مضامین کی فہرست


اگست ۲۰۲۱

عالمِ اسلام میں ایک شدید کش مکش برپا ہے۔ مغربی تہذیب کے تین سو سالہ اثرات کے نتیجے میں دُنیا کے ہرخطّے میں ایک ایسا طبقہ رُونما ہوگیا ہے، جو ذہنی طور پر مغرب سے شکست کھاچکا ہے اور عملی طور پر اپنا اور اپنے گروہ کا مفاد مغربی طرزِ زندگی کی تقلید میں محفوظ سمجھتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ طبقہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اثرواقتدار کا مقام رکھتا ہے اور اپنے باطل تصورات کو پوری سوسائٹی پر مسلط کرنے کی جارحانہ کوشش میں مصروف ہے۔

دوسری طرف، آج اسلامی دنیا کے بعض اہم مراکز میں تحریک ِ اسلامی، ایک منظم طریقے پر دعوتِ دین اور تعمیر کردار سے منسوب خدمت انجام دے رہی ہے۔ وہ ممالک جہاں ریاستی جبروزیادتی اور پابندیاں اسے باقاعدہ نظم کے ساتھ کام کا موقع نہیں دیتیں، وہاں بھی فکری اور ثقافتی میدانوں میں اسلام کے یہ داعی: آزادی، مال، مستقبل، آبرو اور جان کی قربانی دے کر سرگرمِ عمل ہیں۔

خوش قسمتی سے پاکستان میں تحریک اسلامی، ایک تنظیم کی صورت میں کھلے بندوں کام کر رہی ہے اور زندگی کے ہر شعبے کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعمیرنو کرنے میں مصروف ہے۔یہ ایک ایسی سعادت ہے، جس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا، اور جس کا حق ادا کرنا پوری ملّت پر فرض ہے۔

تحریک اسلامی کا وجود، جہاں بہت بڑی سعادت ہے، وہیں ایک عظیم آزمایش بھی ہے۔ جن لوگوں نے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کا فیصلہ کرلیا ہے، ان سے ہمیں کچھ نہیں کہنا۔ لیکن جو اس تحریک کو حق اور خیر کا داعی سمجھتے ہیں، ان سے ہم ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ آج کے حالات میں، جب کہ زندگی کے ہر میدان میں معرکۂ حق و باطل برپا ہے، اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں؟ کیا وہ عملاً صرف خاموش تماشائی بن کر تو نہیں رہ گئے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ محض دُور ہی سے ’داد‘ دینے اور ’اتفاق‘ کا اظہار کرنے پر قانع ہوگئے ہیں، اور عالم یہ ہے کہ:

ع  دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیروشر!

آج جو کش مکش بپا ہے، اس کے نتائج بڑے دُور رس ہوں گے۔ ہمارے اپنے ملک میں، عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیت کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسانی اجتماعی زندگی  اسلام کے اصولوںاور احکامات کی روشنی میں مرتب و منظم ہو۔ آج تک جو تجربات بھی انسان نے اجتماعی زندگی کو چلانے کے لیے کیے ہیں، وہ بڑے تلخ رہے ہیں۔ ان تلخیوں کے نتیجے میں اب انسان اس مقام پر آگیا ہے کہ اگر کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوتا تو خود انسانیت کا وجود خطرے میں ہے۔

ہم تاریخ کے گہرے مطالعے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل صرف اسلام کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر آج ہم اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو کل ہماری نسلیں اور پوری انسانیت سُکھ اور چین کی زندگی گزاریں گی، اور اگر ہم کوتاہی کرتے ہیں تو خدا اور خلق دونوں کے مجرم ہوں گے۔

خود احتسابی کے احساس کے تحت، تحریک اسلامی کے ذمہ داران اور کارکنوں سے، ارکان اور حامیان سے، اور پھر ان سے بڑھ کر خود اپنی ذات سے ہم یہ سوال کرتے ہیں:

  • کیا ہم شہادتِ حق اور دعوتِ اسلامی کا حق پوری ذمہ داری سے ادا کر رہے ہیں؟
  • اس قافلۂ حق نے جو کارنمایاں ادا کیا ہے، اُس میں خود انفرادی طور پر ہمارا حصہ کتنا ہے؟
  • کیا ہم نے اپنے گھر، خاندان، برادری، گلی محلّے، گائوں اور شہر میں اس دعوتِ حق کو پھیلانے اور منظم کرنے کے لیے واقعی جان گھلائی ہے؟
  • کیا ہمیں اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ آج کا کفر، سیکولرزم کے نام پر ماضی میں کفر کی مختلف شکلوں کے برعکس کہیں زیادہ خوش نما رُوپ میں اور بے چہرہ بن کر ہماری دینی، فکری، انفرادی، اخلاقی اور عملی زندگی کے ہرموڑ پر جاہلیت کا پیغام اور پھندا لیے کھڑا ہے؟
  • کیا اس کش مکش کی وسعت، گرفت، گہرائی اور اثرپذیری کا واقعی ہمیں احساس ہے؟
  • کیا ہم نے اپنی ہمت اور صلاحیت کے مطابق پیش نظر چیلنج کا جواب دینے کے لیے علمی و فکری سطح پر، پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ تیاری کی ہے اور تیاری کر رہے ہیں؟
  • کیا ہم معاشرے کے معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور عملی مسائل و معاملات میں اسلام اور کفر و جاہلیت کے تضادات کو سمجھنے کا شعور پروان چڑھانے کے لیے کوشاں ہیں؟
  • کیا ہم دینِ اسلام کے بنیادی احکامات پر عمل کرنے میں، معاشرے میں کردار کی بلندی کی جانب گامزن، ظلم و زیادتی کے بالمقابل برملا اور ثابت قدمی سے کھڑے ہونے کے تاثر کو حقیقی اور منفرد شان دینے میں کامیاب ہیں؟
  • کیا ہماری معاشی زندگی اور منصبی ذمہ داریاں، واقعی اللہ اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احساسِ بندگی اور اجتماعی فلاح کے لیے عطا کردہ رہنمائی اور ہدایت کے تحت استوار ہیں؟
  • کیا ہمارا دل، مسلم اُمت کی تکلیفوں پر تڑپتا اور حق کے داعیوں کی تکالیف پر لرزتا ہے، یا  ہم ان اُمور سے لاتعلق ہیں؟
  • کیا تحریک کے نمایاں افراد اور متحرک کارکنان، روز مرہ زندگی میں درپیش سوالوں کا  شافی اور متوازن جواب دینے کے لیے دلیل اور علم کی قوت و صلاحیت پیدا کررہے ہیں؟
  • کیا تحریک کی صفوں میں نئی نسل کی قابلِ لحاظ تعداد شانہ بشانہ شامل ہو رہی ہے؟ اور انھیں تربیت اور ترقی کے مراحل سے منظم انداز میں گزارنے کے مواقع حاصل ہورہےہیں؟ کامیاب قیادت وہ ہے جو اپنی ذمہ داریاں مؤثر انداز میں ادا کرکے، ساتھ ہی ساتھ اپنی جگہ لینے والے تیار کرسکے، اورجو بارِ امانت ان کے ہاتھوں میں ہے، اسے نئی نسلوں کی طرف منتقل کرسکے۔ دیکھنا اور جائزہ لینا ہے کہ ہم اس ذمہ داری کا کتنا اہتمام کررہے ہیں؟

اگرواقعی ہمارا دل مطمئن ہے کہ شہادتِ حق کی ادائیگی، غلبۂ حق کی جدوجہد اور خدمت ِ انسانی کے کاموں میں اپنی قوت کی ہررمق جھونک دی ہے، تو اس کے لیے ربِّ کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر شکر بجا لانا چاہیے۔ اور اگر ہمارا ضمیر یہ چبھن محسوس کر رہا ہے کہ ہم اپنا حق ادا نہیں کر رہے ہیں تو ابھی وقت ہے۔ آیئے اور حق کے لیے اپنی جان، مال، قوت، صلاحیت اور وقت کی بازی لگا دیجیے۔ موقع سے فائدہ اُٹھایئے، قبل اس کے کہ موقعے سے محروم کر دیے جائیں:

 ع   کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرفِ بہاراں ہوتے ہیں

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۝۰ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْـرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ۝۰ۭ اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۝۱۳ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اُس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے  جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکےہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف (اے محمدؐ) تم انھیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کرلیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔

یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کرکے اسے سمجھا جائے۔

شریعت کا مفہوم

فرمایا کہ  شَرَعَ لَكُمْ  ’’مقررکیا تمھارے لیے‘‘۔شرع کے لغوی معنی ’راستہ بنانے‘ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد ’طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا‘ ہے۔ عربی زبان میں اسی اصطلاحی معنی کے لحاظ سے ’تشریع‘ کا لفظ قانون سازی (Legislation) کا، شرع اور شریعت کا لفظ قانون (Law) کا اور ’شارع‘ کا لفظ واضع قانون (Law-Giver )کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تشریعِ خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ہے، اُن اصولی حقائق کا، جو اُوپر آیت نمبر ۱، ۹ اور ۱۰ میں بیان ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہرچیز کا مالک ہے، اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے، اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو، اُس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے ۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم ہے، اس لیے لامحالہ وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون اور ضابطہ بنائے اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون وضابطہ دے۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کردیا ہے۔

پھر فرمایا: مِّنَ الدِّيْنِ  ،’’ازقسم دین‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے اس کا ترجمہ ’’از آئین‘‘ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے۔ لفظ ’’دین‘‘ کی جو تشریح ہم اس سے پہلے سورئہ زمر، حاشیہ نمبر۳ میں کرچکے ہیں، وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی اُلجھن پیش نہیں آسکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کرکے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں۔ اور جب یہ لفظ طریقے کے معنی میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مُطاع مانے۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوئے اس طریقے کو دین کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش (Recommendation) اور وعظ و نصیحت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا، وہ دراصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے۔

اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح ، ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اُسی کی ہدایت اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہِ راست ہرانسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کرکے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اُس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آئے ہیں، بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ اُن لوگوں کی رسالت کو ماننا جن کے ذریعے یہ تشریع بھیجی گئی ہے اور اُس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے، اِس دین کا لازمی جز ہے، اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جُز ہونا چاہیے، کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے  خدا کی طرف سے مستند (Authentic ) ہونے پر مطمئن نہ ہو۔

اقامتِ دین

اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاءؑ کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ  ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ’’قائم کنید دین را‘‘ کیا ہے اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ اور شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے ’’قائم رکھو دین کو‘‘۔   یہ دونوں ترجمے درست ہیں۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہوجائے یا پہلے سے قائم ہو، وہاں اسے قائم رکھیں۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اُس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہوچکی ہو۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنا پڑے گی کہ وہ قائم رہے۔

اب ہمارے سامنے دو سوالات آئے ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اُٹھانا ہوتا ہے، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اُٹھانا یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کرکے اسے بلند کرنا ہوتا ہے، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا۔ لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں اُن کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اُس سے مراد اُس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کماحقہٗ عمل درآمد کرنا، اسے رواج دینا اور اُسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کرلیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کردی کہ ملک کا سارا انتظام اس کے احکام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جارہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب قرآنِ مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت وتبلیغ نہیں ہوتی، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود اداکرو، بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہلِ ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہوجائے۔ مسجدیں ہوں۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں۔ امام اور خطیب مقرر ہوں اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑجائے۔

اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیں، بلکہ یہ بھی تھی کہ جب لوگ اسے تسلیم کرلیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورے کا پورا دین اُن میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل درآمد ہونے لگے اور ہوتا رہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کام کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آسکتا۔ لیکن ہر صاحب ِ عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت وتبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے، مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے۔کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاءؑ کے مشن کا مقصد وحید قرار دے بیٹھے۔

ایک سطحی اور خطرناک رائے

اب دوسرے سوال کو لیجیے۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے، اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: لِکُلِّ  جَعَلْنَا  مِنْکُمْ شِرْعَۃً  وَّمِنْھَاجًا۔ اس لیے انھوں نے یہ رائے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے، اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلاشریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی اُمت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے، اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو ، تو لامحالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیراہم اور اس کی اقامت کو غیرمقصود بالذات سمجھ کر نظرانداز کردیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کو لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے، آیا اس سے مرا د صرف ایمانیات اور چند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں یا شرعی احکام بھی۔

دین کیا    ہـے؟

قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں:

۱- وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ۝۵(البینہ ۹۸:۵) اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہوکر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی راست رو ملّت کا دین ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں، حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہیئت، یہی اس کے اجزا ، یہی اس کی رکعتیں، یہی اس کا قبلہ، یہی اُس کے اوقات، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب، یہی اس کی شرحیں، اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں۔لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔

۲- حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ  بِہٖ …اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ …(المائدہ ۵:۳)’’تمھارے لیے حرام کیا گیا مُردار، خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلاگھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سوائے اس کے جسے  تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا، اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب کام فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے مایوسی ہوچکی ہے ، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا…‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب احکامِ شریعت بھی دین ہی ہیں۔

۳- قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ  (التوبہ ۹:۲۹)’’جنگ کرو اُن لوگوں سے جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے‘‘۔

معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور اُن کی پابندی کرنا بھی دین ہے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیئے ہیں۔

۴- اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۝۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۚ (النور ۲۴:۲) ’’زانیہ عورت اور مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاہُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ (یوسف۱۲:۷۶) ’’یوسفؑ اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو۔

دین کس لیے آیا ہـے؟

یہ چارتو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظِ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنّم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا، سود خوری، قتلِ مومن، یتیم کا مال کھانا، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا، وغیرہ) اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عملِ قومِ لوط اور لین دین میں قومِ شعیبؑ کا رویّہ) اُ ن کا سدِّباب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے، اس لیے کہ دین اگر جہنّم اور عذابِ الٰہی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکامِ شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خُلود فی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے، مثلاً میراث کے احکام، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۝۰۠ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝۱۴ۧ (النساء۴: ۱۴) ’’جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا، اللہ اُس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رُسوا کن عذاب ہے‘‘۔ اسی طرح جن چیزوں کی حُرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے، مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حُرمت، شراب کی حُرمت، چوری کی حُرمت، جوئے کی حرمت، جھوٹی شہادت کی حُرمت، ان کی تحریم کو اگر اقامت ِ دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیرضروری احکام بھی دے دیئے ہیں جن کا اِجراء مقصود نہیں ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے، مثلاً روزہ اور حج، اُن کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامتِ دین سے خارج نہیں کیا جاسکتا کہ رمضان کے ۳۰ روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے، اور کعبے کا حج تو صرف اُس شریعت میں تھا جو اولادِ ابراہیم ؑ کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔

دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے ہوئی ہے کہ آیت لِکُلِّ  جَعَلْنَا  مِنْکُمْ شِرْعَۃً  وَّمِنْھَاجًا (ہم نے تم میں سے ہراُمت کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کردی) کا اُلٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیئے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہراُمت کے لیے الگ تھی، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاءؑ کے درمیان مشترک تھا، اس لیے اقامت ِ دین کے حکم میں اقامت ِ شریعت شامل نہیں ہے۔ حالانکہ درحقیقت اس آیت کا مطلب اس کے بالکل برعکس ہے۔

سورئہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت ۴۱ سے آیت ۵۰ تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبیؐ کی اُمت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی، وہ اُس اُمت کے لیے دین تھی اور اُس کے دورِ نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی اور اب چونکہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دورِ نبوت ہے اس لیے اُمت محمدیہؐ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اِس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے۔ نماز تمام شریعتوںمیں فرض رہی ہے، مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہرشریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے ۳۰ روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت ِ دین میں شامل ہے، مگر ایک خاص طریقے سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہرنبی کی اُمت کے لیے اُس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے، انھی کے مطابق اُس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا، اور اب اقامت ِ دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہؐ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انھیں ادا کیا جائے۔ انھی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکامِ شریعت کو بھی قیاس کرلیجیے۔

تعبیر کی غلطی

قرآنِ مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفراور کفّار کی رعیت فرض کرکے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ اپنے پیروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دینِ حق کو فکری ، اخلاقی، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دیں اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جاسکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔

یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّـآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ  بِالْحَقِّ  لِتَحْكُمَ  بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۝۰ۭ(النساء۴: ۱۰۵) ’’اے نبیؐ ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اُس روشنی میں جو اللہ نے تمھیں دکھائی ہے‘‘۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیئے گئے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کرکے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ ۹: ۶۰،۱۰۳)۔اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سودخواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلانِ جنگ کیا گیا ہے (البقرہ ۲:۲۷۵- ۲۷۹)، وہ اسی صورت میں رُوبہ عمل آسکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ ۲:۱۷۸)، چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ ۵:۳۸) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور ۲۴: ۲-۴)، اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفّار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ اس کتاب میں کفّار سے قتال کا حکم (البقرہ ۲: ۱۹۰-۲۱۶)یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا ہے کہ  اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں فوجی بھرتی کرکے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا حکم (التوبہ ۹:۲۹)اس مفروصے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے اُن سے جزیہ وصول کریں گے اور اُن کی حفاظت کا ذمّہ لیں گے۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکّی سورتوں میں بھی دیدئہ بینا کو علانیہ یہ نظر آسکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہلِ دین کے ذمّی بن کر رہنے کا....

سب سے بڑھ کر جس چیزسے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم الشان کام ہے، جو حضوؐر نے ۲۳برس کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپؐ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اُس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق ، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔

اگر حضوؐر کے اس پورے کام کو ’اقامت دین‘ کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپؐ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں۔

یا تو معاذ اللہ، حضوؐر پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپؐ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے، مگر آپؐ نے اس سے تجاوزکرکے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بناڈالا جو شرائع انبیاءؑ کی قدرِ مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔

یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورئہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کرچکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہوگیا اور اس نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ ’اقامت دین‘ سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ  اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کیا)، اعاذنا اللہ من ذٰلک۔ان دوصورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے ’اقامت ِ دین‘ کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسولؐ پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور اسے معلوم کرنا چاہیں گے۔(تفہیم القرآن، چہارم، ص۴۸۶- ۴۹۲)

دوسری صدی ہجری میں جب یونانی فلسفہ مسلمانوں کے درمیان بحث کا عنوان بنا تو ان علوم وافکار کے زیراثر، اُس زمانے کے ’دانش وروں‘ نے اسلامی عقائد کے بارے میں بے شمار اشکالات اور فکری مغالطوں کی تردید کے لیے فلسفیانہ سوالات کی عقلی بنیادوں پر تردید کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ مسلمانوں میں ایک نیاعلم، علم کلام وجود میں آیا، جس میں فلسفے کی طرح کسی بات کے اثبات وتردید کے لیے دلیل دینے کے طریقے رائج ہوئے۔ بلاشبہہ اس ذریعے سے اس دور کے اہلِ علم نے یونانی فلسفے کی زہر ناکی کا مؤثر علاج کیا۔ اس طرح نہ صرف عقلِ سلیم کو متاثر کیا بلکہ تہذیب نفس کا کام بھی کیا۔

علم کلام اور قرآنی استدلال کا فرق

امام غزالی [م:۵۰۵ھ/۱۱۱۱ء] نے اپنے زورِ استدلال سے یونانی فلسفہ سے مرعوب ذہنوں کے سامنے یونانی فلسفے کی کمزوری کو عیاں کیا۔ وہ قرآنی دلائل اور فلسفیانہ طرزِفکر رکھنے والے متکلمین کے دلائل کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’قرآنی دلائل غذا کی مانند ہیں، جس سے ہرانسان استفادہ کرتا ہے، جب کہ متکلمین کے دلائل دوا کی طرح ہیں جس سے کچھ لوگوں کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ قرآنی دلائل پانی کی مثل ہیں، جس سے دودھ پیتا بچہ اور تنو مند شخص، دونوں ہی فائدہ اٹھاتے ہیں، جب کہ دوسرے دلائل [مرغن]کھانوں کی طرح ہیں، جن سے صحت مند اور طاقت ور لوگوں کو تو کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نقصان، لیکن دودھ پیتے بچے اس سے بالکل فائدہ نہیں اٹھا سکتے ‘‘ (علم الکلام ،ص۲۰)۔

مراد یہ کہ جن ذہنوں کو یونانی فلسفے نے پریشاں فکری میں مبتلا کر دیا ہو، ممکن ہے کہ منطقی دلائل سے ان کی تشفی ہو جائے، لیکن اس چیز کا امکان موجود ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ اسلوب الٹا شکوک وشبہات میں مبتلا کردے ، جب کہ قرآنی دلائل اپنی سادگی کے باعث غذا اور پانی کی طرح ہر ذہنی سطح کے فرد کی پیاس اور بھوک مٹا سکتے ہیں۔

امام فخرالدین رازی [م:۶۰۶ھ/۱۲۱۰ء] متکلمین وفلاسفہ کے امام ہیں اور مفسر قرآن بھی۔ وہ تـفسیرکبیر میں قرآنی طرزِ استدلال کی افادیت یوں بیان کرتے ہیں :’’قرآن کا دلیل دینے کا انداز عوام الناس کے ذہنوں کے زیادہ قریب ہے اور ان کی عقلوں میں بات بٹھانے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ قرآنی دلائل کو انسانی ذہنوں کے قریب تر ہی ہونا چاہیے تا کہ خواص وعوام اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ پھر یہ ہے کہ قرآنی دلائل کا مقصد بحث ومناظرہ نہیں بلکہ صحیح عقائد کو دل نشین کرانا ہے اور اس مقصد کے لیے اس قسم کے دلائل دوسری قسم کے دلائل سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہوتے ہیں ‘‘ (تـفسیر کبیر،ج۲،ص ۹۸)۔

زندگی کے آخری دنوں میں امام رازی نے جو وصیت اپنے شاگرد ابراہیم اصبہانی کو تحریر کرائی ، اس میں بھی کلام وفلسفہ اور قرآن کے بارے میں انھوں نے کہا: ’’میں نے فلسفہ وکلام کے طریقوں کو آزمالیا، لیکن مجھے ان میں کوئی ایسا فائدہ نظر نہ آیا جو اُس فائدے کے برابر ہو، جو میں نے قرآن میں پایا ہے۔ اس لیے کہ قرآن، اللہ کی عظمت کو منواتاہے اور خواہ مخواہ کی باریک بینی اور موشگافی سے بچاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے، انسانی عقلیں ان طویل اور تنگ گھاٹیوں اور خفیہ راستوں میں بھٹک کر رہ جاتی ہیں ‘‘(طبقات الشافعیہ، ج۸،ص۹۱)۔

ابن کثیر [م: ۷۷۴ھ/۱۳۷۳ء]کے مطابق امام رازی نے لکھا ہے: ’’میں کلام اور فلسفے کے طریقوں کو آزما چکا ہوں۔یہ نہ تو کسی پیاسے کی پیاس بجھاسکتے ہیں اور نہ کسی بیمار کو شفا دے سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے تمام راستوں کے مقابلے میں قریب ترین راستہ قرآن کا راستہ ہے ‘‘ (البدایہ والنھایہ ، ج۱۳، ص۵۶)۔

امام ابن تیمیہ (م:۷۲۸ھ/۱۳۲۸ء )کے مطابق متکلمین وفلاسفہ کے طرزِ استدلال میں غیر ضروری طوالت اور تکلفات سے کام لیا گیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں :’’اہل کلام وفلسفہ نے مطالب الٰہیہ پر جو عقلی دلائل قائم کیے ہیں ، ان کے مقابلے میں قرآن مجید کے دلائل کہیں زیادہ مکمل، بلیغ اور مؤثر ہیں۔ پھر اس کے ساتھ وہ ان بڑے مغالطوں سے بھی پاک وصاف ہیں، جو فلسفیوں اورمتکلمین کے دلائل میں پائے جاتے ہیں ‘‘ (الرّد علی المنطقیین ،ص ۳۲۱،۲۵۵)۔

قرآنی استدلال کا آغاز خشک اور پیچیدہ متکلمانہ مقدمات سے نہیں ہوتا بلکہ ہر مخاطب کی ذہنی سطح کے اعتبار سے قرآن حجت پیش کرتا ہے ۔ حضرت یوسف ؑ کے پاس جب ان کے ہم نشین دوقیدی اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے آئے، تو انھوں نے تعبیر بتانے کے وعدے کے ساتھ ان کے سامنے ایک سوال رکھا:

ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۝۳۹ۭ (یوسف ۱۲:۳۹) کیا بہت سے متفرق ربّ بہترہیں یا ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟

آقا وغلام کی معاشرتی حیثیت سے واقف ہر شخص کے لیے سوال کا یہ انداز جتنا عام فہم ہے، لامحالہ اس کا جواب ایک ہی ہے، خواہ اس سوال کا مخاطب اَن پڑھ ہو یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ۔ یہ تو ممکن ہے کہ اس سوال کے جواب میں اَن پڑھ اتنا ذہنی وروحانی لطف نہ اٹھا ئے جتنا کہ ایک تعلیم یافتہ اس سے لذت پائے گا لیکن کوئی تعلیم یافتہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سوال عامیانہ ہے، میرے علمی مرتبے کے مطابق نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن جب یہ کہتا ہے کہ :

لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ۝۰ۚ (انبیاء ۲۱:۲۲) اگر آسمان اور زمین میں ایک اللہ کے علاوہ دوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین وآسمان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا ۔

لہٰذا، اس آیت میں بتائی گئی حقیقت سے کسی سطح کا آدمی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ کوئی خاندان ہو یا ملک، اگر اس کے سربراہ ایک سے زائد ہوں گے تو نتیجہ کیا ہو گا۔

محسوس واقعات کے ذریعے غیر محسوس حقائق پر استدلال

قرآن محسوس واقعات کے ذریعے غیرمحسوس حقائق پر استدلال کرتا ہے۔

اَبرہہ کے ہاتھیوں کے ساتھ آنے والے ۶۰ ہزار کے لشکر کے مقابلے کا تصور عرب کے منتشر قبائلی معاشرے میں ممکن ہی نہ تھا۔ اس موقعے پر خود مجاورینِ کعبہ (قریش) نے ۳۶۰بتوں کی موجودگی کے باوجود صرف ایک ربّ سے اپنے گھر کی حفاظت کی فریاد کی تھی، کسی دیوتا کو نہیں پکارا تھا۔ تمام جاہلی شاعری بھی اس واقعے پر گواہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس محسوس واقعہ کو یاد دلاتے ہوئے کس طرح غیر محسوس حقیقت کی طرف متوجہ کیا:

اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ۝۱ۭ (الفیل۱۰۵:۱) تم نے دیکھا نہیں کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟

اصحاب الفیل کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ’تیرے ربّ ‘ یعنی محمد ؐ کے ربّ نے کیا۔ اس لیے کہ اس اکیلے ربّ کی طر ف تو محمد ؐ ہی دعوت دے رہے تھے، جب کہ مشرکین قریش کو تو ایک ربّ کی بات سننا بھی گوارا نہ تھی۔ حالانکہ اس حقیقت کا مشاہدہ ہی نہیں بلکہ اپنی زبانوں سے اس کا اقرار خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر تمام سرداران قریش چالیس پینتالیس سال پہلے کر چکے تھے ۔

اسی طرح سورۂ قریش جو درحقیقت سورۂ فیل ہی کے مضمون کی تکمیل کرتی ہے، محسوس واقعے کو غیر محسوس حقیقت کے ماننے پر متوجہ کرتی ہے ۔ دورجاہلیت میں عرب میں ہر طرف قافلے لٹتے تھے، لیکن مجاورینِ کعبہ ہونے کے باعث قریش کے تجارتی قافلوں کو عقیدت واحترام سے گزرنے دیا جاتا تھا۔ امن وامان کی اس گارنٹی کے باعث قریش کو عرب میں تجارتی اجارہ داری حاصل تھی اور حرم کے نذرانوں کی آمدن الگ تھی۔ عرب کی معاشی بد حالی اور بھوک کے زمانے میں قریش کو وافر سامانِ طعام ملا اور بدامنی کے خوف کے دنوں میں امن وامان ملا۔ اس کا وہ کیسے انکار کر سکتے تھے کہ یہ سب کچھ انھیں خانہ کعبہ کے متولی ہونے کی حیثیت سے ملا ہے ۔قرآن نے بھوک اور خوف کی جگہ کھانے اور امن کے محسوس واقعے کا حوالہ دے کر ربّ کی عبادت کی طرف متوجہ کیا:

فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَيْتِ۝۳ۙ الَّذِيْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ۝۰ۥۙ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ۝۴ۧ (القریش ۱۰۶:۳-۴) پس انھیں چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا ۔

مخاطب کے اقرار پر مبنی دلائل

قرآنی دلائل مخاطب کے اقرار پر مبنی ہوتے ہیں یا ایسے قوانین فطر ت کے بیان پر مبنی ہوتے ہیں، جو کائنات میں اٹل اور مستقل اصول کی حیثیت سے جاری ہیں ۔چونکہ قرآن کے مخاطب وجود باری کے منکر نہ تھے، اس لیے وجود باری پر براہ راست دلائل دینے کے بجائے بالواسطہ طور پر صفات باری کے بیان کے ذریعے ایسے خالق کا وجود منوایا گیا، جو قادر مطلق اور خلّاق عظیم ہے، جو قہّار وجبّار ہونے کے ساتھ ستّاروغفّار ہے، جو بصیر وعلیم ہونے کے ساتھ رحیم وکریم ہے۔ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے ان کے شرک کے بودے پن کو نمایاں کیا گیا:

 ان سے پوچھو، کون تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جان دار کو اور جان دار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ اور کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہو پھر اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں ہو ؟ (یونس ۱۰:۳۱)

مخاطب عوام ہوں یا ان کے اہل فکر، خدا کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے تھے، البتہ شرک کرتے تھے۔ وجود باری پر دلیل اس لیے نہیں دی گئی کہ دلائل کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں دلیل دعوے سے زیادہ واضح ہو۔ یہاں تو دعویٰ بذات خود واضح تھا۔

آفاق وانفس میں غوروفکر کی دعوت

علوم قرآن کے ماہرین نے قرآنی دلائل کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا ہے :

(۱) دلائل عقلی (۲) دلائل نقلی ۔

دلائل عقلی کی بنیاد یہ آیت ہے :سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہٗ الْحَقُّ ط (حم السجدہ ۴۱:۵۳) ’’عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی ، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘۔

امام قرطبیؒ نے آفاق وانفس کا یہ مفہوم نقل کیا ہے:’’آفاق سے مراد ہیں آسمانوں اور زمین کے اطراف میں موجود قدرت کی نشانیاں، مثلاً سورج، چاند، ستارے، رات اور دن ، ہوائیں اور بارشیں ، گرج چمک، کڑک، سبزہ ،درخت، پہاڑاور دریا وغیرہ،اور انفس میں انسانوں کے نفسوں میں لطیف صنعت اور عجیب وغریب حکمت کی جانب اشارہ ہے ‘‘ (تفسیر قرطبی،ج۱۵، ص۲۴۴)۔

مولانا مودودیؒ [م:۱۹۷۹ء] آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ آفاق ارض وسماء میں بھی اور انسانوں کے اپنے وجود میں بھی لوگوں کو وہ نشانیاں دکھائے گا، جن سے ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن جو تعلیم دے رہا ہے، وہی برحق ہے ‘‘ (تفہیم القرآن ،ج۴،ص ۴۷۰)۔

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ[م: ۱۹۹۷ء]کے مطابق :’’آفاقی دلائل سے مراد کائنات میں موجود شواہد ہیں۔ مثلاً رات دن کا تسلسل ، سورج اور چاند کی گردش ،ہوائوں کے تصرفات ،پہاڑوں اور سمندروں کے عجائبات، وسائل رزق کا انتظام وغیرہ۔ دلائل انفس سے مراد انسانی نفسیات اور اس کے اندر ودیعت کردہ حقائق ومسلمات ہیں ‘‘۔ (اصول فہم قرآن ،ص۹)

اسی بات کو ایک جگہ یوں فرمایا: وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ۝۲۰ۙ  وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۝۲۱ (الذاریات ۵۱:۲۰-۲۱) ’’زمین میںبہت سی نشانیاں ہیں یقین والوں کے لیے اور خود تمھارے اپنے وجود میں ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟‘‘۔

