امام حسن البنا شہید کے رفیق کار نے اپنے جھریوں بھرے رعشہ زدہ ہاتھوں سے سیلاب فنڈ میں رقم دیتے ہوئے کہا: ’’اس کی رسید کا انتظار کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے اپنے کفن میں ساتھ لے جائوں۔ پاکستان اسلام کی خاطر وجود میں آنے والا ہمارا برادر ملک ہے اور آج وہاں سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہم سب کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ میں نے اپنے بچوں سے یہ رقم جمع کی ہے تاکہ ہم بھی سیلاب زدگان کی معاونت میں جماعت اسلامی کی کوششوں میں حصہ ڈال سکیں‘‘۔ ایک نہیں، ایسے سیکڑوں واقعات ہیں۔ بڑی بڑی رقوم سے لے کر بچوں کے جمع کردہ جیب خرچ تک، جس کو جتنی توفیق نصیب ہوئی اس نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھجوانے کی سعی کی۔
ایک اور جگہ اسکول کے مدرس اور مسجد کے امام صاحب نے سیلاب زدگان کے لیے اپیل کی۔ ایک بچے نے بھی مٹھی میں دبا نصف ریال (تقریباً ۱۱ روپے) سیلاب زدگان کے لیے پیش کردیا۔ امام عبداللہ سمیت سب حاضرین کو اس پر بہت پیار آیا۔ امام صاحب نے وہ نصف ریال اُٹھایا اور کہا: یہ بہت قیمتی ہے۔ نہ جانے مالکِ کائنات کو کتنا پسند آیا ہوگا۔ کوئی ہے جو اس کو اپنے لیے پسند کرتے ہوئے خود رکھ لے اور جتنی توفیق ہے وہ پیش کردے…؟ ایک صاحب نے کہا: اس کے ۱۰ ریال دیتا ہوں، بڑھتے بڑھتے وہ ۲۰۰ ریال میں لے لیا گیا اور معصوم بچے سمیت سب کا اجر کئی گنا بڑھ گیا۔ ایک دو نہیں لاتعداد واقعات ہیں جو اُمت میں موجود خیرکثیر کی خبر دیتے ہیں۔
جذبۂ انفاق کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ تشویش اور افسوس بھی تھا کہ محدود امریکی طوفانوں اور کتوں، بلیوں کے لیے اربوں ڈالر کے انبار لگا دینے والی عالمی برادری اس قیامت ِصغریٰ پر لاتعلق بنی بیٹھی ہے۔ ایک صاحب نے اس پریشانی کا اظہار بھی کیا کہ کئی اہلِ خیر مصیبت کے ان لمحات میں امداد دینا چاہتے ہیں لیکن انھیں یہ اعتماد نہیں ہے کہ ان کے صدقات و عطیات واقعی مستحقین تک پہنچ جائیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مجلس میں نوجوان نے پوچھا: میں نے عمرے کے لیے ایک رقم جمع کررکھی ہے لیکن سیلاب آیا ہے تو سوچ رہا ہوں کہ عمرے پر جائوں یا یہ رقم متاثرین سیلاب کے لیے بھجوا دوں؟ مجلس میں بیٹھے بزرگ نے فتویٰ دیا: عمرے پر چلے جائو۔ حاضرین نے اس جواب پر حیرت کا اظہار کیا تو بزرگ نے کہا: ’’سیلاب کے لیے دے بھی دو گے تو مستحقین تک پہنچنے کی اُمید نہیں ہے‘‘۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس بے اعتمادی کے باوجود مجموعی طور پر عالمِ عرب نے سیلاب زدگان کی معاونت میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں عرب ذرائع ابلاغ نے بھی بہت مؤثر، مثبت اور بھرپور کردار ادا کیا۔ بالخصوص الجزیرہ چینل کی ٹیم نے بیک وقت تین مختلف مقامات سے بہت جاں فشانی سے رپورٹنگ کی، جس کے نتیجے میں اُن حکومتوں اور اداروں کو بھی متحرک ہونا پڑا جو اس قیامت سے لاتعلق بیٹھے تھے۔ غیرجانب داری سے کی جانے والی رپورٹنگ میں حکومت، فوج، دینی جذبے سے کام کرنے والی امدادی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی کارکردگی کے مطابق حصہ ملا۔ کاش! یہ اَنمول خدمت کسی ابلاغیاتی ادارے کے بجاے خود حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوتی، لیکن یہاں تو معاملہ اُلٹ تھا۔ ذرائع ابلاغ رپورٹنگ کرنا چاہتے تھے اور حکومت رکاوٹیں ڈال رہی تھی۔ الجزیرہ کے ذمہ داران نے بتایا کہ چینل نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان میں موجود اپنے بیورو کے علاوہ ۱۵ مزید افراد کو تمام جدید آلات و سہولیات دے کر سیلاب سے تباہ علاقوں میں بھیجا جائے اور وہاں سے براہِ راست رپورٹنگ کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت ِ پاکستان نے ان افراد کو ویزے نہیں دیے۔ یہ امریقینی ہے کہ اگر انھیں ویزے دے دیے جاتے تو سیلاب زدگان کے لیے امدادی سرگرمیوں اور وسائل میں کئی سو گنا اضافہ ہوجاتا۔
اپنے اور اپنے حبیبؐ کے حرم کو اللہ تعالیٰ نے بے حدوحساب برکات عطا کی ہیں۔ ہرلمحے مغفرت اور رحمتوں کی ہمہ پہلو بہاریں جلوہ افروز رہتی ہیں۔ رحمتوں کے اسی پرتو میں اجتماع و اتحاد اُمت کے بے مثال مناظر و مواقع بھی نصیب ہوتے ہیں۔ حالیہ سفر میں ایسے ایسے احباب سے ملاقات ہوئی جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
ہم نے زیرزمین سرنگوں کے ذریعے سانس کی ڈوری برقرار رکھنے کی سعی شروع کردی۔ میلوں لمبی سرنگوں کا پورا جال بچھ گیا۔ تھوڑی سی کوشش میں اللہ کی اتنی نصرت شامل ہوگئی کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود روزمرہ کی کئی اشیا ایسی ہیں کہ جو غزہ میں تقریباً آدھی قیمت میں مل رہی ہیں، جب کہ مصر میں جہاں سے یہ اشیا لائی جارہی ہیں وہی چیزیں دگنی قیمت میں ملتی ہیں مثلاً چھوٹا گوشت یا تو ملتا ہی نہیں، ملے تو غزہ میں ۳۰ مصری پونڈ (۴۳۰ روپے) کلو ملتا ہے، جب کہ مصر میں ۶۰پونڈ میں، غزہ میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ کیونکہ نایاب ہے تو قیمت بڑھا دو۔ غزہ میں ایک خدا خوف اور ہر دم بیدار قیادت آنے سے ہم فلسطین کی تاریخ میں پہلی بار وہ امن و امان قائم ہوا کہ جس کا ذکر ہم صرف تاریخ میں پڑھتے ہیں۔
میں نے سوال کیا لیکن اس ۹۰ فٹ گہری زیرزمین فولادی دیوار کا کیا بنا جو ان سرنگوں کو بند کرنے کے لیے مصر اور غزہ کی سرحد پر تعمیر کی گئی ہے، اور اس کے لیے امریکا سے ایسی آہنی چادریں بھجوائی گئی تھیں کہ بم بھی جن پر اثر نہ کرسکے؟ کہنے لگا: یہاں ہم نے پھر قرآن کریم سے استفسار کیا۔ قرآن نے جواب دیا: وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ(انفال ۸:۶۰) ’’ان سے مقابلے کے لیے ہر وہ طاقت فراہم کرو جو تمھارے بس میں ہے‘‘۔ ہم نے ان فولادی دیواروں کو کاٹنے کے لیے جو کچھ بھی انسانی ذہن میں تدبیر آسکتی تھی، اختیار کی۔ ساتھ ہی ساتھ اس آیت کا ورد اور اللہ سے مدد بھی طلب کرتے رہے۔ یقین کیجیے کہ بموں سے بھی نہ کٹ سکنے والی ان چادروں میں بھی ہم اتنے بڑے بڑے شگاف ڈالنے میں کامیاب ہوگئے کہ اب وہاں سے گاڑیاں تک گزر سکتی ہیں۔ یہی نہیں قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا: عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ(البقرہ ۲:۲۱۶) ’’ہوسکتا ہے کوئی چیز تمھیں ناپسندیدہ لگ رہی ہو اور وہی تمھارے لیے بہتر اور باعثِ خیر ہو‘‘۔ اس آہنی دیوار سے پہلے ہمارا ایک مسئلہ یہ تھا کہ طویل ہونے کی وجہ سے سرنگیں درمیان سے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ اب ان آہنی اور کنکریٹ کی دیواروں سے انھیں درمیان میں ایک مضبوط سہارا مل گیا ہے۔
