اگست۲۰۰۷

فہرست مضامین

سیکولرزم کا دہرا معیار

ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی | اگست۲۰۰۷ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

ملتِ اسلامیہ کو ایک تازہ زخم یہ پہنچا ہے کہ سلمان رشدی کو مملکت برطانیہ نے اس سال  سر کے خطاب (Knighthood) سے سرفراز کیا ہے۔ امت کو بے عزت کرنے کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔ مغرب نے مسلمانانِ عالم کو ایک بارپھر یہ یاد دلایا ہے کہ ہماری نظر میں تمھاری جانوں، تمھارے جذبات، احساسات، تمھاری اقدار کی کوئی قدر نہیں ہے۔ کچھ عرصے پہلے پوپ بینڈکٹ نے بھی رسولؐ اللہ کی توہین کی تھی‘ اور پاپائیت کے بام عروج سے فرمایا تھا کہ محمدؐ نے بجز تلوار کے انسانیت کو اور کیا دیا ہے۔

گویا وہ تہذیب جسے تم دل و جان سے عزیز رکھتے ہو وہ ہماری نگاہ میں خس و خاشاک کے برابر ہے۔ ہم جب چاہیں انھیں جلاکر خاک کرسکتے ہیں اور جس لمحے چاہیں اس کے نشانات مٹاسکتے ہیں۔ جن پاک شخصیتوں پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تم تیار رہتے ہو، انھیں ہم اپنی تہذیب کے چاکروں اور اپنے پروردہ دانش وروں، ناول نگاروں، آرٹ کے نقش و نگار بنانے والوں کے ذریعے رسوا کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ ڈنمارک کے کارٹون سازوں کے ذریعے ہم نے حال ہی میں کیا تھا‘اور جیسا کہ سلمان رشدی جیسے دریدہ دہن ناول نگار کے وسیلے سے ہم نے کیا ہے، اور تیسرے درجے کی افسانہ نگار تسلیمہ نسرین کی خدمات حاصل کرکے ہمارے کارپردازوں نے انجام دیا ہے۔

مزید برآں یہ کہ ان ناشائستہ حرکات کو انجام دینے والوں کو ہم انعام سے سرفراز کرسکتے ہیں۔ انھیں القاب و آداب سے نواز کرانھیں دولت سے بھی بہرہ ور کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس ذرائع ابلاغ کی ایسی قوت موجود ہے کہ ہم دشنام طرازوں کو جنونیوں کا مظلوم قرار دے سکتے ہیں‘ اور پوری ملت اسلامیہ کے گہرے زخموں کو کرید کر انھیں وقتاً فوقتاً تازہ اور ہرا رکھ سکتے ہیں۔  سلمان رشدی کی داستانِ خرافات سے بے چین ہوکر اس کے قتل کا فتویٰ دینے والے کو ہماری تہذیب بنیاد پرست اور ماضی کی تاریکیوں کا آئینہ دار قرار دینے کا طوفان اٹھا سکتی ہے،کیونکہ اس سے ہماری اقدار مجروح ہوتی ہیں، فن و آرٹ پر زد پڑتی ہے، چاہے اس کی ضرب سے لاکھوں انسانوں کے دل کے آئینے ٹوٹ جاتے ہوں‘ روح میں گہرے زخم پڑجاتے ہوں۔ تمھارے دل اور تمھاری روحیں اگر ہماری قدروں سے متصادم ہوتی ہوں تو ہم انھیں پیروں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہم اسی مقصد کے لیے دانش ور غلام پال پوس کر بڑا کرتے ہیں، انھیں راہ دکھاتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں اور پھر انھیں انعام و اکرام سے سرفراز کرتے ہیں۔ طرفۂ تماشا یہ ہے کہ میڈیا اور بزعم خود دانش ور ملت کے گہرے زخم کے باوجود اس کتاب کو متنازع کہتے ہیں تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ صرف ایک طبقے کو اس سے تکلیف پہنچی ہے۔

