ڈاکٹر محمد سلطان شاہ | اگست ۲۰۱۱ | رمضان مبارک
اسلام دین فطرت ہے اور ہرشعبۂ زیست میں راہِ اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ آج مغرب میں بھی خوردونوش میں زیادتی کوناپسند کیا جاتا ہے اور اسے صحتِ انسانی کے لیے مضر گردانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے محبوب مکرم نبی معظم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی نازل فرمائی:
وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ o (اعراف ۷:۳۱) اور کھائو اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: کھائو، پیو اور پہنو اور خیرات کرو بغیر فضول خرچی اور تکبر کے۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب ۴۵۴۰، پہلی حدیث)
ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی لکھتے ہیں کہ کھانے میں اسراف صحت کے لیے مضر ہے اور بسیار خوری کی وجہ سے جسم موٹا ہوجاتا ہے جس سے بہت سے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو کھانے کی صرف تھوڑی مقدار کی ضرورت ہے، جو انسانی جسم میں اتنی توانائی پیدا کرسکے جتنی توانائی انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے اور جس سے اس کی صحت اچھی رہ سکے اور وہ اپنی روز مرہ کی ذمہ داریاں پوری کرسکے۔ انسانی جسم کو جتنے کھانے کی ضرورت ہے، اس سے زائد جسم میں داخل ہونے والا کھانا چربی بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کا وزن بڑھ جاتاہے، اس کی رفتار سُست ہوجاتی ہے اور انسان بہت جلد درماندگی اور تکان کا احساس کرنے لگتا ہے، نیز انسانی جسم بہت سے امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کھانے میں اسراف سے قرآن و سنت نے جو ممانعت کی ہے، اس کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمانی نجاتی، ص ۵۱)
بسیارخوری سے انسان کو لاحق ہونے والی مضرت تمام طریقہ ہاے علاج میں مسلّم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں تاکہ گیارہ ماہ کے دوران خوردونوش کی بے احتیاطی کے مضر اثرات کا ازالہ ہوسکے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے روزے رکھنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔
قرآن کریم نے بیمار اور مسافر کے لیے روزے مؤخر کرنے اور جو روزے نہ رکھ سکیں، ان کے لیے فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد روزے کی حکمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۴) اور تمھارے لیے روزہ رکھنا ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
دراصل یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم حیاتیاتی علم کو سمجھو تو تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم روزے رکھو۔ کیونکہ روزہ اپنے اندر بے شمار روحانی، نفسیاتی اور طبی فوائد رکھتاہے۔ روزے کی طبی افادیت کی طرف نہایت مختصر مگر بلیغ اشارہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا: صوموا تصحوا (مجمع الزوائد، ج ۵، ص ۳۴۴، کنزالعمال، رقم الحدیث ۲۳۶۰۵) ’’روزے رکھو، تندرست ہوجائو گے‘‘۔
حکیم محمد سعید شہیدؒ لکھتے ہیں: ’’روزہ جسم میں پہلے سے موجود امراض و آلام کا علاج بھی ہے اور حفظ ماتقدم کی ایک تدبیر بھی۔ روزہ رکھنے والا صرف بیماریوں سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ ان کے لاحق ہونے کے ممکنہ خطرات سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کا طبی سبب یہ ہے کہ روزے سے قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے‘‘۔(حکیم محمد سعید، عرفانستان، کراچی ہمدرد فائونڈیشن پریس، ص۱۷۵)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: لکل شئی زکوٰۃ وزکاۃ الجسد الصوم (المعجم الکبیر، ۶/۲۳۸) ’’ہرشے کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے‘‘۔ اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح زکوٰۃ مال کو پاک کردیتی ہے، اسی طرح روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے اور اس کے ادا کرنے سے جسم تمام بیماریوں سے پاک ہوجاتا ہے، بلکہ کذب، غیبت، حسد اور بُغض جیسی باطنی بیماریوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔
