اگست ۲۰۱۱

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اگست ۲۰۱۱ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کو رمضان کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی اُمتوں کو نہیں ملیں: ۱-روزے دار کے منہ کی بدبو اللہ تعالیٰ کو مشک سے زیادہ پسند ہے ۲- اس کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں۔ وہ افطار کے وقت تک دعا کرتی رہتی ہیں۔ ۳-جنت ہر روز ان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے، پھر حق تعالیٰ فرماتے ہیں: قریب ہے کہ میرے نیک بندے دنیا کی مشقتیں اپنے اُوپر سے پھینک کر تیری طرف آئیں۔ ۴- اس میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔ وہ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیررمضان میں پہنچ جاتے ہیں۔ ۵-رمضان کی آخری شب میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یہ شبِ مغفرت شب قدر ہے؟ فرمایا: نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دی جاتی ہے۔(مسنداحمد، بزار)

اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی ہونے کے سبب یہ فضائل عطا فرمائے ہیں۔ ہمیں ان فضائل کے حصول کے لیے خوب کوشش کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی اُمتی ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ رمضان کی ان برکتوں سے اپنے آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہیے۔


حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بھلائی صدقہ ہے، اور بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا اس آدمی کی طرح ہے جو بھلائی کرنے والا ہے، اور اللہ تعالیٰ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے کو محبوب رکھتے ہیں۔ (المقاصد الحسنۃ، جامع الصغیر للسیوطی)

ہر بھلائی صدقہ ہے، یعنی صدقہ کے لیے مال دینا شرط نہیں ہے۔ مال کے علاوہ بھی صدقہ ہوتا ہے جو بھلائی بھی کسی کے ساتھ کی جائے وہ ثواب کے اعتبار سے صدقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ   آدمی کے اندر ۳۶۰ جوڑ ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہرجوڑ کی طرف سے روزانہ ایک صدقہ کرے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس کی طاقت کس کو ہے کہ ۳۶۰ صدقہ روزانہ کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں تھوک پڑا ہوا ہو، اس کو ہٹا دو، یہ بھی صدقہ ہے۔ راستے میں کوئی تکلیف دینے والی چیز پڑی ہو، اس کو ہٹا دو، یہ بھی صدقہ ہے، اور کچھ نہ ہوسکے تو چاشت کی دورکعت اس کے قائم مقائم ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ نماز میں ہرجوڑ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں حرکت کرنا پڑتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ روزانہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو آدمی کے ہرہرجوڑ کے بدلے میں ایک صدقہ ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان انصاف کردو، یہ بھی صدقہ ہے۔ کسی شخص کی سواری پر سوار ہونے میں مدددینا بھی صدقہ ہے، اور اس کا سامان اُٹھا کر دینا بھی صدقہ ہے۔ کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ پڑھنا بھی صدقہ ہے۔ ہر وہ قدم جو نماز کے لیے چلے وہ بھی صدقہ ہے۔ ہرنماز صدقہ ہے، روزہ صدقہ ہے، حج صدقہ ہے۔ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے،الحمدللہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر    کہنا صدقہ ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے جو کوئی راستے میں مل جائے اس کو سلام کرنا بھی صدقہ ہے، نیکی کاحکم کرنا صدقہ ہے۔ برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔

دوسری چیز جو اس حدیث میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی کارخیر پر کسی کو ترغیب دے گا، اس کو بھی ایسا ہی ثواب ہے جیسے کہ کرنے والے کو۔ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ترغیب دینے والے کو بھی وہی ثواب ملتا ہے جو کرنے والے کو۔ اس طرح زیادہ ثواب حاصل کرنے کے امکانات کا وسیع میدان سامنے ہے۔ آپ کے کسی عمل سے، آپ کا نمونہ اور مثال دیکھ کر، آپ کے کہنے سے، آپ کی تقریر یا گفتگو سن کر، یا آپ کا مضمون پڑھ کر جو شخص دنیا میں جہاں کہیں بھی نیک عمل کرے گا اُس کا اجر اللہ تعالیٰ آپ کو دے گا۔ اسی طرح مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی طرف خاص طور پر ترغیب دی گئی ہے۔یہ ہے اللہ تعالیٰ کے دینے کا بے حساب نظام، کاش! ہم لینے والے بن جائیں۔ رمضان میں خصوصی اہتمام کریں، خصوصی اجر کی خاطر۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:   کون سا صدقہ سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فقیر آدمی اپنی کوشش اور محنت سے جو صدقہ کرے، وہ تمام صدقوں سے افضل ہے۔ پہلے ان پر توجہ دو جو تمھاری اہل و عیال میں ہوں۔ (ابوداؤد، مشکوٰۃ)

