
تیسری اہم چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کو بتائی اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی، وہ آخرت کا تصور ہے۔ اگر انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ نہ سمجھے اور اس کو یہ یقین نہ ہو کہ ایک دن اسے مرکر اپنے خدا کے سامنے جانا ہے، اور اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے، تووہ نہ اسلام کے راستے پر چل سکتا ہے، نہ حقیقت میں صحیح انسان بن سکتا ہے۔
ان عقائد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ۱۳ برس مکہ معظمہ میں دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے پیش کیا، اور جن لوگوں نے ان کو مان لیا، ان کو آپ نے ایک جماعت، ایک اُمت کی شکل میں منظم کیا۔
حضوؐر کے زمانۂ قیامِ مکہ کے آخری تین سال ایسے تھے جن میں مدینہ منورہ کے باشندوں کی ایک چھوٹی سی جماعت ایمان لے آئی اور اس نے آپ کو دعو ت دی کہ آپ ان کے شہر میں سب مسلمانوں کے ساتھ تشریف لے آئیں۔ حضرت عائشہ نے بہت صحیح بات فرمائی ہے کہ ’’مدینے کو قرآن نے فتح کیا ہے‘‘۔ یعنی کوئی تلوار نہیں تھی، کوئی جابرانہ طاقت نہیں تھی جس سے مدینے کے لوگ اسلام کے پیرو بنے ہوں، بلکہ قرآنِ مجید جب ان کو پہنچا، اور مکہ معظمہ میں قرآن کی جو سورتیں نازل ہوئی تھیں وہ ان کے علم میں آئیں، تو وہ نہ صرف یہ کہ سچے دل سے ایمان لے آئے، بلکہ انھوں نے اپنی چھوٹی سی بستی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی اہلِ ایمان کو تشریف لے آنے کی دعوت دے دی۔ یہ دعوت اس بات کی نہ تھی کہ آپ اور مکہ کے مسلمان ان کے ہاں پناہ گزیں ہوں بلکہ اس بات کی دعوت تھی کہ حضوؐر ان کے معلّم، مربی اور فرماں روا ہوں، مہاجرین و انصار ایک اُمت ِ مسلمہ بن جائیں اور مدینے میں وہ نظامِ زندگی قائم ہو جس پر یہ اُمت ایمان لائی ہے۔ اس طرح جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے، اسی روز اسلامی حکومت کی بنا پڑگئی۔
اس کے لیے امتناعِ شراب ہی کے معاملے کو بطورِ مثال لے لیجیے۔ جس وقت مدینے کی بستی میں یہ اعلان ہوا کہ شراب حرام کردی گئی ہے، اسی وقت شراب کے مٹکے توڑ دیے گئے،اور پینے والوں میں سے جس کا ہاتھ جہاں تھا وہیں رُک گیا۔ اس طرح کی پابندیِ قانون کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔اس کے برعکس امریکا میں اربوں روپیہ اس کام پر صرف کیا گیا کہ لوگوں کو شراب کی بُرائی اور اس کے نقصانات کا قائل کیا جائے۔ بہت بڑے پیمانے پر اس کے خلاف پروپیگنڈاکیا گیا اور راے عامہ کی تائید سے امریکا کے دستور میں ترمیم کر کے امتناعِ شراب کا قانون پاس کیا گیا۔ لیکن جس روز یہ قانون پاس ہوا اس کے دوسرے ہی روز سے پورے ملک میں اس کی خلاف ورزی شروع ہوگئی۔ طرح طرح کی زہریلی شرابیں پی جانے لگیں، اور یہ وبا اس قدر خطرناک صورت اختیار کرگئی کہ آخرکار اس قانون کو منسوخ کرنا پڑا۔ اب ذرا مقابلہ کرکے دیکھ لیجیے۔ ایک جگہ بس ایک حکم سنا دیا جاتا ہے اور فوراً اس کی تعمیل کی جاتی ہے۔دوسری جگہ بڑی تیاری کے بعد لوگوں کی مرضی سے قانون بنایا جاتا ہے اور لوگ اس کو توڑ ڈالتے ہیں۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ ایک صالح نظامِ حکومت کی بنیاد ایمان اور اخلاق پر قائم ہوتی ہے ۔ جہاں یہ دونوں چیزیں موجود نہ ہوں وہاں آپ کاغذ پر خواہ کتنا ہی اچھا دستور اور قانون بنا لیجیے، زمین پر وہ کبھی نافذ نہیں ہوسکتا....