  • انفسی دلائل (انسانی وجود پر مبنی دلائل):انسانوں کے اپنے اندر یہ ودیعت کردہ حقائق کیا ہیں؟ ان کی ایک مثال ملاحظہ کریں، فرمایا: وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ  ۝ (القیامۃ ۷۵:۲)’’ اور نہیں،میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی‘‘۔

’نفس لوّامہ‘ کیا ہے؟ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق یہ وہ نفس ہے، جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بری نیت رکھنے پرنادم ہوتا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں ’ضمیر‘ [Conscience] کہتے ہیں: اس ضمیر میں لازماً برائی اور اچھائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے۔ اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور بُرائی کی تمیز پائی جاتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور بُرے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور جس برائی کا ارتکاب اس نے دوسروں کے ساتھ کیا ہو، اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتوں کو دبا کر خوش بھی ہو لے ، تو اس کے برعکس صورت میں، جب کہ اُسی برائی کا ارتکاب کسی دوسرے نے اس کے ساتھ کیا ہو،اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔ اب اگر انسان کے وجود میں اس طرح کے ایک نفس لوامہ کی موجودگی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ یہی نفس لوّامہ زندگی بعد ِموت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے ،کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنے جن اچھے اور بُرے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے، ان کی جزا یا سزا اس کو ضرور ملنی چاہیے، زندگی بعد موت کے سوا کسی صورت میں پورا نہیں ہو سکتا ‘‘ (تفہیم القرآن  ج۶،ص۱۶۳)۔

اسی سورت میں آگے یہ فرمایا:

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِہٖ بَصِيْرَۃٌ۝۱۴ۙ وَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَہٗ۝۱۵ (القیامۃ ۷۵:۱۴-۱۵) بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے ۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:’’ہر انسان خوب جانتا ہے کہ وہ خود کیا ہے؟ اپنے آ پ کو جاننے کے لیے وہ اس کا محتاج نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا اسے بتائے کہ وہ کیا ہے؟ ایک جھوٹا دنیا بھر کو دھوکا دے سکتا ہے، لیکن اسے خود تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ ایک گمراہ آدمی ہزار دلیلیں پیش کرکے لوگوں کو یہ یقین دلا سکتا ہے کہ وہ جس کفر یا دہریت یا شرک کا قائل ہے ، وہ درحقیقت اس کی ایمان دارانہ رائے ہے، لیکن اس کا اپنا ضمیر تو اس سے بے خبر نہیں ہوتا کہ ان عقائد پر وہ کیوں جما ہوا ہے؟ ‘‘ (تفہیم القرآن ،ج۶،ص۱۶۷)۔

کہیں انسان کے غرور نفس اور اللہ کے سامنے اس کی بے بسی کو یوں بیان کیا :

يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْمِ۝۶ۙ الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝۷ۙ  فِيْٓ اَيِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۝۸ۭ (الانفطار۸۲:۶-۸) اے انسان!کس چیز نے تجھے اپنے اُس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا ، تجھے متناسب بنایا، اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا؟

  • آفاقی  دلائل : انسان کو اپنی تخلیق اور اس کی ذات کے مختلف پہلوئوں کی طرف دعوت غوروفکر دینے کے ساتھ ساتھ قرآن نے بے شمار مقامات پر انسان کے ارد گرد پھیلی کائنات (آفاق) پر بھی اسے غور کرنے کی دعوت دی ہے :

 بے شک آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے اختلاف میں، اُن کشتیوں میں جو لوگوں کی نفع رسانی کی چیزیں اٹھائے دریائوں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے مُردہ زمین کو زندہ کیا اور اس میں ہرقسم کے چوپائے پھیلائے ، ہوائوں کی گردش میں اور بادلوں میں جو زمین وآسمان کے درمیان پابند ہیں ، عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں (البقرہ ۲:۱۶۷)۔

اس آیت میں گیارہ چیزوں کو توحید کے حق میں دلائل کے طورپر پیش کیا گیا۔ سورئہ انعام کی آیات ۹۰ تا ۹۹ میں اللہ نے سترہ چیزوں کو اپنی توحید کے اثبات میں دلائل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ سورۂ نحل کی آیات ۳ تا ۱۳ میں زمین وآسمان ، جانوروں اور پرندوں کی تیرہ نشانیوں کو علم وحکمت رکھنے والی ذات واحد کے وجود کی کھلی دلیل قرار دیا۔ اس موضوع پر سیکڑوں آیات ہیں جو انتہائی عام فہم اور دل نشین انداز میں اللہ کی یکتائی کے اوپر قطعی دلیل ہیں اور ان سے جہاں ایک تعلیم یافتہ آدمی اپنی ذہنی وفکری رہنمائی کا سامان پاتا ہے وہاں ایک اَن پڑھ دیہاتی بھی ان پر جھوم اٹھتا ہے ۔

  • نقلی دلائل (تاریخی واقعات پر مبنی دلائل): قرآن نے عقائد اسلام کے اثبات پر عقلی دلائل کے ساتھ نقلی دلائل بھی پیش کیے ہیں ۔
  • انبیاء کی دعوت: اس کے لیے مشاہیر انبیاء کے اپنی اپنی قوم سے جو مکالمے ہوئے، ان کو بیان کیا ہے۔ تمام انبیاء کی دعوت میں ایک بنیادی بات جو مشترک ہے، وہ اللہ کی عبادت اور شرک سے اجتناب ہے:

وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج  (النحل ۱۶:۳۶) اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیااور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ‘‘۔

سورۂ اعراف میں حضرت نوحؑ ،حضرت ہودؑ، حضرت صالحؑ، اور حضرت شعیب ؑ اپنی اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے ایک ہی جملے کا بار بار تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں :

 یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ  ط (اعراف ۷:۵۹،۶۵،۷۳،۸۵) اے میری قوم !اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے ۔

مختلف مقامات پر قرآن نے حضرت ابراہیم ؑ ،حضرت موسٰی، حضرت عیسیٰ ؑ کی دعوت بھی یہی بیان کی ہے :

 وَ اِبْرٰھِیْمَ اِذْ قَالَ  لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوْہُ  ط (عنکبوت ۲۹:۱۶) اور ابراہیم ؑنے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو اور اسی سے ڈرو ۔

اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو پہلی وحی میں یہ تاکید کی :

 اِنَّنِیْٓ اَنَـا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَافَاعْبُدْنِیْ  لا (طہٰ ۲۰:۱۴)بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، پس تو میری بندگی کر۔

وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ  اِسْرَآئِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ  رَبِّیْ  وَ رَبَّکُمْ ط (المائدہ ۵:۷۲) مسیحؑ نے کہا: اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی ۔

  • اہلِ حق کی سیرت سے استدلال: قرآن کریم نے آزمایش میں توحید پر ثابت قدم رہنے والے اپنے اولیاء کے واقعات سے بھی استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ان کا کردار بھی توحید کی حقانیت اور صداقت کی تاریخی دلیل ہے، مثلاً ’اصحاب الکہف‘ (غار والوں)کا ذکر۔ جب ان پر اپنی مشرک قوم کی اذیتیں ناقابل برداشت ہو گئیں تو وہ ہجرت کر کے ایک غار میں جا چھپے اور اللہ نے انھیں کم و بیش تین سو سال سلائے رکھا۔ یہ واقعہ اللہ کی توحید وقدرت اور موت کے بعد کی زندگی کے وقوع پر نقلی دلیل کے طور پر بیان ہوا ہے :

ہم ان (اصحاب کہف) کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیئے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ’’ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے ۔اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔ (پھر انھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا )’’یہ ہماری قوم تو رب کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟‘‘ (الکہف ۱۸:۱۳-۱۴)

 تفہیم القرآن کے مطابق یہ نوجوان ۲۵۰ء سے ۴۴۶ء تک ،یعنی تقریباً دو سو سال تک سوئے رہے ۔ ترکی کے شہراز میر (سمرنا) کے قریب شہر افسس کے کھنڈرات موجود ہیں، جہاں مشرک باد شاہ دقیانوس یا دَقیُوس کے ظلم کے باعث وہ غار میں پناہ گزیں ہوئے اور عیسائی باد شاہ تھیوڈوسیس ثانی کے دور میں بیدار ہوئے  (تفہیم القرآن، ج ۳،ص ۱۳)۔

قرآن میں ایک واقعہ ’اصحاب الاخدود‘ کے مقابل ان اولیاء اللہ کا بیان ہوا ہے، جنھوں نے ’اصحاب الاخدود‘ کے وحشیانہ مظالم کے مقابلے میں صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر عقیدۂ توحید کے برحق ہونے کی شہادت دی تھی :

 مارے گئے گڑھے والے۔ (اس گڑھے والے ) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔ جب کہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے ، اسے دیکھ رہے تھے۔ اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خد ا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے، جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے، اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔ (البروج ۸۵:۴-۹)

ابن ہشام، طبرانی اورابن خلدون کے مطابق نجران (یمن ) کے یہودی باد شاہ ذونواس نے دین مسیح کے بیس ہزار پیروکار وں کو اپنا دین ترک نہ کرنے کی پاداش میں آگ میں بھرے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا۔ (تفہیم القرآن ،جلد ۶ ،ص ۲۹۷-۲۹۸)

یہ واقعہ اکتوبر ۵۲۳ء میں پیش آیا تھا ۔ نزول قرآن سے تقریباً نوے سال قبل کے اس واقعہ کو قرآن نے ایک تاریخی دلیل کے طور پر نقل کیا ہے کہ اولیاء اللہ صرف اللہ کی عبادت کرتے اور غیبی امداد کے لیے اسی کو پکارتے تھے ۔

  • حکما و دانش وروں کا تذکرہ :ہر دور میں ایسے دانش مند حکما موجود رہے ہیں،  جن کی حکمت ودانش کی باتیں بعد کے ادوار میں بھی زبان زدعام رہی ہیں۔ قرآن ان کی حکمت آمیز باتوں کو بھی عقائد کی تفہیم کا ذریعہ بناتا ہے ۔ ایسی شخصیات میں سے ایک حکیم لقمان ہیں، جو نہ صرف مکارم اخلاق کے معلم تھے بلکہ اللہ کی توحید کے علَم بردار بھی تھے۔ امام سعید بن مسیب [م:۷۱۵ء] کے مطابق لقمان نسلی اعتبار سے سوڈانی تھے، جنھیں اللہ نے حکمت ودانائی سے نوازا تھا، مگر وہ نبی نہیں تھے۔ مدین اور ایلا کے علاقے میں رہنے کے باعث ان کی زبان عربی تھی اور ان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم ودانا کی حیثیت سے معروف تھی۔ شعرائے جاہلیت امرؤ القیس بن حجر [م: ۵۴۴ء]،  طرفہ بن العبد [م: ۵۶۹ء]، اعشیٰ [م:۶۲۹ء] اور لبید بن ربیعہ عامری [م: ۶۶۱ء] کے کلام میں ان کا ذکر ملتا ہے۔

اوّلین سیرت نگارابن اسحاق [م:۱۵۰ھ/۷۶۸ء]کے مطابق یثرب کے خاندان عمروبن عوف (بنو اوس ) کا ایک شخص سوید بن صامت حج کے لیے مکہ آیا۔ وہ اپنی قوم میں ’’الکامل ‘‘ کے لقب سے مشہور تھا۔ حضورؐ سے ملاقات میں اس نے بتایا کہ اس کے پاس لقمان کی حکیمانہ باتوں کا مجلّہ ہے ۔ اس نے اس میں سے جب کچھ سنایا تو آپؐ نے ان باتوں کو سراہا اور فرمایا: میرے پاس اس سے بھی بہتر کلام ہے ۔ پھر قرآن پڑھ کر سنایا تو سوید نے قرآن کی تعریف کی۔ یثرب پہنچنے کے بعد اسے بنوخزرج نے قتل کر دیا۔ ان کے خاندان کے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ مسلمان ہو چکا تھا۔ (سیرت ابن ہشام ،ص۳۷۳-۳۷۴)

قرآن نے حکیم لقمان کی باتیں نقل کی ہیں:

یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا: ’’بیٹا، خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘ ۔ (لقمان ۳۱:۱۳)

مولانا مودودی آیت کے سیاق وسباق میں لکھتے ہیں :’’شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمھارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل ودانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمھارا اپنا مشہور حکیم، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے ‘‘۔(تفہیم القرآن ،ج ۴ ،ص ۱۳)

( لقمان نے کہا تھا) کہ ’’بیٹا کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو، اللہ اسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بین اور باخبر ہے۔ بیٹا، نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر ، نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر، اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۶-۱۹)

  • نازل شدہ کتابوں کی گواہی  :اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے قرآن نے تاریخی دلیل کے طور پر پہلی آسمانی کتابوں کے حوالے بھی دئیے ہیں تا کہ ان کتابوں کے ماننے والوں پر حجت تمام ہوجائے مثلاً:’’اور بے شک ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعۂ ہدایت بنایا تھا۔ اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا ‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۲)

’’اے نبیؐ !کہو ، ’’اے اہل کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طر ف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے ‘‘۔ (اٰل عمٰرن ۳:۶۴)

نبی آخر الزماںؐ پر ایمان کے لیے سابقہ کتب میں ان کے ذکر کو بنیاد بنا یا گیا : (رحمت کے حق دار تو وہ ہیں) جو اس پیغمبر، نبی اُمّی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تو رات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے ‘‘۔ (اعراف ۷:۱۵۷)

’’اور جب عیسیٰ ؑابن مریم نے کہا تھا کہ ’’اے بنی اسرائیل ،میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں،تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا ‘‘۔(الصف ۶۱:۶)

مولانا رحمت اللہ کیرانوی [م:۱۸۹۱ء] نے اپنی کتاب اظہار الحق میں تورات وانجیل کی بے شمار عبارات اور کتب حدیث وسیرت سے علمائے اہل کتاب کے مستندوواقعات جمع کردئیے ہیں جن سے رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہوتی ہے ۔ مثلاً نجاشی [م:۶۳۲ء] حبشہ نے حضرت جعفر طیارؓ [شہادت: ۶۲۹ء]کی تقریر پر کہا: اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللہِ صَادِقًا  مُصَدِّقًا ، وَقَدْ  بَایَعْتُکَ  وَبَایَعْتُ  ابْنَ عَمِّکَ  اَیْ  جَعْفَرَ  بْنَ  اَبِی  طَالِبٍ، وَاَسْلَمْتُ  عَلٰی یَدَیْہِ  لِلّٰہِ  رَبِّ الْعٰلَمِینَ ،’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے سچے اور تصدیق کرنے والے رسولؐ ہیں۔ میں آپؐ کی اور آپؐ کے چچازاد بھائی یعنی جعفربن ابی طالب کے ہاتھوں بیعت کرتا ہوں اور اُن کے ہاتھوں اپنے آپ کو اللہ ربّ العالمین کے سپرد کرتا ہوں‘‘ (اظہار الحق ، ج ۲، ص۴۲۲)۔

  • خدا پرست علما کے کردار کی گواہی : قرآن نے بنی اسرائیل کے خدا پرست علماء کے کردار کو نقل کر کے بھی اپنے موقف کو مدلّل کیا ہے :

 کیا ان (اہل مکہ ) کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں کہ اسے علمائے بنی اسرائیل جانتے ہیں؟  (الشعراء ۲۶: ۱۹۷) ۔

 جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس (قرآن) پر سچّے دل سے ایمان لے آتے ہیں (البقرہ ۲:۱۲۱) ۔

 جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہو جاتی ہیں۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ’’اے پرور دگار، ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے‘‘ (المائدہ ۵:۸۳)۔

ابن اسحاق کے مطابق جب محمدؐ کی نبوت کی خبر حبشہ پہنچی تو وہاں کے بیس عیسائیوں کا وفد مسجد حرام میں آپؐ سے آ کر ملا۔ ان کے سوالات کا جواب دینے کے بعد آپؐ نے انھیں قرآن سنایا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ آپ پر ایمان لے آئے ۔ (ابن ہشام ،ص۳۳۸)

  • نافرمان قوموں کے انجامِ بد کا تذکرہ : قرآن کے استدلال کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس نے خدا کی باغی اقوام، قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط، قومِ شعیب کے انجامِ بد کا ذکر کرکے توحید الٰہی اور نبیؐ عربی کی مخالفت کرنے والوں کو ان کے انجام بد سے ڈرایا ہے۔ سورۂ اعراف، طٰہٰ، قصص، انبیاء وغیرہ میں اس کی تفصیلات موجو دہیں۔ قرآن کے بیان کردہ تمام واقعات ایسے ہیں جن سے عرب واقف تھے اور ان کے تباہ شدہ کھنڈرات سے وہ گزرتے رہتے تھے ۔

دل ودماغ میں بات اُتارنے کا وہی طرزِ استدلال سب سے زیادہ مؤثر اور فطری ہے، جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ قدیم علم کلام اور جدید سائنسی طرزِ استدلال کی جزوی افادیت کو تسلیم کرنے کےباوجود علما اور داعیانِ دین کے لیےلازم ہے کہ وہ اپنی تحریر و تقریر اور بحث و گفتگو میں قرآن کے اسلوبِ استدلال کو اپنائیں، جس میں عقلی و نقلی دلائل کا توازن ہو۔ کائنات کے ساتھ ساتھ خود نفس انسانی پر غوروفکر کی دعوت ہو۔ انبیاء اور ا ولیاء کے ساتھ ساتھ قدیم وجدید خداپرست اہلِ دانش کے فکرو عمل کا حوالہ ہو اور خدا بیزار قدیم وجدید تہذیب و اقوام کی تباہی کے بیان میں عبرت و موعظت کا سامان ہو۔     

وہ اگست ۱۹۴۱ء تھا اور یہ اگست ۲۰۲۱ء ہے۔

۸۰برس پہلے ایک بیج بویا گیا، جس سے کونپل پھوٹی ، اور پھر ہر کونپل پھل لائی۔ تب پکارنے والا ایک تھا اور اس کی پکار پر لپکنے والے چند ایک تھے۔ اُس آغاز کے وقت پہلا اور واحد ذریعہ ایک رسالہ تھا، ماہ نامہ ترجمان القرآن!

دُنیا بھر کے انسانوں، تمام مسلمانوں اور برصغیر [آج کے بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت]  کے باشندوں کی زندگی اور زندگی کے مسائل، اسی ترجمان القرآن میں مسلسل زیربحث تھے۔ کثیرجہتی موضوعات پر کلام کرنے والے، سوئے ہوئوں کو جگانے، اور پھر جاگنے والوں کو راستہ بتانے والے، اللہ کے ایک بندے سیّدابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ ان کے مدلل، مربوط اور بھرپور تجزیے نے ایک اسلامی تحریک برپا کرنے کی ضرورت واضح کردی تھی:

  • اسلام کا مقصد، زندگی کے فاسد نظام کو بالکل بنیادی طور پر بدل دینا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ کُلی و اساسی تغیر صرف اُسی طریق پر ممکن ہے، جو انبیاء علیہم السلام نے اختیار فرمایا تھا۔
  • تیسرے یہ کہ مسلمانوں میں اب تک جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے، وہ نہ تو اس مقصد کے لیے ہے اور نہ اس طریقے پر ہے۔(ترجمان القرآن، محرم ۱۳۶۰ھ/ مارچ ۱۹۴۱ء،ص ۸۳)

صفر ۱۳۶۰ھ (اپریل ۱۹۴۱ء) کے ترجمان القرآن میں ، اس تجزیے کی بنیاد پر ایک تحریک کی ضرورت محسوس کرنے والوں کو دفتر ترجمان  القرآن سے رابطہ قائم کرنے کے لیے کہا گیا:

اب وقت آگیا ہے کہ جہاں جہاں اس فکر کے آدمی موجود ہیں ان کے درمیان ربط پیدا کیا جائے اور ان کے اجتماع کی کوئی صورت نکالی جائے(ص ۱۰۱)۔

اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو یکم شعبان ۱۳۶۰ھ /۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء کو یک جا ہونے کی دعوت دی گئی اور اس اجتماع کا مقام طے تھا: مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا کرائے کا مکان، متصل مبارک مسجد، شبلی سٹریٹ، اسلامیہ پارک، پونچھ روڈ، لاہور___ یہیں پر ماہ نامہ ترجمان القرآن کا دفتر بھی تھا۔ دُوردراز سے آنے والے پہلے ہی چل پڑے اور کچھ حضرات ۲۸ رجب سے ہی آنا شروع ہوگئے تھے۔ یکم شعبان تک ان فرزانوں کی تعداد ساٹھ ہوچکی تھی۔ کچھ لوگ بعد میں آئے اور جب ایک تحریک کا آغاز ہوا تو وہ تعداد میں ۷۵ تھے۔

یکم شعبان کا دن باہم تعارف اور تبادلۂ خیالات میں گزرا۔ مولانا مودودیؒ ان افراد کے  سوالات کے جواب دے رہے تھے اور آنے والے یکسو ہورہے تھے۔


تاسیسی اجتماع کا آغاز

پھر ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ ، ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کا دن روشن ہوا۔

جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع کا آغاز ہوا۔ مولانا مودودیؒ ابتدائی خطاب کے لیے اُٹھے تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ انھوں نے زندگی اور مقصد ِ زندگی کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

دین کوتحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامدو ساکن ہوکر نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دینی کو عملاً نافذ و قائم کرنے ، اور مانع و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ادارہ دارالاسلام کا قیام [مارچ ۱۹۳۸ء] اس سلسلے کا پہلا قدم اُٹھایا گیا، اوراُس وقت صرف چار آدمی رفیق کار بنے۔ اس چھوٹی سی ابتدا کو اُس وقت بہت حقیرسمجھا گیا، مگر الحمدللہ کہ ہم بددل نہ ہوئے، اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لیے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگاتار کرتے چلے گئے۔ اس دوران میں ایک ایک، دو دو کرکے رفقا کی تعداد بڑھتی رہی۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۱ء، ص ۲۱۳)

اسلامی تحریک اور دوسری تحریکوں میں فرق

اس مرحلے پر پیش نظر تحریکِ اسلامی اور دوسری تحریکوں کے درمیان اصولی فرق کو دوٹوک الفاظ میں مولانا مودودی نے یوں بیان کیا:

مسلمانوں میں عموماً، جو تحریکیں اُٹھتی رہی ہیں، اور جو اَب چل رہی ہیں، پہلے ان کے اور اس تحریک کے اصولی فرق کو ذہن نشین کرلینا چاہیے:

  • اُن میں یا تو اسلام کے کسی جزء کو یا دُنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر بنائے تحریک بنایا گیا ہے، لیکن ہم، عین اسلام اور اصل اسلام کو لے کر اُٹھ رہے ہیں، اور پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے۔
  • اُن میں ہرقسم کے آدمی اس مفروضے پر بھرتی کرلیے گئے کہ جب یہ مسلمان قوم میں پیدا ہوئے ہیں تو [عملاً] ’مسلمان‘ ہی ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ارکان سے لے کر کارکنوں اور لیڈروں تک بہ کثرت ایسے آدمی ان جماعتوں میں گھس گئے، جو اپنی سیرت کے اعتبار سے ناقابلِ اعتماد تھے اور کسی بارِ امانت کو سنبھالنے کے لائق نہ تھے۔ لیکن ہم کسی شخص کو اس مفروضے پر نہیں لیتے، بلکہ جب وہ کلمہ طیبہ کے معنی و مفہوم اور مقتضیات کو جان کر اس پر ایمان لانے کا اقرار کرتا ہے، تب اسے جماعت میں لیتے ہیں۔
  • ان تحریکوں کی نظر صرف مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔ ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی ہے، جو غیرمسلموں کو اپیل کرنے والی ہو، بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیرمسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں اُلٹی سدراہ بن گئی ہیں۔(ایضاً، ص۲۱۴، ۲۱۵)

پھر اپنے اس خطاب میں مولانا مودودی نے دو زبردست اندرونی خطرات سے بھی آگاہ کیا جو ایسی تحریکوں کو پیش آتے رہے ہیں:

  • ایک یہ کہ ایسی جماعت بننے اور ایسی تحریک لے کر اُٹھنے کے بعد بہت جلدی لوگ اس غلط فہمی میں پڑگئے کہ ان کی جماعت کی حیثیت وہی ہے، جو انبیا علیہم السلام کے زمانے میں اسلامی جماعت کی تھی۔ بالفاظِ دیگر یہ کہ ’جو اس جماعت میں نہیں ہے وہ مومن نہیں ہے‘ من شذ شذ فی النار [وہ جہنّم کے لائق ہے]۔یہ چیز بہت جلدی اس جماعت کو مسلمانوں کا ایک فرقہ بنا کر رکھ دیتی ہے اور پھر اس کا سارا وقت اصل کام کے بجائے دوسرے مسلمانوں سے اُلجھنے میں کھپ جاتا ہے۔(ایضاً، ص ۲۱۵)
  • دوسرے یہ کہ ایسی جماعتیں جس کو اپنا امیر یا امام تسلیم کرتی ہیں، اس کے متعلق ان کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس کی وہی حیثیت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدینؓ کی تھی، یعنی جس کی گردن میں اس امام کی بیعت کا قِلَادہ نہیں وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اور اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخرکار ان کی ساری تگ و دو بس اپنے امیر یا امام کی امارت و امامت منوانے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔
  • ہم کو ان دونوں خطرات سے بچ کر چلنا ہے.... اس معاملے میں ان تمام لوگوں کو جو ہماری جماعت میں شامل ہوں، غلو سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ بہرحال ہم کو مسلمانوں میں ایک ’فرقہ‘ نہیں بننا ہے۔ خدا ہمیں اس سے بچائے کہ ہم اس کے دین کے لیے کچھ کام کرنے کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کرنے کے موجب بن جائیں (ایضاً، ص ۲۱۵، ۲۱۶)۔

تحریکِ اسلامی کا میدانِ عمل

پھر مولانا مودودی نے بڑے اختصار اور جامعیت سے تحریک ِ اسلامی کے دائرۂ عمل کی نشان دہی کرتے ہوئے رہنمائی عطا فرمائی:

  • جماعت اسلامی کے لیے دُنیا میں کرنے کا جو کام ہے، اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے، بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔
  • اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے، اور ہرچیزجس کا انسان سے کوئی تعلق ہے، اس کا اسلام سے بھی تعلق ہے۔ لہٰذا، اسلامی تحریک ایک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے۔ یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس تحریک میں کام کرنے کے لیے صرف خاص قابلیتوں اور خاص علمی معیار کے آدمیوں ہی کی ضرورت ہے۔ نہیں، یہاں ہرانسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بے کار نہیں ہے۔ جو شخص، جو قابلیت بھی رکھتا ہو، اس کے لحاظ سے وہ اسلام کی خدمت میں اپنا حصہ ادا کرسکتا ہے۔ عورت، مرد، بوڑھا، جوان، دیہاتی، شہری، کسان، مزدور، تاجر، ملازم، مقرر، محرر، ادیب، اَن پڑھ اور فاضل اجل، سب یکساں کارآمد اور یکساں مفید ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ جان بوجھ کر اسلام کے عقیدے کو اختیار کرلیں، اس کے مطابق عمل کرنے کا فیصلہ کرلیں، اور اس مقصد کو جسے اسلام نے مسلمان کا نصب العین قرار دیا ہے، اپنی زندگی کا مقصد بناکر کام کرنے پر تیار ہوجائیں۔
  • البتہ، یہ بات ہراس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے، وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت، ہرچیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے، اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے۔ اس کو اگرکوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔اس لیے ہرشخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں [الانفال ۸:۱۶] … لہٰذا، جو قدم بڑھائو اس عزم کے ساتھ بڑھائو کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہو، بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رُک جائے (ایضاً، ص ۲۱۵-۲۱۷)۔

ایک داعی دین کی ذمہ داری

جماعت اسلامی کی باقاعدہ تشکیل سے چند گھنٹے پہلے اس خطاب میں مولانا مودودی صاف صاف لفظوں میں کام اور ذمہ داری کے سمجھانے کے بعدفرماتے ہیں:

  • میرا کام آپ کو ایک جماعت بنادینے کے بعد پورا ہوجاتا ہے۔ میں صرف ایک داعی تھا، بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کررہا تھا، اور میری تمام مساعی کی غایت یہ تھی کہ ایسا ایک نظامِ جماعت بن جائے۔ جماعت بن جانے کے بعد مَیں آپ میں کا ایک فرد ہوں۔ اب یہ جماعت کا کام ہے کہ اپنے میں سے کسی اہل تر آدمی کو اپنا امیر منتخب کرے، اور پھریہ اس امیر کا کام ہے کہ آیندہ اس تحریک کو چلانے کے لیے اپنی صوابدید کے مطابق ایک پروگرام بنائے اور اسے عمل میں لائے۔
  • میرے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ جب دعوت میں نے دی ہے تو آیندہ اس تحریک کی رہنمائی کو بھی میں اپنا ہی حق سمجھتا ہوں۔ ہرگز نہیں، نہ میں اس کا خواہش مند ہوں، نہ اس نظریے کا قائل ہوں کہ داعی کو ہی آخرکار لیڈر بھی ہونا چاہیے۔ نہ مجھے اپنے متعلق یہ گمان ہے کہ اس عظیم الشان تحریک کا لیڈر بننے کی اہلیت مجھ میں ہے، اور نہ اس کام کی بھاری ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے کوئی صاحب ِ عقل آدمی یہ حماقت کرسکتا ہے کہ اس بوجھ کے اپنے کندھوں پر لادے جانے کی خود تمنا کرے۔
  •  درحقیقت میری غایت تمنا اگر کچھ ہے تو وہ صرف یہ ہے، کہ ایک صحیح اسلامی نظامِ جماعت موجود ہو، اور میں اس میں شامل ہوں۔ اسلامی نظامِ جماعت کے ماتحت ایک چپڑاسی کی خدمت انجام دینا بھی میرے نزدیک اس سے زیادہ قابلِ فخر ہے کہ کسی غیراسلامی نظام میں صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب مجھے حاصل ہو.... لہٰذا جماعت بن جانے کے بعد میری اب تک کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ آیندہ جماعت اپنی طرف سے اس ذمہ داری کو جس کے بھی سپرد کرنے کا فیصلہ کرے، اس کی اطاعت اور خیرخواہی اور اس کے ساتھ تعاون کرنا ہرفردِ جماعت کی طرح میرا بھی فرض ہوگا(ایضاً، ص ۲۱۷، ۲۱۸)۔

جماعت کی تشکیل کا لمحہ

۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کے روز مولانا مودودی نے ان احباب کے اجتماع میں اس دستور کا مسودہ پڑھنا شروع کیا جس کی کاپیاں چھپوا کر ایک دو روز پہلے ہی تمام آنے والوں کو دے دی گئی تھیں۔ اس کا اب ایک ایک لفظ پڑھا گیا۔ ان احباب کے اجتماع میں سب نے اس بحث میں حصہ لیا۔ شام آتے آتے ہرضروری مسئلہ زیربحث آکر طے ہوچکا تھا۔

اس کے بعد سب سے پہلے سیّدابوالاعلیٰ مودودی اُٹھے۔ کلمہ شہادت: اَشْھَدُ  اَنْ  لَّا اِلٰہَ  اِلَّا اللہُ  وَاَشْھَدُ  اَنَّ  مُحَمَّدًا  رَّسُوْلُ اللہِ پڑھتے ہوئے کہا:’’لوگو، گواہ رہو کہ میں آج ازسرِنو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں‘‘۔

پھر محمد منظور نعمانی صاحب کھڑے ہوئے، اورآپ نے بھی مولانا مودودی کی طرح تجدید ِایمان کا اعلان کیا۔ پھر ایک ایک کرکے دوسرے افراد اُٹھے، اور اسی طرح تجدیدِ ایمان کے ساتھ جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ عجب سماں تھا۔ اکثر حضرات کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، بلکہ بعض لوگوں پر تو روتے وقت رقّت طاری ہوگئی تھی۔ہرشخص احساسِ ذمہ داری سے کانپ رہا تھا۔

اللہ کو اور حاضرین کو گواہ بنانے والے ان خوش نصیبوں کی تعداد ۷۵ تھی۔ اور یہی ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء، ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ کا وہ لمحہ تھا جب مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل کا باقاعدہ اعلان کیا۔


۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء ، ۳شعبان ۱۳۶۰ھ کے صبح آٹھ بجے دوبارہ اجلاس شروع ہوا۔

سب سے پہلے جماعت کے مختلف اُمور کے ضمن میں ہررکن سے مولانا مودودی نے براہِ راست دریافت کیا کہ وہ اپنے آپ کو جماعت کے کس شعبے میں اور کس کام کے لیے پیش کرتا ہے۔

