اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ اس سے مراد لَیْلَۃُ الْقَدْر ہے، یعنی وہ رات جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ جیساکہ خود قرآن مجید میں ارشاد ہواہے:
اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ o لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ o (القدر ۹۷:۱-۳) ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید کا نزول انسانیت کے لیے عظیم الشان خیر کی حیثیت رکھتا ہے اور انسان کے لیے اس سے بڑی کوئی خیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ وہ رات جس میں یہ قرآن مجید نازل ہوا ہے ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ دوسرے لفظوں میں پوری انسانی تاریخ میں کبھی ہزار مہینوں میں بھی انسانیت کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا ہے، جو اس ایک رات میں ہوا ہے۔ ہزار مہینوں کے لفظ کو گنے ہوئے ہزار نہ سمجھنا چاہیے بلکہ اس سے بہت بڑی کثرت مراد ہے۔ چنانچہ اس رات میں، جو اپنی بھلائی کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے، جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس سے لو لگائی، اس نے بہت بڑی بھلائی حاصل کرلی۔ کیونکہ اس رات میں بندے کا اللہ کی طرف رجوع کرنا یہی معنی تو رکھتا ہے کہ اسے اس رات کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہے، اور وہ یہ جانتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان پر یہ کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اپنا کلام نازل فرمایا۔ اس لیے جس آدمی نے اس رات میں عبادت کا اہتمام کیا، گویا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس کے دل میں قرآن مجید کی صحیح قدروقیمت کا احساس موجود ہے۔ (کتاب الصوم، ص ۴۳-۴۴)
لیلۃ القدر کا قطعی طور پر تعین نہ کرنے میں یہ حکمت کارفرما نظر آتی ہے کہ آدمی ہرطاق رات میں اس اُمید پر اللہ کے حضور کھڑا ہوکر عبادت کرے کہ شاید یہی لیلۃ القدر ہو۔ لیلۃ القدر اگر اس نے پالی تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ جس چیز کا طالب تھاوہ اسے مل گئی۔ اس کے بعد اس نے جو چند مزید راتیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاریں تو وہ اس کی نیکی میں مزید اضافے کی موجب بنیں گی....
اس مقام پر ایک اور بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ چونکہ ساری دنیا میں رمضان کی تاریخیں ایک نہیں ہوتیں اور ان میں رد وبدل ہوتا رہتا ہے، اس لیے یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ کس آدمی کو واقعی وہ اصل رات میسر آگئی ہے۔ اس کے لیے ایک طالبِ صادق کو ہر رمضان میں اسے تلاش کرنا چاہیے۔
رمضان کا جو آخری عشرہ اعتکاف کے لیے مقرر کیا گیا ہے، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اعتکاف کا ثواب آدمی کو الگ ملے، اور چونکہ اعتکاف کی حالت میں اس کی تمام طاق راتیں عبادت میں گزریں گی، اس لیے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ اسے ان میں کبھی نہ کبھی وہ رات بھی لازماً مل جائے گی۔
بعض لوگ اپنی جگہ لیلۃ القدر کی تلاش کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ رات کو باہر نکل کر یہ دیکھا جائے کہ فضا میں کوئی ایسی علامت پائی جاتی ہے جس سے یہ ظاہر ہوکہ یہ قدر کی رات ہے۔ فضا میں کوئی ایسا نور برس رہا ہے جس سے اس کا لیلۃ القدر ہونا ثابت ہوجائے۔ لیکن دراصل یہ طرزِ فکر مطابق حقیقت نہیں ہے۔ بے شک یہ نور برستا ہے، لیکن یہ نور تو پورے رمضان میں اور رمضان کی ہر رات میں برستا ہے، البتہ اس کے لیے وہ آنکھیں چاہییں جو اس کو دیکھ سکیں۔ یہ نور درحقیقت آپ کی عبادت کے اندر برستا ہے۔ یہ نور خدا کی رضاطلبی کے اندر آپ کے انہماک میں، بھلائیوں کے لیے آپ کے ذوق و شوق میں، اور عبادات کے لیے آپ کے خلوص و اہتمام میں اور فی الجملہ آپ کے ایک ایک فعل میں برستا ہے۔ (ایضاً، ص ۴۷-۴۹)