مرتبہ : سلیم منصور خالد
علم کے حصول اور ہدایت کی نعمت پانے کے لیے سوال کو بہت بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒنے جب قافلۂ راہِ حق کو منظم کیا، تو پھر بھرپور ساتھ دینے والے اور قافلے کو دُور سے دیکھنے والے، دونوں، مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے پاس اپنے سوال لے کر آئے۔
سوال پوچھا اسی سے جاتا ہے کہ جس پہ اعتبار ہو اور جس کی بات پر اعتماد ہو۔ جس کے علم اور جس کی دیانت پر دل کو اطمینان ہو۔ سو، کارکنان، کارزارِ زندگی میں دعوت و تنظیم کی مشکلات برداشت کرتے ہوئے، جب بھی کوئی اُلجھن یا خلش دل میں پاتے تو مولانا محترم کی مجالس میں پہنچ جاتے یا خط کی صورت میں ذہن کی مشکلات، دل کے وسوسے اور راہوں کے کانٹے مولانا کے سامنے بلاجھجک ڈھیر کر دیتے۔مولانا مودودی کمالِ شفقت، حددرجہ محبت اور نہایت توجہ سے سوالات سنتے، بلکہ سوالات پوچھنے کی حوصلہ افزائی کرتے اور پھر نہایت نرمی سے جواب عطا فرماتے۔ یہاں ان کی مجالس میں، کارکنوں کے سوالات، مولاناؒ کے جوابات اور کچھ تقریروں کے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں، جن میں رہنمائی کے نقوش روشن ہیں۔
دسمبر ۱۹۷۰ء میں پہلے عام انتخابات میں جماعت اسلامی پاکستان کے نامزد اُمیدواروں کو ناکافی ووٹ ملے۔ اس صورتِ حال نے کارکنوں کے ذہنوں میں چند در چند اُلجھنیں پیدا کیں۔ متعدد نشستوں میں کارکنوں کی جانب سے اُٹھائے جانے والے حسب ذیل سوالات کی روشنی میں دیکھا، سمجھا اور راہِ عمل کے لیے زادِ راہ بنایا جاسکتا ہے:
انتخابات میں کامیابی کے لیے ہم ناجائز تدابیر کبھی اختیار نہیں کریں گے، خواہ ایک صدی تک کامیابی نہ ہو۔ ہم صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے ہی کام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس قوم کی قسمت میں ایک صحیح عادلانہ نظام کا قیام ہے تو اللہ تعالیٰ اسی طریقے سے ہمیں کامیابی عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر خدانخواستہ اس کی قسمت میں دھوکے ہی کھانا لکھا ہے، تو ہم وہ لوگ نہیں بننا چاہتے، جو اس کو دھوکا دینے والے ہوں۔ ہم اس کو بچانے والے تو بننا چاہتے ہیں، لیکن اس کو ٹھوکریں کھلانے والے نہیں بن سکتے۔
اس لیے محض انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر ہم جماعت اسلامی کی ایسی توسیع کرنے،اور اسے اس طرح کی عوامی جماعت بنانے کی کوشش نہیں کرسکتے، جو ہمارے کارکن کا معیارِ اخلاق گرا دے، اوروہ عوام کی اصلاح کرنے کے بجائے صرف کسی نہ کسی طرح انھیں بہا کر اپنے ساتھ لے آنے کے قابل بن جائے۔
جماعت اسلامی صرف انتخابی جماعت نہیں ہے، نہ اس کی حیثیت اُن سیاسی پارٹیوں کی سی ہے، جو محض انتخابات کے لیے کام کرتی ہیں۔ اسے ایک پورے معاشرے کو ہرپہلو سے تیار کرنا ہے، اور یہ کام ایسا ہے، جسے سال کے بارہ مہینوں کے ۳۶۵ دن ہمہ وقت جاری رہنا ہے۔اس کے لیے بلاشبہہ ہمیں زیادہ سے زیادہ کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کارکن اس کے لیے درکار ہیں۔ مگر لازماً، وہ ایسے ہی کارکن ہونے چاہییں جو مخلص ہوں، بے لوث ہوں، اخلاقی لحاظ سے کھرے ہوں اور سیرت و کردار کی اتنی مضبوطی رکھتے ہوں کہ سخت نامساعد ماحول میں بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے مسلسل محنت کرتے چلے جائیں، خواہ دُور دُور تک انھیں کامیابی کے آثار نظر نہ آتے ہوں۔
جمہوریت کی بحالی ہو یا اسلامی نظام کا قیام، اس کے لیے ہم فساد کا راستہ کبھی اختیار نہیں کریں گے، کیونکہ وہ تباہی کا راستہ ہے، جس سے کچھ تعمیر نہیں ہوتی، تخریب ہوتی ہے۔ اس لیے فساد کا راستہ ہم اختیار نہیں کریں گے، بالکل آئینی اور قانونی طریقے سے، بالکل سلامت روی کے ساتھ اس ملک کے حالات کو درست کرنے کی جس حد تک کوشش کرسکتے ہیں، وہ کریں گے… جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی شخص کو کسی سُستی اور تساہل و تغافل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ سُستی سے کام لیا تو اللہ کے ہاں پکڑے جائیں گے۔ پوچھا جائے گا کہ کیا عہد کرکے شامل ہوئے تھے، اور تمھارے سامنے پوری اُمت برباد ہورہی تھی، تم نے کیا کیا؟
بہرحال، ہمیشہ ہنگامہ خیز پروگرام زیادہ عرصے تک نہیں چلا کرتے۔ جماعت کو جس بات کی تربیت دی جاتی رہی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ تعمیری کام کرے اور صبر کے ساتھ کرے۔ جماعت اسلامی ہنگامے برپا کرنے کے لیے نہیں قائم کی گئی تھی۔ اگر ہنگامی زندگی کا آپ لوگوں کو کوئی چسکا پڑگیا ہو تو اس کو اب دُور کیجیے۔ صبر کے ساتھ اپنی قوم کی اور اپنے ملک کی اصلاح کرنے کی فکر کیجیے۔
ہم اسلامی نظریۂ حیات پر ایمان رکھنے والی جماعت ہیں۔ یہ ایک جہانی اور عالمی جماعت ہے، یہ تمام نوعِ انسانی کی جماعت ہے۔اس نظریے کے لیے ہم کوشش کریں گے اور آخر وقت تک کوشش کریں گے۔ ہم میں سے ہر ایک آدمی اس کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ مت دیکھیے کہ میرے ساتھی کتنا کچھ اور کیا کر رہے ہیں۔ ہرایک آدمی یہ دیکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں؟ اور میرا کیا فریضہ ہے؟ اگر کوئی دوسرا اپنا فرض انجام نہ دے رہا ہو، تب بھی آپ کو اپنا فرض انجام دینا ہے۔ کوئی دوسرا کوشش نہیں کر رہا ہے تو آپ کو کرنا ہوگا۔ اگر سارے کے سارے بیٹھ جائیں تو آپ کے اندر یہ عزم ہونا چاہیے کہ میں اکیلا ساری دُنیا کی اصلاح کے لیے لڑوں گا۔
خدا کا شکر ہے کہ ہم متوسّط تعلیم یافتہ طبقے کے خیالات کو بدلنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ اب ہمارے سامنے سب سے اہم مسئلہ عوام کے خیالات کی اصلاح ہے، جن کے اندر بڑے پیمانے پر جہالت پھیلی ہوئی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اب پہلے سے زیادہ جان مار کے کوشش کرنا پڑے گی۔
جتنی ’عوامی‘ جماعت اسلامی ہے، اتنی ہی رہے گی، اس سے زیادہ ’عوامی‘ نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ اسے عوامی جماعت اسلامی ہی بنانا چاہتے ہیں، تو پھر اسے جماعت اسلامی کا نام دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہتر ہے کہ اسے مسلم لیگ کا نام دے دیجیے۔ یہ جماعت اسلامی کے نظم کا ہی نتیجہ ہے کہ اصلاحِ احوال کا کام ایک مؤثر طریقے سے ہورہاہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو آپ اس جماعت میں بھی وہی بھانت بھانت کی بولیاںسنتے، جو دوسری جماعتوں میں آپ سنا کرتے ہیں، اور آپ کو ایک ہی جماعت کا نام لے کر لوگ طرح طرح کے راستے پر چلتے ہوئے نظر آتے۔ آخر آپ نے مسلم لیگ کا حشر دیکھ لیا۔ اس میں سے عوامی لیگ نکلی اور پھر کئی لیگیں بن گئیں۔ اسی کے اندر سے ری پبلکن پارٹی اور نہ جانے کون سی پارٹیاں نکلیں۔ یہ سب اس کے عوامی پن ہی کا نتیجہ ہے۔
ہم جماعت اسلامی کو ہرگز اس طرح کی عوامی جماعت نہیں بنائیں گے۔ جماعت اسلامی جس مقصد کے لیے کام کر رہی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ صرف وہ لوگ اس کے اندر کام کریں، جو خوب سوچ سمجھ کر اسلام کو شعوری طور پر مانتے ہوں۔ اگر جماعت اسلامی کا دروازہ چوپٹ کھول دیا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہرشخص مسلمان کے نام سے اس کے اندر آکھڑا ہوگا اور وہی کچھ کرے گا، جو دوسرے مسلمان دُنیا میں کر رہے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ جو شخص جماعت اسلامی میں شامل ہو، وہ شعوری مسلمان ہو۔ سوچ سمجھ کر ایمان لایا ہو اور پھر اس کے بعد وہ کسی نظم کے تحت کام کرے۔ اس جماعت میں جس شخص کو بھی کام کرنا ہے اسے Personal Ambitions [ذاتی جاہ طلبی] کو دل سے نکال دینا چاہیے۔ آدمی کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ وہ ذاتی مفاد اور اپنی شخصیت کا کبر، یہ ساری چیزیں قربان کردے، اور اپنے مقصد کے لیے ایک نظم کے تحت کام کرے۔ نظم کو خراب کرنے والی کسی قسم کی حرکت، درحقیقت اس جماعت کو خراب کرنے کا گناہ ہے۔ اگر نظم اور ضبط کے ساتھ ہم کام کریں گے، تو ان شاء اللہ، آخرکار حالات بدل جائیں گے، خواہ معاشرے میں کتنی ہی خرابیاں کیوں نہ پیدا ہوگئی ہوں۔[۲۳؍اگست ۱۹۷۲، لاہور]
یہ تعلیم نہ اللہ نے دی ہے، نہ اللہ کے رسولؐ نے دی ہے، اور قرآن و حدیث میں یہ بھی کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ امام مہدی کی آمدسے پہلے اللہ کا دین کبھی قائم نہ ہوسکے گا، یا اُسے قائم کرنے کی کوشش کا فریضہ مسلمانوں کے ذمّہ سے ساقط رہے گا۔ یہ بات ایک بشارت تو ضرور ہوسکتی ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں کوئی ایسی عظیم شخصیت اُٹھے گی، جو تمام عالم میں اسلام کا جھنڈا بلند کردے گی، مگر یہ شخصیت کوئی حکمِ امتناعی نہیں ہوسکتی کہ ہم دُنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ نہ کریں۔
رہا یہ سوال کہ اقامت ِ دین فرض ہے یا نہیں؟ تو کوئی ایسا شخص جو قرآن و حدیث کو جانتا ہے، اِس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیاء علیہم السلام بھی بھیجے ہیں، اپنا دین قائم کرنے ہی کے لیے بھیجے ہیں۔ کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو یہ سکھانے کے لیے نہیں بھیجا کہ وہ غیراللہ کا دین قائم کرنے والوں کے ماتحت بن کررہے۔ سورئہ شوریٰ دیکھیے، اس میں آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا ؑکا فرض یہ بیان کیا گیا ہے: اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ [الشورٰی ۴۲: ۱۳]، ’’اس دین کو قائم کرو او اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔
اسی طرح سورئہ توبہ، سورئہ فتح اور سورئہ صف میں دیکھیے۔ تین مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ [الفتح۴۸: ۲۸]’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ پورے دین پر اُسے غالب کردے‘‘۔ اب کون یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کا مقصدِ وجود نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ بعثت سے مختلف بھی کچھ ہوسکتا ہے! [۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اس میں شک نہیں کہ ہم جس ملک میں، جس قوم میں، جس زمانے میں، اور جن حالات میں کام کر رہے ہیں، ہمیں کوئی پروگرام بناتے ہوئے اُن سب کو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ لیکن ان تمام احوال میں ہماری اصولی دعوت لازماً ایک ہی رہے گی۔ ہمارا بنیادی مقصد بھی قطعاً ناقابلِ تغیر ہوگا ، اور اپنا عملی پروگرام بناتے ہوئے ہم ان چیزوں کو صرف اِس حیثیت سے ملحوظ رکھیں گے کہ اس ملک میں، اس زمانے کے حالات میں، ہم اپنی دعوت کو کس طریقے سے فروغ دیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس قوم کے اچھے رجحانات سے کس طرح فائدہ اُٹھائیں، اوراِس کے بُرے رجحانات کو کس طرح بدلیں کہ وہ ہمارے مقصد کی راہ میں کم از کم رکاوٹ تو نہ بن سکیں۔
اس نقطۂ نظر سے اِن چیزوں کو ملحوظ رکھنا تو عین تقاضائے حکمت ہے۔ لیکن اگر ہم زمان و مکان کے حالات اور لوگوں کے رجحانات کو دیکھ کر اپنی دعوت اور اپنے مقصد ہی پر نظرثانی کرنے بیٹھ جائیں، تو یہ سراسر گمراہی ہے جس کا خیال تک ہمارے ذہن میں نہ آنا چاہیے۔ طریقِ کار حالات کے لحاظ سے بدلا جاسکتا ہے۔حکمت ِعملی میں لوگوں کے اچھے یا بُرے رجحانات کے لحاظ سے تغیر کیا جاسکتا ہے۔ مگر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور اس کی دعوت کے جو اصول مقرر کر دیے ہیں، ان میں ذرّہ برابر کوئی ردّ و بدل لوگوں کے رجحانات یا زمانے کے حالات کو دیکھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے، ہمیں ہرحال میں اُسی کو قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔یہ الگ بات ہے کہ ہم جس ملک میں کام کر رہے ہوں، اُس کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ہم اس مقصد کے لیے سعی و جہد کے ایک طریقے کو موزوں پاکر اختیار کرلیں اور دوسرے طریقے کو ناموزوں سمجھ کر ترک کر دیں۔
اِسی طرح جن چیزوں کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مٹانا چاہتے ہیں، ان کو مٹانا ہی ہماری کوششوں کا ہمیشہ مقصود رہے گا۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی استطاعت اور ملک کے حالات، اور عوام کی مزاجی کیفیات کو دیکھ کر یہ طے کریں کہ کن چیزوں کو مٹانے کی کوشش مقدّم اور کن کے مٹانے کی کوشش مؤخر رکھنی جانی چاہیے۔ نیز یہ کہ اس غرض کے لیے ہم کون سی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں اور کن تدابیر کا اختیار کرنا غیرممکن، غیرمفید، یا غیرمناسب ہے۔ [۲۰ مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اس وقت صورت یہ ہے کہ ملک کی دولت اور وسائل اور اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ پوری طرح بگاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ یہاں بھلائی نہ پھیلے اور بُرائی ہی پرورش پائے۔ اب ظاہر ہے کہ ہم، جن کے پاس نہ دولت ہے اور نہ وسائل و اختیارات، ان کو کیسے روک سکتے ہیں؟ جو ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم پر اس کی جواب دہی بھی نہیں ہے۔ ہم جواب دہ اس بات کے ہیں کہ جو چیز ہمارے امکان میں تھی، اس کے انجام دینے میں ہم نے کہاں تک اس کا حق ادا کیا ہے یا اس میں کمی کی ہے؟ چنانچہ، آپ اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور مسلسل اصلاحِ احوال اور اصلاحِ خلق کے لیے کام کرتے رہیں۔
یہ تو تھی اصولی بات! لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کے لیے اسلامی نظام کا گہوارہ بننا مقدر فرما دیا ہے۔ گذشتہ حالات کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہوکر رہے گا۔ ہندستان میں مسلمانوں کی ہرگز یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ پاکستان بنا سکیں۔ حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور معجزہ تھا کہ اس نے ہندستان کے ایک حصے کو پاکستان بنایا اور ایسی شکل میں بنایا، جو کسی اسکیم میں نہیں تھا۔ اسکیم تو یہ تھی کہ ملک تقسیم ہوگا اور ہندو اکثریت کے علاقے ہندستان میں اور مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ نقلِ آبادی کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔اگر ایسی شکل ہی قائم رہتی تو یہاں اسلامی نظام کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا تھا، مگر یہ اللہ کی مشیت تھی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ہجرت کرنا پڑی اور اس طرح یہ علاقہ واضح مسلم اکثریت کا علاقہ بن گیا۔ گویا فسادات کے شر سے اللہ نے خیر کا یہ پہلو اسلامی نظام کے لیے مقدّرفرمایا اور اسلامی نظام کے امکانات واضح فرمائے۔
دوسرے یہ کہ آپ نے خود دیکھ لیا کہ یہاں جو بھی اسلامی نظام کی راہ میں مزاحم بنا ہے، وہ ذلیل و خوار ہوا ہے۔ نہ اس سے پہلے اسلامی نظام کے راستے میں رکاوٹ بننے والے زیادہ دیر تک ٹھیر سکے ہیں اور نہ ان شاء اللہ آیندہ ٹھیر سکیں گے۔ میرا دل اس پر پوری طرح مطمئن ہے اور میں یہ سوچ کر کبھی پریشان نہیں ہوتا کہ یہ لوگ جو اس قدر بگاڑ پیدا کر رہے ہیں تو شاید یہاں اسلامی نظام قائم نہ ہوسکے۔بہرحال، یہ صورتِ حال قوم کے لیے آزمایش کا درجہ رکھتی ہے خدا کرے کہ ہم اس آزمایش پر پورا اُتریں۔
پھر میرا مشاہدہ یہ ہے کہ جتنی کوششیں اس قوم کو بگاڑنے کے لیے ہورہی ہیں، ان کے تناسب سے لوگوں میں بُرائی نہیں پھیل رہی۔ اس قوم میں خیر اب بھی موجود ہے۔ اب جس حدتک خیر موجود ہے، آپ ا س سے استفادہ کریں اور اس کی حفاظت کریں۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ آج بھی جب آپ لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو لوگ آپ کی بات سنتے ہیں۔ وہ آپ سے نفرت نہیں کرتے بلکہ غلط راستے پر چلنے والوں اور چلانے والوں کو ہی بُرا سمجھتے ہیں۔ اصل میں مسلمانوں کی قدریں نہیں بدلیں، ان کی عادتیں بگڑی ہوئی ہیں اور یہ مرض لاعلاج نہیں ہے۔[۲۷ جنوری، ۱۹۷۳ء، لاہور]
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ ’غیرجمہوری طریقوں‘ کے مقابلے میں جب ’جمہوری طریقوں‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کرکے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائیدسے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔
اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنالینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہرحال میں صرف انتخابات ہی پر انحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی رائے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیرممکن بنادیا گیا ہو، وہاں جباروں کو ہٹانے کے لیے رائے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہرشعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جباروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا، جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیرمقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیرجمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔
اس تشریح کے بعد آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونساجاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے، اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ ’انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے‘۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اورفسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔
لیکن، اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام و خواص کی ذہنیت، اندازِ فکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہوسکتے۔
یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی۔ بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کرکے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں۔ ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی Values (قدریں) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ ’جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے‘ اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا، جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔
شاید آپ میری یہ باتیں سن کرسوچنے لگیں گے کہ ’اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں‘۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں:
جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے برسوں میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہرشعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہرشعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر خیر کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوں کی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں۔ دوسرا کام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کرکے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔
پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے، اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے، مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کیجیے۔ اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمت ِ خلق کی ہرممکن کوشش کیجیے۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے، اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ ’جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کردی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیاجاسکتا ہے؟‘
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا، جبروظلم کے مقابلے میں ہرطرح کی کڑیاں [مصائب و مشکلات کے سلسلے] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ ’’جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں‘‘۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پا کی پیروی کررہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا، جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق،دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل،اورانسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کر رہے تھے۔ اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیزدرحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔
جب ایک معقول اور دل لگتی بات کو عمدہ اخلاق کے افراد لے کر،عام لوگوں کے سامنے کھڑے ہوں، اور سخت سے سخت ظلم و ستم سہنے کے باوجود اپنی بات ہرحالت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جائیں، تو لازمی طور پر اس کے تین نتائج رُونما ہوتے ہیں:
ظلم و جَور کا ماحول جہاں بھی ہو، اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلند رکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رُونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے۔ آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔[۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اُس وقت چونکہ ارکانِ جماعت نے امارت کا بار میرے اُوپر ہی رکھ دیا، اس لیے میں نے اُسے اُٹھا لیا۔ اب میری خرابی ٔ صحت نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ اِس ذمہ داری کا حق ادا کرسکوں، اس لیے میں نے ایمان داری کے ساتھ اپنے آپ کو اس سے سبک دوش کرا لیا ہے۔ اس کے بعد پھر وہی ذمہ داری میں اپنے سر کیسے لے لوں، جب کہ نظامِ جماعت کی رُو سے اب میں اس کا حامل نہیں رہا ہوں ؟ البتہ خادمِ جماعت ہونے کی حیثیت سے میرا جو فرض ہے، اُسے جب تک زندہ ہوں، ان شاء اللہ ادا کرتا رہوں گا۔[۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]
اس لیے آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ جس نظام کے لیے جدجہد کر رہے ہیں، وہ یہاں کیسے آئے گا؟ آپ کا اصل کام یہ ہے کہ اپنا فرض نہایت خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ ادا کرتے چلے جائیں۔ آپ کی واحد فکرمندی آپ کا وہ کام ہو، جسے آپ کو انجام دینا ہے۔ یہ کام آپ صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں، جب کہ آپ کے اپنے اخلاق اس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، جو اس نظام کا تقاضا ہے۔
جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھیں گے تو لوگ دیکھیں گے کہ ہمیں یہ دعوت دینے والے خود کیسے ہیں؟ اگر آپ کے اخلاق اور سیرت و کردار میں کوئی خرابی ہوئی، یا اس کے اندر ایسے لوگ پائے گئے، جو مناصب کے خواہش مند اور ان کے لیے حریص ہوں، یا آپ کے اندر ایسے لوگ موجود ہوئے، جو کسی درجے میں بھی نظم کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں، تو اس صورت میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہدکرتے وقت آپ کو جن چیزوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا ہوگا، وہ یہ ہیں کہ آپ کے اخلاق نہایت بلند ہوں، آپ کی زندگی پوری طرح اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو، آپ کے اندر نظمِ جماعت کی اطاعت پائی جاتی ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ عوام الناس کے اندر پھیل کر، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہرلحظہ کوشاں ہوں۔ چاہے یہ کام آپ کو برسوں بھی کرنا پڑے، لیکن آپ لگن کے ساتھ اسے کرتے چلے جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں، تو ان شاء اللہ کوئی طاقت اس ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی ملک بننے سے نہیں روک سکے گی۔[۳۱مارچ، ۱۹۷۴ء، لاہور]
البتہ جو چیز مَیں ان کے لیے ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کو خفیہ تحریکات اور مسلح انقلاب کی کوششوں سے قطعی باز رہنا چاہیے، اور ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کرکے بھی علانیہ، پُرامن اعلائے کلمۃ الحق کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ خواہ اس کے نتیجے میں ان کو قیدوبند سے دوچار ہونا پڑے یا پھانسی کے تختے پر چڑھ جانے کی نوبت آجائے۔ [نومبر ۱۹۶۸، لندن]
کسی خفیہ تحریک کے ذریعے کوئی صالح انقلاب نہیں آسکتا، کیونکہ اس تحریک میں جو خرابیاں پرورش پاتی ہیں، ان کا کسی کو پتا نہیں چلنے پاتا، اور جب وہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے، تو یہ خرابیاں ایکا ایکی اُبھر کر پورے ملک کے لیے آزمایش کا سبب بن جاتی ہیں۔ اسی خفیہ تحریک کا نتیجہ تھا کہ اسٹالن جیسا ظالم آدمی اشتراکی روس میں برسرِ اقتدار آگیا، اور روس کے عوام نے ایک زار [یعنی پرانے روسی بادشاہ]سے چھٹکارا حاصل کیا تو دوسرے سرخ زار نےان کی گردن دبوچ لی۔
خفیہ تحریک اس طریقے سے چلتی ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ شبہہ بھی ہوجائے کہ وہ پارٹی کا وفادار نہیں ہے تو اسے بلاتکلف قتل کردیا جاتا ہے ، اور یہ قتل و غارت گری اس تحریک کا عام مزاج بن جاتا ہے۔
بہرکیف، یہ ایک بلا ہے، جو ہمارے ملک میں پرورش پارہی ہے۔ اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ ’ہم بھی ایک جوابی بلا بننے کی کوشش کریں‘۔ہمارا کام یہ ہے کہ کھلے بندوں لوگوں کو آنے والے خطرات سے آگاہ کریں۔ گائوں گائوں جاکر، ایک ایک کسان کو بتائیں کہ یہاں سوشلسٹ انقلاب آگیا تو ایک بیگھہ زمین بھی تمھارے پاس نہیں رہے گی۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسان یہ بات سمجھ جائیں تو کوئی کمیونسٹ بھی ان کے گائوں میں داخل نہیں ہونے پائے گا، اور یہ لوگ کمیونسٹوں کی وہ خبر لیں گے کہ ان کے حواس درست ہوجائیں گے۔
جہاں تک ہتھیار بند ہونے کا تعلق ہے، اگر آپ کو لائسنس کا ہتھیار مل سکتا ہو تو ضرور رکھیے، نشانہ بازی کی مشق بھی کیجیے، لیکن غیرقانونی اسلحہ نہ رکھیے۔ مدافعت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا کوئی اخلاقی، شرعی یا قانونی جرم نہیں ہے، بلکہ اس کی اجازت ہے۔ لیکن خفیہ طریقے سے کوئی مسلح انقلاب برپا کرنا، اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی خطرناک۔[۹نومبر ۱۹۶۹ء، لاہور]
جہاں تک توڑ پھوڑ کی کارروائیوں کا تعلق ہے، اس ملک میں ایک ایسا عنصر موجود ہے، جو ایسی کارروائیوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے اشتراکی آمریت قائم کرنا چاہتا ہے۔ تبدیلی کے لیے ان کا فلسفہ تو یہی ہے کہ ’بندوق کی نالی انقلاب کا سرچشمہ ہے‘۔ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ توڑ پھوڑ اور تشدد کے ذریعے کوئی مستحکم اور پائے دار نظامِ حکومت قائم نہیں کیا جاسکتا۔ لاطینی امریکا اور افریقا کے اُن ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں اس قسم کی کارروائیوں کے بعد انقلاب لائے گئے، اور پھر وہاں انقلاب در انقلاب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس لیے نہ ہم خود تشدد کا راستہ اختیار کریں گے، اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے۔
دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس ملک میں اصلاح کے لیے اُٹھے ہیں، اسے خراب کرنے کے لیے نہیں۔ اللہ کے فضل سے تحریک ِ اسلامی ایک منظم تحریک ہے، اور وہ صرف ایسے عناصر سے مل کر کام کرے گی، جو مفسد اور غارت گر نہیں ہیں۔ تحریک ِ اسلامی نہ تو کسی تخریب کار گروہ سے تعاون کرے گی، اور نہ اسے یہاں کام کرنے دے گی۔[نومبر ۱۹۶۸ء، لندن]
بہت بُرا کیا گیا کہ غیرآئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے، اور بہت بُرا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیرآئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں:
ایک ’علانیہ‘ اور دوسری ’خفیہ‘۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں؟
علانیہ طور پر غیرآئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ بُرا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے، اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ہندستان میں تحریک ِ آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جاسکا۔
اگر خفیہ طریقے سے غیرآئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے، تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختارِ کُل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک انھی کی مرضی پرچلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہارِ بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسرِاقتدار آئیں گے، تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹاکر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں، تو خلقِ خدا کےلیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟
میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ،تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقِ کاربھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ ہم نے ہمیشہ اسی طریقے کو اپنایا ہے۔ پہلے چند سال میں ہمارے اُوپر مسلسل غیرقانونی حملے ہوتے رہے ہیں، مگر ان کے جواب میں ہم نے کبھی کوئی غیرقانونی ذریعہ اختیار نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ خود انھی کا منہ کالا ہوا کہ جنھوں نے غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی طریقے روا رکھے، مگر خدا کے فضل و کرم سے ہمارے اُوپر کوئی دھبّا ثابت نہ کرسکے۔ اِس چیز کا زبردست اخلاقی اثر مرتب ہوا۔ خود ان لوگوں کا ضمیر بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ غلط کام کر رہے ہیں۔
آپ سے میری درخواست یہ ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیرآئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔[۲۳؍اگست ۱۹۷۲ء، لاہور]
جماعت اسلامی کا یہ موقف کیوں ہے، اور اسے اپنے اس موقف پر کیوں اصرار ہے کہ وہ جمہوری ذرائع ہی سے اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، اور وہ غیر جمہوری ذرائع کے استعمال کی کیوں مخالف ہے؟ اس کو مَیں چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
خدا کی قسم! اور مَیں قسم بہت کم کھایا کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی نے یہ جو مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد اور توڑ پھوڑ کے ذریعے سے، کسی قسم کی دہشت پسندانہ تحریک کے ذریعے سے، اور کسی قسم کی خفیہ تحریک یا سازشوں کے ذریعے سے ملک میں انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ خالصتاً جمہوری ذرائع سے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، یہ مسلک قطعاً کسی خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ ہرگز اس بناپر نہیں ہے کہ ہم کبھی کسی ابتلا کے وقت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کَہْ سکیں کہ ’’ہم دہشت پسند نہیں ہیں، ہمارے اُوپر تشدد یا قانون شکنی کاالزام نہ لگایا جائے‘‘۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیشِ نظر اسلامی انقلاب ہے، اور اسلامی انقلاب کسی خطۂ زمین میں اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کر دیے جائیں۔ جب تک لوگوں کے افکار، اور ان کے اخلا ق و عادات میں تبدیلی نہ لائی جائے، اس وقت تک مضبوط بنیادوں پر کوئی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ اگر زبردستی، کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا سازشوں اور خفیہ ہتھکنڈوں کے ذریعے سے کوئی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو اس کو کبھی دوام اور ثبات نصیب نہیں ہوتا، اور بالآخر اسے کسی دوسرے انقلاب کے لیے جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔ پھر اسی طرح اگر دھوکے بازیوں اور جھوٹ اور افترا کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت کر، یا کسی اور طریقے سے حکومت پر قبضہ کرکے کوئی سیاسی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے، تو چاہے وہ کتنی دیر تک قائم رہے، لیکن جب وہ اُکھڑتا ہے تو اس طرح اکھڑتا ہے، جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔ ہم اس طرح کے تجربے نہیں کرنا چاہتے۔
اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔
ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اورافکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ،ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا، وہ ایسا پائے دار اور مستحکم ہوگا، جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر، مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رُونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔
جب ہم نے اس تحریک کا آغاز کیا تھا، تو ہمیں اندازہ اس سے بہت زیادہ سخت رکاوٹوں کا تھا۔ ہمیں یہ اندازہ تھا کہ ہمارا زمین پر جینا اور سانس لینا مشکل کردیا جائے گا۔ اُس وقت ہم نے اس تحریک کو شروع کیا تھا اس ارادے کے ساتھ، اور اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس ارادے کو تقویت عطا کرے، کہ جان جس کی دی ہوئی ہے، اس کی راہ میں چلی جائے تو کوئی پروا نہیں۔ ہم اپنی جگہ اس سے بہت بدتر حالات کے لیے تیار ہوکر اُٹھے، اور اللہ کا شکر ہے کہ جن بدتر حالات کا ہم نے اندازہ کیا تھا، ابھی تک وہ پیش نہیں آئے۔
اس لیے میں آپ سے صرف ایک بات کہوں گا کہ آپ یہ تدبیریں سوچنے کی فکر چھوڑ دیں کہ ان سماجی حالات میں اور ان پابندیوں میں کیسے کام کیا جائے؟ یہ فکر چھوڑ کر اپنے اس عزم کو تازہ کریں کہ اگر پہاڑ بھی ہمارے راستے میں آئے تو ہم اس کے اندر بھی سرنگ کھودیں گے۔ اس عزم کے ساتھ آپ اپنا کام کریں کہ جو طاقت بھی راستے میں حائل ہو، اس کے ہوتے ہوئے ہم اپنا کام کرکے رہیں گے۔
ضرورت باہر کے حالات سازگار ہونے کی نہیں ہے، ضرورت اندر کے عزم اور ایمان اور ارادے کے پختہ ہونے کی ہے۔ اگر وہ پختہ ہو تو باہر کے حالات خواہ کیسے ہی ہوں، آخرکار ان کے اندر سے آپ اپنا راستہ نکال ہی لیں گے۔
یہ بات اس سے پہلے بارہا کَہْ چکا ہوں، اور اب پھر کہتا ہوں کہ اسلام کا کام کرنے والوں کے لیے یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وہ بلاسوچے سمجھے، اندھادھند کام کریں۔ ان کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ کام کریں، عقل سے کام لیں، اور عقل سے کام لے کر دیکھیں کہ جو رکاوٹیں ہیں وہ کس نوعیت کی ہیں؟ اس کے بعد یہ دیکھیں کہ ان رکاوٹوں کے اندر سے ہم اپنا راستہ کیسے نکال سکتے ہیں؟
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا جو کچھ بھی کام ہے، اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ہماری اپنی تنظیم مضبوط ہو۔ کیونکہ وہ مشینری، جس سے ہم نے کام لینا ہے، وہی اگر کمزور پڑگئی ہو، ڈھیلی ہوگئی ہو، اس کے کچھ پیچ نکل گئے ہوں یا کچھ پیچ ڈھیلے پڑگئے ہوں، تو ہم کام کس چیز سے لیں گے؟
جس قسم کے ہنگامی کام ہم کو کرنے پڑے، ان سے یہ بات صاف طور پر محسوس ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اندر سے کمزور پڑگئی ہے۔ اس لیے دوسرے تمام کاموں سے پہلے آپ کو اپنی تنظیم مضبوط کرلینی چاہیے۔ اب تک جو مشکلات آپ کو پیش آچکی ہیں، اس سے کہیں زیادہ مشکلات آگے چل کر پیش آسکتی ہیں۔ اس لیے اب آپ کو یہ کوشش کرنی ہے کہ جماعت کی تنظیم زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو، اور جو ڈھیل پیدا ہوگئی ہے، وہ رفع ہو۔ اس غرض کے لیے اگر آپ کو کچھ لوگوں کو نکال دینا پڑے تو کوئی پروا نہ کریں۔ سختی کے ساتھ نظم کی پابندی کرائیں۔ جو نظم کی پابندی نہ کرے اس کو نکال باہر کریں۔ آپ نظم کی پابندیوں پر پورا زور دیں۔ جو احکام دیے جائیں، جو ضوابط مقرر کیے جائیں، ان کی پابندی کروایئے۔ اجتماعات کے اندر لوگوں کو باقاعدگی سے آنا چاہیے۔ اگرکوئی رکن اجتماعات میں مسلسل حاضر نہیں ہوتا تو ہرایسے شخص کو بلاتامل خارج کردیں، اِلا یہ کہ وہ توبہ کرے اور آیندہ نظم کی پابندی کا وعدہ کرے۔
مولانا مودودیl نے بڑے واضح الفاظ میں ان ہدایات کو زور دے کر ذہن نشین کیا:
يٰٓاَ يُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم۶۶:۶) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائو جس کے ایندھن انسان اورپتّھر ہوں گے۔
اس آیت میں مومنین کو ایک انتہائی ا ہم ہدایت ( جس پر انسان کی حقیقی کامیابی کا دارو مدار ہے) دی گئی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کی فکر و کوشش کرنا۔ بلاشبہہ جہنم سے بچ جانا اور جنت نصیب ہونا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے ،جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے:
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ۰ۭ (اٰل عمرٰن۳: ۱۸۵) جو جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی (حقیقی معنوں میں) کامیاب ہوا۔
ظاہر ہے کہ جنت نصیب ہونا منحصر ہے روز مرہ زندگی میں اللہ رب العزت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلصانہ اطاعت پر ۔ اہلِ ایمان کے لیے آیت کا پیغام بہت ہی واضح ہے کہ وہ حکمِ الٰہی و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے حالات سدھاریں ، زندگی کے ہر شعبے میں دین کے تقاضوں کو پورا کریں، اور اسی طور پر اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے پور ی کوشش کریں۔ اس آیت کے نزول پر حضرت عمر ابن خطابؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اپنے آپ کو کیسے جہنم سے بچائیں، یہ تو سمجھ میں آگیا ( کہ احکامِ الٰہی پر عمل کریں اور گناہوں سے دُور رہیں )، مگر ہم اپنے اہل و عیال کو کس طرح جہنم سے بچائیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ اس طر ح کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ، اہل وعیال کو ان کاموں سے منع کرو ،اور اللہ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان کے کرنے کا انھیں حکم دو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچائے گا (روح المعانی، ج۲۸،ص ۱۵۶)
صاحبِ تفہیم القرآن نے اس آیت کی تشریح میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ اپنی ذات کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے،بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ جس خاندان کا وہ سربراہ ہے اس کو بھی ممکن حد تک ایسی تعلیم و تربیت دے کہ وہ احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے والا بن جائے، تاکہ اللہ رب العزت اس سے راضی ہو جائے اور وہ جہنم سے بچ جائے (تفہیم القرآن، ج۶،ص ۲۹-۳۰، حاشیہ ۱۶ ) ۔
مولانا عبد الباری ندوی اس سورہ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’ انسان کو بحیثیت مجموعی خسران سے بچانے کے لیے صرف کچھ افراد کا اپنی اپنی جگہ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ کا حق ادا کر کے مومنِ صالح بن جانا کافی نہیں ، بلکہ ایمان و عمل صالح کی اس حقّانی زندگی کو پوری نوع انسانی میں پھیلانے اور پیدا کرنے کے لیے آپس میںایک دوسرے کو اس کی فہمایش و تاکید کرتے رہنا بھی لازم ہے ‘‘( قرآن کا دو آیاتی نظامِ صلاح و اصلاح، ۲۰۰۹ء، ص ۱۰۶)۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ زیرِ بحث آیت میں اپنے کو او ر اپنے گھر والوں کو جہنم سے بچانے کے لیے ’ امر‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے،یعنی تاکید کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس نے اس کام کو فرض کا درجہ دے دیا ہے۔ مقصود یہ کہ ا پنی اور گھر والوں کی اصلاح کے لیے کوشش محض مطلوب نہیں ، بلکہ ضروری ہے۔ آیت میں جہنم کی آگ کے بھڑکنے کے ذرائع ذکر کر کے اس کام ( نارِ جہنم سے بچانے) کی ضرورت و اہمیت کو اور بڑھا دیا گیا ہے۔ سچ پوچھئے تو اس سے بڑھ کر ضروری و اہم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو حقیقی کامیابی سے ہم کنار کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ اس آیت کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے بجا تحریر فرما یا ہے : ’’ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے اسے اٹھائے نہ رکھے۔ جب بھی دیکھے کہ ان کے اندر اللہ کی شریعت سے بے پروائی راہ پارہی ہے،فوراً اس کے سدِّ باب کی فکر کرے‘‘(تدبر قرآن، ج۸، ص۴۶۹)۔
جب یہ آیت وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۲۱۴ (الشعراء :۲۶:۲۱۴) نازل ہوئی ( یعنی آپؐ کو اپنے قبیلہ و خاندان کے لوگوں کو علانیہ انذار کا حکم ہوا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ قریش کی تمام شا خو ں کے لوگوں کو جمع کیا اور ایک ایک شاخ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میں ( روزِجزا) تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا۔آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ان الفاظ میں مخاطب ہوئے : وَ یَا فَاطِمَۃُ بِنْت مُحَمَّد! سَلِیْـنِیْ مَا شِئْتِ مِنْ مَالِیْ ،لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا (صحیح بخاری،کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء باب وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) ’’اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ! تم بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میرے پاس جو کچھ مال ہے اس میں جو چاہو لے سکتی ہو،لیکن( یاد رکھو کہ) میں قیامت کے دن اللہ کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہ آسکوں گا‘‘۔ حقیقت یہ کہ گھر والوں کی تذکیر اور انھیں نارِ جہنم سے بچانے کی راہ میں کوشش کی نسبت سے اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم سب کے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے اور ان مختصر جملوں میں انذار کے پہلو سے جو جامعیت ہے وہ اپنی جگہ مسلَّم ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ گھر کے لوگوں کی اصلاح یا ان کے حالات درست کرنے یا انھیں راہِ راست پر لانے کی اصل ذمہ داری سرپرست یا نگراں کی ہی ہوتی ہے ،لیکن آیت میں اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کا حکم عمومی انداز میں دیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے،جوان ،بوڑھے ، مرد و عورت کی تفریق کے بغیر گھر کے تمام لوگوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ موقع و محل کی رعایت کے ساتھ حسبِ استطاعت ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتا ئیں، نیک کاموں کی طرف متوجہ کریں اور برے کاموں پر متنبہ کرتے رہیں، یعنی یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
آج کل تقریباً ہر گھر میں اولاد یا زیرِ نگرانی بچوں کی نسبت سے یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے، اس کے حصول میں محنت و مشقت و سنجیدگی کے لیے انھیں باربار نصیحت کی جاتی ہے، ان کی خوب سرزنش ہو تی ہے، ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔ ان سب میں کوئی حرج نہیں،اس لیے کیریئر بنانے اور دنیوی زندگی کی تعمیر و ترقی کے لیے تعلیم کا حصول، اس میں انہماک اور اچھی کارکردگی ضروری ہے، لیکن لمحۂ فکریہ ہے کہ والدین و سرپرستوں کی یہ نصیحت و یاددہانی، سختی وسرزنش،دینی معاملات میں کوتاہی و فرض عبادات کی ادائیگی میں غفلت، اخلاقی تعلیمات کی خلاف ورزی اور بُری حرکتوں کے عا دی ہونے کی صورت میں کم ہی نظر آتی ہے، بلکہ بعض اوقات والدین یا سرپرست انھیں ایسی سہولیات مہیا کرتے ہیں، جو بے کار و لایعنی باتوں میں غیرمعمولی دل چسپی، وقت کے ضیاع اور بُری عادتوں کے جڑ پکڑنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
گھر کے لوگوں کی اصلاح کی خاطر ہر گھر میں وقتاًفوقتاً دینی یا تذکیری مجلس کے انعقاد کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور موجودہ حالات میں یہ وقت کا ایک اہم تقاضا بن چکا ہے۔ کرونا لاک ڈائون کے دوران محلّہ کی مساجد میں یا دوسرے کسی مقام پر اجتماعی طور پر دعوتی و تذکیری پروگرام موقوف ہونے کی وجہ سے اس ناچیز کو گھر میں درسِ قرآن کے توسط سے گھر والوں کے سامنے ہفتہ وار کچھ کہنے کا موقع ملا تو ان مجالس کے تجربات نے گھر میں دینی یا تذکیر ی مجالس کے انعقاد کی اہمیت و افادیت کو دل ودماغ میں نقش کردیا۔ یہ احساس غالب ہوگیا کہ اس سلسلے میں اب تک بڑی کوتاہی ہوئی ہے۔
