پروفیسر خورشید احمد | اگست ۲۰۱۱ | شذرات
اگست کا مہینہ، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کے اس تاریخی دن کی یاد دلاتا ہے جب اس برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے ایک تاریخ ساز جدوجہد کے بعد مملکتِ خداداد پاکستان حاصل کی۔ اس کے لیے لازوال قربانیاں دیں، انگریز اور ہندو کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا۔ نصب العین کے لیے یکسو ہوکر ملک کے ہرحصے کے مسلمان خواہ وہ پنجابی تھے یا بنگالی، سندھی تھے یا بلوچی یا پٹھان، ہرتعصب سے بالا ہوکر میدانِ عمل میں کود پڑے۔ ہمارے قائدین نے بار بار واضح کیا کہ یہ علیحدہ خطۂ ارض ہم اس لیے حاصل کررہے ہیں کہ ہم اسلام کی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تعمیر کریں گے جو گم کردہ راہِ انسانیت کے لیے مینارئہ نور ہوگا۔
ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں، لیکن ۶۴سال بعد آج ہم جائزہ لیں تو بحیثیت مجموعی تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی دائرہ ایسا نہیں کہ ہم اطمینان کا اظہار کرسکیں۔ اسلا می معاشرہ تو بہت دُور کی بات ہے، ایک عام انسانی معاشرے کی حیثیت سے بھی ہم بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ اخلاق، سیاست، معیشت، عدلیہ، امن و امان کی صورت حال، ہرجگہ ایک بحران کی کیفیت ہے۔ یقینا ہم نے ایٹم بم بنایا ہے، بہت سے دائروں میں ترقی بھی کی ہے لیکن ان امور سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے آج صرف یہ جائزہ لیں گے کہ امریکا سے تعلقات کے حوالے سے ہماری آزادی وخودمختاری کی کیا کیفیت ہے۔
نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
ان کا ایسا ہی ایک ارشاد ہے کہ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ امریکا کی دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ اس کی دوستی بھی کچھ کم مہنگی نہیں! پاکستان نے اس کا بار بار تجربہ کیا ہے لیکن اس کی عاقبت نااندیش قیادتوں نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ خود اپنے اور دوسروں کے تجربات سے کبھی کوئی سبق نہیں لیں گے۔
تازہ ترین صورت حال ریمنڈ ڈیوس کے بھرے چوک میں دو نوجوانوں کے قتل سے شروع ہوکر، اس کے فرار اور پھر ۲مئی کے ایبٹ آباد پر حملے اور ڈرون حملوں کو روکنے سے انکار بلکہ ان میں مسلسل اور معتدبہ اضافے، فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان بازی (war of words)، سیاسی قیادت کی طرف سے شمسی ایئربیس کے بارے میں ٹکا سا جواب، امریکی فوجیوں کی واپسی اور ویزے کے بارے میں معمولی سی چھان بین پر برہمی، امریکا کے تنخواہ دار مخبروں، خصوصیت سے اسامہ بن لادن کی تلاش کے سلسلے میں جعلی ویکسین کا ڈراما رچانے والے ڈاکٹر کی گرفتاری اور پھر سالانہ فوجی امداد کے ایک تہائی، یعنی ۸۰۰ملین ڈالر کی بندش___ وہ واقعات ہیں جو ایک فیصلے کی گھڑی (moment of truth) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ فیصلہ کن لمحہ ہے جس پر پاکستان کی آزادی اور اس کے مستقبل کا انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس فیصلے کو اس قیادت پر نہیں چھوڑا جاسکتا جس کا اصل چہرہ وکی لیکس کے آئینے میں سب نے دیکھ لیا ہے اور جو اپنے اقتدار میں آنے اور کرسی بچانے کے لیے امریکا کے مرہونِ منت ہیں۔ فوجی قیادت کا کردار بھی کچھ بہت قابلِ فخر نہیں اور شاید اب ایک آخری موقع ہے کہ وہ اس اعتماد کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جس کی خاطر قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی تقویت کا سامان کیا ہے۔
امریکا سے اسٹرے ٹیجک دوستی پر ہمیں تو کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یقین کیا گمان بھی نہ تھا لیکن وہ جو یہ راگ الاپ رہے تھے، اب خود ان کے چہرے پر بار بار طمانچے پڑنے کے بعد یہ تحریر پڑھی جاسکتی ہے کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
