مضامین کی فہرست


جولائی ۲۰۲۱

ایک اچھی حکومت اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مخلص انتظامیہ، کسی قوم کے لیے قدرت کا قیمتی عطیہ ہوتی ہے۔ اچھی حکومت اسے کہتے ہیں جسے اپنے منصب اور منصبی ذمہ داریوں کا احساس ہو، جس میں قوم کو ساتھ لے کر چلنے اور قوم کے تمام طبقوں کی دست گیری کا احساس دامن گیر ہو۔یوں تو ہماری قومی زندگی بے شمار مسائل و مشکلات سے دوچار ہے، مگر یہاں ہم چندبنیادی اُمور کی طرف توجہ مبذول کرائیں گے، جن پر قرارواقعی توجہ دے کر قومی مشکلات کو کسی حد تک کم کرتے ہوئے درست سمت کی طرف سفر ممکن بنایا جاسکتا ہے:

معاشی بحران

  • سب سے پہلا مسئلہ ہماری قومی معاشی صورتِ حال کی ابتری کا ہے۔ بدقسمتی سے افراطِ زر پر قابو پانے کی اوّل تو کوئی بامعنی کوششیں دکھائی نہیں دیتیں، اگر کچھ کیا جاتا ہے تو وہ بھی پانی پر لکیر کھینچنے کی کوشش سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔

گذشتہ ماہ قومی پارلیمان میں ۲۰۲۱ء-۲۰۲۲ء کا سالانہ معاشی میزانیہ (بجٹ) پیش کیا گیا، لیکن جس انداز سے بجٹ پیش کرنے کی یہ مشق کی گئی اور خود پارلیمنٹ نے جس انداز سے بجٹ سیشن کو چلایا، واقعہ یہ ہے کہ اس نے صدمے اور شرمندگی کے احساس کو زیادہ گہرا کردیا۔ بجٹ قومی زندگی کی نہایت اہم دستاویز ہوتی ہے، جو محض حکومت کی کتاب نہیں ہوتی، بلکہ وہ پوری قوم کی زندگی کے نہایت اہم اُمور کو چلانے کا نقشۂ کار ہوتی ہے۔اسے پیش کرتے وقت اعداد و شمار میں صحت اور دیانت کو پیش نظر رکھنا حکومت کی ذمّہ داری ہے۔ قوم کو دھوکے میں رکھ کر کوئی کھیل کھیلنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

دوسری جانب حزبِ اختلاف کی ذمّہ داری ہے کہ وہ سارا سال جس انداز سے سیاسی جنگ میں حکومت کے حملے اور زیادتیاں برداشت کرتی اور ان کا جواب دیتی رہی ہے، اسے بجٹ سیشن کو اس جنگ سے الگ رکھ کر، غیرمتعلق چیزوں کے ساتھ اس سیشن کو ضائع نہیں کرنا چاہیے تھا، بلکہ نہایت دل سوزی سے حکومتی معاشی پالیسی اور معاشی احوال پر تعمیری تنقید و رہنمائی کا فریضہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ مگر گذشتہ کئی برسوں سے یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ سیشن شدید ہنگامہ آرائی اور الزام تراشی اور ذاتی حملوں کی نذر ہو جاتا ہے، اور حکومت جلد از جلد بجٹ منظور کرا لیتی ہے۔

موجودہ بجٹ کو پیش کرتے وقت حکومت کی جانب سے جس معمولی معاشی استحکام پر بڑے فخر کا اظہار کیا گیا ہے، اس کی بنیاد بہت کمزور ہے۔ اگر معاشی استحکام کے دیگر پہلو صحیح طریقے سے رُوبہ عمل نہیں آئیں گے، تو معاشی صورت حال مستحکم ہونے کے بجائے اور زیادہ خرابی کی طرف جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں تمام کوشش کے باوجود برآمدات (Exports) میں کمی اور درآمدات (Imports) میں اضافے نے بہتری کے امکانات کو مسلسل کمزور ہی رکھا ہے۔

بلاشبہہ، کورونا کے باعث دیگر ممالک کی پیداواری صلاحیت متاثر ہونے سے پاکستان کو ٹیکسٹائل کی صنعت میں خاطر خواہ سہارا ملاہے، مگر اس معاشی بہتری کی بنیاد بالکل عارضی ہے۔ چونکہ اس کے پس منظر میں مضبوط معاشی ، فلاحی، فنی اور پیداواری سہارا موجود نہیں، اس لیے یہ علامتی ترقی کسی بھی وقت انہدام سے دوچار ہوسکتی ہے۔ کپاس کی فصل میں خطرناک حد تک کمی نے کپڑے کی تجارت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود، ایک ڈیڑھ درجن سیاسی اور معاشی اجارہ داروں پر مشتمل ’شوگر مافیا‘ نے کپاس کی پیداوار کے علاقے میں گنے کی کاشت سے، ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور اس سے حاصل ہونے والے زرِمبادلہ کے امکانات کو مسدود کرکے رکھ دیا ہے۔ گویا کہ سپریم کورٹ بے اثر اور سیاسی و معاشی سیٹھ، ناجائز معاشی فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

موجودہ حکومت کا یہ رویہ ا ب ایک ضدّی بچے کی سی صورت اختیار کرچکا ہے کہ موجودہ صورتِ حال پر بات کرنے کے بجائے سارا وقت رونے دھونے پر صرف کرتا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کو تمام مسائل کا سبب اور ذمّہ دار قرار دینے کا وقت گزر چکا ہے۔ اُن حکومتوں کی بُری معاشی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے تین برس گزارنے کے بعد اب ذمّہ داری لینے اور بہتر  حکمت عملی پیش کرنے کا دور شروع ہونا چاہیے تھا۔ مگر اب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ قرضوں کے حصول میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے بلکہ ایئرپورٹ اور موٹرویز تک گروی رکھنے کی نوبت آگئی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کی مرضی اور حکم کے مطابق قومی معاشی زندگی کی ترجیحات طے کرنے کے کھیل نے ملک کی آزادی اور مستقبل کو گہرے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

ملک کی معاشی ترقی میں چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کے فروغ کے لیے مربوط اور مؤثر ٹکنالوجی کا فروغ،دیہی سطح پر زراعت کی ترقی کے لیے اقدامات، کاشت کاری میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے شعور کی بیداری ، کھادوں اور اچھے بارآور بیجوں (seeds)کی بروقت فراہمی اور سہولیات دینے سے زرعی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ عملاً صورتِ حال  یہ ہے کہ گھریلو اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں بے حد اضافے کی طرح زرعی آلات و ضروریات کی قیمتوں میں بھی سو فی صد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔

اسی طرح ایک متعین وقت مقرر کرکے کمیشن بنایا جائے، جو پاکستان میں زرعی تحقیق کے اداروں کی کارکردگی اور قومی ضروریات پر بے لاگ تحقیقات کرکے قوم کو بتائے کہ یہ ادارے قوم کو کیا دے رہے ہیں؟ یہاں یہ حوالہ شاید زراعت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مفید ہوگا کہ اسرائیل نامی چھوٹے رقبے کی ناجائز ریاست نے ریگستانی اور پتھریلی زمینوں کے باوجود زراعت، پھلوں اور پھولوں میں حیران کن تحقیق و ترقی کی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے پاس وسیع رقبے اور نہایت قیمتی آبی و پیداواری وسائل ہونے کے باوجود، آئے روز سبزیوں اور اناج کی پیداوار میں کمی کا سامنا رہتا ہے۔ اکثر خوردنی اشیا کی کمی کی شکایت پیدا ہوتی ہے، حالانکہ ہمیں یہ زرعی اشیا برآمد کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔ ان قومی، زرعی اور معدنی وسائل کا درست استعمال ہی ترقی سے ہم آہنگ مستقبل دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بے روزگاری کو کم کیا جاسکتا ہے اور خودانحصاری پر مبنی معاشی و سماجی ترقی کو استحکام بخشا جاسکتا ہے۔

ملک کی معاشی زندگی میں ایک نہایت خطرناک مرض ضمنی بجٹ پر بڑا انحصار کرنا ہے۔  اب تو بدقسمتی سے عملاً سال بھر میں دو تین بجٹ بنانے کا کلچر رواج پکڑ رہا ہے۔ یہ چیز شہریوں اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بُری طرح پامال کر رہی ہے، مگر افسوس کہ کوئی اس غیراخلاقی رویے اور چلن سے چھٹکارے کی فکر نہیں کر رہا۔

سود پر مبنی معیشت نے ریاست کو قول و فعل کے تضاد سے دوچار کررکھا ہے۔ اس ظالمانہ نظامِ معیشت سے فائدہ طاقت وَر طبقوں کو پہنچ رہا ہے اور نقصان کروڑوں ہم وطنوں کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ سود کے مسئلے پر گذشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کا رویہ بھی تذبذب اور سودی معیشت کے حق میں ہے۔ یہ پالیسی ناقابلِ برداشت ہے۔سود کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، نہ کہ عدالتوں میں معاملات اُلجھا کر اسے طول دینے کے حیلے تلاش کرنے کا رویہ اختیار کرنا۔

سیاسی انتشار

  • دوسرا بڑا ہی اہم مسئلہ سیاسی قیادت کا ہے۔ سیاسی قیادت میں حکمران جماعتیں اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں شامل ہیں، مگر افسوس کہ یہ دونوں سیاسی گروہ جس غیرذمّہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور کلام و بیان کی جس گراوٹ کا شکار ہیں،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے  تباہی کی جانب لڑھک رہا ہے۔ پارلیمنٹ، قوم کے ضمیر اور فکر کی آئینہ دار ہوتی ہے، لیکن سچ بات ہے کہ ۲۰۰۸ء سے جمہوری عمل کی بحالی کے بعد، پارلیمان اپنی بلوغت اور وقار میں ترقی کی منازل طے کرنے کے بجائے ہرسال تنزلی کے اُلٹے سفر پر بھاگتی نظر آتی ہے۔قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے اور آرڈی ننس نافذ کرنے کی دھونس عروج پر ہے۔

 قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حزبِ اقتدار کا غیردانش مندانہ بلکہ کلامی فسطائیت پر مبنی رویہ اور جواب میں اپوزیشن کے رَدِّعمل پر مشتمل طریق کار، کسی اچھے مستقبل کی نوید نہیں دیتا۔ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے ارکان ایک دوسرے کے خلاف جو غیرمعیاری بلکہ گندی زبان استعمال کرنے کے عادی (adict) ہوچکے ہیں، اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوگا کہ یہ رَدِّعمل ختم ہونے میں نہیں آئے گا۔ دوسرے یہ کہ خود عوام میں بدقسمتی سے پارلیمنٹ کا وقار جو پہلے ہی کم ہے، بالکل ختم ہوکر رہ جائے گا۔ تیسرے یہ کہ اس سسکتے جمہوری عمل کی زندگی کے خاتمے اور غیرجمہوری قوتوں کی پیش قدمی کا سبب بنے گا جس کے ذمّہ دار بنیادی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف ہوں گے۔

اخلاقی انحطاط

  • تیسرا اہم مسئلہ معاشرتی بگاڑ ہے، جو دھوکے، فریب، ملاوٹ اور بددیانتی میں پورے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ وہ اب بداخلاقی اور اخلاقی بے راہ روی کی گہرائیوں میں اُترتا نظر آرہا ہے۔ بچوں سے جنسی زیادتی اور بالجبر زیادتی کے گھنائونے واقعات، ملک کے تمام حصوں میں بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ حیا اور شرم کا پردہ بالکل ہی چاک ہوا چاہتا ہے۔

اس بحرانی صورتِ حال میں سب سے بنیادی رہنمائی اور مؤثر عملی منصوبہ تو قرآن کریم، حدیث پاک اور سنت ِ نبوی سے ملتا ہے۔ کاش، ہمارے حاکم اور انتظامی افسران اس پر توجہ دیں اور اپنی ذمّہ داری ادا کریں۔ دوسرے یہ کہ اس ذمّہ داری کی ادائیگی کے لیے خود سیاسی اور دینی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کو بھی اپنی ذمّہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ ہرفرد کو سمجھناچاہیے کہ یہ آگ محض دوسرے کے گھر کو نہیں جلائے گی، بلکہ آج یا کل، یہ خود ہمارے  گھر کو بھی جلاکر راکھ کردے گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ان تین بنیادی اُمور پر سوچ بچار کے لیے قوم کے تمام بااثر طبقوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور عملی طور پر اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

ذکرِ الٰہی

عَنْ أَبِيْ ھُرَيرَۃَ  قَالَ قَالَ  رَسُوْلَ اللّٰہِ  مَا مِنْ قَوْمٍ یَقُومُونَ مِنْ مَجْلِسٍ لا یَذْکُرُونَ اللّهَ فِیهِ إِلَّا قَامُوا عَنْ مِثْلِ جِیفَةِ حِمَارٍ وَکَانَ لَهُمْ حَسْرَةً (ابوداؤد، کتاب الادب، باب کراھیۃ ان یقوم الرجل من مجلسہ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی قوم کسی مجلس سے اُٹھے، اس میں اللہ کا ذکر نہ کیا ہو،وہ گویا مُردار گدھے کی لاش سے اُٹھی ہے۔ ان پر ذکر ِ الٰہی نہ کرنے کا افسوس رہے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ فہم قرآن و حدیث کے لیے مجلسیں بناکر کسی ایک جگہ جمع ہوتے تھے، جہاں وہ مختلف ملّی، سماجی اور دینی مسائل پر گفتگو کرتے۔ ہرایک کی حالت سے واقفیت بھی حاصل کرتے تھے۔ اس سلسلے میں حدیث جریل کو واضح مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت صحابہ کرامؓ آپؐ کے پاس بیٹھ کر دین کی باتیں سیکھ رہے تھے۔

حدیث کے بین السطور سے واضح ہورہا ہے کہ ان کی مجلسیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذکر سے خالی نہیں ہوتی تھیں۔ اس لیے آپؐ نے یہ انتباہ دیا کہ اگر کوئی مجلس ایسی ہو، جس میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا تذکرہ نہ آئے، تو وہ مجلس مُردار گدھے کی لاش کی مانند ہے۔ آں حضورؐ کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ مجلسیں خیروبرکت کے لیے ہوں۔ ان میں اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی باتیں ہوں۔ یہ نہ ہو کہ وہاں معاشرے کے افراد کی بُرائیاں بیان کی جائیں، ایک دوسرے کی غیبت ہو اور لغوباتوں میں وقت ضائع جاتا ہو۔ ذکراللہ سے مراد روایتی ذکر نہیں ہے بلکہ اس میں ہروہ کام شامل ہے، جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کیا جائے۔ دینی مسائل کی تفہیم، ملّت کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبہ بندی اور تعلیم و تربیت کا پروگرام جیسے اہم اُمور اس میں شامل ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا جو معمول تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو باقی رکھنا چاہتے تھے۔ آپؐ نہیں چاہتے تھے کہ صحابہؓ کہیں غفلت کا شکار ہوکر مجلسوں کو صرف دُنیاوی یا خلافِ شریعت باتوں کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ اس سے روکنے کے لیے آپؐ نے تمثیلی انداز میں اس طرح بیان فرمایا تھا۔ مراد یہ ہے کہ مجلس میں خیر کی باتیں نہ ہونے پر افسوس ہونا چاہیے۔ آج ہم کو غور کرنا ہے اور اپنے رویے پر نظرثانی کرنی ہے کہ ہماری مجلسیں کیسی ہوتی جارہی ہیں۔ خلافِ شرع مجلس کو شریعت کے مطابق بنانے کی فکر کرنی چاہیے۔

دُنیا سے تعلق

عَنْ عَبْدِاللہِ قَالَ  رَسُوْلُ اللہِ عَلٰی حَصِیْرٍ فَقَامَ وَقَدْ اَثَّرَ فِیْ جَنْبِہٖ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللہِ  لَوِ اتَّخَذْنَا لَکَ وِطَاءً  فَقَالَ مَالِیْ وَلِلدُّنْیَاء مَا اَنَا فِی الدُّنْیَا اِلَّا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ  ثُمَّ رَاحَ  وَتَرَکَھَا  [ترمذی، ابواب الزہد، حدیث:۲۳۵۶] حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر سوگئے، جب بیدار ہوئے تو پہلو پر نشانات تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر آپؐ اجازت دیں تو ہم آپؐ کے لیے بستر تیار کردیں۔ آپؐ نے فرمایا: میرا دُنیا سے کیا تعلق، مَیں تو دُنیا میں صرف اس راہی کی طرح ہوں، جو آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے رُکا پھر آرام کیا اور چلتا بنا۔

قرآن و حدیث کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کی بہ نسبت آخرت کی زندگی طویل اور دیرپا ہے۔ اس لیے اُخروی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی باربارترغیب دی گئی ہے۔ دُنیوی زندگی کو دارالعمل کہا گیا۔ یہاں بندہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، اچھے اور بہتر اعمال کرے، اس کا اچھا بدلہ اس کو آخرت میں ملے گا۔ قیامت کے بعد آنے والی اُخروی زندگی کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز زیادہ اہم ہوتی ہے، اسی اعتبار سے اس کی تیاری کی جاتی ہے۔

اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ دُنیا کو کس طرح برتتے تھے اور صحابہ کرامؓ کو بھی اسی کی تعلیم دیتے تھے۔ اس حدیث میں آپؐ نے دُنیا و آخرت کی زندگی کو تمثیلی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کی زندگی اس قدر مختصر ہے، جس طرح ایک راہ گیر چلتے چلتے تھک کر کسی درخت کے زیرسایہ آرام کرنے کے لیے رُکے،  تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد پھر راستہ لے لے۔ سفر میں آدمی کا زیادہ وقت سفر میں گزرتا ہے۔ چوبیس گھنٹے میں چند گھنٹے ہی وہ آرام کرتا ہے۔ یہی حال دُنیوی زندگی کا ہونا چاہیے کہ آدمی حرکت میں رہے، نیک اعمال کا ذخیرہ کرے تاکہ اُخروی زندگی میں اس سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکے۔

اس تمثیل کے مطابق دُنیوی زندگی بہت تیزی سے گزر رہی ہے۔ زندگی ختم ہونے سے پہلے نیک اعمال کرلینے چاہییں ۔

اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے اس طرزِعمل کو دیکھ کر حضرت ابن عمرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر آپؐ اجازت دیں تو آپؐ کے لیے نرم و ملائم اور آرام دہ بستر تیار کردیا جائے تو اس موقعے پر آپؐ نے ان سے فرمایا: ہمارا دُنیا سے کیا لینا دینا ہے، ہمارا دُنیا سے بس اس قدر تعلق ہے جتنا ایک راہی راستے میں آرام کرنے کے لیے کسی درخت کے زیرسایہ قیام کرے اور پھر اپنی راہ لے۔ ہم کو دُنیا سے لو نہیں لگانا ہے۔ ہم تو آخرت کے طالب ہیں۔ آخرت دُنیا کی سوکن ہے، دونوں ایک ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہیں۔

ضبطِ نفس

عَنْ أَبِيْ ھُرَيرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ: لَيسَ الشَّدِیدُ بِالصُّرْعَۃِ ، اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِيْ یَمْلِکُ نَفْسَہ عِنْدَ الْغَضَبِ (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حدیث: ۵۷۶۹) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلوان وہ نہیں جو مقابلہ جیت لے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصّے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔

اس حدیث میں حقیقی بہادری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کہیں قوی مومن کو ضعیف مومن سے بہتر قرار دیا گیا ہے اور ایسے طریقے بتائے گئے، جن سے جسمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن حقیقی قوت غصّے کے وقت نفس کو قابو میں رکھنا ہے ورنہ پہلوان اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنی طاقت و قوت کے بل پر اپنے مدمقابل کو پچھاڑدے۔ غصّے کے وقت چہرہ سرخ ہوجانے کے باوجود جو ضبط نفس سے کام لے، دراصل وہی پہلوان ہے۔

انسان غصّے کی حالت میں ایسے کام کربیٹھتا ہے جس پر بعد میں وہ بہت نادم ہوتا ہے۔ بسااوقات جب وہ غصّے پر قابو نہیں رکھ پاتا تو ایسے نقصانات سے دوچار ہو جاتاہے کہ جن کی تلافی بڑی مشکل سے ہوپاتی ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ غصّے کی حالت میں آدمی دوسرے کو بُرا بھلاکہہ دیتا ہے، باہم گالم گلوچ کرلیتا ہے اور شدید غصّے میں دوسرے کو مار بھی دیتا ہے، سامان کو توڑ پھوڑ دینا اور نقصانات کر دینا اس حالت میں معمولی کام سمجھا جاتا ہے۔

احادیث میں غصّے پر قابو پانے کی مختلف ترکیبیں بتائی گئی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو غصّہ آئے تو اسے چاہیے کہ بیٹھ جائے اور پانی پی لے۔ جہاں تک ہوسکے غصّے کو پی جانے کی کوشش کرے تاکہ فوری طور پر طاری ہونے والی غصّے کی کیفیت سے دیرپا نقصانات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔

شیطان کھلم کھلا انسان کا دشمن ہے۔ اس لیے وہ ایسے حربے استعمال کرنے سے نہیں چُوکتا جس میں انسان کا سراسر خسارہ ہو۔ نفس کو بے قابو کردینا اس کی عین خواہش ہوتی ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی و نرم گفتاری کو پسند فرمایا ہے۔ معافی و درگزر کی ترغیب دی ہے۔ یہ ساری خوبیاں غصّہ کو پیدا ہی ہونے نہیں دیتی ہیں۔

معاشرے کا مفاد جہاں بہت سی خوبیوں کے اختیار کرنے میں ہے، وہیں بہت سی بُرائیوں سے دُور رہنے میں بھی ہے۔ غصّہ بہرحال ایک بُرائی ہے۔ معاشرے کو اس سے پاک رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اس سے کوسوں دُور رہے۔ غصّے کے وقت نفس کو قابو میں رکھنا بڑی خوبی کی بات ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر معاشرے کے سبھی افراد اسلام کی تعلیم اور مزاج سے بخوبی واقف ہوجائیں اور اس کے مطابق زندگی گزارنے لگیں تو معاشرے کو مثالی بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ اللہ تعالیٰ ہرایک کو غصّے پر قابو پانے کی صلاحیت عطا فرمائے، آمین!

ابتدا ہی میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ’انقلاب‘ معاشرتی زندگی کے چلن، اس کے  رُخ اور حالات کے بدل دینے کا، موڑ دینے اور پلٹ دینے کا، بلکہ اُلٹ پلٹ کردینے کا نام ہے۔

یہ کام جس بھرپور صلاحیت ، اہلیت اور قوتِ کار کا متقاضی ہے، اس کا متحمل کوئی فرد تنہا نہیں ہوسکتا۔ ویسے بھی کسی فردِ واحد کا لایا ہوا ’انقلاب‘ ، اس کے مزاج کی چھاپ لے کر اُبھرتا ہے، اس کی سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس کے نقطۂ نظر اور فکروخیال کا اسیر ہوتا ہے۔ ایسا انقلاب فرد سے شروع ہوکر، فرد ہی پر ختم ہوجاتا ہے۔

ہم جس ’انقلاب‘، اسلامی انقلاب کے داعی ہیں، وہ نظریے کا اور عقیدے کا انقلاب ہے۔ اللہ سے لَو لگانے اور اسی کا ہو رہنے کا انقلاب ہے۔ یہ انقلا ب فکرونظر کا، سوچ و عمل کا اور رُوح و بدن کا انقلاب ہے۔ یہ انقلاب ایک منظم جماعت کا منتظر اور ایک مضبوط گرو ہ کا مرہونِ منت ہے۔

ایسی جماعت ___ جو ایمان کے بل پر اُٹھے، اصولوں پر تشکیل پائے، باہمی مشاورت سے چلے، رضائے الٰہی جس کا نصب العین قرار پائے، جدوجہد جس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہو،قال اللہ اور قال رسول اللہ  جس کی میزان ٹھیرے۔

ایسی جماعت ___ تربیت و تزکیہ جس کی گھٹی میں پڑا ہو، جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت جس کی منزل کا پتہ دیتے ہوں، جو معرکوں کی خُوگر اور غلبۂ حق جس کا مقدر ہو، جس کے روز و شب، ’تیزترک گامزن، منزلِ ما دُور نیست‘ کا پیغام دیتے، اور 

؎
شب گریزاں ہوگی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

کا مژدئہ جانفزا سناتے ہوں۔

لہٰذا، حقیقی ’انقلابی جماعت‘، صرف ’اسلامی جماعت‘ ہی ہوسکتی ہے۔

جو انسان کی فطری ضرورتوں اور طبعی تقاضوں کا لحاظ رکھ سکے۔ انسانی صلاحیتوں کی نشوونما کا اہتمام کرسکے، وصولی حق اور ادایگیِ فرض میں توازن قائم کرسکے۔ایسی جماعت، جو معاشرے میں قائم اور رائج باطل اور اللہ کے باغی نظام سے اعلانِ برأت کرے، لگے بندھے طور طریقوں، رسوم و رواج کو تاراج کرے، جمے جمائے تمدن کے فرسودہ اور جاہلیت پر مبنی ڈھانچے کو نابود کرے۔

جو بندگانِ خدا کو بندگی ٔ ربّ کی طرف بلائے، ربِّ حقیقی کا دست ِ نگر اور_اس کی حمدوثنا کا پیکر بنائے، جو اُخروی زندگی کو حیاتِ جاوداں ___اور حقیقی زندگی بنائے، اور یہ درس سمجھائے۔ جو اللہ کی کتاب سے انھیں جوڑتے ہوئے، سارے طلسم توڑدے اور سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے، جو اعلانِ بغاوت کرے۔سارے (جھوٹے) خدائوں سے رشتۂ ناتا توڑنے کی بات کرے، خدائے واحد کو ربّ مان لینے، اسی کاہورہنے___اور ___اپنا سب کچھ اسی کی راہ میں لٹادینے کی جُوت جگائے:

اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ (التوبہ ۹:۱۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں‘‘___ کا سبق دُہرائے۔

جو بیچ چوراہے کھڑے ہوکر، ڈنکے کی چوٹ، بلاخوفِ تردید، ہرملامت کو انگیز کرتے ہوئے پکار دے کہ کُل کائنات میرے ربّ کی ہے اور میں اس کا خلیفہ ہوں۔ یہ تمدّن بھی میرا ہے، تاریخ کی تعبیر بھی میری ہے، اور سیاست کی بساط بھی میری ہے، حکومت اور عدل و انصاف کی حقیقی مظہر عدالت بھی میری ہے۔

 یہ اللہ کے رنگ میں سب کو رنگ دینے کی جماعت، صبغۃ اللہ جسے کہیں۔

معاشرہ گیا گزرا ہوجاتا ہے، زنگ آلود ، داغ دار ہوجاتا ہے، گراوٹ و انحطاط کا شکار ہوجاتا ہے، ذلّت و نکبت سے دوچار ہوجاتا ہے۔ پستیوں کی گہرائیوں میں گرتا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے___ ’انقلابی جماعت‘ اخلاق اور اس کی قدروں کو دیوالیہ پن کی دلدل سے نکال کر، تکریم،تعظیم اور قبولیت کا آہنگ دیتی ہے۔ فکرونظر اور سوچ کی بلندیوں کو اوج ثریا پر پہنچاتی ہے۔ عجزوانکسار، عدل و احسان اور مروّت و ایثار کو عام کرتی ہے۔ فرد کو انفرادیت اور خودپسندی سے دست بردار ہونے، اجتماعیت کو اپنانے اور ’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘ کے عنوانات سجانے کا درس دیتی ہے او ر ’موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں‘ کا ذہنی سانچا فراہم کرتی ہے۔

معاشرے کو روگ لگ جاتے ہیں، جو گھن کی طرح اسے کھاتے ہیں۔ روگی معاشرے، بیمار، تہی دامن اور اندر سے کھوکھلے اور ویران معاشرے میں ایک ’انقلابی جماعت‘اس معاشرے کے لیے ’کاروانِ دعوت و محبت‘ ہے۔ ایسی جماعت ’قافلۂ امن و اخوت‘ بھی ہے کہ جب لوگ نفرتوں میں ڈوبے ہوں، یہ ان کے لیے محبت کے گیت گاتی ہے۔ جب لوگ اندھیروں میں بھٹک رہے ہوں، یہ انھیں روشنیوں اور اُجالوں کی طرف لاتی ہے۔ جب لوگ غلاظت کو اپنا مسکن بنا چکے ہوں، یہ انھیں پاکیزگی اور صفائی کا شعور دلاتی ہے۔ جب لوگ باہم دست و گریباں ہورہے ہوں، نسلی، قبائلی، لسانی تنگنائیوں میں سمٹ اور سکڑ رہے ہوں، اور اِذْکُنْتُمْ اَعْدَاءً   ’’تم ایک دوسرے کے دشمن تھے‘‘، وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِنَ النَّارِ… ’’اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے‘‘ کی تفسیر بن رہے ہوں، تو اس مایوس کن صورتِ حال میں ایک ’انقلابی جماعت‘ انھیں شیروشکر کرتی، باہم بغل گیر کراتی، اور بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ آفاقی بناتی، ہمتیں بڑھاتی، ولولے جگاتی اور ایمان کی خوشبو مہکاتی ہے اور ’ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند‘ ان میں شامل کراتی ہے، اور:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

کا مژدۂ جانفزابناتی ہے۔

جب لوگ سب کچھ بھول چکے ہوں، اور نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۝۰ۭ (الحشر ۵۹:۱۹) کا عنوان ہوچکے ہوں۔ ’انقلابی جماعت‘ کا فرض ہے کہ انھیں اللہ سے ڈرائے، اپنے ربّ کی طرف لوٹائے اور اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ [اللہ سے ڈرو، اور ہرشخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو___ الحشر ۵۹:۱۸] کا درس یاد دلائے۔انھیں ان کی شناخت بتائے، خود اپنے آپ ہی سے انھیں متعارف کرائے، ان کی حقیقت سے انھیں روشناس کرائے، گم کردہ راہ کو راہ دکھائے، مشعلِ راہ بن جائے اور اپنے پیر پر آپ کلہاڑی مارنے والوں کو خودکشی کے اس عمل سے نجات دلائے۔

ہم اس انقلاب کی اور ایسی انقلابی جماعت کی بات کرتے ہیں۔ اسی کو اپنی تمنائوں کا مرکز اور آرزوئوں کا محور سمجھتے ہیں۔ اسی کو رگ و پے میں سرایت کرتا دیکھتے ہیں اور ہرسانس میں اسی انقلاب کی آواز سنتے ہیں اور دل کی ہردھڑکن سے اس کی گواہی دیتے ہیں، جس کے ’’رہبرو رہنما، مصطفےٰ مصطفےٰ ‘‘صلی اللہ علیہ وسلم قرار پاتے ہیں:

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّـرًا وَّنَذِيْرًا۝۴۵ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا۝۴۶ (الاحزاب ۳۳:۴۵) اے نبیؐ! ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بناکر، بشارت دینے والااور ڈرانے والا بنا کر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بناکر۔

