اکتوبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

بنگلہ دیش میں انصاف کا قتل

سلیم منصور خالد | اکتوبر ۲۰۱۰ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

یہ عہد ظلم اور ظلم کی طرف داری کا عہد ہے۔ اس عہد میں سیکولر دہشت گردی اپنے عالمی سرپرستوں اور مقامی سطح پر ذہنی افلاس کی شکار دانش وری کے زور پر سیاہ کو سفید قرار دینے پر مُصر ہے۔

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سابق مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے پہلے تو ۱۹۶۸ء میں اگر تلہ سازش کے ذریعے پاکستان توڑنے کے لیے بھارت سے سازباز کی، مگر چند اقتدار پرستوں اور سیاست کے زور پر وہ مقدمہ رفت گزشت ہوا۔ پھر ۱۹۶۹ء میں تعلیمی اداروں میں   عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس لیگ (چھاترو لیگ) نے اسلامی اور پاکستانی سوچ کے حامل طلبہ پر کھلم کھلا حملے شروع کیے، مگر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ۱۹۷۰ء کو اسی عوامی لیگ نے پورے مشرقی پاکستان میں کسی بھی مدمقابل سیاسی جماعت کو اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی اور ان کے جلسوں پر حملے کر کے الٹا دینے اور سامعین کو  قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ تب اس کی پشت پر بھارت نواز سیکولر، روس نواز کمیونسٹ اور صاحب ِ ثروت ہندو موجود تھے۔ سیاسی حریفوں کا کھلے سیاسی عمل اور دلیل کے میدان میں مقابلہ کرنے کے بجاے عوامی لیگ نے بدترین فسطائیت کا راستہ چُنا اور اس طرح یک طرفہ انتخابی نتائج حاصل کیے۔

پھر اسی سیکولر قوم پرستی کا بدترین ناگ اس وقت آگ اُگلنے لگا۔ یوں یکم مارچ سے ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران میں پورے مشرقی پاکستان میں اُردو، پنجابی اور پشتو بولنے والے     ہم وطنوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس المیے کا دستاویزی ثبوت مارچ ۱۹۷۱ء کے عالمی اخبارات اور قرطاس ابیض میں موجود ہے کہ عوامی لیگ، مسلح غنڈوں اور مکتی باہنی کے درندوں نے صرف ۲۵یوم میں ۳لاکھ پاکستانیوں کو ذبح کرنے کے لیے باقاعدہ مذبح خانے بنائے، ان کی بہوبیٹیوں کی عزت و ناموس کو پامال کرنے کا اذنِ عام دیا، مگر افسوس کہ ان مظلوم انسانوں کا خون، عزت، ناموس اور جانیں بس رزقِ خاک بن کر رہ گئیں۔ پاکستان کے یہ ایسے مظلوم و مقتول ہیں کہ    جن کے قتل کا دعویٰ کرنے کے لیے اس دنیا میں نہ کوئی حکومت ہے اور نہ کوئی تنظیم۔

یہی وجہ ہے کہ جب مارچ ۱۹۷۱ء کے بعد بھارت کی فوجی مدد سے عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا عمل شروع کیا تو اُس وقت بھی ہمارے ہاں ساری سیکولر دانش مکمل طور پر خاموش رہی، بلکہ ان قاتلوں اور غداری کا ارتکاب کرنے والے عوامی لیگیوں اور مکتی باہنی کے غنڈوں کو ’ضمیر کے سپاہی‘ قرار دیتی رہی۔