حافظ ابن قیم کے مطابق روزے کا شمار روحانی اور طبعی دوائوں میں کیا جاتا ہے۔ اگر روزہ دار ان چیزوں کو ملحوظ رکھے جن کا طبعی اور شرعی طور پر رکھنا ضروری ہے تو اس سے دل اور بدن کو بے حد نفع پہنچے گا۔(محمد کمال الدین حسین ہمدانی، ڈاکٹر حکیم سید، اسلامی اصولِ صحت، علی گڑھ: حی علی الفلاح سوسائٹی، اشاعت اول ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ء، ص ۴۲)
ڈاکٹر محمد عالم گیر خان سابق پروفیسر آف میڈیسن، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور بھی روزے کو اَن گنت طبی فوائد کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ (محمد عالم گیرخان، ڈاکٹر، اسلام اور طب جدید، ص ۱۲)۔ تُرک اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی، اس حقیقت کا بہ تدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔ (بلوک نور باقی، ڈاکٹر، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، مترجم:سیدمحمد فیروز شاہ، ص ۱۰۳)
گویا روزہ ہمیں صحت مند رکھنے، ہمارے امراض کو دفع کرنے اور مختلف بیماریوں کے خلاف ہماری قوتِ مدافعت بڑھانے میں انتہائی ممدومعاون ہے۔ آیندہ سطور میں روزے کی طبی افادیت کا تفصیلاً جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
نظامِ انہضام (digestive system)مختلف اعضا پر مشتمل ہے جن میں ایلیمنٹری کینال (alimentary canal)اور ہاضمے کے غدود (digestive glands) شامل ہیں۔ ایلیمنٹری کینال منہ سے شروع ہوکر مقعد پر اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ اس میں جوف دہن، ایسوفیگس، معدہ اور آنتیں شامل ہیں۔ جگر اور لبلبہ ہاضمے کے غدود ہیں جن کی رطوبتیں خوراک میں شامل ہوکر اس کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو پورا نظامِ انہضام اس کو ہضم کرنے میں لگ جاتا ہے۔
انسان کو آرام کی بہت ضرورت ہے اور نیند اس کا بڑا ذریعہ ہے لیکن سونے کی حالت میں بھی بہت سے جسمانی افعال رواں دواں رہتے ہیں، مثلاً دل، پھیپھڑے، نظامِ ہضم میں معدہ، آنتیں، جگر، بہت سے ہارمون اور رطوبت، گردہ وغیرہ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب نظام ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور خوراک ان کی محرک ہے۔ اگر ہم اپنے روزمرہ معمولات کا بغور مطالعہ کریں تو ظاہر ہوگا کہ جسم کے ان شعبوں کو بہت کم آرام ملتا ہے۔ رات کے کھانے کو ہضم کرتے کرتے صبح کے ناشتے کا وقت ہوجاتا ہے اور جو لوگ دیر سے سوتے ہیں وہ رات کے کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں(محمد عالم گیر خان، ڈاکٹر، اسلام اور طبِ جدید، ص۱۳)۔ روزے سے معدہ، آنتوں، جگر اور گردوں کو آرام کا موقع ملتا ہے اور سال کے دوران ایک ماہ کا آرام ان کی کارکردگی میں خاطرخواہ بہتری کا موجب بنتا ہے۔ (محمد فاروق کمال، سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۰)
ڈاکٹر ہلوک نور باقی نے نظامِ انہضام پر روزے کے اثرات کا تفصیل سے مطالعہ کیا ہے، جس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:روزے کا حیران کن اثر خاص طور پر جگر (liver) پر ہوتا ہے، کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ ۱۵ مزید افعال بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح تکان کا شکار ہوجاتا ہے، جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کے لیے پہرے پر کھڑا ہو۔ روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھے گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے۔ جگر پر روزے کی برکات کا مفید اثر پڑتا ہے، جیسے جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا ہے جو غیرہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے مابین ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہرلقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کو ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے اور اپنی توانائی (globulins) پیدا کرنے پر صَرف کرتا ہے، جو جسم کے مدافعاتی نظام (immune system) کی تقویت کا باعث ہے۔