اور جس کے کارکن، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  (الفتح۴۸:۲۹) [’’محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘]کے مصداق اپنے اصولوں پر کاربند، عقیدہ پر مر مٹنے والے، ایمان پر آنچ نہ آنے دینے والے، نظریہ کے سانچے میں ڈھلے، اللہ کے باغیوں کے لیے لوہے کے چنے اور رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد بنے، اور باہم بڑے مربوط ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے رحیم و شفیق ہیں۔ ایسے بلندہمت لوگ ہی اُولوالعزم انسان ہیں۔ یہ استقامت و استقلال کے کوہِ گراں ہیں۔ یہ وہ طوفان ہیں، جو غرض مندی، خود غرضی اور مفاد پرستی سے بھری پڑی اس دنیا میں بے غرضی، بے لوثی اور ایثار پیشی کی سچی تصویر بنتے ہیں۔ جو یقین محکم، عمل پیہم کا درس دیتے، محبت کو فاتح عالم قرار دیتے ہیں، اور یوں جہادِ زندگانی میں مردوں کی ان شمشیروں کا سوزو ساز جگاتے ہیں۔

یوں تو مسلم معاشرے میں جیسی بھی اس کی تاریخ ہے، جہاں تک ہماری نگاہ جاتی ہے، ماضی کے جھروکوں میں ہمیں ایسے افراد ہمیشہ ملتے رہے ہیں۔ نیک اور بلندآہنگ شخصیتیں ہرزمانے میں موجود رہی ہیں۔ شاذونادر نہیں اور خال خال نہیں، بلکہ خوب خوب رہی ہیں۔ درس و تدریس کا عمل بھی جاری رہا اور وعظ و نصیحت بھی کیا جاتا رہا۔ پندونصائح میں کوئی کمی کبھی نہ ہوئی۔ دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا رہا، لیکن پچھلی صدیوں کے ملّی انحطاط اور صدیوں کی غلامی نے، تقسیم در تقسیم کے مراحل اور ملّت کی خوابیدگی نے ایسی ’انقلابی جماعت‘ سے معاشرے کو خالی اور ملّت کو دُور رکھا۔ اسے اس نعمت سے بہرہ ور نہ ہونے دیا۔ اس بیج کو برگ و بار نہ لانے دیا اور یوں شجر سایہ دار سے پوری ملّت کو محروم رکھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ، مغربی سامراجیوں سے آزادی کے بعد بھی غلامی کا شکنجہ مسلط ہے۔ ایمان کے باوجود اللہ کے علاوہ بہت سے خدا لوگوں نے بنا رکھے ہیں۔ بہت سے بُت اپنے سینوں کے اندر سجا رکھے ہیں۔ لہٰذا، انقلابی جماعت کا احیاء اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ  وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  اس دورکی نشاتِ ثانیہ ہے، اور یہ ایمان کا تقاضا بھی ہے، یہ دین کا مطالبہ بھی ہے، اور مسلم معاشرہ اس کا طلب گار بھی ہے۔

چنانچہ جب جماعت انقلابی اور انقلاب آفریں ہوگی تو اس سے منسلک افراد بھی انقلاب صفت ہوں گے اور رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ   کا مصداق نظر آئیں گے۔ ایسے لوگ بکھرے بکھرے منتشر منتشر سے نہیں بلکہ باہم مربوط ہوتے ہیں۔ یہ نفرتوں میں ڈوبے ہوئے نہیں، اخوت و محبت کے سفیر ہوتے ہیں۔ یہ خشک اور پھیکے سے نہیں، مؤدت اور مواسات کے اسیر ہوتے ہیں۔ یہ خود اپنی ذات اور اس کے مفادات میں گم نہیں، بلکہ ایثار اور قربانی کے حریص ہوتے ہیں۔ اخلاقِ کریمانہ ان کی شان، عفو و درگزر ان کی پہچان، گفتار میں، کردار میں اللہ کی بُرہان ہوتے ہیں۔

اس قافلے کا ہرکارکن انقلابی، ریشم کی طرح نرم، شہد کی طرح شیریں، ملیے تو گداز اور سنیے تو کانوں میں رَس گھلنے کا احساس سرایت کر جاتا ہے۔ یہ کٹے ہوئے نہیں، آپس میں جڑے ہوئے باہم مربوط ہوتے ہیں۔ یہ دُور دُور فاصلوں میں بٹے ہوئے نہیں بلکہ اپنائیت کے رشتے میں بندھے ہوئے، تسبیح کے دانوں کی طرح باہم پروئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان اگر فاصلے حائل ہوں، تب بھی ان کے دل ساتھ ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ حالات کی سنگینی پر ایک ساتھ کڑھتے ہیں۔ یہ ہوائوں کا رُخ بدلنے کے لیے ایک ساتھ اُٹھتے ہیں۔ قدم بقدم جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ   اپنے ربّ سے کیے ہوئے عہدوپیمان کو سچ کر دکھاتے ہیں اور اسی کا ہورہنے کا درس دیتے ہوئے دارفانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور اپنے ربّ سے ملاقات کے منتظر،  یہ شیدائی اپنے ربّ سے جاملتے ہیں۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ   کی شان، جسم واحد کی طرح یک جان، ایک دوسرے پہ مہربان، مونس اور بڑے غم خوار، دُکھ درد میں ایک دوسرے کے حصہ دار۔

جس طرح انسانی جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو دوسرا اس سے لاتعلقی اور بے اعتنائی نہیں برتتا اور نظرانداز نہیں کرتا۔ پیر میں کانٹا بھی چبھے تو آنکھ آنسو بہاتی ہے، حالانکہ آنکھ اور پیر کا فاصلہ تو دیکھیے، خود کانٹا جسم کے حصے کے لیے باعث ِ تکلیف ہوتا ہے۔ لیکن پورا جسم انکاری ہے کہ میں چلوں گا نہیں، اپنی جگہ سے ہلوں گا نہیں، منزل کی جانب بڑھوں گا نہیں، جب تک کانٹا نہ نکلے، یہاں سے اُٹھوں گا نہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر ظلم کرے نہ اس کو ظالم کے رحم و کرم پر چھوڑے [صحیح البخاری، کتاب المظالم والغصب، حدیث: ۲۳۳۰]۔ یوں بھی سچی بات تو یہ ہے کہ کون انسان کسی کو کچھ دے سکتا ہے؟ دینے والی ذات تو ایک ہی ہے۔ کون کسی کا دُکھ بانٹ سکتا ہے، کون کسی کا غم ہلکا کرسکتا ہے، لیکن بہرحال ہمدردی کے دو میٹھے بول بولنے سے بوجھ اُتر جاتا ہے۔ انسان ہلکا ہوجاتا ہے۔ غم کو اپنے آپ سے بہت دُور پاتا ہے اور دو میٹھے بول ہی ہوتے ہیں، جو خوشیوں کو دوبالا کردیتے ہیں۔ اکیلے اور تنہا کوئی بھی مسرت کا لطف نہیں اُٹھا پاتا ہے۔ اس لطف کو دوبالا کرنے کے لیے بھی انسان کو انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ساتھ دے، خوشیاں بڑھائے اس میں اضافہ کرے۔

رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  کا یہ کیا ہی ایمان افروز واقعہ کہ جب جاں کنی کی حالت تھی۔ جنگ کے زخمی پڑے تھے تو ان میں سے ایک نے پانی کے لیے پکارا۔ مشکیزہ لیے جب پکار کو سننے والا اس جانب بڑھا اور پہنچا اور پانی اس کے آگے کیا تو قریب سے ایک اور نے آواز دی، وہ آواز بھی پانی کے لیے تھی۔ یہ زخمی بھی سسک رہا تھا۔ اس نے کہا: نہیں پہلے اس کو پانی پلائو، تو جب اس کے پاس پہنچے اور ابھی مشکیزہ آگے کیا ہی تھا کہ تیسرے کی آواز آئی کہ پانی۔ اور اس نے کہا کہ اس کو جاکر پلائو۔ جب وہاں پر پہنچے تو وہ دم توڑ چکا تھا۔ جب واپس دوسرے کے پاس آئے تو وہ اپنے ربّ کے پاس جاچکا تھا، اور جب واپس پہلے کے پاس پہنچے تو وہ بھی رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  کا درس دے چکا تھا اور رخصت ہوتے ہوئے یہ پیغام دے گیا تھا کہ انقلابی جماعت کی یہی پہچان ہے کہ سب دوسرے کے لیے جیتے ہیں، محض اپنے لیے نہیں جیتے۔ کسی جماعت کو انقلابی اور جان دار بنانے کے لیے یہی کردار درکار ہے۔

 بھلا سوچیے کہ اگر یہاں آپس کی بدگمانیاں ہوں، کھچائو اور تنائو ہو، بس ایک ظاہری سا   رکھ رکھائو ہو، تو اس عالم میں کیا وہاں کوئی انقلابی جماعت ہوسکتی ہے، انقلابی کارکن وجود رکھ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، وہاں انقلابی کارکن کیسے مل سکتا ہے؟ انقلاب کا سماں ممکن ہی نہیں ہے۔ وہاں ربّ کی رضا اور جنّت کا حصول ناممکنات میں سے ہے۔

رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  میں بڑی وسعت ہے۔ عام مسلمانوں سے وابستگی کی بات ہے۔ ان کو جاننے، سمجھنے اور اپنانے کی بات ہے کہ ان سے قربت اختیار کی جائے۔ جب ہم نمازیں لوگوں کے ساتھ پڑھتے ہیں، چاہے وہ دیوبندی ہوں، چاہے بریلوی ہوں، یا چاہے اہل حدیث ہوں۔ جب حج ہم ان کے ساتھ کرتے ہیں خواہ عربی ہو یا عجمی ہو یا ترک و تاتاری ہو۔ ان سب سے مل کر    یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔ اس لیے جزوی اختلاف کے باوجود مجموعی اتفاق ہی انقلاب اور انقلابی عمل کی راہیں روشن کرسکتا ہے۔اگر انقلاب آئے گا تو ایسے ہی کشادہ دل کارکنوں کے ذریعے آئے گا۔

معاشرے میں بہت سی جماعتیں ہیں، بہت سے گروہ ہیں۔ خالص دینی بھی ہیں، ملی جلی بھی ہیں۔ وہ بھی ہیں جو برسرِزمین کم اور زیرزمین زیادہ ہیں۔ سبھی بساط بھر کام کر رہی ہیں۔ عوام تک پہنچ رہی ہیں، ان کے معاملات میں دل چسپی لے رہی ہیں، اصلاح کے لیے کوشاں اور سرگرداں ہیں۔ بالکل انھی عوام تک رسائی، دعوت کا فہم اور ان تک پذیرائی، تبدیلی اور انقلاب کی تڑپ، بس یہی ہمیں مطلوب ہے۔ لہٰذا، ان سے وابستہ رہنا، ان کو اپناسمجھنا، احسان کا رویہ اپنانا، ہرایک کی عزّت اور توقیر کرنا، ان کے کام آنا، ان کی خوشی میں، ان کے غم میں شریک رہنا، ان کے غموں کو بانٹنا اور ہلکا کرنا، یہ سب دعوت کے کام ہیں۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ   ان سب کا عنوان اور شاہِ کلید ہے۔

جب ایسا ہوگا تب ہی پذیرائی ہوگی۔ ایک ساتھ چلنے کی بات ہوگی۔ اسلامی انقلاب کی لے بڑھ سکے گی۔ پھر ہرملک، ہربستی کے اندر یہی صدا لگائی جائے گی۔

نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہمارے اُوپر ہتھیار اُٹھائے۔ وہ ہم میں سے نہیں ہے[مسنداحمد، من مسند بنی ہاشم، حدیث: ۸۱۷۵]۔ آپؐ نے فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو، بُغض اور عداوت نہ رکھو، ایک دوسرے کی جڑ نہ کاٹو، آپس میں منہ پھیر کر نہ بیٹھو۔ اے خدا کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو[صحیح مسلم، کتاب الـبّر والصلہٗ والآداب، حدیث: ۴۷۴۸]۔ رہبر و رہنما صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہم کو یہ پہنچا کہ آپس میں سگے بھائیوں جیسی محبت اور پاسداری برتو۔ جہالت کی بُری عادتیں ترک کرو۔ آپؐ نے فرمایا: ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال، عزّت و آبرو، سب حرام ہیں [صحیح مسلم، کتاب الـبّر والصلہٗ والآداب، حدیث:۴۷۵۶]۔  آپؐ نے ایک دوسرے کا خون نہ بہانے، رشتہ داروں کا حق ادا کرنے، پڑوسیوں کا خیال رکھنے اور ماتحتوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔یہ ساری بنیادیں ہیں رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  کی۔

رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  کا ایک موقع وہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینے پہنچتےہیں۔ مکہ سے لُٹے پٹے قافلے مہاجرین مکہ، مدینہ پہنچتے ہیں، تو اس حال میں پہنچتے ہیں کہ عزیز و رشتہ دار پیچھے رہ گئے ہیں۔ اپنی معیشت کو، اقتصادی ڈھانچے اورنظامِ زیست کو مکہ میں چھوڑ کر چلے آئے ہیں۔ اس حال میں وہاں پر پہنچے ہیں، کھانے اور پینے کو کچھ میسر نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات فرمائی، ان کو بھائی بھائی بنادیا۔ ایک دوسرے کا غم خوار بنادیا۔ وہ جو معاشی اور سماجی مسئلہ درپیش تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سارے معاملات کو طے کرادیا۔

 اس سے بھی ذرا آگے چلیے۔ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ  کی عظیم الشان مثال تو وہ ہے ، جب صلح حدیبیہ کے موقعے پر یہ افواہ سنی گئی کہ حضرت عثمانؓ قتل کردیئے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو اپنے ساتھیوں کو موت پر بیعت کرنے کے لیے پکارا اور لوگوں سے کہا کہ، جمع ہوجائیں۔ لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے اور اپنے ایک ساتھی کے خون کا قصاص لینے کے لیے چودہ سو مہاجرین اور انصار لبیک کہتے ہوئے بیعت کے لیے جوق در جوق آگے بڑھے۔ اس عظیم الشان مثال پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:

 لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ   (الفتح۴۸:۱۸)اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔

اللہ جس سے خوش ہوجائے، اس کو پھر اور کیا چاہیے؟ ہم میں سے کون ہے، جو اللہ کی خوشی نہیں چاہتا اور اللہ کی رضا نہیں چاہتا۔ ہم تو اسی کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا،اللہ تبارک و تعالیٰ جس عمل کے بارے میں خود یہ اعلان کردے اور تاقیامت لوگ اس کی تلاوت کرتے رہیں، وہ ایسا عمل ہے کہ اس کو اپنایا جائے۔

ایک اسلامی انقلابی جماعت دعوت کے مرحلے سے گزرتی ہے۔ اپنی صفوں کو منظم کرتی ہے۔ تزکیہ اور تربیت کے مراحل طے کرتی ہے۔ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ اور تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ کی گھاٹیاں پار کرتی ہے۔ ٹوٹے ہوئوں کو جوڑتی ہے، شکستہ دلوں کو تسکین فراہم کرتی ہے۔ رُوٹھے ہوئوں کو مناتی ہے، گمراہ اور بدراہ ہوجانے والوں کو راہِ راست دکھاتی ہے۔ بندگی ٔ نفس کی راہ پر بگٹٹ دوڑ جانے والوں کو روکتی اور انھیں سمجھاتی ہے۔ ان میں اُلفت اور ملاطفت پیدا کرتی ہے۔ ان میں محبت اور یگانگت جگاتی ہے۔ خوئے دل نوازی اور اپنائیت کے دیپ جلاتی ہے اور پھر بے خطرآگے بڑھنے کا حوصلہ اور ایمان پرور عزم دیتی ہے ،اور ’’پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی‘ اس کا انھیں احساس دلاتی ہے۔ حاضر و موجود سے بیزار کرتی، زندگی کچھ اور بھی دشوار کرتی اور پکار دیتی ہے:

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ مہذب انسانی تاریخ۔ انسانوں نے اپنے معبودوں کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیں یہاں تک کہ اپنی جان کی بھی۔ اس کی مثالیں تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ ایک مثال قدیم مصر میں دریائے نیل کے خشک ہونے پر کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر قربان کیے جانے کی ہے۔ جس کو حضرت عمرفاروقؓ کے دور میں ان کے ایک خط نے ختم کیا۔

قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا حضرت آدمؑ ہی کے زمانے میں شروع ہوا۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے انبیا ؑکے دور میں قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں مقیم یہودیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی تو سورۂ آل عمران کی آیت ۱۸۳میں بیان فرمایا کہ انھوں نے کہا: ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لے‘‘،حالانکہ یہ یہودکی انتہائی غلط بیانی تھی۔

اُمت محمدیہؐ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ قربانی کا گوشت ان کے لیے حلال کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قربانی کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کھانا نہیں بلکہ ایک حکمِ شرعی کی تعمیل اور سنتِ ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے۔ چنانچہ واضح الفاظ میں فرمایا کہلَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۝۰ۭ(الحج۲۲:۳۷)’’اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے بلکہ تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔

  • انسانی تاریخ کی پہلی قربانی: انسانی تاریخ کی پہلی قربانی حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ۝۰ۘ  اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۝۰ۭ (المائدہ ۵:۲۷)اور ذرا انھیں آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو ۔ جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی، اور دوسرے کی نہ کی گئی ۔

  • قربانی کی فضیلت:قرآن مجید میں قربانی کے لیے تین لفظ آئے ہیں۔ ایک نُسُک ، دوسرا نحر اور تیسرا قربانی۔

 

  • نُسُکْ: یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں عبادت، کہیں اطاعت اور کہیں قربانی کے لیے جیسے سورہ حج کی آیت ۳۴ میں فرمایا: وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا ’’اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کر دی ہے‘‘۔ یہاں یہ لفظ جانور کی قربانی کے لیے ہی آرہا ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد مِّنْم بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ  کا لفظ ہے، یعنی ان چوپایوں پر  اللہ کا نام لے کر قربانی کریں جو اللہ نے ان کو عطاکیے۔
  • نحر: دوسرا لفظ قربانی کے لیے قران مجید میں نَحَر کا آیا ہے جو سورۃ الکوثر میں ہے ،یعنی ’’پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں‘‘۔
  • قربانی: تیسرا لفظ قربانی قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کی ۲۷ویں آیت میں آیا ہے جہاں حضرت آدمؑ کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کے واقعہ کا ذکر ہے کہ’’آپ ان لوگوں کو آدم ؑ کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی‘‘۔

امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو یا صدقہ و خیرات کرکے۔ تاہم، عرف عام میں قربانی کا لفظ جانور کی قربانی کے لیے بولا جاتا ہے۔

سورئہ حج کی آیت ۳۴ میں ہے : ’’اور ہم نے ہر اُمت کےلیے قربانی اس غرض کےلیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں، لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ اُسی کی فرماں برداری کرو، اور خوش خبری سنادو اُن لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں‘‘۔

سورۂ حج کی آیت نمبر ۶۷ میں ہے کہ ’’ہم نے ہر اُمت کے لوگوں کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نزدیک نحر کے دن( یعنی ۱۰ذی الحجّہ)  کو قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں۔ قیامت کے روز قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہوگا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے نہیں پاتا کہ اللہ کے یہاں مقبول ہو جاتا ہے۔ لہٰذا قربانی دل کی خوشی اور پوری آمادگی سے کیا کرو۔ (ترمذی، ابنِ ماجہ)

ایک اور حدیث میں آتا ہے:صحابہ ؓ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول ؐ اللہ یہ قربانی کیا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ اس میں ہمارے لیے کیا اجرو ثواب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ (ترمذی ، ابنِ ماجہ)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)

  • قربانی کا حکم:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔ (ترمذی)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے آج کے دن، یعنی بقرعید کے دن ہماری پہلی عبادت نماز اور پھر ذبح کرنا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہمارے ساتھ یہ نماز (یعنی بقرعید کی) پڑھے وہ نماز کے بعد ذبح کرے۔

حضرت انَسؓ کا بیان ہے کہ حضرت محمدؐ نے عید الاضحی کے دن فرمایا: جس نے عید کی نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا اس کو دوبارہ قربانی کرنی چاہیے اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوگئی اور اس نے ٹھیک مسلمانوں کے طریقے کو پالیا۔

یاد رکھیں! ہر صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے۔ کچھ علمائے کرام نے اسے سنت مؤکدہ سے تعبیر کیا ہے۔ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر آپؐ نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے، حتیٰ کہ اس کا عید گاہ کے قریب آنا بھی پسند نہیں فرمایا۔ قربانی درج ذیل چھے شرطوں سے واجب ہوتی ہےـ:’’ مسلمان ہونا، مقیم ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا، صاحب نصاب ہوناــ‘‘۔ بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ فرضیت ِزکوٰۃ اور وجوب ِقربانی کا نصاب ایک ہی ہے۔  حالانکہ دونوں کا نصاب الگ الگ ہے۔ زکوٰۃ کے لیے نصاب پر سال گزرجانا ضروری ہے لیکن قربانی کے لیے سال گزرجانے کی شرط نہیں ہے بلکہ عیدِ قرباں کے وقت صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے۔

  • قربانی کا فلسفہ:اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام ہی انبیا ؑ کی امتوں کو کسی نہ کسی طریقے سے قربانی کرنے کا حکم دیا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ابوالانبیا ؑاور خلیل اللہ حضرت ابراہیمؑ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے ہر سال عید الاضحی کے موقع پر اس بات کا عہد کرتی ہے کہ جس طرح ابوالانبیاؑ ابراہیم ؑ نے اپنے لختِ جگر سیدنا اسماعیل ؑکے گلے پر چھری چلاکر اپنے ربّ کو اس بات کا ثبوت فراہم کیا تھا کہ اے ربّ میں تجھے ہی تخلیق کرنے والا، پرورش کرنے والا، ضرورتوں کا خیال رکھنے والا، مالک، پالنہار اور آقا مانتا ہوں۔ ہم بھی اُسی جذبے سے تیرے حکم کو بجا لاتے ہیں۔

عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجر ہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبۂ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مینارۂ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے : دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہوجانا بلکہ اپنے رب کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا۔ اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرسکو گے۔ یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورکشاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں۔

  • آدابِ فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی گردن کسی تردد کے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تنفیذ کے لیے پیش کر دی۔
  • ایک ماں نے برسوں کی دعاؤں، التجاؤں اور مناجاتوں کے بعد ملنے والے اپنے نور ِ نظر کو بلند حوصلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دیا۔
  • ایک عظیم باپ نے کسی تردد کے بغیرپدری جذبات کو اللہ تعالی کے حکم پر قربان کرتے ہوئے تسلیم و رضا کی بلند ترین حدوں کو چھو لیا اور عملی طور پر اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی کوشش فرمائی۔
  • اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اپنے خاص لطف وکرم سے نوازنے کے لیے جس امتحان میں ڈالا تھا اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نہیں ان کا پورا گھرانا ہی اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو گیا۔

چنانچہ آپؐ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ ہرسال  قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)

قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندۂ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ (الانعام۶:۱۶۲)۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ،معاشرتی، سماجی اور اُخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔

ہمارا یہ طرزِ عمل نہیں ہونا چاہیے کہ فقط جانور ذبح کردیں بلکہ قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکیں۔ قربانی ہمیں درس دیتی ہے کہ

۱-اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعلیٰ منصب عطا فرمایا ہے تو وہ منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہنچانے میں صرف کریں۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔

۲- اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع نہیں دے سکتے تو اس کی حسرتوں کاخون  بھی نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں۔

۳-قربانی کا حکم آنے پر ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنابھی گوارا نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ اپنی خواہشاتِ نفس کو اللہ کے حکم کے تابع کردیں۔

۴-ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یاان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کے لیے کوئی جانور خرید سکتے ہیں اور نہ کوئی صاحب ِثروت انسان انھیں قربانی کے گوشت میں سے ان کا حصہ دینا گوارا کرتاہے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ مسلم اُمہ کے ناداروں کی بھوک و پیاس کا خیال رکھیں۔ انھیں اپنے جسم ہی کا ایک حصہ سمجھیں اور ان کی داد رسی پورے سال کرتے رہیں۔

۵-قربانی ہمیں درسِ اخوت دیتی ہے کہ خاندان اور محلوں میں کسی سے بھی کسی بات پر ناچاقی ہوجانے کی صورت میں اپنی انانیت کے بت کوپاش پاش کردیں اور اپنی ضد کی قربانی دیں اور ہر کسی کو آگے بڑھ کر گلے لگائیں۔

۶- قربانی ہمیں درسِ اجتماعیت دیتی ہے کہ جیسے پوری مسلم اُمہ تین دن مل کر قربانی کے جانور ذبح کرتی ہے، اسی طرح زندگی کے ہر ہر عمل پر ایک ہونے کا مظاہرہ کرے تاکہ اسلام دشمنوں کو جرأت نہ ہوسکے کہ وہ شعائر اسلامی، اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی بے حُرمتی تو دور کی بات اُن کا مذاق بھی نہ اُڑاسکیں۔

۷-قربانی ہمیں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کا سبق دیتی ہے کہ جس طرح اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے اس کی راہ میں اللہ اکبر کہہ کر جانور کو ذبح کیا، بالکل اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اُس ربّ کی کبریائی کو نمایاں کریں۔ اپنے رسم و رواج، اپنی ثقافت، وراثت، معاشرت، معیشت، عدالت، سیاست، داخلی معاملات، خارجی معاملات، خانگی معاملات، غرض ہرجگہ پر اللہ کی کبریائی نظر آئے۔

محبت اور نفرت، انسانی نفس کی دو ایسی خصوصیات ہیں، جو بیک وقت انسانی وجود میں موجود ہیں، جو انسانی نفس اور انسانی زندگی کی بڑی وسعتوں پر اثرانداز ہیں۔ بالکل اس طرح جیساکہ خوف اور اُمید کی بیک وقت موجودگی انسانی نفس کی وہ پُراثر خصوصیات ہیں، جو انسانی زندگی کے بیش تر پہلوئوں پر چھائی ہوئی ہیں۔ اسلام نے جس طرح خوف اور اُمید کی خصوصیات کو صحیح رُخ عطا کیا ہے، اسی طرح اس نے انسانی فطرت میں موجود محبت و نفرت کی خصوصیات کو مستحکم کرکے انھیں ہم آہنگی، توازن اور اعتدال بخشا ہے۔ ان کی حقیقی کارکردگی اور عمل کا تعین کیا ہے۔

انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے اور اپنے وجود سے محبت رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ نمایاں ہو، طاقت ور ہو، غالب ہو اور اقتدار کا حامل ہو۔ وہ بہت سی آسائشیں اور بے شمار نعمتیں اپنے دامن میں سمیٹ لینے کا خواہش مند رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بڑی عمر پائے اور تمام کائنات کا محور و مرکز بن جائے:

وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ۝۸ۭ(العٰدیٰت۱۰۰: ۸) اور وہ مال و دولت کی محبت میں بُری طرح مبتلا ہے۔

ان خواہشوں، آرزوئوں اور تمنائوں کے حصول میں حائل ہونے والی ہر مادی یا فکری رکاوٹ کو انسان ناپسند کرتا ہے۔ پھر اس انسان سے نفرت کرتاہے، جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنے، جواسے نقصان پہنچائے اور جو اس کے ان حقوق میں حصہ دار بننے کی کوشش کرے، جنھیں وہ محض اپنے لیے مخصوص سمجھتا ہے۔

بہرحال، محبت و نفرت کے جذبات انسان کے نفس کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔ اسلام فطرت کے ان میلانات و رجحانات سے برسرِپیکار ہونے کے بجائے، ان کو مہذب اور شائستہ بناتا ہے اور ان کو منظم اور منضبط کرتا ہے۔کیونکہ اگر محبت و نفرت کے جذبات کسی نظم و ضبط کے بغیر انسانی مزاج پر حاوی ہوکررہ جائیں تو وہ جذبات انسانیت کے جوہر کو تباہ اور اس کی قوتوں کو ضائع کردیتے ہیں اور انسان کو غلام بنا لیتے ہیں۔ یہ جذبات نہ صرف دوسروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں بلکہ یہ قوتیں نفس کی گہرائیوں میں باہم متصادم ہوکر خود نفسیاتی وجود کے لیے مہلک بن جاتے ہیں۔

اسی لیے اسلام نے محبت و نفرت کے جذبات پر روح اورعقل کے ضابطے قائم کیے ہیں اور ان ضابطوں کو اللہ کی ذات سے منسوب کر دیا ہے۔ اسلام انسان کو اس بات سے منع نہیں کرتا کہ وہ محض اپنی ذات سے محبت رکھے۔ محبت ایک طاقت ور فطری جذبہ ہے جو انسان کو عمل و کارکردگی اور تعمیروترقی پر اُبھارتا ہے۔ جو ظاہر ہے خود اسلام کے بھی مقاصد ہیں اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ انسان بہرطور عمل پر آمادہ رہے۔

مگر اسلام کی نظر میں حُب ِ نفس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ انسان لذتوں کے حصول کے پیچھے دوڑتا رہے بلکہ اسلام کی نظر میں ہروقت لذتوں کے تعاقب میں رہنا، اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔ درحقیقت ہرلحظہ نفس کی خواہشات کے تعاقب میں رہنا، نفس کو ہلاکت میں ڈال دینا ہے۔

اسلام کی نظر میں اپنی ذات سے محبت کا مفہوم

دراصل اسلام کی نظر میں حُب ِ ذات کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نصیحت کرتارہے اور اس کی صحیح سمت میں رہنمائی کرے، ایسی رہنمائی جو اسے دُنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کی جانب رہنمائی کرے اور آخرت کی فلاح بطورِ خاص ملحوظ ہو۔ اس لیے کہ آخرت کی زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی ہے اور اس کی نعمتیں دائمی ہیں۔ جب کہ دُنیاوی زندگی محض لہوولعب اور فانی زندگی ہے اور دُنیا کی فانی زندگی کو آخرت کی باقی اور دائمی زندگی پر ترجیح دینا حماقت اور نادانی ہے:

اَنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِيْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۝۰ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا۝۰ۭ (الحدید ۵۷:۲۰) یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی۔ پھروہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔

زندگی کی حفاظت اسی طرح ہوسکتی ہے اور حُب ِ ذات کے فطری جذبے کی تکمیل کا صحیح راستہ یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو شہوتوں کا غلام بننے اور آخرت کی رُسوائی اور عذاب سے بچائے۔

اسلام اسی تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان کے خوف و نفرت کے جذبات کو صحیح رُخ دیتا اور ان کی مناسب رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم جذبۂ حُب نفس کو بروئے کار لانے کے لیے اس ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے جذبات محبت بیدار کرتا ہے جو نعمتوں کا حقیقی مرکزوسرچشمہ ہے اور جس نے انسان کو زندگی عطا کی ہے اور انسان کو تمام قوتیں، صلاحیتیں اور خصوصیات بخشی ہیں:

  • خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ۝۰ۚ (التغابن۶۴:۳) اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے اور تمھاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے۔
  • اَلرَّحْمٰنُ۝۱ۙ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۝۲ۭ خَلَقَ الْاِنْسَانَ۝۳ۙ عَلَّمَہُ الْبَيَانَ۝۴ (الرحمٰن۵۵: ۱-۴) نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔
  •  سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى۝۱ۙ الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى۝۲۠ۙ (الاعلٰی۸۷:۱-۲) (اے نبیؐ) اپنے ربّ برتر کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا۔
  • وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَـيْـــــًٔـا۝۹ (مریم ۱۹:۹) اس سے پہلے میں تجھے پیداکرچکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔
  •  يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْمِ۝۶ۙ الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝۷ۙ  (الانفطار۸۲: ۶-۷) اے انسان،کس چیز نے تجھے اپنے اُس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھےپیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھےمتناسب بنایا۔
  • اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّۃً (الروم ۳۰:۵۴)   اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمھاری پیدایش کی ابتدا کی۔ پھر اس ضعف کے بعد تمھیں قوت بخشی۔
  • وَاللہُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ۝۹۶ (الصٓفٰت۳۷:۹۶) اللہ ہی نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور ان چیزوں کو بھی جنھیں تم بناتے ہو۔
  • وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا۝۷۰ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انھیں خشکی اورتری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔
  • لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۝۴ۡ (التین۹۵:۴) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔
  •  الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَہٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ۝۷ۚ (السجدہ ۳۲:۷) جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی ، اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی۔
  • اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَيْنَيْنِ۝۸ۙ وَلِسَانًا وَّشَفَتَيْنِ۝۹ۙ وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِ۝۱۰ۚ (البلد۹۰: ۸-۱۰) کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے اور (نیکی اور بدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں) دکھا دیئے۔

اللہ ہی نے انسان کےلیے روئے زمین پر زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کی ہیں، اور اسے ہرقسم کی آسانیاں بخشی ہیں تاکہ زندگی رواں دواں رہے۔ اور حیاتِ انسانی نکھرتی اورسنورتی رہے:

  • وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔(البقرہ ۲:۲۹)
  • کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمھارے لیے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے، اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے، اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گرسکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔(الحج ۲۲: ۶۵)
  • اس نے زمین اور آسمان کی ساری ہی چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے۔(الجاثیہ۴۵:۱۳)
  • تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔(الانعام ۶:۱)
  • تمھارے لیے سائے کا انتظام کیا، پہاڑوں میں تمھارے لیے پناہ گاہیں بنائیں۔ (النحل  ۱۶:۸۱)
  • اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔(الروم ۳۰:۲۱)
  • وہی ہے جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے اور جس نے تمھارے لیے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو۔(الزخرف ۴۳:۱۲)
  • کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے ہیں اور اب یہ ان کے مالک ہیں۔ ہم نے انھیں اس طرح ان کے بس میں کر دیا ہے کہ ان میں سے کسی پر یہ سوار ہوتے ہیں، کسی کا یہ گوشت کھاتے ہیں اور ان کے اندر ان کے لیے طرح طرح کے فوائد اور مشروبات ہیں۔پھر کیا یہ شکرگزار نہیں ہوتے؟ (یٰسٓ ۳۶: ۷۱-۷۳)
  • اور تمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمھیں پلاتے ہیں ، یعنی خالص دودھ، جوپینےوالوں کے لیے نہایت خوش گوار ہے۔ (اسی طرح) کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمھیںپلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی۔ یقینا اس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے۔ اور دیکھو تمھارے ربّ نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں، اور درختوں میں، اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں، اپنے چھتے بنا،اور ہرطرح کے پھلوں کا رس چُوس ، اور اپنے ربّ کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفاء ہے لوگوں کے لیے۔(النحل ۱۶:۶۶-۶۹)

اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے اور وہ اپنے بندوں کو ان کی قوت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اور ہرمعاملے میں اس خدائے برتر نے انسانیت کی بھلائی کا پہلو پنہاں فرما دیا ہے:

  •  ہُوَاجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۝۰ۭ (الحج۲۲:۷۸) اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔
  • يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝۰ۡ (البقرہ ۲:۱۸۵) اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا۔
  • لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ(البقرہ ۲:۲۸۶) اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمے داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔

مزید برآں یہ کہ اللہ سبحانہٗ اپنے خطاکار اور گناہ گار بندوں کو معاف فرما دیتا ہے:

  • ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزدہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اُوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے،اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں___ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو___ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پراصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے ربّ کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کردے گا اور ایسے باغوں میں انھیں داخل کرےگا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک اعمال کرنےوالوں کے لیے۔(اٰل عمران ۳:۱۳۴-۱۳۶)
  • اِلا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی بُرائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفورٌ رحیم ہے۔ (الفرقان  ۲۵:۷۰)
  • (اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو۔(الزمر ۳۹:۵۳)
  • اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔(النساء ۴:۴۸)
  • یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔(الزمر ۳۸:۵۳)

اسلام اللہ کی پیدا کردہ کائنات سے محبت کا جذبہ اُبھارتاہے اور انسان اور کائنات کے درمیان صداقت اور دوستی کا تعلق قائم کرتا ہے اور باہمی یگانگت اور رشتۂ اخوت استوار کرتا ہے، تعلق عبادت پیدا کرتا ہے کہ کائنات کی ہرشے اسی کی حمد اور تسبیح میں مصروف ہے اور اللہ سبحانہٗ نے تمام کائنات کو انسان کے مفادات کی تکمیل میں لگا دیا ہے۔ نیز یہ کہ ساری زندہ کائنات اس زمین پر انسان کے ساتھ شریک ِ زندگی ہے اور خاص طور پر بنی نوع انسان ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے تمام انسانوں کے درمیان رشتۂ اخوت اور تعلقِ محبت استوار ہونا چاہیے، اس لیے کہ تمام انسان بلحاظ تخلیق بھی بھائی بھائی ہیں اور بلحاظ رحم بھی آپس میں بھائی ہیں۔ چونکہ ان کے مفادات مشترک اور ان کا آغاز اور ان کا انجام مشترک ہے، اس لیے بھی وہ بھائی بھائی ہیں۔ قرآن اسی تعلق کو انتہائی دل نشین پیرایہ میں بیان کرتا ہے اور انسانی وجدان کو جِلا عطا فرماتا ہے:

  • يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ  وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۝۰ۭ (النساء ۴:۱) لوگو، اپنے ربّ سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد اورعورت دُنیا میں پھیلا دیئے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔
  • وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ (الِ عمرٰن ۳:۱۰۳) اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیئے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔
  •  وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَيْہِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۝۰ۭۣ (الحشر۵۹:۹) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔
  •  وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ (الحجرات ۴۹:۱۱) آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو۔
  • وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ۝۰ ۭ  (الحجرات ۴۹:۱۲)اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔
  • وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۳۷) آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔

اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں بیان کیا گیا ہے:

  • لَا یُؤْمِنُ  اَحَدُکُمْ  حَتّٰی یُحِبَّ  لِاَخِیْہِ  مَا یُحِبُّ  لِنَفْسِہٖ (بخاری، کتاب الایمان، حدیث :۱۳) کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔
  • وَتَقْرَأُ  السَّلَامَ  عَلٰی  مَنْ  عَرَفْتَ  وَمَنْ  لَمْ تَعْرِفْ (بخاری، کتاب الایمان، حدیث:۱۲،  مسلم، کتاب الایمان، حدیث:۸۱،  ابوداؤد، کتاب الادب، حدیث: ۴۵۴۱) سلام کرو ہرشخص کو جسے تم جانتے ہو اور جسےنہیں جانتے۔

تَبَسُّمُکَ فِیْ  وَجْہِ  اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ (ابن حبان، کتاب البر والاحسان، حدیث:۴۷۵،  بیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۳۲۲۰) تمھارا اپنے بھائی کی خاطر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔

  • ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو اگرچہ نبی نہیں ہیں مگر نبی اور شہید ان پر رشک کرتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ کون لوگ ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو نورِ الٰہی کی بنا پر ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ان کے رحم اور ان کے نسب سے نہیں ہیں۔ ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے، جب لوگ خوف زدہ ہوں گے انھیں کوئی خوف نہیں اور نہ انھیں کوئی غم ہوگا۔ بعدازاں آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اَلَا  اِنَّ  اَوْلِیَاءَ  اللہِ   لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ  وَلَاھُمْ   یَحْزَنُوْنَ‘‘ (ابن حبان، کتاب البر والاحسان، باب الصحبۃ والمجالسۃ، حدیث:۵۸۴) ۔

غرض یہ تمام ہدایات انسان کی اس جانب رہنمائی کرتی ہیں کہ انسان باہم پاکیزہ، صاف اور شفاف محبت رکھیں اور اپنی ذات سے محبت میں توازن اور اعتدال قائم رکھیں اور اس کا صحیح مقام پر اظہار کریں اور اپنی ذات کی خاطر دوسرے برادر انسانوں پر ظلم و زیادتی نہ کریں اور دوسروں کے حقوق غصب نہ کریں۔

شر کی قوتوں سے معاملہ

 اسلام نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ شر اور بُرائی کو ہر رنگ اور ہر صورت میں ناپسند کرے اور انھیں بُرا سمجھے۔ اسلام نے حکم دیا ہے کہ ظلم خواہ کسی بھی صورت میں ہو اور کسی بھی نوعیت میں ہو، یہ بہرحال ایک بُرائی ہے جسے بُرا سمجھناچاہیے اور جس کو روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ جیساکہ حدیث قدسی میں فرمان الٰہی مروی ہے کہ آپؐنے فرمایا :

  • اللہ سبحانہٗ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اُوپر ظلم کو حرام کرلیا ہے اور تمھارے مابین بھی حرام قراردیا ہے۔ اس لیے اب تم باہم ظلم نہ کرو‘‘(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، حدیث: ۴۷۸۰)۔

اسی طرح کسی پر زیادتی کرنا بھی بُرائی ہے اور اس بُرائی اور شر کی مزاحمت کرنی چاہیے:

  •  فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ۝۰۠ (البقرہ ۲: ۱۹۴) لہٰذا، جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو۔
  • وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ (البقرہ ۲: ۱۷۹) عقل و خرد رکھنے والو! تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔

معاشرے کے کمزور،پچھڑے اور پسے ہوئے لوگوں سے ناانصافی روا رکھنا بھی ’شر‘ ہے۔ اس کو بھی بُرا سمجھنا چاہیے اور اس کی مزاحمت کرنی چاہیے:

  • آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جوکمزور پاکر دبا لیےگئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔ (النساء۴:۷۵)

بلکہ خود اپنی ذات سے ناانصافی بھی ظلم ہے اور قرآن نے اس کی مزاحمت کا بھی حکم دیا ہے:

  •  جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے، ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوںنے کہا: کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے، بعید نہیں کہ اللہ انھیں معاف کردے۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ (النساء ۴:۹۷-۹۹)
  •  مگر فتنہ قتل سے بھی زیادہ بُرا ہے۔(البقرہ ۲: ۱۹۱)
  • تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرہ  ۲: ۱۹۳)

زمین میں فساد پھیلانا اور خدا اور رسولؐ سے برسرِ پیکار ہونا اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا بھی ظلم ہے اور شر ہے اور اس شر کو بھی بُرا سمجھنا چاہیے اور اس کا مقابلہ کرنا چاہیے:

  • جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دَو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں، ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلاوطن کردیئے جائیں۔(المائدہ ۵:۳۳)

تمام کھلی اور چھپی بُرائیاں قابلِ نفرت اور قابلِ مزاحمت شر ہیں:

  • زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگرتم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔(النور ۲۴:۲)
  • جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔(النور ۲۴:۱۹)

صراطِ مستقیم سے انحراف قابلِ نفرت امر

اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم سے ہر انحراف قابلِ نفرت اور قابلِ مزاحمت شر اور بُرائی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

  • جو شخص تم میں سے کوئی بُرائی دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹادے،اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے اسے بُرا کہے، اور جو یہ بھی نہ کرے وہ دل میں بُرا سمجھے۔ جو ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے(مسلم، کتاب الایمان، حدیث:۹۵)۔

ہربُرائی اور ہر شر کا منبع شیطان ہے۔ وہی انسانوں کو بہکاکر شر اور بُرائی کی جانب لے جاتا ہے اس لیے اس سے مکمل نفرت کی جانی چاہیے اور اس سے پوری طرح برسرِپیکار رہنا چاہیے اور اس سے کوئی سمجھوتا اور تعاون نہیں ہونا چاہیے:

  • اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۶۰ۙ وَّاَنِ اعْبُدُوْنِيْ۝۰ۭؔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِيْمٌ۝۶۱ وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًا۝۰ۭ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ۝۶۲ (یٰسٓ ۳۶:۶۰-۶۲) آدم کے بچو، کیا میںنے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمھارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی بندگی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے؟ مگر اس کے باوجود اس نے تم میں سے ایک گروہ کثیر کو گمراہ کر دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے؟

مومن اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ساری زندگی باطل کی قوتوں اور شیطانی بُرائیوں کے خلاف برسرِ پیکار رہتا ہے اور شر کی طاقتوں پر خیر کی قوتوں کو غالب کردینے کے جہاد میں مصروف رہتا ہے۔ اس سے اس کی زندگی میں محبت و نفرت میں توازن اور اعتدال پیدا ہوجاتا ہے۔

تعلیم کی اہمیت ایک انسانی معاشرے میں ایسی ہی ہے، جیسے انسانی جسم کے لیے غذا۔ یہی وجہ ہے کہ رب کریم نے اپنے منتخب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلا پیغام یہی دیا کہ اللہ کے نام سے پڑھو، جس نے انسان کو پیدا کیا اور قلم کے ذریعے علم دیا تاکہ انسان اپنے رب کی حمدو ثناء و بزرگی بیان کرے اور اس کا شکرگزار بندہ بن سکے۔ اس لحاظ سے اسلامی معاشرے کے لیے تعلیم عبادات کی طرح ایک اعلیٰ مقام کاحامل فریضہ ہے ۔ کیوں کہ جو علم رکھتے ہیں اور جوعلم نہیں رکھتے، قرآن کریم کی نگاہ میں یکساں نہیں ہوسکتے۔ اور جو علم رکھتے ہیں وہی اللہ کی خشیت بھی زیادہ کرتے ہیں۔ گویا اسلام نے اللہ کی قربت اور خشیت کو ترک دنیا کے طریقوں سے الگ کر کے علم کے ساتھ وابستہ کر دیا۔

یہی وجہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں اپنے شہریوں کی تعلیم کا بندوبست اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اسلامی معاشرے کی روایت یہ رہی ہے کہ جہاں کہیں بھی مرکزی مساجد تعمیر کی گئیں، ان کے ساتھ طلبہ کے لیے اقامت گاہیں اور درس کے لیے کمرے بنائے گئے تاکہ ہر اہم مسجد ایک اہم جامعہ کے فرائض سرانجام دے سکے ۔ جہاں سے امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام جعفر صادق ؒ، امام احمد بن حنبلؒ جیسے فقہااور ابن سینا اور الظواہری اور الغ بیگ جیسے ماہرین طب، فلکیات ، کیمیا اور جراح پیدا ہوئے۔ یہ مدارس برصغیر پاک و ہند میں انگریز حکمرانوں کی آمد تک طب ، فلکیات اور انجینئرنگ کی تعلیم دیتے تھے۔ مشہور مغل تعمیرات انھی مدارس سے فارغ طلبہ کے فن کی یاد گار ہیں۔ انھیں کسی فرانسیسی یا انگریزی انجینئر نے تعمیر نہیں کیا ۔

تعلیم کی اس اہمیت کے پیش نظر ایک ایسی مملکت کے لیے، جس کا مقصد وجود اسلامی فکر و علوم کا احیاء اور ایسے معاشرے کی تعمیر تھا ، جہاں اسلامی تعلیمات کے تحت عدل ، معاشرت ، سیاست ، معیشت ، ثقافت اور صنعت و حرفت کا فروغ ہو ، تعلیم کو فروغ دینا ایک متوقع فریضہ تھا۔ تاہم، تعلیم اور خصوصاً وہ تعلیم جو ملک کے مقصد وجود کی تکمیل کرے کبھی لائق توجہ نہیں رہی ۔یہ ضرور ہوا کہ حکومتی تعلیمی پالیسی جب بھی تشکیل دی گئی تو اس میں ملک کی نظریاتی اساس کا ذکر اور اس حوالے سے نصاب اور نظام تعلیم میں اصلاح کا ذکر ضرور شامل کیا گیا ۔لیکن تعلیم کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کا عمومی رویہ ہمیشہ سوتیلے پن کا رہا ہے۔ تعلیم کو بجٹ میں کبھی اہمیت نہیں دی گئی، اور جو رقم مختص بھی کی گئی اس کا مناسب استعمال کبھی نہیں کیا گیا ۔

قومی نصابِ تعلیم کے لیے اصولی رہنمائی

ماضی کے المیے پر اظہارِ افسوس اپنی جگہ، لیکن ہمیں اصل توجہ مستقبل کی تعمیر کی طرف کرنی چاہیے، تاکہ ماضی کی کوتاہیوں کاازالہ کسی حد تک کیا جا سکے۔ لیکن مستقبل پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ مختلف سیاسی ادوار میں تعلیمی پالیسی کیا رہی؟ حالیہ حکومت کی وزارت تعلیم کے طبع کردہ قومی نصابِ تعلیم فریم ورک کے حوالے سے درج ذیل معلومات کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے :

  • The Education Policy (1972-80) recommended designing of curricula relevant to nation‘s changing social and economic needs compatible with ideology of the country. In order to achieve national cohesion and harmony, the policy recommended implementation of national curriculum in all federating units.(Government of Pakistan, Ministry of Education, The Education Policy (1972-1980)  Islamabad, Ministry of Education).
  • The National Education Policy and Implementation Programme 1979 recommended revision, modernization, and Islamization of curricula to bring it in conformity with Islamic ideals (National Education Policy and implementation program (1979)  Islamabad, Ministry of Education, Government of Pakistan).
  • National Education Policy 1992-2002 focused on restructuring the existing educational system on modern lines in accordance with principles of Islam to create enlightened Muslim society and to improve the quality of education by revising curricula (The Education Policy (1992-2002) Government of Pakistan, Ministry of Education, Islamabad).
  • National Education Policy 1998-2010  stressed on diversifying education  system, making curriculum development a continuous process, popularizing Information Technology and making the Quran teaching and Islamic principles as an integral part of curricula (The Education Policy (1998-2010), Government of  Pakistan, Ministry of Education), 1998.
  • National Education Policy 2009 proposed revitalizing the existing education system to cater to social, political, and spiritual needs of individuals and society. The policy laid emphasis on the preservation of the ideals, which led to the creation of Pakistan and strengthen the concept of basic ideology within Islamic ethos.
  • The Policy also recommended development of a common curricular framework to be applied to educational institutions, both in public and private sectors. The Policy further recommended to the Government to take steps to bring the public and private sectors in harmony through common standards, quality and regulatory regimes (The Education Policy (2009) Islamabad, Ministry of Education, Govt. of Pakistan). Please see P4-5 of National Curriculum Framework, Ministry of Federal Education and Professional Training,2020.
  • تعلیمی پالیسی (۱۹۷۲ء-۱۹۸۰ء) سفارش کرتی ہے کہ نصاب کی تیاری میں قوم کی تغیر پذیر سماجی اور اقتصادی ضروریات کو ملک کی نظریاتی اساس کے پیش نظر ملحوظ رکھا جائے۔ قومی یک جہتی اور ہم آہنگی کے حصول کے پیش نظر پالیسی تمام وفاقی یونٹس میں قومی نصاب کے نفاذ کی سفارش کرتی ہے (تعلیمی پالیسی (۱۹۷۲ء- ۱۹۸۰ء)، حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)۔
  • قومی تعلیمی پالیسی اور اطلاقی پروگرام ۱۹۷۹ء سفارش کرتے ہیں کہ نصاب پر نظرثانی کرتے ہوئے، جدیدیت اور نفاذِ اسلام کے عمل میں اسلام کے اصولوں اور تصورات کو یقینی بنایا جائے (قومی تعلیمی پالیسی اور پروگرام ۱۹۷۹ء، حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)۔
  • قومی تعلیمی پالیسی (۱۹۹۲ء-۲۰۰۲ء) اس بات پر مرکوز کرتی ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کو اسلام کےاصولوں کے مطابق جدید خطوط پر استوار کرنے اور ایک جدید اور روشن خیال معاشرے کی تعمیر کے لیے اور معیارِ تعلیم کی بہتری کے لیے نصاب پر نظرثانی کی جائے (تعلیمی پالیسی (۱۹۹۲ء-۲۰۰۲ء) ، حکومت ِ پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)
  • قومی تعلیمی پالیسی ۱۹۹۸ء-۲۰۱۰ء تعلیمی نظام کو متنوع بنانے کے لیے نصاب میں تبدیلی کرتے ہوئے جو کہ ایک مسلسل عمل ہے، انفارمیشن ٹکنالوجی کو متعارف کرواتے ہوئے اور قرآن کی تعلیمات اوراسلام کے اصولوں کو نصاب کا لازمی حصہ بنانے پر زور دیتی ہے (تعلیمی پالیسی ۱۹۹۸ء- ۲۰۱۰ء، حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد)۔
  • قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء تجویز کرتی ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کا احیاء کیا جائے تاکہ فرد اور معاشرے کے سماجی، سیاسی اور روحانی تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔ پالیسی اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ وہ نظریات جو قیامِ پاکستان کا باعث بنے، ان کا تحفظ کیا جائے اور اسلامی اخلاقیات کے بنیادی تصورات کو تقویت فراہم کی جائے۔
  • پالیسی مشترکہ نصاب کی تیاری کے لیے فریم ورک کی بھی سفارش کرتی ہے جس کا نفاذ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں، دونوں میں ہوگا۔ پالیسی حکومت کو بھی سفارش کرتی ہے کہ وہ سرکاری اور نجی سیکٹر میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے مشترکہ معیار، کوالٹی اور ریگولیٹری رجیم کے لیے اقدامات اُٹھائے ( تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء،حکومت پاکستان، وزارتِ تعلیم، اسلام آباد) ازراہ کرم قومی نصاب فریم ورک کا ص۴ اور ۵ دیکھیے۔ وفاقی وزارتِ تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ، ۲۰۲۰ء۔

وزرات تعلیم کی سرکاری طور پر شائع کردہ اس دستاویز کے بعد جو پانچ سابقہ حکومتوں کی جانب سے پالیسی کا خلاصہ بیان کرتی ہے ، کیا یہ گنجائش رہ جاتی ہے کہ آزادیِ رائے یا اقلیتوں کے حقوق کے نام پر اس متفقہ پالیسی کے نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے بیرونی امداد پر قائم ’فکری توپ خانوں‘ کے پیدا کردہ خدشات پر بحث کی جائے ؟سیاسی اَدوار کے اختلاف اور ذاتی پسند ناپسند کے باوجود ان پانچ سفارشات میں جو عناصر مشترک ہیں ، ان میں سب سے اوّل پاکستان کی نظریاتی اساس ہے، یعنی اسلام جس کے نام پر یہ ملک بنا۔ چنانچہ نظریاتی اساس کو صرف نصاب میں علامتی طور پر شامل نہ کیا جائے بلکہ اس کی بنیاد پر تمام نصابات کی تہذیب و ترتیب کا اہتمام کیا جائے ۔ گویا وہ اردو ادب ہو یا انگریزی ادب ، وہ کیمسٹری ہو یا فزکس یا ریاضی یا عمرانی علوم، ہرمضمون میں اسلامی اقدار ، افکار اور آئڈیلز کا سمویا جانا ریاست کی نظریاتی اساس کا لازمی تقاضا ہے۔ اسلامیات بطور ایک مستقل اور لازمی مضمون کے زیر بحث ہے ہی نہیں، یہ تو پہلے سے ہی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اسے تمام مسلمان طلبہ و طالبات کو پڑھایا جائے گا ۔

اس کے ساتھ پاکستان کی اس تاریخ کو جس میں محمد علی جو ہر ، علامہ محمد اسد ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا حسرت موہانی ، علامہ اقبال اور خود بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں کے وہ خطبات اور بیانات، جن میں ملک کی نظریاتی اساس اور پاکستان کے قیام کے ذریعے اسلامی احیاء اور اسلام کے معاشرتی نظام، عدل و انصاف اورمعاشرتی فلاح کا واضح تذکرہ ہے، شامل نصاب کیا جائے۔ تاریخ کے ان اہم اوراق کو ایک مخصوص لابی نے ۷۴ سال سے شعوری طور پر قوم سے چھپا کر رکھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حقائق کو ’مطالعہ پاکستان‘ کے نصاب میں شامل کیا جائے اور لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے ۔ اس لازمی مضمون کی ضرورت و اہمیت اور افادیت اور اس کے بھرپور انداز میں اجرا پر قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ اصل بات جس کی طرف یہ تمام پالیسی دستاویزات متوجہ کرتی ہیں، وہ یہ ہے کہ تمام مضامین میں اسلامی اخلاقی اصولوں اور اقدار کو سمویا جائے ۔

معاشرتی اقدار کے فروغ میں زبان کا کردار

ظاہر ہے کہ یہ بات ملک کے ایک فی صد سے بھی کم لیکن ذرائع ابلاغ ، صحافت اور   این جی اوز سے استفادہ کرنے والے طبقے کو کیسے گوارا ہو سکتی ہے۔ انھیں اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ ایک مسلمان بچی یا بچہ اردو کی کتاب میں حمد یا نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیوں پڑھتا ہے ؟ یہ ان کے خیال میں ’مذہبی مواد‘ ہے ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ خود انگریز اپنی زبان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔اگر انگریزی سے وہ الفاظ جو عہد نامہ جدید و قدیم کی بنیاد ہیں ، نکال دیے جائیں تو انگریزی ادب چاہے وہ یورپ کا ہو یا امریکا کا، ایک بے جان ڈھانچا رہ جائے گا۔صرف لفظ supper, goodbye, convent, resurrection کی etymology پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ انگریزی سے اس ’مذہبی مواد‘کو اگر نکال دیا جائے تو انگریزی کا وجود ہی ناپید ہو جائے گا۔ دُور نہ جائیں انگریزی کے مشہور شاعر ٹی ایس ایلیٹ (T.S Eliot  - م: ۱۹۶۵ء) کے صرف ان الفاظ کو غور سے پڑھیں :

The dominant force in creating a common culture between peoples each of which has its distinct culture, is religion. Please do not, at this point, make a mistake in anticipating my meaning. This is not a religious talk, and I am not setting out to convert anybody. I am simply stating a fact.      I am not so much concerned with the communion of Christian believers today; I am talking about the common tradition of Christianity which has made Europe what it is, and about the common cultural elements which this common Christianity has brought with it. [...] It is in Christianity that our arts have developed; it is in Christianity that the laws of Europe have—until recently—been rooted.It is against a background of Christianity that all our thought has significance. An individual European may not believe that the Christian Faith is true, and yet what he says, and makes, and does, will all spring out of his heritage of Christian culture and depend upon that culture for its meaning. Only a Christian culture could have reproduced a Voltaire or a Nietzsche. I do not believe that the culture of Europe could survive the complete disappearance of the Christian Faith. And I am convinced of that, not merely because I am a Christian myself, but as a student of social biology. If Christianity goes, the whole of our culture goes. Then you must start painfully again, and you cannot put on a new culture ready made. You must wait for the grass to grow to feed the sheep to give the wool out of which your new coat will be made. You must pass through many centuries of barbarism. We should not live to see the new culture, nor would our great- great- great-grandchildren: and if we did, not one of us would be happy on it. (T.S. Eliot, Notes Towards the Definition of culture, London, Faber & Faber,1949, P-122)

نمایاں تہذیب رکھنے والی مختلف قوموں کو ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے تشکیل دینے میں مذہب غالب تر قوت ہوتا ہے۔ براہِ کرم ، اس موقع پر، میرا مفہوم اخذ کرنے میں غلطی نہ کریں۔ یہ ایک مذہبی گفتگو نہیں ہے، نہ میں کسی کا مذہب ہی تبدیل کرنے آیا ہوں۔ میں سادہ الفاظ میں ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ مسیحی اہلِ ایمان کے دینی اجتماعات کے حوالے سے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو آج مسیحیت کی عام روایت کی بات کر رہا ہوں جس نے یورپ کو وہ بنا دیا ہے جو آج نظر آرہا ہے، اور یہ اُن مشترکہ تہذیبی روایات کے بارے میں ہے جو عمومی مسیحیت اپنے ہمراہ لے کر آئی ہے.....یہ مسیحیت ہی ہے کہ جس میں ہمارے (علوم و ) فنون پروان چڑھے ہیں۔ مسیحیت میں یورپ کے قوانین کی جڑیں آج تک موجود رہی ہیں۔ یہ عیسائیت کے  پس منظر کے خلاف ہے کہ ہماری فکر اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک یورپی فرد شاید یقین نہ کرتا ہو کہ مسیحی عقیدہ درست ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ جو کچھ کہتا ہے، کرتا ہے، اسی مسیحی تہذیب و تمدن کے ورثے سے پروان چڑھے گا اور اس کے معنی تشکیل دینے کے لیے اُس تہذیب و تمدن پر انحصار کرے گا۔ مسیحی تہذیب و تمدن سے ہی والٹیر (Voltaire) یا نطشے (Nietzsche) ازسرنو جنم لے سکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یورپ کا تہذیب و تمدن اس قابل تھا کہ وہ مسیحی عقیدے کے مکمل طور پر غائب ہوجانے کے بعد اپنے آپ کو برقرار رکھ سکتا۔ میں اس پر پورا یقین رکھتا ہوں اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مَیں خود بھی عیسائی ہوں بلکہ میں سوشل حیاتیات کا طالب علم ہوں۔

اگر مسیحیت جاتی ہے تو ہمارا سارا تہذیب وتمدن جاتا ہے۔ پھر انتہائی تکلیف دہ حالت میں آپ کو دوبارہ آغاز کرنا ہوگا اورکسی تیار شدہ (ready made)تہذیب و تمدن کو آپ فوری طور پر اُوڑھ نہیں سکتے۔ آپ کو انتظار کرنا ہوگا کہ گھاس پھل پھول جائے تاکہ اُسے بھیڑیں کھاسکیں، اور اُس سے اُون حاصل کی جائے جس سے آپ کا نیا کوٹ تیار ہوسکے۔ آپ کو ظلم و سفاکیت کے بہت سے اَدوار سے لازماً گزرنا پڑے گا۔ نئے تہذیب و تمدن کے لیے نہ ہم زندہ رہیں گے، نہ ہماری نسلوں کی اولادوں کی اولادوں کی اولادیں ہی۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم میں سے کوئی بھی خوش نہ ہوگا۔

عیسائیت کا جو کردار آج تک یورپ اور امریکا کی تہذیب کی تعمیر اور ارتقا میں رہا ہے، اس سے ہزار گنا زیادہ کردار اسلام کا مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کی تعمیر و بقا میں رہا ہے۔اقبال  کے علاوہ اگر غالب کے کلام سے ’مذہبی مواد‘کو نکال دیا جائے تو چند ناتمام نقوش کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا ۔

تعلیم، تہذیبی ورثہ اور فکر و معاشرت کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اگر خاندان کے تمام افراد حصول معاش میں مصروف ہو جائیں اور تعلیم سے ہدف بنایا جانے والا ’مذہبی مواد‘ یعنی احترام جان، احترام قرابت ، احترام عقل ، احترام عدل، احترام مال ، دوغلے پن، منافقانہ طریق کار اور فاسقانہ طرزِ حیات وغیرہ کو نکال دیا جائے، اور پھر توحیدی تصورِ زندگی جو ہزارسجدوں کی جگہ صرف وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ کو سجدہ کرنا ہے، ان تمام امور کو معیشت ، معاشرت ، سیاست ، قانون ، تاریخ ،ثقافت سے نکال کر ’دینیات‘ میں ڈال دیا جائے، تو کیا کسی کی زندگی کا کوئی مفہوم و معنی باقی رہ سکتا ہے، اور کیا ایسی تعلیم کسی معاشرے اور ریاست کو یک جا رکھ سکتی ہے ؟

’مذہبی مواد‘ اور قومی ترانہ

 ابھی تک تو بات معاشرتی علوم، اردو ،انگریزی کی ہو رہی ہے کہ ان کتب میں " مذہبی مواد" یعنی اگر کہیں حیا کا ذکر آگیا ہو، یا کہیں صبر و استقامت یا مجاہدانہ بے خوفی یا آخرت میں کامیابی کے لیے ایمان داری سے صحیح ناپ تول کا ذکر ہو، یا کسی سے سچ بولنے کے لیے کہا گیا ہو اور اس کی تعلیم دی گئی ہو، کہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت کے رویے کی تعلیم دی گئی ہو، یا کہیں ماں کا احترام اور اور اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کی بات کی گئی ہو، تو چونکہ یہ سب ’مذہبی مواد‘ ہے ، اور یہی قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں، اس لیے انھیں تمام علوم کی کتب سے خارج ہونا چاہیے تاکہ اس کے بعد ہماری نئی نسل’انسانیت پرستی‘ (Humanism) یعنی دینی تعلیمات و اخلاقیات سے بالکل لاتعلق ہوجائے۔ کیا کوئی عقل و ہوش رکھنے والا پاکستانی ان خیالات کو کسی باہوش و حواس شخص سے منسوب کرسکتا ہے؟

اگر اس منطق اور دلیل کو مان لیا جائے تو لازماً اگلا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ نہ صرف اذان جس سے ۳ فی صد سے بھی کم آبادی کی ’سمع خراشی‘ کا بعید امکان ہے۔ اب ۱۴سوسال بعد، اچانک اس کا امکان کچھ دانشوروں کے ذہن کے کسی گوشہ میں ابھر آیا ہے ، اس لیے اس پر بھی پابندی ہو! یہی نہیں بلکہ تین فی صد آبادی کا دل رکھنے کے لیے ہمارے ’روشن خیال‘ اور حقوقِ انسانی کے علَم بردار یہ بھی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ قومی ترانہ سے ’مذہبی مواد‘ نکالا جائےیا پھر ان کو قومی ترانے میں شرکت سے بھی رخصت دی جائے، کیوں کہ اس کا ایک ایک بول ’مذہبی مواد‘ سے لبریز ہے۔ چونکہ  مسلمانوں اور غیرمسلموں،دونوں کے لیے ہے، اور یہ ترانہ ان کی پہچان ہے، تو اسے سب کے لیے قابلِ قبول بنایا جائے۔ مراد یہ ہے کہ اگر’ مذہبی مواد‘ کا وہ فلسفہ درست ہے، جس کومختلف علوم کے سلسلے میں پیش کیا جارہا ہے تو تو پھر قومی ترانے کا بھی تیا پانچہ کرنا ہوگا!

