اگست کا مہینہ ہر سال پاکستان اور بیرونِ پاکستان پاکستانیوں میں تصورِ پاکستان سے وابستگی کے احساس کو تازہ اور قیام پاکستان پر اللہ تعالیٰ کے شکر اور احسان مندی کے جذبات میں اضافہ کرتا ہے۔ ہرشخص گلی کوچوں میں، شہروں میں، گاؤں میں ، موٹر سائیکل ، سائیکل ، ریڑھی ، ویگن ، پبلک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ، ہرپاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اسکولوں میں بچے پاکستان کے پرچم کے رنگ کے لباس زیب تن کرکے ملی ترانے اور تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں اور تقریباً پورا مہینہ جشنِ آزادی کا منظر پیش کرتا ہے جس سے وطن عزیز کے ساتھ نوجوانوں کی محبت کا اظہار ثابت ہوتا ہے، لیکن قوم کیا اس محبت کے محرکات ، تقاضوں اور مطالبات کا شعور بھی رکھتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا مناسب جواب تلاش کیے بغیر ہم ملک و قوم کے مستقبل کی تعمیروتشکیل کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے۔
تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو دنیا کے نقشے میں شاید ہی کوئی قوم ایسی ہو جس نے صدیوں کی جنگ ِآزادی کو محض ایک عشرے سے بھی کم یعنی سات سال کی قلیل مدت میں اپنی منزل اور اپنے فوری ہدف کے حصول کو ممکن بنایا ہو ۔ الجزائر ہو یا یورپ میں برپا ہونے والی آزادی کی تحریکات،مثلاً: شمالی آئرش ریپبلک کی آزادی کی تحریک، یہ سب دو صدیوں پرمحیط نظر آتی ہیں۔ برعظیم میں مسلمانوں میں انگریز کی محکومیت سے آزادی کی تحریک مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ آخر۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں قراردادِ پاکستان مسلم لیگ کے کنونشن میں منظور کی گئی۔ اس میں باضابطہ طور پر برعظیم کے مغربی اور مشرقی صوبوں پر علاحدہ قومیت کی بنیاد پر دو ایسے خطوں کی خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت پائی جاتی تھی ۔ اس تاریخی موڑ پر یہ سوال کرنافطری ہے کہ کیا حصولِ پاکستان محض ایک قومی ریاست کے وجود کا مطالبہ تھا یا دو سو سال کی غلامی کے بعد مسلمان بطور ایک امت اس خطّے میں اسلامی تصور حیات ،اسلامی معیشت، ،اسلامی ابلاغ عامہ، اسلامی معاشرے اور اسلامی ثقافت کے احیا کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے ؟
تاریخ گواہ ہے کہ برعظیم کے مسلمان ایک طویل عرصے انگریز کے عدم مساوات کے رویے کا شکار رہے۔ مسلمانوں کے ساتھ عداوت اور ہندوؤں کے ساتھ ہمدردی، ملازمتوں میں واضح جانب دارانہ رویہ اور تعلیم اور تجارت میں کھلے کھلے تعصبات اور تفریق کو دیکھنے کے بعد مسلمانوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ اپنے اسلامی تشخص اور اپنی ثقافت و تہذیب کے تحفظ و بقا کے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کریں ۔
ہندو اکثریت انگریز کے ساتھ قریبی تعلق پیدا کر کے اپنی عددی فوقیت کی بنیاد پر مسلمانوں پر حاکمیت کے منصوبے پر مصروفِ عمل تھی لیکن اپنی فطرت سے مجبور ہوکر دکھاوے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگا کراور مغرب سے متاثر مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے بے تاب اور سرگرم تھی۔
ان حالات میں۱۹۰۰-۱۹۰۱ء کے دوران نواب محسن الملک نے بزم دفاع اردو کے تناظر میں ہندو کانگریس سے الگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت کے قیام پرقوم کو متوجہ کیا ۔ اور اسی تصور اور فکر کی بنیاد پر ۱۹۰۵ء میں نواب سلیم اللہ کے مکان پر مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ پھر اکتوبر ۱۹۰۶ء میں آغا خان کی سربراہی میں ۳۵؍ افراد پر مشتمل مسلمانوں کے ایک وفد نے وائسرائے لارڈ مینٹو سے شملہ میں ملاقات کی اور انھیں اپنے مطالبات و خدشات سے آگاہ کیا اور جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا ۔ یہ گویا باضابطہ طور پر دو قومی نظریے کا اعلان تھا کہ مسلمان اپنی ثقافت ،لباس ، غذا ، زبان، تصورِخدا،طرزِ معاشرت،معیشت، غرض ہر شعبۂ حیات میں اختلاف کے سبب صدیوں سے ایک ملک میں غیر مسلموں کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود ہر تعریف کی رو سے ایک الگ قوم ہیں ، جن کا دین بنیادی تصورات و ترجیحات ہندوؤں کے تصور حیات کی ضد اور اپنا ایک مستقل وجود رکھتے ہیں، اور اب گویا وہ وقت آگیا تھا کہ وہ اپنے وجود اور تشخص کے لیے ایک آزاد خطّے کا مطالبہ کریں ۔ مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت ، ان کی جدوجہد اور اللہ ربّ العزت کے فضل و کرم سے ایک مختصر عرصے میں قیام پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’ایمان، اتحاد اور تنظیم ‘‘کے بغیر پاکستان کا حصول ناممکن تھا۔ جنگ آزادی کے عمل کی بنیاد ایمان پر تھی ۔ وہی ایمان اتحاد کی بنیاد تھا جس نے عصبیتوں اور قومیتوں کی جگہ لا الٰہ الا اللہ کے ذریعے دلوں کو جوڑ دیا، اور یہ ایمان ہی تھا جس نے منتشر افراد کے اس گروہ کو جو۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد مایوسی اور ناامیدی کا شکار تھا ایک تنظیم میں یکجا ہونے کی توفیق دی اور یہ ثابت کر دیا کہ ایمان کا لنگر مضبوط ہو گا، اور بقیہ دواُصول اتحاد اور تنظیم بھی مستحکم ہوں گے تو پھر دنیا کی کوئی قوت اسے زیر نہیں کر سکتی ۔
اس سے قطع نظر کہ مصلحت یا سیاسی حکمت عملی کی بنا پر مسلم لیگ میں ایسے افراد بھی شامل ہوگئے تھے جو انگریز سے ٹکراؤ قطعاً نہیں چاہتے تھے ۔ اور پھر وہ انگریز کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ کانگریس کی طرح وہ بھی برطانوی تاج کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں،اور مسلمان صرف چندحقوق کے حصول کے لیے دستوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود جس چیز نے پورے خطے کے مسلمانوں کو یکجا کرنے میں اکسیر کا کام کیا وہ صرف لا الٰہ الا اللہ کے الفاظ تھے ، جن کا واضح مفہوم اللہ کی حاکمیت کا اللہ کی زمین پر قیام تھا۔
۱۳؍ اگست ۱۹۱۹ءکو جلیانہ والا باغ، امرتسر کے سانحے میں ۱۵۱۶؍ افراد کو بہیمانہ طور پر گولی کا نشانہ بنایا گیا۔یہ واقعہ ملک گیر پیمانے پر عوام الناس کو جگانے کا ایک بڑا سبب بنا۔
مسلم لیگ کے مصلحت پسند مسلمانوں کو بھی یہ یقین ہو گیا کہ ان کی جان، مال، دین اور مستقبل انگریز کےہاتھوں محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس دوران اتحادی افواج کا ترکی کے ساتھ رویہ مسلمانوں کے جذبات کو مزید مشتعل کرنے کا سبب بنا اور انگریز کی مسلم دشمنی کی اس واضح مثال کے بعد ردعمل کے طور پر تحریک ِ خلافت شروع ہوگئی۔ اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کا کردار نمایاں رہا۔
اس دوران ہندو راہ نماؤں نے جو اپنی عددی اکثریت پرپہلے ہی نازاں تھے، شدّھی کی تحریک کا آغاز کردیا اور مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم شروع کی۔ ان تمام واقعات نے مسلم قیادت کو اس بات پر یکسواور متفق کر دیا کہ حقیقت میں مسلمان ایک الگ قوم ہیں ۔ ان کا دین، زبان، ثقافت ،تاریخ ،تصور کائنات، تصور انسان ،تصور آخرت ہر چیز ہندوؤں سے مختلف ہے۔ اس لیے ایسے حالات میں جب ہندو اکثریت زبر دستی مسلمانوں کو ہندو بنانے اور اپنی محکوم بنانے پر تلی ہوئی ہے، آزادی کے لیے متحدہ طور پرجدوجہد بے معنی ہے ۔چنانچہ انھیں اپنی آزادی کے حصول کےلیے ایک الگ قوم کی حیثیت سے خود اپنے پائوں پر کھڑے ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی۔
فروری ۱۹۲۸ء میں جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو کی سربراہی میں جو رپورٹ پیش کی گئی، اس میں لکھنوکے معاہدہ ۱۹۱۶ء کو مکمل طور پرنظرانداز کرکے خود کانگریس نے باضابطہ یہ اعلان کردیا کہ وہ صرف ہندوؤں کی آزادی کے لیے متحرک ہےاوروہ کسی مسلم مفاد کا تحفظ نہیں کرسکتی ۔ مولانا محمد علی جوہرؒبھی اس واقعے کے بعد کانگریس سے علاحدہ ہونے پر مجبور ہوگئے۔
۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علّامہ اقبالؒ نے حالات کے تجزیہ کے ساتھ یہ تجویز پیش کی کہ اپنے دینی اور ثقافتی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے بطور نقطۂ آغاز وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت ہے، ایک یا زائد خود مختار اکائیوں کی شکل میں یکجا ہوں، مثلاً: پنجاب، شمالی مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو بطور ایک اکائی یکجا کر دیا جائے ۔ اس خطاب میں انھوں نے نظریاتی بنیاد کو بھی واضح کر دیا کہ توحید اور اللہ کی حاکمیت کی بنیاد پر ایک مسلم ریاست کا قیام ہی اہل خطہ کے لیے راہ نجات فراہم کر سکتا ہے۔ علامہ کے الفاظ یہ تھے :
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک اخلاقی نصب العین اور نظام سیاست کے___ اس آخری لفظ سے میرا مطلب ایک ایسی جماعت ہے، جس کا نظم و انضباط کسی نظامِ قانون کے تحت عمل میں آتا ہو، اور جس کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح سرگرم عمل ہو ___ اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے،اور جن سے متفرق و منتشر افراد بتدریج متحد ہوکرایک متمیز ومعین قوم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور ان کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہو جاتا ہے۔
حقیقت میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں شاید ہندستان ہی ایک ایسا ملک ہے، جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا ہے۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندستان میں بھی اسلامی جماعت کی ترکیب صرف اسلام ہی کی رہین منت ہے۔ اس لیے کہ اسلامی تمدن کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح کارفرما ہے.... لہٰذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندستان میں ایک اسلامی ہند قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے....ذاتی طور پر میں ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔
میری ذاتی طور پر خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر خود مختاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنا پڑے گی ۔
۱۶؍ اگست ۱۹۳۲ء کو کیے جانے والے کمیونل ایوارڈ (Communal Award)نے جداگانہ انتخاب کے اصول کو تسلیم کر کے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونےپر سرکاری مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ برطانوی سامراج اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہو چکا تھا کہ استعماری چراغ کی لَو بجھنے والی ہے، اس لیے اس نےاپنی روایتی مسلم دشمنی کی بنا پر ایسے فیصلے کیے جن کا نقصان مسلمانوں کو ہوا اور جنھیں مسلمان مجبوراً ماننے پر آمادہ ہوئے ، مثلاً ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں فیڈرل ، پروینشنل اور concurrent کی تقسیم جس میں فیڈرل فہرست اور صوبائی فہرست میں بعض اختیارات دینے کے باوجوداسے ایک ملغوبہ بنایا گیا۔ اس قانون کو قائد اعظم نے ناقابلِ قبول قرار دیا لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں مسلم لیگ کو ٹکراؤ کی جگہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔
۱۹۳۵ءکے ایکٹ کی روشنی میں ہونے والے انتخابات کے بعد ۱۹۳۷ء-۱۹۳۹ء میں کانگریس کی حکومت نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں۔ ابھی مکمل آزادی نہیں ملی تھی لیکن کانگریس نے اپنے ماتحت مقامات پر نظام تعلیم اور نصابی کتب کووِدیا مندر منصوبہ کے تحت تبدیل کردیا اور طلبہ کے لیے ہر صبح بندے ماترم کا ترانہ گانا لازمی قرار دیا ۔ دسمبر ۱۹۳۸ء میں مسلم لیگ کے پٹنہ سیشن میں اس ترانے کو شدت کے ساتھ ردّ کیا گیا اور اسے بت پرستی اور مسلم دشمنی کی واضح مثال قرار دیا گیا ۔
اس تناظر میں علامہ اقبال کا ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کا خط اہم راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وہ قائداعظم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو سو سالہ زوال اور ہندو کی مہاجن کی حیثیت سے مسلمانوں کے معاشی استحصال کے بعد اب نجات کی راہ کیا ہو گی؟ پھر خود جواب دیتے ہیں:
’’روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے۔مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دوسوسال سے ان کی حالت مسلسل گرتی چلی جارہی ہے۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے افلاس کی ذمہ داری ہندو ساہوکار و سرمایہ داری پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہ احساس کہ ان کے افلاس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے اگرچہ ابھی قو ی نہیں ہوا لیکن یہ نظریہ بھی پوری قوت و شدت حاصل کرکے رہے گا۔
’’ جواہر لال نہرو کی منکر خدا اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو افلاس سے کیونکر نجات دلائی جا سکتی ہے؟لیگ کا مستقبل اس امر پر موقوف ہے کہ وہ مسلمانوں کو افلاس سے نجات دلانے کے لیے کیا کوششیں کرتی ہے؟ اگر لیگ کی طرف سے مسلمانوں کو افلاس کی مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش نہ کی گئی تو مسلمان عوام پہلے کی طرح اب بھی لیگ سے بےتعلق رہیں گے۔
’’خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس مسئلہ کا حل موجود ہے اور فقہ اسلامی کا مطالعہ مقتضیاتِ حاضرہ کے پیش نظر دوسرے مسائل کا حل بھی پیش کر سکتا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریقے پر سمجھا اور نافذ کیا جائے، تو ہر شخص کو کم از کم معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ لیکن اسلامی شریعت کا نفاذ ناممکن ہے جب تک اس ملک میں ایک یا ایک سے زائد آزاد ریاستوں کا وجود نہ ہو۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہےاور میں اب بھی اسے ہی مسلمانوں کے افلاس اور ہندستان کے امن کا بہترین حل سمجھتا ہوں اور اگر ہندستان میں اس طریق کار پر عمل درآمد اور اس مقصد کا حصول ناممکن ہے، تو پھر صرف ایک ہی راہ رہ جاتی ہے اور وہ خانہ جنگی ہے۔ جو فی الحقیقت ہندومسلم فسادات کی شکل میں کئی برسوں سے شروع ہے۔
’’لیکن جیسا کہ اُوپر ذکر کر چکا ہوں اسلامی ہندستان میں ان مسائل کا حل بہ آسانی رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کے ذریعے ایک یا زائد آزاد اسلامی ریاستوں کا قیام اشد لازمی ہے۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آن پہنچا ؟شاید جواہرلعل کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ بہترین جواب ہے‘‘۔
مسلم لیگ کے ۲۵ویں اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں ۱۵-۱۸؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں اسی بات پر غورکیا گیا اور قائد اعظم نے طے کیا کہ مسلم لیگ اب مکمل آزادی یا ایک فیڈریشن یا آزاد جمہوری ریاستوں کے قیام کی جدوجہد کرے گی تاکہ مسلمانوں کا مفاد محفوظ ہو سکے اور اقلیتوں کو بھی تحفظ ملے ۔ اس غرض کے لیے مسلمانوں میں اتحاد اور تنظیم پیدا کرنا لیگ کا مشن قرار پایا ۔ اس جدوجہد کا منطقی نتیجہ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ءکو لاہور میں منظور ہونے والی قراداد میں ان الفاظ میں ظاہر ہوا:
آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غوروخوض کے بعد اس ملک میں مسلمانوں کے لیے صرف ایسے آئین کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول قرار دیتا ہے، جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل خطّوں کی صورت میں حدبندی کا عامل ہو اور بوقت ِ ضرورت ان میں اس طرح ردو بدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو، جیساکہ ہندستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے میں، انھیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔
یہ وہ تاریخی موقع تھا جب مسلم لیگ نے یکسو ہو کر منزل کے حصول کے لیے ساری قوت صرف کرنا شروع کی۔ قائداعظم کے فولادی اعصاب نے ہر لمحہ بدلتے حالات کی صورت حال میں اللہ پر اعتماد کے ساتھ مستقل مزاجی سے جنگ آزادی کی کامیاب قیادت کی ۔ اس جدوجہد کا مقصد جیسا کہ علامہ اقبال کے خط بنام قائد سے واضح ہوتا ہے، نئے خطۂ پاک میں اسلامی شریعت کا نفاذ تھا۔ یہ ایک عجیب سانحہ ہے کہ علامہ اقبال اور قائد کے واضح تصور پاکستان کے باوجود پاکستان کے نام نہاد روشن خیال اور اباحیّت پسند دانشوروں نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد تصور پاکستان کے حوالے سے ہندو کانگریس کے سیکولر ریاست کے تصور کو قائد کے تصور کے طور پر تکرار کے ساتھ پیش کیا اور دو قومی نظریہ کی جگہ سیکولر ریاست کے تصور کو عام کرنے میں اپنی تمام ذہانت استعمال کرتے ہوئے ابہام در ابہام پیدا کرنے میں اپنی تمام کوششیں صرف کر دیں ۔ صحافت ، نوکر شاہی اور دیگر ملکی اداروں میں جو افراد ذمہ دار بنے ، ان میں سے کسی کو علامہ اور قائد کے تصور پاکستان سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ اس لیے انھیں پہاڑ کھودنے کے بعد لے دے کر ایک تقریر ایسی ملی جس کو اپنی فکر کے مطابق معنی پہنا کر اس کی جو تعبیر وہ کرنا چاہتے تھے، اس تعبیر کو قائد سے منسوب کر کے اس کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ لوگ اسے سچ مان لیں لیکن حق و باطل کی اس کش مکش میں حق ہی کو غالب آنا تھا۔ اس تناظر میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کا تصور پاکستان کیا تھا؟ اسے انھی کے الفاظ میں جان کر ایک قاری صحیح فیصلہ کر سکتا ہے ۔
یکم فروری ۱۹۴۳ءکو قیام پاکستان سے بہت پہلے ہوسٹل پارلیمنٹ اسماعیل یوسف کالج، بمبئی میں خطاب کرتے قائد اعظم فرماتے ہیں :
پاکستان میں ریاست اسلامی اصو لوں کے مطابق چلائی جائے گی ، اس کی ثقافت ، سیاسی اور معاشی تشکیل اسلامی اصولوں پر مبنی ہو گی۔غیر مسلم اس امر سے خائف نہ ہوں کیوں کہ ان کے ساتھ مکمل عادلانہ رویہ رکھا جائے گا ۔ ان کے ثقافتی ، مذہبی ، سیاسی ، معاشی حقوق کا مکمل تحفظ ہو گا ۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ انھیں موجودہ نام نہاد جمہوری پارلیمنٹری طرز حکومت سے زیادہ تحفظات حاصل ہوں گے۔
لاہور میں ہونے والی یونی ورسٹی ریلی سے حصولِ آزادی کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہم نے اپنی منزل مقصود ’آزادی‘پالی ہے اور ایک آزاد خودمختار اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت قائم ہو چکی ہے۔ اس برعظیم میں رونما ہونے والے حالیہ اندوہناک واقعات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی قوم ابتلا اور ایثارکے بغیر آزادی حاصل نہیں کر سکتی.... کچھ لوگوں کی غداری اور سازشوں سے اس برعظیم میں بدنظمی اور افراتفری کی قوتوں کو بےلگام چھوڑ دیا گیاجس کی وجہ سے لاکھوں اموات واقع ہوئیں۔بہت وسیع پیمانے پر املاک کی تباہی اور بربادی ہوئی اور لاکھوں انسانوں کو اپنے گھر بار اور اپنی محبوب اشیا سے جدا کر کے اذیت اور مصائب میں مبتلا کر دیا گیا ۔ ہم ایک نہایت گہری اور خوب سوچی سمجھی سازش کا شکار ہوئے جس کا ارتکاب کرتے ہوئے دیانت داری، شجاعت اور وقار کے بنیادی اصولوں کا بھی مطلق لحاظ نہیں کیا گیا ۔ ہم اس تائید غیبی کے لیے سراپا شکر گزار ہیں کہ اس نے طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بہت حوصلہ اور ایمان کی قوت عطاکی۔ اگر ہم قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرتے رہے تو حتمی فتح، میں پھر کہتا ہوں، ہماری ہو گی ۔کام کی زیادتی سے، میں کہتا ہوں، گھبرایئے نہیں!
نئی اقوام کی تاریخ میں کئی مثالیں (ملتی ہیں )جنھوں نے محض عزم اور کردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔آپ کی تخلیق ایک جوہرِ آب دار سے ہوئی ہے اورآپ کسی سے کم نہیں ہیں ۔اوروں کی طرح اور خود اپنے آبا و اجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہیں ہوں گے؟آپ کوصرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبہ کو پروان چڑھانا ہو گا۔آپ ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ قابل ، صلاحیت کے حامل کرداروں اور بلند حوصلہ اشخاص سے بھری پڑی ہے ۔ اپنی روایات پر قائم رہیےاور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کر دیجیے ۔
اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ ہر شخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ضرورت اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ ہوگا ، جن کا نصب العین اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی امن ہوتا ہے۔
اسی بات کو قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیائی پیغام میں کہا اور یاد رہے کہ یہ بیان بھی اس نام نہاد ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے بعد کا ہے جسے جان بوجھ کر بار بار اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا ۱۱؍ اگست کی تقریرہی ان کی وصیت تھی۔ قائداعظم امریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتےہوئے کہتے ہیں کہ :
میرے لیے یہ امر انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ میں اہلیان ریاست ہائے متحدہ امریکا سے پاکستان ،اس کی حکومت ،اس کے افراد اور اس کے وسائل کے بارے میں اس نشریے کے ذریعے گفتگو کر رہا ہوں۔ یہ مملکت جو کسی حد تک برعظیم کے ۱۰کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت (Premier Islamic State) اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔
مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔مجھے اس بات کا علم تو نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہو گی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ایسے ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ تیرہ سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہر نوع پاکستان ایسی تھیا کریسی نہیں ہوگا جہاں پادری فرماں رواں ہوں۔
غیر مسلم ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں ۔انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گی جو کسی اور شہری کو حاصل ہو سکتی ہیں اور وہ اُمورِپاکستان میں اپنا جائز کردار ادا کر سکیں گے۔
قائداعظم اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات اور جدید دور میں قابل عمل نظام سمجھتے تھے۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں فرماتے ہیں:
وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پراپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی.... آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا....جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔
اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔
قائد کی ۱۹۴۳ء یعنی قیام پاکستان سے قبل اور ۱۹۴۸ء میں اس تقریر کے بعد جس میں انھوں نے وہ بات نہیں کہی جو ان کے شارح اپنی تعبیرات میں بیان کرتے ہیں ، ان تمام تقاریر کو ، جو بے ساختہ نہیں بلکہ تحریری شکل میں لکھنے کے بعد کی گئی تھیں، سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو ان کے تسلسل ، فکر اور موقف کی یگانگت اور یکسوئی میں ذرہ برابر فرق نظر نہیں آتا۔ جس طرح ۱۹۴۳ء میں وہ پاکستان کو بطور اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے تھے بالکل اسی طرح ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار سے خطاب ،۱۴ فروری ۱۹۴۸ءکو سبی دربار سے خطاب ، فروری ۱۹۴۸ءکو امریکی عوام سے خطاب، ۲۱فروری ۱۹۴۸ء کو اِک اِک ریجمنٹ کراچی سے خطاب، یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک سے خطاب میں وہ ریاست کے اسلامی خدوخال کو اسلام کے سیاسی اور معاشی نظام پر مبنی قرار دیتے ہیں۔
قائد کے ارشادات کی روشنی میں خود قائد کی حیات اورسر براہی میں دستور ساز اسمبلی میں ایک شعبہ مولانا سیّد سلمان ندوی کی صدارت میں قائم کر دیا گیا تھاجو اسلامی اصولوں کی روشنی میں دستور کے حوالے سے اسمبلی کی راہ نمائی کرکے دستوری سفارشات مرتب کرے ۔ اسی طرح لاہور میں علامہ محمد اسد کی سربراہی میں ایک ادارہ پاکستان کی تعمیر نو کے نام سےقائم کیا گیا اور قائد کی حیات میں انھیں یہ کام سپرد کیا گیا کہ وہ پاکستان کے لیے دستور کے خدو خال پر دستاویز تیار کریں ۔ یہ دستوری خاکہ جو علامہ اسد نے تحریر کیا، آج بھی ان کے اعزاز میں انگریزی میں طبع شدہ کتاب: Muhammad Asad (Leopold Weiss): Europe's gift to Islam (دو جلدیں)میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب انگریز کے اداروں میں تربیت پانے والے سرکاری اہل کار ، عدلیہ میں انگریز کے ذہنی غلام نمایندے اور خود سیاسی محاذ پر پاکستان کے تصور کے مخالف افراد، مثلاً باچا خان و دیگر کے لیے یہ امر نا قابل ہضم تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بن جائے ، چنانچہ جسٹس منیر ہوں یا بیورو کریسی کے افراد جن میں ۱۹۶۴ء تک ۶۰ سے اُوپر افراد سیکرٹری کے عہدے تک وہ تھے جن کی قومیت بھی برطانوی تھی ۔ جن کی علمی تربیت برطانوی تصور ریاست پر ہوئی تھی۔ یہ افراد مغربی تصورات اور طرز ِ زندگی پر یقین رکھتے تھے اور اسی وجہ سے دین اور ریاست کو ایک دوسرے کی ضد سمجھتے تھے ۔
اس سب کے باوجود ۱۹۵۶ء کے دستوری مسودے میں قائد اور قوم کے خیالا ت کو نمایندگی دینے کی کوشش کی گئی، حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی جن دفعات کو اسلامی کہا جاتا ہے، دستور کا دیباچہ (preamble)اس تصور کی وضاحت کرتا ہے ۔ قرارداد مقاصد پیش کرتے وقت قائدِ ملت نے جو مفصل تقریر کی، اس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کے تصور کی نمایندگی کرتا ہے۔ عوام نے بھی ہمیشہ تحریک پاکستان کے آغاز سے لے کر آج تک صرف اسلام کو ملک کی نظریاتی بنیاد قرار دیا۔ اب گذشتہ دو دہائیوں سے ملک جس تکلیف دہ صورتِ حال میں مبتلا ہے ، اس سے نکلنے کی راہ اور حکمت عملی کیا ہو ؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر ملک کے ہر صائب الرائے فرد کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ گو، ملک کی سیاسی قیادت آج بھی مفادات کی جنگ اور اخلاقی اقدار کی پامالی میں مصروفِ عمل ہے اور اس کے نتیجے میں ایک مزدور سے لے کر ایک دانش ور تک، ہر فرد ذہنی و فکری انتشار میں مبتلا ہے ۔ قومی زندگی کے اس فیصلہ کن موڑ پر ریاست کے نظریاتی تحفظ کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہم اس بھنور سے کیسے نکلیں اور قائد کے تصورِ پاکستان کے حصول کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟ اس حوالے سے چند بنیادی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ان چند عملی تجاویز پر عمل کرنے کے لیے کسی بڑے سرمائے کی ضرورت نہیں صرف عقلی اور علمی سرمایہ کو استعمال کرتے ہوئے اور غیر سرکاری اداروں میں حکمت و تدبر کے ساتھ ان تجاویز پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اپنے طرز عمل میں سیاسی ہنگامہ خیزی اور سیاسی تبدیلی کے ذریعے ملک اور معاشرے میں اصلاح کی جگہ اسلامی تعمیر شخصیت اور کردار کی تبدیلی کو اوّلیت اور فوقیت دے۔تعمیر کردار اور اصلاح فکر کے بغیر کوئی سیاسی تحریک نہ آج تک کامیاب ہوئی ہے، نہ ہو سکتی ہے ۔ انسانیت کے محسن اور کامل ترین قائد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدہ اور عمل کی اصلاح کے بعد جو باکردار اصحاب پیدا کیے، وہی سیاسی ،معاشی ، معاشرتی اور قانونی نظام کے معمار اور محافظ بنے۔جائزہ لینے کی ضرورت ہےکہ کسی اصلاحی اور دعوتی تحریک کا کتنے فی صد مساعی کا حصہ تطہیر افکار اور تعمیر شخصیت و کردار پر صرف ہو رہا ہے اور کتنے فی صد سرگرمی ہنگامی طور پر آگ بجھانے کے کام میں لگ رہی ہے۔
