جنوری ۲۰۱۵

فہرست مضامین

کتاب نما

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | جنوری ۲۰۱۵ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

روشنی کا سفر(اوّل، دوم) ،مؤلف: کرنل (ریٹائرڈ) محمد پرویز۔ ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، ۲-ایوانِ تجارت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۶۳۱۴۱۴۰-۰۴۲۔ صفحات:جلداوّل: ۷۶۲، جلددوم: ۵۰۴۔ قیمت (علی الترتیب): ۱۲۵۰ روپے، ایک ہزار روپے۔

روشنی کا سفر اسلام کی بنیادی تعلیمات کے موضوع پر دو جلدوں پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے جسے مؤلف نے بڑی محنت و محبت سے اس احساس کے ساتھ مرتب کیا ہے کہ مختلف   علما کی تفاسیر اور تحریروں میں ایسے خزینے مدفون ہیں جو اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے معروف استاد مولانا محمد اکرم کشمیری صاحب نے اس پر نظرثانی کی ہے۔ دونوں جلدوں کو الگ الگ عنوان دیا گیا ہے۔ جلداوّل کا نام ’الحکمہ‘ ہے اور جلد دوم کا نام ’الاساس‘ ہے۔

جلداوّل میں توحید، تخلیقِ کائنات، انسان اور اس کا مقصد ِتخلیق، حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ کے بعد حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ، سیرتِ طیبہ، ختم نبوت اور مقصد ِ بعثت کے بارے میں تفصیلی بیان ہے۔ اسی طرح ازواجِ مطہرات، قرآنِ مجید، صفات المومنین بالخصوص اطاعت ِ رسولؐ، انفاق فی سبیل اللہ، احسان، عدل، آثارِ قیامت اور احوال جنت و جہنم کوبھی موضوع بنایا گیا ہے۔ دوسری جلد میں عقائد ِ اسلام، فریضہ اقامت ِدین، اسلامی حکومت کی ضرورت، اہمیت، فرضیت ، اسلامی حکومت کے ادارے اور اسلام کے معاشی نظام پر قرآن و حدیث کی تعلیمات جمع کی گئی ہیں۔

دونوں کتابوں کا حُسن یہ ہے کہ ان میں معروف مفسرینِ قرآن اور اہلِ علم و دانش کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں خوب صورت پیرایے میں ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔ کتاب کے دائرۂ استفادہ کو بڑھانے کے لیے قرآن کے انگریزی تراجم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک قابلِ قدر کاوش اور قابلِ تعریف تحقیقی کام ہے۔مصنف کا ہدف ایک پڑھا لکھا فرد بالخصوص نوجوان ہے۔ انھوں نے استدلال کا پیرایہ اختیار کیا ہے تاکہ فہم و فراست کی دہلیز پر عقائد کے چراغ روشن ہوسکیں۔ تاہم قیمت زیادہ ہے۔(فریداحمد پراچہ)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مستشرقین کے اعترافات، تالیف: حمیداللہ خان عزیز۔ ناشر: ادارہ تفہیم الاسلام، احمدپور شرقیہ، ضلع بہاول پور۔ صفحات:۲۳۰۔ قیمت: درج نہیں۔

یورپ میں مستشرقین نے حضور اکرمؐ کی شخصیت پر گذشتہ دو صدیوں میں خصوصی توجہ دی ہے اور ہر پہلو سے آپؐ کی ذات و صفات کو زیربحث لاکر نئے نئے نکات پیدا کیے ہیں۔اُردو زبان میں سرسیداحمدخاں نے سیرت النبیؐ پر مغربی مصنفین کے اعتراضات کے مدلل جواب تحریر کیے۔     شبلی نعمانی اور سیّد سلیمان ندوی نے بھی سیرت النبیؐ پر مستشرقین پر گرفت کی ہے۔

زیرنظر کتاب میں مغربی مصنفین کے اعتراضات کے بجاے ان پہلوئوں کو اُجاگر کیا گیا جس میں انھوں نے حضور اکرمؐ کی تعریف وتحسین کی ہے اور آپؐ کے کمالات کا اعتراف کیا ہے۔ مؤلف نے یہ کتاب رسولؐ اللہ کے تقدس اور ان کی عظمت کی بلندی کے لیے تحریر کی ہے۔

کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب: سیرتِ محسنِ اعظمؐ اور اہلِ عرب، دوسرا باب: محسنِ اعظمؐ کے بارے میں مغرب کے معاندانہ رویے، تیسرا باب: حضور اکرمؐ کی تعلیمات اور مذہب عیسائیت کا تقابلی مطالعہ، چوتھا باب: اسلام اور عیسائیت میں مذہبی رواداری کا تقابلی جائزہ، پانچواں باب: مغرب کی انکوئزیشن (تعذیب و مظالم)کے ظالمانہ عمل کا فتح مکہ کے حوالے سے حضور اکرمؐ کے عفوودرگزر سے موازنہ۔ چھٹا باب: حضور اکرمؐ کے متعلق مستشرقین کے اعترافات۔

کتاب میں سیرت النبیؐ پر مغربی مصنفین کی کتب سے اقتباسات مع ترجمہ بھی شامل ہیں۔ جارج برنارڈشا کا یہ اعتراف لائقِ مطالعہ ہے کہ ’’میں نے محمدؐ کے دین کے متعلق پیش گوئی کی ہے کہ کل یورپ اسے اسی طرح قبول کرے گا جیسے آج کے یورپ نے اسے (غیرشعوری طور پر) اپنانا شروع کردیا ہے‘‘ (ص ۱۶۷)۔ ان کا یہ قول بھی یورپی طرزِفکر کی نقاب کشائی کرتا ہے: ’’زمانہ وسطیٰ کے پادریوں نے جہالت یا اندھے مذہبی تعصب کی وجہ سے محمدؐ کے لائے ہوئے دین کو انتہائی گھنائونی شکل میں پیش کیا ہے‘‘۔

فلپ ہٹی کا یہ قول اعترافِ حقیقت کا اعلان کرتا ہے: ’’محمدؐ عربی کے سوا اور کسی پیغمبر ؑکو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہوئی اور نہ کوئی اُمت کرئہ ارضی پر ایسی موجود ہے، جو اپنے پیغمبر ؑ اور ان کی آل پر شب و روز کے ہر حصے میں تواتر و تسلسل کے ساتھ درود و سلام بھیجتی ہو‘‘ (ص ۲۰۸)۔ آخری باب میں ۶۴ اعترافات دیے گئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اکرمؐ کی ذات والاصفات ایسی خصوصیات کی حامل ہے جن کی صداقت کا اعتراف غیرمسلم بھی کرتے ہیں۔(ظفر حجازی)


معروف و منکر، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی، بھارت۔صفحات:۳۱۲۔ قیمت: ۱۸۵ بھارتی روپے۔

عالمی تحریکاتِ اسلامی کی دعوت کی بنیاد امربالمعروف کا فریضہ ہے۔ یہ تحریکات اللہ کے بندوں کو جس چیز کی دعوت دیتی ہیں، اسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اُمت مسلمہ کا مقصدِوجود قرار دیا ہے (اٰلِ عمرٰن۳:۱۱۰) ۔گویا اُمت مسلمہ وہ بھلائی والی اُمت ہے جس کا بنیادی کام لوگوں کو بھلائی، سچائی، حق اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کی طرف بلانا اور انسانی معاشرے سے ظلم و استحصال اور برائی کا مٹانا ہے۔

مولانا جلال الدین عمری علمی حلقوں میں ایک ممتاز مقام کے حامل ہیں اور حقیقی معنی میں علماے سلف کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ کتاب ۱۹۶۷ء میں تصنیف فرمائی تھی۔ اب تقریباً ۴۷سال بعد نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ اسے کتاب کی جدید ترتیب کے ساتھ طبع کیا گیا ہے۔  کتاب کا ہرہرلفظ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے اور ۱۰؍ابواب میں ذیلی موضوعات قائم کرکے موضوع کے مختلف پہلوئوں کا تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

