اگست۲۰۰۷

فہرست مضامین

مسلم ریاست میں دعوت و جہاد کا منہج

ڈاکٹر اختر حسین عزمی | اگست۲۰۰۷ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

ممالک اسلامیہ میں احیاے دین کے لیے اس وقت حکمت عملی کے اعتبار سے دو طریقے اسلام پسند عنصر کی بڑی تعداد میں مقبول و معروف نظر آتے ہیں۔ ایک نظری تبلیغ و تعلیم کا طریقہ ہے اور دوسرا عملی جہاد کا طریقہ۔

نظری تبلیغ و تعلیم کے نتیجے میں کہا جاتا ہے کہ جب معاشرے کے افراد کی اکثریت سدھرے گی تو اس کے نتیجے میں خود بخود ایک صالح انقلاب برپا ہو گا جو مقتدر طبقات میں بھی اپنے حامی افراد تلاش کر لے گا۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں کہ جب باطل نظریات محض علمی و نظری صورت میں ہی نہیں بلکہ ایک جیتے جاگتے معاشرے اور زندہ و متحرک اجتماعیت کی صورت میں موجود ہوں‘ اور باطل نظام نہ صرف عملی دنیا پر قابض ہو بلکہ اس کی پشت پناہی کے لیے فعال سماجی و سیاسی اور اقتصادی ادارے موجود ہوں‘ تو ایسی صورت میں اسلام کو محض علمی و نظری حیثیت سے پیش کرنے والی تحریک اس کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے ؟ بالخصوص‘ جب کہ مقصد ایک بالفعل قائم نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ ایک ایسے نظام کو عملاً برپا کرناہو جو اپنے مزاج، اصول حیات اور ہرکلّی و جزئی معاملے میں موجود غالب نظام سے مختلف ہو۔ نظریہ و نظام کی حیثیت سے اسلام کی خوبیوں کو  زبان و قلم سے خواہ کتنا ہی واضح کیا جائے، یہ جدوجہد کبھی بھی اسلام کے غلبے کی تحریک برپا نہیں کرسکتی۔

محض ’نظری‘ مسلمان بالفعل قائم شدہ نظام اور متحرک وفعال فاسد معاشرے کی مشین کے ایک پرزے کی حیثیت سے اس کے تمام تنظیمی تقاضوں کو لبیک کہنے پر مجبور ہوں گے۔ فاسد اجتماعیت کو اکھیڑنا تو کجا ،وہ الٹے اسی بوسیدہ نظام کو اپنے سرمایۂ ایمان و اخلاق سے مستحکم کرنے کا باعث بنیں گے جس کی وہ نظری و علمی لحاظ سے مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔سید قطب شہیدؒ کے الفاظ میں: یہ لوگ اس نظام کے نسبتاً جان دار خلیے (cells) ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے لیے عناصر بقا اور اسباب حیات فراہم کرتے ہیں۔ اپنی قابلیتیں، اپنے تجربات اور اپنی تازہ دم قوتیں اس کی خدمت میں صرف کرتے ہیں تا کہ اسے عمرِ دراز اور قوتِ مزید حاصل ہو۔ اس لیے کہ ’کُل‘ جب اپنے تمام فرائض انجام دے گا تو ’جز‘ کو لازماً انھی فرائض کی ادایگی کے لیے ’کُل‘ کے مطابق ہی حرکت کرنا ہوگی۔ (معالم فی الطریق)

دعوت و تبلیغ یا ھمہ جھت تحریکِ جھاد

انسانوں کی حاکمیت کے بجاے حاکمیت الہٰیہ کا قیام، زمام کار کو غاصبین و فاسدین سے چھین کر قوانین انسانی کی تنسیخ اور شریعت الٰہی کی تنفیذ ایک ایسی کٹھن مہم ہے جو محض دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے نتیجے میں کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ خلق خدا کی گردنوں پر سوار غاصبانہ تسلّط رکھنے والوں نے تاریخ میں پہلے کبھی محض تعلیم و تبلیغ اور اپیل کے نتیجے میں سماجی و سیاسی قیادت سے دست برداری اختیار کی نہ آیندہ ایسا ممکن ہے، کیونکہ اللہ کے سوا ہر قسم کے اقتدار کی نفی کے ساتھ ساتھ خدا کے شرعی نظام کے قیام کا مثبت کام اس دعوت کا مغز ہے۔ اتنے اہم مشن کی انجام دہی کے لیے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ ایک ہمہ جہت تحریکِ جہاد کا برپا ہونا بھی اس مشن کا فطری تقاضا ہے۔ اسلامی نظریے کا ایک ایسی منظم تحریک کا قالب اختیار کر لینا جو باطل سے باغی اور بالکل جداگانہ طرز کی قیادت کے تابع ہو ، دین کا اس شکل میں دنیا سے اپنا تعارف کرانا ہی اس امر کے لیے کافی ہے کہ ارد گرد کے تمام باطل و فاسد معاشرے اور طبقے اس کو مٹانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے وجود کے تحفظ کے لیے باہر نکل آئیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نئی اسلامی اجتماعیت کو بھی اپنے تحفظ کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس کش مکش کو چھیڑنے میں اسلام کی پسند و ناپسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ کش مکش تو اسلام پر ٹھونسی جاتی ہے جو دو ایسے نظاموں کے مابین چھڑ کر رہتی ہے جو زیادہ عرصے تک بقاے باہم کے اصول پر ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اسلامی تحریک پر مسلط کردہ یہ جنگ لڑے بغیر چارہ نہیں۔