تحریک کو ایسے انسانی وسائل کی ضرورت ہے جو مثبت طور پر حکمت عملی پر پورا عبور رکھنے کے ساتھ فکری، جذباتی اور عملی طور پر اس سیرت و کردار کا نمونہ ہو ںجو صداقت، امانت، شہادت حق، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری اور اسلام کے حقیقی تصور کی عملی مثال ہوں ۔ فکری و نظریاتی طور پر تربیت یا فتہ با اخلاق کارکنان کے بغیر کوئی پائدار سیاسی ہدف حاصل نہیں ہو سکتا اور بنیادوں کے استحکام کے بغیر کوئی مضبوط عمارت نہ قائم ہو سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے۔پاکستان میں عدم استحکام کا سبب ان بنیادوں کو اہمیت نہ دینا ہے، جس کی طرف قائداعظم نے متوجہ کیا تھا۔ اگست کا مہینہ اس بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر کی یاددہانی کراتا ہے جس میں ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ نے معجزاتی طور پر لا الٰہ الا اللہ کی علَم بردار ایک قوم کو ایک ملک دیا تھا، تاکہ وہ اس ملک میں حاکمِ کائنات کی ہدایت و احکامات کے نفاذ کے لیے کمر بستہ ہو۔ یہ یاددہانی ۷۶ سال کے بعد بھی ویسی ہی تابناک ہے جیسے روز ِاول تھی۔ صرف آگے بڑھ کر اس کے لیے انسانی وسائل کو یکجا کرنے اور منظم جدوجہد کے ذریعے عقل ، فہم و تدبر اور حکمت کی قوتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔
سورئہ بقرہ کی آخری تین آیات ہجرت سے ایک سال پہلے معراج کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں۔ مسلم شریف کی روایت سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر تین چیزیں حضوؐ ر کو عطا ہوئی ہیں۔ ایک سورئہ بقرہ کی آخری آیات، دوسرے پانچ وقت کی فرض نمازیں، اور تیسرے یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے جو شخص شرک سے مجتنب رہے گا، محفوظ رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کے کبیرہ گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ ارشاد ہوا:
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط (البقرہ ۲:۲۸۴)،اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔
’اللہ ہی کے لیے ہے‘ سے مراد یہاں اصل میں تین چیزیں ہیں:
ایک تو یہ کہ ملکیت اس کی ہے، یہ کائنات اسی نے پیدا کی ہے، اسی کی ملکیت ہے۔ دوسرے یہ کہ یہاں اختیار اور تصرف تنہا اسی کا کام ہے۔ نہ کوئی دوسرا یہاں کوئی اختیار رکھتا ہے، نہ کسی دوسرے کو یہاں تصرف کا حق اور طاقت حاصل ہے۔اور تیسری بات یہ کہ رجوع ہرامر کو آخرکار اللہ کی ہی طرف کرنا ہے۔ واپسی اسی کی جانب ہونی ہے۔ انجامِ کار اسی کے ہاتھ میں ہے۔
اسی لیے تو فرمایا: لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ،’’جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اسی کا ہے‘‘۔ اس کے سوا اس کی ذات میں نہ کوئی اُس کا شریک ہے، نہ اس کی صفات میں کوئی اس کا شریک ہے، نہ اس کے حقوق میں کوئی اس کا ساجھی ہے، اور نہ اس کے اختیارات میں اس کا کوئی شریک ہے۔
وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہُ ط(۲:۲۸۴) اور چاہے تم ظاہر کرو جو کچھ کہ تمھارے نفسوں میں ہے، یعنی اپنے دل کی بات کو۔ اَوْ تُخْفُوْہُ یا اس کو چھپائو، یعنی جو کچھ انسان کے دل میں ہے وہ بروئے کار آجائے۔ قول کی صورت میں یا فعل کی صورت میں، یا دل کی بات دل ہی میں رہ جائے۔
یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہُ ط، اللہ تعالیٰ تم سے اس کا محاسبہ فرمائے گا۔
مطلب یہ ہوا کہ صرف قول و فعل اور عمل ہی کا محاسبہ نہیں ہوگا بلکہ دلوں میں چھپی ہوئی نیتوں اور دلوں میں چھپے ہوئے رازوں اور خیالات اور اسکیموں اور منصوبوں، ہرچیز کا محاسبہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اس میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک چیز جو صرف وسوسے کے درجے میں رہے، اس کے اُوپر تو کوئی محاسبہ نہیں ہوگا اور اس کی کوئی سزا بھی نہیں ملے گی۔ لیکن وسوسے کے درجے سے گزر کر اگرکوئی چیز باقاعدہ خواہش کی صورت میں ڈھل جائے، آدمی ان خواہشوں کو پالتا رہے، پھر چاہے وہ رُوبہ عمل آسکیں یا نہ آسکیں، بہرحال اس کا محاسبہ ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہے، کہ کوئی شخص فرض کیجیے کہ کسی کو قتل کردینے کے درپے رہے۔ قتل کرنا یا نہ کرنا یہ تو مشیت ِ ایزدی کے تحت ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ منصوبہ تو بناتا رہے، درپے بھی رہے لیکن وہ اس منصوبے پر عمل نہ کرپائے،تو چاہے اس نے عمل نہ کیا ہو پھر بھی اس کے اُوپر اس کا محاسبہ کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ: الْقَاتِل وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، سے اس پر روشنی پڑتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ قاتل کا تو جہنم میں جانا بالکل واضح ہے اور سمجھ میں آتا ہے لیکن مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’مقتول اس لیے جہنم میں جائے گا کہ وہ بھی تو اصل میں قاتل کو قتل ہی کرنا چاہتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس کو قتل کرنے کی خواہش اور کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا‘‘۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ محاسبہ صرف افعال اور اعمال اور اقوال ہی کا نہیں ہوگا بلکہ دلوں میں چھپے ہوئے منصوبوں اور خواہشوں اور اسکیموں کا بھی ہوگا۔
فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ط ،پھر وہ جس کو چاہے گا بخش دے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا۔
یہ اصل میں توحید کی آیت ہے۔
فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ط ،یعنی معاف کرنے اور سزا دینے دونوں کا کامل اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ اس میں اس کا کوئی مزاحم نہیں۔ وہ جس کو بخش دینا چاہے تو کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا کہ اس کو ضرورسزا دیجیے، اور جس کو سزا دینا چاہے اس کو اللہ تعالیٰ سے کوئی چھڑا کر لے جا نہیں سکتا۔اور فائدہ اس کے بیان کا یہ ہے کہ جب اختیارِ مطلق اللہ تعالیٰ ہی کا ہے تو اُمیدیں بھی اسی سے وابستہ ہونی چاہییں اور خو ف بھی صرف اسی کا دل میں ہونا چاہیے۔ اس کے سوا نہ کسی دوسرے سے کوئی اُمید رکھی جائے اور نہ کسی دوسرے کا کوئی خوف دل میں رہے۔
وَاللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۲۸۴ (۲:۲۸۴)، اللہ تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط (۲:۲۸۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی اہل ایمان، ایمان لے آئے اس چیز پر جو اُن پر نازل کی گئی، یعنی ہدایت جو نازل کی گئی ان کے ربّ کی جانب سے ۔
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰٓئِکَـتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف (۲:۲۸۵) اور ان میں سے ہر ایک یعنی رسولؐ اور اہل ایمان، ایمان لایا اللہ پر، وَمَلٰٓئِکَـتِہٖ اور اس کے فرشتوں پر۔ وَکُتُبِہٖ اس کی کتابوں پر ۔ وَرُسُلِہٖ اور اس کے رسولوںؑ پر۔
دراصل سورئہ بقرہ میں چونکہ ابتدا سے یہود کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ اس کو، اگر اسی روشنی میں دیکھا جائے تو مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ یہود وہ قوم تھے کہ جن سے اللہ تعالیٰ نے نبوت اور شریعت اور امامت ِ عالم کا منصب لے کر،ان کو اس منصب سے معزول کرکے، اس منصب کو اُمت ِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کیا۔ تو یہاں اس بات کو واضح کیا گیا کہ اٰمَنَ الرَّسُوْلَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط ، یعنی جو ہدایت بھی ان کے ربّ کی جانب سے نازل ہوئی ہے، اس کے اُوپر ایمان لے آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی۔
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰٓئِکَـتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف ،ان میں سے ہر ایک ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر۔ اللہ پر ایمان اگرچہ اہل کتاب بھی رکھتے تھے لیکن یہ ایمان ان کا خانہ ساز ایمان تھا۔ یہ ان تقاضوں کے مطابق نہیں تھا جن کے مطابق ایمان کو ہونا چاہیے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات میں اور اس کی صفات میں، دونوں میں نہ صرف یہ کہ شرک کو داخل کردیا تھا بلکہ اپنے من گھڑت نظریات کو بھی اس میں داخل کردیا تھا۔
ملائکہ پر ایمان کی اہمیت ہے ، جیساکہ دوسری جگہ قرآنِ مجید میں آیا بھی ہے کہ:
مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجَبْرِیْلَ(البقرہ ۲:۹۷)، یعنی یہودی، حضرت جبرئیلؑ کو اپنا دشمن فرشتہ سمجھتے تھے اور اسی حیثیت سے وہ ان کو دیکھتے تھے، تو یہاں ملائکہ کا ذکر کیا گیا کہ ہم تمام ملائکہ کے اُوپر ایمان لائے۔
وَکُتُبِہٖ ، اور اس کی کتابوں پر۔ یہاں بھی اصل میں یہود ہی کی تردید کرنی مقصود ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ہم تو صرف انھی کتابوں کے اُوپر ایمان لانے کے پابند ہیں کہ جو بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں۔ جو کتابیںکہ بنی اسرائیل پر نازل نہیں ہوئی ہیں، ان کے اُوپر ہم ایمان لانے کے پابند نہیں ہیں۔
وَرُسُلِہٖ ، اور اس کے رسولوں ؑ پر ایمان۔یہ بھی اصل میں یہود ہی کی تردید میں کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہود کا یہ کہنا تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اچھی طرح اس بات کو پہچان گئے تھے اور سمجھ گئے تھے کہ یہ وہی آخری نبیؐ ہیں جن کی پیش گوئیاں ہماری کتب ِ مقدسہ میں موجود ہیں اور جن کے بارے میں ہمارے انبیاؑ نے ہم کو اطلاع بھی دی تھی اور ہمیں ان پر ایمان لانے کی وصیت اور نصیحت بھی کی تھی، لیکن صرف ضد اور تعصب میں مبتلا ہوکر انھوں نے یہ کہہ کر حضورؐ پر ایمان لانے سے انکار کردیا تھا کہ ہم تو صرف بنی اسرائیلی انبیاؑ پر ہی ایمان لانے کے پابند ہیں۔
مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ: لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف (۲:۲۸۵)، ہم اللہ کے رسولوں ؑ میں سے کسی میں بھی کوئی تفریق نہیں کرتے۔ ہم تو اِن رسولوںؑ پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں اور ان رسولوںؑ پر بھی ایمان لاتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں، خواہ وہ اسرائیلی انبیاؑ ہوں یا غیراسرائیلی انبیاؑ ہوں۔ کسی قوم میں آئے ہوں، یا کسی ملک میں، اگر وہ اللہ کے رسولؑ ہیں تو ہم ان کے اُوپر ایمان لاتے ہیں۔
وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۰ۤۡ (۲:۲۸۵)، یہاں گویا اہل ایمان کی زبان سے یہ کہلوایا گیا کہ تم سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاکہو۔ یہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا بھی اصل میں یہود کے سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کے جواب میں ہے۔ ان سے جو نعمت چھین لی گئی تھی نبوت کی اور کتاب کی، اور شریعت کی اور امامت ِ عالم کی۔ اس کا سبب یہی تھا کہ انھوں نے ہمیشہ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کہا بھی اور اس کے اُوپر عمل بھی کیا۔ ہمیں یہ نصیحت کی گئی کہ اب، جب کہ ان سے یہ نعمتیں لے کر تم کو دی گئی ہیں، کہیں تم ان کی راہ پر نہ چلنا اور ان کی پیروی نہ کرنا۔تمھارا قول اور عمل دونوں سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا پر ہوں۔ اور فرمایا کہ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ، وہ کہتےہیں کہ ہم نے سنا، وَاَطَعْنَا ، اور مانا ، اطاعت کی۔
غُفْرَانَکَ رَبَّنَا (۲:۲۸۵)، ’’مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں‘‘۔
غُفْرَانَکَ رَبَّنَا سے پہلے فعل معدوم ہے، یعنی نَشْھَدُکَ غُفْرَانَکَ رَبَّنَا__ اے پروردگار، ہم آپ سے آپ کی مغفرت اور ہم آپ سے آپ کی بخشش طلب کرتے ہیں۔ اس کے معدوم کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ اس میں ظاہر یہ کرنا ہے کہ دُعا مانگنے والا اس میں __کے دراصل ساتھ دُعا کررہا ہے کہ اس کو اس میں ذرا برابر بھی خیر گوارا نہیں ہے، تو فعل کو معدوم کردیا۔
وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ۲۸۵ (۲:۲۸۵)، لوٹنا اور واپسی تیری ہی جانب ہے۔ انجام تیری ہی طرف ہے۔
لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعٰھَا ط (۲:۲۸۶)، اللہ تعالیٰ نہیں بوجھ ڈالتا کسی جان پر، نہیں تکلیف دیتا کسی جان کو، اِلَّا وُسْعٰھَا مگر اس کی وسعت کی حد تک۔
یہ گویا ایک جملہ معترضہ ہے جو دُعا کے بیچ میں آگیا ہے اور اس کا محل تسلّی کا محل ہے کہ بے شک اگرچہ ذمہ داری تو بہت بھاری اور بہت بڑی ہے جو اس اُمت پر ڈالی گئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ بس اسی حد تک کسی پر بوجھ ڈالتا ہے جس حد تک وہ اسے اُٹھانے کی قوت اور سکت رکھتا ہو۔
لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط (۲:۲۸۶)، ہر جان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے کمایا ہے، یعنی جو اعمال اس نے کیے ہوں گے اسی کا انعام اس کو ملے گا۔ وَعَلیْھَا مَا اکْتَسبَتْ ، اور جو بداعمالیاں اس نے کی ہوں گی، بس انھی پر اس کو سزا ملے گی۔ وہ دوسر ے کے اعمال کا انعام پائے گا، نہ دوسرے کے اعمال کی سزا پائے گا۔
اب یہاں سے پھر دُعا شروع ہوئی۔ بیچ میں جملہ معترضہ جو آیا تھا وہ ختم ہوا۔
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ج (۲:۲۸۶)،اے ہمارے پروردگار! تو مواخذہ نہ فرما اگر ہم بھول جائیں یا خطا کریں۔
جہاں تک بھول چوک کا تعلق ہے وہ تو بالکل واضح ہے۔ اس کو تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔ اَخْطَاْنَا کا مطلب یہ ہے کہ وہ گناہ جو بلاارادہ اور بلاقصد کے سرزد ہوجائے۔ ہم اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کر رہے تھے کہ تو ہم سے ان کا مواخذہ نہ کر، یعنی یہ نہیں کہہ رہے کہ تو ان کی سزا نہ دے بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ تُو ان کا مواخذہ ہی نہ فرما۔ وہ سرے سے ہمارے حساب ہی میں نہ آئے۔ اس لیے کہ جس چیز کا حساب لے لیا گیا تو اس سے تو پھر عہدہ برآ ہونا بہت مشکل ہے۔
اس لیے فرمایا گیا: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ ، تو مواخذہ نہ فرما۔ اِنْ نَّسِیْنَآ ، اگر ہم بھول جائیں، اَوْ اَخْطَاْنَا یا ہم خطا کربیٹھیں۔ یعنی بلاقصد و ارادہ گناہوں کا ہم سے سرزد ہوجانا۔
رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج (۲:۲۸۶)، اے ہمارے پروردگار اور ہم پر نہ لاد ایسے بھاری بوجھوں کو جو تُو نے لادے اُن لوگوں پر جو ہم سے پہلے گزرے (یعنی سابقہ اُمتوں پر)۔
یعنی جو سخت احکام ان کو دیئے گئے اور کڑی شریعتیں ان کو دی گئیں ان سے تو ہم کو محفوظ رکھ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد ِ شریعت میں یہ چیز آتی ہے کہ آپؐ کا مقصد ِ بعثت جو تھا کہ آپؐ عُسر اور اغلال کو دُور فرمائیں۔ اس عُسر اور اغلال سے یہود کی شریعت بھری ہوئی تھی۔ ان میں سے بعض تو وہ چیزیں تھیں جو اُن کی شرارتوں کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اُوپر عائد کر دی تھیں، اور بعض وہ چیزیں تھیں جو ان کی فقہی موشگافیوں کے نتیجے میں انھوں نے اَزخود اپنے اُوپر عائد کر لی تھیں۔
مثال کے طور پر جیسے سبت کے احکام تھے۔ جیسے ہمارے لیے جمعہ کا دن ہے، ایسے ہی یہود کے ہاں سبت کا دن تھا لیکن ہمارے جمعہ کے دن میں بے انتہا سہولت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے، جب کہ ان کے ہاں سبت کے احکام بڑے سخت تھے۔ سبت کے احکام یہ تھے کہ اس دن نہ تو کسی قسم کا کاروبار ہوسکتا تھا، نہ کوئی محنت مزدوری ہوسکتی تھی، حتیٰ کہ گھر میں بھی کوئی کام کاج نہیں ہوسکتا تھا۔ کھانا تک گھر میں نہیں پکایا جاتا تھا اور غلاموں اور ملازموں تک سے کام نہیں لیا جاسکتا تھا اور یہ احکام سارے دن کے لیے تھے۔ دن کے کسی ایک حصے کے لیے نہیں۔
اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں جو جمعہ کے احکام ہیں ان کے اندر بہت سہولت رکھی گئی ہے۔ آپ جمعہ کے سارے دن میں کام بھی کرسکتے ہیں، کاروبار بھی کرسکتے ہیں، محنت مزدوری بھی کرسکتے ہیں، گھروں میں بھی سارے کام کاج کیے جاسکتے ہیں۔ حکم صرف اتنا ہے کہ:
اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللہِ (الجمعہ۶۲: ۹)، جب اذان ہوجائے جمعہ کی تب سب کاروبار چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف لوٹ آئو۔
لہٰذا وہ سارا وقت جو جمعہ کی نماز میں اور مسجدمیں صرف ہوتا ہے اس کو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دوگھنٹے سمجھ لیا جائے تو سارے احکام ان ڈیڑھ دو گھنٹوں کے اندر آجاتے ہیں۔ باقی جمعے کا دن ہرقسم کے کاموں کے لیے کھلا ہوا ہے۔ پھر اس کے بعد یہ بھی حکم ہے کہ’’ جب نماز ختم ہوجائے تو پھیل جائو دُنیا میں اور زمین میں اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘۔
اسی کے ساتھ خود قرآنِ مجید ہی میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب سبت کی علانیہ خلاف ورزی یہود کی ایک بستی میں ہونے لگی تو خدا کے کچھ بندوں نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور اس سے باز رکھنے کی کوشش کی اور وہ پھر بھی نہیں مانے، انھی لوگوں کو بندر اور خنزیر بنادیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے، اس کا رحم و کرم ہے کہ آج ہمارے اندر بھی بے شمار لوگ جمعہ کے احکام کی علانیہ خلاف ورزی کرتے ہیں اور جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں جاتے لیکن ان میں سے کسی کو نہ بندر بنایا جاتا ہے ، نہ خنزیر بنایا جاتا ہے۔
اسی طرح ذبیحہ کے احکام کو لے لیجیے۔ اس کے اندر بھی عسر اور اغلال کی مثال مل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ ہے کہ ہرحلال جانور کا صرف خون ہی حرام ہے۔ ذبح کرنے کے بعد، شہ رگ کاٹ کے ہم اس کا خون بہا دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس کا گوشت، اس کی چربی، ہرچیز ہمارے لیے حلال ہوتی ہے لیکن یہود کے لیے خون کے ساتھ چربی بھی حرام کردی گئی اور پھر یہ کہ انھوں نے اپنی فقہی موشگافیوں سے کچھ اور چیزوں کو بھی حرام کرلیا تھا۔ مثال کے طور پران کے ہاں حلال جانور کا بھی صرف اگلے حصے کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ پچھلے حصے کاگوشت وہ ضائع کردیتے ہیں، اس کو نہیں کھاتے۔ اسی طرح اور بہت سی مثالیں اس کی مل جاتی ہیں۔
چنانچہ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ یوں دُعا کریں:
رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج (۲:۲۸۶)، ہماری دُعا یہ ہے کہ اے پروردگار! ہمارے اُوپر وہ بھاری بوجھ نہ ڈال جو تُو نے ہم سے پہلے والی اُمتوں پر ڈالے۔
رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ۰ۚ (۲:۲۸۶) ، اور جس چیز کی ہم میں طاقت نہ ہو وہ ہم پر نہ ڈال۔یعنی وہ ذمہ داریاں یا وہ آزمایشیں ہمارے اُوپر نہ ڈالی جائیں یا ان امتحانوں میں ہم کو نہ ڈالا جائے کہ جن میں پورا اُترنا ہمیں مشکل ہو۔
وَاعْفُ عَنَّا ۰۪ وَاغْفِرْ لَنَا ۰۪ وَارْحَمْنَا ۰ ۪ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۲۸۶ۧ (۲:۲۸۶) پروردگار، جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔
یہ آیات جس وقت نازل ہوئی تھیں یعنی ہجرت سے ایک سال پہلے۔ اس وقت مسلمانوں کے اُوپر مکّے میں عرصۂ حیات اس قدر تنگ کر دیا گیا تھا کہ بہت سے لوگ مکہ چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہوگئے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان آیات کے ایک سال بعد مدینے ہجرت فرماگئے۔ یہ انتہائی سختی کا وقت تھا، جب یہ دُعا اہل ایمان کو سکھائی گئی تھی اور دُعا چونکہ خود اللہ تعالیٰ ہی نے سکھائی تھی، اس لیے اس کی قبولیت میں بھی کوئی شک نہیں ہوسکتا تھا۔
دینی مقدَّسات میں سب سے اہم: ذاتِ باری تعالیٰ ، ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی صفات کے ساتھ ساتھ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتِ شان اور آداب، خود قرآنِ کریم میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمان عملی اعتبار سے کتنا ہی کمزور ہو، دینی مقدَّسات کی بے حرمتی پر اپنے جذبات پر قابو رکھنا اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے اوروہ اپنی جان ،مال ،آبرو، حتیٰ کہ اپناسب کچھ ان مقدّسات کی حُرمت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواہ غیرمسلم دُنیا ہو یا مسلم دُنیا، جب اور جہاں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ، مسلمانوں نے بے اختیار اپنے ردِّعمل کا اظہار کیا ۔
سوال یہ ہے :’’مسلمان اپنے دینی مقدَّسات کی حرمتوں کا تحفظ کیسے کریں، ان دیدہ و دانستہ مذموم ابلیسی تحریکات کا سدِّباب کیسے کریں؟‘‘، یہ مسئلہ مسلمانوں کے اہلِ فکر ونظر کے لیے سنجیدہ اور گہرے غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ اکثر اوقات مسلم ممالک میں مسلمان احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں،اپنے جذبات اور ردِّعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اس حد تک یہ بات درست ، قابلِ فہم بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضاہے ۔ لیکن جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے ہی ملک میں قومی اور نجی املاک کو تباہ کرنا یا خدانخواستہ جانی نقصان ہوجانا، درست نہیں ہے۔ جب ہم ایک غلطی کے ازالے کے لیے نکلیں تو ردِّعمل میں ہمیں دوسری غلطی کا ارتکاب کرنا زیب نہیں دیتا۔ بالکل اسی طرح خدانخواستہ ملک کے اندر یا باہر دوسروں کے مذہبی اداروں ،اشخاص اورسفارت خانوںپر حملہ کرنا بھی مناسب نہیں ہے ، اگرچہ وقتی طور پر جذبات کو اس سے تسکین ملتی ہے، لیکن اس طرح کے عوامل آخر کار منفی نتائج کے حامل ہوتے ہیں ۔
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے :’’مغربی ممالک میں وقتاً فوقتاً اس طرح کی مذموم حرکات (مثلاً: اہانتِ رسولؐ پر مبنی خاکے چھاپنا، قرآنِ کریم کو جلانا ، ہمارے دیگر دینی مقدَّسات کی بے حرمتی کرنا) دانستہ طور پر ہی کی جاتی ہیں‘‘ ، کیونکہ انھیں معلوم ہے : ’’مسلمان اس پر بے اختیار ردِّعمل کا مظاہرہ کریں گے اور وہ بعض مواقع یابعض مقامات پر حدود سے تجاوز بھی کر گزریں گے ‘‘، اس طرح وہ دنیا میں یہ پُرزور پروپیگنڈا کریں گے :’’مسلمان انتہا پسند ہیں، دوسروں کے خلاف نفرت انگیزی کرتے ہیں، دہشت گرد ہیں ، ان سے امنِ عالَم کو خطرہ ہے‘‘ اور ہمارے دیسی لبرل حضرات اُن سے بھی چار ہاتھ آگے ہوں گے: ’’یہی اسلاموفوبیا‘‘ ہے۔
اور جب اُن سے ایسے بدبختوں کو سزا دینے کی بات کی جائے، تواُن کی حکومتیں اور ہمارے ہاں اُن کے پروردہ عناصر یہ کہتے ہیں: ’’اظہارِ رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی ہمارے تمدّن، نظام اور لائف اسٹائل کے لوازمات میں سے ہے‘‘۔ یعنی یہ چیزیں اُن کے لیے عقیدے کا درجہ رکھتی ہیں، جن پر وہ کسی طرح کی روک ٹوک عائد کرنے اور قدغن لگانے کے لیے تیار نہیں۔ مغربی اقوام ا سی مادر پدر آزاد ی پر مشتمل تہذیب کو دوسری اقوام پر مسلّط کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے وہ یک زبان ،یک جان اور یک سو ہوجاتی ہیں۔ چونکہ انھیں حربی ، مادّی ، اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے غلبہ حاصل ہے،نیز عالمی اداروں کی پالیسی سازی پر بھی انھی کی گرفت ہے ، اس لیے اُن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ تجارتی اور سفارتی پابندیاں لگادیتے ہیں، ترقی پذیر ممالک کا ناطقہ بند کردیتے ہیں، جس کا کوئی مؤثرتوڑ فی الحال اِن ممالک کے پاس نہیں ہے۔
وہی مغربی اقوام، جن کی حکومتیں مسلمانوں کی دل آزاری اور اذیت رسانی کے جرم کو پریس کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے پُرفریب نعروں کی آڑمیں تحفظ دیتی ہیں ،وہاں اگر کوئی جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی (ہولوکاسٹ) کا انکار کرے یا اسے محض افسانوی پروپیگنڈا قرار دے، تو یہ اہلِ مغرب کے نزدیک قابلِ تعزیر جرم ہے، کیونکہ اُن کے نزدیک اس کے ذریعے یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔الغرض اُن کے نزدیک کم وبیش ڈیڑھ کروڑ یہود کی دل آزاری جرم ہے ،مگر پونے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری سرے سے جرم نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ایک قابلِ مذمت یا قابلِ افسوس فعل ہے۔ اس سے مسلمانوں کو اپنی قدراور پوزیشن کا بھی اندازہ لگالینا چاہیے کہ دنیا محض تعداد کو نہیں دیکھتی، بلکہ عالمی سیاست ،عالمی معیشت اور عالمی امور میں کسی کی اہمیت کو دیکھتی ہے۔ستاون مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اور خود عام مسلمانوں کو بھی اس سوال پر غور کرنا چاہیے۔
مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ردِّعمل نیم دلانہ ،پست ہمتی اور کمزوری پر مبنی ہوتا ہے۔ علامتی طور پر مسلم ممالک کا ایک فورم ’اسلامی تعاون تنظیم‘ ہے، اسے عربی میں مُنَظِّمَۃُ التَّعَاوُنِ الْاِسْلَامی کہاجاتا ہے۔لیکن اس میں تنظیم ، تعاون ، اتحاد اور تحریک کی حقیقی روح موجود نہیں ہے، بس دفع الوقتی اور اپنے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ ایک آدھ اجلاس کرلیتے ہیں، کوئی چھوٹی موٹی، محتاط سی قرار داد پاس کرلیتے ہیں اور بس!