لیکن حضوؐ ر کا قاعدہ یہ تھا کہ جو حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ملتا تھا اس میں تو آپ لوگوں سے بے چون و چرا اطاعت کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس میں کسی کے لیے کلام کرنے کی کوئی گنجایش نہ تھی، لیکن جس معاملے میں اُوپر سے کوئی حکم آیا ہوا نہ ہوتا تھا اس میں آپ صحابہؓ سے خود بھی مشورہ فرماتے تھے۔ صحابہؓ کو بھی یہ حق دیتے تھے کہ وہ آپؐ کی راے سے اختلاف کریں اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ آپؐ نے اپنی راے چھوڑ کر ان کی راے قبول فرمائی ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جنگ ِ بدر کے موقعے پر آپؐ نے ابتدا میں جس جگہ پڑائو کیا تھا اس کے متعلق ایک صحابی نے اُٹھ کر پوچھا کہ یہ جگہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اختیار فرمائی ہے یا یہ آپؐ کی اپنی راے ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، میں نے خود یہ جگہ تجویز کی ہے‘‘۔ اس پر انھوں نے عرض کیا کہ ’’اس کے بجاے فلاں مقام جنگی حیثیت سے زیادہ موزوں ہے‘‘۔ اور آپؐ نے ان کی راے قبول فرما لی۔
اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دو طرح کی تربیت دے رہے تھے۔ ایک اس بات کی تربیت کہ جب خدا کی طرف سے کوئی حکم آئے تو اس کی بے چون وچرا اطاعت کرو۔ دوسری تربیت اس بات کی کہ جس معاملے میں خدا کا حکم نہ ہو، اس میں اہل الراے سے مشورہ بھی کیا جائے، لوگوں کوبحث کا کھلاحق بھی دیا جائے، حضوؐر کی اپنی راے تک سے اختلاف کرتے ہوئے دوسری راے بھی پیش کی جاسکے اور مشورے کے بعد جو بات طے ہو اس پر عمل کیا جائے۔
ایک اور مثال ملاحظہ فرمایئے۔ جنگ ِ احزاب کے موقعے پر جب حالات بہت نازک ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ دشمنوں کے چند قبائل، جن کی بڑی طاقت وہاں جمع تھی، ان کو مدینے کی پیداوار کا ایک حصہ پیش کرکے مخالفین کی جتھہ بندی سے انھیں الگ کردیا جائے۔ انصار کے سرداروں نے حضوؐر سے عرض کیا کہ ’’یہ معاملہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے حکم سے طے فرما رہے ہیں یا یہ آپؐ کا اپنا خیال ہے؟‘‘ حضوؐر نے فرمایا: ’’یہ میرا اپنا خیال ہے، میں تمھیں اس خطرے سے نکالنا چاہتا ہوں جس میں تم پڑگئے ہو‘‘۔ انھوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! جب ہم کافر تھے اس زمانے میں بھی یہ قبائل ہم سے ایک حبّہ تک نہ لے سکے تھے اور اب تو ہم مسلمان ہیں۔ اب ہم سے کوئی چیز کیسے لے سکتے ہیں‘‘۔ چنانچہ اسی وقت ان کے کہنے کے مطابق یہ معاملہ ختم کردیا گیا۔ اس مثال سے بھی آپ رسولؐ اللہ کے طرزِ حکومت کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ جن معاملات میں اللہ کا حکم ہوتا تھا وہاں کوئی جمہوریت نہ تھی اور جن معاملات میں اُوپر کا حکم نہ ہوتا تھا ان میں پوری جمہوریت تھی۔
بڑا مشہور واقعہ ہے کہ فتحِ مکہ سے پہلے ایک صحابی نے مشرکینِ مکہ کے نام ایک خط لکھ دیا جس میں ان کو مطلع کیا گیا تھا کہ تم پر حملہ ہونے والا ہے۔ وہ خط پکڑا گیا۔ اب یہ صریح جاسوسی کا معاملہ تھا۔ اِس زمانے کے لوگ کہیں گے کہ ایسا خطرناک معاملہ تو بند کمرے میں پیش ہونا چاہیے تھا ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؐ میں اس کی کھلی سماعت فرمائی۔ دوسرا اہم قاعدہ آپ کی عدالت کا یہ تھا کہ کسی مقدمے کا فیصلہ فریقین کی بات سنے بغیر نہ کیا جائے اور کسی شخص کو صفائی کا پورا موقع دیے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی اس کے کسی بنیادی حق سے محروم نہ کیا جائے۔ حضوؐر نے مدینہ کے باہر جو قاضی مقرر فرمائے تھے ان کو بھی آپؐ کی ہدایت یہ تھی کہ فریقین کی بات سنے بغیر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کریں۔ عدالت کے کام میں سفارش کا دروازہ آپؐ نے بڑی سختی کے ساتھ بند کردیا تھا۔ فتح مکہ کے بعد قریش کے ایک معزز خاندان کی عورت نے چوری کا ارتکاب کیا۔ اس کے خاندان نے کوشش کی کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔
حضرت اسامہؓ بن زیدؓ سے، جو حضوؐر کو نہایت عزیز تھے، سفارش کرائی گئی۔ حضوؐر نے فرمایا کہ ’’تم حدوداللہ کے معاملے میں سفارش کرتے ہو؟ تم سے پہلے جو قومیں گزر چکی ہیں وہ اسی لیے تباہ ہوئیں کہ ان کے عام آدمی جب کوئی جرم کرتے تھے تو ان کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی تھی، اور بڑے لوگ جب وہی جرم کرتے تھے تو ان کے ساتھ رعایت برتی جاتی تھی۔ خدا کی قسم! اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو مَیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔ اس طرح آپؐ نے سفارش کا دروازہ ہی بند نہ کیا بلکہ یہ اصول بھی قائم فرما دیا کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ یہ اصول بھی آپؐ نے قائم فرما دیا کہ اگر کوئی شخص عدالت کو دھوکا دے کر اپنے حق میں غلط فیصلہ حاصل کرلے تو اس کا فائدہ وہ دنیا ہی میں اُٹھا سکے گا۔ آخرت میں خدا کی پکڑ سے کوئی چیز اسے نہ بچا سکے گی۔
قانون نافذ کرنے کے معاملے میں جو نظام آپؐ نے قائم فرمایا تھا اس کے بڑے بڑے اصول یہ تھے کہ لوگوں کو جہاں تک ممکن ہو سزا سے بچائو۔ قاضی کا کسی قصوروار کو چھوڑ دینے کی غلطی کرنا اس سے بہتر ہے کہ وہ بے قصور کو سزا دینے میں غلطی کرے۔ آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ لوگ خود کرلیں، یاکسی کے قصور کو معاف کرنا ہو تو معاف کردیں، یا کسی کے جرم و گناہ پر پردہ ڈالنا ہو تو ڈال دیں۔ یہ سب کچھ عدالت میں معاملہ پہنچنے سے پہلے تک ہوسکتا ہے، لیکن جب عدالت تک معاملہ پہنچ جائے تو کوئی معافی اور پردہ پوشی نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد تو پھر عدالت ہی قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ عدالت کے فیصلے پر اثرانداز ہونے کی ہرکوشش کو آپ نے سختی کے ساتھ منع فرما دیا اور قاضی کو قرآن و سنت اور خود اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بے لاگ فیصلہ دینے کے لیے آزاد قرار دیا۔ آپؐ نے لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ علم کے بغیر فیصلہ کرنا، یا علم رکھتے ہوئے غلط فیصلہ کرنا سخت گناہ ہے۔ صحیح قاضی وہ ہے جو قانون کا علم رکھتا ہو اور اپنے علم کے مطابق بے رُو رعایت فیصلہ کرے۔
مدینے سے باہر جب اسلامی مملکت پھیلنی شروع ہوئی تو مختلف علاقوں میں گورنر مقرر کردیے گئے، وہی اپنے علاقے کے منتظم بھی تھے اور سپہ سالار بھی۔ اس زمانے میں کوئی مستقل فوج نہیں تھی۔ جس وقت بھی ضرورت ہوتی رضاکارانہ طور پر لوگ جہاد کے لیے آجاتے تھے۔ حضوؐر نے مختلف علاقوں میں قاضی بھی مقرر فرما دیے تھے جن کے عدالتی کام میں کوئی گورنر دخل نہ دے سکتا تھا۔ آپؐ نے ہر علاقے میں ایسے لوگ بھی مقرر کیے تھے جو باشندوں کو اسلام کی تعلیم دیں۔ تعلیم سے مراد یہ نہیں تھی کہ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، بلکہ اس سے مراد یہ تھی کہ وہ عوام کو قرآن سنائیں، اس کے معانی و مطالب سمجھائیں، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ان کو آگاہ کریں۔ یہ کام زیادہ تر زبانی تلقین کے ذریعے سے کیا جاتا تھا اور معلمین لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی تربیت اسی طریقے پر کرتے تھے، جس طریقے پر حضوؐر نے خود ان کی تربیت فرمائی تھی۔ مثال کے طور پر جب مکہ معظمہ فتح ہوا تو حضوؐر نے حضرت عتابؓ بن اسیّد کو گورنر اور حضرت معاذ بن جبل کو معلم مقرر فرمایا تھا۔