انسان معدے پر روزے کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روزے سے معدے سے خارج ہونے والے (gastric juice) کی پیداوار اور اخراج میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔ روزے کے دوران تیزابیت نہیں ہوتی کیونکہ گیسٹرک جوس خارج نہیں ہوتا جس میں موجود ہائیڈرو کلورک ایسڈ تیزابیت کا باعث بنتا ہے۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام فراہم کرتا ہے۔
حکیم ہمدانی اشتہا پر روزے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’دن بھر کھاتے پیتے رہنے کی صورت میں اشتہاے صادق شاذونادر محسوس ہوتی ہے اور بغیر اشتہاے صادق محسوس ہوئے وقتِ مقررہ پر غذا استعمال کرلی جاتی ہے، جس سے سوء ہضم، نفخ، ڈکار، قبض، اسہال، قے وغیرہ جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن بحالت روزہ دن بھر کی بھوک و پیاس کے بعد اشتہاے صادق بلکہ اشتہاے شدید محسوس ہوتی ہے، اور جب وقت افطار غذا استعمال کی جاتی ہے تو اس کا انہضام و انجذاب جسم میں تیزی سے ہوتا ہے اور ہضم بھی قوی ہوجاتا ہے‘‘۔ (اسلامی اصولِ صحت، ص ۴۳-۴۴)
ایلن کاٹ (Allan Cott) نے ۱۹۷۵ء میں اپنی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا: روزے سے نظامِ ہضم اور مرکزی عصبی نظام کو مکمل طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے اور یہ میٹابولزم کے نظام کو نارمل کردیتا ہے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر،ص ۱۴۸)
روزے سے نظامِ دورانِ خون (circulatory system) پر مرتب ہونے والے فائدہ مند اثرات کے بارے میں ترکی کے معروف اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی رقم طراز ہیں: ’’دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کہ خلیات کے درمیان (intercellular) مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشوز، یعنی پٹھوں پر دبائو کم ہوجاتا ہے۔ پٹھوں پر دبائو یا ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے، یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزیدبرآں دل آج کل ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تنائو یا hypertension کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ روزے کا سب سے اہم اثر دورانِ خون پر اس پہلو سے ہے کہ اس سے خون کی شریانوں پر اس کے اثر کا جائزہ لیا جائے۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجہوں میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (remanants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے، جب کہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرّے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے۔ اور شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جن میں شریانوں کی دیواروں کی سختی (arteriosclerosis) نمایاں ترین ہے، سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے‘‘۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۱۰۵-۱۰۶)
حکیم محمد سعید شہیدؒ نے روزے کی افادیت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’آج جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ روزہ کولیسٹرول کو ضائع کرتا ہے۔ یہ وہی خون کا کولیسٹرول ہے جو دل کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آج کی دنیا میں اس سائنسی انکشاف کے لحاظ سے روزہ ایک برکت ہے۔ جو بات آج سائنس دانوں کو معلوم ہوئی ہے ، اس کا ادراک ذات ختم الرسل ؐ کو تھا اور ضرور تھا۔ اسی لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو جسم و روح کے لیے باعثِ خیروبرکت قرار دیا۔(عرفانستان، ص ۱۶۹-۱۷۰)
محمد فاروق کمال ایم فارمیسی (لندن یونی ورسٹی) کے مطابق جسم میں وقتی طور پر پانی کی کمی بلڈپریشر کو کم کر کے دل کو آرام کا موقع دیتی ہے اور اس کی طاقت بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ بھوک سے جسم میں چربی کم ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خون میں اور نالیوں میں بھی چربی کی مقدار کم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ (سیرت محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۰-۵۸۱)