اجتماعی زندگی کے بنیادی تقاضے

جب یہ فہرست مکمل ہوگئی تو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی تاسیسی ارکان سے مخاطب ہوئے:

’’اب کہ آپ کی جماعتی زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔ تنظیم جماعت کی راہ میں کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد کیا ہیں؟ اس سلسلے میں چند  اہم باتیں بیان کروں گا:

  • پہلی چیز یہ ہے کہ جماعت کے ہرفرد کو نظامِ جماعت کا بحیثیت مجموعی اور جماعت کے افراد کا فرداًفرداً سچے دل سے خیرخواہ ہونا چاہیے۔ جماعت کی بدخواہی، یا افرادِ جماعت سے کینہ، بُغض، حسد، بدگمانی اور ایذا رسانی وہ بدترین جرائم ہیں، جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔
  • دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کی اس جماعت کی حیثیت دُنیوی پارٹیوں کی سی نہیں ہے، جن کا تکیہ کلام یہ ہوتا ہے کہ ’’میری پارٹی، خواہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ نہیں، آپ کو جس رشتے نے ایک دوسرے سے جوڑا ہے، وہ دراصل اللہ پر ایمان کا رشتہ ہے، اور اللہ پر ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت، جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے ہو۔ آپ کو اللہ کی فرماں برداری میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے نہ کہ اللہ کی نافرمانی میں: تَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ص  وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص [المائدہ ۵:۲۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو]۔ اللہ کی طرف سے جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ پر عائد ہوتا ہے اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ بیرونی حملوں سے آپ اس کی حفاظت کریں، بلکہ یہ بھی ہیں کہ ان اندرونی امراض سے بھی اس کی حفاظت کے لیے ہروقت مستعد رہیں، جو نظامِ جماعت کو خراب کرنے والے ہیں۔

                        جماعت کی سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ اس کو راہِ راست سے نہ ہٹنے دیا جائے، اس میں غلط مقاصد اور غلط خیالات اور غلط طریقوں کے پھیلنے کو روکا جائے۔ اس میں نفسانی دھڑے بندیاں نہ پیدا ہونے دی جائیں۔ اس میں کسی کا استبداد نہ چلنے دیا جائے۔ اس میں کسی دُنیوی غرض یا کسی شخصیت کو بُت نہ بننےدیا جائے،اور اس کے دستور کو بگڑنے سے بچایا جائے۔

                        اسی طرح اپنے رفقاء جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ میں سے ہرشخص پر عائد ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آپ اپنی جماعت کے آدمیوں کی بے جا حمایت کریں اور ان کی غلطیوں میں ان کا ساتھ دیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ معروف میں ان کے ساتھ تعاون کریں، اور منکر میں صرف عدمِ تعاون ہی پر اکتفا نہ کریں، عملاً ان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔ ایک مومن، دوسرے مومن کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی جو کرسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں اس کو راہِ راست سے بھٹکتے ہوئے دیکھے وہاں اسے سیدھا راستہ دکھائے، اور جب وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا ہو تو اس کا ہاتھ پکڑ لے۔

                        البتہ، آپس کی اصلاح میں یہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ نصیحت میں عیب چینی اور خُردہ گیری اور تشدد کا طریقہ نہ ہو بلکہ دوستانہ دردمندی و اخلاص کا طریقہ ہو۔ جس کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اس کو آپ کے طرزِعمل سے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ اس اخلاقی بیماری سے آپ کا دل دُکھتا ہے، نہ کہ اس کو اپنے سے فروتر دیکھ کر آپ کا نفسِ متکبر لذت لے رہا ہے (ایضاً، ص ۲۲۰-۲۲۱)۔

  • تیسری بات یہ ہے کہ جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیے۔ سازشیں، جتھہ بندیاں، نجویٰ (Canvassing)، عہدوں کی اُمیدواری، حمیت ِجاہلیہ اور نفسانی رقابتیں، یہ وہ چیزیں ہیں جو ویسے بھی جماعتوں کی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتی ہیں، مگراسلامی جماعت کے مزاج سے تو ان چیزوں کو کوئی مناسبت ہی نہیںہے۔ اسی طرح غیبت اور تنابز بالالقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں، جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔
  • چوتھی بات یہ ہے کہ باہمی مشاورت جماعتی زندگی کی جان ہے، اس کو کبھی نظرانداز نہ کرنا چاہیے۔ جس شخص کے سپرد کسی جماعتی کام کی ذمہ داری ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے کاموں میں دوسرے رفقا سے مشورہ لے، اور جس سے مشورہ لیا جائے اُس کا فرض ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی حقیقی رائے کا صاف صاف اظہارکرے۔ جو شخص اجتماعی مشاورت میں اپنی صواب دید کے مطابق رائے دینے سے پرہیز کرتا ہے، وہ جماعت پر ظلم کرتا ہے، اور جو کسی مصلحت سے اپنی صوابدید کے خلاف رائے دیتا ہے وہ جماعت کے ساتھ غدر کرتا ہے۔ اور جو مشاورت کے موقعے پر اپنی رائے چھپاتا ہے، اور بعد میں جب اس کے منشا کے خلاف کوئی بات طے ہوجاتی ہے، تو جماعت میں بددلی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ بدترین خیانت کا مجرم ہے (ایضاً، ص ۲۲۱، ۲۲۲)۔
  •  پانچویں بات یہ ہے کہ جماعتی مشورے میں کسی شخص کو اپنی رائے پر اتنا مُصر نہ ہونا چاہیے کہ یا تو اس کی بات مانی جائے، ورنہ جماعت سے تعاون نہ کرے گا یا اجماع کے خلاف عمل کرے گا۔بعض نادان لوگ بربنائے جہالت اس کو ’حق پرستی‘ سمجھتے ہیں، حالانکہ   یہ صریح اسلامی احکام اور صحابہ کرامؓ کے متفقہ تعامل کے خلاف ہے۔ خواہ کوئی مسئلہ  کتاب و سنت کی تعبیر اور نصوص سے کسی حکم کے استنباط سے تعلق رکھتا ہو، یا دُنیوی تدابیر سے متعلق ہو، دونوں صورتوں میں صحابہ کرامؓ کا طرزِعمل یہ تھا کہ جب تک مسئلہ زیربحث رہتا۔ اُس میں ہرشخص اپنے علم اور اپنی صواب دید کے مطابق پوری صفائی سے اظہارِ خیال کرتا، اور اپنی تائید میں دلائل پیش کرتا تھا، مگرجب کسی شخص کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوجاتا، تو وہ یا تو اپنی رائے واپس لے لیتا تھا، یا اپنی رائے کو درست سمجھنے کے باوجود  فراخ دلی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دیتا تھا۔ جماعتی زندگی کے لیے یہ طریقہ ناگزیر ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جہاں ایک ایک شخص اپنی رائے پر اس قدر مُصر ہو کہ جماعتی فیصلوں کو قبول کرنے سے انکار کردے، وہاں آخرکار پورا نظامِ جماعت درہم برہم ہوکر رہے گا‘‘ (ایضاً، ص۲۲۲)۔

پھر یہاں پر مولانا مودودی نے ارکانِ جماعت کو متوجہ کیا کہ وہ مرحلہ آگیا ہے، جب انھیں اپنے قافلے کا ایک سربراہ منتخب کرنا ہے۔ اس موقعے پر صاف صاف لفظوں میں یہ ہدایت فرمائی:

  • امیرکے انتخاب میں آپ کو جو اُمور ملحوظ رکھنے چاہییں، وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص جو امارت کا اُمیدوار ہو، اسے ہرگز منتخب نہ کیا جائے۔ کیونکہ جس شخص میں اس کارِعظیم کی ذمہ داری کا احساس ہوگا، وہ کبھی اس بار کو اُٹھانے کی خود خواہش نہ کرے گا، اور جو اس کی خواہش کرے گا، وہ دراصل نفوذ و اقتدار کا خواہش مند ہوگا نہ کہ ذمہ داری سنبھالنے کا۔اس لیے اللہ کی طرف سے اس کی نصرت و تائید کبھی نہ ہوگی۔ انتخاب کے سلسلے میں لوگ ایک دوسرے سے نیک نیتی کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرسکتے ہیں، مگرکسی کے حق میں یا کسی کے خلاف نجویٰ اور سعی نہ ہونی چاہیے....
  • اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلامی جماعت میں امیر کی وہ حیثیت نہیں ہے، جو مغربی جمہوریتوں میں صدر کی ہوتی ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں جو شخص صدر منتخب کیا جاتا ہے، اس میں تمام صفات تلاش کی جاتی ہیں مگر کوئی صفت اگر نہیں تلاش کی جاتی تو وہ دیانت اور خوفِ خدا کی صفت ہے۔ بلکہ وہاں کا طریق انتخاب ہی ایسا ہے کہ جو شخص ان میں سب سے زیادہ عیار اور سب سے بڑھ کر جوڑتوڑ کے فن میں ماہر اور جائز و ناجائز ہرقسم کی تدابیر سے کام لینے میں طاق ہوتا ہے، وہی برسرِاقتدار آتا ہے...  
  • مگر اسلامی جماعت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے صاحب ِ امر کے انتخاب میں تقویٰ اور دیانت ہی کو تلاش کرتی ہے، اور اس بنا پر وہ اپنے معاملات پورے اعتماد کے ساتھ اس کے سپرد کرتی ہے.... اگر آپ کسی کو خداترس اور متدین پاکر اسے امیر بناتے ہیں تو اس پر اعتماد کیجیے۔ اور اگر آپ کے نزدیک کسی کی خداترسی و دیانت اس قدر مشتبہ ہو کہ آپ اُس پر اعتماد نہیں کرسکتے تو اس کو سرے سے منتخب ہی نہ کیجیے۔(ایضاً، ص ۲۲۲، ۲۲۳)

مذکورہ بالا تقریر کے بعد ۳شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء) کو دوپہر تک ارکانِ جماعت کے درمیان امیرجماعت کے انتخاب کی مختلف صورتوں کا مسئلہ زیربحث رہا:

  • ایک خیال یہ تھا کہ فی الحال عارضی طور پر امیرمنتخب کیا جائے اور مستقل امیر کے انتخاب کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔
  • دوسری رائے تھی کہ ابھی سرے سے کوئی امیر منتخب نہیں ہونا چاہیے بلکہ چند افراد پر مشتمل ایک مجلس کو اختیارات دے دیئے جائیں اور اس مجلس کا ایک صدر منتخب کرلیا جائے۔
  • تیسری رائے یہ تھی کہ جماعت، بلاامیر بالکل ہی بے اصل چیز ہے۔ اگر ایک تحریک کا آغاز،قیادت کے بغیر یا کسی عارضی قیادت کی بنیاد پر ہوگا تو ایسے کمزور، سُست، ڈھیلے ڈھالے آغاز کا اس عظیم نصب العین سے کچھ میل نہیں بنتا، اور نہ اس سے کوئی تحریک برپا ہوسکتی ہے۔

جب بحث نے طول پکڑا اور بڑے اجتماع میں کوئی اتفاق رائے حاصل نہ ہوسکا تو تینوں گروہوں نے یہ مسئلہ سات افراد کی ایک منتخب مجلس کے سپرد کر دیا۔ اس سات رکنی مجلس میں مولانا مودودی شامل نہیں تھے۔ یہ مجلس بحث و تمحیص کی تمام منازل سے گزر کر، ایک متفقہ نتیجے پر پہنچی کہ تحریک سربراہ کے بغیر نہ ہو، جماعت بلاامیرنہ رہے۔ مجلس کی تجویز، محمدمنظورنعمانی صاحب نے شام چاربجے اجتماع میں پڑھ کرسنائی اور ’’پوری جماعت نے اسے متفقہ طور پر قبول کرتے ہوئے طے کیا کہ اسے دستورِ جماعت میں باقاعدہ دفعہ دہم کی حیثیت سے بڑھا دیا جائے‘‘۔جب یہ فیصلہ ہوگیا تو سبھی نے متفقہ طور پر مولانا مودودی کو اپنا امیرمنتخب کرلیا۔

امیر جماعت کا انتخاب اور پہلا خطاب

یہ ۳ شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۷؍اگست۱۹۴۱ء ہی کا دن تھا۔ بیعت کا رسمی طریقہ اختیار کرنے کے بجائے سب نے دستور ِ جماعت کی دفعہ دہم کے مطابق اپنے امیر کی اطاعت کا عہد کیا۔ منظرایک بار پھر گذشتہ شام کا تھا۔ لوگ پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں روئے اور گڑگڑائے اور التجا کی کہ وہ اس جماعت کو اس کے نصب العین کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تب بحیثیت امیرجماعت مولانا مودودی کا یہ اوّلین خطاب تھا:

میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنےوالا تھا، نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی۔ بہرحال، جب آپ نے مجھ پر اعتماد کرکے اس کارِعظیم کا بارمیرے اُوپر رکھ دیا ہے تو میں اب اللہ سے دُعا کرتا ہوں اور آپ لوگ بھی دُعا کریں کہ مجھےاس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے.... میں اپنی حدوسع تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خدا ترسی اور پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ چلائوں۔ قصداً اپنے فرض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا۔ میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ اور خلفائے راشدینؓ کے نقشِ قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھوں گا۔ تاہم، اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو، اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ میں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں، تو مجھ پر یہ بدگمانی نہ کرے کہ میں عمداً ایسا کررہا ہوں، بلکہ حُسنِ ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھےسیدھاکرنے کی کوشش کرے۔(ایضاً، ص ۲۲۷)

مولانا مودودی نے امیر پر جماعت کا، اور جماعت پرامیر کا حق ان لفظوں میں بیان کیا:

آپ کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں اپنے آرام و آسایش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں۔ جماعت کے نظم کی حفاظت کروں۔ ارکانِ جماعت کے درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں۔ جماعت کی طرف سے جو امانتیں میرے سپرد ہوں، ان کی حفاظت کروں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دل و دماغ اور جسم کی تمام طاقتوں کو اس مقصد کی خدمت میں صرف کردوں، جس کے لیے جماعت اُٹھی ہے۔

اور میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک میں راہِ راست پرچلوں آپ اس میں میرا ساتھ دیں، نیک مشوروں اور امکانی امدادو اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیز کریں۔ مجھے اس تحریک کی عظمت اور خود اپنے نقائص کا پورا احساس ہے.... مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں کہ اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں بلکہ اس کو بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔

البتہ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی دوسرا اس کام کو چلانے کے لیے نہ اُٹھے تو میں بھی نہ اُٹھوں۔ میرےلیے تو یہ تحریک عین مقصد ِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو، بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا۔ کوئی ساتھ نہ دے گا تو میں اکیلا چلوں گا۔ ساری دُنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اس سے لڑنے میں بھی باک نہیں ہے۔(ایضاً، ص ۲۲۷، ۲۲۸)

اس خطاب کے آخر میں، مولانا مودودیؒ نے ایک نہایت بنیادی بات واضح کرکے بہت سی غلط فہمیوں کے امکانات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ انھوں نے فرمایا:

آخر میں ایک بات کی اور توضیح کردینا چاہتا ہوں۔ فقہ اور کلام کے مسائل میں میرا ایک خاص مسلک ہے، جس کو میں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بناپر اختیار کیا ہے۔ جو اصحاب ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتےرہے ہیں، وہ اس کو جانتے ہیں۔ اب کہ میری حیثیت اس جماعت کے امیر کی ہوگئی ہے، اس لیے میرے لیے یہ بات صاف کردینی ضروری ہے کہ فقہ و کلام کے مسائل میں جو کچھ میں نے پہلے لکھا ہے اور جو کچھ آیندہ لکھوں گا یا کہوں گا، اس کی حیثیت امیرجماعت اسلامی کے فیصلے کی نہ ہوگی بلکہ میری ذاتی رائے کی ہوگی۔ میں نہ تو یہ چاہتا ہوں کہ ان مسائل میں اپنی رائے کو جماعت کے دوسرے اہلِ علم و تحقیق پر مسلط کروں، اور نہ اسی کو پسند کرتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی عائد ہو کہ مجھ سے علمی تحقیق اور اظہاررائے کی آزادی سلب ہوجائے۔

ارکانِ جماعت کو مَیں خداوند برتر کا واسطہ دے کر ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص، فقہی و کلامی مسائل میں میرے اقوال کو دوسروں کے سامنے حجت کے طور پر پیش نہ کرے۔ اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی، جسے میں نے اپنی تحقیق کی بناپر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے، نہ تو دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلاتحقیق، میرا عمل ہونے کی حیثیت سے اس کا اتباع کریں۔ ان معاملات میں ہرشخص کے لیے آزادی ہے۔ جو لوگ علم رکھتے ہوں، وہ اپنی تحقیق پر، اور جو علم نہ رکھتے ہوں،وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں، اس کی تحقیق پرعمل کریں۔ نیز ان معاملات میں لوگ مجھ سے اختلاف رائے رکھنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی آزاد ہیں۔ ہم سب جزئیات و فروع میں اختلاف رائے رکھتے ہوئے بھی ایک جماعت بن کر رہ سکتے ہیں، جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رہتے تھے۔(ایضاً، ص ۲۲۸، ۲۲۹)


۴شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۸؍اگست ۱۹۴۱ء جماعت اسلامی کے تشکیل کے بعد پہلا دن تھا۔

بنیادی شعبہ جات اور تقسیم کار

امیرجماعت نے اصحابِ شوریٰ سے مل کر (جن کا انتخاب انھوں نے گذشتہ شام ۲۷؍اگست ۱۹۴۱ء کو کرلیا تھا) ابتدائی طور پر کام کو پانچ شعبوں میں تقسیم فرمایا:

  • شعبۂ علمی و تعلیمی کا کام یہ ہوگا:اسلام کے نظامِ فکر اور نظامِ حیات کا اس کے مختلف فلسفیانہ اور عملی اور تاریخی پہلوئوں میں گہرا تفصیلی مطالعہ کرے۔ دُنیا کے دوسرے نظاماتِ فکروعمل پر بھی وسیع تنقیدی و تحقیقی نظر ڈالے، اور اپنے نتائجِ تحقیق کو ایک ایسے زبردست لٹریچر کی شکل میں پیش کرے، جو نہ صرف اسلامی اصول پر ذہنی و فکری انقلاب برپا کرنے والا ہو، بلکہ نظامِ اسلامی کے بالفعل قائم ہونے کے لیے بھی زمین تیار کرسکے۔ ایک ایسا نظریۂ تعلیمی اور نظامِ تعلیم مرتب کرے، جو اسلام کے مزاج سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہو ، اور دُنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔ اپنے نظریۂ تعلیمی کے مطابق نصاب اور معلمین تیار کرے اور بالآخر درس گاہ قائم کرکے آیندہ نسل کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا کام شروع کر دے۔
  •  شعبۂ نشرواشاعت: شعبۂ علمی و تعلیمی سے جو لٹریچر تیار کیا جائے، اس شعبے کا فرض ہوگا کہ جہاں تک ممکن ہو، خدا کے بندوں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔ ہر جگہ ریڈنگ روم اور بُک ڈپو قائم کرے۔
  • شعبۂ تنظیم جماعت کے فرائض ہوں گے: کارکنوں کو ہدایات دینا،انفرادی شکل میں موجود ارکان، مقامی جماعتوں اور جماعت کے نصب العین کی طرف بڑھنے والے حلقوں سے مکمل رابطہ رکھنا۔ رفتار کا جائزہ لیتےرہنا (ایضاً، ص ۲۲۹-۲۳۱)۔
  •   شعبۂ مالیات کے کام کا آغاز۷۴ روپے چودہ آنے کی نقد رقم سے ہوا، جو اسے ادارہ دارالاسلام کی طرف سے ملی۔ ۱۹۳۸ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کے لیے مولانا مودودی نے اپنی تمام کتابیں (الجہاد فی الاسلام اور رسالہ دینیات کے سوا) وقف کر دی تھیں۔ اب اس ادارے میں موجود کتب (مالیت -/۲۰۱۴ روپے) اور تاجروں اور ایجنٹوں کے ذمہ واجب الادا رقوم (۱۳۵۶ روپے دو آنے) بھی جماعت اسلامی کے شعبہ مالیات کا اثاثہ قرارپائیں۔ جماعت کے ذی استطاعت ارکان پر لازم ہے کہ زیادہ سے زیادہ، جس قدر مالی ایثار کرسکتے ہوں کریں۔ رہے جماعت سے باہر کے لوگ، تو اگر وہ بخوشی اور بلاشرط خود کوئی مدد دینا چاہیں، تو قبول کرلی جائے۔ لیکن کوئی بڑی سے بڑی مالی اعانت بھی اس صورت میں قبول نہ کی جائے، جب کہ یہ اندیشہ ہو کہ اس کے معاوضے میں جماعت کی پالیسی پر اثرڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل، ص ۴۰،۴۱)
  • شعبۂ دعوت و تبلیغ جماعت کا سب سے اہم شعبہ ہے، اور دراصل کامیابی کا انحصار ہی اس شعبے کی کارگزاری پر ہے۔ہرشخص جو جماعت اسلامی کا رکن ہو، لازمی طورپراس شعبے کا کارکن ہوگا۔ اس کو دائماً ایک مبلغ کی زندگی بسرکرنی ہوگی۔اس کے لیے لازم ہوگا کہ جہاں، جس حلقے میں بھی اس کی پہنچ ہوسکتی ہو، نصب العین کی طرف دعوت دے اور جماعت کے نظام کی تشریح کرے۔

                        اس شعبے میں کام کرنے کے لیے آٹھ مختلف حلقے معین کر دیے جائیں، اور جماعت کا ہرکارکن اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے صرف انھی حلقوں میں تبلیغ کرے، جن سے وہ زیادہ مناسبت رکھتا ہو۔ یہ حلقے ہیں:(۱)جدید تعلیم یافتہ لوگوں اور کالجوں کا حلقہ (۲) علمائے کرام اور مدارسِ عربیہ کا حلقہ (۳) صوفیا اور مشائخ طریقت کا حلقہ (۴) سیاسی جماعتوں کا حلقہ (۵) شہری عوام کا حلقہ (۶) دیہاتی عوام کا حلقہ (۷) عورتوں کا حلقہ (۸)غیرمسلموں کا حلقہ(رُوداد، اوّل، ص ۴۲،۴۳)۔

امیرجماعت کی ہدایات

جماعت اسلامی کے لائحہ عمل سے متعلق جب ان شعبوں کا تعین اور اعلان کر دیا گیا، تو امیرجماعت اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے حاضرین کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:

  • جماعت کے ارکان کو ایسے تمام طریقوں سے پرہیز کرنا چاہیے، جو ان کو مسلمانوں میں ایک فرقہ بنانے والے ہوں۔ اپنی نمازیں الگ نہ پڑھیے،بحثیں اور مناظرے نہ کیجیے۔ جہاں تحقیق کے لیے نہیں بلکہ ضد اور مخالفت کی بناپر اس تحریک [یعنی جماعت]کو معرضِ بحث میں لایا جائے، وہاں صبروضبط سے کام لیجیے۔ خصوصاً جہاں میری ذات پر حملے کیے جائیں، وہاں تو ہرگز مدافعت نہ کیجیے۔ میں نہ خود اپنی مدافعت کرتا ہوں اور نہ اپنے رفیقوں سے چاہتا ہوں کہ وہ اس فضول کام میں اپنا وقت اوراپنی قوتیں ضائع کریں۔ البتہ جہاں کوئی شخص سنجیدگی سے طالب تحقیق ہو، وہاں اپنی تائید میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔مگر جب بحث میں گرمی آتی محسوس ہو تو سلسلۂ بحث بند کر دیجیے، کیونکہ مناظرہ وہ بلا ہے، جس سے ہزار فتنے پیدا ہوتے ہیں۔(ترجمان القرآن، ایضاً، ص ۲۳۸)

بحیثیت مسلمان کے ایک ذمہ دارانہ زندگی شروع کرنے کا اور اس سے کلمۂ شہادت کا تعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا:

  • جماعت میں جب کوئی نیا شخص داخل ہو تو اسے پورا احساسِ ذمہ داری دلا کر اَزسرِنو  کلمۂ شہادت ادا کرایا جائے۔ اس تجدید ِایمان کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو عہد اس کے اور خدا کے درمیان پہلے موجود تھا، آج وہ اسے تازہ اور خالص اور مضبوط کر رہا ہے۔  تجدیدِ ایمان کے موقعے پر یہ بات ہرنئے داخل ہونے والے رکن کے ذہن نشین کردینی چاہیے کہ یہ دراصل زندگی کے ایک نئے باب کا افتتاح ہے، آج سے تمھاری ایک بامقصد اور ذمہ دارانہ زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔(ایضاً، ص ۲۳۵، ۲۳۶)
  • جو شخص جماعت میں داخل ہو، اُس کو تحریک ِ اسلامی کے لٹریچر کا بیش تر حصہ پڑھوا دیا جائے، تاکہ وہ اس تحریک کے تمام پہلوئوں سے واقف ہوجائے، اور تحریک کے ارکان میں ذہنی و عملی ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔ اس معاملے میں کسی کے متعلق یہ فرض نہ کرلیا جائے کہ وہ پہلے ہی سب کچھ سمجھنا ہوگا۔ اگر اس مفروضے پر ایسے لوگوں کی بڑی تعداد جماعت میں داخل کرلی گئی، جو اس تحریک کے لٹریچر پر نظر نہ رکھتے ہوں، تو اندیشہ ہے کہ جماعت کے ارکان متضاد باتیں اور متضاد حرکات کریں گے۔
  •  ہرجگہ [ہفتے میں ایک بار] ایک جگہ جمع ہونا چاہیے۔ اس اجتماع میں ہفتہ بھر کے کام کا جائزہ لیا جائے، آیندہ کام کے لیے باہمی مشورے سے تجاویز سوچی جائیں۔ بیت المال کے حسابات دیکھے جائیں، اور تحریک کے لٹریچر کے متعلق کوئی نئی چیز شائع ہوئی ہو تو، اس کا مطالعہ کیا جائے۔
  • جماعت کے ارکان کو قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے خاص شغف ہونا چاہیے۔ ان چیزوں کو بار بار، زیادہ سے زیادہ گہری نظرسے پڑھا جائے اور محض عقیدت کی پیاس بجھانے کے لیے نہیں بلکہ ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے۔جہاں ایسا کوئی آدمی موجود ہو، جو قرآن کا درس دینے کی اہلیت رکھتا ہو، وہاں درسِ قرآن شروع کر دیا جائے۔
  • اس تحریک کی جان دراصل تعلق باللہ ہے۔ اگر اللہ سے آپ کا تعلق کمزور ہو تو آپ حکومت ِ الٰہیہ قائم کرنے اور کامیابی کے ساتھ چلانے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا، فرض عبادات کے ماسوا نفلی عبادات کا بھی التزام کیجیے۔ نفل نماز، نفل روزے، اور صدقات وہ چیزیں ہیں، جو انسان میں خلوص پیدا کرتی ہیں، اور ان چیزوں کو زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ کرنا چاہیے، تاکہ ریا نہ پیدا ہو۔ نماز سمجھ کرپڑھیے، اس طرح نہیں کہ ایک یاد کی ہوئی چیز کو آپ زبان سےدُہرارہے ہیں، بلکہ اس طرح کہ آپ خود اللہ سے کچھ عرض کررہے ہیں۔ نمازپڑھتےوقت اپنے نفس کا جائزہ لیجیے کہ جن باتوں کا اقرار آپ عالم الغیب کے سامنے کر رہے ہیں، کہیں آپ کا عمل ان کے خلاف تو نہیں ہے، اور آپ کا اقرار جھوٹا تو نہیں ہے۔ اس محاسبۂ نفس میں اپنی جو کوتاہیاں آپ کو محسوس ہوں، ان پر استغفار کیجیے اور آیندہ ان خامیوں کو رفع کرنے کی کوشش کیجیے۔
  • جماعت کے ارکان [اور کارکنان]کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ایک بہت بڑا دعویٰ لے کر، بہت بڑے کام کے لیے اُٹھ رہے ہیں۔ اس لیے ہرشخص کو جو اس جماعت میں شامل ہو اپنی دوہری ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ خدا کے سامنے تو وہ بہرحال ذمہ دار ہے، مگر خلقِ خدا کے سامنے بھی اس کی ذمہ داری بہت سخت ہے۔ جس بستی میں بھی آپ لوگ موجود ہوں، وہاں عام آبادی سے آپ کے اخلاق بلند تر ہونے چاہییں، بلکہ آپ کو بلندیٔ اخلاق، پاکیزگیٔ سیرت اور دیانت و امانت میں ضرب المثل بن جانا چاہیے۔ آپ کی ایک معمولی لغزش نہ صرف جماعت کے دامن پر بلکہ اسلام کے دامن پر دھبہ لائے گی اور بہت سے لوگوں کے لیے سبب گمراہی بن جائے گی۔
  • تحریک اسلامی کا ایک خاص مزاج اور مخصوص طریق کار ہے، جس کے ساتھ دوسری تحریکوں کے طریقے کسی طرح جوڑ نہیں کھاتے۔ بے لگام تقریریں اور گرما گرم تحریریں، اور اس نوعیت کی تمام چیزیں اُن [دوسری] تحریکوں کی جان ہیں، مگر اس تحریک [اسلامی] کے لیے سمِ قاتل ہیں۔ یہاں کا طریق کار قرآن اور سیرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرتوں سے سیکھیے، اور اس کی عادت ڈالیے۔ آپ کو زبان یا قلم یا مظاہروں سے عوام پر سحر نہیں کرنا ہے کہ ان کے ریوڑ کے ریوڑ آپ کے پاس آجائیں اور آپ انھیں ہانکتے پھریں۔
  • آپ کو یہ عزم پیدا کرنا ہے کہ اپنی انفرادی زندگی اور گردوپیش کی اجتماعی زندگی کو حقیقت ِ اسلامی کے مطابق بنائیں اور جو کچھ باطل ہو، اسے مٹانے میں جان و مال کی بازی لگادیں۔ لوگوں کے اندر یہ گہری تبدیلی ساحری اور شاعری سے پیدا نہیں ہوا کرتی۔ آپ میں سے جو مقرر ہوں، وہ پچھلے اندازِ تقریر کو بدلیں اور ذمہ دار مومن کی طرح جچی تلی تقریر کی عادت ڈالیں۔ جو محرّر [لکھنے والے] ہیں، انھیں بھی غیرذمہ دارانہ اندازِ تحریر کو بدل کر اس آدمی کی سی تحریر اختیار کرنی چاہیے، جو لکھتے وقت احساس رکھتا ہے کہ اسے اپنے ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے۔
  • مختلف پارٹیوں اور مذہبی فرقوں اور مقامی قبیلوں اور برادریوں کے نزاعات سے بالکل کنارہ کش رہنا چاہیے۔ بالکل یک سُو ہوکر اپنے نصب العین کے پیچھے لگ جایئے۔ جو عمل خدا کی راہ میں نہیں ہے، اس میں مشغول ہوکر آپ اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کریں گے حالانکہ آپ کو اپنے وقت اور اپنی قوتوں کا حساب دینا ہے۔
  • تبلیغ میں حکمت اور موعظۂ حسنہ کو ملحوظ رکھیے: ’حکمت‘ یہ ہے کہ آپ مخاطب کی ذہنیت کو سمجھیں۔ اس کی غلط فہمی یا گمراہی کے اصل سبب کی تشخیص کریں۔ اس کو ایسے طریقے سے تلقین کریں، جو زیادہ سے زیادہ اس کے مناسب حال ہو۔’موعظۂ حسنہ‘ یہ ہے کہ جس [کے سامنے] آپ تبلیغ کریں، اس کے سامنے آپ اپنے آپ کو دشمن اور مخالف کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کے بہی خواہ اور دردمند کی حیثیت سے پیش کریں۔ ایسے باوقار، بلیغ اور شیریں انداز سے راہِ راست کی طرف دعوت دیں، جو کم سے کم تلخی پیدا کرنے والا ہو.... یہ کہ بے موقع تبلیغ نہ کیجیے۔ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ دعوت الی الخیر سننے یا کسی نصیحت کو قبول کرنے کے موڈ میں نہ ہو، اس وقت اسے دعوت دینا، یا ایک وقت میں جتنی خوراک وہ قبول کرسکتا ہو، اس سے زیادہ خوراک اس کے اندر اُتارنے کی کوشش کرنا، بجائے مفید اثر ڈالنے کے، اُلٹا خراب اثر ڈالتا ہے۔ اسلام ایک حکیمانہ دین ہے اور اس کے مبلغ کو حکیم ہونا چاہیے۔(ایضاً، ص ۲۳۶-۲۴۰)