۹۰ روز میں مکمل حفظ قرآن کے معجزے کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگا: زیادہ بڑی تعداد اب ۹۰ نہیں ۶۰روز میں پورا قرآن حفظ کرنے لگی ہے۔ اب بچوں کے علاوہ بچیوں اور خواتین کے لیے بھی حفظ قرآن کیمپ لگائے جارہے ہیں۔
انھی دنوں غزہ کی ایک ۵۹سالہ داعیہ صُبْحِیَّہ علی کا انٹرویو دیکھا تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں: ’’ہمارا یقین ہے کہ ہماری نصرت کے تین مطلوبہ ستون ہیں: مسجد، قرآن اور ثابت قدمی‘‘۔ ہماری خواتین صرف رمضان یا جمعہ ہی کو مساجد نہیں جاتیں بلکہ ہفتے میں تین روز عصر سے عشاء تک مسجدیں آباد رکھتی ہیں۔ صرف نمازوں کی ادایگی ہی نہیں کرتیں، ایک مسلسل اور جامع تربیتی پروگرام میں شریک ہوتی ہیں۔ اس دوران دروس بھی ہوتے ہیں۔ مختلف کورسز بھی اور تربیتی ثقافتی اور تفریحی مقابلے بھی۔ ہماری تربیتی سرگرمیوں میں ہر عمر کی بچیاں اور خواتین شریک ہوتی ہیں، لیکن ۱۰ سے ۱۴سال کی بچیاں ہماری خصوصی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔
صُبْحِیَّہ کا کہنا تھا: ’’ہمارا یقین ہے کہ ہم جب تک قرآنی اخلاق سے آراستہ نہیں ہوں گے، آزادی کی نعمت حاصل نہیں کرسکتے۔ دشمن نے بھی اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے۔ وہ اخلاقی بے راہ روی پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے اور ہم قرآن کے سہارے اپنی اخلاقی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں غزہ میں دارالقرآن والسنۃ نے ۶۰روز کے اندر اندر قرآن کریم حفظ کروانے کا آغاز کیا۔ ۴۰۰ بچوں اور بچیوں نے حفظ کیا۔ اگلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں پھر تباشیرالنصر (فتح و نصرت کی علامات) کے عنوان سے کیمپ لگائے گئے۔ اس سال ۳ہزار طلبہ و طالبات نے قرآن حفظ کیا۔ پھر تو غزہ میں جگہ جگہ حفظ قرآن کیمپ لگنے لگے۔حدیث کے مطابق حافظ قرآن کے والدین کو حشر میں وقار و مرتبت کا تاج پہنایا جائے گا۔ سورج کی روشنی اس کے سامنے ماند ہوگی۔ اب مخیمات تاج الوقار (تاج الوقار کیمپ) کے عنوان سے جگہ جگہ سرگرمی ہوتی ہے۔ بینر دکھائی دیتے ہیں: ھذا ھو جیل النصر ’’یہ ہے وہ نسل جسے اللہ کی نصرت ملنا ہے‘‘۔ تاج الوقار، للاقصٰی انتصار ’’تاجِ وقار، اقصیٰ کی نصرت ہے‘‘۔ صُبْحِیَّہ نے کہا تھا: میں نے حفظ قرآن کیمپ کی ایک تقریب تقسیم اسناد میں شرکت کی، ۱۶ہزار حفاظ جمع تھے، سب کے چہرے قرآنی نور سے دمک رہے تھے۔ غزہ سے آنے والا مسافر بتا رہا تھا۔ اس وقت غزہ میں ان نئے حفاظ کی تعداد ۹۰ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ اب ہم قرآن اور بندوق، دونوں سے آراستہ ہورہے ہیں۔ اسی روز عالمی ذرائع ابلاغ نے خبر شائع کی: غزہ میں نئے راکٹ کا کامیاب تجربہ، رینج دگنی ہوگئی۔ تل ابیب زد میں آگیا، امریکا اور اسرائیل کا اظہارِ تشویش!
