اگست۲۰۰۷

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اگست۲۰۰۷ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

ملک عبدالرشید عراقی‘گوجرانوالہ

’ہمارا سیاسی بحران اور نجات کی راہ‘ (جولائی ۲۰۰۷ء)‘ میں محترم قاضی حسین احمد نے ملک کی موجودہ صورت حال کا بروقت تجزیہ کیا اور رہنمائی دی ہے۔ ’مولانا عبدالغفار حسنؒ، میں، پروفیسر خورشیداحمد نے جہاں اپنے اُستادمحترم کو خراج تحسین پیش کیا ہے وہاں مولانا کی حیات و خدمات کا مختصراً احاطہ بھی ہوگیا۔

رئیس احمد نعمانی‘بھارت

’شیعہ سنی مکالمہ، وقت کی ضرورت‘ (جولائی ۲۰۰۷ء) نظر سے گزرا۔ میں گذشتہ ۳۰-۳۵سال سے شیعہ لٹریچر پڑھتا چلا آرہا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شیعوں سے مذہبی بنیاد پر قیامت تک مصالحت نہیں ہوسکتی۔ صرف سماجی بنیاد پر اور بقاے باہم کے نظریے سے ان سے مفاہمت ہوسکتی ہے۔

محمد اکرم  ‘ بورے والہ

’شیعہ سنی مکالمہ، وقت کی ضرورت‘ میں مقالہ نگار کا موقف بجا کہ شیعہ سنی مکالمہ وقت کی ضرورت ہے‘ لیکن کسی ایک نکتے پر اتفاق‘ جو شیعہ سنی مکالمے کا مرکزی خیال ہو کسی صورت میں بھی بارآور نہ ہوگا۔ مکالمے کی ایک صورت یہ ہے کہ دونوں اطراف کے اہلِ فکرودانش اور غیر جانب دار منصف مزاج صاحبانِ بصیرت  قرآن وسنت سے استفادہ کرکے احسن طریقے سے ایک دوسرے کو قائل کریں کہ وہ اپنے بے جا موقف سے رجوع فرمائیں۔

شفیق الرحمٰن انجم ‘ قصور

’شیعہ سنی مکالمہ، وقت کی ضرورت‘ یقینا ایک غورطلب موضوع ہے۔ موجودہ حالات میں‘ جب کہ طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرکے صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں اور مسلم حکمران اس طاغوتی جنگ میں برابر کے شریک ہیں‘ اتحاد اور مکالمے کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ ضرورت ہے کہ سب باہم مل بیٹھ کر آپس کے اختلاف افہام و تفہیم سے حل کریں اور مل کر مشترکہ دشمن کا مقابلہ کریں۔

عابد حسین ‘ٹوبہ ٹیک سنگھ

’تربیت اولاد میں باپ کا خصوصی کردار‘ (جولائی ۲۰۰۷ء) میں، باپ کے خصوصی کردار کی طرف بجاوجہ دلائی گئی ہے جس سے عام طور پر غفلت برتی جاتی ہے۔ قرآن و سنت‘ معاشرتی مسائل ‘جدید نفسیات اور رجحانات کی روشنی میں کردار سازی اور تربیت اولاد کے لیے عملی نکات بھی سامنے آتے ہیں۔

احمد علی محمودی ‘ حاصل پور

’مغرب میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی‘ (جولائی ۲۰۰۷ء) ایک حوصلہ افزا تحریر ہے۔ یہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ مغربی تہذیب و ثقافت خود اپنے ہی ہاتھوں‘ اپنے ہی خنجر سے خودکشی کر رہی ہے۔ یہ نوید ہے ایک عالم گیر اسلامی انقلاب کی!

غلام عباس طاہر لیل ‘ جھنگ

اشاعت خاص حسن البنا شہید‘ (مئی،جون ۲۰۰۷ء) مُردہ روحوں کو جگانے والی شخصیت کی پُراثر تحریروں اور تبصروں پر مشتمل تحریکِ اسلامی کے لیے پیامِ زندگی ہے۔ احباب اور رفقا اس کے مطالعے سے اپنی تحریک سے وابستگی کو مزید پختہ اور فعال بنا سکتے ہیں‘ جب کہ عام لوگوں کے لیے تازگی ایمان اور دلوں کو گرمانے کا سامان ہے۔ ’اشاعت خاص‘ ایک داعی کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

دانش یار ‘ لاہور

’اشاعت خاص‘ کا مقصد اخوان المسلمون کے شہید رہنما کو محض خراجِ عقیدت پیش کرنا ہی نہیں‘ اس میں بڑی قیمتی رہنمائی اور جذبہ و تحرک ہے۔ ’حسن البنا، اخوان اور مغربی مفکرین‘/ڈاکٹر انیس احمد، ’مَیں ہم سفر رہا‘ / شیخ عبدالمعزعبدالستار، ’حسن البنا کی حکمت عملی‘/ابوجرۃ عبداللہ سلطانی‘ ان پر تو اسٹڈی سرکل ہونے چاہییں۔ ضرورت ہے کہ اجتماعات میں تقاریر کا موضوع بنایا جائے۔

ڈاکٹر عبدالحلیم قریشی ‘ حیدرآباد

گذشتہ چند ماہ سے کتب و جرائد میں ایک مہم کے انداز میں یہ کہا جا رہا ہے۔ اگر دین اسلام میں سیاست کو شامل کیا گیا تو نتیجہ خون خرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اردشیر کاؤس جی نے اپنے کالم (ڈان،      یکم جولائی ۲۰۰۷ء) میں لکھا ہے کہ سیاست کو اسلام میں لانے سے قتل و خون ریزی کے وہی واقعات رونما ہوں گے جیسے خلفاے راشدینؓ کے دور میں ہوئے جس کے نتیجے میں تین خلفا شہید ہوگئے۔ ایک مصری ادیب    فواد عجمی کی کتاب The Dream Palace of Arabsمیں بھی اسی بات کی تکرار کی گئی ہے۔ یہ کتاب Vintage Books امریکا سے شائع ہوئی ہے۔ تقریباً دو ماہ قبل جسٹس جاوید اقبال صاحب حیدرآباد تشریف لائے اور سندھ یونی ورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے بھی یہی بات کہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک منظم سازش ہے جس کے ذریعے اسلام اور رسالت مآبؐ کے دور کو مطعون کیا جا رہا ہے‘ حالانکہ خلفاے راشدینؓ کا دور برکت و فضیلت کا زمانہ تھا۔ ان الزامات کا مؤثر جواب دینے کی ضرورت ہے۔