۵ شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۹؍اگست ۱۹۴۱ء جماعت اسلامی کے اس تاسیسی اجتماع کا آخری دن تھا۔امیرجماعت نے اصحابِ شوریٰ کے مشورے سے جماعت کے ابتدائی پروگرام سے متعلق کچھ اُمور طے کیے، اور یہ اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ آنے والے یہ چند فرزانے ایمان، رہنمائی اور جذبوں کی دولت لے کر ہندستان بھر میں پھیل گئے۔


اجتماع میں آنے والوں کا سلسلہ یومِ تاسیس ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کے بعد بھی جاری رہا۔ اس کا اشارہ  ترجمان القرآن کے ان اشارات سے ملتا ہے، جو اجتماع کے بعد لکھےگئے:

جماعت اسلامی کی تشکیل کا استقبال مختلف حلقوں میں مختلف طور پرہوا ہے:

__ کچھ اللہ کے بندے تو ایسے ملتے ہیں، جو اس چیز سے واقف ہوتے ہی اسے اس طرح قبول کرتے ہیں، گویا کہ وہ پہلے ہی سے اس کے طالب تھے۔

__کچھ دوسرے لوگ اس پر غور کرتے ہیں اور مختلف قسم کے شبہات پیش کر کے مزید توضیح چاہتے ہیں۔

__ کچھ اور لوگوں کے دل نے گواہی دی ہے کہ مخالفت کے لائق اگر کوئی چیز ہے تو یہی ہے۔

__ اور ایک گروہ کثیر، انتظار کی روش کو ترجیح دے رہا ہے۔

__یہ سب مختلف قسم کے استقبال، خلافِ توقع نہیں ہیں، پہلے ہی ان کا اندازہ تھا۔

البتہ جو چیز ہمارے اندازے سے بڑھ کر نکلی، وہ لبیک کہنے والوں کی تعداداور اُن کی کیفیت ہے۔ [غیرمنقسم]ہندستان کے اس قبرستان میں مشکل ہی سے یہ اُمید کی جاسکتی تھی کہ اس طرز کے ایک نظام کو قبول کرنے اور اس پر کام کرنے کے لیے ڈیڑھ سو سے زیادہ آدمی ابتدا ہی میں اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

__یہ بات اور بھی کم متوقع تھی کہ اس چیز پر لبیک کہنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہوں گے، جو روح و ضمیر کی ان قتل گاہوں سے سند ِ موت لے کر نکلے تھے، جن کو کالج اور یونی ورسٹی کہتے ہیں۔

__ ان سب سے بڑھ کر یہ بات ہمت افزا ہے کہ جن لوگوں نے پیش قدمی کی ہے،  ان میں سے اکثر کے طرزِ اقدام سے احساسِ ذمہ داری کا اظہار ہورہا ہے۔ وہ اس تحریک اور دوسری تحریکوں کے فرق کو سمجھتے ہوئے آرہے ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ وہ کھیل کے میدان میں نہیں اُتررہے ہیں بلکہ شہادت گہ اُلفت میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ وضع احتیاط کے ساتھ اپنے نفس کا احتساب کرتے ہوئے بڑھ رہے ہیں کہ جو قدم بھی خدا کی راہ میں اُٹھے پھر پیچھے نہ پلٹے:ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔(ماہ نامہ ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۱ء، ص ۲)

داعی تحریک ِ اسلامی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مذکورہ بالا خطبات میں بیان کردہ اہداف اور ہدایات میں نشانِ منزل بھی ہے، اور منزل کے راستے کا نقشہ بھی۔ ان کلمات میں راستوں کی رکاوٹیں بھی درج ہیں اور عزم و ہمت کے مینار بھی روشن ہیں۔ دردِ دل میں ڈوبی اس رہنمائی میں تنظیم و تحریک سے وابستہ ہرفرد کے لیے احتسابِ ذات اور احتسابِ تحریک کا پورا نصاب بھی صاف صاف درج ہے۔

 آج ۸۰ برس ہوچکے ہیں۔ اس کاروانِ شوق کو منزل کی جانب سفر کرتے ہوئے پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، جموں و کشمیر میں فکری یگانگت، مگر یکسرطور پر الگ الگ تنظیمی وجود  کے باوجود، حق کے راہی گرمِ سفر ہیں۔ اب پرچم تیسری نسل کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ شجر طیبہ برگ و بار لارہاہے، قربانیاں دے رہا ہے، ہر رکاوٹ میں سےراستے نکال کر منزل کی جانب بڑھ رہا ہے۔

مگر داعی کی پکار اور تاسیسِ جماعت کے مخاطب آج ہم خود اہلِ قافلہ ہیں۔ اس لیے ہم میں سے ہردیکھنے والا دیکھ لے، اور ہر تولنے والا تول لے: قافلہ کہاں سے شروع ہوا اور کن منزلوں سے ہوتا ہوا کہاں تک پہنچا ہے، اور کتنا سفر باقی ہے!

اللہ تبارک وتعالیٰ نے خاتم الانبیا سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو قرآنِ کریم میں’خیر الامم‘ یعنی سب سے بہترین امت اور ’اُمَّتِ وَسَط‘کا لقب عطا فرمایاہے۔ ’وَسَط‘ کے معنی ہیں: ’’(عقیدہ وعمل میں)اعتدال اور توازن پر قائم رہنے والا،جو غُلُوّ اور افراط وتفریط سے پاک ہو۔ مفسّرین کرام نے ’وَسَط‘کا ایک معنی بہترین اور افضل امت بتایا ہے۔ اس اعتبار سے ’خیرالامم‘ اور ’وَسَطُ الامم‘ ہم معنی کلمات ہیں۔

            قرآنِ کریم نے جہاں اس امت کو ’خیرالامم‘ کے اعزاز سے نوازا ہے ،وہاںاس کے فرائض بھی بیان فرمائے ہیں، ارشاد فرمایا: ’’جو امتیں لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہیں، تم ان میں سب سے بہترین امت ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہواور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، (اٰل عمران۳:۱۱۰)‘‘۔

 سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پراللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا ،دین کی تکمیل اور اتمامِ نعمت کا اعلان فرمایااور آپؐ کوسلسلۂ نبوت ورسالت کا آخری تاج دار بنایا۔ آپؐ سے پہلے یکے بعد دیگرے انبیائے کرام علیہم السلام تشریف لاتے رہے اور راہِ راست سے بھٹکی ہوئی اپنی امتوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ درمیان میںانقطاعِ نبوت کے اَدوار بھی آئے۔  ان اَدوار میں انبیائے کرامؑ کی تعلیمات بھلادی گئیں ، اُن میں تحریف کردی گئی یا انھیں مسخ کردیا گیا، تو دین وشریعت کو اپنی اصل شکل پر بحال کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرامؑ بھیجے۔   مگر چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی نبی اور رسول کے آنے کا امکان ختم کردیا گیا، اس لیے  تجدید واِحیاء اور ابلاغِ دین کی ذمے داری کو آپؐ کی امت کی طرف منتقل فرمادیا۔

آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تمام حاضرین سے اس بات کا اقرارلیا کہ آپؐ نے دین کو بکمال وتمام امت تک پہنچادیا ہے۔پھر یہ فریضہ امت کو منتقل کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: (۱)’’جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ دین کے اس پیغام کو اُن تک پہنچادیں جو یہاں پر موجود نہیں ہیں، (بخاری:۱۰۴)‘‘، (۲)’’مجھ سے تم نے جو امانتِ دین حاصل کی ہے، اُسے دوسروں تک پہنچادو ،خواہ ایک آیت ہی ہو، (صحیح البخاری:۳۴۶۱)‘‘۔

            اسلام نے دعوتِ حق کا فریضہ بحیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ کو فرضِ کفایہ کے طور پر تفویض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے، جوبھلائی کی طرف بلائے ، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، یہی لوگ کامیاب ہیں، (اٰل عمران۳:۱۰۴)‘‘۔ فرضِ کفایہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر ایک جماعت دعوتِ حق کے اس فریضے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو تو باقی لوگ بری الذمہ ہیں ، ایساہرگز نہیں ہے۔ ہر ایک اپنے دائرۂ کار واختیار کی حد تک جواب دہ رہے گا۔حدیث پاک میں ہے:

  • ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:’’تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہرشخص اپنے ماتحت لوگوں کی طرف سے جواب دہ ہے۔ سربراہِ حکومت نگہبان ہے، اُس سے پوری رعیّت کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور ایک شخص اپنے خاندان کا نگہبان ہے اور اُس سے اُن کی بابت پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اُس سے اس کی بابت سوال ہوگا، ملازم اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اُس کی بابت سوال ہوگا،اور میرا گمان ہے کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’اور جو شخص اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے ، اُس سے اس کی بابت سوال ہوگا ،(الغرض) ہر ایک کسی نہ کسی درجے میں نگہبان ہے اور اُس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا، (صحیح البخاری: کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری والمدن، حدیث: ۸۹۳)‘‘۔
  •  ’’جو تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے روکے اوراگر یہ نہ کرسکے تو اپنی زبان سے روکے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو دل میں اُسے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے، (صحیح مسلم:۹۵)‘‘۔

اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام نے کہاہے:’’ برائی کو طاقت سے روکناہر عہد کے حکمرانوں کی (درجہ بدرجہ )ذمے داری ہے۔ برائی کے خلاف زبان وقلم سے صدائے احتجاج بلند کرنا اہلِ علم کی ذمے داری ہے اور اگر کوئی اس کی بھی استطاعت نہ رکھے تو برائی کو دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔ حدیث پاک میں اسے ’اَضْعَفُ الْاِیْمَان‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس پر بعض حضرات سوال اٹھاتے ہیں: ’’جب کوئی شخص نہ طاقت سے برائی کو روکنے کی قدرت رکھتا ہے،نہ زبان سے صدائے احتجاج بلند کرسکتا ہے، تو اس میں اس کا کیا قصور ہے کہ اُس کے ایمان کادرجہ کمزور ترین بتایا گیا ہے،جب کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی بات کے لیے جواب دہ نہیں بناتا، (البقرہ۲:۲۸۶)‘‘۔

            اس کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے :’’اس میں مختلف حالات کی طرف اشارہ ہے : کبھی حالات دعوتِ حق کے لیے سازگار ہوتے ہیں اور برائی کو ہاتھ سے روکا جاسکتا ہے۔کبھی ایسے ہوتے ہیں کہ برائی کوہاتھ سے تونہیں روکا جاسکتا، لیکن زبان وقلم سے صدائے احتجاج بلند کی جاسکتی ہے، اورکبھی دین کے لیے حالات اتنے مشکل ہوجاتے ہیں کہ برائی کو نہ ہاتھ سے روکا جاسکتا ہے اور نہ زبان سے صدائے احتجاج بلند کی جاسکتی ہے،توایسے حالات میں لوگ اس بات کے مکلّف ہوں گے کہ دل سے برائی سے نفرت کریں اور اپنا دامن برائی سے بچائے رکھیں۔ایسے حالات کو اَضْعَفُ الْاِیْمَان سے تعبیر کیا گیا ہے،الغرض یہ تین درجے (اقویٰ، اوسط اوراضعف)تین قسم کے حالات سے متعلق ہیں اور انسان اپنے حسبِ حال ہی دین کے لیے کردار ادا کرنے کا پابند ہے۔ حالات کسی کو اَضْعَفُ الْاِیْمَان  کے درجے کو پہنچادیں تواس میں اس کا ذاتی قصور کوئی نہیں ہے‘‘۔

            کلمۂ حق بلند کرنے کی قدرت کے باوجود لاتعلق رہنے والوں کے لیے ،خواہ وہ اپنی ذات میں پارسا ہی کیوں نہ ہوں، حدیث پاک میں وعید آئی ہے:

’’حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ حضرت جبریلؑ کو حکم فرماتا ہے : ’’فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو ‘‘۔ جبریل امینؑ عرض کرتے ہیں :’’ پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں (انتہائی متقی ) بندہ ہے ، جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی(اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟)‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:’’ اُس سمیت اِس بستی کو الٹ دو ، کیونکہ میری ذات کی خاطر اس کا چہرہ کبھی بھی غضب ناک نہیں ہوا(شعب الایمان:۷۱۸۹)‘‘۔

حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے دینِ اسلام کی حدود پامال ہوتی رہیں ، مُنکَرات کا چلن عام رہا، لیکن ان برائیوں کو روکنے کی عملی تدبیر تو دور کی بات ہے ، حدودِ الٰہی اور دینی اقدار کی پامالی پرکبھی اس کی جبین پر شکن بھی نہیں آئی۔وہ صرف اپنی عبادت اور ذکرواذکار میں مشغول رہا ، اپنے حال میں مست رہا، برائیوں کو مٹانے اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک مسلمان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے قطعی طور پر غافل اور لاتعلق رہا۔

الغرض ’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘کے فلسفے کی شریعت میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ہرایک حسبِ استطاعت اور حسبِ حال امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا پابند ہے، حدیث پاک میں ہے:

 ابواُمیّہ شعبانی بیان کرتے ہیں، میں ابوثعلبہ خُشَنی؄  کے پاس آیا اور میں نے اُن سے کہا: ’’اس آیت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’کون سی آیت؟‘‘، میں نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے مومنو! اپنی فکر کرو ،اگر تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی تمھیں نقصان نہیں پہنچائے گی(المائدہ۵:۱۰۵)‘‘، [دراصل، سائل کو شبہہ تھا کہ امت کی ذمہ داری تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے، ہمیں توپوری انسانیت کو بچانے کی تدبیر کرنا ہے اورآیت کا ظاہری مفہوم یہ پیغام دے رہا ہے: ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘]۔ انھوں نے جواب دیا:’’ میں نے اس کی بابت سب سے زیادہ باخبر شخصیت، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاتھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلکہ تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے رہو،حتیٰ کہ ایسا وقت آجائے کہ تم دیکھوکہ بخیل کا حکم مانا جارہا ہے ، خواہشاتِ نفس کی پیروی کی جارہی ہے، دنیا کو دین پرترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے۔ (تو یہ مشکل وقت ہے ، پس ایسے وقت میں) اپنے دین کو بچانے کی فکر کرو اور عوام کو اُن کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ اب تمھارے پیچھے اتنے مشکل دن ہیں کہ گویا آگ کی چنگاری کو مٹھی میں لینا۔ ایسے ایام میں جو خیر پر قائم رہے گا، اُسے پچاس افراد کے برابر اجر ملے گاجو تم جیسا کام کریں۔ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں، ایک روایت میں ہے: عرض کیا گیا: یارسول اللہ!ہمارے پچاس افراد کے برابر یا اُس دور کے پچاس افراد کے برابر(اجر ملے گا)، آپؐ نے فرمایا: تمھارے پچاس افراد کے برابر، (سنن ترمذی:۳۰۵۸)‘‘۔

اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ممکن ہو، دعوتِ حق کے فریضے کو ادا کرتے رہنا چاہیے، سوائے اس کے کہ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ دعوتِ حق کا فریضہ ادا کرنا عملاً ناممکن یا مشکل ترین ہوجائے۔پس، ایسے حالات میں اپنے دین کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے ،کیونکہ جب حالات بندے کے بس سے باہر ہوجائیں تو اُس سے اُن کے بارے میں جواب طلبی نہیں ہوگی۔

دعوتِ حق کی تاثیر میں داعی کی اپنی بے عملی اور دوغلا پن، یعنی قول وفعل کا تضاد بھی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلادیتے ہو، حالانکہ تم کتابِ (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہو، تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو، (البقرہ۲:۴۴)‘‘۔

 نیز فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو خود نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے، (الصف۶۱:۲-۳)‘‘۔

احادیثِ مبارکہ میں ہے:

  • ’’ حضرت اسامہؓ بن زید بیان کرتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا ،پس اُس کی آنتیں آگ میں نکل رہی ہوں گی اور جس طرح کولہو کا گدھا چکی کے گرد چکر کاٹ رہا ہوتا ہے ، وہ اپنی آنتوں سمیت جہنم کی آگ میں چکر کاٹ رہا ہوگا ۔ پس جہنمی لوگ وہاں جمع ہوں گے اور کہیں گے: اے فلاں صاحب! آپ اس انجام سے کیسے دوچار ہوئے ، آپ تو ہمیں نیکی کا حکم دیتے تھے اور برائی سے روکتے تھے؟ وہ کہے گا: (بے شک )میں تمھیں نیکی کا حکم دیتا تھا ، لیکن خود اُس نیک عمل سے عاری رہتا تھا اور میں تمھیں برائی سے روکتا تھا ،لیکن خود اس برائی میں مبتلا رہتا تھا ،(اس بناپر میں اس انجام سے دوچار ہوا)،(صحیح البخاری:۳۲۶۷)‘‘۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(عام شرعی ضابطہ یہ ہے کہ )اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے عملِ(بد) کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا،تاوقتیکہ وہ اپنے درمیان برائی کو (پھیلتا) دیکھیں اور وہ اس کو روکنے پر قدرت کے باوجود نہ روکیں ، سو جب وہ یہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کی بدکاریوں کی سزا عام لوگوں کو بھی دے گا،(شرح السنہ للبغوی: ۴۱۵۵)‘‘۔ کیونکہ انھوں نے قدرت کے باوجود ’نہی عن المنکَر‘ کا فریضہ ادا نہیں کیا۔
  • اسی ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’معراج کی رات مجھے (تمثیل کے طور پر)کچھ لوگ دکھائے گئے جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا۔  میں نے پوچھا: جبریلؑ! یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ آپ کی اُمت کے خطبا ہیں، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ وہ کتاب ِ (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہیں توکیا   وہ جانتے نہیں ہیں(کہ ان احکام کے پابند وہ بھی ہیں)،(شرح السنہ للبغوی: ۴۱۵۹)‘‘۔

اہلِ کتاب کے علماء میں قول وفعل کے تضاد کی خرابی رچ بس گئی تھی ،جسے قرآنِ کریم نے مندرجہ بالا آیات میں بیان فرمایا ہے، بلکہ اُن کی خرابی اس سے بھی کئی درجے بڑھ کر تھی۔ حدیث پاک میں ہے:

  • ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:   بنی اسرائیل میں پہلے پہل خرابی نے اس طرح نفوذ کیاکہ جب ایک شخص دوسرے کو برائی میں مبتلا دیکھتا تو کہتا: کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو، یہ کرتوت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اگلے دن ملتاتو اسے اُس کام سے نہ روکتابلکہ اس کا ہم نوالہ وہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا۔ پھر جب اُن کے کرتوت اسی طرح ہوتے چلے گئے، تو (اس کے وبال کے طور پر)اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا۔ پھر آپؐ نے المائدہ کی آیات [۷۸تا۸۰] تلاوت کرکے فرمایا: ’’ہرگزنہیں! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اورتم ضرور ظلم کا راستہ روکو گے اور لوگوں کو حق قبول کرنے پر مجبور کرو گے ،(ابوداؤد:۴۳۳۶)‘‘۔

سورۃ المائدہ کی مذکورہ بالا آیات کا ترجمہ یہ ہے:’’بنی اسرائیل میں سے جنھوں نے کفر کیا، اُن پر دائودؑ اور عیسیٰؑ ابنِ مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، کیونکہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے۔ وہ جو بُرا کام کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے، یقینا وہ بہت بُر ے کام کرتے تھے، (المائدہ۵:۷۸-۷۹)‘‘۔

  • حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تم ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی( بعینہٖ) پیروی کروگے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گو ہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے ، تو تُم بھی ان کی پیروی کروگے۔ ہم نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! کیاآپؐ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا : اور کون ؟، ( بخاری: ۷۳۲۰)‘‘۔ ایسا نہیں کہ بلا امتیاز تمام اہلِ کتاب کو ملامت کیا گیا ہو، اُن میں سے اچھے لوگوں کا قرآنِ کریم میں استثناء بھی فرمایا گیا ہے، ارشاد ہوا:’’سب اہلِ کتاب برابر نہیں، اہلِ کتاب میں سے کچھ لوگ حق پر قائم ہیں۔وہ رات کے اوقات میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں، اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ،نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں ایک دوسرے پرسبقت کرتے ہیں۔ یہ نیک لوگوں میں سے ہیں، (آل عمران۳:۱۱۴)‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ کتاب کا بیان ہے۔

            قرآنِ کریم میں مسلمانوں کا شعار یہ بیان کیا گیا ہے: ’’مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائی سے منع کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، وہی ہیں جن پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب اور عظیم حکمت والا ہے، (التوبہ۹:۷۱)‘‘۔ جہاں دعوتِ حق میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے والے اہلِ ایمان کی تعریف کی گئی ہے، وہاں حدیث پاک میں اس فریضے سے لا تعلق رہنے والوں کے بارے میں شدید وعید بھی آئی ہے:

  • حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:’’جن لوگوں کی قوم میں اللہ کی نافرمانی ہورہی ہواور وہ اس کو تبدیل کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود تبدیل نہ کریں تو موت سے پہلے اللہ انھیں عذاب میں مبتلا فرمائے گا، (سنن ابوداؤد: ۴۳۳۹)‘‘۔

 امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے لا تعلق رہنے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر دعوتِ حق کے فریضے سے وہ اسی طرح غافل رہے اور قوم کی بداعمالیوں کا نتیجہ کسی وبال کی صورت میں نازل ہوا ، تو وہ بھی اس سے بچ نہیں سکیں گے، حدیث پاک میںہے:

  • حضرت نعمانؓ بن بشیر بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اللہ کی حدود میں (با اثر لوگوں کے بارے میں )بے جا نرمی برتتا ہے اور جو اس میں مبتلا ہوجاتا ہے ، ایسے لوگوں کی مثال کشتی میں سوار اُس قوم کی سی ہے ،جنھوں نے قرعہ اندازی کی ، کچھ کشتی کی نچلی منزل میں چلے گئے اورکچھ اوپر والی منزل، یعنی عرشے پر چلے گئے۔پس جو لوگ کشتی کے نچلے حصے میں تھے، وہ پانی لینے کے لیے کشتی کے اوپر والے حصے کے لوگوں کے پاس سے گزرتے تھے جوانھیں ناگوار محسوس ہوتا تھا۔ (اُن کے رویّے سے تنگ آکر )اُن میں سے کوئی کلہاڑی لے کر کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا۔ پس اوپر والے اس کے پاس آئے اور پوچھا: یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا: تم کو مجھ سے تکلیف پہنچتی ہے اور مجھے پانی لینے کی ضرورت ہے۔پس اگر اوپر والے اس کے ہاتھ پکڑ لیں تو وہ اس کو بھی اور اپنے آپ کو بھی(دریا میں ڈوبنے سے )بچالیں گے اور اگر انھوں نے اس کو(اس کے حال پر)چھوڑ دیا ،تو (نہی عن المنکر سے لا تعلقی کے باعث)وہ اُس کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے اور خود کو بھی ہلاک کردیں گے، (صحیح البخاری:۲۶۸۶)‘‘۔

ہمارے ہاں تقسیمِ کار کردی گئی ہے۔حق کی دعوت دینے والوں کا ایک طبقہ وہ ہے، جنھوں نے اپنے لیے آسان راستہ چنا ہے کہ عبادات کی ترغیب دے کر انفرادی اصلاح کا فریضہ انجام دیا جائے اورخلافِ شرع نظام کو چیلنج نہ کیا جائے۔یہ نظام چلانے والوں کے لیے بھی قابلِ قبول ہے ۔ یہ کام غیر مسلم ممالک میں بھی ہورہا ہے اور معاشرے کے با اثر طبقات ایسے لوگوں کی تحسین کرتے ہیں کہ یہ کسی سے اُلجھتے نہیں ہیں، نظام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے ، بس بے ضرر انداز میں دعوتِ حق کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، لہٰذا حسّاس اداروں میں بھی ان کے لیے گنجایش رکھی جاتی ہے۔

 دراصل مشکل کام ’نہی عن المنَکر‘یعنی برائی سے روکنے کا ہے۔قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’بے شک اللہ عدل واحسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور تمھیں بے حیائی ، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو، (النحل۱۶:۹۰)‘‘۔

برائی سے روکنا حکمران ،بالادست ،مرفّہ الحال اور عیش پرست طبقات کو براہِ راست چیلنج کرنا ہے ، جو انھیں ہرگز پسند نہیں ہے اور اسی لیے اس کی مزاحمت کی جاتی ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام بھی جب اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے تو اُن کی دعوتِ حق میں بھی سدِّراہ یہی طبقات بنے، جو حالات کو جوں کے توں رکھنے کے علَم بردار تھے۔ قرآن کریم نے انھیں ’مُتْرَفِیْن‘ سے بھی تعبیر کیا ہے ۔اس سے مراد وہ آسودہ حال طبقات ہیںجو اپنی راحتوں اور عشرتوں سے دست بردار ہونے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے اور آخری حد تک مزاحمت کرتے ہیں۔ ہردور میں ان کی روش یہی رہی ہے۔اس لیے دعوتِ حق کا یہ شعبہ نہایت مشکل ہے ۔ یہ عزیمت کا تقاضا کرتا ہے اور اہلِ عزیمت ہر دور میں کم رہے ہیں۔ مگررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ سے روشنی لینے اور آپؐ سے وابستگی کا دعویٰ کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ دعوتِ حق پر عمل کیا جائے، دعوتِ حق کو پھیلایا جائے، اور منکرات کو روکنے کے لیے اپنی صلاحیت، قوت اور مواقع کے مطابق ذمہ داری ادا کی جائے۔

ہمارا گائوں مٹی اور پتھر کے استعمال سے بنے چند مکانات پر مشتمل، سڑک سے ڈیڑھ میل دُور تحصیل کرک (کوہاٹ) میں واقع ہے۔ اس کوہستانی اور ٹھنڈے علاقے کے گائوں سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مَیں یوپی کے مشہور شہر مراد آباد گیا۔ جہاں مدرسہ قاسم العلوم میں اچھے اچھے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ۔ وہاں پر مفتی محمود صاحب میرے ہم جماعت تھے۔

مولانا مودودی صاحب کا نام میں نے سب سے پہلے مراد آباد ہی میں اپنے ایک استاد محترم سے سنا تھا۔ یہ ہمارے ترمذی شریف کے استاد تھے مولانا حامد میاں صاحب !ذہنی طور پر  جمعیتہ العلماء سے وابستہ تھے جو انڈین نیشنل کانگرس کی ہم نوا تھی۔ ایک دن پڑھاتے پڑھاتے انھوں نے کہا: ’’حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ دونوں ہی خلافت کو قائم نہ رکھ سکے، لیکن پنجاب میں ایک مولوی ابوالاعلیٰ مودودی ہے، جو کہتا ہے کہ پھر سے خلافتِ راشدہ کا نظام قائم کیا جائے حالانکہ وہ نظام قائم کرنا ناممکن ہے۔‘‘

یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے مولانا مودودی کا نام سنا، اور یہ تاثر لیا کہ یہ آدمی ضرور مخلص ہوگا، لیکن بے چارہ زمانے کو نہیں جانتا۔ کچھ عرصے بعد مجھے مولانا مودودی کا ایک مضمون پڑھنے کا موقع ملا، جس میں انھوں نے دستوری اور قانونی مسائل پر اظہار رائے کیا تھا۔  مجھے حیرت ہوئی کہ یہ شخص نہ صرف زمانے سے واقف دکھائی دیتا ہے، بلکہ احساس ہوا کہ بہت زیادہ علم بھی رکھتا ہے۔ دل نے کہا کہ اگر ایسے شخص نے اسلامی نظام کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یقینا اس نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے ۔

پھر ایک روز مجھے مولانا عمل الدین کے بیٹے عبدالسلام کے ذریعے مولانا مودودی کی لکھی ہوئی کتاب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش ،حصہ دوم مل گئی۔ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو اس کے مضامین کے مفہوم و معانی میں ڈوب گیا۔ یوں محسوس ہوا گویا صدیوں کے پیاسے کو سمندر کا کنارہ مل گیا ہے۔ مولانا مودودی کی ایک ایک بات دل میں اترتی چلی جاتی تھی۔ دل نے اقبال کی زبان میں بے اختیار کہا کہ:

یہ کون غزل خواں ہے پُر سوز و نشاط انگیز
اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز

اُن دنوں میں اپنے گائوں عیسک چونترہ کی مقامی مسجد میں ۲۵، ۲۵ طالب علموں کو درسِ نظامی کے سلسلے میں اسباق پڑھایا کرتا تھا۔ مولانا مودودی کی کتاب پڑھنے کے دوران میرے شاگردوں نے کہا ’’کھانا کھالیجیے‘‘۔ میں نے کہا ’’اب مجھے کچھ نہ کہو‘‘۔ انھوں نے کہا ’’چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے‘‘۔ میں نے کتاب پر سے نگاہیں ہٹائے بغیر کہا ’’ہونے دو‘‘۔ مجھے شروع سے ہی ٹھوس موضوعات سے دلچسپی تھی۔ کلاسیکی مرتبے کے مصنفوں کو پڑھا کرتا تھا اور گہرے سنجیدہ مطالعے کا ذوق تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مولانا مودودی کی باتیں دل میں ترازو ہو کر رہ گئیں۔ ان کے مضامین کا تحقیقی مواد، طرزِ استدلال کی دل نشینی ، انداز بیان کی سادگی وپرکاری اور معلومات کا سمندر مجھے اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ میں نے کتاب کو اوّل سے آخر تک پڑھا۔ یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنی زندگی کا سب سے اہم اور خوش گوار فکری سفر طے کر کے واپس اس دنیا میں لوٹا ہوں ۔

اخباربینی کا شوق دوسری جنگ عظیم کے باعث پروان چڑھا۔ میرے ایک شاگرد صالح جان نے بتایا کہ یہاں ایک ڈاکٹر صاحب کے ہاں اخبار کوثر  آتا ہے۔ میں نے وہ اخبار پڑھنا شروع کیا، تو اُس میں مولانا مودودی کا تذکرہ ملا۔ اس پر میں نے اخبار کوثر کے ایڈیٹر نصراللہ خاں عزیز صاحب کو خط لکھا کہ ’’ہم تین چار آدمی سیّدمودودی کی اس کتاب سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔    ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ضلع کوہاٹ کے ان لوگوں کے نام بھیجیں ،جو آپ سے کوثر منگواتے ہیں، تاکہ ہم مل کر کام کر سکیں‘‘۔ انھوں نے اس خط کی نقل جماعت اسلامی کے مرکز،دارالاسلام، پٹھان کوٹ بھیج دی اور پشاور میں سردار علی خاں صاحب کو بھی لکھا کہ ’’کوہاٹ میں مولانا معین الدین صاحب ہمارے ہم خیال ہیں‘‘۔ ہمیں بھی لکھا کہ ’’آپ پشاور میں سردار علی خان صاحب سے تعلق پیدا کریں‘‘۔  چنا نچہ ہم نے ان سے رابطہ قائم کیا۔

یہ ۲مارچ ۱۹۴۷ء کی بات ہے کہ پبی تحصیل نوشہرہ میں صوبہ سرحد کی جماعت اسلامی کا اجتماع ہوا۔ سردا ر علی خان صاحب نے مجھے اس اجتماع کی اطلاع بھجوائی۔ ہم نے سوچا، چل کر  ان لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ عملی لحاظ سے یہ لوگ کیسے ہیں؟ میرے ہمراہ تین اور اصحاب تھے، جو اس دعوت سے متاثر تھے۔ ان میں مولانا منہاج الدین، اور مولوی صالح جان شامل تھے۔ ہم پیدل اٹھارہ بیس میل چل کر تو سڑک پر پہنچے۔ یہا ں سے بس کے ذریعے پشاور آئے اور پھر وہاں سے پبی پہنچے۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی کا تعارف کچھ زیادہ نہیں تھا، اس لیے اجتماع گاہ ڈھونڈھنے میں مشکل پیش آئی۔ بہرحال، اجتماع میں جماعت اسلامی کے لوگوں سے ملاقات ہوئی تو پہلا تاثر ان کی محبت ، خلوص اور دین داری کا ملا۔

