اگست ۲۰۱۱

فہرست مضامین

کتاب نما

| اگست ۲۰۱۱ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

القرآن الکریم، بحیثیت لازمی نصابی کتاب، مرتب: شیخ عرض محمد، ترجمہ: پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد زبیری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی، ۳۵-ڈی، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۱۳۶۔ قیمت: ندارد۔

اسلامی نظامِ تعلیم میں قرآن مجید کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قرآنِ مجید کو ہرسطح پر لازمی نصاب کے طور پر پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ و طالبات جب تعلیمی مراحل سے فارغ ہوں  تو انھیں قرآن کا فہم و شعور اور اس کی بنیادی تعلیمات سے مناسب آگاہی حاصل ہوچکی ہو۔    اسی ضرورت کے تحت زیرنظر کتاب مرتب کی گئی ہے۔

شیخ عرض محمد بنیادی طور پر انجینیر ہیں لیکن دل دردمند رکھتے ہیں۔ انھوں نے قرآن مجید کی تعلیمات پر مبنی اس درسی کتاب کی تیاری کے لیے کم و بیش ۱۸ سال تحقیق کی۔ ڈاکٹر زبیری نے اسے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس کی تدریس کا طریق کار بھی سہل اور عام فہم ہے۔ ہررکوع کی تلاوت اور ترجمے کے بعد صرف دو سوالوں کے ذریعے طلبہ و طالبات کو قرآنی تعلیمات کا فہم دیا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے قرآن پاک کے نصاب کی آؤٹ لائن ہے۔ اس میں گریڈ I سے گریڈ III تک کے طلبہ کے لیے اساتذہ اور والدین کو کچھ ہدایات دی گئی ہیں، جب کہ دیگر جماعتوں اور سائنس گریجویٹس کے لیے قرآن پاک کی سورتوں کو نظام الاوقات دے کر تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر رکوع کے آخر میں جائزے اور فیڈبیک کے لیے دو سوالات دیے گئے ہیں۔ مرتب کے خیال میں  قرآن فہمی کے لیے طلبہ کو مادری زبان ہی میں تعلیم دینی چاہیے اور بہتر ہے کہ تلاوتِ قرآن کے لیے کیسٹ یا سی ڈی استعمال کی جائے۔ اگر گھروں میں اس کتاب کا ایک تسلسل سے اجتماعی مطالعہ کیا جائے تو قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کا شعور ایک بڑے دائرے میں بآسانی عام کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت ترجیح کے تعین اور سنجیدگی سے اس کے لیے کوشش کرنے کی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


اسماء النبیؐ، جلد اوّل، ’پیراہنِ شعر میں‘ جلد دوم: ’صدف ضمائر میں‘، ابوالامتیاز ع س مسلم۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات اوّل: ۵۵۰، دوم: ۴۲۰۔ قیمت اوّل: ۱۲۵۰ روپے، دوم: ۱۰۵۰ روپے۔

معروف شاعر، ادیب، محقق اور صحیفہ نگار ابوالامتیاز عبدالستار مسلم صاحب کی متعدد تصنیفاتِ منظوم و منثور پر ان صفحات میں تبصرہ کیا جاچکا ہے۔ دو جِلدوں پر مشتمل ان کی زیرنظر نئی تالیف ان کے زرخیز ذہن، غیرمعمولی شعری صلاحیتوں اور ان کے ذخیرۂ شعرونعت کے حیرت انگیز تنوع پر مہرتصدیق ثبت کرتی ہے۔ مسلم صاحب کے چار نعتیہ مجموعوں (زبور نعت، زمزمۂ سلام، زمزمۂ درود، کاروانِ حرم) میں جتنے کچھ شعر موجود ہیں، ان سب کو یا بیش تر کو اسماء النبیؐ کے حوالے سے الف بائی ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا ہے۔ اسماء النبیؐ میں فقط آں حضوؐر کے معروف ۹۹ ذاتی یا صفاتی نام ہی نہیں بلکہ آپؐ کے لیے مستعمل گوناگوں تراکیب بھی شعروں میں استعمال کی گئی ہیں، جیسے: آرامِ جاں، آسرا ہمارا، پیشواے دوجہاں، صیقلِ فکروشعور، متاعِ دین و ایماں، نورِ بصر وغیرہ۔

