قافلے کا سالار اپنے ہی ساتھیوں کو جھوٹی خبر کبھی نہیں دیتا۔ خدا کی قسم! اگر میں سب لوگوں سے جھوٹ کہنے پر تیار ہوجاتا تب بھی تم سے خلافِ واقعہ بات نہ کرتا‘ اور اگر سب لوگوں کو دھوکا دینے پر بھی آمادہ ہوجاتا تو بھی تم کو ہرگز دھوکے میں نہ ڈالتا۔ اس خدا کی قسم جو وحدہٗ لاشریک ہے! میں تمھاری طرف خصوصاً اور باقی تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بناکر بھیجا گیا ہوں۔ بخدا ضرور تم کو ایک دن مرجانا ہے بالکل اس طرح جیساکہ روز سوتے ہو‘ اور پھر بلاشبہہ زندہ ہونا ہے جیساکہ روز خواب سے بیدار ہوتے ہو۔ اور تمھارے اعمال کا ضرور محاسبہ ہوگا۔ نیکی کا بدلہ نیکی اور برائی کا بدلہ برائی مل کر رہے گا۔ اُس وقت یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ملے گی یا ہمیشہ کے لیے جہنم۔ (جمہرۃ الخطب)
اگر تم لذتوں کا قلع قمع کرنے والی موت کو پیش نظر رکھتے تو آج میں تم کو ہنستے ہوئے نہ دیکھتا۔ سو‘ موت کو اکثر اپنے سامنے رکھو‘ کیونکہ قبر سے ہر روز آواز آتی ہے: میں غربت اور تنہائی کا گھر ہوں۔ میں خاک میں ملا کر خاک بنا دینے والا مکان ہوں۔ میں کیڑوں کا مسکن ہوں۔ پس جب کوئی مومن قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو وہ اس سے کہتی ہے: مرحبا! آنا مبارک ہو۔ میری پشت پر چلنے پھرنے والوں میں سے تم مجھے سب سے زیادہ محبوب تھے۔ آج‘ جب کہ تم مجھے ملے ہو تو میرا سلوک دیکھ لو گے۔ پھر اس کے لیے حدنظر تک فراخ ہوجاتی ہے اوراس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور جب کوئی کافر یا بے عمل دفن ہوتا ہے تو قبر اسے دھتکار کر کہتی ہے: تجھے فراخی اور آرام نصیب نہ ہو۔ میری پشت پر چلنے والوں میں تو مجھے سب سے زیادہ مبغوض تھا۔ آج جب تو میرے قابو میں آیا ہے‘ تجھے میرا سلوک معلوم ہوجائے گا۔ پھر قبر سمٹ کر اسے بھینچتی ہے‘ حتیٰ کہ اس کی پسلیاں توڑ پھوڑ کر ایک دوسرے میں داخل کردیتی ہے۔
راوی بیان کرتا ہے کہ اس موقع پر آپؐ نے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈال کر بتایا کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں اس طرح داخل ہوجائیں گی۔
پھر آپؐ نے فرمایا: اور اس کے لیے ۷۰ ایسے زہریلے اژدہے مقرر کیے جاتے ہیں کہ اگر ان میں ایک بھی دنیا میں پھنکار مار جائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زمین کی قوتِ نامیہ ختم ہوجائے گی۔ حشر تک وہ اژدہے اسے ڈستے اور نوچ نوچ کر کھاتے رہیں گے۔
پھر آپؐ نے فرمایا: قبر یا تو جنت کا باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔(ترمذی)