گھر میں تذکیری مجلسیں منعقد کرنے کا ایک بڑا فائدہ اس صورت میں سامنے آیا کہ روزمرہ زندگی سے متعلق قرآن و حدیث کی عام ہدایات و تعلیمات کی طرٖف متوجہ کرنے کے علاوہ بعض اوقات گھر کے کسی فرد کو دین کی کسی خاص بات یا روز مرّہ زندگی کے کسی خاص پہلو کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یا گھر کے لوگوں یا کسی فرد میں خلافِ شریعت معاملات نظر آنے پر انھیں متنبہ کر نا ضروری ہوجا تاہے تو قرآن و حدیث کے حوالے سے جب تذکیری مجلس میں سب کے سامنے یہ باتیں واضح کی جاتی ہیں تو گھر کے تمام لوگوں کو ان سے واقفیت ہوجاتی ہے اور متعلقہ امر یا معاملہ سے متعلق قانونِ شریعت سے عمومی آگاہی ہوجاتی ہے۔ دوسرے اس طرح کی مجالس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی غلطی یا کوتاہی پراجتماعی طور پر متنبہ کر دینے کی وجہ سے گھر کے کسی فرد کو انفرادی طور پر نکیر کرنے یا خطاکار /غلطی کرنے والے سے براہ راست کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ خود سمجھ جاتا ہے کہ اس تنبیہ کا اصل مخاطب کون ہے، اس طرح وہ شرم ساری سے بچ جاتا ہے اور متنبہ کرنے والا انفرادی نکیر کے کسی منفی ردِِّ عمل سے محفوظ رہتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی کوئی غلط بات یا برائی کی خبر ہوتی اور آ پؐ اس کی اصلاح کرنا چاہتے تو یہ نہ فرماتے کہ فلاں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا ،ایسا کہتا ہے، بلکہ یہ فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا،ایسا کہتے ہیں (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، بَابٌ فِیْ حُسْنِ العِشْرَۃِ)، یعنی آپؐ مجلس میں خطا کار کا نام لیے بغیریا اسے براہِ راست مخاطب کیے بغیر غلطی پر متنبہ کر تے اور اصلاح فرماتے۔
حضرت اسماعیلؑ کے امتیازی اوصاف میں یہ بیان کیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کے اہتمام ا ور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتے تھے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ ۰۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِيًّا۵۵ (مریم۱۹: ۵۵) ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز و زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کی نگاہ میں پسندیدہ تھے‘‘۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو شرک سے اجتناب اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی نصیحت کے فوراً بعد اقامتِ صلوٰۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہتمام کی تاکید کی تھی۔ ارشادِ ربّانی ہے: يٰبُنَيَّ اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْكَرِ (لقمان ۳۱:۱۷) ’’اے میرے بیٹے! نماز کا اہتمام کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصی حکم فرمایا: وَاْمُرْ اَہْلَكَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہَا۰ۭ (طٰہٰ۲۰:۱۳۲) ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور خود اس پر جمے رہیے‘‘۔
آیت کا آخری حصہ اس لحاظ سے بڑا اہم و سبق آموز ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ گھر والوں کو نماز کی تاکید کرتے رہنے کے ساتھ خود بھی اس پر کار بند رہیں۔ اس سے یہ قیمتی نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کی راہ میں سرگرم رہنے والوں اور انھیں نیک کاموں کی دعوت دینے والوں کو پہلے اپنے آپ کو ان کا خوگر بنا نا نہایت ضروری ہے،ورنہ دعوت و تذکیر بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔سچ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حکمِ الٰہی کی تعمیل میں سرگرم رہنے والا کون ہوسکتا ہے۔
یہاں نماز کے اہتمام کے باب میں اسوۂ مبارکہ سے متعلق صرف ایک حدیث کا حوالہ کافی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام کاج میں لگے رہتے تھے، جیسے ہی نماز کا وقت آجاتا (یا ایک دوسری روایت کے مطابق اذان ہوجاتی) تو آپؐ بلاکسی تاخیر کے اس کی تیاری میں مصروف ہوجاتے تھے (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب کَیْفَ یَکُوْنُ الرَّجُلُ فِیْ اَھْلِہٖ، صحیح بخاری، کتاب النفقات، باب خدمۃ الرجل فی اھلہ)۔
سچ بات یہ کہ ’ نہی عن المنکر‘ کے بغیر ’امربالمعروف‘ کا حق ادا ہی نہیں ہوسکتا، جیسا کہ قرآن کریم میں دونوں کام ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کے ساتھ ساتھ ذکر کے اہتمام سے واضح ہوتا ہے، اور اہلِ ایمان کے امتیازی اوصاف میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے رو کنے کا تذکرہ بار بار ملتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُس صورتِ حال میں جہاں ہر طرف برائیوں کا زور ہو اور لوگ گناہ کے کاموں کے عادی ہوگئے ہوں، وہاں نہی عن المنکر کی ضرورت و ا ہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں زندگی کے ہرپہلو سے متعلق گھر کے لوگوں کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر یا تذکیر و فہمایش کی ضرورت بڑھتی ہی جارہی ہے۔
یہ آیت اسی نکتہ پر غور وفکر کی دعوت دے رہی ہے:اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ (البقرہ۲:۴۴) ’’کیا تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟۔ امام غزالیؒ نے دوسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کی راہ میں قرآنی ترتیب کو اختیار کرنے پر اس انداز میں زور دیا ہے :’’دوسروں کی اصلاح اپنی اصلاح پر مرتب ہوتی ہے، لہٰذا چاہیے کہ انسان اصلاح کے عمل کا آغاز اپنی ذات سے کرے ،پھر اس کے بعد دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے، جو خود درست نہیں ہے وہ دوسرے کو کیسے درست کرے گا؟‘‘ (احیاء علوم الدین)۔
مختصر یہ کہ قرآن و حدیث کا واضح پیغام یہ ہے کہ گھر اور خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتاتے رہیں ، نیک کاموں کی یاد دہانی کراتے رہیں اور بُرے کاموں سے باز رکھنے کی کوشش کریں ۔ بلاشبہہ موجود ہ بگڑی ہوئی صورتِ حال میں قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کے حالات سدھارنے،انھیں نیک کاموں کی طرف راغب کرنے اور انھیں برائیوں سے دُور رہنے کی تاکید کرنے کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ گھر کے ہر شخص سے یہ مطلوب ہے کہ خود اپنی اصلاح کے ساتھ حسبِ صلاحیت و استعداد حکمت کے ساتھ د وسروں کی اصلاح کے لیے کوشش کرے اور گھر کے لوگ ایک دوسرے کو اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، ملتے جُلتے اچھی باتیں بتاتے رہیں اور نیک کاموں کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔ گھر میں اگر کوئی علمِ قرآن و حدیث سے بہرہ ور ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ گھر کے لوگوں کو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے با خبر کرے،یا پھر دینی کتابوں کی مدد سے ان کی تذکیر کرے اور دینی احکام کے تعلق سے انھیںسمجھا ئے بجھا ئے۔
خلاصہ یہ کہ گھر میں ایک دوسرے کو انفرادی طور پر سمجھانے بجھانے ، تذکیر و فہمایش، تنبیہ و آگاہی کے ساتھ خاص گھر والوں کے لیے وقتاً فوقتاً اجتماعی پروگرام کا انعقاد بہت ضروری ہوگیا ہے۔ کم از کم ہفتہ میں ایک بار خاص طور سے گھر کے لوگوں کے لیے تذکیری پروگرام کا نظم جاری کیا جائے اور قرآن و حدیث کے حوالے سے انھیں سمجھانے بجھانے کا سلسلہ قائم رکھا جائے ۔ بس اصل مسئلہ ہے اس کام کی اہمیت و افادیت کو دل میں جاگزیں کرنے اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا۔ اس کے لیے ذہن سازی اور مسلسل جد و جہد درکا ر ہے ۔ بلا شبہہ قرآن کی ہربات بر حق ہے۔ا للہ کا کوئی حکم حکمت و نافعیت سے خالی نہیں، وہ بہر صورت موجبِ خیر و برکت ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی نہایت واضح ہدایت ہے کہ لوگوں کو اچھی یا نفع بخش باتیں (جس طریقے سے بھی ممکن ہو) بتاتے رہو، اس سے اہلِ ایمان کو ہر حال میں فائدہ پہنچتا ہے : وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵(الذاریٰت ۵۱:۵۵) ’’اور (ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی) یاددہانی کراتے رہو، بے شک یاد دہانی کرنا اہل ایمان کو نفع پہنچاتا ہے‘‘ ۔
محبت کا جذبہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا ہے۔ اگر ماں اور باپ میں یہ محبت نہ ہوتی تو آپ اور مَیں، شاید اس دنیا میں آج اس جگہ نہ ہوتے جہاں ہیں۔ اس طرح بھائی بہن کے رشتے کو دیکھیں، قریبی رشتے داروں کی محبت اور استاد کی شاگرد سے شفقت دیکھیے تو محسوس ہوگا کہ محبت کےبغیر تو یہ دنیا ہی ادھوری ہے۔ جن معاشروں میں یہ رشتے ناطے مفقود ہوتے جارہے ہیں وہاں نہ چھوٹے کو بڑے کی خبر اور نہ بڑے کو چھوٹے کی فکر۔ زندگی ہے کہ بس حیوانوں کی طرح گزر رہی ہے۔
شاید اسی لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے محبت و احترام کو لازم قرار دے دیا ہے۔ کیونکہ صبر، تحمل، رواداری، ہمدردی، رحم دلی، ایثار، خیر خواہی، حِلم، بردباری اور بے شمار خوبیاں ایسی ہیں، جن کے سوتے ’سرچشمۂ محبت‘ ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اگر باہمی محبت کا جذبہ ختم ہو کر نفسانیت کی گدلاہٹ چشمۂ دل میں پیدا ہوجائے تو پھر مذکورہ بالا خوبیوں کے بجائے کِبر، حسرت، نفرت، انتقام، تصادم، اشتعال، غیبت، تشدد، جتھے بندیاں، سازشیں اور اس طرح کے دوسرے رذائل انسان کی زندگی پر چھا جاتے ہیں۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ (الحجرات ۴۹:۱۰) ’’ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔
ہادیٔ برحق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کا ایک تقاضا یہ بتایا کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی (یعنی) مسلمان کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (بخاری)،یعنی:
پس، جو جواب تم ان سوالوں سے اپنے لیے چاہتے ہو، وہی اپنے ہر بھائی بہن کےلیے چاہو۔ محبت ہو تو آدمی اپنے اقربا اور رفقا کی خوبیوں اور ان کے فضائل کی قدر کرتا ہے، ان کی کمزوریوں سے درگزر کرتا ہے۔ اور اگر کسی کمزوری کی اصلاح مطلوب ہو تو ایسے خیر خواہانہ انداز سے بات چیت کرتا ہے کہ اختلافات کے پہاڑ، رُوئی کے گالوں کی طرح اُڑ جاتے ہیں۔ محبت دوسروں کے دلوں کو نرم رکھتی ہے اور بند دروازے کھول دیتی ہے ۔ کسی کو بھائی کہہ کر بلانا، پاس بٹھانا، خود اس کے پاس چل کر جانا، اس کے شکوک و شبہات دُور کرنا، اس سے شکایت ہو تو خوب صورت طریقے سے بیان کرنا، یہ سب کچھ بہترین نتائج کا ذریعہ بن جاتا ہے۔محبت ہوتی ہے تو آدمی دوسرے بھائی کو معاف کرنے کےلیے بآسانی رضامند ہوجاتا ہے اور محبت ہی یہ ترغیب بھی دلاتی ہے کہ ایک شخص خود آگے بڑھ کر دوسرے سے اپنی کسی غلطی کی معافی مانگے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کن کاموں سے محبتوں کو ایک دوسرے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دُور کر دی، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دے گا۔ جس نے کسی تنگ دست آدمی کو سہولت بخشی، اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سہولت بخشے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ عزوجل دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے راوی محمد بن عبداللہؓ بن نمیر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جانے میں اس کا سارا جسم شریک ہو جاتا ہے‘‘۔(مسلم)
نبی کریم ؐ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جو اس سے اس چیز برائی اور عیب کو دُور کرتا ہے جس میں اس کے لیے نقصان اور ہلاکت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ (ترمذی)
ایسے میں بالمشافہ ملاقات محبت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔محبت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ ملے، اس کے پاس بیٹھے۔یہ دلوں کو قریب لانے کے لیے مؤثر ترین چیز ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ملاقاتیں ہی تھیں جنھوں نے حضرت عثمان ؓابن عفان، حضرت عبدالرحمٰن ؓبن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت زبیرؓ بن عوام اور ان جیسے بہت سے صحابہ کرامؓ کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کو دیکھنے اور ملاقات کی غرض سے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے پیچھے ۷۰ ہزار فرشتے ہوتے ہیں جو اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! یہ صرف تیرے لیے جڑا ہے تُو اسے جوڑ دے۔ اگر تم سے ممکن ہو تو اپنے جسم سے یہ (ملاقات کا) کام ضرور لو‘‘۔ (مشکوٰۃ)
ایک صاحب نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے کہا کہ ’’میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سنائی کہ ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے، جو میرے لیے باہم مل کر بیٹھتے ہیں ، میرے لیے ایک دوسرے سے ملنے کو جاتے ہیں ، اور میرے لیے ایک دوسرے پر مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔
ملاقات سے نہ صرف تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کا اجر بھی بڑا عظیم ہے۔ آئیے عہد کریں کہ محبتوں کو فروغ دینے اور اس کے صلے میں اللہ کی محبت اپنے لیے واجب کرنے کےلیے ہم ایک دوسرے سے ملاقات کو اپنا شعار بنائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت صبح کو کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ شام ہوجائے۔ اور شام کو عیادت کرتا ہے تو ۷۰ ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔ عیادت کرنے والے کے لیے جنت میں میوؤں کے باغات ہیں‘‘۔ (ترمذی)
معروف حدیثِ قدسی کا حصہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا، اے ابن آدم میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا، حالانکہ تُو تو رب العالمین ہے؟ اللہ فرمائے گا: کیا تُو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تُو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (مسلم)
اللہ سے دُعا کریں کہ اللہ توفیق و ہمت عطا فرمائے کہ محبتوں کو فروغ دینے کے لیے جہاں کسی بیمار کی اطلاع ملے اُس کی عیادت کریں گے تاکہ اپنے ربّ سے وہاں شرفِ ملاقات حاصل کرسکیں۔
ویسے بھی محبت چمکتے سورج کی طرح ہے کہ اگر اس میں تصنع اور بناوٹ کی آمیزش نہ ہو اور اخلاص کا رنگ ہو تو افعال و کردار سے جھلکتی نظر آتی ہے۔
اخوت اور محبت، ایمان کی لازمی شرط ہے۔ جس کے سامنے اس کے دین کا نصب العین جتنا واضح ہوگا ، اسے اپنے بھائی سے تعلقات اتنے ہی عزیز ہوں گے۔ جب ایک کا دکھ درد دوسرے کا دکھ درد اور ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی بن جائے تو ایسے تعلقات وہ تعلقات کہلائیں گے جو تحریک کو زندگی اور حرارت بخشتے ہیں اور تحریک کی کامیابی کاضامن ہوتے ہیں۔
خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۱۹۹ (اعراف ۷ : ۱۹۹) ، اے نبیؐ! عفو و درگذر کا طریقہ اختیار کرو، نیکی کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ مسلمان جو لوگوں میں ملاجلا رہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرے، اس مسلمان سے بہتر ہے جو ملنا جلنا چھوڑ دے اور ایذاؤں پر صبر نہ کرے‘‘(ترمذی)۔ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’جس بندہ پر ظلم کیا جائے اور وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے خاموش رہے ، تو اللہ ایسے بندے کی زبردست مدد فرماتا ہے‘‘۔
جو دنیا میں اپنے بھائیوں کی خطائیں معاف کریں گے، اللہ آخرت میں اجرعطا فرمائے گا:
وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۰ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۲۲ (النور ۲۴: ۲۲) اور چاہیے کہ وہ عفو و درگزر سے کام لیں۔ کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اللہ عزوجل تمھیں بخش دے ؟ اور اللہ تو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا ، اے اللہ ہمارے دلوں کو جوڑے رکھ اور ہمارے تعلقات کی اصلاح فرمادے۔
وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۶۳ (انفال ۸ :۶۳) وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے۔ مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔
فتح مکہ (۸ھ) کے بعد جب عرب قبائل کو اندازہ ہو گیا کہ اب اسلام کی پیش قدمی کو روکنا ممکن نہیں ہے اور وہ اہل اسلام کو شکست نہیں دے سکتے، تو انھوں نے اپنے رویے پر غور کیا ۔ انھیں کوئی راہِ نجات نظر نہیں آئی ،سوائے اس کے کہ سر تسلیم خم کر دیں اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے وفود رسول اکرمؐ کی خدمت میں بھیجے ، جنھوں نے آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اطاعت کا عہد کیا ۔مؤرخین اور سوانح نگاروں نے ۷۰ سے زائد ایسے وفود کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے اس زمانے کو ’عام الوفود‘ کہا گیا ہے ۔ان وفود میں ایک وفد قبیلۂ ثقیف کا بھی تھا ۔
قبیلۂ ثقیف کا شمار عرب کے طاقت وَر اور جنگجو قبائل میں ہوتا تھا ۔یہ طائف میں آباد تھا ۔ ہجرتِ مدینہ سے قبل اللہ کے رسولؐ دعوت کے نئے اُفق تلاش کرنے کی غرض سے طائف تشریف لے گئے تھے ،تو اسی قبیلے کے افراد نے آپؐ کے ساتھ بد ترین معاملہ کیا تھا اور آپؐ کو شدید جسمانی اذیتیں پہنچائی تھیں۔ فتح مکہ کے بعد بہت سے قبائل نے اطاعت قبول کر لی ،لیکن ہوازن اور ثقیف کا دل نہ پسیجا اور وہ لوگ اپنی طاقت کے زَعم میں رہے ۔ انھوں نے بہت بڑی جمعیت اکٹھی کی اور اوطاس (مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام )میں خیمہ زن ہوگئے۔ رسول اکرمؐ کو جب اس بات کی خبر ملی تو آپؐ نے ان کی سرکوبی کا ارادہ کیا اور ایک لشکر کے ساتھ ان کی طرف کوچ کیا۔ اہل ہوازن و ثقیف نے فوجی دستوں کو وادیِ حنین میں تعینات کر دیا، جنھوں نے وادی کے مختلف حصوں میں کمین گاہیں اور مورچے بنالیے۔ جوں ہی مسلمان وہاں پہنچے ان پر ہرطرف سے تیر برسنے لگے ۔اس اچانک حملے سے مسلمانوں پر بدحواسی طاری ہو گئی۔ بد حواسی کا یہ عالم تھا کہ کسی کو دوسرے کی خبر نہ تھی مگر بہت جلد مسلمانوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ۔ہوازن اور ثقیف کو شکست ہوئی، بہت سے لوگ قتل ہوئے اور بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا ۔
شکست خوردہ فوج نے طائف میں جا کر پناہ لی اور قلعہ بند ہو گئی ۔رسول اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ طائف کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر محاصرہ کرلیا ۔ثقیف نے اپنے قلعوں سے مسلمانوں پر خوب تیر برسائے جس سے متعدد مسلمان شہید ہو گئے ۔طائف کا محاصرہ تقریباً ۲۰ روز تک جاری رہا مگر شہر فتح نہ ہو سکا،با لآخر رسول اکرمؐ نے محاصرہ اٹھا کر واپسی کا اعلان فرما دیا ۔
اس موقعے پر بعض صحابہؓ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسولؐ! قبیلۂ ثقیف کے لیے بد دعا کردیجیے ۔آپؐ نے ہاتھ اٹھائے اور آپؐ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے : ’’اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس بھیج دے ‘‘۔ بقول سیّد سلیمان ندوی :’’یہ دعائے نبویؐ کا اعجاز تھا کہ وہ قبیلہ جو تلوار کے ذریعے زیر نہ ہوسکا تھا ،دفعتاً جلالِ نبوتؐ نے اس کی گردن آستانۂ اسلام پر جھکادی اور پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا‘‘۔(سیرت النبی ؐ ،دوم، ص ۳۱)
چند روز بعد قبیلۂ ثقیف کے لوگوں نے باہم مشورہ کیا اور طے پایا کہ ایک وفد رسولؐ اللہ کی خدمت میں بھیجا جائے۔سفارت نے مدینہ کا رخ کیا۔ بستی کے قریب اس کی ملاقات حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے ہوگئی ۔ان کا تعلق اسی قبیلے سے تھا ۔وہ دوڑے کہ رسولؐ اللہ کو اس کی آمد کی خبر پہنچائیں۔ راستے میں ان کی ملاقات ابوبکر صدیقؓ سے ہو گئی۔ان کو معلوم ہوا تو مغیرہ کو قسم دلائی کہ یہ خوش خبری مجھے پہنچانے دو ۔اس وفد کی آمد پر رسول ؐ اللہ نے بھی مسرت کا اظہار کیا ۔وفدِ ثقیف کو مسجد نبویؐ میں ٹھیرایا گیا، اس لیے کہ صحن مسجد میں خیمے نصب کیے گئے تھے ۔یہ لوگ نماز اور خطبے کے وقت موجود رہتے تھے۔ مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے اور قرآن سنتے تھے۔
یہ وفد مدینہ منورہ میں چند دن ٹھیرا ۔اس عرصے میں وقتاً فوقتاً رسول ؐ اللہ کی خدمت میں حاضری دیتا ،اور آپؐ بھی ان کے پاس آتے جاتے رہے اور انھیں اسلام کی دعوت دیتے رہے (سیرت ابن ہشام)۔ ابن سعد نے لکھا ہے :کہ آں حضرتؐ ان لوگوں کے پاس ہر رات عشاء کے بعد تشریف لے جاتے تھے اور کھڑے کھڑے ان سے گفتگو فرماتے تھے ۔زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے آپؐ تھکن محسوس کرتے تو پہلو بدل لیتے تھے۔ (طبقات ابن سعد)
اس وفد میں عثمان بن ابی العاص نامی ایک نوجوان بھی تھا ۔ارکانِ وفد نبی اکرمؐ کی خدمت میں جاتے تو اسے بچہ سمجھ کر خیمے میں چھوڑ جاتے۔ خدمت نبویؐ میں حاضری سے محرومی اور تعلیماتِ اسلام سیکھنے کی تڑپ اسے بے چین کیے رکھتی۔ چنانچہ جب وہ لوگ واپس آکر دوپہر میں آرام کرتے تو عثمان آں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔آپؐ سے قرآن سن کر یاد کرتا اور آپؐ سے دین کی معلومات حاصل کرتا ۔کسی موقعے پر اگر وہ آپؐ کو سوتا ہوا پاتا تو حضرت ابو بکر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوجاتااور ان سے دین سیکھتا ۔یہ کام وہ اپنے قبیلے والوں سے چھپ کر کرتا تھا۔ اس کا یہ ذوق و شوق دیکھ کر رسول اکرمؐ کو بہت خوشی ہوئی ۔
ارکان وفد کو اسلام کی بنیادی تعلیمات بتائی گئیں تو انھوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل رسولؐ کے سامنے چند شرطیں رکھیں ۔ اس سلسلے میں سربراہ ِوفد کنانہ بن عبد یالیل سے یہ گفتگو ہوئی :
۱- اس نے کہا : ہمیں کثرت سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے لیے جنسی جذبے پر قابو پانا مشکل ہے ،لہٰذا ہمیں زنا کی اجازت دے دیجیے۔
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا :وہ تم پر حرام ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَسَآئَ سَبِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۲) زنا کے قریب نہ پھٹکو ۔وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ ۔