اب وقت آگیا ہے کہ عوام کی آواز کو سنا جائے، بلکہ خود پارلیمنٹ نے جو واضح راہِ عمل اپنی دوقراردادوں (۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء اور ۱۴ مئی ۲۰۱۱ء) کی شکل میں دی ہے اس پر لفظ اور معنٰی ہردواعتبار سے عمل کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے زمینی حقائق کا صحیح صحیح ادراک ہو اور پھر ان کی روشنی میں اور اپنے قومی مفادات اور عوام کے جذبات اور عزائم کی روشنی میں تعلقات کی واضح انداز میں تشکیلِ نو ہو۔
دوسری بنیادی بات یہ سامنے رکھنے کی ہے کہ امریکا سے ہمارے تعلقات میں پچھلے ۶۴برسوں میں نشیب و فراز تو بہت آئے ہیں اور ان میں بھی نشیب زیادہ اور فراز کم، لیکن جو صورت حال نائن الیون کے بعد رونما ہوئی ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اور اس سے بھی بڑھ کر زرداری گیلانی اقتدار کے دور میں امریکا نے اپنی گرفت ہم پر مضبوط کی ہے، ہمیں اپنی محتاجی کے جال میں پھنسایا ہے، ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور عمومی پالیسی ہی نہیں، معمولی معمولی امور تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ امریکی سفیر داخلی امور پر ہدایات دے رہے ہیں۔ امریکی فوجیوں، سیکورٹی معاونین، مخبروں اور کاسہ لیسوں کا جال ملک کے طول و عرض میں بچھا دیا گیا ہے اور اگر پاکستان اپنے قومی مفاد میں کوئی معمولی سے معمولی اقدام کرتا ہے، جیسے فوجیوں کی واپسی، سفارت کاروں سے ان کے شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ، ویزوں کے بارے میں ضروری تحقیق و تفتیش کی جسارت، تو نہ صرف فوجی اور سول امداد کی گاجروں کو ہاتھ سے چھین لیا جاتا ہے بلکہ ڈنڈوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور عالم یہ ہے کہ ع
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا
ڈرون حملوں کو جاری رکھنے، اپنے مخبروں کورہا کرانے، شمسی ایئربیس کو خالی کرنے کے مطالبے کا ٹکا سا انکاری جواب دینے اورفوجی امداد روکنے کے اقدام کے بعد، اب پاکستان کے سامنے صرف ایک راستہ ہے___ امریکا کے تعلقات کے موجودہ دروبست کو یکسر تبدیل کرنے اور بالکل نئی شرائط اور نئے نکات پر تعلقات کی ازسرنو تشکیل کا راستہ۔
آگے بڑھنے سے پہلے تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
۱- بلاشبہہ ہم نے امریکا پر اپنی محتاجی (dependence) کو خطرناک حد تک بڑھا لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کوئی ناکام یا بے سہارا ملک ہے۔ ہمارے وسائل ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں اور قوم میں وہ ہمت اور صلاحیت ہے کہ اگر قیادت صحیح رویہ اختیار کرے تو یہ ملک اپنے مفادات کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے باربار اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جن حالات میں ہم نے اپنی آزادی کا سفر شروع کیا تھا، دنیا کو یقین تھا کہ ہم چند مہینوں میں بھارت کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے اور دوبارہ اس کے زیرِعاطفت آجائیں گے لیکن اس غیور قوم نے اپنے معاملات کو سنبھالا، کشمیر کے محاذ پر پنجہ آزمائی میں بھی پیچھے نہیں رہی اور ۱۹۴۹ء جب تخفیفِ زر کا طوفان آیا تو روپے کی قدر نہ گرا کر بھارت، برطانیہ اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بے سروسامانی سے آغاز کر کے جس طرح ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء میں اپنے حالات کو سنبھالا، وہ بہت سی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود ایک بڑا کارنامہ تھا۔ پھر امریکا سے دوستی اور اس کے مطالبات کے باوجود چین کوتسلیم کرنا اور اس سے اسٹرے ٹیجک شراکت کی راہ ہموار کرنا ایک اہم کارنامہ تھا۔ ۱۹۹۸ء میں ایٹمی تجربہ بھی اسی نوعیت کی کامیابی ہے۔ اگر قیادت صحیح فیصلہ کرے اور قوم کو اپنے ساتھ لے کر چلے تو آج ہم امریکا کے چنگل سے نکلنے کے لیے ماضی کے ان تمام ادوار کے مقابلے میں زیادہ صلاحیت اور وسائل رکھتے ہیں۔