یہی نہیں غزہ کی حکومت اور حماس کی قیادت نے عالمی روابط اور سفارت کاری میں بھی کئی منزلیں کامیابی سے طے کی ہیں۔ اس ضمن میں آخری اہم پیش رفت ماسکو کے ساتھ مضبوط تعلقات کے قیام کی ہے۔ حماس کے سربراہ خالدمشعل اپنے اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ روس کا دورہ کرچکے ہیں اور روسی وزیراعظم نے بھی دمشق آمد پر ان کے ساتھ خصوصی ملاقات کی ہے۔ اللہ کے وجود سے انکاری ملحد روس اور بنیاد پرست حماس…؟ بظاہر نہ سمجھ میں آنے والا فارمولا ہے، لیکن اب یہ ایک اہم زمینی حقیقت ہے۔ یہی نہیں روس میں اور بھی کئی اہم تبدیلیاں روپذیر ہورہی ہیں۔
’روسی مجلس اسلامی‘ کے صدر صلاح الدینوف بتارہے تھے کہ اس وقت روس میں ۹۶دینی ادارے اسلام کی تعلیم دے رہے ہیں۔ موجودہ صدر ڈیمٹری میڈیفڈیف نے مسلح افواج میں بھی دینی تعلیمات دینے اور دینی شعائر پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اجازت ۲۱جولائی ۲۰۰۹ء کو دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سرکاری طبقوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ روحانی خلا انسان کی قوتِ کار میں کمی اور شخصیت کے عدم توازن کا باعث بنتا ہے۔
صلاح الدینوف کا کہنا تھا روس میں کبھی یہ فلسفہ پیش کیا جاتا تھا کہ ’’دین الگ، ریاست الگ‘‘۔ اب اس میں یہ ذومعنی ترمیم کی گئی ہے کہ ’’دین ریاست سے الگ، لیکن معاشرے سے نہیں‘‘۔ ساتھ ہی یہ بات بھی عام ہورہی ہے کہ ’’لوگوں کو دینی اور روحانی آزادی فراہم کرنے سے ریاست کے مفادات بھی وابستہ ہیں‘‘۔
صلاح الدینوف نے عربی زبان میں شائع کردہ جریدہ الاسلام فی روسیا (روس میں اسلام) کا ایک نسخہ بھی دیا۔ اس میں شائع شدہ ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روسی فوجی چھائونیوں میں دینی مراکز کی تعداد ۵۳۰ ہوچکی ہے۔ خود کو مومن (believer) کہلانے والے فوجی افسران اور سپاہیوں کی تعداد ۷۰ فی صد ہوگئی ہے۔ان میں سے ۸۰ فی صد عیسائی ہیں، ۱۳فی صد مسلمان، ۳ فی صد بدھ مت کے پیروکار اور ۴ فی صد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اس سے قبل ایک کانفرنس میں صلاح الدینوف کے ہمراہ کئی روسی پارلیمنٹیرین اور اس وقت کے صدر فلامر ڈین پوٹن کے قریبی ساتھیوں سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ سب حضرات افغانستان میں امریکی مستقبل کے بارے میں گہری دل چسپی سے سوالات کر رہے تھے۔ روس نے ایران اور شام کے ساتھ مذاکرات و معاہدوں میں بھی کسی حد تک اپنی الگ شناخت قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اگرچہ مذکورہ بالا تمام تر اشارات بہت اہم ہیں لیکن فی الحال روس کسی بڑی تبدیلی سے قدرے فاصلے پر ہے۔ آزاد ہوجانے والی ریاستوں پر بھی اس کی گرفت ڈھیلی تو ہوئی ہے لیکن وہاں اس کے نفوذ سے بھی کوئی غافل نہیں رہ سکتا۔ البتہ آج سے ۲۰ برس پہلے اور آج کے روس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مزید تبدیل ہوتے ہوئے روس اور عالمِ اسلام کے مابین، اپنے اپنے قومی و نظریاتی مفادات کو عزیز تر رکھتے ہوئے، دوستی کے بہت سے در وا ہورہے ہیں۔
