سوال : ایک تنظیم کے تحت لوگ ہر ماہ کے آخری ہفتے کو مسجد میں اجتماعی شب بیداری کرتے ہیں۔ مسجد میں سب افراد مل کر قبرستان جاتے ہیں۔ ہر فرد ایک ایک قبر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور وہاں عالم صاحب اجتماعی دعا کرواتے ہیں۔ پھر کچھ دیر آرام کے بعد تہجد‘ نمازِ فجر اور درسِ قرآن کے بعد پروگرام کا اختتام ہوتا ہے۔ کیا نبی کریمؐ سے ایک رات مخصوص کرکے اجتماعی شب بیداری اور قبرستان میں جاکر دعائیں مانگنا ثابت ہے؟
حضرت عمرؓ کے دور کی بات ہے کہ چند افراد مل کر پتھروں پہ کلمہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ انھیں میرے پاس لے کر آئو۔ جب سب افراد آئے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ابھی تو میرے محبوب کا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور آپ لوگوں نے بدعات کا آغاز کردیا ہے۔ اگر میں نے تمھیں میدانِ بدر میں نہ دیکھا ہوتا تو میں تمھارے سر قلم کردیتا۔
جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبرستان میں جانا‘ قبرستان والوں کے لیے دعائیں کرنا ثابت ہے۔ دن اور رات‘ دونوں اوقات میں ثابت ہے۔ اسی طرح تہجد انفرادی طور پر اور بلاتداعی‘ یعنی بلاوے کے بغیر اجتماعی طور پر بھی ثابت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عبداللہ بن عباسؓ نے رات کے وقت تہجد پڑھی۔ انھوں نے پیچھے نیت باندھ لی‘ آپؐ نے انھیں دائیں جانب کیا۔ اسی طرح بعض دوسرے صحابہ کرامؓ کے واقعات موجود ہیں کہ انھوں نے آپؐ کے پیچھے تہجد پڑھی۔
تین دن رمضان المبارک میں آپؐ نے آٹھ رکعت تراویح پڑھائی۔ اس بنیاد پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد سیدنا عمرفاروقؓ نے اپنے دورِخلافت میں تراویح کی مستقل طور پر باجماعت نماز شروع کردی۔ کسی بھی عبادت کو جو انفرادی طور پر مطلوب ہو ازخود بلادلیل اجتماعی شکل دینا اور اسے ثواب سمجھنا بدعت ہے۔ لیکن ایسی بدعت جو عبادت کی انفرادی شکل کو اجتماعی شکل دے دے‘ مکروہ کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ نے جس شکل کا ذکر کیا ہے‘ اگر اس میں غیرشرعی حرکت کا ارتکاب نہیں ہے تو مکروہ شمار ہوگی۔
حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا قول جن الفاظ میں آپ نے ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ پتھروں یا گٹھلیوں پر پڑھنا‘ کسی خاص مقام کو ورد کے لیے متبرک سمجھنا ایسی بدعت نہیں ہے کہ جس پر قتل کی سزا نافذ کی جائے۔ تعزیری سزا بھی لازم نہیں ہے ورنہ حضرت عمرؓ اسے جاری کردیتے۔ البتہ سختی سے روکنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س: ڈاکٹروں کی ایک تنظیم کے زیراہتمام ڈاکٹروں کی تربیت کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف اجتماعی پروگرام ہوتے ہیں۔ اگر ایک خاتون ڈاکٹر کو کسی طبی موضوع پر لیکچر دینے کے لیے بلایا جائے‘اور وہ پردے کے اہتمام کے ساتھ نقاب میں رہتے ہوئے‘ مرد ڈاکٹروں کے سامنے اسٹیج پر لیکچر دے‘ تو اس حوالے سے قرآن و سنت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟
ج: ’علم‘ خواتین سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک خاتون کسی فن میں ماہر ہو اور اس سے مردوں کے مقابلے میں احسن انداز سے استفادہ کیا جا سکتا ہو تو وہ شرعی آداب‘ یعنی پردہ وغیرہ کا لحاظ رکھتے ہوئے مرد حضرات کو لیکچر دے سکتی ہے۔
صحیح بخاری کا ایک نسخہ محدثۃ کریمۃ بنت احمد بن محمد بن حاتم المروزی سے منقول ہے۔ انھوں نے صحیح بخاری پڑھی‘ لکھی اور پھر لوگوں کو پڑھائی‘ لوگوں نے ان سے لکھی اور ان کا نسخہ بھی معروف ہوگیا۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہماری تاریخ میں پائی جاتی ہیں۔ نیز اس بات کا اطمینان بھی ہونا چاہیے کہ اس طرح کے لیکچر کے نتیجے میں خاتون خود‘ یا کوئی شخص فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔(ع - م )
س: میں ایک بڑے کاروباری ادارے کا سربراہ ہوں اور اس حوالے سے بنکوں کے ساتھ مالی لین دین کے سلسلے میں رابطہ رہتا ہے۔ بنک عموماً بڑے اداروں کے لیے ایک مخصوص رقم کی لمٹ (limit) منظور کرتا ہے جس میں جب تک آپ لمٹ کی رقم کو اپنے اکائونٹ میں سے لے کر استعمال نہیں کرتے اس وقت تک آپ کو مارک اَپ نہیں پڑتا‘ یعنی آپ جتنے دن رقم استعمال میں لاتے ہیں اُتنا ہی مارک اَپ دینا پڑے گا‘ پورے مہینے کا نہیں۔ کیا قرآن و سنت کے حوالے سے یہ صورت جائز ہے؟
