سوال: نماز پڑھنے کے دوران کئی قسم کے خیالات دل میں آجاتے ہیں اور بعض اوقات نماز میں بھول بھی ہوجاتی ہے۔ براہِ مہربانی اس کا علاج تجویز فرمایئے۔
جواب: خیالات اور وساوس کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں ہے کہ آپ کی توجہ اللہ کی طرف بڑھتی چلی جائے۔ اللہ کی طرف توجہ بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی توجہ اور تفقہ سے قرآن پڑھے، صحبت صالح اختیار کرے اور دین کے کاموں میں اپنا دل لگائے۔
یہ وہ ذرائع ہیں جن سے اللہ کی طرف توجہ بڑھتی ہے۔ نتیجتاً اس کا اثر نماز میں بھی محسوس ہوتا ہے اور وساوس کا ہجوم رفتہ رفتہ کم ہونے لگتا ہے۔ یاد رکھیے نماز انسان کی وہ حالت ہے جو شیطان کو سب سے زیادہ ناگوار ہے۔ یہی سبب ہے کہ آدمی کی اس حالت میں اس کاحملہ سب سے زیادہ زوردار ہوتا ہے۔ وہ آدمی کی توجہ ہٹانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اب آدمی کا فرض ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرے اور توجہ کو اللہ کی طرف قائم رکھنے کی پوری کوشش کرے، اور یہ کوشش نیم دلانہ یا وقتی نہیں ہونی چاہیے بلکہ جہدِمسلسل ہونی چاہیے۔ آدمی کے لیے دنیا میں ہر وقت جدوجہد ہے اور نماز اس سے مستثنیٰ نہیں۔ یہاں بھی ویسی ہی کوشش کی ضرورت ہے جیسی کہ زندگی کے دیگر میدانوں میں ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اگر کچھ خیال بے ارادہ آجاتے ہیں تو وہ معاف ہیں۔ لیکن انھیں قصداً نہیں لانا چاہیے، اور نہ ان سے کھیلنے لگ جانا چاہیے۔ آپ کی تمام تر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اگر وہ آئیں تو ان کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ وساوس سے توجہ ہٹانے کی ایک اور کامیاب صورت یہ ہے کہ آپ معانیِ نماز پر توجہ مبذول رکھیں۔ یہ کہ میں زبان سے کیا کہہ رہا ہوں اور کیا پڑھ رہا ہوں۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، استفسارات، جلد اوّل، ص ۲۰۲-۲۰۳)
س: آپ نے ترتیل کا مفہوم بیان فرماتے ہوئے بتایا ہے کہ قرآن کو ٹھیرٹھیر کر اور سوچ سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔ ہم لوگ جو خلافِ ترتیل پڑھنے کے عادی ہوگئے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے، اس کا کچھ گناہ تو نہیں ہے؟
ج: میرا خیال یہ ہے کہ خلافِ ترتیل پڑھنے کی وجہ بے سمجھے قرآن پڑھنا ہے۔ اگر آدمی قرآن سمجھ کر پڑھے تو مارا مار پڑھ ہی نہیں سکتا۔ جب وہ بے سمجھے پڑھتا ہے تو پھر رواں دواں پڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی توجہ اس طرف ہوتی ہی نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اس طرح کے پڑھنے والے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً قرآن مجید میں کسی جگہ جملہ استفہامیہ آیا ہے اور وہ اسے اس طرح سے پڑھ رہا ہے کہ گویا اس میں کوئی استفہام نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کے ذہن میں یہ بات ہی نہیں آئی ہے کہ وہ کیا چیز پڑھ رہا ہے۔ حالانکہ اگر وہ عبارت کو سمجھ کر پڑھ رہا ہوتا تواستفہامیہ جملے کو استفہام کے انداز میں پڑھتا۔ اس طرح سے بعض مواقع پر آپ دیکھیں گے کہ ذکر عذاب کا ہوتا ہے اور وہ اسے اس طرح سے پڑھ رہا ہوتا ہے کہ گویا بشارتیں ہورہی ہیں۔ اس پر کوئی رعب اور خوف طاری نہیں ہوتا تو دراصل یہ سب کچھ بے سمجھے پڑھنے کے نتیجے ہیں۔ ورنہ ایک آدمی بہت تیز اور رواں دواں نہیں پڑھ سکتا اور نہ کبھی اس طرح سے پڑھ سکتا ہے کہ جیسے اس کا دل اس کلام سے سرے سے متاثر ہی نہیں رہا۔