مصری ساتھی بتا رہا تھا کہ اخوان کے خلاف پروپیگنڈا جنگ بھی عروج پر ہے۔ رمضان میں سرکاری ٹی وی پر اخوان کی تاریخ مسخ کرنے اور امام حسن البنا پر الزامات کے طومار باندھنے کے لیے ایک ڈراما سیریز چلائی جارہی ہے۔ روزانہ دکھائی جانے والی الجماعہ نامی اس سیریز میں اخوان کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ امام البنا کے اہلِ خانہ کی طرف سے اس سیریز کے خلاف عدالت کے دروازے بھی کھٹکھٹائے جارہے ہیں لیکن ظاہر ہے سیدقطب کو پھانسی پر لٹکا دینے والی عدالتوں سے کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اخوان کے ایک رکن پارلیمنٹ محسن راضی کا کہنا تھا کہ ’’میں نے مصری وزیر اطلاعات و نشریات سے سوال کیا کہ حکومت نے اخوان کے خلاف ایک گھٹیا ڈراما خریدنے کے لیے اڑھائی کروڑ مصری پائونڈ (۱۳ کروڑ ۷۵لاکھ روپے) کی خطیر رقم کیوں ضائع کی۔ خود مصری ٹی وی کے پروڈکشن ہائوس میں اس سے کہیں کم قیمت پر کوئی بھی ڈراما تیار کروایا جاسکتا تھا۔ وزیرموصوف نے اپنے تئیں میری معلومات درست کرتے ہوئے کہا: نہیں ہم نے یہ ڈراما سیریز اڑھائی کروڑ نہیں دو کروڑ ۲۰ لاکھ پائونڈ (۱۲کروڑ ۱۰لاکھ روپے) میں خریدی ہے۔ بعد میں جب ڈرامے کے پروڈیوسر وحید حامد سے پوچھا گیا کہ تم نے سرکاری خزانے سے اتنی خطیر رقم کیوں ضائع کی تو اس کا کہنا تھا کہ نہیں ہم نے تو صرف دو کروڑ پائونڈ میں ڈراما فروخت کیا ہے۔ محسن راضی کا کہنا تھا کہ حکومت نے یہ ڈراما کافی عرصے سے تیار کروایا ہوا ہے لیکن اسے خاص طور پر اس رمضان میں اس لیے پیش کیا گیا تاکہ رمضان کے بعد ہونے والے عام انتخابات پر اثرانداز ہوا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کی ایک اور سیریز تین سال بعد ہونے والے سینیٹ اور بلدیاتی انتخابات کے موقع پر بھی چلائی جائے گی۔ اخوان نے حالیہ انتخابات کے لیے بھی گذشتہ کی طرح ۱۵۰ اُمیدواروں کو انتخاب لڑوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن انتخابی عمل کو منصفانہ بنانے کے لیے IAEA کے سابق صدر محمد البرادعی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر سات نکاتی سفارشات بھی تیار کی ہیں۔ ان جماعتوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگر یہ مطالبات تسلیم نہیں ہوتے تو وہ ان ڈھکوسلا انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی کرسکتی ہیں۔ اس وقت یہ ساری جماعتیں ان مطالبات کے حق میں عوامی دستخط مہم چلا رہی ہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ دستخطی مہم ہزاروں تک جاپہنچی تھی، لیکن پھر جب اخوان نے بھی اس میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تو یہ مہم اچانک لاکھوں سے تجاوز کرگئی۔
ترکی کے گذشتہ تقریباً سو برس کی تاریخ بھی عجیب ہے۔ ۱۹۲۳ء میں کمال اتاترک کے انقلاب کے بعد تک۔ اسلام اور اسلامی شناخت کو جڑ سے اُکھاڑ دینے کے تمام ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ اذان، نماز اور قرآن تک عربی زبان میں پڑھنے کو جرم قرار دے دیا گیا۔ عدنان مندریس نے عربی زبان اور کئی بنیادی دینی سرگرمیاں تو بحال کر دیں لیکن مجموعی طور پر سیکولر جرنیلوں اور سیکولر ججوں کا قبضہ ہی مستحکم رہا۔ بدیع الزمان سعید نورسی کی اصلاحی تحریک نے روحِ ایمانی کو جلابخشی، تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کی اور سیکولرزم کے سامنے سد سکندری کی بنیاد مستحکم کی۔ ۱۹۷۰ء میں پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ’ملّی نظام پارٹی‘ کے نام اسلامی تحریک قائم کی، کچھ ہی عرصے بعد اس پر پابندی لگا دی گئی۔ ۱۹۷۲ء میں انھوں نے ملّی سلامت پارٹی کے نئے نام سے کام کا آغاز کردیا، وہ ایک سیاسی اتحاد کے ذریعے نائب وزیراعظم بھی بن گئے لیکن ۱۹۸۰ء میں فوجی انقلاب کے ذریعے سیاسی جماعت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ ۱۹۸۳ء میں انھوں نے رفاہ پارٹی بنانے کا اعلان کردیا اور ۱۹۹۶ء میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک جاپہنچے۔ تب عبداللہ گل ان کے دست راست اور پارٹی کے امورخارجہ کے ذمہ دار تھے اور طیب اردوگان استنبول کے لارڈ میئر۔ ۱۹۸۸ء میں رفاہ پارٹی اور اربکان کی وزارتِ عظمیٰ ختم کر دی گئی۔ میئر اردوگان کو بھی جیل بھجوا دیا گیا۔ ۲۰۰۰ء میں اربکان نے خود پر پابندی کے باعث اپنے ایک اور ساتھی رجائی قوطان کی سربراہی میں فضیلت پارٹی قائم کر دی۔ کچھ ہی عرصے بعد اس پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ شکست خوردگی، مایوسی یا کسی جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے بغیر اربکان نے ۲۰۰۳ء میں سعادت پارٹی قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ عبداللہ گل اور طیب اردوگان کو خدشہ تھا کہ بالآخر سعادت پارٹی کو بھی غیرقانونی قرار دے دیا جائے گا۔ انھوں نے ’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ‘ کے نام سے الگ پارٹی بنا لی اور پارٹی کی رکنیت کا دروازہ سب کے سامنے کھول دیا۔
اس پورے عرصے میں اصل طاقت اور اختیار سیکولرزم کے محافظ فوجی جرنیلوں اور دستوری عدالت (constitutional court) کے ہاتھ میں رہا۔ فوجی دبائو اور جرنیلی تلوار نے ہی دستوری عدالت کے ذریعے ہر بار پابندیاں لگوائیں اور سزائیں دلوائیں۔ سابق صدر ڈیمرل، سیکولر جرنیلوں اور سیکولر ججوں کی یہی تثلیث تھی جس نے عبداللہ گل اور طیب اردوگان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اللہ کا فیصلہ ہی غالب آیا۔ اس نے اپنے بندوں کی محنت و ثابت قدمی قبول کی اور ایک کے بعد ایک رکاوٹ ختم ہوتی گئی۔ ایوانِ صدر میں اسلامی شعائر کی بہاریں دیکھی جانے لگیں اور اب ان دستوری ترامیم کے ذریعے ترکی اپنی تاریخ کے ایک نئے اور روشن تر باب کا آغاز کر رہا ہے۔
ترکی میں اب تک ۱۹۸۲ء کا دستور نافذ ہے۔ جسٹس پارٹی نے مئی ۲۰۱۰ء میں ۲۶ ترامیم کا ایک پیکج اسمبلی میں پیش کیا۔ سیکولرپارٹیوں کی مخالفت کے باوجود یہ ترامیم سادہ اکثریت سے منظور تو کروا لی گئیں لیکن دستور میں ترمیم کے لیے اسمبلی میں دوتہائی اکثریت درکار ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ۵۰ فی صد سے زیادہ ووٹوں کے ذریعے ترمیم ہوسکتی ہے۔ صدر عبداللہ گل نے سادہ اکثریت کو تسلیم کرتے ہوئے ریفرنڈم کا اعلان کردیا اور اس کے لیے ۱۲ستمبر تاریخ طے پائی۔
ان ترامیم کی اصل روح قانون کی بالادستی یقینی بنانا، کسی بھی ایک ادارے کی دوسروں پر بالادستی ختم کرنا اور فوج و عدالتوں کا قانون و احتساب سے بالاتر ہونا ختم کرنا تھا۔ ان ترامیم کے ذریعے فوجی جرنیلوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لایا جاسکے گا۔ کسی عام شہری کو فوجی عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکے گا، کسی سیاسی پارٹی کو کالعدم قرار دیے جانے پر ان کے ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت ختم نہیں ہوگی۔ پارلیمنٹ کو بھی یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ دستوری عدالت میں ججوں کی ایک تعداد متعین کرسکے گی۔ کوئی عام شہری بھی دستوری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکے گا۔ دستور کی شق۱۵ کو ختم کرتے ہوئے فوجی انقلاب لانے والے جرنیلوں پر مقدمہ چلایا جا سکے گا۔