پہلی جِلد میں مذکورہ بالا چار مجموعوں سے ۴۵۶۵ شعر منتخب کیے گئے جن میں اسماء النبیؐ کی تعداد ساڑھے تین تا چار ہزار ہے۔ اسماء اور صفات کے علاوہ ’اشعار کی ایک بہت بڑی تعداد میں آپؐ کا ذکر یا آپؐ سے استغاثہ اسماے ضمائر (مثلاً: اس، ان، انھیں، وہ، وہی، تو، تم، تیرا، تمھیں) جیسے الفاظ میں ہوا ہے (جلد اوّل، ص ۱۷)۔ ان کے حوالے سے دوسری جِلد صدفِ ضمائر میں کے عنوان سے مرتب کی گئی ہے۔ قدیم و جدید شاعری میں اور خاص طور پر نعتیہ شاعری میں  اسم ضمیر کے استعمال کی بہت عمدہ اور بامعنی مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ اس جِلد میں بقول ریاض مجید: ’’مسلم صاحب نے اپنی نعتیہ کتابوں میں سے ان ضمیروں کے محلِ استعمال کے نمونوں کی جمع آوری کی ہے جو مطالعاتِ نعت میں ایک منفرد اور معتبر کام ہے‘‘ (ص ۲۹، جلددوم)۔ اس جِلد میں ۳۷۰۵، اشعار یک جا کیے گئے ہیں۔ ضمائر کی تعداد ۴۵ ہے۔

دونوں جِلدوں پر مصنف کے علاوہ پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم، پروفیسر ریاض مجید، بشیرحسین ناظم اور ڈاکٹر عاصی کرنالی کے دیباچے اور تقاریظ شامل ہیں۔ یہ تحریریں موضوع کی وضاحت بڑی عمدگی سے کرتی ہیں اور ان سب نے ابوالامتیاز صاحب کو ان کی فن کارانہ اور فن شعر میں ان کی استادانہ مہارت پر خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔

مصنف کی سابقہ کتابوں کی طرح یہ دونوں جِلدیں بھی کتابت، طباعت اور ترتیب وتدوین کے لحاظ سے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں، البتہ قیمتیں زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)


۱- جھلمل، ۲-جگمگ، ۳- رم جھم، ناعمہ صہیب۔ ملنے کا پتا:نوید سحر ٹرسٹ، گبول گوٹھ، نزد  پٹیل ہسپتال، گلشن اقبال، کراچی- ۷۵۳۰۰۔ فون: ۲۶۹۸۳۷۶-۰۳۰۰۔ صفحات: ۱۳۸، ۱۴۲،  ۱۱۷۔ قیمت: ۲۰۰، ۲۰۰، ۲۵۰ روپے۔ جھلمل ورک بک، صفحات ۱۲۵۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔  جگمگ ورک بک، صفحات: ۱۴۶۔ قیمت: ۱۳۰۔ [منشورات لاہور سے دستیاب]

بڑے، بچوں کے لیے چیزیں تلاش کرتے ہیں اور جب کوئی بہت اچھی چیز مل جاتی ہے تو بچوں کی طرح خوش ہوجاتے ہیں۔ یہی کیفیت تبصرہ نگار کی ہے۔

جھل مل، جگمگ اور رم جھم کچھ ایسی ہی چیزیں ہیں (ایک نہیں، تین تین، یعنی خوشی دوبالا نہیں بلکہ سہ بالا) جن کے لیے خوب صورت کا رسمی لفظ کفایت نہیں کرتا، حسین! نہیں، چندے آفتاب، چندے ماہتاب۔ ہر صفحہ ایک سینری ہے، کیا خوب ہے کہ بس، نظر بددور! دبیز آرٹ پیپر پر خوش نما رنگین طباعت۔ طباعت کی باریکی ملاحظہ کریں کہ پیلا، لال، ہرا، سفید، کاسنی، نارنجی، سرمئی، الفاظ اسی رنگ میں لکھے گئے ہیں، یعنی پیلا پیلے رنگ میں… (ص ۷۸، جھلمل)۔ اسی طرح دھنک لفظ کئی رنگوں میں (ص ۷۶، جھلمل)۔ یہ تو ہوا ظاہر، باطن کی طرف آئیں تو ناعمہ صہیب نے کیا خوب کام کیا ہے کہ بس واہ واہ، اللہ ان کے لیے جنت میں اپنے قریب محل بنائے! اور ڈیزائنر فرحان حنیف، مہ جبیں قرشی اور صبا نقوی کی کتنی تحسین کی جائے کہ انھوں نے ہرصفحے پر زندگی بکھیر دی ہے۔

