تاریخ انسانی میں دعوتِ فکروعمل دینے والی ہر تحریک جب تک اپنے مقصد اور ہدف کے بارے میں واضح تصور نہ رکھتی ہو، اپنی منزل کی طرف اعتماد سے سفر نہیں کرسکتی۔ مقصد اور منزل کے تعین کے ساتھ حکمت عملی اور نقشۂ عمل بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اگر منزل واضح ہو لیکن اُس تک پہنچنے کے ذرائع مناسبت نہ رکھتے ہوں تو خلوصِ نیت اور دعائوں کے باوجود وہ تحریک اپنی مراد کو نہیں پہنچ سکتی۔
قرآن کی دعوت پر جو تحریک روزِ اوّل میں برپا ہوئی اس میں داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مقصد و منزل، حکمت عملی اور مدارجِ دعوت، ہر چیز واضح تھی اور آپؐ کے رفقاے کار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپؐ کے ساتھ مکمل ذہنی، قلبی اور عملی یگانگت رکھتے تھے۔ یہ قرآن کریم کی زبان میں سیسہ پلائی ہوئی ایک دیوار اور کلامِ الٰہی کو تھامے ہوئے ایک ایسی جماعت تھی جس میں جذباتِ اتفاق و محبت و اخوت ہر ہرشریکِ سفر کے خون میں گردش کر رہے تھے۔
ایک لمحے کے لیے دیگر تحریکات پر نظر ڈالی جائے تو وہ تحریکات بھی جو اسلام مخالف ہوں جب تک ان میں بھی اپنے مقصد کا شعور، منزل کا تعین، حکمت عملی پر اتفاق نہ پایا جائے کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں۔ معروف مثال اشتراکی تحریک کی ہے جس نے مادیت کو اپنا ایمان قراردیتے ہوئے اشتراکی معاشرے کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے ایثار و قربانی اور اخلاص کے ساتھ مادی اور الحادی تحریک کے لیے اپنا سب کچھ لگایا اور کچھ عرصے کے لیے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکی۔
اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے مقصد و منزل کا نگاہوں کے سامنے بالکل واقع ہونا اور پھر اس کی مناسبت سے حکمت عملی پر وثوق ہونا کامیابی کی بنیادی شرائط میں سے ہے۔ تحریک اسلامی کا مقصد و منزل خود قرآن کریم نے وضاحت سے مختصرترین الفاظ میں بیان کردیا اور صرف ایک لفظ میں تمام فکر کے خلاصے کو عبودیۃ کی اصطلاح میں سمو دیا ہے، یعنی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے عبد اور بندے کی حیثیت سے بندگی اور عبودیت کے ذریعے اس بندگی اور عبدیت کو اللہ کی زمین پر قائم کرنا، اسی کا نام اقامت ِ دین ہے۔ سورئہ حج میں اس مقصد کو چار نکات کی شکل میں تعلیم کیا گیا ہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہاں اقامت دین کے حوالے سے جن چار امور کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک جامع نظام کے اجزاے ترکیبی ہیں۔ یہاں اقامت ِ دین کے پہلے جزو، یعنی اقامت ِ صلوٰۃ سے بات کا آغاز کیا گیا کہ جب تبدیلیِ اقتدار کے ذریعے اللہ کے بندوں کو اختیار و حکومت حاصل ہو تو پہلا کام نظامِ صلوٰۃ کا قائم کرنا ہے۔ یہ محض نماز پڑھ لینے کا نام نہیں ہے۔ اقامت صلوٰۃ کے لیے اوّلاً اللہ کی عظمت و کبریائی کے لیے اذان کے ذریعے جہاں تک انسان کی قدرت ہو، آواز بلند کر کے اللہ کے بندوں کو یہ دعوت دینا مقصود ہے کہ جو کائنات اور انسان کا خالق و حاکم ہے اس کے انعام و اکرام کا شکر ادا کرنے کے لیے اس کے گھر کی طرف آئو، اور قطار اندر قطار کھڑے ہوکر اس کے سامنے عاجزی کے ساتھ سرنگوں اور سربسجود ہوکر اپنی بندگی اور اس کی حاکمیت کا اقرار کرو کہ یہی نفس کی گمراہی، فحاشی و برائی سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے۔ نماز محض مسجد میں صف بندی کے بعد رب کے حضور اظہاربندگی نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعیت، اخوت، اتحاد، غیرطبقاتی معاشرے کے قیام کی حکمت عملی اور ذریعہ ہے۔ اس لیے پہلی بات یہ سمجھائی گئی کہ حصولِ اقتدار کے ساتھ ہی اللہ کے شکرواحسان اور اپنی اطاعت و فرماں برداری کے اظہار کے لیے نظامِ صلوٰۃ کو اس کے تمام لوازمات کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ یہ اقامت دین کا پہلا مطالبہ ہے۔