ج: بنک لمٹ (bank limit) کی جو صورت آپ نے بیان کی ہے یہ واضح طور پر ایک قرض کا معاملہ ہے۔ آپ بنک سے قرض لیتے ہیں‘ اسے خواہ loan کہا جائے یا limit کی صورت ہو‘ صرفی مقاصد کے لیے ہو یا کاروباری مقاصد کے لیے‘ شرح سود/مارک اَپ کم ہو یا زیادہ‘ ربا کی تعریف میں آتا ہے۔
ربا کی تعریف یہ ہے: قرض کے معاملے میں اصل مال پر بڑھوتری۔ اسی طرح اگر ایک شخص (یا ادارے) کا کسی دوسرے شخص (یا ادارے) کو قرض دینا‘ جب کہ شرط یہ ہو کہ اتنی مدت گزرنے کے بعدوہ اس پر اتنی زائد رقم وصول کرے گا تو یہ بھی ربا ہے۔قرض کے معاملے پر بڑھوتری کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی خاص مدت (جیساکہ آپ نے لکھا کہ آپ کو پورے ماہ کا مارک اَپ نہیں دینا پڑتا) کے لیے ہو تو اسی صورت میں سود ہوگا۔ مزیدبرآں آج کل ہماری منڈیوں خاص طور پر غلہ منڈیوں میں زیادہ تر کاروبار اسی لمٹ کے پیسے سے ہورہا ہے۔ بہرطور قرض کے کسی بھی معاملے میں جہاں اضافی رقم کی ادایگی کی شرط ہو‘ سود/ربا ہے۔ اس لیے اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے اس سے بچنا ہرمومن پر فرض ہے واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)
س: ہمارا گھرانہ ایک دینی گھرانہ ہے۔ والدین نے ہماری تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ فہم دین‘ صحیح اور غلط کی تمیز اور حلال و حرام کا شعور دیا ہے۔ مگر اس تمام تر تربیت اور اچھے ماحول کے باوجود ہمارے دو بھائی جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں اس نے گھر کا سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف وہ گھر سے باہر دعوتِ دین کا کام کرتے ہیں اور دوسری طرف لڑکیوں سے راہ و رسم بڑھا رکھی ہے۔ فون پر لمبی لمبی گپ شپ کرتے ہیں‘ تحائف کا تبادلہ‘ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی ہے۔ اگر اعتراض کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارا ذاتی فعل ہے اور پسند کی شادی کرنا گناہ تو نہیں۔ یہ دیکھ کر والدہ اور ہم بہنوں کو بہت دکھ ہوتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک ہی گھر میں تربیت پاتے ہوئے کردار کااتنا فرق حیران کردیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ :
کیا اللہ تعالیٰ نے چوری چھپے آشنائی سے منع نہیں فرمایا‘ اور اس کے مرتکب عذاب کے مستحق نہیں؟
کیا غیرمحرموں سے دل لگی کی باتیں کرنا زبان اور دل سے زنا کا ارتکاب نہیں ہے؟
کیا اس طریقے سے پسند کی شادی کی راہ ہموار کرنا درست ہے؟ اگر اس طرح سے کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے توہم اس کو عزت و احترام کا مقام نہیں دے سکتے۔ اگر نہ دیں تو کیا یہ غلط ہوگا؟
ج:آپ کے مفصل خط میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بعض انتہائی مہلک رجحانات کے حوالے سے جو سوالات اُٹھائے ہیں‘ وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس ضمن میں چندنکات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:
۱- قرآن کریم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بڑے گناہوں سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے‘ ان میں چوری چھپے یا بغیر چوری کے آشنائی اپنی شدت کے لحاظ سے کفروشرک سے کم تر نہیں کہی جاسکتی ہے۔ ایک حدیث صحیح میں یہ بات بیان فرمائی گئی ہے کہ جب ایک شخص زنا کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو اس کے قلب میں ایمان موجود نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ یہ فعل کرتے وقت کفر کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اللہ تو اپنے بندوں کو پاک بازی‘ عبادت اور تقویٰ کا حکم دیتا ہے‘ جب کہ شیطان فحش‘ منکر اور ظلم و شرک کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص جب زنا کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو وہ شیطان کی مرضی پوری کرتا ہے اور اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کررہا ہوتا ہے۔ گویا کہ اس لمحے وہ شیطان کا بندہ بن کر ہی یہ کام کرتا ہے۔
