اگست۲۰۰۷

فہرست مضامین

مغرب کی خودکُشی

محمد ایوب منیر | اگست۲۰۰۷ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

’کم بچے خوش حال گھرانہ‘ کا نعرہ پاکستان میں بھی عرصے سے لگایا جا رہا ہے۔ جو لوگ زیادہ افرادِخانہ کے حق میں بات کرتے ہیں اُن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ عاقبت نااندیش اور قدامت پرست ہیں‘ موجودہ عمرانی و سیاسی عوامل سے ناواقف ہیں۔ کم بچوں کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وسائل سُکڑ رہے ہیں‘ آمدن ناکافی ثابت ہورہی ہے۔ اس لیے جو وسائل آپ کو ۹‘ ۱۰ بچوں پر خرچ کرنا ہیں وہ ۲‘۳ بچوں پر صرف کریں۔ آپ کے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی ہوجائے گی اور خوراک‘ علاج‘ تعلیم‘ لباس اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی بآسانی دستیاب ہوسکیں گی۔

کچھ عرصہ قبل ترجمان القرآن میں ایک مغربی تجزیہ نگار کے مضمون: ’وسائل کم نہیں پڑتے‘ (مارچ ۱۹۹۸ء) میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ جس قدر آبادی بڑھ رہی ہے اُسی رفتار سے  قدرتی وسائل‘ زرعی پیداوار اور انسانی صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جو زمین ایک     مَن اناج کی پیداوار دیتی تھی‘ اب اُس کی صلاحیت میں ۴۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ بلاشک و شبہہ اس منزل تک پہنچنے میں جدید سائنس اور ٹکنالوجی کا بھی بھرپور دخل ہے۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ مغرب کو تحدید خاندان اور آبادی کم کرنے کے اس تجربے سے کیا ملا!

مغربی یورپ‘ جاپان اور شمالی امریکا میں ایسے درجنوں قلم کار‘ تجزیہ نگار اور دانش ور منظرعام پر آچکے ہیں جو تحدید خاندان کو اپنی تہذیب کے لیے زہرقاتل سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر   نئی نسل اپنی تعداد میں اضافہ نہ کرے تو فنا ہوکر رہ جائے گی۔

حال ہی میں‘ اسی موضوع پر پیٹرک جے بچانن کی کتاب The Death of the West (مغرب کی خودکُشی) منظرعام پر آئی ہے۔ بچانن ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۶ء میں ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی اُمیدوار رہے اور سال ۲۰۰۰ء میں ریفارم پارٹی کے صدارتی اُمیدوار رہے۔ وہ    تین امریکی صدور کے ساتھ مشیر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اُن کی پانچ کتابیں  شائع ہوچکی ہیں‘ جب کہ وہ این بی سی‘ سی این این کے لیے کئی پروگرام بھی کرتے رہے ہیں۔

بچانن نے اعداد وشمار کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ مغربی ممالک میں شرحِ تولید میں اضافہ نہ ہوا تو مغربی ممالک عددی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں گذشتہ ۱۰ برس سے شرحِ تولید میں کمی واقع ہورہی ہے۔ موجودہ افراد کی جگہ لینے کے لیے ۱ء۲افراد فی عورت درکار ہیں‘ جب کہ شرحِ تولید ۳ء۱ ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ۲۰۵۰ء تک ۲کروڑ ۳۰لاکھ جرمن صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے‘ جرمنی کی آبادی ۸کروڑ سے ۵ کروڑ ۹۰لاکھ رہ جائے گی۔ جرمنی کی ایک تہائی تعداد کی عمر ۶۵برس سے زائد ہوگی اور بوڑھے لوگوں کا جوان لوگوں سے تناسب ۲:۱ کا رہ جائے گا۔ ہر ۱۵۰ میں صرف ایک فرد جرمن ہوگا اور ۲۰۵۰ء تک جرمنی بوڑھے ترین لوگوں کا مسکن بن جائے گا۔ ایک ۳۴سالہ جرمن خاتون سے سوال کیا گیا کہ اُس نے شادی کیوں نہ کی؟ اس کا جواب تھا: میں رات کو سکون سے سونا پسند کرتی ہوں۔ میں اپنے دوست کے ساتھ  اچھا وقت گزارتی ہوں۔ میں بچوں کے جھنجھٹ میں کیوں پڑوں؟