اس کے ساتھ مالی عبادت کو بھی لازم کر دیا گیا کہ اگر ایک بندہ واقعی اللہ کے لیے مخلص ہوجائے تو پھر اس کی عبادت نماز کی حد تک محددو نہیں رہ سکتی۔ اس کی معیشت اور مالی معاملات کو بھی بندگیِ رب کے اظہار کا ذریعہ بننا ہوگا۔ چنانچہ ادایگی زکوٰۃ کے نظام کے قیام کو دوسری ذمہ داری قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے جس طرح قیامِ صلوٰۃ کے لیے ایک باصلاحیت فرد کا انتخاب و تعین بطور قائد و امام ضروری ہے، ایسے ہی زکوٰۃ کے جمع کرنے کے لیے محصولین زکوٰۃ کا تقرر اور پھر زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے نظام بیت المال کا قیام لازم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ زکوٰۃ جس مال پر لی جائے گی اس کا خود حلال ہونا اور حلال ذریعے سے حاصل کیا جانا اولین شرط ہے۔ گویا زکوٰۃ محض ایک مقررہ شرح سے رقوم و اجناس کی وصولی کا نام نہیں بلکہ پورے معاشی نظام کے اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے احکاماتِ حلال و حرام کے تابع ہونے کا نام ہے۔
اقامت دین کے ان دو بنیادی کاموں کے ساتھ دعوت کا تیسرا اور چوتھا نکتہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہے، یعنی ہاتھ، زبان اور قلب تینوں کو بہ یک وقت استعمال کرتے ہوئے اچھائی اور بھلائی کو پھیلانے اور قائم کرنے اور برائی، بغاوت اور گمراہی کو مٹانا۔ قرآن کریم اور سنت ِ مطہرہ نے اِس سلسلے میں جو اصول دیا ہے وہ بہت سادہ سا ہے، یعنی بھلائی، اچھائی اور نیکی کے ذریعے برائی، گمراہی اور بدی کا مٹانا۔ نیکی، برحق اور صداقت کی اشاعت جوں جوں ہوگی گمراہی، برائی اور بغاوت کم سے کم تر ہوتی چلی جائے گی، کیوں کہ حق کے آنے کے بعد باطل کو جانا ہی پڑتا ہے اور باطل جانے کے لیے ہی بنا ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اقامت دین اُس نظام کے قیام کا نام ہے جس میں نہ صرف مراسمِ عبودیت بلکہ مال و دولت، معاشرت و سیاست اور زندگی کی ہر سرگرمی کو صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی خوشی اور رضا کا تابع کر دیا جائے۔ یہی اقامت دین کا مقصود ہے۔
دوسری بات جو سورئہ اخلاص میں سمجھائی جارہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا الصمد ہونا ہے نہ کہ کسی کا محتاج ہونا، جب کہ ہر ایک اس کا محتاج ہے اور اس کے حکم کے بغیر کوئی کام سرانجام نہیں دے سکتا۔ تیسری بات جو انسان کو تعلیم کی گئی ہے، یہ ہے کہ رب کریم وہ ہے جو اپنے وجود کے لیے کسی کا مرہونِ منت نہیں ہے۔ چوتھی بات یہ کہی جارہی ہے کہ نہ وہ کسی اور کو اپنی ذات میں شریک کرتا ہے اور آخری بات یہ کہ وہ اپنی اس انفرادیت کی بنا پر ہرلحاظ اور ہرپیمانے سے یکتا (احد) ہے۔
اس سورئہ مبارکہ کا نام ’الاخلاص‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ توحید خالص (اللہ کی ذات و صفات کے حوالے سے) کو زندگی میں نافذ کرنا اس کا علم حاصل کرنا اوراس کے مطالبات پر عمل کرنا گویا دین کا ایک تہائی اثاثہ ہے، جب کہ بقیہ دو تہائی کا تعلق نبوت اور آخرت کے ساتھ ہے۔ اس سورئہ مبارکہ کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے تمام معاملات کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے خالص کر دینا ہی توحید کی روح ہے۔