وہاں سے واپس لوٹ کر ہم نے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کی کتابیں رسالے پھیلانے شروع کیے اور ہم خیال لوگوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ میں باقاعدگی سے کارکردگی رپورٹ بھیجنے لگا۔ یہ جولائی ۱۹۴۷ء کی بات ہے ۔ پاکستان بننے کی تیاریاں عروج پر تھیں اور صوبہ سرحد میں ریفرنڈم ہونے والا تھا۔ میں ایک ساتھی کے ہمراہ چار سدہ ،میں خان سردار علی خان صاحب سے ملنے گیا۔ انھیں کارکردگی کی رپورٹ پیش کی تو تمام حالات سن کر وہ بہت خوش ہوئے ۔ انھوں نے کہا ’’آپ دونوں رکن بننے کی درخواست دیں‘‘۔ چارسدہ سے رکن جماعت عبدالقادر خان صاحب نے مجھ سے رکنیت کی درخواست لکھوائی۔ فساد اور بدامنی کے دن تھے۔ اس لیے میری درخواست تو کہیں راستے میں کھو گئی ۔ البتہ دوسرے ساتھی مولوی صالح جان صاحب کی درخواست پہنچ گئی اور وہ رکن بنا لیے گئے ۔ ہم اسی طرح کام کرتے رہے۔ حتیٰ کہ پاکستان بن گیا ۔ ازاں بعد جنوری ۱۹۴۸ء میں مجھے رکن بنا لیا گیا اور ضلع کوہاٹ کے امیر جماعت کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔

یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں ’مطالبہ نظامِ اسلامی‘ کے لیے جماعت اسلامی کا مطالبہ ایک دھماکے کی طرح بلند ہوا اور پھر جیسے اس کا ارتعاش ملک کی ایک ایک بستی اور ایک ایک فرد تک پہنچنے لگا۔ میں اب انھی مودودی صاحب کے ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کر رہا تھا، جن کی اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کو میں نے ایک ناقابلِ عمل بات سمجھا تھا۔ تحریک اسلامی کے کار کن اپنا سب کچھ اپنے اس عظیم مقصدِ حیات کو سونپ کر میدانِ کار زار میں اُتر آئے تھے۔ عام لوگ تو راتوں کو محوخواب ہوتے اور یہ دیواروں پر ’’ہمارا مطالبہ اسلامی دستور‘‘ کے پوسٹر لگا رہے ہوتے ۔ دوسرے لوگ دن کے وقت کاروبار میں مصروف ہوتے اور یہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ’’ اسلامی نظام کیوں؟‘‘ کے ہینڈبل تقسیم کر رہے ہوتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان میں ایک ہی آواز پھیلتی چلی گئی ’’ہمارا مطالبہ اسلامی نظام‘‘۔ کچھ مدت پہلے جو مطالبہ ایک شخص کر رہا تھا، وہ مطالبہ اب کئی کروڑ انسانوں کی آواز بن گیا تھا۔

ہم ضلع کوہاٹ کی مختلف جگہوں پر جا کر عوام سے خطاب کرتے اور انھیں بتاتے کہ ’’پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا اور صوبہ سرحد نے ریفرنڈم کے ذریعے جس نصب العین کی خاطر پاکستان سے الحاق کیا ہے، وہ اسلام ہے اور اب موقع ہے کہ جب ملک کے لیے دستور بنایا جائے تو اس میں واضح طور پر اس بات کا اقرار کیا جائے کہ یہاں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنے گا۔ تمام قوانین اسلامی شریعت کے مطابق بنیں گے‘‘۔

ان دنوں صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کے ایک رہنما، خان عبدالقیوم خان صاحب بطور وزیراعظم صوبہ سرحد [خیبرپختونخوا] اپنے مخالفوں کو آہنی زنجیریں پہنا پہنا کر مرد آہن بن چکے تھے۔

ضلع کوہاٹ کے قریے قریے میں ’مطالبہ نظامِ اسلامی‘ کی وضاحت میں تقریر یں کرتے ہوئے میں ٹل کے مقام پر پہنچا ۔وہاں ۱۰؍ اگست ۱۹۴۸ء کو اس مطالبے کی یہ وضاحت کی کہ ’’پاکستان کی باد شاہت اور حاکمیت اللہ کے لیے ہے ۔ اس ملک میں حکومت کی کوئی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اسلام کے احکامات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مرضی پوری کرے‘‘۔ تقریر ختم ہونے کے بعد میں ٹل سے ہنگو جا رہا تھا کہ بس کے اڈے پر پولیس کے ایک تھانیدار صاحب آئے۔ انھوں نے مجھے کہا ’’آئیے، ہمارے ساتھ چلیے‘‘۔میں اور میرا شاگرد میرسرور ان کے ساتھ چلتے ہوئے تھانے پہنچ گئے۔ (یاد رہے بعد میں میرے شاگرد نے بھی میرے ساتھ جیل میں دن گزارے)۔ تھانیدار صاحب نے دفعہ ۱۰۹ کے تحت ہمارا چالان کاٹا۔ گویا کہ ہم اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے لوگ عبدالقیوم خان کی حکومت میں ’’آوارہ گرد ‘‘تھے ۔

ہمیں حوالات کی ایک چھوٹی سی تنگ کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا، جس کے ایک کونے میں گندگی پڑی ہوئی تھی، اور بدبو اور تعفن سے دماغ پھٹ رہا تھا ۔ بیٹھنے، سونے اور نماز پڑھنے کے لیے یہی زمین تھی۔ یہ رات سخت اذیت میں گزری۔ دعوتِ اسلامی کی راہ میں یہ پہلی آزمایش تھی اور دوسرے مراحل آگے آ رہے تھے۔

دوسرے روز ہمیں ضلع کوہاٹ کی تحصیل ہنگو لے جایا گیا، تو وہاں خان بہادر محمد اسلم خان اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں ہمیں پیش کیا گیا، تو ان صاحب نے بغیر کسی بات یا تمہید یا اشتعال کے، مجھے دیکھتے ہی غلیظ، ننگی اور ناقابلِ ذکر گالیاں دینا شروع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے حوصلہ دیا اور میں صبر وتحمل سے اس سب کچھ کو سنتا رہا۔ اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے خوب بولنے کے بعد مجھے دفعہ ۱۰۹ کے تحت آوارہ گردی کے جرم میں پندرہ روز تک حوالات کی ایک اور تنگ و تاریک کوٹھڑی میں قید رکھا۔

یاد رہے، جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میری جیب میں جماعت اسلام ضلع کوہاٹ کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ تھی۔ جماعت اسلامی اور مطالبہ اسلامی نظام کے خلاف بیوروکریسی کے جذبات کا یہ عالم تھا کہ اس رپورٹ کی بنا پر اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے بعدازاں مجھے پشاور بھجوا دیا کہ ’’اس شخص کی جامہ تلاشی سے کچھ کاغذات برآمد ہوئے ہیں، جن میں ضلع کوہاٹ کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ یہ شخص بھارت کا جاسوس معلوم ہوتا ہے ، اور اس کے پاس بڑی معلومات ہیں۔ اسے صوبہ سرحد کی سی آئی ڈی کے صدر دفتر کے حوالے کرنا چاہیے تا کہ وہ اس سے مزید راز اُگلوا سکے‘‘۔

پشاور کی سی آئی ڈی نے حکم دیا کہ’’ اس شخص کو واپس کوہاٹ بھیج دیا جائے اور تحقیقات کی جائیں کہ کیا یہ شخص فی الواقع آوارہ گرد ہے اور دفعہ ۱۰۹ کا اس پر اطلاق ہوتا ہے ؟‘‘ سی آئی ڈی انسپکٹر کوہاٹ نے لکھا کہ ’’یہ شخص تو اسی ضلعے کا باشندہ ہے اور فلاں مقام سے تعلق رکھتا ہے، اور یہ آوارہ گرد نہیں ہے‘‘۔ اس نوٹ کو پڑھنے کے بعد ڈپٹی کمشنر صاحب نے حکم دیا کہ ’’دوبارہ تحقیقات کی جائے‘‘۔

سی آئی ڈی انسپکٹر نے سرحد کی حکومت کو فون کیا کہ ’’اب میں کیا کروں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا کہ ’’اگر آپ کی نظر میں اس پر دفعہ ۱۰۹ کا اطلاق نہیں ہوتا تو آپ اسے رہا کر سکتے ہیں‘‘۔ لیکن اسی دوران دوبارہ فون آیا کہ ’’رہا مت کرو۔ ہم اپنا انسپکٹر بھیج رہے ہیں‘‘۔

پشاور کے انسپکٹر نے آتے ہی میری پولیس رپورٹ پر ۱۰۹ کا ہندسہ کاٹ کر ۱۱۰ کر دیا۔ گویا کہ اب میں ’آوارہ گرد‘ نہیں تھا بلکہ’بدمعاش‘ اور ’چوراُچکا‘ ہوگیا تھا ۔ یعنی جیل میں رہتے ہوئے ہی میرے جرم کی شکل بدل گئی تھی۔

ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری پیشی ہوتی رہی ۔ آخر کار پچاس روزہ حوالاتی زندگی گزارنے کے بعد ۲۹ ستمبر ۱۹۴۸ء کو ضمانت پر رہائی کا پروانہ پہنچا تو کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے کون سے رشتہ دار مجھے رہائی دلانا چاہتے ہیں۔

بہرحال، جب جج صاحب نے کہا کہ ’’دو سال نیک چلنی کے لیے بیس ہزار روپے کی ضمانت دے دو تا کہ تمھیں رہا کر دوں‘‘۔ اس طرح فیصلہ کرنے کا اختیار میرے ہاتھ میں آ گیا۔ مجھے جس جرم کے لیے سزا دی جا رہی تھی، اس کے لیے ضمانت دینے کا مطلب گویا یہ تھا کہ میں جماعت اسلامی کی دعوت سے دست بردار ہو جائوں، جب کہ ابھی پچھلے دنوں ہی مولانا مودودی نے لکھا تھا کہ ’’اب دوسرا مرحلہ شروع ہوا ہے۔ اس میں تحریک کو جبر سے اور زور سے مٹانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس مرحلے میں ہم کو صبروثبات اور تحمل واستقلال اور اپنے اصولوں کے سچے عشق کا ثبوت دینا ہے ۔ گرفتاری سے بچنے کی ہرگز کوشش نہ کریں ، نہ رہا ہونے کے لیے ضمانت دیں، نہ کوئی جرمانہ ادا کریں، نہ اپنی مدافعت خود کریں اور نہ کوئی وکیل کریں۔ گرفتاری کے بعد کسی رعایت کے نہ ملنے پر شکوہ بھی نہ کریں۔ صبرو سکون سے ہر زیادتی برداشت کریں اور اپنی ہر تکلیف اور التجا صرف خدا کے سامنے پیش کریں ‘‘۔

میں نے عدالت سے کہا: ’’آپ تو بیس ہزار روپے کی ضمانت کہتے ہیں، میں ایک آنے کی ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں ہوں ۔‘‘

تھانیدار صاحب نے مجھے بہت کہا: ’’اس کیس میں جان نہیں ہے۔ اگر آپ وکیل کرلیں تو مقدمہ بڑی آسانی سے خارج ہو جائے گا اور آپ رہا ہو جائیں گے‘‘۔ میں نے کہا: ’’معاملہ اصولوں کا ہے۔ ہمارے ملک پر ابھی تک انگریز کا ۱۹۳۵ء کا ایکٹ مسلط ہے۔ ہم اسے طاغوت کا دستور سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہم اس دستور کے تحت عدالتوں میں کبھی مدعی کی حیثیت سے نہیں جائیں گے، نہ ہم وکیل کریں گے اور نہ کوئی رعایت مانگیں گے‘‘۔

عدالت نے اس مکالمے کو سننے کے بعد مجھے ایک سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ مجھے قیدیوں کا لباس پہنادیا گیا۔ میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں ۔ اس حالت میں وہ مجھے کوہاٹ اسٹیشن لے گئے۔ دو نگران سپاہی تیزی سے چلانے کے لیے اس طرح کھینچتے رہے کہ بیڑیوں سے میرے دونوں پائوں زخمی ہو گئے۔ اسٹیشن تک پہنچتے پہنچتے ان زخموں سے خون رسنے لگا۔ اسی حالت میں مجھے ڈیرہ اسماعیل خان سنٹرل جیل پہنچا دیا گیا۔ زخم ایک ماہ تک مندمل نہ ہوسکے۔ میں اٹھارہ روز تک ہسپتال میں رہا اور شدید تکلیف میں اشاروں سے نماز پڑھتا رہا۔

اس قیدبامشقت کے دوران پندرہ سیر گندم دی گئی کہ اسے چکی سے پیسو۔ صبح سے کام شروع کیا تو دوپہر کے تین بج گئے اور میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے۔  بارہ روز تک چودہ سیر روزانہ آٹا پیسنے کی مشقت ملی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ہمت تو دے دی مگر مقدمہ اور قید کے دوران ہی مجھ پر غم کا یہ پہاڑ ٹوٹا کہ میری والدہ محترمہ اور نہایت پیارا عزیز بھائی اعصام الدین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے: انا للّٰہ  وانا الیہ راجعون ‘‘۔ یہ قید ۲۹؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو ختم ہوئی۔

  _______________

مولانا معین الدین خٹک صاحب کی جیل کی زندگی کا ایک حصہ عبدالرزاق صاحب سناتے ہیں، وہ تقسیم ہند سے پہلے سجاد ظہیر کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن چلے آ رہے تھے ، اس لیے وہ انتہا پسند ہی نہیں بلکہ تشددپسند بھی تھے۔ چنانچہ اسی ضمن میں کئی دفعہ جیل یاترا کر چکے تھے۔ جب مولانا معین الدین صاحب سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان میں آئے تو یہ بھی مارچ ۱۹۴۹ء میں وہاں آگئے ۔ جیل میں لوگوں کے سامنے اشتراکیت کا پرچار کیا کرتے تھے کہ ’’ہمیں روٹی کپڑا چاہیے۔ یہ نماز روزہ مذہب وغیرہ سب سرمایہ داری کی خرافات ہیں‘‘۔ اسی دوران میں وہاں ایک قیدی کی حیثیت سے مولانا معین الدین صاحب نے درسِ قرآن وحدیث کا آغاز کردیا۔ اب اگلی تفصیل خود عبدالرزاق صاحب ہی کی زبانی سنتے ہیں:

’’یہ مارچ ۱۹۴۹ء کے دن تھے ۔ میں نے بھی مولانا معین الدین صاحب کے درس میں شرکت شروع کی۔ میرا مقصد انھیں سننا نہیں تھا بلکہ مخالفت کرنا تھا۔ میں اسلام کو پرانے زمانے کی چیز سمجھتا تھا اور اشتراکیت کو تمام مسائل کا حل کہتا تھا۔ درس کے بعد میں جب بحث میں آگے بڑھتا تو ایسی ایسی باتیں بھی کہہ جاتا جو نہیں کہنی چاہیے تھیں۔ مولانا معین الدین صاحب ان باتوں کے جواب میں چپ ہوجاتے اور مجھے بولنے دیتے۔ میں دل میں سوچتا کہ میں نے مولوی کو زیر کرلیا ہے،  اس کے دلائل پرانے ہیں، ویسے یہ آدمی اچھا ہے لیکن کیا کریں کہ بات سمجھتا ہی نہیں۔

پھر ایک روز مولانا معین الدین صاحب نے درس کے دوران ایسی بات کہہ دی، جس نے میرے طرز فکر اور زندگی کی نہج کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ کہنے لگے: ’’دنیا کی تمام تحریکیں باہر سے شروع ہوتی ہیں ، لیکن اسلامی تحریک کا آغاز دعوت دینے والے کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے ‘‘۔

میں نے غور کیا تو یہ بات سو فی صد صحیح تھی، حتیٰ کہ اشتراکیت کی تحریک، جس کا میں علَم بردار تھا، اس کا بھی یہی حال ہے کہ اسے زبردستی لوگوں پر قانون اور ڈنڈے کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے۔ لیکن نافذ کرنے والے لوگوں اور لیڈروں نے کبھی اپنی زندگی اور دولت سے ایثار کر کے دوسروں کو کچھ نہیں دیا۔ میں نے خود اپنی زندگی پر غور کیا۔ اپنے خصوصی روابط کی بنا پر مجھے جیل میں بھی اچھے کھانے اور سہولتیں میسر تھیں۔ لیکن جن لوگوں کو میں صبح وشام ’’سب کو برابر کی روٹی‘‘ وغیرہ کے لیکچر دیتا تھا، کیا انھیں بھی میرے جیسی روٹی میسر ہے ؟ میں نے سوچا جو کچھ میں کھاتا ہوں، کیا دوسروں کو کھلاتا ہوں ؟ تو پھر میں جھوٹ بول کر کس کو دھوکا دے رہا ہوں ؟

مولانا معین الدین صاحب کا فقرہ میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا ۔ میں جتنا اس فقرے کو ذہن سے جھٹکتا، اتنا ہی یہ مجھے جھنجھوڑتا چلا جاتا ۔ اُدھر مولانا صاحب کا درس قرآن و حدیث بھی جاری  تھا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرامؓ ، اولیائے عظامؒ کی زندگیوں پر غور کیا۔ واقعی اسلامی تحریک کا آغاز تو داعی کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔

میں عقلیت پسند کمیونسٹ تھا، لیکن میرے پائوں اُکھڑ گئے۔ اس کے بعد میں مولانا معین الدین صاحب کے پاس بحث برائے بحث کے لیے نہیں ، اسلام اور اس کے معاشی نظام کو سمجھنے کے لیے بیٹھنے لگا۔ جس پر میرے ساتھی مجھ سے ناراض ہو گئے ۔ لیکن میں نے ان کی ناراضی کی پروا نہیں کی۔ مولانا معین الدین صاحب ۲۹؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو رہا ہو گئے ۔ لیکن ہم کمیونسٹوں کی دنیا بدل گئے ۔ چونکہ میں اشتراکیت کے پیغام اور اس کی تحریک کے لیے مخلص تھا، اس لیے جب ایک ٹھیک بات میری سمجھ میںآگئی تو میرے دل و دماغ میں اسلام کے لیے بھی اخلاص اُمڈ آیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جیل سے رہائی کے کچھ عرصے ہی بعد مجھے جماعت اسلامی کا رکن بننے اور پاک باز دوستوں کی رفاقت اور جدوجہد میں شرکت نصیب ہوئی۔

گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں نئی دہلی میں کشمیر سے متعلق خبروں کی ترسیل کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو بخوبی علم ہوگا کہ جموں و کشمیر کے قضیہ اور انسانی حقوق کی دگرگوں صورت حال کے حوالے سے بھارت کس قدر شدید عالمی دباؤ کا شکار تھا۔ مارچ ۱۹۹۴ءمیں کانگریس پارٹی کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نرسمہا رائونے ’چانکیائی شاطرانہ چال‘ کااستعمال کرکے ایران کو جھانسہ دے کر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے کسی طرح جان تو چھڑوائی، مگر اس کے عوض ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی سے وعدہ بھی کیا کہ ’’کشمیر پر پیش رفت کریں گے‘‘۔ یادرہے کمیشن میں قرار داد پاس ہونے کی صورت میں یہ براہِ راست سلامتی کونسل کے سپرد کی جانے والی تھی، جہاں مغربی ممالک بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی تیاریا ں کر رہے تھے۔ بھارت کا دیرینہ دوست روس، سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد زخم چاٹ کر مغربی ممالک کو خوش کرنے میں مصروف تھا۔

ایران سے کیے گئے وعدے کے پیش نظر، غالباً ۱۹۹۵ءمیں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے ایک مفصل میمورنڈم وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے سپرد کیا، جس میں ۱۹۵۰ءمیں بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان طے پائے گئے ’دہلی ایگریمنٹ‘ کو قانونی شکل دینے، اس کو بھارتی پارلیمنٹ سے پاس کروانے اور ریاست کی ۱۹۵۳ءسے قبل کی پوزیشن بحال کرنے کا ایک طریقۂ کار وضع کیا گیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کی ایما پر یہ میمورنڈم کس نے لکھا تھا، یہ بات تاحال سربستہ راز ہے۔ اس کے چند روز بعد ہی ۴نومبر ۱۹۹۵ءکو نرسمہا راؤ نے افریقی ملک برکینو فاسو کا دورہ کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو سلجھانے کا عندیہ دیا، اور یہ کہا کہ ’’زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینے کے لیے ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں‘‘۔ اس دوران بھارت کے ریاستی ادارے، مئی ۱۹۹۶ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نیشنل کانفرنس کی خوشامدیں کررہے تھے، مگر اس کے لیڈر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نئی دہلی میں ان کے نمایندے پروفیسر سیف الدین سوز ٹس سے مَس نہیں ہو رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ: ’’پہلے اٹانومی یاکوئی سیاسی فارمولا ہمارے حوالے کیاجائے، جس کو لے کر ہم عوام کے پاس جائیں گے‘‘۔ کوئی واضح یقین دہانی نہ ملنے پر ان کی پارٹی نے لوک سبھا کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے ان کی افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگادیا۔  ان ملک گیر انتخابات میں کانگریس پارٹی کو شکست ہوگئی، مگر ’جنتا دل‘ کی قیادت میں دیو گوڑا اور بعد میں اندر کمارگجرال کی قیادت میں کانگریس ہی کی بیساکھیوں پر نئی حکومت قائم ہوگئی۔

وزیر اعظم دیو گوڑا کے دست راست سی ایم ابراہیم نے و زارت داخلہ کے اہم افسران کے ہمراہ لندن میں فاروق عبداللہ کے ساتھ گفت وشنید میں وعدہ کیا: ’’جموں و کشمیر اسمبلی میں ا ن کو قطعی اکثریت دلانے میں مدد کی جائے گی اور اس کے فوراً بعد وہ نرسمہا راؤ کو دیئے گئے میمورنڈم کو ایک ریزولوشن کی صورت میں بھاری اکثریت سے اسمبلی میں پاس کرواکے مرکزی حکومت کو بھیج دیا جائے گا۔ جس کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے ایک قانون کے طور پر پاس کیا جائے گا‘‘۔ ۸۷رکنی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کو ۵۷، کانگریس کو ۲۶ اور اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو محض دونشستیں حاصل ہوئیں۔ مگر انتخابات کے بعد ان کو بتایا گیا کہ اس میمورنڈم کا جائزہ لینے کے لیے پہلے ایک کمیشن تشکیل دیں۔ لیکن جب تک کہ یہ کمیشن اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرتا، خود جنتا دل حکومت ختم ہوچکی تھی، اور سارے وعدے ہوا میں بکھر کر رہ گئے تھے۔ تاہم، بھارتی حکومت کشمیر کے مسئلے پر عالمی دبائو سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔

 پچھلے دو برسوں کے دوران دنیا بھر میں بھارت کے سفیر وہ نہیں کر پائے، جو کام ۲۴جون کو دن کے تین بجے وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکاری رہایش گاہ پر لی گئی اس گروپ فوٹو نے کیا، جس کی پہلی قطار میں وزیراعظم، ان کے دست راست وزیر داخلہ امیت شا، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے فرزند عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ہمراہ نظر آئے۔ دکھائی دیتا تھا کہ ایک بار پھر مودی کی بغل میں یہ لیڈر صاحبان شیروشکر ہورہے تھے، جس طرح ۱۹۴۷ءمیں شیخ عبداللہ نے لال چوک میں نہرو کا استقبال کرتے ہوئے دل و نگاہ فرشِ راہ کیے ہوئے تھے۔ فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور ہندستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے حیران کن معاہدے کے بعد ہی اس طرح کی میٹنگ کی تیاری شروع ہو چکی تھی، اور بھارتی وزارت داخلہ کے اہلکار اندازہ لگارہے تھے کہ اس طرح کی دعوت دینے کی صورت میں نیشنل کانفرنس کا کیا رد عمل ہوگا؟ ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کونسل کے انتخابا ت نے کنگز پارٹیوں کو دن میں تارے دکھا دیئے، تو نئی دہلی کو یہ ادراک ہو گیا تھا کہ کسی سیاسی عمل کے لیے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر ہی تکیہ کرنا پڑے گا۔ اس میٹنگ میں اگرچہ ان جماعتوں نے ریاستی درجہ اور خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا، تو بھارتی وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ: ’’دفعہ ۳۷۰ ،اور ۳۵-اے کا معاملہ تو اب عدالت کے سپرد ہے، اس لیے اس کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے‘‘۔البتہ ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے امیت شا نے ایک غیرواضح روڈ میپ ان کے گوش گزار کر دیا۔

اس سے قبل جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ایک حدبندی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، جو اسمبلی حلقوں کی اَز سرِ نو حد بندی کرے گا اور بعد میں اس نئی حد بندی کے تحت اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوں گے۔ پھر یہ اسمبلی ایک قرارداد پاس کرکے پارلیمنٹ سے ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے کہے گی۔ جس کے بعد وزرات داخلہ قانون سازی کرنے کا کام شروع کرسکتی ہے۔

مودی حکومت نے اس اجلاس میں سب سے بڑی یہ چیز حاصل کی کہ نیشنل کانفرنس نے مذکورہ حدبندی کمیشن میں شرکت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس سے قبل اس نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ چونکہ نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے لوک سبھا کے تین اراکین اس کے بربنائے عہدہ ممبران ہیں، اس لیے ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے کمیشن اپنا کام نہیں کر پا رہا تھا۔ جس وقت یہ کمیشن ترتیب دیا گیا تھا تو اس وقت اس کے دائرہ اختیار میں جموں و کشمیر کے علاوہ آسام، منی پور، ارونا چل پردیش اور ناگالینڈ میں اسمبلی حلقوںکی بھی حد بندی بھی شامل تھی ۔ مگر اس سال مارچ میں جب اس کی مدت ایک سال اور بڑھا دی گئی، تو اس کے دائرۂ اختیار سے شمال مشرقی صوبوں کو نکال دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے مطابق اگر جموں و کشمیر اب ملک کے دیگر صوبوں کی ہی طرح ہے تو صرف اسی خطے میں الگ سے حد بندی کیوں کرائی جا رہی ہے؟

اس کی وجہ یہی لگتی ہے کہ کمیشن اسمبلی نشستوں کو کشمیر اور جموں کے ڈویژنوں میں برابر تقسیم کرنا چاہتا ہے، یعنی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادیِ کشمیر کو اسمبلی میں جو برتری حاصل تھی، اس کو ختم کیا جائے۔ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادیِ کشمیر کی آبادی ۶۸ء۸ لاکھ اور جموں کی ۵۳ء۷ لاکھ تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وادیِ کشمیر کی اسمبلی نشستوں کی تعداد ۴۶  اورجموں کی ۳۶تھی۔ مگر کمیشن کے سامنے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمایندے مرکزی وزیر جیتندر سنگھ نے دلیل دی ہے کہ آبادی کے بجائے رقبہ کو حد بندی کا معیار بنایا جائے۔ چونکہ جموں کا رقبہ ۲۶,۲۹۳  مربع کلومیٹر اور کشمیر کا ۱۵,۵۲۰ مربع کلومیٹر ہے، اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ جموں کی سیٹوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ نئی اسمبلی میں اب ۹۰نشستیں ہوں گی۔ مگر جغرافیہ کو معیار بنانے کے بعد ان کی پارٹی کو ادراک ہوگیا کہ جموں خطے کی سیٹیں تو بڑھ جائیں گی ، مگر اس سے مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کو فائدہ ہو رہا ہے، کیونکہ ان کا رقبہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقے سے زیادہ ہے۔ ’مجرم بھی خود، مدعی بھی خود اور منصف بھی خود‘ کے مصداق اب نئے فارمولا کے تحت کل ۹۰نشستوں میں ۱۸سیٹیں دلتوں اور قبائل کے لیے مختص ہوں گی ۔ اس کے علاوہ جموں میں رہنے والے پاکستانی مہاجرین اور کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سیٹیں مخصوص رکھنے کے مطالبات پر غور ہو رہا ہے۔ دونوں خطوں کو برابر ۴۵سیٹیں دی جائے گی۔ پھر ان میں سیٹیں مخصوص ہوں گی، تاکہ وادیِ کشمیر سے مسلمان ممبران کم سے کم تعداد میں اسمبلی میں پہنچیں۔ جس ریاست میں مسلم آبادی کا تناسب ۶۸ء۵ فی صد ہے ، وہاں اسمبلی میں ان کا تناسب ۵۰ فی صد تک رہ جائے گا۔

۲۰۰۵ء میں حکومت کی طرف سے قائم جسٹس راجندر ’سچر کمیٹی‘ نے اس پر خوب بحث کی ہے کہ جن سیٹوں سے مسلم اُمیدواروں کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ان کو دلتوں کے لیے مخصوص نشتوں کی فہرست میں ڈال کر وہاں سے کسی مسلم امیدوار کی قسمت آزمائی کے امکانات ہی ختم کردیئے گئے ہیں۔ اترپردیش کے نگینہ میں مسلمانوں کا تناسب ۲۱ء۴۳ فی صد اور دلتوں کا ۵ء۲۲ فی صد ہے، مگر اس کو دلتوں کے لیے ریزرو کرنے سے کوئی مسلم امیدوار انتخاب لڑ ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کے برعکس دھورریا میں جہاں دلت ۳۰فی صد ہیں اور مسلمان کم ہیں ، انھیں جنرل نشستوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے ۔ سچر کمیٹی نے ایسی بہت سی نشستوںکی فہرست شائع کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ دلتوں کے لیے انھی نشستوںکو مخصوص کیا جائے ، جہاں دلت آبادی ۳۰فی صد سے زیادہ ہے۔ اس فارمولا کی وجہ سے قانون ساز اداروں میں مسلم نمایندگی قابو میں رہتی ہے اور چونکہ مسلمان ان سیٹوں کو ریزرو کرنے کی مخالفت کرتے ہیںتو ان کو دلتوں کے حقوق کے مخالفین کے طور پر پیش کرکے ان دونوں طبقوں کو آپس میں لڑوانے کا بھی کام ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ اب جموں و کشمیر میں بھی دہرایا جانے والا ہے ۔

جموں خطے میں مسلمان ۳۱فی صد، دلت ۱۸فی صد، برہمن ۲۵فی صد، راجپوت یا ڈوگرہ ۱۲فی صد ، ویشیا، یعنی بنیا ۵فی صد اور دیگر، یعنی سکھ وغیرہ ۹فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ افسر شاہی میں تو پہلے ہی مقامی مسلمانوں کو پتہ صاف ہوچکا تھا۔ خود حکومت جموں و کشمیر کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۴سیکرٹریوں میں بس پانچ مسلمان ہیں۔ ۵۸؍اعلیٰ سرکاری افسران میں بس ۱۲مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے افسران، یعنی کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس میں بھی ۴۲فی صد مسلمان ہیں، جب کہ ان کی آبادی  ۶۸فی صد سے زائد ہے۔ پولیس کے ۶۶؍اعلیٰ افسران میں صرف سات ہی مقامی مسلمان ہیں۔

سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں پر مظالم کو مغربی دنیا، چین کے خلاف ایک ہتھیار بنانے سے قبل بھارت کو ایک جمہوری اقدار والے ملک کے بطور پیش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں امریکا سمیت مغربی ممالک بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ ’’کشمیر پر کچھ پیش رفت دکھا کر اپنے آپ کو چین کے مقابلے ایک فراخ دل پاور کے رُوپ میں پیش کرے‘‘۔ ۲۴جون کی مذکورہ میٹنگ سے قبل برطانیہ میں منعقد گروپ ۷کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، نریندرا مودی نے بھارت کو ’جمہوری اقدار اور آزادی کا محافظ‘ قرار دیا۔ یہ مذاق ہی سہی، مگر اس مذاق کو حقیقت کا رُوپ ڈھالنے کے لیے بھارت سے مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا کہ ’’وہ ان جمہوری اقدار اور جمہوری آزادی کا اطلاق کشمیر میں بھی کرے اور کم از کم سیاسی قیدیوں کی رہائی ہی یقینی بنائے‘‘۔ شاید ۲۴جون کی اس میٹنگ میں آنے سے قبل نیشنل کانفرنس اور بیک چینل سے جاری مذاکرات میں خود پاکستان اس کو پیشگی شرط کے طور پر پیش کرسکتا تھا۔ مگر کیا کیا جائے، ناز ک اوقات میں مسلم نمایندگی کرنے والے، حیران کن جلدبازی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

’’عرب مُردہ باد‘‘، ’’عربوں کے گائوں جلتے رہیں، جلتے رہیں‘‘۔ یہ وہ نعرے ہیں، جو اسرائیلی آبادکاروں کا ’پرچم مارچ‘ قدیم مقبوضہ بیت المقدس کی گلیوں میں لگاتاہوا ۱۵ جون ۲۰۲۱ءکو گزر رہا تھا۔ ان میں زیادہ تعداد انتہا پسندوں کی تھی۔ یہ انتہاپسند ،نسل پرست صہیونیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہ ’گوری بالادستی‘ پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ سیکنڈے نیویا کے ممالک، امریکا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں ان کی قابلِ لحاظ تعداد موجود ہے۔