ازاں بعد مکتی باہنی نے اپنے ہاتھوں قتل کیے جانے والے ۳ لاکھ مظلوم پاکستانیوں کے الزام کا داغ دھونے کے لیے، پہلے تو دسمبر ۱۹۷۱ء میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس جنگ میں ۳لاکھ بنگالی عورتوں کی بے حُرمتی ہوئی ہے اور ۱۰لاکھ کو قتل، مگر ۲۰ روز بعد شیخ مجیب الرحمن نے رہا ہوتے ہی   بے حرمتی کی تعداد کو ۱۰لاکھ بنا دیا اور بھارت کی مسلط کردہ جنگ میں مارے جانے والے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی تعداد کو ۳۰ لاکھ تک بڑھا دیا۔ دنیابھر نے لفظوں کی یہ حیرت انگیز جادوگری دیکھی، مگر کسی نے اس بدترین جھوٹ کا جواب دینے کی کوشش نہ کی۔ اِدھر مغربی پاکستان میں نہایت منظم یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کی بڑے پیمانے پر موجودگی کے باوجود کسی نے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ کیا زندوں کی کوئی بستی ایسے صریح ظلم پر خاموش رہ سکتی ہے؟ پاکستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب اس تخریب اور جارحیت کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔دوسری جانب صورت یہ ہے کہ عریاں جھوٹ پر مبنی اعداد و شمار بنگلہ دیش کی نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ، دنیا کی دستاویزات کا حصہ اور پاکستانی سیکولر لابی کا ہتھیار بن چکے ہیں۔

اب دیکھیے اس تصویر کا دوسرا پہلو___ گذشتہ تین برسوں کے دوران میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو جس سیاسی،ابلاغی اور پُرتشدد یلغار کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس پر خود یہاں پاکستان کی سیکولر لابی کے فعال کارندے شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں، اور بنگلہ دیش میں تو اسی سیکولر بنگلہ قومیت کی کوکھ سے جنم لینے والی عوامی لیگی حکومت کے نزدیک سب سے بڑا ہدف ہی یہ ہے کہ وہ کسی طرح جماعت اسلامی کو ختم کردے، اس کی قیادت کو پھانسی پر لٹکا دے اور اسلامی لٹریچر کو نیست و نابود کردے۔ ان شاء اللہ یہ دیوانگی اپنی موت آپ مرے گی۔

اس سیکولر لابی کا یہ نامۂ اعمال کس درجے میں آتا ہے؟ مثال ملاحظہ کیجیے: بیرسٹر عبدالرزاق، بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے ایک نہایت سینیر قانون دان ہیں۔ انھوں نے ۱۹۸۰ء میں بیرسٹری کی ڈگری لندن کی لنکن اِن سے، جب کہ سرمائیکل ہاورز چیمبرز اور لارڈ پیٹر رالنسن چیمبرز سے قانونی مہارت حاصل کی۔ انھوں نے اپنے وطن بنگلہ دیش واپسی پر، ملک کی تاریخ کا ایک مشہور مقدمہ لڑا بنگلہ دیش بنام پروفیسر غلام اعظم (46 DLR)۔ جماعت اسلامی کے قائد پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کا یہ مقدمہ انھوں نے جیتا۔ اسی طرح انھوں نے چٹاگانگ پہاڑی سلسلے پر ’علاقائی کونسل ایکٹ‘ کو عدالتِ عظمیٰ میں قانونی طور پر ختم کرایا۔ پھر اخبار اماردیش پر پابندی کا خاتمہ کرایا۔ اس اعتبار سے قومی سطح پر دیگر بہت سے مقدمات میں کامیابی نے انھیں مرکزی حیثیت دلا دی۔ یہی نہیں بلکہ ناداروں کو مفت قانونی و عدالتی مدد فراہم کرنے کے لیے وہ ہردم مستعد رہتے ہیں۔