مسلّمہ  تعلیمی معیارات

اس وقت بیش تر گفتگو کا مرکز نصاب ہے جس پر عالمی سطح  پر ماہرین تعلیم کا اتفاق ہے کہ اس کا براہ راست تعلق معیارات (standards)، تاریخ و ثقافت ، قومی ہیرواور قومی مقاصد اور تہذیب وتمدن سے ہے۔ تعلیمی معیارات ،تاریخ و ثقافت اورقومی ہیرو ہر نصاب کا حصہ ہوتے ہیں اور وہ قومی اتحاد کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ انھی سے قومیت کا تصور ابھرتا ہے ۔ لیکن ہمارا معاملہ دوسروں سے بہت مختلف ہے۔ہماری قومیت کی بنیاد نہ صوبہ ہے ،نہ مقامی لباس یا بول چال ، نہ کوئی زمین کی حدود ، نہ رنگ و نسل اور نہ ذات برادری یا قبائلی تعلق بلکہ صرف اور صرف دین اور اس دین کی بنیاد پر ترقی پانے والی ثقافت اور تہذیب ہے۔

 ہماری نگاہ میں اصل موضوع وہ نظام تعلیم ہے، جس کی طرف مندرجہ بالا تمام سرکاری دستاویز میں یہ بات کہی گئی ہے کہ فرسودہ نظامِ تعلیم، یعنی جو نظام انگریز سامراج نے ہمیں دیا، اس کی جگہ ایک کردار سازی کرنے والا نظام تعلیم جس میں اسلامی اقدار اور آئیڈیل سمو دیے گئے ہوں،  اس کا نفاذ کیا جائے۔یہ مطالبہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ یہ ماہرین کے مقرر کردہ ہر کمیشن کی مشترکہ قرارداد ہے، جسے آج تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔غالباً یہی وہ پہلو ہے، جسے وزیراعظم عمران خان باربار کہتے ہیں کہ ’’ہمیں وہ نظام تعلیم لانا چاہیے، جس میں ہر نوجوان کے لیے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم سیرت و کردار کا اعلیٰ ترین نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہو‘‘۔ جب تک ہر شعبۂ علم میں آپؐ کی ہمہ گیر شخصیت کے پہلو شامل نہیں کیے جائیں گے ، اسلامیات کی کتاب میں ایک باب یا چند صفحات یہ کام نہیں کر سکتے۔

اگر ایک نہیں درجنوں غیر مسلم مفکرین جن میں: کارلائل ہو ، یا گب یا مائیکل ہارٹ، یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’انسانیت کے لیے سب سے زیادہ مکمل اور اچھی مثال یا رول ماڈل اگر کوئی ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت و حیات ہے‘‘۔پھر وہ جو کلمۂ شہادت کے ذریعے اپنے ایمان اور ختم نبوت پر یقین کا اعلان کرتے ہیں ، ان کے علوم کی تعلیم میں اس پہلو کو شامل نہ کرنا کیا اس شہادت سے کھلاانحراف نہ ہو گا؟ نہ صرف یہ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا کسی بھی بڑے سے بڑے سائنس دان سے موازنہ کرنا اور آپؐ کی سیرت کی جگہ اس کا تذکرہ شامل کرنا ،کیا انسانیت کے مفاد میں ہو گا؟ قرآن کریم نے آپؐ کو تمام انسانوں (كَا فَّةً لِّلنَّاسِ) کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے ۔ایک ہندو ، عیسائی یا کسی بھی مذہب کو ماننے والے کے لیے آپؐ صحیح انسانی طرزِ عمل کی مثال پیش کرتے ہیں ۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کرنا ، قرآن کے اس فیصلے کے خلاف ہے اور غیر مسلموں کو بھلائی ، خیر اور سچائی کی اعلیٰ ترین مثال سے محروم کرنا ہے، جو انسانی حقوق کی بھی واضح خلاف ورزی ہے۔

یہ بدگمانی بھی اصلاح طلب ہے کہ قرآن کی تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں۔ قرآن اپنے آپ کو ھُدًی  لِلنَّاسِ کہتا ہے۔ شریعت، یعنی سچائی ، ایمان داری ، پاک بازی ، حقوق کی ادائیگی ، ماں باپ کا احترام و اطاعت صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ۔ یہ انسا نیت کے وجود کے لیے لازمی عناصر ہیں۔ اس لیے قرآنی اخلاق، یعنی معاشی ، معاشرتی ، سیاسی طرز عمل کو صرف مسلمانوں تک محدود کرنا غیر مسلموں کے ساتھ تفریق ، ظلم اور ان کے ابلاغی حقوق کی پامالی ہے۔ انھیں انسانیت کی بھلائی کے عالمی متفقہ چارٹر اور راہنما اصولوں سے محروم رکھنا کوئی اچھی بات نہیں بلکہ ان سے زیادتی کے مترادف ہے ۔قرآن چاہتا ہے کہ سچ ہر انسان تک پہنچے، تاکہ وہ طے کر سکے کہ اسے قبول کرنا اس کے لیے مفید ہے یا نہیں ۔ اسے اسلامی اخلاق و سیرت پاک سے لاعلم رکھنا، اس کےبنیادی حقوق پر ڈاکا اور واضح ظلم ہے۔

’مذہبی مواد‘ اور بانیٔ پاکستان

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کا ’مذہبی مواد‘کے بارے میں کیا تصور تھا اور کتنی پیشہ وارانہ بددیانتی کے ساتھ قائد کے حقیقی تصور کوقوم سے چھپائے رکھا۔ خصوصاً ’مطالعہ پاکستان‘ میں ان خیالات کو آنے ہی نہیں دیا گیا، جن سے مغربی سامراجیت زدہ اذہان خوف زدہ تھے۔ ’مذہبی مواد‘ کے بارے میں ہم صرف چند مستند تحریری بیانات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے قائد اعظم ایک کھرے ،بےباک ، پر وقار اور دو ٹوک بات کرنے والی شخصیت کے حامل تھے۔ ان میں دو رنگی اور منافقت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ جس بات کو صحیح سمجھتے تھے اس کا اظہار کھل کرکر تے تھے۔ موجودہ زمانے کے نام نہاد سیاسی بازیگروں کی طرح ذومعنی الفاظ کا استعمال ان کی لغت اور زندگی میں نہیں تھے۔ ان کی نگاہ میں اسلام ، اسلامیات کی کتاب تک محدود نہیں تھا۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کے اپنے تحریری خطاب میں فرماتے ہیں:

  • He said that "he could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and made propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat".  The Qa‘id-e-Azam said "Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago.
  • No doubt, there are many people who do not quite appreciate when we talk of Islam. Islam is not only a set of rituals, traditions and spiritual doctrines. Islam is also a code for every Muslim which regulates his life and his conduct in even politics and economics and the like. It is based on the highest principles of honour, integrity, fairplay and justice for all". (K.A.K. Yusufi,  Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam, Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, volume4, P 2669-2670)
  • انھوں نے فرمایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا۔
  • جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیںتو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسم و رواج،روایات اور روحانی نظریات کامجموعہ ہے،بلکہ اسلام ہرمسلمان کےلیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔(قائداعظم: تقاریرو بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، بزم اقبال، جلد چہارم، ص ۴۰۲-۴۰۳)

قائد اعظم کا یہ خطاب ان تمام پیدا کردہ شکوک و شبہات کو ختم کر دیتا ہے، جو ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کی انوکھی تعبیر کر کے پیدا کیے جاتے رہے ہیں ۔نہ صرف یہ تحریر بلکہ بہت سے وہ تحریری بیانات و خطبات جو کسی بھی محقق سے مخفی نہیں ہیں اور شاید جان بوجھ کر انھیں بیان نہیں کیا جاتا رہا۔ وہ اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ ’دینی مواد‘کو ہر شعبۂ زندگی میں شامل کر نے اور پاکستان کو ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست بنانے پر یکسو تھے ۔یہ قیام پاکستان کے بعد کی بات نہیں، اس سے بہت پہلے بھی ان کا موقف یہی تھا ۔

پھر فروری ۱۹۴۸ء میں قائداعظم محمدعلی جناح نے ریڈیو سے امریکی شہریوں کو خطاب کرتے ہوئے دستور پاکستان کے بننے سے پہلے ہی اس کا اعلان کر دیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا۔ قائدامریکی باشندوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ:

This Dominion which represents the fulfillment, in a certain measure, of the cherished goal of 100 million Muslim of this sub-continent, came into existence on August 14, 1947. Pakistan is the premier Islamic State and the fifth largest in the world. (K.A.K. Yusufi, Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam, Lahore, Bazm-i-Iqbal, 1996, volume 4,       P 2692)

ہرمملکت جو کسی حد تک اس برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دُنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ (قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلد چہارم، ص ۴۲۰)

اسی بات کو فرنٹئیر مسلم لیگ کی کانفرنس منعقدہ ، ۲۰ نومبر ۱۹۴۵ء، بمقام پشاور میں یوں بیان کرتے ہیں :

We have to fight a double-edged battle, one against the Hindu Congress and the other against the British Imperialists, both of whom are  capitalist.The Muslims demand Pakistan,where they could live according to their own code of life, their own cultural growth, traditions and Islamic Laws. (K.A.K. Yusufi, The Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah some Rare Speeches ـ&  & Statements ,  Lahore, Punjab University, 1988, P 93)

ہمیں دوہری جنگ لڑنا ہوگی۔ ایک ہندو کانگرس کے خلاف اور دوسری برطانوی سامراجیوں کے خلاف، دونوں ہی سرمایہ دار ہیں۔ مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں اپنے نظامِ زندگی، اپنی ثقافت و روایات اور اسلامی قانون کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

 ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قائد اعظم کس بنیاد پر ملک و قوم اور نظام تعلیم کی تعمیر چاہتے تھے ۔وہ بار بار کہتے ہیں کہ ہماری معیشت، ہماری معاشرت، ہماری سیاست، ہمارا قانون، سب اسلام کے اصولوں کے مطابق ہوں گے ۔گویا نظام تعلیم اس سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ ’روشن خیالی‘ کے نام پر سیکولر زم نہیں لایا جا سکتا ۔بیرونی ممالک کی زر خرید این جی اوز کے کہنے پر’ مذہبی مواد‘ الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ایسا کرنا قائد اعظم اور پاکستان کے تصور سے غداری اور امانت و دیانت کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہو گا۔بانی ٔ پاکستان کے ان دوٹوک پالیسی فرمودات کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔ کسی بھی ملک کے لیے اس کے بانیان کا تصور اور اس کا دستور ہمیشہ ایک تقدس کا مقام رکھتا ہے۔

دستوری ہدایات

مناسب ہو گااگر ایک لمحے کے لیے یہ دیکھ لیا جائے کہ نظام تعلیم پر کیا دستوری ہدایات (یہاں ہم نصاب پر بات نہیں کر رہے، کیوں کہ وہ لا محالہ نظام تعلیم کے تابع ہوگا) پائی جاتی ہیں ۔ دستور پاکستان کی دفعہ۳۱(۱) (۲) ’اسلامی طریقۂ حیات‘ کے زیرعنوان کہتی ہے:

31. (1) Steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam and to provide facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life according to the Holy Quran and Sunnah.

(2)The State shall endeavour, as respects the Muslims of Pakistan,

(a) to make the teaching of the Holy Quran and Islamiat compulsory, to encourage and facilitate the learning of Arabic language and to secure correct and exact printing and publishing of the Holy Quran;

(b) to promote unity and the observance of the Islamic moral standards; and, (c) to secure the proper organisation of Zakat, Ushr, Auqaf and Mosques (The Constitution of Islamic Republic of Pakistan, Islamabad, 1989, P 22-23).

۳۱- (۱) پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے، اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔

(۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:

(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآنِ پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور

(ج) زکوٰۃ، عشر،اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

اسلامی نظامِ تعلیم کا نفاذ  __ دستوری تقاضا

اس وسیع تر تناظر میں بنیادی مسئلہ وہ ہے، جس سے سیکولر لابی اور خود پرست صاحبان اقتدار پہلو بچاتے رہے ہیں، یعنی ملک میں مکمل اسلامی نظامِ تعلیم کا نفاذ اور اس میں نصاب اور نصابی کتب کی اسلامی اخلاق کی تدوین جدید کے ساتھ معلمین اور معلمات کی اس نظام تعلیم کے فلسفے سے آگاہی اور اس کے نفاذ کی حکمت عملی پر یکسوئی، تاکہ نہ صرف نصابی کتب بلکہ ان کے متن کو سمجھانے والے اپنے ذاتی کردار کی مثال سے ایک عملی نمونہ پیش کر سکیں ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور تمام پاکستانیوں کے حقوق کا پاسبان ہے اور وضاحت سے ہدایت کرتا ہے کہ ان کی اولاد اور آنے والی نسلوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے معیشت ، عمرانیات، سیاسیات ، انجینئرنگ ، طب، غرض تمام علوم کی تعلیم دی جائے اور دستور کی ہدایات پر ۹۶ فی صد مسلم آبادی کے لیے اسلامیات ایک لازمی مضمون کے طور پر برقرار رہے ۔ گویا ہر شعبۂ علم میں ’مذہبی مواد‘ شامل کیا جانا ایک دستوری ضرورت ہے اور قائد اعظم کے واضح ارشادات پر عمل کرنا ہے۔ہمارے خیال میں کوئی بھی پاکستانی چاہے وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو ، بانی ٔ پاکستان کے سوچے سمجھے مقصدِ پاکستان سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ جس مقصد کے حصول کے لیے لاکھوں جانیں اور عزّتیں قربان کی گئیں۔ اس کا حصول موجودہ اور آنے والی نسلوں کاا یمانی تقاضا ہے ۔ اس میں کسی غیر مسلم شہری کی نہ دل آزاری ہے ، نہ حقوق کی پامالی۔ ویسے بھی ان مذاہب کے ماننے والوں کے نمایندوں کے باہمی اتفاق سے وزارت تعلیم نے ان کا مذہبی نصاب ان سے بنوا کر شائع کر دیا ہے۔ اب یہ مسئلہ صرف ۹۶ فی صد مسلمانوں کا ہے۔

جہاں تک تعلق’ دینی مواد‘ کا ہے تو مسلمان کی تمام زندگی ہی دینی مواد کے تابع اور زیراثر ہے ۔ ایک مسلمان کی زندگی کا ہر لمحہ، ایک ایک عمل اپنے ربّ کی بندگی میں بسر ہوتا ہے ۔ اس کی زندگی دوالگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں ہوتی کہ ایک خانے میں دھوکا اور رشوت ہو اور ایک خانے میں تسبیح اور نماز اور دیگر عبادات ۔ اس لیے ہمارا ادب ہو ، شاعری ہو ، عمرانی علوم ہوں، معاشیات ہو یا انجینئرنگ یا طب، ہر علم میں اسلامی اقدار و روایات کا مکمل نفوذ ہی ہمیں صحیح معنوں میں پاکستانی بنا سکتا ہے ۔ ہم وہ قوم ہیں ، جس کا وجود نہ کسی خطۂ زمین سے ہے نہ کسی نسل ، ذات یا مسلک سے بلکہ صرف اور صرف دین اسلام ہماری شخصیت اور پہچان ہے ۔

یہ تاریخ کا ایک منفرد باب ہے جس میں ایک قوم اسلام کی بنا پر پہلے وجود میں آئی اور اس قوم نے دو مراحل (۱۹۳۰ءسے ۱۹۴۰ء تک ایک مرحلہ اور ۱۹۴۰ءسے ۱۹۴۷ء تک دوسرے مرحلے میں ) یعنی عملاً سات سال میں ایک خطۂ زمین حاصل کرلیا۔پہلے ایک قوم بنی، ملک بعد میں وجود میں آیا۔یہ تاریخ کا ایک ایسا واقعہ اور حقیقت ہے ، جس کی صرف ایک مثال اس سے قبل پائی جاتی ہے اور وہ ہے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کا قیام ۔ وہاں بھی امت مسلمہ پہلے وجود میں آئی اور مملکت اس کے بعد بطور عطیۂ الٰہی ملی ۔اس لحاظ سے پاکستان یا قائد اعظم کے اپنے الفاظ میں ’اسلام کے قلعہ‘ کا تحفظ ، فروغ ، اور اس میں اسلامی نظام تعلیم کا قیام ، اس ملک کے ۹۶ فی صد شہریوں کا پیدایشی، جمہوری اور دینی حق ہے، جسے کوئی طاقت غصب نہیں کر سکتی۔

بیسویں صدی کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں احیائے اسلام کی تحریکیں برپا ہوئیں، لیکن قید وبند اور شہادت کی آزمایشوں کی جو تاریخ مصر کی اخوان المسلمون نے رقم کی، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ اخوان المسلمون کے بانی مرشدعام حسن البنا کو سربازار گولی مار کر شہید [۱۲فروری ۱۹۴۹ء]کردیا گیا۔ تنظیم کے متعدد رہنماؤں، جن میں جسٹس عبدالقادر عودہ، محمدفرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم طیب اور ہنداوی دویر شامل تھے، ان کو ۸دسمبر ۱۹۵۴ء کو پھانسی دے دی گئی۔ ہزاروں کارکنوں کو کال کوٹھریوں میں ٹھونس دیا گیا۔ ان آزمایشوں کا شکار ہونے والوں میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی، الحمدللہ، سبھی ثابت قدم رہے۔ پھر، سیّد قطب رحمہ اللہ کے پھانسی [۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء] دیے جانے کے بعد، اخوان المسلمون پر مصائب کا ایک طویل دور شروع ہوا، مگر اس آزمایش کے باوجود اس کا دائرۂ کار پوری عرب دُنیا میں پھیل گیا۔

۱۹۷۰ء میں سفاک مصری ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر کی وفات کے بعد انوار السادات مصر کے صدر بنے، جو کسی زمانے میں صدر ناصر اور اخوان المسلمون کے درمیان رابطہ کار تھے۔ اس پرانے تعلق کی بنا پر اخوان المسلمون نے ابتدا میں انوار السادات کی حکومت کی حمایت کی مگر بہت جلد یہ تعلقات خراب ہوتے گئے۔ اکتوبر ۱۹۸۱ء میں انوار السادات قتل کر دیے گئے اور حسنی مبارک مصر کے صدر بن گئے جو ۳۲ سال تک مصر کے سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ ۲۰۱۱ء میں اخوان المسلمون کی عوامی بیداری کی تحریک کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

۲۰۱۲ء میں اخوان المسلمون کی حمایت سے وجود میں آنے والی الحریہ والعدالہ (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) نے مصر میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اخوان المسلمون محمد خیرت سعد الشاطر کو صدر بنانا چاہتی تھی، مگرحسنی مبارک کی باقیات کے ہاتھوں جناب محمدخیرت کو ’نااہل‘ قرار دیے جانے کے بعد اس جماعت کے بانی چیئرمین محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہو گئے۔

محمد مرسی کو مصر کے مشہور عالم دین صفوت حجازی کی تائید بھی حاصل تھی۔ صدر منتخب ہونے کے بعد محمد مرسی نے حزب الحریہ والعدالہ (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ یاد رہے محمد مرسی، نائن الیون کے واقعے کو امریکی سازش قرار دیتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس سازش کا مقصد افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کا جواز فراہم کرنا ہے۔ امریکا اس حوالے سے مرسی کے ان نظریات کا پُرزور مخالف تھا۔ محمد مرسی مصر کے نئے آئین پر شریعت کا رنگ غالب کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ ان کی اسی خواہش پر ان کے اور مصری مسلح افواج کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ یوں محمد مرسی کو برسرِاقتدار آئے ہوئے صرف ایک سال گزرا تھا کہ انھیں ان کے عہدے سے ہٹا کر جنرل عبدالفتاح السیسی مصر کے حکمران بن گئے۔

محمد مرسی گرفتار کر لیے گئے۔ ان پر کئی دیگر جرائم کے مرتکب ہونے کا الزام لگایا گیا جن میں توہین عدالت کے الزامات شامل تھے۔ اپریل ۲۰۱۵ء میں انھیں اور ان کے ساتھیوں کو ۲۰،۲۰ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔اس کے بعد محمد مرسی مسلسل قید میں ہی رہے۔۱۷ جون ۲۰۱۹ء کواس وقت جب کہ وہ عدالت میں پیش کیے گئے تھے، عدالت ہی میں گر کر بے ہوش ہوگئے اور اسی بے ہوشی میں خالق حقیقی سے جاملے: انا للہ   وانا  الیہ  رٰجعون۔

اخوان المسلمون کے حامیوں نے محمد مرسی کی اس موت کو ریاستی قتل قرار دیا اور کہا کہ محمدمرسی ملک کے منتخب صدر تھے، انھیں بلا جواز قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ وہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریض تھے۔ انھیں دانستہ طورپر مناسب طبّی سہولیات سے محروم رکھ کر موت کے منہ میں دھکیلا گیا۔

  • رابعہ العدویہ کا مقتل: اخوان المسلمون پر آزمایش کا ایک دور محمد مرسی کی اس برطرفی کے ساتھ چلا، جب احتجاج کرنے والے کئی ہزار اخوان مردوں، عورتوں، بچوں اور بچیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے مصری فوج نے جس طرح وحشیانہ کارروائی کی، تاریخ میں ایسی مثال خال خال ملتی ہے۔

سب سے بڑا قتل عام رابعہ العدویہ میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد النہضہ چوک کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس میں ایک اندازے کے مطابق مرسی کے حامی ۴ہزار ۷سو ۱۲ مظاہرین کو تین گھنٹے کی جارحانہ کارروائی میں فوج نے بے دریغ قتل کیا ۔رابعہ عدویہ کا چاروں طرف سے محاصرہ کرکے گھناؤنا قتل عام انجام دیا گیا۔اس دوران جو کوئی اپنی جان بچا کر قریب کی مسجد میں پناہ گزیں ہوئے،  ان پر بھی دھاوا بول کر قتل عام کا ایندھن بنایا۔ رابعہ عدویہ مسجد کی جلی ہوئی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد میں پناہ گزینوں پر کیا گزری ہوگی۔

  • پھانسیوں کا نیا سلسلہ: ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت کی تیسری برسی سے تین دن پہلے یعنی ۱۴ جون ۲۰۲۱ء کو مصر کی اعلیٰ سول عدالت نے سابق حکمران مگر اب کالعدم جماعت   اخوان المسلمون کے ۱۲ سینئر رہنماؤں کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ جاری کیا۔

ان کی پھانسی کے اس موجودہ فیصلے کے خلاف اب مزید اپیل نہیں کی جا سکتی، اور اس پر مصری صدر جنرل عبدالفتاح السیسی کے دستخط ہوتے ہی اخوان کے ان رہنماؤں کو پھانسی دے دی جائے گی۔اخوان المسلمون کے جن ارکان کو سزائے موت سنائی گئی ان میں: سابق رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد البلتاجی، ڈاکٹر صفوت حجازی، مفتی ڈاکٹر عبدالرحمن البر، ، ڈاکٹر احمد عارف اور سابق وزیر ڈاکٹر اسامہ یٰسین شامل ہیں۔

یاد رہے ستمبر ۲۰۱۸ء میں نام نہاد مصری عدالت نے اخوان کے ۷۵ کارکنوں کو پھانسی اور ۷۳۵؍ افراد کو ۱۵ سے ۳۰برس تک قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ ان میں سے ۴۴؍افراد نے سزائے موت کے خلاف اپیل کی، جن میں سے۳۱ کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا،جب کہ ۱۲کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔

دنیا بھر میں انصاف کی خاطر شمعیں روشن کرنے والوں کو شاید یہ تلخ حقیقت یاد نہیں ہے کہ اخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف، مرکزی رہنما عصام الدين محمد حسين العريان‎ کا اگست ۲۰۲۰ء میں جیل میں غیرقانونی اور فسطائی قید کے دوران ہی انتقال ہوچکا ہے اور اس سے قبل جیساکہ بتایا جاچکا ہے،مصر کے جمہوری طور پر پہلے منتخب صدر محمد مرسی نے ۲۰۱۹ء میں کمرۂ عدالت کی ایک پنجرہ نما جیل میں جام شہادت نوش کیا۔

۱۴ جون کو عدالت نے دیگر ملزمان کی قید کی سزائیں بھی برقرار رکھیں، جن میں اخوان کے مرشد عام محمد بدیع کی عمر قید اور محمد مرسی کے بیٹے اسامہ کی ۱۰ سال قید کی سزا بھی شامل ہے۔

اخوان المسلمون کے ان رہنماؤں کو ۲۰۱۳ء میں دارالحکومت قاہرہ میں رابعہ چوک پر دھرنے میں شرکت پر پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے لوگوں کو اس دھرنے میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ دھرنا ۲۰۱۳ء میں فوج کی جانب سے بغاوت کرکے منتخب صدر محمدمرسی کا تختہ الٹنے کے خلاف دیا جا رہا تھا۔

یہاں پر یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ اس سے قبل اخوان کے متعدد رہنماؤں کو فوج کے خلاف احتجاج پر پھانسی دی جا چکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مصر میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے پر تشویش کا اظہار کرتے  ہوئےکہا ہے کہ ’’اس سال ۵۱؍ افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے‘‘۔

  • انسانی حقوق انجمنوں کی مذمت:انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کے شرق اوسط اور شمالی افریقہ [مینا] کے لیے ڈائریکٹر تحقیق اور ایڈوکیسی فلپ لوتھر نے مصر میں اخوان المسلمون کے ارکان کو سنائی جانے والی پھانسی کی حالیہ سزاؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’۲۰۱۸ء میں ناانصافی پر مبنی اجتماعی مقدمات کی سماعت کے دوران مصر کی اعلیٰ ترین سول عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی بے رحمانہ سزائیں مصر کی شہرت پر ایک بدنما داغ ہیں، جس کا پرتو پورے ملک کے عدالتی نظام پر بھی پڑنے کا اندیشہ ہے‘‘۔

’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے مصری عدالتوں میں چلنے والے ان مقدمات کو مکمل طور پر غیر شفاف قرار دیتے ہوئے مصری حکومت سے سزائے موت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ان پھانسیوں کو الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس واچ گروپ نے بھی ’خوفناک‘ قرار دیا۔

  • سول سوسائٹی کی تشویش:جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر بین الاقوامی برادری کی طرف سے فوری اور فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے تو مصری آمر ٹولہ مصر میں تمام جمہوری قوتوں کو ملیامیٹ کردے گا۔ اور ان ظالمانہ سزائوں پر عمل سے نوجوانوں کو خطرناک پیغام ملے گا‘‘۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سیّدسعادت اللہ حسینی نے ایک بیان میں اجتماعی مقدمے میں اخوان المسلمون کے رہنماؤں کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ ’’وہ عدلیہ کی آڑ میں وحشت کا بازار گرم کرنے کی مصری حکومتی کوششوں کی مذمت کرے اور اس فوجی حکومت کو غیر انسانی اقدامات سے روکا جائے‘‘۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’دنیا بھر کے علما، سول سوسائٹی، مغربی دنیا میں سرگرم انسانی حقوق کی انجمنیں اپنے اپنے ملکوں پر دبائو ڈالیں کہ وہ اس غیر منصفانہ اقدام پر عمل درآمد کی راہ روکنے کی خاطر اپنا مؤثر کردار ادا کریں‘‘۔

مصری حکومت کا اپنی کینگرو عدالتوں کے ذریعے پہاڑی کے ان چراغوں کو سزائیں دلوانا کوئی نئی اور عجیب بات نہیں۔ ماضی میں انھی عدالتوں سے حریت کے متوالوں کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں، جن میں دسیوں پر عمل درآمد بھی کرایا جا چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سزائیں آخری نہیں کیونکہ عدالتوں میں انصاف کے بجائے گھنائونی سیاست ہورہی ہے۔ ججوں کو حکومت وقت نے اپنا آلہ کار بنا کر سیاسی مخالفین کو کچلنے کا جو مذموم منصوبہ بنا رکھا ہے، اس کی قلعی کھل چکی ہے۔

قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر سرسری سماعت کے بعد سزائیں کسی فوجی حکومت کا خاصہ تو ہو سکتی ہیں، جمہوریت کے دعوے داروں کو یہ حربے زیب نہیں دیتے۔ مقدموں میں گواہیاں پیش کرنے کے بجائے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں ہی کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو مجرم ثابت کرنے کے لیے مسلسل یہ خونیں کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

  • قومی رہنماوں کی بے قدری کیوں؟! :مصر کی قومی زندگی کے ان جگمگاتے چراغوں کی زندگی کے سرسری جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں مصر میں برسراقتدار ۲۱ویں صدی کے نئے فرعون اپنے سیاسی مخالفین کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

