ہم خوش قسمتی سے ایک ایسا نظامِ حیات رکھتے ہیں جو ہمیں اس [طبقاتی کش مکش]خطرے سے بچاسکتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر سے اُن لوگوں کو اُبھاریں جو اسلام کی روح کو پوری طرح سمجھتے ہوں اور طبقاتی تعصبات سے بالاتر ہوکر اسلام کے قوانین کی بے لاگ تعبیر کرسکتے ہوں۔ پھر یہ لوگ بالاتفاق، یا اکثریت کے ساتھ، جوتعبیر ہمارے سامنے پیش کریں اسے ہم سب مان لیں اور ہم میں سے کوئی طبقہ اپنے ہی مطلب کی تعبیر لینے پر اصرار نہ کرے۔ ایسے لوگوں کی پشت پناہی پوری قوم کو بحیثیت مجموعی کرنی چاہیے نہ کہ کسی ایک طبقے یا چند طبقوں کو۔ ہمیں اُن کے انتخاب میں صرف اس معیار کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ بھروسے کے قابل سیرت رکھتے ہوں، اور اسلام کی صحیح تعبیر کرنے کے اہل ہوں....
آپ اقلیت کو محض اس ریاکاری سے مطمئن نہیں کرسکتے کہ دیکھو ہم نے تمھاری خاطر اپنے مذہب تک کو چھوڑ دیا اور ایک غیرمذہبی ریاست بنا لی۔ اقلیت تو یہ دیکھے گی کہ آپ اس کے ساتھ انصاف کرتے ہیں یا نہیں؟ آپ کا برتائو تعصب اور تنگ دلی پر مبنی ہے یا رواداری اور فیاضی پر؟ یہی تجربہ دراصل فیصلہ کرے گا کہ اقلیت کو اِس ریاست میں وفادار بن کر رہنا ہے یا بیزار بن کر....
ایک ملک کا سیاسی نظام اُس کے باشندوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت کا پرتو ہواکرتا ہے۔ اب پاکستان کے باشندے اسلام کی طرف ایک پُرزور میلان رکھتے ہیں اور اُن کے اندر اسلام کے راستے پر آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے تو کیوں نہ اُن کی قومی ریاست اُن کے اِس میلان اور اِس خواہش کا پرتو ہو؟ آپ کا یہ ارشاد بھی بالکل درست ہے کہ اگر ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے باشندوں میں اسلامی شعور، اسلامی ذہنیت اور اسلامی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر میں نہیں سمجھا کہ اس کوشش میں حصہ لینے سے آپ خود ریاست کو کیوں مستثنیٰ رکھنا چاہتے ہیں.... اس وقت چونکہ پاکستان کا آیندہ نظام زیرتشکیل ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بن جائے جو اسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگر پوری ہوگئی توریاست کے وسیع ذرائع اور طاقتوں کو استعمال کرکے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اخلاقی انقلاب برپا کرنا بہت زیادہ آسان ہوجائے گا۔ پھر جس نسبت سے ہمارامعاشرہ بدلتا جائے گا اُسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔(’پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے‘، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ریڈیو انٹرویو: وجیہ الدین، ترجمان القرآن، جلد۳۶، عدد ۴، شوال ۱۳۷۰ھ، اگست ۱۹۵۱ء، ص۶۴-۷۰)