اسرائیلی آبادکاروں کی اکثریت دراصل انھی انتہاپسند صہیونیت سے تعلق رکھنے والے صہیونی آبادکاروں پر مشتمل ہے، جنھیں دوسرے ممالک سے لاکر یہاں آباد کیا گیا ہے اور ان کی بستیاں بسائی گئی ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے علاقوں میں جا بجا یہ بستیاں اپنے طرزِ تعمیر سے الگ تھلگ مقامات پر موجود ہیں۔

صہیونی، عرب مقبوضات پر اسرائیلی قبضے کی سالگرہ ہر بار ’پرچم مارچ‘ کے ذریعے مناتے ہیں۔ جون ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ان علاقوں پر قبضہ کیا گیا تھا۔ یاد رہے مشرقی بیت المقدس بھی مقبوضہ علاقہ ہے۔ اس سال جب یہ مارچ نکالا گیا تو جلوس وہاں کے فلسطینی علاقوں سے گزرا اور فلسطینیوں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال بھرے نعرے لگاتا رہا۔

اس مارچ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک صدی پہلے کے اس ’نازی مارچ‘ سے گہری مماثلت رکھتا ہے، جو پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد یورپ میں نکالا جاتا تھا۔ اس کی حالیہ مماثلت امریکا میں نکالے جانے والے مارچ سے بھی ہے، جو نسلی منافرت اور گوری بالادستی کے پیروکار نکالتے رہتے ہیں کہ ’’امریکا سے کالوں اور رنگ دارنسل والوں کو نکالو‘‘۔

مقبوضہ بیت المقدس میں نکالا گیا یہ مارچ، سفیدفام امریکی قوم پرستوں کے ۲۰۱۷ء کے مارچ سے بھی ملتا جلتا ہے۔ یہ مارچ شارلو ٹزویل (ورجینیا) میں نکلا تھا، جو ’گوری بالادستی‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ ان کے نعروں میں صدیوں سے آباد امریکیوں ہی سے کہا گیا تھا کہ ’تم ہماری جگہ نہیں لے سکتے‘۔ شارلو ٹزویل اور مقبوضہ بیت المقدس میں نکالے جانے والے مارچوں میں صرف ایک فرق یہ تھا کہ اسرائیل میں مارچ کو کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ مگر اس کے برعکس فلسطینیوں کو اس مارچ کے راستے میں آنے سے زبردستی روک دیا گیا۔ امریکی اور صہیونی مارچوں میں مماثلت یہ تھی کہ یہ مخالفین کے قتل عام اور شدید نسلی منافرت کے نعرے بلند کر رہے تھے۔

مقبوضہ بیت المقدس کی سڑکوںاور گلیوں میں ہرطرف فلسطینیوں سے نفرت اور ان کو بے دریغ قتل کرنے کے عزائم ظاہر کیے جارہے تھے۔

 امریکی ’گوری بالادستی‘ اور ’صہیونی منافرت‘ کے ان مارچوں میں یہ مماثلت کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہے۔ ان میں مخالف کے لیے شدید نفرت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ بیت المقدس کے مارچ سے امریکی استعماریت سے گہری وابستگی کا بھی اظہار کیا گیا۔ یہ امریکی استعماریت، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب مسلمانوں کے خلاف مسلسل روا رکھی جانے والی پالیسی ہے۔

  • امریکی استعماریت:مئی ۲۰۲۱ء میں ’شیخ جراح‘ کے علاقے میں مقیم نوجوان فلسطینی خاتون مونا الکرد نے بتایا کہ ’’میرے ایک پڑوسی صہیونی آبادکار جیکب نے مجھے بے دخل کر کے میرے گھر پر قبضہ جمالیا۔ میں نے اسے کہابھی کہ تم جانتے ہو کہ یہ تمھارا گھر نہیں ہے۔ مگر اس صہیونی نے جواب دیا: ’’میں تمھارے گھر آ گیا ہوں۔ اب تم واپس نہیں آسکتی۔ یہاں سے چلی جائو اور مجھے گھور کر مت دیکھو‘‘۔

اس واقعے کی وڈیو بنی اور دُنیا بھر نے صہیونی نسل پرستوں پر لعن طعن کی۔ بعد میں یہ بات کھلی کہ وہ نیویارک سے یہاں آیا تھا اور پچھلے امریکی صدر ٹرمپ کا پُرجوش حامی و مددگار رہا تھا۔ اس کا تعلق امریکا میں آبادکار تنظیم ’نہالات شمعون‘ سے تھا۔ کسی کو بھی اس انکشاف پر حیرت نہ تھی کہ وہ امریکا سے آیا آبادکار تھا اور اس نے یہ حرکت کی تھی۔ یاد رہے تنظیم نہالات بھی ’گوری بالادستی‘ کے لیے کام کرتی ہے۔

امریکا سے آئے ایسے ہی آبادکار برسوں سے ایسی اشتعال انگیز اور انسانیت کُش کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ وہ فلسطینیوں کو ان کی جائیداد اور گھر یا کاروبار سے بے دخل کرکے ان پر قابض ہوجاتے ہیں۔ انھیں اسرائیلی حکومت اور سپریم کورٹ کی پوری پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔

یہ نئے اسرائیلی آبادکار اپنے جرائم کی وجہ یا جواز یوں بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’ہم اس سرزمین کے اصل وارث ہیں۔ ہم یہاں کے مقامی لوگوں سے تہذیبی اعتبار سے بہتر ہیں۔ ہم صرف اور صرف خود اپنا دفاع کر رہے ہیں‘‘۔

اس سیاست اور جرم کو سمجھنے کے لیے اسرائیل کے نئے وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کی اب تک کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو آسانی سے معلوم ہوجائے گا کہ اسرائیل اور امریکا کے ’گوری بالادستی‘ کے مقاصد اور طریقہ ہائے کار میں کس قدر مماثلت پائی جاتی ہے۔

موجودہ وزیراعظم کے والدین بھی سان فرانسسکو سے نقل مکانی کرکے ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطین آئے تھے۔ وہ آبادکاروں کی تنظیم ’یشا کونسل‘ (Yesha Council) کے سربراہ بھی رہے۔ یہ تنظیم امریکا میں اسرائیل کے تزویراتی مفادات کا دفاع اور تحفظ کرتی ہے۔ یہ تنظیم دریائے اُردن اور بحیرئہ روم کے درمیان آبادکاروں کے معاشی مفادات کے لیے کام کرتی ہے۔ انھوں نے اپنی سیاست کا آغاز بنجمن نیتن یاہو کے کٹھ پتلی کے طور پر کیا۔ وہ اس بات پر برملا فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ یاہو سے بڑے نسل پرست سیاست کے علَم بردار ہیں۔

نیفتالی، مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی تیاریاں کرچکے ہیں۔ موصوف کا برملا یہ دعویٰ ہے کہ ’’میں نے اپنی زندگی میں بے شمار عرب قتل کیے ہیں‘‘۔  ان کے خیال میں فلسطینی کم تر درجے کے انسان ہیں۔ وہ انھیں Sub-Human قرار دیتے ہیں، اور یہ عزم ظاہر کرچکے ہیں کہ جب بھی موقع ملا، وہ انھیں قیدکرنے، ان کی توہین کرنے، حتیٰ کہ قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ نئے اسرائیلی وزیراعظم کی پوری زندگی ایک ایسے نسلی قوم پرست کی رہی ہے، جو فلسطینی خون بہانے اور ان کی زمین ہتھیانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

  • امریکی استعمار کا یہودی چہرہ: فلسطینی امریکی دانش ور ایڈورڈ سعید نے استعماریت اور یہودیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا:

اس اتفاق میں ذرہ برابر مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ صہیونیت کے ستائے فلسطینیوں اور امریکا کے کالے، پیلے اور برائون لوگوں کے تجربات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ ان سب انسانوں کو کم تر انسانوں سے بھی کم تر قرار دیا جاتا ہے۔ ان کو انیسویں صدی کے استعماریوں کے ہاتھوں ایک جیسے حالات کا سامنا رہا ہے۔

ایڈورڈ سعید نے ۱۹۷۹ء میںایک مضمون لکھا تھا کہ ’’یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مغربی ہوس ناکی نے سمندرپار علاقوں پر قبضہ جمانے کی راہ اختیار کیے رکھی اور صہیونیت بھی کسی طرح سے پیچھے نہ رہی۔ صہیونیت نے خود تو کبھی اعتراف نہیں کیا کہ وہ یہودیوں کی تحریک ِ آزادی کا ہی تسلسل ہے بلکہ اس نے اپنا عملی تعارف یہود کی آبادکاری کی تنظیم کے طور پر کرایا ہے‘‘۔

سعید کا مزید کہنا ہے کہ ’’مقامی آبادیوں اور ثقافتوں کے خلاف کارروائیوں سے یہودی بستیاں بسانے کی ایسی ہی پالیسیاں اور پروگرام جاری رکھے گئے ہیں۔ انھی تصورات پر مبنی امریکی قوم پرستی اور استعماریت کو کھڑا کیا گیا تھا۔ یہی سب کچھ صہیونیت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس کے ذریعے ہی اب فلسطینیوں کو ان کی املاک سے محروم کیا اور خود ان کی زندگی کو ختم کیا جارہا ہے‘‘۔

آج بظاہر دُنیا پر امریکی بالادستی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صہیونیت، اسرائیل میں امریکی استعماریت کا ہی تسلسل ہے اور فلسطینی ان کا ہدف ہیں۔

  • یہودیوں کا کردار:یہودی سیاسی ورکر اپریل روزن یلم نے ۲۰۰۷ء میں اپنے پمفلٹ ماضی کہیں نہیں جاتا [The Past Did'nt Go Any Where] میں لکھا تھا کہ یہود مخالف نکتہ یہ ہے کہ ’’یہودی چہرہ سامنے رکھا جائے تاکہ صہیونی حکمران طبقات کے بجائے یہودی عوام کے غصے کا نشانہ بنتے رہیں‘‘۔

روزن بلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ حکمران طبقات نے صدیوں سے یہودیوں کو مڈل مین کے کردار میں پیش اور استعمال کیا۔ یہودی کسان بھی حکمرانوں کی غیرمنصفانہ پالیسیوں کا براہِ راست نشانہ بنتے رہے ہیں اور آج بھی امریکی استعماریوں اور صہیونیوں نے اپنے ہم مذہب یہودیوں کو بفر کے طور پر ہی استعمال کیا ہے۔

درحقیقت، یورپ اور اس کے علاوہ صدیوں سے حکمران طبقات نے یہود سے نفرت کا بیج بویا ہے۔ یہودیوں کو اپنی ظالمانہ پالیسیوں اور اقدامات کے نتائج کا سامنا کرنے والا قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ اب وہ وہی کچھ کر رہے ہیں اور سیاسی و تہذیبی طور پر اسے آگے بڑھا رہے ہیں، جو ان کی مطلوب پالیسیوں کے عین مطابق ہے۔

امریکا نے مقبوضہ فلسطین میں ان آباد کاریوں کے خلاف مصنوعات کے بائیکاٹ کی فلسطینی مہم کو کئی ریاستوں میں خلافِ قانون قرار دیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن حکومت میں بھی ایسے قوانین نافذ ہیں، جو اس مہم کو روکنے کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔مغرب کا میڈیا ایک معمول کے طور پر اسرائیل کے حق میں دلائل کے انبار لگائے جارہا ہے۔ وہ اسرئیلی ریاست اور یہودیوں کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے۔

امریکا بظاہر یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ اسرائیل میں یہودیوں کا دفاع کررہا ہے۔ مگر دراصل وہ اسرائیل میں اپنے مفادات کو فروغ دے رہا ہے، جس سے اس کی اپنی سامراجیت قائم رہے۔  یہ امریکا میں سرگرم ’گوری بالادستی‘ کی تحریک ہی کا ایک بدنُما اور خونیں عکس ہے۔

آج یہودی آبادکاروں کی نسلی تشدد کی کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کے خلاف غم و غصے کی لہریں توانا ہورہی ہیں۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکی استعماریوں اور صہیونیوں کو اسرائیل میں بے اثر کیا جائے تاکہ وہ قتل عام کی کارروائیوں کے ذریعے فلسطینیوں کے خلاف جاری مہمات روکیں۔ (الجزیرہ، انگریزی، ۸جولائی ۲۰۲۱ء)

مختلف آثار کے مطالعے سے ایسے شواہد ملتے ہیں کہ مولانامودودیؒ، حافظ محمدیوسف سدیدیؒ (۱۹۲۶ء-۱۳ستمبر ۱۹۸۶ء) کو اُن کی خوش نویسی کی وجہ سے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور وہ مختلف مواقع پر اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار بھی مختلف حضرات سے کرتے رہے۔

حافظ صاحب کو جب کبھی یہ معلوم ہوتا کہ مولانا محترم ،بالخصوص عرب ممالک سے واپس آئے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی عربی کتب اور رسائل بھی لائے ہیں، تو وہ بلاتوقف مولانا کے پاس چلے جاتے ۔جیسا کہ ماہنا مہ ضیائے حرم کے مدیر عابد نظامی نے لکھا کہ’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مولانا مودودی مشرقِ وسطیٰ کے سفر سے واپس پاکستان آئے، تو وہ اپنے ساتھ بہت سی عربی کتب اور رسائل بھی لائے تھے، جن میں سے بعض کی خطاطی نہایت نفیس اور بہت عمدہ تھی ۔ حافظ صاحب کو جب یہ خبر ملی تو وہ فوراً ان کو دیکھنے کے لیے مولانا کی رہایش گاہ پر پہنچ گئے۔ مولانا چونکہ حافظ صاحب کی شان دار خطاطی اور فنی مہارت کے معترف تھے اور انھیں اپنے زمانے کا سب سے بڑا خطاط مانتے تھے۔ لہٰذا، وہ حافظ صاحب کی تشریف آوری پر نہایت محبت اور تواضع سے پیش آتے۔ اس بار مولانا کو جب حافظ صاحب کی آمد کی وجہ معلوم ہوئی تو انھوں نے اپنے ساتھ لائی ہوئی تمام کتب اور رسائل اُن کے سامنے ڈھیر کروا دیے۔حافظ صاحب تا دیر اُن کتب اور رسائل کو دیکھتے رہے۔ پھر جن کے سرورق یا خطاطی انھیں پسند آئے انھوں نے وہ علیحدہ کر لیے۔مولانا نے نہ صرف ان کے منتخب کردہ رسائل وکتب انھیں پیش کردیے بلکہ ان کے علاوہ بھی کچھ اور رسائل بااصرار ان کو دے دیے‘‘۔

’’یہ ۱۹۷۰ء کےاوائل کی بات ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنا پرچم تیار کیا ۔ اس موقعے پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پر چم پہ کلمہ طیبہ لکھوایا جائے ۔تب مولانا مودودی نے فرمایا کہ ’’یہ کلمہ طیبہ حافظ محمد یوسف سدید ی صاحب ہی سے لکھوایا جائے‘‘۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے عابدنظامی صاحب کو حافظ صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا ۔ نظامی صاحب نے حافظ صاحب سے مولانا کی خواہش کا اظہار کیا تو حافظ صاحب نے ایک بڑے سائزکا ایک قطعہ کاغذ لیا اور اس پر  کلمہ طیبہ لکھ کر اسے عابدنظامی صاحب کے حوالے کیا۔ نظامی صاحب حافظ صاحب کی کتابت میں تحریر کردہ کلمہ طیبہ لے کر مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مولانا اس کلمے کی خطاطی پر نظریں جمائے تادیر دیکھتے رہے اور آخر میں فرمایا: ’’یہ حُسن اور دل کشی صرف حافظ صاحب ہی کی خطاطی میں ممکن تھی۔‘‘

اسی طرح مولانا کی تفسیر تفہیم القرآن کی پہلی جلد تیار ہوئی تو اس کی اشاعت مکتبہ تعمیرانسانیت،شاہ عالم مارکیٹ،لاہور کی طرف سے کی گئی۔اس کتاب کا سرورق شیخ قمر الدین صاحب نے حافظ صاحب سے بخط کوفی لکھوایا۔ روایت ہے کہ چھپنے کے بعد جب یہ کتاب مولانا نے دیکھی تو سرورق کی خوب صورت لکھائی کو دیکھ کر مسرت کا اظہار فرمایا ۔ مزید برآں اس ادارے نے مولانا مودودی کی تفسیر سورۂ الفاتحہ ، سورۂ البقرہ کو الگ کتابی شکل میں شائع کراتے وقت بھی سرورق حافظ صاحب سے لکھوائے۔ اسی طرح ادارے نے مولانا کی بعض تصانیف کے سرورق حافظ صاحب سے لکھوائے تھے۔ حافظ صاحب کے دوست اور مولانا مودودی کے معتقد، جناب ملک نواز احمد اعوان نے راقم کو بتایا کہ ’’ایک روز میں روزنامہ امروز کے دفتر میں حافظ صاحب کے پاس موجود تھا کہ اسی دوران مولانا کے بیٹے سیّد حسین فاروق، حافظ صاحب کے پاس آئے اور اُن سے ترجمان القرآن  کا خوب صورت سرورق لکھوایا‘‘۔حافظ صاحب نے مولانا کی متعدد کتب کے سرورق کتابت کیے۔ چودھری بشیراحمد خاں کتابت کے لیے حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔

منصورہ، لاہور جب تعمیر ہو کر آباد ہوا، تو اس میں ایک بڑی جامع مسجد بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ جلد ہی اس مسجد کی تعمیر کا آغاز کر دیاگیا۔اس موقعے پر مولانا مودودیؒ نے فیصلہ کیا کہ مسجد کے ایوان کی بیرونی ، اندرونی اور محراب کی پیشانیاں پیغام سے بھرپور آیات کی خوب صورت خطاطی سے آراستہ کی جائیں۔ اس موقعے پر بھی مولانا نے حافظ صاحب کو یاد کیا اور اس کام کو پایۂ تکمیل کو پہچانے کی دعوت دی۔چنانچہ مولانا مودودیؒ نے مسجد کی بیرونی پیشانی کے لیے سورۂ توبہ کی اٹھارھویں ، اُنیسویں اور بیسویں آیات، اندرونی دیواروں کی پیشانیوں پر آراستہ کرنے کے لیے سورۂ صف کی آیات نمبر۷تا ۱۳ ، اور محراب کی پیشانی کے لیے سورۂ حشر کی آخری تین آیات ۲۲ تا ۲۴ کی عبارات منتخب کرکے حافظ صاحب کے حوالے کیں۔

حافظ صاحب نے ایوان کی بیرونی چاروں پیشانیوں کو مجوزہ آیا ت کی کتابت بخط ’ثلث جلی‘ میں کی، جن کی اُونچائی پانچ فٹ اور قلم کی چوڑائی پانچ انچ تھی ۔ اسی طرح حافظ صاحب نے اندرونی دیوار کی پیشانیوں کو خط کوفی سے آراستہ کیا ۔ اگرچہ بنیادی طور پر حافظ صاحب نے خط ’کوفی مقفل‘ لکھ کر مولانا کو نمونہ دکھایا تو انھوں نے فرمایا کہ ’’اس خط میں اس لکھائی کو عام آدمی کو پڑھنے میں دِقّت ہوگی، لہٰذا آپ سادہ ’کوفی مرصع ‘ میں کتابت کریں‘‘۔ چنانچہ حافظ صاحب نے ان کی حسب خواہش کتابت کردی۔

آخر میں محراب کی باری آئی تو حافظ صاحب نے اسے مولانا کی تجویز کے مطابق بخط ’ثلث جلی‘ کتابت کیا۔ حافظ صاحب کی کتابت میں محراب پر ’خط ثلث‘ میں تحریر کا نمونہ ان کی ’ثلث نویسی‘ کا بہترین نمونہ ہے۔نیز یہ بھی یاد رہے کہ مسجد کے سنگ بنیاد کی کتابت نیز منصورہ کے بیرونی داخلی درواز ے کی پیشانی بھی حافظ محمد یوسف سدیدی کے خط میں مزین ہوئیں۔

حافظ صاحب کے بارے میں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ وہ مسجد کے لیے کی گئی خطاطی میں بطور کاتب اپنا نام نہ لکھتے تھے ۔حسب عادت جب انھوں نے جامع مسجد منصورہ کی کتابت مکمل کی تو اس پر اپنا نام نہ لکھا۔ اس موقعے پر ان سے یہ نام بااصرار لکھوایاگیا۔جس کے لیے دلیل یہ دی گئی کہ ’’حافظ صاحب یہ ایک یاد گار کام ہے جو ہماری آیندہ نسلوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملے گا۔  نئی نسل کے کسی شخص نے یہ پوچھا کہ یہ تحریر کس کی ہے اور اس کی تاریخ کتابت کیا ہے تو پھر بتانے والا کوئی نہیں ہو گا۔لہٰذا، مہربانی فرماکر عبارت کے آخر میں اپنا نام اور تاریخ کتابت لکھ دیں‘‘۔ جس پر انھوں نے بادل نخواستہ ’السدیدی مع ۱۴۰۰ ھ ‘کی تاریخ بطور تکمیل تحریرلکھ دی۔

اگست ۱۹۴۷ء اور اس کے بعد مشرقی پنجاب اور ہندستان کے علاقوں سے لٹے پٹے مسلمان مہاجرین کی آمد اور کھلے آسمان تلے والٹن کیمپ لاہور میں قیام کا دور دراصل ایک ٹیسٹ کیس تھا اس با ت کا، کہ کیا دینی اور اخلاقی تربیت کی کوئی اہمیت بھی ہے یا ہماری زندگی کا سارا کاروبارِ حیات دین واخلاق کی تعمیر کے بغیر ہی چلنا چاہیے؟

والٹن کیمپ میں ہم نے دیکھا کہ ہمارے جو پاکستانی سرکاری وغیر سرکاری کارندے اور رضا کار اخلاقی پابندیوں سے آزاد تھے ، وہ لالچ، حرص ، ہوس اور دوسری آلائشوں میں لتھڑے ہوئے تھے۔ خوفِ خدا کا کوئی تعلق ان کی زندگیوں سے نہ تھا۔ انھوں نے باہر سے لٹ پٹ کر آنے والوں کے ساتھ کم وبیش وہی سلوک کیا، جس کا سامنا وہ ہندواورسکھ قاتلوں، لٹیروں اور بلوائیوں کے ہاتھوں سہتے اور دیکھتے ہوئے آ رہے تھے۔ ان کے لیے ایسے ’رضاکار‘ اور ’سرکاری کارندے‘ ہندوئوں اور سکھوں سے کچھ زیادہ مختلف ثابت نہ ہوئے۔ یہ وہ ماحول تھا کہ جب ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھنے کی تربیت پانے والے ان کی طرف بھائیوں اور غمگساروں کی حیثیت سے بڑھے۔

جو مہاجرین، والٹن کیمپ اور دوسرے کیمپوں میں آئے اور جماعت اسلامی کے لوگوں کو ان کی خدمت کا موقع ملا، وہ بعد میں پورے ملک میں بکھر گئے ۔ میں یہ بات بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ ان کی یادوں میں وہ لمحات ضرور شامل ہوں گے، جب انھوں نے اپنے بھائیوں کو شفقت، محبت، خدمت اور اپنائیت کا عملی مظاہرہ کرتے دیکھا ۔ جن پر وہ اعتماد کر سکتے تھے، اور جن سے انھوں نے ہمیشہ بھلائی ہی پائی۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم ان یادوں پر فخر نہیں کرتے، بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں اس کے حضور میں اپنا جواب دہ ہونا یاد رہا اور اسی لیے ہم ہر حال میں نہ اپنے انسان ہونے کو بھولے اور نہ اپنے مسلمان ہونے کو فراموش کیا۔

جس وقت امیر جماعت اسلامی مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی طرف سے کارکنانِ جماعت کو والٹن کیمپ میں پہنچنے کی ہدایت ملی تو ایک دن کی تاخیر کیے بغیر فوراً حاضر ہو گیا۔ والٹن کیمپ کیا تھا؟___ یہ لاشوں ،زخمی اور تھکے ماندے انسانوں ، ایک دوسرے سے بچھڑ جانے والوں، اور مائوں، باپوں، بھائیوں ، بیٹیوں ، بہنوں اور بچوں کو ایک دوسرے کی تلاش میں دیوانہ وار پھرنے والوں کی دنیا تھی ۔ وہ کئی کئی میل کی مسافت طے کر کے آ رہے تھے۔ اس خونیں سفرکے دوران میں ان پر باربار حملے ہوتے رہے تھے۔ کہیں ماں باپ نے اپنے سامنے بچوں کو قتل ہوتے دیکھا اور کہیں اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ اس موقع پر بچھڑ جانے والے زندہ بھی بچ سکے یا نہیں اورجب تلاش کرتے کرتے بے حال ہو گئے تو تھک کر بیٹھ گئے ۔ لیکن ان میں سے ہر وجود میں ایک کسک زندگی بھر کا روگ بن گئی۔

جماعت اسلامی کو والٹن کیمپ میں کام شروع کیے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ جب ماحول میں اس نوع کا موازنہ ہونے لگا کہ ’’خدمت کا صحیح حق تو یہ لوگ ادا کر رہے ہیں ، ورنہ جہاں تک سرکاری انتظام کا تعلق ہے وہاں لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ سب اچھی اچھی چیزیں ، کپڑے، کمبل، بستر اٹھا کر گھروں کو لے جا رہے ہیں اور جن کے لیے یہ سب کچھ اکٹھا ہوتا ہے، انھیں ناکارہ اور بے کار چیزیں مل رہی ہیں‘‘۔ ان موازنوں اور گفتگوئوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صر ف ضرورت مند مہاجرین جماعت اسلامی کے کیمپ کی طرف لپکنے لگے بلکہ شہر سے اور دُور دراز سے جماعت کے ان کیمپوں میں سامان پہنچانے والے بھی صرف ہمارے کارکنوں کو اپنے اعتماد کا مستحق سمجھنے لگے۔ پھر بہت جلد یہ بات سرکاری کیمپ کے لیے ناقابلِ برداشت ہونے لگی تھی۔

ان دنوں ہمارے کیمپ کے سربراہ ملتان سے باقر خاں صاحب تھے ۔ کام کا یہ حال تھا کہ دن چڑھتے ہی کارکن ہاتھوں میں بیلچے لے کر کیمپ میں پھیل جاتے۔ ایک جگہ گڑھا کھود کر، جگہ جگہ پھیلی ہوئی غلاظت بیلچوں میں اٹھا اٹھا کر لاتے اور اس گڑھے میں ڈال کر اوپر مٹی ڈال دیتے۔ اور اس طرح دن کا آغاز سارے کیمپ کو صاف ستھرا بنا کر کیا جاتا ۔ اس میں حددرجہ قابلِ قدر مشاہدے کی بات یہ تھی کہ یہ کام کرنے میں نازو نعم سے پلے ہوئے لکھ پتی تاجر، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور دوسرے صاحبِ حیثیت بھی ہوتے تھے، جو اپنی آسایش اور سکون بھری زندگی چھوڑ کر، مولانا مودودی کی دعوت پر ان کیمپوں میں آکر ڈیوٹی دے رہے تھے۔

زندہ انسانوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کی تمام دینی آداب کے ساتھ تدفین کا کام بھی ہو رہا تھا ۔ جن دنوں والٹن کیمپ میں ہیضے کی وبا پھیلی، ان دنوں اس کام کا دائرہ اور پھیلائو بہت بڑھ گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ساتھی پہنچتے رہے اور تمام معاملات نبٹائے جاتے رہے۔

اپنے آپ کو شدید تنقید کی زدمیں دیکھ کر آخرکار سرکاری کیمپ نے ہمیں اپنا کام بند کرنے کا حکم دیا ۔ یہ حکم حکام بالا سے آیا تھا۔ امیر جماعت اسلامی کی ہدایت پر ہم نے اس الجھائو میں اپنا وقت اور صلاحیت ضائع کرنے کے بجائے اپنا کام شاہدرہ موڑ کیمپ منتقل کر دیا۔ مولانا نے ہمیں ایک ہدایت یہ بھی دی کہ’’ والٹن میں لاوارث بچوں اور عورتوں کو وہیں رہنے دیا جائے، انھیں ساتھ نہ لے جایا جائے ، تا کہ اگر ان کے سرپرست آ جائیں تو وہاں انھیں نہ پا کر پریشان نہ ہوں‘‘۔ ہم نے اس ہدایت پر عمل کیا لیکن دو بچیوں کا معاملہ ایسا تھا کہ میں رات بھر پریشان رہا ، اور صبح ہوتے ہی ان کی تلاش میں شاہدرہ سے والٹن کیمپ پہنچ گیا۔

ایک بچی کی عمر نو دس برس تھی۔ اس کے والد امراضِ ذہنی کے ہسپتال میں داخل کرا دیے گئے تھے۔ والٹن کیمپ میں پہلے اس کی ماں اور پھر شیر خوار بھائی چل بسا تھا، اور یہ بچی بالکل تنہا رہ گئی۔ باپ زندہ تھا لیکن دماغی توازن کھو چکا تھا۔ اس کی ماں کے مرنے پر ان کے سامان میں سونے کے زیورات ہم نے قریبی تھانے میں جمع کرا کے رسید حاصل کرلی تھی۔

دوسری بچی دس گیارہ سال کی تھی ۔ وہ اپنا اور اپنے والدین کا نام اور پتہ بتاتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اوکاڑہ کے رہنے والے ہیں۔ تقسیم کے موقعے پر یہ اپنے ننھیال جالندھر میں گئی ہوئی تھی کہ یہ قتل و غارت کی صورت پیش آئی۔ اب بچھڑنے والے مل نہیں رہے تھے۔ اوکاڑہ میں اس کے ماں باپ موجود تھے اور ان تک پہنچنے کا مسئلہ تھا۔

میں ان بچیوں کے لیے صبح والٹن کیمپ پہنچا۔ دونوں مل گئیں ، لیکن روتی اور چیختی ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ رات بھر کیمپ کے دفتر کے نوجوان انھیں ساتھ لے جانے کے لیے آتے رہے، ان کے فحش فقرے اور بے حیائی کی باتیں برداشت نہیں ہوتی تھیں۔ یہ بچیاں صرف اس لیے بچ گئیں کہ کم عمر تھیں۔

میںنے بچیوں کو ساتھ لیا۔ اپنے ساتھی ظفر احمد صاحب کو اوکاڑہ والی لڑکی کا پتہ لکھ کر دیا۔ ایک تحریر اس کے والدین کے نام لکھی اور ظفر احمد صاحب سے کہا کہ اگر اس کے والدین یا ورثا نہ ملیں تو بچی کو واپس لے آئیں ۔ چھوٹی بچی کو لوہاری میں اپنے چچا زاد بھائی کے گھر چھوڑا کہ جب کیمپ سے فارغ ہو جائوں تو ان شا اللہ آ کر لے جائوں گا۔

دوسرے دن ظفر احمد صاحب اوکاڑہ سے بچی کے والدین کی سند اور تحریری ثبوت لے کر آگئے۔ ان کی بچی ان کے پاس پہنچ گئی تھی اور ان کی دعائیں ہمارے لیے تھیں۔

شاہدرہ میں جماعت اسلامی کے مہاجرین بحالی کیمپ میں مجھے سٹور کیپر بنا دیا گیا ۔ اپنے کام کی اس مدت میں ہم نے لٹ پٹ کر آنے والوں کے کردار کے مختلف پہلو بھی دیکھے ۔ ان کے ایک جانب خوددار اور عالی ظرف انسان بھی دیکھے اور دوسری جانب دھوکے بازی اور جھوٹ سے کام لے کر دوسروں کے حصے کا سامان خود اینٹھ لینے کے خواہش مند بھی دیکھے۔ ایک نوجوان اپنی درد ناک داستان سنا کر سامان لے گیا ۔ دوسرے دن ایک عورت کو لایا کہ ’’ہماری ہمسائی ہے، اس کے خاوند کو سکھوں نے قتل کر دیا ہے‘‘۔ اسے سامان دے کر رخصت کیا۔ پھر کچھ دیر بعد ایک بوڑھے کو لے کر آیا کہ ’’اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو مارا جا چکا ہے، بے چارا بالکل بے آسرا ہے‘‘۔ اب مجھے شک گزرا تو میں نے کہا ’’ان کی قیام گاہ کہاں ہے، وہاں جا کر حالات معلوم کر کے مدد کر سکوں گا‘‘۔ یہ سن کر وہ دونوں کھسک گئے۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ مجھے کیمپ میں ایک دوسری جگہ نظر آئے تو پتہ چلا کہ بوڑھا اس نوجوان کا باپ تھا ور ہمسائی اس کی بیوی تھی۔ اور یہ خاندان ان خاندانوں میں سے ایک ہے، جو اپنا پورا سامان حتیٰ کہ مویشی بھی بچا کر لانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

