جون ۲۰۲۵

فہرست مضامین

قرآن کی تاثیر

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | جون ۲۰۲۵ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ اس کی کتاب اس کے اپنے الفاظ میں ہمارے پاس موجود ہے۔ دنیا کی دوسری قوموں کے پاس بھی اللہ تعالیٰ کی کتابیں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول آئے۔ خود قرآن مجید فرماتا ہے کہ ہر قوم میں رسول آئے ہیں اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام بھیجا ہے۔ لیکن کوئی قوم اُس اصل پیغام کو جو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا، اس کے اپنے الفاظ میں محفوظ نہیں رکھ سکی۔ صرف قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے اندر انسانی کلام کے ایک لفظ کی آمیزش بھی نہیں ہو سکی اور خالص اللہ تعالیٰ کی زبان میں یہ کتاب موجود ہے۔  

اگر ایک آدمی عربی زبان وادب کا ذوق رکھتا ہو اور وہ قرآن کو پڑھے تو فی الواقع اس کی روح وجد میں آجاتی ہے، کیونکہ اس کے اندر اس بلا کی تاثیر ہے، اس قدر زبردست کشش ہے اور اس کے اندر اتنی پُرزور Spirit بھری ہوئی ہے کہ آدمی کے لیے بعض اوقات ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یا تو وہ رو پڑے، یا پھر سر دُھنتا رہ جائے۔ 

اس کے علاوہ ایک دوسری عجیب و غریب چیزجو ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دوسری کتابیں جو خدا کی کتابوں کی حیثیت سے پیش کی جاتی ہیں، ان میں پورا ایک مضمون کئی کئی صفحوں میں بیان کیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا شاہانہ کلام ہے کہ جب ہم اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ کے کلام میں دیکھتے ہیں تو وہ ایک دو فقروں کے اندر بیان کیا گیا ہے۔ وہ ایک دو فقرے بھی ان تمام عبارتوں کے مقابلے میں جو ہمیں دوسری کتابوں میں ملتی ہیں زیادہ بھاری، زیادہ بامعنی اور زیادہ مؤثر ہیں۔ 

اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ الٰہی کلام میں اور وہ انسانی کلام جو الٰہی کلام کی تفسیر وتاویل کرتا ہے یا ترجمانی کرتا ہے، اس میں کیا عظیم الشان فرق ہے۔ 

دوسری الٰہی کتابیں جن زبانوں میںآئی تھیں، اُن زبانوں میں وہ اب محفوظ نہیں ہیں۔ صرف ان کے ترجمے ہیں جیساکہ بروہی صاحب (اے کے بروہی) نے فرمایا اور بالکل صحیح فرمایا کہ خدا کے کلام کا ترجمہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کوئی دوسری زبان ایسی نہیں ہوسکتی جس میں خدا کے کلام کا ترجمہ کیا جاسکے۔ 

اب جن قوموں کے پاس خدا کا کلام محفوظ نہیں ہے اور صرف ان کے ترجمے محفوظ ہیں، وہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ہیں۔ اور جس قوم کے پاس خدا کا کلام موجود ہے ، اور اپنی اصلی شکل میں موجود ہے، اصل الفاظ میں موجود ہے اور اسی ترتیب کے ساتھ موجود ہے جس ترتیب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کے ذریعے سے اس کو مرتب کروایا تھا، اس سے زیادہ بدقسمت پھر کوئی قوم نہیں ہے جو اُس کتاب سے فائدہ نہیں اُٹھاتی، خود اس کتاب سے کوئی سبق نہیں لیتی اور دنیا تک اس کتاب کے نور کو پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی۔ جتنے بدقسمت وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اصل کتابِ الٰہی کو کھو دیا اور صرف ترجمے ان کے پاس رہ گئے، اُس سے زیادہ بدقسمت وہ لوگ ہیں جن کے پاس اصل کتاب موجود ہے اور وہ اس سے استفادہ نہیں کرتے اور نہ دنیا تک اُس کے نور کو پہنچاتے ہیں۔  

محض عربی دان ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کئی بلندپایہ عربی دان تو عیسائیوں میں بھی ملتے ہیں، بڑے بڑے معروف ادیب ہیں۔ خود مسلمانوں میں بھی بکثرت ایسے ادیب ہیں، جنھوں نے قرآن مجید آج تک نہیں پڑھا ہے حالانکہ انھیں عربی زبان بھی آتی ہے۔ پھر جن کی مادری زبان عربی ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی قرآن مجید نہیں پڑھا ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے! 