مولانا نے معروضی طور پر مفسرین، فقہا اور مفکرین کی آرا کو مکمل حوالوں کے ساتھ یک جا کیا ہے اور ان کی روشنی میں راہِ اعتدال اختیار کرتے ہوئے اپنے موقف کو پیش کیا ہے۔ عموماً یہ تصور پایا جاتاہے کہ امر بالمعروف ایک فرضِ کفایہ ہے اور اس راے کے حامل شاطبی اور امام ابن تیمیہ جیسے فقہا ہیں۔ دوسری جانب امام غزالی اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ اسی موقف کو شیخ عبداللہ دراز نے اختیار کیا ہے کہ دعوتِ خیر کا کام ہر مسلمان پر واجب ہے کیونکہ اس فرض کو انجام دینا حقیقت میں دین کی ایک عمومی مصلحت کو پورا کرناہے اور اس کے پورا کرنے کا مطالبہ فی الجملہ سب ہی کے لیے ہے۔(ص ۶۶)

ایک اہم پہلو جو محترم مولانا نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے ، یہ ہے کہ شہادت علی الناس کے فریضے میں امربالمعروف شامل ہے کیونکہ اس کے بغیر شہادتِ حق کا فرض ادا نہیں ہوسکتا (ص۱۰۰)۔ یہ حکم حالات کی تبدیلی کا پابند نہیں ہے، چنانچہ اس کی فرضیت جس طرح مکہ مکرمہ میں تھی ، اتنی بلکہ اس سے زیادہ مدینہ منورہ میں رہی۔ گویا مسلمان دنیا کے کسی خطے میں ہوں، ان کی تعداد اور ان کا قیام مغرب میں ہو یا مشرق میں، انھیں یہ فرض ادا کرنا ہوگا۔

اس سے آگے بڑھ کر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں ایک اہم فریضہ امربالمعروف کا ہے اور اگر غور کیا جائے تو قرآنِ کریم اسے صلوٰۃ اور زکوٰۃ سے متصل بیان کرتا ہے۔ چنانچہ سورئہ حج میں فرمایا گیا کہ اگر اہلِ ایمان کو زمین میں اقتداردیا جائے تو ان کے فرائض میں صلوٰۃ کا نظام قائم کرنا اور زکوٰۃ کا نظام رائج کرنے کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا کرنا لازم ہے۔

اس آیت پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گو امربالمعروف ہر حالت میں کیا جائے گا لیکن اقتدار کے حصول کے بعد اسے اس کے تمام حقوق کی ادایگی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے کیونکہ قوتِ نافذہ کے بغیر اس کے بعض مطالبات پورے نہیں کیے جاسکتے۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ریاست کے اس فریضے کو وضاحت سے بیان کیا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کے قیام میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمام ارکانِ دین کو قائم کرایا جائے، اور معروف کے حکم میں یہ بھی شامل ہے کہ علومِ دین کو زندہ کیا جائے، جہاد کیا جائے، حدود و تعزیرات کونافذ کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر نہی عن المنکر کے مطالبات پورے نہیں ہوسکتے۔ (ص ۱۴۰-۱۴۳)

شیخ عبدالقادر عودہؒ شہید بھی اسی راے کے حامل ہیں کہ امربالمعروف میں پوری شریعت شامل ہے لیکن اس فریضے کی ادایگی کرتے ہوئے خوداپنا جائزہ اور اپنے عمل سے ثبوت فراہم کرنا امربالمعروف کی روح ہے۔ قرآن کریم نے اس پہلو کو ایک جملے میں بیان کردیا کہ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ (البقرہ۲:۴۴)

امربالمعروف کے فریضے کی ادایگی ہرسطح پر فرض ہے۔ چنانچہ ایک شخص کا دائرۂ اختیار جس حد تک ہوگا، وہ اسی حد تک جواب دہ ہوگا۔ تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن اور قائد کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ قیادت چونکہ دوسروں کے لیے مثال کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے دین کے اس بنیادی مطالبے کو اچھی طرح سمجھے بغیر دعوتِ حق کا کام صحیح طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کتاب بنیادی تحریکی تصورات کو واضح کرنے میں غیرمعمولی مدد فراہم کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ محترم مولانا کو اس کا بہترین اجر دے اور دعوتِ دین کو پیش کرنے کے مزید مواقع سے نوازے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