ان تینوں کتابوں کو محض کہانیوں کی کتابیں کہنا زیادتی ہوگا۔ سب سے اہم بات اور خوشی کا اصل سبب یہ ہے کہ یہ شعوری طور پر مرتب کی گئی تعلیم و تربیت کی کتابیں ہیں جن میں نہایت مہارت سے، دلنشین اسلوب میں، آسان زبان میں مخاطب کی عمر اور معیارِ فہم کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی عقائد، اقدار، اخلاق اور معاشرت کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ پہلی، چھے سے آٹھ سال، دوسری سات سے نوسال اور تیسری ۱۰ سے ۱۲سال تک کے بچے اور بچیوں کے لیے ہے۔

جھلمل میں ۱۱؍ ابواب میں ۳۱، جگمگ میں ۱۲؍ابواب میں ۲۸، اور رم جھم میں ۱۰؍ابواب میں ۲۸ کہانیاں یا سبق ہیں۔ اسماے حسنیٰ کے عنوان سے آٹھ مضامین ہیں لیکن اس طرح کہ’کوئی دیکھ رہا ہے‘ کے عنوان سے ’السمیع البصیر‘ کے تعارف کے لیے حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں دودھ میں پانی ملانے سے انکار کرنے والی بچی کا قصہ ہے جسے حضرت عمرؓ نے اپنی بہو بنایا، جو حضرت عمر بن عبدالعزیز کی نانی بنیں۔ انبیا کے ۱۲ قصص میں دل چسپ انداز میں کشتی کا سفر، خطرناک آندھی، عجیب اُونٹنی اور بے ایمان تاجر کے عنوان سے حضرت نوحؑ، قومِ عاد،حضرت صالحؑ اور حضرت شعیب ؑ کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ سیرتِ پاکؐ کے واقعات ہر کتاب میں مختلف عنوانات سے آگئے ہیں۔ آخری نبیؐ (ص ۲۹-۴۳، رم جھم) میں زندگی بھر کے مختصر حالات ہیں۔

ان کتابوں میں نظمیں بھی ہیں، حمدو نعت بھی۔ ’یہ گھر وہ گھر‘ (ص۱۲۸-۱۳۳، جگمگ) میں زاہد کے گھر میں سخت بدانتظامی ہے، اور عمار کے گھر میں سلیقہ ہی سلیقہ۔’پھلوں کا مشاعرہ‘ صوفی غلام مصطفی کی پہیلی سے ماخوذ ہے (ص ۷۴-۷۵، جگمگ)۔ علامہ اقبال کی پرندے کی فریاد اور ہمدردی بھی شامل ہیں اور خواجہ عابد نظامی کی ’محنت میں برکت‘۔ (ص ۶۴،۱۰۴،۱۱۵، رم جھم)

آداب کے حوالے سے کھانے کے آداب، سونے کے آداب (جھلمل) نماز کے آداب (جگمگ)، گفتگو کے آداب (رم جھم) تو عنوان کے تحت بیان ہوئے ہیں لیکن آداب تو ہر سبق میں رچے بسے ہیں۔ استاد کے عالی مقام کی خاطر ایک علیحدہ ’استاد کا ادب‘ ہے۔