فساد فی الارض کفر کی فطرت اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا (یصدون عن سبیل اللّٰہ) اس کی فطرت کا لازمی تقاضاہے۔ لیکن اگر مسلم ممالک کے حکمران بھی اسی روش پر گامزن ہوں تو ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیاجائے؟ یہ آج کی مسلم دنیا کا اہم سوال ہے۔ غیروں کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے یہ حکمران بھی اگر اسلامی بنیاد پرستی کے نام سے ہوّا کھڑا کریں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر ان بنیاد پرستوں کا مطالبہ کیا ہے؟ ’اسلام‘ ۔۔۔ صرف اور صرف ’اسلام‘، وہ اسلام جو ان ممالک کی اکثریت کا عقیدہ و مذہب ہے۔ کیا کسی اجتماعیت کا اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے نظام کو اپنے عقیدے کے مطابق چلانے کا مطالبہ کرنا کوئی ایسا جرم ہے جس کی پاداش میں انھیں دہشت گرد، بنیاد پرست‘ جنونی‘ رجعت پسند قرار دیا جائے ،ان کے لیے درِزندان کھولے جائیں او ر صلیبیں گاڑی جائیں۔

ترکی و الجزائر میں انتخابی کامیابیوں کے باوجود اسلامی تحریکوں کو اقتدار سے محروم رکھنے کی سازش، پاکستان اور مصر میں جمہوریت کے ادھورے تجربات کے نتیجے میں غلبۂ اسلام کی منزل سے دُوری ، عوام کی سیاسی و معاشی بدحالی کی ذمہ دار امریکا کی آلۂ کار مقامی قوتوں کی کاسہ لیسی اور    بین الاقوامی اداروں کی سیاسی و معاشی دھونس نے مسلمان نوجوانوں میں اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف جنگ آزمائی کا ایک مزاج پیدا کیا جسے افغانستان و کشمیر اور چیچنیا میں مجاہدینِ آزادی کی معرکہ آرائیوں اور افغانستان میں اس کے ذریعے طالبان کی اسلام پسند حکومت کے قیام نے ان کے جذبے کو  مہمیز دی ہے۔ غیر ملکی تسلط کے خلاف برسرپیکار جہادی قوتیں ، جن کے زیر اثر افراد کی اکثریت جمہوریت سے بیزار اور سیاست سے نابلد ہے، اس احساس کو فزوں تر کر رہی ہے کہ پاکستان میں  غلبۂ اسلام کی صورت صرف جہاد ہے ۔ تاہم‘ یہ سوال غور طلب ہیں: ایک مسلم اکثریتی ریاست میں یہ جہاد کیسے ہوگا، مسلح یا غیرمسلح؟ اگر مسلح ہوگا تو اس کا نشانہ کون سے طبقات اور افراد ہوں گے‘ اور اگر غیرمسلح ہو گا تو اس کا طریق کار کیا ہو گا؟ نیزاس جہاد کو فساد اور خانہ جنگی بننے سے کیسے روکا جائے گا؟

تمام تر خلوص اور جذبۂ قربانی کے باوجود یہ جہادی عنصر داخلی جہاد کے بارے میں ایک ابہام کا شکار ہے۔ یہ حضرات نہ تو زمینی حقائق سے آنکھیں چار کرنے کے لیے تیار ہیں اور     نہ سیاسی و تمدنی ارتقا اور جغرافیائی اسٹرے ٹیجک تبدیلیوں کے تناظر میں قرآن و سیرت نبویؐ سے  اجتہادی بصیرت کے ساتھ رہنمائی کے حصول کی صلاحیت سے ہی متصف ہیں ۔ عصر حاضر کے انقلابی مفکر راشد الغنوشی کے نزدیک جب تک صورت حال یا امر واقعہ کے اساسی اور فیصلہ کن توازن کا بغور جائزہ نہ لیا جائے، معروضی حالات کو سمجھ نہ لیاجائے، حالات کی نبض پر ہاتھ نہ ہو، تغیر و تبدل کے مواقع کابڑی باریک بینی سے جائزہ نہ لیا جائے‘ اور پھر اس نتیجے پر نہ پہنچا جائے کہ ہمیں جدوجہد کس سطح پر کرنی ہے؟ ہماری استطاعت کیا ہے اور امکانات کیا ہیں؟ کبھی اقدام درست نہیں ہوسکتا۔

حالات کا صحیح ادراک

تغیر احوال کو صحیح طر ح سے نہ سمجھ سکنے کی ایک وجہ ریاست کے جدید ادارے اور اس کے تقاضوں کا عدام ادراک ہے‘ اور یہ کمزوری نتیجہ ہے اجتہاد سے گریز کرنے کا۔ اپنے موضوع کو صرف پاکستان تک محدود رکھتے ہوئے پہلے ہمیں ملک کے معروضی حالات اور آئینی پوزیشن کا تعین کرناہوگا۔