اس وقت اٹلی کی آبادی ۵ کروڑ ۸۰ لاکھ ہے۔ ۴۵سال بعد یہ آبادی گھٹ کر ۴ کروڑ ۱۰لاکھ رہ جائے گی۔ امریکن انٹرپرائزز انسٹی ٹیوٹ کے اندازے کے مطابق ۲۰۵۰ء میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ۲ فی صد ہوگی‘ جب کہ ۴۰ فی صد آبادی کی عمر ۶۵ سال یا اُس سے زیادہ ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند نسلیں مزید گزر جانے کے بعد اٹلی کا ذکر ایک معدوم ریاست کے طور پر کیا جائے گا۔ Semi feministنامی رسالے نے لڑکیوں کے سروے کے بعد یہ رپورٹ جاری کی کہ ۱۶سال سے ۲۴ سال کی عمر کی ۵۲ فی صد لڑکیوں نے کہا کہ وہ بچے پیدا نہیں کریں گی۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اُنھوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ ہم اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہیں۔ بچے اس راستے میں رکاوٹ بنیں گے۔

روس نے عالمی منظرنامے پر طویل عرصے تک اہم کردار ادا کیا ہے۔ روس میں ہر تین میں سے دو حمل ضائع کرا دیے جاتے ہیں۔ ہر روسی عورت ۵ء۲ سے چار بار اسقاطِ حمل کے عمل سے گزرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روس میں شرحِ اموات‘ شرح پیدایش سے ۷۰ فی صد زیادہ ہے۔ ۲۰۵۰ء تک روس کی ۱۴ کروڑ ۷۰لاکھ آبادی گھٹ کر ۱۱کروڑ ۴۰لاکھ رہ جائے گی۔ ۱۶سالہ سے کم عمر لوگوں کی تعداد ۲کروڑ ۶۰لاکھ سے ایک کروڑ ۶۰لاکھ رہ جائے گی۔ ۷۰برس تک امریکا سے پنجہ آزمائی کرنے والے روس کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اوسطاً ۱۰عورتوں سے مجموعی طور پر ۵ء۱۳ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ اولاد پیدا کرنا وہ اپنے لیے توہین سمجھتی ہیں۔ ۲۰۵۰ء میں ۱۵ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ۲کروڑ ۶۰ لاکھ سے گھٹ کر ایک کروڑ ۶۰لاکھ رہ جائے گی‘ جب کہ موجودہ ایک کروڑ ۸۰لاکھ بوڑھے اس وقت تک پونے تین کروڑ بوڑھوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔

پال کریک رابرٹس کا کہنا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک انگریز قوم اپنے ہی وطن برطانیہ عظمیٰ میں اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ملک کی اصلی آبادی جنگ‘ قحط یا وبائی امراض کے بجاے رضاکارانہ طور پر اپنی تعداد کم کر رہی ہے۔ لندن شہر میں مختلف نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ۴۰ فی صد ہے۔ انگریزوں کی شرحِ پیدایش میں ۳فی صد کمی آتی رہی تو لندن میں گورے انگریز اقلیت بن کر گھومتے پھرتے نظرآئیں گے۔ ۱۹۲۴ء سے شرحِ پیدایش میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس وقت شرحِ پیدایش ۶۶ء۱ فی عورت ہے۔ برطانیہ کو اس کا احساس نہیں ہے کہ انگلینڈ اور ویلز کے رہنے والوں کی تعداد میں خوف ناک کمی ہوگی تو اُن کا اپنا ملک   ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ برطانیہ اور اہلِ برطانیہ کو اس کا اندازہ ہو یا نہ ہو‘ صورت حال    اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔

یورپ کے تمام ممالک میں‘ اسپین میں شرحِ پیدایش سب سے کم ہے۔ اٹلی‘ رومانیہ اور چیک ری پبلک میں شرحِ تولید ۲ء۱ فی بچہ فی عورت تک جاپہنچی ہے‘ جب کہ اسپین میں یہ شرح ۰۷ء۱ تک پہنچ چکی ہے۔ آیندہ ۵۰برسوں میں اسپین کی آبادی میں ۲۵ فی صد کمی ہوجائے گی اور ۶۵سال سے زائد عمر کے باشندوں میں ۱۱۷ فی صد اضافہ ہوجائے گا۔ میڈرڈ کے ماہر سماجیات وکٹرپیریز ڈِیاز کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے وطن میں چند نسل قبل ہر گھرانے میں آٹھ سے ۱۲ افراد کی موجودگی عام بات تھی۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سیکڑوں شادی شدہ جوڑے ایسے مل جاتے ہیں جنھوں نے اولاد پیدا کرنے کی زحمت تک نہ کی۔ اگر ایک بچہ پیدا ہوگیا تو دوسرے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں‘‘۔ ۱۹۵۰ء میں اسپین کی آبادی مراکش سے تین گنا زیادہ تھی۔۲۰۵۰ء میں مراکش کی آبادی اسپین سے تین گنا ہوجائے گی۔ آج اگر ۱۰۰ اسپینی جوڑے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوں تو ساری زندگی میں یہ ۱۰۰ گھرانے ۵۸ بچے پیدا کریں گے۔ ان کے پوتوں کی تعداد ۳۳ ہوگی اور  ان کے پڑپوتوں کی تعداد ۱۹ رہ جائے گی اور اُس وقت تک اہلِ اسپین کی اوسط عمر بھی ۵۵سال تک گھٹ جائے گی۔ اسپین اور مراکش کے درمیان آبنائے جبل الطارق کی رکاوٹ ہے۔ مراکش کی بڑھتی ہوئی آبادی نجانے کس وقت اسپین کو غلام بنا لے۔

بچانن کا کہنا ہے کہ ۱۹۶۰ء میں امریکی‘ آسٹریلوی‘ اہلِ کینیڈا اور اہلِ یورپ کی مجموعی آبادی ۷۵ کروڑ تھی۔ اُس وقت دنیا کی آبادی ۳ ارب تھی اور مغربی اقوام کی تعداد ایک چوتھائی بنتی تھی اور اُن سب کی معقول شرحِ پیدایش تھی۔ مالتھس کے پیروکاروں نے انھیں خوب ڈرایا کہ وسائل کم پڑ رہے ہیں۔ آبادی کم کرو‘ سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن آبادی کم کرنے کے باعث اُن کی زبان‘ اُن کی تہذیب‘اُن کی نسل بلکہ اُن کے ممالک کی بقا کا بھی مسئلہ بن چکا ہے۔

۲۰۰۰ء میں دنیا کی آبادی ۳ ارب سے بڑھ کر ۶ ارب ہوچکی ہے لیکن اہلِ یورپ نے اولاد پیدا کرنا تقریباً بند کردیا ہے۔ کئی ممالک میں شرحِ پیدایش ایک مقام پر رُک گئی ہے‘ جب کہ کئی اور ممالک میں یہ شرح گرتی چلی جارہی ہے۔ حد سے حد کوشش یہ ہے کہ دو افراد پر مشتمل ایک خاندان سے دو افراد وجود میں آجائیں۔