گھر میں مُنّا ہوا اور امی ہر وقت اس کے کام کرنے لگیں تو ’بڑے‘ بھائی کو امی سے ہمدردی ہوگئی۔ خالہ آئیں تو بتایا کہ امی نے اپنا کیا حال بنا لیا ہے۔ خالہ نے بتایا کہ جب تم تشریف لائے تھے تو تم نے بھی تین ماہ امی کو ایسے ہی تکلیفیں دی تھیں۔ اب انھیں اس طرح آرام پہنچائو اور    دس طریقے گنا دیے مثلاً تولیہ پکڑا دو وغیرہ (ص ۱۲۸-۱۳۲، جھلمل)۔ ’عجیب سفر‘ کے عنوان سے اسکول کے گندے واش روم کا استاد اور طالب علموں کے مل جل کر دھونے کا بیان ہے۔ ساتھ ہی آداب کا بھی بیان ہوگیا (ص ۹۰-۹۴، جھلمل)۔ جانوروں کے چوپال (ص ۴۶-۶۱، جھلمل) میں کہانی کہانی میں علمِ حیوانیات کی بنیادی معلومات دے دی گئی ہیں۔ ’سوال ہی سوال‘ میں بنیادی سوال: ’ہماری دنیا کہاں سے آئی‘ کائنات، کہکشاں، نظامِ شمسی، ستارے، سورج، سیارے سب کا ذکر ہے اور مناسب انداز سے قرآنی آیات بھی دی ہیں(ص۳۶، جگمگ)۔ ’خطرہ‘ کے عنوان سے ایک سبق میں ایسی ۱۵ ہدایات دے دی گئی ہیں جو خطرے سے بچائیں مثلاً چھری سے نہ کھیلیں، گرم استری نہ چھوئیں وغیرہ۔ (ص ۱۰۳، جگمگ)

رم جھم دیکھیں تو ابواب کے عنوانات سے ایک اندازہ ہوجاتا ہے۔ ۱-اسماے حسنیٰ ۲-انبیاے کرام ۳- فرائض ۴- حقوق ۵- آداب ۶- اجتماعیت ۷-سائنس کی دنیا ۸- تہذیب و تمدن ۹-ماحولیات ۱۰- اخلاقیات۔ ’ہمیشہ دیر کردیتے ہو‘ (ص ۴۴-۴۷، رم جھم) میں جو بچہ امی کے کہنے کے باوجود بھی آخر وقت میں نماز پڑھتا ہے، خواب میں یوم الحساب میں پکڑے جانے کا پورا نقشہ اور کیفیات کا بیان ہوتا ہے اور بالکل آخری وقت میں بچا لیا جاتا ہے۔ ’شیطی کون تھا‘ میں شیطان کس طرح گمراہ کرتا ہے، اس سے مقابلے کا بیان ہے۔ (ص ۱۰-۱۴، جگمگ)

وطن کا قرض (ص ۵۸-۶۲، رم جھم) میں مشکور حسین یاد کی ’آزادی کے چراغ‘ سے ہمیں پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ عبدالغنی فاروق کی کتاب ہم کیوں مسلمان ہوئے؟ سے وہ واقعہ لیا گیا ہے جس میں ایک برطانوی فوجی افسر مسلمان سپاہی کے رمضان میں دوڑائے جانے کے باوجود پانی نہ پینے سے متاثر ہوکر بالآخر مسلمان ہوجاتا ہے۔     ’عظیم شہر باکمال لوگ‘ (ص ۷۲-۷۶، رم جھم) میں بغداد اور اندلس کے حوالے سے ہارون الرشید کے دارالحکمت اور الزہراوی کا ذکر ہے۔ ’کیسے کیسے لوگ‘ (ص ۷۷-۸۴، رم جھم) میں آئزک، نیوٹن، لوئی پاسچر، تھامس ایڈی سن کی خدمات کا تذکرہ ہے۔کائنات اور سائنس سے متعلق سبق ہارون یحییٰ کے حوالے سے لیے گئے ہیں، مثلاً ’اندھی مخلوق‘ (ص ۷۰، رم جھم) میں دیمک کی کہانی۔ مسعود احمد برکاتی کے سفرنامے ’دومسافر، دو ملک‘ سے بچے لندن اور پیرس کی سیر کر آتے ہیں لیکن ساتھ ہی اتنا کچھ سیکھتے ہیں کہ بس! (ص ۸۵، رم جھم)

تبصرے میں تفصیل ہوتی جارہی ہے، دل چاہتا ہے کہ قارئین کو مکمل جھلک دکھادی جائے، لیکن شاید یہ ممکن نہیں۔

