انسان کو زندگی میں بے شمار مصائب و مشکلات اور تکالیف و شدائد سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی تکلیف سے انسان کا دل متاثر ہوتا ہے، کوئی انسان کے بدن کو تکلیف دیتی ہے، کسی سے انسان مالی طور پر خسارے کا شکار ہوتا ہے‘ کسی سے اولاد کے معاملے میں اسے تکلیف پہنچتی ہے اور کوئی اس کے اہل خانہ و شریک حیات کے بارے میں اس کی دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔ غرض انسان کو ایک نہیں کئی پہلوئوں سے مصائب اور تکالیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ تکلیفیں اور مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمایش ہوتی ہیں۔ جو شخص ان آزمایشوں پر صبر کرے اور ان کے تقاضوں پر پورا اُترے‘ اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں بلند مقام سے نوازتا ہے۔ البتہ آزمایشوں میں ثابت قدم رہنا اور ان میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے سامنے سرتسلیم خم رکھنا بلند ہمت لوگوں کا کام ہے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے امن و امان، صحت و سلامتی، جان و مال اور آل اولاد میں کمی کر کے اہلِ ایمان کی آزمایش کرنے کا ذکر کیا ہے:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ قف وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ۲:۱۵۵-۱۵۷) اورہم ضرو ر تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘، انھیں خوش خبری دے دو۔ اُن پر اُن کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔
دوسری جگہ مال و جان کے ساتھ دشمنانِ دین اور مشرکین کی طرف سے زبانی اذیتوں کے پہنچنے کا ذکر یوں کیا گیا:
لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْقف وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا ط وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۸۶) مسلمانو، تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمایشیں پیش آکر رہیں گی، اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر ان سب حالات میں صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔
مذکورہ دونوں آیات کی بہترین تفسیر بھی قرآنِ حکیم ہی کے اندر موجود ہے۔ جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ قرآنِ حکیم نے جس اسلوب میں کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جان و مال، بیوی بچوں اور رزق اور امن و امان میں کمی کر کے ہر طرح سے آزمایا‘ اور جب آپ ان تمام آزمایشوں میں کامیاب ٹھیرے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بلند ہمتی اور صبر و ثبات کو دنیا کے لیے یادگار بنا دیا اور ان کو دنیا کا امام بھی بنایا اور ان کی فردِ واحد کی حیثیت ہی میں ان کو امت قرار دیا۔
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ آپؐ کو نبوت و رسالت کی گراں بار ذمہ داری سے پہلی بار آگاہ کیا گیا تو اس راہ کی مشکلات کا اندازہ آپؐ کو اسی وقت ہو گیا تھا جب ورقہ بن نوفل نے یہ کہتے ہوئے حسرت و افسوس کا اظہار کیا تھا کہ: ’’کاش! میں اس وقت جوان ہوتا۔ کاش! میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو یہاں سے نکال دے گی‘‘۔ ورقہ کی یہ بات واقعتا سچ ثابت ہوئی کہ جس روز اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی اسی روز سے قوم کی نادانیوں اور ایذائوں کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ آپؐ کی راہ روکی گئی، آپؐ کو جھٹلایا گیا، آپؐ کو ٹھٹھہ اور تضحیک سے رسوا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قریش کی ایذائوں کا ہدف بنے تھے اس وقت آپؐ کے رفقا کو ابھی ان مصیبتوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ’’مجھے اللہ کے معاملے میں اس قدر ڈرایا اور دھمکایا گیا کہ کسی اور کو اس قدر نہیں ڈرایا گیا۔ مجھے اللہ کے معاملے میں جس قدر اذیت سے دوچار کیا گیا کسی اور کو نہیں کیا گیا۔ میرے اوپر تیس تیس دن رات ایسے بھی آتے رہے کہ میرے اور بلال کے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی تھی جس کو کوئی جان دار کھا سکے، سواے اس معمولی شے کے جو بلال اپنی بغل میں چھپائے ہوتے‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۲۴۷۲)