عبداللہ اے ، العثمان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ’’رمضان کے روزے کولیسٹرول کی سطح میں واضح کمی کا باعث ہیں‘‘(جنرل آف اسلامک سائنس، جلد۲۸، عدد ۱، ص۵)۔اس محقق نے جو معلومات جمع کی ہیں، ان سے روزے کے دوران جسم کے وزن، پلازما کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ کے کنٹرول کرنے کی نشان دہی ہوتی ہے۔ حکیم کمال الدین ہمدانی بھی روزے کو بلڈپریشر کے لیے مفید قرار دیتے ہیں(اسلامی اصولِ صحت، ص ۴۴)۔ ڈاکٹر شاہد اطہر ایم ڈی ایسوسی ایٹ پروفیسر انڈیانا یونی ورسٹی اسکول آف میڈیسن لکھتے ہیں کہ وہ رمضان کے آغاز اور اختتام پر اپنا بلڈگلوکوز، کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ خود چیک کرتے ہیں تاکہ وہ روزے رکھنے کے بعد فرق معلوم کرسکیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ رمضان کے آخر میں واضح بہتری سامنے آتی ہے۔(Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۵۰)
ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق روزے کا سب سے اہم اثر خلیوںاور ان کے اندرونی مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہوجاتے ہیں، اس لیے خلیوںکے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتاہے۔ اس طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح پر متعلق خلیے جنھیں ایپی تھیلیل (epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام و سکون ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ علمِ خلیاتیات کے نقطۂ نظر سے یہ کہا جاتا ہے کہ لعاب بنانے والے (pitutary) غدود، گردن کے غدود تیموسیہ (thyriod) اور لبلبہ (pancreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہِ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔(قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۱۰۶)
خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے۔جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خودکار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (stimulate) کردیتا ہے۔ کمزور اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔ روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں، ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر خون پیدا کرسکتے ہیں۔ چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے، یہ ہڈی کے گودے کے لیے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کردیتا ہے جس سے بآسانی اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہوسکے۔(ایضاً، ص ۱۰۷-۱۰۸)
فارماسسٹ محمد فاروق کمال نے لکھا ہے: ’’سائنسی تحقیق کے مطابق روزے کے دوران بھوک کی وجہ سے اور خون میں غذائیت کی کمی کے باعث ہڈیوں کے گودے خون بنانے کا عمل تیز کردیتے ہیں۔ یوں خون بنانے کے سسٹم کی اوور ہالنگ ہوجاتی ہے‘‘۔(سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۱)
ڈاکٹر محمد عالم گیر خان لکھتے ہیں: سحری و افطار کے وقت پانی عام مقدار سے زیادہ پیا جاتا ہے، جس سے صبح و شام گردوں کی دھلائی ہوتی رہتی ہے۔ اگر ریت کے ذرات گردوں میں اکٹھے ہوجائیں تو وہ بھی پیشاب کی زیادتی کی وجہ سے نکل جاتے ہیں۔(اسلام اور طب جدید، ص ۱۳)
ہمدرد فائونڈیشن کے مؤسس حکیم محمد سعید کے یہ الفاظ بھی لائقِ مطالعہ ہیں:طبی نقطۂ نظر سے روزہ اس لیے ضروری ہے کہ ترکِ غذا سے انسان کے جسم میں جمع شدہ اجزاے زائد اور مواد غیرضروری خارج ہوجاتے ہیں اور خون اور اعضاے جسم کی ایسی صفائی ہوجاتی ہے کہ وہ نئی توانائیوں کے ساتھ قبولِ غذا اور افعالِ معمولہ کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ روزے سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اعضاے رئیسہ، یعنی دل و دماغ اور جگر کو آرام مل جاتا ہے اور اس آرام سے ان کی کارکردگی میں بہتری اور اضافہ ہوجاتاہے۔(عرفانستان، ص ۱۷۲)