عید کے اگلے روز ۱۲ستمبر کو ریفرنڈم ہوگیا۔ ترک زائرین حرم کی اطلاع درست ثابت ہوئی۔ رجسٹرڈ ووٹروں کی ۷۸ فی صد نے ریفرنڈم میں حصہ لیا اور ان میں سے ۵۸ فی صد نے دستوری ترامیم کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ تناسب صرف ترامیم ہی کے لیے نہیں جسٹس پارٹی کے لیے بھی تائید میں اضافے کا اعلان ہے۔ گذشتہ عام انتخابات میں اردوگان کو ۳۷ فی صد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ ریفرنڈم میں تمام اسلام پسند طاقتوں نے بھرپور حصہ لیا۔ اربکان کی سرپرستی اور ڈاکٹر نعمان کور تلموش کی صدارت میں سعادت پارٹی نے بھی اور نورسی تحریک کے وارث فتح اللہ گولان نے بھی۔ گولان نے تو اپنے پیغام میں ترک عوام سے کہا: ’’ہرشخص ریفرنڈم کے حق میں ووٹ ڈالے، اس کے لیے اگر قبروں سے مُردوں کو بھی جگاکر لایا جاسکے تو لایا جائے‘‘۔ ۱۳ستمبر ۱۹۸۰ء کو اربکان اور حلیفوں کی حکومت کے خلاف فوجی انقلاب آیا تھا تو ’ترکیا‘ نامی اخبار نے سرخی لگائی تھی: ’’فوج نے اقتدار سنبھال لیا‘‘۔ ۱۲ستمبر کے حالیہ ریفرنڈم کے بعد ’سٹار‘ اخبار نے سرخی جمائی: ’’عوام نے اقتدار سنبھال لیا‘‘۔
اس عوامی انقلاب سے ترک تاریخ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ یہ ریفرنڈم اور ترامیم بہت بنیادی اصلاحات کا نقطۂ آغاز ثابت ہوں گی۔ اردوگان کے الفاظ میں: ’’یہ ترامیم ایک کنجی ہیں۔ اس سے ترکی اپنے مکمل نئے دستور کا تالا کھولے گا‘‘۔ انھوں نے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد تقریر میں کہا: ’’ہم کل سے نئے دستور کا مسودہ تیار کرنے کا کام شروع کر رہے ہیں‘‘۔
ترکی کے حالیہ ریفرنڈم اور سیاسی تبدیلیوں میں پوری دنیا کے لیے بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ ہر اسلام دشمن کے لیے پیغام یہ ہے کہ جب تک کرپشن سے پاک اور خدا خوف قیادت ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھالتی ترقی و استحکام ممکن نہیں ہے۔ ترکی نے گذشتہ آٹھ سال میں جو اقتصادی ترقی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ۲۰۰۲ء میں اس کی مجموعی سالانہ آمدن ۳۵۰ ارب ڈالر تھی۔ ۲۰۰۸ء میں ۷۵۰ ارب ہوگئی۔ ۲۰۰۲ء میں فی کس سالانہ آمدن ۳۳۰۰ ڈالر تھی، ۲۰۰۹ء میں فی کس آمدن ۱۰ ہزار ڈالر ہوگئی۔ ۲۰۰۲ء میں ترکی کی برآمدات ۳۳ ارب ڈالر تھیں، ۲۰۰۸ء میں یہ برآمدات ۱۳۰ ارب ڈالر ہوگئیں۔ اس ضمن میں اور بھی بہت سے پیمانے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔
ترکی ہر اسلام پسند کو بھی یہ پیغام دے رہا ہے کہ بڑھتی ہوئی خرابی یا انتخابی نتائج سے مایوس ہوکر اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارنا، شکست خوردہ ہوکر بیٹھ جانا یا بندوق اور بارود اُٹھا کر اپنے ہی ملک میں خون ریزی شروع کر دینا کامیابی کا راستہ نہیں، اصل راستہ جدوجہد، محنت اور ہر ہم وطن کا دل جیتنے کی کوشش کرنا ہے۔ حالیہ ریفرنڈم میں ۵۸ فی صد ووٹروں کا اردوگان کے ساتھ کھڑے ہونا سب کو بتارہا ہے کہ آیندہ انتخابات بھی جسٹس پارٹی کے ہیں۔