’مسلم دنیا میں انقلابی لہر: چند زاویے‘ (جولائی ۲۰۱۱ء) چشم کشا ہے۔ عہدحاضر کی تیزرفتار زندگی کے مسائل سے عہدہ برا ہونے کے لیے ایک متحرک سوچ کی ضرورت ہے اور اہمیت و افادیت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ تحریکِ اسلامی کو درپیش چیلنجوں سے نپٹنے کے لیے جواں سوچ رکھنے والے تھنک ٹینک کی ضرورت ہے جو بزرگوں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے ہر آن بدلتے ہوئے حالات میں نئی راہوں کی نشان دہی کرتا رہے۔
’اسلام اور جدید تجارت و معیشت‘ (جولائی ۲۰۱۱ء) ڈاکٹر محموداحمد غازی مرحوم کی ہمارے عہد کو درپیش علمی چیلنجوں کی نشان دہی پر مبنی فکرانگیز تحریر ہے۔ فی الواقع جدید دور کی زبان و محاورے اور اسلوب میں قرآن و حدیث پیش کرنا اہم چیلنج ہے۔ ایک تصحیح بھی کرلیجیے کہ جامعہ ملّیہ دہلی میں قائم کی گئی تھی نہ کہ علی گڑھ میں۔
’میں نے فطرت کو پالیا‘ (جون ۲۰۱۱ء)اسلام کے دین فطرت ہونے پر کھلی حقیقت ہے۔ نومسلموں کو کچھ ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نومسلموں کے قبولِ اسلام کے واقعات کے مطالعے سے ایمان کو مہمیز اور عمل کے لیے تحریک ملتی ہے، نیز نسلی مسلمانوں کو خود احتسابی کا موقع بھی ملتا ہے۔
’معاشی بحران‘ (جولائی ۲۰۱۱ء) کا ایک حل یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ٹیکس بڑھا دیں اور زیادہ لوگوں کو ٹیکس کے جال میں لائیں۔ لیکن کیا یہ پاکستانی قوم اس لیے ٹیکس دے کہ اس کا صدر نجی اور سرکاری دورے پر ۱۱روز کے لیے برطانیہ جائے تو ہفت ستارہ حیات ریجنسی کے رائل سیوٹ کا ایک دن کا کرایہ ۱۰لاکھ روپے سے زائد دے۔ اس کے ساتھیوں کے لیے ۳۰کمرے ۵۰ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے روز کے حساب سے لیے جائیں۔ درجنوں گاڑیوں کے ایک ایک روز کا کرایہ ۱۰ سے ۱۵ لاکھ روپے تک ادا کیا جائے۔ اپنی صاحب زادی کی گریجویشن تقریب کے لیے صدرصاحب ایڈنبرا گئے تو ہوائی جہاز کے چند گھنٹوں کے ۵۰ لاکھ روپے ادا کیے گئے۔ یہ معلومات پاکستان کے ہائی کمیشن کے ذریعے سے ملی ہیں (ایکسپریس، لاہور، ۲۰جولائی ۲۰۱۱ء)۔ وہ مسلمان حکمران کہاں ہیں جن کا ذکر ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں۔ کیا مملکت خدادادِ پاکستان ان جیسے صاحبانِ اقتدار کے لیے حاصل کی گئی تھی؟