جمعہ ۲۴ جون ہمارے دورۂ مصر کا آخری روز تھا۔ ہم نے قاہرہ کے تاریخی میدان التحریر، یعنی میدان آزادی کے ایک گوشے میں واقع جامع مسجد عمر مَکرَم میں نماز جمعہ ادا کی۔
خطیب صاحب نے حسنی مبارک دور پر کھل کر تنقید کی۔ حسنی مبارک ۳۰ سال تک مصر کے سیاہ و سفید کا مالک رہا، اس سے پہلے انورسادات اور جمال عبد الناصر بھی شخصی اقتدار کی بدترین مثالیں تھیں۔ تینوں نے اپنے ۶۱سالہ اقتدار میں لوٹ مار ہی نہیں، ظلم و جبر کی بھی انتہا کردی۔ خطبۂ جمعہ کے بعد بھی لوگ کہہ رہے تھے کہ سابقہ دور میں کوئی شخص منبر پر کجا ،نجی محفل میں بھی یہ باتیں کہنے کا تصور تک نہیں کرسکتا تھا۔ آج ہر شخص گویا ایک نئی دنیا میں سانس لے رہا ہے۔ پہلے ہر دوسرا شخص کسی دشمن جاسوسی ادارے کا نمایندہ لگتا تھا، اب وردی پوش بھی اپنے بھائی دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ملک میں عملاً فوج کی عمل داری ہے۔ ہر اہم فیصلہ فوج کے سربراہ جنرل محمد حسین طنطاوی مسلح افواج کی سپریم کونسل کے ذریعے کرتے ہیں۔ اگرچہ بظاہر ایک غیر فوجی شخصیت ڈاکٹر عصام شرف وزیراعظم ہیں اور ان کی ایک کابینہ بھی ہے لیکن ان کی حیثیت جمالی یا جونیجو حکومت سے بھی کمزور ہے۔ اگرچہ پوری قوم نے ڈکٹیٹر سے نجات حاصل کرنے پر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا ہے لیکن اب بھی ہر شہری حقیقی تبدیلی کا منتظر ہے۔ لوگوں کو پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے مظالم سے رہائی مل گئی، آزادی اظہار و اجتماع بھی حاصل ہوگئی لیکن ملک میں ایک عادلانہ حقیقی جمہوری نظام کا خواب تاحال تعبیر کا منتظر ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے عوام میں اضطراب و تشویش میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کئی بار تو احساس ہونے لگتا ہے کہ شاید کوئی مخفی طاقت اس عوامی مایوسی میں اضافہ چاہتی ہے۔ ظالم حکومت سے نجات پر شکر کے احساسات قدم قدم پر سننے کو ملتے ہیں لیکن بعض اوقات اظہار مایوسی بھی ہونے لگتا ہے۔
ہماری خواہش تھی کہ اخوان کے کسی اشاعتی ادارے کو دیکھنے کا موقع بھی مل جائے تاکہ تحریکی بالخصوص اخوان کا لٹریچر خریدا جاسکے۔ ایک روز اس کا موقع مل گیا۔ اخوان کے مرکز میں ذمہ داران سے تفصیلی ملاقاتوں کے بعد محترم امیر جماعت اور محترم قیم جماعت کو کمرے میں پہنچا کر اخوان کے ایک ساتھی کے ہمراہ، اخوان کے اشاعتی ادارے دار النشر و التوزیع جانے کا پروگرام بن گیا۔ اخوانی ساتھی کا نام بدر تھا جو خود بھی ایک کامیاب تجارتی ادارہ چلا رہا ہے۔ اس نے مشورہ دیا کہ وہ بہت مصروف علاقہ ہے، رش سے بچنے کے لیے ٹیکسی پر چلا جائے تو مناسب ہوگا اور آتے جاتے ٹیکسی کی سواری میں بھی ملک میں آنے والی بڑی تبدیلی، لیکن روز بروز بڑھتی عوامی پریشانی کا عملی مشاہدہ ہوا۔ جاتے ہوئے ٹیکسی میں سوار ہوئے تو ڈرائیور نے دونوں اگلی سیٹوں کی پشت پر دو جاذب نظر پردے لٹکائے ہوئے تھے، جن پر چار بڑے سائز کی جیبیں بنی ہوئی تھیں اور ان چاروں میں ایک اشاعتی ادارے کی طرف سے مختلف کتابیں رکھی تھیں۔ ہر کتاب میں ایک کارڈ رکھا تھا۔ جس پر ایک سروے کے مختصر سوالات تھے کہ آپ کو دوران سفر کتنے وقت کے لیے یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا؟ کتاب کیسی لگی؟ وغیرہ۔ ہم نے ڈرائیور اور اس اشاعتی ادارے کی تحسین کی اور کہا:کوشش کریں کہ اچھی اور معیاری کتابیں رکھیں۔ ڈرائیور نظامِ جبر سے نجات ملنے پر اظہارِ خوشی کرتے ہوئے کہنے لگا جس نے بھی یہ کتب اور یہ اسلوب دیکھا ہے اس نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ہم نے مکتبے میں تقریباً چار گھنٹے گزارے۔ درجنوں نئی کتب مل گئیں۔