یہ اس ذات کی کیفیت ہے جس کو قرآن نے تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے، انسانیت کا محسن بتایا ہے، لوگوں کی ہدایت و نجات کے لیے اپنی جان کو ہلکان کرنے والا کہا ہے۔ اس شخصیت سے روا رکھے جانے والے سلوک کا تذکرہ تو دلوں کے خون کو منجمد کر دیتا ہے مگر عقل و فراست اور زبان و بیان میں امتیازی شان رکھنے کا دعویٰ کرنے والے اہل مکہ کو دیکھیے کہ وہ انسان بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں جو ان کے نزدیک پاکیزہ ترین اور صادق و امین ہے۔ بات زبانی ایذارسانی تک محدود رہتی تو تاریخ انسانی کے کاتبوں کے لیے اسے نظر انداز کرنا شاید ممکن ہوجاتا۔ مگر معاملہ عددی قوت کو بروے کار لا کر تلوار زنی اور نیزہ بازی تک پہنچ گیا۔ ۱۳ برس تک قریش مکہ کی ایذائوں کا ہدف بنے رہنے کے بعد بالآخر جب مظلومانہ جذبات سے بھرے دل کے ساتھ یہ رحیم و کریم انسان مکہ کو خیرباد کہتا ہے اور بے سروسامانی کے عالم میں مدینہ چلا جاتا ہے تو یہ کش مکش مسلح جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پھر معاملہ ایذا رسانی، جلائو گھیرائو اور سب وشتم سے آگے بڑھ جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بقیہ زندگی اسی کش مکش میں گزرتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری آزمایش اور دوسری کے بعد تیسری اور پھر یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔
رب کی کبریائی کا پیغام لے کر جو شخص بھی آیا اس کے ساتھ دشمنی روا رکھی گئی۔ انسانی تاریخ کے گذشتہ دور کی شہادت بھی یہی ہے اور ماضی قریب اور عہد رواں کی گواہی بھی یہی ہے۔ تاریخ نے ان کرداروں کی مساعی و مشکلات کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ سیکڑوں صفحات پر محیط ہے۔ آج کے داعی اور داعیانہ کرداروں کو بھی بعینہٖ انھی حالات سے سابقہ ہے جو مذکورہ بالا افراد کو تھا۔ یقینا وہ سب اپنے اپنے وقت کے لیے ایک نمونہ تھے، لیکن ان سب میں بہترین اسوہ وہی ہے جس کو قرآنِ مجید نے بہترین کہا ہے‘ یعنی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ!
ان سطور میں اسی اُسوہ حسنہؐ سے ایسی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جو ایک طرف ایک مومن کے لیے روزمرہ معاملات اور مصائب اور پریشانیوں میں نمونہ ہیں‘ تو دوسری طرف ان میں حق و باطل کی کش مکش میں اہل حق کے لیے رہنمائی کا سامان موجود ہے۔ آیئے دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات میں مصائب و مشکلات کو کس طرح انگیز کیا اور ان کو اپنی دعوت کے لیے کیسے ممدو معاون بنایا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب کے وعدے اور گناہوں پر بخشش کی خوش خبریاں مومنوں کے لیے بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نے آپؐ سے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! سب سے زیادہ سخت آزمایش کس کی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’انبیا کی، پھر ان سے کم درجہ لوگوں کی، پھر ان سے کم درجہ لوگوں کی۔ آدمی کی آزمایش اس کی دینی کیفیت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو آزمایش بھی سخت ہوتی ہے‘ اور اگر دین میں نرم ہو تو اس کی دینی کیفیت کے مطابق ہی آزمایش بھی ہوتی ہے۔ بندے پر آزمایشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘۔ (ترمذی)
مومن کا یہ ایمان ہے کہ دین کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات و تکالیف بہترین دروس اور مفید تجربات ہیں جو اس کی شخصیت کو آزمایش کی بھٹی سے گزار کر کندن بنا دیتے ہیں اور اس کے ایمان کو جلا بخشتے ہیں، اس سے زنگ کو کھرچ ڈالتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ اس مومن کی مثال جس کو کسی آزمایش سے دکھ پہنچے اس لوہے جیسی ہے جس کو آگ میں ڈال دیا جائے تو وہ اس کے کھوٹ کو صاف کر دیتی ہے اور اصل لوہا باقی رہ جاتا ہے۔