ان واقعات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ اس سیکولرزم اور جمہوریت کے پروردہ جراثیم اور ان کی سینچی ہوئی کھیتی کی تربیت ہے جس نے انسانیت کو تقسیم کے چرکے لگائے ہیں۔ جس نے منافقت اور دوغلے پن کے ایسے سبق سکھائے ہیں جس سے انسانیت عظمیٰ کراہ رہی ہے۔ ان کی نظرمیں سیکولرزم وہ باغ ہے جس سے صرف ایک خاص مذہب اور ایک مخصوص تہذیب فیض یاب ہوتی ہے۔ جمہوریت کا حق صرف ان کو پہنچتا ہے جو دنیا کی غالب تہذیب اور چیرہ دست ثقافت سے ہم آہنگ ہیں۔ اگر جمہوری انقلاب مسلمان ملکوں میں سر اٹھاتا ہے وہ کچلنے کے لائق ہے، مثلاً الجزائر میں اور فلسطین کی سرزمین پر حماس کے ذریعے۔ جمہوریت مصر میں نہیں پنپ سکتی۔ اس کو سعودی عرب، شام اور دوسرے عرب ممالک میں پنپنے کے مواقع فراہم نہیں کیے جاسکتے۔ اسے پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ اپنے سے ہم آہنگ ڈکٹیٹر کے ذریعے حکومت درکار ہے۔ اگر کسی مسلمان ملک‘ مثلاً ایران میں جمہوریت نظر آتی ہے تو تہذیب کے علَم برداروں کی نیند اڑا دیتی ہے۔ اس کو ’بدی‘ (evil)کا نمایندہ قرار دیا جاتا ہے۔

یہ مغرب کا سیکولرزم ہے جس نے ساری دنیا کو یہ سبق سکھایا ہے کہ اگر معاملہ اسلام اور دوسرے مذاہب کا ہو تو سیکولرزم محض ایک فریب تخیل ہے۔ جمہوریت صرف غیر مسلم عوام کا حق ہے۔ مسلمان اگر اپنی تہذیب کو گلے سے لگاتے ہیں، صرف اپنی پسندیدہ تہذیب اور ثقافت پر ثابت قدم رہنا چاہتے ہیں تو وہ اس لائق نہیں ہیں۔ وہ صرف عصر حاضر کی جمہوریت اور مغرب کے تراشیدہ اڈیشن سیکولرزم سے مستفید ہوں۔ انھیں دبا کر اور کچل کر رکھنا چاہیے ورنہ وہ حق جمہوریت کو اختیار کرکے پورے عالم کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ وہ امن پسند نہیں بلکہ فسادی ہیں۔

ایک کہوکہلا دعویٰ

سیکولرزم عملاً ایک جانب دارانہ فلسفہ ہے۔ اس کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ ریاستی تشکیل میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں حقوق عطا کرتا ہے۔ ہر مذہب اور اس کے ماننے والوں کو محترم قرار دیتا ہے‘ اور ہر عقیدے کو مناسب قدر سے نوازتا ہے۔ مگر یہ فلسفہ مسلمانوں کی حد تک ایک انتہائی منافقانہ روش اختیار کرتا ہے۔امریکا اور اس کے حواری مغرب کی نگاہ میں اسلام ا ور مسلمان اس قدر اور احترام کے مستحق نہیں ہیں جس کے بارے میں سیکولرزم پروپیگنڈا کرتا ہے۔ عرب ممالک ہوں یا دوسرے اسلامی ممالک، ان کے بارے میں یہ الزام ہے کہ ان کا مذہب دوسرے مذاہب کو برداشت نہیں کرتا، وہ مل جل کر رہنے کا سبق نہیں سکھاتا، اس لیے وہ ہر اس رعایت اور احترام سے محروم رہے گا، جو سیکولرزم کا فلسفہ سکھاتا ہے، جیسا کہ یورپ اور امریکا کے صاحبان اقتدار ہمیں سکھاتے ہیں۔ اس طرح وہ عوام تو جمہوریت کے مستحق نہیں جو مغرب سے ہم آہنگ نہ ہوں، نہ ان کی نظریں اس رنگ میں رنگی ہوں جو مغرب کا رنگ ہے،    اس لیے ان کو جمہوریت نہیں بلکہ ملٹری ڈکٹیٹر شپ کے ہاتھوں سے کچلتے رہنا چاہیے۔ انھیں مصرمیں حسنی سادات، پاکستان میں سلسلۂ ملٹری ڈکٹیٹرز کے تحفے دینے چاہییں۔ ہندستان کے حالات اگرچہ بعض حیثیتوں سے بدرجہا بہتر ہیں، لیکن سیکولرزم کے ثمرات سے انھیں محروم رکھنے کے لیے یہاں بھی تحریکات چلائی جاتی رہی ہیں۔