نظامِ تولید (reproductive system)نسلِ انسانی کے تسلسل کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخالف جنس میں کشش پیدا کر کے اس کو فطرت سے ہم آہنگ کردیا ہے لیکن مرد اور عورت کی باہمی کشش کو نکاح کے ضابطے سے مشروط کر دیا۔ جنسی محرک ان فطری محرکات میں سے ہے جو اپنی تکمیل کے لیے انسان پر بہت زیادہ دبائو ڈالتے ہیں۔ روزہ جنسی محرک کے دبائواور اس سے پیدا ہونے والی نفسیاتی کش مکش کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روزے کی وجہ سے جنسی محرک کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایک طرف توغذا کی قلت کی وجہ سے اور دوسری طرف روزے کے دوران اللہ کی عبادت، ذکر وتسبیح میں مشغول ہونے کی وجہ سے، اس کا ذہن جنسی موضوع پر غوروفکر سے ہٹ جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دی ہے اور جن نوجوانوں میں شادی کی استطاعت نہ ہو، انھیں روزے کی ترغیب دی ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی،ص ۵۳)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو لوگ اخراجاتِ نکاح کی طاقت رکھتے ہوں، وہ نکاح کرلیں، کیونکہ نکاح سے نگاہ اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت ہوتی ہے، اور جن میں اخراجاتِ نکاح کا تحمل نہ ہو وہ روزہ رکھیں، کیونکہ روزہ ان کی شہوت پر کنٹرول کرے گا‘‘۔(بخاری، حدیث ۵۰۶۵، ابوداؤد، حدیث ۲۰۴۶، مسنداحمد، حدیث ۱:۴۴۷)
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کے جنسی نظام پر کسی قسم کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ اس سے جنسی محرک کو کنٹرول کرنے میں مدد ضرور ملتی ہے لیکن نظامِ تولید میں کسی قسم کا نقص پیدا نہیں ہوتا۔ یونی ورسٹی آف میڈیکل سائنسز تہران میں ڈاکٹر ایف عزیزی اور ان کے رفقا نے روزے کے اثرات کے سائنسی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس سے تولیدی ہارمون پر کسی قسم کے منفی اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۸-۱۴۹)
جسمِ انسانی ایک نہایت پیچیدہ اور متحرک دنیا ہے جس میں کروڑوں ذی حس خلیات اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ ہزاروں کمپیوٹر مستعدی سے برسرِکار ہیں، بہت سی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ لاتعداد اجزاے خوراک، رطوبتیں، لعاب اور ہارمون، جسمانی صحت کے تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ قسم قسم کی شریانیں نہروں کی طرح رواں دواں ہیں۔ حواسِ خمسہ کے لیے برقی تار جسم کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ درحقیقت انسانی جسم خداوند تعالیٰ کا ایک بڑا کرشمہ ہے اور اس کی ذات اور صفتِ خلاقیت کا بیّن اور لاریب ثبوت ہے۔ ان سب پیچیدہ کارگزاریوں کا کنٹرول ہمارے دماغ کے خلیات میں ہے جن کااپنا ضبط و نسق ذہنِ انسانی کی ذمہ داری ہے۔ ثابت ہوا کہ ذہن انسانی ہی اصل کلیدِ صحت ہے۔ ذہن بہت سے جذبات سے متاثر ہوتا ہے، مثلاً خوشی، غم، غصہ، نفرت، بے چینی، سکون، مایوسی اور فکر وغیرہ۔ جن لوگوں کی قوتِ ارادی مضبوط ہوتی ہے اور ان کو صبر کی عادت ہوتی ہے، وہ ان جذبات کا اثر بہت حد تک ذہن تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ جسم کے خلیات پر ان جذبات کو اثرانداز نہیں ہونے دیتے۔ متلون مزاج اور حد سے زیادہ حساس افراد میں ان جذبات کا اثر بہت سے خلیات کے افعال پر منتقل ہوتا رہتا ہے اور پھربیش تر امراض کا موجب بن جاتا ہے، مثلاً معدے، چھوٹی و بڑی آنت کے زخم، دمہ، جوڑوں کی سوزش، فالج و دل کے دورے وغیرہ۔ روزبروز اس فہرست میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہربیماری میں ذہنی اثرات مزید پیچیدگیاں پیدا کردیتے ہیں۔ قوتِ ارادی و صبر ان بیماریوں کے بچائو میں اور ہربیماری کے علاج میں جسمانی قوت مدافعت کو استوار کرتے ہیں۔ روزہ ان دونوں خوبیوں کو انسان میں پیدا کرتا ہے اور سال بہ سال ان کی افزایش کرتا ہے۔(اسلام اور طب جدید، ڈاکٹر محمد عالم گیرخان،ص ۱۲-۱۳)
ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علاحدہ ہوجاتی ہیں، اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ روزے سے دماغ میں دورانِ خون کابے مثل توازن قائم ہوجاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اندرونی غدود کو جو آرام اور سکون ملتا ہے، وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثرانداز ہوتاہے۔ انسانی تحت الشعور جورمضان کے دوران عبادت کی بدولت صاف، شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہرقسم کے تنائو اور اُلجھن کو دُور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص ۱۰۷)
نفسیاتی طور پر انسان پر روزے کا بہت ہی اچھا اثر پڑتا ہے۔ روزہ اللہ تعالیٰ سے مستقل و مسلسل لگائو کا ذریعہ ہے۔ سارا وقت اللہ کا تصور انسان کے ذہن میں رہتا ہے جو اسے تنہائی میں بھی کھانے پینے اور برائی سے مانع ہوتا ہے۔ یہ ہمہ وقت تصورِ الٰہی انسان میں اعتماد اور اُمید پیداکرتا ہے اور انسان خود کو اکیلا نہیں بلکہ ہمیشہ اللہ رحیم و رحمن کی معیت میں محسوس کرتا ہے اور اپنی مشکلات کے لیے پریشان نہیں رہتا بلکہ اللہ پر بھروسا اسے ذہنی سکون مہیاکرتا ہے۔(سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، محمد فاروق کمال، ص ۵۸۱)
ایک حدیث مبارکہ میں روزے کو ڈھال قراردیا گیا ہے: الصوم جنۃ (مسلم مع نووی، ج۲، حدیث ۱؍۱۲۱۶)۔ ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی کے مطابق ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ خواہشاتِ نفس سے بچاتا ہے۔روزے دار اپنی خواہشات پر کنٹرول کرتا ہے، نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، نہ جماع کرتا ہے اور اپنے طرزِ زندگی پر بھی کنٹرول کرتا ہے۔ وہ نہ فحش گوئی کرتا ہے، نہ شوروغل مچاتا ہے اور نہ سب و شتم ہی کرتا ہے، نہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جواللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرے۔ روزوں میں خواہشات اور تاثرات پر قابو پانے کی مشق ہوجاتی ہے اور نفس کے فاسد میلانات اور خواہشات پر غلبہ پانے کے سلسلے میں عزم و ارادے کو قوت پہنچتی ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ص ۳۴۹)
معروف مصری اسکالر محمد قطب روزے کو شعوری انضباط کی بہترین مثال قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ عملِ انضباط ایک نفسیاتی ورزش ہے جو متعدد پہلوئوں میں جسمانی ورزش سے مشابہت رکھتی ہے۔ دونوں ہی قسم کی ورزشیں ابتداً دشوار محسوس ہوتی ہیں مگر عادت ہوجانے پر ان کی مشقت کم ہوتی چلی جاتی ہے، اور اگر شروع سے عادت ڈال لی جائے تو نہ صرف یہ کہ سہل ہوجاتی ہے بلکہ اس سے پوری پوری قدرت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اسلام چاہتا ہے کہ بچے کو ابتدائی سالوں ہی سے تربیت دی جائے اور اسے خواہشوں کے ضبط کرنے کی عادت ڈالی جائے۔(اسلام اور جدید مادی افکار، ص ۱۷۵-۱۷۶)
بعض لوگ انتہائی آرام طلب ہوتے ہیں۔ وہ جسم کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتے اور بھوک، پیاس اور جنسی خواہشات کی تکمیل لازم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انضباط سے جو تکلیف پہہنچتی ہے، انسانی طاقت سے ہرگز ماورا نہیں ہوتی بلکہ انسان اس کو پسند نہیں کرتا۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسانی نفس میں الم و مصیبت برداشت کرنے بلکہ اس سے لطف اندوز ہونے کا مادہ ہے۔ اس لیے انسان روزے کے دوران بھوک، پیاس، یا ضعف بدن سے ایک خاص لذت محسوس کرتا ہے۔ روزہ احساسِ گناہ (guilt complex) اور اس سے پیدا ہونے والے قلق و اضطراب کا بھی مفید علاج ہے۔چوں کہ قرآن پاک میں روزے کا بنیادی مقصد ہی تقویٰ بتایا گیا ہے، اس لیے یہ انسان کو خوف اور حزن سے پیدا ہونے والے نفسیاتی عوارض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ روزے رکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور آخرت کی زندگی کے بارے میں خوف کے بجاے اُمید پیدا ہوجاتی ہے، جس سے ایک مسلمان کو قلبی سکون کی دولت میسر آتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق روزہ گناہوں سے مغفرت کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان کے روزے حالتِ ایمان میں خالص اللہ کی رضاجوئی کے لیے رکھے، اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘۔(بخاری، کتاب الصوم، باب من صام رمضان ایمانا واحتسابا ونیۃ، حدیث ۱۹۰۱)