(ا)دستوری لحاظ سے: (۱)پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے جس میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ (۲) ملکی پارلیمنٹ کے لیے قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی ممانعت ہے۔(۳) حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لیے ایسا سازگار ماحول پیدا کرے جس میں وہ صحیح مسلمان بن سکیں۔ (۴) صدر، وزیراعظم اور دیگر کلیدی عہدوں پر تقرر کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ (۵) ہر شہری کو بنیادی انسانی حقوق بشمول عقیدہ و عبادت کی آزادی، ظلم کے خلاف احتجاج ، تنقید و محاسبے کی آزادی ، انتخاب حکومت کے لیے حق راے دہی، تنظیم سازی و تبلیغ و تربیت جیسے حقوق حاصل ہیں۔

(ب) انتظامی اعتبار سے: ریاستی نظام کو چلانے اور کسی قسم کی مسلح بغاوت سے نبٹنے کے لیے ایک منظم اور جدید ترین حکومتی مشینری، فوج، پولیس اور دیگر عدالتی و انتظامی اداروں کا مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔

(ج) عملی اعتبار سے: (۱) ارباب اختیار کا رویہّ مجموعی طور پر اسلام سے منافقانہ رہا ہے۔ (۲) اسلامی قانون و دستور پر عمل در آمد بحیثیت مجموعی تعطل کا شکار رہاہے۔ (۳) بالادست طبقے بالعموم آئینی و جمہوری حقوق کو غصب کرتے آ رہے ہیں ۔ (۴) عوام کی اکثریت مسلمان ہے مگر اجتماعی معاملات غیر الٰہی رسوم و قوانین کی گرفت میں ہیں‘ جب کہ انفرادی زندگی بھی مجموعی طور پر کفرو اسلام کا مرکب ہے۔

اسوۂ رسولؐ سے رھنمائی

ان تینوں پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آغاز دعوت میں حضوؐر کی جدوجہد کا اسلوب کیا تھا ۔ امام مالکؒ کے مطابق امت کے آخری دور کی اصلاح بھی اسی طریقے پر ہو گی جس طورسے آغازِ دعوت کے دور میں ہوئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ مکی و مدنی ادوار جدوجہد کے کون سے راستے کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔

مکی دور میں نازل شدہ ذیل کی دو آیات جہاد کے مفہوم کے باے میں واضح ہیں:

(۱) ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰھَدُوْا وَ صَبَرُوْٓا لا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (النحل ۱۶:۱۱۰) بخلاف اس کے جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب (ایمان لانے کی وجہ سے) وہ ستائے گئے تو انھوں نے گھربار چھوڑ دیے‘ ہجرت کی‘ راہِ خدا میں سختیاں جھیلیں اور صبر سے کام لیا‘اُن کے لیے یقینا تیرا رب غفورو رحیم ہے۔

(۲) فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا (الفرقان ۲۵: ۵۲) پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔

پہلی آیت میں ہجرت کرنے والوں سے مراد مہاجرین حبشہ ہیں‘ اور اس کے بعد جس جہاد کا ذ کرہے وہ مکہ کے پورے دور میں تلوار کے ذریعے نہیں کیا گیا۔ اس دور میں جس طریقے سے جہاد کیا گیا، اس کا بیان دوسری آیت میں ہے جس میں جہاد کا حکم بھی دیا گیا ہے اور ساتھ جہاد کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے‘ جس کے مطابق ایک تو کافروں کی کسی نوعیت کی اطاعت نہیں کرنا‘ اور دوسرے اس قرآن کے ذریعے جہادکبیر کرنے کا حکم ہے۔ ظاہرہے کہ قرآن کوئی ہتھیار نہیں جس سے کسی پر ضرب لگائی جائے۔ قرآن کے ذریعے جہاد کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے استدلال کے ذریعے نظام شرک کا باطل اور اسلام کا حق ہونا واضح کیا جائے۔ حضوؐر نے پورے مکی دور میں کفار کے تمام تر ظلم و استبداد کے باوجود کوئی ہتھیار نہ اٹھایا ۔ امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں: ’’آپؐ  اپنی بعثت کے بعد تقریباً ۱۳سال تک دعوت و تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو اللہ کا خوف دلاتے رہے۔ اس عرصے میں نہ جنگ کی اور نہ جزیہ لیا بلکہ آپؐ کو یہی حکم ملتا رہا کہ ہاتھ روکے رکھیں، صبر سے کام لیں۔ (زاد المعاد)

گویا کہ مکی زندگی میں بھی جہاد کا عمل جاری تھا مگر قتال پر پابندی تھی۔ ایسا کیوں تھا؟ سیدقطب شہید ؒکے مطابق: مکی زندگی میں جہاد بالسیف سے دست کش رہنا قابل فہم ہے۔ اس لیے کہ مکہ میں حضوؐر کے لیے بنو ہاشم کی تلواروں کی حمایت کی وجہ سے حریت تبلیغ کا انتظام موجود تھا، آپؐ  فرداً فرداً ہر شخص کو مخاطب کر سکتے تھے۔ مکہ میں کوئی ایسی منظم سیاسی قوت موجود نہ تھی جو  دعوت و تبلیغ کی آواز کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کر سکتی کہ لوگ اسے سننے سے بالکل محروم ہوجاتے۔ (فی ظلال القرآن)