۲- اس نے کہا :ہماری ساری تجارت سود پر مبنی ہے۔ ہمیں سود لینے کی اجازت دے دیجیے۔
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا :تمھیں صرف اصل سرمایہ لینے کا حق ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (البقرہ۲:۲۷۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ۔
۳- اس نے کہا : ہمارے علاقے میں شراب بڑے اہتمام سے کشید کی جاتی ہے اور وہ ہمارے لیے ضروری ہے ۔ آپؐ نے فرمایا :اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے ،اس کا ارشاد ہے :
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (مائدہ۵:۹۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو ،امید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہو گی ۔
۴- اس نے نماز سے رخصت چاہی تو آپؐ نے فرمایا: ’’اس دین میں کوئی بھلائی نہیں جس میں نماز نہ ہو ‘‘۔
۵-اس نے درخواست کی کہ ان کے بت ’لات‘ کو جس کی وہ پوجا کرتے ہیں ،تین سال کے لیے چھوڑ دیا جائے اور ان کے معبد کو منہدم نہ کیا جائے۔ آپؐ نے انکار کیا۔ انھوں نے دو سال کے لیے چھوڑنے کی گزارش کی ۔آپؐ نے اسے بھی قبول نہ کیا ۔وہ اسی طرح تھوڑی تھوڑی مدت کم کرتارہا ،لیکن آپؐ نے انھیں کچھ بھی مہلت نہیں دی ۔تب انھوں نے کہا:اچھا! تو پھر آپؐ ہی اسے توڑ ڈالیں ۔ہم اسے اپنے ہاتھوں سے نہیں توڑ سکتے ۔آپؐ اس پر رضامند ہو گئے اور فرمایا: میں کسی کو بھیج دوں گا جو یہ کام کر دے گا۔
۶-اس نے درخواست کی کہ ان کو جہاد میںشریک ہونے کا پابند نہ کیا جائے ۔آپؐ نے ان کی یہ درخواست قبول کرلی ۔
۷-اس نے درخواست کی کہ انھیں صدقات ِواجبہ کی ادائیگی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ آپؐ نے ان کی یہ درخواست بھی قبول کر لی ۔
۸- اس نے درخواست کی کہ ان کے علاقے کا عامل (گورنر)ان کے قبیلے سے باہر کے کسی فرد کو نہ بنایا جائے۔آپؐ نے یہ درخواست بھی قبول کرلی ۔
وفد نے واپسی کا ارداہ کیا تو اللہ کے رسولؐ سے گزارش کی کہ کسی کو ہمارا امیر بنا دیجیے۔ آپؐ نے وفد کے اس سب سے کم عمر رکن ،عثمان بن ابی العاص کو ان کا امیر نامزد فرمایا۔ بعد میں آں حضرتؐ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کی سربراہی میں حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ اور حضرت ابو سفیان بن حربؓکو بھیجا کہ وہ جاکر لات کے معبد کو منہدم کردیں۔
قبیلۂ ثقیف کے قبولِ اسلام کے اس واقعے میں عبرت و نصیحت کے متعدد پہلو ہیں :
اس واقعے کو ۱۰ سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا ۔ابن سعد نے لکھا ہے کہ ،حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے فرمایا:’’مجھے نہیں معلوم کہ عرب کا کوئی قبیلہ ،جو ایک باپ کی نسل سے ہو ،اس کا اسلام اتنا راسخ اور اس کے عقائد اتنے بے آمیز ہوں جتنے اس قبیلے کے تھے‘‘ (طبقات ابن سعد ، ج۲،ص ۷۸) ۔ قبیلۂ ثقیف کے اسلام قبول کرنے کی پختگی اور عقائد کی بے آمیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسولؐ اللہ کی وفات کے بعد عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہو گئے تھے اور انھوں نے اسلامی ریاست سے بغاوت کر دی تھی،لیکن اس موقعے پر ثقیف کے تمام افراد نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور اسلام پر قائم رہے ۔
مدینہ میں وفدثقیف کے قیام کے دوران آپؐ برابر انھیں شرف باریابی سے نوازتے رہے اور ان کے پاس برابر جاتے رہے اور دین کی باتیں بتاتے رہے۔ آپؐ ان کے پاس خاصا وقت گزارتے ۔ان سے محبت و مودت کی گفتگو کرتے ۔ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور انھیں دین کا فہم عطا کرتے ،یہاں تک کہ اللہ نے ان کے دل نرم کر دیے اور وہ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
مجھے یہ واقعہ یاد ہے کہ دسمبر ۲۰۱۶ء میں جب بھارتی پنجاب کے سرحدی شہر امرتسر میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ منعقد ہوئی تھی۔ اس موقعے پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر، اسٹیج ہی سے پاکستان کی طرف سے ۵۰۰ملین ڈالر کی امداد کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی مندوب اور وفاقی وزیر جناب سرتاج عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ اس امداد کو اپنی جیب میں رکھ کر اسے اپنے ملک میں انتہاپسندی کو لگام دینے کے لیے استعمال کریں‘‘۔جس طرح کے تکبر اور بدتہذیبی کا مظاہرہ اشرف غنی اور ان کے وفد نے اس میٹنگ کے دوران کیا، سفارتی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملے گی۔چونکہ اس میٹنگ سے قبل ہی بھارت نے پاکستان میں مجوزہ سارک سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اس کو سبوتاژ کر دیا تھا، اس لیے سرتاج عزیز صاحب کو میزبان بھارت اور افغان مندوبین نے ایک ناقابلِ برداشت ہستی بنا کر رکھ دیا تھا۔
پھر ہم نے دیکھا کہ جس تیزی کے ساتھ افغان طالبان نے پیش قدمی کرکے ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول سنبھال لیا، اس نے پوری دنیا کو تو حیران کرکے رکھ ہی دیا ہے، مگر طالبان کی اس فتح کے بعد، افغان فوج کی شکست اور اشرف غنی کا فرار ، کابل میں موجود افغان و دیگر غیر ملکی میڈیا کے نمایندوں کو خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے، کہ کس طرح وہ پچھلے کئی برسوں سے زمینی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہے، یا جان بوجھ کر اشرف غنی اور امریکا کی خوشنودی کے لیے اپنے قارئین یا ناظرین کو دھوکا دیتے رہے۔ میڈیا سے متعلق تحقیقی اداروں کو بطور مثال اس جانب دارانہ اور دھوکا دینے والی کوتاہ اندیش رپورٹنگ کو ماس کمیونی کیشن کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یاد رہے دنیا بھر کے تھنک ٹینک اور خارجہ پالیسی کے ادارے اسی رپورٹنگ کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے تھے۔
ابھی تک معروف دفاعی اور ملٹری اکیڈیمیوں سے فارغ شدہ ماہرین کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آخر تقریباً ساڑھے تین لاکھ افغان افواج ریت کی دیوار کی طرح کیوں بیٹھ گئیں؟ جدیدترین اسلحہ سے لیس فوج، جس کی تربیت امریکا ،ناٹو اتحادیوں اور بھارت نے کی تھی، اس نے چندہزار عسکریوں کے سامنے کیسے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیئے؟
مشی گن یونی ورسٹی کے جنوبی ایشیا سے متعلق شعبہ میں پروفیسر جویوان کول نے افغان فوج کی حالت زار کے بارے میں پہلے ہی پیشن گوئی کی تھی: ’’جس طرح ۲۰۰۱ء میں شمالی اتحاد نے امریکا کی مدد سے طالبان کو شکست دی تھی، اسی طرح موجودہ افغان فوج بھی طالبان سے جنگ میں ٹھیر نہیں پائے گی‘‘۔ ان کا استدلال تھا کہ ’’دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں امریکی افواج نے عام افغانی کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ جب ان پر کوئی حملہ ہوتا تھا ، تو اس کا بدلہ لینے کے لیے وہ پورے علاقے میں آپریشن کرکے آدھی رات کو گھروں میں گھس کر خواتین و بچوں کو بے عزّت کرتے تھے، جس کی وجہ سے ظاہرہے کہ اس آبادی کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہوجاتی تھیں اور امریکیوں کے ساتھ ان کی نفرت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ انھی آبادیوں سے طالبان کو نئے رضاکار بھی مل جاتے تھے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’فوج کی بددلی کی ایک اور وجہ افغان کے (کٹھ پتلی) صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں بے پناہ بد عنوانی تھی۔ ان سیاسی لیڈروں اور افسران نے بیرون ملک نہ صرف محلات تعمیر کیے، بلکہ خلیجی ممالک میں جزیرہ تک خریدے ہیں‘‘۔
اس نئی پیش رفت کے بعد اب لگتا ہے کہ افغانستان میں قتل و غارت گری کا جو باب انقلابِ ثور کے ساتھ اپریل ۱۹۷۸ء میں شروع ہوا، جس کے تقریباً ایک سال بعد کمیونسٹ روسی فوجوں نے ۲۴دسمبر ۱۹۷۹ء کو افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا۔ اور پھر ایک خوں ریز جنگ کے بعد روسی فوجیں پسپا ہوکر ۱۵فروری ۱۹۸۹ء کو واپس چلی گئی تھیں۔ یہ خونیں ’گریٹ گیم‘ اب اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور ان کی حمایت یافتہ حکومت کی برطرفی کے۴۳ سال کے بعد اب فریقین کے لیے جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ضروری ہے کہ طالبان کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی ترک کرکے ان کوتسلیم کریں اور سفارتی سطح پر ربط قائم کریں۔ حد تو یہ ہے کہ اب بھی بعض شخصیات طالبان کو تسلیم نہ کرنے اور ان کے لیڈران پر سفری پابندیا ں عائد کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔
۲۳ برس قبل ۱۹۹۸ء میں امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن جب کابل کے دورہ پر تھے، تو انھوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کرکے ان کوخواتین کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم جاری رکھنے اور اسپتالوں میں خواتین کا علاج کرنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں و نرسوں کی تعیناتی پر رضامند کیا تھا۔ اسی طرح طالبان نے افغانستان سے پوست کی کاشت مکمل طور پر ختم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔ رائے گٹمین (Roy Gutman) اپنی کتابHow We Missed the Story: Osama Bin Laden, the Taliban and the Hijacking of Afghanistan کے دوسرے ایڈیشن ۲۰۱۳ء میں لکھتے ہیں کہ رچرڈسن نے طالبان کو شمالی اتحاد کے ساتھ بات چیت اور جنگ بندی پر بھی منوا لیا تھا۔ اس کے بدلے وہ امریکا سے سفارتی سطح کے روابط قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ پورے ۲۰سال کی قتل و غارت گری اور ۲ء۲۶ کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکا نے بل رچرڈسن کے مسودے کو کوڑے دا ن سے نکال کر دوحہ میں میز پر رکھا۔ آخر یہی کام اگر کرنا تھا ، تو ڈیڑھ لاکھ افراد کی ہلاکت، ڈھائی ہزار امریکی افواج کی اموات اور لاتعداد زخمیوں کو کس کھاتے میں درج کیا جائے گا؟
اس بار ایک اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ ۲۰سال تک افغانستان کے قضا و قدر کا مالک ہونے کے باوجود اب عملاً افغانستان میں امریکا کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی ریسرچ فیلو نیلوفر ساخی کے مطابق ’’افغانستان کے حوالے سے پاکستان، ایران، چین اور روس کی پوزیشن خاصی مضبوط ہو گئی ہے‘‘۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکا نے ایک طرح سے افغانستان، چین کو پلیٹ میں سجا کرپیش کر دیا ہے۔ چین نے حال ہی میں طالبان کے لیڈر مُلّاعبدالغنی برادر کا بیجنگ میں خاصا پُرجوش استقبال کیا۔ اس کے برعکس امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو خاصی سردمہری کا سامنا کرنا پڑا۔
حالات بہتر ہونے کی صورت میں وسط ایشیا کو پاکستانی بندر گاہ گوادر سے منسلک کرنے والے نارتھ ، ساؤتھ ٹریڈ کوریڈور ، اور بیلٹ اینڈ روڑ کو مزید آگے بڑھانے میں افغانستان معاون ثابت ہوگا۔ ۱۹۸۹ء کے بعد روس، افغانستان کے حوالے سے بالکل لاتعلق ہو گیا تھا۔ مگر موجودہ صورت حال میں روس پہلا ملک ہے، جس نے طالبان کی اہمیت کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ سفارتی روابط استوار کیے ہیں۔ حال ہی میں اشرف غنی کی حکومت نے جب امریکا اور بھارت سے فضائی مدد مانگی، تو روس نے افغانستان کی سرحد سے متصل تاجکستان اور ازبکستان کی افواج کے ساتھ مل کر جنگی مشقوں کا آغاز کردیا۔ دوسری طرف چین کے ساتھ مل کر بھاری ہتھیارو ں کے ساتھ سنکیانگ میں سرحد کے پاس مشقیں کیں۔ غرض امریکا اور بھارت تک یہ پیغام پہنچایا کہ اس موقع پر ان کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اگر افغانستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تو اس سرزمین پر تاریخ اکثر اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے۔ ۱۸۳۹ء میں برطانوی فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو برطرف کرنا اور شاہ شجاع کو اقتدار میں لانا تھا۔ یہ ہدف برطانوی افواج نے حاصل تو کرلیا، مگر افغانیوں نے جلد ہی اپنی شکست کا بدلہ لے کر برطانوی فوج کا قتل عام کیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے برطانیہ نے ایک بار پھر فوج کشی کرکے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ حالات کے کسی حد تک ٹھیک ہونے کے بعد برطانیہ نے طویل مذاکرات کے بعد تخت پھر دوبارہ دوست محمد کے حوالے کردیا، کہ جس کو ہٹانے کے لیے فوج کشی کی گئی تھی، کیونکہ شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا تھا۔
۲۰۰۱ء میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے امریکی قیادت میں دنیا بھر کی افواج نے افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا، مگر اب طالبان کی واپسی کی راہ ہموار کرکے پھر وہی تاریخ دُہرائی جا رہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں اب تاریخ کو آرام کا موقع دے کر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار افغانوں کے حوالے کیا جائے اور طالبان کو تسلیم کرکے ان کو سفارتی سطح پر دنیا سے جوڑا جائے، اور یہ بتایا جائے کہ افغانستان کے حکمران تاریخ و واقعات سے سبق لے کر اس جنگ زدہ ملک میں ایک نئی صبح کا آغاز کریں گے۔ بین الاقوامی برادری پر بھی لازم ہے کہ اس صبح کی تعمیر میں کابل انتظامیہ کی مدد کریں۔
سنجے پانڈا ترکی میں بھارتی سفیر ہیں۔ انھوں نے کشمیر کے بارے مخصوص بھارتی لہجے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے: ’’مسئلہ کشمیر کا سارا کھیل تبدیل ہو چکا ہے۔ اب یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ بدلے ہوئے حالات ہی حقیقت ہیں۔ یہ ان لوگو ں کے لیے ضروری ہے جو اس تنازعہ کا ہمیشہ کے لیے حل چاہتے ہیں‘‘۔
بھارتی سفیر سے سوال کیا گیا کہ ’’استصواب رائے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا:’’ہمیں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ان کا پہلا حصہ بلاشبہہ استصواب رائے کے بارے میں ہے۔ اور یہ استصواب صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب پاکستان ان تمام علاقوں سے افواج واپس بلالے ، جن پر اس نے قوت کے بل پر قبضہ کررکھا ہے۔ سارے جموں و کشمیر کو ۱۹۴۷ء سے پہلے کی صورتِ حال میں واپس جانا ہوگا۔ تب ہی استصواب رائے ہو سکے گا‘‘۔
بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین پروفیسر جوزف کوربل نے اپنے آرٹیکل میں اس سوال کا جواب دیا تھا (ان کا آرٹیکل The UN, Kashmir and Nehru دیکھا جاسکتا ہے)۔ یہ آرٹیکل ۴مارچ ۱۹۵۷ء کے The New Leaderمیں شائع ہو ا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:’’بھارتی وفد کے مطابق استصواب رائے کے بارے میں قرارداد پر عمل درآمد پاکستان نے روک دیا تھا۔ ایسا اس نے کشمیر کے دوسرے حصہ (آزاد کشمیر) سے اپنی فوج نکالنے سے انکار کی صورت میں کیا تھا‘‘۔ یہ دعویٰ سچ نہیں ہے۔پاکستان فوجیں نکالنے کا اس وقت تک ہرگز پابند نہیں ہے ،جب تک بھارت اپنے زیر قبضہ کشمیر سےفوجیں نہ نکال لے۔
بھارتی سفیر سنجے پانڈا نے مزید کہا:’’اقوام متحدہ کی قراردادوں پر واقعات کی گرد پڑ چکی ہے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ۱۹۷۲ء میں ہونے والے شملہ معاہدے میں یہ اصول طے پاگیا تھا کہ دونوں ممالک اپنےباہمی امور دو طرفہ طریقے سے حل کریں گے، جن میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہوگا‘‘۔
اس نکتے پر غیر جذباتی انداز میں غور کرنا ضروری ہے۔ پانڈا خود کہہ چکےہیںکہ کشمیر پر قراردادیں منظورہوئے ۷۳برس گزر چکے ہیں۔وہ ترکی کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ اب ان قراردادوں کو بھول جاناہوگا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ محض وقت گزرنےسےتنازعے کی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی۔ اسی لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں آج بھی اسی طرح سے موجود ہیں اور عمل درآمد کی منتظرہیں۔ دوسرے ، یہ قراردادیں نہ کبھی متروک ہو سکتی ہیں اور نہ متروک قرار دی جاسکتی ہیں۔ حادثات کی پڑی گرد بھی نہ ان کی حیثیت تبدیل کر سکی ہے اور نہ کر سکے گی۔ وقت گزرنے سے کسی بھی اصول کو غیر مؤثر سمجھا نہیں جاسکتا۔یہ جموں و کشمیر کے عوام کا انمٹ اور ناگزیر حق ہےکہ وہ استصواب رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی معاہدوں کو وقت ختم کر سکتا ہوتا تو اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔ اگر عدم عمل درآمد سے کسی معاہدے کو غیرمؤثر یا متروک سمجھ لیا جائے تو بہت سے ممالک میں جنیوا کنونشن بھی اپنی حیثیت کھو بیٹھے گا۔
شملہ معاہدہ کے بعد پاکستان اور بھارت تنازعات باہمی پلیٹ فارم پر حل کرنے کے مفروضے کو اگر چند لمحوں کے لیے درست مان بھی لیں تو پھر ہم اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب ٹی ایس ٹائرو مورچو کے ۲؍اگست ۲۰۲۱ء کے خطاب پر کیا کہیں گے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’کشمیر بھارت کا اٹوٹ اَنگ ہے اور یہ ناقابل تنسیخ حیثیت ہے‘۔ اگر رٹی رٹائی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے تو پھر شملہ معاہدہ کے تحت بھارت پاکستان سے کس معاملے پر بات کرنا چاہتاہے؟
دوسرے، شملہ معاہدہ میں ہی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ:’’مسئلہ کشمیر کا حل دو پارٹیوں(بھارت اور پاکستان) کے مقاصد میں سے ہے۔ اس صورت میں ٹی ایس ٹائرو کا یہ موقف تو اپنی جگہ شملہ معاہدے کے خلاف ہے، اقوام متحدہ کی باری تو بعد میں آئے گی۔
سنجے پانڈا جانتے ہیںکہ شملہ معاہدہ قرار دیتاہےکہ:کسی بھی مسئلہ کا حتمی حل نکلنےتک پاکستان یا بھارت اس کی حیثیت یک طرفہ طور پر تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس لیے آرٹیکل۳۷۰، اور ۳۵-اے، ڈومی سائل قانون، سب کی منسوخی نہ صرف شملہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں ہیں، بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۱۲۲کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں قرار دیاگیا ہے کہ ۱۹۵۱ء کی قرارداد کے مطابق نیشنل کانفرنس کی طرف سے سفارش کردہ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلایاجائے،تاکہ پوری ریاست یا اس کے کئی حصوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے جاسکتے کہ جن سےریاستی عوام کی رائے پوری طرح عمل میں نہ آتی ہو۔
اگر بھارت جرأت سے کام لے، وہ ایسے آزادانہ ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائے، جو کشمیری عوام کی صحیح اُمنگوں کے ترجمان ہوں، جیسا کہ سفیر پانڈا کہہ رہےہیں، تب یہ امکان نظر آسکتا ہے کہ ۷۳سال سے حل کے منتظر کشمیر کا کوئی فیصلہ ہو سکے۔
لیکن بھارت نے کشمیر میں اپنے نو آبادیاتی طرز کے غیر جمہوری رویوں ہی کو ’جمہوری‘ قرار دے کر پیش کیا ہے۔ ۱۹۶۴ء میں برطانوی مؤرخ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: ’’بھارت کا سارا بلندترین آئیڈیلزم دھڑام سے ڈھے جاتاہے، جب اس کا نفاذ کشمیر کے سوال پر کیا جاتاہے‘‘۔
بھارت کے دوسرے گاندھی کا درجہ پانے والے جے پرکاش نرائن نے ۱۹۶۰ء میں اندراگاندھی سے کہا تھا: ’’ہم جمہوریت کا پرچار کرتے ہیں لیکن کشمیر میں ہماری حکمرانی قوت کے بل پر ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا، وہ کشمیر کو ہڑپ کرنا نہیں چاہتا۔ وہاں کے عوام ہمارے بارے میں سیاسی طور پر گہرے اور ان مٹ عدم اطمینان سے دوچارہیں‘‘۔
حکومت جموں وکشمیرکے سابق سیکرٹری بی کے دیو نے ۱۹۹۱ء میں اعتراف کیا تھا: ’’بھارتی جموں و کشمیر میں شروع سے انتخابات دھاندلی زدہ رہے ہیں‘‘۔ ارون دھتی رائے بوکرانعام یافتہ ہیں۔ انھوں نے ۲۷ستمبر۲۰۰۹ء میں واشگاف لفظوں میں کہہ دیا تھا: کشمیر میں انتخابات کی طویل حیران کن تاریخ ہے۔۱۹۸۷ء میں بڑے دھڑلے سے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ ان کی وجہ سے ہی اشتعال پھیلا اورمسلح تحریک نے جنم لیا‘‘۔یہ تحریک ۱۹۹۰ء میں شروع ہوئی۔ اس کے بعد سے جموں و کشمیر میں دھاندلی زدہ اور غیرنمایندہ انتخابات فوجی قبضے کے ہتھیار کے طور پر ہی ہوئے ہیں۔ یہ بھارتی ڈیپ سٹیٹ کے مکروہ عزائم کا اصل چہرہ ہیں۔ ایسے ہر نام نہاد انتخاب کے بعد بھارتی مقتدرہ یہ جھوٹا اعلان کرتی ہے کہ ’کشمیری عوام نے ہمیں بھاری مینڈیٹ دیا ہے‘۔
ڈاکٹر شری پرکاش نے اپنی کتاب Twenty Tumultuous Years Insight into Indian Polityکے صفحہ ۵۶۸پر لکھا تھا: ’’کشمیری غم و غصے کی اصل وجہ ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی ہے۔ ایسی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو لاش کی صورت میں ہو۔ فاروق عبداللہ سے لے کر نیچے تک کشمیری لیڈر اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔وہ کسی بھی طرح سے مسئلہ کشمیر سے اب متعلق نہیں رہے‘‘۔ایمی والڈمین نے ۲۴؍اگست ۲۰۰۲ء کے نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا: ’’۱۹۸۹ء کے دھاندلی زدہ انتخابات نے مسلح جدوجہد کی بنیاد رکھی‘‘۔
چنانچہ ، ہمیں یقین ہےکہ ایسے بےمعنی اور خودفریبی پر مبنی انتخابات سے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل جمہوری اصول کی پاسداری ہے۔کشمیری عوام اب صرف ایسے انتخابی عمل کا خوشی سے حصہ بننے پر تیار ہوں گے، جن کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ یہ آزادانہ، منصفانہ رائے دہی کے لیے ہوں گے، اور ان کو منعقدکرانے کے لیے اقوام متحدہ جیساغیر جانب دار ادارہ کام کرے۔
سلامتی کونسل میں پاک بھارت تنازعات پر خاصی بحث ہو چکی ہے۔ لیکن استصواب رائے کا سوال بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور اسے حل کے طور پر طے بھی کیا گیا ہے۔ اس کا واضح اعتراف اقوامِ متحدہ میں بھارتی مندوب گوپال سوامی آیان گر نے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء میں کیا تھا۔ ان کاکہنا تھا: ’’کشمیر کاسوال___ ریاست کےلوگ بھارت سے الحاق ختم کر دیں یا پاکستان سے مل جائیں یاپھر وہ الگ رہنے کا فیصلہ کریںاور اقوام متحدہ کے ایک رکن کی حیثیت اختیار کرلیں۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام ہی کریں گے‘‘۔