اس کا پہلا اور بنیادی حل یہی ہے کہ جس ملک میں اسلام کے دینی مقدّسات کی اہانت ہو، اُس کا اقتصادی ، سفارتی اورتجارتی بائیکاٹ کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ اور حقوقِ انسانی کے عالَمی اداروں پر دبائو ڈالا جائے کہ اقوامِ عالَم اپنے اپنے ممالک میں دینی مقدسات کی اہانت کے بارے میں سخت قوانین بنائیں ، اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دیں اور اس کے سدِّباب کے لیے سنگین سزائیں مقرر کرکے انھیں نافذ کریں۔ اقوامِ متحدہ سے بھی مطالبہ کیا جائے کہ’دہشت گردی‘کی ایک جامع و مانع اوراجماعی تعریف کی جائے ، کیونکہ ایک یا چند افراد کوزبان، مذہب یا رنگ ونسل کی بنیاد پر جسمانی اذیت پہنچانا اگردہشت گردی ہے، تو ایک یا چند افراد کاابلیسی حرکت کے ذریعے ڈیڑھ پونے دو ارب مسلمانوں کو ذہنی ، روحانی اور قلبی اذیت پہنچانے کو بھی دہشت گردی اور قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے، کیونکہ درحقیقت یہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خود پاکستان کے اندر سوشل میڈیا پر دینی مقدّسات کی توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ دنوں ’’لیگل کمیشن آن بلاسفیمی‘‘کے چیئرمین جناب رائوعبدالرحیم ایڈووکیٹ نے ہمیں شواہد دکھائے کہ سوشل میڈیا پر اسلام کے دینی مقدّسات کے بارے میں کیا کچھ بیان کیا اور پیش کیا جارہا ہے۔ یہ آڈیو /وڈیو مناظر سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جھرجھری طاری ہوجاتی ہے، دل دہل جاتا ہے،انسان سوچتا ہے: زمین پھٹ کیوں نہ گئی ،آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا۔ کوئی مسلمان نہ ان مناظر کو بیان کرسکتا ہے اور نہ دیکھنے کی جسارت کرسکتا ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر یہ کام کر رہے ہیں، ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں ۔ رائو صاحب نے بتایا :’’ہم نے سیکڑوں افراد کی نشاندہی کرکے حکام تک پہنچایا ، لیکن نہ تو قانون حرکت میں آتا ہے اورنہ عدالتیں بروقت فیصلے کرتی ہیں۔ہماری اعلیٰ عدالتوں کو سیاسی تھیٹر سے فرصت ہی نہیں کہ وہ دینی مقدّسات کی حُرمت کے تحفظ کے لیے اپنے منصبی اختیارات کو استعمال کریں، حالانکہ وہ اپنی ناموس کے لیے تو بہت حساس ہوتے ہیں، توہینِ عدالت کی دھمکی دیتے ہیں۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ دینی مقدّسات کی حُرمت کو اپنے منصب کی حرمت کے برابر بھی نہیں سمجھتے؟اسی طرح اگر کوئی فرد، کسی بااختیار اور طاقت ور شخصیت کی توہین کر بیٹھے اور ایسا گستاخ شخص ملک کے اندر موجود ہے، تو اُسے پاتال سے بھی باہر نکال کر لے آتے ہیں، لیکن یہ پھرتی دینی مقدّسات کی حُرمت کے تحفظ کے لیے نہیں دکھائی جاتی۔
جب ہم ان مذموم ابلیسی حرکات کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کا شرعی حکم بیان کرتے ہیں، تو ہمارے نام نہاد ’روشن خیال‘، سیکولر اور لبرلز کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ یہ بحث کرنے لگتے ہیں: ’’فتویٰ دینا کس کا کام ہے؟‘‘اُن کی خدمت میں گزارش ہے :فتوے اور قضا میں فرق ہے۔اس تحقیق میں جائے بغیر کہ بیان کردہ صورتِ مسئلہ درست ہے یا غلط، حقیقتِ حال کے مطابق ہے یا نہیں، ’مفتی ‘کا کام فقط یہ ہے کہ بیان کردہ صورتِ مسئلہ پر بتائے کہ اس کا حکمِ شرعی یہ ہے۔ الزام کی تحقیق کرنا ،ثبوت وشواہد کی جانچ پڑتال کرنا اورالزام کو ثابت یا ردّ کرنا یہ قاضی کا کام ہے۔ دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
انھی حکومتوں اور میڈیا کو جب ضرورت پڑتی ہے تو پھر فتوے کے لیے علما سے رجوع کرتے ہیں۔ اگر حکومت کا اپنا قائم کردہ آئینی ادارہ ’اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان‘ یا ہماری عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامیہ اپنے فرائض ٹھیک ٹھیک انجام دیں ،تو علمائے کرام کو ان امور میں دخل اندازی کا شوق نہیں ہے ۔لیکن جب دینی مقدّسات کی حُرمت کو پامال کیا جائے اور ہماری انتظامیہ ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہر سطح کی عدالتوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے ،توپھر اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں پر اللہ کی حجت کو قائم کرنا علمائے حق کی ذمے داری ہے اور اگروہ اس سے گریز کریں یا چشم پوشی کریں یا گوشۂ عافیت تلاش کریں ، تو یہ اُن کی طرف سے دینی ذمے داری سے غفلت اور پہلوتہی قرار پائے گا۔
ہم نے بارہا کہا ہے :’’ناموسِ رسالتؐ کی بے حُرمتی پر ایف آئی آر کے اندراج کو آسان بنایا جائے نہ کہ مشکل۔ اس طرح ملزم قانون کی تحویل میں چلا جائے گا ، پولس کی حفاظتی حراست میں رہے گااور کوئی اس پر دست درازی نہیں کرپائے گا، اُسے شواہد کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے‘‘۔ نیز دینی مقدسات کی توہین اور ناموسِ رسالتؐ کی بے حُرمتی کے مقدمات کا براہِ راست فیڈرل شریعت کورٹ میں ٹرائل کیا جائے اور ان کے فیصَل ہونے کے لیے زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی مدت کا تعین کیا جائے۔ اس لیے قانون کے سریع العمل نفاذ میں جتنی رکاوٹیں پیدا کی جائیں گی، نظامِ عدل میں اتنی ہی خرابیاں پیدا ہوں گی، اور رشوت دَر آئے گی۔ اس پر اپیل صرف شریعت کورٹ اپیلٹ بنچ میں دائر ہونی چاہیے۔ اگر ہمارے روایتی آزاد خیال اور سیکولر مزاج کے حامل ججوں کے سامنے یہ مقدمات آئیں گے تو اُن کا حشر وہی ہوگا جو ماضی میں ان مقدمات کا ہوا۔ جب جج کے اپنے عقیدے میں دینی مقدسات کی ناموس کی کوئی حیثیت نہ ہو ،تو اُن کے پاس ثبوت وشواہد پر مشتمل مقدمات کو بھی ردّکرنے کے دسیوں حیلے بہانے اور فنّی حربے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسیہ مسیح کے مقدمے میں جسٹس صاحب کی یہ دلیل عجیب تھی :’’جب ساٹھ عورتیں اس وقوعہ کو دیکھ رہی تھیں تو صرف چند نے گواہی دی اور باقی نے کیوں نہ دی؟‘‘، جب کہ قانونی تقاضا فقط یہ ہوتا ہے کہ شرعی معیار پر گواہی درست ہو اور نصابِ شہادت پورا ہو۔
پس لازم ہے کہ دینی مقدّسات کی سماعت کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں دینی علوم کے ماہر جج مقرر کیے جائیں۔ جج صاحبان کے لیے دینی علوم کا ماہر ہونا ہی کافی نہیں ہے ،اُن کی دیانت وامانت اور فقاہت وثقاہت پر سب کا اعتماد ہونا چاہیے۔ یہ بہت بنیادی اصول ہے، ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں آمرمطلق صدر جنرل پرویز مشرف نے جون۲۰۰۲ء میں حُرمتِ سود کے مسئلے کو نمٹانے کے لیے دو علما جج ہی تلاش کیے تھے :جسٹس علامہ خالد محمود کو مانچسٹر، برطانیہ سے اور دوسرے جج جسٹس ڈاکٹر رشید احمد جالندھری تھے، جب کہ اس بنچ کی سربراہی جسٹس افتخار محمد چودھری کر رہے تھے۔یہ بنچ ۲۰۰۲ء میں ’سانپ سیڑھی کے کھیل‘ کی طرح حُرمتِ سود کے مسئلے کو ۹۹سے صفر پر لے آیاتھا۔
وزیر اعظم نے سویڈن میں اہانتِ قرآنِ کریم کے سانحے پر قومی جذبات کے اظہار کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کرایا اور جمعۃ المبارک کو ملک بھر میں احتجاج کی اپیل کی، جس کی تحسین کرتے ہیں ۔مگر یہ بھی گزارش کرتے ہیں کہ احتجاج اُن لوگوں کا حق ہے جو ایوانِ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں، حکومتِ وقت اور حکمرانوں کی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ مؤثر اقدامات کریں ، او آئی سی کے ساتھ مل کراقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ،سلامتی کونسل اور حقوقِ انسانی کے عالمی اداروں میں یہ مسئلہ اٹھائیں اور عالمی سطح پراس اصول پر مکالمے کا آغاز کریں کہ اس طرح کی مذموم کارروائیاں امنِ عالَم کے لیے خطرہ ہیں، اور انسانیت کے درمیان نفرت کا باعث ہیں ۔ صرف اظہارِ تاسّف اور مذمتی بیانات سے ان کا سدِّباب یا مداوا نہیں ہوسکتا۔ اسے عالمی سطح پر دہشت گردی کی طرح سنگین اور قابلِ تعزیرجرم قرار دیا جائے اور ایسی عالمی عدالتوں میں مسلمانوں کے معتمد نمایندوں کو بھی شامل کیا جائے۔
ہماری شدید خواہش تو ہے کہ عالمِ انسانیت کا ہر فرد ہمارے دینی مقدّسات کا احترام کرے، لیکن غیر مسلموں سے ہمارایہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کے دینی مقدّسات کا لازماًاحترام کریں،کیونکہ احترام تب ہوتا ہے جب دل میں کسی کی تعظیم ہو۔ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا ہے:’’اور جس نے اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کی تو بے شک یہی شعار دلوں کا تقویٰ ہے ،(الحج۲۲:۳۲)‘‘۔ البتہ ہمارا یہ مطالبہ ضرور ہے اور بجا ہے کہ وہ اسلام کے دینی مقدسات کی توہین نہ کریں اور خود اسلام بھی دوسرے مذاہب کو یہ ضمانت دیتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’مسلمانو!یہ لوگ اللہ کے سوا جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں ،انھیں گالی نہ دو ،ورنہ وہ (ردِّعمل میں)سرکشی اور جہالت کی بنا پر اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے ،(الانعام۶:۱۰۶)‘‘۔
ہمارے ہاں لبرل اور سیکولر عناصر چند مثالیں ڈھونڈ کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گستاخوں کو معاف کردیا تھا‘‘۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے حق کو معاف کرنا صاحبِ حق کا اختیار ہوتا ہے ، کسی دوسرے کو یہ اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔ نیز فتح مکہ کے موقعے پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام مخالفین کے لیے عفوِ عام (General Amnesty) کا اعلان کیا تھا ،اُس وقت بھی آپؐ نے گستاخِ نبوت ابن خطل کو معاف نہیں کیا تھا اور اُسے جہنم رسید کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ اسی طرح جب ایک نابینا صحابی نے اپنی بیوی کو قتل کردیا اور اُسے بارگاہِ نبوت میں طلب کیا گیا،تو انھوں نے کہا تھا:یارسولؐ اللہ! مجھے اپنی اس بیوی سے بے انتہا محبت تھی ،اس سے میرے پیارے بچے ہیں، مگر یہ آپؐ کی شان میں گستاخی کرتی تھی، اس لیے میں نے اس کے پیٹ میں خنجر گھونپ کر اسے جہنم رسید کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اس اقدام کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی نہیں کی۔
یہ بھی گزارش ہے کہ کئی لوگ شانِ نبوت میں یا دینی مقدسات کی اہانت پر مبنی آڈیو وڈیوکلپس کو بڑے پیمانے پر پھیلاتے اور شیئر کرتے رہتے ہیں۔ اَزراہِ کرم یہ ہرگز نہ کریں۔ ایک ہی جیسے مناظر بار بار دیکھنے اور دکھانے سے اُن کی سنگینی میں کمی واقع ہوتی ہے اور مسلمانوں میں بے حسی پیدا ہوتی ہے، جس کے بارے میں معلوم ہو اُسے قانون کے حوالے کرنا چاہیے۔پارلیمنٹ پر لازم ہے کہ وہ کم از کم اپنے ملک کے اندر دینی مقدسات کی اہانت پر مشتمل مواد کو فلٹر کرنے کے لیے کوئی نظام وضع کرے اور ایسے لوگوں کے خلاف سخت اور سریع العمل کارروائی کے لیے سائبرکرائم میں نئی دفعات کا اضافہ کرے۔ نیز پارلیمنٹ دینی مقدّسات کی حُرمت کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات اُٹھائے۔
ہم دینی مقدسات کی توہین کے حوالے سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی حمایت ہرگز نہیں کریں گے ، بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کریں گے ، کیونکہ اس کے منفی نتائج بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم، جب ہمارا قانون صرف قانون کی کتابوں کی زینت بنا رہے گااور ہمارے نظامِ عدل میں پورے دینی اور ایمانی عزم کے ساتھ نافذ نہیں ہوگا، تو اللہ تعالیٰ ،رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کی تقدیس کے حوالے سے ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اشخاص ایسے ہوسکتے ہیں جو رَدعمل میں انتہائی اقدام کر بیٹھیں۔ ایسے اقدام کا سدِّباب صرف قانون کے شفاف اور سریع العمل نفاذ سے ہوسکتا ہے ،اس کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی تاسیس سے بھی تقریباً ۱۵ سال قبل اقامت ِ دین کے نصب العین اور دعوت دین کے کام کا آغاز کر دیا تھا۔ مرکزی مجلس ِ شوریٰ نے یہ طے کیا ہے کہ جماعت ِ اسلامی کی دعوت زیادہ زور شور سے پیش کرنے، عوام میں اسے وسیع پیمانے پر روشناس کرانے، اور خود جماعت میں نئے ولولہ اور یکسوئی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنے کا عزم بیدار کرنے کے لیے خصوصی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے۔
گذشتہ برسوں میں ہم کن کن مراحل سے گزرے؟ کیا کیا رکاوٹیں راستے میں پیش آئیں؟ ہم نے کیا کیا پیش قدمیاں کیں؟ یہ ایک طویل داستان ہے۔ اس داستان کی تاریخ بعض احباب نے لفظوں میں لکھی ہے، اور بہت کچھ عمل کے ذریعے لکھی جا رہی ہے۔ ہم ماضی و حال کی روشنی میں، یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آج کس مرحلے میں ہیں، ہمیں کیا چیلنج درپیش ہیں، ان کا مقابلہ کس طرح کر رہے ہیں، اور آیندہ ہمیں کیا کچھ کرنا ہے؟
آج سے ایک صدی پہلے بھی تقریباً ساری مسلم دُنیا مغربی تہذیب اور مغربی سامراج کے تسلط میں تھی۔ اس کا اکثر حصہ، برصغیر پاک و ہند سمیت، براہِ راست برطانوی سامراج کی مضبوط گرفت میں تھا۔ جس میں اسلام کا نام بھی تھا، مذہبی مراسم بھی ادا کیے جاتے تھے، دینی دعوت و تعلیم بھی جاری تھی، لیکن دین کے اس تصور کا شعور خال خال لوگوں میںپایا جاتا تھا کہ اس کا قیام ہی ہرمسلمان کا انفرادی طور پر، اور اُمت ِ مسلمہ کا بحیثیت مجموعی، مقصد ِ حیات ہے۔ بحیثیت ایک جامع نظامِ زندگی کے بھی دین کا تصور اکثر لوگوں کی نظروں سے اُوجھل ہو گیا تھا۔ دین کے قیام کے لیے جدوجہد میں زندگی کے آثار بھی مفقود تھے۔ ان حالات میں پوری مسلم دُنیا مایوسی اور افسردگی کا شکار تھی۔
برصغیر کے مسلمان، آٹھ سو سال حکومت کرکے، انگریز کی غلامی میں جا چکے تھے۔ خلافت ِ عثمانیہ کا خاتمہ، تحریک ِخلافت کی ناکامی، برہمنی سامراج کی سازشیں، پہلے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اکثریتی ہندو حکومتوں کے مظالم___ ان سب عوامل کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں پر افسردگی کے بہت گہرے سائے چھائے ہوئے تھے۔
مایوسی کے اس عالَم میں کچھ علما ضرور مسلمانوں کو دین کی طرف دعوت دے رہے تھے۔ پھر علامہ محمداقبال ؒنے بھی اُمید کی ایک شمع روشن کر رکھی تھی۔ لیکن ان سب کا کام، زیادہ تر صرف پیغام تک محدود تھا۔ ان میں سے کوئی بھی آگے بڑھ کر، اقامت ِ دین کا پرچم اُٹھا کر، منظم جدوجہد کی راہ پر قدم بڑھانے کے لیے حوصلہ، ہمت اور آمادگی اپنے اندر نہ پاتا تھا۔
ان حالات میں، خالص دین کی بنیاد پر مسلمانوں کی صف بندی کرنے کے لیے عملی تحریک برپا کرنے کی سعادت مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے حصے میں آئی۔ اُنھوں نے اپنی تحریروں سے نہ صرف مغربی تہذیب کا طلسم توڑا، اسلام کا تصور بحیثیت ایک جامع نظامِ زندگی کے اُجاگر کیا، بلکہ اسلام میں جہاد کی حقیقی روح و تقاضوں اور اس کی اہمیت کا احیاء بھی کیا۔
مولانامودودی نے مسلمانوں کو پکارا کہ جن حالات سے ان کو سابقہ درپیش ہے: ان حالات میں اقامت ِ دین فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہوتا ہے، اور ہر وہ شخص قابلِ مواخذہ ہوگا جو قدرت و استطاعت کے باوجود اقامت دین اور حفاظت ِ دین کے لیے جان لڑانے سے گریز کرے گا۔ احکامِ کفر کے مقابلے میں احکامِ الٰہی کے اجرا کی کوشش بہرحال اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا، اس کے لیے جماعت کا وجود اور جو جماعت موجود ہو اس کا التزام، ضروری ہے۔ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جولائی۱۹۵۷ء)
اُنھوں نے کھول کھول کر یہ بات سمجھائی کہ اقامت ِ دین کا مقصد ہی وہ اصل مقصد ہے جس کی خاطر انبیا علیہم السلام بھیجے گئے، اوریہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کامقصد تھا:
یہی اُمت ِ مسلمہ کا اصل مقصد اور فریضہ ہے۔ اُمت کے ہر فرد پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ فریضۂ اقامت ِ دین کی اس منظم جدوجہد میں اپنا حصہ ادا کرے، اور اس کے لیے اپنے آپ کو ایک جماعتی نظم کے سپرد کر دے:
اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ بھی یہی ہے کہ ایک مومن اپنی پوری زندگی اور تمام وسائل اور ساری صلاحیتیں، اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اس جہادِزندگانی میں لگا دے۔
یہی وہ دو باتیں تھیں، جنھوںنے بے شمارسعید رُوحوں کو مضطرب کر دیا، اُنھوں نے مولانامودودی کی پکار پر لبیک کہا، اور ۲۶؍اگست۱۹۴۱ء کو لاہور میں جماعت ِ اسلامی قائم ہو گئی۔
برسوں پہلے اگرچہ چند ہی رفقائے کاراکٹھے ہوئے، وہ بھی اکثر متوسط درجہ کے بے وسائل نوجوان، لیکن مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سفر اس یقین کے ساتھ شروع کیا کہ ایک وقت آئے گا کہ سرمایہ داری نظام کو واشنگٹن اور لندن میں اور اشتراکیت کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔ اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی یہ تحریک بظاہر بے سروسامانی کی حالت میں شروع کی گئی۔ لیکن اس کا اصل سرمایہ چند صالح افراد کا اخلاص اور یہ ایمان تھاکہ ’حق بذاتِ خود ایک قوت ہے‘۔ ان کو یقین تھا کہ جب اہلِ حق اخلاص کے ساتھ راہِ حق میں نکلتے ہیں تو اللہ کی نصرت آتی ہے، اور فیصلہ کرنے والی ذات اللہ رب العالمین ہے۔ اگر دین کی راہ پر، قول و فعل کی صداقت کے ساتھ چلنے والے افراد کا ایک ایسا گروہ وجود میں آ جائے، جو اس کے راستے میں مخلصانہ جدوجہد کرکے ثابت کر دے کہ وہ زمین کی وراثت کی صلاحیت رکھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ دُنیا کی زمامِ کار مفسدین سے اس کی طرف منتقل کردیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان گزشتہ برسوں میںمولانا مودودیؒ کی دعوت پر جمع ہونے والوں کا قافلۂ حق کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے۔ اگست ۱۹۴۱ء کے اجتماع میں اگر ۷۵؍افراد تھے، اور اب لاکھوں افراد جماعت ِ اسلامی سے وابستہ ہیں۔
جماعت کے اجتماع ارکان میں طے کردہ، انتخابات کا طریقہ ہی، وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنا اصل مقصد’زمامِ کار کی تبدیلی یا انقلابِ امامت‘حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ۱۹۴۹ء کی قرار دادِ مقاصد، ۱۹۵۶ اور ۱۹۷۳ء کے دستور، بلاشبہہ حد درجہ بنیادی اقدامات ہیں، لیکن ان کے باوجودمطلوبہ نتائج نمودار نہیں ہوئے، اور اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آیا۔تاہم، ان اقدامات، جمہوری ذرائع سے اور کشت و خون کے بغیر، پاکستان کو کس طرح اسلامی ریاست کے راستے سے منسوب کر دیا، اور اس راستہ پر کتنا آگے بڑھا دیا؟ اس کا اندازہ ترکی، مصر، شام،سوڈان، عراق اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو دیکھ کر آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
بلاشبہہ معاشرے میںبگاڑ بڑھا ہے، لیکن ذرا تصور کیجیے کہ ہماری اصلاح و تعمیر اور دعوت کی سرگرمیوں کے بغیر یہ معاشرہ کہاں پہنچ چکا ہوتا، اس کا اندازہ کرنا کچھ دشوار نہیں۔ دعوت ِحق کے نتیجے میں لاکھوں افراد نہ صرف اپنی زندگیاں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق گزارنے میں لگے ہوئے ہیں، بلکہ عملاً معاشرے کو، دعوت کے صبر آزما کام کے ذریعے، اسلامی بنانے کے لیے اپنا جان و مال لگا رہے ہیں۔ آج آپ کسی شعبۂ زندگی میں چلے جائیں، آپ کو جماعت ِ اسلامی کی دعوت کے اثرات نظر آجائیں گے۔ وطن عزیز ہی نہیں بلکہ آپ دُنیا کے کسی حصے میں جائیں، وہاں اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں اقامت ِ دین اور تحریک اسلامی کے حوالے سے جماعت ِ اسلامی کے وابستگان کو متحرک پائیں گے۔
یہ جو کچھ حاصل ہوا ہے، محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوا ہے۔ اس پر ہم اس کا جتنا شکر ادا کریں، وہ کم ہے۔ جو کچھ نہ ہو سکا، اورجتنا ہم منزل سے دور ہیں، وہ سراسر ہماری کمزوریوں اور خامیوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر جس چیز کا شکر ہم پر واجب ہے اور جو چیز ، یہ ساری دُنیاوی کامیابیاں نہ بھی حاصل ہوں تو بھی، ہماری اصل متاع اور حاصل جدوجہد ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میںجو بنیادی مقاصد، ہم نے اپنے لیے متعین کیے تھے، الحمدللہ، ہم انھی مقاصد کی طرف چل رہے ہیں۔ اور اسی طریقِ کار کے مطابق چل رہے ہیں، جو ہم نے قرآن و سنت کی روشنی میں اخذ کیا تھا۔
انفرادی لغزشوں اور غلط فیصلوں سے انسانوں کی کوئی اجتماعیت خالی نہیں ہے۔ حالات میں تغیرات کے مطابق پالیسی، نظام، تدابیر، وسائل اور تکنیک میں تبدیلیاں بھی کی جاتی رہی ہیں، اور ۱۹۴۷ء ہی سے کی جاتی رہی ہیں، لیکن یہ تبدیلیاں انھی اصولوں کی روشنی میں کی جاتی رہی ہیں، جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، جن کی وضاحت خود داعی تحریک اسلامی نے فروری۱۹۵۷ء میں ماچھی گو ٹھ (ضلع رحیم یار خاں) میں ارکانِ کے اجتماع کے دوران کی تھی، اور جن کی بھر پور تائید ارکانِ جماعت نے کر دی تھی۔ قرآن و سنت کے منصوص احکام کو تبدیل کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں، اور جو جماعت اقامت ِ دین کی جدوجہد کے لیے اُٹھے اس کے لیے تو یہ لازم ہے کہ وہ اسی طریقِ کار سے اپنی منزل کی طرف بڑھے، جو طریقِ کار رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیاتھا۔ آپؐ کی طے کردہ حدود کے اندر ہی رہے، جن چیزوں سے آپؐ نے روکا ہے اُن سے رکی رہے، اور جن وسعتوں اور جس تنوع (diversity)کو آپؐ نے اختیار کیا یا اجازت دی، ان سے اجتناب برتنے اور تنگی اختیار کرنے سے احتراز کرے۔
ہمیں اس بات میں کوئی شبہہ نہیں، اور یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے، کہ ہم آج وہی الفاظ بلاتامل دُہرا سکتے ہیں جو الفاظ مولانا مودودی نے ۱۹۵۷ء میں ارشاد فرمائے تھے۔ یہ الفاظ جماعت کے ان چند لوگوں کو مخاطب کرکے کہے گئے تھے، جو خود مولاناؒ کی تحریروں سے مولاناؒ کے خلاف یہ مقدمہ قائم کر رہے تھے کہ ’’۱۹۴۷ء کے بعد جماعت نے اُن کی قیادت میں پالیسی اور تدابیر میں جو تبدیلیاں کی ہیں، اور جو تیز تر عوامی اور سیاسی جدوجہد شروع کر دی ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے اس اصل طریقِ کار سے ہٹ گئی ہے جس کی خود اُنھوں نے تعلیم دی تھی۔ دینی احکام میں حکمت ِ عملی کے نام پر تبدیلی کر دی گئی ہے، ترمیم و تحریف کا اختیار حاصل کر لیا گیا ہے، جماعت اسلامی کا اخلاقی و دینی معیار گر گیاہے‘‘ وغیرہ۔
اس سب کے جواب میں مولانا مودودی نے فرمایا:انفرادی لغزشوں اور کوتاہیوں سے تو بہرحال کوئی جماعت بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اجتماعی حیثیت سے جماعتِ اسلامی ان اصولوں کی پوری پابندی کرتی رہی ہے [جو عقیدہ، نصب العین، شرائط رکنیت اور مستقل طریقِ کار کے تحت دستور میں درج کیے گئے ہیں]۔ یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ بے اصولی کے وہ انتہائی صبرآزما طوفان بھی، جن کے درمیان اِس ملک میں برسوں کام کرنا پڑا ہے، اسے ایک بے اصول جماعت بنا دینے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں___ جماعتِ اِسلامی ابتدا سے ایک سوچے سمجھے نقشے پر کام کر رہی ہے۔ اس نقشے کی تفصیلات تو ہمارے ذرائع ووسائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور پھیلتی رہی ہیں، لیکن اس کے بنیادی خطوط وہی رہے ہیں جو اوّل روز سے اِس کام میں ہمارے پیش نظر تھے۔ (سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، جولائی۱۹۷۳ء، ص۵۹،۷۲،۷۳)
جماعت ِ اسلامی اگر اپنے نصب العین اور بنیادی اصولوں پر قائم رہی ہے، تو یہ سراسر اللہ تعالیٰ کے فضل، قرآن و سنت کی طرف رجوع اور اُن کے التزام کی سعی، اور مولانا مودودی کی بصیرت سے بھرپور رہنمائی کا نتیجہ ہے۔
تحریک اسلامی کا لائحۂ عمل اور طریقِ کار
جماعت ِاسلامی نے جو طریقِ کار کتاب اللہ اور سنت ِ نبویؐ سے اخذ کیا وہ چار بنیادی اصولوں اور حدود پر مبنی تھا:
صداقت و دیانت کے منافی ذرائع کے استعمال سے اجتناب، اصلاح و انقلاب کے لیے جمہوری و آئینی طریقوں سے کام کرنا، رائے عامہ کے ذریعے مطلوبہ تغیرات بروئے کار لانا، کھلم کھلا اور علانیہ کام کرنا _غور کیا جائے تو یہ سب اصول درج بالا چار اصولوں ہی کا منطقی نتیجہ ہیں، انھی سے اخذ کردہ ہیں۔
اس کام کے لیے معقول اور فطری طریقہ یہی ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والا سب سے پہلے اپنی ذات سے ابتدا کرے۔ وہ اپنی زندگی میں تضادات کو دور کرنے، اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ دینے، اور خود اپنی دعوت کا نمونہ بن جانے کی مسلسل کوشش میں لگ جائے۔ ساتھ ہی وہ اپنے گھر اور اہل و عیال، اعزہ و اقربا اور اپنے ہمسایوں تک یہ دعوت پہنچائے۔
اس کے ساتھ اس کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ پوری قوم کو اور حسب ِ استطاعت عالم ِ انسانیت کو اللہ کی طرف دعوت دے، اور اصلاحِ معاشرہ، تبدیلیٔ معاشرہ، تبدیلیٔ حکومت اور انقلابِ قیادت کے لیے بھی مقدور بھر کام کرے۔ ان میں سے کوئی کام کسی دوسرے کام کی خاطر نہ ملتوی کیا جاسکتا ہے، نہ مؤخر کیا جا سکتا ہے، اور نہ اسے ترک کیا جا سکتا ہے۔ ہاں، کسی پہلو میں کمی بیشی اور تقسیمِ کار ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس کا فرض ہے کہ نظم جماعت اس سے جو کام لینا چاہے، جہاں اور جس ذمہ داری پر لگانا چاہے، وہ پوری وفاداری سے اپنی صلاحیتیں اس کے سپرد کردے۔
نظمِ جماعت کے لیے، ابتدا سے قرآن و سنت کی روشنی میں جو اصول وضع کیے گئے، ان میں سمع و طاعت فی المعروف، مشاورت، باہمی الفت و محبت اور احتساب اہم ترین اصولوں کے طور پر شامل تھے۔
ان اصولوں اور اس نقشۂ کار کی پابندی جس طرح روزِ اول سے کی جا رہی ہے، آج بھی کرنا ضروری ہے بلکہ آج زیادہ ضروری ہے۔ آج ہمیں سنگین تر چیلنجوں سے سابقہ درپیش ہے۔ ہماری تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب معاشرے کا بگاڑ بھی بڑھ گیا ہے۔ دُنیا ایک آنگن بن گئی ہے، اور تحریک اسلامی ایک عالم گیر حقیقت۔ اب اس کے دشمن اپنے ملک میں ہی نہیں ہیں، بلکہ عالم گیر سامراجی قوتیں بھی اس کے درپے ہیں۔ نقل و حمل کے جدید وسائل اور ذرائع ابلاغ نے غالب لادینی تہذیب کو ایک ایک گھر میں گھسنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ ان حالات میں جماعت کا کوئی ادنیٰ کارکن بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ تحریک اپنے بنیادی اصولوں اور نقشۂ کار میں کچھ ترک کرکے یا کچھ لچک پیدا کرکے اپنے نصب العین کی طرف پیش قدمی کر سکتی ہے۔
جماعت اسلامی نے انھی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے، آج کے اس مرحلے میں دعوت کے کام کو اپنے منصوبوں میں اوّلین ترجیح دی ہے، اور یہی ہدایت سارے کارکنوں کو دی ہے۔ صرف اولین ترجیح دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا ہے، بلکہ دعوت الیٰ اللہ کے بنیادی موضوعات واضح کیے ہیں، طریقوں کا تعین کیا گیا ہے، گھر گھر کو ہدف بنا کر دعوت پہنچانے کا پابند کیا گیا ہے، وفود بناکر اور دعوتی کیمپ لگا کر دعوت پہنچانے کا پروگرام دیا گیا ہے۔
ہر کارکن کو ایک محنت کار کی طرح دو افراد مسلسل زیرِ تربیت رکھنے اور اہل خانہ کی تربیت کے لیے ان کا اجتماع کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اگر ہم اپنے گھروں میں ایک اسلامی ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو نہ صرف افراد خانہ ایک دوسرے کے پشتی بان بنیں گے، بلکہ وہ اپنے ماحول میں بھی ایک خوش گوار تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔
عملی طور پر، دعوتی لٹریچر کے ہزاروں سیٹ نہایت ارزاں قیمت پر کارکنوں کو فراہم کیے جاتے ہیں، اور عمومی ابلاغ کے لیے جدید ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اپنی تربیت اور اقامتِ صلوٰۃ اور نماز باجماعت کی پابندی، اور محلوں میں توسیع دعوت کے مقاصد کے لیے فجر کی نماز میں حاضری، اور مساجد کے گرد احباب کے حلقے بنانے کا پروگرام دیا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کارکن اس پورے منصوبے کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھیں، اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا بھرپور عزم ایک دفعہ پھر تازہ کریں۔
عوام میں اثر و نفوذ کی تیز تر کوششوں کے باوجود، تربیت کے ضمن میں معمول کے سارے پروگرام اسی طرح جاری ہیں، جس طرح وقتاً فوقتاً وضع کیے جاتے رہے ہیں۔ مرکزی تربیت گاہ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دائرہ تعلیم و تربیت کا آغاز کرکے ایک ایسی تربیت گاہ کے اس خواب کو بھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو دُنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بہترین کارکن تیارکرے۔ لیکن تربیت کی یہ ساری کوششیں کافی نہیں ہیں۔ ان کو تیز تر اور وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔
سالانہ منصوبۂ کار میں جو بنیادی رہنما اصول طے کیے جاتے ہیں اور جو طریقے تجویز کیے جاتے ہیں، کارکنوں اور جماعتوں کو پورے اہتمام سے ان کا التزام کرنا چاہیے۔ خصوصاً ہر کارکن کو ’اپنی تربیت آپ‘ کے اصول پر، سب سے بڑھ کر اپنی سیرت و کردار کی تعمیر کی کوشش میں لگا رہنا چاہیے۔ تربیت یافتہ کارکن، ہماری تحریک میں مرکز و محور اور ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتے ہیں۔ تحریک کے لیے موجودہ مرحلے میں عوام کو سنبھالنے کے لیے باصلاحیت، تربیت یافتہ کارکنوں کی شدید ضرورت ہے۔
یہاں دعوت و تربیت کے ضمن میں یہ اعتراف ضروری ہے کہ ہدایات اور فکر انگیز منصوبوں کے باوجود عملی کارکردگی میں بہت کوتاہیاں ہیں۔ مگر انسانوں میں عزائم، منصوبوں اور ہدایات اور ان پر عمل اور نتائج کے درمیان ہمیشہ فرق ہو اکرتا ہے۔ انسان عزم کا کچا ہے۔ یہ بات خامیوں، کوتاہیوں اور سہل انگاریوں کے لیے وجۂ جواز ہرگز نہیں بنائی جا سکتی۔ لیکن اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ یہ فرق ہمیشہ رہا ہے: تعلیم ِ بالغاں ہو، اعلیٰ درجہ کی تربیت گاہ کا قیام ہو، نئے نظامِ تعلیم کے مطابق درد مندی، ہمدردی اور خدمت کے جذبے سے قائم اسکول اور اداروں کا قیام ہو، علمی و تحقیقی کام ہو، معیارِ ارکان کا معاملہ ہو، حلقۂ حامیان کا وہ پروگرام ہو جو ۱۹۵۱ء میں پنجاب کے پہلے انتخابات کے بعد وضع کیا گیا اور جسے ماچھی گوٹھ میں منظور کردہ قرار داد کے ساتھ منسلک کیا گیا___ عزائم اور عمل کا یہ فرق ہر جگہ موجود رہا ہے، یہ آج بھی موجود ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود گذشتہ برسوں میں جماعت اسلامی نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اور ان شاء اللہ آیندہ بھی کرے گی۔
بعض اوقات جماعت میں ارکان اوروابستگان کے معیار کے گرنے کا مسئلہ بھی بار بار ذہنوں میں اُٹھتا ہے، اُٹھایا جاتا ہے، مگر یہ بحث بھی روزِ اول سے چلی آ رہی ہے۔ جماعت کی ابتدائی رودادیں ارکانِ جماعت کی حالت پر شکایات سے بھری ہوئی ہیں۔ ۱۹۵۶ء میں جائزہ کمیٹی نے بھی کچھ ایسی ہی تصویر کھینچی تھی _کہ مولانا مودودی کو یہ کہنا پڑا تھا: ’’اگر ساری جماعت بحیثیت مجموعی بگڑ گئی ہے تو اسے توڑ دیجیے‘‘۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۷۴) اورپھر یہ بھی فرمایا: ’’پوری جماعت کے متعلق___ ہر پہلو سے کامل اطمینان کی رپورٹ شاید آپ کبھی نہ پا سکیں گے‘‘۔ اس ضمن میں اُن کی یہ بات بھی اہم ہے کہ ’’میرے علم میں ایسا کوئی طریقِ تربیت اب تک نہیں آیا ہے، جو معیارِ مطلوب کے آدمی تیار کرنے کی سو فی صدی ضمانت دیتا ہو۔ ہر جائزہ آپ کو یہی رپورٹ دے گا کہ آپ کے درمیان ایک ناقابلِ اطمینان عنصر موجود ہے‘‘۔ (ایضاً،ص۱۷۷)
لیکن ہم پھر بھی یہ کہیں گے کہ یہ باتیں جواز، تاویل اور غفلت کی ہرگز بنیاد نہیں بننا چاہییں۔ ہاں، مایوسی سے بچنے اور رومانوی دُنیا سے نکل کر حقیقت پسند بننے کے لیے ان کا ادراک ناگزیر ہے۔
جماعت کی ترقی کا راز جہاں اپنے نصب العین، بنیادی اصولوں اور نقشۂ کار کی پابندی میں مضمر ہے، وہاں یہ بات ثبات و تغیر کے ان حکیمانہ اصولوں پر کاربند رہنے کا نتیجہ بھی ہے، جن کی تعلیم قرآن و سنت میں دی گئی ہے، اور جن کی وضاحت مولانا مودودی نے ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں بڑی تفصیل سے فرمائی ہے۔ آج کے مرحلے میں بھی جماعت اگر پیش قدمی کر سکتی ہے تو اسی بصیرت، اور ثبات و تغیر کی اسی حکمت ِ عملی کو اختیار کرکے کر سکتی ہے جو مولانا مودودی نے اختیار کی۔ جو جماعتیں یہ نہ سمجھ سکیں کہ کیا بدل سکتا ہے اور کیا نہیں بدل سکتا، جو ہر چیز بدلنے کو تیار ہوں یا پھر ہرتبدیلی سے بدکتی ہوں، وہ اپنے مقصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہیں، اوراُن کو زمانہ ایک بھولی بسری داستان بنا کر چھوڑ دیتا ہے:
ثبات و تغیر کے ان اصولوں کا اطلاق ہم گذشتہ برسوں میں جس طرح کر تے رہے ہیں اس کا ایک مختصر جائزہ فائدہ سےخالی نہ ہوگا۔
مولانا مودودی نے ۱۹؍فروری۱۹۴۸ء کو پنجاب یونی ورسٹی لا کالج، لاہو رمیں تقریر کرتے ہوئے چار نکاتی مطالبۂ نظامِ اسلامی پیش کیا، اور اسی طرح اگست۱۹۵۲ء میں مطالبۂ دستورِ اسلامی پیش کیا۔ ان مطالبات کو منوانے کے لیے جماعت نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے عوام سے جذباتی اپیل بھی کی، اور عوامی جدوجہد بھی شروع کر دی: ’’یوں ہماری تحریک نے ایک نئے دور میں قدم رکھا‘‘ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۴۰)۔ بعد میں مرکزی مجلسِ شوریٰ نے، اور آٹھ سال بعد ارکان کے اجتماعِ عام نے اس دُور رس تبدیلی کی توثیق کر دی۔
مولانا مودودی کے الفاظ میں: ’’ہم سخت نادان ہوتے اگر اس موقعے کو ہاتھ سے کھودیتے اور اپنے آپ کو قبل تقسیم ہی کی پوزیشن میں سمجھے بیٹھے رہتے‘‘(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۲۸)۔ ’’بلکہ اگر ہم ان حالات میں قبل تقسیم کے طریقے ہی پر کام کرتے رہتے تو اپنے مقصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتے‘‘۔(ایضاً، ص۱۲۰،۱۲۱)
اس طرح ہم نے اپنے اپیل کے طریقے میں تبدیلی کی۔ ہم نے اپنے کام کے ڈھنگ میں تبدیلی کی۔ پہلے ہم دعوت کا کام چند متعین طریقوں سے بہت محدود پیمانے پر کر رہے تھے۔ اب ہم نے مطالبۂ نظامِ اسلامی کے وسیلے سے لاکھوں آدمیوں تک دعوت پہنچانے، اور ہزاروں کو اپنی تحریک کے ساتھ وابستہ کرنے کا کام شروع کر دیا۔ ہم نے یہ سمجھ لیا کہ مستحکم توسیع تو ’’دھیمی رفتار سے محدود پیمانے پر ہی ہو سکتی ہے‘‘۔اور اس وقت تک کام اسی دھیمی رفتار سے چل رہا تھا۔ اس مستحکم مگر سست رفتار توسیع سے نئے حالات کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ اوریہ بات بھی صحیح نہ ہوتی کہ ’’بڑے پیمانے پر توسیع کے جو مواقع ہمیں حاصل ہوئے تھے ان کو ہم چھوڑ دیتے اور بجائے خود اس توسیع کے جو فوائد ہیں ان کو نظر انداز کر دیتے‘‘۔ اس طرح ہم نے اپنی پیش قدمی کی رفتار بھی تبدیل کی، اور ’’کش مکش کے تدریجی ارتقاء ہی کے [ساتھ بڑھتے بڑھتے] ہم نے دفعتاً جدوجہد کے مرحلے میں قدم رکھ دیا___ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دستورِ اسلامی کے مطالبہ پر کش مکش کا آغاز کر دیا‘‘۔ (ایضاً، ص۱۴۳-۱۴۶)
جب عوامی جدوجہد کےمیدان میں قدم رکھا تو ریزولیشن بھی پاس ہوئے، جلوس بھی نکلے، زندہ باد کے نعرے بھی لگے، جھنڈے بھی بنے، استقبالیے بھی دیے گئے، اور یوم شوکت ِ اسلام بھی منایا گیا۔ یہ سب کچھ مولانا مودودیؒ کی زیرِ قیادت ہوا، حالانکہ خود اُن کی یہ تحریر موجود تھی کہ ریزولیشن، جلوس، نعرے وغیرہ اس تحریک کے لیے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن وہ فقیہ تھے، لکیر کے فقیر نہ تھے۔
ان میں سے کوئی بھی تبدیلی نہ تو اصول کی تبدیلی تھی، اورنہ بنیادی تبدیلی۔ لیکن بعض لوگ عمل درآمد کی ہر نئی شکل کو دیکھ کر مضطرب ہو جاتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اصول بدل گئے اور جماعت اپنی راہ سے ہٹ گئی۔ ان کو بتایا گیا: ’’جو شخص حالات اور مواقع اور ذرائع کی تبدیلی کے ساتھ ان اصولوں پر عمل درآمد کی شکلیں نہ بدل سکے، اس کی مثال اسی عطائی طبیب کی سی ہے، جو کسی حکیم کی بیاض کا ایک نسخہ لے کر بیٹھ جائے اور آنکھیں بند کرکے تمام مریضوں پر اسے جوں کا توں استعمال کرتا چلا جائے‘‘۔(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۷۷)
آج بھی پبلک ریلیاں، بڑے بڑے جلوس، سیاسی و انتخابی اتحاد، نوجوانوں کی تنظیمات، وغیرہ___ یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔یہ تاریخ کا تسلسل ہے جو جاری ہے، اور جاری رہے گا۔ ۱۹۴۷ء کےبعد بھی تبدیلیاں، نئی تدابیر، اور ایک ہی اصول کےعمل کی بدلتی ہوئی شکلیں دیکھ کر کچھ لوگ مضطرب ہو جایا کرتے تھے، اور آج بھی ایسا ہوتا ہے۔ ان احباب کو نہ صرف ثبات و تغیر کے درج بالا وہ چھ اصول سامنے رکھنا چاہییں، جن کو مولانا مودودیؒ نے بیان فرمایا، بلکہ اُن کے یہ الفاظ بھی یاد رکھنا چاہییں کہ ’’تبدیلی کے معنی یہ نہیں کہ پہلے طریقے کو ہم نے بالکل ترک کر کے صرف اس دوسرے طریقے ہی پر اعتماد کر لیا۔ اس توسیعی کوشش کے ساتھ ہم اپنے سابقہ طریقے کے مطابق استحکام کی سعی بھی کرتے رہے ہیں اور اس کی اہمیت و ضرورت ہماری نگاہوں میں علیٰ حالہٖ قائم ہے‘‘۔(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۴۴)
آج کے مرحلے میں ہماری تحریک کو جو بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں، جن بدلتے ہوئے حالات کا سامنا ہے، وہ ہماری بنیادی فکر کا منطقی نتیجہ ہیں۔ کیونکہ ہم آئینی و جمہوری طریقوں، رائے عامہ کے تغیر، اور انتخابات کے ذریعے مطلوبہ انقلاب لانے کے پابند ہیں، اس لیے عامۃ المسلمین کو اپنے نصب العین کی حمایت میں کھڑا کر دینا ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ دُنیا میں، اور خود ہمارے ملک میں، اصل غلبہ مغرب کی لادینی تہذیب اور استعماری قوتوں کو حاصل ہے۔ اس لیے ہمیں اسلامی تحریکات کے خلاف عالمی طاقتوں کے منصوبوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہے۔ یہ ہمارے لیے دوسرا بڑا چیلنج ہے۔
ان دونوں باتوں کو مولانا مودودیؒ نے اگست ۱۹۴۱ء میں تحریک کے آغاز ہی میں بڑے خوب صورت انداز میں یوں واضح کر دیا تھا:ہماری تعمیری کوششیں بے سود ہو جائیں گی، اگر ساتھ ساتھ ان کی پُشت پر ایک مضبوط رائے عام بھی تیار نہ ہوتی رہے۔ جس طرح تعمیری کاموں کے بغیر کوئی اسلامی انقلاب رُونما نہیں ہو سکتا، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ عامۃ الناس میں اسلام کی دعوت پھیلائے بغیر ایسا کوئی انقلاب برپا ہو سکے۔ ہمیں نہ صرف [اپنے ملک] میں، بلکہ حتی الامکان دُنیا کے گوشے گوشے میں اپنی آواز پہنچانی ہوگی۔ کیونکہ آج کسی ایک ملک میں کوئی حقیقی انقلاب واقع نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وسیع پیمانے پر بین الاقوامی رائے عام اس کی تائید میں تیار نہ کر لی جائے۔ اربوں انسانوں کو ہمارے پیغام سے واقف ہونا چاہیے، کرورڑوں انسانوں کو کم از کم اس حدتک اس سے متاثر ہوجانا چاہیے کہ وہ اس چیز کو حق مان لیں جس کے لیے ہم اُٹھ رہے ہیں، لاکھوں انسانوں کو ہماری پُشت پر اخلاقی اور عملی تائید کے لیے آمادہ ہونا چاہیے، اور ایک کثیر تعداد ایسے سرفروشوں کی تیار ہونی چاہیے جو بلند ترین اخلاق کے حامل ہوں اور اس مقصدِ عظیم کے لیے کوئی خطرہ، کوئی نقصان، کوئی مصیبت برداشت کرنےمیں تامل نہ کریں۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل، ۶۶-۶۷)
کیونکہ صرف کسی ایک ملک میں، عالمی دعوت کے بغیر، انقلاب برپا نہیں ہو سکتا، خصوصاً آج کے سیٹلائٹ کے دورمیں، جب عالمی طاقتیں اسلامی تحریکات کو ناکام بنانے کے لیے عرصے سے منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اس لیے اس مرحلے میں رفقائے جماعت کو بین الاقوامی صورتِ حال کا بھی پورا ادراک ہونا چاہیے۔
جن دنوں برصغیر ہندوپاک میں جماعت ِ اسلامی کی تحریک برپا ہو رہی تھی، اُنھی دنوں میں مصر میں اخوان المسلمون کی تحریک حسن البناشہید کی رہنمائی میں مصروفِ عمل تھی۔ اس کے مقاصد بھی وہی تھے، جو جماعت ِ اسلامی کے مقاصد تھے۔ طریقِ کار میں جزوی فرق موجود تھا، لیکن طریقِ کار کے اصول چونکہ قرآن و سنت کی رہنمائی میں طے کیے گئے تھے، اس لیے یہ کوئی بنیادی فرق نہیں تھا۔
جماعت اسلامی اور اخوان کی یہ دو تحریکیں ہی وہ تحریکیں ہیں، جن کو اس وقت دُنیا بھر کی اسلامی تحریکیں بنیادی تحریکیں یا Mother Movements قرار دیتی ہیں۔ الاستاذ المودودی اور امام حسن البنا اس دور کی اسلامی تحریکوں کے دو مُسلمّہ رہنما ہیں۔ ان تحریکوں نے مسلمانوں کی جدید پڑھی لکھی نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ کیونکہ جدید تعلیم یافتہ نسل کو ان تحریکوں کے لٹریچر میں اپنے تمام ذہنی سوالات کے جوابات مل گئے، اور انھیں یہ یقین حاصل ہو گیا کہ اسلام موجودہ دور میں نہ صرف قابلِ عمل ہے بلکہ ان تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے، جن سے جدید دور کے انسان کو سامنا ہے۔
نئی نسل کا اس طرح اسلامی تحریک کی طرف لپکنے کا سبب دیکھ کر استعماری قوتیں پریشان ہو گئیں۔ ان کی یہ پریشانی ان کے دانش وروں کی نگارشات، ان کے جرائد اور اخبارات، اور ان کی نشریات میں صاف جھلکتی ہے۔ اٹلی کے وزیر خارجہ سے مشہور جریدے نیوزویک نے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا: ’’اب، جب کہ ’معاہدہ وارسا‘ کے ممالک مغرب کے لیے خطرہ نہیں رہے، تو ’نیٹو‘ (NATO)کا فوجی معاہدہ کس کے خلاف ہے؟‘‘ انھوںنے جواب دیا: ’’ہمیں نیٹو کے ممالک کے درمیان پائی جانے والی یک جہتی کوبرقرار رکھنا ہے، تاکہ اگر مستقبل میں مسلمان ممالک یورپ کے لیے خطرہ بنیں تو ان کا مقابلہ کیا جا سکے‘‘۔
لندن کے مشہور جریدہ اکانومسٹ نے امریکا کے تین سو ارب ڈالر کے سالانہ دفاعی بجٹ پر بحث کرتے ہوئے پوچھا:’’اشتراکی روس کے انہدام کے بعد یہ دیوہیکل دفاعی بجٹ کس کے خلاف ہے؟‘‘ تو خود اسے بھی مستقبل میںمسلمانوں کا خطرہ نظرآیا ہے۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کو اس مسلم دُنیا سے کیا خطرہ ہے جو ۵۸ سے زیادہ ٹکڑیوں میں منقسم ہے، اور یہ چھوٹی ٹکڑیاں بھی آپس میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ بیش تر ٹکڑوں پر ایسی حکومتیں مسلط ہیں، جو استعماری مصلحتوں کے تابع ہیں۔ ان ممالک کے زیادہ تر وسائل مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج اور اسلامی تہذیب کی بیخ کنی پر صرف ہو رہے ہیں۔ ان کی معاشی منصوبہ بندی استعماری قوتوں کے سیاسی، معاشی، فوجی بلکہ تہذیبی مفادات کے تابع ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی دُنیا کو خطرہ موجودہ مسلم حکمرانوں سے نہیں ہے۔ انھیں خطرہ اس سے ہے کہ تمام مسلم ممالک میں ایک مضبوط توانا اسلامی تحریک پورے اعتماد اور عزم سے پیش قدمی کر رہی ہے۔ اسلامی تحریک نے قربانی کی تاریخ میں ایک لازوال باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ شوقِ شہادت اور جدبۂ جہاد کے بل بوتے پر اس نے افغانستان میں دُنیا کی بڑی جنگی قوت کو پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مغرب کی استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کر رہی ہے اور افغانستان سے اشتراکی روس کے نکلنے کے بعد امریکا کو قطعاً یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ نئے رنگ میں انھیں غلامی کی زنجیریں پہنا سکیں۔
کشمیر کے عوام نے غلامی کی صدیوں پرانی جکڑ بندیوں کو توڑکر دُنیا کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا۔ وہ خالص اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر، تھوڑے ہی عرصے میں اتنی زبردست تحریک شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ فلسطین کے مظلوموں نے، ’’حماس‘‘ کے زیرِ اہتمام، اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر، انتفاضہ کی تحریک شروع کر دی۔ وہ تنگ نظر قومیتی سیکولرزم کے جال کو توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ الجزائر، تیونس اور شمالی افریقہ کے دوسرے ممالک کی اسلامی تحریکوں نے نئی آب و تاب پیدا کی ہے۔
سب سے زیادہ اُمید افزا تبدیلی وسط ایشیا میں آئی ہے۔ ہزاروں مقفل مساجد کو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر کھول دیا۔ اشتراکی آمریت میں جکڑے مقبوضہ مدارس کو پھر سے تعلیم و تربیت کے لیے اپنے انتظام میں لینے کی بامعنی سرگرمی کی۔ وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں کا سفر کرکے آنے والوں کا مشاہدہ ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں، اور عشاء کے بعد جب بچے مسجدوں میں قرآن سیکھنے کے لیے جاتے ہیں تو تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ یہ اس علاقے کی صورتِ حال ہے جہاں دسمبر۱۹۹۱ء سے پہلے ہمیں چند ایسے مسلمان بھی بڑی مشکل سے ملتے تھے، جو روسی زبان میں ترجمہ کیاہوا ہمارا لٹریچر قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔
عالمِ اسلام میں یہ بیداری اچانک بلا سبب وجود میںنہیں آ گئی۔ اس کی پشت پر اسلامی تحریکوں کی طویل جدوجہد کارفرما ہے۔ خود اپنے معاشرے میں اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہمیں اسلامی تحریکوں کے دوش بدوش چلنا ہے۔
اپنے معاشرے میں ہمارا اصل ہدف کیا ہے؟ مولانا مودودیؒ کے ارشاد کے مطابق:
انقلابِ قیادت کی جدوجہد، یعنی ’سیاست‘ کوئی عارضہ نہ تھا، جو جماعت ِ اسلامی کو قیامِ پاکستان کے بعد کسی وقت یکایک لاحق ہو گیا ___میں بلاخوفِ تردید یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ دراصل یہی وہ امتیازی وصف ہے جو زمانۂ قریب کی تاریخ میں، جماعت ِ اسلامی کی تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممیز کرتا ہے (آیندہ لائحہ عمل، ص۸۵-۸۶) ۔ دعوت ہو یا تنظیم، تربیت ہو یا اصلاح معاشرہ ’’یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے، اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں‘‘۔ (ایضاً، ص۷۰)
آپ خود سوچیے کہ اگر یہ ہدف آئینی اور جمہوری ذرائع سے حاصل ہونا ہے،اور انتخابات کے ذریعے ہونا ہے، تو وسیع پیمانے پر رائے عام کو اپنے ساتھ لینے کے علاوہ مقصد تک پہنچنے کا راستہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
چنانچہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام کے بعد ہی وہ عوامی تحریک برپا کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی، جو اس سے پہلے مدھم اور سست مگر مستحکم توسیع کے کام کی خاطر مؤخر کی جا رہی تھی۔ اب ہمیں اس تحریک کو آگے بڑھانا ہے۔ پیچھے دیکھنے یا پلٹنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انقلاب کے لیے ہر زمانے میں ذرائع اور مواقع اور حالات کے لحاظ سے مسلسل جدوجہد کی جاتی رہی ہے۔ آج کے حالات کے لحاظ سے بھی ماضی کے ورثے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، اسی جدوجہد کو ہمیں آگے بڑھانا ہے۔
اس مقصد کے لیے ہمیں لٹریچر، تقریر، تعلیم، گفتگو، مکالمے، جلسے، جلوس، ریلی، نمائش، ویڈیو، بازار، گویا تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر کام کرنا ہے۔ عوام کو اسلامی نظام کی حمایت میں ایک ایسی منظم قوت بنا دینا ہے ’’جو دفاع اور ہجوم دونوں کا بل بوتا رکھتی ہو‘‘۔ اس مقصد کے لیے ہمیں زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل و معاملات میں دخل دینا ہوگا، اور مخالف تحریکوں اور طاقتوں کے ساتھ دلیل، ابلاغ اور رائے عامہ کے میدان میں زور آزمائی بھی کرنا ہوگی۔ اگر ہم نے ان مسائل میں دخل دینے اور مخالفین کے ساتھ زور آزمائی کرنے سے گریز کیا تو مطلوبہ تغیر کی رفتار بہت سست رہے گی۔
یہ عوامی تحریک خود ایک دعوتی کام ہے۔ بعض لوگ دعوت کا کام صرف وہ شمار کرتے ہیں جس پر لفظ دعوت کا عنوان لگا ہو۔ وہ کام جن پر سیاست یا عوامی تحریک کا عنوان چسپاں ہو، وہ اسے سیاسی ہڑبونگ کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اس عنوان کے تحت بھی دعوت کا کوئی کام ہوا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودی کے الفاظ میں:
آپ ہزار کتابیں لکھ کر [یا پڑھ کر] بھی اتنا کام نہیں کر سکتے جتنا اس صورت میں کرسکتے ہیں کہ جس وقت کوئی اہم مسئلہ لوگوں کے سامنے درپیش ہو، اس وقت میدان میں آکر اس مسئلے میں ان کو صحیح رہنمائی دیں۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۲۷-۱۲۸)
ملک کے اندر تحریک کو آج جو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے وہ مولانامودودیؒ کے درج بالا ارشاد کے دوسرے حصے سے متعلق ہے۔ یعنی یہ کہ، پاکستان بننے کے بعد ہم نے ایک مسلم معاشرے کے عوام میں تحریک برپا کرکے جس حد تک کام کرلیا ہے، اب اس کو کس طرح آگے بڑھائیں کہ اپنی اصل منزل تک پہنچ سکیں؟ دوسرے لفظوں میں، برسوں کی کاشت کاری کے ذریعے ہم نے ہزاروں انسانوں کی جو فصل تیار کی ہے، اور جس کا عشر عشیر بھی ابھی اصل مقصد کے لیے کام نہیں آ رہا، اس کو کام میںلگا کر اس مسلم معاشرے کی معتدبہ تعداد کو کس طرح انقلابِ امامت کے مقصد کے لیے متحرک کر دیا جائے؟
جماعت اسلامی کے لائحہ عمل کا ایک حصہ یہ بھی رہا ہے: ’’ہمارے معاشرے میں جو ایک بچا کھچا صالح عنصر موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے یا اصلاح کی پراگندہ کو شش کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، اسے چھانٹ چھانٹ کر ایک مرکز پر جمع کیا جائے، اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح و تعمیر کی منظم سعی میںلگا دیا جائے‘‘ (آیندہ لائحہ عمل)۔ اور اب تو اس صالح عنصر میں خود ہمارے وابستگان کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ حلقۂ متفقین کا پروگرام اسی غرض کے لیے تھا، لیکن سچ بات ہے کہ وہ بھی قابل ذکر حد تک عملی جامہ نہیں پہن سکا۔
عوامی تحریک کا ایک اہم جزو عورتوں کا حلقہ ہے۔ وہ ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ عورتوں کی راہ سے بگاڑ بھی تیزی سے آ رہا ہے۔ انھی کے ذریعے اصلاح کی رفتار بھی تیز تر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ہم کو ایک ہی لگے بندھے طریقے سے کام کرنے کے بجائے حالات کے لحاظ سے موزوں تدابیر وضع کرنا ہوں گی۔
یہ سارا کام جماعت کی تنظیم میںمحبت و الفت، سمع و طاعت، اور مشاورت واحتساب کے نظام کا متقاضی ہے۔ تمسخر، تنابز بالالقاب، بدظنی، تجسّس، غیبت، ہمز، بلا تحقیق نقل وغیرہ سے پاک ہو کر چلنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے لیے عزّت، احترام، محبت، الفت اور ذکرِ خیر کی صفات کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت میں اطاعت، شورائیت اور احتساب کا نظام اپنا کام کررہا ہے۔ لیکن ان اخلاقی فضائل کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
تحریک ِ اسلامی کے چار نکاتی لائحہ ٔ عمل کا یہ فطری تقاضا ہے کہ جوں جوں عوام ہمارے ساتھ آئیں گے، اور ہم انقلابِ قیادت کی منزل کے قریب پہنچیں گے اور اس کی گہما گہمی میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں عوامی پذیرائی حاصل ہوگی تو کئی بالکل نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ ہمارے مستحکم توسیعی اور تربیتی کام کو اس گہماگہمی سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، اور نہ اس گہماگہمی سے گھبرانا چاہیے۔ کیونکہ ابتدا ہی سے ہم نے ان کے درمیان توازن پیدا کرکے چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے ہم پوری دلجمعی سے دعوت الی اللہ کا کام کریں، عوام کو ساتھ لائیں، جو لوگ قریب آئیں ان کی وسیع پیمانے پر دینی اور اخلاقی تربیت کا انتظام کریں، اور انھیں منظم کریں۔ پھر اس پوری قوت کو اصلاحِ معاشرہ کے کام پر لگا دیں، اور عوامی بیداری پیدا کرکے انقلابِ قیادت کا راستہ ہموار کریں۔
ایک کام کی وجہ سے دوسرا کام ترک نہ کریں۔ کاموں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے، تقسیمِ کار ہوسکتی ہے، دوسرے تنظیمی ڈھانچے بن سکتے ہیں، لیکن لائحۂ عمل کے کسی جز کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ایسا ہونا چاہیے، نہ یہ غلط مفروضہ قائم کرنا چاہیے کہ اگر عوامی کام ہو رہا ہے تو اس کے متوازی تعمیری مساعی کو ترک کیا جا چکا ہے۔
الحمدللہ! ہم اس طریقِ کار کے مطابق اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ منزل جوں جوں قریب آتی ہے، شوقِ منزل بڑھتا ہے اور رفتار میں اضافہ ہوتا ہے ع
تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست
(پمفلٹ منشورات سے دستیاب ہے)
گناہ بڑے بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے بھی۔ ہم لوگ سمجھتے یہ ہیں کہ گرفت اور پکڑ خداوندتعالیٰ کی جانب سے صرف بڑے بڑ ے گناہوں کی ہوگی اور چھوٹے چھوٹے گناہوں کو تو ویسے ہی معاف کردیا جائے گا۔اسی لیے چھوٹے گناہوں کی طرف سے عام طور پر لاپروائی برتی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر غیبت اور دوسروں کی عیب جوئی کا معاملہ ہی لیجیے۔
ہم لوگوں کی عادت ہے کہ جس محفل میں بھی بیٹھتے ہیں تھوڑی ہی دیر میں دوسروں کی عیب جوئی کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کسی کی غیرموجودگی میں اسے بُرے لقب اور بُرے لفظوں سے یاد کرنا اتنی بُری بات ہے کہ خداوندتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں اُسے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قرار دیا ہے اور روایات میں اس بد عادت پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔
غور کیجیے کہ اس بُرائی کا منبع کیا ہے، اور ہم لوگ کیوں دوسروں کو ان کی غیرموجودگی میں بُرے لفظوں میں یاد کرتے ہیں؟ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہم کسی کی بُرائی اس کے سامنے کرنے کی ہمت اور اخلاقی جرأت نہیں رکھتے۔ اگر ہم کسی میں کوئی بُری عادت دیکھیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ نہایت اخلاق اور تہذیب و شائستگی سے اسے اس کی بُری عادت سے آگاہ کردیں۔ لیکن ہم ایسا نہیں کرتے ۔اس کے سامنے توہم خاموش رہتے ہیں اور اُس کے آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہی دوسروں سے اس کی شکایت اور لگائی بجھائی میں مگن ہوجاتے ہیں۔
اس طرح ہم اپنے اندر ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتے ہیں جیسے ہم نے بدلہ لے لیا ہو، یا دوسرے کو اس کے کیے کی سزا دے دی ہو۔ مگر اس کا فائدہ کیا ہے؟ کیا ہماری شکایت اور لگائی بجھائی سے اس کی اصلاح ہوجاتی ہے جس کی ہم شکایت کرتے ہیں؟ نہیں، ہرگز بھی نہیں۔ اکثر صورتوں میں تو اس شخص کو پتا بھی نہیں چل پاتا کہ اس کی بابت غیرموجودگی میں کیا باتیں کی گئیں۔ قرآن حکیم میں آیا ہے کہ معمولی سے معمولی بُرائی کی بھی پکڑ ہے، اور چھوٹی سے چھوٹی نیکی کابھی اجر ہے۔ ذرا کبھی بیٹھ کر حساب تو لگائیں کہ ہم ایک روز میں اوسطاً کتنی دیر دوسروںکی غیبت کرتے ہیں اور پھر ہفتے میں کتنی دیر اور مہینے اور سال میں کتنی دیر اس عادتِ بد میں گرفتار رہتے ہیں؟ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ہم برسوں اور مہینوں میں اپنی عمر کا بڑاحصہ اسی گناہ کو سمیٹنے میں لگادیتے ہیں اور ہمارے اعمال میں صرف غیبت کی مد میں گناہوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہوجاتا ہے۔جس کی طرف ہماری کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ روزِ حساب گناہوں کا یہ پہاڑ ہماری ساری نیکیوں اور ثواب کو ہڑپ کرلے گا اور ہمارے دامن میں جنّت میں جانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ صرف غیبت اور لگائی بجھائی ہی سے نہیں، ان تمام چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچیں جو ہمیں روزِ آخرت رُسوا کرکے رہیں گے۔
