حضرت زید بن سلّام سے روایت ہے کہ ان سے ابوسلّام نے کہا کہ حضرت حارث اشعریؓ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا کہ ان پر وہ خود بھی عمل کریں اور بنی اسرائیل سے بھی ان پر عمل کرنے کا کہہ دیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سے کہنے میں کچھ تاخیر ہونے لگی تو حضرت عیسٰی علیہ السلام نے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا تھا کہ آپ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا فرما دیں، لہٰذا یا تو آپ خود ان سے کہہ دیجیے یا میں ان سے کہہ دوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ (حکم مجھے ہوا ہے اس لیے اس حکم کی تعمیل میں تاخیر کرنے کے سبب) کہیں زمین میں نہ دھنسا دیا جائوں یا کسی اور عذاب میں گرفتار نہ ہوجائوں۔ اس کے بعد انھوں نے فوراً بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا۔ جب وہ اچھی طرح بھر گیا، حتیٰ کہ لوگ گیلریوں تک میں بیٹھ گئے تو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود بھی ان پر عمل کروں اور تم کو بھی ان پر عمل کرنے کی تاکید کروں۔
ایک شخص نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ آپؐ نے فرمایا: اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ پس تم ایسے نعرے لگائو جن کی اللہ نے اجازت دی ہے۔ اس نے پہلے سے تمھارا نام مسلم اور مومن رکھا ہے (لہٰذا اسلام اور ایمان سے ہم آہنگ نعرے لگائو)۔ (ترمذی، ابواب الامثال، حدیث ۲۸۵۹)
ان ۱۰ باتوں میں تزکیۂ نفس، تعلق باللہ، اصلاحِ معاشرہ ، اصلاحِ حکومت، اقامت دین، حکومت الٰہیہ کے قیام، ظلم و زیادتی کے خاتمے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے کے جامع پروگرام اور لائحہ عمل کی طرف راہنمائی ہے۔ پہلی پانچ باتیں تو اہلِ ایمان کے لیے انفرادی پروگرام پر مشتمل ہیں اور دوسری پانچ باتیں اجتماعی پروگرام کی بنیاد ہیں۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپؐ نے مالِ غنیمت میں خیانت کا تذکرہ فرمایا اور اسے بہت بڑا جرم قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا: قیامت کے روز میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پائوں کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو اور منمنا رہی ہو، اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو جو ہنہنا رہا ہو اور وہ مجھ سے فریاد کرے اور پکارے: ’’اے اللہ کے رسول! میری فریاد رسی فرمایئے‘‘۔ میں کہوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ سے تجھے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں حکم پہنچا دیا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر اُونٹ سوار ہو اور بڑبڑا رہا ہو اوروہ مجھے پکارے کہ اے اللہ کے رسولؐ! میری فریاد رسی فرمایئے تو میں کہوں گا کہ میں تجھے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے چھڑانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر سونا چاندی سوار ہو اور وہ مجھے پکارے کہ اے اللہ کے رسولؐ! میری مدد فرمایئے تو میں کہوں گا: میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کے لیے تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر کپڑے ہوں، جو لہرا رہے ہوں اور وہ مجھے مددکے لیے پکارے اور کہے: اے اللہ کے رسولؐ! میری فریاد رسی فرمایئے تو میں کہوں گا: میں تیری کسی بھی قسم کی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (بخاری، باب الضلول، حدیث ۳۰۷۳)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کی نگرانی پر ایک شخص مقرر تھا جس کا نام کَرکَرہ تھا۔ وہ فوت ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔ صحابہ کرامؓ اس کی طرف گئے تاکہ اس کے دوزخی ہونے کا سبب معلوم کریں، تو پتا چلا کہ مالِ غنیمت سے ایک چادر اس نے چرائی تھی۔ (بخاری، حدیث ۳۰۷۴)
مالِ غنیمت یا سرکاری اور قومی اموال میں کسی بھی سطح پر خیانت اتنا بڑا جرم ہے کہ ایک معمولی چادر بھی آدمی کو دوزخ میں داخل کردینے کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر جو بھی چیز خیانت کا شکار ہوگی وہ آدمی کی گردن پر سوار ہوگی۔ خیانت کے بارے میں جو سزا ذکر کی گئی ہے زکوٰۃ نہ دینے کی بھی یہی سزا آتی ہے (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، حدیث ۱۴۰۲-۱۴۰۳)۔ نیز سونے چاندی کے بارے میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ زکوٰۃ نہ دینے والے کے لیے سانپ بن کر، اس کی گردن کا طوق بن جائے گا اور اس کی باچھوں کو دونوں طرف سے ڈسے گا اور کہے گا: ’’میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں‘‘۔
آج کل خیانت عام ہے۔ حکمران بھی ہرسطح پر کرپشن میں مبتلا ہیں۔ بڑے پیمانے پر سرکاری خزانوں کو ہضم کرلینے کے جواز پر باہمی مفاہمتیں ہوتی ہیں۔ کرپشن کے خلاف مقدمات چلانے کی مخالفت کی جاتی ہے اور مقتدر حلقے سرکاری اموال کی لُوٹ مار میں مددگار بن جاتے ہیں ۔ لوٹے ہوئے مال کی واپسی میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک زمانہ آئے گا لوگ پروا نہ کریں گے کہ جو مال ان کے پاس آیا ہے یہ حلال کا ہے یا حرام کا‘‘۔ (بخاری، حدیث ۲۰۵۹،۲۰۸۳)
