حافظ نعیم الرحمٰن


جماعت اسلامی ایک نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر قائم ہونے والی تحریک ہے۔اس میں ہرزبان، ہرمسلک، ہر علاقے، ہر نسل اور ہر برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہی فکری رنگ میں رنگے ہوئے، اکٹھے ہوتے، سوچتے سمجھتے اور تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ تزکیہ و تربیت کا انتظام ہوتا ہے اور پھر وہ دعوت اور اقامت ِدین کے سفر پر سرگرم ہوجاتے ہیں اور اس راستے کے سرد و گرم کو انگیز کرتے ہیں۔ ہماری یہ معتدل اجتماعیت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔

  • جدوجہد کی اساس اور بنیاد: اہم بات یہ ہے کہ ہمارے دین کا یہ تصور صرف ملک اور قوم تک محدود نہیں ہے اور کسی علاقے یا جغرافیے کی قید میں بھی نہیں ہے۔ ہم ایک عالمگیر آفاقی سوچ کے حامل ہیں، امت کا تصور رکھنے والا قافلہ ہیں۔ امت کا یہ تصور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محسن انسانیتؐ کے اسوئہ حسنہ کی صورت میں ہمارا اثاثہ ہے۔ ہم اس سوچ پر کاربند ہیں کہ جو اسلام چاہتا ہے، جو دین چاہتا ہے، جو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں، وہی ہمارا مقصود ہے۔

جب ہم دین کا کوئی کام کرتے ہیں تو اس کام کے ساتھ بار بار کی ایک تذکیر اور باربار یاددہانی ہوتی ہے۔ ہم دین کی اقامت کی جدوجہد کرنے والے بے لوث لوگوں کا قافلہ ہیں۔ اللہ نے امت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم تو اُمتِ وسط ہو۔ ایک ایسی امت جس کا کام حق کی گواہی دینا ہے (البقرہ ۲:۱۴۳)۔ بحیثیت مجموعی امت کی یہ منصبی ذمہ داری کارِنبوت کو آگے بڑھانا ہے۔ لیکن جب امت تقسیم ہوگئی، تفریق کا نشانہ بن گئی، پو را نظام ٹوٹ گیا، اجتماعیت بکھر گئی،ایسی صورتِ حال کا تقاضا ہے اس میں ایسا گروہ موجود ہونا چاہیےجو یہ فریضہ انجام دے۔ الحمدللہ،   تمام کمیوں، کمزوریوں کے باوجود ہم اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے بندگانِ خدا کے سامنے موجود ہیں اور ان کے دل ودماغ کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔

اسی تصور پر جماعت اسلامی قائم ہوئی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی ’ریاست‘ یا ’الجماعۃ‘ کے متبادل نہیں ہے۔ تاہم،مسلمانوں کا ایک دینی، اجتماعی اور سیاسی نظام جماعت کی صورت میں قائم کرکے جدوجہد کرنے والے ہیں۔ اتنے بڑے اور نازک کام کے لیے نظم وضبط اور تنظیم کی ضرورت ہے۔ اجتماعیت اور سمع و طاعت کے ایک نظام کی ضرورت ہے۔ اگر وہ نظام نہیں ہوگا تو یہ اجتماعی جدوجہد نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا، یہ بات جماعت کے وابستگان کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وہ محض کسی ایسی جماعت کے لیڈر یا کارکن نہیں ہیں کہ جن کے پیش نظر وقتی سیاست کو انجام دینا ہو۔ اس میں محض الیکشن یا کوئی اور مہم پیش نظر ہو، یا مقصد محض یہ ہو کہ پارٹی جیت جائے۔ اس جدوجہد کا یہ ذریعہ ضرور ہے، مگر مطلوب و مقصود نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ان معنوں میں سیاسی جماعت نہیں ہے جس طرح سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔

درس و تدریس اور فہم قرآن کی نشستیں، تربیتی و تذکیری پروگرام، تنظیمی اجتماعات، سیاسی جلسے، جلوس اور احتجاج، سب اقامت ِ دین اور غلبۂ دین کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ ہمارے نزدیک سیاست ایک دینی تقاضا ہے۔ نفاذِ شریعت اور اسلامی نظامِ حکومت کا قیام اُمت کا فرضِ منصبی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ہے جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارا اوّل و آخر حوالہ دینِ اسلام ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کی لائی ہوئی شریعت اور نظام ہے۔ ہمیں اسی راستے کے مطابق اس نظام کی تعمیر کرنا ہے۔ جب مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی تھی تو ان کے پیش نظر یہی تھا کہ ہم ان معنوں میں سیاسی نہیں جس طرح دوسرے سیاسی ہیں، اور ان معنوں میں مذہبی نہیں ہیں جس طرح دوسرے مذہبی ہیں۔ ہم دین کا وہ تصور رکھتے ہیں، جس میں دین زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔اس نسبت سے ہماری ڈیوٹی اور فریضہ یہ ہے کہ دین کے قیام کی جدوجہد کریں۔ ہم کوشش کرنے اور وقت دینے، مال خرچ کرنے اور جان کھپانے کے مکلف ہیں، اللہ نے جو صلاحیتیں دی ہیں، انھیں دین کے لیے استعمال کرنے کے مکلف ہیں، اور غلبۂ دین کی منزل کے حصول کی جدوجہد کے مکلف ہیں، دین کو نافذ کر دینے کے مکلف نہیں ہیں، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوگا، ان شاءاللہ۔

عملی میدان میں سامنے آنے والی بعض ناکامیوں کو ہم زندگی کا ایک سبق آموز تجربہ سمجھتے ہیں، اور ایسے صدمات یا تلخیوں کا سامنا کرکے جدوجہد نہیں چھوڑیں گے، بلکہ غلبۂ دین کے لیے حکمت عملی بھی بنے گی اور اس پر عمل درآمد کی کوشش بھی ہوگی، ان شاء اللہ۔ لہٰذا فرداً فرداً ہر کارکن اور ہر ذمہ دار یہ سوچے کہ وہ جس منصب پر ہے، اسے اپنی زندگی کی ترجیحات میں اقامتِ دین کی جدوجہد کو شامل کرنا ہے۔ ہم سب کو اپنا جائزہ لینا ہے۔ اپنے اوقاتِ کار کا، ذہنی، جسمانی اور عملی ترجیحات کا۔ ہرکسی کا گھر ہے، بیوی بچے ہیں، کئی سارے کاروبار ہیں، ملازمت ہے، معاملات ہیں، تجارت ہے، زمینداری ہے، دکان ہے، جو بھی متعلقات ہیں، ان میں حلال اور جائز طریقے سے آگے بڑھنا ہے، حق کا گواہ بننا ہے اور اس گواہی کا اہل بننا ہے۔

ہمیں زندگی کی ترجیحات میں اولین اہمیت اقامت ِدین کے کام کو دینی ہے۔ اگر ہمارے ذہن میں یہ اوّلین ترجیح تازہ ہے تو ہم دین کو سمجھے ہیں اور اس کے صحیح فہم کا ہمیں ادراک ہوا ہے، اور جماعت اسلامی کے ساتھ شعوری طور پر ہم وابستہ ہوئے ہیں۔ اور اگر یہ سوچ ترجیحِ اوّل نہیں ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اور دنیا کے کام کر رہے ہوتے ہیں، تو جماعت اسلامی بھی ان کاموں میں سے ایک کام ہے۔ جماعت اسلامی اس لیے تو نہیں بنی ہے، اور آپ اس لیے تو اس سے وابستہ نہیں ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی تو اپنے وابستگان سے یہ کہتی ہےکہ وہ اپنی زندگی کی ترجیحات میں دین کو شامل کریں بلکہ اسے ترجیحِ اوّل بنائیں۔