لیکن بھارتی حکومت اپنے کسی قول پر کھڑا ہونے کے بجائے قتل و غارت گری کا گُر اختیار کیے ہوئے ہے۔
پچھلے تین برسوں سے ملک میں ایک بڑا شدید مغالطہ پیدا کیا گیا ہے کہ ’’موجودہ وفاقی حکومت، ملک میں طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کے لیے پہلی بار ’یکساں قومی نصاب‘ (سنگل نیشنل کریکولم) نافذ کررہی ہے۔ اس طرح ۲۰۲۳ء تک سکول کی سطح پر مکمل واحد قومی نصاب نافذ ہوجائے گا جو سرکاری، پرائیویٹ سکولوں اور دینی مدارس میں یکساں طور پر نافذہوگا‘‘۔ آئیے، متعدد سوالوں کے ذریعے سے حکومت کے ان دعوئوں کا جائزہ لیتے ہیں:
’پاکستان تحریک انصاف‘ کے تعلیمی منشور میں یقینا یکساں نظامِ تعلیم رائج کرنے کا وعدہ درج ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم سے مراد ملک کے تمام بچوں کے لیے ایک جیسی تعلیمی سہولیات ، ایک جیسا تعلیمی ماحول، ایک جیسے تعلیم یافتہ اساتذہ، ایک جیسا نظامِ امتحان اور بلاشبہہ ایک جیسا نصاب اور درسی کتب کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ اب حکومت منشور میں درج باقی تمام امور کو ایک طرف رکھتے ہوئے، محض ’یکساں قومی نصاب‘ کا نعرہ لگا کر یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس طرح ملک میں امیر اور غریب کے درمیان تعلیمی امتیاز ختم ہو جائے گا جو کہ بالکل غیرمنطقی بات اور عملاً ایک افسوس ناک جھانسا ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں تو ہمیشہ سے واحد قومی نصاب ہی نافذ رہا ہے کیونکہ یہ آئین کا تقاضا ہے اور ’۱۹۷۶ء کا تعلیمی ایکٹ‘ اس کو قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ البتہ ۱۷ویں ترمیم کے بعد نصاب، کتاب اور نظامِ امتحان کنکرنٹ لسٹ سے نکال کر صوبائی اختیار میں دےدیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد بھی پورے ملک میں، یعنی تمام صوبوں میں ۲۰۰۶ء کا بنایا ہوا قومی تعلیمی نصاب ہی نافذ رہا۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ملک میں ۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک واحد قومی تعلیمی نصاب ہی نافذ رہا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تمام سرکاری اسکولوں میں، ان تمام پرائیویٹ اسکولوں میں جو پانچویں، آٹھویں، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ سرکاری امتحان میں اپنے طالب علموں کو بٹھاتے ہیں، اور ان تمام دینی مدارس میں جو درس نظامی کے ساتھ اپنے طلبہ کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کا امتحان دلواتے ہیں، سرکاری سطح پر تیار کردہ واحد قومی تعلیمی نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈز کی شائع کردہ درسی کتب ہی استعمال ہوتی ہیں۔ البتہ وہ سرکاری، نیم سرکاری، عسکری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے جو اے لیول، اولیول سمیت بیرونی تعلیمی بورڈ کے امتحان دلواتے ہیں، وہ واحد قومی نصاب تعلیم کے بجائے بیرونی تعلیمی ایجنسیوں کا نصاب اور ان کی درسی کتب استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا ملک میں پہلی مرتبہ واحد قومی نصاب رائج کرنے کا دعویٰ غلط ہے۔
اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔ ملک کے تمام ماہرین تعلیم کا اس پر اتفاق ہے کہ ’یکساں قومی نصاب‘ کے نام پر جو نصاب رائج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے وہ دراصل ۲۰۰۶ء کا قومی نصاب ہے جو جرمنی کے ادارے جی آئی زیڈ (GIZ) کی فنڈنگ اور تکنیکی معاونت سے تیار کیا گیا تھا اور جس کی انچارج نگہت لون صاحبہ تھیں۔ اب ’یکساں قومی نصاب‘ کے نام سے ۲۰۰۶ء کا ترمیم شدہ نصاب ہی سامنے لایا گیا ہے، اور اس کی ٹیکنیکل ایڈوائزر بھی وہی نگہت لون ہیں۔ موازنہ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ’موجودہ یکساں قومی نصاب‘ ۲۰۰۶ء کے نصاب سے محض دس فی صد مختلف ہے۔
محترم وفاقی وزیر تعلیم کے متعدد بیانات اور نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ داران کی توجیحات شاہد ہیں کہ ’یکساں قومی نصاب‘ کم سے کم تعلیمی مواد (Minimum Learning Level) کا تعین کرتا ہے ۔ تعلیمی ادارے آزاد ہیں کہ وہ زائد مواد جو اپنے طلبہ کو پڑھانا چاہیں پڑھا سکتے ہیں اور اپنی پسند کی درسی کتب رائج کرسکتے ہیں، بشرطیکہ ان کتب میں ’یکساں قومی نصاب‘ کا تعین کردہ مواد بھی آگیا ہو، اور ان کتب کے لیے ’عدم اعتراض کا اجازت نامہ‘ (NOC)، مجاز ادارے سے لے لیا گیا ہو۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جو صوبے اس کو اختیار کریں گے، ان کے زیراہتمام سرکاری سکول لازماً اس نصاب کو استعمال کریں گے، لیکن اگر کوئی صوبہ اپنے آئینی اختیار کے تحت مذکورہ نصاب رائج نہیں کرتا تو اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ وہ پرائیویٹ سکول جو مختلف سطحوں کے سرکاری امتحانات میں اپنے طالب علموں کو بٹھا کر سرکاری تعلیمی سندات لینا چاہیں گے، وہ ’یکساں قومی نصاب‘ کے مطابق اپنے طالب علموں کو پڑھائیں گے، لیکن جو پرائیویٹ تعلیمی ادارے یا سرکاری، نیم سرکاری تعلیمی ادارے، عسکری انتظام میں چلنے والے ادارے، کیڈٹ کالجز وغیرہ جو اولیول ، اے لیول یا دیگر بیرونی امتحانات میں اپنے طلبہ کو بٹھائیں گے وہ ’یکساں قومی نصاب‘کے نفاذ سے مستثنیٰ ہوں گے اور وہ کیمبرج ، آکسفورڈ یا متعلقہ بورڈ کا نصاب اور کتابیں استعمال کریں گے۔
دینی مدارس، جو درس نظامی کے علاوہ اپنے طلبہ کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات دلوانا چاہیں گے، وہ تو حکومت کا تجویز کردہ ’یکساں قومی نصاب‘ (جیسا کہ پہلے ہوتاتھا) استعمال کریں گے لیکن اگر وہ اپنے طلبہ کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی سندات نہ دلوانا چاہیں تو ظاہر ہے کہ وہ سرکاری واحد قومی نصاب نہیں پڑھیں گے ۔
ان حقائق سے ہر صاحب ِعقل یہ جان سکتا ہے کہ شعبۂ تعلیم میں نصاب اور درسی کتب کےحوالے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ جو کچھ کہا جارہا ہے، وہ محض پروپیگنڈہ ہے، جب کہ وزیر اعظم صاحب سے ۱۶؍ اگست ۲۰۲۱ء کو ایک تقریب میں ’یکساں قومی نصاب‘ ’نافذ‘بھی کروا دیا گیا ہے۔
کہا یہ جارہا ہے کہ ’’ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سکول کی سطح پر ناظرہ قرآن اور ترجمۂ قرآن نصاب میں لازمی قرار دیا گیا ہے‘‘، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ناظرہ قرآن کی لازمی تعلیم جنرل محمد ایوب خان کے دورِ حکومت (۱۹۵۸ء-۱۹۶۹ء) میں ۱۹۶۰ء کے دوران نافذ کی گئی تھی۔ پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن لازمی تھا۔ ایوب حکومت نے گرمیوں کی تعطیلات میں تین سال تک تمام پرائمری اساتذہ کی قریبی دینی مدارس میں قراءت وتجوید کی تربیت کرائی، اسکولوں میں ۲۰ منٹ کازیر و پیریڈ ٹائم ٹیبل میں شامل کیا گیا، اور اساتذہ کے تربیتی اداروں میں امیدواران کے لیے ناظرہ قرآن میں قابلیت داخلے کے لیے لازمی قرار دی گئی۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں اساتذہ کے تربیتی اداروں میں قرآن کی تعلیم کے لیے باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا۔
نواز شریف صاحب کی حکومت نے ۱۹۹۸ء میں بارھویں جماعت تک ترجمۂ قرآن ایک انتظامی حکم کے ذریعے لازمی قرار دیا اور اس کے نفاذ کے لیے وزیر اعظم کے دفتر میں ایک سیل قائم کیا، جس کے انچارج میجر جنرل سکندر حیات اور جسٹس ریٹائرڈ عبد الحفیظ چیمہ صاحب تھے۔ ۱۹۹۹ء میں نواز حکومت ختم ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ رُوبہ عمل نہ آسکا۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ۲۰۱۷ء میں پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کرایا، جس کے مطابق پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن اور بارھویں جماعت تک ترجمۂ قرآن لازمی قرار دیا گیا۔ درحقیقت ناظرہ قرآن ۱۹۶۰ء سے اسکولوں میں لازمی ہے اور ترجمۂ قرآن پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت مسلم لیگ (ن) نے لازمی قرار دیا تھا۔ مراد یہ ہے کہ یہ کام ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ ویسے بھی قرآن کی تعلیم آئین کے آرٹیکل ۳۱ کے مطابق تمام مسلمان شہریوں کے لیے لازمی ہے۔
تدریس القرآن کے معاملے میں مسلسل کوتاہی یہ ہورہی ہے کہ ہر روز زیرو پریڈ کے بجائے ہفتے میں تین پیریڈ کر دیے گئے ہیں، نیز قرآن کی تدریس کے لیے کوئی اضافی استاد نہیں دیا جارہا اور نہ موجود اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام کیا گیا ہے۔
فرق صرف یہ پڑا ہے کہ سیکولر لابی کی کوششیں آگے بڑھی ہیں۔ اسلامیات کے مضامین کو ایک طرف رکھتے ہوئے باقی مضامین میں سے اسلامی مواد کافی حد تک نکال دیا گیا ہے۔ حمد اور نعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اردو یا انگریزی کی درسی کتابوں میں جو ایک آدھ مضمون باقی رہ گیا ہے، اس کے خلاف بھی سیکولر لبرل لابی متحرک ہے۔ اسلامیات کا نصاب بھی ان کا ہدف ہے حالانکہ یہ وہی نصاب ہے، جو ۲۰۰۶ء سے حالیہ تعلیمی سیشن تک تمام صوبوں میں رائج تھا۔ سیکولر لابی کا یہ کہنا ہے کہ ’’اسلامیات کا موجودہ نصاب تو مذہبی اداروں کے اسلامی نصاب سے بھی زیادہ ہے‘‘ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور اپنی جگہ ناقص اور ادھورا ہے۔
اقلیتوں کے نام نہاد نمایندے، یو ایس کمیشن برائے انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم کی پشت پناہی سے اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کی سرپرستی میں درسی کتب سے اسلامی مواد کے اخراج کے لیے شوروغوغا کرتے رہے ہیں اور کامیاب بھی رہے ہیں۔ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۹ء تک درسی کتب سے ۷۰ اسلامی تصورات خارج کرائے گئے اور باقی جو بچا ہے اس کے اخراج کے لیے کوشش جاری ہے۔ حتیٰ کہ اس سلسلے کا ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ’’درسی کتب میں اسلامی مواد کا ہونا اقلیتوں کے حقوق کی نفی ہے لہٰذا اسے خارج کیا جائے ‘‘۔
ایک اورفرق یہ پڑا ہے کہ نصاب اور درسی کتب میں سے اسلامی اقدار (اگر کہیں تھیں) کو ختم کرکے ہیومنزم (Humanism)کی سیکولر اقدار کو نصاب اور درسی مواد کے تانے بانے میں شامل کر نے کا راستہ نکالا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے برطانیہ کی ایک انٹر نیشنل این جی او واٹرایڈ (Water Aid) کی مدد لی گئی ہے، جو صاف پانی مہیا کرتی ہے۔ اس این جی او نے اپنی سرمایہ کاری اور تکنیکی معاونت سے ہماری وفاقی وزارتِ تعلیم کو ’ویلیوز ایجوکیشن‘ (اقدار کی تعلیم)کے نام سے پہلی سے بارھویں تک نصاب بنا کر دیا ہے، جس کی بنیاد ہیومنزم کی سیکولر اقدار ہیں۔ ان ’اقدار‘ کا مقصد اسلامی اقدار کی ’آلودگی‘ (خاکم بدہن) سے ’صاف‘ نصاب اور درسی کتب پاکستانی بچوں کو فراہم کرنا ہے۔ چونکہ ’یکساں نصابِ تعلیم‘ کے لیے ٹریننگ کا مواد آغا خان یونی ورسٹی سے بنوایا گیا ہے اور امریکا نے بھی اساتذہ کو بڑی تعداد میں امریکا بلا کر ٹریننگ کا اہتمام کیا ہے، اس لیے ’واٹرایڈ‘ کی کوشش شاید کامیاب ہوجائے۔
نیشنل کریکولم کونسل ایسے ہی سیکولر لبرل لوگوں کا گڑھ ہے، جہاں پر ٹیکنیکل ایڈوائزر اور کنسلٹنٹس (Consultants) کے نام پر لبرل سیکولر لوگ بھرے گئے ہیں۔ اور وہ اندر کی خبریں دے کر اخباروں میں زہر یلے مضامین لکھواتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام دوست اساتذہ اور ماہرین تعلیم کو نکّوبنادیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ملکِ عزیز کی بیش تر دینی جماعتوں کی ترجیح میں تعلیم جیسا بنیادی مسئلہ شامل نظر نہیں آتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم جو کسی بھی قوم کی شہ رگ ہوتی ہے، وہ بتدریج دشمنوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔
’یکساں نصابِ تعلیم‘ کے حوالے سے دعوے کیے جارہے ہیں کہ ’’اس سے طالب علموں میں تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیتیں اور عملی کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اس نصاب کے پڑھنے سے برداشت، رواداری اور مل جل کر رہنے کی سوچ پروان چڑھے گی‘‘۔ یہ سب دھوکا دینے والی سیکولر اصطلاحات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا درسی مواد ، تدریسی حکمت عملی اور سکولوں کا ماحول ان دعوؤں کو مدد فراہم کرے گا اور کیا اساتذہ کرام ان دعوؤں کے حصول کے لیے کام کرسکیںگے؟ یہ بھی نہیں بتایا جارہا کہ جب یہی نصاب ۲۰۰۶ء سے نافذ ہے تو اس نصاب کے ذریعے انھی اساتذہ کے ہاتھوں پہلے کیوں تعلیمی معیار بلند نہیں ہوا؟
ماہرین تعلیم اور اساتذہ کی مخالفت کے باوجود ریاضی اور سائنس کے لیے ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی رکھا گیا ہے،جب کہ سرکاری پرائمری سکولوں اور گلی محلے میں کھلے پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ میں انگریزی میں پڑھانے کی استعداد نہیں ہے۔ پھر جو تربیت ِاساتذہ کے پروگرام کیے گئے ہیں، ان میں درسی مواد کا لحاظ رکھے بغیر عمومی تدریسی تربیت دی گئی ہے اور وہ بھی آن لائن۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ اس ٹریننگ سے بالکل مطمئن نہیں ہیں اور نہ وہ ریاضی اور سائنس کو انگریزی میں پڑھانے کے لیے اپنے آپ کو اہل پاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طلبہ کی عظیم اکثریت ریاضی اور سائنس میں پس ماندہ رہ جائے گی۔
فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان میں چوٹی کے سائنس دان، جن میں ایٹمی ماہرین، ماہرین زراعت، جنیٹک انجینئرنگ کے ماہرین، میڈیکل سائنسز کے مایہ ناز معالجین، یونی ورسٹیوں کے ذہین ترین محققین وغیرہ سبھی اُردو میڈیم اسکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں۔ انگلش میڈیم اسکولوں کے پڑھے ہوئے بیوروکریٹ اور جرنیل تو شاید چند ایک ہوں، لیکن کوئی ایک بھی نامور سائنس دان انگریزی میڈیم کا دکھائی نہیں دیتا۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ’یکساں نصابِ تعلیم‘ اس دھوکے میں سائنس اور ریاضی کی درسی کتب انگریزی میں کیوں رکھی گئی ہیں؟ انگلش میڈیم کے اس فیصلے سے طبقہ واریت بڑھے گی۔
محترم وفاقی وزیر تعلیم، پرائیویٹ اسکولوں کی لابی کو مطمئن کرنے میں سرگرم ہیں، جب کہ پرائیویٹ سکول سرکاری نصاب اور سرکاری درسی کتب رائج کرنے سے انکاری ہیں۔ حکومت سے استدعا ہے کہ وہ اپنے غلط اور یک طرفہ فیصلوں پر نظر ثانی کرے اور قومی تعلیم کے نظام کو مزید خراب نہ کرے۔ ان اقدامات سے معیارِ تعلیم گرے گا اور تعلیمی اداروں میں انتشار بڑھے گا۔
مغرب میں سوشل میڈیا خصوصاًفیس بک میاں بیوی میں علیحدگی اور طلاق کا بڑاسبب بن چکا ہے۔ یہ خلاصہ ہے حال ہی میں سامنے آنے والی ان تحقیقاتی رپورٹس کا، جنھیں طلاق کے معاملات پر خدمات انجام دینے والے وکلا کی امریکی اکیڈمی نے جاری کیا ہے۔ دوسری ایسی ہی رپورٹ اخبار دی انڈی پنڈنٹ ، لندن نے اطالوی بار ایسوسی ایشن کے حوالے سے نشر کی ہے۔
اطالوی بار ایسوسی ایشن کے صدر جیان ایٹوری کے بقول: بے وفائی کا آغاز عموماً فیس بک کے معمولی برقی پیغامات سے ہوتا ہے۔ پھر تعلق بڑھتا ہے تو بات واٹس ایپ تک چلی جاتی ہے جہاں طرفین میں تصاویر کا تبادلہ ہوتا ہے اور انجام کارخیانت کاری۔
جامعہ ملک سعود کے پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالعزیز شریم لکھتے ہیں: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپس ہر ایسے فرد کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں جو اپنی زندگی کی باگیں ان کے سپرد کردیتا ہے۔ یہ اسے اس کی شریکِ حیات ( اور امور خانہ داری میں شرکت اور ان کے اہتمام) سے غافل کر دیتی ہیں۔ بالخصوص جب کوئی ان کا عادی ہو جائے اوران میں مگن ہوکربہت سا وہ وقت بھی ان پر صرف کرنے لگے جو اسے اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ گزارنا تھا ۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھریلو ناچاقی کے دوران یا آپس میں تبادلۂ خیال اور بات چیت میں مشکلات کے سبب زوجین میں سےایک اسے دوسرے فریق سے دُور رہنے اور وقت گزاری کے لیے زیادہ استعمال کرنے لگتا ہے ۔یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے خانگی مسائل حل ہونے ،سلجھنے اور زوجین میں قربتیں بڑھنے کے بجائے باہمی فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
امریکا اور اٹلی کے علاوہ برطانیہ کی ویب سائٹ ’ڈائیورس آن لائن‘ کے مطابق ۲۰۱۱ء کے دوران ’فیس بک‘ ان ممالک میں واقع ہونے والی ایک تہائی طلاقوں کا سبب بنا۔
مصر کی حلوان یونی ورسٹی میں فیکلٹی آف سوشل ورک اور انفرادی خدمات کے سربراہ عبدالناصر نصیحت کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال کم سے کم وقت کے لیے کیا جائے۔ اس لیے کہ اس کا حد سے زیادہ استعمال میاں بیوی کے درمیان عدم اطمینان کو جنم دیتا ہے جس کے نتیجہ میں خانگی مشکلات بڑھتی ہیں اور پھر طلاق کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔
خانگی امور کی ماہر تہانی الشرونی کہتی ہیں:خاندانی ناچاقیوں کی جن مشکلات سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے وہ عجیب و غریب اور تضادسے بھرپور ہیں۔ جب زوجین میں سے کوئی ایک انٹرنیٹ کی دنیا کے نامعلوم ماحول میںغیر لوگوں کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتا ہے تو اس کی یہ حرکت پاکیزہ،پُرسکون اور خوب صورت عائلی زندگی کے شفاف چشمہ کو آلودہ کر دیتی ہے۔
الشرونی مزید بتاتی ہیں کہ جس بات کا حقیقی زندگی میں زبان پر لانا مشکل تھا، اب موبائلز کے بٹن اور سکرین کے ٹچ سے وہ سب بہت آسان ہوگیا ہے۔کمپیوٹر اور موبائل کی سکرین کے پیچھے لوگ بے باک اور بے شرم ہوجاتے ہیں۔اس فرضی دنیا میں پہنچ کر وہ اپنی متوازن اور حدود و قیود کی پابند شخصیت کا چولا اتار پھینکتے ہیں۔میں نے ایسی بہت سی خانگی مشکلات کو سلجھایا ہے جہاں بیوی نے کسی نامعلوم شخص کے سٹیٹس پر لائیک کیا تھا اور شوہر نے برداشت نہیں کیا، یا شوہر نے کسی لڑکی کی تصویر پر مزاحیہ کمنٹس دیے تھے جس پر بیوی غصہ سے آگ بگولہ ہوگئیں ۔ان میڈیا پلیٹ فارمز کے چیٹنگ فیچرز کو بھی ہلکا نہیں لینا چاہیے، اس لیے کہ چیٹنگ اکثر و بیش تر خرابی کی ابتدا بن جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ زوجین ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھیں اور معمولی سے شک و شبہہ اور ایک دوسرے کی ذات پر کسی قسم کی بد اعتمادی کو ہر گزسر اٹھانے کا موقع نہ دیں۔ ایسے اقدامات مسلسل کرتے رہیں جن سے باہمی اعتماد کو بڑھاوا ملے۔یاد رکھیں یہ اس وقت تک عملاً ممکن ہی نہیں ہے جب تک ہم اپنی زندگی میں سوشل میڈیا کی اہمیت کواور اس پر صرف ہونے والے اپنے قیمتی وقت کو کم سے کم نہ کردیں۔ علاوہ ازیں فیس بک، واٹس ایپ ،ٹک ٹاک وغیرہ استعمال کرتے ہوئے شریعت کے ضابطوں اور حیاء کی حدود و قیود کی سختی سے پابندی اپنے اُوپر لازم نہ کرلیں۔
مغربی معاشروں نے باوجود اس کے کہ وہاں خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے سوشل میڈیا کے خطرے کی سنگینی کو اچھی طرح محسوس کرلیا ہے ۔ مشہور امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر فیل (Phill) اپنے پروگرام میں کہتے ہیں کہ فیس بک دو دھاری تلوار ہے۔ اس نے خانگی تعلقات کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ وہ اپنے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’فرضی دوستوں سے نہیں، جیتے جاگتے زندہ افراد سے تعلق بنائے رکھنے کو از سر نو بحال کریں ‘‘۔
شیخ مطیری نصیحت کرتے ہیں کہ خانگی زندگی میں کسی حادثے سے بچنے کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت خوف خدا کو ہمیشہ پیش نظر رکھناچاہیے ۔ یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہرلحظہ اور ہر آن نگرانی کررہی ہے ۔ پھر جب بھی انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کر نا ہو تو آپ کا کوئی واضح مقصد اور ہدف ہونا چاہیے اور آپ کا طرزِ عمل بھی حدودِ شریعت کا پابند ہو ۔
مطیری صاحب سوشل میڈیا پر کام کرنے والوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ شبہہ میں ڈالنے والی چیزوں سے دُور رہیں اور کوئی ایسا در نہ کھولیں جو آپ کو اللہ تعالی کی معصیت کے فتنہ میں مبتلا کردے۔کسی کے ذاتی اور شخصی مسائل میں دل چسپی لینے سے اجتناب کیجیے بالخصوص خواتین کو سوشل میڈیا پر کوئی رد عمل یا لائیک ’پسندیدگی‘ وغیرہ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح انھیں سوشل میڈیا کی کسی بحث میں تبصرے دینے سے بھی احتراز کرنا چاہیے ، خصوصاً گفتگو اور صوتی پیغام کے ذریعے جواب دینے سے بچیں۔ اگر کبھی ضرورت پڑے بھی تو گفتگو میں نرمی ہر گز نہ ہو، الفاظ واضح ہوں اور لہجہ پُراعتماد ۔ تاہم، دل میں صنفِ مخالف کی طرف میلان آئے تو گفتگو کا سلسلہ فوراً ختم کردیں۔
ہمارے نظام تربیت پر اثر انداز ہونے والا اہم ترین عامل والدین کا سوشل میڈیا ایپس میں کھوکر اپنے فرائضِ تربیت سے غافل ہوجانا ہے۔ بچوں کی تربیت والدین کا فرض تھا ۔انھیں نصیحت کرنا، ان کی ٹھیک رہنمائی کرنا۔ دوسری طرف اولاد بھی سوشل میڈیا میں کھوکر والدین کی فرماں برداری اور اطاعت سے منہ موڑ تی جارہی ہے ۔
ڈاکٹر شریم کہتے ہیں کہ باہم جسمانی طور پر ایک جگہ موجود ہونے کے باوجود ان چیزوں نے ایک دوسرے سے بہت دُور کردیا ہے خصوصاً بزرگ افراد کو جیسے دادا دادی، نانا نانی وغیرہ ۔ بڑے بوڑھوں کی تنہائی اور عزیزوں سے دُوری کا احساس اس وقت اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے، جب ملنے کے لیے آنے والے ،ان سے گفتگو کرنے اور ان کی مزاج پُرسی کی بجائے اپنے اپنے موبائلوں میں لگے رہتے ہیں ۔
مزید کہتے ہیں کہ بچے اگر موبائلز اور نیٹ کے عادی ہوجائیں تو خاندانی تقریبات اور عزیزوں اور رشتہ داروں سے میل ملاقات میں انھیں بوریت ہونے لگتی ہے۔وہ عزیزوں سے گھلنے ملنے، بات چیت کرنے اور حال احوال دریافت کرنے، ان کی ذات، شخصیت اور دل چسپیوں کو جاننے کی بہ نسبت موبائلز میں اپنا زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ یوں عزیزوں کی مجلس میں جسمانی طور پر موجودگی کے باوجود ان سے فاصلے پر رہتے ہیں ۔