اپنے مقصد کو حاصل کرنے اور مصیبتوں تکلیفوں سے نکلنے کے لیے دعا سب سے مضبوط ذریعہ ہے۔ یہ مومن کا ہتھیار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اللہ سے مدد و استعانت طلب کرے۔ آپؐ نے دعا کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی عبادت ہے۔ یہ عبادت کا مغز ہے۔ دعا میں غفلت اور تساہل سے آپؐ نے منع فرمایا۔
مصیبتوں اور تکلیفوں کے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخصوص دعائیں کیا کرتے تھے۔ ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جب کوئی معاملہ بڑا اہم ہو جاتا تو آپؐ آسمان کی طرف چہرہ بلند کر لیتے‘ اور گڑ گڑا کر دعا کرنا مقصود ہوتا تو یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ کہتے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو آپؐ یوں دعا کرتے: یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ ’’اے زندہ اور قائم ذات! میں تیری رحمت کے واسطے سے تیری مدد کا طالب ہوں‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے موقع پر یوں دعا کرتے: لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ، لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْاَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ، ’’اللہ بزرگ و برتر رب کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں، ساتوں آسمان و زمین کے رب اور عرشِ کریم کے رب، اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں!‘‘(بخاری، مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدائد و مصائب کے مواقع پر دعا کے ذریعے اللہ کی مدد اور نصرت طلب کیا کرتے تھے۔ طائف سے واپسی پر اور غزوئہ بدر کے موقع پر آپؐ کی دعائیں آج بھی رہنمائی دیتی ہیں۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو گہرے زخم آئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس موقع پر زخمی ہوئے اور آپؐ کو بھی دشمن کے سخت حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت حمزہؓ کی شہادت کا صدمہ بھی اسی غزوے میں آپؐ کو پہنچا۔ اپنے زخموں اور چچا کی شہادت کے صدمے کی شدت سے قریب تھا کہ آپؐ بے ہوش ہو جاتے۔ آپؐ نے اس نازک اور اندوہناک صورتِ حال میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و توصیف بیان فرمائی۔
غزوۂ احزاب (خندق) کے موقع پر جب دشمن نے مسلمانوں کا محاصرہ سخت کردیا تو اللہ کے رسولؐ مشرکین کے خلاف دعا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا فرمائی:
اللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الکِتَابِ، سَرِیْعَ الحِسَابِ أَھْزِمِ الأَحْزَابِ، أَللّٰھُمَّ اَھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھِمْ، اے اللہ، کتاب کے نازل کرنے والے، جلد حساب لینے کی قدرت رکھنے والے! ان لشکروں کو شکست سے دوچار کر دے۔ اے اللہ ان کو شکست دے دے اور ان کے قدم اکھاڑ دے۔
دعا عظیم عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے۔ انسانی عقل‘ ذہانت و فطانت کی کتنی ہی بلندیاں کیوں نہ سر کر لے‘ بہرحال وہ متزلزل ہونے سے مبرا نہیں۔ مومن پر ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب وہ تفکر و تدبر سے عاجز ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے سامنے دست دعا دراز کر دے۔ پھر ادھر دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ نیچے آتے اور دعا کے الفاظ کا سلسلہ ختم ہوتا ہے تو اُدھر اللہ رب العالمین کی طرف سے قبولیت کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔
مسلمان کے شایانِ شان نہیں کہ آزمایش و مصائب میں شدت آ جائے، اسلام اور مسلمانوں پر پے درپے حملے ہونے لگیں تو حالات کی اصلاح اور تبدیلی سے مایوسی و ناکامی اس کے دل میں راہ پا جائے۔ راہِ خدا پر چلنے اور لوگوں کو اس طرف بلانے کی جدوجہد جس قدر تکلیف دہ اور صبر آزما تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی حیثیت سے تو اس کا کامل اِدراک تھا۔ آپؐ نے ہرمشکل موقع پر جس عزم و استقلال اور پامردی و ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا وہ آپؐ ہی کے شایانِ شان تھا۔ آپؐ اپنی دعوت کی کامیابی اور اسلام کی سربلندی کا یہ یقین اپنے صحابہؓ کے دلوں میں جاگزیں کرتے تھے۔ مشرق و مغرب تک ان کا پیغام پہنچ جانے کی نوید سناتے تھے۔ مصائب و مشکلات کا جواں مردی اور جرأت مندی سے مقابلہ کرنے کا درس دیتے تھے۔
ایک موقع پر حضرت خبابؓ بن ارت کو جہاں راہِ دعوت کی سنگینی سے آگاہ فرمایا وہاں کامیابی کا یقین بھی دلایا اور فرمایا:’’تم سے پہلے لوگوں کی حالت یہ تھی کہ آدمی کو پکڑا جاتا‘ اس کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں گاڑ دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر کے اوپر رکھ کر اسے چیر کر دو حصے کردیا جاتا۔ لیکن یہ چیز اس کو اس کے دین سے ہٹا نہ سکتی۔ لوہے کی کنگھی سے اس کی ہڈیوں سے گوشت نوچا جاتا لیکن یہ چیز بھی اسے اس کے دین سے ہٹا نہ سکتی۔ اللہ کی قسم! اللہ اس معاملے کو مکمل کر کے چھوڑے گا۔ یہاں تک کہ (ایک وقت آئے گا) سوار، صنعا سے چل کر حضرموت آئے گا تو اسے اللہ کے سوا اور اپنی بکریوں کے بارے میں بھیڑیے کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہو گا، مگر تم تو جلد بازی میں پڑ گئے ہو‘‘۔
غزوۂ خندق کے روز مسلمانوں کو ہر طرف سے خطروں نے گھیر رکھا تھا۔ اس کٹھن اور سخت موقع پر بھی اللہ کے رسولؐ نے مسلمانوں کو خوش خبریاں سنائیں۔ فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ ضرور تم سے اس سختی کو دور کر دے گا جو تم دیکھ رہے ہو۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف کروں گا۔ اور اللہ کعبہ کی کنجیاں مجھے دلا دے گا۔ اور کسریٰ اور قیصر کو ہلاک کر دے گا اور پھر تم ان کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے‘‘۔
دعوت دین اور اسلامی تحریک کے کارکنان اور قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نبویؐ منہج و حکمت عملی کا دامن نہ چھوڑیں۔ مایوسی، پست ہمتی، بزدلی اور بددلی پھیلانے کے بجاے دلوں کو امید اور یقین سے سرشار کیا جائے۔
مصائب و مشکلات اور آزمایش کے مراحل میں مومن وسائل کے محدود ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود گھبرایا نہیں کرتا۔ وہ اپنے خدا پر بھروسا کرکے راہِ خدا میں صبرواستقامت دکھاتا ہے۔ حق کی سربلندی کے لیے خواہ کیسے بھی حالات ہوں وہ عزم و استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ نبی کریمؐ کے اسوئہ مبارک میں غزوئہ احد اور غزوئہ حنین کے معرکے اس کی نمایاں مثال ہیں۔
غزوۂ احد میں کفار نے پلٹ کر حملہ کیا تو اس کی شدت اس قدر تھی کہ بڑے بڑے جواں مرد اور جری مسلمانوں کے لیے بھی میدان میں پائوں جمانا مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نو صحابہؓ کے ہمراہ پیچھے تشریف فرما تھے۔ حضوؐر اکرم کی حیاتِ مبارکہ کی آزمایشوں کا یہ نازک ترین موقع تھا کہ اس معرکے میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپؐ کے ساتھ صرف دوصحابی رہ گئے۔ حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے آپؐ کے دفاع میں اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ آزمایش کے اس نازک ترین موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری ثابت قدمی سے اپنی جگہ پر موجود تھے اور بلند آواز سے لوگوں کو اپنی طرف بلا رہے تھے‘ حالانکہ اس وقت آواز دے کر بلانا اپنے بارے میں مشرکین کو خبر دینے کے مترادف تھا۔ لیکن آپؐ نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسا کیا اور صحابہؓ کو دوبارہ اپنے گرد جمع کیا اور مسلمان بالآخر دشمن کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