اگر تعلیم یافتہ والدین ان کتابوں کی ورک بک استعمال کروائیں تو یہ سارے سبق بچے کی شخصیت پر نقش ہوجائیں گے۔ جو اسکول اسے نصاب یا اضافی نصاب کے طور پر پڑھائیں اور ورک بک بھی استعمال کریں، یقینا ان طلبہ کے والدین بچوں کو اچھا شہری، اچھا پاکستانی، اچھا مسلمان بنانے پر، جس کی برکتیں بچے دنیا اور آخرت میں سمیٹیں گے، ان کے احسان مند ہوں گے۔

بڑے بھی طالب علم بن کر پڑھیں تو بہت کچھ سیکھیں گے، یہ ’کہانیاں‘ آپ کو عالم   (جاننے والا) قابل اور بااخلاق اچھا مسلمان بناتی ہیں۔

جو بڑے بڑے اسکول یا دسیوں اسکولوں کے نیٹ ورک چلا رہے ہیں، ان کی ذمہ داری بلکہ فرض ہے کہ اپنے زیرتعلیم اس عمر کے بچوں کو ان کتابوں کے فیض سے محروم نہ رکھیں۔

یہ کتابیں نہایت سستی ہیں۔ مارکیٹ کے لحاظ سے ان کی قیمت ۷۰۰، ۷۰۰ روپے بھی ہوتی تو زیادہ نہ ہوتی۔ ۶۵۰ روپے میں بچوں کے لیے تین خوب صورت سواکلو وزنی کتابیں ہرلحاظ سے اچھا تحفہ ہے۔ تحفۂ رمضان بنا لیں یا تحفۂ عید۔ (مسلم سجاد)


ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ [اشاعت خاص، ماہ نامہ الشریعۃ]، مدیراعلیٰ: مولانا زاہد الراشدی، مدیر: محمد عمار خان ناصر۔ ناشر: الشریعۃ اکیڈمی، جامع مسجد شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ۔ فون: ۴۴۵۸۲۵۶-۰۳۳۴۔ صفحات: ۶۰۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

علم و فضل اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہے لیکن ان لوگوں پر تو یہ نعمت نور بن کر اُترتی ہے جو   اس امانت کو رضاے الٰہی کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں، دین اسلام کے داعی بنتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنیٰ غلام بن کر زندگی کے لمحات صَرف کرتے ہیں۔ محبی و محترمی ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم (۱۹۵۰ء-۲۰۱۰ء) بھی ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، جنھوں نے سعادت کی راہوں میں عظمت و دانش کے پھول چُنے۔

محمود احمد غازی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر نصف صد مضامین، اور ان کے افادات کا یہ گلدستہ خوش رنگ بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔ دین و دانش اور تفقہ فی الدین کی اس قوسِ قزح میں، زیرنظر مجموعے کا قاری زیربحث قابلِ رشک زندگی سے والہانہ وابستگی محسوس کرتا ہے۔

ان تحریروں میں مرحوم کی حیرت انگیز علمی جاں فشانی، ہر دم جواں غیرتِ ایمانی، سراپا جرأت بیان اور بعض مقامات پر محکم اجتہادی سوچ کا پرتو نظر آتا ہے۔ یہ مختصر تعارفی تحریر نہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے خدوخال کا خاکہ پیش کرسکتی ہے اور نہ الشریعۃ کی اس اشاعتِ خاص کے دامن میں موجود نقوش کا احاطہ کرسکتی ہے۔ یہ مجموعہ تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ (۲۷۰ صفحات) تاثرات، مشاہدات اور شخصی تعلقات کی بنیاد پر معلومات سے آگاہ کرتا ہے۔ دوسرا حصہ ۱۸۰صفحات پر مشتمل ہے، جن میں ۱۰ مضامین کے ذریعے غازی صاحب کے علمی کارنامے کا تعارف پیش کیا گیا ہے، تاہم یہ فکری تعارف تشنگی کا احساس چھوڑتا ہے، جس کے لیے زیادہ محنت سے تحلیل و تجزیے کی ضرورت ہے، اور آخری حصے میں ان کے منتخب افادات شامل ہیں۔ ادارہ الشریعۃ نے صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں کمالِ محنت اور لگن سے یہ اشاعت  پیش کرکے ایک قابلِ رشک مثال قائم کی ہے۔ جس پر پرچے کی مجلس ادارت تحسین کی مستحق ہے۔(سلیم منصور خالد)