اسی طرح ایک اور بیماری ہمارے اندر دوسروں کی دل آزاری ہے۔
ہم گفتگو کرتے وقت لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مخاطب کو کوئی ایسی بات ضرور کہہ دیتے ہیں ،جس سے اس کے دل کو تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ ہم تو اپنی بات کہہ کر نکل جاتے ہیں، یا بھول جاتے ہیں، لیکن جس سے کہتے ہیں وہ اندرونی تکلیف میں مدتوں مبتلا رہتا ہے۔ دوسروں کا مذاق اُڑانا ، طنز کے تیر چلانا، سخت کلامی سے پیش آنا ___ یہ وہ باتیں ہیں جو براہِ راست دل کو اذیت پہنچاتی ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے بجا طور پر، یہ بار بار سمجھایا اور ذہن نشین کرانا چاہا ہے کہ ’’شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ جو معاف نہیں ہوگا وہ دل آزاری ہے‘‘ اور یہ بات بڑی حد تک سچی معلوم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دل آزاری کے گناہ کو اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کا دل دُکھایا گیا ہے۔ اس لیے گفتگو کرتے ہوئے یا کسی سے معاملے کی بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے اور دل دکھانے والی کوئی بات منہ سے نادانستہ نکل ہی جائے، تو اس کی ضرور معذرت کرلینی چاہیے اور معاملہ صاف کرلینا چاہیے۔
اسی طرح ایک اور بیماری بے حسی کی ہے۔
اس کا تعلق لاپروائی سے ہے کہ ہم اپنی ذات اور اس کی تکلیف کے حوالے سے تو بہت حساس ہوتے ہیں، لیکن ہماری ذات سے دوسروں کو تکلیف پہنچ رہی ہے، اس بارے میں ہم بہت بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی پارک کرنا، اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ دوسرے کے گھر کے سامنے پھینک دینا،گھر یا گاڑی میںزور زور سے گانے بجاکر پڑوسیوں اور راہگیروں کو اذیت پہنچانا، پبلک مقامات میں سگریٹ نوشی کے ذریعے دوسروں کو تکلیف دینا، بیچ راستے میں شامیانے لگا کر گھریلو تقریبات منعقد کرکے آنے جانے والوں کو پریشان کرنا، جلسوں اور جلوسوں کے لیے پوری پوری شاہراہیں بند کرکے ہزاروں مسافروں اور مجبوروں کو اذیت پہنچانا۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار مواقع پر ہم اپنی بے حسی سے دوسروں کے لیے تکلیف اور ذہنی کوفت کا سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں ان باتوں کی پُرسش نہ ہوگی؟ یقینا ہوگی اور بہت سخت ہوگی۔
فقہ کا ایک اصول یہ ہےکہ چھوٹے گناہوں یعنی صغیرہ گناہوں پر اصرار اسے بڑا گناہ یعنی گناہِ کبیرہ بنادیتا ہے۔ اس لیے ہمیں چھوٹے گناہوں سے بہت ڈرنا چاہیے۔ بالکل اس طرح جیساکہ ہم چھوٹے چھوٹے مگر زہریلے کیڑے مکوڑوں سے ڈرتے ہیں۔
حکومت ِ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان ۳۰جون ۲۰۲۳ء کو اسٹاف کی سطح پر ہونے والے معاہدے کے بعد، آئی ایم ایف کے بورڈ نے ۱۲جولائی ۲۰۲۳ء کو ۹ماہ کی مدت کے لیے تین ارب ڈالر کے عبوری قرضے کی منظوری دیتے ہوئے اس قرضے کی پہلی قسط پاکستان کو فوری طور پر دے دی ہے ۔ اس قرضے کے ساتھ ہی دوست ممالک سے بھی رقوم ملنے سے معیشت میں بحرانی کیفیت ختم ہوگئی ہے اور معیشت میں عارضی استحکام آگیا ہے، جس سے فوری طور پر ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے ، تاہم ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، تجارتی و جاری حسابات کے خسارے میں اضافہ، ملکی و بیرونی قرضوں میں اضافہ اور معیشت کی شرحِ نمو سُست رہنے کی وجہ سے موجودہ سال میں غربت و بے روزگاری میں اضافے کا خدشہ ہے۔
آئی ایم ایف کے ۹ماہ کے عبوری مدت کے قرضے کو ملکی و بیرونی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ نے حتمی شکل دی ہے۔ قرضے کی مدت وسط اپریل ۲۰۲۴ء میں ختم ہوگی، جب کہ منصوبے کے تحت نئی منتخب حکومت دسمبر ۲۰۲۳ءمیں آئی ایم ایف سے بیرونی رقم کے قرضے کے لیے رجوع کرے گی، جس کی منظوری میں چند ماہ لگ سکتے ہیں۔ سوچ یہ نظر آتی ہے کہ آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر کے موجودہ قرضے کے باوجود پاکستانی معیشت مشکلات میں گھری رہے۔ لیکن اگر حکومت خود کوئی بڑی غلطی نہ کرے تو آئی ایم ایف سے ۲۰۲۴ء میں بڑی رقم کے قرضے کی منظوری تک پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا جائے۔ البتہ ۲۰۲۴ء میں ملنے والے قرض کی معاشی اور سیاسی شرائط اتنی سخت ہوسکتی ہیں، جن کے نتیجے میں بڑے ڈیفالٹ کا خطرہ آنے والے برسوں میں حقیقت کا رُوپ دھار سکتا ہے۔ اس ’نجاتی پیکج‘ سے ’نئی سردجنگ‘ کے دور میں ’نیوگریٹ گیم‘ کے استعماری مقاصد میں معاونت پاکستان کے لیے تباہ کن ہوگی۔
پاکستان کو غیرمستحکم کرنا، پاکستانی معیشت کو کمزور اور اپنا دست نگر رکھنا اور حکومت و قوم، افواجِ پاکستان اور قوم اور وفاق و صوبوں کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا کرنا، نائن الیون کے بعد امریکی پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ ’نیوگریٹ گیم‘ کے مقاصد میں آنے والے برسوں میں پاکستان کے جوہری و میزائل پروگرام کو نقصان پہنچانا اور پاکستان کی سرحدوں میں خدانخواستہ تبدیلیاں لانا بھی شامل دکھائی دیتا ہے۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی نے کہا تھا کہ’’ امریکا نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے‘‘۔ ہنری کسنجرنے نائن الیون کے بعد کہا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی اصل جنگ اس وقت شروع ہوگی، جب افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیاں دم توڑرہی ہوں گی اور اس کا محور افغانستان سے باہر ہوگا۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان سے مفاہمت امریکا نے ایک حکمت عملی کے تحت کی ہے۔
صورتِ حال یہ ہے کہ گذشتہ دنوں خود افواجِ پاکستان کے سربراہ نے کہا: ’’افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کروائی جارہی ہیں‘‘، جب کہ حکومت عوام پر نت نئے ٹیکس عائد کرکے اقتصادی دہشت گردی کررہی ہے۔ امریکا، بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے پر متحرک ہے،اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بائیڈن مودی مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کے بے سروپا الزامات اور پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کی مالی معاونت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ سب خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے۵جولائی ۲۰۲۳ء کو کہا تھا:’’کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے‘‘۔ اس ضمن میں ہم یہ عرض کریں گے کہ سابق صدر زرداری نے کہا تھا:’’ڈیفالٹ کرنے یا دیوالیہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ جب کہ وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا: ’’پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے،اورہم دیوالیہ ملک کے شہری ہیں‘‘۔
یاد رہے، اپریل ۲۰۱۹ء سے مارچ ۲۰۲۲ء تک عمران حکومت کے ناقابلِ فہم اور ناقابلِ دفاع فیصلوں سے پاکستان کی معیشت پرانتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے، جب کہ شہباز حکومت نے بھی متعدد ایسے اقدامات کیے جن کے نتیجے میں مالی سال ۲۰۲۳ء میں معیشت کی کارکردگی پاکستان کی تاریخ کی بدترین کارکردگیوں میں سے ایک رہی اور ڈیفالٹ کا خطرہ پاکستان کے سر پر منڈلانے لگا۔ چنانچہ اشرافیہ کے کچھ طبقوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرنے کا عندیہ دے۔
ان افراد کا یہ خیال تھا کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کردے تو پاکستان کو ایک بڑا نجاتی پیکج مل جائے گا اور پاکستان کونہ صرف مزید قرضے ملیں گے بلکہ کچھ بیرونی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ بھی ہوسکتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاشی سرگرمیاں تیز ہونے سے انھیں دولت کمانے کا موقع ملے گا۔ لیکن ان صاحبان نے اس خدشہ کو نظرانداز کردیا کہ آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا پانچواں بڑا ملک، عالم اسلام کی پہلی جوہری قوت اور دفاع و تجارت کے لحاظ سے انتہائی اہم محل وقوع کا حامل ملک پاکستان اگر خدانخواستہ ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کے نتائج انتہائی ہولناک ہوں گے۔ پاکستان کے جوہری اثاثے اور اس کا شاندار محلِ وقوع ’نجاتی پیکج‘ کی آڑ میں ان اثاثوں اور جغرافیائی سرحدوں کو بھی خطرات کی زد میں لایا جاسکتا ہے۔ استعماری طاقتوں کے نزدیک پاکستان کو ڈیفالٹ کرانے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے کیونکہ افغانستان وغیرہ کے معاملات میں امریکا کو پاکستان کی اب بھی ضرورت ہے۔مگر آیندہ برسوں میں یہ صورت نہیں رہے گی۔
گذشتہ پانچ برسوں میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کی حکومت نے اسٹیٹ بنک اور ایف بی آر سمیت متعدد اداروں کے تعاون اور ملکی و بیرونی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں جو معاشی پالیسیاں اپنائیں، ان کے منفی نتائج کے ضمن میں چند حقائق اور اعدادو شمار پیش ہیں:
۱- معیشت کی اوسط سالانہ شرحِ نمو ۲ء۶ فی صد رہی ، جب کہ اس سے قبل کی ۳۸برسوں میں یہ شرح اوسط ۴ء۷ فی صد سالانہ تھی۔
۲- مالی سال ۲۰۱۸ء میں افراطِ زر کی شرح ۴ء۶۹ فی صد تھی، جب کہ مالی سال ۲۰۲۳ء میں یہ شرح ۲۹ء۴ فی صد ہوگئی۔ اس اضافے سے غریب و متوسط طبقے کے کروڑوں عوام بُری طرح متاثر ہوئے اور ان کی زندگیوں میں محرومیاں بڑھ گئیں۔
۳- مالی سال ۲۰۱۸ء کے اختتام پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ۱۲۲ روپے تھی، جو گرکر ۲۸۵روپے ہوگئی۔ روپے کی قدر میں اس زبردست کمی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
۴- ان برسوں میں ملکی درآمدات ۲۹۲؍ارب ڈالر رہیں، جب کہ برآمدات کا مجموعی حجم صرف ۱۳۰؍ارب ڈالر رہا، یعنی اس مدت میں پاکستان کو تقریباً ۱۶۲؍ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا۔
۵- پاکستان شاید دُنیا کا واحد ملک ہے جہاں جائز اور ناجائز دولت کو قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کروائے بغیر ملکی قانون کے تحت ملک سے باہر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر بنکوں کے ذریعے جو رقوم ملک سے باہر منتقل کی گئی ہیں ان سے متعدد ڈیم تعمیر کیے جاسکتے تھے۔ واضح رہے کہ گذشتہ تقریباً ۵۰برسوں میں پاکستان نے کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا۔ پانی سے بنائی گئی بجلی کی لاگت تقریباً سات روپے فی یونٹ آتی ہے ، جب کہ فرنس تیل سے پیدا کرنے والی بجلی کی لاگت تقریباً ۴۸ روپے فی یونٹ آتی ہے۔
۶- گذشتہ پانچ برسوں میں بیرونی ملکوں سے ۱۳۲؍ارب ڈالر کی ’ترسیلات‘ انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق ۱۱۱(۴) سے مستفید ہوکر پاکستان آئی ہیں۔ واضح رہے کہ ایک لاکھ ڈالر کی ترسیلات پر ٹیکسوں کی مد میں حکومت کو تقریباً ۵۰ لاکھ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
۷- ایک تخمینے کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں ایف بی آر نے ٹیکسوں کی مد میں اپنی استعداد سے تقریباً ۲۵ہزار ارب روپے کی کم وصولی کی۔ اس نقصان سے مال دار اور طاقت ور طبقات نے خوب فائدہ اُٹھایا ، جب کہ عوام نے موجودہ ۱۸فی صد کی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس دیا۔ حکومت نے تعلیم، صحت اور ترقیاتی اخراجات کی مدات میں زبردست کٹوتیاں کیں۔
۸- ملک میں تقریباً ۹کروڑ موبائل فون رکھنے والے ایسے افراد سے حکومت غیرقانونی طور پر ۱۵ فی صد پیشگی ٹیکس وصول کررہی ہے،حالانکہ ان کی آمدنی ۶لاکھ روپے سالانہ سے کم ہے۔
۹- ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو پاکستان کے مجموعی قرضوں اور مالی ذمہ داریوں کا حجم ۲۹ ہزار ۸سو۷۹ ؍ارب روپے تھا جو پانچ سال بعد بڑھ کر ۷۲ ہزار۹سو۷۸ ؍ارب روپے ہوگیا۔ صاف ظاہر ہے کہ آزادی کے ۷۱ برس بعد قرضوں اور ذمہ داریوں کے مجموعی حجم کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ اضافہ گذشتہ پانچ برسوں میں ہوا۔
۱۰- دسمبر ۲۰۱۸ء میں بنکوں نے صنعت، تجارت اور زراعت وغیرہ کے لیے ۷ہزار ۹سو۵۵ ارب روپے کے قرضے دیئے تھے، جو دسمبر ۲۰۲۲ء میں بڑھ کر ۱۱ہزار ۸سو۱۸ ؍ارب روپے ہوگئے، یعنی ۳ہزار ۸سو ۶۳ ؍ ارب روپے کا اضافہ۔اسی مدت میں بنکوں نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو جو رقوم دے رکھی تھیں، ان کا حجم ۷ہزار۹سو۱۴ ؍ارب روپے سے بڑھ کر ۱۸ہزار ۴سو ارب روپے ہوگیا، یعنی ۱۰ہزار ۴سو۸۶ ؍ ارب روپے کا اضافہ۔ عالمی مالیاتی ادارے ایسی سرمایہ کاری کو ملک کا رسک (خطرہ) تصور کرتی ہیں۔ خدشہ ہے کہ آنے والے برسوں میں ان حکومتی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرنے کے لیے پاکستان کو مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ بیرونی قرضوں کے ممکنہ ڈیفالٹ سے بڑا خطر ہ ہے، جس سے پاکستان کے بنکاری نظام کو تباہ کن جھٹکا لگ سکتا ہے۔
۱۹۵۸ء سے جولائی ۲۰۲۳ء تک پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کے ۲۴ پروگرام حاصل کیے ہیں ، جب کہ آزادی کے بعد سے اب تک علاوہ نگران وزرائے اعظم کے، شہبازشریف ۱۷ویں وزیراعظم ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ تمام حکومتیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کو اپنا فرضِ منصبی سمجھنا، جب کہ امریکا بھی پاکستان کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑے رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر وہ پاکستان کی معیشت کو اپنا دست ِ نگر بنائے رکھنے کے ساتھ ’نیوگریٹ گیم‘ کے مقاصد بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں حکومتیں آئی ایم ایف کی شرائط کی آڑ میں عوام پر نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتے چلے جانے کے ساتھ ساتھ طاقت ور طبقوں کو بدستور مراعات دیتی چلی جاتی ہیں۔ بیرونی قرضے حاصل کرکے اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے ساتھ امریکی حکمرانوں کی خوش نودی حاصل کرتی ہیں۔ اس ناپاک گٹھ جوڑ کو توڑے بغیر پاکستان کی معیشت میںپائیدار بہتری آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
پہلے فوجی حکمران ایوب خان نے سب سے پہلے ۸دسمبر ۱۹۵۸ء کو پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسایا تھا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، معین قریشی، محبوب الحق، ملک معراج خالد، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف، آصف زرداری/یوسف رضا گیلانی، عمران خان اور شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کیے۔ عمران خان اور شہباز شریف نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان مالی سال ۲۰۲۴ء میں آئی ایم ایف سے بڑی رقم کا قرضہ حاصل کرے۔ حالانکہ بھارت نے آخری مرتبہ ۱۹۹۴ء میں ایسے وقت آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کیا تھا، جب بھارت کی معیشت تباہ ہوچکی تھی۔ یہ قرضہ لینے کے بعد بھارتی حکومت نے برق رفتاری سے معیشت میں بنیادی اصلاحات کیں اور پھر آئی ایم ایف کے قرضے سے بے نیاز ہوگیا۔ قوم کو سوچنا ہوگا کہ ہم یہ اصلاحات کرنے سے کیوں گریزاں ہیں اور ایسے فیصلے کیوں کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نہ نکل سکیں؟
تحریک ِ انصاف کی حکومت نے ۳جولائی ۲۰۱۹ء کو آئی ایم ایف سے قرضے کا جو پروگرام منظور کروایا تھا، وہ ستمبر ۲۰۲۲ء میں ختم ہورہا تھا۔ شہباز حکومت نے اس پروگرام کی جون ۲۰۲۳ء تک توسیع کروائی اور اس مدت میں آئی ایم ایف کی شرائط کی آڑ میں متعدد ایسے اقدام اُٹھائے، جن کے نتیجے میں معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچ گئی۔ چند اعداد و شمار یہ ہیں:
۱- مالی سال ۲۰۲۲ء میں افراطِ زر کی شرح ۱۲ء۲ فی صد تھی، جو مالی سال ۲۰۲۳ء میں بڑھ کر ۲۹ء۲ فی صد ہوگئی۔
۲- مالی سائل ۲۰۲۲ء کے اختتام پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ۲۰۴ روپے تھی، جب کہ مالی سال ۲۰۲۳ء کے اختتام پر یہ شرح مبادلہ ۲۸۵ روپے ہوگئی۔
۳- مالی سال ۲۰۲۳ء میں گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں برآمدات میں ۴ء۱ ؍ ارب ڈالر اور ترسیلات میں ۴ء۳؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ اسی مدت میں درآمدات میں ۲۴ء۹؍ ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ میں۲۰ء۸؍ ارب ڈالر کی کمی ہونے کے باوجود اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ۵ء۳؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔
۴- مالی سال ۲۰۲۲ء میں معیشت کی شرحِ نمو، ناپائے دار اور ناہموار ہی سہی، مگر ۶ء۱ فی صد تھی، جب کہ موجودہ مالی سال میں یہ شرح منفی ہوسکتی ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ بات راز ہی رہے گی کہ شہباز حکومت نے آئی ایم ایف کے قرضے کی مدت کو ستمبر ۲۰۲۲ء سے بڑھوا کر جون ۲۰۲۳ء کیوں کرایا؟ کیونکہ متعدد تباہ کن ’شرائط‘ پر عمل درآمد کروانے کے باوجود آئی ایم ایف نے اس مدت میں پاکستان کو ایک ڈالر کا قرضہ بھی نہیں دیا۔
دانش مندانہ حکمت عملی یہ ہوتی کہ ستمبر ۲۰۲۲ء میں آئی ایم ایف کے قرضے کی مدت ختم ہونے کے چند ماہ بعد دسمبر ۲۰۲۲ء میں بڑی رقم کے قرضے کی درخواست پیش کر دی جاتی۔ اس وقت معیشت کی حالت آج کے مقابلے میں کہیں بہتر تھی۔ چنانچہ نسبتاً کم کڑی شرائط پر قرضہ مل جاتا اور ڈیفالٹ کا خطرہ بھی نہ ہوتا۔ اب قرضہ کی درخواست دسمبر ۲۰۲۲ء کے بجائے دسمبر ۲۰۲۳ء میں پیش کی جائے گی، جس کی شرائط معیشت اور ملکی سلامتی کے لیے تباہ کن ہوں گی۔ شہباز حکومت کو اس پہاڑ جیسی غلطی کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ تحریک انصاف اور پھر نون لیگ کی اتحادی حکومت نے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ پاکستان ۲۰۲۴ء میں سخت ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے بڑی رقم کا قرضہ حاصل کرے۔ یہ قرضہ امریکا کی سفارش پر ملے گا، جس کے لیے ’نیوگریٹ گیم‘ کے تحت امریکا کی اپنی شرائط ہوں گی جو معیشت اور سلامتی کے لیے خطرات لائیں گی۔شہباز حکومت نے جولائی ۲۰۲۳ء میں معیشت کے ضمن میں دو اہم باتیں کہی ہیں: اوّل یہ کہ اگلی حکومت کو معیشت کے شعبے میں صحیح معنوں میں اصلاحات کرنا ہوں گی، اور دوم کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے۔
ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ گذشتہ ۳۰برسوں میں کسی بھی حکومت بشمول فوجی حکومت اور اسٹیٹ بنک نے صحیح معنوں میں مؤثر معاشی اصلاحات نہیں کیں، کیونکہ ان سے طاقت ور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ چنانچہ اگلی حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ یہ اصلاحات کرے گی، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ اصلاحات نہیں کی جاتیں تو پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
اس طرح معیشت کی بحالی، پاکستان کی سلامتی اور جوہری اثاثوں اور ہماری جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ انتخابات سے پہلے بنیادی معاشی اصلاحات کو لازماً قانونی شکل دے دی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ میثاقِ معیشت کا نعرہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کواس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ سپریم کورٹ بھی اس ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس ضمن میں ہماری چار تجاویز ہیں:
۱- اگلے چند روز میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔ اس میٹنگ میں حکومت سازی میں شریک کم از کم تین بڑی پارٹیوں کی قیادت سے ایک حلف نامے پر دستخط کرائے جائیں، جس میں درج ذیل نکات شامل ہوں:
(۱) وفاق اور صوبے ۱۰ لاکھ روپے سالانہ سے زائد ہرقسم کی آمدنی پر ٹیکس مؤثر طور پر اور منصفانہ طریقے سے نافذ اور وصول کریں گے۔
(۲) معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا اور پراپرٹی کی مالیت ہرسال مارکیٹ کے نرخوں کے برابر مقرر کی جائے گی۔
(۳) جنرل سیلز ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح (علاوہ اشیائے تعیش یا غیرضروری اشیا) ۷ء۵ فی صد ہوگی،جب کہ پٹرولیم لیوی (بھتہ) ختم کردیا جائے گا۔
(۴) انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق ۱۱۱(۴) کو منسوخ کردیا جائے گا۔
(۵) تعلیم اور صحت کی مد میں جی ڈی پی کا ۷ء۵ فی صد لازماً مختص اور خرچ کیا جائے گا۔
(۶) کھلی منڈی سے خریدی ہوئی بیرونی کرنسی کو علاوہ تعلیم و علاج معالجے کے اخراجات کے بنکوں میں بیرونی کرنسی کے کھاتوں کے ذریعے ملک سے باہر منتقلی پر پابندی عائد کردی جائے گی۔
(۷) توانائی کے شعبے میں ایسی اصلاحات کی جائیں گی کہ گردشی قرضہ پیدا نہ ہو اور بجلی کی تقسیم و ترسیل، بجلی کی چوری، اور بجلی کے بلوں کی عدم وصولی کے نقصانات عوام کو منتقل نہ کیے جائیں گے۔
(۸) بنکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے کھاتے داروں کو منافع میں شریک کریں۔ وزارتِ خزانہ انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق ۲۶، ایف-۴، اور اسٹیٹ بنک شق ۴۰-الف پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔
۲- مندرجہ بالا نکات پر مشتمل حلف نامے پر دستخطوں کے بعد اس ضمن میں فوری طور پر مؤثر قانون سازی کی جائے، جس میں واضح طور پر کہا جائے کہ انتخابات کے بعد برسرِاقتدار آنے والی وفاقی و صوبائی حکومتیں، اس قانون پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہوں گی۔
۳- الیکشن کمیشن کو پابند کیا جائے کہ سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب لڑنے والوں کے فارم میں بھی یہ حلف نامہ شامل کریں۔ یہ اہتمام اس لیے بھی ضروری ہے کہ عوام کے نمایندے معاشی ذمہ داری کی نزاکت کو سمجھیں اور قوم سے عہد کریں۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
معاشی عدل و انصاف کے مکمل نفاذ ، آمدنی اور وسائل کی عادلانہ تقسیم کے ساتھ سماجی مساوات پر مبنی نظام کو بروئےکار لانے کے لیے دُنیا کو اسلام کے معاشی نظام کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور نظام معاشرت میں انسانوں کی انفرادی ضرورت اور معاشرے کے اجتماعی معاملات کے منصفانہ حل کا جو فطری لائحہ عمل پیش کیا گیاہے بالکل وہی اسلام کا معاشی نظام بھی ہے۔ یہ انسانی زندگی کے فطری اصولوں اور تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئےمعاشرتی فلاح و بہبود کی شرائط کے ساتھ تلاشِ معاش کی آزادی اور فکر وعمل کا مخصوص ومتعین میدانِ کار بھی عطا کرتا ہے، جس میں دوسروں کے حقوق کی پاس داری اور اس کے تئیں حساسیت کا واضح طریقۂ کار موجود ہے۔
افسوس کہ اس فطری اور عادلانہ نظام کا قابلِ عمل، قابلِ فہم خاکہ اور عملی نفاذ کاکوئی جامع نمونہ دنیا کے سامنے نہیں ہے اور نہ اسے نافذ کرنے اور ایک مثالی ماڈل کے طور پرپیش کرنے کے لیے مسلم ممالک اور اس کے حکمراں تیار ہیں۔ اسلام میں حقوق انسانی کی اہمیت اور اس کی بجاآوری پر بہت زوردیا گیا ہے۔ آزادئ فکر وعمل کے ساتھ نسب و نسل کی حفاظت اور انسانی جان پر بیجا ظلم کو روکنے کے لیے جہاں صراحت کے ساتھ تاکید ی احکامات ہیں، وہیں نہ ماننے کی صورت میں نہایت سخت سزا کا تعین بھی ہے۔ اسی طرح وراثت، وصیت اور زمین و جائیداد کی تقسیم کے تعلق سے بھی قرآن میں صریحاً احکامات موجود ہیں تاکہ آمدنی ،جائیداد، اثاثہ جات اور دولت کسی ایک جگہ پر منجمد نہ ہو، نیز وسائل و ذرائع پیداوار بھی بغیر کسی رکاوٹ اور بنا کسی بیرونی دخل اندازی کے صحیح اور جائز حق دار تک پہنچ جائیں۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ معاشرتی عدل کے لیے یہ بنیادی شرط ہے کہ معاشرے میں کسی کو بھی یہ حق حاصل نہ ہو کہ وہ دوسرے انسان کے حق پر اپنی خواہش کے مطابق ناجائز قبضہ کر لے، یا کسی کا حق غصب کر کے اس میں اپنی پسند کے مطابق کمی بیشی کر سکے۔ معاشرے میں انفرادی و اجتماعی حقوق کی حفاظت اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے اور حقوق کی عدم ادائیگی کو ایک بڑا ظلم تصور کیا جاتا ہے۔ کسی کےجائز اورقانونی حق کو اپنے قبضے میں لے لینا یا اس میں کمی کرنا، اصل حق دار کو اس سے محروم کر کے کسی اور کو دے دینا، حصہ داری اور حقوق کی ادائیگی کے نام پر صرف تھوڑا حصہ مزدوری یا کسی شراکت داری کے نام پردینا بھی ظلم کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔
موجودہ دور میں بہت سارے انسانوں کے ایک ساتھ رہنے سے ایک دوسرے پر جو ذمہ داریاں اور حقوق و فرائض واجب الادا ہوتے ہیں، ان کی صحیح طور پر ادائیگی بھی ایک اہم اور گنجلک مسئلہ کے طور پر پوری دنیا میں موجود ہے جس میں عوام کی اکثریت کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کب اور کہاں دوسرے انسان کے حق پر ڈاکا زنی کر بیٹھے ہیں؟ معاشی ترقی کے ساتھ باہم انحصاری اور امداد باہمی کے اس دور میں جب مختلف عاملین ایک ساتھ مل کر پیداوار کرتے ہیں، تواس بات کا مسئلہ بنا رہتا ہےکہ پیداواری عمل کے دوران ہر عامل کی خدمت اور اس کے حصے کا تعین کس طرح کیا جائےکہ کسی بھی عامل کے متناسب حقِ خدمت کا پورا پورا معاوضہ اسے مل جائے اور کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو؟ اس کےلیے معاشیات میں آمدنی اور پیداوار کی تقسیم کا نظریہ ہے جو عاملین پیداوار کی طلب اور رسد کی بنیاد پر ان کی پیداواری قدر و قیمت اور خدمت کے معاوضے کا تعین کرتا ہے، لیکن بہت سارے نظریاتی مفروضات اور عمل کی راہ میں حائل مشکلات کی وجہ سے یہ نظریہ نقائص سے پُر ہے۔
یہاں ہم پیداوار کے دیگر عوامل کو چھوڑ کر صرف سرمایہ کی قیمت اور پیداواری عمل میں اس کے حقِ خدمت کے تعین کا تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد دنیانے جیسے جیسے ترقی کی راہ میں قدم آگےبڑھایا، سرمایہ کا حصول ، سرمایہ کاری ، بنکوں کے ذریعے سرمائے اور قرض کی فراہمی ، انشورنس و بازارِ حصص کافروغ اور اس میں حصہ داری کی تجارت ، شرح سود کی بنیاد پر تجارت میں نفع یا نقصان کا تعین وغیرہ ایسے عوامل ہیں جنھیں آج کے اس دور میں ترقی کا انجن قرار دیا جاتا ہے۔ صنعتی ترقی کی اس دوڑ میں ہر پیداوار کے لیے سرمایہ بنیادی ضرورت بنتا گیا اور سرمایے کے لیے بنک اور مالیاتی ادارے کھلتے چلے گئے جہاں چند معمولی شرائط پر قرض کا آسان حصول اور ان پر شرط کے مطابق سود کی ادائیگی ہر کاروبار اور معاشی سرگرمی کا لازمی حصہ بن گئی، جو اس وقت دنیا میں ظلم ،نا انصافی اور انسانی حقوق کی عدم ادائیگی کا سب سے بڑا ماخذ ہے۔ جدید سودی نظام تجارت و پیداوار میں ہر تجارت، لین دین اور سرمایہ کاری کے لیے کثیر مقدار میں سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے، جس پر سود کی لازمی ادائیگی کی وجہ سے آمدنی اور دولت کا ایک ایسا غیر منطقی بہاؤ وجود میں آتا ہے جو وسائل پیداوار کی غیر منصفانہ ملکیت اور دولت کے غیر اخلاقی ارتکاز کا سبب اور ماخذ ہوتا ہے۔