اخلاص کو سمجھنے کے لیے نہ صرف قرآن کی اس مختصر لیکن جامع سورت کے مضامین پر غور کرنا ضروری ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دیگر مقامات پر قرآن کریم اخلاص پر آمادہ کرنے اور اخلاص کے اختیار کرنے کا تذکرہ کس طرح کرتا ہے، مثلاً قرآن کا یہ کہنا کہ: ’’(اے نبیؐ) کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں۔ ابراہیم کا طریقہ جسے یکسو ہوکر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا میں ہوں‘‘۔ (الانعام ۶: ۱۶۱-۱۶۲)
یہاں بھی قرآن کریم اپنے تمام اعمال کو اللہ رب العالمین جل جلالہ کے لیے خالص کردینے کو اخلاص کا ثبوت قرار دیا ہے۔ یہی اخلاصِ عمل ہے جو انسان کو آخرکار دنیا اور آخرت میں کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے۔ اخلاص نیت میں یہ بات بھی شامل ہے، جو کام بھی کیا جارہا ہے اس کا محرک اور سبب کیا ہے۔ مشہور حدیث جس کے راوی حصرت عمر بن خطابؓ ہیں اور جو اکثر افراد کی زبانوں پر رہتی ہے، اس بات کو دو مثالوں کی مدد سے واضح کرتی ہے۔
یہاں یہ بات واضح طور پر سمجھا دی گئی کہ اگر ایک شخص ہجرت جیسے عظیم کام کو کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آبائی گھر کو، اپنے دوستوں اور اعزہ کو، اپنے کاروبارِ حیات کو، اپنی جاے پیدایش کو، ان تمام یادوں کو جو اس کی زندگی سے وابستہ ہیں، ترک کر کے ایک دوسرے مقام پر نقل مکانی کرتا ہے اور اس کا مقصد اللہ کے دین کی سربلندی، اس کی اور صرف اس کی بندگی اور اس کے دین پر مکمل آزادی سے عمل کرنا ہے، تو یہ ہجرت اللہ کے لیے ہے اور اس کا بڑااجر ہے۔ لیکن اگر بظاہر تو وہ ایسی ہجرت کر رہا ہو لیکن دل میں نیت یہ ہو کہ اس طرح اسے کسی مومنہ سے شادی کا موقع بھی مل جائیگا تو پھر یہ ہجرت اس خاتون کے لیے ہے، اللہ کے لیے نہیں ہے۔ اخلاص نیت سے ہجرت وہی ہوگی جس میں صرف رضاے الٰہی مقصود ہو، چاہے ہجرت کے بعد اللہ کی طرف سے ایک فضل و انعام کے طور پر اسے کسی مومنہ سے شادی کا موقع مل جائے۔
ایک دوسری حدیث میں اسی بات کو چار ایسے نیک کاموں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک بجاے خود ایک نیکی کا کام ہے، عظمت کا کام ہے لیکن اگر اس کام کی نیت جو سب سے مخفی ہے لیکن عالم الغیب والشہادہ سے مخفی نہیں کچھ اور ہو تو پھر بعض قابلِ تعریف عظیم کام بھی نہ صرف اپنا اجر کھو بیٹھتے ہیں بلکہ شدید سزا کی جانب لے جاتے ہیں۔
خدا اس سے کہے گا: ’’تو نے یہ بات غلط کہی کہ میری خاطر جنگ کی، تو نے تو صرف اس لیے جنگ کی (اور جاں بازی دکھائی) کہ لوگ تجھے جری اور بہادر کہیں۔ سو دُنیا میں تجھے اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اس کو منہ کے بَل گھسیٹتے لے جائو اور جہنم میں ڈال دو‘‘۔ چنانچہ اُسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
پھر ایک دوسرا شخص خدا کی عدالت میں پیش کیا جائے گا جو دین کا عالم و معلّم ہوگا۔ اُسے خدا اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انھیں تسلیم کرے گا۔ تب اس سے کہے گا: ’’ان نعمتوں کو پاکر تو نے کیا عمل کیے؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’خدایا میں نے تیری خاطر تیرا دین سیکھا اور تیری خاطر دوسروں کو اس کی تعلیم دی، اور تیری خاطر قرآن مجید پڑھا‘‘۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’تم نے جھوٹ کہا، تم نے تو اس لیے علم سیکھا تھا کہ لوگ تمھیں عالم کہیں، اور قرآن اس غرض سے تم نے پڑھا تھا کہ لوگ تمھیں قرآن کا جاننے والا کہیں، سو تمھیں دنیا میں اس کا صلہ مل گیا۔پھر حکم ہوگا کہ اس کو چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور جہنم میں پھینک دو۔ چنانچہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے جاکر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
