آج دنیا میں مختلف نظریات اور اِزموں کی بھرمار نے فضا کو دھندلا دیا ہے۔ بے یقینی اور عدمِ اطمینان کی کیفیت نے انسان کا انسانیت پر اعتماد متزلزل کردیا ہے۔ لوگ اور معاشرے غموں سے دل گرفتہ اور دکھوں سے آزردہ ہیں‘ جب کہ انسان ہر مادی آسایش کے باوجود ناآسودہ ہے۔ گوہرمقصود مفقود‘ سچی خوشی کا حصول محال اور ایک لمحے کی طمانیت عنقا۔ ہر طرف دہشت و وحشت اور بے یقینی و بے اطمینانی ہے۔ قومیں قوموں سے‘ فرقے فرقوں سے‘ طبقے طبقوں سے دست و گریباں ہیں اور یہ کش مکش ختم ہوتی نظرنہیں آتی۔ ہرشخص خودغرضی میں مبتلا ہے۔ نیکی‘ شرافت اور اخلاق نام کی کوئی چیز نہیں۔ آج انسان کی علمی سطح بہت بلند ہوچکی ہے۔ وہ بڑے بڑے خوش نما فلسفے گھڑتا ہے لیکن اس کی تمام تدبیریں ناکام ہوچکی ہیں۔ انسان کو خدا کی ہدایت اور اس کے رسولوں کی رہنمائی کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ موجودہ دور کے انسان کی سب سے بڑی مشکل ’متفقہ اقدار‘ کا نہ ہونا ہے‘ جنھیں سب مل کر تسلیم کرسکیں اور جو انسانیت کے شیرازے کو مجتمع رکھ سکیں‘ اور جو اخوتِ انسانی کا باعث ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تصادم اور کش مکش کا ایک طوفان برپا ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ یہ سب سے بڑی گتھی ہے جس کے حل ہونے پر دوسری گتھیوں کے سلجھنے کا دارومدار ہے۔
آج دنیا میں ’اخوت انسانی‘ کا فقدان ہے‘ اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انسانی اخوت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام انسانوں کے مابین کوئی قدرِمشترک نہ دریافت کرلی جائے۔ انسانی معاشروں کے مابین کسی ’قدرِمشترک‘ کے حصول کے لیے سب سے بڑی بنیاد توحید ہے۔ اشتراکِ عقیدہ کے لیے توحید پر اتفاق نہایت ضروری ہے، یعنی انسان خدا کی چوکھٹ کے سوا کسی انسانی بارگاہ پر‘ خواہ وہ دنیاوی اعتبار سے کتنی ہی معتبر اورمقتدر کیوں نہ ہو‘ اپنی جبین نیاز نہ جھکائے۔ یہی وہ پیغام ہے جو سورۂ آلِ عمران میں دیا گیا ہے:
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۶۴) اے نبیؐ، کہو‘اے اہلِ کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں‘ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سواکسی کو اپنا رب نہ بنالے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ بلند ہوئی۔ رحمت الٰہی کا فیضان عام ہوا‘ وحدانیت کی برکات ارزاں ہوئیں۔ بے چین اور آوارہ و سرگرداں دنیا کو پیامِ امن و راحت اور انسانی قافلوں کو پرچم رسالت کے سائے میں جگہ میسر آئی۔ یہ دعوت کسی خاص قوم و گروہ‘ خطے یا علاقے تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کی برکتیں اور رحمتیں تمام بنی نوع انسان کے لیے تھیں۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے:
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo (الاعراف ۷:۱۵۸) اے محمدؐ،کہوکہ اے انسانو‘ میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے‘پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمیؐ پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے‘ اور پیروی اختیار کرو اُس کی‘ امید ہے کہ تم راہِ راست پالو گے۔
گویا اس آیت میں حسب ذیل نکات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دعوت پوری حقیقت کے ساتھ واضح کردی گئی ہے:
۱- یہ دعوت عالم گیر اور یکساں طور پر تمام نوع انسانی کے لیے ہے۔
۲- یہ ایک خدا کے آگے سب کے سروں کو جھکا ہوا دیکھنا چاہتی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
۳- ایمان باللّٰہ وکلماتہٖ اس کا شعار ہے‘ یعنی خدا پر اور اس کے کلمات وحی پر ایمان لازمی ہے۔
اس طرزِ استدلال سے فائدہ یہ ہوا کہ داعی کے متعلق یہ بدگمانی پیدا نہیں ہوتی کہ یہ کوئی ایسی شخصیت ہے جو انفرادیت کے زعم میں تمام ماضی پر خط ِ تنسیخ پھیرنا چاہتی ہے‘ بلکہ یہ خیال ہوتا ہے کہ اسے انسانیت کو اُس کا قدیم ترین ورثہ منتقل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ نے اپنے مخاطبین سے نزاع یا افتراق پیدا کرنے کے بجاے اس بات کی کوشش فرمائی کہ جن اصولوں پراشتراک و اتحاد ہے اس کے مشترکہ پہلوؤں کو استدلال کے ذریعے واضح کردیا جائے‘ تاکہ مخاطب داعیِ حق کی بات سننے کی طرف راغب ہو۔ اس میں ضد اور ہٹ دھرمی کا مادہ کم سے کم پیدا ہو اور پھر اس کے سامنے ان نتائج کو رکھا جائے جوا س کے اپنے اقرار کردہ اصولوں سے لازمی طور پر نکلتے ہیں تاکہ وہ ان کو اپنی بات سمجھ کر قبول کرنے کی طرف مائل ہو۔ چنانچہ سورئہ عنکبوت میں یہ ہدایت: وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ، ’’ اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو‘ اسی امر کی غماز ہے‘ جب کہ اس کا خوب صورت ترین پیرایہ یہ ہے: ’’اے اہلِ کتاب! اس بات کی طرف آئو جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے‘‘۔
بہرصورت رسولؐ نے اپنے اور عہدِقدیم کی دیگر اقوام کے درمیان ’قدرِ مشترک‘ کو تلاش فرمایا اور اس کو بناے بحث و استدلال بنایا۔ نوعِ انسانی اپنے ظاہری اختلافات کے لحاظ سے کتنی ہی متفرق اور پراگندا کیوں نہ نظر آئے لیکن اس کے اس تفرق اور دُوری کی تہہ میں بے شمار اصول و قواعد ایسے بھی ہیں جن پر سب متحد ہوسکتے ہیں۔ آفاق کے قوانین و ضوابط‘ فطرت کے مظاہر‘ تاریخ کے مسلّمات اور بنیادی اخلاقیات میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں‘ جن میں شرق و غرب اور عرب و عجم سب ایک ہی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ رسولؐ کے اس طرزِاستدلال اور طریق دعوت کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ جو لوگ ایمان قبول کرتے گئے‘ ان کو ذہنی و فکری طور پر مزید اطمینان حاصل ہوا اور وہ اس پر پوری طرح جم گئے‘ اور معاشرے کا وہ طبقہ جو شک و تذبذب اور شبہات و احتمالات کا شکار تھا اور قبولِ حق میں چند رکاوٹوں کے سبب ہچکچا رہا تھا‘ اس طرزِ استدلال سے مطمئن ہوگیا۔
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گتھی کو انتہائی خوش اسلوبی سے سلجھایا ہے۔ آپؐ نے رہتی دنیا تک کے انسانوں کے سامنے یگانگت‘ ہم آہنگی اور اتحادِعالم کے تصورات ان دلائل کی روشنی میں رکھے کہ دنیا کے انسان جو کبھی پیدا ہوئے تھے‘ جو آج موجود ہیں‘اور جو آیندہ رہتی دنیا تک پیدا ہوں گے‘ ان کا پیدا کرنے والا‘ پالنے والا‘ ان کی زندگی و موت کامالک‘ ان کے لیے زندگی کا تمام سامان بہم پہنچانے والا‘ انھیں جسمانی‘ ذہنی‘ روحانی‘ ہر قسم کی قوت بخشنے والا‘ صرف اللہ ہے۔ اسی نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور وہی اس نظامِ عالم کا نگران اور مدبر و منتظم ہے۔ وہی تمام انسانوں کا مالک اور آقا ہے اور وہی ان کا حقیقی فرماںروا ہے۔ نبیؐ خدا کی جو کتاب انسانوں کی ہدایت کے لیے لائے‘ اس کی ابتدا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (شکروستایش اللہ کے لیے ہے جو ساری کائنات کا مالک اور پروردگار ہے۔ الفاتحہ ۱:۱) سے ہوتی ہے‘ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِکِ النَّاسِ o اِلٰہِ النَّاسِ(کہہ دیجیے میں پناہ چاہتا ہوں تمام انسانوں کے پروردگار کی‘ تمام انسانوں کے بادشاہ کی اور تمام انسانوں کے معبود کی۔الناس ۱۱۴:۱-۳) پر اس کلام کی انتہا ہوتی ہے۔ اس کی تعلیمات کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ تمام انسان اللہ کو اپنا مالک و آقا مانیں اور اُسی کو ’مقتدرِاعلیٰ‘ تسلیم کریں۔
آج اگرچہ پوری دنیا ایک عالمی گائوں بن چکی ہے۔ انسانی آبادیاں بظاہر ایک بستی کی صورت اختیار کرچکی ہیں مگر ان کے درمیان کسی مشترکہ رشتے کا تصور پروان نہیں چڑھ سکا‘ جو ان انسانی آبادیوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس دلا سکے۔ سفیدفام‘ سیاہ فام کے دشمن ہیں۔ ایشیا اور یورپ میں برتری اور کہتری کی مستقل دوڑ موجود ہے۔ آرین نسل‘ سامی نسل سے بیر رکھے ہوئے ہے۔ گویا ہر قوم دوسری قوم کی بدخواہ اور ہر ملک دوسرے ملک کا دشمن ہے۔
عالمی اتحاد و یک جہتی کے سب سے بڑے اور عظیم علَم بردار‘ ہادی برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ’وحدتِ انسانی‘ کے عظیم تصور کو دنیا کے ذہنوں میں راسخ فرمایا کہ سب انسان ایک خالق کی مخلوق ہیں‘ ایک مالک کے بندے اور ایک حاکم کی رعیت ہیں‘ اور ان کا حاکم و مالک اپنی رعیت کو متحد و متفق دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ جھگڑے‘ تفرقے‘ نفاق‘ دشمنی اور ایک دوسرے کی بدخواہی کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جغرافیائی‘ سیاسی اور معاشی حدود میں منقسم لوگوں پر یہ حقیقت واضح فرما دی کہ ان تفرقوں اور اس تقسیم کی کوئی اصل نہیں ہے۔ پوری زمین اللہ کی ہے اور اس پر موجود سارے ذرائع اور وسائل اللہ کے پیدا کردہ ہیں اور وہ سب انسانوں کے لیے ہیں۔ ساری زمین انسان کا وطن ہے۔ وطن پرستی کے تمام تعصبات نہ صرف بے اصل ہیں بلکہ انتہائی غلط اور مالک ارض و سما کی ناخوشی کا باعث ہیں۔ اس کے ساتھ نبی اکرمؐ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات راسخ فرمائی کہ تمام انسان ایک ہی ماں، باپ (آدم و حوا) کی اولاد ہیں۔ اس خونی اشتراک کے سبب یہ سب بھائی بھائی ہیں۔ رنگ و نسل کی ساری تفریقیں غلط اور بے بنیاد ہیں۔ تقسیم صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اچھوں اور بُروں کی تقسیم‘ خدا کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کی تقسیم۔
عالمی یگانگت اور اتحاد و یک جہتی کے لیے ضروری ہے کہ انسانیت کے پاس متفقہ اور مشترکہ نصب العین اور لائحہ عمل ہو۔ مختلف طبقات اگر مختلف مقاصد اور نظریۂ حیات کے حامل ہوں گے تو باہمی آویزش موجود رہے گی۔ نصب العین کا ٹکرائو دنیا کے لیے خطرے کی علامت بن جاتا ہے‘ جس کے سبب انسانی بستیاں ہمہ وقت ذہنی‘ فکری‘ سیاسی اور معاشی پریشانیوں میں مبتلا رہتی ہیں۔ اس مشکل کو نبی اکرمؐ نے بڑی عمدگی کے ساتھ حل فرمایا اور اعلان فرما دیا کہ پوری انسانیت کے نصب العین کا تعین صرف خالقِ کائنات کا حق ہے۔ اسی کا وضع کیا ہوا ’نصب العین‘ انسانی قافلوں کے لیے رشد و ہدایت کا باعث ہوگا۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کا تابع فرمان ہے۔ انسان بھی کائنات کا ایک جزو ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے مالک و آقا کی اطاعت و بندگی اختیار کرے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالمی اتحاد‘ یگانگت اور ہم آہنگی کے لیے آثارِ کائنات اور قوانین فطرت کی روشنی میں دنیا کو اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ صرف دنیا کی زندگی ہی زندگی نہیں ہے‘ بلکہ مرنے کے بعد ایک دوسری زندگی انسان کو ملے گی جو دائمی و ابدی ہوگی اور جس کی نعمتیں اور تکلیفیں بے پایاں و غیرفانی ہوں گی۔ اس عالم کی دائمی اور لامحدود نعمتوں کے مقابلے میں اس دنیا کے چندروزہ اور محدود فائدوں کی وہی حیثیت ہے جو سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی ہوتی ہے۔ دنیاکی یہ حقیر سی نعمتیں پوری جدوجہد اور دوڑدھوپ کے باوجود اکثر انسانوں کو حاصل نہیں ہوپاتیں‘ اور وہ اس کی تمنا کرتے کرتے ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس عالم لازوال کی عظیم نعمتیں ہراس انسان کو جو اُن کے لیے مناسب کوشش کرے گا‘ یقینا ملیں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان تقویٰ کی رَوش اختیار کرے اور آخرت کے تصور جزا و سزا کو اپنے قلب و جگر میں موجزن کرے۔ کیونکہ یہی تصور انسان کی فلاح کا ضامن ہوسکتاہے۔
بین المذاہب اور بین الاقوامی اتحاد و یگانگت کے لیے درج ذیل پہلو بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں:
جس طرح اسلام نے ایک ہمہ گیر عالمی اخلاقی نظام دیا ہے‘ اسی طرح اس نے ہر صنف‘ ہرطبقے اور ہرمذہب کے افراد کے حقوق مقرر کردیے ہیں تاکہ انسانی بھائی چارے‘ احترامِ آدمیت اور معاشرتی و سماجی مساوات میں کہیں خلل واقع نہ ہو۔ انسانی حقوق کی ادایگی میں اسلام نے قومی‘وطنی‘ مذہبی اور طبقاتی عصبیت کا نام و نشان جس انداز میں مٹایا ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ انسانی حقوق کی ادایگی کے حوالے سے وہ مسلمانوں کے لیے جو معیار مقرر کرتا ہے وہ یہ ہے: ’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک بنی نوع انسان کی بھلائی کا جذبہ کسی انسان کے دل میں پیدا نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ رنگ و نسل اور اس کے امتیازات کو ختم کرتے ہوئے عالم گیر معاشرت کے تصور کو‘ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے یوں واضح فرمایا: ’’اے لوگو! تمھارا رب ایک ہے اور تمھارے باپ آدم ؑ بھی ایک ہیں۔کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، مگر پاک بازی اور تقویٰ کی وجہ سے۔ سارے انسان آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدم ؑ مٹی سے بنائے گئے تھے‘‘۔
خدا نے پہلے انسان کی تخلیق خلافت و نبوت کی ذمہ داری کے ساتھ کی تھی‘ اس لیے بنی نوع انسان کے ہرہرفرد کو چاہیے کہ وہ اس دنیا میں خلافتِ الٰہی کا فریضہ ایک فرض شناس کی طرح انجام دے۔ وہ اس کائنات میں معین خدا بن کر نہیں بلکہ نائب خدا بن کر تصرف کرے۔ وہ صفاتِ الٰہی کا مظہر بن کر کائنات ارضی کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے۔ اس کو تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاق اللّٰہ کا حکم دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اس کائنات کے خالق کی نظر جہان ہست و بود کی پہنائیوں سے بھی زیادہ وسیع ہے‘ اسی طرح انسان کے قلب و نظر میں وسعت و ہمہ گیری ہونی چاہیے۔ جس طرح اس کے رحم و کرم کا فیضان ساری مخلوقات کے لیے عام ہے‘ اسی طرح اس کے دل میں بھی یہی ہمہ گیر جذبہ رحم و کرم موجزن ہونا چاہیے۔ اس کا خوانِ ربوبیت جس طرح اپنے نافرمانوں پر بھی بند نہیں ہوتا‘ انسان کو بھی اپنے اندر ربوبیت عامہ کا یہی جذبہ اُبھارنا چاہیے۔ وہ سب کو دیتا ہے مگر خود کسی سے کچھ نہیں لیتا۔ یہی بے نیاز اور بے غرض جذبہ انسان کو اپنے دل کی گہرائیوں میں پیدا کرنا چاہیے۔ ساری مخلوق خدا کی عیال ہے‘ اس کے ایک ایک فرد سے اس کو محبت ہے‘ اس لیے ایک انسان کو ایک انسان کے ساتھ وہی برتائو کرنا چاہیے جو وہ اپنے بال بچوں کے لیے پسند کرتا ہے۔
ہرانسان کو چونکہ خدا نے عقل و تمیز دی ہے‘ پھر اس نے وحی کے ذریعے اس کو صحیح زاویۂ نظر اختیار کرنے کی طرف رہنمائی بھی کردی ہے‘ اِس لیے ہرشخص کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ صراطِ مستقیم پر چلتا رہے یا غلط عقیدہ قائم کرکے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں میں بھٹکتا پھرے۔ بہرحال اس دنیا میں اسے کوئی نظریہ یا عقیدہ قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے بارے میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں‘ ہدایت گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ (جس کا جی چاہے قبول کرے‘ جس کا جی چاہے نہ کرے)
قرآن پاک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ہرمسلمان کو تنبیہہ کرتا ہے کہ:
وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًاط اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَo (یونس ۱۰:۹۹) اگر اللہ چاہے تو زمین کے تمام رہنے والے مومن ہوجائیں تو کیا تم لوگوں کو مومن بنانے میں جبرواکراہ کرنا چاہتے ہو۔
اس نے محض حریت عقیدہ کا نظریہ ہی نہیں پیش کیا بلکہ عملی و قانونی طور پر اس کی حفاظت بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں کسی پر کوئی جبر نہ کیا جائے‘ جیساکہ مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی کو اپنے کسی عقیدے کی طرف دعوت دینا ہے یا کسی کے عقیدے پر تنقید کرنی ہے توعمدہ پیراے اور نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے۔
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ(النحل ۱۶:۱۲۵) اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔
پوری اسلامی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ دعوت اسلام کے معاملے میں کبھی جبر کو اختیار نہیں کیا گیا اور غیرمسلموں کی مذہبی آزادی کو ہمیشہ مقدم رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ پہنچ کر آپؐ نے یہود سے جو معاہدہ کیا تھا‘ اس میں اُن کی دینی آزادی کو واضح انداز میں متعین فرما دیا تھا۔
مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلابی اقدامات نے وہاں کی قومی زندگی کو ایک ہمہ گیر معاشرت سے بھی متعارف کرایا۔ ہجرت کے سال میں آپؐ نے مندرجہ ذیل پانچ امور پر اپنی توجہ مبذول فرمائی:
۱- میثاقِ مدینہ کے ذریعے سے آپؐ نے اہلیانِ مدینہ کو بین المذاہب یگانگت اور اتحاد کا درس دیا۔ میثاقِ مدینہ آپؐ کا ایسا اقدام تھا جس کے نتیجے میں ریاست مدینہ میں آپؐ کی حاکمیت مسلم ہوگئی۔