آج دنیا میں پیداوار ، تجارت اور تقسیمِ دولت کا موجودہ نظام کثیر سرمایہ کاری پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے کل پیداوار ی لاگت میں سرمائے کا حصہ بہت زیادہ ہوتا ہےاور اس کی لاگت یعنی سود کا حصہ بھی کل پیداوار ی لاگت میں بڑے حصے کے طور پر موجود ہوتا ہے، جب کہ دیگرعاملین یعنی قدرتی وسائل و انسانی محنت، جو کسی بھی پیداواری نظام کے اصل اور متحرک عناصر ہیں، کا تناسب کم ہوتاجاتا ہے۔ دوسری طرف مختلف شکلوں میں سود کی ادائیگی، کاپی رائٹ، حق ملکیت، بیمہ ، منافع ، عدم استحکام ، غیر یقینی مستقبل اور نہ جانے کتنے ناموں سے پیداوار کے بہت بڑے حصے پر سرمایہ دار کے قابض ہونے کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔ یعنی سود پر مبنی پیداوار و تقسیمِ آمدنی کا نظام ایک ایسا طریقۂ کار ہے، جو پیداوار کے اصلی عناصر اور عوامل (انسان اور قدرتی وسائل ) کا متناسب حقِ خدمت غصب کرکے زیادہ حصہ اس مخصوص عنصر (سرمایہ دار یابنک اور بیمہ کمپنیاں ) کو دینے کا ایک مربوط طریقۂ کار متعین کرتاہے، جس کی پیداوار، دولت کی افزائش اور آمدنی کے اخراج میں کوئی عملی شراکت اور نفع ونقصان کے لیے کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ جب کہ پیداوار کے اصل عناصر یعنی کاریگر، مزدور ، مالکان زمین و دیگرمتحرک اور بلاواسطہ حصہ داروں کو اپنی ہی محنت کا بہت کم معاوضہ مل پاتا ہے، جو معاشی ناہمواری اور بڑھتی ہوئی غیر یکسانیت کی بنیادی وجہ ہے۔
سود ی سرمائے پر مبنی تجارت کے عمل میں پیداوار و تقسیمِ آمدن کو اس طرح منظم کیا گیا ہے کہ پیداوار کا بڑا حصہ ان عناصر کے قبضے میں چلا جاتا ہے، جو نہ تو پیداواری عمل میں براہِ راست شامل ہوتے ہیں اور نہ پیداواری عمل کے دوران نقصانات یا شرح پیداوار میں سالانہ اُتار چڑھاؤ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے منافع میں کسی طرح کی کمی بیشی کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ سرمایہ دار صرف سرمایہ مہیا کر کے پیداوار اور تجارت کے نظام سے الگ ہو جاتے ہیں اور وقت مکمل ہو جانے پر پہلےسے طے شدہ معاہدے کے مطابق پیداوار کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوجاتے ہیں ، خواہ پیداوار کی افزایش اسی شر ح سے ہوئی ہے جس پر انھوں نے تاجر یا تنظیم کوسرمایہ مہیا کیا ہے یا اس سے کم یا زیادہ شرح سے، سرمایہ دار کو اس سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اس طرح آمدنی اور دولت کی ناجائز تقسیم اور پیداوار میں غیر اخلاقی حصہ داری کا وہ عمل شروع ہوتا ہے جس میں مزدور، کاریگر اور دیگر قدرتی وسائل کی محنت سے پیدا ہونے والی آمدنی کا بڑاحصہ غیر منطقی طور پر ایک ایسے عامل کو منتقل ہوتا ہے جو پیداوار میں عملی شراکت سے گریزاں ہے۔ یوں کثیرمنافع کا حصول، وسیع تر دولت کی ہوس اور اس کے ذریعے سرمایہ کا ارتکاز ہی اصل معاشی مقصد قرار پاتا ہے جس سے پیداوار کی طاقت اور اس کا سر چشمہ صرف سرمایہ دار کے پاس قید ہو کر رہ جائے۔
ہر پیداواری اور غیر پیداواری مصرف کے لیے سودی قرض کی سہولت اور اس کے نتیجے میں آمدنی اور اخراجات کا بڑا حصہ سود اور قرض چکانے کی ماہانہ قسط کی مد میں سود خور سرمایہ دار کے پاس پہنچ جانا معاشی ناہمواری کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہربچت کی سرمایہ کاری، بازار حصص میں حصہ داری، زر کی تجارت ،زر سے زرکمانے کے لیے وافر مواقع کی فراہمی ، زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا لالچ ، اشیائے تعیش کی فراوانی اور آمدنی کا زیادہ سے زیادہ حصہ سامان تعیش اور غیر ضروری اخراجات پر خرچ کردینے کا موجودہ انسانی مزاج ذاتی ضروریات کو اسراف کی حد تک بڑھا دیتا ہے، جو مالیات، قرض کے بازار کی وسعت اور ہر شخص کےسودی قرض پر بڑھتے ہوئے انحصار کی بڑی وجہ ہے۔ ان کے نتیجے میں دولت مندوں کے پاس دولت و سرمائے کا ارتکاز ہوتا چلا جاتاہے۔
اسلامی نظام معیشت ، معاشرت وتجارت میں کسی بھی طرح کے سودی لین دین اور اس کی بنیاد پر ہونے والی تجارت کی سخت ترین الفاظ میں نفی کی گئی ہے اور اسے حرام قرار دیتے ہوئے سود کے حصول و ادائیگی کو اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جو لوگ سود کھاتے ہیں، اُن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کردیا ہو۔ اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ: ’’تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے‘‘، حالانکہ اللہ نےتجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘۔ (البقرہ۲:۲۷۵)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سود کی حرمت کو واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ سود کی حرمت کی بنیادی وجہ اس کااستحصالی مزاج اور غیر منصفانہ ڈھنگ سے دوسروں کی محنت اور دولت ہتھیانے کا عملی طریقۂ کار ہے اور یہی انسانوں کے جائز حقوق کی عدم ادائیگی اور ناانصافی کا سب سے بڑا ماخذ ہے۔ اسلام کی آمد سے قبل زمانۂ جاہلیت میں دنیا کی دیگر تہذیبوں کی طرح عربوں کے یہاں بھی سودی لین دین کا عام رواج تھا، جسے خودقرآن نے ظلم اورشیطانی عمل سے تشبیہ دی ہے۔ جدید بنکوں کے ذریعے وہی سود آج بھی معاشرے میں ظلم، ناانصافی اور عدم مساوات کی بنیاد ہے۔ اس لیے سود، خواہ وہ کسی بھی ذریعہ سے وجود میں آرہا ہو، اس کے ماخذ کی بنیاد پر جواز اورعدم جواز کی تاویل قطعی غیرمناسب ہے۔ سود کی اتنی شدید حرمت کی حکمت نہایت واضح ہے ۔ خاص طور پر جب ہم آج کے معاشی نظام کا تجزیہ کرتے ہیں جس میں سود ادا نہ کرپانے کی صورت میں ایک انسان اپنے مال و دولت اور اثاثہ جات کے ساتھ کبھی کبھی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جس کی بےشمار مثالیں خود دُنیا میں موجود ہیں۔ یہ سود کے استحصال اور مبنی بر ظلم ہونے کی واضح مثال ہے۔اسی لیے اللہ نے اس کے بعد دوسری آیت میں سود کے سلسلے میں اور سخت وعید پیش کی ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیاہے اسے چھوڑ دو،اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔اب بھی توبہ کرلو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔( البقرہ۲:۲۷۸- ۲۷۹)
اس آیت میں سود لینے ( اور سود دینے ) والے پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔ سود کے خلاف اتنی سخت وعید کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام انسانی معاشرے سے ظلم و زیادتی اور استحصال کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے، جب کہ مالیات کا سودی نظام انسان کے معاشی استحصال کی بنیاد ہے اور اس کے ذریعے ہونے والی تجارت ناانصافی اور حقوق کی عدم ادائیگی کو وسعت دینے میں معاون ہوتی ہے۔ اسلام اگر سود اور سودی نظام کی نفی کرتاہے یا اسے بالکل جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی بات کرتا ہے، تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اسلام معاشرتی ظلم اوراستحصال پر مبنی اس نظام کو ختم کرنا چاہتا ہے جو آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم اور وسائل روزگار پر چند زر دارافراد کی اجارہ داری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔بنکوں کے ذریعے سرمایہ کاری کے نام پر قرض اور اس سے پیدا ہونے والا سود ( جسے آج کل منافع کا نام دے کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے) جدید معاشیات کاایک ایسا نظام اورطریقۂ تجارت ہے جس میں ایک طرف راست محنت کرنے والا اپنی کارکردگی کے مطابق اجرت اور متناسب حقِ خدمت سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور دوسری طرف تجارت کے لیے مال مہیا کرنے والا سر مایہ دار ایک ایسی اجرت کا حق دار بن جاتا ہے جس کے لیے اس نے پیداوار کے مراحل میں کسی بھی طرح کی حصہ داری نبھانے اور نفع و نقصان کی بنیاد پر شراکت داری سے بالکل انکار کیا۔
اسلامی نظام معیشت کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ منافع میں حصہ دار وہی بن سکتا ہے جو اس کے خطرات اور نقصان کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار ہو (ابوداؤد، نسائی، ترمذی)، جب کہ سودی نظام کے تحت سرمایہ دار اپنا سرمایہ لگا کر پہلے سے طےشدہ شرح سے صرف منافع (سود) ہی لیتا ہے اور اس مال سے ہونے والی پیداوار یا تجارت میں کسی طرح کے نقصان کی ذمہ داری قبول کرنے سے سراسر انکار کرتا ہے۔ ہر معاشی نظام کے اندر کسی مخصوص شئے کی پیداواری لاگت اوراس کی بازاری قیمت ( شرح تبادلہ ) کا تعین مختلف عاملین پیداوار کو کی جانے والی ادائیگیوں پر منحصر ہوتا ہے،جن میں سرمایہ دار ایک ایسا عامل یا عنصر ہے، جو خدمت کے بغیر ہی پیداوار کے ایک حصے کا حق دار بن جاتا ہے بغیر اس بات کی پروا کیے کہ اس کے دیے ہوئے سرمائے سے پیداوار یا تجارت میں کوئی اضافہ بھی ہوا ہے یا نہیں۔ پیداوار اور تجارت میں راست خدمت اور نقصان میں کسی حصہ داری کے بغیر پیداوار کا ایک عنصر یعنی سرمایہ دار یکمشت اپنا طے شدہ حصہ لے لیتا ہے۔ اس طرح سودی نظام معیشت میں لاگت یا قیمت کےتعین میں وہ جز شامل کیا جاتاہے، جو کسی طرح بھی پیداوار کا حصہ نہیں ہوتا اور نہ کسی طرح سے وہ شئے کی افادیت میں اضافہ کا مؤجب بنتا ہے۔
معیشت میں پیداوار کی ہر سطح پر جہاں بھی سرمایہ دار نے اپنا مال لگا یاہے، یہی غیر حقیقی اور غیر متناسب جبری منافع، سود کی شکل میں شامل ہو کر قیمت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ یوں ایک ایسی شئے صارف کے پاس پہنچتی ہے، جس کی افادیت اور اصل قدر اس کی قیمت ِخریدسے بہت کم ہوتی ہے ، یا ایک صارف جتنی رقم ادا کرکے ایک مخصوص چیز اپنے فائدے کے لیے خریدتا ہے، اس میں شئےکی لاگت اور قیمت ِخرید اس کی افادیت سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح کلی، ملکی یا بین الاقوامی پیمانے پر ملکی دولت اورمعیشت میں پیداوار اور افادیت کے نام پر ایک بڑا اور قابل لحاظ حصہ ایسا شامل ہو جاتا ہے، جس کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہوتا، لیکن قیمت اور تبادلے کی ہر سطح پر وہ حصہ موجود ہوتا ہے۔ یہی اس ظلم ، عدم مساوات اور معاشی ناانصافی کی ابتدا ہے، جس میں دنیا کا ہرصارف جو مارکیٹ کی قیمت ادا کرتا ہے، اس سے کم افادیت حاصل کرتا ہے۔
کسی شئے کو کارخانے، زراعت یا کسی بھی دوسرے طریقے سے تیار کرتے وقت اس کی لاگت کا انحصار تیاری میں لگے مختلف پیداواری عناصر کو کی جانے والی ادائیگیوں پر ہوتا ہے۔ پیداوار کے مختلف مراحل کے دوران مختلف عناصر اوروسائل بلا واسطہ اپنی اپنی خدمات اور تعاون پیش کرتے ہیں اور اسی تعاون یا شرکت کے بقدر اپنی مزدوری یا حقِ خدمت لیتے ہیں، جس کا حاصل جمع ہی شئے مذکور کی پیداواری لاگت کہلاتا ہے۔ اسی پیداواری مرحلے میں سرمایہ دار اپنا سرمایہ بھی پیداوار کے لیے دیتا ہے لیکن پیداواری مراحل میں بلا واسطہ اپنی کوئی ذمہ داری ادا نہ کرکے اپنے دیے ہوئے سرمائے کا ایک خاص تناسب یکمشت حاصل کرتا ہے ، خواہ پیداوار میں اس تناسب سے اضافہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ دراصل سرمایہ استعمال کرنے کے بدلے یہی ادائیگی سود ہوتی ہے، جس میں سرمایہ دار اپنی کسی شراکت داری کےبغیر پیداوار میں نفع یا نقصان سے بے پرواہ ایک خاص رقم حاصل کر تا ہے۔ سود وہ جز ہوتا ہے جس کی ادائیگی توہوتی ہے لیکن اس کے بقدر قدر اور افادیت وصول نہیں ہوتی۔ اس طرح یہی چیز پوری دنیا میں ایک غیر حقیقی معیشت کو جنم اور فروغ دیتی ہے۔
اسلامی نظام تجارت و معیشت جب سود کو ظلم قرار دیتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سرمایہ دار سود کی رقم وصول کرتا ہے تو صارف یا قرض خواہ کو سود کے بقدر کسی طرح کی کوئی افادیت یا قدرحاصل نہیں ہوتی۔ دورِحاضر کی معیشت کا وجود سود کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا اور سود کی ادائیگی کی وجہ سے ہر سطح پر ایک غیر حقیقی اور غیر واقعی معاشی خلا پیدا ہوتا ہے، جس کی ادائیگی تو ہوتی ہے، لیکن ادائیگی کرنے والے کو اس کے بدلے میں متناسب افادیت حاصل نہیں ہوتی۔ معاشی عدل اور انصاف کا تقاضا ہے کہ کوئی انسان کسی بھی شئے یا خدمت کے لیے جتنامعاوضہ ادا کرتا ہے، اسی کے بقدر اسے افادیت بھی حاصل ہونی چاہیے، مگر سودی معیشت میں یہ ممکن نہیں ہےکیونکہ صارف جس قیمت کی ادائیگی کرتا ہے، اس میں سود کی ادائیگی شامل ہوتی ہے، جو پیداوار کی مختلف سطحوں پر لاگت کا حصہ بن کر قیمت میں شامل ہوتی رہتی ہے۔
مثال کے طور پر ایک کسان جب بنک سے ایک ہزار روپیہ قرض لے کر اپنے کھیت میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اسے زرعی شعبے میں پیداوار اور افزائش کی موجودہ شرح سے سال کے آخر میں زیادہ سے زیادہ ایک ہزار تیس روپیہ حاصل ہوسکتاہے، جب کہ اسے سال پوراہوجانے پر موجودہ ۱۰فی صد سالانہ شرح سود پر بنک کو گیارہ سو روپے ہر حالت میں واپس کرنے ہوں گے۔ اس صورت حال میں کسان کے پاس دو متبادل ہوتے ہیں، یا تو وہ ایک ہزار تیس روپے کی اپنی فصل کو بازار میں کم از کم گیارہ سو روپے میں فروخت کرے اور بنک کا قرض واپس کرے یا اگر وہ اپنی پیداوار کو گیارہ سو سے زیادہ قیمت پرفروخت کرنے کا اہل نہیں ہے تو باقی ستّر روپے وہ اپنا کھیت یا کوئی دوسرا اثاثہ بیچ کر بنک کو ادا کرے۔ پہلی صورت میں کسان اگر کسی صورت میں کامیاب بھی ہوجائے تو صارف کو ایک ہزار تیس روپے کی چیز کے لیے گیارہ سو روپے ادا کرنے ہوتے ہیں یعنی ایک عام آدمی (صارف ) ستّر روپے کی ایک ایسی فاضل ادائیگی کرتا ہے جس کے برابراس نے کوئی افادیت حاصل نہیں کی ہے۔
بنک کے ذریعے سرمایہ کاری اور سود پر مبنی معیشت میں ایسا ہونا بہت عام ہے کہ صنعت کار یا کوئی بھی دوسرا عامل جو کسی پیداواری حرکت میں لگا ہوا ہے، اسے ہرحال میں اپنا پروڈکٹ اس قیمت پر بازارمیں بیچنا ہے کہ وہ بنک کا سود اور اسی قبیل کی دوسری ادائیگیوں کو بہ آسانی ادا کر سکے، خواہ پیداوار کے دوران بازار کی اس قیمت کے برابر اس میں افادیت بھی پیدا ہوئی ہے یا نہیں؟ اس طرح ایک عام صارف اپنی کل ادائیگی کا ایک حصہ ایسا ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے جس کے برابر وہ کوئی افادیت حاصل نہیں کرتا۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ سودی معیشت میں افادیت کے حصول اور اس کے لیے کی جانے والی ادائیگیوں میں بڑا فرق پیداہو جاتاہے اور ایک عام صارف کا یہی سب سے بڑا استحصال ہے کہ وہ سود کی ادائیگی کے نام پر پیسے تو ادا کرتا ہے لیکن اس کے بقدر افادیت حاصل کرنے میں نا کام ہے۔
آج پوری دنیا معاشیات اور معاشی سرگرمیوں کے ایک ایسے گورکھ دھندے میں اُلجھ گئی ہے، جس میں ہر شخص صرف مادی فائدے کے حصول اور زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کی منصوبہ بندی میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے، لیکن زندگی کی ڈور ان معاشی مسائل میں اس قدر اُلجھ گئی ہے کہ اب اس کا سرا ہاتھ نہیں آرہا ہے۔ چندمخصوص انسانوں کی ساری دنیا کی دولت بٹور لینے کی ہوس اور اس کے لیے وسائل پیداوار و ذرائع آمدن پر انھی مخصوص ہاتھوں کی گرفت کو مضبوط تر کرنے کی گھٹیا کوششوں نے اس وقت دنیا کو معاشرتی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ پوری انسانیت کی معاشی قسمت اور رزق صرف چند زر پرستوں کےہاتھ میں یرغمال بن کر رہ گیاہے۔
عالمی معاشی نظام میں پیداوار کا سب سے اہم اور بنیاد ی عنصر سرمایہ ہے۔ سرمائے کی افزائش و ارتکاز ، سرمایہ اور سرمایہ کاری ، سود پر مبنی نظام پیداوار وتقسیم آمدنی، سود کے ذریعے ہی تمام مالیاتی سر گرمیوں کی وسعت، زر سے زر کی تجارت اور اس کے نتیجے میں سرمایہ داروں کے پاس دنیا بھر سے دولت وثروت کا کنٹرول ہے۔ یہ معاشی گرفت موجودہ معاشی عدم توازن اور بڑھتی ہوئی غربت کی بنیادی وجہ ہے۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں دنیا کی امیر اور غریب آبادی کے درمیان اوسط آمدنی کا فرق آج کے دور کے مقابلے میں بہت کم ہواکرتا تھا، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں تمام اشیائے خور و نوش اور آرائش و آسائش کی پیداوارصرف قدرتی ذرائع اور انسانی محنت پر منحصر تھی اورپیداواری عمل میں سرمایہ کی حصہ داری نہ ہونے کے برابر ہواکرتی تھی۔ بیش تر صنعت و حرفت نیز پیداوای عمل کا دارومدار صرف قدرتی ذرائع مثلاً زراعت، انسانی ہنرمندی، مویشی پروری اور چند معدنیات کی کاریگری پر تھا جس میں مختلف انسانوں یا گروہوں کے درمیان آمدنی کا فرق صرف انسانی محنت اور قدرتی ذرائع پیداوار کے فرق اور استعمال کی بنیاد پر تھا۔
صنعتی انقلاب کے بعد جب ذرائع پیداوار کا انحصار انسانی ہاتھوں اور مویشیوں کے بجائے جدید آلات اور مشینوں پر ہوگیا، اسی وقت سے ’سرمایہ‘ پیداوار کے نہ صرف اہم بلکہ اہم ترین وسیلہ کے طور پر منظر عام پر آیا، اور اسی کےبعد سے پیداوار کے ساتھ ساتھ تمام تر ذرائع پیداوار پر بھی چند مخصوص لوگوں ( سرمایہ داروں) کا قبضہ ہوتاچلا گیا۔ اسی سرمایہ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیداوار اور منافع کے لیے ارتکازِ سرمائے کی تگ و دو نے سودی نظام مالیات پر مبنی بنکوں کا جال پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سودی سرمائے کی آسان تر دستیابی نے سرمایہ دارانہ پیداواری نظام کو آسان اور کثیر پیداوار کے لیے ایک متبادل کے طور پر پوری دنیا میں رائج کردیا۔ جس کے نتیجے میں سرمایہ دار اور مالکانِ تجارت کے پاس پیداوار ، آمدنی اور دولت کا ارتکاز ہونا شروع ہو گیا۔ امیر و غریب ممالک کی فی کس آمدنی کا فرق جو صنعتی انقلاب کے ابتدائی دور۱۸۲۰ء میں صرف پانچ اور ایک ( ۵:۱) کا ہواکرتا تھا، وہ بڑھتے بڑھتے چھیاسی اور ایک (۸۶:۱) کا ہوگیا۷، اور موجودہ وقت میں تواس تفاوت کااندازہ بھی نہیں لگا یا جا سکتا۔ امیر و غریب کے بیچ کی یہ خلیج لگا تار وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ عالمی ماہرین شماریات ،اعداد و شمار کے اَن گنت حوالے دیتے ہیں کہ اس وقت عالمی دولت کا ۷۵ فی صد حصہ صرف ایک فی صدامیر ترین لوگوں کے قبضے میں ہے ، یا فلاں ملک کے چند امیر ترین لوگوں کے پاس پوری دنیا کی دولت کا ۵۰ یا ۶۰ فی صد حصہ ہے۔ اسی سے ملتے جلتے حقائق ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کو پیش کرنے کا مقصد صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ سودی مالیاتی نظام نے ہماری روز مرہ کی ضروریات اور اشیا کی پیداوار میں کتنا اہم مقام حاصل کرلیا ہے، کیونکہ یہ ساری پیداوار، آمدنی اوراس میں سال در سال مضروبی اضافہ صرف اور صرف سرمائے کے ارتکاز اور سودی نظام مالیات کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا ہے، جو دولت مند کو مزید دولت بٹورنے کے لیے حوصلہ افزا ماحول مہیا کرتا ہے اور غریبوں کی غربت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ پیداوار کے روایتی وسائل، زراعت و باغبانی ، پیشہ ور ہنر مند افراد اور چھوٹی موٹی صنعتوں کی ملکی آمدنی و پیداوار میں حصہ داری مسلسل کم ہورہی ہے یا یہ ذرائع ہی بازار سے دھیرے دھیرے منظر سے غائب ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی جگہ بڑی اور کثیر قومی کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہوتی جارہی ہے، جو اپنے کثیرسرمائے اور تکنیک کے بل پر وسائل ، پیداوار اور بازار کے بڑے حصے پر قابض ہو جاتی ہیں اور بلا کسی مقابلہ یامسابقت بازار میں قیمت ، حصہ داری اور من چاہے منافع کا تعین اَز خود کرتی ہیں۔
حیاتیاتی سائنس دانوں کا مانناہے کہ عام انسانوں کی ذہنی استعداد اور جسمانی صلاحیت میں زیادہ سے زیادہ ایک اور تین کا فرق ہو سکتا ہے۸، لیکن ان کی دولت اور آمدنی کا فرق سو گنا اور ہزار گنا سے بھی زیادہ ہے۔ آمدنی کا یہ فرق صلاحیت اور استعداد کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے ذرائع پیداوار کی جائز آمدنی ہڑپ کرنے اور سرمایہ کے علاوہ مزدور اور دیگر وسائلِ پیداوار کو ان کی شمولیت کے بقدر حصہ نہ دینے کی وجہ سے ہے۔ اسی ارتکازِ دولت کی وجہ سے پوری دنیا میں غریب اور افلاس زدہ افراد کی تعداد لگاتار بڑھتی جارہی ہے۔ غذائی اجناس اور دیگر ضروریات زندگی وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود وہ عوام کی پہنچ سے لگا تار دور ہوتی جارہی ہیں۔
اس وقت پوری دنیا کی معیشت بشمول تمام مسلم ممالک، اسی سودی نظامِ مالیات اور سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے جال میں جکڑی ہوئی ہے۔ دُنیا کے وسیع تر ذرائع ابلاغ پر انھی سرمایہ داروں کاقبضہ ہے، جو لگاتار موجودہ استعماری و استبدادی نظام سیاست و معیشت کو عوام کے لیے مفید تر ثابت کرنے میں دن رات ایک کیے دے رہے ہیں، جب کہ اس نظام کے تحت بڑھتی ہوئی غربت اور ارتکازِ وسائل و دولت کے خلاف بلند ہونےوالی آواز بہت کمزور اور سست ہے۔
سودی نظام مالیات اور سرمایہ دارانہ معیشت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور اس گٹھ جوڑ پر مبنی معاشی نظام نے جس غیر متناسب قیمت اور لامحدود منافع خوری کی بنیاد پر موجودہ عالمی نظامِ معیشت کو کھڑا کیا ہے، وہ ابتدا ہی سے بنیادی طور پر عوامی مصالح کے لیے نامعقول و غیر مقبول، کمزور طبقات کے معاشی وسماجی استحصال کا وسیلہ اور معاشرے کی اخلاقی اقدار کے منافی مانا جاتا رہا ہے۔
ایک زمانے میں سود خور ساہو کار کے ظلم اور استحصال کو بیان کرتی کہانیاں ہر قوم اور زبان کے ادب کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ معاشرے میں سود پر مبنی قرض کو ہمیشہ ظلم اور ذلت کے تناظر میں دیکھا جاتا رہا ہے اور اسے بُرا کہنے اور برا سمجھنے والے ہر زمانے ، قوم اور مذہب میں موجود رہے ہیں۔ مگر اب اس بات کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ان معاشرتی خرابیوں کے علی الرغم معاشی ترقی ، صنعتی انقلاب ، پیداوار کی کثرت ،لامحدود منافع خوری اور وسائل پیداوار و آمدنی پر قبضے کی ہوس نے ایک ایسے صنعتی معاشرے کو جنم دیا ہے، جس نے ہر تجارتی، کاروباری اور معاشی سرگرمی کو سود سے منسلک کردیا ہے اور اس میں سود اور اس کی بنیاد پر جاری ہرطرح کی معاشی سر گرمی کے پھلنے پھولنے کے وافر اسباب مہیا کیے ہیں، جس کے نتیجے میں ساہو کاروں اور صنعت کاروں کا ایک چھوٹا لیکن با اثر طبقہ اس استحصالی نظام کی موافقت میں اور اسے انسانی معاشرے کے لیے مفید ترثابت کرنے کے لیے ایک سازگار ماحول تیار کرنے میں ہمیشہ لگا رہا ہے۔
سرمایہ داروں کا یہ مخصوص طبقہ اپنے تخلیق کردہ معاشی نظام کو کامیاب بنانے کے لیے پوری دنیا میں سر گرمِ عمل ہے اور بظاہر اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہے، حالانکہ اس پورے مالی و معاشی نظام نے جہاں دنیا میں صرف چند مخصوص لوگوں کی تجوریوں میں مال و دولت کے انبار لگا دیئے ہیں،وہیں اس نظام نے عالمی غربت و افلاس میں بھی بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ آمدنی کی غیرمتناسب تقسیم اور دولت کے عمودی ارتکاز کی وجہ سے اس نظام کی دیواریں لگاتار متزلزل ہوتی جارہی ہیں جسے بار بار بیرونی سہاروں اور حکومتی امداد کے بل پر کھڑا کیا جاتا رہا ہے۔
دیکھا جائے تو سود اور سودی قرضوں کی ابتدا انسانی تمدن میں بہت پہلے شروع ہو گئی تھی۔ اسی لیے سودی لین دین کو دنیا کے قدیم ترین پیشے میں شمار کیا جاتا ہے، اگرچہ ہر زمانے کی مذہبی تعلیمات میں اس کی پُرزور نفی اور اس سے پنپنے والی سماجی و اخلاقی خرابیوں کا ذکر بھی تواتر کےساتھ موجود ہے، لیکن اس کے باوجود یہ کاروبار لگاتار پھلتا پھولتا رہا ہے۔ روایتی طور پر سود کا کاروبار معاشرے میں انفرادی بنیاد پر ہی رائج تھا، جس میں ساہو کار ہر قرض خواہ کے ساتھ اس کی ضرورت اور قرض واپسی کےامکانات کے مطابق الگ الگ معاہدہ اور معاملات طے کرتا تھا۔
بنکوں ، بیمہ کمپنیوں اور دیگر مالیاتی اداروں پر مشتمل ایک مربوط سودی مالیاتی نظام، جو ایک طرف عوام کو لگاتار زیادہ سے زیادہ پیسےبچانے کی ترغیب دیتا ہے ، بنکوں اور بیمہ کمپنیوں کے ذریعے اسی بچت کو متحرک کرکے سرمایے میں بدلتا ہے اور پھر وہی سرمایہ عوام کو آسان اور اجتماعی قرض کی سہولت کے نام سے اونچی شرح سود پر لینے کی ترغیب بھی دیتاہے۔ یوں سود کے لالچ میں زیادہ سے زیادہ پیسہ بچاکر بنک میں رکھنے اور پھر اپنی ہی ضروریات کے لیے سود پراسی بنک سے قرض لینے کا ایک ایسا ’شیطانی چکر‘ وجود میں آتا ہے، جو انسانی ضرورت اور معاشی حرکت کو صرف سود اور شرح سود سے منسلک کر دیتا ہے۔ وہی شرح سود معاشرے میں ہرمعاشی فیصلے کی بنیاد قرار پاتی ہے۔ سود کی بنیاد پر ماہانہ خرچ کا تعین ، اسی پر منافع کا تعین، تجارت کے لین دین اور تاجرانہ وصولی کانظام الاوقات بھی شرح سود کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ گویا کہ اس وقت تجارت و معیشت کی دنیا بالواسطہ یا بلاواسطہ سود اور شرح سود کے ہی ارد گرد گھوم رہی ہے اور ہرانسان جانے انجانے اس نظام سے متاثر ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا میں بڑے پیمانے پر سودی بنکوں کا فروغ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں یورپ میں شروع ہوا جس میں بڑی صنعتوں و پیداواری مراکز کے لیے کثیرمقدار میں سرمایے کی فراہمی طے شدہ شرح سود پر انھی تجارتی بنکوں کے ذریعے ممکن ہو سکی۔ اب حالت یہ ہے کہ موجودہ وقت میں ہر طرح کی معاشی حرکت بشمول پیداواری لاگت، منافع اور بازاری قیمت کا تعین، صارف کی قوت خرید، بازار میں زر ، اشیا و خدمات کی رسد ، نئی معاشی سرگرمیاں اور اس کے ممکنہ امکانات، زر کی قیمت کا تعین ( Time value of money )،غرض یہ کہ ہرایک معاشی سرگرمی اور فیصلے کا انحصار شرح سود اور اس کی ممکنہ شرح تبدیلی پر ہی منحصر ہے۔سود کی بنیاد پر پیداواری لاگت اور ممکنہ منافع کی شرح طے کی جاتی ہے۔ اسی کی بنیاد پر بازار حصص میں اُتارچڑھاؤ دیکھنے میں آتا ہے۔ کسی بھی صنعتی تیاری یا تجارتی سرمایہ کاری میں فیصلے کا دارومدار یا مستقبل کےاستحکام یا غیر مستحکم ہونا بھی شرح سود کے استحکام پر ہی منحصر ہے۔
معاشیات میں سرمایہ دارانہ نظریات اور اس کے بنیادی خد و خال کو ایک اجتماعی نظام کی شکل دینے کی ابتدا ایڈم اسمتھ ( Adam Smith )اور اس کے معاونین و معتقدین کی حکومت کی معاشی سر گرمیوں میں عدم مداخلت کے فلسفے کے تحت ہوئی ۹ ، جس کا بنیادی نظریہ ہے کہ پیداوار، منافع، قیمتوں کا تعین اور وسائل پیداوار کوملنے والی اُجرت کا تعین بغیر کسی سرکاری مداخلت کے سرمایہ دار، صنعت کار اور تاجر بازار کی طلب و رسد اورذاتی مفادات کی بنیاد پر خود کریں گے۔ یوں ایک لامحدود منافع خوری اور مزدوروں و دیگر وسائل پیداوار کی اُجرت کی غیرعادلانہ اور غیر منصفانہ تقسیم کی بندربانٹ صنعت کار اور سرمایہ دار کے درمیان شروع ہوگئی ، جس کی من مانی حدود کا تعین خود کرنے کے لیے بہت خوب صورتی سے حکومت کو اس معاشی نظام سے باہر کر دیا گیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کی وسعت و عوامی مقبولیت کا جواز بھی اسی غیر اخلاقی نظریے پر ہے کہ ہرمعاشی سرگرمی کا انحصار ذاتی مفاد ، منافع اور سود پر ہے، جس میں کسی اخلاقی و غیر اخلاقی جواز یا عدم جواز اور کسی اجتماعی، انفرادی یا سماجی نقصان اور فائدے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایڈم اسمتھ کےبعد دوسرے ماہرین معاشیات نے بھی حکومتی عدم مداخلت کے اس نظریے کی حمایت اور پورے پیداواری و معاشی نظام کو معاشرتی اخلاقیات کی حدودسے باہر رکھنے کی پُرزور و کالت کی، تاکہ لامحدود منافع خوری اور سودی سرمائے کو بلا کسی سرکاری یا اخلاقی قدغن کے مزید استحکام حاصل ہوسکے۔
معاشی سر گرمیوں میں حکومت کی ضروری مداخلت اور پورے نظام کے لیے حکومت کی نگرانی کی وکالت ۱۹۳۰ء کی عظیم معاشی کساد بازاری اور روزگار و پیداوار میں لامتناہی گراوٹ کے بعد جے ایم کینز( JM Keynes ) نے کی ، اور ۱۹۳۶ء میں Generals Theory of Employment Interest and Money میں واضح کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر بھی معاشی نظام پیداوار و روزگار کو مستحکم رکھنے ،بنکوں و دیگر مالیاتی اداروں کے ذریعے معیشت میں زر کی غیر ضروری رسد کو روکنے اور اسے اپنی معینہ حدود میں رکھنے، نیز صنعت و حرفت، پیداوار اور اشیا و خدمات کو معاشرے کے ہر فرد تک منصفانہ طریقے سے پہنچانے کے لیے معاشی سرگرمیوں میں حکومت کی مداخلت و متناسب شمولیت از بس ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ حکومت کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ ٹیکس اورسرکاری واجبات کے ذریعے معیشت میں عدم توازن کو ممکنہ حد تک قابو میں رکھے۔