سیکولرزم اور جمہوریت پسندی کے بلند آہنگ دعووں، تقریروں، دانش وری پر مبنی لاکھوں نعروں کے باوجود، مسلمانوں کی جان، عزت و آبرو اور ان کی تہذیب پر حملہ کرکے جس طرح بش اور بلیئر نے افغانستان اور عراق کو تباہ و برباد کیا ا ور جس طرح ان کی حریصانہ نگاہیں اب ایران پر مرکوز ہیں‘ اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ مغربی سیکولرزم اور جمہوریت محض کھوکھلے دعوے ہیں۔ مسلمانوں کی بے آبروئی دراصل ان کی غیر معمولی کمزوری اور بے بسی کی مرہونِ منت ہے، بقول علامہ اقبال  ع

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

یہ ملت اسلامیہ کی کمزوری اور بے بسی کے عبرت ناک شواہد ہیں کہ پوری ملت کے جذبات اور اس کے دکھ کو نظر انداز کرکے سلمان رشدی کو سالِ نو میں سر کے لقب سے سرفراز کیا گیا ہے۔ یہ اس ملک کا کارنامہ ہے جو پوری دنیا میں رواداری اور حسن سلوک کا دعوی کرتا ہے، مگر اسے خود اپنے ملک کے مسلمان عوام کے جذبات کی پروا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ مسلمان ملکوں کے سربراہوں کی بے غیرتی کااندازہ کیجیے کہ بھرپور ردعمل سامنے نہیں آیا۔مسلمان حکومت (ایران) نے اس اقدام کو مسلمانوں کی بے عزتی قرار دیا ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور حکومت برطانیہ پر زور دیا ہے کہ اس اعزاز سے اس شخص کو محروم کردیا جائے۔ بقیہ عرب دنیا کے مسلمان ممالک دم بخود اور خاموش ہیں۔ بے عزتی کی یہ انتہا ہے کہ شاتم رسولؐ کو محض امت مسلمہ کو بے عزت کرنے کے لیے سر کے خطاب سے نوازا ہے۔ یہ جرأت دیکھیے اور یہ بے غیرتی ملاحظہ کیجیے کہ وہ زخم جو امتداد زمانہ سے مندمل ہورہے تھے، ان کو پھر سے تازہ کردیا گیا۔

اُمت مسلمہ کے لیے لمحۂ فکریہ

اسلامی ممالک کو اب بھی سبق لینا چاہیے کہ آخر ضعف اور بے بسی کے عمیق غاروں میں وہ کتنے گہرے گرتے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تیل کے وسائل سے نوازا تھا، مگر انھیں اپنی ریاستی قوت کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کا خیال بھی نہ آیا۔ وہ چوڑی سڑکوں، شان دار ایئرپورٹ بنواتے رہے۔ ان کے امرا اور رؤسا بڑی بڑی رقموں کو مغرب کے بینکوں میں جمع کرتے رہے۔ ملک کی تعمیر اور استحکام کے لیے انھوں نے اپنے حریفوں سے ماہرین، انجینیراور آرکی ٹیکٹ بلائے جنھوں نے انھیں ایسے مشورے دیے کہ تمھارا ملک خوب صورت بن جائے گا، روشنیاں، شاہراہوں پر جگمگانے لگیں گی۔ ان ماہرین کو ا ن ملکوں سے صرف دولت کمانی تھی، جو انھوں نے کمائی۔ لیکن انھیں تیل کی پیداوار سے ان ملکوں کی ملٹری اور سائنٹی فک قوت کو بڑھانے سے نہ غرض تھی اور نہ انھوں نے اس کا مشورہ دیا۔