ساتھ ہی ایک اور حیرت انگیز منظر بھی ملاحظہ کرتے جائیے۔ اخوان کے مکتبے کے بارے میں بدر نے بتایا تھا کہ حسنی مبارک انتظامیہ نے گزشتہ کئی سال سے اخوان کی کتب اور اس کے اشاعتی ادارے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ چند روز قبل ہی اس سے پابندی ختم ہوئی ہے۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو تین کمروں میں فرش سے چھت تک لگی الماریوں میں لاتعداد کتب سجی تھیں۔ کچھ بالکل نئی تھیں اور اکثر قدرے پرانی لگ رہی تھیں۔ کتابیں دیکھتے اور گوہرِ مقصود تلاش کرتے کرتے نماز کا وقت ہوگیا۔ مکتبے کے ساتھی نے ایک گوشے میں واقع چھوٹے سے کچن ہی سے وضو تازہ کرنے کا کہا۔ وہاں پانی فرش پر بہہ رہا تھا۔ اخوانی ساتھی بدر نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ کم از کم پانی کی نکاسی کا انتظام تو درست ہونا چاہیے۔ مکتبے کا ذمہ دار معذرت کرتے ہوئے کہنے لگا: حکومت نے ہم پر پابندی لگاتے ہوئے یہ مکتبہ اپنی تمام کتب سمیت گذشتہ کئی سال سے سیل بند کردیا تھا۔ اس دوران چوہے اس باورچی خانے کے پائپ تک کتر گئے۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ اللہ کا یہ فضل و کرم دیکھیے کہ سالہا سال بند پڑے رہنے کے دوران چوہے کئی چیزیں کتر گئے لیکن ہماری ہزاروں کتابوں میں سے کسی ایک بھی کتاب کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، دیمک تک نے بھی کچھ نہیں چاٹا۔ سبحان اللہ اور الحمد للہ کہتے ہوئے وہاں موجود سب افراد نے یہ سن کر اللہ پر ایمان بڑھتا ہوا محسوس کیا۔
اخوان کے نائب مرشدین عام نے اخوان کے نظامِ دعوت و تربیت کے بارے میں تفاصیل بتائیں تو امام حسن البنا کے صدقہ جاریہ اور اخوان کے کام کی وسعت کا اندازہ ہوا۔ اخوان کے سب سے بزرگ نائب مرشدعام جمعہ امین خواتین کے کام کی تفصیل بتا رہے تھے کہ الحمدللہ ہماری بہنیں الاخوات المسلمات مردوں سے بھی زیادہ فعالیت سے کام کرتی ہیں۔ ان کی الگ سے کوئی تنظیم نہیں ہے۔ مرد حضرات پورے کام کی نگرانی کرتے ہیں، لیکن اپنی تمام تر سرگرمیاں وہ خود کرتی ہیں۔ جناب جمعہ امین کہہ رہے تھے کہ حسنی مبارک کے جابرانہ نظام میں اخوان سے وابستگی کی کم از کم سزا کئی سال کی قید ہوتی تھی، لیکن ہم نے تہیہ کیے رکھا کہ اپنی کسی بہن کو گرفتار نہیں ہونے دینا ہے اور الحمدللہ ہم مجموعی طور پر اس میں کامیاب رہے۔
دوسرے نائب مرشدعام محمود عزت نے بتایا کہ بچوں، بچیوں، نوجوانون، خواتین اور مردوں کے لیے ایک مربوط تحریکی نصاب طے ہے۔ بعدازاں اخوان کے مکتبے سے جو بہت سی قیمتی کتابیں دستیاب ہوئیں ان میں اہم ترین کتب ان کے نصاب سے متعلق تھیں۔ علما و محققین کی مختلف ٹیموں نے یہ نصاب بہت محنت سے تیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر فی نورالاسلام کتاب ملاحظہ کیجیے۔ چار جلدوں پر مشتمل یہ کتاب ان کے کارکنان کے لیے اولیں مرحلہ ہے۔ ہر جِلد کا پہلا نصف قرآن کریم اور دوسرا احادیث نبویؐ پر مشتمل ہے۔ اس کا اسلوب خالصتاً تدریسی و تربیتی ہے۔ آیات کی مختصر تشریح کے علاوہ ہر آیت سے حاصل ہونے والے اسباق اور اس کی روشنی میں عمل کی راہیں واضح کی گئی ہیں۔ کتاب تیار کرنے والوں نے استاد و مربی اور طالب علم یا زیرتربیت افراد کے لیے بھی الگ ہدایات دی ہیں کہ وہ کیسے ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکتے ہیں۔ فی ریاض الجنۃ کے عنوان سے آٹھ جِلدوں اور مسلم خاتون کی ایمانی و دعوتی تربیت کے نام سے دو جِلدوں پر مشتمل لٹریچر خصوصی طور پر خواتین کے لیے تیار کیاگیا ہے۔ اپنی اصلاح، بچوں کی تربیت اور اہلِ خانہ کے حقوق و فرائض سمیت ہر گوشۂ حیات میں رہنمائی کرتا ہے۔ الرشاد کے نام سے گیارہ اجزا پر مشتمل نصاب بچوں کے لیے ہے۔ رنگوں، تصاویر اور اہم واقعات کی مدد سے تیار کتابچے بچوں کو بھی آغازِ حیات ہی سے اپنے رب کی پہچان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، جنت کے شوق اور قرآن کریم کی تعلیمات سے روشناس کر دیتے ہیں۔
صرف مطالعہ لٹریچر ہی نہیں، ہرمرحلے پر عملی تربیت اخوان سے وابستہ ہرشخص کو کندن بنانے میں مدد دیتی ہے۔ اخوان کے ذمہ داران نے بتایا کہ ہمارے تربیتی نظام میں اسرہ جات کو جو اہمیت حاصل ہے اس کے پیش نظر ہر کارکن خواہ وہ کسی بھی ذمہ داری پر پہنچ جائے، ہمیشہ ایک اسرے کا رکن رہتا ہے۔ ایک اسرے کے تمام افراد باہم محبت اور تعلق میں ماں جاے افراد خانہ سے بھی زیادہ آگے بڑھے ہوتے ہیں۔ ان اسرہ جات میں بھی تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ان کے نقیب (ذمہ دار) میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کے مابین یگانگت پیدا ہوسکے۔
اخوان کے تیسرے نائب مرشدعام انجینیر خیرت الشاطر جماعت کی اقتصادی سرگرمیوں کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی اپنی ذات میں ایک منفرد انسان ہیں۔ تجارت اور اقتصادیات کے بڑے ماہر، انتہائی منکسر المزاج ارب پتی ہستی۔ انھوں نے ۱۹۹۰ء میں پورے مشرق وسطی میں سلسبیل کے نام سے پہلی کمپیوٹر کمپنی قائم کی۔ ۱۹۹۵ء میںان کی سات کمپنیاں تشکیل پاچکی تھیں اور یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ سلسبیل عالمی سطح کی کمپنی بن جائے گی۔ ۱۹۹۵ء میں انھیں گرفتار کرلیا گیا اور ان کی ساتوں کمپنیاں ضبط کرلی گئیں۔ ارب پتی شخصیت مکمل طور پر قلاش ہوگئی۔ الزام صرف یہ تھا کہ یہ اخوان کو مالی امداد دیتا ہے۔ پانچ سال جیل میں رہے، رہائی ملی تو دوبارہ کاروبار شروع کردیا۔ ۲۰۰۲ء میں پھر گرفتار کرلیا گیا۔ ۲۰۰۳ء میں رہائی ملی، کاروبار دوبارہ شروع کیا۔ ۲۰۰۵ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا، ساری جایداد ضبط کرلی گئی اور پھر حسنی مبارک کے بعد ہی رہائی نصیب ہوئی۔ خیرت الشاطر کی سات بیٹیاں ہیں، سب کی شادی ہوگئی، لیکن کسی بیٹی کو بھی رخصتی کے وقت باپ کے سینے سے لگنا نصیب نہ ہوا۔ جیل ہی سے دُعاؤں کے پھول نچھاور کرتے ہوئے بیٹیوں کو رخصت کیا۔ آپ انجینیر خیرت سے ملیں، تو آپ کو بڑھاپے کی سرحدوں کو چھوتے، لمبے تڑنگے، سابق ارب پتی سے زیادہ مطمئن اور شاداں شخص شاید کوئی نہ ملے۔