ہمیں بھلے بُرے تمام کردار دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمیں ان سب کو سنبھالنا تھا۔ ان کی خدمت کرنی تھی اور جہاں ضرورت محسوس کرتے، حق نصیحت بھی ادا کرتے تھے۔

مجھے جب کیمپ سے جانے کی اجازت ملی تو میں نے اپنے چچا زاد بھائی کے گھر سے مہاجر بچی کو لیا اور اسے ڈسکہ لے آیا۔ یہاں میری ایک بھتیجی اس بچی کی ہم عمر اور ہم نام تھی، اور پھر دونوں ہم مکتب اور ہم جماعت بھی بن گئیں۔

حُسنِ اتفاق یہ ہوا کہ ہمارے ہاں زیادہ تر مہاجر بھائی جالندھر سے آ کر آباد ہوئے۔ میں وقتاً فوقتاً ان سے ملتا اور انھیں اس مہاجر دوست کی داستان سناتا جو والٹن کیمپ میں جالندھر والے قافلے کے ساتھ آیا تھا، لیکن صدمات کے نتیجے میں اس کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ اسے امراضِ ذہنی کے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ بعد میں اس کی بیوی اور شیر خوار بچہ مر گیا۔ ایک بچی ہے جو ہمارے ہاں تعلیم پارہی ہے ۔ اگر کبھی وہ صاحب ذہنی صحت کی بحالی کے بعد کسی کو مل جائیں تو انھیں ضرور بتائیے گا کہ ان کی ایک بچی زندہ سلامت موجود ہے۔

وقت گزرتا گیا، وہ بچی ہمارے ہاں بالکل ہماری اپنی اولاد کی طرح رہ رہی تھی، اور وہ ہمارے خاندان کا ایک حصہ دکھائی دیتی تھی ۔ اس کیفیت اور انتظار میں دو سال گزر گئے اور پھر  ایک دن اچانک ایک جالندھری ساتھی ایک صاحب کو لے کر میرے پاس آگئے کہ ’’دیکھیں کیا یہی آپ کے مطلوبہ بھائی ہیں؟‘‘۔ ہم انھیں ساتھ لے کر گھر پہنچے ۔ باپ بیٹی آمنے سامنے ہوئے اور بحمد اللہ دونوں نے ایک دوسرے کو پہنچانے میں کوئی لمحہ بھر بھی نہ لیا۔ ایک ٹوٹے پھوٹے خاندان کی کڑیاں پھر سے جڑ گئیں ۔ سب کے لیے یہ مقام شکر بھی تھا اور بڑی مسرت کا لمحہ بھی۔

دو دن بعد میں انھیں ساتھ لے کر لاہور آیا۔ ہم مرکزی دفتر جماعت اسلامی ۵- اے ذیلدار پارک پہنچے۔ ناظم دفتر کو ساری داستان سنائی۔ انھوں نے فوراً فائل نکالی۔ اور ان کے زیورات کی رسید ہمارے حوالے کی ۔ ہم تھانے پہنچے۔ ان لوگوں نے رسید دیکھ کر اپنی تسلّی کرکے زیورات مالک کے حوالے کیے۔ ایک چیز زیورات کے مطابق نہیں مل سکی۔ اس کی قیمت ادا کر دی گئی۔

میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ والٹن کیمپ کے دو سال بعد میری ڈیوٹی مکمل ہو گئی تھی۔

پاکستان کا تشخص کیا ہو گا ؟ یہ سوال قیام پاکستان سے پہلے بھی اپنا وجود رکھتا تھا اور آج بھی پاکستانی قوم کے سامنے یہ سوال موجود ہے ۔ پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگوں کے ذہن میں جواب بالکل واضح تھا کہ متحدہ ہندستان میں مسلمانوں کے تشخص، ان کی تہذیب کا محفوظ رہنا نا ممکن ہے۔ اس لیے ہندستان کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لیے الگ وطن کی ضرورت کے اسباب ایک سے زیادہ تھے ۔ مختلف اوقات میں  ان کی جانب کُل ہند مسلم لیگ کے رہنما اور قائد اعظم محمد علی جناح اشارے بھی کرتے رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس بحث میں مزید ابہام اور چند در چند اشکالات نے حقیقت پر ڈالی جانے والی دھند صاف کرنے کی ضرورت دوچند کر دی ہے۔ ضروری ہے کہ مستند تاریخی دستاویزات سے شہادت لی جائے۔

فرد ہو یا قوم، تشخص کا سوال اس کے وجود کی بقاء کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ شخصی یا قومی تشخص کو مختلف زاویہ ہائے نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم قومی تشخص کی بات کریں تو کسی قوم کے تشخص کو بیان کرنے کے لیے اس کے جغرافیہ، زبان، تاریخ، ثقافت، مذہب وغیرہ عناصر کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے ، اگرچہ تشخص کے درخت کی شاخیں بہت سی ہوسکتی ہیں، لیکن اس کا تنا ایک ہی ہوتا ہے، پھر تنے سے نیچے پھیلی ہوئی جڑیں زمین کے ان حصوں تک جاتی ہیں، جہاں سے درخت اپنی نشوو نما کے لیے غذا حاصل کرتا ہے۔

برطانوی سامراجی تسلط

برعظیم پاک و ہند میں برطانوی سامراج کے تسلط کے بعد ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی تھی، جس کا سامنا ایک خطے کے لوگوں کو اس سے پیش تر کبھی نہیں ہوا تھا۔ بالخصوص ۱۸۵۷ءکی جنگ آزادی میں شکست کے بعدبحکم سرکار اسے ’غدر‘ کا متبادل نام دیا گیا تھا۔ اس جنگ میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے حصہ لیا تھا، لیکن ناکامی کا زیادہ تر بوجھ مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑا تھا ۔ یہ صورت حال بدلے ہوئے تناظر میں ایسی حکمت عملی کا تقاضا کرتی تھی، جس میں جدید مغربی تصورات کے تحت ملک کی تعمیر و تشکیل میں اس خطے میں آباد مختلف مذہبی، لسانی اور ثقافتی گروہوں کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ تاہم، جدید مغربی اثرات کےتحت ہندستان میں اُٹھنے والی تحریکوں میں مشترکہ ہندستانی قوم سے زیادہ مذہبی بنیاد پر اپنے اپنے ہم مذہب لوگوں کو متحد اور منظم کرنے کی طرف رجحان نمایاں تھا۔ مگر یہاں اس مضمون میں مذہبی حلقوں کی تحریکیوں کو حوالہ نہیں بنایا جا رہا، بلکہ ان لوگوں کی تحریکوں کو سامنے رکھ کر بات کی جارہی ہے، جو نہ صرف جدید مغربی تہذیب و تمدن سے متاثر تھے، بلکہ انھی خطوط پرہندستانی معاشرے کے لوگوں کو ڈھالنا چاہتے تھے۔

ہندستان میں انگریز حکومت (ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ) کے زیر اثر جو پہلی طاقت ور تحریک پیدا ہوئی ،وہ راجہ رام موہن [م: ۱۸۳۳ء]کی تحریک (’برہموسماج‘: تاسیس ۱۸۳۰ء) تھی۔ یہ تحریک واضح طور پر ہندو دھرم کی تحریک تھی۔ یہ ہندستان میں بسنے والے ہندوؤں کے مفادات کو سامنے رکھ کر ترتیب دی گئی تھی۔ اس کے مقاصد میں ہندوؤں کو انگریزوں کے قریب لانا، انھیں انگریزی تعلیم کی طرف مائل کرنا اور معاشی دوڑ میں آگے بڑھاناشامل تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جدید مغربی فکر اپنے سیکولر مزاج کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر لوگوں کی تقسیم کی قائل نہیں تھی۔ یہ مذہب اور سیاست کی علیحدگی پر اصرار کرتی تھی۔ لیکن اس فکرکے زیر اثر پروان چڑھنے والی پہلی تحریک ہی ہندستان کے لوگوں کو تقسیم کر رہی تھی۔

راجہ رام موہن کے بعد سر سید احمد خاں [م: ۱۸۹۸ء] نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی علی گڑھ تحریک ۱۸۶۸ءمیں شروع کی۔ تب تک حالات بہت تبدیل ہو چکے تھے۔ کمپنی کی حکومت کی جگہ براہِ راست تاج برطانیہ لے چکا تھا۔ ہندستان میں انگریز ی راج مستحکم ہو چکاتھا۔ ہندو بہ طور طبقہ انگریزوں کے زیرسایہ ترقی کی منازل طے کر رہے تھے۔ ایسے میں سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کو مغربی تعلیم اور تہذیب کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، تو ان کے مخاطب ہندستان کے سارے لوگ نہیں تھے۔وہ صرف ایک مذہب کے لوگ تھے۔ پھر جب ہندستان میں اردو ہندی تنازعے نے سر اٹھایا تو اس کی بھی یگانگت کے بجائے مذہبی تقسیم بنیاد تھی۔ ان حالات میں جب ۲۵دسمبر ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی بنیاد رکھنے والے ڈیوڈہوم تھے۔ ان کا مقصد حکومت اور لوگوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنا تھا۔ اس میں تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ جب کانگریس کے سیاسی مقاصد نمایا ں ہونے لگے اوریہ دکھائی دینے لگا کہ انگریز ہندستان میں مغربی طرز ِجمہوریت کو جزوی طور پر نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو جن لوگوں نے مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے کا کہا، ان میں سر فہرست سرسید احمد خاں تھے۔

سیاست میں انقلابی تبدیلیاں

بیسویں صدی کا آغاز بر عظیم کی سیاست میں انقلابی تبدیلیوں کا دور ثابت ہوا۔ ۳۰دسمبر ۱۹۰۶ء کو کُل ہند مسلم لیگ کی بنیاد خواجہ سلیم اللہ خاں [م: ۱۹۱۵ء] نے رکھی تھی اور اسی سال مسلمانوں کا جدا گانہ انتخاب کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔ یہ مطالبہ کرنے والے بھی مغربی تعلیم سے آراستہ لوگ تھے اور ان کی قیادت سر آغا خان سوم [م:۱۹۵۷ء] کے ہاتھ میں تھی۔ مسلمانوں کو اس سمت لانے میں بنیادی کردار، تقسیم بنگال کے حوالے سے سامنے آنے والا ہندوؤں کا رد عمل تھا جس کی قیادت کانگریس کر رہی تھی۔ اگر کانگریس واقعی ہندستان کے تمام طبقوں کی نمایندہ تھی، تو اسے صوبے کی تقسیم پر معترض نہیں ہونا چاہیے تھا ۔اس حقیقت سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں کہ اس وقت بھی کانگریس پر ہندوؤں کا غلبہ تھا اور کانگریس کی مالی معاونت کرنےوالے زیادہ تر ہندو ہی تھے۔

عددی برتری کے مقابلے میں اپنے تشخص کو کھو دینے کا جو احساس جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو تھا،اس میں ہندستان میں ہونے والے واقعات اور بالخصوص کانگریس کے رد عمل نے اضافہ کردیا تھا۔ تقسیم بنگال اس حوالے سے نہایت اہم ہے۔ کانگریس کے رد عمل اور ہندوؤں کی طرف واضح جھکاؤ کا دوسرا اظہار، ۱۹۰۱ء میں پنجاب کی تقسیم اور صوبہ سرحد [خیبرپختونخوا] کی تخلیق کے وقت دیکھنے میں آیا۔ پنجاب کی تقسیم سے ہندوؤں کے مفادات متاثر نہیں ہورہے تھے،بلکہ صوبہ سرحد کے قیام سے پنجاب میں ان کی قوت میں اضافہ ہو رہا تھا، اس لیے کانگریس نے تقسیم بنگال کے برعکس اس تقسیم پر خاموشی اختیار کی۔ دو صوبوں کی تقسیم کے ایک جیسے عمل پر انڈین کانگریس کے متضاد رد عمل نے اس دعوے کی قلعی کھول دی کہ وہ کس حد تک ہندستان میں بسنےوالے تمام طبقوں کی نمایندگی کرتی ہے۔

قیامِ پاکستان تک بر عظیم کی سیاست میں اصل سوال یہ تھا کہ ’’ہندستان میں بسنے والے مختلف طبقوں کے مفادات کا تحفظ کیسے کیا جائے گا؟‘‘ بر عظیم کے تناظر میں یہ کوئی آسان سوال نہیں تھا اور نہ اس کا کوئی واحد جواب ممکن تھا۔ اس خطے میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد تھے۔ اس میں بےشمار زبانیں بولی جاتیں تھیں ۔ مختلف نسلی گروہ موجود تھے۔ ذات پات کا نظام مذہب اور ثقافت کی سرحدیںبھی عبور کر جاتا تھا۔ ان سب کی موجودگی میں ہندستان میں مغربی طرز کی جمہوریت صرف اسی وقت کارگر ہو سکتی تھی، جب وہ اس خطے میں بسنے والے تمام طبقوں کے مفادات کی نگہداشت کر سکے۔ ایسا بہ ظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس لیے ہندو اور مسلمان دونوں کی جانب سے یہ آواز سنائی دیتی رہتی تھی کہ ہندستان میں دو بڑے گروہوں کے درمیان کوئی لکیر کھینچ دی جائے۔ ہندوؤں کی طرف سے لالہ لاجپت رائے [م: ۱۹۲۸ء] اور پنڈت مدن موہن اور مسلمانوں کی طرف سے حسرت موہانی [م: ۱۹۵۱ء] اور علامہ محمد اقبال کو بطور حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی جدوجہد میں ہندو مسلم کبھی کبھی بہت قریب آ جاتے تھے، جیسے ’لکھنو ٔپیکٹ‘ اور’ تحریک خلافت‘ کے دوران ہوا۔ مگر پھر یہ دونوں کبھی کبھی بہت دور چلے جاتے تھے ،جیسے ۱۹۳۷ء کی بر صغیر کے آٹھ صوبوں میں بننے والی وزارتوں کے دوران کانگریسی حکومتوں اور قیادت کے ہاتھوں مسلمانوں کے خلاف اقدامات اور رجحانات میں دکھائی دیتاہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کا کام وہ رہنما کرتے تھے ،جو اس بات کے قائل تھے کہ اگر ہندستان کو واقعی انگریز کے تسلط سے نجات حاصل کرنا ہے ،تو پھر ہندو اور مسلمان دونوں کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے سب سے اہم نام قائد اعظم محمد علی جناح [م:۱۹۴۸ء] کا ہے اور ان کے بارے میں گوپال کرشن گوکھلے جیسے قوم پرست رہنما نے کہا تھا :’’جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ہیں ۔‘‘

ایک دلچسپ نکتہ ہندستان کی سیاسی جدوجہد میں مرکزی مسئلے کے طور پر موجود تھا اور وہ تھا’جداگانہ انتخابات‘۔ جدا گانہ انتخاب کا حق، مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ہونے والے تمام مذاکرات کا محور رہا ۔ یہی وہ نکتہ ہے، جس پر دونوں فریق مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہ کر سکے اور بالآخر ہندستان کی تقسیم عمل میں آ گئی۔

یہ احوال مختصراً انداز میں اس لیے رقم کیے گئے ہیں کہ قیام پاکستان کی بنیاد میں جنم لینے والے معاملات کو واضح کیا جاسکے۔ قیام پاکستان سے تاحال پاکستان کے تشخص کی بحث میں بھی یہ پس منظر جاننا ضروری ہے۔ پاکستان میں ایک طبقہ مسلسل اس بات کو اچھالتا رہاہے کہ ’’پاکستان کے قیام کا مقصد ایک سیکولر ریاست کا قیام تھا۔ پاکستان کو مذہبی تشخص دینے کی بات قیامِ پاکستان کے بعد اور محمد علی جناح کے انتقال کے بعد کی جانے لگی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس موقف میں کتنی صداقت ہے، اسی موضوع پر آیندہ صفحات میں بات کی جائے گی۔

قیامِ پاکستان کے بعد آئین سازی

قیامِ پاکستان کے بعد جب ملک میں آئین سازی کا مرحلہ آیا تو لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، چودھری محمد علی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر احباب نے آئین کی رہنمائی کے لیے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں ’قراردادِ مقاصد‘ پاس کروائی۔ اس وقت اسمبلی میں اس قرارداد کی مخالفت میں بھی آوازیں آئیں ۔ ظاہرہے جمہوری عمل میں اختلاف رائے ہونا کوئی اَنہونی بات نہیں ہے، لیکن یہ بڑی واضح حقیقت ہے کہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے اسے بڑی بھاری اکثریت سے منظور کیا۔ ہمارے وہ دوست، جو ’قرار داد مقاصد‘ کی مخالفت کرتے ہیں، یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ قرار داد کسی ایک فرد کے ذہن کی اختراع نہیں تھی، بلکہ اس قراردادکی منظوری تو پاکستان کی بانی اور پہلی دستور ساز اسمبلی نے دی۔ پھر ۳۱جیدعلما نے، جن کا تعلق پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر سے تھا، قرارداد کی منظوری کے بعد ریاست کے سیاسی و اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے متفقہ طور پر بائیس نکات پر مشتمل رہنما اصول وضع کیے تھے کہ پاکستان میں قوانین قرآن و سنت کی روشنی میں بنائے جائیں گے۔ چوں کہ اس پر جمہوری انداز میں لوگوں سے اتفاق رائے حاصل کیا گیا تھا،اس لیے پاکستان کے پہلے آئین ۱۹۵۶ء، پھر دوسرے آئین ۱۹۶۲ء سے لے کر ۱۹۷۳ء کے آئین تک میں ’قراردادِمقاصد‘ ابتدائیہ کے طور پر موجود ہے۔

پاکستان کے سیکولر تشخص کی بحث

نائن الیون کے بعد جہاں امریکا نے فوجی اعتبار سے پاکستان کو اپنے حصار میں لیا ،وہاں اس نے پاکستان کے سیکولر تشخص کے حوالے سے بھی بحث کو نئے سرے شروع کروایا۔ اس حوالے سے ایک قابلِ ذکر پتھر ۲۰۰۴ء میں امریکی حکومت کی پالیسی پلاننگ سٹاف کے ایک سابق رکن سٹیفن فلپ کو ہن [۱۹۳۸ء-۲۰۱۹ء]کی طرف سے ان کی کتاب The Idea of Pakistan [ناشر: بروکنگز انسٹی ٹیوشن پریس، واشنگٹن ڈی سی]کی شکل میں آیا۔ فتح محمد ملک نے اپنی کتاب فتنہ انکار پاکستان میں سٹیفن پی کوہن کے نقطۂ نظر کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے۔

 سٹیفن فلپ کوہن، امریکی حکومت کے لیے کام کرنے والے ادارے بروکنگز میں پالیسی اسٹڈیز پروگرام میں سینئرفیلو کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ یہاں انھوں نے ایک دوسری کتاب The Future of Pakistan بھی تحریر کی ہے، جو اسی سوچ کی غماز ہے۔ کوہن، تحریک پاکستان کی کامیابی کو ’المیاتی کامیابی‘ (Tragic Vcitory) خیال کرتے اور پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیتے ہیں ۔ پاکستانیوں کو ڈرانے کی پرانی امریکی روش پر چلتے ہوئے کہتے ہیں:

Failure of vision, Pakistan's founders expected the idea of Pakistan to shape the state of Pakistan, instead, a military bureaucracy governs the state and imposes its own vision of a Pakistani nation. (p:3)

وژن کی ناکامی، پاکستان کے بانی تصورِ پاکستان سے ریاست ِ پاکستان کی تشکیل کی توقع رکھتے تھے، بجائے اس کے کہ ملٹری بیوروکریسی پاکستانی قوم کا اپنا تصور مسلط کرتی اور ریاست پر حکومت کرتی۔(ص ۳)

اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قیام پاکستان کے بعد، پاکستان کی تشکیل ویسی نہ ہوسکی، جیسی تصور پاکستان میں سوچی گئی تھی، تو بلاشبہہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ اسی بنیاد پراگر ریاستوں کی کامیابی اور ناکامی کی جانچ کی جائے گی، تو خود ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانیوں نے جس تصور پر امریکا کی تشکیل کی تھی، گذشتہ ۱۵۰ سال میں امریکا نے سامراج کی شکل اختیار کرکے اس تصور کی خوب مٹی پلید کی ہے۔ پھر اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ گاندھی جی، بھارت کی عدم تشدد کی بنیاد پر تشکیل کرنا چاہتے تھے ۔ بھارت وجود میں آنے سے لے کر اب تک دوسری اقوام کے خلاف اور خود بھارت کے اندر بسنے والے باشندوں کے لیے بار بار تشدد کا ارتکاب کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ کیا بھارت کو ایک ناکام ریاست نہ سمجھ لیا جائے؟ پروفیسر فتح محمد ملک نے بجاطور پر لکھا ہے کہ: ’’پاکستان کو نئے نئے استدلال کے ساتھ جو بار بار ناکام ریاست کہا جاتا ہے تو صرف اس لیے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں ہے۔ ہم اپنے خواب کی تکمیل سے کتنے بھی دور ہوں، ہماری ناکامیاں کیسی بھی ہولناک ہوں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری کامیابیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں‘‘ ۔بہ قول فتح محمد صاحب: ’’پاکستان عملی طور پر ایک اسلامی ریاست نہیں بن پایا ہے، مگر امکانی طور پر ایک مسلم ریاست ضرور ہے اور یہی وہ امکانی صورت ہے، جو امریکی استعمار کو ہضم نہیں ہوتی۔

کوہن نے لکھا ہے: ’’پاکستان اپنی قومی شناخت کو اپنے اہم ہمسایہ ممالک کے مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی راہ اپنائے‘‘۔ اس پر ملک صاحب کہتے ہیں: ’’اب جہاں تک ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کا مشورہ ہے ،یہ بڑا صائب ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک صرف بھارت اور افغانستان تو نہیں، چین اور ایران بھی ہیں۔ دوسری جانب چیلنج یہ درپیش ہے کہ امریکی سامراج ہمارے لیے یہ طے کرنے کا بے جا ’حق‘ جتاتا ہے، کہ وہی ہمارے لیے یہ طے کرے گا کہ کون ہمارا ہمسایہ ہے اور کون نہیں، کس سے ہمیں تعلقات رکھنا ہیں اور کس سے نہیں؟ اسی طرح امریکا ہماری داخلی شناخت کو بھی اپنی مرضی کے مطابق متعین کرنا چاہتا ہے‘‘۔

اس حوالے سے سٹیفن کوہن لکھتے ہیں:

Pakistan was clearly  "Indian" in that the strongest supporters of the idea of Pakistan identified themselves as culturally Indian, although in opposition to Hindu Indians. This Indian dimension of Pakistan's identity has been systematically overlooked by contemporary Pakistani politicians and scholars. (p37).

پاکستان واضح طور پر ان معنوں میں ’بھارتی‘ تھا کہ تصورِ پاکستان کے مضبوط ترین حامی ہندو بھارتیوں کی مخالفت میں ثقافتی طور پر اپنے آپ کو بھارتی تصور کرتے تھے۔ پاکستان کی بھارتی شناخت کا یہ پہلو ایک منظم انداز میں ہم عصر پاکستانی سیاست دانوں اور اسکالروں نے نظرانداز کردیا۔

آپ نے دیکھا کہ امریکی دانش ور کس خوب صورتی سے پاکستان کی شناخت کو دھندلانے کی کوشش کر رہے ہیں، تا کہ ایک نئی شناخت کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔ اس کام سے فارغ ہونے کےبعد وہ پاکستان کے تشخص پر مزید بات کرتے ہیں اور ’قرارداد مقاصد‘ کو نشانہ بنا کر پاکستان کے اسلامی تشخص کی نفی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سٹیفن پی کوہن کے خیال میں:

 ’’قائد اعظم کا تصور پاکستان ایک سیکولر تصور تھا‘‘ (ص۴۵)، ’’پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائد اعظم کی تقاریر کی روح سیکولر تھی‘‘(ص۴۲)۔اور قرارداد مقاصد میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں سیکولر مسلمانوں اور سیکولر اسلام کا ذکر تک نہیں :

The resolution defines both the state and the idea of Pakistan. The new country was to be a federal, democratic and  Islamic entity, but there was no mention whatsoever of a secular Muslim life, a secularized Islam, or even the term "Secular" (p57).

قرارداد ریاست اور تصورِ پاکستان دونوں کو واضح کرتی ہے۔ نئی مملکت کی ایک وفاقی، جمہوری اور اسلامی شناخت ہونا تھی، لیکن اس میں ایک سیکولر مسلمان کے طرزِ زندگی، سیکولر اسلام، حتیٰ کہ اصطلاح ’سیکولر‘ کی نشان دہی نہیں کی گئی۔

اطلاعاً عرض ہے کہ ’قرارداد مقاصد‘ جس [دستور ساز]قومی اسمبلی نے منظور کی تھی، اس کے ارکان تحریک پاکستان کے قائدین اور عمائدین پر مشتمل تھے۔ قرار داد منظور کرنے والوں کو  بخوبی علم تھا کہ پاکستان کانظریہ کیا ہے ؟ اسلامیانِ ہند نے کس خواب و خیال کو عملی زندگی میں جلوہ گر دیکھنے کی تمنا میں پاکستان قائم کیا ہے ؟ اپنے خیالات، تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ہی انھوں نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا تھا۔ قرار داد مقاصد میں ’سیکولر‘ کی اصطلاح کی عدم موجودگی ایک قدرتی امر ہے۔

پاکستان کا نظریاتی یا جدلیاتی پہلو

اس بحث کی مناسبت سے ہم معروف تاریخ نگار حسن جعفر زیدی کے مضمون ’پاکستان نظریاتی یا جدلیاتی‘کا تجزیہ کرتے ہیں۔ متعدد جلدوں پر مشتمل اس کتاب پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک سنجیدہ کاوش سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے مضمون میں بڑے پتے کی بات کہتے ہیں:

مطالعہ تاریخ دراصل ایک سائنس ہے، اس میں ذاتی پسند یا نا پسند کا کوئی دخل نہیں ہے۔ عقائد خواہ دائیں بازو کے ہوں یا بائیں بازو کے، عقیدہ پرستی کے شکنجے میں پھنس کر نہ تو ماضی کی اصل حقیقت سے آگاہی حاصل ہو سکتی ہے نہ حال کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں درست پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔

حسن جعفر زیدی کی بات سے ،اگر اتفاق بھی کر لیا جائے تو یہ سوال بہرحال باقی رہتا ہے کہ کیا تاریخ کو متعین کرنے والے اسباب کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ یہ درست ہے کہ تاریخ عقیدہ نہیں، لیکن کیا بعض تاریخی واقعات کے پس منظر میں ہمیں عقیدہ اپنی جھلک نہیں دکھاتا؟ زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں جب ہندستان کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے، شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو دہلی پر حملے کی دعوت دی تھی تو کیا وہاں مذہب ایک فیصلہ کن عامل کے طور پر موجود نہیں تھا؟ مرہٹوں نے مغلیہ دربار میں اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد مغل شہنشاہ سے احکامات صادر کروائے۔ کیا ان کی بنیاد ہندومت اور ہندوؤں کے مفادات نہیں تھے؟

جب ہم تاریخی واقعات کے پس منظر میں کارفرما عوامل کا کھوج لگانے کی کوشش کریں گے تو اور کئی عوامل کے ساتھ ساتھ مذہب اور عقیدہ بھی اہم سبب کے طور پر موجودہوگا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہر واقعے کے پیچھے صرف مذہب اور عقیدہ ہی اہم محرک ہوتے ہیں، لیکن بہت سے واقعات کے پس منظر میں ہمیں عقیدہ ایک اہم محرک کے طور پر ملتا ہے۔ یہاں اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بڑے تاریخی واقعات کے پس منظر میں صرف ایک محرک کار فرما نہیں ہوتا، بلکہ بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کون سا محرک سب سے قوی اور فیصلہ کن ہے؟

پھر حسن جعفر زیدی نے ہندستان میں جاری سیاسی کش مکش کے حوالے سے ایک دل چسپ پیراگراف تحریر کیا ہے، جس سے ان کے اپنے ہی موقف کی تردید ہو جاتی ہے:

بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو بر صغیر میں تینوں قوتوں کے درمیان کش مکش جاری تھی۔ اسٹرکچر میں دوسری پوزیشن کے حامل ہندو جلد از جلد انگریز کو حاصل پہلی پوزیشن پر پہنچنا چاہتے تھے اور غلبے کے حصول کی اس کوشش میں مسلمانوں کی حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ انڈین نیشنلزم اور سیکولر ازم کی تعریف یوں کرتے تھے کہ ’’کوئی ہندو، سکھ، عیسائی نہیں ہے۔ یہ سب ہندستانی ہیں‘‘۔ وہ ان کی قومی شناخت کا انکار کرکے ان کو اپنی عددی اکثریت کے نیچے کچل ڈالنا چاہتے تھے۔ یوں وہ مسلمانوں سے گذشتہ ایک ہزار سال کا بدلہ بھی لینا چاہتے تھے۔ ادھر مسلمان اس صورت حال میں اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے تھے (نقاط ۸،ص ۱۰۱-۱۰۲)۔

اس سلسلے میں آگے چل کر مزید لکھتے ہیں :

اس کے لیے وہ ہر دس سال بعد آئینی اصلاحات کا ایک پیکیج لاتے تھے، لیکن ہر پیکیج سے پہلے اور بعد ہندو مسلم تضاد شدیدہو جاتا تھا۔ وجہ یہ ہوتی تھی کہ کانگریس اس پیکیج میں بلا شرکت غیرے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرتی، خود کو پورے ہندستان کا واحد نمایندہ ثابت کرتی، جب کہ حقیقت میں مسلمانوں کے فائدے کا کوئی کام ہوتا تو اس کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی۔ مسلمانوں کا اعتماد کانگریس پر سے اٹھتا چلا گیا اور ہندو مسلم جدلیات کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس ان کی نمایندہ جماعتوں کے طور پر ابھر آئیں۔ (نقاط ۸،ص۱۰۲)

مندرجہ بالا اقتباسات کا بہ غور مطالعہ کریں، تو واضح ہوتا ہے کہ حسن جعفر زیدی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان آباد تھیں اور انگریزوں کے زیرِتسلط زندگی گزارتے ہوئے یہ دونوں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سر گرم رہتی تھیں ۔ اس کش مکش کو وہ ’ہندو مسلم جدلیات‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جدلیات کی بنیاد کیا معاشی مفادات تھے، لسانی محرکات تھے یا گروہی مفادات؟ اس بات کو تو حسن جعفر زیدی بھی قبول کرتے ہیں کہ ان کے درمیان جدلیات کی بنیاد مذہب تھا۔ جب ہندستان میں بسنے والے لوگوں کی تقسیم’ ہندو‘ اور ’مسلم‘ کے خانوں میں کرتے ہیں تو ہم اس تقسیم کے لیے مذہب ہی کو بنیاد بناتے ہیں۔ جب آپ خود ’ہندو مسلم جدلیات‘ کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، تو اس جدلیات کے پس منظر میں موجود مذہب کے اس عنصر کا انکار کس طرح کر سکتے ہیں جس کی بنیاد پر یہ جدلیات وجود پذیر ہو رہی ہیں ۔

بانیانِ پاکستان کا موقف

یہاں ہم قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات کے موقف کی طرف آتے ہیں۔ علامہ اقبال، راجہ صاحب محمود آباد، حسرت موہانی اور خود قائد اعظم محمد علی جناح نے با ربار اس موقف کا اعادہ کیا کہ ہندستان میں ایک قوم آباد نہیں، جیسا کہ کانگریس کا دعویٰ تھا، بلکہ اس میں بہت سی قومیں آباد ہیں اور انھی میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان ہیں۔ جب تک ان دو قوموں کے درمیان حقوق و مفادات کے حصول کا طریقۂ کار طے نہیں ہوتا، ہندستان کے مسائل کا سیاسی حل ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ ابتداء میں مسلم لیگ اور مسلمان رہنماؤں کا موقف مسلم مفادات کا تحفظ تھا اور اس کے لیے وہ کسی بھی آئینی صورت حال کو قبول کرنے کے لیے تیار تھے، جو انھیں اپنے تشخص کے تحفظ کی ضمانت دے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی چالیس سال اسی نوعیت کی جدوجہد سے عبارت ہیں۔