اخوان المسلمون نے نامساعد حالات کے اندر عرب دنیا میں جس طرح اپنی مقبولیت کا  لوہا منوایا، وہ عرب حکمرانوں اور رجواڑوں کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ انھیں خدشہ ہے کہ آج اگر عرب دنیا میں آزاد انتخاب کا ڈول ڈالا گیا تو ان کے خاندانی اقتدار دھڑام سے زمین پر آ رہیں گے۔

  • یہ روشن چراغ کون ہیں؟: یہاں پر ہم ان عظیم انسانوں کے تعارف کے طور پر چند سطور رقم کر رہے ہیں:

 

  • ڈاکٹر محمد البلتاجی: البحیرہ گورنری کے کفر الدوار شہر میں ۱۹۶۳ء میں پیدا ہوئے، قاہرہ کے علاقے شبرا میں پروان چڑھے۔ انھوں نے الازہر یونی ورسٹی سے میڈیکل کے پہلے بیج ۱۹۸۷ء میں ایم بی بی ایس کا امتحان رول آف آنر کے ساتھ پاس کیا۔

دو برس الحسین یونی ورسٹی ہسپتال میں بہترین ڈاکٹر کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور وہیں سے ناک، کان اور گلہ کے شعبوں میں تخصص کے بعد الازہر کے کالج آف میڈیسن میں  استاد مقرر ہوئے۔ پھر ترقی کرتے ہوئے آپ اسی شعبے کے پروفیسر مقرر ہوئے۔

محمدالبلتاجی اوائل عمری سے دعوتِ دین اور خدمت عامہ کے کاموں میں سراپا متحرک رہنے کے عادی تھے۔ وہ اپنی آبائی میونسپلٹی کفرالدوار میں بھلائی اور خیرات کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں الازہر کالج آف میڈیسن کی طلبہ انجمن کے صدر بھی رہے۔  وہ ڈاکٹروں کی انجمن کے نمایندے کے طور پر متعدد خیراتی میڈیکل کیمپوں اور قافلوں کے ہمراہ ملک کے اندر اور باہر سفر کرتے رہے، جہاں انھوں نے غریبوں اور یتیموں کا مفت علاج کیا۔ اپنے علم اور اخلاق میں نمایاں مقام رکھنے اور غریب مریضوں کا مفت علاج کرنے کے باعث ہردل عزیز شخصیت ہیں۔

محمد البلتاجی، اخوان المسلمون کے وہ حوصلہ مند قائد ہیں ،جن کی بیٹی کو رابعہ العدویہ میں ان کی آنکھوں کے سامنے تیزدھار آلے سے شہید کر دیا گیا اور ڈاکٹر البلتا کو اپنی شہید بیٹی کے جنازے میں شرکت کی اجازت بھی نہ ملی۔ اخوان المسلمون نے انھیں پارلیمنٹ کی رکنیت کا ٹکٹ دیا، جس پر وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ انھوں نے قاہرہ کے علاقے شبرا الخیمہ میں پرائیویٹ ہسپتال قائم کیا۔ مصری پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کے بعد آپ پارلیمنٹ میں دفاع اور قومی سلامتی کی کمیٹی کے رکن کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔انھوں نے اسلامی پارلیمنٹرینز کے بین الاقوامی کلب کی داغ بیل ڈالی، اور اسلامی نیشنل کانفرنس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب نے قضیۂ فلسطین کا ہمیشہ مذہبی جوش وجذبے سے کیس پیش کیا اور غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کروانے کی غرض سے بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دی۔ البلتاجی مئی ۲۰۱۰ء میں غزہ کا محاصرہ ختم کروانے کی غرض سے ترکی سے بھیجے گئے ’فریڈیم فلوٹیلا‘ میں سوار تھے، جس پر اسرائیل نے غزہ پہنچنے سے قبل کھلے سمندر میں کمانڈوز کے ذریعے حملہ کر دیا تھا۔

ڈاکٹر البلتاجی نے ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے عوامی انقلاب میں بھی شرکت کی۔ آپ کو انقلاب کے ٹرسٹیوں کی مجلس کا رکن منتخب کیا گیا۔پھر وہ فوجی حکام کو سب سے زیادہ مطلوب شخص قرار دیئے گئے۔

 ان کے دو بیٹوں انس اور خالد کو بھی گرفتار کیا گیا اور تیسرا بیٹا فوج کے ظلم سے تنگ آکر ہجرت کرگیا۔ اس دوران ان کی بیوی کو جیل میں ملاقات کے دوران جیل کے پہرہ دار پر حملہ کرنے کے بے بنیاد الزام میں چھے ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔یہاں تک کہ ان کی والدہ نے بھی انھیں ۲۰۱۳ء سے ان کی گرفتاری کے بعد صرف ایک بار دیکھا، اور اس کے چھے سال بعد جب ان کا انتقال ہوا تو محمد البلتاجی کو اپنی والدہ مرحومہ کی تدفین میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔ حکومت نے عوام کے سامنے انھیں مجرم ثابت کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔لیکن ان کی بے گناہی کا سچ تو اس مسکراہٹ کی طرح بالکل واضح ہے، جو ان کے چہرے سے کبھی غائب نہیں ہوتی تھی۔

  • ڈاکٹر صفوت حجازی: مصر کی گورنری کفر الشیخ کے وسطی علاقے سیدی سالم میں ۱۹۶۳ء کو ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد الشیخ حمودہ حجازی الازہر یونی ورسٹی کی فکلیٹی آف اسلامک اسٹڈیز کے گریجویٹ تھے، جس کا ان کی زندگی اور تربیت پر گہرا اثر رہا، کیونکہ ان کے گھر اسلامی مفکرین اور علما کا اکثر آنا جانا رہتا تھا۔

انھوں نے پرائمری تعلیم سے پہلے قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ تعلیم کے مختلف مراحل مکمل کرتے ہوئے، وہ الجیزہ گورنری کے احمد السید ملٹری سیکنڈری اسکول میں داخل ہو ئے۔ڈاکٹر حجازی نے اسکندریہ یونی ورسٹی کے شعبہ مساحت اور نقشہ جات سے بی ایس کی ڈگری حاصل کی، جس کے بعد مدینہ، سعودی عرب میں ملازم ہوگئے، جہاں فارغ اوقات میں وہ مسجد نبوی کے دروس سرکل اور دارالحدیث میں جید علما کے سامنے زنوائے تلمذ طے کرتے رہے۔ چونکہ مسجد نبوی کے حلقہ درس میں آٹھ (۱۹۹۰ء-۱۹۹۸ء) برس تک حدیث کی تعلیم پائی، اس لیے حجازی کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ قاہرہ لوٹ آئے، جہاں انھوں نے مسجدوں میں درس کے حلقے قائم کر کے دعوت وتبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نیز مختلف چینلز پر دینی پروگرام اور دروس بھی ان کی اہم مصروفیات تھیں۔

انھوں نے ’اربن پلاننگ‘ کے مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالے کا عنوان ’مدینہ منورہ کی تعمیراتی اسکیم‘ تھا۔ انھوں نے حدیث میں ڈپلومہ فرانس کی ڈیجون یونی ورسٹی سے حاصل کیا۔ ڈیجون یونی ورسٹی ہی سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری ’’انبیا و رُسل، اہلِ کتاب اور مسلمانوں کے ہاں: تقابلی جائزہ‘‘ کے عنوان سے دقیق مقالہ تحریر کرکے حاصل کی۔

۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب میں آپ ہراول دستے کا حصہ تھے، جس کی وجہ سے انھیں ’میدان کا شیر‘ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ انھیں ۲۱؍ اگست ۲۰۱۳ء کو مرسی مطروح گورنری سے حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف متعدد الزامات میں مقدمات درج کر دیے گئے۔ بعد ازاں کٹھ پتلی مصری عدالتوں نے انھیں عمر قید سے سزائے موت تک کی سزائیں دلوائیں۔

  • ڈاکٹر اسامہ یاسین نے ۱۹۶۴ء میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے عین شمس یونی ورسٹی سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا، پھر ۱۹۹۵ء میں بطور ماہر اطفال ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری انھوں نے ۲۰۰۸ء میں حاصل کی۔ آپ ۲۰۱۲ء میں مصری پارلیمنٹ کی یوتھ کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور  بعد میں امور نوجوانان کے وزیر بنے۔ انقلاب ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کی سرگرمیوں کے دوران آپ اخوان المسلمون کے فیلڈ کوارڈی نیٹر مقرر ہوئے۔ آپ مصری انقلاب کے اواخر میں ’کوارڈنیشن ری پبلکن کمیٹی‘ میں اخوان المسلمون کی نمایندگی بھی کرتے رہے ہیں۔
  • ڈاکٹر عبد الرحمٰن البر، الازہر یونی ورسٹی میں علوم حدیث کے پروفیسر تھے۔ بخاری شریف کے شارح، مستند محدث اور ۲۲ کتب کے مصنف، جو سعودی جامعات میں حدیث پر پی ایچ ڈی کے مقالوں کی نگرانی کا فریضہ سرانجام دے چکے ہیں۔ الازہر یونی ورسٹی میں سرکردہ علما کمیٹی کے رکن تھے۔ مگر یہ سب علما ’دہشت گرد‘ قرار پا کر قابل گردن زدنی قرار پائے۔
  •  ڈاکٹر احمد عارف: ماہر دندان ساز ہیں، جنھوں نے اپنے شوق اور علمی ذوق کی تسکین کی خاطر علوم شریعہ کی تعلیم بھی حاصل کی۔ آپ ایک شعلہ بیان مقرر ہیں، جو انقلاب کے بعد اخوان المسلمون کی ترجمانی کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر احمد ماہر ڈاکٹروں کی پیشہ وارنہ یونین کے اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے منتظر مصر کے ان عظیم قومی رہنماؤں اور خادموں کی جدوجہد سے عبارت زندگی کا مختصر جائزہ دنیا کے انصاف پسند اور باضمیر عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ایسے دسیوں ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان مصر کی جیلوں اور کال کوٹھریوں میں گذشتہ نوبرس سے قید ہیں۔

عدل وانصاف کسی ملک کی بنیاد ہوتے ہیں اور ظلم کا نظام کسی ملک کی شہری زندگی کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیتا ہے۔ یہ اصول مختلف طرح اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ تہذیب وتمدن اور ملک اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے تابع چلتے ہیں اور یہ دنیا انھی کے تابع رہ کر خیر کا نمونہ بن سکتی ہے۔ناانصافی ایک خوفناک ردعمل جنم دیتی ہے۔ جس کے نتائج ملکوں اور عوام کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں۔ جب ظلم کسی معاشرے میں پھیلتا ہے تو اسے برباد کر دیتا ہے ۔ جب یہ کسی قصبے میں پنجے گاڑتا ہے تو وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے: وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۝۲۲۷ۧ  (الشعراء ۲۶: ۲۲۷) ’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔

ظلم اور ظالموں کی سرکشی پر خاموشی یا مجرمانہ غیرجانب داری اختیار کرنے کا نتیجہ، نیک وبد سب کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے: وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّۃً۝۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲۵ (الانفال۸:۲۵) ’’اور بچو اُس فتنے سے، جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی، جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو، اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔

حدیث مبارک صلی اللہ علیہ وسلم میں آتا ہے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو بعید نہیں کہ ان پر بھی اسی ظالم جیسا عذاب آ جائے۔ اِنَّ النَّاس اِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَم يَأْخُذُوا عَلٰى يَدَيهِ أَوشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ  بِعِقَابٍ  مِنْہُ۔

حیدر علی آتش [۱۷۷۷ء-۱۸۴۶ء]کا شعر ہے  ؎

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسےکیسے

آج سے تین سال پہلے میں نے روزنامہ دی نیوز کے لیے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’افغانستان میں امن، مذاکرات کے ذریعے نہیں آئے گا بلکہ جنگ کے ذریعے ہی آئے گا‘‘۔ آج جب ہم زمینی حالات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے۔

تاہم، اُس وقت مجھے دوستوں نے کہا کہ ’’آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ یہ کوئی ۱۹۹۶ء تو نہیں ہے۔طالبان کو بھی اپنی حدود (Limitations)کا احساس ہوچکا ہے۔ اس کے بجائے کہ  وہ جنگ کریں، خود ان کی بھی یہی خواہش ہوگی کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ کچھ لو دو پر معاملات طے کرلیں اورعارضی یا عبوری طور پر ہی سہی، کوئی نہ کوئی معاہدہ ان کے ساتھ ہوجائے‘‘۔

لیکن آج بھی میرا یہی خیال ہے کہ ’’افغانستان میں اگر امن آئے گا تو سول وار کے بعد ہی آئے گا ‘‘۔ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ طالبان کا مزاج نہیں ہے۔ وہ ایک تحریک ہیں، جو افغانستان کو امارت اسلامیہ افغانستان بنانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس مرتبہ وہ معاملات کا کہیں زیادہ ادراک رکھتے ہوں گے کہ دُنیا ۱۹۹۶ء والی ’طالبانائزیشن (Talbanisation) کو قبول نہیں کرےگی۔  اس لیے وہ اپنے انداز میں ضرور کچھ تبدیلیاں کریں گے۔

 ہم نے حالیہ عرصے میں یہ دیکھا ہے کہ امریکا نے بھی طالبان سے روابط قائم کیے اور  پھر ان روابط کے نتیجے میں ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو ایک معاہدہ بھی ہوا۔ اسی طرح روس، چین، ایران اور ترکی نے بھی طالبان سے روابط بڑھائے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کہ پاکستان کیوں اپنے آپ کو تذبذب کی کیفیت میں ڈال کر اس پوزیشن کی جانب دھکیل رہا ہے، جو بالکل غیر ضروری ہے اور آخری تجزیے میں اس رویے سے پاکستان کے ہاتھ سوائے نقصان کے کچھ نہیں آئے گا۔

مثال کے طور پر ۳جون کو چوتھا سہ فریقی اجلاس چین، پاکستان اور افغانستان کی اشرف غنی حکومت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اجلاس کی کیا ضرورت تھی؟ بنیادی طور پر امریکی صدر بائیڈن کی حکومت نے ایک تجویز دی کہ اقوام متحدہ کے تحت استنبول میں ایک میٹنگ ہو۔ لیکن وہ نہیں ہوئی تو اسے جانے دیجیے۔ آپ ایسےمعاملات میں کیوں پڑتے ہیں، جن سے لگتا ہے کہ آپ طالبان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ ۳جون ۲۰۲۱ءکو جو نشست ہوئی، اس کے جاری کردہ اعلامیے میں یہ زبان استعمال کی گئی کہ ’طالبان دہشت گرد‘ ہیں۔ یہ مقدمہ یا موقف تو کابل حکومت کاہے۔ وہ ایک طرف طالبان کو ’دہشت گرد‘کہتے ہیں اور دوسری طرف ان سے مذاکرات بھی کرنا چاہتےہیں۔ ہمارا نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم نے اس قسم کے اعلامیے سے کیوں اتفاق کیا؟ یہ چیز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے؟

دوسری طرف اسی اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جو حکومت افغانستان میں طاقت کے ذریعے آئےگی،اس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘۔ اب یہ کوئی کہنے کی بات ہے۔ نائن الیون کے بعد  امریکی قیادت میں نیٹو فورسز کی قوت کے بل پر ہی قبضے کے بعد افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی وغیرہ کی حکومتیں بنیں۔ مراد یہ ہے کہ ان کو جبری طور پر قابض طاقتوں کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا۔ یہ حکومتیں کسی جمہوری طریقے سے اقتدار میں نہیں آئی تھیں۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کی کیا حیثیت ہے؟ ان کے انتخابات میں ووٹوں کا کتنا ٹرن آئوٹ تھا؟ اس وجہ سے یہ کہنا کہ ’’جو حکومت طاقت کے ذریعے آئے گی، اس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘، دراصل طالبان کے خلاف اشرف غنی حکومت کی تحسین اور تائید کرنا ہے کہ جن کی کابل سے باہر کوئی رِٹ ہی نہیں ہے۔

چونکہ یہ بات سراسر طالبان کے خلاف جاتی ہے،اس لیے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ہم غیرضروری طور پر پاکستان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ کیوں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہم نیوٹرل (غیر جانب دار) بھی رہ سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم طالبان کے خلاف بات کریں یا اس وقت کابل میں محدود سی پوزیشن رکھنے والی حکومت کے حق میں بے جا طور پر بات کریں۔ اس قسم کے عمل میں ہم کیوں پڑرہے ہیں؟

ہم چین سے اور دیگر ممالک سے مذاکرات یا کانفرنسیں کرسکتے ہیں اور غیر رسمی طور پر ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن ہمارے قومی مفادات کے حوالے سے اس قسم کی میٹنگوں کی کوئی گنجایش نظر نہیں آرہی ہے کہ جیسی مذکورہ بالا سہ فریقی میٹنگ کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ  اقوام متحدہ کے تحت طالبان کسی میٹنگ پر اتفاق کرلیں۔ تاہم، ابھی تک امریکی صدر بائیڈن کی تجویز کردہ میٹنگ نہیں ہوسکی اور طالبان کسی ایسی میٹنگ کے لیے تیار بھی نہیں ہیں کہ جس میں ان پر جنگ بندی اور دیگر شرائط عائد کی جائیں۔ وہ اپنی ترتیب دی ہوئی حکمت عملی کے تحت پورے اعتماد کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے ۴جون ۲۰۲۱ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’افغان مسئلے پر پاکستان میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغان طالبان سے مصالحت آسان نہیں ہوگی۔ ہماری افغانستان کے حوالے سے پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ ہمیں وہاں اسٹرے ٹیجک ڈیپتھ کی ضرورت نہیںہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں ہماری دوست حکومت آئے‘‘۔

بلاشبہہ یہ درست بات ہے کہ مغربی سرحد پر ہمیں افغانستان میں ایک پاکستان دوست حکومت کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں پریشانی نہ ہو، جو ماضی میں ہوتی رہی ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت نےپچھلے ۱۶ برسوں میں وہاں کافی جگہ بنائی ہے اور ہماری قیمت پر یہ جگہ بنائی ہے اور اس طرح ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ صوبہ بلوچستان اور کراچی شہر میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی اور پھر بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کمانڈر کلبھوشن یادو کی گرفتاری کو سب جانتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہمیں اب کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہیے، جس سے طالبان یہ تاثر لیں کہ ہم ان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ طالبان کی کسی پالیسی پر اگر ہم اثرانداز ہونا چاہتے ہیں تو اس کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم اس طرح سے عوامی سطح پر بیانات جاری کریں۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس میں افغانستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب کو سختی سے سنادیا کہ ’’آپ نے پاکستان کے خلاف بڑی ناروا باتیں کی ہیں‘‘۔ ٹھیک ہے، یہ بات کہنا بنتا بھی ہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ پورا افغانستان اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ایک فیصلہ کن مرحلہ اب آنے والا ہے۔ یہ مرحلہ ایک سال میں آتا ہے یادو سال میں، یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ افغانستان میں بالآخر طالبان حاوی ہوجائیں گے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھا رہے ہیں۔ انھیں کابل پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے، متعین طور پر بتانا ممکن نہیں ہے، لیکن پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح پوزیشن میں رکھے۔ طالبان میں ہم جو تھوڑا بہت اعتماد اور رسوخ رکھتے ہیں، اس کا یوں احساسِ برتری کے ساتھ اظہار کرکے بھی ہم غلط کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے وزیرخارجہ نے حمداللہ محب کو یہ بھی کہا ہے کہ ’ہمارے بغیر کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘۔ جب ہم اس قسم کے بیانات دیتے ہیں تو پھر واضح سی بات ہے کہ لوگ افغانستان کی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان کو بھی موردِ الزام ٹھیرائیں گے، کہ ’’آپ مسائل کھڑے کررہے ہیں‘‘۔ اگر بے جا طور پر آپ کریڈٹ لینا چاہیں گے تو پھر آپ پر تنقید بھی ہوگی۔ سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر اس قسم کے بیانات سےگریز کرنا چاہیے۔

آنے والے دنوں میں افغانستان میں کیا ہونے والا ہے؟ طے شدہ الفاظ میں کہنا ممکن نہیں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ ہمارے نقطۂ نظر سے افغانستان کی صورتِ حال ایک لحاظ سے بہتر ہونے کی طرف گامزن ہے کیونکہ نیٹو افواج کے آتے ہی ہمارے لیے مسائل پیدا ہوئے تھے۔ ان کے آنے سے کون سا امن آگیا تھا۔ اگرچہ آج افغان سرحد پر باڑلگانے کا عمل مکمل ہونے کو ہے، لیکن افغان مہاجرین اور دیگر مسائل بھی آئیں گے۔ البتہ جب ایک دفعہ معاملات طے پاگئے تو پھر حالات بہتر ہوجائیں گے۔

بھارت کی طالبان سے رابطہ کاری

۹مئی ۲۰۲۱ء کے روزنامہ ہندستان ٹائمز  میں خبر شائع ہوئی کہ’’ بھارت طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور یہ رابطے پچھلے کئی ماہ سے جاری ہیں‘‘۔ مجھے اس خبر پر کچھ تعجب نہیں ہوا۔ اگرچہ بھارت سرکار کی طرف سے اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی گئی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ بھارت کے انٹیلی جنس اداروں نے ہی یہ خبر جاری کی ہے۔ اجیت دوول بھارتی حکومت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہیں۔ ان سے میری کچھ ملاقاتیں رہی ہیں۔ اس بنا پر اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بھارت کے طالبان سے رابطے میں کچھ تیزی بھی آگئی ہے۔ یہ بھارت کی مجبوری ہے اور اسے خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ جب افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ہوجائے گا تو پھر افغانستان پر حکمرانی کی دعوے دار ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ اپنی رِٹ اور وجود کو خود کابل شہر میں بھی برقرار رکھ سکے۔ بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد وہ لوگ جو کابل حکومت کاحصہ ہیں، وہ آہستہ آہستہ کابل چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف جاتے ہوئے نظرآئیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ بھارت میں یا مغربی ممالک میں پناہ لیں گے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ ۲۰۰۱ء کے موسم سرما میں جب سے طالبان کی حکومت ختم کی گئی، بھارت نے افغانستان میں بہت سرمایہ کاری بھی کی ہے، تقریباً تین ارب ڈالر۔ اس نے بڑے بڑے منصوبوں جیسے ڈیمز،افغان پارلیمان کی عمارت کی تعمیر اور کچھ یونی ورسٹیاں بھی تعمیر کیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو پاکستان نے بھی افغانستان میں کچھ سرمایہ کاری کی ہے، لیکن ہماری سرمایہ کاری اس پیمانے پر نہیں ہے اور ہماری رفتار بھی سُست رہی ہے۔ بہرحال بھارت نے افغانستان میں انوسٹ کیا اور خاص طور پر نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹریٹ، جو انٹیلی جنس ادارہ ہے اس میں بہت سرمایہ اور مہارت صرف کی ہے۔ اس بھارتی سرمایہ کاری کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر ایسی صورتِ حال برقرار رہے، جس سے وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرسکے، اور بھارت نے عملاً ایسا کیا بھی ہے۔ یہ بات اوپن سیکرٹ اور کھلی حقیقت ہے کہ بھارت نے ’تحریک طالبان پاکستان‘ ( TTP)کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا اور بہت سی کالعدم بلوچ تنظیموں کو بھی استعمال کیا۔

بھارت کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اب زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتی۔ اشرف غنی اور ان کی حکومت کا مستقبل غیریقینی ہے۔ ماہرین اور دفاعی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ جلد یا بدیر یہ حکومت چلی جائے گی۔ بھارت طالبان کے ساتھ رابطہ کررہا ہے اوران کے ساتھ اپنے تعلقات بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا اور بہت سے دوسرے ممالک طالبان سے رابطے میں ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اس کے مفادات بھی اسی بات میں مضمر ہیں کہ جو بھی اگلی حکومت آئے، اس کے روابط اس کے ساتھ ہونے چاہییں، تاکہ وہ اس کھیل سے بالکل ہی باہر نہ ہوجائے۔

اسی طرح یہ بات افغان طالبان کو بھی مفید مطلب لگتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ جہاں تعلقات ہوں، وہاں وہ بھارت کے ساتھ بھی تعلقات رکھیں تاکہ پاکستان پربھی ان کا دبائو رہے۔ یہ طالبان کی بہت زبردست حکمت عملی ہے کہ وہ تمام ممالک سے رابطہ رکھیں۔ اگر وہ حکومت میں آجاتے ہیں یا افغانستان پر قبضہ کرلیتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ دنیا کے اہم ممالک ان کی حکو مت کو تسلیم بھی کریں۔ اس لیے کہ پچھلی مرتبہ ۱۹۹۶ء میں جب ان کی حکومت بنی تھی تو صرف تین ممالک: پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ تاہم، اس دفعہ وہ چاہیں گے کہ جب ان کی حکومت آتی ہے تو ان کو زیادہ سے زیادہ ممالک بالخصوص بڑے ممالک ان کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ اس لیے بھارت کا طالبان سے رابطہ اس کے نقطۂ نظر سےبھی ٹھیک ہے اور طالبان کو بھی یہ مناسب لگتا ہے۔ لہٰذا ، کچھ عرصے کے بعد اگر یہ اطلاع بھی مل جائے کہ اجیت دوول کی مُلا برادر سے ملاقات ہوگئی ہے تو یہ کوئی بعید از امکان بات نہیں ہوگی۔

یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ افغانستان سے جب بیرونی افواج کا انخلا ہوجائےگا تو ترکی، کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کا ذمہ لینے کے لیے تیار ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں طالبان نے ترکی کو یہ ذمہ داری سونپنے کا امکان مسترد کر دیا ہے کہ وہ ’نیٹو‘ کا رُکن ہے۔ آنے والے دنوں میں خاص طور پر کابل ایئرپورٹ اہم کردار ادا کرےگا۔ اگر طالبان جلد ہی کابل ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیتے ہیں تو افغانستان میں رسد کی فراہمی اور دیگر چیزوں کی آمدورفت حکومت کے لیے سخت مشکلات کا باعث بن جائے گی۔ یوں سمجھیے کہ اگر کابل ایئرپورٹ چلا گیا تو سب کچھ چلا گیا۔

دوسری طرف یہ بات بھی زیربحث ہے کہ کیا افغانستان سے امریکا کے نکلنے کےبعد چین کوئی بڑا کردار ادا کرنا چاہیے گا یا نہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا بالکل نہیں چاہے گا کہ چین، افغانستان میں کوئی بڑا کردار ادا کرے۔ اس خطے میں افغانستان معدنی وسائل سے مالامال (resource rich) ملک ہے اور تزویراتی طور پر امریکا کے لیےبھی بہت اہم ہے۔ اس لیے امریکا، افغانستان کو بالکل چھوڑ کر جانے والا کیسے بنے گا؟ مگر مستقبل کے افغانستان سے اس کے ربط کی کیا صورت ہوگی؟ ابھی واضح نہیں ہے۔

پھر یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ پاکستان امریکا کو فوجی اڈے دے رہا ہے یا نہیں دے رہا؟ ایک حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہم نے کچھ شرائط رکھی ہیں کہ’’ جو سہولیات دے رہے ہیں وہ طالبان کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی، البتہ داعش اور القاعدہ کے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں‘‘۔ اس قسم کی شرائط کی فی الحقیقت کوئی حیثیت اور تقدس نہیں ہوا کرتا۔ کیونکہ جب آپریشن ہوتے ہیں تو کوئی بھی یہ فرق نہیں کرسکتا کہ یہ سہولیات کس کے خلاف استعمال ہورہی ہیں۔

بہرحال، اگر ہم نے امریکا کو یہ سہولیات دیں تو طالبان اسے ہرگز پسند نہیں کریں گے۔ اگرچہ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑے وثوق سے کہا کہ ’’پاکستان کوئی ایسی سہولیات نہیں دے رہا‘‘۔ لیکن اس تردید کے باوجود کچھ خبریں مل رہی ہیں کہ شاید ہم کچھ شرائط کے تحت یہ مان بھی لیں۔ اس لیے اس موضوع پر حتمی بات کرنا ابھی ممکن نہیں ہے۔یہ امر واقعہ ہے کہ امریکا کو اڈے دینا، پاکستان کے وسیع تر قومی مفادات کے لیے درست نہیں ہوگا۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور وہ غلطیاں نہیں دُہرانی چاہییں، جن سے پاکستان کے مفاد کو پہلے ہی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، اور آیندہ شاید اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

امن مذاکرات کا مستقبل

گذشتہ دنوں اسلام آباد میں افغانستان پر ایک دو روزہ کانفرنس ’ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ‘ کے تحت منعقد ہوئی۔ اس ادارے کے بانی رؤف حسن ہیں، جو وزیراعظم کے معاون خصوصی بھی ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستانی وفود، افغان وفود اور وہ افغان نمایندے جو دوحہ میں مذاکرات کے لیے گئے تھے، وڈیو لنک کے ذریعے سے اس کانفرنس میں شریک تھے۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا: Stepping into the Future Peace Partnership Progress۔

یہ کانفرنس ’چیٹن ہائوس رُول‘ کی بنیاد پر منعقد ہوئی تھی۔ چیٹن ہائوس لندن میں ایک تھنک ٹینک ہے۔ اس کے طے کردہ اصول کے تحت ہونے والی کانفرنس میں کسی حساس موضوع پر کھل کر بات چیت ہوسکتی ہے، مگر اسے رپورٹ نہیں کیا جاسکتا کہ کس نے کیا کہا ہے؟ اس کانفرنس میں مَیں بھی شریک تھا اور ہمارے وزیرخارجہ نے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب بھی فرمایا۔ کانفرنس کے چار ورکنگ سیشن تھے۔ تمام سیشن ہی اہم تھے، خاص طور پر پہلا سیشن بہت اہم تھا، جس میں افغان مسئلے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ ’’مذاکرات کو کامیاب ہونا چاہیے۔ اگر دوحہ میں مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے‘‘۔

کچھ افغان وفود کا خیال تھا کہ ’’ایک عبوری نظام بننا چاہیے۔ وہ غیرسیاسی ہونا چاہیے اور اس میں غیر جانب دار لوگ شامل ہونے چاہییں۔یہ عبوری نظام دو، تین یا چار سال کے لیے ہو اور پھر انتخابات ہوں اور طے کیا جائے کہ آیندہ معاملات کیسے چلنے ہیں؟‘‘

میں نے وہاں یہ موقف پیش کیا کہ ’’طالبان کو کسی عبوری حکومت کا حصہ بننے میں کیا فائدہ ہے؟‘‘ میرا آج تک یہی موقف ہے کہ جب تک اشرف غنی صاحب اقتدار نہیں چھوڑتے، طالبان کسی ایسی عبوری حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مگر اس ساری صورتِ حال کے باوجود مجھے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی امریکا کے ساتھ کچھ معاملہ فہمی (انڈراسٹینڈنگ) ہوگئی ہے۔طالبان کے انکار کے باوجود ترکی کا یہ کہنا کہ وہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے، معنی خیز ہے۔ ابھی امریکا کو کابل ایئرپورٹ کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں سے احسن طریقے سے انخلا مکمل ہوجائے۔

