مسلم دنیا گذشتہ دو صدیوں میں عظیم سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی انقلابوں کا اور بیرونی طاقتوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اُمت کے اندرونی خلفشار، انتشارِ فکری، معاشی اضمحلال اور عسکری پس ماندگی نے اسے بیرونی طاقتوں کے لیے ایک تر نوالہ بنا دیا۔ چنانچہ انیسویں صدی میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ جو کل تک مسلمانوں کی عالمی طاقت کا مظہر تھے، دیکھتے ہی دیکھتے یورپی سامراجی طاقتوں کے زیراثر آگئے۔ برطانیہ نے ۱۸۸۲ء میں مصر کو زیرنگیں کیا اور اس دوران فرانس نے الجزائر، تیونس، مراکش اور شام پر تسلط قائم کیا۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے نتیجے میں اطالویوں نے لیبیا کو اپنے دائرۂ اثر میں شامل کرلیا۔
ایک جانب مغربی سامراج اپنے توسیعی عزائم کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنے قدم جما رہا تھااور دوسری جانب اللہ تعالیٰ کے قانون کی پیروی کرتے ہوئے اُمت مسلمہ میں بیداری کی تحریک اس کی بے سروسامانی کے باوجود اُبھر رہی تھی۔ چنانچہ شیخ عبدالکریم الریفی نے ۱۹۲۰ء میں ریف میں اسپین کی افواج کو شکست دے کر ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی لیکن جلد مراکش پر قابض فرانسیسی سامراج سے ٹکر ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ ادھر سوڈان میں محمداحمدالمہدی کی قیادت میں برطانیہ کے خلاف تحریکِ آزادی برپا ہوئی، اور اسی عرصے میں لیبیا میں افسانوی کردار کے حامل مجاہد عمرمختار نے اطالوی سامراج کا ۲۰سال تک پامردی سے مقابلہ کیا۔ یہ تحریکات اور ان کے بانی، گو مکمل طور پر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن انھوں نے بیرونی سامراج کے خلاف جس جدوجہد کو اپنے خون سے سینچا وہ بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔
مسلم دنیا سے مغربی سامراج کے پسپا ہونے کے بعد حالات ایک نیا رُخ اختیار کرگئے۔ اب مغربی سامراج کی جگہ اس کے تربیت یافتہ فوجی سربراہ، سلاطین اور آمروں کا دور شروع ہوا۔ چنانچہ مصر میں جمال عبدالناصر کے بعد حسنی مبارک، لیبیا میں معمرقذافی، یمن میں علی عبداللہ صالح، یا بحرین میں خلیفہ خاندان کی حکومت کو براہِ راست امریکی اور یورپی اقوام کی حمایت اور امداد حاصل رہی۔ ان آمروں اور بادشاہوں نے اپنے عوام کو اپنی ناجائز دولت اور ظلم و جور کے ذریعے خاموش رکھنے اور اپنے ذاتی اقتدار کو قائم رکھنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔
آج مسلم دنیا میں جو انقلابی لہر نظر آرہی ہے وہ اسی آمریت اور ملوکیت و سلطانی کے خلاف عوام الناس کے اتحاد کی مظہر ہے۔ لیکن بات اتنی آسان بھی نہیں ہے۔گو، بنیادی طور پر ہرانقلابی تحریک کا آغاز اندر سے ہوتا ہے اور جب تک اندرونی عناصر اس میں شامل نہ ہوں کوئی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی، لیکن حالیہ تحریکات میں بیرونی ہاتھ، وسائل اور دولت کا استعمال جس آزادی سے کیا جا رہا ہے وہ مغربی لادینی جمہوریت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اور مسلم دنیا کو کسی نہ کسی طرح اپنی گرفت میں رکھنے اور اس کے وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کے ایجنڈے کا ایک اہم پہلو ہے۔
لیبیا پر ناٹو کے ذریعے امریکی حملہ جس عنوان سے بھی کیا جا رہا ہو، اسے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور ننگی جارحیت کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۵۰ء تک محدود اندازوں کے مطابق توانائی کے جس بحران کی پیشن گوئی کی جارہی ہے، نہ صرف ناٹو کے ذریعے امریکی جارحیت بلکہ دیگر مسلم ممالک میں امریکی مداخلت کا اس کے ساتھ انتہائی منطقی تعلق ہے۔ لیبیا اور یمن میں خلافِ قانون کارروائی (dirty work) کے لیے امریکا اپنی فوج کی جگہ ان ممالک کو استعمال کر رہا ہے جو وہاں کے جغرافیائی، فضائی اور انسانی مسائل کے حوالے سے بطور سابقہ سامراجی حکمران ذاتی تجربہ رکھتے ہیں اور جو وہاں کی گلیوں اور شہروں سے مانوس ہیں۔ دوسری جانب قذافی اور یمن کے صدر کے خاندان کے افراد اپنی ناجائز جمع کردہ دولت اور تعلقات و وسائل کا پوری قوت سے استعمال کر رہے ہیں تاکہ انقلاب کی بڑھتی ہوئی لہروں کی شدت کو کم کیا جاسکے۔