تاہم، مشکل وہاں پیش آتی ہے جہاں ہم ترجیحات کی ترتیب صحیح نہیں رکھ پاتے اورایسے افراد کا تعین ہم سے نہیں ہوپاتا کہ کن سے ہمیں بس فون پر ہیلو ہائے رکھنی ہے اور کن کے ہاں جانا اور ملاقات ضروری ہے۔ آپ اس فرد کی کیفیت کا تصور کریں جو عید کی رات اپنے موبائل کی لمبی رابطہ لسٹ دیکھتا ہے۔ کتنی بڑی مصیبت ہوتی ہے اس کے لیے یہ تعین کرنا کہ کس کس کو فون کرنا ہے، اورکس کس سے ملاقات ؟اور پھر اب لوگوں میں وہ حساسیت نہیں رہی کہ معاشرتی تعلقات کتنے ضروری ہیں خصوصاً ذاتی انفرادی تعلق جو صرف رُوبرو ملاقات سے ہی ممکن ہوپاتا ہے ۔
مسلمانوں میں عید اور دیگر اجتماعی اور معاشرتی تقریبات میں شامل ہونے کے حوالے سے جو سرد مہری آئی ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے مبارک باد دینے کے زیادہ گرم جوش اور محبت بھرے انداز آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں ۔ماضی قریب میں کسی عزیز یا دوست کو مبارک باد دینا ہوتی تو اس کے گھر جاکر ملاقات ضروری ہوا کرتی تھی تاکہ خوشی کا بھر پور اظہار ہو اور اس فرد سے ہمیں کتنی محبت اور تعلق ہے وہ ظاہر ہوسکے ۔اب صرف ’مسیج‘ (پیغام) رہ گئے ہیں، جنھوں نے خوشی سے دمکتے ہمارےچہروں کو چھپالیا ہے ۔ خوشی اور محبت کے اظہار کے لیے موبائل فون ، ای میلز پر کارٹونک تصویروں اور ایموجیز نے لے لی ہے۔ ان الیکٹرک پیغامات نے فرد سے انفرادی تعلق، اس کے لیے اہتمام اور شخصی توجہ بھی چھین لی ہے، جو سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ایک کلک پر کانٹیکٹ اور فرینڈ لسٹ میں موجود تمام لوگوں کو بیک وقت بھیج دیئے جاتے ہیں۔ مبارکباد دینے کے ان مصنوعی طریقوں کو تدریجاً چھوڑ کر ایک قدم واپس پلٹنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک دوسرے سے محبت ،تعلقِ خاطر، احترام اور لطف و عنایت باقی رکھ سکیں ۔
ڈاکٹر شریم اس رویے کے بارے میں کہتے ہیں کہ تجاویزدینا ان پر عمل کرنے کی بہ نسبت بہت زیادہ آسان ہے ۔اور یہ طرزِ عمل خواتین کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ گھر کے مرد بھی بغیر جانے بوجھے اس بے عملی کا شکار ہیں۔ بڑے بڑے تخصصات اور اسپیشلائزیشن کے حامل افراد بھی دوسروں کو جو نصیحت کررہے ہوتے ہیں اس پر خود عمل کی توفیق سے محروم رہتے ہیں ۔ بڑا ہونے کے ناطے شوہر کے لیے مناسب طرزِ عمل یہی ہے کہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرے اور نت نئے انداز سے ان تجاویز کو عمل کی دنیا میں لانے کی کوشش کرے ۔ ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افراد خانہ کا اجتماع ہو۔ اس میں خاتون خانہ کی ساری تجاویز سنی جائیں اور جو تجاویز مستحسن ہوں، ان پر خراجِ تحسین پیش کیا جائے اور جہاں غلطی ہورہی ہے اس کی اصلاح کے لیے متبادل قابلِ عمل پلان ترتیب دیا جائے اوراولاد کی تربیت اور امور خانہ داری چلانے کے لیے متبادل تجاویز دی جائیں ۔
اس میں شک نہیں کہ سمارٹ موبائل نے فیملی ممبران کے رابطے رکھنے کے انداز کو متاثر کیا ہے اور بہت سرسری بنادیا ہے۔ اب ایسے رابطے چوبیس گھنٹے اور سال بھر رہتے ہیں۔
تاہم، ٹین ایج ایک ایسی عمر ہے جس میں بچہ بڑی بڑی نفسیاتی تبدیلیوں سے گزر رہا ہوتا ہے ۔فیس بک اور سوشل میڈیا کا استعمال اسے اپنے والد اور فیملی کے دیگر ممبران سے دُور کرکے ایسے نامعلوم دوستوں کی طرف زیادہ مائل کرسکتاہے، جن سے وہ کبھی ملا ہی نہ ہو یا روزانہ ملنے والے دوستوں کی طرف بھی اس کا میلان زیادہ ہوسکتا ہے ۔ بہر حال، ہونا یہ چاہیے کہ سماجی رابطوں کے یہ ذرائع ہمارے ہاتھوں میں اس طرح رہیں کہ ہم انھیں استعمال کریں نہ کہ وہ ہمیں ۔ہم ان کے مالک ہوں نہ کہ وہ ہمارے ۔ہم ان سے حسب ضرورت فائدہ اٹھانے والے ہوں نہ کہ وہ ہمیں دنیا بھر کے ایام منانے پر مجبور کریں، مثلاً بلیک فرائیڈے اور ویلنٹائن ڈے وغیرہ۔
انتہائی غبی ہوگا وہ فرد، جو اپنے گھر والوں اور ان حقیقی دوستوں کو جو عملی زندگی کے ہر بحران میں، اس کے ہر دکھ درد اور تکلیف میں اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ان وہمی دوستوں پر قربان کردے،جو اسے کچھ دے نہیں سکتے سوائے چند فیس بک لائکس کے ۔(مجلّہ البیان، عدد۳۴۱)
اجتماعی زندگی میں کام کرنے اور اپنےدفتر میں کام لینے کے لیے اور دیگر افراد کے ساتھ مل کر کام کی خاطر چند خوبیاں درکار ہیں۔ اس سلسلے میں ان باتوں کی طرف توجہ دیجیے:
بعض اوقات جس چوراہے پر یا جس گلی میں ٹریفک جام ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں آپ خود ہی مسئلے کا ایک حل نکالتے ہیں اور قربانی دیتے ہوئے اپنی گاڑی کو پیچھے کرتے ہیں۔ آپ کو دیکھتے ہوئے دوسرے لوگ بھی یہ قربانی دیتے ہیں اور بالآخر سب کے لیے راستہ کھل جاتا ہے۔ ریورس گیئر گاڑی کا ایک سسٹم ہے۔ ضرورت کے وقت اس کو لگانے سے گاڑی کی قیمت کم نہیں ہوتی، بلکہ گاڑی کی قدر بڑھتی ہے۔ گاڑی چلانے والے کو لوگ مسکرا کر اور ہاتھ ہلا ہلا کر شکریہ ادا کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات سہولت اور آسانی اور کشادگی کے لیے اس چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
حسن جعفر زیدی، علامہ اقبال کو ’خالق تصور پاکستان‘ کہے جانے پر بھی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ بقول ان کے، ’’ اقبال نے نہ تو اپنی کسی تحریر میں لفظ پاکستان استعمال کیا اور اگر کسی نے یہ تاثر دینا چاہا تو اقبال نے اس کی سختی سے تردید کی‘‘۔ جہاں تک پہلی بات ہے، وہ تو بالکل درست ہے کہ اقبال نے شمال مغربی ہندستان میں ایک مسلم ریاست کے قیام کی بات تو کی ،لیکن اس ریاست کے لیے کوئی نام تجویز نہیں کیا، لیکن جب اقبال کے تصور سے ملتی جلتی ایک ریاست وجود میں آ گئی اور اس کا نام پاکستان رکھا گیا، تو کیا اس سے صاف انکار کر دیا جائے گا کہ اس ریاست کے قیام میں اقبال کا کچھ حصہ نہ تھا؟
اس حوالے سے ہمیں اقبال کے قائد اعظم کے نام خطوط کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جن میں انھوں نے کھل کر اپنے تصورات کا اظہار کرتے ہوئے ہندستان کے مسلمانوں کی سیاسی سمت کا تعین کیا۔ اقبال نے ۲۰مارچ ۱۹۳۷ءکو قائداعظم کے نام خط میں لکھا:
I suppose you have read Pandit Jawaharlal Nehru's address to the All India National Convention and that you fully realize the policy under lying it in so far as Indian Muslims are concerned. I believe you are also aware that the new constitution has at least brought a unique opportunity to Indian Muslims for self organization in view of the future political development both in India and Muslim Asia. While we are ready to co-operate with other progressive parties in the country, we must not ignore the fact that the whole future of Islam as a moral and political force in Asia rests very largely on a complete organization of Indian Muslims. I therefore suggest that an effective reply should be given to the All India National Convention (p29).
میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ ملاحظہ فرما لیا ہوگا، جو انھوں نے کُل ہند نیشنل کنونشن میں دیا اور اس میں اسلامیانِ ہند کے بارے میں جس حکمت عملی کا اعلان کیا گیا ہے اس کو بھی آپ نے بخوبی محسوس کیا ہوگا۔ مجھے یقین ہے، آپ اس بات سے بھی آگاہ ہوں گے کہ نئے آئین نے ہند کے مسلمانوں کو کم از کم اس امر کا ایک نادر موقع ضرور دیا ہے کہ وہ ہند اور مسلم ایشیا میں رُونما ہونے والے سیاسی حالات کے پیش نظر اپنی ملّی تنظیم کرسکیں۔ بلاشبہہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ اشتراک و تعاون کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک خود ہند کے مسلمانوں کی مکمل قومی تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری رائے ہے کہ کُل ہند نیشنل کنونشن کو ایک مؤثر جواب دینا بے حد ضروری ہے۔(پاکستان: تصور سے حقیقت تک، تالیف و ترجمہ: پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ، بزمِ اقبال، ص ۳۱-۳۲)
اسی طرح علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام اپنے ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں تحریر کیا:
After a long and careful study of Islamic law, I have come to the conclusion that, if this system of law is properly understood and applied, at least the right to subsistence in served to everybody. But the enforcement of the shariat of Islam is impossible in this country without a free Muslim state or states. This has been my true conviction for many years and I still believe this to be the only way to solve the problem of bread for Muslims and as well as secure a peaceful India (p32).
اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہرشخص کے لیے کم از کم حقِ معاش محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔(ایضاً، ص۳۴-۳۵)
قائداعظم کا اقبال کو خراجِ تحسین
قائد اعظم محمد علی جناح نے اقبال کے خطوط کے جواب میں جو کچھ تحریر کیا، وہ بدقسمتی سے دستیاب نہیں۔ یہ خطوط پہلی بار قائد اعظم کی زندگی میں اور ان کے Forward (پیش لفظ) کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔ قائد اعظم نے ان خطوط کی اہمیت اور علامہ اقبال کے ساتھ اپنے ذہنی و فکری روابط کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا :
Hence, I had no alternative but to publish the letters without my replies as I think these letters are of very great historical importance, particularly those which explain his (Iqbal) views in clear and unambiguous terms on the political future of Muslim India. His view were substantially in consonance with my own and had finally led me to the same conclusions as a result of careful examination and study of the constitutional problems facing India and found expression in due course in the united will of Muslim India as adumbrated in the Lahore resolution of the all India Muslim League. Popularly known as the "Pakistan Resolution" passed on 23 March, 1940.
چنانچہ اب میرے پاس اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں کہ میں ان مکاتیب کو اپنے جوابات کے بغیر ہی شائع کرائوں، کیونکہ میرے نزدیک یہ مکاتیب بے حد تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، بالخصوص وہ مکاتیب جن میں مسلم ہند کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات کا واضح اور غیرمبہم اظہار ہے۔ ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اور بالآخر میں ہند کے دستوری مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انھی نتائج پر پہنچا، اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہند کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی منظور کردہ قرارداد لاہور ہے جو عام طور پر ’قراردادِ پاکستان‘ کے نام سے موسوم ہے۔(ایضاً،ص ۳۱)
مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم ہندستان کے مسلمانوں کے مسائل کا حل ایک الگ ریاست میں دیکھ رہے تھے اور کم از کم اقبال واضح طور پر اس میں Islamic Law کا نفاذ چاہتے تھے اور قائد اعظم نے بھی اپنے ’پیش لفظ‘ میں اس سے کہیں اختلاف نہیںکیا۔
حسن زیدی، اقبال کے خالق تصور پاکستان ہونے کے رد میں یہ دلیل لاتے ہیں کہ اقبال کی وفات کے بعد، جب کُل ہند مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو اس کی صدارت کرتے ہوئے قائداعظم نے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا،لیکن ان کے اس پہلو کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ اس حوالے سے انھوں نے قائد اعظم کا جو اقتباس درج کیا ہے، وہ بالکل درست ہے، مگر کاش! وہ اس سے آگے نکل کر ۲۰مارچ ۱۹۴۳ء کے یوم اقبال پر جناح کے پیغام کا بھی مطالعہ کر لیتے، قائد اعظم لکھتے ہیں :
Iqbal was not only philosopher but also a practical politician. He was one of the first to conceive of entire feasibility of the division of India on national lines as the only solution of India's political problem. He was one of the most powerful though tacit precursors and heralds of the modem practical evolution of Muslim India.
Iqbal, therefore, rises above the average philosopher, as the essence of his teachings in a beautiful blend of thought and action. He combines in himself the idealism of a poet and the realism of a man who took practical view of things. In Iqbal this compromise is essentially Islamic. In fact it is nothing but Islam. His ideal therefore is life according to the teachings of Islam with a motto "Dare and Live" (Speeches, Statements & Message of the Quaid-e-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol. III, p1683-84).
اقبال محض فلسفی نہیں تھے بلکہ وہ ایک عملی سیاست دان بھی تھے۔ انھیں ان لوگوں میں اوّلیت کا مقام حاصل ہے جنھوں نے قومی بنیادوں پر ہند کے سیاسی مسئلے کا واحد قابلِ عمل حل تقسیم تجویز کیا۔ وہ مسلم ہند کے جدید سیاسی ارتقاء کے سلسلے میں ایک طاقت ور ترین مگر خاموش نقیب تھے۔ لہٰذا ،اقبال کا مقام عام فلسفیوں سے بہت بلند ہے، کیونکہ ان کے پیغام کی روح میں تخیل اور عمل دونوں کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی ذات میں ایک شاعر کا تخیل اور ایک باعمل انسان کی حقیقت پسندی کا ایسا ملاپ ہے جو مسائل حیات کے بارے میں عملی نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ اقبال میں یہ مفاہمت یقینی طورپر اسلامی ودیعت ہے۔ حقیقت میں یہ اسلام کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ اس لیے ان کا نظریۂ حیات اسلام کی تعلیمات کے مطابق یہ ہے: ’’جیو اور بے خطر جیو!‘‘(ایضاً، ص ۴۵-۴۶)
مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہو جاتا ہے کہ خود قائد اعظم ہندستان میں مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد میں اقبال کی فکر کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کے نظریات میں تبدیلی اور اسلام کی جانب جھکاؤ کے پس پردہ بھی اقبال کی فکر کارفرماتھی ۔ اب ایسی صورت حال میں ایک نئی مسلم ریاست یا ریاستوں کے قیام کے تصور کے حوالے سے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ،تو وہ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ ہاں، اگر اعتراض صرف یہ ہے کہ قائداعظم نے علامہ اقبال کے لیے خالق تصور پاکستان کے الفاظ کیوں استعمال نہیں کیے، تو اسے صرف کج فہمی اور بحث برائے بحث کہا جا سکتا ہے۔
یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے ایک سیکولر کالم نگار وجاہت مسعود کے سلسلہ وار کالم بعنوان ’قرار داد مقاصد اور سیکولرازم‘ پر ایک نظر ڈالی جائے۔ (روزنامہ آج کل ، مارچ - اپریل ۲۰۱۰ء)
موصوف کا نقطۂ نظر یہ ہے: ’قرار داد نہ صرف جمہوری اصولوں کے منافی ہے، بلکہ یہ پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے اہم لوگوں بالخصوص قائد اعظم کے افکار سے بھی متصادم ہے‘۔ پھر یہ کہ: ’جناح کا نصب العین ایک جدید جمہوری ریاست تھی اور قرارداد مقاصد لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی کاوشوں کا نتیجہ تھی‘۔ وہ مولانا شبیر احمد عثمانی پر کئی ایک اعتراضات کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’مولانا ریاست حیدر آباد دکن کے وظیفہ خوار تھے‘۔ یہاں پر کالم نگار سے یہ سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ متحدہ ہندستان میں رہنے والے فرد کے لیے اگر یہ بات باعث الزام ہے کہ کسی ریاست کا وظیفہ لے تو آج پاکستان میں این جی اوز کے زیر سایہ پرورش پانے والے ان دانش وروں کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے، جن کی زندگی کی ساری چکا چوند غیر ممالک سے ملنے والے عطیات (donations )کی مرہون منت ہے؟ یاد رہے کہ امیرملکوں کے وہ ادارے، جو پاکستان جیسے ملکوں میں این جی اوز کو رقوم فراہم کرتے ہیں Donors کہلاتے ہیں، یعنی ’عطیہ اور بخششیں دینے والے‘۔
جہاں تک قائد اعظم کے اس بیان کا تعلق ہے کہ وہ تھیوکریسی یا تھیوکریٹک اسٹیٹ نہیں چاہتے تھے، تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیںہے۔ بذاتِ خود اسلام میں تھیوکریسی کی کوئی گنجایش نہیں ہے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیکولر قسم کے دانش ور، چوں کہ مغربی طرزِ فکرکے قائل ہیں اور اسی کو طرزِ حیات کا افضل ماڈل تصورکرتے ہیں، اس لیےوہ اسلامی تصورات اور اداروں کو بھی مغربی اداروں اور مغربی تصورات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں ۔پاکستان کو جب اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بنانے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب اسلامی قوانین اور اصولوں کی بالادستی ہوتا ہے، بحیثیت فرد یا بحیثیت ادارہ مولوی کی بالا دستی نہیں۔ اسلام اپنے پیروکار سے مذہب کی تفہیم کا مطالبہ کرتا ہےاور چودہ سو سال سے زیادہ کی تاریخ میں ہمیں ایک بھی تھیوکریٹک ریاست کی مثال نہیں ملتی ،مگر مذہب اسلام لوگوں کی زندگیوں میں اور اجتماعی زندگیوں میں رائج رہا ہے۔ جہاں جہاں حکمرانوں نے اسلامی تصورات سے رُو گردانی کرنے کی کوشش کی ہے، انھیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
آگے چل کر خود یہی کالم نگار تسلیم کرتے ہیں :’’مسلم لیگ ایک خاص مذہبی شناخت رکھنے والی جماعت تھی، چنانچہ قائداعظم کی جانب سے مسلم لیگ کے اجتماعات میں اسلامی عقائد، مسلم ثقافت اور مسلم تاریخ کے روشن پہلوؤں کا ذکر اچنبھے کی بات نہیں‘‘___ ہمارے نزدیک حیرت کی بات ہے کہ خاص مذہبی شناخت رکھنے والی جماعت کے سربراہ کے طور پر، مذہب کی بنیاد پہ ایک الگ وطن کے لیے جدوجہد کرنے والے قائداعظم حاصل ہونے والے ملک کو سیکولر بنانا چاہتے تھے! قائد اعظم نے پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا، وہ اسلام کے مذہبی رواداری کے اصول کے عین مطابق تھا۔
یہاں ایک نظر قائد اعظم کی ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر پر ڈال لی جائے۔ اس تقریر کو اکثر قائداعظم کے سیکولر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس تقریر کا پورا متن موجود ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان کے حوالے سے ایک بار بھی ’سیکولر ریاست‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ پاکستان میں بسنے والے افراد کے مساوی حقوق کی بات ضرور کی ہے اور درست کی ہے۔ یہاں انھی کالم نگار نے ایک اور نکتہ اٹھایا ہے، جس پر بات کرنا ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
ایک اہم زاویہ یہ ہے کہ اپنی تقریر میں قائد اعظم نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے ’کمیونٹی‘ کا لفظ استعمال کیا۔ انھوں نے پاکستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ’نیشن‘ قرار نہیں دیا، کیوںکہ پاکستان بننے کے بعد قوم کا رتبہ پاکستان کو حاصل تھا۔ (آج کل، ۷مارچ۲۰۱۰ء،لاہور)
آگے چل کر کالم نویس پاکستان میں بھارت کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش کی گواہی لاتے ہیں کہ ’قائد اعظم نے ۳۱؍ اگست ۱۹۴۷ءکی تقریر میں اسلام کا نہیں، مسلم کا لفظ پانچ، چھ بار استعمال کیا‘۔بقول وجاہت مسعود ’پاکستان مسلم ریاست ہے، اسلامی نہیں‘۔
چلیے اس طرزِ بیان کو درست مان لیتے ہیں، مگرمجرد جمہوری اصولوں کے مطابق، کہ جن کی پاس داری کا احساس ہردم ہمارے سیکولر اور لبرل حضرات کے دامن گیر رہتا ہے۔ انھی اصولوں کے مطابق جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو گی تو وہاں قوانین بناتے ہوئے ان کے عقیدے کا خیال کیوں نہیں رکھا جائے گا؟
اسی خلط مبحث کو بڑھاوا دیتے ہوئے وہ یہاں پر ڈیلی ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کا کمزور حوالہ پیش کرتے ہیں۔ خواجہ شہاب الدین اور دوسری صف کے بعض مسلم لیگی رہنماؤں نے قائد اعظم کی ۱۱؍ اگست کی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی تھی۔ الطاف حسین کی گواہی اس لیے کمزور ہے کہ اس بات کی شہادت کسی دوسرے فرد نے نہیں دی اور پھر الطاف حسین کا جو کردار بعد میں رہا، وہ بھی ان کے بیان کو مشکوک بناتا ہے۔ آگے چلنے سے پہلے ۱۹ دسمبر ۱۹۴۶ءکو قائد اعظم کی اس تقریر کا حوالہ دینا ضروری ہے، جو انھوں نے مصر کے سرکاری ریڈیو سے کی تھی:
We want those two regions to be separate where possible, and to establish a Muslim Government dominating their territories. We want to live as a free and independent people our own life and to preserve all that Islam stands for. This means one fourth of the country, and the three fourths will go to the Hindus where they will live also as a free and independent people their own life according to their philosophy, culture and social order based on Hindustani rites.
Muslims and Hindus are the two major nations in India. They are totally different and distinct in the essentials which affect everything that matters in life. Not only are we different and distinct but we are sometimes antagonistic.We, the Muslims, have our history, culture, language, legislations, and jurisprudence, music, architecture, calendar, social and educational life, which totally differ from that of the Hindus (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol. IV, p2494).