اے لوگو! تم ان کی طرح نہ بنو جو دنیا اور آرزوؤں کی خواہش میں پھنس گئے‘ بدعتوں کی طرف مائل ہوئے‘ اور جلد فنا ہونے والی دنیا کی طرف جھک پڑے۔ گزرے ہوئے وقت کے مقابلے میں دنیا کا اتنا کم حصہ باقی رہ گیا ہے‘ جیسے ساربان اُونٹنی کو بٹھاتا ہے یا گوالا ایک دودھ کی دھار لیتا ہے۔ تم کس بھروسے پر ہو اور کس بات کا انتظار کر رہے ہو؟ خدا کی قسم! دنیا کا یہ موجودہ وقت ایسے گزر جائے گا گویا کبھی تھا ہی نہیں اور جس آخرت کی جانب تم جارہے ہو وہ غیرفانی ہے۔ سو‘ یہاں سے انتقال کے لیے سامان تیار کرلو اور کوچ کے لیے توشہ مہیا کرلو‘ اور یاد رکھو کہ جو کچھ آگے بھیج دو گے اس کا اجر مل جائے گا اور جو پیچھے چھوڑ جائو گے اس پر نادم ہونا پڑے گا۔
اے لوگو! مرنے سے پہلے اپنے لیے کچھ سامان کرلو۔ تم کو معلوم ہوجائے گا۔ خدا کی قسم! تم میں سے ہر ایک پر موت کی بے ہوشی طاری ہوجائے گی اور اپنی بکریوں کو بغیر نگہبان کے چھوڑ جائے گا۔ پھر خدا جسے نہ ترجمان کی حاجت ہے نہ دربان کی ضرورت‘ اس سے پوچھے گا: کیا میرے رسولؐ نے آکر تمھیں میرے احکام نہیں پہنچائے تھے؟ اور میں نے تم کو دولت نہیں دی تھی؟ اور اپنے فضل و کرم سے نہیں نوازا تھا؟ پس بتائو تم نے اپنے لیے آگے کیا بھیجا ہے؟
اس وقت وہ حیران ہوکر دائیں بائیں دیکھے گا مگر کچھ نظر نہیں آئے گا۔ پھر سامنے کی طرف دیکھے گا تو آگ کے سوا کچھ نظر نہ آئے گا۔ پس جس کو توفیق ہو وہ اپنے آپ کو اس آگ سے بچالے‘ خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کو یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کہہ کر اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے بچالے‘ کیونکہ ایک نیکی کا بدلہ ۱۰ گنا سے لے کر ۷۰۰ گنا تک دیا جائے گا۔ والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہٗ۔(زاد المعاد)
اے لوگو! ہماری غفلت کا یہ حال ہے کہ گویا موت ہمارے لیے نہیں بلکہ فقط دوسروں کے لیے مقرر ہوچکی ہے‘ اور گویا حقوق کی ادایگی ہم پر نہیں بلکہ تنہا دوسرے لوگوں پر واجب ہے۔ جن مُردوں کے ساتھ ہم قبرستان تک آتے ہیں گویا وہ چند دن کے مسافر ہیں جو واپس ہوکر ہم سے ملیں گے۔ ہم ان کو تو قبر میں دفن کردیتے ہیں لیکن ان کا مال اتنے اطمینان سے کھاتے ہیں کہ گویا ہم کو ان کے بعد دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔ نصیحت کی ہربات ہم بھلا بیٹھے‘ اور ہر آفت کی طرف سے مطمئن ہوچکے ہیں۔
مبارک باد ہے اس شخص کے لیے جو اپنے عیوب پر نظر کر کے دوسروں کی عیب جوئی سے بچ رہا۔
مبارک باد ہے اس کے لیے جس نے حلال کی کمائی خدا کی راہ میں خرچ کی‘ علما اور عقل مندوں کی ہم نشینی اختیار کی‘ اور غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ ملتا جلتا رہا۔
مبارک ہے وہ شخص جس کے اخلاق اچھے ہوں‘ دل پاکیزہ ہو اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے۔ مبارک ہے وہ شخص جو ضرورت سے بچا ہوا مال خدا کی راہ میں خرچ کرے اور فضول گفتگو سے پرہیز کرے۔ راہِ شریعت پر عمل کرنا اس کے لیے آسان ہو‘ اور بدعت اسے اپنی طرف راغب نہ کرسکے(کنزالعمال)۔(انتخاب و ترتیب: مسلم سجاد)