پھر ایک چیز مصنوعی ترتیل بھی ہے کہ آدمی پڑھ تو رہا ہے بے سمجھے لیکن اسے گاگا کر پڑھتا ہے۔ ایک فقرہ کہتا ہے اور پھر منٹوں سانس لیتا رہتاہے۔ اس چیز کا نام بھی ترتیل نہیں ہے۔ ترتیل اس چیز کا نام ہے کہ ایک ایک لفظ کو ٹھیک ٹھیک ادا کرتے ہوئے پڑھا جائے نہ یہ کہ آدمی ایک جملہ پڑھ کر کئی کئی منٹ تک سانس لیتا رہے۔ اس سے غنا کا لطف تو باقی رہ جاتا ہے لیکن کلام کی تاثیر ختم ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک آیت میں ایک بڑا اہم مضمون بیان ہو رہا ہے۔ لیکن طویل وقفے کی وجہ سے آگے کا مضمون آنہیں رہا۔ اب آگے کے مضمون سے جب تک اس کاتعلق جڑے گا نہیں، اس وقت تک اس کی معنویت اور تاثیر اُجاگر نہیں ہوتی۔ یہ چیز بھی ترتیل کے آداب کے خلاف ہے۔ (ا-م، ایضاً، ص ۱۱۲-۱۱۳)
س: ایک حدیث میں قرآن پڑھ کر بھول جانے پر یہ وعید آئی ہے کہ ایسا شخص قیامت کے روز کٹے ہوئے ہاتھ کے ساتھ اُٹھے گا۔ کیا اس وعید کا اطلاق چند آیتوں یا ایک سورت بھول جانے پر بھی ہوتا ہے؟
ج: جس حدیث میں یہ بات آئی ہے وہاں اس سے وہ بھولنا مراد نہیں ہے جو نسیان کی وجہ سے ہو، بلکہ اس سے وہ بھولنا مراد ہے جو غفلت اور بے پروائی کی وجہ سے ہو۔ مثلاً ایک شخص کوقرآنِ مجید کی کچھ سورتیں اور نماز یاد کرائی گئی۔ بعد میں اس نے نماز بھی چھوڑ دی اور قرآن بھی چھوڑ دیا۔ پھر اُسے کبھی اس بات کا خیال تک نہ آیا کہ قرآن پڑھے۔ رفتہ رفتہ سب کچھ بھول گیا۔ یہاں تک کہ قُلْ ھُوَ اللّٰہ بھی یاد نہ رہا۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ کو متعدد ایسے لوگ ملیں گے کہ اگر انھیں فی الواقع نماز پڑھنے کے لیے کھڑا کر دیا جائے تو بچارے گرفتارِ بلا ہوجاتے ہیں۔ نہ تو انھیں سورئہ فاتحہ یاد ہوتی ہے اور نہ سورئہ اخلاص۔ یہاں تک کہ انھیں یہ بھی یاد نہیں ہوتا کہ نماز کی ترتیب کیا ہوتی ہے اور اس میں کیا کچھ پڑھا جاتا ہے۔ دراصل یہ وہ بھولنا ہے جس پر مذکورہ حدیث میں وعید بیان ہوئی ہے۔(ا-م،ایضاً، ص۹۹)
س: یک سوئی کس طرح حاصل ہوسکتی ہے؟ میں نماز پڑھتا ہوں یا مطالعہ کرتا ہوں تو ذہن کو یکسوئی سے محروم پاتا ہوں۔ یہ مقصد کس طرح حاصل کروں؟
ج: اس مقصد کے لیے اپنی قوتِ ارادی سے کام لیجیے۔ بار بار شکست ہو تو بار بار کوشش کیجیے لیکن ہمت نہ ہاریئے اور نہ جدوجہد کو ترک کیجیے۔ نماز پڑھیں تو یہ سمجھ کر پڑھیں کہ آپ محض چند رَٹے ہوئے الفاظ نہیں دُہرا رہے ہیں بلکہ اپنے خالق کے حضور کھڑے ہیں اور اس سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح آپ مطالعہ کریں تو وہ متفرق موضوعات کا اور متفرق قسم کا مطالعہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ systematic مطالعہ کریں اور اپنے مقصدحیات کو متعین کر کے مطالعہ کریں۔ ان شاء اللہ آپ یکسوئی کی نعمت حاصل کرلیں گے۔ (ا-م،ایضاً، ص۱۶۰)