سیدقطب شہید ؒ کُفُّوْا أَیْدِیَکُمْ (اپنے ہاتھ روکے رکھو) کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ   اس وقت کسی باضابطہ حکومت کا کوئی وجود نہ تھا، جو اہل ایمان کو ایذا رسانی کا نشانہ بناتی‘ بلکہ تعذیب و تادیب کا عمل ہر مومن کے اپنے ہی رشتہ داروں اور سرپرستوں کے ہاتھوں جاری تھا۔ اس طرح کی فضا میں اِذن قتال کے صاف معنی تھے کہ گھر گھر میں معرکہ برپا ہو جاتا اور خانہ جنگی کا طویل اور لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا۔ (فی ظلال القرآن)

مکی دور میںاگر جہاد بالسیف فرض کر دیاجاتا تو یہ محدودجنگ مسلمانوں کی اس قلیل جماعت کے کلّی خاتمے پر منتج ہوتی۔ خواہ مسلمان اپنے سے کئی گناز یادہ لوگوں کو مار ڈالتے لیکن   نظام شرک و ظلم کی عمل داری جوں کی توں قائم رہ جاتی۔

اس صورت حال کے پیش نظر اگر ہمیں پاکستان میں آزادی تقریر و تحریر اور آزادی اجتماع و تنظیم حاصل ہے تو ابلاغ کے آئینی راستے کو چھوڑ کر جہاد کے لیے بندوق اٹھا کر کھڑے ہو جانا کہاں کی دانش مندی ہے‘ جب کہ ابھی دعوت و تبلیغ کا حق بھی ادا نہ کیا گیا ہو۔ آج‘ جب کہ ملک وملّت کو دشمن کے خلاف یک جہتی و اتحاد کی ضرورت ہے، مسلح جدوجہد کے نتائج سواے خانہ جنگی وانارکی کے، اسلام کے حق میں کچھ بھی بہتر نہ ہوں گے۔

موجودہ دور میں جب سبک رفتار ذرائع رسل و رسائل کے ذریعے حکومتی مشینری حرکت میں آتی ہے تو اپنے مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے کسی بھی گروہ کی بڑی سے بڑی جدوجہد کو سختی سے سے کچل بھی سکتی ہے اور عوام الناس کو اپنے سریع الاثر ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کے ذریعے اسلامی تحریک کو یکہ وتنہا کر سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آئینی و جمہوری خطوط پر استوار تحریک عوام میں  اپنا ایک اخلاقی جواز اور عدالت میں قانونی تحفظ رکھتی ہے، جس کی وجہ سے ایک لمبے عرصے تک تحریک کو جاری رکھنا ممکن ہے ۔

مکی دور کی اس تحریک جہاد کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تحریک اپنی دعوت کے آفاقی ہونے کے باوجود زندگی کے روز مرہ معاملات اور مقامی مسائل سے بھی پوری طرح مربوط تھی اور ان کے حل کے لیے مروجہ متوازی و سائل سے کام لے رہی تھی۔ اس تحریک نے جہاں عقیدہ و اخلاق کی اصلاح کے لیے آواز بلند کی وہاں ظلم کے خاتمے کی جدوجہد کو دعوت کی کامیابی تک ملتوی نہیں کیا‘ بلکہ قولی دعوت کا عملی اظہار اسی صورت میں تھا کہ ہر داعی مظلوم کا ساتھی اور پشتیبان بن گیا۔

ایک مظلوم کا حق دلوانے کے لیے حضوؐر کا ابو جہل جیسے دشمن کا دروازہ کھٹکھٹانا (ابن ہشام)، مظلوموں کی حمایت کے لیے دور ِ جوانی میں کئے گئے معاہدہ حِلف الفضول کی دورِنبوت میں بھی تصویب و تائید (طبقات، مستدرک) ، پہلی وحی کی گھبراہٹ کے موقع پر حضرت خدیجہؓ کی طرف سے تسلی کے الفاظ: ’’آپ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ، محتاجوں کو کما کر دیتے اور راہِ حق میں پیش آمدہ مصائب پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘ ‘ (بخاری)، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو ان کی زمین سے   بے دخلی کرنے والوں کو فرمانا: اگر میرے آنے کے بعد بھی کمزوروں پر ظلم ہو تو مجھے پھر اللہ نے رسول بناکر کیوں بھیجا ہے (انتخاب حدیث)‘ فرمان نبویؐ:’’بے شک اللہ ایسی امت کو پاکیزگی نہیں بخشتا جس کے ماحول میں کمزوروں کو ان کا حق نہ دلوایا جائے‘‘(مشکوٰۃ)___ سیرت نبویؐ کا یہ پہلو نہ صرف عام مسلمانوں نے نظر انداز کر دیا ہے بلکہ وہ لوگ جو افغانستان و کشمیر میں ہونے والے ظلم پر تڑپ اٹھتے ہیں اور جان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ وہ اپنے ملک میں اپنے ارد گرد ہونے والے ظلم سے بالکل آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ ظالم جاگیرداروں او بدعنوان حکمرانوں اور افسران کے ہاتھوں کتنی ہی عصمتیں، عزتیں اور محنت کی کمائیاں برباد ہو رہی ہیں اور ان مظلوموں کی جنگ لڑنے والا کوئی نہیں۔ جذبات میں آکر گولی کھا لینا اتنا مشکل کام نہیں ہے جتنا ظلم اور گھٹن کے شکار معاشرے میں کسی مظلوم کے ساتھ کھڑے ہو کر خوف و دہشت اور مایوسی کی فضا میںکسی ظالم کے سامنے مسلسل آوازۂ حق بلند کرنا مشکل ہے۔