موجودہ صورت حال میں یمن پر ۳۳سال سے اور لیبیا پر چار عشروں سے حکومت کرنے والے آمروں کی حکمت عملی تقریباً وہی ہے جو حسنی مبارک نے ۳۰سال اختیار کیے رکھی، یعنی اگر ہمیں حکومت سے ہٹایا گیا تو ’اسلامیان‘ جنھیں مختلف عنوانات سے یاد کیا جاتا ہے، ملک پر قابض ہوجائیں گے۔ اسلامی شدت پسندی، بنیاد پرستی،اسلامی جہاد اور اس سے ملتے ہوئے دیگر الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے یورپ اور امریکا کو اسلامی ریاست کے خطرات دکھا کر اپنے اقتدار کو مزید طول دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کا ’خطرہ‘ نہ صرف مشرق وسطیٰ اور افریقہ بلکہ خود پاکستان کے حوالے سے بھی ایک سیاسی حقیقت ہے، اور اس خطرے کی گھنٹی کے بجنے میں گذشتہ عشرے میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
اس تناظر میں مسلم قیادت کے لیے چند امور خاص طور پر قابلِ غور ہیں:
مسلم قیادت کے لیے قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ کیا وہ اس منفی اور تخریبی اندازِفکر کی جگہ ملک کے روشن مستقبل، یک جہتی اور محفوظ ہونے کے مثبت تصورات کو عوام تک پہنچارہی ہے، یا وہ بھی بیرونی قوتوں کی اس ابلاغی سازش سے جسے ملکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے کیا جا رہا ہے غیرشعوری طور پر متاثر ہوجاتی ہے۔ اسلام اُمید، اللہ تعالیٰ سے بہترین توقع اورزندگی کے روشن پہلوئوں پر مبنی مستقبل کی تعمیر کی دعوت دیتا ہے۔ مایوسی اور نااُمیدی کورد کرتا ہے اور اسے ایمان کے منافی قرار دیتا ہے۔ مسلم قیادت کو اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس کے طرزِعمل سے مایوسی کا اظہار نہ ہو بلکہ وہ اُمت مسلمہ میں اُمید، اعتماد اور منزل کا یقین پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
جغرافیائی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے مسلم دنیا کو ایک سبزپٹی کی شکل دے رکھی ہے کہ تجارتی قافلوں اور ریل، شاہراہوں اور سمندری راستوں پر ہرطریقے سے اشیاے تجارت کے نقل و حمل میں کوئی دقت پیدا نہیں ہوسکتی۔ صرف مسلم قیادت کو اس طرف یکسوئی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ مخفی سرمایہ نہ صرف مسلم دنیا کو معاشی خودانحصاری فراہم کرسکتا ہے بلکہ تھوڑے عرصے میں مسلم دنیا کو ایک متحدہ بلاک کی طرف لے جاسکتا ہے۔
یاد رہے معاشی تعلقات کی بنیاد محض معاشی مفاد کبھی نہیں ہونی چاہیے بلکہ حلال اور مباح تجارت و معیشت کی ترقی اور حرام سرمایہ دارانہ استحصالی معیشت سے نجات کی بنیاد پر مسلم دنیا کا اتحاد یورپی معاشی اتحاد سے زیادہ حقیقی، پایدار اور باہمی منفعت کا حامل ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد اخوت، خوفِ خدا اور بھلائی میں تعاون اور برائی کے خلاف اتحاد پر ہوگی۔ آج جب امریکا کے معاشی، سیاسی اور اخلاقی زوال کی پیشن گوئی خود امریکی ماہرین علومِ عمرانیات و معاشیات کر رہے ہیں، مسلم قیادت کے لیے معاشی خودانحصاری کا حصول ایک اہم ضرورت کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس ضمن میں عملی اقدامات میںتاخیر مزید مسائل و مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔
مسلم قیادت ہی وہ واحد عنصر ہے جو پاکستان میں بڑھتی ہوئی عصبیت اور لسانی منافرت کے مظاہر کے خاتمے اور مختلف المسالک و مذاہب گروہوں کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرتوں کو دُور کرنے میں اپنا مثبت کردارادا کرسکتی ہے۔ کیا ایک دن میں ۸۰؍افراد کا ظالمانہ قتل تحریکی فکر سے وابستہ افراد کو اُس مثبت کردار کی دعوت نہیں دیتا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورئہ حجرات (۴۹:۹-۱۰) میں فرمایا گیا ہے کہ اگر دو مسلم گروہوں میں جھگڑا ہوجائے تو اپنے بھائیوں میں صلح کرائو، اگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوں تو تحقیق کرنے کے بعد دونوں میں سے جو ظالم ہو اس کے خلاف مظلوم کا ساتھ دو، اور جب وہ ظلم سے باز آجائیں تو اپنا ہاتھ روک کردلوں کو جوڑتے ہوئے اخوت پیدا کرنے اور عدل کے رویے پر عامل ہونے کی کوشش کرو۔
یمن میں خواتین نے جمعہ کے اجتماع میں سڑکوں پر مساجد کے باہر نماز قائم کرکے، اپنے غم و غصے اور احتجاج کا اظہار کیا۔ یہ ایک پُرامن طریقہ ہے جو عوام کو متحرک کرنے اور انھیں مسائل کے حل کے لیے متحد کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہم لگے بندھے انداز سے ہٹ کر سوچنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم اس دائرے کوتوڑنے کی شعوری کوشش کرسکتے ہیں جس میں مفاد پرست سیاست دان عصبیتوں کو ہوا دے کر، بعض اوقات امن عامہ کو خراب کرکے، اور بعض اوقات محلاتی سازشوں کے ذریعے فوج یا سیاسی جماعتوں میں وقتی اتحاد پیدا کرکے اپنا مطلب پورا کرتے رہے ہیں۔ یہ عمل ایک تسلسل سے ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ مسلم دنیا کے انقلابات خصوصی طور پر پیغام رسانی کے ذریعے انقلاب کے طریقے کو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے ایک صحت مند، اسلامی تبدیلی کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
مسلم قیادت کو لیبیا، یمن، اور بحرین کے واقعات دعوت دیتے ہیں کہ وہ لگے بندھے انداز سے ہٹ کر غور کرے اور عوامی مسائل و مشکلات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کے لحاظ سے ایسی حکمت عملی وضع کرے جو اُمت کو مکڑی کے جالے سے آزاد ہونے، اپنے پائوں پر کھڑے ہونے، اور تحریکاتِ اسلامی کے نصب العین، یعنی رضاے الٰہی کے حصول میں کامیابی سے ہم کنار کرسکے۔
مغربی ابلاغ میں ’عرب بہار‘ (Arab Spring) کا ذکر ۲۰۱۱ء کے آغاز سے اُبھرنے والی انقلابی تحریک کے حوالے سے مسلسل کیا جا رہا ہے۔ تیونس کے چنبلی یا سفید انقلاب اور اس کے متوازی مصری انقلاب نے اردگرد کے مسلم ممالک میں ایک نئی فضا پیدا کردی جس میں یمن، بحرین، لیبیا اور شام دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ شام کی صورت حال دیگر ممالک کے تناظر میں خاصی پیچیدہ ہے۔ اختصار کے پیش نظر ہم صرف پانچ نکات پر بات کریں گے۔
کسی بھی ملک میں انقلابی صورت حال اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے اپنے شہری صورت حال کے پیش نظر پیش قدمی کریں لیکن مسلم دنیا میں خصوصاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیل اور دیگر ذخائر کا پایا جانا مغربی سامراجیوں کی توجہ اور دل چسپی کا مستقبل سبب رہا ہے، چنانچہ شام کے حوالے سے امریکی کردار بہت پرانا ہے۔ ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۹ء کے درمیان امریکی حکومت نے حسبِ عادت عوام کو ’جمہوریت‘ کا تحفہ دینے کے بہانے دخل اندازی کا آغاز کیا۔ چنانچہ برطانوی اور امریکی خفیہ اداروں نے مشترکہ طور پر بادشاہت کا تختہ اُلٹنے کی سازش میں شرکت کی اور حالات کو بد سے بد تر کی طرف لے جانے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی دوران ۱۹۵۳ء میں دونوں اداروں نے وزیراعظم مصدق کے خلاف ایران میں کھل کر مالی اور افرادی قوت کا استعمال کیا۔