۲- مواخات کے ذریعے آپؐ نے معاشی استحکام کا پروگرام دیا۔ اس طرح مکے سے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری و معاشی بحالی ممکن ہوئی۔
۳- مسجدنبویؐ تعمیر کی گئی اور افرادِ معاشرہ کی تربیت کا کام بھی شروع کردیا گیا۔
۴- ریاست مدینہ کا نظم و نسق چلانے کے لیے آپؐ نے نظامِ سلطنت (administrative system) دیا۔
۵- ریاست مدینہ کے دفاع کے لیے آپؐ نے اقدامات فرمائے۔
آپؐ نے یہود و نصاریٰ سمیت کفارِ مکہ اور دیگر عرب قبائل کے ساتھ معاہدات فرمائے۔ ان معاہدات میں قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ یہ سب کی سب اسلام دشمن سیکولر اکائیاں تھیں جن کے ساتھ آپؐ نے مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کے اتحاد کیے۔ لیکن آپؐ کے دو اتحاد بطور خاص مشہور ہوئے اور نتائج کے اعتبار سے تاریخی اور فیصلہ کن اہمیت کے حامل ٹھیرے۔ ان میں ایک میثاقِ مدینہ اور دوسرا معاہدۂ حدیبیہ۔ میثاقِ مدینہ ایک ہجری میں یثرب کے قبائل اور بالخصوص یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ہونے والا سیاسی اور دفاعی معاہدہ تھا‘ جب کہ معاہدۂ حدیبیہ ۶ہجری میں عرب کی سب سے بڑی اسلام دشمن قوت کفار و مشرکین مکہ کے ساتھ طے پایا۔
بین المذاہب اور بین الاقوامی اتحاد و یگانگت کی بنیاد کو مؤثر اورمستحکم کرنے کے لیے اسلام نے سب سے زیادہ زور بے لاگ اور مساویانہ انصاف پر دیا۔ اسلام کے نزدیک عدل و انصاف محض ایک قانونی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ وہ ضابطہ قانونی کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے‘ جو انصاف کو صرف عدالت تک محدود نہیں رکھتا بلکہ وہ انفرادی‘ اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے ہرگوشے میں منصف اور عادل بناتا ہے۔ وہ جس طرح ایک فرد کے ساتھ انصاف کا حکم دیتا ہے‘ اسی طرح قومی‘ ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ہر ہرقدم پر اس کی نگرانی کرتاہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اس موضوع کو بیان کیا گیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِط (النساء ۴:۵۸) مسلمانو‘ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔
جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح مکہ سے ہم کنار کیا تو اس موقع پر اس آیت کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں انتقام کے جذبے کی ہمیشہ کے لیے بیخ کنی کردی گئی:
وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o(المائدہ ۵:۸) کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
وہ چیز جس سے بین المذاہب اور بین الاقوامی تصورات اور جذبات کو نظری اور عملی طور پر مضبوطی میسر آتی اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ ملتا ہے‘ وہ معاہدات کی پابندی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدات کی پابندی کو اخلاقی اور قانونی دونوں حیثیتوں سے ضروری قرار دیا ہے۔ معاہدہ خواہ شخصی ہو یا اجتماعی‘ معاشی ہو یا تجارتی‘صلح کا ہو یا امن و امان کے قیام و بقا کا___ اس کی پابندی ہرصورت لازمی ہے۔ اسلام کا دامن توثیق معاہدات کے سلسلے میں بڑا وسیع ہے۔ اس کے نزدیک اگر برسرِجنگ قوم بھی صلح اور مصالحت کے لیے ہاتھ بڑھائے تو جب تک مسلمانوں کو کوئی شدید نقصان نہ ہوا ہو یا اس میں کوئی کھلا ہوا فریب نہ نظر آتا ہو‘ اس وقت تک اس کا خیرمقدم کرنا ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بار بار اور سخت تاکید آئی ہے اور عملی طور پر اسلامی حکومتیں اس کی پابندی کرتی رہی ہیں:
وَ اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا(بنی اسرائیل ۱۷:۳۴) عہد کو پورا کرو بے شک عہد کے بارے میں خداے تعالیٰ کے حضور بازپرس ہوگی۔
اسلام نے معاہدے کو اسلامی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے بڑی اہمیت دی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ حق کے فروغ اور اسلام کے استحکام کے لیے کثیرالجہات حکمت عملی اختیار فرمائی جس میں آپؐ نے مخالف قوتوں کے ساتھ اتحاد و معاہدات کیے۔ یہود سے معاہدہ توحید کے ’مساوی کلمہ‘ کی بنیاد پر طے پایا۔ دیگر کئی قبائل سے معاہدات طے کرتے وقت آپؐ نے حالات کے مطابق حکمت عملی اختیار فرمائی۔ طائف کے قبیلہ بنوثقیف نے معاہدے کے لیے یہ مطالبات پیش کیے: ۱-نماز سے استثنا ۲- حرمتِ زنا سے استثنا ۳-طائف کو حرم قرار دینا ۴-فرضیت زکوٰۃ سے استثنا ۵-فرضیت جہاد سے استثنا۔ آپؐ نے انھیں پہلی دو شرطوں پر منوا لیا اور بعد کی تین شرطیں مان لیں۔ صحابہ کرامؓ سے آپؐ نے فرمایا کہ جب اسلام ان کے دل میں جم جائے گا تو وہ خودبخود مکمل اسلام کو مان لیں گے۔ آپؐ نے صرف یہود مدینہ سے ہی نہیں بلکہ دیگر کئی قبائل‘ مثلاً بنی ضمرہ‘ بنی غفار‘ نعیم بن مسعود اشجعی اور نجران کے عیسائیوں سے بھی معاہدات کیے۔ آپؐ نے پیغامِ حق کے فروغ کے لیے مختلف النوع اتحاد کیے جو سماجی‘ سیاسی‘عسکری و دفاعی‘ اقتصادی اور تجارتی نوعیت کے تھے۔ آپؐ نے مدینہ تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کی فضا پیدا کی۔ آپؐ نے وہاں کے عام شہریوں اور یہودیوں سے جو معاہدہ کیا اس میں ۴۸ دفعات ہیں۔ ان میں سے ہر دفعہ معاہداتی دنیا میں اپنی انفرادیت رکھتی ہے اور یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ اسلامی مملکت میں دوسرے مذاہب کی کیا حیثیت ہے‘ نیز یہ کہ اسلام اپنے ہمسایوں کے ساتھ پُرامن بقاے باہمی کا کس قدر خواہاں ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے استوار کرنے اور بین المذاہب اتحاد اور رواداری کو فروغ دینے میں دوست اور دشمن ملکوں کے سفرا اور نمایندوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بسااوقات یہ سفیر اور نمایندے بڑے بڑے بگڑے اور الجھے ہوئے معاملات کو سلجھا دیتے ہیں‘اور کبھی ان کی ذرا سی غلطی سے بہت سے معاملات خراب بھی ہوجاتے ہیں۔ سفرا اور نمایندے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ نمایندے یا وفود جو کسی عارضی مہم پر یاکسی وقتی اقتصادی یا سیاسی معاملہ طے کرنے کے لیے کسی ملک میں آجاتے ہیں‘ اور دوسرے وہ سفیرجو مستقل طور پر اپنے ملک کی نمایندگی کرتے ہیں۔
اس وقت بین الاقوامی تعلقات کی استواری کے لیے ناگہانی اور معاشی ضرورتوں پر امداد کا طریقہ بھی رائج ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کا تصور دوسرے تمام نظاموں سے زیادہ آفاقی اور پاکیزہ ہے۔ قریش اور ان کے ہم نوا قبیلوں کو مسلمانوں سے جو پُرخاش تھی اور جس طرح وہ ان کے خون کے پیاسے تھے اس سے ہر ایک واقف ہے‘ مگر اسی دوران ایک زبردست قحط پڑتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوتی ہے۔ آپؐ مدینہ سے اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوسفیان کے پاس کھجوریں اور پانچ سو دینار نقد اس لیے روانہ فرماتے ہیں کہ وہ قحط زدہ اشخاص کی اس سے مدد کریں۔ یہ بات ذہن میںرکھنی چاہیے کہ یہ امداد مدینہ جیسی غریب اور چھوٹی سی آبادی کی طرف سے اُس قوم کو دی گئی جو دنیا میں اسلام کی سب سے بڑی دشمن تھی۔