قرآن سے استدلال

مدنی زندگی کے اوائل میں‘ جب کہ مدینہ و اطراف مدینہ کے قبائل کی اکثریت ابھی تک شرک پر قائم تھی، عدم جنگ کے معاہدے کے مطابق وہاں تبلیغ و دعوت کے کھلے مواقع حاصل ہوگئے تھے اور کوئی سیاسی قوت اس پر قدغن لگانے والی اور لوگوں کو اس سے روکنے والی نہ تھی، حضوؐر نے منافقین کے خلاف تلوار نہ اٹھائی۔ اللہ کے عطا کردہ علم کی بنیاد پر حضوؐر کو منافقوں کی منافقت کا حال بھی معلوم تھا اور بعض مواقع پر تو ان کی مخالفت واضح شکل میں سامنے بھی آگئی اور مسلمانوں کو ان کی وجہ سے کئی مواقع پر نقصان بھی اٹھانا پڑا لیکن جب انھوں نے کوئی عذر بیان کیا تو آپؐ نے ان کے عذر کو قبول کیا۔ حتیٰ کہ غزوئہ بنو مصطلق کے موقع پر عبداللہ بن ابی نے حضوؐر اور مہاجر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی کی۔ حضرت عمرؓ نے آپ سے اس کے قتل کی اجازت طلب کی تو آپؐ  نے فرمایا : ’میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ محمد اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگا ہے۔ (تفہیم القرآن)

مسلم معاشرے میں موجود منافقین کے خلاف جہاد بالسیف کے لیے سورۂ توبہ کی آیت یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاَغْلُظْ عَلَیْھِمْط (۹:۷۳) سے استدلال کیا جاتا ہے۔ اس آیت کا حقیقی مفہوم کیاہے‘ اور منافقین کے خلاف جہاد کی نوعیت کیا ہوگی؟ امام ابن قیمؒ کے مطابق : کفار اور منافقین کے بارے میں اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف جہاد کیا جائے اور ان سے سخت برتائو کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے کفار کے ساتھ شمشیروسناں سے جہاد کیا اور منافقین کے ساتھ دلیل و زبان سے___ رہا منافقین کے بارے میں آپؐ  کا اسوہ توآپ ؐ کو حکم دیا گیا کہ آپؐ ان کے ظاہر کو قبول کر یں اور ان کے باطن کے حالات کو اللہ پر چھوڑ دیں‘ اور علم اور دلیل سے ان کے ساتھ جہاد کریں۔ ان سے شدت کا برتائو کریں۔ان کا  جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر قیام کرنے سے منع کر دیا گیا ۔ (زاد المعاد)

مولانا مودودیؒ کے مطابق:  منافقین کے خلاف جہاد اور سخت برتائو سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے۔ دراصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش سے جو چشم پوشی اب تک برتی گئی ہے، جس کی وجہ سے ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میںاپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا، اس کو آیندہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ روش اختیار کرے ، اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے، علانیہ اس کو ملامت کی جائے، سوسائٹی میں اس کے لیے عزت و اعتبار کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھاجائے، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو، عہدوں اور مناصب کا دروازہ اس کے لیے بند رہے۔ (تفہیم القرآن)

مسلح جدوجھد یا خروج

جہاں تک معاملہ ہے ایک مسلم ریاست میں ظالمانہ و غاصبانہ تسلط رکھنے والے مسلم حکمرانوں کا تو اس بارے میں مسلح جدوجہد(خروج) جمہور علما کے نزدیک ناپسندیدہ عمل رہاہے۔ یہ موقف مثالی نہ ہونے کے باوجود عملی طور پر امت کے لیے نسبتاً کم نقصان دہ ثابت ہوا ہے‘ جب کہ مسلح جدوجہد میں کامیابی کے بعد بھی ایک صالح انقلاب کی منزل ایک خواب ہی رہی۔ ابتدائی دور میںخوارج اور بنو عباس اور دور حاضر میں جنرل نجیب و ناصر کی حکومتیںاس کی واضح مثالیں ہیں۔ خوارج اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کی خون ریز معرکہ آرائیوں کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو ظلم سے نجات حاصل نہیں ہوئی بلکہ معصوموں کی جان تلفی کے ساتھ ساتھ دشمنان ملّت کی امت میں مداخلت کے لیے انتشار کے کئی دروازے کھل گئے ۔سید مودودی نے بھی اس تاریخی تجربے کی روشنی میں دعوت و تحریک کے آئینی اور علانیہ ذرائع اختیار کرنے پر زور دیا۔ان کے نزدیک سازشی اور خفیہ طریقے سے آنے والے انقلابات انھی ذرائع سے ختم کر دیے جاتے ہیں اور کبھی پایدار نہیں ہوتے۔