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسرا اور معراج کی رات میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ بڑے گھر جتنے بڑے ہیں اور ان کے سامنے پڑے ہیں۔ وہ اُٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو گر جاتے ہیں۔ اُٹھتے ہیں تو پیٹ انھیں پھر گرا دیتے ہیں۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: یہ سودخور ہیں۔ قیامت کے روز یہ ان لوگوں کی طرح کھڑے ہوں گے جن کو شیطان مس کر کے خبطی بنادیتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، لابی القاسم اصبہانی، حدیث ۱۳۷۳)
سود خوروں کی اخروی سزا مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔ (البقرہ۲:۲۷۶)
سودی نظام کی وجہ سے معیشت تباہ ہوجاتی ہے لیکن سود خوروں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ وہ سودی نظام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اس کے نشانات ظاہر کرتے رہتے ہیں، کبھی زلزلہ آجاتا ہے، کبھی قحط سالی اور کبھی سیلاب ان آفات کے ذریعہ اتنا بڑا نقصان ہوجاتا ہے کہ اربوں کھربوں خرچ کرنے سے بھی تلافی نہیں ہوسکتی۔ سودخور پھر بھی سودی قرضوں کا لین دین جاری رکھتے ہیں اور معاشرے کو معاشی لحاظ سے کھڑا ہونے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ سودی نظام کی وجہ سے ملکی آزادی اور خودمختاری بھی دائو پر لگ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا وبال امن و امان کا جنازہ نکال دیتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو بلکہ خود اپنے آپ کو اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد تک کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپؐ نے ایک آدمی کے متعلق جو اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اس آدمی نے جنگ میں زور و شور سے حصہ لیا اور بھرپور اور زبردست حملے کیے، اسے گہرے زخم لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا گیا کہ جس آدمی کے متعلق آپؐ نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہے ، اس نے تو آج سخت لڑائی لڑی اور وہ مر گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم کی طرف چلا گیا۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ آپؐ کے ارشاد کے متعلق شک و شبہہ میں مبتلاہوجاتے کہ اطلاع آئی کہ وہ مرا نہیں زندہ ہے لیکن اسے سخت گہرے زخم آئے ہیں۔ جب رات آئی تو وہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے خودکشی کرلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپ نے اللہ اکبر کا کلمہ بلند کیا اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، پھر بلال کو حکم دیا کہ وہ اعلان کریں کہ جنت میں نہیں داخل ہوگا مگر مسلمان آدمی، اللہ تعالیٰ بعض اوقات اس دین کی تائید و تقویت بدکار انسان کے ذریعے بھی فرماتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۳۰۶۲، کتاب الجہاد، ۴۲۰۱، ۶۶۰۶، طبع دارالسلام)
جس شخص کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں، کتابوں اور آخرت پر ایمان ہو وہ کبھی بھی خودکشی نہیں کرسکتا۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو تھوڑا اور معمولی سمجھتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو بہت سخت سمجھتا ہے۔ وہ دنیا کی تکلیف کو برداشت کرلیتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو برداشت کرنے سے ڈرتا اور اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ صحابہ کرام کو طرح طرح کی تکالیف سے گزرنا پڑا لیکن انھوں نے کبھی بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ آج کافر معاشروں میں خودکشیاں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں افسوس کہ مسلمان معاشرے بھی ان سے متاثر ہوکر خودکشیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان خودکشیوں کو روکنے کا طریقہ مال و دولت کی فراوانی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر عقیدے اور فکر کی اصلاح ہے۔ ایمان اور اسلام کو دلوں میں زندہ کرنے، اس کا شعور پیدا کرنے اور فکرِ آخرت کی آبیاری ہے۔ دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی علَم بردار تحریکوں کو اپنے کام کی رفتار کو تیز اور وسیع کرنے اور بڑے پیمانے پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اس کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا خودکشیوں کے جرائم کو پھیلانے میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں خودکشیوں کی وارداتیں مزید بڑھ رہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو بھی اس گناہ کی اشاعت سے روکا جائے۔