افغان وفود کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان کو اس مسئلے میں بھرپور دبائو رکھنا چاہیے‘‘۔ وہ اس پر بار بار زور دے رہے تھے کہ ’’یہ پاکستان کی اہم ذمہ داری ہے‘‘۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ طالبان پر پاکستان کا کوئی دبائو ہوسکتا ہے۔ طالبان کی اپنی ایک حکمت عملی ہے اور وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہاں سے بیرونی فوجوں کا انخلا ہوجاتا ہے تو پھر طالبان کے لیے راستہ صاف ہے۔ کانفرنس کے شرکا میں سب کا یہی خیال تھا اور دبے دبے لفظوں میں سبھی کہہ رہے تھے کہ ’’وقت بہت کم ہے۔ اگر کہیں محدود وقت میں مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو افغانستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی‘‘۔ ایک لحاظ سے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔

کسی کے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی حتمی جواب نہیں تھا کہ ’’طالبان کو کس طرح مذاکرات کی میز پر لایا جائے؟‘‘ افغان وفود کا یہ کہنا تھا کہ ’’طالبان وقت گزار رہے ہیں اور دوحہ مذاکرات میں وہ زیادہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے، اور اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہورہی‘‘۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہورہی، نہ اشرف غنی حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور نہ طالبان ہی کوئی ایسی رعایت دینے کے لیے تیار ہیں، جو ان کی تحریک اور نظریے سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ وہ بڑے واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ انھیں ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ بنانی ہے۔ افغان وفود یا غیرطالبان قوتیں، جو اس وقت کابل میں انتظامِ حکومت کا حصہ ہیں یا ان کے ہمدرد ہیں،  وہ بہرحال الزام طالبان ہی کو دے رہے ہیں کہ ’’طالبان غیرسنجیدہ ہیں‘‘۔

ایک اہم سیشن میں خواتین کا کردار زیربحث آیا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ اگر بن جاتی ہے تو ’’اس میں خواتین کا کیا کردار ہوگا؟‘‘ کچھ افغان وفود نے بتایا کہ ’’اگر امارت اسلامیہ بن جاتی ہے تو طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلام اور افغان تہذیبی روایات کے مطابق خواتین کی تعلیم کے حق میں بھی ہیں، اور ان کے کام کرنے کے حق میں بھی ہیں اور ان کو بااختیار بنانے کے حق میں بھی ہیں‘‘۔ افغان وفود میں شامل خواتین کا یہ کہنا تھا کہ ’’جہاں تک اسلام کی بات ہے وہ تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن بہت سی مقامی روایات ایسی ہیں، جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ اس سے متصادم ہیں، تو ان کا کیا معاملہ ہوگا؟ اور طالبان ان روایات پر اصرار کر رہے ہیں‘‘۔ وہ طالبان وفود جو دوحہ مذاکرات میں شریک ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی روایات کی بات تو ٹھیک ہے، لیکن خواتین سے متعلق افغان تہذیبی روایات پر طالبان کو زیادہ اصرار نہیں کرنا چاہیے‘‘۔

دیکھتے ہیں کہ یہ بات کہاں جاکر رُکتی ہے۔ یہ تو اسی وقت ہوگا جب طالبان واقعی عبوری نظامِ حکومت سے اتفاق کرلیں اور تب ہی یہ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر ان کی حکمت عملی یہی ہے کہ وہ وقت گزار رہے ہیں اور ان کی امریکا کے ساتھ کوئی معاملہ فہمی بھی ہوگئی ہے تو پھر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، جیساکہ چل رہا ہے۔

افغان تجارتی معاملات کا مسئلہ

ایک مسئلہ یہ بھی زیربحث آیا کہ افغانستان کی معیشت کو کیسے خودانحصاری کے قابل (sustainable) بنایا جائے؟ کیونکہ ابھی تک افغان معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر ہی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں پاکستان کو آگے بڑھ کر کردارادا کرنا چاہیے۔اس ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’’پاکستان، افغانستان کو واہگہ بارڈر سے بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت دے‘‘۔ افغانستان، پاکستان تجارتی معاہدہ اس سال فروری میں ختم ہوگیا ہے۔ اس کو تین ماہ کے لیے توسیع دی گئی تھی اور وہ میعاد بھی ختم ہوگئی ہے۔ اب اسے مزید چھے ماہ کے لیے توسیع دی گئی ہے۔

افغان حکومت اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ ’’اس معاہدے میں ڈبلیو ٹی او کی شرائط بھی شامل کی جائیں تاکہ بھارت سے واہگہ کے ذریعے تجارت کھل سکے‘‘۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ افغانستان، واہگہ کے ذریعے بھارت برآمدات کرسکتا ہے لیکن بھارت اپنی برآمدات واہگہ کے ذریعے افغانستان نہیں کرسکتا۔میں نے اپنا موقف وہاں یہ رکھا کہ ’’افغانستان کو اچھی طرح یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے بھارت کے ساتھ کیا معاملات ہیں۔ آپ کیوں اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ بھارت واہگہ کے ذریعے برآمدات کرسکے؟ آپ اپنی برآمدات بڑھایئے۔ ٹرکوں کے ذریعے آپ اپنا سامانِ تجارت پاکستان سے بھی منگوا سکتے ہیں۔ ہماری اپنی تجارت بھارت سے بند ہے، تو ہم آپ کو کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ کراچی کی بندرگاہ کھلی ہے، اسے بھارت استعمال کرسکتا ہے۔ افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ وہ پاکستان سے کسی ایسی چیز کے لیے اصرار نہ کرے، جو اس کے لیے ممکن نہ ہو‘‘۔

پھر یہ بھی کہا: ’’اسی طرح وسطی ایشیا کے ساتھ ہماری تجارت جو کہ افغانستان کے ذریعے ہوتی ہے، اسے واہگہ بارڈر سے تجارت سے منسلک کردیا ہے۔ اس کی بھی کوئی تُک نہیں ہے۔ افغانستان کے وسطی ایشیا کے تعلقات میں کوئی جنگی یا جارحانہ صورتِ حال نہیں ہے، جب کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ لہٰذا، ان دونوں مختلف صورتِ حال کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا مناسب نہیں ہے‘‘۔ لہٰذا میں نے افغان وفود کو کہا کہ ’’وہ ایسا نہ کریں۔ اس طرح پاکستان کو تشویش ہوگی کہ یہ سب کچھ بھارت کے ایما پر کیا جارہا ہے، حالانکہ ہم نے آپ کو بھارت بذریعہ واہگہ برآمدات کی اجازت دی ہوئی ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘‘۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ ’’بھارت سے بذریعہ واہگہ تجارت کی اجازت بھی ہونی چاہیے‘‘۔

یاد رہے کہ ہم نے پہلے بھی موٹروہیکل معاہدے اور ریلوے معاہدے نہیں ہونے دیئے تھے کہ اس میں ہماری سلامتی کے معاملات (سیکورٹی کنسرن ) ہیں۔ یہ صرف تجارت کا مسئلہ نہیں بلکہ اس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بہت سے اصولی اور قانونی مسائل ہیں۔

افغانستان تجارتی لحاظ سے ہمارے لیے ایک بڑا اہم ملک ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک افغانستان سے ہماری تجارت تقریباً چار سے پانچ ارب ڈالر سالانہ تک تھی، جو اَب گھٹ کر ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے،اور جس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

کانفرنس میں سیاحت کی بات بھی ہوئی اور ہیلتھ ٹورازم (یعنی صحت اور علاج معالجے)کی بات بھی ہوئی۔ پاکستان افغان شہریوں کو ہر ماہ تقریباً دو لاکھ ویزے جاری کرتا ہے۔ سال بھر ٹریفک بھی جاری رہتی ہے۔ چار مقامات پر بارڈر کراسنگ ہوتی ہے: چمن، تورخم، انگوراڈہ اور سپن بولدک۔ یہ چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں لیکن افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ اُن چیزوں پر دبائو نہ ڈالے جو پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

مراد یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امن وامان، سیاسی استحکام، بین الاقوامی تعلقات کی ذمہ داریاں، بھارتی مداخلت کے امکانات کا خاتمہ اورتجارتی پیش رفت جیسے معاملات ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ہمیں ہرمسئلے پر خود بہت سوچ سمجھ کر، ٹھنڈے دل و دماغ اور بصیرت کے ساتھ فیصلے کرنے ہیں۔جلدبازی سے اور کسی کے دبائو میں آکر کیے گئے فیصلے ہمیں مشکلات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔

یہاں ہم جموں و کشمیر کی زمینی صورتِ حال کا جائزہ پیش کریں گے کہ خود بھارتی دانش ور اس صورتِ واقعہ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہاں نئی دہلی حکومت جس انداز سے اپنے آپ کو مسلط کیے ہوئے، اس کا اثر کشمیر کے بے بس اور مجبور شہریوں پر کس طرح اثرانداز ہورہا ہے۔

جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان فائربندی فروری ۲۰۲۱ء کے آخری ہفتے میں ہوئی۔  اس دوران دو افسوس ناک واقعات کے علاوہ عمومی طور پر فائربندی پر دونوں افواج نے عمل کیا۔ سرحدی علاقوں کی آبادی نے دونوں اطراف میں خوفناک فائرنگ، مارٹرز اور توپوں کی گھن گرج سے آزادی تو حاصل کرلی، مگر ان چار ماہ کے دوران وادیٔ کشمیر میں پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں ۵۷؍افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسی عرصے میں بھارتی سیکورٹی افواج نے آپریشنز کے دوران ۲۰سے زائد مکانات کو جلاکر راکھ کر دیا، یا زمین بوس کرکے اس کے مکینوں کوبے گھر کر دیا ہے۔

سرزمین کشمیر کی صورتِ حال

حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جناب یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ اور سابق چیئرمین ماینارٹیز کمیشن جناب وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے ائروائس مارشل کپیل کاک، سوشل ورکر سوشوبھا بھاروے اور سینیرصحافی اور ایڈیٹر جناب بھارت بھوشن نے ’فکرمند شہریوں‘ (Concerned Citizens Group: CCG) کے ایک معتبر گروپ نے مارچ، اپریل ۲۰۲۱ء میں وادیٔ کشمیر کا دورہ کیا (یاد رہے یہ گروپ غیرسرکاری سطح پر رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے تمام ارکان اپنے سفرخرچ اور قیام و طعام کے اخراجات ذاتی جیب سے کرتے ہیں)۔ نئی دہلی واپسی پر انھوں نے اپنی آٹھویں رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ ’’خطے میں جاری مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت ایک خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔ اگرچہ شہروں اور قصبوں میں بظاہر حالات معمول پر ہیں، سڑکوں اور گلیوں میں سیکورٹی فورزسز کے اہلکار نسبتاً کم تعداد میں گشت کرتے نظر آئے، مگر احساسِ شکست اور اس کے خلاف زمینی سطح پر تہہ در تہہ اضطراب سے پریشرککر جیسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے‘‘۔

یہ امرواقعہ یاد رہنا چاہیے کہ یہ خطۂ کشمیر ’عالمی کورونا وبا‘ پھوٹنے سے قبل ہی جبری لاک ڈاؤن کی زد میں ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے کاروباری اور دیگر اجتماعی خدمت کے ادارے تہس نہس ہوچکے ہیں۔ لگتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اپنا ہر قدم مقامی آبادی کو زیر کرنے اور دہلی میں ہندو قوم پرستوں کو اپنی کامیابی و سرشاری کا لطف اُٹھانے کا موقع عطا کررہی ہے۔ کشمیر  کی سول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’پچھلے دو برسوں میں ہم نے اس قدر ذلّت و رُسوائی کا سامنا کیا ہے کہ ۷۰برسوں میں کبھی اپنے آپ کو اتنا زخم خوردہ نہیں پایا ‘‘۔

یکے بعد دیگرے احکامات: ’روشنی ایکٹ‘ کو کالعدم کرنا، غیر ریاستی باشندوں کو شہریت دینا، اردو زبان کو پس پشت ڈالنا اور اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندیاں کرنا، جیسے اقدامات کشمیریوں کی نفسیات کو گہری ضرب لگانے کاکام کر رہے ہیں۔ان احکامات و اقدامات کی حالیہ مثال ’ملک دشمن سرگرمیوںــ‘ کا نوٹس لینے کے نام پر چھے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ فہرست خاصی لمبی ہے اور اگلے کئی ماہ تک مزید افراد ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔سرکاری ملازمین کی سرگرمیوںپر نظر رکھنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔ نئی دہلی حکومت نے لیفٹیننٹ گورنر کو اختیار دیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کو بغیر کسی تفتیش کے، اپنے صواب دیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملازمت سے برطرف کرسکتا ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ گورنر صاحب نے اپنے صواب دیدی اختیارات کا استعمال تو کردیا، مگر دوسری طرف خود پولیس کا کہنا ہے کہ ان عتاب زدہ یا برطرف کردہ افراد کا ہمارے پاس کوئی ’مجرمانہ ‘ ریکارڈ نہیں ہے۔

مگر ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا بدقسمت خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عملداری سے ہاتھ دھوئے بیٹھا ہے۔ یہاں نئی دہلی سرکار کے مقرر کردہ حکمران، مقامی لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کے جہنّم میں دھکیلنے پر کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔

حکومت کے کسی بھی اقدام سے اختلاف کا اظہار کرنے کی کوئی گنجایش نہیں رکھی گئی ہے۔ صحافیوں کے خلاف تادیبی کارروائیوں کے نتیجے میں طباعتی و ابلاغی صحافت کا وجود اور اس کی افادیت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ مقامی اخبارات کے ادارتی صفحات غیر سیاسی موضوعات پر مضامین شائع کرنے پر مجبور ہیں ، تاکہ کسی پریشانی میں نہ پھنس جائیں۔ ’فیس بک‘ تو دُور کی بات ’وٹس ایپ گروپس‘ پر معمولی سے اختلاف رائے کا اظہار کرنے پر کئی افراد کو تختۂ مشق بنایا گیا ہے۔ بہت سوں کے خلاف دہشت گردی سے متعلق قوانین کے تحت مقدمے درج کیے گئے ہیں۔

ایک کشمیری دانش ور نے دورہ کرنے والے اس گروپ کو بتایا کہ ’’اس سے قبل کشمیری قوم نے مجموعی طور پر کبھی اپنے آپ کو اس قدر بے بس، بے زبان اور یتیم محسوس نہیں کیاہے، کیونکہ بھارت نواز اور آزادی نواز قیادتیں بھی بحران سے دوچار ہیں۔ ان میں کوئی ایسا لیڈر سامنے نہیں آرہا، جو نئی دہلی حکومت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ بھارت نوا ز کشمیری لیڈروں یا مقامی سیاسی قیادت کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور بیش تر حریت لیڈر یا تو جیلوں میں ہیں یا گھروں میں نظربند ہیں۔عمومی طور پر بھارت کی سیکولر لبرل لیڈرشپ نے بھی کشمیریوں کو مایوس کیا ہے۔ یہاں کے لوگ اُمید رکھتے تھے کہ شاید وہ مودی حکومت کے تنگ نظری پر مبنی اقدامات کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں گے۔ مگر وہ تو اپنے مقامی اتحادیوں نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی بھی مدد نہیں کر پائے‘‘۔

سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے دست راست وحید پرہ کو دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت حراست میں لے کر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ’’ایک ارب روپے عسکریت پسندوں میں تقسیم کر رہا تھا‘‘۔ مقامی لوگ اس الزام کو ایک بے پر کا بھونڈا مذاق سمجھتے ہیں۔ چند سال قبل تک وحیدپرہ، بھارتی حکومت اور بھارتی سیکورٹی فورسز کی آنکھوں کا تارا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی حکومت کا دفاع کرنے کے لیے اس کو متعدد کانفرنسوں، مباحثوں اور سیمیناروں میں بلایا جاتا تھا۔ بھارت کے موجودہ وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک بار اس کو ’’کشمیر ی نوجوانوں کا رول ماڈل اور امید کی کرن بتایا تھا‘‘۔ ایک بھارت نواز لیڈر نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’اگر یہ سب کچھ وحید پرہ کے ساتھ ہوسکتا ہے ، تو پھرآخر کون بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا کر اپنا سر اوکھلی میں دیتے ہوئے دین و دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہے گا‘‘۔

ایک مقامی تجزیہ کار نے گروپ کو بتایا کہ ’’۱۹۵۳ءکے بعد سے بھارت نے ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کو مؤثرانداز سے تشکیل دیا تھا، جو بڑی حد تک کشمیر یوں اور بھارت کے درمیان ایک نفسیاتی پُل کا کام کرتا تھا اور آڑے وقت میں نئی دہلی کی مدد بھی کرتا تھا۔ مگر ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے اقدامات نے اس پل کو ڈھا دیاہے‘‘۔ گروپ کے مطابق ’’کشمیر کو پوری طرح نئی دہلی میں موجود افسر شاہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے کی حکومتیں بھی کچھ معیاری رویے کی آئینہ دار نہیں تھیں، مگر ایک سسٹم کے تحت کام کررہی تھیں۔ کشمیر کو اب ’حکم ناموں‘ (Orders)کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور ہر نیا حکم ایک نیا زخم لے کر آتا ہے‘‘۔

پاکستان کی پالیسی کے حوالے سے بھی عوام میں خاصی مایوسی ہے۔ کئی افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ ’’ہمیں توقع تھی کہ پاکستان کی ایما پر بین الاقوامی برادری یکجا ہوکر بھارت کو ان اقدامات کو واپس لینے پر مجبور کردے گی، مگر یہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ غالب اکثریت کا خیال ہے کہ ان کو بے یار و مددگار چھوڑدیا گیا ہے‘‘۔ کشمیری آبادی میں پاکستانی قیادت کے لیے یہ رجحان لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے علاوہ پہلی بار کشمیر ی عوام، بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو پیش آنے والے واقعات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے دکھائی دیئے۔ اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ دونوں آج کل ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی کشمیری تحریک سے لاتعلقی اور بسا اوقات اس کی شدید مخالفت کی وجہ سے کشمیری مسلمان بھی ان کے سیاسی معاملات سے بیگانہ ہی رہتے تھے۔

 اس گروپ کی رپورٹ کے مطابق ’’ایک واحد مثبت قدم جو پچھلے دو برسوں میں اٹھایا گیا وہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسلوں (ڈی ڈی سی) کے کسی حد تک آزادانہ انتخابات تھے، جس میں  نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے اتحاد کو واضح برتری حاصل ہوئی۔ مگر یہ انتخابات ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے اقدامات کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان انتخابا ت کا بھارتی حکومت سفارتی سطح پر خوب چرچا کر رہی ہے۔ مگران نو منتخب ڈی ڈی سی اراکین کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے‘‘۔ جنوبی کشمیر کے کولگام علاقے کے ڈاک بنگلہ میں منتخب ڈی ڈی سی اراکین نے وفد کو بتایا کہ ’’انھیں عوام سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے اور ایک مقامی ہوٹل میں ان کو محصور کردیاگیا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک جیل میں بندہیں۔ افسران تک ان سے بات کرتے ہوئے ڈرتے، جھجکتے اور بدکتے ہیں۔ اپنے علاقوں میں وہ بجلی کا ایک ٹرانسفارمر تک ٹھیک نہیں کرا پاتے ہیں۔ حکومت میں کرپشن انتہا پر ہے۔ پہلے بیوروکریٹ کسی سیاسی نظام کے تابع ہوتا تھا، مگر اب یہ نظام بھی ٹوٹ چکا ہے‘‘۔

ایک ڈی ڈی سی ممبر عنایت اللہ راتھر نے وفد کو بتایا کہ ’’مجھ کو بتایا گیا تھا کہ کشمیر ہندستان کا تاج ہے، مگر یہ تاج آج کل ٹھوکروں کی زد میں ہے‘‘۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میرے علاقے کے  کئی نوجوانوں کو حراست میں لے کر بھارت کی دُور دراز جیلوں میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے اعزا و اقارب ملاقات کے لیے نہیں جا سکتے ہیں۔ ایک دودھ بیچنے والے شخص کو، جس کو اس کی بھاری بھرکم جسمانی ساخت کی وجہ سے مقامی لوگ ’کرنل ستار‘ کے نام سے پکارتے تھے، حراست میں لے کر اترپردیش کے وارانسی شہرکی جیل میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اس شخص کا کسی عسکریت سے دُور دُور تک کا کچھ بھی واسطہ نہیں ہے‘‘۔ ایک اور ڈی ڈی سی ممبر عباس راتھر کا کہنا ہے کہ ’’مجھے حفاظت کے لیے جو سیکورٹی اہلکار دیے گئے ہیں، و ہ میری جاسوسی کرتے ہیں۔ جوں ہی کوئی مجھ سے ملنے آتا ہے، و ہ فون پر اپنے اعلیٰ افسران کو باخبر کردیتے ہیں‘‘۔ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے عارف زرگر ، جو ڈی ڈی سی کے چیئرمین بھی ہیں، بتایا کہ ’’ڈی ڈی سی دراصل Dumb Driven Cellکا مخفف ہے‘‘۔ جن دنوں یہ گروپ کشمیر کے دورہ پر تھا، حکومتی اہلکاروں نے بتایا: ’’حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق گھر میں نظربند نہیں ہیں اور کہیں بھی آ جا سکتے ہیں۔ مگر جب اگلے روز یہ گروپ ان کی رہایش گا ہ پر پہنچا، تو سیکورٹی اہلکاروں نے ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی‘‘۔

۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیٔ کشمیر میں ۸۰۸کشمیری ہندو، یعنی پنڈت خاندان رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ۱۹۹۰ءمیں دیگر پنڈتوں کی طرح نقل مکانی نہیں کی۔ مقامی کشمیری پنڈتوں کے لیڈر سنجے تکو نے اس وفد کو بتایا: ’’۲۰۱۱ء کے بعد مختلف وجوہ کی بنا پر ۶۴ خاندان ہجرت کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ۳۹۰۰  ایسے پنڈت خاندان ہیں، جنھیں جموں سے کشمیر میں نوکری دلوانے کے نام پر لاکر کیمپوں میں رکھا گیا ہے‘‘۔ سنجے تکو کے مطابق: ’’کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ اس کے برعکس جموں اور دہلی میں مقیم ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کے پروردہ پنڈتوں کو ان کی آواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ آرایس ایس نے حال ہی میں عالمی دارالحکومتوں میں (Global Kashmiri Pandit Diaspora - GKPD) کے نام سے ایک نئی تنظیم بنائی ہے، تاکہ اس کو عالمی سطح پر کشمیری تارکین وطن کے خلاف کھڑا کرکے ان کے بیانیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ کشمیری پنڈت لیڈروں کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فورموں اور انتخابات کے موقعے پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائدین پنڈتوں کا نام خوب استعمال کرتے ہیں، مگر ان کی فلاح و بہبود کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتے ہیں‘‘۔

وادیٔ کشمیر میں رہنے والے کشمیری پنڈتوں نے مذکورہ گروپ کے سامنے اس خدشے کا اظہارکیا کہ: ’’عام انتخابات سے قبل کہیں وہ کسی False Flag [خود مار کر دوسرے پر الزام دھرنے جیسے]آپریشن کا شکار نہ ہوجائیں، تاکہ اس کو بنیاد بناکر ووٹروں کو اشتعال و ہیجان میں مبتلا کرکے ایک بار پھر ووٹ بٹورے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عسکریت پسندوں میں بھی بھارت کے خفیہ اداروں کے افراد ہوسکتے ہیں، جو اس طرح کی کارروائی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنڈتوں کو شکایت تھی کہ مرکزکے ’اسمارٹ سٹی پراجیکٹ‘ کے نام سے دریا کے کنارے پر واقع متعدد مندروں کی آرایش و تزئین کی جا رہی ہے، مگر اس سلسلے میں مقامی پنڈت آبادی کو پوچھا بھی نہیں جاتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کام سیکورٹی فورسز کے افراد کررہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے مقامی مسلم آبادی کو ان سے متنفر کیا جا رہا ہے‘‘۔

گروپ کے مطابق: ’’آئے دن ہلاکتوں کے باوجود مقامی نوجوانوں میں ہتھیار اٹھانے کے رجحان میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی، اور عسکری تنظیموں کے اراکین میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ سیکورٹی فورسز کی طرف سے مارٹر اورآتش گیر مواد سے مکانات کو زمین بوس کرنے کے نئے سلسلے نے عوامی ناراضی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ آج کل جس گھر میں بھی کسی عسکریت پسند کے ہونے کا کچھ بھی اندیشہ ہوتا ہے، سیکورٹی افواج اس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بناکر زمین بوس کردیتے ہیں‘‘۔ سول سوسائٹی سے وابستہ ایک سرکردہ شخصیت نے اس گروپ کو بتایا کہ: ’’چندبرس قبل تک کشمیری، مقبول بٹ اور افضل گورو کو اپنے گھروں سے دُور تہاڑ جیل میں دفنانے پر ماتم کر رہے تھے، مگر اب کسی بھی عسکریت پسند کی لاش ان کے لواحقین کو نہیں دی جاتی، اور ان کو نامعلوم جگہوں پر دفنا دیا جاتا ہے‘‘۔

 فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے، حال ہی میں سرینگر میں بتایا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عمل درآمد سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں،مگر کیا صرف سرحدوں پر امن کے قیام سے اس پورے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے؟ کیا کشمیر میں عوام کا اعتماد اور بھروسا جیتنا ضروری نہیں ہے؟

کشمیر پر افواہوں کی یلغار یا کشمیریوں کا نفسیاتی قتل عام؟

اسی طرح پچھلے کئی ہفتوں سے کشمیر میں افواہوں کے بازار نے یہاں رہنے والوں کا سُکھ چین چھین لیا ہے۔ لگتا ہے کہ دانستہ طور پر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر ی عوام کو مستقل عذاب میں مبتلا رکھ کے ان کو ذہنی مریض بنایا جارہا ہے۔ ان افواہوں کا ماخذ خود مقامی حکومت ہی کے چندایسے اقدامات کے ساتھ ساتھ، دہلی اور جموں میں رہنے والے شدت پسند کشمیری پنڈتوں کا ایک اجتماع ہے۔ جہاںحال ہی میں کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانے اور ان کو فلسطینیوں کی طرح اپنے ہی گھروں میں بیگانہ کرنے کی تجویزیں پیش کی گئیں، برملا دُہرائی گئیں اور افواہوں کی صورت میں پھیلائی گئیں۔ تقریباً ۳۰۰ مزید نیم فوجی دستوںکی کمپنیوں کی تعیناتی اور ان میں سے بیش تر کی شمالی کشمیر میں تعیناتی اور بھارتی فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت نے پورے خطے میں اضطرابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ہرکوئی دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے کہ ’’کیا کچھ بڑا ہونے والا ہے؟‘‘

 شاید کشمیر دُنیا کا واحد خطہ ہے، جہاں بسا اوقات یہ افواہیں سچ کا رُوپ بھی دھار لیتی ہیں۔

لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ان افواہوں کے خاتمے کی یقین دہانی توکرائی ہے،مگر ۵؍اگست ۲۰۱۹ءکو جب بھارتی آئین میں درج جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو کالعدم قراردینے کے بعد ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے مرکزی انتظام والا علاقہ بنایا گیا تھا، تو اس یلغار سے پہلے بھی کچھ اسی طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ اس وقت بھی گورنر ستیہ پال ملک نے ’سیکورٹی یا سلامتی‘ سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کو معمول کی کارروائی بتایا تھا۔ حتیٰ کہ نیشنل کانفرنس کے رہنما ڈاکٹرفاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ [یعنی شیخ عبداللہ کے پوتے] نے دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی، جنھوں نے ان کو یقین دہانی کرائی کہ ’’دفعہ ۳۷۰، اور دیگر آئینی اقدامات پر کوئی قدم اٹھانے سے قبل کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے صلاح مشورہ کیا جائے گا‘‘۔ مگر سرینگر آنے کے تیسرے ہی دن ان کو حراست میں لیا گیا۔ اس پس منظر اور تاریخ کی موجودگی میں اب موجودہ لیفٹنٹ گورنر کی یقین دہانی پر کتنا یقین کیا جائے؟

مئی کے آخری اور جون کے پہلے ہفتے کے دوران جاری ہونے والے پے در پے احکامات، جیسے سرینگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے نقل و حمل کے لیےراہداری پاس کی ضرورت، پولیس کی جانب سے ریلوے حکام کو وادی کے اندر چلنے والی ٹرین سروس کو معطل رکھنا، پولیس اسٹیشنوں سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے قبل اور اس کے بعد سیاسی شخصیات کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف کارروائیوں کا ریکارڈ مانگنا، جموں و کشمیر جماعت اسلامی اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکنان اور ہمدردان کی تفصیلات کے علاوہ خطے میں سرگرم صحافیوں کا ریکارڈ مانگنا، وہ اقدامات ہیں کہ جن سے ان اندیشوں اور وسوسوں کو تقویت ملی ہے ۔لوگوں میں اضطرابی کیفیت ہے، مگروہ یہ بھی کہتے ہیں دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی صورت میں کشمیریوں کے پاس تن بدن کو برہنہ کرنے کے بعد بس ایک زیرجامہ ہی بچا تھا، جسے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو تار تار کردیا گیا۔ اب ان کے پاس کھونے کے لیے بچا ہی کیا ہے۔

  • پہلی افواہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کا نام تبدیل کرکے اس کو ’جموں پردیش‘ رکھا جائے گا، یعنی اس سے لفظ کشمیر حذف کر دیا جائے گا۔ مگر اس کی تو خود کشمیری پنڈت اور سخت گیر ہندو ہی مخالفت کریںگے۔ اس سے تو اس خطے کی ہندو اساطیری شخصیت کشپ رشی کے ساتھ نسبت ہی ختم ہو جائے گی، جس کا حوالہ دے کر کشمیر کو ’ہندوتوا‘ کے وسیع ایجنڈے کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
  • دوسری افواہ یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے کئی اضلاع کو جموں کے ساتھ ملاکر ، ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دیا جائے گا۔ مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ جموں ڈویژن میں تقریباً ۳۵فی صد مسلمان آباد ہیں اور جنوبی کشمیر کے اضلاع کے ساتھ ان کے الحاق کے نتیجے میں ۱۵سے ۲۰لاکھ تک مزید مسلمان ساتھ مل جائیں گے۔ اس طرح یہ مسلم اکثریتی علاقہ بن جائے گا۔ فی الحال آر ایس ایس کی سرپرستی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت، ملک میں ایک اور مسلم اکثریتی صوبہ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ جموں ڈویژن میں مسلم اکثریتی علاقے پیر پنچال اور چناب ویلی پہلے ہی سے ہندو  نسل پرستوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔حتیٰ کہ بھارت کے سیکولر رہنماؤں نے بھی پچھلے ۷۰ برسوں سے ان علاقوں کو وادیٔ کشمیر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان علاقوں کو پہلی بار ۲۰۰۴ء کے بعد مفتی محمد سعید اور غلام نبی آزاد کے دورِ حکومت میں پونچھ اور شوپیاں کو ملانے والے مغل روڈ اور دیگر رابطوں کی تعمیرات نے ملانے کا کام کیا تھا۔
  • تیسری افواہ یہ ہے کہ شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے اور کشمیر کو ختم کر دیا جائے گا۔ یہ قدم اُٹھانے سے مجوزہ لداخ صوبہ میں ۲۵لاکھ کے قریب آبادی کا اضافہ ہوگا اور یہ پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ یعنی وادی کشمیر کو تقسیم کرنے اور اس کو جموں اور لداخ میں ضم کرنے سے یہ دونوں خطے مسلم اکثریتی بن جائیں گے۔
  • چوتھی افواہ یہ ہے کہ جموں کو موجودہ صورت میں ہی الگ صوبہ کا درجہ دیا جائے گا۔ خودبخود یا کسی نادیدہ قوت کے اشارے پر جموں میں کئی گروپ آج کل ایسا ہی مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے فی الحال اس کو مسترد کر دیا ہے۔ بلاشبہہ جموں کو الگ صوبے کی حیثیت دینا اور وادیٔ کشمیر کو الگ تھلگ کرناہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کا پرانا ایجنڈا رہا ہے۔ ایک نسل پرست لیڈر بلراج مدھوک [م: ۲۰۱۶ء] اس مطالبے کے پُرزور حمایتی تھے۔ ۵؍اگست۲۰۱۹ء سے قبل جب پارلیمنٹ میں ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت تبدیل کرنے کے قانون کا مسودہ تیار ہو رہا تھا، تو اس وقت بھی ریاست کے دوکے بجائے تین حصے کرنے کی تجویز پر وزارت داخلہ اور وزارت عظمیٰ کے دفتر میں خاصی بحث ہوئی تھی۔ مگر مضمرات کا جائزہ لینے کے بعد جموں کو الگ حیثیت دینے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