راشد الغنوشی کے نزدیک فتنہ و فساد اور انارکیت سے بچنے کاواحدراستہ یہی ہے کہ  ’اسلامی جہاد‘ کا اصول اپنایا جائے اور اس میں سب سے افضل جہاد ’کلمۂ حق‘ ہے۔حضوؐر نے ظالم سلطان کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کو سب سے بڑا جہاد قرار دیا ہے (ترمذی)۔ ارشاد نبویؐ ہے کہ جو کوئی تم میں سے کوئی منکردیکھے اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کر ے۔ اگر اس کی استطاعت نہیں تو پھر زبان سے، اور اگر اس کی استطاعت نہیں تو اپنے دل میں بُرا جانے(مسلم)۔ اس ارشاد کے ذریعے    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازالہ منکر اور ظالم و ناپسندیدہ عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیے مسلمانوں   کے سامنے کئی راستے کھول دیے ہیں تا کہ وہ خود پیش آمدہ حالات کا اچھی طرح جائزہ لے کر، حالات و امکانات سامنے رکھ کر مناسب اور موزوں قدم اٹھائیں۔ شارع نے اسے مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا اور امربالمعروف و نہی عن المنکر جیسے تنظیمی و وجوبی حکم کی کوئی خاص شکل متعین نہیں فرمائی جس کی بناپر علما کہتے ہیں: ’’قرآن میں کیفیت کی تحدید نہیں ہے کہ کس طرح اس واجب کی ادایگی کی جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض مسلمانوں کی مصلحت اور ان کے حالات وظروف کی رعایت سے کیفیت کے بیان کو چھوڑ دیاگیا ہے‘‘۔ (الدستور القرآنی)

عصرحاضر کا تقاضا

عصر حاضر میں سیاسی اداروں کے ارتقا او ر تمدنی تنظیم کے تغیرات نے مسلح جدوجہد (خروج) اور محض نظری تبلیغ کے درمیان ایک ایسا راستہ ہمارے لیے کھول دیا ہے جو ہمیں بد امنی و انتشار   سے بھی بچا سکتا ہے اور کسی بھی منکر کے خلاف اسلامی غیرت و حمیت کے اظہار کا طریقہ بھی ہے۔ یہ ظالموں اور حق کے غاصبوں کے خلاف اہل حق اور مظلوموں کابہترین ہتھیار بھی ہے اور جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کا مؤثر ذریعہ بھی___ وہ ہے احتجاج کا حق۔ قرارداد مذمت، ہڑتال، جلسہ جلوس، دھرنا، احتجاج کی مختلف شکلیں ہیں۔ جو لوگ ان ذرائع کے اختیار کرنے کو وقت اور صلاحیت کا ضیاع قرار دیتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ آج احتجاج اور مظاہرے عوامی ہمدردیوں کے حصول اور اپنی بات کو اوپر پہنچانے اور منوانے کا ذریعہ بھی ہیں، اور قومی و بین الاقوامی راے عامہ کے جاننے کا پیمانہ بھی۔ خود پاکستان کی دستوری تاریخ میں قرارداد مقاصد کی منظوری، قادیانیوں کا غیر مسلم قرار پانا، اور سیاسی لحاظ سے پاکستان میں سوشلزم کی پسپائی، جہادافغان و کشمیر کی پشت پناہی، ایٹمی دھماکوں پر حکمرانوں کا مجبور ہونا، توہین رسالتؐ کے معاملے میں یورپ کا زیر دبائو رہنا ،امریکی پشت پناہی کے باوجود شاہ ایران کا ملک سے فرار انھی ذرائع سے ممکن ہوا ہے ۔ اب‘ جب کہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور منکرات کے رسیا اپنی عوامی قوت کے اظہار کے ذریعے راے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرکے اپنی بات منوالیتے ہیں تو نیکی کے علَم برداروں کا احتجاج کے آئینی راستے کو مخالفین کے لیے کھلا چھوڑ کراپنے کو حصولِ حق کے ایک جائز ذریعے سے محروم رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے۔

مذہب کے روایتی تصور کے مطابق اس بات کو دینی تقاضا سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مذہب قدیم تنظیم و معاشرت کانام نہیں بلکہ ان تعلیمات کا نام ہے جو اس کے اندر حلول کیے ہوئے ہیں۔ جس طرح قدیم کو اسلامی تعلیمات کے ذریعے مذہبی بنایا گیا اور آج ہم اسے مذہبی سمجھتے ہیں‘ اسی طرح جدید کو بھی ہر دور میںدینی تعلیمات کی روشنی میں مذہبی بنایا جا سکتا ہے۔ ادوار کی تبدیلی کے ساتھ تمدن و معاشرت کی تنظیمی ہیئت اورمراکز قوت تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

حضوؐر نے جب کوہ صفا پر پہلاخطاب عام ارشاد فرمایا تو اس موقع پر آپؐ  نے بھی قریش کو عرب کے اسی خاص اسلوب سے پکارا جس سے وہاں کسی خطرے کے نازک لمحے میں قوم کو بلایا جاتا تھا۔ پکارنے والابلندی پر کھڑے ہو کر معاملے کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے اپنا لباس اتار کر اسے فضا میں لہراتا اور واصباحاہ واصباحاہ کی ہانگ لگاتا۔ لازم تھا کہ لوگ دوڑ کر آئیں اور اس کی بات سنیں۔ حضوؐرکی شرم و حیا سے یہ تو بعید تھا کہ آپؐ  اپنا لباس اتارتے، البتہ اس کی بجاے آپؐ  نے اپنی رداے مبارک فضا میں لہرائی اور وہی واصباحاہ واصباحاہکی آواز بلند کی۔ گویا کہ عرب کے رواج کے غلط پہلو کو چھوڑ دیا اور اس کے ذریعے ابلاغ کے مقصدی پہلو سے استفادہ کیا۔

