اُس روز ۷۵ افراد یک جا ہوئے۔
وہ برصغیر کی مختلف بستیوں، قصبوں اور شہروں سے آئے تھے۔ ان میں سے اکثر ایک دوسرے سے نہ آگاہ تھے نہ متعارف۔ چند استثنائی صورتوں کے سوا انھوں نے ایک دوسرے کو اس سے پہلے دیکھا بھی نہ تھا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود، ایک بات سب جانتے تھے___ کہ وہ کیوں یک جا ہوئے ہیں۔ وہ بہت کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ان کا کرب ان پر روشن تھا۔ آنکھیں بند بھی کرلیتے، تو انجان کیسے بن جاتے۔ایسے میں انھوں نے ایک پکار سنی۔ ایک دعوت نے انھیں یک جا کر دیا۔ دعوت مل بیٹھنے کی نہیں تھی، دعوت مل کر چلنے کی تھی۔ بکھرے بکھرے انسان تھے اور ایک قافلے میں ڈھل جانے کے لیے آئے تھے___ اور پھر وہ ایک قافلے میں ڈھلے۔
ان کا سفر مختصر نہ تھا۔ یہ اب زندگی بھر کا سفر تھا اور آسمان کی آنکھ کو اس دن کے بعد جو کچھ دیکھنا اور پرکھنا تھا، وہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کون احساس کا کتنا سرمایہ رکھتا ہے، کس کے پاس درد کی کتنی پونجی ہے، کسے چند قدم چل کر بچھڑ جانا ہے اور کسے آخری سانس کی گواہی کے ساتھ پہنچنا ہے، کہاں جذبہ وقتی ہے اور کہاں فیصلہ آخری ہے___ سفر تو شروع ہوچکا، لیکن اب اس بات کو بھی تو ان کے صحیفۂ حیات میں درج ہونا تھا کہ کون چلا تو مڑمڑ کر دیکھتا رہا اور کون نکلا تو یہ شعور ہرگام ساتھ تھا کہ وہ کس کی راہ میں نکلا ہے___ یہ اسی سفر کی تاریخ ہے۔
دن ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کا تھا۔ ۲شعبان ۱۳۶۰ھ، شہر لاہور تھا اور مقام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کا رہایشی مکان (متصل مبارک مسجد، شبلی سٹریٹ، اسلامیہ پارک، پونچھ روڈ)۔ یہیں ترجمان القرآن کا دفتر بھی تھا اور یہیں سب لوگ یک جا ہوئے تھے۔
بنیادی کام ایک عرصے سے ہو رہا تھا۔ وہ حالات جن سے عالمِ انسانی، عالمِ اسلام اور خود برصغیر ہند کے رہنے والے گزر رہے تھے، ترجمان القرآن کی مسلسل تحریروں کا موضوع تھے۔ برسوں پر مشتمل ایک مربوط، مؤثر، مدلّل اور مکمل تجزیے نے اسلامی انقلاب کے لیے ایک اسلامی تحریک کی ضرورت واضح کر دی تھی۔ برصغیر کے مسلمان ایک طویل عرصے سے، جس صورتِ حال میں مبتلا تھے، اس کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک اسلامی تحریک کی ضرورت اس طرح واضح کی گئی: lایک یہ کہ اسلام کا مقصد زندگی کے فاسد نظام کو بالکل بنیادی طور پر بدل دینا ہے۔
صفر ۱۳۶۰ھ (اپریل ۱۹۴۱ء) کے شمارے میں، اس تجزیے کی بنیاد پر ایک تحریک کی ضرورت محسوس کرنے والوں کو دفتر ترجمان سے رابطہ قائم کرنے کے لیے کہا گیا۔ ’’اب وقت آگیا ہے کہ جہاں جہاں اس فکر کے لوگ موجود ہیں ان کے درمیان رابطہ پیدا کیا جائے اور ان کے اجتماع کی کوئی صورت نکالی جائے‘‘(ص ۱۰۱)___ اور یہ ترجمان کی ماہِ صفر ۱۳۶۰ھ کی اشاعت تھی جس کے ذریعے حقائق کا شعور رکھنے والوں کو آخرکار دنیاے عمل میں آنے کی دعوت دے دی گئی۔
ردعمل مثبت تھا۔ یہ بات سامنے آنے میں دیر نہ لگی کہ کروڑوں کی آبادی میں کچھ لوگ سوچ بھی رہے تھے___ سوئی ہوئی بستیوں میں کچھ انسان جاگ بھی رہے تھے۔ہرگھاٹ کی طرف لپکنے والوں کے درمیان کچھ وجود پیاسے بھی پائے گئے۔ انھیں یکم شعبان ۱۳۶۰ھ، ۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء کو یک جا ہونا تھا۔ لیکن دُور دراز سے آنے والے احتیاطاً پہلے ہی چل پڑے تھے اور یوں لوگ ۲۸؍رجب سے ہی آنے شروع ہوگئے۔ یکم شعبان تک تعداد ۶۰ہوچکی تھی۔ کچھ لوگ بعد میں آئے، اور جب انھوں نے ایک تحریک کا آغاز کیا تو وہ۷۵ تھے۔
یکم شعبان کا دن ایک دوسرے سے متعارف ہونے، ملنے ملانے، معلومات حاصل کرنے اور تبادلۂ خیالات میں گزرا۔ شام کو وہ دیر تک دفتر ترجمان القرآن کے صحن میں بیٹھے رہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ان کے درمیان موجود تھے اور ان کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ مسائل پیش ہوتے رہے، اور حل سامنے آتا رہا___ یک جا ہونے والے یکسو ہورہے تھے۔
اور پھر ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ کی صبح طلوع ہوئی___ ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء
دفتر ترجمان القرآن میں وقت کی اسلامی تحریک کے تاسیسی اجتماع کا آغاز ہوا۔ مولانا مودودی تمہیدی خطاب کے لیے اُٹھے تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔
انھوں نے زندگی اور مقصدِ زندگی کا تعلق بیان کیا___ زندگی بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے اگر ہم جان لیں کہ ہمارا دین ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اس صورت میں زندگی محض وقت گزارنے کی چیز نہیں رہتی، اور دین صرف ایک عقیدہ ہی نہیں رہتا بلکہ زندگی ایک مسلسل عمل اور دین ایک تحریک بن جاتا ہے___ فرمایا: ’’دین کو تحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامد و ساکن ہوکر نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دین کو عملاً نافذ و قائم کرنے، اور مانع و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں‘‘۔
اپنے اس خطاب میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے دو زبردست اندرونی خطرات سے بھی آگاہ کیا جو ایسی تحریکوں کو پیش آتے رہے ہیں۔ ان کی نگاہ میں یہ وہ غلطیاں تھیں جن سے اس تحریک کے کارکنوں کو لازماً بچنا چاہیے.... انھوں نے پہلے قدم پر ہی، ایک اسلامی تحریک کے دائرہ عمل سے بھی آگاہ کردیا: ’’یہ بات ہر اس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیشِ نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت،معاشرت، ہر چیزکو بدل ڈالنا ہے، دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے، اور اس کام میں تمام شیطانی طاقتوں سے اس کی جنگ ہے۔ اس کو اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے ہرشخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں… لہٰذا قدم اُٹھانے سے پہلے خوب سوچ لو۔ جو قدم بھی بڑھائو،اس عزم کے ساتھ بڑھائو کہ یہ قدم اب پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہو بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رُک جائے‘‘ ___یہ جماعت اسلامی کی تشکیل سے چند گھنٹے پہلے کا خطاب ہے۔
۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کے دن کا بڑا حصہ اس دستور پر غور کرنے میں گزرا جس کے مطابق اس قافلے کو چلنا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے اس دستور کا مسودہ پڑھنا شروع کیا۔ جس کی کاپیاں چھپوا کر ایک دوروز پہلے ہی تمام آنے والوں کو دے دی گئی تھیں۔ اب ایک ایک لفظ پڑھا گیا۔ ایک ایک نکتے پر تبادلۂ خیال ہوا۔ سب نے اس میں حصہ لیا۔ یہ مسلسل نشست صرف دوپہر کے کھانے اور ظہروعصر کی نمازوں کے لیے ملتوی ہوئی۔ باقی سارا وقت دستورِ جماعت ترتیب دینے میں صرف ہوا۔ برصغیر کی دورِغلامی کے اس دن کا سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی جب یہ کام مکمل ہوگیا۔
اب سب سے پہلے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی اُٹھے۔ کلمہ شہادت اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہ کا اعادہ کیا اور کہا: ’’لوگو! گواہ رہو کہ میں آج ازسرِنو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں‘‘۔ ایک ایک کر کے دوسرے افراد اُٹھے ، اور اسی طرح تجدید ایمان کے ساتھ جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ عجب سماں تھا۔ چہرے آنسوئوں میں نہا گئے۔ آوازیںگلوگیر ہوگئیں۔ شہادت کا یہ کلمہ کب نہیں پڑھا تھا، لیکن آج جب سوچ سمجھ کر زندگیوں کو اس کے لیے وقف کرکے اور اس کی تمام ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ پڑھا تو کانپ کانپ اُٹھے۔ جس دین کے لیے مخلص تھے، اس دین کے لیے متحرک ہونے کا عہد کر رہے تھے اور جانتے تھے کہ یہ عہد کس سے کررہے ہیں۔
جب سب، خدا سے اپنے عہد پر دوسروں کو گواہ بنا چکے، تو وہ تعداد میں ۷۵ تھے___ اور یہی ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء، ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ کا وہ لمحہ تھا جب مولانا مودودیؒ نے اعلان کیا: ’’آج جماعت اسلامی کی تشکیل ہوگئی‘‘۔ (آئین، اشاعتِ خاص، جماعت اسلامی کے ۵۰سال، ص ۲۲-۲۵)