عصرِحاضر میں کچھ لوگ بالکل تندرست ہونے کے باوجود روزے نہیں رکھتے، حالانکہ تندرست افراد کی جسمانی کارگزاری پر روزے کے کسی قسم کے منفی اثرات کسی طبی مطالعے میں سامنے نہیں آئے، البتہ مثبت اثرات کاپتا چلا ہے۔ ڈاکٹر سیدمحمداسلم لکھتے ہیں کہ تندرست افراد میں روزے کے دوران جسم کی اندرونی توازن رکھنے والی کارگزاری پر کوئی قابلِ ذکر اثر نہیں پڑتا اور پیشاب کے نمکیات، تیزاب اور القلی کا میزان اور نائٹروجن کا اخراج معمول کی حدود میں رہتا ہے۔ روزے کے دوران ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے خون میں یوریا اور یورک تیزاب کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں گوشت خوروں میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ اگررمضان المبارک میں افطار کے وقت زیادہ شکر، روٹیاں، چاول وغیرہ کھایا جائے تو اس کا اثر مختلف ہوگا، یعنی خون میں شکر کم ہوسکتی ہے، لیکن اگرغذا معمول کے مطابق رکھی جائے اور سحری اچھی طرح کی جائے تو خون میں تفریطِ شکر کا کوئی امکان نہیں۔(صحت سب کے لیـے، ڈاکٹر سیداسلم، ص ۴۲۵-۴۲۶)
گذشتہ زمانے میں لوگ بہت زیادہ جسمانی مشقت کرتے تھے لیکن موجودہ دور کے انسان میں اس صفت میں کمی آگئی ہے، جس کے باعث موٹاپے نے متمول افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چکنائی اور نشاستہ دار غذائوں کا بے ہنگم استعمال عام ہوگیا ہے جو بغیر جسمانی مشقت کے غیراستعمال شدہ حالت میں جسم میں جمع ہوتی رہتی ہیں اور وزن بڑھتا چلاجاتا ہے۔ جو افراد مختلف جدید طریقوں سے وزن کم بھی کرلیتے ہیں، وہ جب نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں تو وزن پھر بڑھ جاتاہے۔ دراصل انسانی دماغ کے ہائیپوتھیلمس (hypothalamas) میں ایک سنٹر ہوتا ہے جسے لپوسٹیٹ (lipostat) کہتے ہیں۔ یہ انسان کی جسامت کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب بھی خوراک کی انتہائی کمی سے وزن تیزی سے کم کیا جاتا ہے تو یہ سنٹر اس تبدیلی کو قبول نہیں کرتا اور جسم کے وزن کو دوبارہ معمول کی خوراک لینے سے پہلے والی سطح پر واپس لے آتاہے (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۹)۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ موٹاپا دُور کرنے کے لیے وزن آہستہ آہستہ کم کیا جائے تاکہ لپوسٹیٹ اسے قبول کرلے اور ایسا ماہِ رمضان کے دوران ایک ماہ کے روزے رکھنے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
۱۹۹۴ء میں Health and Ramadan کے عنوان سے پہلی انٹرنیشنل کانگریس کیسابلانکا میں منعقد ہوئی جس میں اس موضوع پر ۵۰تحقیقی مقالات پیش کیے گئے۔ (ملاحظہ کیجیے: www.islam.usa.com)
قرآن پاک میں بیمار اور مسافر کو روزہ قضا کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور جو روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہ رکھتا ہو، خواہ بڑھاپے کے باعث یا مستقل بیماری کی وجہ سے، اسے فدیہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍط (البقرہ ۲:۱۸۴) پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھ لے اور جو لوگ اسے بہت مشکل سے ادا کرسکیں، وہ ایک مسکین کا کھانا فدیہ دیں۔
قرآن مجید نے قیامت تک آنے والے مسائل کا حل پیش کیا ہے یا پھر ایسے راہنما اصول وضع کردیے ہیں جن کے ذریعے تمام اَدوار کے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ روزے سے متعلق بھی احکامِ خداوندی میں بتایا گیا کہ روزہ رکھو، یہ تمھاری بہت سی جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج ہے یا ان امراض کے خلاف جسمانی قوت ِ مدافعت بڑھاتا ہے۔ پھر یہ حکم دیا کہ جنھیں عارضی مسئلہ درپیش ہے، جیسے اگر سفر پر جانا ہے یا پھر کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہے تو اس عارضی رکاوٹ کے ختم ہونے کے بعد روزے پورے کرلو۔ یہی حکم خواتین کے مخصوص ایام کے متعلق بھی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص انتہائی بڑھاپے اور کمزوری کے باعث یا پھر کسی ایسی بیماری کے باعث جو بخار وغیرہ کی طرح وقتی نہیں ہے بلکہ مستقلاً انسان کو لگ گئی ہے اور روزہ رکھنے سے اس میں شدت کا اندیشہ ہے تو ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دینا ہوگا۔