جہاں تک سوال عذاب کا ہے‘ عذاب اور اچھے اجر کا اختیار صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہے۔ ہم یہ بات تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے مشاہدے اور تحقیق کی روشنی میں فلاں شخص نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے لیکن اس کا آخری فیصلہ رب کریم ہی کرے گا۔ یہ نہ میرے اور آپ کے سوچنے کا مسئلہ ہے‘ اور نہ اس پر کوئی مثبت یا منفی رائے ایسے فرد کے آخرت میں حساب کتاب پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
۲- کسی غیرمحرم کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا یا لگاوٹ کی بات کرنا زنا ہی کی ایک شکل ہے۔ گو‘ ایسے کام میں پوری گنجایش ہوتی ہے کہ اگر ایسے فعل کا عملاً ارتکاب نہیں کیا گیا اور توبہ و استغفار کو اختیار کرلیا گیا تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔
۳- کسی کا یہ کہنا کہ اگر وہ برائی کا ارتکاب کر رہا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے اور اس کی بہن‘ ماں‘ باپ‘ بھائی‘ دوست یا کسی اور مسلمان کو اس پر نہ پریشان ہونا چاہیے‘ نہ اس سے بازپرس کرنی چاہیے‘ ایک مکمل غیراسلامی رویہ ہے۔ قرآن کریم نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے اولیا ہیں جو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو نصیحہ‘ یعنی بھلائی کی طرف متوجہ کرنا‘ اصلاح اور برائی سے روکنے اور نیکی کی طرف راغب کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
اسلام کا بنیادی نقطۂ نظر جو دیگر مذاہب سے مختلف ہے‘ یہی ہے کہ یہاں مسئلہ ایک شخص کی ’ذاتی نجات‘ (personal salvation)کا نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کے الفاظ میں اپنے نفس اور اپنے اہلِ خانہ کو جہنم کی آگ سے بچانے کا ہے۔ اس لیے بھائی بہن ہوں یا اولاد یا پڑوسی یا اجنبی مسلمان‘ جب بھی اور جہاں بھی برائی نظر آئے اس کی اصلاح اور بھلائی کی حمایت و تقویت قرآنی حکم ہے۔ آپ کے بھائی صاحب کا خیال بالکل درست نہیں ہے۔
۴- آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اپنی پسند کی شادی کے نتیجے میں خاندان کے دیگر افراد آنے والی لڑکی کا وہ استقبال نہیں کرسکتے جو وہ مشورے کے بعد ایک لڑکی کے انتخاب کی شکل میں کریں گے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ اس کے باوجود اپنی پسند کا اظہار کرنا لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے ضروری ہے۔ دین کا غالب رجحان یہی ہے کہ شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب میں والدین اور اعزہ کے حق کو تسلیم کیا جائے۔
۵- شادی سے قبل یا بعد‘ غیرمحرم سے بات کرنے کا حکم یکساں ہے۔ قرآن کریم نے اُمہات المومنینؓ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ اصول بیان کیا ہے کہ وہ کسی سوال کرنے والے کا جواب ایسے لہجے میں دیں جس میں لگاوٹ نہ ہو۔ بات صرف اتنی ہو جتنی ضرورت ہے‘ بلاوجہ حکایت کو طول دینے کی ممانعت ہے۔ اگر ایک کالج یا یونی ورسٹی میں ایک لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے سے کسی درسی موضوع پر بات کرتے ہیں تو یہ بات حرام نہیں ہوگی۔ ہاں‘ اگر اس کا مقصد دوستی پیدا کرنا‘ لطائف کا تبادلہ کرنا اور اس طرح بے تکلفی پیدا کرنا ہے تو یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی اور حرام ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ایک ہی گھر میں تربیت پانے کے باوجود کردار کا یہ فرق کیوں‘ تو اس میں بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہرشخص حالتِ امتحان میں ہے۔ ہرایک کو اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہونا ہے۔ لازمی نہیں کہ باپ کے راستے پر بیٹا بھی چلے۔ حضرت نوحؑ کے بیٹے کی مثال معروف ہے۔ ایسے میں آپ کو خدا کے ہاں جواب دہی اور اخلاقی ذمہ داری کا احساس دلانا چاہیے۔ اس کے علاوہ خاندان کے بزرگوں کو بھی توجہ دلانی چاہیے اور معاشرتی دبائو بھی بڑھانا چاہیے۔ کوئی تادیبی اقدام بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں منفی معاشرتی رجحانات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)