شیئرز بازار میں سرمایہ کاری، موجودہ طریقۂ کار اور اسلامی نقطۂ نظر، ڈاکٹر عبدالعظیم اصلاحی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔ ملنے کا پتا: ڈی ۳۰۷، دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی، بھارت۔ فون: ۲۶۹۵۴۳۴۱۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: ۸۰بھارتی روپے۔

دورِ جدید میں اسٹاک مارکیٹ یا شیئرز بازار کو کسی بھی ملک معیشت کا درجۂ حرارت کہا جاتا ہے۔ کاروبار ترقی کر رہے ہوں تو شیئرز بازار میں اچھے حالات دیکھے جاتے ہیں اور کاروباری حالات کی خرابی کا اثر شیئرز بازار پر مرتب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی سیاسی حالات اور بین الاقوامی مالیاتی و سیاسی تبدیلیاں بھی اس بازار پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس کاروبار سے ہر ملک میں لاکھوں افراد وابستہ ہوتے ہیں۔ مزیدبرآں دورِ جدید کی بہت سی خرابیاں اور غیرشرعی معاملات اس بازار میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن اُردو زبان میں اس موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک مختصر رسالہ مولانا تقی عثمانی نے۱۹۹۴ء میں لکھا۔ اس کے بعد ایک تفصیلی کتاب جناب عبدالعظیم اصلاحی نے ۱۹۹۹ء میں لکھی اور دہلی (بھارت) سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں شیئرز بازار کی تعریف سے لے کر اس کے عملی پہلوئوں اور خرابیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد مصنف نے اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر کو بھی پیش کیا، جس میں مختلف علما کی آرا بھی شامل کی گئیں۔

اس کتاب کی خوبی یہ تھی کہ اسلامی معاشیات کے حوالے سے وقیع ترین شخصیت جناب ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے دیکھا اور پسند فرمایا اور یہ تبصرہ کیا کہ ’’اصلاحی صاحب نے اس کتاب میں شیئرز کی ماہیت اور شیئرز بازار کا عمل سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے اور اس سے متعلق علما کی رائیں بھی نقل کردی ہیں جس سے ایک بڑی کمی پوری ہوگئی ہے۔ مگر ان کا اصل کام ان کی اپنی رائیں اور دوسروں کی رائیں کا تنقیدی جائزہ ہے، جسے مَیں نے متوازن اور معقول پایا ہے‘‘۔

زیرتبصرہ کتاب کا نظرثانی شدہ اڈیشن جنوری ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا ہے جس میں    صکوک کے موضوع پر ایک باب کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اور کچھ فصلوں کا اضافہ شیئرز بازار میں روزمرہ ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ اس طرح گذشتہ ۱۵برسوں میں شیئرز بازار میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق آرا کا اضافہ بھی کردیا گیا ہے، جس سے اس کتب کی وقعت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس لحاظ سے اس میدان میں کام کرنے والے افراد کے لیے ایک اچھی گائیڈ مارکیٹ میں مہیا ہوگئی ہے، اور محققین کے لیے بھی ایک راہ متعین ہوگئی ہے۔ (ڈاکٹر میاں محمد اکرم)


پاکستان کی روحانی اساس، پروفیسر محمد یوسف عرفان۔ ناشر: سنگت پبلشرز، ۲۵-سی، لوئر مال، لاہور۔فون: ۳۷۳۵۸۷۴۱-۰۴۲۔ صفحات:۲۳۶۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