موجودہ دور میں سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ طبی تحقیقات کے باعث ہرقسم کی بیماری کو کم یا زیادہ کرنے والے عوامل سامنے آچکے ہیں۔ اس لیے مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو ماہرین طب کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر سیداسلم اور ڈاکٹر شاہد اطہر نے مختلف بیماریوں کے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں تفصیلاً بتایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
۱- ذیابیطس کے مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں، انھیں روزے نہیں رکھنے چاہییں کیونکہ ان کی ذیابیطس کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ اس کے برعکس انسولین نہ لینے والے مریضوں کو ان مشکلات کاسامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایسے مریض جو صرف خوراک سے ذیابیطس کو کنٹرول کر رہے ہیں، وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ان کے مرض پر روزہ اچھے اثرات مرتب کرتا ہے۔
۲- دمے کے مریض جن کا مرض معمولی ہے، وہ تکلیف کی صورت میں بغیر روزہ توڑے سانس کے ساتھ والی ادویہ (inhaler) استعمال کرسکتے ہیں یا دیرپا اثر والی دوائیں افطار کے بعد اور سحری سے قبل لے سکتے ہیں۔
۳- بلند فشار خون (high blood pressure) اور دل کے ایسے مریض، جو خون پتلا کرنے والی ادویہ استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے طویل الاثر دوا کفایت کرسکتی ہے اور وہ روزہ رکھ سکتے ہیں، کیونکہ روزے سے وزن میں کمی واقع ہوگی اور بلڈپریشر بھی کم رہے گا۔ تاہم ان مریضوں کو ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھنا چاہیے۔ لیکن شدید ہائیپر ٹینشن اور امراضِ قلب میں مبتلا مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔
۴- جن لوگوں کے گردوں کے فعل میں کمی آگئی ہے ، ان میں روزہ رکھنے سے پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ جن مریضوں کے گردے خراب ہوچکے ہیں اور ان کے خون کی ڈیالیسس (dialysis) ہوتی رہتی ہے، ان میں دو ڈایالیسس کے درمیانی وقفہ میں پوٹاشیم میں اضافہ اور وزن میں زیادتی ہوسکتی ہے، جسم کے تیزاب میں بھی اضافے کا امکان ہے۔ اگر یہ لوگ رات کو زیادہ کھالیں گے تو وزن بڑھ کر نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ان افراد کو روزے نہیں رکھنے چاہیں۔ جن کا گردہ تبدیل ہوچکا ہے اور اس کا فعل درست ہے، ان کو روزے سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا لیکن انھیں اپنے معالج سے مشورہ کرلینا چاہیے۔
۵- مرگی کے مریضوں کو روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
۶- درد گردہ اور معدے کے السر میں مبتلا افراد کے لیے روزے رکھنا مناسب نہیں، کیونکہ پانی کی کمی کے باعث گردے میں درد ہونے کا احتمال ہے۔ اسی طرح السر کے مریض بھی خالی معدے کی حالت میں زیادہ تکلیف سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
۷- بوڑھے افراد جو دماغ کی رگوں کے مرض میں مبتلا ہیں، ان میں روزے سے اشیا کو شناخت کرنے کی صلاحیت گھٹ سکتی ہے۔
۸- حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزے نہ رکھیں کیونکہ حاملہ خواتین میں خون کی گلوکوز اور انسولین میں کمی ہوجاتی ہے۔ دودھ پلانے والی خواتین کے جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ نمک اور یورک ایسڈ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ماں کے دودھ کی لیکٹوز (شکر)، سوڈیم اور پوٹاشیم میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس لیے بچے کی صحت قائم رکھنے کے لیے روزہ نہ رکھا جائے۔ (بہ شکریہ معارف، اعظم گڑھ، بھارت، اگست ۲۰۱۰ء)
مضمون نگار جامعہ ہمدرد (ہمدرد یونی ورسٹی) نیو دہلی سے وابستہ ہیں-