خلاصہ: ان تمام تفصیلات کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
۱- اسلام توحید و رسالت‘ کتاب اور کائنات کا آفاقی تصور دے کر انسان میں ہمہ گیر بین الاقوامی ذہنیت پیدا کرتا ہے۔
۲- وہ خلافتِ آدم کا تصور دے کر صرف انسان کو انسان سے نہیں بلکہ پوری کائنات سے ہم آہنگ بناتا ہے اور اس میں اس کی ذمہ داری کو محسوس کراتا ہے۔
۳- وہ انسانی بھائی چارے کی بنیاد عقل و ضمیر کے اشتراک پر نہیں بلکہ خون کے رشتے پر رکھتا ہے۔
۴- وہ اس میں مساوات کا جذبہ اُبھارتا ہے اور اس کے ذریعے ہر طرح کی نسلی‘ قومی اور وطنی تنگ نظری کی جڑ کاٹتا ہے۔
۵- قومی‘ وطنی تقسیم کو محض ایک عارضی اور تعارف کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے۔
۶- وہ اخلاق و حقوق میں ہرانسان کو برابر سمجھتا ہے۔
۷- ہر شخص کی عزت‘ جان‘ مال‘ عقل‘ نسل اور ملکیت کی حفاظت کرتا ہے۔
۸- ہر شخص کو عقیدہ‘ راے‘ فکر اور قول کی آزادی دیتا ہے۔
۹- وہ حقوق شہریت میں کم سے کم پابندی عائد کرتا ہے۔ وہ ’ہرملک ملک ما ست کہ ملک خداے ماست‘ کا تصور پیش کرتاہے۔
۱۰- وہ آزاد تجارت کا حامی ہے جس میں کم سے کم ٹیکس لیا جائے۔
۱۱- مادی معاملات‘ بین الاقوامی تعلقات اور معاہدات میں خواہ وہ سیاسی ہوں یا معاشی‘ اس صورت کو پسند کرتا ہے جس کی بنیاد اخلاق اور عام خلقِ خدا کی منفعت پر ہو۔
۱۲- وہ ضرورت کے وقت دنیا کے ہر انسان کی بے غرض مدد کرنے کی ترغیب دیتا ہے خواہ یہ مدد ایک فرد کو دی جائے یاکسی حکومت کو‘ کسی مسلمان کو دی جائے یا غیرمسلم کو‘ کالے کو دی جائے یا گورے کو۔ وہ اس سے مادی منفعت اٹھانے سے نہ صرف منع کرتا ہے‘ بلکہ اس کے اظہار کو بھی ناپسند کرتا ہے۔ قرآن پاک میں بار بار اس کی صراحت آتی ہے کہ امداد دے کر کسی فرد یا جماعت کو اپنا ممنونِ احسان بنانے کی کوشش نہ کرو۔
۱۳- اسلام انسانوں کے درمیان جس تفریق کا قائل ہے وہ خالص الہامی اصولوں کی بنیاد پر ہے۔ اس میں وہ نہ تو کسی طرح کی قومی‘ وطنی عصبیت کو راہ دیتا ہے اور نہ نسلی برتری‘ جانب داری یا کسی انسان کی حق تلفی کو گوارا کرتا ہے۔ اسلام کی یہ تقسیم حق و ناحق کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اہلِ حق وہ ہیں جو خدا کی اس ہدایت کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہوں جو اس نے اپنے نبیوں کے ذریعے بھیجی ہے۔ جس کی آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ اہلِ باطل غلط کار ہیں جو اس ہدایت پر یقین نہیں رکھتے اور اس پر عمل نہیں کرتے۔ یہ تقسیم اس لیے کرنی پڑتی ہے کہ زندگی کے ہر ہرمعاملے کی طرح‘ بین الاقوامی معاملات میں بھی جیساکہ اُوپر کی تفصیل سے معلوم ہوچکا ہے‘ اسلام اپنا ایک خالص اخلاقی اور ماورائی تصور رکھتا ہے۔ اس کو ممتاز کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس کے ماننے والوں کو ایک ایسا امتیازی نام دیا جائے جس سے کسی طرح کی قومی‘ وطنی اور طبقاتی عصبیت بھی نہ پیدا ہو اور اصولی اعتبار سے آفاقیت کے ساتھ ان کی یہ امتیازی حیثیت بھی باقی رہے۔