پروفیسر محمد منور (م: ۲۰۰۰) معروف ادیب، شاعر، مترجم اور خطیب تھے اور علامہ اقبال، قائداعظم، دو قومی نظریہ اور نظریۂ پاکستان کے متخصص تھے۔ ان کی جملہ تصانیف انھی موضوعات کی تشریح و تعبیر پر مبنی ہیں۔پروفیسر محمد یوسف عرفان (استاد شعبۂ انگریزی، اسلامیہ کالج سول لائنز، لاہور) ان کے تربیت یافتہ اور خاص شاگرد ہیں۔ ان کی زیرنظر کتاب کے مضامین بھی انھی موضوعات کے گرد گھومتے ہیں (پاکستان کی روحانی اساس، پاکستان اور ریاست مدینہ، علامہ اقبال ایک کامل صوفی، اقبال، جہاد اور یہودیت وغیرہ)۔ پاکستان کے قیام میں علامہ اقبال کی فکری رہنمائی اور قائداعظم کی عملی جدوجہد شامل ہے۔ پاکستان کی بقا اور استحکام کے لیے جنرل محمد ضیاء الحق اور ڈاکٹرنذیراحمد قریشی مستعد اور کوشاں رہے۔

کتاب کا ایک ایک حصہ مؤخرالذکر دو صاحبوں کی خدمات اُجاگر کرنے کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ یوسف عرفان بھی اپنے استاد پروفیسر محمد منور کی طرح جنرل محمد ضیاء الحق کو ’عالمِ اسلام کا عظیم ہیرو‘ سمجھتے ہیں جو ’’بیرونی اور اندرونی سازش کا شکار ہوگیا‘‘۔ ان پر پانچ مضمون شامل ہیں (جن میں سے ایک پروفیسر محمد منور کے قلم سے ہے)۔ نذیر احمد قریشی، ایک صاحب ِدل اور    ’اللہ والے بزرگ‘ تھے۔ مرزا صاحب سے ان کی صحبت رہتی تھی اور دونوں اکثر شام اکٹھے گزارتے تھے۔ کبھی کبھی یوسف عرفان بھی ساتھ ہوتے۔ مستقبل کے بارے میں ان کی باتیں او ر پیش گوئیاں (جیسے جارج بش صدر بنیں گے، افغانستان میں جہاد کے بعد فساد ہوگا، پاکستان میں مارشل لا لگے گا) بالعموم درست ثابت ہوتی تھیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس کتاب کو ’اَنمول دستاویز‘ قرار دیا ہے۔ جنرل حمید گل، راجا ظفرالحق، مفتی لطف اللہ، مجیب الرحمن شامی اور جسٹس (ر) نذیراحمد غازی ایسے ثقہ بزرگوں اور اہلِ قلم نے کتاب کی تعریف و تحسین کی ہے۔ مصنف کے اپنے بقول: ’’ان کی دیگر بہت سی کتب کا مواد تیار ہے‘‘۔ درخواست ہے کہ انھیں بھی (کاہلی برطرف کرتے ہوئے) شائع کرا دیجیے۔(رفیع الدین ہاشمی)


تنقیدی افکار، شمس الرحمن فاروقی۔ ناشر: یکن بکس، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۳۲۰۰۳۰-۰۴۲   + گلگشت کالونی ، ملتان: فون: ۶۵۲۰۷۹۱-۰۶۱۔ صفحات: ۳۶۰۔ قیمت: ۵۴۰ روپے

جناب شمس الرحمن فاروقی دورِحاضر کی معروف اور نام وَر ادبی و علمی شخصیت ہیں۔ بنیادی طور پر وہ نقاد ہیں لیکن تحقیق، لغت، شرح، افسانہ نویسی اور ناول نگاری میں بھی ان کی بلندپایہ نگارشات اور عالمانہ تحقیقی کاموں کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت میں سول سروس کے اُونچے عہدے سے  کئی برس پہلے وظیفہ یاب ہوکر الٰہ آباد میں مقیم ہیں۔ طویل عرصے تک ادبی رسالہ شب خون نکالتے رہے۔ ان کی مختلف النوع تصانیف و تالیفات کی تعداد صحیح تو معلوم نہیں مگر ۳۰، ۴۰ سے کم   نہ ہوں گی۔زیرتبصرہ کتاب کا یہ تیسرا اڈیشن کُل ۱۳ مضامین پر مشتمل ہے۔