لیکن ساری احتیاط اور قانون سازی کے باوجود پوری دنیا کی معیشت پر افراط زر کا غیرمعمولی دباؤ ، معیشت میں پیداواری تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے زر کی بڑھتی ہوئی رسد ، غربت و بے روزگاری میں اضافہ اور عمومی معاشی عدم استحکام ایک عام معاشی وبا کی شکل میں جاری ہے، جسے قابو کرنے کے لیے حکومتیں بار بار شرح سود میں تبدیلی کے ذریعے زر کی طلب و رسد میں استحکام لانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن معاشی عدم استحکام کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے۔
اس طرح سرمایہ دارانہ نظام اپنی ابتدا ہی سے لگاتار زر کی غیر ضروری رسد سے پیداشدہ اندرونی دباؤ اور اسے قابو کرنے اور معیشت کو پٹری پر رکھنے کے لیے ضروری قرضوں، امداد اور سرکاری مداخلت کے سہارے ہی چل رہا ہے۔ اس کے باوجود ہر ۱۰،۲۰سال کے بعد پوری دنیا میں ایک معاشی بھونچال آ جاتا ہے جس میں عوام کی کمائی کے اربوں کھربوں روپے بازار حصص کے اُتار چڑھاؤ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اس کےبعد اس نظام کی حامل حکومتیں اور بین الاقوامی ادارے مصنوعی کرنسی ، بیل آؤٹ پیکج ، سہل قرضہ جات کی شکل میں مراعات و دیگر ذرائع سے معیشت میں زر کی رسد بڑھا کر اسے سہارا دینے کے لیے میدان میں آجاتے ہیں۔
جب سے کثیر سرمائے اور سود کی بنیاد پر بڑی تجارتی سرگرمیاں شروع ہوئیں، نیز ان کے فروغ کے لیے تجارتی بنک، اسٹاک ایکسچینج ، رہن بازار ( Mortgage Market) یا تمسکات بازار (Bond Market) جیسی مختلف سودی تجارتی اقسام و گنجلک اصطلاحات، ان کے لیے آسان شرائط پرسودی قرضوں کی حوصلہ افزائی اور عوام کی قوت خرید کو بڑھانے کے لیے معیشت میں زر کی رسد بڑھانے کی کوششیں شروع ہوئی ہیں، معاشی اتھل پتھل، پیداوار کی تقسیم میں عدم توازن، دولت و ثروت کا چند مخصوص افرادکے درمیان غیر معمولی ارتکاز اور اس کے نتیجے میں غیر معمولی سماجی و معاشی عدم توازن اور عدم استحکام پوری دنیا میں لگاتار بڑھتا جارہا ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے ان مسائل کی بنیادی وجوہ اور اس موضوع پر مثبت بحث سے ہمیشہ گریز کیا ہے، جب کہ معاشی کسادبازاری، بازار کا عدم استحکام اور عدم توازن عالمی پیمانے پر وقفہ وقفہ سے لگاتار جاری ہے۔
جنگ عظیم دوم سے پہلے ۱۹۳۰ء کے عشرے کی عالمی معاشی گراوٹ،اس کے بعد جنگ عظیم کی تباہ کاریاں، ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی مشہور زمانہ معاشی کسادبازاری، افراط زر کے ساتھ بے روزگاری کی اُونچی شرح جسے Stagflation کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی بنیادی وجہ تو عرب اور اوپیک ممالک کا معدنی تیل کی رسد پر روک تھی، لیکن اس کی وجہ سے مالیات اور معیشت میں گراوٹ پوری دنیا میں محسوس کی گئی اور اس نے پوری ترقی یافتہ دنیا بشمول امریکا، لاطینی امریکا اور برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
۱۹۸۰ء کے عشرے میں اشتراکیت اوراشتراکی نظام معیشت کا زوال ، ۱۹۹۰ء سے عالم گیریت اور نجکاری کی تحریکیں، جس کے ذریعے ترقی پذیر ممالک پرکثیر قومی کمپنیوں کی اجارہ داری کو یقینی بنانا، اور پھر ۲۰۰۸ء میں امریکا کے کچھ بڑے بنکوں کا دیوالیہ ہوجانا، وغیرہ ان سب معاشی تیزی ،سستی ، مندی اور زوال کی بنیادی وجہ یہی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے جارحانہ پھیلاؤ کی منصوبہ بندی رہی ہے۔ بنکوں کے ذریعے معیشت میں قرضوں کاغیر ضروری و غیر متناسب پھیلاؤ، منافع بڑھانے اور عوام کو سودی قرضوں کی رغبت دلانے والی اسکیمیں اورنتیجے میں زر کی رسد کے غیر معمولی طور پر بڑھ جانے سے افراط زر اور معاشی سستی و عدم استحکام کے ذریعے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کی معیشتوں میں قرض، سود اور افراط زر کا یہ کھیل وقفہ وقفہ سے جاری ہے۔
اشتراکی نظام معیشت کے زمیں دوز ہو جانے کے بعد عالم گیریت، نجکاری اور آزادانہ معیشت کے فروغ کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام پوری قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے، جس کے ذریعے دنیا کی نامور کمپنیوں اور تجارتی اداروں نے کثیر سرمایے اور جدید ٹکنالوجی کی بدولت ترقی پذیر ممالک میں پیداوار اور مالیات کے شعبے میں اپنے قدم جمالیے۔ پوری دنیا میں یک قطبی سرمایہ دارانہ نظام کی وسعت اور اسے دنیا کے غریب اور معاشی طور پر کمزور ممالک میں جبری نفاذ کو یقینی بنانے میں بین الاقوامی اداروں خاص کر عالمی بنک(WB)، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور عالمی تجارت تنظیم (WTO) نے بھر پور کوشش کی تاکہ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے وسیع بازار کو کثیر قومی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے لیے بغیر کسی داخلی یا خارجی رکاوٹ کے کھول دیا جائے۔
اس وقت سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو چیلنج کرنے اور کوئی دوسرا مستحکم و متبادل نظام معیشت پیش کرنے سے دنیا عاجز نظر آرہی ہے۔اگرچہ اس نظام نے پوری دنیا کی دولت کو چند مخصوص لوگوں کی جھولی میں ڈال کر دنیا کی کثیر آبادی کو غربت و افلاس کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے اور ارتکازِ دولت و سرمایہ کا یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے۔ اس نظام میں جتنی سہولت سے وافر مقدار میں پیداواری سرمایہ مہیا ہوجاتا ہے، اتنی ہی تیزی سے عوام کی آمدنی اور دولت بھی سرمایہ دار کی جھولی میں گرتی چلی جاتی ہے اور عوامی غربت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
سب سے زیادہ مستحکم اور تقسیم دولت کے لحاظ سے ایک منصفانہ نظام معیشت اسی وقت ممکن ہے، جب شرح سود کو صفر کردیا جائے، لیکن سود کے ذریعے اربوں کھربوں کا سرمایہ اکٹھاکرنے والے سرمایہ دار، بنک اور صنعت کار جنھوں نے اس پورے معاشی نظام کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے ، اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کی ساری دولت کا انحصار سود اور سودی نظام مالیات پر ہے۔ دنیا کی بیش تر آبادی اسی نظام کی وجہ سے معاشی و مالیاتی استحصال کا شکار ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ متبادل پیش کرنے اوراسے بطور نظام اپنانے کو ایک پس و پیش برقرار ہے۔
آج کی دنیا نے اب تک معاشیات اور تقسیمِ دولت و پیداوار کے نظام کے نام پر ایک دوسرے کے متضاد دو نظامہائے معیشت کا تجربہ کیا ہے اور دونوں ہی نظام دنیا کی معاشی بدحالی کو ختم کرنے اور دولت و پیداوار کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے میں یکسر نا کام ثابت ہوئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی خد و خال ، طبقاتی تصادم ( طبقاتی جد وجہد ) اور دولت کے ناگزیر ارتکاز کی وجہ سے یہ نظام لگاتارنسل انسانی کے لیے بوجھ ہی ثابت ہوا ہے۔
اس کے متبادل کے طور پر کارل مارکس کے اشتراکی نظریات پر مبنی ایک نیا نظام معیشت بیسویں صدی کے اوائل میں اشتراکی روس اور کچھ عرصے بعد اس کے ہمنوا مشرقی یورپ اور کچھ دیگر ممالک کے اندر نافذ کیا گیا ، جس نے پورے معاشی و سماجی نظام سے انفرادی ملکیت، وراثت اور جائیداد کے حقوق اور فیصلوں میں شخصی آزادی کے تصور کو ختم کردیا۔ سارے وسائل ، پیداوار اور دولت کوسرکاری ملکیت میں سونپ کر ایک اجتماعی منصفانہ نظام برپا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ لیکن اس جبری اور غیرفطری نظام کی اندرونی کمزوریوں کے ساتھ نظریۂ اشتراکیت و سرمایہ دارانہ نظام کی باہمی چپقلش و منافرت کے سبب یہ نظام اپنی ابتدا کے محض ستّرسال کے اندرسوویت روس کے بکھرنے کے ساتھ ہی زمیں بوس ہوگیا، اور دنیا کی معیشت دوبارہ،پہلے سے بڑھ کر ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں جکڑی گئی۔
دُنیا نظامِ سرمایہ کے متبادل کے طور پر صرف اسلام کے نظام معیشت و مالیات کی طرف پُرامید نظروں سے دیکھ رہی ہے کہ موجودہ سودی نظام میں وسائل پیداوار کا یک رُخا بہاؤ اور دولت کے غیر متناسب ارتکاز کا واحد متبادل حل صرف ایک غیرسودی نظام معیشت میں ہی ممکن ہے۔ اسلام میں سود کی حُرمت کی معقولیت کا جواز اور سود کا معاشرے پر پڑنے والے اثراتِ بد کا جتنا واضح ثبوت اس وقت دنیا دیکھ رہی ہے، ماضی میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ سودی نظام کی وجہ سے انفرادی و اجتماعی سطح پر معاشرتی ظلم و استحصال جتنا واضح، اور حقیقی موجودہ دور میں لگ رہا ہے، اس کی حقیقت پچھلے زمانوں میں شاید اتنے کھلے طور پر لوگوں کے سامنے نہ آئی ہو۔ موجودہ دور میں اسلامی معاشیات کے عملی پہلو کے بجائے زیادہ تر کام صرف نظریاتی سطح کا ہی ہو رہا ہے۔ ہمارے محققین نے قدیم و جدید فقہا کے معاشیاتی نظریات و تحقیقات کو منظر عام پر لانے کا کام کیا ہے، جب کہ جدید معاشی مسائل کو جواز کی حد تک اسلامی نظریات کے تابع ہی قبول کیا ہے۔
اسلامی معاشیات ایک مکمل ضابطہ ہے اور اسے مکمل نظام کے طور پر ہی نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت اسلامی معاشیات کے نام پر جس طرح جدید مالیاتی نظام کا ایک متبادل اسلامی نام کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش ہورہی ہے، وہ ایک مکمل اسلامی ضابطے کے بغیر نافذالعمل نہیں ہوسکتی۔ اسلامی بنکنگ، اسلامی انشورنس، اسلامی بانڈز، بازار حصص اور اسٹاک ایکسچینج جیسے جدید معاشی اور مالی معاملات جو سود کے ساتھ جوئے اور سٹے کے غالب عوامل پر مشتمل ہوتے ہیں، جن کی گنجایش اسلام میں مشکل سے ہی نکل سکتی ہے، اور یہ سارے عوامل اسلام کے مکمل ضابطے کے بجائے صرف ایک متبادل کے طور پر نافذ العمل ہیں، جن کا منبع اور ماخذ جدید سودی بنکاری نظام ہی ہے۔
سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے اندر مجموعی معاشی مدوجزر تواتر کے ساتھ آتےہیں جو کہ پورے نظام معیشت کے لیے ایک نا پائیداری، قیمتوں کے غیر یقینی اتار چڑھاؤ اور شرح منافع میں غیر متوقع کمی کا سبب بنتے ہیں۔ معاشی ناپائیداری سے نجات کے لیے غیرسودی نظام مالیات ہی سب سے بہترین حل ہے، جس میں پیداوار کے وہ عوامل منظر سے غائب ہو جاتے ہیں، جن کی پیداوار کے عمل میں راست حصہ داری نہیں ہوتی۔ اسلامی نظام معیشت درحقیقت غیر سودی بنکاری سےبہت اوپر کی چیز ہے جس کے لیے اسلامی ممالک اور تجارتی اداروں کو غیر ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے تمام تجارتی اور غیر تجارتی لین دین بھی اپنی شرائط اور سود و جوئے کے بغیر کرنا ہوگا، جس کے لیے یہ ممالک ابھی ذہنی اور عملی سطح پر تیارنہیں ہیں۔ (مکمل)
حوالہ جات
7. OECD (2021) How Was Life? Vol.II, New Perspectives on Well being and Global Inequality since 1820, OECD Publishing, Paris. www.oecd-library.org/sites
8. PA Samuelson and WD Nordhaus, (1989) Capital Interest and Profit in Economics, McGraw Hill international, 13th ed, pp 717-720.
9 Adam Smith (1776). An Inquiry into the Nature and Causes of Wealth of Nations, Vol I (1 ed) London: W. Strahan, Retrieved 7 December 2012, Vol II. Via Google Books.
کشمیر کی جنت نظیر وادی اپنی بے پناہ خوب صورتی کے نیچے کئی المیوں کو چھپائے ہوئے ہے۔ انسانی مصائب، منظم ظلم و جور اور بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی، اس خطے کی پہچان بن چکے ہیں، اور اس ہر دم بڑھتے ہوئے بحران کی بازگشت بین الاقوامی برادری کے درمیان فقط سرگوشیوں کی صورت سنائی دے رہی ہے۔
کشمیریوں سے دُنیا کی لاتعلقی پریشان کن ہے کیونکہ اس سے بین الاقوامی امن اور استحکام براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری اس تنازعے کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے جو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہی قائم کیے گئے تھے، ایک طرف ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل (AI)کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار صورت حال کی بھیانک منظر کشی کرتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک ۸ہزارکشمیری جبری طور پر لاپتا،جب کہ ۶۰ ہزار سے زائد ریاستی حراست میں یا کوچہ و بازار کے اندر شہید کیے جا چکے ہیں۔ ان خوفناک اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے بھی بین الاقوامی برادری کا ردعمل گونگے، بہرے اور اندھوں جیسا ہے۔
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں عالمی طاقتوں کی بے حسی تلے دب کر فراموش ہو چکی ہیں۔ ان میں قرارداد نمبر ۴۷ بھی شامل ہے، جو کشمیر میں استصواب رائے کو ضروری قرار دیتی ہے۔ حق خودارادیت بنیادی انسانی حقوق کااہم ترین جزو ہے اور اس کے بغیر ایک پُرامن، منصفانہ اور جمہوری اصولوں پر مبنی عالمی نظام کا قیام ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ اصول کشمیریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت کا فیصلہ خود کریں اوراسی کے مطابق اپنی سماجی، معاشی اور ثقافتی بہبود کے لیے کام سرانجام دیں۔
گذشتہ کئی عشروں سے یہ جنت ارضی، کشمیریوں کی نسل کشی، جبری قبضے اور زبردستی آبادکاری جیسے مسائل کو برداشت کر رہی ہے، جو دنیا کی اخلاقی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ گذشتہ کچھ مہینوں سے صورتِ حال مزید خراب ہو چکی ہے۔ بھارتی حکومت کشمیریوں کو معاشی طور پر بے دست و پا کرنے اور ان کی آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے لوگوں کے گھر، کاروبار اور کھیت کھلیان تباہ کر رہی ہے۔ خطے کی آبادیاتی ہئیت کو بدلنے کے لیے کی جانے والی یہ کوششیں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ کشیدگی میں اضافے کا بھی باعث ہیں۔ ان وجوہ سے دنیا میں کشمیریوں کا احساسِ تنہائی بڑھ رہا ہے۔
من مرضی کی گرفتاریاں اور ریاستی تشدد کشمیریوں کے لیے ایک جیتی جاگتی حقیقت ہیں۔ ۲۰۲۰ء کی سالانہ رپورٹ میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے ان مظالم پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان اقدامات کے لیے اکثر متنازعہ قسم کے قوانین کو بنیاد بنایا جاتا ہے، مثلاً قانون تحفظ عوامی یا قانون اختیاراتِ خصوصی برائے مسلح افواج۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکڑوں لوگ اس ظالمانہ قانون کے تحت گرفتار ہیں، جو بغیر مقدمے کے دو سال تک لوگوں کو قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ اور ’اقوام متحدہ کمیشن برائے انسانی حقوق‘ (UNCHR) نے ان منظم ناانصافیوں، طاقت کے ناروا استعمال اور ظلم کو تفصیل سے لکھا ہے۔ لیکن اس پیچیدہ صورتِ حال کی سنگینی کا مکمل ادراک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بحران کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی تصور کے پس منظر میں دیکھا جائے۔ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف ایک علاقائی تنازع نہیں ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ایک بدترین مسئلہ ہے جو بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے لیے بھی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا ایسے سنگین مسئلے کو اتنی لا پروائی اور سنگ دلی سے نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ضابطوں کی ساکھ تب ہی قائم رہ سکتی ہے، جب وہ اس قسم کے بحرانوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے نظر آئیں۔
دنیا کے دیگر علاقائی مسائل پر عالمی برادری کے ردعمل کو دیکھا جائے تو کشمیر سے ان کا صرفِ نظر کرنا اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ مثلاً بوسنیا، مشرقی تیمور اور سوڈان میں اہداف حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کا طرز عمل بالکل مختلف رہا ہے۔ ۹۰ کے عشرے کے وسط میں بوسنیائی جنگ میں تقریباً ایک لاکھ لوگ ہلاک اور۲۲ لاکھ بے گھر ہوئے تھے۔ بین الاقوامی برادری نے فیصلہ کن طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے دخل اندازی کی اور ۱۴دسمبر ۱۹۹۵ء کو ’معاہدہ ڈیٹن‘ عمل میں آیا، جس سے امن بحال ہوا۔
اسی طرح ۹۰ کے عشرے کے آخر میں مشرقی تیمور کی زندگی بھی کشت و خوں سے عبارت تھی، جس میں ملک کی تقریباً ربع آبادی رزقِ خاک بن گئی۔ تاہم، اقوام متحدہ کی سربراہی میں شدید بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں آخر مشرقی تیمور کو آزادی مل گئی۔ سوڈان کی تقسیم اور جنوبی سوڈان کے قیام کے لیے بھی بین الاقوامی برادری خصوصاً افریقا متحدہ اور اقوام متحدہ نے اہم کردار ادا کیا اور اس ملک کو خانہ جنگی سے بچایا۔
اس کے برعکس، اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں اور بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود کشمیر کے مسئلہ پر بین الاقوامی ردعمل بھیانک خاموشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بین الاقوامی برادری کا یہ متضاد رویہ یہاں بہت واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔بوسنیا، مشرقی تیمور اور سوڈان کے معاملے میں جو تحریک، اتحاد اور عزم ہم نے دیکھا تھا وہ کشمیر کے معاملے میں سرے سے ناپید ہے۔
کشمیر کے متعلق دنیا کا مایوس کن رویہ اس کے دوہرے معیارات کی نشان دہی کرتا ہے۔ مغرب جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا رکھوالا قرار دیتا ہے، کشمیر کے مسئلے پر مکمل خاموش ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے لیے سیاسی اور معاشی مفادات کشمیریوں کے بنیادی حقوق سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں؟
اس وقت اشد ضرورت ہے کہ دنیا کے طاقت ور ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے میدان میں آئیں۔ خصوصاً انگلستان تاریخی طور پر بھی اس مسئلے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس بحران کا آغاز ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی غیرمتوازن تقسیم سے ہوا تھا جو برطانیہ کے ماتحت ہوئی تھی۔ اس وقت دوراندیشی اور منصوبہ بندی کے مجرمانہ فقدان سے ہی بعد میں یہ سرحدی تنازع پیدا ہوا۔ جس کے نتیجے میں برطانیہ کی اخلاقی اور تاریخی طور پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔
بین الاقوامی تنظیموں اور خاص طور پر اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنی رائے منوانے کے لیے مزید ثابت قدم ہونے کی ضرورت ہے۔ کشمیر سے متعلق ان کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بننے والے ان اداروں کے متعلق شدید شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے عالمی اجلاس منعقدہ ۲۰۰۵ء میں ہونے والے معاہدہ’حق دفاع‘ کے مطابق یہ ادارہ اس بات کا پابند ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو نسل کشی، قتل عام اور دیگر جنگی جرائم کے خلاف تحفظ مہیا کرے۔
اس معاہدے کی تیسری شق کے مطابق ’’ اگر ایک ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے، تو انھیں تحفظ فراہم کرنا بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے‘‘۔ اس سے ان جرائم کے خلاف بین الاقوامی کوششوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اگر یہ ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسی طرح بت بنے دیکھتے رہیں، تو ان کی رہی سہی ساکھ بھی خطرے میں پڑجائے گی۔
کشمیر کا بحران ایک انسانی بحران ہے، جو فوراً بین الاقوامی توجہ کا متقاضی ہے۔ دنیا کی خاموشی اس مسئلے سے ناواقفیت کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ خاموشی بھارت کو اپنے اقدامات کے لیے جواز مہیا کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کو اب اپنا سکوت توڑ کر اس مسئلے کے حل کے لیے عملی کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ بحران اتنا شدید ہے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے خانہ پُری کے طور پر کی جانے والی کوششوں سے حل نہیں ہو گا۔ اب عملی اور فیصلہ کن کوششوں کا وقت ہے، جن کے لیے انصاف اور امن کے اصولوں کو رہنما بنایا جائے، تا کہ دنیا کے اخلاقی معیارات پر مزید زد نہ پڑے۔ امن کا سفر چاہے طویل ہو لیکن اس کا آغاز ابھی سے ہو جانا چاہیے۔ (ترجمہ: اطہر رسول حیدر)
مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتِ حال دُنیابھر کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ انسانی حقوق کے ممتاز علَم بردار خرم پرویز کو ایک من گھڑت مقدمے میں بھارتی حکام نے نومبر۲۰۲۱ء کو سری نگر سے گرفتار کیا۔ ان کی گرفتاری پر پوری دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے حساس طبقوں نے زبردست احتجاج کیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور پروفیسر نوم چومسکی جیسے عالمی شہرت یافتہ اسکالر مسلسل ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کرتے آرہے ہیں۔
خوش آیندہ بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں فراموش نہیں کیا گیا۔ گذشتہ ماہ ان کی رہائی کی مہم کو غیر معمولی اہمیت ملی۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمایندہ برائے انسانی حقوق مری لاولرجو نے رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’انسانی حقوق کے حوالے سے کیے جانے والے ان کے غیرمعمولی کام کی بدولت ان پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن آربیٹریری ڈیٹنشن نے خرم پرویز کے مقدمہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے ۱۶ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی جس میں نہ صرف اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ ہی نہیں کیا گیا بلکہ انھیں بے گناہ اور ضمیر کا قیدی قراردیاگیا۔ یو این کے اس ورکنگ گروپ نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ بھارتی حکام خرم پرویز کے خلاف تمام الزامات واپس لیں اور انھیں ہرجانہ اداکریں، یعنی اس زیادتی کی تلافی کے لیے معاوضہ ادا کریں۔ رپورٹ میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ خرم پرویز کو اپنے وکیل سے ملاقات اور مشاورت کے لیے درکار مناسب وقت نہیں دیاگیا۔
گذشتہ دوعشروں سے اپنی سلامتی کو خطرات میں ڈال کر کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات کی دستاویز بندی کرتے رہے ہیں۔ ان کی بے لوث خدمات اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر کی جانے والی جرأت مندانہ رپورٹنگ نے ان کے لیے دنیا بھر میں ہمدردی کی غیرمعمولی لہر پیدا کی ہے۔چنانچہ گرفتاری کے باوجود انھیں ’مارٹن اینالز‘ ایوارڈ سے نوازاگیا۔
انھوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں پر ایک نہیں درجنوں رپورٹیں مرتب کیں۔ ان کی جرأت مندانہ لیڈرشپ میں اور ان سے جذبہ پاکر عرفان معراج کی طرح کے درجنوں نوجوانوں نے انسانی حقوق پر کام کیا اور جیلوں کی ہوا کھائی۔ چند سال پہلے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سیکریٹریٹ سے کشمیر پر دو جامع رپورٹیں جاری ہوئیں تھیں۔ ان دونوں رپورٹوں میں خرم پرویز اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے مرتب کردہ حقائق کوبطور حوالہ استعمال کیا گیا۔
خرم پرویز کی گرفتاری کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے،بلکہ یہ کشمیر میں انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کا حصہ تھا۔ بھارتی حکام نے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے سماجی کارکنوں، سیاسی شخصیات اور صحافیوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے ہیں تاکہ یہ لوگ خوف زدہ ہوکر دبک جائیں اور کوئی بھی سرکار کی زیادتیوں کے خلاف آواز نہ اٹھائے۔ چنانچہ خرم پرویز کی گرفتاری کے بعد انسانی حقوق کی پامالیوں پر ہونے والا کام بُری طرح متاثر ہوا۔
دو عشروں سے زیادہ عرصے سے خرم پرویز، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی دستاویز بندی کررہے ہیں۔ وہ حکام کو بے خوفی کے ساتھ چیلنج کرتے ہیں۔ انھوں نے ہر موقعے پر مظلوموں کے حقوق کی وکالت کی۔۲۰۰۰ء میں انھوں نے انسانی حقوق کے ایک اور ممتاز علَم بردار پرویز امروز ایڈووکیٹ کے اشتراک سے ایک تنظیم’ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے خطے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ باقاعدہ ترتیب سے مرتب کیا گیا۔ اس تنظیم کی رپورٹوں میں اجتماعی قبروں، جبری گمشدگیوں، ٹارچرسیلز، ماوراے عدالت قتل اورجنسی تشدد جیسے انسانی حقوق کی پامالیوں کے چونکا دینے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ لاپتا افراد کے والدین کی ایک تنظیم کے تعاون سے خرم نے جبری گمشدگیوں جیسے گھناؤنے جرم کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
خرم پرویز کی انتھک محنت کو بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پذیرائی اور حمایت حاصل ہوئی ہے۔ ان کی کوششوں کو اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں تسلیم کیا گیا۔ ’تشدد کے خلاف عالمی تنظیم‘ (OMCT) کے سیکرٹری جنرل جیرالڈ سٹیبروک نے کہا: ’’خرم پرویز کی جبری، سفاکانہ اور غیر منصفانہ نظر بندی کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ بھارت کی جانب سے ان افراد پر مسلسل حملوں کا نتیجہ ہے جو اس کی امتیازی پالیسیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو اختلاف رائے کرنے والی ہر آواز کو دبانے کی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے اور انسانی حقوق کے دفاع کے حق کو یقینی بنانا چاہیے‘‘۔
ایف آئی ڈی ایچ کی ایلس موگوے نے تبصرہ کیا،’’خرم پرویز کے معاملے پر اقوام متحدہ کا فیصلہ واضح طور پر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس کی نظر بندی، دراصل ان کی جانب سے انسانی حقوق کے کام کے خلاف انتقامی کارروائی ہے، جو دراصل پوری کشمیری سول سوسائٹی کو خاموش کرانے کی کوشش ہے۔ اقوام متحدہ کی سفارشات کے مطابق خرم پرویزکو فوری رہا کیا جائے‘‘۔
نمایاں شخصیات کی گرفتاری کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ بھارتی حکام سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر اُبھرنے والی تنقیدی آوازوں کو زور زبردستی دباتے ہیں۔سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کے لیے ایک خصوصی پولیس یونٹ کا قیام عمل میں لایاگیا ہے، جو کشمیری نوجوانوں اور سماجی کارکنان کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کی نگرانی پر مامور ہے۔بھارتی حکام اسپائی ویئر جیسی جدید ٹکنالوجی کا استعمال بھی کرتے ہیں، جو کسی بھی موبائل فون اور اس کے ڈیٹا تک آسانی سے رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ جو بھی شخص حکومتی اقدامات پر نکتہ چینی کرتاہے اسے ’عسکریت پسندوں‘ (مجاہدین) کا حامی کہہ کر نشانہ بنایا جاتاہے۔
بھارتی حکام نے کشمیریوں کے آن لائن اختلاف رائے کو خاموش کرانے اور دبانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ہے۔ ہراساں کرنے، ملازمت سے نکالنے،نظر بندیوں اور انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت گرفتاریوں جیسے ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر لوگوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے کشمیر میں میڈیا کو مختلف ذرائع سے خاموش کر دیا گیا ہے اور طاقت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو حراست میں لے لیا جاتاہے۔یہ پریشان کن صورتِ حال بین الاقوامی توجہ کی متقاضی ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکا کو آج غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ وہ جو کبھی دنیا کی بڑی طاقت اور مغربی لبرل ازم کا سرپرست ہوا کرتا تھا، آج اس کی گرفت تمام ہی محاذوں پر کمزور پڑرہی ہے۔ امریکا کی عالمی حیثیت پر جغرافیائی و سیاسی ماہرین کئی برس سے سوال اٹھا رہے تھے، تاہم اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ نے یہ آشکار کیا کہ امریکا کی پیداواری استعداد، جو عالمی استعداد کا کبھی ۴۰ فی صد ہوتی تھی، ۲۰۲۲ء میں گر کر صرف ۲۵ فی صد رہ گئی ہے۔