کچھ ایسی صورتِ حال غزوۂ حنین میں بھی پیش آئی۔ جونہی مسلمانوں نے طلوعِ فجر سے پہلے وادی میں قدم رکھا تو گھات میں بیٹھے دشمن نے اچانک ان پر تیروں کی بارش کر دی۔ پھر یکدم جتھوں کے جتھے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ مسلمان سنبھل نہ سکے۔ ایسی بھگدڑ مچی کہ کوئی کسی کی طرف دیکھ نہیں رہا تھا۔ پسپائی اور فرار کا عالم یہ تھا کہ ابوسفیان نے یہ دیکھ کر کہا اب ان کی بھگدڑ سمندر سے پہلے نہیں رکے گی۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پکارا: لوگو! میری طرف آئو۔ میں عبداللہ کا بیٹا محمد ہوں۔ اس شدید بھگدڑ کے باوجود آپؐ کا رُخ کفار کی طرف تھا اور اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے: ’’میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘۔ اس موقع پر بھی آپؐ کے ساتھ چند صحابہؓ تھے۔ لیکن ثبات و استقلال کا عالم دیدنی تھا۔
مشاورت اگر شرعی طور پر مطلوب اور لازمی ہے تو مشکل مواقع پر یہ انتہائی لازم ہے۔ مشورے کے ذریعے ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ معاملات کا فیصلہ کرنے والی شخصیات اہل عقل و راے کی چیدہ آرا سے آگاہ ہوں اور کوئی ایسی جامع راے قائم کر سکیں جو انھیں غلطی کا ارتکاب کرنے سے بچائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حکم دیا ہے کہ اہل ایمان سے مشورہ کر لیا کرو: وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)’’اور اہم معاملے میں اِن سے مشورہ کر لیا کرو‘‘۔ جس بات کا حکم قرآنِ مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے دیاگیا ہو‘ یہ کیسے ممکن تھا کہ آپؐ اس حکم کے تقاضوں کو پورا کرنے کا حق ادا نہ کریں۔ چنانچہ آپؐ نے ہرمشکل موقع اور دشوار و کٹھن صورتِ حال میں صحابہؓ سے مشورہ کیا اور بعض مواقع پر لوگوں کی متفقہ راے کو اپنی راے پر ترجیح دی۔واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشاورت کا حکم اور اختیار صرف انھی امور میں دیا گیا تھا جن کے بارے میں کوئی وحی نازل نہ ہوئی ہو یا وہ خالصتاً دنیاوی امور ہوں۔
اس کی ایک نمایاں مثال غزوئہ بدر ہے۔ مدینہ کے مسلمان کسمپرسی‘ بے سروسامانی اور بہت سے مسائل سے دوچار تھے۔ ایسے میں جنگ کا مسلط ہوجانا‘ جب کہ بڑی تعداد میں لشکر کی آمد تھی‘ زندگی موت کا سوال تھا۔ اس نازک مرحلے پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا اور مختلف مراحل پر راے لی۔ مدینہ سے باہر نکل کر دفاع کا فیصلہ کیا۔ میدانِ بدر میں جب آپؐ نے اسلامی لشکر کو بدر کے قریب ترین چشمے پر ٹھیرایا تو آپؐ نے حضرت حباب بن منذرؓ کی راے کو اپنی راے پر ترجیح دی اور فرمایا: تم نے بہت ٹھیک مشورہ دیا۔ اس کے بعد آپؐ لشکر سمیت اٹھے اور آدھی رات کے وقت دشمن کے قریب ترین چشمے پر پہنچ کر پڑائو ڈال دیا۔اسوئہ رسولؐ میں اس حوالے سے بہت سی مثالیں سامنے آتی ہیں۔
دشمنانِ دین کا ایک ہتھکنڈا یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اہل دین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرتے، شکوک و شبہات ڈالتے، افواہیں پھیلاتے اور اسلام و مسلمان کے بارے میں طرح طرح کی غلط باتیں مشہور کرتے ہیں۔ دین اور اہل دین کے لیے یہ لمحات بڑے نازک اور خطرناک ہوتے ہیں خصوصاً اسلامی عناصر کے لیے جو مسلمانوں کی بیداری اور اسلام کے احیا کے لیے کام کررہے ہوں۔ احیاے اسلام کی تاریخ میں ایسے بے شمار مواقع ہیں جب دشمن اپنے ان عزائم کو مسلمانوں کے خلاف کامیاب بناتا دکھائی دیتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر دشمن جو طریقہ اختیار کرتا ہے وہ انتہائی گھٹیا اور رقیق بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں اسلامی قیادت کے لیے بھی اور کارکنانِ دعوت کے لیے بھی انتہائی ہوش مندی اور احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