اسلامی تحریکوں کو اللہ تعالیٰ نے دین کے جس وسیع تر تصور سے روشناس کیا ہے اخوان کی سرگرمیاں اس کا بھرپور پرتو ہیں۔ مصری سیاست کے میدان میں وہ اس وقت سب سے بڑی قوت ہیں۔ ان کی قوت ہی سے خوف زدہ ہوکر کچھ طاقتیں انتخابات ملتوی کرنا چاہتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ شب وروز ان کی طاقت کو اپنوں اور غیروں کے سامنے ایک ہوّا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ قاہرہ پہنچنے کے اگلے روز اخبارات خریدے تو ایک اخبار کی جلی سرخی تھی: ’’انتخاب اخوان کی جیب میں‘‘۔ ساتھ مرشدعام کی تصویر لگی تھی۔ دیکھنے والا پہلی نظر میں سمجھتا ہے کہ یہ شاید مرشدعام کا بیان ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے ہر پڑھنے والے کے ذہن میں اخوان اور مرشدعام کے بارے میں منفی تاثر اُبھرتا ہے، لیکن درحقیقت یہ اخبار کا اپنا تبصرہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کو اخوان سے خوف زدہ کرنا مطلوب ہے۔ حسنی مبارک کے خلاف اخوان کے ۵۵؍ارکان نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ان میں سے ہرکارکن کا واقعۂ شہادت ایک مکمل داستان ہے۔ اخوان کے ایک ذمہ دار بتا رہے تھے کہ حسنی مبارک کے پورے دور میں ہم جب بھی کسی مظاہرے یا جلسے جلوس کے لیے گھر سے نکلتے تو دل میں یہ احساس لے کر نکلتے تھے کہ شاید آج آخری بار گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھ رہے ہیں۔ نکلنے سے پہلے اپنی آخری وصیت لکھ کر گھر میں چھوڑ کر آتے تھے۔ اس پورے عمل کا نمایاں ترین اثر ہر کارکن کی زندگی پر یہ ہوتا کہ وہ ہمیشہ اپنی آخرت پر نگاہ رکھتا۔
صرف دعوت وتربیت اورسیاست ہی نہیں، اصلاح و خدمت کا کوئی بھی پہلو اخوان کے دائرہ عمل سے خارج نہیں ہے۔ آیئے اخوان کی ویب سائٹ پر آج کی تاریخ میں نشر ہونے والی سرگرمیوں کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ استقبال رمضان کے متعدد پروگرام، مختلف علاقوں میں فری میڈیکل کیمپ، ’آزادی کی راہ‘ کے شعار کے تحت شجرکاری کی مہم، پرانے کپڑوں اور رمضان کی ضروریات فروخت کرنے کے لیے اخوان کے زیراہتمام سستا بازار۔ طویل عرصے سے خراب پڑی علاقے کی سٹریٹ لائٹوں کی مرمت وغیرہ۔ ایک انتہائی منفرد سرگرمی یہ ملاحظہ کیجیے کہ اخوان نے معاشرے میں صلح کروانے اور اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ملک بھر میں مصالحتی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے ارکان جنھیں آپ غیرسرکاری جج کہہ سکتے ہیں، متعین کرنے سے پہلے انھیں باقاعدہ دوسالہ کورس کروایا جاتا ہے۔ ’مدارس الصلح‘کے نام سے ان اسکولوں میں وراثت، شادی بیاہ کے مسائل، نکاح و طلاق کے احکام اور تعزیرات و قوانین جیسے ۱۶موضوعات باقاعدہ پڑھائے جاتے ہیں۔ ۳جولائی کو اخوان کے مرکز میں مدارس الصلح کا پانچواں جلسہ تقسیم اسناد تھا، جس میں۱۲۵؍افراد فارغ التحصیل ہوئے۔ اخوان کے ذمہ داران کااس بارے میں کہنا ہے کہ ملک میں ۸۰لاکھ مقدمات ایسے ہیں کہ ان کا فیصلہ ہوچکا ہے لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ۲کروڑ مقدمات تو ابھی تک سنے ہی نہیں جاسکے۔ ایسے میں یہ ایک اہم خدمت ہے کہ لوگوں کے اختلافات کو باہمی رضامندی سے عدالت سے باہر ہی مصالحت کے ذریعے طے ہوجائیں اور یہ مصالحتی نظام معاشرے کا حصہ بن جائے۔