جب آدمی نادار ہو اور حاجت مند ہو اور اس کے اہل و عیال بھی حاجت مند ہوں تو ایسی صورت میں محنت و مشقت اور مزدوری کے ذریعے کمائی کر کے صدقہ کرنا تمام صدقوں سے اس لیے افضل ہے کہ اس میں مال دار آدمی کے مقابلے میں زیادہ مشقت اور تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ صحابہ کرامؓ جو نادار ہوتے تھے وہ مزدوری کر کے اور بوجھ اُٹھا کر کمائی کرتے اور فی سبیل اللہ صدقہ کر کے اپنی آخرت سنوارتے، دنیا میں اپنے کھانے کو مؤخر کردیتے اور آخرت کے کھانے کی فکر کرتے تھے۔ آج بھی صحابہ کرامؓ کی یاد تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس جذبے اور شوق میں اپنے اہل و عیال کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ان کی ضروریات پورا کرنا کنبے کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو  کسی بھی صورت میں نظرانداز کرنا صحیح نہیں ہے۔


حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوتیں: بخل اور بداخلاقی۔ (ترمذی، مشکوٰۃ)

کوئی شخص مومن ہو اور بخیل اور بداخلاق بھی ہو، یہ مومن کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ایسے شخص کو اپنے ایمان کی فکر کرنا چاہیے۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔ جیسے ہرخوبی دوسری خوبی کو کھینچتی ہے، ایسے ہی ہرعیب دوسرے عیب کو کھینچتا ہے۔

ایک دوسری حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شح،بخل ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا، جیسے آگ اور پانی جمع نہیں ہوسکتے اسی طرح بخل اور ایمان بھی جمع نہیں ہوسکتے۔ کنزالعمال میں ایک روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہرولی میں دو خصلتیں جمع ہوتی ہیں: ایک سخاوت اور دوسری     خوش خلقی۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہو تو اس کی مخلوق پر خرچ کرنے کو بے اختیار دل چاہے گا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں نہ تو چال باز، دھوکے باز داخل ہوگا اور نہ بخیل، نہ صدقہ کر کے احسان جتانے والا۔(ترمذی، مشکوٰۃ)


حضرت عبداللہ بن بسرؓ سے روایت ہے، ایک صحابی نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! شریعت کے احکام تو بہت سے ہیں۔ مجھے ایک چیز ایسی بتا دیجیے جس کو اپنا دستور اور مشغلہ بنا لوں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے ذکر سے ہروقت رطب اللسان رہ۔

ایک اور حدیث میں ہے، حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں: یمن رخصت ہوتے وقت میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری سوال یہ کیا کہ سب اعمال میں محبوب ترین عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس حال میں تیری موت آئے کہ اللہ کے ذکر میں تیری زبان تر ہو۔ (ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان)

حضرت عبداللہ بن بسرؓکی روایت میں سائل کا مقصد اہم ترین چیز کو معلوم کرنا ہے تاکہ اسے اپنا معمول بنا لے۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبلؓ نے بھی اہم ترین عمل معلوم کرنا چاہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے جواب میں ذکراللہ کی تلقین کی۔ ذکراللہ ایسی چیز ہے جو تمام عقائد و احکام کی اساس ہے۔ یہ اساس جب آدمی کا معمول بن جائے تو ہرحکم آسان ہوجاتا ہے اور اس پر عمل شروع ہوجاتا ہے اور آدمی قربِ الٰہی کی منازل طے کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی یاد نصیب فرمائے، آمین!


حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ  کسی بندے کے لیے خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کام لیتا ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کس طرح کام لیتا ہے؟آپؐ نے فرمایا: اسے مرنے سے پہلے عملِ صالح کی توفیق دیتا ہے۔(ترمذی)

عملِ صالح کی توفیق زندگی کے کسی مرحلے پر بھی مل سکتی ہے، موت سے پہلے بھی۔ دعوت کا کام کرتے ہوئے کسی سے بھی، کبھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔ ہدایت کا دروازہ موت سے پہلے کسی بھی وقت کھل سکتا ہے۔ توفیق الٰہی کے لیے دعا بھی کرنا چاہیے، اپنے لیے بھی۔