مصنف کے مطابق ۲۰۵۰ء تک دنیا کی آبادی ۶ ارب سے ۹ ارب ہوجائے گی لیکن آبادی میں یہ سارے کا سارا اضافہ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکا میں ہوگا۔ لیکن یورپی نسل کے ۱۰کروڑ افراد صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے۔ انھیں اس کا احساس بھی نہ ہوگا کہ اپنی پُرسکون زندگی کی تلاش میں اُنھوں نے اپنے قبیلوں اور نسلوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے میں اہم کردار ادا کیا۔

۱۹۶۰ء میں یورپی نسل کے افراد‘دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ تھے۔ تحدید نسل پروگرام پر عمل درآمد کرتے کرتے ۲۰۰۰ء میں وہ دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ رہ گئے اور ۲۰۵۰ء میں سفید یورپی اقوام دنیا کی آبادی کا دسواں حصہ رہ جائیں گی۔ یورپی اقوام colonializationکی جس پالیسی پر ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی میں عمل پیرا رہے اُس کا دورِثانی اب کبھی نہیں آئے گا۔

بن ویٹین برگ کا کہنا ہے کہ اگر یورپ نے کم آبادی کے مسئلے کا حل تلاش نہ کیا تو یورپ مٹ جائے گا۔ دنیا میں ۲۰ممالک ایسے ہیں کہ جن کی شرحِ پیدایش سب سے کم ہے اور اُن میں سے ۱۸ یورپ میں ہیں۔ اگر یورپی ممالک چاہتے ہیں کہ موجودہ نسل کی جگہ لینے کے لیے اتنے ہی افراد وجود میں آجائیں تو ہر یورپی عورت کو ۱ء۲ بچے فی کس پیدا کرنا ہوں گے‘ جب کہ مجموعی طور پر یہ شرح ۴ء۱ فی عورت ہے۔ یہ صفر شرحِ آبادی نہیں‘ صفر آبادی کا اعلان ہے۔

مغربی تہذیب کا گہوارا (یورپ) مغربی تہذیب کا قبرستان بن جائے گا۔ Bologna کی جان ھاپکنز یونی ورسٹی کے ڈاکٹر جان وہلیس کا کہنا ہے: ’’خودمختاری کے لیے عورت کو جس قدر معاش کی ضرورت ہے اوروہ اُس سے زیادہ کما سکتی ہے تو پھر شوہر کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر آپ کو جنسی لطف بھی مل جائے اور بچے بھی پیدا نہ کرنا پڑیں توخاندان بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیتھولک اٹلی اور سیکولر برطانیہ میں یہی ہو رہا ہے___ شادی کیوں کریں؟‘‘

شوہروں‘ بیویوں اور بچوں کو خاندانی ذمہ داریوں سے فارغ کر کے یورپ کے سوشلسٹوں نے خاندان کی ضرورت ہی کو ختم کردیا ہے۔ آہستہ آہستہ خاندان ختم ہورہے ہیں۔ خاندانوں کے ختم ہونے سے یورپ بھی ختم ہو رہا ہے۔ ۲۰۵۰ء تک یورپ سے جس قدر لوگ فوت ہوجائیں گے اُن کی مجموعی آبادی بیلجیم‘ ہالینڈ‘ ڈنمارک‘ سویڈن‘ ناروے اور جرمنی کی آبادی سے زیادہ ہوگی۔ اگر یورپ کی آج کی عورتیں چاہتی ہیں کہ اُن کی نسلیں‘ اُن کے خاندان‘ اُن کی ثقافت اور اُن کے ممالک دنیا کے نقشے پر موجود رہیں تو اُنھیں اتنے ہی بچے پیدا کرنے ہوں گے جتنے اُن کی نانیوں اور دادیوں نے پیداکیے تھے___ ہے کوئی جو فطرت کے انتقام اور مغرب کی خودکُشی سے سبق سیکھے!

(The Death of The West by Patrick J. Buchanan, Published by: Thomas Dunne Books, St. Martin's Griffin, 175 Fifth Avenue, New York. 10010, pp310).