اسی طرح کی ایک اور خدمت سے ہمیں اس وقت آگاہی ہوئی جب ہمارے میزبان ہمیں دریاے نیل میں کھڑے ایک بڑے سمندری جہاز میں قائم ریستوران میں کھانا کھلانے لے گئے۔ آرڈر دیتے ہوئے ہمارے میزبان نے بیرے سے پوچھا کیا آپ کا ریسٹورنٹ ’غذائی بنک‘ کا رکن ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا تو میزبان نے بتایا کہ اگر خدانخواستہ کھانا بچ بھی گیا تو فکر نہ کریں۔ یہ اسے الگ الگ محفوظ کرلیں گے، بعد میں غذائی بنک والے ان سے لے کر، مختلف علاقوں میں مستحق ومحتاج افراد میں تقسیم کردیںگے۔
مصری معاشرے کی لاتعداد خوبیوں کے ساتھ ساتھ کئی پہلو تکلیف دہ بھی تھے۔ معاشرتی تفاوت تمام مسلم ملکوں کی طرح مصر میں بھی انتہا تک پہنچا ہوا ہے۔ مصر کی آبادی ۸کروڑ ہے جس کی ایک چوتھائی صرف قاہرہ ہی میں رہتی ہے۔ ہمارا ڈرائیور بعض اوقات رش سے بچنے کے لیے قاہرہ کی تنگ گلیوں اور اندرونی علاقوں میں لے جاتا تو وہاں لوگوں کی غربت کے آثار بھی عروج پر دکھائی دیتے لیکن دوسری طرف قاہرہ کے مضافات ہی میں ایسی ایسی رہایشی اسکیمیں ہیں کہ وہ قاہرہ کے بجاے کسی یورپی ملک کا حصہ دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے علاقوں میں داخلے کے لیے شناختی کارڈ کا اندراج کروانا پڑتا ہے۔
مصر میں قبطی مسیحیوں کا تناسب چھے سے آٹھ فی صد ہے۔ ۲۵، ۳۰ لاکھ ووٹوں کی طاقت رکھنے کے باوجود منتشر ہیں۔ اخوان کے ذمہ داران بتا رہے تھے کہ ہماری کوشش ہے کہ پارلیمنٹ میں مسیحیوں کی بھی مناسب نمایندگی ہوجائے تاکہ ملک میں مسلم مسیحی فسادات کا دروازہ بند کیا جاسکے۔ حسنی مبارک کے بعد لوگوں کے سامنے یہ حقائق بھی آچکے ہیں کہ حسنی مبارک کا وزیرداخلہ ایک چرچ کے باہردھماکے میںملوث تھا۔ اس وقت اسے خودکش حملہ اور القاعدہ کی کارروائی قرار دے کرمسیحی مسلم فسادات بھی شروع کراو دیے گئے تھے لیکن اب بلّی تھیلے سے باہر آچکی ہے، وزیرداخلہ ’اندر‘ جاچکا ہے۔ ایک مقدمے میں سزا بھی ہوچکی ہے، لیکن میدان التحریر میں قتلِ عام سمیت بہت سارے مقدمات کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا ایک سبب حسنی مبارک اور اس کے بیٹوں سمیت سابق وزرا اور سرکاری گماشتوں سمیت مجرموں کو سزا نہ ملنا بھی ہے۔
بہت سے لوگ اس بنیاد پر دوبارہ میدان التحریر میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اسی طرح کے ایک مظاہرے کے دوران بعض فتنہ پرور عناصر کے ذریعے ہنگامہ آرائی اور کشت و خون بھی کروایا گیا ہے۔ اخوان اور ان کی سیاسی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی ان پورے مظاہروں میں شریک نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج دوٹوک اور نقشۂ کار واضح ہے۔ ہم حکومت کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ پوری یکسوئی سے انتخاب کروائے۔ اس لیے ہم فی الحال کسی احتجاجی تحریک میں شریک نہیں ہوںگے۔ البتہ اگر حکومت نے اس پورے نقشۂ کار میں کوئی تبدیلی کرنے کی کوشش کی تو ہم پھرپوری قوت سے میدان التحریر میں اُتریں گے۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل نے حال ہی میں ایک بیان جاری کیا ہے کہ انتخابات ملتوی ہونے کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہم جمعہ ۲۹جولائی کو پھر میدان التحریر میں ملین مارچ کی اپیل کرسکتے ہیں۔ اخوان کا تازہ بیان اور میدان التحریر کی فقید المثال تاریخ اس بات کا اعلان ہے کہ عوام نے اپنی بیش بہا قربانیوں سے جو آزادی حاصل کی ہے وہ اب کسی قیمت پر اس سے محرومی گوارا نہیں کریں گے۔