اقوام کے عالمی طاقت کے اشاریے (Global Power Index) کے مطابق کسی قوم کی طاقت کو ناپنے کے کئی پیمانے ہیں، جیسے عسکری برتری، اقتصادی ترقی، سماجی توازن، ثفافتی فوقیت، جغرافیائی و سیاسی روابط، مستقبل کے امکانات اور ٹکنالوجی میں پیش رفت۔ ان تمام معاملات میں امریکا کو مختلف ممالک پیچھے چھوڑ رہے ہیں، اور سب سے بڑھ کر چین جو دنیا کی بڑی طاقت بنتا جا رہا ہے۔ یہ بات ہرگز حیران کن نہیں ہے کہ ہر شعبۂ زندگی میں امریکا کی طاقت گھٹتی جا رہی ہے اور اس کا ثبوت محض رقیبانہ خیالات، نظریات اور تصورات نہیں بلکہ حقیقی اعدادوشمار ہیں۔ دوسری طرف تازہ دم عالمی طاقت کے طور پر چین کا عروج ایک حقیقت ہے، جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ وقت آ گیا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے اور بہت سے ممالک اپنی خارجہ پالیسیوں کی سمت بدلیں تاکہ مستقبل کے امکانات سے بہتر طور پر مستفید ہوسکیں۔
فوج کو امریکا کی طاقت و قوت کا سب سے بڑا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ ترازو پر امریکا کا فوجی بجٹ ایک طرف اور پوری دنیا کا فوجی بجٹ دوسری طرف رکھا جائے تو اول الذکر ہی کا پلڑا جھکے گا۔ تاہم، گذشتہ چند برسوں نے یہ بات ثابت کی ہے کہ محض اعدادوشمار ہی سب کچھ نہیں ہوتے، کچھ اور وجوہات بھی ہوتی ہیں جو طاقت ور کو طاقت ور بناتی ہیں۔ امریکی فوج کو افغانستان اور عراق میں ملنے والی ہزیمت واضح ثبوت ہے کہ محض کروڑوں ڈالر لٹانے سے جنگیں نہیں جیتی جا سکتیں بلکہ اس کے لیے حکمتِ عملی، خارجہ پالیسی، سیاسی طاقت اور تسلسل کے پائے دار طریقے بھی درکار ہوتے ہیں، اور ان تمام شعبوں میں امریکی حکومت ناکام ثابت ہوئی ہے۔
تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ افغانستان اور عراق میں اپنی ناکام مہموں پر امریکی حکومت نے تقریباً ۴ء۴ ٹریلین ڈالر گنوا دیے۔ مزید یہ کہ امریکی فوج کا رعب و دبدبہ بھی ناکام مہموں میں اُن طالبان کے ہاتھوں زائل اور ذلیل ہوکر رہ گیا، جن کا اسلحہ نہایت محدود، فضائی طاقت صفر اور ٹینک نہ ہونے کے برابر تھے۔ انجامِ کار امریکی فوج اپنے اُن اتحادیوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر کابل سے چل دی، جنھوں نے پندرہ سال تک اس کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔
دوسری طرف چینی فوج نے تحمل (restraint) سے کام لیا ہے اور جب کبھی اس نے جنگ لڑی ہے تو اچھے نتائج حاصل کیے ہیں۔ بھارتی فوج کے ساتھ اس کی سرحدی جھڑپیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں، جن میں بھارتی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا،جب کہ چین کو اپنی فضائیہ استعمال کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑی۔ چینی فوج اپنی سفاکی (ferocity) اور تزویراتی اندازِ فکر کے لیے مشہور ہے۔ اُدھر امریکی فوج نے خود کو فضول خرچ اور غیر مؤثر ثابت کیا ہے، اس نے ویت نام سے لے کر عراق تک تمام جنگوں میں نقصانات اٹھائے ہیں۔
اقتصادی محاذ پر دیکھا جائے تو امریکا کے غلبے کا سحر ٹوٹ گیا ہے۔ وہاں پر طبقاتی اور معاشی تفریق واضح ہے۔ امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر۔ امریکا کی معیشت دوسرے ملکوں خصوصاً چین کے دیے ہوئے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ بہت سی امریکی کمپنیاں پیداوار کے مراکز ایشیا میں اُبھرتے ہوئے دیگر ملکوں میں منتقل کر چکی ہیں۔ امریکی کمپنیاں عرب امارات، سعودی عرب، چین اور حتیٰ کہ برازیل میں کاروبار کرنے کے مواقع تلاش کر رہی ہیں اور اپنی کاروباری سرگرمیوں کے لیے وہاں دفاتر کھول رہی ہیں۔ چند ماہ قبل ’سلیکون ویلی بنک‘ کا واقعہ امریکا کے مالی نظام کی اُمڈتی تباہی (meltdown) کی تازہ جھلک پیش کرتا ہے۔ جوبائیڈن کو کمزور اقتصادی اصلاحات والا صدر سمجھا جا رہا ہے اور ان کے اقدامات معیشت پر ایک بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکا ہی واحد ملک ہے جہاں صحتِ عامہ کا نظام مفقود ہے، اور سماجی تفریق ہر گزرتے دن کے ساتھ نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت کا بجٹ خسارے میں ہے یعنی اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ، جب کہ امریکی منڈی میں قرض ہی حکمت ِ عملی، طرزِ فکر اور سکّہ رائج الوقت ہے۔ امریکی معیشت نہایت تغیرپذیر اور غیر مستحکم ہے، اور بلند خطرۂ قرض (high credit risks) اس کی بنیاد ہے، جب کہ اس کی پشت پر معیشت کو بچانے کا واحد راستہ ڈالر کی طباعت ہے۔
حالیہ بحرانوں میں امریکی حکومت کی کمزور خارجہ پالیسی بھی عیاں ہو چکی ہے۔ ۲۰۲۲ء کے اوائل میں شروع ہونے والی یوکرین کی جنگ سے ثابت ہوا ہے کہ اگرچہ ناٹو (NATO)کو امریکی فوج کی حمایت حاصل ہے، تاہم روس جیسی طاقت سے بِھڑ جانے کی اس میں صلاحیت نہیں۔ ایک بات یہ بھی ظاہر ہو چکی ہے کہ جب کبھی ایٹمی طاقت کے حامل کسی ملک سے واسطہ پڑے تو امریکی بے دست و پا ثابت ہوتے ہیں، یعنی تب ان کی ساری طاقت و جبروت کافور ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یوکرین کی جنگ میں امریکا کی شرکت کا واحد طریقہ امریکی اسلحے کی فروخت ہے۔ یوکرین کے بحران نے یورپ کی بھی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔
؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل ۳۷۰ کے اہم مندرجات کو ختم کر دیا تھا۔ اسی کے ساتھ دفعہ ۳۵-اے، جس کی رو سے ریاستی باشندوں کو خصوصی اور علیحدہ شہریت کے حقوق حاصل تھے، اسے بھی منسوخ کردیا گیا تھا۔ اس اقدام کے خلاف انڈین سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، جس کے جواب میں چارسال گزرنے کے بعد، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ۲؍اگست ۲۰۲۳ء سے سماعت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ فریقین کو ۲۷جولائی ۲۰۲۳ء تک دستاویزات جمع کرانے کے لیے ہدایت کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس جسٹس دھنن جے چندراچوڑ نے سرینگر کے ایک روزہ دورہ سے واپسی پر دفعہ۳۷۰ کے حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر سماعت کرنے کا اچانک فیصلہ کرلیا۔ آخر سرینگر میں ان کو کیا کچھ نظر آیا ، جس کی وجہ سے انھوں نے سماعت کا فیصلہ کیا؟
اگرچہ کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی مؤثر ادارے کی تاریخ کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی، مگر چونکہ اس مقدمے کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچے پر دور رس اثرات مرتب ہوںگے، اس لئے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچے اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اس تناظر میں مثبت نتائج پر نظر رکھنے والے لوگوں کو اُمید ہے کہ سپریم کورٹ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ داد رسی کا انتظام کرسکے گی۔
دفعہ ۳۷۰ کی قانونی حیثیت و افادیت کے علاوہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ بڑے سوالات ہیں:(۱) بھارتی پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے بھی، کیا یہ ممکن ہے کہ عددی طاقت کے بل پر کسی بھی ریاست کو دولخت کرکے اس کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنایا جا سکتا ہے؟ (۲)کیا اس سلسلے میں اس خطے کی اسمبلی یا اس خطے کے اراکین پارلیمان کی رائے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
پچھلی صدی کے اواخر میں اتراکھنڈ، چھتیس گڈھ، جھاڑکھنڈ، نئے صوبے تشکیل دیئے گئے۔ ان میں جو طریق کار اپنایا گیا، وہ یہ تھا کہ ریاستی اسمبلیوں نے پہلے صوبہ کی تشکیلِ نو کے لیے ایک قرار داد منظور کرکے اس کو مرکزی حکومت کو بھیجا۔ مرکزی کابینہ نے اس کی منظوری دے کر ایک بل ڈرافٹ کرکے اس کو پھر ریاستی اسمبلی کو منظوری کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے پاس کرنے سے قبل ہاؤس کمیٹی کے سپرد کرکے اس کے خدوخال کا جائزہ لیاگیا۔ صرف تلنگانہ کے معاملے میں اس طریقے کو تبدیل کیا گیا۔ مگراس معاملے میں بھی کئی برس قبل آندھرا پردیش کی اسمبلی قرار داد پاس کر چکی تھی۔ بعد میں اس اسمبلی نے اپنا موقف تبدیل کردیا تھا، مگر اس وقت کانگریس کی قیادت میں مرکزی حکومت نے پچھلی قرار داد کی بنیاد پر زبردست ہنگامہ اور شور شرابہ کے دوران پارلیمنٹ سے اس نئے صوبہ کی تشکیل کا بل پاس کروایا۔
اگر ریاستوں کو تحلیل کرنے اور ان کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے عمل کو بھارتی سپریم کورٹ تسلیم کرتا ہے، تو اس سے بھارت کے پورے وفاقی ڈھانچا کے مسمار ہونے کا خطرہ ہے۔ ماضی میں نظم و نسق وغیرہ کا بہانہ بناکر مرکزی حکومتوں نے تو کئی بار اپوزیشن کی زیر قیادت صوبوں کی منتخب حکومتوں کو برخواست کیا ہے،مگر بعد میں سپریم کورٹ نے ایس آر بومئی کیس میں اس پر کئی رہنما اصول طے کر دیئے، جس کے بعد نئی دہلی حکومتوں کے لیے صوبائی حکومتیں برخواست کرنے کے اختیار پر روک لگ گئی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندراچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کا بنچ اس معاملے کی سماعت کرے گا۔ اس بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بھوشن رام کرشن گاوائی اور جسٹس سوریا کانت ہوں گے۔ جسٹس کول کے بغیر بقیہ تینوں جج اگلے کئی برسوں میں باری باری چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ جسٹس چندراچوڑکے والد یشونت ویشنو چندراچوڑ بھی ملک کے ۱۶ویں چیف جسٹس ( ۱۹۷۸ءسے ۱۹۸۵ء)رہے ہیں۔ وہ بھارت کی سول سوسائٹی کے لیے کچھ اچھی یادیں چھوڑ کر نہیں گئے۔ ۱۹۸۴ء میں بھوپال شہر میں زہریلی گیس کے اخراج کے بعد، جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئیں، تو انھوں نے امریکی کمپنی یونین کاربائیڈ کے سربراہ وارن اینڈرسن کو ملک سے باہر جانے میں مدددی۔ ان پر مقدمہ بھی نہیں چلایا جاسکا۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی تصدیق کے بغیر ہی فروری ۱۹۸۴ءمیں انھوں نے کشمیری لیڈر مقبول بٹ کی سزائے موت کے فرمان کے خلاف پٹیشن خارج کی،اور اگلے ہی دن مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
مگر ان کے فرزند موجودہ چیف جسٹس اپنے اعتدال پسندانہ رویہ اور معرکہ آرا فیصلوں کی وجہ سے اپنے والد کے برعکس سول سوسائٹی کے چہیتے ہیں۔ انھوں نے اظہارِآزادی، شخصی آزادی، حق راز داری وغیر ہ جیسے قوانین کی تشریح کرکے اور ان پر فیصلہ دیتے وقت عوامی مفاد کو مقدم رکھ کر خوش گوار تاثر قائم کیا ہے۔ ۲۰۰۰ء میں ممبئی ہائی کورٹ میں جج کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل ان کو ۱۹۹۸ءمیں اٹل بہاری واجپائی کے اقتدار میں آتے ہی اڈیشنل سولسٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ اس دوران مجھے ان سے کئی بار ملنے کا موقع ملا ہے۔ دوسرے جج جسٹس سنجے کشن کول کشمیری پنڈت ہیں۔ وہ سورج کشن کول کے خاندان سے نسبت رکھتے ہیں، جو ڈوگرہ حکومت میں وزیر مالیات ہوتے تھے۔ وہ اور ان کے ایک اور برادر دہلی ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں۔بطور دہلی ہائی کورٹ جج انھوں نے معروف مصور مرحوم ایم ایف حسین کے خلاف ہندو تنظیموں کی پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے ، بزرگ مصور کی دادرسی کی تھی۔اس فیصلے میں انھوں نے لکھا تھا: ــ’’تکثیریت اور یگانگت جمہوریت کی روح ہوتی ہے۔ جس سوچ کو ہم پسند نہیں کرتے ہیں، اس کے اظہار کی بھی آزاد ی ہونا ضروری ہے۔ اگر تقریر یا اظہار رائے کے بعد آزادی نہ ہو، تو یہ آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ جمہوریت کی حقیقت آزادی اور ناقدین کو برداشت کرنے میں مضمر ہے‘‘۔
تیسرے جج جسٹس سنجیو کھنہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بھی ججوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اور نومبر ۲۰۲۴ء کو وہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ان کے والد ونود راج کھنہ دہلی ہائی کورٹ میں جج تھے۔ وہ بھارت کے ایک معروف جج جسٹس ہنس راج کھنہ کے بھتیجے ہیں، جنھوں نے ۱۹۷۶ء میں آنجہانی وزیر اعظم اندراگاندھی کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ اور بنیادی حقوق کی معطلی کے خلاف فیصلہ دیا تھا، حالانکہ بینچ کے دیگر ججوں نے اس کی حمایت کی تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو چیف جسٹس نہیں بننے دیا گیا تھا۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے استعفا دے دیا تھا۔ ۱۹۸۲ءکے صدارتی انتخابات میں گیانی ذیل سنگھ کے خلاف وہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار تھے۔ جسٹس سنجیو کھنہ مئی ۲۰۲۵ءکو چیف جسٹس بن جائیں گے۔
اس بینچ کے چوتھے جج بھوشن رام کرشن گاوائی ہیں۔ وہ اس وقت سپریم کورٹ کے واحد دلت جج ہیں۔وہ مئی ۲۰۲۵ء چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ۲۰۱۰ء میں جسٹس بالا کرشنن کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پہلے دلت چیف جسٹس اور بھارت کی تاریخ میں دوسرے دلت چیف جسٹس ہوں گے۔ فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کل ۵۶۹ ججو ں میں صرف ۱۷دلت کمیونٹی سے ، نو درجہ فہرست قبائل سے، ۱۵؍اقلیتی برادریوں سے اور ۶۴دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھوشن کے والد آر، ایس گاوائی مہاراشٹرہ کے مشہور دلت رہنما اور ری پبلکن پارٹی کے سربراہ تھے۔ یہ پارٹی بھارت کے معروف دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راو امیبڈکر نے تشکیل دی تھی۔ گاوائی بود ھ مت سے تعلق رکھتے ہیں۔
پانچویں جج جسٹس سوریہ کانت کا تعلق ہریانہ صوبہ سے ہے۔ جج بننے سے قبل وہ قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے خاصے سرگرم رہے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ میں جج کے عہدے پر رہتے ہوئے بھی انھوں نے جیلوں میں اصلاحات کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ممبئی میں بھارت کے معروف ادارے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، جو جیلوں کی اصلاحات کے سلسلے میں ورکشاپ کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات اور ان کے لیکچر سننے کا کئی بار موقع ملا ہے۔
سوال : آپ فرقہ پرستی کے مخالف ہیں مگر اس کی ابتدا تو ایک حدیث سے ہوتی ہے کہ ’’عنقریب میری اُمت ۷۲ فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک ناجی ہوگا، جو میری اور میرے اصحاب کی پیروی کرے گا‘‘ (بلکہ شیعہ حضرات تو ’اصحاب‘ کی جگہ ’اہل بیت‘ کو لیتے ہیں)۔اب غور فرمایئے کہ جتنے فرقے موجود ہیں، سب اپنے آپ کو ناجی سمجھتے ہیں اوردوسروں کو گمراہ۔ پھر ان کو ایک پلیٹ فارم پر کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟ جب ایسا ممکن نہیں تو ظاہر ہے کہ یہ حدیث حاکمیت غیراللہ کی بقا کی گارنٹی ہے۔ بہت سے لوگ اسی وجہ سے فرقہ بندی کو مٹانے کے خلاف ہیں کہ اس سے حدیث نبویؐ کا ابطال ہوتا ہے۔
جواب :جس قسم کاسوال آپ نے کیا ہےاس پر اگر آپ خود اپنی جگہ غور کرلیتے تو آپ کو آسانی سے اس کا جواب مل سکتا تھا۔ احادیث میں مسلمانوں کے اندر بہت سے فتنے پیدا ہونے کی خبردی گئی ہے ، جس سے مقصود اہل ایمان کو فتنوں پر متنبہ کرنا اور ان سے بچنے کے لیے تاکید کرنا تھا، لیکن وہ شخص کس قدر گمراہ ہوگا جو صرف اس لیے فتنہ برپا کرنا یا فتنوں میں مبتلا رہنا ضروری سمجھے کہ احادیث میں جو خبر دی گئی ہے اس کا مصداق بننا ضروری ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں کہا گیا ہے کہ بہت سے انسان جہنمی ہیں، تو کیا اب کچھ لوگ جان بوجھ کر اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بنائیں تاکہ یہ خبر ان کے حق میں سچی نکلے؟(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۴۶ء)
خالق کائنات نے بنی آدم کو ہدایت دینے کے لیے اپنے نبیؑ اور رسولؑ بھیجے،جنھوں نے ہرعلاقے، ہرقوم اور ہرنسل میں اللہ کا پیغام پہنچایا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس ہدایت کو لوگ بھلاتے اور شرک کے راستوں پر چلتے رہے۔ رحمت ِ خداوندی نے سب سے آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، جنھوں نے انسان کو ماں کی گود سے لے کر قبر کی مٹی تک کے سفر میں زندگی گزارنے کے ڈھنگ بتائے۔
محترمہ فرزانہ چیمہ ایک معروف ادیبہ اور وسیع دینی مطالعے سے فیض یاب ہیں۔ انھوں نے بچوں کو سیرتِ پاکؐ کی تفصیلات، رہنمائی اور اسباق ذہن نشین کرانے کے لیے یہ قیمتی کتاب مرتب کی ہے، جواختصار اور عام فہم اسلوب کے سبب انفرادیت کا حامل تحفہ ہے۔ (ادارہ)
خاتم الانبیا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جب حکم الٰہی سے اعلانِ نبوت فرمایا تو بالغ مردوں میں ایمان کی دولت پانے والوں میں پہلے فرد حضرت ابوبکرصدیقؓ تھے ، جنھوں نے جرأت ایمانی سے حق کی گواہی دی۔ قربانی، بصیرت، بہادری، ثابت قدمی اور دُوراندیشی کے وہ کارنامے انجام دیئے کہ وصالِ نبویؐ کے بعد وہی مسلم اُمت کے پہلے خلیفہ بنے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے شخصی فضائل اور فہم دین کی وسعت کے آثار کتب ِ سیرت، احادیث اور تواریخ میں جگمگا رہے ہیں۔ محترم باقرخاں صاحب نے اس کتاب میں حسنِ ترتیب سے اُن احوال و آثار کو، خوب صورت اسلوبِ بیان میں مرتب کیا ہے۔ مصنّف نے کوشش کی ہے کہ صدیق اکبرؓ کا نظامِ حکومت، عوامی خدمت، شورائی نظام، جنگی اسلامی انسانی اصول اور حکومت اسلامیہ کے قیام کے لیے شبانہ روز جدوجہد جیسی خصوصیات کو نمایاں کیا جائے۔
یہ کتاب تفصیلی مطالعے کا تقاضا کرتی ہے، تاہم چند ابواب کے یہ عنوانات کتاب کی وسعت واضح کرتے ہیں: l اقوامِ عالم پر تین احسانات l اُمت ِ مسلمہ پر تین احسانات lمکّی دور میں احساناتl مدنی دور میں احسانات l وصالِ نبویؐ کے موقعے پر احسانات lخلافت میں اُمت پر احسانات وغیرہ۔ مطالعے کے دوران قاری نہ صرف صحابہ کرامؓ سے محبت کی لذت پاتا ہے بلکہ ایمانی جذبے سے عمل کی اُمنگ بھی اپنے وجود میں موجزن پاتا ہے۔ (ادارہ)
علامہ اقبال کے غیرمتداول اور متروک کلام کا جامع مجموعہ، جسے ابتدائی طور پر عبدالواحد معینی نے مرتب کیا تھا۔ بعدازاں محمدعبداللہ قریشی نے اس میں غیرمعمولی اضافے کیے اور سرودِ رفتہ کے نام سے غلام رسول مہر اور صادق علی دلاوری کی مرتبہ کتاب کا سارا کلام بھی اس میں شامل کرلیا۔ ڈاکٹر صابر کلوروی صاحب نے مختلف مآخذ (علّامہ اقبال کی بیاضیں، اقبال کی مرتبہ درسی کتابوں اور متروک کلام کے مجموعہ وغیرہ) سے مزید کلام جمع کیا اور جملہ جمع شدہ کلام کو کلیاتِ باقیاتِ شعرِاقبال کے نام سے ۲۰۰۴ء میں شائع کردیا۔اب ڈاکٹر خالد علیم نے مذکورہ تمام مجموعوں کو اَزسرِنو کھنگالا، خصوصاً کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال کی ترتیب میں بہت سی مفید تبدیلیاں کیں۔ مثلاً ڈاکٹر صابر کلوروی صاحب کے ہاں بانگِ درا کے متروکات جو تین اَدوار میں بکھرے ہوئے تھے، فاضل محقق نے اُنھیں یکجا کردیا ہے۔ یہ بہتر صورت ہے۔ علیٰ ہذا القیاس، متروکاتِ بالِ جبریل، متروکاتِ ضربِ کلیم وغیرہ۔کلام اقبال کی باقیات اور متروکات کے لیے زیرنظر مجموعہ فی الحال حتمی سمجھ کر، اسے ہی حوالہ بنانا چاہیے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
الطاف حسین حالی نے لکھا تھا:’’اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے‘‘ ، اور اس عجب وقت کا روئے سخن اُمت کے تہذیبی، دینی ، سیاسی، معاشی اور اخلاقی عدم توازن کی طرف ہے، جس نے اسے بے وزن اور بے توقیر بنا کر رکھ دیا ہے۔ حالی نے یہ بات اب سے سوا سو سال پہلے کہی تھی۔ جناب یوسف القرضاوی نے اپنی پوری زندگی، اُمت مسلمہ کو اس خرابے سے نکالنے کے لیے لگادی۔
زیرنظر کتاب جناب قرضاوی کے اُن مقالات کا انتخاب ہے، جس میں مسئلہ زیربحث کی ماہیت اور اسباب کو بیان کرکے، اس کے حل تجویز کیے گئے ہیں۔ ’اُمت وسط‘ کے عمومی تصورِ اسلام میں وسطیت کے مختلف مظاہر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ رواداری کے تصور کے تحت متعدد گروہوں کے وجود کا جواز، انسانیت کی تکریم اور مکالمے کے عصری تقاضے جیسے موضوعات پر اجتہادی راستہ اپناتے ہیں۔
محترم مصنف کو اللہ تعالیٰ نے فہم دین کا خزانہ عطا فرمایا تھا اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ مجاہدانہ جرأت بھی انعام کی تھی۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ کس گہرائی کے ساتھ وہ مُزمن بیماری کے اسباب کی نشان دہی کرتے ہیں، اور ساتھ منصوبۂ عمل بھی تجویز کرتے جاتے ہیں۔
جناب ارشاد الرحمٰن ایک مشاق مترجم ہیں۔ انھوں نے بڑی توجہ سے، یہ امانت عربی سے اُردو میں منتقل کی ہے، جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (ادارہ)
قومِ یہود کی تاریخ، احسان فراموشی، محسن کشی، زرپرستی اور سازش و نفاق سے بھری پڑی ہے۔ انفرادی سطح پر کچھ بھلے لوگوں کا وجود تو کہیں بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، مگر مجموعی طور پر ایک قومی مزاج ہوتا، جسے کسی قوم سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ زیرنظر کتاب میں فاضل مصنف نے یہود کے جرائم اور فطرت میں رچی خرابی کو قرآن کریم کے ارشادات کی روشنی میں یکجا بیان کردیا ہے۔
آج مسلم دُنیا کے دولت مند ممالک، قرآن کریم کی ہدایت کو نظرانداز کرکے، نسل پرست اسرائیل کی ناجائز حکومت و ریاست کو تسلیم کرنے کی دوڑ میں شریک نظر آتے ہیں ۔ اس صورتِ حال میں یہ کتاب بھولے ہوئے سبق کی یاد دہانی کراتی ہے۔ (ادارہ)
محمد متین خالد قادیانیت کے مختلف پہلوئوں پر اب تک متعدد کتابیں شائع کرچکے ہیں، جن میں ثبوت حاضر ہیں کو خاص طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نے مرزا قادیانی کی اصل کتابوں اور تحریروں کے عکس دیے ہیں۔ اب انھوں نے زیرنظر کتاب پیش کی ہے۔
قادیانیت پر مولانا ظفر علی خان کے مضامین، مقالات، توضیحات، اداریوں، مکاتیب اور شاعری کا ایک خوب صورت گلدستہ ہے۔ مولانا نہایت قادرالکلام، نثرنگار اور شاعر تھے۔ وہ جس چیز کو درست سمجھتے تھے، اسے لگی لپٹی رکھے بغیر، بہ بانگ دہل کہہ دیتے اور لکھ دیتے تھے۔ ان کی یہ سب تحریریں، ان کے اپنے اخبار زمیندار میں شائع ہوتی رہیں۔بعدازاں انھوں نے بہت سے مضامین کو کتابی شکل میں بھی شائع کیا۔ کتاب کے ایک حصے میں مولانا ظفر علی خان کی شخصیت اور قادیانیت کی بیخ کنی کے سلسلے میں ان کی خدمات پر مختلف اہل قلم (شورش کاشمیری، چراغ حسن حسرت، عنایت اللہ نسیم سوہدری، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، خالد بزمی، ڈاکٹر نظیرحسنین زیدی، فاطمہ اطہر وغیرہ) کے مضامین جمع کیے گئے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
انٹرویو ایک ایسی صنف ہے ، جس میں کسی بھی صاحب ِ علم و فن سے اُن باتوں کی تفصیل معلوم کی جاسکتی ہے کہ جو وہ لکھ نہیں سکے یا اُن اُمور کو سمجھا جاسکتا ہے جو وہ بیان نہیں کرسکے، یا پھر سائل اپنی اُلجھن دُور کرنے کے لیے ان سے مدد کا طالب ہوتا ہے۔
پروفیسر رفیع الدین ہاشمی نے زندگی کا طویل عرصہ اقبالیات اور ادبیات کے استاد و محقق کے طور پر گزارا ہے۔ اس دوران اُن سے طالب علموں اور اخبار نویسوں نے مذکورہ موضوعات پر بہت سے استفسارات کیے۔ یہ کتاب ایسے ہی سوال و جواب پر مشتمل ہے، جس میں اقبال اور ادب کی مناسبت سے دلچسپی کا عنصر غالب ہے، معلومات بھی ہیں ، اور علمی و ادبی اُلجھنوں کا مداوا بھی۔
کتاب کا پہلا حصہ تو انٹرویوز پر مشتمل ہے، جب کہ دوسرے حصے میں انھوں نے جب اپنے چند کرم فرمائوں کے بارے میں تفصیلات بیان کیں تو انھیں مکالمے کے حصے سے نکال کر شخصی تاثرات کی صورت میں یکجا کردیا گیا ہے۔ یہ سبھی لوگ اپنی اپنی جگہ نہایت قابلِ قدر ہیں۔ کتاب کا اشاریہ مطالعے کو سہل بناتا ہے اور متن میں پوشیدہ احوال کو نمایاں کرتا ہے۔ (ادارہ)
نئی نسل کی تربیت اور مزاج بگاڑنے کے ہزار وسیلے ہیں، لیکن اُمت کے اس قیمتی ترین سرمائے کو بچانے، سنوارنے اور معیاری انسان بنانے کے ذرائع اور محرک بہت کم ہیں۔ پاکستانی قوم پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی صورت میں طلبہ کی تنظیم، بہت سے اداروں سے بڑھ کر یہ مبارک کام کرر ہی ہے کہ نئی نسل کو تہذیبی و ثقافتی حملے سے محفوظ رکھے اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے جوڑدے۔
ماہ نامہ ساتھی ان تعمیری کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جو گذشتہ نصف صدی سے یہ کارِنمایاں انجام دے رہا ہے کہ بچوں کو اعلیٰ ادب پڑھنے کے لیے فراہم کرے۔ زیرنظر شمارہ ایک خصوصی اشاعت ’خواہش نمبر‘ کی صورت شائع کیا گیا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اس پرچے کے خریدار بنیں اور اپنے بچوں اور بچیوں کو اس تربیت گاہ سے گزاریں۔ (ادارہ)
یہی شہر مکّہ ہے ، جس سے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت الی اللہ کا آغاز فرمایا تھا، اور یہی صفا کی پہاڑی ہے جس پر کھڑے ہوکر حضورؐ نے سب سے پہلے قریش کے خاندانوں کو نام بہ نام پکار کر اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان لانے کی تلقین فرمائی تھی۔اس شہر کے سرداروں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس دعوت کو دبادینے کے لیے اپنا سارا زور صرف کر دیا۔ یہ حرم کی زمین، یہ ابوقبیس کا پہاڑ،اور یہ مکہ کی گھاٹیاں، سب اس ظلم و ستم کے گواہ ہیں جو ۱۳سال تک حضورؐ اور آپؐ کے اصحابؓ پر توڑا گیا تھا۔ مگر آخرکار اُن سب لوگوں نے نیچا دیکھا، جنھوں نے دعوتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ دیکھ لیجیے، آج یہاں ابوجہل اور ابولہب کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے، اور اس حرم کے میناروں سے پانچوں وقت اشھد انَّ محمدًا رسول اللہ کی آواز بلند ہورہی ہے....
یہی شہر مکّہ ہے، جس کے لوگوں سے حضوؐر نے اپنی دعوت کے ابتدائی زمانے میں فرمایا تھاکہ میں ایک ایسا کلمہ تمھارے سامنے پیش کر رہا ہوں، جسے اگر تم مان لو گے تو عرب اور عجم سب اس کی بدولت تمھارے تابع فرمان ہوجائیں گے، کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ تُعْطُوْنِیْہَا تَـمْلِکُوْنَ بِھَا الْعَرَبُ وَتَدِیْنُ لَکُمْ بِھَا الْعَجَمُ۔قریش کے لوگ اس کے برعکس اپنی جگہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس کلمے کو ہم نے قبول کرلیا تو تمام عرب ہم پر ٹوٹ پڑے گا اور ہماری ریاست تو کیا، ہمارا وجود بھی یہاں باقی نہ رہ سکے گا۔ وہ کہتے تھے کہ اِنْ نَتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفُ مِنْ اَرْضِیْنَا ، ’اگر ہم تمھارے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو ہم اپنی جگہ سے اُچک لیے جائیں گے‘۔ لیکن اللہ کے رسولؐ کی زبانِ مبارک سے جو کچھ نکلا تھا وہ لفظ بلفظ پورا ہوکر رہا۔ قریش کے جن لوگوں نے حضوؐر کی یہ بات اپنے کانوں سے سنی تھی، انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ چند سال کے اندر عرب اور عجم سب خلافت ِ اسلامیہ کے تابع فرمان ہوگئے اور قریش ہی کے خلفاء اس عظیم الشان سلطنت کے فرماںروا ہوئے۔(’خطباتِ حرم‘ ، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج۶۰، عدد۵، اگست ۱۹۶۳ء، ص۴۰-۴۲)