یہ خبریں بھی گشت کر رہی تھیں کہ ’’شاید خطے کو ریاستی درجہ واپس دیا جائے گا‘‘۔ مگر معروف صحافی مزمل جلیل کا اصرار رہا ہے کہ ’’ایسا ابھی ممکن نہیں ہو سکے گا‘‘۔ اور ان کا اندازہ درست ثابت ہوا، کیونکہ ۲۴ جون کو بھارتی وزیراعظم مودی نے اپنی رہایش گاہ پر نئی دہلی نواز آٹھ پارٹیوں کے چودہ رہنمائوں سے ملاقات کی۔ جس میں مودی نے ریاست بحال کرنے کے بجائے یہ کہا کہ مناسب وقت پر ریاست کا درجہ بحال کریں گے مگر کب؟ یہ کہا نہیں جاسکتا۔ دوسرا یہ کہ آپ سب مل کر کام کریں۔ ہم انتخابی حلقہ جات کی نئی حدبندی کرکے انتخاب کرائیں گے‘‘۔ اس طرح عملاً  یہ میٹنگ بے نتیجہ رہی۔ موجودہ حالات میں بی جے پی حکومت اگرچہ ریاستی اسمبلی دفعہ ۳۷۰ یا ۳۵-اےکو واپس تو نہیں لے گی، مگرڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس یا محبوبہ مفتی کی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے برسراقتدار آنے کی صورت میں، کئی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ جس کی فی الحال آر ایس ایس اسٹیبلشمنٹ متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اگر ریاست کا درجہ واپس آتا بھی ہے، تو وہ شاید ایسا ہی سسٹم ہوگا ، جو دارالحکومت دہلی میں ہے، جہاںکے وزیراعلیٰ کی حیثیت بس ایک شہر کے مئیر جیسی ہے۔ نظم و نسق، افسران کے تبادلے وغیرہ کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہی ہے۔

  • پانچویں افواہ جس نے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلایا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’وادیٔ کشمیر کے کل رقبہ ۱۵۵۲۰ مربع کلومیٹر میں سے ۸۶۰۰مربع کلومیٹر پر جموں اور دہلی میں رہنے والے کشمیری پنڈتوںکو بسا کر مرکز کے زیر انتظام ایک علیحدہ علاقہ تشکیل دیے جانے کی تجویز ہے، جس کا نام ’پنن کشمیر‘ ہوگا۔ یعنی وادیٔ کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علیحدہ علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے‘‘۔ ’پنن کشمیر‘ کے زیرگردش نقشے سے معلوم ہوتا ہے کہ وادیٔ کشمیر کا پورا میدانی اور زرعی علاقہ قاضی گنڈ سے کپواڑہ تک اس کی زد میں آئے گا، لیکن محض ٹونگ ڈار، اوڑی اور پہاڑی اور جنگلات کے سلسلوں میں مسلمانوں کو ’غزہ‘ کی طرح بسنے دیاجائے گا۔

اس سلسلے میں حال ہی میں جموں و دہلی میں مقیم شدت پسند کشمیری پنڈت گروپوں نے ایک باضابطہ اجلاس میں وادیٔ کشمیر کے اندر اسرائیل طرز کا ایک خطہ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سلسلے میں ایک مجوزہ قانون وزارت داخلہ میں ڈرافٹ کیا جا چکا ہے اور وہ اس بات پر نالاں تھے،کہ مودی حکومت اس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے‘‘۔ایک مقرر سشیل پنڈت کا کہنا تھا کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات ایک عارضی چمک تھی اور مودی حکومت اس کا فالو اَپ کرنے میں ناکام رہی ہے‘‘۔ ایک اور مقرر ڈاکٹر مکیش کول کا کہنا تھا کہ ’’مودی کو بھاری مینڈیٹ تعمیر و ترقی یا نظم و نسق کے نام پر نہیں ،بلکہ ہندو احیاے نو کے لیے ملاہے‘‘۔ للت امبردار نے تو بی جے پی کو اس وجہ سے آڑ ے ہاتھوں لیا ،کیونکہ ’’وہ کئی صوبوں میں مسلمانوں کو لبھا رہی ہے‘‘۔للت امبردار ہی کا کہنا تھا کہ ’’لداخ کو کشمیر سے الگ کرنے سے وہاں کی بدھ آبادی کو آزادی ملی، مگر جموں کا ہندو اور کشمیر ی پنڈت ابھی تک غلام ہے‘‘۔ کئی مقررین نے ’’اسرائیل میں یہودی آباد کاروں کی طرز پر وادیٔ کشمیر کے اندر ’پنن کشمیر‘ تشکیل دینے اور اس میں آبادکشمیری پنڈت آبادی کو مسلح کرنے اور ان کو عسکری تربیت دینے کی بھی سفارش کی‘‘۔

اس ساری صورتِ حال کو ذہن میں رکھ کر ذرا سوچیے کہ افواہوں کا یہ بازار ایسے وقت کشمیریوں کا سکون اور چین چھین رہا ہے ، کہ جب دوسری طرف پچھلے کئی ماہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان خاموش اور پس پردہ سفارت کاری کا عمل جاری ہے۔ پاکستان نے بین الاقوامی فورموں میں موجودہ بھارتی حکومت کو فاشسٹ قرار دینے اور براہِ راست نشانہ بنانے سے کچھ عرصے سے واضح طور سے اجتناب برتنا شروع کردیا ہے۔ جس سے آر ایس ایس کو امریکا، کینیڈا اور مغربی ممالک میں خاصا سُکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔

مگر یہاں پر ایک بہت بڑا اور نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ’اعتماد سازی‘ کے یہ سب اقدامات صرف پاکستان کی طرف سے یک طرفہ ہیں یا بھارت کی طرف سے بھی کچھ بامعنی پیش رفت ہورہی ہے؟ یہ موقع ہے کہ پاکستانی حکمران ، پاکستانی قوم اور کشمیریوں کو بتائیں کہ اس کے عوض بھارت نے کشمیریوں کو مثبت طور پر کس حد تک مراعات دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے؟ ہم نے یہاں جن پانچ افواہوں کا ذکر کیا ہے اور کشمیری مسلمان آبادی کو گھر سے بے گھر کرنے کی جو سازش ہو رہی ہے، اس سے کشمیری قوم کو ذہنی مریض بننے سے بچانے کے لیے کون کردار اداکرنے کے لیے آگے بڑھ سکتا ہے یا بڑھ رہا ہے؟ کیا یہ دردناک انسانی ، تہذیبی اور تاریخی سوال، غفلت میں ڈوبے اور ہرآن دھوکا کھانے والوں کو کچھ جھنجھوڑ سکتا ہے؟ کیا عالمی ضمیر اور مسلم اُمہ کے دل و دماغ میں انسانی شرف و حُرمت کی کوئی علامت نمودار ہوسکتی ہے؟

امریکی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی صومالوی نژاد مسلم رکن کانگرس الہان عمر (Ilhan Omer) نے چند روز قبل اپنے ٹویٹ میں لکھا:’ہم نے امریکا، حماس، اسرائیل، افغانستان اور طالبان کی جانب سے ناقابلِ تصور ظلم و سفاکیت دیکھی ہے۔ ہمارے پاس انسانیت کے خلاف جرائم کے تمام متاثرین کے لیے احتساب اور انصاف کا یکساں نظام ہونا چاہیے‘۔

اس ٹویٹ کے ساتھ انھوں نے جو ویڈیو عوامی سطح پر پھیلائی، وہ امریکی ایوان نمایندگان کی ایک کمیٹی کی سماعت کے دوران سیکر ٹری خارجہ انتھونی بلنکن سے ہونے والی ان کی گفتگو پر مبنی ہے۔ اس گفتگو میں انھوں نے انتھونی بلنکن کو چیلنج کرتے ہوئے سوالات کیے اور انسانیت کے خلاف جنگی جرائم میں افغان حکومت، افغان طالبان، حماس اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کومورد الزام ٹھیرایا۔ الہان عمر نے ان جرائم میں امریکا کے ملوث ہونے پر دانستہ کوئی بات نہیں کی، لیکن بعد ازاں ٹویٹ کرتے ہوئے اس میں امریکا کا نام بھی شامل کر لیا تاکہ عوام کے سامنے اپنی سیاسی ساکھ بچائی جاسکے۔

الہان عمر نے جب انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے انتھونی بلنکن سےسوالات کیے تو وہ سمجھ رہی تھیں کہ انھوں نے فلسطینیوں کے حق میں بات کی ہے اور حماس کے بارے میں اسرائیلی موقف دُہرایا کہ ’’حماس، متشدد مزاحمتی تحریک ہے‘‘۔ دوسری طرف انتھونی بلنکن نے لبرل طبقے کی نمایندگی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل میں عدل و انصاف مہیا ہوسکتا ہے‘‘۔ اس طرح اپنی منافقت اور بے ایمانی عیاں کردی۔

الہان عمر نے اپنی انتخابی مہم کے لیے درکار خطیر رقم فلسطین کی حمایت کے وعدوں پر اکٹھی کی تھی لیکن الیکشن جیتنے کے بعد وہ فلسطینی حق خود ارادیت کے لیے کی جانے والی مزاحمت اور  دفاع کو’انسانیت کے خلاف جرائم‘ اور اسرائیلی جارحیت کو سامراجی تشدد قرار دے رہی ہیں۔ یہ طرزِبیان منافقانہ غیر جانب داری ظاہر کرنے کا ایک سستا،نسخہ ہے، جسے الہان عمر نے ان سینئر امریکی سیاست دانوں سے سیکھا ہے، جنھوں نےاسے مقامی امریکی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کی نمایندگی کے لیے میدان میں اتارا ہے۔ { FR 665 }

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک، بین الاقوامی سطح پر اپنے تسلیم شدہ حق مزاحمت استعمال کرتے ہوئے معمولی ذرائع و اسباب کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کے مقابل اسرائیلی سامراجی اور ایٹمی قوت جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر لوگوں کو ناحق قتل اور غلام بنانے کے لیے تشدد کا ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیلی مظالم اور فلسطینی مزاحمت کے درمیان اخلاقی طور پر کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی لیکن مسلم آبادی سے آگے بڑھائی جانے والی لیڈر الہان عمر کو یہ سکھایا گیا ہے کہ ’’اصل حقیقت کو زبان پر لانے سےسیاسی مفادات حاصل نہیں کیے جا سکتے‘‘۔

حماس کی دفاعی اور مزاحمتی کارروائیوں کا اسرائیلی جارحیت کے ساتھ تعداد اور سیاق و سباق کے لحاظ سےموازنہ کرنا ہی ایک مضحکہ خیز حرکت ہے، لیکن اس سے زیادہ کج فہمی کی بات یہ ہے کہ امریکا فلسطین کی نمایندگی کے نام پر مسلم سیاستدانوں کو اپنی سیاسی کمپنی میں بھرتی کرکے ان سے فلسطین کے خلاف بیان دلوا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم یعنی ۱۹۴۵ء کے بعد سے امریکا نے دنیا بھر میں ہلاکتوں اور تباہی و بربادی کی ایک نئی داستان رقم کی۔ جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر افغانستان، عراق، لیبیا،گوئٹے مالا، نکاراگوا، ویت نام، کمبوڈیا، چلّی تک امریکا نے جنگی مہم جوئی، بغاوتوں اور مداخلتوں کے ذریعے لاکھوں افراد کو ہلاک کیا، لیکن الہان عمر جیسی مصنوعی اور غلام قیادتوں کے ذریعے، دانستہ طورپر امریکا کا نام گول کرکے صرف حماس اور طالبان کو مورد الزام ٹھیرایا گیا۔

حماس کے اندھا دھند راکٹوں کا واویلا

لبرل سیاستدانوں کی طرف سےاکثر کہا جاتا ہے کہ ’’حماس عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا قصور وار ہے، کیونکہ اس نے اسرائیلی شہروں کی طرف اندھا دھند ہزاروں راکٹ فائر کیے‘‘۔ مگر حقائق پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسرائیل کو غزہ اور یروشلم میں فلسطینیوں پر حملوں اور ان کی نسل کشی سے باز رکھنے اور ان اقدامات کی قیمت چکانے کے لیے یہ راکٹ فائر کیے گئے۔ ان راکٹوں کی شکل میں جوابی حملے اس لیے بھی کیے گئے تاکہ غزہ کو فلسطین سے الگ کرنے، فلسطین کے مزید ٹکڑے کرکے کمزور کرنے، زمینوں پر زبردستی قبضے جمانے اور یہودی آبادکاری کے مزید منصوبوں پر عمل کرنے سے اسرائیل کو باز رکھا جاسکے‘‘۔

اس حوالے سے غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار (Yahya Sinwar) نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’’فلسطینیوں کی طرف سے میزائلوں کا استعمال خوشی سے نہیں کیا جاتا۔ جب اسرائیل نے اپنے جدید اسلحہ، ہوائی جہازوں، ٹینکوں، توپوں اور میزائل سے یہ واضح کردیا کہ اس کا مقصد ہمارے بچوں، خواتین، بوڑھوں اور مریضوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا ہے، تو ہمارے پاس ان راکٹوں کے استعمال کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ اگر ہمارے پاس اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں اور تنصیبات کو درست طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی، تو ہم ان مقامی ساخت کے راکٹوں کا اندھا دھند استعمال کبھی نہ کرتے‘‘۔

انھوں نے مزید کہا: ’’ہمارے دفاعی اقدامات کا اسرائیل کے ان جارحانہ اقدامات سے موازنہ کرنا درست عمل نہیں ہے، جو ہر قسم کی صلاحیت رکھنے کے باجود عام شہریوں کو نشانہ بناتا رہا۔ جب اسرائیل نے ہمیں دیوار سے لگاکر مجبور کیا کہ ہم دفاع کی آخری حد تک جائیں تو ہمارے پاس جو کچھ موجود تھا، ہم نے اسے استعمال کیا۔ اگر انھیں فلسطین کے معمولی قسم کے، نشانوں پر فٹ نہ بیٹھنے والے راکٹوں سے مسئلہ ہے تو یہ امریکا اور یورپی یونین سے کیوں نہیں کہتے کہ جس طرح انھوں نے اسرائیل کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا ہے، اسی طرح فلسطین کو بھی کم ازکم ایسے ہتھیاروں سے تولیس کریں جو فوجی تنصیبات کو درست طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں‘‘۔

بلاشبہہ معمولی قسم کے راکٹ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بجائے عام شہری آبادیوں پر بھی گر سکتے ہیں اور حماس کے راکٹوں سے اسرائیل میں ۱۱؍ افراد ہلاک ہوئے اور انٹی ٹینک بم داغنے سے ٹینک تباہ ہونےکے بجائے ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوا۔ لیکن ہلاکتوں کی یہ کم تعداد ظاہر کرتی ہے کہ حماس نے نہ اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کیا اور نہ اس کے اقدامات اسرائیل میں کسی بڑی تباہی یا ہلاکتوں کا باعث بنے۔ یہ محض دفاعی مقصد کے حصول کے لیے کم سے کم طاقت کا استعمال تھا۔ مگر اس کے برعکس اسرائیل نے مزاحمتی تحریک کو بے دردی سے کچلنے کے لیے کئی دنوں تک رات، دن مسلسل بمباری کی اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ بم کسی فوجی ٹھکانے پر گر رہا ہے یا کسی رہایشی عمارت، دفتر، ہسپتال، میڈیا سنٹر، اخباری دفتر یا کارروباری عمارت پر۔ صرف چند دنوں میں ۲۵۰سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا گیا، جن میں ستّر کے قریب بچے بھی شامل تھے۔ ہر انسانی زندگی قیمتی ہوتی ہے لیکن الہان عمر کی طرف سے اسرائیلی نوآبادیاتی تشدد اور فلسطینی مزاحمت کو برابر اور یکساں قرار دینا حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

ظلم کا آغاز ظلم سے ہی ہوتا ہے

یاد رہے ۱۹۸۰ء کے عشرے میں فلسطینیوں نے اسرائیلی قبضے اور مظالم سے تنگ آکر ہرقسم کی بیرونی امداد سے مایوسی کے عالم میں آخری رد عمل کے طورپر خودکش فدائی حملوں کا راستہ اختیار کیا تھا مگر حالات قدرے بہتر ہوتے ہی فلسطینی تنظیموں نے خود ہی اس راستے کو ترک کردیا۔ تاہم، استعماری جارحیت کے خلاف ہونے والی ہر جدوجہد میں ردعمل لازمی عنصر ہوتا ہے۔ جب مقامی مزاحمت کارروں کےپاس نوآبادیاتی طاقت کو روکنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا تو وہ آخری حربہ کے طورپر اسی طرح کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا جسے مغرب نے فلسطینیوں کے قتل عام پر اسرائیلی حمایت کرنے کے صلے میں بزرگ سیاسی رہنما کے طور پر قبول کر لیا تھا، انھوں نے بھی اپنی خودنوشت The Long Walk to Freedom میں ایسے اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’مظلوم اپنی خواہش سے کوئی اقدامات نہیں اٹھاتے بلکہ یہ ظالم ہوتا ہے جو جدوجہد کی کسی مخصوص شکل کو اپنائے جانے کے حالات پیدا کرتا ہے۔ جب ظالم قوت، طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی ہے تو مظلوم کے پاس پُرتشدد ردعمل کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا اور یہ آخری حربہ کے طور پر جائز عمل ہوتا ہے۔ اگر فرض کریں یہ ایک ناجائز حربہ ہے، توپہلے ظالم کو وحشیانہ تشدد سے دست بردار ہونا چاہیے۔ ظالم کے پاس تو ہر طرح کے ذرائع استعمال کرنے کے انتخاب کی آزادی ہوتی ہے، جب کہ مظلوم کے پاس انتخاب کی آزادی نہیں ہوتی۔ اسے جو میسر آئے وہ وہی استعمال کرتا ہے‘۔

’مسلح جدوجہد کے ابتدائی مراحل میں افریقی نیشنل کانگرس بھی ایسے اقدامات کرتی تھی، جس سے زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ نہ ہو۔ لیکن جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان اقدامات سے سامراجی طاقت کو کوئی بڑانقصان نہیں پہنچ رہا، تو ہم اگلے مرحلے یعنی گوریلا جنگ اور دہشت گردی میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوگئے‘۔

فلسطین میں رہایشی عمارتوں، بازاروں، ہوٹلوں، ہسپتالوں اور کارروباری مراکز پر اسرائیل نے بمباری اس لیے نہیں کی ہے کہ اسرائیل کو فلسطینی جارحیت سے خطرہ تھا بلکہ یہ اسرائیلی استعماری ہتھکنڈہ تھا، جسے صیہونی ریاست کی توسیع کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینیو ں پر جنگ مسلط کرکے انھیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے اورحق خودارادیت سے روکا جائے۔ اگر فلسطینیوں نے اسرائیلی مظالم سے تنگ آکر ۱۹۹۰ء کے عشرے میں یا ۲۰۰۰ء کے عشرے کے اوائل میں خودکش دھماکے کیے تو وہ کوئی ایسے اقدامات نہیں تھے، جن کو الہان عمر مظالم کے نام سے پیش کرے۔ اگرچہ اس حکمت عملی کو اب ترک کر دیا گیا، اور پھر یہ بھی ہے کہ دھماکے صرف حماس نے نہیں کیے تھے بلکہ اس میں محمود عباس کی الفتح پارٹی اور فلسطینی اتھارٹی بھی شامل تھی، جس کے ساتھ گرم جوشی کے تعلقات قائم کرنے کے لیے بلنکن بے چین ہے۔

اس حوالے سے تیسری اہم بات یہ ہے کہ ان دھماکوں کی مخالف قوت اسرائیل کسی بے بسی کا شکار نہیں تھی کہ دنیا میں اس کی بات نہ سنی جائے یا ان کارروائیوں کا انتقام لینے کے لیے اس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوں۔ اسرائیل نے ان کارروائیوں کے جواب میں بے شمار لوگوں کو ماورائے عدالت اور غیر قانونی طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا۔ ان میں حماس کے بانی لیڈرشیخ احمد یاسین بھی شامل تھے، جو بچپن سے نابینا ہونے کی وجہ سے وہیل چئیر پر تھے۔ انھیں مارنے سے قبل اسرائیل نے انتقامی کارروائیاں کرتے ہوئے مشتبہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ہرآنے جانے والے کو بھی ہلاک کیا۔ امریکا نے آج تک اسرائیل کی کسی ایسی کارروائی کو دہشت گردی قرار نہیں دیا۔

اسرائیل نے ۲۰۰۲ء کے بعد الفتح رہنما مروان بار گھوتی کو جیل بھیجتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ’’وہ دوسری انتفاضہ میں اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی رہنمائی کرتا تھا‘‘۔  اپنے خلاف مقدمے کی کارروائی میں واضح طورپر جانب داری نظر آنے پر مروان گھوتی نے اپنے دفاع سے انکار کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود اسے پانچ بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزائیں دینے والے ججوں نے ان عدالتی فیصلوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی، جن میں کئی جرائم میں عدم ثبوت کے باعث مروان گھوتی کو بری کر دیا گیا تھا۔ اس دوران امریکا نے ایسے متعدد قوانین پاس کیے، جن میں انسداد دہشت گردی کے نام پر امریکی عدالتوں میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے خلاف حماس سے ملتے جلتے الزامات لگا کر انھیں سزائیں دی گئیں۔ لیکن دوسری طرف امریکا نے فلسطینیوں کو اسرائیلی ظلم و ستم سے بچانے کے لیے کبھی کوئی قانون پاس نہیں کیا۔

سچ بات یہ ہے کہ الہان عمر نے جو کچھ کہا ہے وہ امریکی انتظامیہ کے دل کی ہی آواز ہے۔ امریکی دبائو میں نام نہاد عالمی برادری کی طرف سے ہر قسم کی فلسطینی مزاحمت خواہ وہ مسلح ہو یا غیر مسلح اسے دہشت گردی سے جوڑ کر اس کی مذمت کی جاتی ہے۔

لبرل سیاستدان، جارح کی مذمت کے بجائے جارحیت کے شکار متاثرین کوخوش اخلاقی کی تلقین کیوں کرتے ہیں؟

کئی مزاحمتی فلسطینی گروپوں کے درمیان صرف حماس کو جنگلی، مذہبی جنونی، اپنی موت کو دعوت اور تباہی کو آواز دینے والے، اور یہود کے بدترین دشمن قرار دینا، مغرب کے لبرل سیاست دانوں کا سب سے آسان سیاسی فارمولا ہے۔ مغربیوں کی پشت پناہی میں اسرائیل کا یہ سالہا سال سے پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے کہ ’فلسطینی دہشت گرد‘ ہیں۔ اور ایسے آزاد خیال اس پروپیگنڈے کو پھیلانے کا ارادی یا غیرارادی طور پر ذریعہ ہیں۔

گذشتہ دو عشروں سے حماس، فلسطینی قومی سیاست کے مرکزی دھارے کی طرف مڑنے والی تنظیم ہے، جس نے اخوان المسلمون سے الگ راستہ اختیار کرکے ۱۹۶۷ء کی سرحد کو فلسطینی ریاست کی اساس کے طورپر قبول کیا تھا۔ اس نے ۲۰۱۷ء میں اپنے رہنما اصولوں کا جو خاکہ پیش کیا، وہ اس کی بدلی ہوئی پالیسی کا واضح دستاویزی ثبوت ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا:’’حماس تنظیم اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اس کا تنازعہ صیہونی منصوبے سے ہے نہ کہ یہودیوں کے ساتھ کسی مذہبی دشمنی کی وجہ سے۔ حماس، یہودیوں کے خلاف محض ان کے یہودی ہونے کی وجہ سے کوئی جدوجہد نہیں کر رہی بلکہ یہ جدوجہد صرف اس لیے ہے کہ اسرائیل فلسطین پر ناجائز طورپر قابض ہے۔ یہ جدوجہد ان صیہونی غاصبوں کے خلاف ہے، جو یہودیوں کو فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز طور پر بسا رہے ہیں اور غیر قانونی نوآبادیاتی منصوبے کو توسیع دے رہے ہیں‘‘۔

اس دستاویز میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت کی توثیق کی گئی ہے، لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’فوجی کارروائی، قومی و سیاسی اہداف کےحصول کا ذریعہ ہے نہ کہ بذاتِ خود کوئی مقصد یا ترجیحی اقدام‘‘۔ حماس کے رہنما یحییٰ سنوار نے اس کی وضاحت اپنے انٹرویو میں اس طرح کی کہ ‘ہم جنگ یا لڑائی نہیں چاہتے کیونکہ اس کی قیمت انسانی جانوں کی شکل میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں اور ایک طویل عرصے سے عوامی اور سیاسی مزاحمت کر رہے ہیں، لیکن افسوس کہ عالمی برادری اسرائیل کے جرائم اور قتل عام کو عملی طور پر روکنے کے بجائے صرف تماشا دیکھ رہی ہے اور اسرائیلی جنگی مشینیں ہمارے نوجوانوں کو قتل کیے جارہی ہیں۔ کیا دنیا ہم سے یہ توقع رکھتی ہے کہ ہمارے پیارے مرتے رہیں اور ہم رونے دھونے کے ساتھ صرف انھیں دفنانے پر توجہ مرکوز رکھیں؟ کیا خوش اخلاق شکار (victim) ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ذبح ہوتے وقت خاموشی سے درد سہا جائے اور تڑپنے کا شور بھی نہ مچایا جائے؟ حماس پر دہشت گرد ی، خونخواری، بچوں اور عورتوں کو ڈھال کے طورپر استعمال کرنےیا یہود دشمنی کے الزامات لگانا اسرائیلی پروپیگنڈے کا حصہ ہے، کیونکہ حماس کی پالیسی اسرائیلی کے نسل پرستانہ نظریات کے خلاف اور توسیعی کارروائیوں سے متصادم ہے‘‘۔

امریکا اور اسرائیل حماس کو کیوں مسترد کرتے ہیں؟

حماس کی قومی، عسکری و سیاسی حکمت عملی دیگر سامراج مخالف حریت پسند تحریکوں مثلاً سن فین (Sinn Fein) یا آئرش ری پبلکن آرمی کی طرح سیاسی انداز سے آگے بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ کی طرف سے طویل عرصے تک آئرش گروپوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا رہا، لیکن پھر انھیں ان مذکرات کا حصہ بھی بنایا گیا، جو ۱۹۹۸ء کے ’بیلفاسٹ معاہدے‘ کے سلسلے میں ہوئے اور بالآخر آئرلینڈ کے شمالی علاقوں میں کئی عشروں کے بعد تشدد کا خاتمہ ہوا۔ اگر حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں نے فوجی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے امریکی و یورپی سرپرستوں نے فلسطینیوں کی طرف سے کی گئی تمام فراخ دلانہ پیش کشوں کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔ حماس نے تو پیچھے ہٹ کر نام نہاد دو ریاستی حل سے بھی اتفاق کر لیا تھا، جس میں فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک کے صرف ۲۲فی صد حصے پر فلسطینی ریاست تک محدود کر دیا گیا۔ اسرائیل اس پر بھی خوش نہیں، اس کا اصرار ہے کہ اسے دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان تمام زمین پر مستقل قبضہ اور بالادستی چاہیے۔

امریکا، حماس کو سخت بے رحمی سے مسترد کرتا ہے اور اس سے بات چیت کے لیے تیار نہیں، حالانکہ وہ طالبان مزاحمت کارروں سے تو براہ راست مذاکرات  کے لیے تیار ہے جن کے ساتھ افغانستان میں بیس سال سے جنگ ہو رہی ہے۔ حماس نے آج تک امریکا سے براہ راست کوئی جنگ نہیں کی، لیکن اس کے باوجود امریکا ان سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ گذشتہ برس امریکی ایما پر اسرائیل اور خلیجی عرب حکومتوں کے درمیان تعلقات کی بحالی اور معاہدات ہی نے اسرائیل کو موقع فراہم کیا کہ وہ یروشلم میں مزید علاقوں پر قبضے کرکے یہودی آبادیاں بسائے۔ اسی سفاکیت نے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو یروشلم میں فلسطینیوں کے دفاع کے سلسلے میں ایک بار پھر عسکری کارروائیاں کرنے پر مجبور کیا۔

حماس کے خلاف لبرل سیاستدانوں کا یہ عمل بالکل ویسے ہی تعصب پر مبنی ہے، جیسے امریکا میں سیاہ فام لوگ جب اپنے حقوق کے لیے نعرہ لگاتے ہیں کہ ‘ہر جان برابر کی اہمیت رکھتی ہے’ تو ریاستی ادارے نسل پرستانہ پالیسی پر عمل پیرا ہو کر ان پر ہر قسم کا جبر اور تشدد مسلط کرتے ہیں۔ یہ بات تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ’ہر انسانی جان برابر کی اہمیت رکھتی ہے‘ لیکن کیسا سنگین مذاق ہے کہ انسانی جان لینے والے ریاستی تشدد اور مظلوموں کی مزاحمت پر برابر کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔ جرم کی نوعیت، واضح تشخیص اور تاریخی پس منظر جانے بغیر دونوں فریقوں پر یکساں ذمہ داری ڈالنا امن کی طرف بڑھتا ہوا قدم نہیں بلکہ ظلم اور جنگ کے شعلوں کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔ فلسطین میں ہر قسم کےتشدد کی اصل وجہ صیہونی نوآبادیاتی توسیع پسندانہ منصوبہ ہے اور اس کا راستہ روکے بغیر عدل، انصاف اور امن کی کوئی امید پوری نہیں ہو سکتی۔

ہمارے اور آپ کے بچےسوشل میڈیااورموبائل کے دور میں بڑےخطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ بے راہ روی نے مغربی معاشرے کو بے شمار خباثتیں تحفے میں دی ہیں۔ اس بے لگام جنسی آزادی کے نتائج اُن کے سامنے ہیں۔اب ہمارے یہاں بھی وہ چیزیں ہورہی ہیں کہ جن کا معاشرتی بگاڑ کی راہیں ہموار کرنے میں کلیدی کردار ہے۔