ـموجودہ صورت حال میں امریکا دمشق کے انسانی حقوق کے مرکز صَبا، جس کا براہِ راست تعلق (U.S. National Endowment for Democracy) سے ہے، اور دیگر اداروں، مثلاً ڈیموکریسی کونسل اور انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے کھلے عام مالی امداد دی جارہی ہے اور سیاسی کارکنوں اور عسکری گروہوں کی تربیت کا کام کیا جا رہا ہے۔ امریکا کی یہ دوعملی کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ جہاں یہ آمروں، فوجی ڈکٹیٹروں کی پشت پناہی میں سب سے آگے ہے وہیں ’جمہوریت‘ کے نام پر سیاسی خلفشار پیدا کر کے اور ملک میں خانہ جنگی پیدا کرکے براہِ راست اقوام متحدہ یا اپنی فوجی مداخلت کے لیے فضا تیار کرنا اس کی حکمت عملی کا ایک ستون ہے۔ یہ شکل مکمل طور پر شام میں پائی جارہی ہے۔
دوسرا اہم پہلو شام میں شیعہ اور سُنّی اختلافات کے ذریعے صورت حال کو نازک بنانا ہے۔ اس میں نہ صرف امریکا اور اسرائیل بلکہ ایران اور عراق کی پالیسیوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ چنانچہ شام نے عراق میں شیعوں کی حمایت کے ذریعے مالکی کی حکومت کی حمایت اور فوجی امداد کے ذریعے عراق میں شیعہ اقتدار کے قیام میں سرگرمی سے حصہ لیا جس کے نتیجے میں نہ صرف شام کی سُنّی آبادی بلکہ اردگرد کے ممالک خصوصاً سعودی عرب اور خلیج کے امرا نے ردعمل کے طور پر سنیوں کی حمایت میں اپنی بھلائی محسوس کی۔ اس سلسلے میں الجزیرہ کا کردار غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔ خلیجی ممالک نے شام کو ۲۰ ملین ڈالر کی امداد کی پیش کش اسی غرض سے کی ہے۔
تیسری جانب ابوموسیٰ الزرقاوی کی فکر رکھنے والے گروہوں نے جن کی تعداد اچھی خاصی ہے اور جو عراق کی جنگ میں حصہ لے چکے تھے، شام کی سُنّی آبادی کے تحفظ کے لیے ملک گیر مہم شروع کی جس میں بیرونِ ملک کے سُنّی عناصر نے جنھیں مغربی ابلاغ عامہ ’سلفی‘ کے لقب سے یاد کرتا ہے، حصہ لیا اور اس وقت ان کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ اصلاً بلدالشام جو جغرافیائی طور پر لبنان، شام، فلسطین پر مبنی تھا، اس کی آزادی ہونی چاہیے کیونکہ اس خطے پر اب شیعہ بلکہ علوی اقتدار ہے، جو خود معروف شیعہ مذہب سے کٹا ہوا ایک فرقہ ہے۔ اسد اور اس کے حامی جن کا تعلق علوی فرقے سے تمام کلیدی مناصب پر قابض ہیں۔
چوتھی جانب یورپی ممالک خصوصاً فرانس یہ چاہتا ہے کہ ملک میں انتشار میںاضافہ ہو اور اس طرح اسرائیل کو جو خطرہ شام یا ایران سے ہوسکتا ہے اس میں کمی واقع ہو اور اسرائیل کی دفاعی قوت میں اضافے کا باعث ہو۔
پانچواں پہلو تحریکِ اسلامی کے حوالے سے خصوصی طور پر قابلِ غور ہے۔ شیخ یوسف قرضاوی جو نہ صرف ایک اعلیٰ درجے کے عالم اور فقیہ ہیں، ان کا اخوان المسلمون سے تعلق ان کی ہربات کو براہِ راست یا بالواسطہ مشرق وسطیٰ کی تحریک اسلامی سے منسلک کردیتا ہے۔ انھوں نے اپنے بعض بیانات میں شدت سے بشارالاسد کی حکومت کی مخالفت کا اظہار کیا ہے، جب کہ شام کے بعض دینی عناصر بشارالاسد کے واضح شیعہ طرزِعمل اور سُنّیوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کے باوجود یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اسد کے جانے کے بعد اس کے جانشین اس سے بہتر نہیں ہوں گے۔
ان حالات میں مسلم قیادت کے لیے غور کرنے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سیاسی انتشار و انقلاب کی اس فضا میں کیا وہ اپنا وزن کسی ایک فریق کی طرف ڈال کر کوئی فوری ہدف حاصل کریں یا اس دورِ فتنہ میں اپنا الگ تشخص برقرار رکھتے ہوئے قیادت اور معاشرے کی اصلاح کے طویل المیعاد ہدف کے لیے کام کریں۔ یہ سوال غالباً صرف شام کے لیے نہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک میں بھی دینی قیادت کے لیے ایک کلیدی سوال ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ شدید ہے۔