دیباچے میں فاروقی صاحب نے اسے ادب کے ’نظری مباحث‘ پر مشتمل ’نظری تنقید‘ کی کتاب قرار دیا ہے۔ پہلے مضمون کا عنوان ہے : ’کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے؟‘ فاروقی صاحب کا خیال ہے کہ پچھلی نسل کے تمام نقاد بشمول حالی کسی نہ کسی حد تک موضوعی اور موضوعاتی دھوکے میں گرفتارتھے۔ موضوع کی اچھائی یا بُرائی سے ادب کا معیار متعین نہیں ہوتا اور کسی مخصوص فلسفے یا نظریے کا اظہار فن پارے میں کرنا تضیع اوقات ہے۔ اس پیمانے سے فاروقی صاحب نظریاتی تنقید کو رد کرتے ہوئے ترقی پسند نقادوں پر گرفت کرتے ہیں۔

ایک تفصیلی مضمون مسعود حسن رضوی ادیب کی کتاب ہماری شاعری پر ہے۔ ان کے خیال میں یہ کتاب نظریہ سازی اور کلیہ تراشی کی ایک غیرمعمولی کوشش ہے۔ دیگر مضامین کے عنوانات اس طرح ہیں:’ارسطو کا نظریہ ادب‘، ’نثری نظم یا نثر میں شاعری‘، ’نظم کیا ہے؟‘، ’داستان اور ناول: بعض بنیادی مباحث‘۔ ۵۷صفحات پر مشتمل طویل مضمون ’اصنافِ سخن اُردو لغات اور لغت نگاری میں‘ انھوں نے اُردو لغت نگاروں اور اُردو لغات کی خامیوں کی کوتاہیوں کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ اس وقت تک تمام لغات نقصِ فکر اور نقصِ عمل کا نمونہ ہیں، اس لیے ہمیں اس مردِ غیب کا انتظار کرنا چاہیے جو ایک اطمینان بخش لغت تیار کرے گا۔

شمس الرحمن فاروقی کی تحریر ہمیشہ ایک تازگی اور ندرت کا احساس دلاتی ہے۔ وہ نہ صرف اُردو ادب (بشمول کلاسکی ادب) کا بلکہ فارسی اور انگریزی ادبوں کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ ’اواخرصدی میں تنقید پر غوروخوض‘‘ میں انھوں نے مغرب کی اہم فکری اور ادبی کتابوں اور جدید ادبی نظریات کا ذکر کیا ہے۔ فوکو اور دریدہ کے خیالات و نظریات پر بھی بحث کی ہے۔ آخر میں بڑی خوب صورت بات کہی ہے کہ ’’آج ہمارے لیے ایک بڑا کام یہ ہے کہ اپنی تہذیبی میراث کی قدروقیمت کو پھر سے قائم کریں اور اس سلسلے میں کلاسکی شعریات کو اسٹیج کے مرکز پر لانا ناگزیر ہے‘‘۔

تنقید خصوصاً نظری تنقید ایک خشک موضوع ہے جیسے پڑھنا پڑھانا آسان نہیں ہوتا مگر فاروقی صاحب کے یہ مضامین اتنے دل چسپ پیرایے میں لکھے گئے ہیں کہ ادب کے باذوق قاری کو پڑھتے ہی بنتی ہے۔ بیکن بکس نے کتاب اچھے معیار پر شائع کی ہے۔ کتاب میں اشاریہ بھی شامل ہے جو اس کی اضافی خوبی ہے۔ آخری صفحے پر فاروقی صاحب نے ترقیمہ لکھ کر کلاسکی ادب اور مخطوطات سے اپنی دل بستگی کا اظہار کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


مشاہیرِ ترک، ڈاکٹر دُرمش بلگر۔ ناشر: رومی چیر براے ترکی زبان و ثقافت، پنجاب یونی ورسٹی، علامہ اقبال (اولڈ) کیمپس، لاہور۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت:۵۰۰ روپے۔