انھوں نے تعلیم گاہیں ضرور قائم کیں مگر اپنے ہمدردوں اور بہی خواہوں کے اس مشورے کو نہ قبول کیا کہ تمام مسلمان ممالک کے ماہرین، سائنٹسٹ اور انجینیروں کو جمع کرکے اپنی معیشت اور مادی بنیادوں کو مستحکم کرتے (جیسا کہ شاہ فیصل شہید کو مولانا مودودی نے مشورہ دیا تھا)۔ لہٰذا چند عشروں کے بعد تیل کی دولت سے عرب ممالک میں شان دار سڑکیں، ائیر پورٹ وغیرہ بن گئے لیکن صنعتی ترقی براے نام ہوئی۔ سڑکیں روشنی سے جگمگانے لگیں، بڑے بڑے عالی شان شاپنگ مال بن گئے، مگرساری معیشت زیادہ سے زیادہ مالیاتی اور صارفانہ (consumer ) بنیادوں پر استوار ہوتی گئی۔ اور آج غلط پالیسیوں کے نتیجے میں اپنی ملکی سیکورٹی کے لیے یہ ممالک امریکا کے     محتاج ہیں۔ ابوظبی، دبئی، قطر، کویت، سعودی عرب صرف غلبے کی معیشت بن گئے ہیں، مگر ان کی صنعتیں براے نام ہیں۔

ایک علامتی واقعہ بھی یاد رکھیے۔ تیل کی دولت پیدا ہوئے ابھی کچھ عرصہ گزرا تھا کہ    شاہ سعود کی ملاقات ایک بحری سفر میں امریکی صدر روزولٹ سے ہوگئی۔ اس ملاقات کے دوران  یہ معاہدہ ہوگیا کہ آپ امریکا کو ہمیشہ تیل برآمد کرتے رہیں‘ ہم آپ کی سیکورٹی کی ضمانت فراہم کریں گے۔ اس غیر تحریری معاہدے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب تمام تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک اپنی سیکورٹی کے لیے امریکا کے محتاج ہیں۔ ایسے کمزور ممالک کے عوام کے جذبات اور احساسات کا، متکبر اور مستبد حکمراں اور ان کے دریوزہ گر سلمان رشدی کیا پروا کریں گے۔

مسلم مملکتوں کی کمزوری کا استحصال کرنے کے لیے مغرب جن چالوں کا افغانستان اور عراق میں استعمال کررہا ہے وہ اظہر من الشمس ہیں۔ پہلے بمباری کرکے تباہ کیا‘ اب فرقہ وارانہ خانہ جنگی کو ہوا دے رہا ہے۔ فلسطین میں محمود عباس جیسے لوگوں کو پال کر جاں نثار فلسطینیوں کو آپس میں لڑا رہا ہے۔ عراق میں شیعہ، سنی فرقوں کو خوں ریزی کی ترغیب دے رہاہے۔ ہمارے پاس اس کا قطعی ثبوت نہیں ہے لیکن ان تمام لڑائیوں میں دولت کا بے تحاشا استعمال ہورہا ہے، ذاتی رنجشوں کو ہوا دی جارہی ہے۔ اس ملت کی انتہائی بدنصیبی ہے کہ دشمن سے لڑنے کے بجاے آپس میں لڑکر اپنی طاقت ضائع کررہے ہیں۔

ان کی دوسری بدنصیبی یہ ہے کہ ان میں سے چند حکمرانوں نے اپنے جاں نثاروں اور گلہاے سرسبد کو اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ لہٰذا ان کی افرادی قوت ضائع ہوتی رہی۔ اس وقت میرے پاس اعدادو شمار تو نہیں ہیں لیکن اخوان المسلمون پر مسلسل ظلم کے نتیجے میں مصر سے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان ماہرین فن اور سائنٹسٹ اور انجینیر اپنے ملکوں کو چھوڑ کر امریکا اور یورپ چلے گئے۔ اسی طرح عراق میں بھی ہوا۔ اس کا انداز ہ بالواسطہ طور پر اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ امریکا اور یورپ میں اعلیٰـ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سرسری شماریات معلوم کرلی جائیں تو مصر، عراق جیسے ممالک کی افرادی قوت کو جو نقصان پہنچا، اس کی ملت کے استحکام کو بدرجہ مجبوری حریف ممالک کے ہاتھوں فروخت کرنے کے جو غیر دانش مندانہ اور ظالمانہ اقدامات عرب کی بعض حکومتوں نے اپنے مغربی آقاؤں کے اشارے پر کیے‘ وہ دلوں کو گہرا زخم فراہم کرتے ہیں۔