تیسرا آدمی وہ ہوگا جس کو اللہ نے دنیا میں کشادگی بخشی تھی اور ہرقسم کی دولت سے نوازا تھا۔ ایسے شخص کو خدا کی جانب میں پیش کیا جائے گا اور وہ اسے اپنی سب نعمتیں بتائے گا اور وہ ساری نعمتوں کا اقرار کرے گا کہ ہاں، یہ سب نعمتیں اسے دی گئی تھیں۔ تب اس سے اس کا رب پوچھے گا: ’’میری نعمتوں کو پاکر تو نے کیا کام کیے؟‘‘ وہ جواب میں عرض کرے گا: ’’جن جن راستوں میں خرچ کرنا تیرے نزدیک پسندیدہ تھا، ان سب راستوں میں مَیں نے تیری خوشنودی کے لیے خرچ کیا‘‘۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’جھوٹ کہا، تو نے یہ سارا مال اس لیے لٹایا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، سو یہ لقب دُنیا میں مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اس کو چہرے کے بَل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور آگ میں ڈال دو‘‘۔ چنانچہ اسے لے جاکر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)
ہجرت اور جہاد کا تحریکِ اسلامی کی دعوت کے ساتھ ایک اندرونی اور قلبی تعلق ہے۔ اقامت ِ دین کی دعوت انفرادی اور اجتماعی معاملات میں جاہلی رسم و رواج سے اسلام کی آفاقی تعلیمات کی طرف ہجرت کی دعوت ہے۔ یہ وطنیت، لسانیت، علاقائیت، نفس پرستی کی برائیوں سے اخوت اسلامی، یک جہتی اور مکمل طور پر بندگیِ رب کی طرف ہجرت کی دعوت ہے۔ ایک کارکن کے ذاتی معاملات ہوں یا معاشرتی اور معاشی معاملات، اسے ہرہرعمل کو یہ دیکھ کر جانچنا ہوتا ہے کہ اس کام میں مقصود اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی رضا ہے یا کسی فرد کی خوشی کا دخل ہے۔ کیا اطاعتِ الٰہی مقصود ہے یا کسی ذمہ دار کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا مقصود ہے۔ گویا یہ ایک مسلسل ہجرت کی دعوت ہے جس میں فکری طور پر اور عملی طور پر ہرعمل کے لیے رضاے الٰہی کو معیار بناکر یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ جو کام بھی کیا جا رہا ہے اس کا رُخ اور سمت کس طرف ہے، جاہلی روایات کی طرف یا اسلام کی تعلیمات کی طرف۔
وہ عمل جو ہجرت کے طور پر کیا جاتا ہے بیک وقت ایک جہادی عمل بھی ہے۔ یہ جہاد فکری ہے، شعوری ہے، عملی ہے اور ہرلمحہ واقع ہوتا ہے۔ یہاں معمولی سے معمولی بات ہو یا بڑے سے بڑا مسئلہ، نفس، مفاد اور تعلقات سے بلند ہوکر یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ رب کو خوش کرنے کے لیے ایک کام کو کس طرح کیا جائے۔ اس عمل میں اگر رفقاے کار اور ذمہ داران سے اختلاف کرنا ہو تو اس میں بغیر کسی مداہنت کے قرآن و سنت کے اصولوں کی بنیاد پر ایک موقف اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ جہاد تنگ نظری کے خلاف، خود رائی کے خلاف اور ان تمام تصورات کے خلاف عمل میں آتا ہے جو تحریک کے مقابلے میں فرد کو اپنے فائدے کی طرف بلاتے ہیں۔
ان احادیث کی روشنی میں اخلاص نیت کا مفہوم یہ نظر آتا ہے کہ ایک کارکن اپنے تمام رشتوں، تعلقات اور معاملات کو جب صرف اور صرف رب العالمین کے لیے خالص کرلے، صرف اُس سے جڑ جائے تووہ اللہ کا مخلص بندہ ہے جسے قرآن مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ ۹۸:۵) سے تعبیر کرتا ہے، اور جن کے بارے میں یہ وعدہ کرتا ہے کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔
جس نے یہ اخلاص نیت اختیار کیا اس کی وضع قطع اور شکل جیسی بھی ہو، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے قلب اور خلوص کو دیکھ کر بہترین اجر سے نوازتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے انھوں نے کہا: فرمایا رسولؐ اللہ نے: ’’اللہ تمھاری شکل و صورت اور تمھارے مال کو نہ دیکھے گا بلکہ تمھارے دلوں کو اور تمھارے اعمال کو دیکھے گا، (مسلم، کتاب البر والصلہ والادب باب ۱۰، حدیث ۲۵۶۴)۔ اخلاص نیت کے حوالے سے ایک اور حدیث یہ واضح کرتی ہے کہ اگر ایک کام صرف اللہ کے لیے کیا گیا اور اس میں کہیں آس پاس بھی یہ خیال ذہن میں نہ تھا کہ اس کا کوئی فائدہ کام کرنے والے کے کسی عزیز کو پہنچے اور اتفاقاً اس عمل کے نتیجے میں اس کے اپنے کسی عزیز حتیٰ کہ اپنی اولاد کو اس کا فائدہ پہنچ جائے، جب بھی اس عمل کی صداقت، قبولیت اور خلوص میں فرق واقع نہ ہوگا کیونکہ صدقِ دل سے کیا گیا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب و مقصود ہے۔
حضرت معنؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ابی زید نے صدقے کے لیے چند دینار نکالے اور انھیں مسجد میں بیٹھے ایک فرد کے پاس رکھ دیا۔ میں نے آکر ان دیناروں کو اُٹھا لیا، لے کر (گھر) کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے تجھے دینے کا ارادہ کیا تو نہیں تھا۔ میں اس باہمی چپقلش کا مقدمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا تو فرمایا: اے یزید جس کی تو نے نیت کی تجھے اس کا اجر مل گیا اور اے معن! تو نے لیا وہ تیرا ہوگیا۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب ۱۵، حدیث ۱۴۲۲، عن معن)
یہ حدیث قرآن کریم کی اُس آیت کی تصدیق کرتی ہے جس میں قربانی کے گوشت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اللہ کو نیت پہنچتی ہے نہ کہ گوشت۔ اخلاصِ نیت کا اجر نہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے بلکہ بعض اوقات اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اخلاصِ نیت کے اجر سے نواز دیتا ہے۔ بخاری میں کتاب الجہاد میں ایک حدیث (۲۸۳۹) میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ایک غزوہ کے موقع پر بعض ایسے اصحاب جو خلوصِ نیت سے جہاد میں شامل ہونا چاہتے تھے کسی بنا پر شریک نہ ہوسکے تو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ہم نے جو بھی گھاٹی یا وادی عبور کی ہے اس میں وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں، یعنی انھیں بھی جہاد کا اجر ملے گا‘‘۔
ان احادیث میں غور کرنے اور اپنا احتساب کرنے کے لیے انتہائی قیمتی رہنمائی ہے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا تنظیمی کاموں میں شامل ہونا کیا اللہ، اس کے رسولؐ اور ان دونوں کی پیروی کرنے والے اولی الامر کی اطاعت کے جذبے کی بنا پر ہے، یا اس میں دیگر جذبات شامل ہیں؟ اگر ہمارا کسی ریلی میں آنا، کسی اجتماع میں شرکت کرنا، کسی کام کی ذمہ داری کو ادا کرنا محض نمود ونمایش کی غرض سے ہوا تو پھر اس سے زیادہ گھاٹے کا سودا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ ہاں، اگر ہماری نماز، ہماری قربانی، ہمارا وقت، ہماری صلاحیت، ہماری تمام قوتوں کا استعمال صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہے اور اسی کی رضا اسی کے دین کی اقامت کے لیے ہے تو پھر اس کا وعدہ ازل سے ابد تک صرف سچائی کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ اپنا وعدہ ہمیشہ پورا کرتا ہے اور جب بھی کوئی اللہ کا بندہ یہ کہتا ہے کہ اللہ اس کا رب ہے اور پھر وہ اس پر استقامت اختیار کرلیتا ہے تو رب کریم اَن دیکھی غیبی قوتوں سے اس کی تائید و توثیق کرتا ہے اور اس کے لیے اجرونجات کو لازم کردیتا ہے۔ وہ بلاشبہہ دلوں کے حال کو جاننے والا، دلوں پر گرفت رکھنے والا اور دلوں کے اخلاص کی بنا پر اپنے بندوں کو اپنی وسیع رحمت میں لے لینے والا ہے۔