اگر سوال کیا جائے کہ کس اسلامی ملک سے پاکستان کے سب سے زیادہ قریبی، دلی اور ذہنی تعلقات چلے آرہے ہیں؟ تو جواب ایک ہی صحیح ہوگا:ترکی__ وجوہ بہت سی ہیں مگر بنیادی   اور اہم ترین وجہ تحریکِ خلافت میں ہندی مسلمانوں کا ترکوں سے اظہارِ یک جہتی ہے۔ پھر   سقوطِ خلافت ِ عثمانی پر ہندی مسلمانوں کا شدید رنج و غم کا اظہار بھی ایک اہم وجہ تھی۔ چنانچہ ہمارے تمام تر زوال و اِدبار کے باوجود، ترک عوام پاکستان سے غیرمعمولی محبت رکھتے ہیں۔ سلطنت ِ عثمانیہ (اور ماقبل دور) میں ترکی کی بعض شخصیات نے اپنے اپنے شعبوں میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ پروفیسر دُرمش بلگر تین سال سے پنجاب یونی ورسٹی میں قائم مسند رومی پرفائز ہیں۔ ان کی زیرنظر کتاب ۳۰ ترک شخصیات کے تعارف اور کارناموں پر مشتمل ہے۔ ان میں علماے دین ہیں، مصلحین اُمت اور صوفیاے کرام کے ساتھ دانش ور اور سائنس دان بھی ہیں مگر سب باکمال لوگ ہیں، مثلاً ریاضی دان اور ماہرفلکیات الغ بیگ (۱۳۹۳ئ-۱۴۴۹ئ) جو تیمور کی نسل سے تھے، ۳۸سال تک سمرقند کے حاکم رہے۔ حکمرانی کے ساتھ علم دوست ایسے کہ علمی موضوعات پر اہلِ علم کے ساتھ مناظرہ کیا کرتے۔ ایک رصدگاہ قائم کی، اس کے سائنسی تجربات اور مشاہدات پر مبنی کتاب زیجِ گورکانی بہت معروف ہے۔ ان کے دور میں علمِ فلکیات میں بہت ترقی ہوئی اور فلکیات کے جدید آلات ایجاد ہوئے۔ الغ بیگ کا حافظہ اتنا تیز تھا کہ جس کتاب کو ایک بار پڑھ لیتے، وہ انھیں حرف بہ حرف یاد ہوجاتی۔

اسی طرح اولیاچلبی (۱۶۱۱ئ-۱۶۸۲ئ) تاریخ کو نیا رُخ دینے والے ترک سیاح تھے۔ انھوں نے مجموعی طور پر ۵۰سال تک سیروسیاحت میں گزارے۔ شرقِ اوسط، یورپ اور افریقہ کے بیش تر ممالک کی سیر کی اور باریک بینی سے کیے گئے مشاہدات اپنی کتاب سفرنامہ میں قلم بند کیے جو ۱۰جلدوں پر محیط ہے۔ پہلی جلد ۱۸۹۶ء میں اور آخری جلد ۱۹۳۸ء میں منظرعام پر آئی۔ مشاہیر ترک میں معروف دینی شخصیات بدیع الزماں نورسی (۱۸۷۸ئ-۱۹۶۰ئ) کا ذکر ہے اور زمانۂ حاضر کے ایک استاد، محقق، ادیب اور اقبال شناس عبدالقادر کراخان (۱۹۱۳ئ-۲۰۰۰ئ) کے حالات بھی شامل کتاب ہیں جو کلاسیکی ترکی ادب کے ساتھ ’’لوک ادب، تاریخ، حدیث اور دیگر اسلام علوم کے علاوہ ایرانی علوم میں بھی یکتا تھے‘‘(ص ۹۱)۔ اسی طرح سلطنت ِ عثمانیہ کے سب سے بڑے ماہر تعمیرات سنان (۱۴۹۰ئ-۱۵۸۸ئ) کے تعمیری کارناموں کا تذکرہ ہے۔ انھوں نے بیسوں جامع مساجد، مدرسے، دارالقرا، مقبرے، حمام، نہریں، ہسپتال، پُل اور مہمان سرائیں تعمیر کرائیں۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہم دنیاے اسلام کے مشاہیر ہی سے نہیں، مسلم تاریخ سے بھی ناواقف ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں رجال کے تذکروں اور مشاہیر پر کتابوں میں ان مایہ ناز ہستیوں کا ذکر نہیں ملتا۔ طلبا کے لیے خاص طور پر اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ مشاہیر کی تصاویر بھی شاملِ کتاب ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)