ہماری یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ خود اس کتاب کو سمجھیں ، اس کتاب کا اپنی زندگی پر پوری طرح اثر قبول کریں، اور اس کتاب کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں ۔ اس کی روح اور اس کی Siprit کو اپنے اندر جذب کریں اور اس کے بعد ساری دنیا تک اس کو پہنچائیں ۔ یہ ہماری ذمہ داری اور responsibility ہے۔  

جب ہم مغربی دنیا میں جاتے ہیں تو وہاں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ صرف اس وجہ سے بہک رہے ہیں کہ ان کو حقیقی روشنی نہیں مل رہی۔ کوئی ہپّی (Hippy، ملنگ) بن رہا ہے ۔ کس وجہ سے؟ صرف اس لیے کہ جو اس کی زندگی ہے اس سے وہ مطمئن نہیں ہے۔ کوئی بودھ ازم کی طرف جا رہا ہے، کوئی ہندوازم کی طرف چلا جا رہا ہے، کوئی سکھ بن رہا ہے۔ اس طرح سے مختلف قسم کے عجیب وغریب تجربات لوگ کر رہے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ اصل روشنی ان کے پاس نہیں پہنچی۔  

اگر آپ اپنے گردوپیش میں ایسے چند آدمی بھی پائیں کہ جو قرآن مجید کو کم از کم انگریزی زبان ہی میں، اس کی اصل روح کے مطابق لوگوں کے سامنے پیش کریں، اور اس زمانے کے آدمی کے سمجھنے کے قابل عبارت میں اس کو پیش کریں تو یہ ایک بہت بڑی خدمت ہو گی ، نہ صرف اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے بلکہ دنیا کی رہنمائی کے لیے بھی۔  

آج انسان اس چیز کا طالب ہے جس کو وہ نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کا طالب ہے ؟ وہ ایک پیاس محسوس کر رہا ہے، مگر اسے نہیں معلوم کہ اسے کس چیز کی پیاس ہے ؟ جب اُس کے پاس یہ چیز پہنچے گی اور اس زبان میں پہنچے گی کہ جس کو وہ سمجھتا ہو، تب اس کو معلوم ہو گا کہ ہاں، یہ وہ چیز تھی جس کا میں پیاسا تھااور اس سے وہ سیراب ہو گا۔  

متعدد آدمی ایسے میرے علم میں ہیں کہ جب ان کے سامنے اسلام کو اس کی اصلی روح میں پیش کیا گیا، اور ان کو بتایا گیا کہ قرآن مجید یہ ہے اور یہ اس کی تعلیم ہے، تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ حیران ہو گئے کہ’’کیا فی الواقع ایسی چیز دنیا میں موجود ہے اور ہم اس سے ناواقف ہیں؟‘‘ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ کتنی بڑی ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے کہ ہمارے پاس وہ شے موجود ہے مگر ہم نہ خود اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اورنہ دنیا کو اس کا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔  

اس لیے میں ایسے تمام لوگوں کو انتہائی قابلِ قدر سمجھتا ہوں، جو موجودہ زمانے کی زبان میں لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیمات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ اس ملک میں جتنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت عطا فرمائی ہے کہ وہ بیرونی زبانوں میں، انگریزی میں یا فرنچ میں، اور دوسری زبانوں میں قرآنِ مجید کی تعلیمات سمجھا سکتے ہیں، وہ اس خدمت کو ضرور انجام دیں۔ خود ہماری نئی نسلیں بھی بگڑ رہی ہیں اور دنیا کے لوگ بھی صرف اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ ان کو حقیقی روشنی کی ہدایت نہیں مل رہی۔  

 ۲۳مئی ۱۹۷۵ء کو ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل ،لاہور میں مختصر خطاب