بیرسٹر عبدالرزاق جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل بھی ہیں، اور گذشتہ مہینوں میں عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کے پانچ مرکزی رہنمائوں کو فی الحقیقت پھانسی دینے کے لیے جس گھنائونے ڈرامے کا آغاز کیا ہے، اس ڈرامے کو ناکام بنانے کے لیے، سپریم کورٹ میں عبدالرزاق مذکورہ پانچ لیڈروں کے وکیلِ دفاع ہیں۔ لیکن دیکھیے اس قابلِ احترام قانون دان کے ساتھ بھارت نواز فسطائی حکومت کا کیا رویہ ہے؟ دی ڈیلی اسٹار ڈھاکا لکھتا ہے: ’’۵جولائی ۲۰۱۰ء کو جس وقت بیرسٹر عبدالرزاق سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑ رہے تھے، اسی وقت ان کے چیمبر میں سادہ پوش پولیس اہل کار آن دھمکے، اور ان کے معاون کوثر حمید ایڈووکیٹ کو زدوکوب کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’تمھارے دفتر میں بم بنائے جاتے ہیں، ہم تلاشی لیں گے‘‘۔ کوثرحمید نے جواب دیا: ’’بھائی، یہاں صرف قانون کی کتابیں ہیں، آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ لیکن پولیس والے توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے ساتھ دفتر میں اتھل پتھل کرکے چلے گئے۔ کوثرحمید نے قریبی پولیس اسٹیشن میں فوجداری رپورٹ درج کرانا چاہی مگر تھانے کے سربراہ نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا‘‘ (اخبار مذکور، ۶ جولائی ۲۰۱۰ئ)۔ پولیس کے اس رویے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکرٹری نے احتجاج کیا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے ہنگامی اجلاس میں اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ (ایضاً، ۷جولائی ۲۰۱۰ئ)

۲۶ جولائی ۲۰۱۰ء کو بیرسٹر عبدالرزاق نے اُس نام نہاد ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کی حیثیت اور اہلیت کو چیلنج کرتے ہوئے رٹ پیٹشن (۵۳۹۱، ۲۰۱۰ئ) دائر کی۔ اگلے روز ۲۷جولائی جب عبدالرزاق سپریم کورٹ سے اپنے چیمبر ۶۷ نیاپلٹن آرہے تھے کہ پولیس والے پھر ان کے دفتر آن دھمکے اور ان کی آمدورفت کے اوقات کا شیڈول نوٹ کرکے لے گئے۔ ۱۲؍اگست کو دو پولیس افسران پوری گارد کے ساتھ بیرسٹر عبدالرزاق کے گائوں بیانی بازار، سلہٹ جاپہنچے اور خاندان کے ایک ایک فرد کے کوائف اکٹھا کرنے کی کارروائی کے دوران علاقے بھر میں دہشت پھیلائے رکھی۔ اس نوعیت کی یہ پے درپے کارروائیاں دراصل ملک کے اس مایہ ناز قانون دان کو اعصابی طور پر ہراساں کرنے اور اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں کے دفاعی اور عدالتی امور میں رکاوٹ ڈالنے کا حربہ ہیں۔ اس امر پر ڈھاکا سپریم کورٹ کے وکلا میں گہری تشویش پائی جاتی ہے کہ ممکن ہے بیرسٹر عبدالرزاق کو کسی جھوٹے مقدمے میں پھانس کر چندماہ کے لیے منظر سے ہٹا دیا جائے، یا پھر فسطائیت کا نشانہ بناکر ویسے ہی ختم کر دیا جائے۔

اس شرم ناک صورتِ حال کو بے نقاب کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے بہت سے منصف مزاج حضرات تو یک زبان ہیں، لیکن سیکولر، قوم پرست، عوامی لیگی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں کی سیکولر صحافی لابی، اس ظلم و زیادتی میں عوامی لیگ کی ہم نوا ہے۔ وہ جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں تین لاکھ غیربنگالی پاکستانیوں کے خون کی ہولی کھیلی تھی، اور ان کے دستاویزی اور تصویری ثبوت تک موجود ہیں، وہ اس وقت حکومت اور پارٹی کی  اہم مسندوں پر براجمان ہیں، اور جنھوں نے کوئی جرم نہیں کیا، انھیں یک طرفہ طور پر ملزم و مجرم  قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ کیا تہذیب و شائستگی اور عدل و انصاف کے الفاظ یوں ہی بے توقیر ہوتے رہیں گے؟