ماہ نامہ حکمت بالغہ، نظریاتی نظام تعلیم نمبر، مدیران: مختار فاروقی، مفتی عطاء الرحمن۔ ناشر: قرآن اکیڈمی، لالہ زار کالونی نمبر۲، جھنگ صدر۔ فون: ۰۴۷۷۶۲۸۳۶۱۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: ۳۵ روپے۔

ایمان و حکمت کے سدابہار پھول دنیا کے گوشے گوشے میں اپنی مہکار بکھیر رہے ہیں۔ اگرچہ بعض بڑے شہروں کو تہذیب و دانش کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، تاہم مضافاتی قصبوں اور شہروں میں جب یہ پودے برگ و بار لاتے ہیں تو ان کی تاثیر اور تاثر دوچند ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے ایسے صدقاتِ جاریہ میں ایک مرکز جھنگ میں خدمتِ قرآن کا کارِعظیم انجام دے رہا ہے، جہاں سے زیرمطالعہ ماہ نامہ شائع ہوتا ہے۔

آج، جب کہ پاکستان کی سرحدوں کو ہدف بنانے کے پہلو بہ پہلو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ کرنے کا مغربی حملہ زوروںپر ہے، تو یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوتا ہے کہ عموماً ہمارے  اہلِ دانش اور مقتدر حلقے اس یلغار سے بے خبر یا لاتعلق ہیں۔اس بے حسی کی فضا میں حکمتِ بالغہ کی یہ اشاعت خاص ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔ چھے حصوں پر مشتمل اس اشاعت میں پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے کی تفہیم اور پس منظر کی بخوبی وضاحت کی گئی ہے۔ ازاں بعد دو قومی نظریے کے فروغ، تحریکِ پاکستان میں نظریۂ پاکستان کے خدوخال کی تشریح، پاکستان کی بطور اسلامی ریاست شناخت اور اس حوالے سے بے حس مقتدرہ کے ہاتھوں تعلیمی المیے کے ظہور اور بہتری کی راہوں کی نشان دہی کو موضوعِ بحث بنایاگیا ہے۔ بالفاظِ دیگر دو قومی نظریہ، نظریۂ پاکستان اور نظامِ تعلیم   ایک ہی وجود کے تین پہلو ہیں۔ اگر ان تینوں میں سے کسی ایک پہلو کو نظرانداز کردیا جائے تو پاکستان کا مطلوبہ نظامِ تعلیم تشکیل نہیں پاسکتا۔ (س- م - خ)


معارف مجلّۂ تحقیق (شمارہ ۱، جنوری- جون ۲۰۱۱ء)، مدیر: پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق۔ ملنے کا پتا: ادارہ معارف اسلامی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، ایف بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات اُردو: ۱۴۱، انگریزی: ۲۱۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

کسی اسلامی تحقیقاتی ادارے سے مجلے کی اشاعت کا آغاز یقینا ایک اچھی خبر ہے۔ مجلہ ادارے کے مشن کا علَم بردار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ادارے کی اپنی تحقیقاتی کاوشیں اور دوسرے مقالے ششماہی رسالے میں شامل ہونے چاہییں۔ تفسیرالمنار: تحلیل و تجزیہ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کا قیمتی ’مقالہ خصوصی‘ (۲۱ صفحات) ہے جس سے عالمِ عرب کی اس عصری تفسیر کا بخوبی تعارف ہوجاتا ہے۔ ہندستان میں عسکری انقلابی تحریک، انگریزوں کے خلاف جدوجہد کا ایک باب سامنے لاتاہے۔ حدیث استخارہ اور استنباط مسائل پر حافظ عنایت اللہ کا مقالہ استخارے کے تمام مباحث  اور پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر مقالے بھی معیاری ہیں۔ تعارف و تبصرہ کے    تحت چارکتابوں پر تبصرہ ہے۔ انگریزی حصے میں بھی چار مختصر مضمون ہیں جس میں سے ایک میں تشدد و دہشت گردی کے تریاق کے طور پر صوفی ازم پر گفتگو کی گئی ہے۔ امریکا بے ضرر غیرجہادی اسلام کو تصوف کے پردے میں صوفی ازم کے نام سے متعارف کروا رہا ہے۔دوسرے میں قرآن میں داعی کے ہم معنی الفاظ اور ان کے مختلف پہلو زیربحث آئے ہیں۔ اُمید ہے کہ علمی حلقوں میں اس کی پذیرائی کی جائے گی۔ (م- س)