کچھ عشروں پہلے کی بات ہے کہ مصر خود کو عرب ملکوں کا قائد تصور کرنے پر مصر تھا، چنانچہ اس زمانے میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات بہت خراب ہوگئے تھے۔ کچھ زمانے بعد عرب لیگ تشکیل دی گئی تھی مگر عالمِ عرب کے اتحاد کا خواب ادھورا رہا۔

آپس کی لڑائی اور غلبے کی معیشت کو فروغ دینے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس   صورتِ حال میں مسلمانوں کی بے وقعتی بڑھے گی نہیں تو کیا گھٹے گی۔

حکومت برطانیہ کے اس اقدام کا جواب صرف چیخ پکار سے ممکن نہیںہے۔ اس کے لیے  وہ قوت اور استحکام حاصل کرنا چاہیے جو عالمی سوسائٹی میں ملت کی وقعت بڑھانے میں ممد و معاون ہو۔ انھی باتوں کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سامنے رکھنا چاہیے:

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْط (انفال ۸:۶۰) اور تم لوگ‘ جہاںتک تمھارا بس چلے‘زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو‘ تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعدا ء کو خوف زدہ کردو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔

زیادہ زمانہ نہیں گزرا‘ جب کہ دنیا بھر میں ہمارا پرچم بلند تھا۔ ہماری تہذیب سب پر بھاری تھی۔ ہمارا علم، ہماری سائنس، ہمارا فلسفہ اور ہماری تنظیم اور استحکام دنیا کی رہنمائی کرتی تھی۔ اس زمانے میں کسی بدخواہ کو منہ چڑانے کی ہمت نہ تھی۔ اگرچہ شاتمانِ رسول اس زمانے میں بھی اِکا دکا پیدا ہوتے رہے، لیکن ہم کو اور ہماری حکومتوں کو اتنااعتماد تھا کہ وہ اس کو بسا اوقات نظر انداز کردیتے تھے، جیسا کہ ابتدائی دورِ عباس میں ایک مشہور شاتمِ رسول تھا جس کا نام الکندی تھا۔ اسی طرح کی ہمہ جہتی ترقی، اور تعمیر نو پر ہم پھر سے عامل ہوجائیں تو ہمیں وہ قوت حاصل ہوسکتی ہے جو مملکتِ برطانیہ کے کارپردازوں کی ہمت توڑ دے۔

اس مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ عالم انسانیت پر یہ واضح کیا جائے کہ وہ سیکولرزم جو تمام مذاہب اور تمام عقائد کو یکساں احترام عطا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، جس کی نظر میں ہر رنگ و نسل اور ہر عقیدہ و مسلک پر عامل انسان حقوق اور فرائض کے اعتبار سے برابر ہیں، یہ مساوات اسلامی تاریخ میں عملاً قائم اور دائم رہی ہے۔ اس کے نفاذ میں نہ کبھی دو رنگی شامل رہی اور نہ منافقانہ طرزِعمل۔ اگرآج بھی عالم انسانیت اس مساوات اور اس احترام کی متلاشی ہے تو اسے قرآن کی طرف دیکھنا چاہیے۔ ٹھیک اسی طرح اگر واقعی جمہوریت کی جستجو ہے تو اس نظام عدل و قسط کو گلے لگانا چاہیے جس کا اسلام داعی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان عدل و قسط اور بلا امتیاز احترام قائم کرنا ہے تو اس دین کی طرف رخ کرنا چاہیے۔ یہ مساوات خدا کے خوف اور اس کی مرضیات کے اتباع میں قائم کی جاتی ہے۔ کسی مادی مفادات کا نتیجہ نہیں ہوتی‘ نہ عارضی ہوتی اور نہ دورنگی کا شکار۔


حسن البنا شہیدؒ ____ ایک مطالعہ

[حسن البنا شہیدؒ پر ترجمان القرآن کی اشاعت ِ خاص کا دوسرا حصہ]

یہ کتاب  منشورات سے جلد شائع ہوگی۔