اس ساری جدوجہد کے پیچھے دو قومی نظریہ کار فرما تھا کہ مسلمان، ہندوؤں سے الگ ایک قوم ہیں اور اپنے اس تشخص سے مسلمان ایک دن کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹے تھے ،سوائے نیشنلسٹ مسلمانوں کے۔ اسی اصول یا موقف کو بعد میں نظریہ پاکستان کا نام دیا گیا۔ موقف یہ تھا، چوںکہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں، اس لیے انھیں ایک الگ وطن کی ضروت ہے۔ اس حقیقت کا باضابطہ طور پر اعلان ۱۹۴۰ء کی قرار داد لاہور میںکیا گیا، جسے اس وقت کے پریس اور خصوصاً ہندو پریس نے ’قراردادِ پاکستان‘ کا نام دیا تھا، کیوںکہ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی ابتداء میں چودھری رحمت علی’پاکستان‘ نام کی مجوزہ ریاست کا خاکہ پیش کر چکے تھے۔

اقبال، مصورِ پاکستان: ایک اعتراض

پھر اسی مضمون میں حسن جعفر زیدی نے بحث کی ہے کہ علامہ اقبال کو مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے تصور کا خالق قرار دینا غلط ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے بعض نکات کی طرف اشارے کیے ہیں ۔ پھر پروفیسر ای جے ٹامسن کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’۱۹۳۴ ءمیں علامہ اقبال کی کتاب ’رموز خودی‘ کے انگریزی ترجمے پر پروفیسر ای جے ٹامسن نے تبصرہ کرتے ہوئے علامہ کے تعارف میں آپ کے خطبہ الٰہ آباد کو چودھری رحمت علی کی پاکستان تجویزسے منسلک کر دیا۔ آپ نے یہ تبصرہ پڑھا تو جواب میں جو خط لکھا وہ پروفیسر ٹامسن کے خطوط کے مجموعے میں شامل ہے، جسے علی گڑھ یونی ورسٹی نے شائع کیا ہے۔ آپ نے اس میں لکھا:’’آپ نے ایک غلطی کی ہے۔ جس کی میں فوری نشان دہی ضروری سمجھتا ہوں ۔ کیوںکہ یہ ایک فاش غلطی ہے، آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس اسکیم کا حامی ہوں، جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔جب کہ پاکستان میری اسکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی، وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی، جو شمال مغربی ہندستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری اسکیم میں یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ ہو گا۔ پاکستان اسکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔ اس اسکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے‘‘(نقاط۸، ص ۱۰۶)۔

مندرجہ بالا اقتباس میں دو تین بڑی فاش غلطیاں ہیں۔ حسن جعفر زیدی نے کہا ہے کہ پروفیسرٹامسن نے علامہ اقبال کی کتاب رموز خودی پر تبصرے کا ذکر کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس نام کی کوئی کتاب علامہ اقبال نے تخلیق نہیں کی۔ گمان گزرتا ہے کہ حسن احمد کی مرتب کردہ کتاب His Political Ideas at Cross Road جو دراصل پروفیسر ٹامسن کے نام کتاب کے خطوط پر تبصرہ کی شکل میں ہے۔ زیدی صاحب کی نظر سے ہی نہیں گزری اور انھوں نے کسی ثانوی ماخذ پر بھروسا کیا ہے، اور یہی کمزوری محسوس کرکے حوالہ دینے سے اجتناب کیا ہے۔ اگر وہ اصل کتاب دیکھ لیتے تو انھیں علم ہوجاتا کہ علامہ اقبال نے پروفیسر ٹامسن کو اپنے ۵فروری۱۹۳۴ءکے خط میں گزارش کی تھی کہ وہ علامہ اقبال کی کتابReconstruction of Religious Thought in Islam Six Lectures پر Observerکے لیے تبصرہ لکھ دیں ۔ اس سلسلے میں ۴ مارچ ۱۹۳۴ء کو پروفیسر ٹامسن کا تبصرہ وصول ہونے کے بعد، اپنے خط میں علّامہ محمد اقبال نے پروفیسر ٹامسن کی اس غلطی کی طرف اشارہ کیا ہے، جو پروفیسر موصوف سے سرزد ہو گئی تھی۔ اقبال کے پورے خط کا متن کچھ یوں ہے :

I have just received your review of my book. It is excellent and I am grateful to you for the very kind things you have said of me. But you have made one mistake, which I hasten to point out as I consider it rather serious. You call me (a) protagonist of the scheme called  "Pakistan". Now Pakistan is not my scheme. The one that I suggested in my address is the creation of a Muslim Province  i.e.,a province  having an overwhelming population of Muslims  in the North West of India. This new province will be, according to my scheme, a part of the proposed Indian Federation. Pakistan scheme proposes a separate federation of Muslim  Provinces  directly related  to  England  as  a  seprate domination. This scheme originated in Cambridge. The authors of this scheme   believe   that  we  Muslim Round Tablers   have sacrificed the Muslim  nation  on  the  altar  of  Hindu or  the so called Indian Nationalism.

ابھی ابھی آپ کے ذریعے میری کتاب پر کیا گیا تبصرہ موصول ہوا۔ یہ نہایت اعلیٰ پایہ کا ہے اور آپ نے میرے بارے میں جو اچھی باتیں کہی ہیں اس کے لیے میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ لیکن آپ سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے جس کی جانب میں توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ جسے میں سنجیدہ غلطی سمجھتا ہوں۔ آپ نے مجھے ایک منصوبہ کا رہنما کہا ہے جسے پاکستان کہتے ہیں لیکن پاکستان میرا منصوبہ نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبہ میں جو تجویز پیش کی تھی وہ صرف ایک مسلم صوبہ کی تشکیل ہے۔ ہندستان کے شمال مغرب میں ایک مسلم صوبہ بنائے جانے کا منصوبہ تھا جس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہو۔ میرے منصوبہ کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ ہندستانی وفاق کا ہی ایک حصہ ہوگا، جب کہ منصوبۂ پاکستان مسلم صوبوں کا ایک علیحدہ وفاق بنائے جانے کی تجویز ہے جو انگلینڈ سے براہِ راست ایک ڈومینین کی شکل میں مربوط ہوگا۔ اس منصوبہ کی پیدایش کیمبرج میں ہوئی تھی۔ اس منصوبہ کے خالق یہ سمجھتے ہیں کہ گول میز کانفرنس کے ہم مسلمان نمایندوں نے مسلم قوم کو ہندوئوں یا نام نہاد ہندستانی قومیت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا ہے (علامہ اقبال - چند جہتیں، ڈاکٹر مختار احمد مکّی، ص ۱۵۸)۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ذرا باریک بینی سے علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کی طرف رجوع کریں ۔ اس خطبے میں علامہ اقبال نے اسلام کے تصور قومیت پر روشنی ڈالی ہے اور بھارتی قوم پرستی کے اس تصور کو جس کی وکالت کانگریس کر رہی تھی، سختی سے رد کیا ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبال اس تاریخی بیان کی طرف آتے ہیں، جس میں اسلام کے تصور قومیت کی بنیاد پر ہندستان کے شمال مغرب میں ایک علیٰحدہ وطن کا مطالبہ کیاگیاہے:

I would like to see the Punjab, North West Frontier Province, Sindh and Baluchistan amalgamated into a single state. Self government within the British empire or without British empire, the formation of a consolidated north-west-Indian Muslim state appears to me to be the final destiny of the Muslim, at least of north- west-India.

میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کردیا جائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ خودمختارحکومت، خواہ سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنت برطانیہ کے باہر ہو، ایک مربوط مغربی ہندو مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کی کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھیرے گی۔

مندرجہ بالا اقتباس حسن جعفر زیدی نے نقل کرتے ہوئے دو اعتراضات وارد کیے ہیں: پہلا یہ کہ نہ تو اس خطبے کا مکمل متن پڑھا جاتا ہے اور نہ درسی کتابوں میں پڑھا یا جاتا ہے‘‘۔ اور دوسرا یہ کہ: ’’اردو کی کتابوں میں لفظ ریاست کے ساتھ’خود مختار‘ اور انگریز درسی کتابوں میں autonomous کے لفظ کا اضافہ کیا جاتا ہے، جو اصل خطبے میں نہیں ہے‘‘(نقاط۸،ص۱۰۴)۔

درسی کتابوں کا معاملہ مرتبین پر چھوڑتے ہیں۔ جو اقتباس ہم نے اُوپر انگریزی میں دیا ہے اس میں لفظautonomousنہیں ہے۔ یوں اگر کسی جگہ یہ درج کیا گیا ہے، تو یہ اعتراض بالکل بجا ہے۔ مندرجہ بالا انگریزی بیان اور اس کے اردو ترجمے سے اس بات کا اندازہ تو ہوتا ہے کہ اقبال نے شمال مغربی ہندستان میں ایک مسلم ریاست (صوبہ) کی بات واضح الفاظ میں کی ہے اور مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبے کے دوران کی ہے تو اس سے اس بیان کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔

پاکستان کے قیام کے حوالے سے علامہ اقبال نے نہ صرف خطبہ الہ آبادمیں ایک تصور کی تشکیل کی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے قائد اعظم کو ہندستان واپس آ کر کُل ہند مسلم لیگ کی قیادت کرنے پر بھی مائل کیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے اسلام کے تصور قومیت کے حوالے سے قائداعظم کی فکری راہنمائی بھی کی۔ دوسری گول میز کانفرنس کی ناکامی سے دل برداشتہ ہو کرمحمد علی جناح کو اقبال نے خطوط لکھےاور ۱۹۳۷ءمیں ہندستان کے مختلف صوبوں میں قائم ہونے والی کانگریس وزارتوں کے طریق کار نے محمد علی جناح کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہندستان میں مسلمان ایک اقلیت نہیں ہیں،بلکہ ایک الگ قوم ہیں۔ اس طرح بات مارچ ۱۹۴۰ءکی قرارداد لاہور تک آگئی۔ (جاری)

کیا ذبیحہ کے لیے تسمیہ شرط نہیں؟

سوال : یہاں کینیڈا میں شرقِ اوسط سے آئے ہوئے عرب بھائیوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’’اہلِ کتاب کا ذبیحہ جسے قرآن میں حلال قرار دیا گیا ہے ، اُس کے تحت وہ تمام گوشت آجاتا ہے جو یہاں کی دکانوں میں فروخت ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ اکبر یا بسم اللہ کہنا ضروری نہیں ہے، یعنی تسمیہ ذبح کے لیے شرط نہیں۔ جو گوشت بھی مشینوں سے کٹ کر بازاروں میں آتا ہے اُسے کھاتے وقت بسم اللہ کہہ دینا کافی ہے؟‘‘

جواب :یہ بات عجیب و غریب ہے کہ ذبح کے لیے تسمیہ شرط نہیں ہے۔ قرآن میں اللہ کا نام لے کر ہی جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ’’جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اُسے مت کھائو‘‘ (انعام۶:۱۲۱)۔ اہلِ کتاب کا ذبیحہ اور طعام اُنھی شرائط کے تحت حلال ہے، جو قرآن میں دوسرے مقامات پر مذکور ہیں۔ ورنہ اہلِ کتاب کے کھانے میں تو خنزیر بھی ہوتا ہے۔ اگر اہلِ کتاب کا کھانا (طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ) مطلقاً حلال ہوتا تو خنزیر کو بھی حلال ہونا چاہیے تھا۔ ان کے طعام کی حلِّت کے متعلق حکم ایسا مطلق نہیں ہے، جسے دوسرے قرآنی احکام مقیّد نہ کرتے ہوں۔ ہمارے ائمہ میں صرف امام شافعیؒ کا ایک قول مروی ہے کہ ’’مسلمان اگر اللہ کا نام نہ لے تب بھی اُس کا ذبیحہ حلال ہے‘‘، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمسلمان کا عقیدہ اور نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کر رہا ہے، اس لیے اُس کا زبان سے ذکر نہ کرنا حلِّت پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ امام شافعیؒ سے اس کے بالمقابل دوسرا قول بھی مروی ہے جس میں تسمیہ کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ میرے علم میں کوئی دوسرا امام یا فقیہہ نہیں، جو بغیر تسمیہ کے ذبیحۂ اہلِ کتاب کو حلال سمجھتا ہو۔ (جسٹس ملک غلام علیؒ، ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)


زکوٰۃ و عُشرکا مختلف سرکاری ٹیکسوں سے فرق

سوال :  ایک نشست میں زکوٰۃ و عُشر کا مسئلہ زیربحث آگیا۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ عُشر دسویں حصہ پیداوارِ ارضی پر عائد ہوتا ہے ، اور زکوٰۃ جمع شدہ دولت کا صرف چالیسواں حصہ ہے، لیکن مالیہ اور آبیانہ اراضی کی پیداوار کے نصف پر تشخیص ہوتا ہے اور جمع شدہ دولت پر انکم ٹیکس ایک بھاری شرح سے لگایا جاتا ہے۔ یہ تمام ٹیکس وصول ہوکر حکومت کے بیت المال میں داخل ہوتے، رفاہِ عامہ، یعنی مدرسے، ہسپتال اور دیگر قسم کی ضروریاتِ عالم پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس لیے عُشر اور زکوٰۃ کا دینا اب لازم نہیں آتا۔ مجھے اس رائےسے اتفاق نہیں تھا اور اپنی یہ رائے پیش کی کہ اوّل تو تحصیل اور انکم ٹیکس کے دفاتر بیت المال کی تعریف ہی میں نہیں آتے۔ دوسرے، ان رقوماتِ وصول شدہ کا مصرف حکمِ قرآنی کے مطابق نہیں ہوتا۔ آپ بتائیں کہ میری رائے صحیح ہے یا جج صاحب کی؟

جواب :زکوٰۃ کے متعلق پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک عبادت اور رکنِ اسلام ہے، جس طرح نماز، روزہ اور حج ارکانِ اسلام ہیں۔ جس شخص نے کبھی قرآنِ مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھا ہے، وہ دیکھ سکتا ہے کہ قرآن بالعموم نماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ ذکر کرتا ہے اور اسے اُس دین کا ایک رکن قرار دیتا ہے، جو ہر زمانے میں انبیائے کرامؑ کا دین رہا ہے۔ ایک اسلامی حکومت جس طرح اپنے ملازموں سے دفتری کام اور دوسری خدمات لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب نماز کی ضرورت باقی نہیں ہے کیونکہ انھوں نے سرکاری ڈیوٹی دے دی ہے۔ اسی طرح وہ لوگوں سے ٹیکس لے کر نہیں کہہ سکتی کہ اب زکوٰۃ کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ ٹیکس لے لیا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کو اپنے نظام الاوقات لازماً اس طرح مقرر کرنے ہوں گے کہ اُس کے ملازمین نماز وقت پر ادا کرسکیں۔ اسی طرح اُس کو اپنے ٹیکسوں کے نظام میں زکوٰۃ کی جگہ نکالنے کے لیے مناسب ترمیمات کرنی ہوں گی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت کے موجودہ ٹیکسوں میں کوئی ٹیکس اُن مقاصد کے لیے اُس طرح استعمال نہیں ہوتا، جن کے لیے قرآن میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے اور جس طرح اس کے تقسیم کرنے کا حکم ہے۔(جسٹس ملک غلام علیؒ،ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۷۷ء)

فکرونظر، نثار احمد عابد۔ ناشر: دارالنوادر، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۷۳۴۴۶۳- ۰۳۳۲ صفحات:۱۵۸۔ قیمت: درج نہیں۔

تحریک ِ اسلامی کے سرگرم کارکن نثار احمد عابد کے ۳۲ مختصر مضامین میں خاصا تنوع ہے۔ دس عنوانات (ایمانیات، کتاب و سنت کی پیروی، اسوئہ رسولؐ، عبادات، قرآنیات، اقامت ِ دین، حقوق العباد وغیرہ) کے تحت مختلف موضوعات پر دو دو، چار چار صفحے کی یہ تحریریں کویت کے اخبار عرب  ٹائمز کے اُردو حصے میں شائع ہوتی رہیں۔ مستند اور ٹھوس معلومات پر مبنی مؤثر مضامین ہیں۔ بقول حافظ محمد ادریس: ’’کتاب کا ہرمضمون ایمان افروز اور سبق آموز ہے‘‘۔

دیباچے میں مصنّف کہتے ہیں: ’’اگر کسی ایک مضمون سے بھی کسی ایک فرد کا قبلہ درست ہوگیا اور وہ اسلام کی طرف مائل ہوا تو میں اسے اپنے لیے ایک بہت بڑی سعادت اور توشۂ آخرت سمجھوں گا‘‘۔ طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے (رفیع الدین ہاشمی)۔


مسئلہ فلسطین، ڈاکٹر محمد مشتاق احمد۔ ناشر: شیبانی فائونڈیشن، اسلام آباد۔ فون: ۵۹۱۵۲۸۷- ۰۳۳۳۔ صفحات: ۱۲۰،قیمت: ۴۰۰ روپے۔

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آبادکی شریعہ فیکلٹی میں فقہ اور بین الاقوامی قانون پر گہری نظر رکھنے والے محنتی استاد اور محقق ہیں۔ ان میں قابلِ قدر صلاحیت یہ ہے کہ تحقیق اور اظہارِ بیان میں وہ کسی مصلحت کے اسیر نہیں۔ دینی مآخذ اور فہم کے تحت جو درست سمجھتے ہیں، حاضرو موجود کی پروا کیے بغیر لکھتے اور نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

زیرنظر بظاہر ایک مختصر کتاب ہے ، لیکن امرواقعہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے جملہ پہلوئوں پر بہت پھیلی، گہری اور گھمبیر صورتِ حال کو حددرجہ جامعیت اور اختصار سے مسئلے کی اہمیت کو پیش کیا ہے اور انسانیت کی ذمہ داری کو واشگاف لفظوں میں بیان کیا ہے۔

کتاب کے پہلے حصے میں مسئلہ فلسطین سے متعلق مغالطوں کا مؤثر تجزیہ کیا ہے۔ دینی حوالے سے بڑی خوبی سے استدلال کیا ہے۔ خاص طور پر پرانے منکرینِ حدیث اور نئے منکرینِ حدیث کی جانب سے صہیونیت نوازی اور فلسطین پر اسرائیل کے نوآبادیاتی قبضے کی تائید میں لکھی گئی داستان سرائی کا مدلل محاکمہ کیا ہے۔ دوسرے حصے میں مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی قانون اور عالمی رائے عام کی روشنی میں پرکھا ہے، اور تیسرے حصے میں فلسطینی جدوجہد آزادی کی تمام سطحوں کا نہایت اعلیٰ درجے پر تجزیہ کرکے حقیقت بیانی سے کام لیا ہے۔

کتاب کے ناشر اور نوجوان محقق مراد علی علوی نے خوش ذوقی سے اسے شائع کیا ہے، جب کہ ممتاز قانون دان اور دانش وَر جناب آصف محمود نے کتاب کا مؤثر تعارف لکھا ہے۔ یہ کتاب حق رکھتی ہے کہ اسے توجہ سے پڑھا جائے۔(س م خ)


بازدید، خورشید رضوی۔ ناشر: القا پبلی کیشنز، ۱۲-کے مین بلیوارڈ، گلبرگ ۲، لاہور۔ فون:۳۵۷۵۷۸۷۷- ۰۴۲۔ صفحات: ۲۳۴۔ قیمت: ۶۹۵ روپے۔

جناب خورشیدرضوی اِس وقت اُردو دُنیا کے تین چار چوٹی کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک بلندپایہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے نثرنگار بھی ہیں۔ وہ عربی فارسی، انگریزی اُردو اور پنجابی زبانوں پر اچھی دسترس رکھتے ہیں۔

زیرنظر کتاب ان کے طویل اور مختصر شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ بقول مصنف: ’’یہ تحریریں چالیس سال کی قلم فرسائی پر مشتمل ہیں‘‘۔جن میں اُردو اور عربی زبان و ادب کے نام وَر ادیب، شاعر اور محقق شامل ہیں جیسے مولانا روحی، اختر شیرانی، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، علّامہ عبدالعزیز میمن، پیرمحمد حسن، انتظار حسین، ناصر کاظمی، مشفق خواجہ، منیرنیازی، محمدکاظم اور انور مسعود ، نیرواسطی___ ان کے ساتھ کچھ نسبتاً غیرمعروف اصحاب کو بھی یاد کیا ہے۔

بعض خاکوں میں دل چسپ باتیں اور واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ معروف مستشرق مارگولیتھ لاہور آیا اور اسلامیہ کالج بھی گیا۔ مولانا روحی کی کلاس میں اس وقت آیا جب مولانا لیکچر دے رہے تھے۔ انھوں نے ڈائس کے اُوپر ہی سے کھڑے کھڑے مارگولیتھ سے ہاتھ ملا لیا۔ بعد میں مولانا نے بتایا: ’’جو ہاتھ میں نے مارگولیتھ سے ملایا تھا، اُسی وقت جا کر دھو لیا تھا‘‘ (ص۲)۔

ایک دلچسپ واقعہ یہ درج ہے کہ مولانا روحی کے فرزند صوفی ضیاء الحق کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا ممتحن کوئی انگریز مستشرق تھا، جس نے زبانی امتحان کے لیے انھیں لندن طلب کیا تھا۔ مولانا روحی نے بیٹے کو لندن جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا اور صوفی صاحب نے والدصاحب کی اجازت کے بغیر سفر کا ارادہ ترک کردیا۔ پھر کچھ خیرخواہوں کی کوششوں سے مولانا روحی نے دوشرائط کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی:

اوّل، ضیاء الحق ہوائی جہاز سے جائے اور انٹرویو کے بعد فی الفور اوّلین ممکنہ پرواز سے واپس آجائے۔ دوم: اپنا کھانا یہیں سے باندھ کر لے جائے اور دیارِ فرنگ سے نہ کچھ کھائے، نہ پیے۔

صوفی صاحب نے کراچی سے کچھ ٹوسٹ وغیرہ لے کر ٹفن میں بند کرلیے اور والد صاحب کی ہدایت کے مطابق ہوائی جہاز سے لندن پہنچتے ہی ہوائی اڈے سے سیدھے ممتحن کے ہاں چلے گئے۔ ممتحن انٹرویو سے بہت مطمئن تھا۔اس نے پوچھا: لندن میں کب تک قیام ہے؟ بتایا کہ آیندہ پرواز سے واپسی ہے تو اُسے سخت حیرت ہوئی۔ ابھی ایک گھنٹے کے لگ بھگ وقت کی گنجایش تھی۔ ممتحن نے پوچھا: یہ وقت کہاں گزاریں گے؟ صوفی صاحب نے کہا: برٹش میوزیم لائبریری میں۔ چنانچہ وہاں گئے اور تھوڑا سا وقت وہاں گزار کرہوائی اڈّے چلے گئے۔ (ص۴۳)

خورشیدرضوی صاحب کا حافظہ بہت اچھا اور یادداشت مضبوط ہے۔ اس لیے انھوں نے دوستوں کے اُردو،انگریزی جملے تک خاکوں میں لکھ دیے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے اسلوب میں تازگی اور شگفتگی نے خاکوں کو دلچسپ بنا دیا ہے۔

ناشر نے کتاب خوب صورت انداز میں چھاپی ہے۔  (رفیع الدین ہاشمی)


برق بنام مہر، مرتب: امجد سلیم علوی۔ ناشر: شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۲۹۰۸- ۰۴۲۔ صفحات: ۱۷۲۔ قیمت: درج نہیں۔

ڈاکٹر غلام جیلانی برق [۲۶؍اکتوبر ۱۹۰۱ء- ۱۲مارچ ۱۹۸۵ء] پنجاب کے دُور افتادہ  ضلع اٹک کے نواح میں واقع ایک پس ماندہ گائوں کے رہنے والے تھے۔ غریب گھرانا تھا، مگر والدین نے اپنا اثاثہ (زمین، مویشی اور کچھ سامان) بیچ کر بیٹے کو تعلیم دلوائی۔ وہ ایک سکول میں مدرس ہوگئے۔ اسی دوران وہ اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہے۔ آخر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی۔ محکمہ تعلیم کی سرکاری نوکری مل گئی۔ کئی برس ہوشیار پور کے کالج میں پڑھاتے رہے۔ پھر کیمبل پور کالج میں آگئے۔ امام ابن تیمیہ ؒ پر کام کرتے ہوئے انھوں نے مولانا غلام رسول مہر  [۱۳؍اپریل ۱۸۹۵ء- ۱۶نومبر ۱۹۷۱ء]سے بذریعہ خط کتابت رابطہ کیا۔ پھر وہ اپنی رہنمائی کے لیے مہرصاحب کو برابر خط لکھتے رہے۔ خطوں کا زمانۂ تحریر ۱۹۳۸ء تا ۱۹۶۸ء ہے۔ مہرصاحب حتی المقدور، برق صاحب کی راہ نمائی اور مدد کرتے رہے۔

برق صاحب کے بیش تر تفصیلی خطوط ان دنوں کے ہیں، جب وہ سرکاری ملازمت میں ترقی کے جائز حق میں مشکلات اور رکاوٹیں پیش آنے پر شدید کرب کا شکار تھے۔وہ بار بار مہرصاحب کو بتاتے ہیں کہ ایک ہی کالج میں یکساں ڈگری رکھنے والے ہندو اساتذہ کو، بہ نسبت مسلمان اساتذہ کے، زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کے گریڈ بھی بہتر ہیں۔ بااثر ہندو اور سکھ ان کی مدد کرتے ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر میں ہندو یا سکھ ہوتا تو سندرسنگھ، منوہر لال، چھوٹورام اور مکند لال پوری میرے پشت پناہ ہوتے‘‘ (ص ۹۶)۔

اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’میں ایک غریب و بے نوا والد کے گھر پیدا ہوا کہ جو اَن پڑھ بھی تھا اور ہمارے علم نوازاور قدر شناس وزرا کے ہاں استحقاق کا معیار صرف نسلی تفوّق ہے۔ ٹوانہ خاندان کا میٹرک پاس کم از کم تحصیل دار بھرتی ہوگا۔ سر سکندر خان کے چند لڑکے جو چار چار بار بی اے میں فیل ہوئے تھے، بلامقابلہ EAC (ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر) و تحصیل داری میں لیے گئے۔ میرا سوٹ کیس علمی ڈگریوں سے بھر گیا ہے ‘‘ (ص ۹۵)۔

خطوں کا یہ مجموعہ اُردو خط نگاری کے ذخیرے میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ اُمید ہے علوی صاحب، مہر صاحب کے نام دیگر شخصیات کے مکاتیب بھی اسی انداز میں منظرعام پر لائیں گے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


قلم قتلے، ڈاکٹر انوار احمد بگوی۔ ناشر: الافتخار بگویہ فائونڈیشن ، دروازہ چک والا، بھیرہ، ضلع سرگودھا۔ فون: ۴۷۵۴۷۶۹- ۰۳۰۰۔ صفحات: ۴۷۲۔ قیمت: درج نہیں۔

مصنف میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔حالیہ دنوں میں منصورہ ٹیچنگ ہسپتال کے منتظم اعلیٰ (C.E) کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ان کی دلچسپی سیروسیاحت اور وابستگی قلم و قرطاس سے رہی ہے۔ دس بارہ تحقیقی و تجزیاتی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ زیرنظر کتاب موصوف کی ایسی متفرق مطبوعہ و غیرمطبوعہ تحریروں کا منتخب مجموعہ ہے۔

موضوعات متنوع ہیں ، سیاسی (الیکشن کمیشن کا فیصلہ، ۱۹۶۲ءکے انتخابات، ہمارا بلدیاتی نظام وغیرہ)، مذہبیات (کوچۂ سیاست اور مذہبی جماعتیں، دورِحاضر میں علماء کا وقار وغیرہ)، تہذیب و معاشرت (طلبہ و اخلاقی انحطاط کے عوامل اور ان کا علاج، صفائی اور پاکیزگی وغیرہ)، دین و دانش (تصوف اور تاریخ کی حقیقت، اُردو اور ہم، تعلیم کی اہمیت وغیرہ)۔ کتابیں میری نظر میں (اشاریہ تدبرقرآن، سوانح حیات مولانا حسین علی، حیاتِ سیّدنا معاویہؓ کے ناقدین وغیرہ)، پہاڑی کے چراغ (بعض شخصیات، مولانا امین احسن اصلاحی، محبوب سبحانی، محمدعالم مختارحق وغیرہ)۔ متفرقات میں سفرنامے، مکاتیب، صحت ِ عامہ وغیرہ شامل ہیں۔ حصہ انگریزی، چند مضامین اور مراسلوں پر مشتمل ہے۔

ان کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے مسائل کی نشان دہی اور ان پر تنقید ہی نہیں کی بلکہ تجزیہ بھی کیا اور امکانی حل پیش کیا، یوں ان تحریروں سے قارئین کو راہ نمائی بھی ملتی ہے۔

ڈاکٹر بگوی صاحب سادہ اور رواں دواں نثر لکھتے ہیں۔ علمی و مذہبی موضوعات پر بھی ان کا قلم کہیں اٹکتا نہیں۔ حسب ِ ضرورت انگریزی مترادفات کا استعمال ملتا ہے۔ طبّی اور انتظامی مصروفیات کے باوجود نوشت و خواند اور قلم و قرطاس سے رشتہ قائم رکھنا، ایک قابلِ قدر خوبی ہے۔

قارئین قلم قتلے کو ایک دلچسپ اورمعلومات افزا کتاب پائیںگے۔(رفیع الدین ہاشمی)


باتیں تڑپا دینے والی، مرتبہ: ابوعثمان عبدالرؤف، ناشر: مکتبہ صفدریہ، نزد مدینہ مسجد، ماڈل ٹائون، بی بلاک، بہاول پور، فون:  ۷۴۷۹۰۹۴- ۰۳۰۴۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

کتاب کے مرتب ایک ہائی اسکول میںاستاد رہے ہیں۔ انھوں نے دینی، اخلاقی، سماجی اور تاریخی حوالوں سے تربیت دینے کے لیے، بیسیوں کتب سے جو واقعات اخذ کرکے اپنے طالب علموں کو سنائے اور انھیں مؤثر پایا، یہ کتاب اُنھی اقتباسات پر مشتمل ہے۔ جو ایک قیمتی کتاب کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ (س م خ)

کسی مسئلے میں کسی شخص یا گروہ سے اختلاف کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ آدمی اس شخص یا گروہ کا مخالف ہے، یا اس کا دشمن ہے، یا جملہ مسائل میں اسے غلط کار سمجھتا ہے۔ آخر آپ حضرات خود شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کی بہت سی آرا سے اختلاف کرتے ہیں، اور بسااوقات بڑے زور شور سے ان کی آراء کے خلاف استدلال کرتے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی لینے میں کوئی شخص حق بجانب ہوگا کہ آپ ان ائمۂ ثلاثہ اور ان کے پیرو علما کے مخالف ہیں اور ان کو قاطبۃً خطاکار قرار دیتے ہیں اور ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں؟

اس لیے میری گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے اس طرزِ فکر پر نظرثانی فرمائیں اور اختلاف رائے کو مخالفت و عداوت اور عناد کے ساتھ خلط ملط نہ فرمائیں۔

میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اصلاحِ باطن اور تزکیۂ نفس کا جو طریقہ قرآن و سنت اور عملِ صحابہؓ سے ثابت ہے وہی کافی ہے اور اسی پر ہمیں اکتفا کرنا چاہیے۔ اس سے بہتر کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے اور اس میں کمی و بیشی کرنا نہ درست ہے، نہ مفید۔ اس سے ہٹ کر جو طریقے جس نے بھی ایجاد کیے ہیں، یا دوسرے ادیان و ملل کے متبعین سے اخذ کیے ہیں، ان سے اجتناب کرناچاہیے۔ اس رائے میں اگر کوئی غلطی ہے تو آپ اس پر مجھے دلائل کے ساتھ متنبہ فرمائیں۔ میں پھر اس پر غور کروں گا۔ لیکن میں اس الزام سے براءت ظاہر کرتا ہوں کہ اس اختلاف رائے کی وجہ سے میں صوفیا کا مخالف ہوں، یا تصوف کا دشمن ہوں، یا اہلِ تصوف کو بالکلیہ مطعون کرتا ہوں۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۶،عدد ۵،اگست ۱۹۶۱ء، ص ۴۷-۴۸)