العافیت نیوز لیٹر گوشہ عافیت، ذمہ داران: مظفر ہاشمی، اُم اکبر، جہاں آرا مظفر، یاسمین نقی، حبیبہ مبین اختر، رخشندہ زبیری۔ ملنے کا پتا: ۶۲-اے، بلاک Q ،شمالی ناظم آباد، کراچی۔ فون: ۳۶۶۳۲۲۶۶۔ ای-میل: alhafizatrust@hotmail.com

الحافظات ٹرسٹ پاکستان کے زیراہتمام کراچی میں گذشتہ ۱۲ سال سے کام کرنے والے گوشہ عافیت کا یہ نیوزلیٹر اس کی سرگرمیوں کا ایک عکس ہے اور اس کے مقاصد بھی واضح کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں خواتین جن مسائل سے دوچار ہوتی ہیں اور پھر جس طرح بے بس و لاچار ہوجاتی ہیں (کہ رشتے دار بھی دشمن بن جاتے ہیں)، اس پس منظر میں اصحابِ خیر کے بنائے ہوئے گوشہ عافیت جیسے ادارے ایک نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ یہ باعزت پناہ گاہ ہزاروں خواتین کے لیے ایک سہارا ہے۔ یہاں نہ صرف ضروریاتِ زندگی فراہم کی جاتی ہیں بلکہ زندگی کا مقصد واضح کیا جاتا ہے اور ہنر سکھا کر خوداعتمادی دی جاتی ہے۔ اب تک ۱۹۰۰ خواتین یہاں آکر جاچکی ہیں۔ بہت سی ورثا کے سپرد ہوئیں، لاوارثوں کی شادیاں بھی کروائی گئیں۔ کئی خواتین کی آپ بیتیاں بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ انڈسٹریل ہوم بھی اس عمارت میں قائم ہے۔ یہ ٹرسٹ کی اپنی عمارت ہے۔

امیرجماعت اسلامی سیدمنور حسن کے مطابق: ’’گوشہ عافیت بے سہارا خواتین و بچوں کو تحفظ، ان کی کفالت اور ان کو فنی تعلیم میں برکت دے کر اپنے پائوں پر کھڑا کرکے معاشرے کا مفید شہری بنانے میں مصروف ہے‘‘۔ (م- س)

تعارف کتب

  •  آیتُ البِرّ ایک مطالعہ، پروفیسر ڈاکٹر حسن الدین احمد۔ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ تقسیم کنندہ: اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۹۹۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ [سورئہ بقرہ کی آیت ۱۷۷، جسے آیتُ البِرّ بھی کہتے ہیں، کا چار تقاضوں: ایمان، انفاق، معاشرتی تعلقات اور صبرواستقامت کے تحت مفصل مطالعہ۔ قرآن و حدیث اور سیرت کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ پر بھی انطباق کیا گیا ہے۔ مناسب ہوتاکہ آغاز میں آیت اور ترجمہ دیا جاتا، نیزبہتر فہم کے لیے ضمنی سرخیوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تفاسیر اور اسلامی لٹریچر کی فہرست آخر میں بطور مآخذ دی جاتی تو مفید ہوتا۔]
  •  حضوؐر کی خوشیاں، مؤلف: پروفیسر عبدالحمید ڈار۔ ناشر: نشریات، ۴۰- اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۵۸۹۴۱۹-۰۳۲۱۔ صفحات:۶۴۔ قیمت: ۵۰ روپے۔ [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ سے ان لمحات کا انتخاب جب آپؐ نے خوشی و مسرت کا اظہار فرمایا۔ احادیث کے ساتھ ساتھ سیرتِ طیبہ کی جھلکیاں بھی پیش کی گئی ہیں۔ حقیقی مسرت کے حصول کے لیے لہوولعب، نام و نمود اور اسراف و تبذیر کے بجاے اسوئہ رسولؐ کی پیروی کی دعوت دی گئی ہے۔]