عہد حاضر میں بھی اس کی بے شمار مثالیں ہمارے روزانہ کے مطالعے اور مشاہدے میں آتی ہیں۔ اس معاملے میں دشمن یہاں تک بھی گر سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ذاتیات کو ہدف بنا کر ان کے اخلاق و کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اہل خانہ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں کسے شک ہو سکتا ہے مگر دشمن یہاں بھی وار کر گیا اور آپؐ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہؓ پر تہمت لگا دی۔ چونکہ یہ افواہ سراسر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی تھی، اس لیے قرآنِ حکیم نے اس پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے اہل ایمان سے یہ کہا کہ جب تمھیں خانۂ نبوت کی پاک دامنی کے بارے میں شک نہیں تھا تو تم نے یہ خبر سنتے ہی فوراً کیوں نہیں کہہ دیا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور بہتانِ عظیم ہے۔
بدگمانی سے اجتناب اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں محتاط گفتگو ہی دراصل کسی اجتماعیت کو مستحکم رکھنے کا باعث ہوتی ہے اور محض افواہوں پر کارروائیاں ہونے لگیں تو بھی یہ شیرازہ متحد نہیں رہ سکتا‘ اور اگر حقیقی خامیوں کو نظرانداز کیا جاتا رہے تب بھی مخلصین کی رفاقت کو تادیر شکوک و شبہات سے بچائے رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
بعض لوگ صبر کو ایک منفی رویہ سمجھتے ہیں اور کمزوری و بے بسی اور ذلت و خواری کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ یہ صبر نہیں ہے، بلکہ صبر تو قابل تعریف اوصاف اور مثبت رویوں کا نام ہے۔ صبر تو یہ ہے کہ دشمنانِ دین ہی نہیں بلکہ اپنے بھائی بندوں کی طرف سے بھی ایک داعی جو ذہنی و جسمانی تکلیفیں اٹھائے ان پر بددلی، کم ہمتی اور جزع فزع کا شکار نہ ہو۔ ثابت قدمی اور صبر لازم و ملزم ہیں۔ اگر داعی صبر سے کام لے گا تو وہ ثابت قدم رہے گا۔ صبر کا دامن جونہی اس کے ہاتھ سے چھوٹے گا اس کے قدم لڑکھڑا جائیں گے۔
اپنے نفس سے جہاد پر بھی صبر کرنا ہوتا ہے۔ دوسروں سے جہاد پر بھی صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشقتوں مصیبتوں کے جھیلنے کے لیے بھی صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ باطل سے ٹکرانے کے لیے بھی صبر ضروری ہے۔ دعوتِ حق کے راستے کی طویل مسافت بھی صبر کی متقاضی ہے۔ اس راہ کے تکلیف دہ نشیب و فراز بھی صبر ہی سے طے ہو سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳ برس کی داعیانہ زندگی صبر کی ایک دردناک داستان ہے۔ دیکھیے وہ شخص جو اپنی قوم سے صادق و امین کا لقب پا چکا ہو اور قوم اس کو سرآنکھوں پر بٹھاتی ہو‘ وہ جب کائنات کی عظیم ترین صداقت قوم کے سامنے پیش کرے اور قوم اس کو جھٹلا دے تو اس سے بڑی تکلیف دہ بات کیا ہو سکتی ہے۔
معزز و محترم اور کعبہ کا متولی قبیلہ محض اس بنا پر تین سال کے لیے شعب ابی طالب میں محصور کر دیا جائے کہ اس کے ایک فرد نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی واقعہ ہے کہ تین برس تک ان لوگوں کو انسانی ضروریات کی اشیا فراہم نہ ہونے دی جائیں اور انھیں قوتِ لایموت بھی میسر نہ آ سکے۔ کیا اس سے بڑی حق تلفی بھی کوئی ہو سکتی ہے کہ کعبہ کے حدودِ حرم کے اندر تو جانور بھی محفوظ و مامون ہوں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بھی آزادانہ عبادت کی اجازت نہ ہو اور ان پر گندی اوجھڑی پھینکی جائے، ان کا گلا دبایا جائے، ان سے بدکلامی کی جائے۔ کیا یہ نہایت تکلیف دہ امر نہیں کہ حقیقی چچا کے بیٹے آپؐ کی بیٹیوں کو اپنے نکاحوں سے خارج کر کے آپؐ کے گھر بھیج دیں اور وجہ صرف آپؐ کی دعوتِ دین ہو۔ کیا دنیا کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ نہیں کہ قوم کے معزز و محترم قبیلے کا پاک دامن چشم و چراغ زندگی کا ایک حصہ مکہ میں گزارنے کے بعد اپنے گھر بار کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائے اور انتہا یہ ہو کہ دوسری جگہ پہنچ کر بھی اس کو سکون سے نہ رہنے دیا جائے بلکہ مسلسل ۱۰ برس جنگوں میں مصروف رکھا جائے۔ طائف کا واقعہ کسے یاد نہیں ہے اور اس واقعے میں رسولِ رحمتؐ کے منہ سے نکلے الفاظ بھی سب کو یاد ہونے چاہییں کہ ’’نہیں اے اللہ، نہیں! انھیں تباہ نہ کرنا۔ یہ نہیں تو ان کی اولاد میں سے کوئی تیرا نام لیوا ہو گا‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مصیبتوں، تکلیفوں اور ابتلائوں آزمایشوں سے لبریز ہے۔ ان تمام لمحات میں صبر آپ کا اوڑھنا بچھونا رہتا ہے اور آپؐ قرآن کے اس بیان کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتے دکھائی دیتے ہیں:
وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْاعَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰھُمْ نَصْرُنَا وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ (الانعام۶:۳۴) تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انھیں پہنچائی گئیں، انھوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انھیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے مخالفین کی طرف سے تحقیر و تضحیک کی ایک کھلی جنگ کا سامنا کیا۔ قتل و تعذیب سے دوچار ہوئے۔ ہجرت کے عمل سے گزرے۔ مال و اسباب سے محروم ہوئے۔ غرض کوئی ایسی تکلیف باقی نہیں رہ گئی تھی جو آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو نہ پہنچائی گئی ہو۔ عہد حاضر کی میڈیا یلغاروں اور ابلاغی ہتھکنڈوں جیسے حربے خوب آزمائے گئے۔ اسلام اور مسلمانوں کو عوام کی نظروں سے گرانے کے لیے مضحکہ خیز استدلال اور اوچھے نقطۂ نظر پیش کیے گئے۔ الزام عائد کرتے وقت عقل و منطق کے تقاضوں کو بالاے طاق رکھ دیا گیا‘ حتیٰ کہ آپؐ کو جھوٹ بولنے والا، مجنون، پاگل، دیوانہ اور جادوگر کہا گیا (نعوذ باللہ)۔ معاملہ اس ابلاغی مہم جوئی تک ہی رہتا تب بھی کچھ کم تکلیف دہ نہ تھا لیکن مخالفین نے عداوت کی آخری حد تک پہنچنے کے لیے آپؐ کو راستے سے ہٹانے کی دھمکی تک دے دی۔
پھر معاملے کی نزاکت اپنے نقطۂ عروج کو پہنچتی ہے اور آپؐ کے قتل کا عملی منصوبہ مشرکین مکہ کی مجلس میں منظور ہوتا ہے اور رات کے اندھیرے میں اس پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھا۔
اس سارے عرصے میں دشمن اپنا کام کرتا ہے اور داعی اپنا۔ دشمن نے اپنے ہتھکنڈے آزمائے اور داعی نے اپنے صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا اور ان مخالفتوں کی پروا کیے بغیر قوم کی مجلسوں میں جا کر اور ایک ایک فرد کو مل کر اپنی دعوت پیش کی۔ حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے: کیا کوئی شخص مجھے سوار کر کے اپنی قوم کے پاس نہیں لے جائے گا؟ (تاکہ میں انھیں دعوت دوں)‘کیونکہ قریش نے مجھے میرے رب کا کلام لوگوںتک پہنچانے سے روک رکھا ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے راستے کی ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے محو سفر رہے اور داعی کے شایانِ شان بھی یہی ہے کہ وہ اپنے عزم کو شکستہ نہ ہونے دے اور دعوتِ دین جن قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے ان کو پیش کر کے حمیت فی الدعوۃ کی لاج رکھے۔ یہ بات داعیانِ دین کے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہنی چاہیے کہ دعوت اس وقت تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی جب تک اس کی راہ میں روحوں کو گھلانہ دیا جائے۔ دعوت کی نصرت و تائید کے لیے عزم کی شدت سے بڑھ کر کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ قوتیں صَرف کیے بغیر اور قربانیاں دیے بغیر دعوت‘ نظریات و خیالات تک محدود ہو گی جو کتابوں میں رقم اور مقررین کی تقریروں میں موجود ہوتی ہے مگر ایسی دعوت کوئی تبدیلی اور انقلاب پیدا نہیں کرسکتی۔ سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے یہ چیز روزِروشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ نے اپنے جسم و جان سے لے کر دنیاوی سازو سامان تک ہر چیز کو اسلام کے اوپر نچھاور کر دیا جس کے نتیجے میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ آج بھی انقلاب کی منزل اسی طریقے سے قریب ہو سکتی ہے!!