ہم چاہتے ہیں کہ ان دو منطقوں کو جہاں جہاں ممکن ہو علیحدہ کردیا جائے، جہاں ایک مسلم حکومت اپنے علاقوں پر فرماں روائی کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں اور ان تمام اقدار کا تحفظ کریں جن کا اسلام علَم بردار ہے۔ اس کے معنی ہیں ملک کا ایک چوتھائی حصہ مسلمانوں کو اور تین چوتھائی ہندوئوں کو مل جائے گا جہاں وہ بھی ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے ہندستانی رسم و رواج پر مبنی اپنے فلسفے، اپنے تمدن اور معاشرتی نظم کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔
ہند میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ وہ ان ناگزیر عناصر کے تعلق سے، ہراس شے پر اثرانداز ہوتے ہیں جو زندگی میں ذرا بھی اہمیت رکھتی ہے، کلی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور نمایاں ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ہم ایک دوسرے سے مختلف اور نمایاں ہیں بلکہ بعض اوقات ہم ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں۔ ہم مسلمانوں کو اپنی تاریخ، ثقافت، زبان، قوانین، اصول قوانین، موسیقی، فن تعمیر، تقویم، معاشرتی اور تعلیمی زندگی ہے جو ہندوئوں سے بالکل مختلف ہے(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلدچہارم، ص ۲۸۸)۔
اب بھی اگر قائد اعظم کےاس فرمان سے بھی ان کے تصور قومیت کے بارے میں ہمیں رہنمائی نہ مل سکے، تو اسے قومی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے۔ قائد اعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں پاکستان میں موجود اقلیتوں کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا تھا، وہ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا۔ اس سے پیش تر جب قیام پاکستان کی منزل سامنے نظر آ رہی تھی، تو انھوں نے ۲۷ مارچ ۱۹۴۷ءکو بمبئی میں میمن چیمبر آف کامرس میں تقریر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا تھا:
We assure the Hindus that in Pakistan the minorities will be treated justly, fairly and generously. The whole history of Islam has shown that. The whole teaching of Islam is in that direction. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam, Vol IV, p2538).
ہم ہندوئوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ، عادلانہ اور فیاضی کا سلوک کیا جائے گا۔ اسلام کی پوری تاریخ اس کی شاہد ہے۔ اسلام کی ساری تعلیمات اسی جہت کی جانب اشارہ کرتی ہیں (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، جلدچہارم، ص ۳۱۷)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیان بھی من و عن روزنامہ ڈان کی اشاعت ۲۸ مارچ ۱۹۴۷ء سے لیا گیا ہے اور اس وقت بھی ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین ہی تھے۔ پتا نہیں اسے مسلم لیگ کی دوسرے درجے کی قیادت نے سنسر کیا بھی تھا یا نہیں، کم از کم الطاف حسین اس معاملے میں خاموش ہیں۔
پاکستان میں معاملات کو کیسے چلایا جائے گا؟ اس کی وضاحت ایک بار پھر قائد اعظم کے الفاظ ہی میں ہے۔ یہ خطاب بار ایسوسی ایشن کراچی میں ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء میں کیا گیا اور دی سول اینڈ ملٹری گزٹ کی اشاعت۲۷ جنوری ۱۹۴۷ء میں موجود ہے:
Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah, Governor General of Pakistan, speaking at a reception given to him on the Holy Prophet's birthday by the Bar Association, Karachi, said that he could not understand a section of the peoplewho deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat.The Quaid -i- Azam said"Islamic Principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-i-Azam, Vol IV, p2669)
قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے عیدمیلاد النبیؐ کی تقریب پر، اپنے اعزاز میں بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیے گئے ایک استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کر نا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی‘‘۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح ۱۳سوسال پیش تر ہوتا تھا۔(قائداعظم: تقاریر وبیانات،چہارم، ص ۴۰۱-۴۰۲)
اب وجاہت مسعود اور ان کی فکرکے حامل افراد یہ بتائیں کہ کیا قائد اعظم پاکستان میں سیکولر آئین چاہتے تھے اور قرارداد مقاصد صرف لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی ذہنی اختراع تھی؟ اپنے تیسرے کالم (۹مارچ ۲۰۱۰ء) میں مذکورہ کالم نگار نے اپنے موقف کی تائید میں قائداعظم کے عالمی اخباری ایجنسی رائٹرز کے نمایندے کے حوالے سے ایک بیان نقل کیا ہے:
نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہو گی ،جس میں اختیارات کا سر چشمہ (حاکمیت اعلیٰ) عوام ہوں گے۔ نئی قوم کا ہر شہری مذہب، ذات یا عقیدے کے بنا کسی امتیاز کے بغیر یکساں حقوق رکھے گا۔
وجاہت مسعود نے اس جانب اشارہ کرنے سے اجتناب کیا ہےکہ یہ بیان جسٹس محمدمنیر [م:۱۹۷۹ء] کی کتاب Pakistan from Jinnah to Zia سے لیا گیا ہے۔ اگرچہ اپنے کالموں میں آگے چل کر انھوں نے جھجکتے ہوئے ایک جگہ جسٹس محمدمنیر صاحب کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس بیان پر سیکولر حلقے بہت اصرار کرتے ہیں۔ مگر حیرت ہوتی ہے کہ خود کو روشن خیال، عقلیت پسند اور حقائق کو معروضی انداز میں سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے دانش ور حضرات اپنے عصر میں شائع ہونے والی کتابوں سے بھی بے خبر رہتے ہیں۔
جسٹس محمد منیر کے اس بیان کی حقیقت کو برطانوی نژاد محققہ سلینہ کریم نے بڑے مدلل انداز سے اپنی کتاب Secular Jinnah as Pakistan میںواضح کر دیا تھا۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۵ء میں اور اس کا چوتھا ایڈیشن ۲۰۲۱ء میں یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی، لاہور سے شائع ہوا ہے۔ جس میں سلینہ کریم نے جسٹس منیر کے درج کردہ اقتباس اور قائداعظم کے اصل انٹر ویو کا موازنہ کرکے بتایا تھا کہ ’’قائد اعظم کے حوالے سے یہ بیان نقل کرتے ہوئے جملے تبدیل کر دیے گئے ہیں‘‘۔ سلینہ کریم کی کتاب سے جسٹس منیر کا درج کردہ اقتباس اور اصل اقتباس درج ذیل ہیں۔بقول سلینہ کریم، جسٹس منیر نے سنہ بھی غلط درج کیا تھا۔ ۱۹۴۶ء کے بجائے ۲۱مئی ۱۹۴۷ء تھا۔ گویا انھوں نے اصل متن نہیں دیکھا اور ثانوی ماخذ کو استعمال کیا۔
جسٹس محمد منیر کا درج کردہ بیان یوں ہے:
The new state would be a modern democratic state with sovereignty resting in the people and the members of the new nation having equal rights of citizenship regarding of religion, caste or creed.
یہ نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں حاکمیت اعلیٰ کا اختیار عوام کے پاس ہوگا، اور نئی قوم کے تمام ممبران کو بلاتمیز مذہب اور ذات پات یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔
جب کہ، قائد اعظم کے بیان کی اصل عبارت یہ ہے:
But the Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of Government. Its Parliament and Cabinet responsible to the Parliament will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect, which will be the final deciding factor with regard to the policy and programme of the Government that may be adapted from time to time (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam, edited by Khurshid Ahmad Khan Yusufi, Vol. IV, p2563).
لیکن حکومت ِ پاکستان مقبول، نمایندہ اور جمہوری طرز کی ہی ہوسکتی ہے۔ یہ اور اس کی کابینہ پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوگی اور یہ دونوں رائے دہندگان اور عوام الناس کے سامنے بلاتمیز رنگ و نسل، عقیدہ، ذات پات یا مسلک جواب دہ ہوں گی جو قطعی اور حتمی حاکم ہوں گے، اور حکومت کی حکمت عملی اور اس کے پروگرام کی تشکیل کے ذمہ دار ہوں گے، جنھیں حکومت وقتاً فوقتاً ترتیب دے گی۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلدچہارم، ص ۳۳۴)
آپ نے دیکھا کہ جسٹس منیر کا بیان اصل سے کتنا دُور ہے۔ یہ جسٹس منیر بھی عجیب آدمی تھے۔ یہ جب پنجاب باؤنڈری کمیشن کے ممبر بنے تو مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت نہ کر سکے اور مسلم اکثریت کی دو تحصیلیں ہندستان کو دے کر مسئلہ کشمیر پیدا کرنے کا ذریعہ بنے۔ جب بطور چیف جسٹس پاکستان آئین کی حفاظت کا معاملہ سامنے آیا تو ’نظریۂ ضرورت‘ کی نذر ہو گئے، اور جب پاکستان کے حوالے سے کتاب لکھی تو بڑی دیدہ دلیری سے اصل تحریر میں تحریف کا ارتکاب کرگزرے۔
وجاہت مسعود کے کالموں کا یہ سلسلہ اپنے اندر چند در چند داخلی تضادات بھی رکھتا ہے۔ چودھری خلیق الزمان کا حوالہ کبھی وہ اپنے موقف کی تائید میں درج کرتے ہیں اور کبھی انھی کے خلاف لکھتے ہیں۔ کبھی وہ حسین شہید سہروردی کو کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات کرانے کا ملزم قرار دیتے ہیں اور کبھی وہ ان کو مسلم لیگ کے واحد لیڈر نظر آتے ہیں ،جو بنگال میں ہندو مسلم فسادات کے دوران انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کبھی وہ قائد اعظم کو سیکولر لبرل لیڈر ثابت کرتے ہیں اور پھر آگے چل کر انھیں بہادر یار جنگ کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بڑے جوش سے میز پر مکہ مارتے دکھاتے ہیں ۔
ان کالموں میں ایک عبرت ناک موڑ اس وقت آتا ہے، جب وجاہت مسعود تقسیم ہند کے حوالے سے ہونے والے فسادات کی تفصیلا ت بیان کرتے ہوئے اپنا زور اس بات پر صرف کرتے ہیں کہ فسادات بنیادی طور پر مسلمانوں نے کیے تھے۔ حالانکہ اپنے مقدمے میں وہ دراصل ’قرار داد مقاصد‘ کو اپنا ہدف بنا رہے تھے۔ اب یہ سوال تو ان سے کیا ہی جا سکتا ہے کہ کیا فسادات کی یہ بات، قرارداد مقاصد کے اسباب میں درج کر رہے ہیں یا نتائج میں؟ اسی طرح وہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کی طرف سے ’راست اقدام‘ (Direct Action) کو بنگال میں فسادات کا موجب بتاتے ہیں۔ وجاہت صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ راست اقدام کا اعلان قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا، لیاقت علی خان یا مولانا شبیر احمد عثمانی نے نہیں ۔ بہتر معلوم ہوتا ہے جسٹس منیر صاحب نے جو بیان نقل کیا ہے، اس کی مزید وضاحت خود سلینہ کریم کے افکار کے حوالے سے کر دی جائے:
First the above statement was given in answer to the a specific question. Don Campbell had asked of Jinnah: on what basis will the central administration of Pakistan be set up??
In other words he wanted to know the thoughts of Jinnah regarding the nature of Pakistan. He wanted to know whether it would be a secular state or a religious state, and how this would affect its relationship with neighboring? It was an opportunity for Jinnah to call Pakistan a secular state if he chose and this would have surely suited the western audience for whose benefit the interview was being conducted. Secondly the questions were given to Jinnah in writing a day before the interview giving him time to prepare his answer (p31).
پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا بیان ایک مخصوص سوال کے جواب میں دیا گیا تھا۔ ڈون کیمپ بل نے جناح سے پوچھا تھا: ’’پاکستان کا مرکزی نظام کن بنیادوں پر استوار ہوگا؟‘‘
دوسرے لفظوں میں وہ پاکستان کی نوعیت کے بارے میں جناح کی فکر جاننا چاہ رہا تھا۔ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ آیا یہ ایک سیکولر ریاست ہوگی یا ایک مذہبی ریاست ہوگی، اور یہ کس طرح سے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو متاثر کرے گی؟ یہ جناح کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست قرار دیتے، اگر وہ ایسا کرتے اور یہ یقینا مغربی سامعین کو مناسب لگتا جن کے مفاد کے لیے یہ انٹرویو منعقد کیا گیا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوالات جناح کو انٹرویو سے ایک روز قبل تحریری شکل میں دیئے گئے تھے تاکہ انھیں سوالات کے جواب کی تیاری کے لیے وقت مل سکے۔
اپنے بیان کی مزید وضاحت کے دوران میں سلینہ کریم نے حاشیے میں بتایا ہے کہ ’’قائداعظم نے ۱۳دسمبر ۱۹۴۶ءکو امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے لیے بیورلی نکولس کو انٹر ویو دیتے ہوئے بطور گورنر جنرل پاکستان، آسٹریلیا کے لوگوں سے ریڈیائی گفتگو کرتے ہوئے اور ۲۵؍اکتوبر ۱۹۳۹ءکو Manchester Guardian کو انٹر ویو دیتے ہوئے بار بار اس بات کا اظہار کیا کہ مسلمان ایک Islamic Polity (اسلامی سیاسی نظام)قائم کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان قائم کرنے والوں کے ذہن میں پاکستان کا نقشہ کیا تھا؟ اس کے بارے میں جاننے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم ۱۹۴۶ءکے انتخابات کا جائزہ لیں۔ ۱۹۴۶ءکے انتخابات اس حوالے سے اہمیت حیثیت رکھتے تھے کہ ہندستان کے مستقبل کا فیصلہ کن خطوط پر ہو گا؟ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں مسلمانوں کی مذہبی وابستگی کو اپیل کرتے ہوئے انھیں مائل کیا کہ وہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں، تاکہ ان کے لیے الگ وطن کا حصول ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے آئین ٹالیوٹ نے پنجاب کی سیاست پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ کی طرف سے مذہبی نعروں کا استعمال اس قدر شدید تھا کہ یونینٹسٹ پارٹی نے بھی اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں سے ووٹ مانگنے شروع کر دیے۔
اس حوالے سے دوسری مثال جو اس سے بھی اہم ہے، وہ صوبہ سرحد [خیبرپختون خوا]کی ہے۔ سرحد میں سرخ پوش، کانگریس کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور مسلم لیگ کے لیے مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ انھی کے باعث سرحد میں جہاں ۹۲فی صد مسلمان تھے، ریفرنڈم کروانے کی ضرورت پیش آئی۔ جب سرخ پوش صوبہ سرحد کے لوگوں کو اپنی بات پر قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے، تو انھوں نے پختونوں کی آزاد ریاست کا ذکر شروع کر دیا۔
جس ریاست کا دستور جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں کے مطابق وضع کرنے کاوعدہ کیا گیا تھا، اس حوالے سے ہمیں قائداعظم پیپرز میں موجود درج ذیل دستاویز سے حقیقی شہادت مل سکتی ہے، ۸-۲۱، قائد اعظم کے اخباری بیان کا نظر ثانی شدہ مسودہ:
مجھے افسوس ہے کہ عبد الغفار خان نے وعدے کے مطابق مجھے صوبہ سرحد کانگریس کے فیصلے سے ابھی تک آگاہ نہیں کیا ، مگر ان کی قرارداد کا متن اخباروں کو دے دیا گیا ہے، جو ۲۳ جون ۱۹۴۷ءکو شائع ہو چکا ہے، لہٰذا اخباری رپورٹ کے مطابق میں اس معاملے پر تبصرہ کرنے کا پابند ہوں۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے:
۱- تمام پختونوں کی ایک آزاد پٹھان ریاست قائم ہونی چاہیے۔
۲- اس ریاست کا دستور جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں پر مبنی ہو گا۔
۳-تمام پٹھانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور غیر پختون تسلط کو قبول نہ کریں۔
پٹھانوں کی الگ ریاست کی بیل اس لیے بھی منڈھے نہ چڑھی کہ انگریزوں نے ریفرنڈم میں پٹھانوں کی آزاد ریاست کی شق کا اضافہ کرنے سے انکار کر دیا اور ریفرنڈم میں لوگوں سے صرف یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ ’’پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں؟‘‘۔ یہ ریفرنڈم مسلم لیگ نے معمولی اکثریت سے جیت لیا۔
اپنی ان معروضات کے آخر میں ہندستان سے شائع ہونے والی دو کتابوں کا تذکرہ لازمی سمجھتا ہوں۔ ان میں سے پہلی کتاب اجیت جاوید کیSecular and Nationalist Jinnah (وطن پرست اور سیکولر جناح) ہے۔ اس کتاب میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ: ’’قائداعظم ایک سیکولر، لبرل سیاست دان تھے، لیکن کانگریس کے رویے نے انھیں مسلم قومیت کی طرف دھکیل دیا۔ دراصل قائد اعظم کی سیاست میں فیصلہ کن موڑ ۱۹۳۷ء میں ہندستان کے مختلف صوبوں میں بننے والی وزارتیں تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبال کے ساتھ ربط و تعلق نے بھی محمد علی جناح کے خیالات میں تبدیلی پیدا کی۔ جب ایک بار وہ مذہب کی بنیاد پر قومیت کے قائل ہو گئے تو اس کے بعد انھیں سیکولر، لبرل کہنا ان کے ساتھ نا انصافی ہے‘‘۔
اجیت جاوید نے جو کچھ قائد اعظم کے بارے میں کہا، اس کا بیش تر حصہ تو ہم نے اپنی تعلیم کے دوران’مطالعہ پاکستان‘ میں پڑھا تھا۔ پاکستان کی درسی کتابیں اس بات سے انکار نہیں کرتیں کہ قائد اعظم کا سیاسی سفربطور سیکولر، لبر ل سیاست دان کے ہوا تھا (ہمارے سیکولر، لبرل دانش ور اس سے پریشان نہ ہوں، یہ سب ہماری درسی کتابوں میں آج بھی موجود ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں اٹھا کر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کتابیں آپ کے گھروں میں مشکل سے ملیں گی، کیوںکہ اب آپ کے بچے تو پاکستان میں شائع ہونے والی درسی کتابیں پڑھتے ہی نہیں )۔
اجیت جاوید سے بھی زیادہ جس مصنف کی کتاب نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا، وہ جسونت سنگھ [م: ۲۰۲۰ء]کیJinnah: India, Partition, Independence [۲۰۱۰ء] ہے۔ جسونت سنگھ کا نقطۂ نظر بھی کم و بیش اجیت جاوید سے ملتاجلتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے پہلے پانچ عشروں میں ہندستان کی سیاست کے نشیب و فراز کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جسونت سنگھ کے مطابق جناح نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہندستان کے ہندو اور مسلمان مل کر سیاسی جدوجہد کریں اور انگریزوں سے آزادی حاصل کریں ،لیکن گاندھی، نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرمی نے بات وہاں تک پہنچا دی کہ محمد علی جناح کو کہنا پڑا: ’’عددی برتری کے زور پر ہندستان کے مسلمانوں کو اپنے زیر نگیں لانے کی کانگریس کی سوچ غلط ہے۔ مسلمان ہر حوالے سے ایک الگ قوم کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔ اس لیے انھیں ایک چوتھائی ہندستان پر اپنی آزادخود مختار ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔
جسونت سنگھ کے مجموعی موقف کو زیربحث لانا اس مضمون کا موضوع نہیں ہے، تاہم یہ بات تو کم از کم وہ بھی مانتے ہیں کہ رفتہ رفتہ محمد علی جناح متحدہ ہندستانی قومیت کے تصور سے دستبردار ہوگئے تھے اور اسلام کو بنیا د بنا کر مسلم قومیت کے تصور سے جڑ گئے تھے۔ جناح، اتحاد سے تقسیم تک کتاب کا اردو عنوان ہے، جو اس جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔ایک بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ جسونت سنگھ نے ہندستان کی سیاسی کش مکش میں علامہ اقبال کے کردار کو بہت کم کرکے دکھانے کی کوشش کی ہےاور علامہ اقبال کا اتنا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل نہیں جتنا سرشفیع کا ہے۔
مضمون کے آخر میں ہم اتنا کہنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ ہمارے جو دوست پاکستان کو بطور سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اپنی بات کا پرچار شروع دن سے کرتے آئے ہیں۔ اُن کے اس حق کو کوئی بھی سلب نہیں کررہا، تاہم ان سے ایک مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنے خیالات کا پرچار کرتے وقت اپنی تائید میں حقائق اور بیانات کو مسخ کرنے سے لازماً گریز کریں، کیوںکہ اس سے ان کے موقف میں مضبوطی نہیں آتی،بلکہ اس کی کمزوری میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ آج پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے۔ اس کا آئین اسے اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے۔
اس بات کا فیصلہ کرنا پاکستان کے لوگوں کی واضح اکثریت کا حق ہے کہ اس ملک کا سیاسی و معاشی نظام کیسا ہو گا؟ جس دن پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی عظیم اکثریت یہاں سیکولر طرزِحکومت کی قائل ہوجائے گی، تب کسی کو قائد اعظم یا کسی اور رہنما کے بیانات کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ تب تک ہمارے سیکولر، لبرل، روشن خیال دوستوں کو انتظار کرنا چاہیے۔ بہرحال، یقین ہے کہ اس انتظار کا دامن، قیامت کے دامن سے بندھا ہواہے ! [مکمل]
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب راقم سیّد مودودی ؒکی تصانیف و تالیفات کی وضاحتی فہرست تیار کر رہا تھا (یہ ’کتابیاتِ مودودی: ایک مطالعہ‘ کے عنوان سے تذکرۂ سیّد مودودی، سوم میں شامل ہے اور الگ سے بھی شائع ہوئی)۔ اسی سلسلے میں تفہیم القرآن کے مختلف ایڈیشنوں کی تلاش تھی۔ ایک دن معلوم ہوا کہ ملک غلام علی صاحب کے کمرے میں تفہیم القرآن کے چند پرانے ایڈیشن رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے اِن اشاعتوں کے سنین و دیگر کوائف نوٹ کرنے وہاں چلا گیا۔ ملک صاحب کام میں مصروف تھے۔ معذرت چاہی اور مدّعا بیان کیا۔ انھوں نے اجازت دی۔ میں نے الماری سے تفہیم کے نسخے نکالے اور دیکھنے لگا۔