پاکستانی معاشرے میں جہاں سیاسی اور معاشی مسائل موجود ہیں، وہیں بڑھتا ہوا اخلاقی انحطاط ہمارے لیے بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے۔ جنسی اخلاقی جرائم مغربی دنیا کے لیے تو زیادہ تعجب کا باعث نہ تھے، مگر ہمارے معاشرے میں ان مکروہ افعال کی وجہ سے معاشرتی تنزلی عیاں ہوتی جارہی ہے۔ عام آدمی تو کجا، مذہبی ذہن رکھنے والا بھی محفوظ نہیں۔ یہ مغربی تہذیب اور جدیدیت کے اثرات کا شاخسانہ ہے۔ معروف ادیب اور جدید فلسفے پر گہری نظر رکھنے والے دانش وَر احمدجاوید صاحب کا یہ فرمان گہری معنویت رکھتا ہے:’’جدیدیت ہمارے مذہبی حلیے کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں اندر سے ماڈرنائز کرچکی ہے‘‘۔

اس سے بڑھ کر صدمہ انگیز یہ بات ہے کہ احساسِ زیاں کا بھی شعور ختم ہوتا جارہا ہے۔ جدیدیت کی مصنوعی دنیا میں بے لگام ٹیلی ویژن اور اس کے بعد اب آزاد اور کسی اخلاقی ضابطے کی پابندی کے بغیر سمارٹ فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا وہ تباہی مچارہے ہیں، جس کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر یہی صورت حال رہی تو پاکستان کا اخلاقی و سماجی مستقبل خطرے میں ہے۔ ہرروز ٹیلی ویژن اسکرین پرجنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں، حالانکہ ان واقعات کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جو رپورٹ نہیں کی جاتی ہے۔۱۷جون ۲۰۲۱ء کی خبر کے مطابق: ’’بنوں میں دو افراد نے بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اس کے والد سے ۷۰ ہزار روپے مانگے اور نہ دینے پر ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دی‘‘۔ بظاہر یہ صرف ایک واقعہ ہے۔اس سے قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بچوں کو نازیبا ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کر کے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ایک گروہ کا انکشاف ہوا تھا جس کا سرغنہ مبینہ طور پرایک پولیس اہلکار نکلا تھا، جس میں ملزم اپنے ہدف بچوں کو پہلے چپس اور کولڈ ڈرنک پلا کر دوستی کرتا تھا۔ایسے واقعات کم و بیش ہرچھوٹے بڑے شہر اور دیہات و قصبات تک میں کسی نہ کسی شکل میں رُونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ لوگ اتنے طاقت ور نیٹ ورک سے منسلک ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کچھ عرصے بعد رہا ہوجاتے ہیں ۔

معاصر انگریزی اخبار ڈان کی اردو ویب سائٹ نےماضی میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی، جس کے مطابق بچوں سے زیادتی کو دنیا بھر میں اہم مسئلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک کروڑ ۵۰ لاکھ ۱۵سے ۱۹ برس کی لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایشیا میں ۱۰ لاکھ سے زیادہ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں یا زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جسم فروشی ایک ایسا ناسور ہے جو غربت کے شکار علاقوں میں بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بچوں کا بہت بڑی تعداد میں لاوارث ہونا بھی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں کے بچوں کی قابلِ لحاظ تعداد بھی اس ناسور کا شکار ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ ایک لاکھ ۷۰ہزار بچے ’جنسی تجارت‘ میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ متاثرہ بچے بہت سے دوسرے بچوں کے لیے بھی عصمت فروشی کی ترغیب کا باعث بن جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ گھناؤنا کام صرف انفرادی بگاڑ اور ہوس کے نتیجے میں نہیں ہورہا بلکہ معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ اب یہ کام پیسے کمانے کے لیے ہورہا ہے ،پوری دنیا میں ایک انڈسٹری بن گئی ہے ۔

پاکستان میں بھی اس وقت جسم فروشی کا منظم کاروبار ہورہا ہے، یہاں تک کے اس کاروبار میں بچوں کو بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان واقعات میں تیزی سے اضافے کا سبب کیا ہے ؟اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بچوں کی عریاں اور زیادتی پر مبنی فلموں کی صنعت ہر روز پھیل رہی ہے۔ اگرچہ کسی بھی ملک میں اس گھنائونے فعل کی اجازت نہیں، لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے یہ کاروبار ایک سو کھرب سے زائد سالانہ رقم کے ساتھ دُنیا بھر میں روز افزوں ہے۔چائلڈ پروٹیکشن فنڈ کے مطابق گھروں تک محدود انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بچوں کے لیے ایسے منفی رجحانات رکھنے والے افراد کی موجودگی بڑا خطرہ ہے اور خود انٹرنیٹ بچوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ ہوگیا ہے۔

ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کی اخلاق باختہ فلموں کی تیاری کے لیے ترقی پذیر دنیا کے ممالک کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ ان میں نیپال، بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان اور پاکستان سمیت کئی ممالک شامل ہیں۔ صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کارروائی کرتے ہوئے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا، جو چند بچوں کو ناروے لے کر جا رہا تھا۔ یہ شخص اس کاروبار میں ملوث تھا۔ اس شخص کے قبضے سے ۶۵ہزار وڈیو کلپس اور تصاویر برآمد ہوئی تھیں۔اسی طرح فروری ۲۰۲۱ء کے مہینے میں ایکسپریس نیوزکے مطابق ایف آئی اے سائبرکرائم سرکل نے ’چائلڈ پورن‘ کاروبار سے منسلک ملزم کومتاثرہ بچے کی نشان دہی پر ایک اہم ہاؤسنگ سوسائٹی سے چھاپہ مارکر گرفتارکیا اورملزم کے قبضے سے سیکڑوں کی تعداد میں بچوں کی نازیبا تصاویراورویڈیوکلپ برآمد کیے تھے۔

یہ امرواقعہ ہے کہ کسی بھی قسم کی جنسی زیادتی کے حوالے سے بچے مجرموں کا ایک آسان شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال بچوں کے ریپ، اور ریپ کے بعد قتل کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میںزیادتی کا شکار ہونے والے زیادہ تر بچوں کی عمر اوسطاً ۵ سے ۱۱سال ہوتی ہے۔ اس گندے کھیل سے وابستہ لوگ بچوں کو بہلا پھسلا کر نہ صرف غلط تصاویر لیتے ہیں، بلکہ بچوں سے یہ بھی معلوم کرتے ہیں کہ اں کی رہایش کہاں ہے ،والدین گھر میں موجود ہیں یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

بچوں سے زیادتی کرنے والوں کی نفسیات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ امریکا کی دی نیویارک سوسائٹی فارچائلڈ ابیوز (NSCA) کی ڈائریکٹر ڈاکٹر میری ایل کہتی ہیں کہ ’’بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کی نفسیات کو حتمی طور پر بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک جنسی حملہ آور کسی بھی وجہ سے متحرک ہوسکتا ہے۔ اس کی بایولوجیکل وجوہ بھی ہوتی ہیں، حملہ آور کی نفسیات منتشر ہوتی ہے، اسے بچوں کے چہرے متوجہ کرتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر میری ایل مزید بتاتی ہیں کہ ’’بچپن میں جنسی حملے کا شکار بھی کسی دوسرے بچے کو شکار بنا سکتا ہے۔اور پھر اخلاق باختہ ویڈیوز دیکھنا بھی اس جانب متوجہ کرسکتا ہے۔ پھر نشے کے شکار افراد، معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ انتقاماً اس چیز میں ملوث ہوسکتے ہیں، لیکن ان سب محرکات کے باوجود آپ کسی ایک بھی وجہ کو اہم یا بنیادی وجہ نہیں کہہ سکتے۔ بچوں پر اخلاق باختہ ویڈیو میں ملوث افراد بھی بچوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ عمومی طور پر یہ لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور بچے کے کسی واقف کار کو اُکسا کر اس کام پر لگا دیتے ہیں‘‘۔

اب سوال یہ ہے کہ مغرب کے اس ’عطاکردہ عذاب‘ سے بچنے کا علاج کیا ہے؟ جنسی تعلیم کو اس مسئلے کا حل قرار دیا جارہا ہے۔ کیا یہ علاج ہے یا جرائم کے اصل سبب سے فرار کا راستہ؟کیونکہ امریکا، لاطینی امریکا، اور یورپ وغیرہ میں جہاں جنسی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں بھی بہت خوفناک صورتِ حال ہے ،یعنی جہاں یہ تعلیم ہے، وہاں بچوںکا زیادہ استحصال ہے۔

وزیراعظم عمران خان ٹیلی فون کے ذریعے عوام کے سوالات کے جوابات دینے کے پروگرام میں دیہی سندھ سے ایک شہری نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ ’’آئے روز بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہورہے ہیں، آپ کی حکومت نے کون سا قانون بنایا ہے؟ اور آج تک کسی کو سرعام پھانسی ملتی نہیں دیکھی‘‘۔ اس پر وزیراعظم نے بتایاکہ ’’زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت آرڈننس لائے ہیں، لیکن اس گھنائونے رویے اور جرائم کی روک تھام کے لیے صرف آرڈننس کافی نہیں، معاشرے کو بھی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ فیملی سسٹم کو بچانے کے لیے دین اسلام نے ہمیں پردے کا درس دیا۔ اسلام کے پردے کے نظریے کے پیچھے فیملی سسٹم بچانا اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ جب آپ معاشرے میں فحاشی پھیلائیں گے تو جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ یورپ میں اب فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں نے صدرایردوان سے بات کی اور ترک ڈرامے کو یہاں لایا‘‘۔

وزیر اعظم کی بات بالکل درست ہے کہ محض آرڈننس اور ’زینب الرٹ‘ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں جہاں ایک عام آدمی کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، وہیں سب سے بڑی ذمہ داری ریاست کی بنتی ہے۔ ریاست کی ناک کے نیچے گھنائونے جرائم ہورہے ہیں، بین الاقوامی جرائم پیشہ افراد پاکستان میں کھل کھیل رہے ہیں۔ ہمارے بچے اُن کے نشانے پر ہیں،فحش لٹریچر کی بھرمار ہے،فحش فلموں پر مشتمل سی ڈیز سرعام بکتی ہیں، انٹرنیٹ پر بھی فحش مواد بکثرت موجود ہے ،اوران کی روک تھام کے لیے مجرموں پر ہاتھ ڈالنا اور انھیں سزا دلوانا ضروری ہے۔پھراس کے ساتھ بے لگام میڈیا پر ہاتھ ڈالنا اور فحش جنسی مواد کی روک تھام کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔دوسری طرف والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کے قریب رہیں۔ ان کے دوست بنیں۔ ماں ،باپ اور اولاد کے درمیان دُوری ہوتی ہے تو جرائم پیشہ ان کے قریب ہوتے ہیں۔لہٰذا، یہ بات طے ہے کہ معاشرے میں اخلاقی بگاڑ اور جنسی جرائم کو ختم کرنے کے لیے ریاست اور معاشرے دونوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

جرأتِ عمل اوراقامت ِدین

سوال : اگر ہم سے پہلے لوگ،  لغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے، تو ہمارا دامن کیسے پاک رہ سکتا ہے اور اقامت ِ دین کے لیے ہم میں جرأت عمل کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟

جواب :انسان جب تک انسان ہے، اس کی سعی بشریت کے تقاضوں اور محدودیتوں سے پاک نہیں ہوسکتی۔ ہرشخص کو اپنی حد تک اپنا فرض بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے، اور ساتھ ہی ساتھ اللہ سے دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں ارادی لغزشوں سے بچائے اور غیرارادی لغزشوںکو معاف فرمائے۔ (سیّدابوالاعلٰی مودودیؒ)


جماعت کے پیچھے تنہا نماز کا حکم

سوال : تنہامقتدی اگر جماعت میں سب سے پیچھے نماز ادا کرے تو کیا اس کی نماز صحیح ہوگی؟

جواب :امام احمدؒ اورابن ماجہؒ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز پڑھتے دیکھا۔ جب وہ شخص جانے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اپنی نماز کا اعادہ کرو کیونکہ تنہا پیچھے نماز پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی ہے۔

امام احمد بن حنبلؒ کی ایک دوسری روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے اس شخص کی نماز کے بارے میں دریافت کیا جو جماعت میں سب سے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اسے اپنی نماز کا اعادہ کرنا چاہیے۔

یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دوسری صحیح احادیث ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز صحیح نہیں ہوتی ہے۔ چنانچہ سلف صالحین اور امام احمد بن حنبلؒ کا یہی مسلک ہے۔البتہ ان کے علاوہ تینوں ائمہ، یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا مسلک یہ ہے کہ اس کی نماز ادا ہوجائے گی مگر کراہت کے ساتھ۔

مذکور احادیث کی روشنی میں امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ حکمت اور اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز قبول نہ ہو کیونکہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے ، جو اتحاد کی تعلیم دیتا ہے، جماعت کی رغبت دیتا ہے۔جماعت سے کٹ کر رہنا اور شذوذ کا راستہ اختیار کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی دراصل مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق سکھانے کی عملی تربیت ہے۔ اب ظاہر ہے جو شخص اتحاد و جماعت کا راستہ چھوڑ کر شذوذ و انفرادیت کا راستہ اختیار کرے گا تو اس کا یہ عمل اسلامی تعلیمات کے عین خلاف ہے اور اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔

بہرحال، یہ حکم اس حال میں ہے کہ جب کوئی شخص بے عُذر اور بغیر کسی سبب کے جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز ادا کرے۔ البتہ اگر کسی عُذر کی بناپر ایسا کرتا ہے، مثلاً یہ کہ صف مکمل ہوچکی ہو اور کوئی جگہ نہ ہو اور مجبوراً پیچھے تنہا ہی نماز ادا کرتا ہے، تو اس صورت میں اس کی نماز صحیح ہوگی۔ بعض علما کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں یہ بہتر ہوگا کہ وہ اگلی صف سے کسی شخص کو کھینچ کر پیچھے اپنے برابر میں کرلے، تاکہ اس صف میں ایک کے بجائے دو ہوجائیں۔ مگر بعض علما یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح اگلی صف سے کسی نمازی کو کھینچ کر پچھلی صف میں نہیں لانا چاہیے، اس سے اُس کی نماز میں توجہ متاثر ہوتی ہے۔(ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی)


پٹی بندھی ہونے کی حالت میں وضو

سوال : ہاتھوں میں یا انگلیوں میں پٹی بندھی ہو تو کیا اس پر وضو کرنا جائز ہے؟ کیونکہ پٹی کھول کر وضو کرنے کی صورت میں زخم کے بڑھنے یا مزید تکلیف دہ ہونے کا اندیشہ ہے؟

جواب :اگروضو کی جگہ پر کٹنے، جلنے یا ایسی ہی کسی وجہ سے پٹی بندھی ہو تو اس پر مسح کرکے وضو کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔

فقہاء کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ پٹی باندھنے سے قبل وضو کرنا ضروری ہے یا نہیں۔ لیکن میری نظر میں راجح قول یہ ہے کہ پٹی باندھنے سے قبل وضو شرط نہیں ہے۔ اگر اس نے وضو کے بغیر ہی پٹی باندھ لی ہوتو اس پر بھی مسح کرسکتا ہے۔(ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی)

 

The Last Prophet Muhammad and The West [پیغمبر آخرالزماںؐ اور مغرب]: پروفیسر محمد اکرم طاہر۔ ناشر: سکسز ڈیزائنرز، ۳۷-رانا نرسری، اوکاڑہ۔ صفحات: ۴۹۹۔ قیمت: ۱۵۰۰، بیرونِ ملک ۲۰ ڈالر۔

زیرنظر کتاب پروفیسر محمد اکرم طاہر مرحوم (م: ۱۱؍اپریل ۲۰۲۱ء) کی آخری تالیف ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان کی کتاب محمدؐ رسول اللہ ، مستشرقین کے خیالات کا تجزیہ  شائع ہوئی تھی۔ زیرنظر اُسی اُردو کتاب کا انگریزی رُوپ ہے۔مرحوم اُردو اور انگریزی ادبیات کے استاد تھے۔

رسولِ اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ صدیوں سے مستشرقین اور مغربی مصنّفین کا موضوعِ بحث و تقریر رہا ہے۔ معدودے چند: مستشرقین کو چھوڑ کر، باقی حضرات سیرتِ طیبہ پر چھینٹیں اُڑانے اور اس سے کیڑے نکالنے میں مشغول رہے۔ سرسیّد احمد خاں سے پروفیسر محمد اکرم طاہر تک بیسیوں مسلم اہلِ قلم نے مغربیوں کے ایسے سوقیانہ لٹریچر کی مدلل تردید میں کتابیں لکھی ہیں۔

کتاب تین حصّوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے میں عربوں کے جاہلانہ تصورات کے پس منظر میں آں حضوؐر کی بعثت کا تذکرہ ہے۔ دوسرے حصے میں آں حضوؐر کی شخصیت کی چند جھلکیوں کے بعد اسلامی نظامِ زندگی کی تشریح و توضیح کی گئی ہے، جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کے لیے آں حضوؐر نے کیا کیا نشانِ راہ بتائے ہیں۔ غربت اور جرائم کے خاتمے، انصاف کی فراہمی اور خواتین کے حقوق وغیرہ کے بارے میں مغرب ہمیں جو کچھ آج بتا رہا ہے، مصنف نے عمدگی سے واضح کیا ہے کہ آں حضوؐر صدیوں پہلے ان مسائل کا بہترین حل بتا چکے ہیں۔ تیسرے حصے میں چھے نامور مستشرقین (واشنگٹن ارونگ، کارلائل، مائیکل ہارٹ،  منٹگمری واٹ، برنارڈلیوس، لیزے بیزل ٹون) کے اعتراضات کا تجزیہ کیا ہے۔

آخر میں حواشی و توضیحات، اُردو، انگریزی اور عربی کتابیات، اشاریۂ اشخاص شامل ہیں۔ کتاب اچھے معیار پر شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)

 


حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،  علی اصغر چودھری۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۵۰۱-۰۴۲۔ [صفحات:حصہ اوّل:ص ۱۸۴ ، حصہ دوم،ص ۲۹۲، حصہ سوم: ص۳۱۰]۔ قیمت: اوّل، ۳۵۰ روپے، دوم: ۵۵۰ روپے، سوم: ۶۵۰ روپے۔

سیرتِ پاک پر ہرلمحہ، کوئی نہ کوئی صاحب ِ ایمان اپنی محبت کا نذرانہ سپردِ قلم کر رہا ہوتا ہے۔ مضمون، کتاب یا لغت ، یعنی سبھی اصناف میں اور بیش تر زبانوں میں یہ کارِعظیم انجام دیا جارہا ہے: ورفعنا لک ذکرک۔ اس وقت سیرتِ پاک ؐ کی جس کتاب کا ذکر کیا جارہا ہے، اسے  علی اصغر چودھری مرحوم نے گذشتہ صدی کے آخری عشروں میں لکھا۔ کتاب کا اسلوب بیانیہ ہے۔ حتی الوسع کوشش کی گئی ہے کہ تمام باتیں کسی مستند مآخذسے چُنی جائیں۔ مصنف نے حیاتِ طیّبہؐ اور سیرتِ مطہرہؐ کو ایک مربوط رواں دواں بیان کی شکل میں مرتب کیا ہے۔سادہ اور پُراثر نویسی کے باعث یہ کتاب اسکولوں، کالجوں اور بالخصوص عام لوگوں میں بہت مقبول ہوئی ۔

ایک عرصے سے دستیاب نہیں تھی، اب ادارے نے دوبارہ شائع کی ہے۔ یقینا یہ ایک قیمتی تحفہ ہے، سیرت کے مطالعے کے شوق کو اُبھارنے اور سیرت سے سبق لینے کے لیے۔ (س م خ)

 


یادداشت پارلیمانی معرکہ، حکیم عبدالرحیم اشرف۔ تدوینِ نو: ڈاکٹر زاہد اشرف۔ ناشر:مکتبہ المنبر، فیصل آباد۔ ملنے کا پتا:کتاب سرائے، الحمد مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ فیصل آباد: ۸۸۴۷۶۰۱-۰۴۱۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

مغربی سامراج کو قابلِ قبول بنانے اور اسلام کے تصورِ جہاد کو مسخ کرنے کے لیے انگریز کی سرپرستی میں قادیانیت کا خاردار پودا کاشت کیا گیا، جس کے کانٹوں نے برعظیم پاکستان و ہند کے مسلمانوں میں بے چینی، اضطراب اور صدمے کو گہرائی تک پہنچا دیا۔

اگرچہ انیسویں صدی کے آخری عشرے ہی سے اس ضمن میں اہلِ حق آواز بلند کرتے رہے، تاہم بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اس فتنے کی تردید میں علمی و مجلسی اور عدالتی و صحافتی سطح پر بڑے پیمانے پر کام ہوا۔ مئی ۱۹۷۴ء سے شروع ہونے والی تحریکِ ختم نبوت کے دوران پاکستان کی پارلیمنٹ نے بطورِ عدالت، اس حوالے سے تمام فریقوں کو پارلیمان میں آکر اپنا موقف پیش کرنے کی دعوت دی۔ اس موقعے پر ممتاز عالمِ دین، محترم مولانا عبدالرحیم اشرف صاحب نے بھی ایک مفصل یادداشت، قادیانیت سے متعلق جملہ اُمور کی وضاحت کے لیے پارلیمنٹ میں  پیش کی۔ یہ کتاب اسی تاریخی یادداشت پر مشتمل ہے، جسے محترم ڈاکٹر زاہد اشرف صاحب نے بہت عمدہ انداز میں مرتب و مدّون کرکے، خوب صورت انداز سے شائع کیا ہے۔ (س م خ)


مکالماتِ فراقی، مرتب: ڈاکٹر طاہر مسعود۔ ناشر: دارالنّوادر، کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔فون:۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔  صفحات: ۲۹۳۔ قیمت: درج نہیں۔

اگر آپ موجودہ زمانے میں اُردو دُنیا کے متبحر عالموں کی ایک فہرست بنائیں تو ڈاکٹر تحسین فراقی کا نام شروع کے دو تین ناموں میں ضرور شامل ہوگا۔ منتخب مصاحبوں [انٹرویو] پر مشتمل، زیرنظر کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فراقی صاحب فقط اُردو ادب کے نام وَر نقّاد اور ادیب ہی نہیں، اور اُردو، پنجابی، انگریزی اور فارسی نوشت و خواند کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، بلکہ عربی اور ہسپانوی زبانوں پر بھی مناسب دسترس رکھتے ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف سے قطع نظر اِنھی مصاحبوں کو دیکھیے، تو ان کے تبحرعلم کی تصدیق ہوتی ہے۔

زیرنظر مصاحبوں سے نہ صرف فراقی صاحب کے احوالِ زندگی بلکہ ادب، تحقیق، تنقید، سیاست، فلسفہ، سائنس، تعلیم، تہذیب اور ثقافت وغیرہ کے بارے میں ان کے نظریات کا اندازہ ہوتا ہے۔ مرتب ’ پیش لفظ‘ میں لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر تحسین فراقی کا شمار ان نابغۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی فکرو دانش سے اُردو زبان و ادب اور اُردو شاعری کو وہ کچھ دیا ہے، جس کی توقع ان ہی سے کی جاسکتی تھی اور اس ’وہ کچھ‘ کی تفصیل اس کتاب میں آپ کو مل جائے گی‘‘۔

بلاشبہہ اس مجموعے سے تحقیق و تنقید کے مختلف موضوعات اور شاعری کی مختلف اصناف پر ان کے نظریات اور ان کی اپنی تخلیقات کا پتا چلتا ہے۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے نام وَر مصنّفوں اور شاعروں کا مطالعہ کیا، ان سے کچھ نہ کچھ اخذ بھی کیا مگر وہ ان سے مرعوب نہیں ہوئے۔ اسی طرح اپنے مطالعے اور مشاہدات کے اظہار میں انھوں نے اعتدال اور توازن ملحوظ رکھا۔

یہ مصاحبے پڑھتے ہوئے ایک تنوع کا احساس ہوتا ہے۔ کہیں تو علمی بحث ہے، کہیں کسی سفر کی رُوداد ہے اور کہیں پاکستانی سیاست کی نیرنگیوں کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے یہ انٹرویو مرتّب کرکے بڑا اہم کام کیا ہے۔ لیکن اگر وہ تدوین کے دوران مکررّات نکال دیتے اور حسب ِ موقع و ضرورت تواریخ و سنین درج کرنے کا اہتمام بھی کرتے تو مجموعہ زیادہ وقیع ہوجاتا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ بہت عرصہ پہلے شیداکاشمیری مرحوم نے فراقی صاحب کا نہایت مفصّل انٹرویو لیا تھا (جو ان کی کسی کتاب میں شامل ہے۔) وہ بھی زیرنظر مجموعے میں شامل کرلیا جاتا تو بہتر تھا۔(رفیع الدین ہاشمی)


عمر رواں، ڈاکٹر فرید احمد پراچا۔ ناشر: قلم فائونڈیشن، یثرب کالونی، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔ فون: ۰۵۱۵۱۰۱- ۰۳۰۰۔ صفحات: ۴۱۴۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔

پاکستان میں ایسے سیاست دان کم ہی ہوں گے، جو قلم و قرطاس سےراہ و رسم رکھتے ہیں اور فریداحمد ایسے ہی کم یاب لوگوں میں شامل ہیں۔ ان کی خود نوشت پیشِ نظرہے۔ اسے ایک سیاست دان کی آپ بیتی سمجھیے یا تحریکی کارکن کی یادداشتوں کا مجموعہ۔آغاز خاندان کے تعارف سے ہوتا ہے، جس میں انھوں نے اپنے دُور و نزدیک کے اعزہ (مردو زن) کا تعارف کرایا ہے (اور ۱۶صفحات میں سب کی تصاویر دی ہیں)۔ ان تعارفی سطور میں بسااوقات وہ اس قدر تفصیل میں جاتے ہیں کہ اپنی، دوسری اور تیسری نسل کی عمروں (تاریخ ہائے ولادت)، تعلیم اور مصروفیات تک سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ ابّا جی (مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم) کے حالات نسبتاً مفصل ہیں۔

ذاتی اور شخصی حالات و احوال کے ساتھ، انھوں نے تحریکی افراد کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اسی طرح ملکی سیاست کے اُتارچڑھائو ، مختلف سیاست دانوں کی خوبیوں اور کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ بظاہر زمانی ترتیب رکھی گئی ہے، مگر داستان در داستان کی طرز پر وہ ایک موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے یادوں کی وادیوں میں دائیں یا بائیں دُور نکل جاتے ہیں اور پھر وہاں سے پلٹتے ہوئے واپس ماضی میں چلے جاتے ہیں۔بایں ہمہ کتاب سے تاریخ کے ایک خاص دور کی جھلکیاں سامنے آتی ہیں۔

اس دل چسپ کتاب میں قومی اور ملّی نشیب و فراز کی تفصیل معلومات افزا بھی ہے اور عبرت انگیز بھی۔تاہم، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کی اس رائے سے اتفاق مشکل ہے کہ یہ ’خودنوشت اُردو ادب میں ہی نہیں، آٹوبائیوگرافی کے عالمی لٹریچر میں بھی ایک گراں قدر اضافہ ہے‘۔(رفیع الدین ہاشمی)

نعیم غنی ، سری نگر / ڈاکٹر نعمان مراد، لاہور / راجا محمد عاصم، موہری شریف

مسئلہ کشمیر اسلامی، انسانی، قومی اور ملّی مسئلہ ہے۔ افسوس کہ ہمارے اہل حل و عقد افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر دوٹوک اور جرأتِ اظہار پر مبنی ’اشارات‘ کے لیے قوم ترجمان القرآن  کی شکرگزار ہے۔


نعمان سلیمان  ، راولا کوٹ، آزاد کشمیر

جناب افتخار گیلانی نے دہلی سے ایک مسلمان لیڈر کی مسلمانوں کے حوالے سے فکری کج روی پر نہایت سبق آموز مضمون لکھ کر، سادہ لوح احباب کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ اسی طرح غازی سہیل خاں نے جناب محمداشرف صحرائی کی خدمات اور تعارف پرمبنی معلومات افزا مضمون لکھ کر ایمان افروز گواہی دی ہے۔


آمنہ حسن  ، کراچی / زبیر اسماعیل، پشاور

شہزاد اقبال شام صاحب نے تعلیم پر مسلط کردہ سیکولر عذاب و نصاب اور عدالتی کھیل کے خدوخال  پیش کرکے، اور پاکستان کی اقلیتوں کے جذبات سے واقفیت بہم پہنچا کر منفردکارنامہ انجام دیا ہے۔ ڈاکٹرمشتاق الرحمٰن صدیقی صاحب نے عصرحاضر میں استاد کو درپیش چیلنج سے مؤثر انداز سے آگاہ کیا ہے۔


صہیب عمر، اسلام آباد / سعیداحمد، کراچی

عبدالرقیب صاحب کی جانب سے دینی مدارس کے فاضلین کی معاشی زندگی کو خودانحصار بنانے کا قیمتی لائحہ عمل، دراصل موجودہ زمانے کا معاشی اور سماجی شعور ہے۔ اسی طرح جناب ولید منصور نے اسرائیلی جارحیت پر بالکل مختلف زاویے سے بھرپور معلومات کو مرتب کیا ہے۔


عائشہ علی ، پشاور / سیّد علیم احمد، لاہور

ترجمان القرآن میں ظفر سیّد صاحب ایک نیا نام ہیں۔ منگول یلغار کی مناسبت سے ان کے مختصر، معلومات سے بھرپور، نہایت شُستہ اور عام فہم زبان میں اعلیٰ درجے کے مضمون نے ماضی کے المیے کو حال کے المیے سے جوڑ دیا ہے۔ اسی طرح جناب وحید مراد نے خواتین کے نام پر جدیدیت کے خصوصی مراکز کا کچاچٹھا بیان کرکے قیمتی معلومات سے آگاہی فرمائی۔نیز عبدالمتین اور ڈاکٹر سلیم خان کی تحریریں نہایت قیمتی ہیں۔


اخوندزادہ نصراللہ ، ایون، چترال

مئی اور جون کے شماروں میں تعلیمی نصاب میںتبدیلی کے حوالے سے سیکولروں کے ناپاک عزائم، نااہل حاکموں اور سپریم کورٹ جیسے حساس ادارے کا رویہ تشویش کا باعث ہے۔ تحریک اسلامی کے علَم برداروں کو آگے بڑھ کر ان سازشوں کو دلیل اور تعلیم کے ذریعے ناکام بنانا ہوگا۔

[وَنَفَخَ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ (السجدہ ۳۲:۹) اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی]

’روح‘ سےمراد محض وہ زندگی نہیں ہے، جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے، جو فکروشعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے۔ جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحب ِ شخصیت ہستی، صاحب ِ اَنا ہستی، اور حاملِ خلافت ہستی بنتا ہے۔

اِس ’روح‘ کو اللہ تعالیٰ نے ’اپنی روح‘ یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اُسی کی مِلک ہے اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف اس کا انتساب اُسی طرح کا ہے، جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہوکر اُس کی چیزکہلاتی ہے۔

یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پرتو ہیں۔ ان کا سرچشمہ مادّے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے، اللہ کی حکمت سے اس کو دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔

یہ اوصاف کسی بے علم،بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔(تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، جلد۵۶،عدد ۴،جولائی ۱۹۶۱ء، ص ۲۱-۲۲)