تمدنی تنظیم کی جدت کو اپنانے کی ایک مثال دیّت اور عاقلہ کے نظام میں ہے۔ زمانۂ جاہلیت کے قبائلی نظام میں عاقلہ (قریبی ورثا) کے ذریعے حادثات و خطرات کی تلافی کے لیے امداد باہمی اور اجتماعی جرمانے کی شکل نکالی گئی تھی، رسولؐ اللہ نے اسے برقرار رکھا۔ ابتدا میں نظام عاقلہ   صرف خاندان و قبیلے تک محدود رہا لیکن عہد فاروقی میں حالات کی تبدیلی سے جب معاشرے کی نئی تنظیم وجود پذیر ہوئی تو حضرت عمرؓ نے نظام عاقلہ کو وسعت دیتے ہوئے قانون مقرر کیاکہ اگر قاتل اہل دیوان سے ہے تو عاقلہ اہل دیوان ہوں گے۔ اہل دیوان میں ایک دفتر یا محکمہ کے لوگ شامل ہوتے تھے جن کے نام ایک رجسٹر میں درج ہوتے تھے۔ اس تبدیلی کا سبب علامہ سرخسیؒ کی راے میں یہ ہے کہ: ’’رسولؐ اللہ نے دیّت کی ذمہ خاندان و قبیلے پر اس لیے ڈالی تھی کہ اس وقت قوت و مدد انھی کے ذریعے حاصل ہوتی تھی۔ پھر حضرت عمرؓ نے دفاتر کا نظام مرتب کیا تو یہ قوت و مدد اہل قبیلہ سے منتقل ہو کر اہل دفاتر سے وابستہ ہو گئی۔ آج اگر ہم پیشہ افراد کی یونین یا جماعت کے ممبران یا پیرکے مرید ین سے قوت و مدد حاصل ہو تو ان سب کو دیّت کاذمہ دار بنایا جاسکتاہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے: اگر آج باہمی مدد ہم پیشہ لوگوںسے ہو سکتی ہے تو عاقلہ ہم پیشہ لوگ ہی قرا ر پائیں گے۔ گویا کہ ناگریز ہے کہ ہر دور کی تنظیمی ہیئت میںقوت کے انتقال کا لحاظ کیا جائے ‘جب کہ اس  مرکز قوت میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔

اس لحاظ سے دو ر حاضر میں احتجاج بھی ایک شرعی ضرورت ہے اور شرعی اصول کے مطابق ناگریز ضرورت کی صورتوں میں بہت سی ممنوعات بھی مباحات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ الضرورات تبیح المحظورات(سرخسی،المبسوط)۔ جس طرح جہاد کے مروجہ قدیم طریقوں کو عبادت شمار کیا گیا‘ اسی طرح ان جدید طریقوں کے اختیار کرنے کو بھی قابل اجر و ثواب اور مذہبی امور گردانا جائے گا۔ شریعت میں دنیوی مصالح کو جو درجہ حاصل ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے: ’’دنیوی زندگی میں جن چیزوںکی ضرورت ہے اور جو ممدومعاون ہیں ان کے بغیر لوگ حق قبول نہیں کرتے۔  اس بنا پر دینوی حظوظ بھی عبادت میں شمار ہو ںگے، کیونکہ عبادات ان کے بغیر پوری نہیں ہوتی ہیں اور جس کے بغیر واجب کی ادایگی نہ ہو ، وہ بھی واجب ہے‘‘۔(الجوامع فی السیاسۃ الالٰہیہ)

اس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حصول حق کے لیے پر امن احتجاج اور مظاہرے کا طریقہ اگر حضوؐر کے زمانے میں مروّج ہوتا تو اقامت دین اور حمایت مظلوم کے لیے آپؐ اس سے ضرور استفادہ فرماتے۔ جو لوگ احتجاج کے اس معروف طریقے کو خلافِ سنت کہہ کر رد کر دیتے ہیں، انھیں اس حدیث پر تدبر کی نگاہ ڈالنی چاہیے جسے بخاری و ابوداؤد نے روایت کیا ہے کہ: ایک صحابی نے رسولؐ اللہ سے اپنے پڑوسی کی طرف سے اذیت کی شکایت کی۔ آپؐ  نے اسے صبر کی نصیحت کی۔ کچھ عرصے بعد پھر شکایت کی، آپؐ  نے پھر صبر کرنے کو کہا۔ تیسری مرتبہ جب اس نے شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنے گھر کاسامان باہر گلی میں ڈال کر بیٹھ جائو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ جب گلی میں سے گزرنے والوں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ سب لوگوں نے اس کے پڑوسی کو ملامت کی۔ وہ بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے پڑوسی کو منایا اور آیندہ نہ ستانے کا وعدہ کیا۔ ثابت ہوا کہ ناپسندیدہ عمل پر حضوؐر نے مظلوم کو صرف صبر کی تلقین ہی نہیں فرمائی بلکہ  اظہار ناراضی اور حصول حق کا پر امن راستہ بھی دکھا دیا۔ اس واقعے سے اس طریقے کی قوت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