اسی دوران تفہیم سے ملک صاحب کا ذہن محمد فواد عبدالباقی [فروری ۱۸۸۲ء- فروری ۱۹۶۸ء] کے مرتب کردہ اشاریۂ قرآن المعجم المفھرس کی طرف منتقل ہوگیا۔ فرمایا: ’’مولانا محترم، ارض القرآن کے سفر پر گئے تو مصر سے میرے لیے قرآنِ پاک کا انڈکس لائے۔ محمدفواد عبدالباقی کا یہ انڈکس یہاں دستیاب نہ تھا۔ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ بڑا قیمتی تحفہ تھا، میرے لیے‘‘۔ یہ ۱۳۷۸ھ کا مطبوعہ نسخہ تھا۔ مولانا نے اسے ملک صاحب کو ان الفاظ میں ہدیہ کیا تھا:
ہدیہ برائے غلام علی صاحب، جو بلادِ عرب کے سفر کے دوران میں اُن کے لیے مصر سے خرید کیا گیا۔
ابوالاعلیٰ
۱۱جولائی ۶۰ء
مولانا کی مندرجہ بالا تحریر کے نیچے، ملک صاحب نے حسب ذیل عبارت رقم کی تھی:
بسم اللہ ہو الباقی
آج ۲۹ شوال ۹۹ھ (۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) کو صاحب ِہدیہ بان، میرے مرشد مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی انتقال فرما گئے بوقت ِشام مغرب و عشاء کے درمیان۔
اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
تَغَمَّدَ اللہُ بِغُفْرَانٍ وَسَقٰی ضَرِیْحَہٗ بِصَیِّبِ الرِّضْوَانِ
وہ جو بیچتے دیتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔
غم زدہ عاجز
غلام علی
میں نے عرض کیا: ملک صاحب آپ کا خط ِتحریر مولانا کے خط سے خاصا مماثل ہے۔
ملک صاحب کہنے لگے: ’’جی ہاں، ابتدا میں، جب میں نے مولانا کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو میرا خط کچا تھا۔ میں جو کچھ لکھتا تھا، وہ بہت بدخط ہوتا تھا۔ میں نے کوشش سے اپنا خط بہتر بنایا ہے‘‘۔
قدرے توقّف سے فرمایا: ’’میرا خط بھی ٹھیک ہوگیا اور رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ میری تحریر اور عبارت پر لوگوں کو یہ گمان گزرتا کہ مولانا کی ہے‘‘۔پھر کہنے لگے: ’’ایک بار مولانا نے فرمایا تھا: ’’اب تمھاری تحریر ایسی ہوگئی ہے کہ میں پڑھتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ میری تحریر ہے‘‘۔
بقول محترم میاں طفیل محمد: ’’مولانا غلام علی مرحوم و مغفور ہمارے مرشد و راہ نما سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا ہرپہلو سے عکس اور نمونہ تھے‘‘۔
نام وَر اخبار نویس مصطفےٰ صادق صاحب [۱۹۲۶ء-۲۱نومبر ۲۰۱۱ء]کو سفروحضر میں ملک صاحب کے ساتھ ایک عرصہ گزارنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ملک غلام علی کے کردار، ان کی سیرت اور ان کی شخصیت، حتیٰ کہ اُن کی علمیّت پر مولانا مودودی کی گہری چھاپ تھی‘‘ (روزنامہ جسارت ، کراچی، ۸؍اکتوبر ۱۹۹۴ء)۔ یقینا اس لیے کہ ملک صاحب، سیّد مودودی کے فیض یافتہ تھے، جنھوں نے ایک طویل عرصہ مولانا مودودی کی صحبت اُٹھائی تھی۔
خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا جائزہ کے حوالے سے مولانا نے فرمایا:’’تم نے بڑی محنت کی ہے۔ ایسے حوالے تلاش کیے ہیں کہ مَیں بھی نہیں کرسکتا تھا‘‘۔
ملک صاحب نے فرمایا: ’’ہمارے ایک کاتب تھے، محمد صدیق صاحب ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بعض اہلِ حدیث حضرات نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ مودودی صاحب خود لکھتے ہیں اور نام دوسروں کا دے دیتے ہیں___ تو میں نے کہا کہ میں ترجمان کا کاتب ہوں، اور مضامین خود لاتا ہوں، وہ مولانا کا نہیں بلکہ ملک غلام علی کا لکھا ہوا ہوتا ہے۔ خط ملتا جلتا ہے، اس لیے شبہہ پڑتا ہے‘‘۔
گفتگو جاری رکھتے ہوئے ملک صاحب نے بتایا: ’’بس جی، بات یہ ہے کہ یہ سب انھی کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ شیخ سعدی نے گلستان میں کہا ہے:
گلے خوشبوے در حمام روزے
رسید از دستِ محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یاعبیری
کہ از بوے دلآویزے تو مستم
بگفتا من گلِ ناچیز بودم
و لیکن مدّتے با گل نشستم
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
یہ مولانا مودودی کی صحبت کا فیضان ہے ___ یہ ’فیضان‘ والی بات اپنی جگہ بڑی اہم ہے۔ اقبال نے کہا ہے:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
کچھ رُک کر مولانا روم کا یہ شعر سنایا:
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے رُوم
تا غلامِ شمسِ تبریز نہ شُد
پھر ایک سرد آہ بھر کر کہا: ’’تو یہ فیضان والی بات اہم ہے___ مگر وہ بات اب کہاں‘‘۔
میں خاموشی سے سُن رہا تھا ___ ملک صاحب کو جیسے کچھ یاد آگیا۔ کہنے لگے:
’’مکہ معظمہ میں فقہ کانفرنس ہونے والی تھی۔ مولانا کو دعوت نامہ آیا مگر ان کی صحت اچھی نہیں تھی۔ انھوں نے شرکت کے لیے مجھے بھیجا۔ یہ کانفرنس حج کے دنوں میں ہورہی تھی۔ میں گیا تو اس طرح مجھے حج کا موقع بھی مل گیا___ ‘‘
وفاقی شرعی عدالت کی ججی کا موضوع چھڑ گیا۔
فرمایا: ’’یہ بھی مولانا کی وجہ سے ہے___ ایک روز صدرمحمد ضیاء الحق [م: ۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء] کا فون آیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے لیے تین ججوں کی ضرورت ہے۔ دو تو مَیں منتخب کرچکا ہوں اور تیسرا نام تمھارا دیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کن لوگوں کا انتخاب کیا ہے توضیاء الحق صاحب نے بتایا کہ ایک تو مولانا محمدتقی عثمانی صاحب اور دوسرے ___ ‘‘ [راقم نام بھول گیا ہے] خیر، میں نے کہا: ’’یہ تو آپ نے بہت اچھا انتخاب کیا ہے___ مگر میرا تو قانون کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور میں عالم بھی نہیں ہوں، پھر مجھ سے کچھ زیادہ کام بھی نہیں ہوتا‘‘۔
ملک صاحب کے پاس بی اے کی ڈگری بھی نہ تھی۔ یہ بہت معروف قصّہ ہے، جو ملک صاحب کی زندگی میں سب سے اہم ڈرامائی تبدیلی تھی۔ ۱۹۳۹ء میں جب وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، لاہور میں بی اے کے آخری سال میں تھے۔ پرنسپل(غالباً ایم اے غنی) نے سیّدمودودی کو کالج میں اسلامیات کی تدریس کی دعوت دی۔ حبیبہ ہال میں سیّد صاحب کے لیکچروں نے متعدد طلبہ (بشیر آزری، جیلانی بی اے، شیخ فقیرحسین، بشیراحمد ساجد) کو متاثر کیا بلکہ چونکا دیا مگر ملک صاحب کہتے ہیں کہ مولانا کی ایک آدھ تقریر سن کر ہی میں تو دل دے بیٹھا۔ انھوں نے سیّد صاحب کی تحریریں پڑھ کر بی اے کو ادھورا چھوڑا۔ ان کے اساتذہ ڈاکٹر سعید اللہ اور پروفیسر حمیداحمد خاں مرحوم نے انھیں سمجھایا، مگر وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے، اور حینِ حیات مولانا اور جماعت سے وابستہ رہے۔
جملہ معترضہ قدرے طویل ہوگیا۔ ملک صاحب سے گفتگو کی طرف پلٹتے ہیں۔ ’’صدر ضیاء الحق صاحب اصرار کرنے لگے، تو مَیں نے کہا: اچھا، اس سلسلے میں مشورہ کرتا ہوں___ ساتھ ہی صدرصاحب سے یہ بھی کہا کہ آپ نے عائلی قوانین کی اصلاح نہیں کی___ وہ ہنس کرکہنے لگے: آہستہ آہستہ ہوجائے گا ___ یہ ’اپوا‘ والی عورتیں شور مچاتی ہیں___ اور آپ انکار کرتے ہیں‘‘۔
اب مولانا مرحوم کے آخری دور کا ذکر ہوا۔ ملک صاحب نے بتایا:
’’مولانا علاج کے سلسلے میں امریکا میں تھے۔ میں نے انھیں خط لکھا کہ مولانا، میں نے کافی عرصے تک آپ کے ساتھ کام کیا ہے۔ میرے کام میں جو کوتاہی ہوئی ہو یا کمی رہ گئی ہو، براہِ کرم درگزر فرمایئے اور مجھے بتا دیجیے کہ آپ مجھ سے خوش ہیں۔ مولانا کا جواب آیا، جس میں انھوں نے مجھ سے حُسنِ ظن کا اظہار کیا، حالانکہ میں اس کا مستحق تو نہیں تھا۔ بہرحال، مولانا نے لکھا: ’’مجھے تم سے جو محبت ہے، تم اس کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے۔ اور اس طرح کی باتیں تھیں‘‘___
’’وہ خط آپ کے پاس محفوظ ہے؟‘‘ میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
ملک صاحب نے فرمایا: ’’نہیں، وہ خط ملتے ہی میں نے ضائع کر دیا تھا‘‘۔
پھر فرمایا: ’’بس یہ اُن کا فیض ہے___ انھوں نے دین کی بڑی خدمت کی ، علمی اور عملی ہرلحاظ سے‘‘۔
اس نشست کے آخر میں عرض کیا: ’’ملک صاحب! میں نے آپ کا کافی وقت لیا ہے‘‘۔
ملک غلام علی صاحب نے جواب میں یہ شعر پڑھا اور گفتگو ختم ہوگئی :
غنیمت جان رَل مِل بیٹھنے کو
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے
راقم نے ملک غلام علی صاحب کو سب سے پہلے ۱۹۶۲ء-۱۹۶۳ء میں دیکھا۔ اس زمانے میں ہم سرگودھا میں رہتے تھے۔ وہ اپنے گائوں کی سیاست کے حوالے سے ایک جھوٹے مقدمے میں ماخوذ ہوگئے تھے۔ مقدمہ سرگودھا کی عدالت میں چل رہا تھا۔ملک صاحب کو ہرپیشی پر لاہور سے سرگودھا آنا پڑتا۔ پیشی کے دن سے ایک روز پہلے شام کو وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سرگودھا آجاتے اور شب میں ہمارے ہاں، میرے والد صاحب کے کمرے میں قیام کرتے۔ صبح ناشتہ کرکے عدالت پہنچتے اور پیشی بھگتا کر اُسی روز واپس لاہور چلے جاتے۔کئی ماہ یا سال دو سال کی پیشیوں کے بعد، ایک روز وہ عدالت سے لوٹے تو یہ خوش خبری سنائی کہ مقدمہ خارج ہوگیا اور وہ بَری ہوگئے۔
عام طور پر لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ ملک صاحب کچھ عرصہ دعوتی اور تنظیمی فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ قیامِ پاکستان کے چند سال بعد وہ جماعت اسلامی حلقۂ لاہور کے قائم مقام امیر منتخب ہوئے اور مصطفیٰ صادق صاحب قیم تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حلقۂ لاہور صرف لاہور شہر تک محدود نہ تھا، بلکہ پتوکی، چونیاں، قصور، للیانی اور بعض دوسرے قصبات بھی اس میں شامل تھے۔ قصبات کے ساتھ ملحقہ گائوں بھی۔ ہم دعوتی کاموں کے سلسلے میں گلی گلی اور قریہ قریہ جاتے۔ ملک صاحب درسِ قرآن و حدیث دیتے۔ کسی طرح کی سواری ہمارے پاس نہیں تھی، اس لیے سفر ہم بسوں میں کیا کرتے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی دفاتر، ۱۹۷۵ء میں اچھرہ سے منصورہ منتقل ہوگئے۔ عملے کے لیے چند مکانات بھی تعمیر ہوچکے تھے۔ ملک صاحب بھی اچھرہ سے منصورہ کے ایک کوارٹر میں منتقل ہوگئے۔ ملک صاحب مولانا کے معاونِ خصوصی تھے، اس لیے چند برس تک اچھرہ جاتے رہے، لیکن جب طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو پھر منصورہ ہی سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔
۸۰ء کے عشرے میں ملک صاحب وفاقی شرعی عدالت کے جج بن کر اسلام آباد چلے گئے، اور تقریباً چار سال تک خدمات انجام دیں۔ اس دوران میں وقتاً فوقتاً لاہور آتے، ملاقات ہوجاتی۔ ۱۹۸۵ء میں ججی سے سبک دوش ہوکر لاہور آگئے۔ اور ادارہ معارف اسلامی، منصورہ کے ایک کمرے میں بیٹھ کر کام کرنے لگے۔
شوگرکے مرض نے ان کی صحت کو بُری طرح متاثر کر دیا تھا۔ چلنا بھی دشوار ہوگیا۔ اس کے باوجود حسب ِ توفیق کچھ نہ کچھ چل لیتے اور کسی نہ کسی طرح ادارے میں پہنچ جاتے۔ آخری زمانے میں نماز کے لیے مسجد نہ آسکتے تھے۔ ایک دوبار ان کے بیٹے ملک ابراہیم صاحب ، والدماجد کو ویل چیئر پر نمازِ جمعہ پڑھوانے کے لیے لائے۔ ۲۶ستمبر ۱۹۹۴ء کو اپنے ربّ سے جاملے___ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، آمین!
برصغیر پاک و ہند کی مجلاتی تاریخ میں ماہ نامہ معارف ، اعظم گڑھ (اجرا: ۱۹۱۶ء) ایک سدابہار لہلہاتا شجرِ علم و فضل ہے، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:’’ معارف ، ایک ایسا رسالہ ہے، جس کے پڑھنے سے حرارتِ ایمان میں ترقی ہوتی ہے‘‘ ، اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے بقول: ’’ساری دُنیائے اسلام میں، عرب ہو کہ عجم، کوئی رسالہ اسلامیات پر، معارف کے معیار کا نہیں‘‘۔ بلاشبہہ مختلف اوقات میں اس کے معیار میں اُتارچڑھائو آتے رہے ہیں، لیکن جس جاںفشانی سے اس کے مدیران نے اس کو باقاعدہ رکھا کہ وہ خود تاریخ کا روشن باب ہے۔
فاضل مرتب نے اس علمی مجلّے سے سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ۳۱مقالات کا انتخاب مرتب کرکے پیش کیا ہے۔ سبھی عناوین اور مباحث دل نواز ہیں اور ایمان افروز۔(س م خ)
ابوالکلام آزاد کی غبارِخاطر کے مکتوب الیہ مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی ’صدریار جنگ‘ کے نام سے بھی معروف ہیں۔ ڈاکٹر سفیراختر نے ۳۸ نام وَر شخصیات (الطاف حسین حالی، مولوی عبدالحق، عبدالعزیز میمن،امتیاز علی خان عرشی، سیّد سلیمان ندوی اور مسعود عالم ندوی وغیرہ) کے نام نواب صاحب کے خطوط مرتب کیے ہیں۔ پاورق میں حواشی و تعلیقات بھی شامل ہیں، اور آخر میں خطوں کے مآخذ اور اشاریہ۔ کتاب تدوین کی ایک خوب صورت مثال ہے۔
خطوں کی اہمیت کا اندازہ ’پیش لفظ‘ نگار ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے: ’’میں اسے دیکھ کر اتنا مسرور ہوا کہ کیفیتِ مسرت کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے سے قاصر ہوں‘‘۔ پھر سیّدصاحب نے ان خطوں کی خوبیاں گنوانے کے بعد بجاطور پر لکھا ہے کہ ’’اخترراہی [سفیراختر] نے یہ مکاتیب جمع کرکے بڑی خدمت انجام دی ہے‘‘۔(رفیع الدین ہاشمی)
طاقت کے سرچشموں پر ذمہ داریاں ادا کرنے والوں کی زندگی اور اُن کے ذاتی مشاہدات و واقعات سے واقفیت حاصل کرنا، عام اور خاص لوگوں کا فطری تقاضا ہے۔ زمانۂ وسطیٰ سے لے کر آج تک ایسے بہت سے مقتدر حضرات نے خود نوشت تحریر کیں، یا اُن کی سوانح عمریاں لکھی گئیں۔ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ صاحب نے پاکستانی مسلح افواج کی قیادت ایک بڑے کٹھن دور میں کی۔ ان کی زندگی، مشاہدات اور تاثرات پر مشتمل یہ ایک دل چسپ اور معلومات افزا کتاب ہے۔
کتاب میں جنرل صاحب نے پاکستان کے ابتدائی زمانے کی فوجی زندگی اور خاص طور پر جہادِ افغانستان، ایٹمی پروگرام، جمہوریت کی بحالی اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ، وغیرہ پر بہت سی نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ اس کتاب کے مبصرین نے عام طور پر مختلف سیاسی رہنمائوں کے حوالے ہی سے کتاب کو اہمیت دی ہے، لیکن اس کا نہایت اہم حصہ مشرقی پاکستان کے المیے سے متعلق ہے۔ یہاں اسی پہلو پر چند حوالے پیش کیے جارہے ہیں۔
جنرل صاحب نے بتایا ہے کہ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں اور مقتدر طبقوں کی تمام تر ناانصافیوں کے باوجود مشرقی پاکستان میں نفرت کی آنچ تیز نہ ہوسکی۔ اہلِ فکرونظر اس بے رحمی سے باز آنے کے لیے بار بار توجہ بھی دلاتے رہے۔مذکورہ کمزوری سے دشمن ملک نے بہ سہولت فائدہ اُٹھایا۔ وہ بتاتے ہیں: ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ نے مشرقی پاکستانی بھائیوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی کہ تین طرف سے بھارت سے گھرے مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے صرف ایک ڈویژن فوج، فضائیہ کا ایک سکواڈرن اور بحریہ کے محض چند جہاز تھے (ص۸۱)۔ ازاں بعد شیخ مجیب الرحمٰن کی شعلہ بار خطابت اور عبدالحمید بھاشانی کے ’’جالن جالن، آگن جالن‘‘ [جلائو جلائو، آگ جلائو] کے نعروں نے مشرقی پاکستان میں آگ لگادی (ص۸۳)۔ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے انتخابات (دسمبر ۱۹۷۰ء) میں دو کے علاوہ مشرقی پاکستان سے تمام نشستیں جیت لیں۔ صدر جنرل یحییٰ خاں نے ۳مارچ ۱۹۷۱ء کو اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا، مگر فروری کے وسط میں مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اجلاس ملتوی کرنے کے لیے دبائو بڑھایا اور ۲۸فروری کو دھمکی دی کہ ’’مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑی دی جائیں گی‘‘ (ص۸۵) اور جنرل یحییٰ خان نے اجلاس ملتوی کر دیا۔ امیرجماعت اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے اس اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’اکثریتی پارٹی کو نئے آئین کا مسودہ پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، اور دوسروں کو اعتراض ہو تو دلائل کے ساتھ اپنی تجاویز پیش کریں.... صورتِ حال اتنی نازک ہے کہ غلط سمت میں اُٹھایا جانے والا ایک قدم بھی پاکستان ٹوٹنے کا سبب بن سکتا ہے‘‘ (ص۸۴)۔ بھٹو، یحییٰ غیردانش مندانہ اقدام نے مشرقی پاکستان میں عدم تعاون کی خونی تحریک کو راستہ دیا، اور’’سول انتظامیہ مفلوج ہوکر رہ گئی۔ تمام احکامات عملاً عوامی لیگ کے سیکرٹریٹ سے جاری ہونے شروع ہوئے....پاکستان کے صوبوں کے مابین سیاسی توازن بحال رکھنے میں ناکام ہوگیا‘‘۔ (ص۸۵)
اس طرح مشرقی پاکستان عملاً انارکی کا شکار ہوکر اگلے ساڑھے آٹھ ماہ کے دوران بغاوت اور بھارتی جارحیت میں گھِر گیا۔ امن و امان کی بحالی کے لیے پاکستانی فوج کی تائید کرنے کی سزا کےطور پر مشرقی پاکستان سے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشنگھو ( اسلامی جمعیت طلبہ) کے نیک اور صالح لوگوں پر جھوٹے مقدمات قائم کرکے انھیں آج تک پھانسی کی سزائیں سنائی جارہی ہیں، مگر ’’پاکستان کی طرف سے سرکاری سطح پر ان اقدامات کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھائی گئی‘‘ (ص۸۴)۔
جنرل صاحب دل گرفتگی سے لکھتے ہیں: ’’ان نامساعد حالات میں بھی ہماری فوج نے بڑی ہمت اور جاں فشانی کا مظاہرہ کیا اور قربانیاں دیں، جنھیں ہم نے بھلا دیا۔ کتنے آفیسر اور جوان شہید ہوئے، جنھیں ہم یاد بھی نہیں کرتے‘‘ (ص ۹۴)۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’بھارت کی ایسٹرن کمان کے چیف آف سٹاف جنرل جیکب لکھتے ہیں کہ ’’پاکستانی سپاہی ایک ایک انچ زمین کے لیے لڑے۔ پانی میں اور دلدلی علاقوں میں مسلسل چل چل کر ان کے پائوں گل چکے تھے، نیند سے بے حال تھے، لیکن پھر بھی کوئی [پاکستانی]سپاہی بھاگا اور نہ ہی پیچھے ہٹا، بلکہ آخری دم تک لڑتا رہا‘‘ (ص۹۵)۔
یوں جنرل بیگ نے متعدد تفصیلات بڑے واشگاف لہجے میں بیان کی ہیں۔ بلاشبہہ اس کے باوجود کئی گوشے ایسے ہیں کہ جن پر اختصار کے بجائے تفصیل سے لکھنے اور بتانے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ کتاب اپنی نوعیت کے اعتبار سے بھی خاصی منفرد ہے، یعنی ایک میں تین: کہیں کتاب کے فاضل مرتب کرنل (ر) اشفاق حسین کا بیان ہے، کسی جگہ محترم جنرل صاحب کی تحریر ملتی ہے، اور پھر درمیان میں سوال و جواب شروع ہو جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس شان دار کتاب کو مختلف خلا پُر کرکے، ہموار انداز سے شائع کیا جائے۔ محترم مرتب اور ناشر اس خدمت پر قابلِ تحسین ہیں۔ (س م خ)
اس کتاب کے حصّۂ اوّل پر تبصرہ ترجمان القرآن ستمبر ۲۰۱۸ء میں شائع ہوا تھا۔اِسی تسلسل میں زیرنظر جلد بارہ مصاحبوں اور عربی مضامین (بعض کے تراجم) پر مشتمل ہے۔ جن حضرات سے مصاحبے کیے گئے، اُن میں نام وَر بزرگ عبدالغفار حسن، مصطفیٰ صادق، جسٹس محمد افضل چیمہ، راجا محمد ظفرالحق، حکیم سیّد ظلّ الرحمٰن اور بیگم مولانا عبدالرحیم اشرف شامل ہیں۔ ان گفتگوئوں میں زاہد اشرف صاحب اپنے والد مرحوم سے بارہ شخصیات کے تعلق اور ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہیں اور قارئین کے لیے اُن کا تعارف بھی پیش کرتے ہیں۔ اِن گفتگوئوں میں مولانا عبدالرحیم اشرف کی شخصیت کے علاوہ اسلامی تحریکات، پاکستان میں نظامِ اسلامی کے امکانات، اُمت مسلمہ کے مسائل وغیرہ بھی زیربحث آئے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
انکارِ سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے ’خوارج‘ اور ’معتزلہ‘ تھے:
’خوارج‘ کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت حائل تھی، جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا۔ اور اس کی راہ میں حضوؐر کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں’ خوارج‘ کے انتہاپسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔
’معتزلہ‘ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، انھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح انھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ انھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر ’عقل‘ کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کے عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے، جس سے وہ ان نام نہاد ’عقلی تقاضوں کے مطابق‘ ہوجائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے انھوں نے بھی ’خوارج‘ کی طرح ’حدیث‘ کو مشکوک ٹھیرایا اور ’سنت‘ کو حجت ماننے سے انکار کیا۔
ان دونوں فتنوں کی غرض اور ان کی تکنیک مشترک تھی۔ ان کی غرض یہ تھی کہ قرآن کو اس کے لانے والے کی قولی و عملی تشریح و توضیح سے، اور اُس نظام فکروعمل سے جو خدا کے پیغمبرؐ نے اپنی رہنمائی میں قائم کر دیا تھا۔ الگ کرکے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لے لیا جائے اور پھر اس کی من مانی تاویلات کرکے ایک دوسرا نظام بنا ڈالا جائے جس پر اسلام کا لیبل چسپاں ہو۔ (منصب رسالت نمبر، ترجمان القرآن، جلد۵۶،عدد ۶،ستمبر ۱۹۶۱ء، ص ۹-۱۰)