۲- دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ آج ہم ہی امریکا کے محتاج نہیں، خود امریکا بھی چند نہایت اہم امور کے سلسلے میں ہماری مدد اور تعاون کا محتاج ہے، بشرطیکہ ہم اپنے پتّے صحیح صحیح کھیلیں اور اپنے قومی مفاد، آزادی اور عزت کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ مسئلہ غیروں کی کارروائیوں سے زیادہ اپنی کمزوریوں کا ہے۔
۳- تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہارچکا ہے اور اپنے طویل المیعاد مفادات کے تحفظ کے کسی انتظام کے ساتھ وہاں سے باعزت انداز میں واپسی چاہتا ہے اور اس کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ امریکا افغانستان اور پاکستان سے ۱۱ہزار کلومیٹر دُور ہے لیکن ہماری اور افغانستان کی مشترک سرحدات ۱۵۰۰ کلومیٹر سے زیادہ ہیں اور ہمارے تاریخی، تہذیبی، دینی، معاشی اور سیاسی رشتے بالکل دوسری نوعیت کے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی حماقتوں سے ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنا لیا، اور جو دشمن تھے ان کی دشمنی میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ امریکا کی سرزمین تو شاید کسی حد تک دہشت گردی سے محفوظ ہوگی___ گو دہشت گردی کے خوف کی فضا نے اس کو بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور نہ معلوم کب تک اسے اس عذاب میں مبتلا رہنا پڑے گا___ لیکن ہماری سرزمین جو اس نوعیت کی دہشت گردی سے بالکل پاک تھی، اب اس کی گرفت میں ہے، اور دہشت گردی کی کمر توڑنے کے باربار کے دعووں کے باوجود اس میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ یہ کمی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے سلامتی کی صورت حال کا اپنے نقطۂ نظر سے جائزہ لیں، اسے ازسرنو مرتب کریں اور سیاسی مسائل کے لیے سیاسی حل پر عمل کرنے کاراستہ اختیار کریں۔ اس سلسلے میں ہمارے اور امریکا کے راستے اور مفادات مختلف ہیں۔ اس حقیقت کے ادراک کے بغیر اصلاح کی کوئی صورت نہیں۔ پارلیمنٹ نے یہی راستہ دکھایا ہے لیکن سیاسی اور فوجی قیادت اپنے اپنے زعم اور اپنے اپنے مفادات کے چکر میں اس راستے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کر رہی، اور امریکا سے بار بار ڈنڈے کھانے کے باوجود بھی آزادی، خودانحصاری اور عزت کا راستہ اختیار کرنے سے پس و پیش کر رہی ہے۔
یہ سب درست، لیکن اصل مسئلہ محض معاشی نہیں۔ امریکا نے خاص طور پر گذشتہ ۱۰،۱۱برسوں میں پاکستان کو عملاً اپنی ایک طفیلی ریاست بنا لیا ہے جس کے نتیجے میں ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پارہ پارہ ہیں۔ شروع میں امریکا نے اس پالیسی کو carrot and stick، یعنی ترغیب اور ترہیب، گاجراور ڈنڈے کی پالیسی کہا مگر اب گاجر کا حصہ معدوم ہوتا جا رہا ہے اور صرف ڈنڈے کی حکمرانی ہے۔ رواں سال میں ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے لے کر جولائی ۲۰۱۱ء میں امریکا کی فوجی امداد میں ۸۰۰ ملین ڈالر کی کمی اس کے مختلف مظاہر ہیں۔ ڈرون حملوں کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا اور ان سات برسوں میں ۲۶۰ حملے ہوچکے ہیں اور ان میں ہلاک ہونے والے نام نہاد مطلوبہ دہشت گردوں کی تعداد ۵۰ اور ۶۰ کے درمیان ہے، جب کہ ان حملوں میں لقمۂ اجل بننے والے عام بے گناہ پاکستانیوں کی تعداد ۲۵۰۰ سے متجاوز ہے۔ امریکا پوری رعونت کے ساتھ ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، ہماری حاکمیت کو پامال کر رہا ہے اور ہمارے شہریوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار رہا ہے۔ ان دستاویزات کی روشنی میں جو وکی لیکس کی بناپر طشت ازبام ہوچکی ہیں، ان میں سے بیش تر حملے ماضی میں خود ہماری سرزمین سے امریکی اڈوں سے ہوتے رہے ہیں اور یہ اڈے وہ ہیں جن کی حفاظت ہماری اپنی افواج اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کرتی رہی ہیں، اور جنرل پرویز مشرف سے لے کر زرداری گیلانی تک سب کی طے شدہ منظوری سے ہماری سرزمین پر ہماری آبادیوں کو موت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں کہ امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر فوج کشی کے ۱۰ برسوں میں جتنا جانی نقصان اُٹھایا ہے، پاکستان کی افواج اور شہریوں نے اس سے کہیں زیادہ نقصان برداشت کیا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور عالمی میڈیا پاکستان کو دوغلی پالیسی، دھوکا دہی، بدعنوانی اور بدعہدی کا مجرم قرار دے رہا ہے۔ اسے دنیابھر میں دہشت گردی کا مرکز قرار دے رہا ہے اور افغانستان میں اپنی پالیسی کی ناکامی کا ملبہ بھی پاکستان پر گرانے کی مذموم کوششیں کر رہا ہے۔ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت کے ڈرامے کی بنیاد پر پاکستان، اس کی افواج، خفیہ ایجنسیوں اور خود حکومت کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور فوجی، سیاسی اور معاشی دبائو کے ساتھ اس کے خلاف اپنی لفظوں کی جنگ (war of words) کو بھی ایک نئی انتہا تک لے جایا گیا ہے۔ امریکی حکومت اور اس کے ترجمان، کانگریس کی کمیٹیاں اور ان کے ترجمان، تھنک ٹینکس اور میڈیا، سب نے اپنی توپوں کے تمام دہانے پاکستان پر یلغار کے لیے کھول دیے ہیں۔ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کا ارشاد ہے کہ ’’پاکستان پر یہ سارا دبائو جاری رہے گا تاآنکہ وہ امریکا کی شرائط کو منظور کرے اور اس کے مطالبات کو پورا کرے‘‘۔ امریکی چیف آف اسٹاف مائیکل مولن نے ایک صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی بلاواسطہ ذمہ داری پاکستان کی حکومت پر ڈالی ہے اور اس کے ساتھ فوجی امداد میں کٹوتی کا اعلان بھی کردیا ہے۔
امریکا بلاشبہہ ایک عالمی طاقت ہے۔ اس سے تعلقات پر نظرثانی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قوم امریکا سے تصادم کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن تصادم اور دشمنی، یا غلامی اور محکومی ہی دو آپشن نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کے احترام کی بنیاد پر ایک باعزت پالیسی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے جو قوت اور وسائل کے اختلاف کے باوجود دونوں کی آزادی، خودمختاری، مشترک مقاصد اور مفادات کے سلسلے میں تعاون پر مبنی ہو، اور ان تمام امور کے باب میں جہاں مفادات میں اشتراک موجود نہیں، اپنے اپنے مقاصد، مفادات اور اہداف کے لیے آزادانہ کردار کا اہتمام کیا جائے۔ بین الاقوامی قانون اور عالمی نظام دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ قوی اور ضعیف، بڑا اور چھوٹا، سب عملی میدان میں برابری (functional equality)کی بنیاد پر ایک دوسرے سے معاملہ کریں۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات یک طرفہ اور ایک فریق کی بالادستی اور دوسرے کی عملاً محکومی کا رنگ اختیار کرچکے ہیں اور ان کا اسی طرح جاری رہنا نہ قوم کے لیے قابلِ قبول ہے اور نہ ملک اور علاقے کے مفاد میں ہے۔ اس لیے نئی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر پوری یکسوئی کے ساتھ عمل کا پروگرام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ہم امریکا سے معاشی، تجارتی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی وجہ سے جو حاکم اور محکوم اور آقا اور ماتحت کا تعلق بن گیا ہے، اسے ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنا پڑے قوم کو یک جان ہوکر اس کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ ایک مخصوص لابی اس سلسلے میں جن خطرات کا ہوّا کھڑا کرکے ہمیں ڈرا رہی ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں۔ گذشتہ ۶۴برسوں میں امریکا نے چھے بار پاکستان سے تعلقات کو پست ترین سطح تک دھکیلا ہے اور ہم پر طرح طرح کی پابندیاں تک لگائی ہیں لیکن پاکستان کی معیشت ان سب نشیب و فراز سے بخوبی عہدہ برآ ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ۸۰۰ملین ڈالر کی فوجی امداد امریکا نے روکی ہے۔ یہ کسی شمار قطار میں نہیں، البتہ ۱۰برس میں امریکا نے جوفوجی اور معاشی امداد دی ہے اگر اس سب کو بھی لیا جائے تو اس کا حقیقی اثر ہماری معیشت پر براے نام رہا ہے، جب کہ اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے جو نقصان ہم کو ہوا ہے، وہ اعدادوشمار کی زبان میں بھی اس کے کم از کم ۵گنا زیادہ ہوا ہے۔ آخری تجزیے اور حساب میں اس جنگ سے نکلنے اور امریکی امداد سے نجات پانے سے ہماری معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے اور ملک خودانحصاری کی طرف تیزی سے آگے بڑھ سکے گا بشرطیکہ حکومت صحیح سیاسی اور معاشی پالیسیاں تشکیل دے، اور قوم پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی آزادی، خودمختاری اور عوام کی خوش حالی کے لیے وسائل کے صحیح استعمال کا راستہ اختیار کرے۔
۱- پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ہماری غربت اور معاشی پس ماندگی کی وجہ وسائل کی قلت نہیں، صحیح قیادت کا فقدان اور صحیح پالیسیوں سے محرومی ہے۔ قومی مقاصد، مفادات اور اہداف کا صحیح صحیح تعین اور ایک ایسی حکومت کی تشکیل اولین اہمیت رکھتی ہے جو عوام میں سے ہو، عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اور پاکستانی قوم کے مفاد کی علَم بردار ہو۔ وژن اور اہداف کی درستی اور دیانت داری اور باصلاحیت قیادت کو بروے کار لانا اصلاحِ احوال کے لیے ناگزیر ہے۔
۲- پالیسی سازی میں پارلیمنٹ کا کردار مرکزی ہونا چاہیے اور عوام کو اعتماد میں لے کر ان کے جذبات اور ترجیحات کی روشنی میں یہ کام انجام پانا چاہیے۔
۳- امریکا سے تعلقات خودمختارانہ مساوات (equality sovereign) کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔معاشی امداد کو مرکزی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ خرابی کی جڑ ہے۔ تعلقات کے محور کو بدلنے اور تجارت اور دوطرفہ معاشی تعاون کو مرکزی حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔
۴- اس وقت جو مراعات امریکا کو حاصل ہیں ان پر فوری طور پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ چند اہم پہلو یہ ہیں:
امریکا سے تعلقات اور افغانستان مسئلے کا حل اس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ کرکے معاملات کو سلجھایا جانا مشکل ہے۔ جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جس مفاہمتی عمل کا آغاز ہواہے، وہ ایک مفید اور ضروری اقدام ہے اور افغان مسئلے کا حل افغانستان ہی کی تمام قوتوں کو مل جل کر کرنا ہے، وہیں پاکستان، ایران، وسط ایشیا کی ملحقہ ریاستوں اور خود چین کو بھی اس عمل میں ایک کردار ادا کرنا ہے۔ لیکن یہ کردار ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کی شکل میں نہیں، بلکہ افہام و تفہیم کے ذریعے سب کے مشترک مفاد کی بنیاد پر ہو تو امن، سلامتی اور ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہی تاریخ کا سبق ہے جس کا جتنا احترام ہوسکے اتنی ہی ہماری کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گی۔