جھاد ایک عملی تحریک

اسلامی جہاد درحقیقت ایک عملی تحریک ہے جو ہر مرحلے میں اپنی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق متوازی اور موزوں وسائل اختیار کرتی ہے۔ دین اسلام عملی زندگی کامقابلہ محض تجریدی نظریات سے نہیں کرتا، نہ وہ زندگی کے مختلف مراحل کو جامد اور ناقابل تغیر ذرائع سے طے کرتا ہے۔ جو لوگ نظام جہاد پر گفتگو کرتے ہوئے قرآنی نصوص سے استدلال کرتے وقت دین کے اس امتیازی وصف کا لحاظ نہیںکرتے اور ان ادوار و مراحل کی فطرت و حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے جن سے تحریک گزری ہے‘ تو اس طرح کے لوگ نظام جہاد کو نہایت بھونڈے انداز سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔

اسلامی تحریک مادی اقتدار سے نبر د آزمائی میں محض دعوت و تبلیغ پر اکتفا نہیں کرتی اور نہ عام انسانوں کے افکار کو بدلنے کے لیے محض جبرو اکراہ اور قوت کا استعمال ہی مناسب سمجھتی ہے۔ یہ دونوں اصول اس دین کے طریق کار میں یکساں طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔ سید قطب شہیدؒ کے الفاظ میں: ’’اسلام کی برپا کردہ تحریک جہاد کا مقابلہ ایک ایسی جاہلیت سے ہوتا ہے جو ایک طرف خیالات و عقائد پر قابض ہوتی ہے‘ اور دوسری طرف اس کی بنیاد پر زندگی کا عملی نظام قائم ہوتا ہے‘ اور تیسری طرف اسے اور اس کے قائم کردہ نظام زندگی کی پشت پناہی کے لیے سیاسی و مادی اقتدار موجود ہوتاہے۔ اس لیے تحریک کو جاہلیت کا مقابلہ کرنے کے لیے متوازی وسائل و اسباب بروے کار لانا پڑتے ہیں‘‘۔ (معالم فی الطریق )

واضح رہے کہ اسلام کی عمومی تعلیمات تو انقلاب کے لیے پُرامن جدوجہد کی ہیں۔ البتہ جہاں آزادیِ اظہار اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے تبدیلی کی راہیں مسدود ہوجائیں یا غاصب قوتیں ملک پر قبضہ ہی کرلیں‘ جیساکہ فلسطین‘ کشمیر‘ افغانستان اور عراق کی صورت حال ہے‘ تو وہاں پُرامن جدوجہد کے ساتھ ساتھ اگر حق کی سربلندی اور آزادی کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد بھی کرنا پڑے تو اس کا بھی جواز ہے۔

اس پہلو سے دیکھا جائے تو اسلامی تحریک:

(ا) خیالات و عقائد کی اصلاح کے لیے دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کو ذریعہ بناتی ہے ۔

(ب) باطل نظام زندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی تحریک حق کی قولی شہادت اداکرنے والو ں کی ایک ایسی منظم جماعت تشکیل دیتی ہے جو زندہ و فعال ہو۔ افراد کے اندر   باہمی تعاون و یک جہتی اور ہم آہنگی و ہم نوائی ہو۔ وہ اپنے جداگانہ تشخص پر حملہ آورایسے عوامل و اسباب کا تدراک کرتی ہے جو اس کے وجود کو مٹانے کے درپے ہوں۔ دوسری طرف اپنے اسلامی تشخص کے استحکام اور توسیع کا انتظام کرتی ہے ۔

(ج) باطل نظام زندگی کے پشت پناہ اقتدار کے ازالے کے لیے اسلامی تحریک حالات و زمانے کی رعایت سے مادی طاقت اور جہاد سے کام لیتی ہے۔ اس لیے کہ قوم کی اصلاح کے لیے  اسلام نے بااثر طبقات کی اصلاح کو مقدم رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر اور تمام انبیا ؑنے اپنی دعوت کا پہلا مخاطب قوم کے بااثر افراد و طبقات کو بنایا۔ اس لیے کہ اللہ حکومت اور اقتدار کے ذریعے ان امور کی تنظیم کرتا ہے جن کی تنظیم صرف قرآن سے نہیں ہوتی: ان اللّٰہ لیزع بالسلطان مالا یزع بالقرآن۔ اگر تبلیغ عقائد و تصورات کی اصلاح کرتی ہے تو تحریک جہاد دوسرے مادی سنگ ہاے راہ کو صاف کرتی ہے۔ جن میں سر فہرست وہ سیاسی قوت ہے جو اجتماعی و اقتصادی سہاروں پر قائم ہوتی ہے اور یہ دونوں مل کر قائم شدہ نظام پر چاروں طرف سے اثر انداز ہوتے ہیں۔

یہی وہ فطری طریق کار ہے جس کی بدولت اسلام کا عملی وجود دنیا میں قائم ہواتھا۔ اس کے آتے ہی اس کی بنیاد پر ٹھوس، جان دار اور متحرک جماعت وجود میں آگئی جس نے نہ صرف باطل معاشرے میں اپنا جداگانہ تشخص قائم کیا بلکہ باطل وجود کو بھی چیلنج کر دیا۔ وہ ہرگز عملی وجود سے عاری محض خیالی نظریے کی صورت میں نہیں اترا‘ اور آیندہ بھی اس کا وجود ایک عملی نظام کے ذریعے ہی منصہ شہود پر آسکتا ہے۔