جب چاروں طرف باطل کی حکمرانی ہو، ظلم کا نظام طاقت ور ہو، زمین اور معاشرہ فساد سے بھرے ہوں، مظلوموں کی داد رسی کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ جب معیشت پر عالمی اور قومی ساہوکاروں کا قبضہ ہو۔ تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریاتِ زندگی چند ہاتھوں کے قبضے اور تصرف میں سمٹتی جارہی ہوں۔ ہماری تہذیب اور ثقافت تک مغلوب ہو، تو ایسے ماحول میں اقامت ِ دین کا کام ایک بندئہ مومن کے لیے زندگی کے بہت سے کاموں میں سے ایک کام نہیں رہتا۔ سنن و نوافل کے درجے میں نہیں، فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا کی حاکمیت اور اس کے دیئے ہوئے نظامِ زندگی کے مقابلے میں انسانوں اور طاقت وروں کی بالادستی کا نظام قبول کیا جائے۔ یہ دوئی شرک ہے جس کا ابطال و استرداد ہرمسلمان پر فرض ہے۔

اسی فرض کی ادائیگی کے لیے ہم جماعت اسلامی میں ہیں۔ یہ ایک ہمہ گیر، ہمہ جہت، پیہم، پُرامن اور برسرِ زمین جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ جدوجہد فرد، خاندان، معاشرہ اور نظام، ہرسطح پر بیک وقت اور متوازی کام کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ یہ رائے عامہ کی ہمواری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ پتّہ ماری کا کام ہے۔ یہ سوچ فکر اور عمل پر حاوی کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی چیز کو ترجیحِ اوّل کہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہرفرد کو ہر وقت ہاتھ پکڑ کر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ آپ کی ترجیح کس طرح سے پوری ہوگی؟سب سے بڑا منصف تو انسان خود ہوتا ہے۔ ہر فرد جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ بندوں کے سامنے تو کم یا زیادہ کی رپورٹ دے سکتے ہیں، لیکن اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ خود بندہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے اور جواز پیدا کرنے کےلیے خود بخود کچھ چیزیں طے کرلیتا ہے اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کےلیے مختلف وجوہ تراش لیتا ہے۔

  • قومی صورتِ حال : قومی انتخابات کسی بھی ملک کے لیے استحکام اور ایک نئے دور کی علامت سمجھے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں الیکشن سے نئے انتشار کا جنم لینا ایک روایت بن گیا ہے۔ ۸فروری ۲۰۲۴ء کو عوام بالخصوص نوجوانوں نے جس جوش و خروش سے انتخابات میں حصہ لیا۔ اسے ملک و قوم کو آگے بڑھانے کےلیے ایک موقع بنایا جا سکتا تھا، مگرفارم ۴۷ کی بنیاد پر حکومت بنانے کے ذریعے ملک کوایک نئے انتشار اور عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا گیا۔

ظاہر سی بات ہے کہ ناجائز طریقے سےبننےوالی حکومت کو اپنی بقاکے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی ۔ حکمرانوں اور پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کوپرانی سیاسی شعبدہ بازی سے فرصت نہیں ہے، مگر عوام کسی کے ایجنڈے پر نہیں ہیں۔ ایک پارٹی کےلیے کسی کی توسیع اہم ہے، دوسری پارٹی کو حکومت میں اپنا حصہ بڑھانا اہم ہے اور مزید مراعات حاصل کرنے کے لیے دن رات جوڑ توڑ کرنا ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ کسی کو سینیٹ کی سیٹیں اور گورنرشپ درکار ہے،کسی کو کچھ اور وزارتیں چاہئیں، کہیں من پسند فیصلے درکار ہیں، کہیں ہاری ہوئی سیٹوں کو برقرار رکھنا سب سے بڑا ’قومی مقصد‘ ہے۔کسی کو اس چیز کی فکر ہے کہ دستور میں من مانی تبدیلیاں ٹھونسے اور کوئی اس بات کے لیے سرگرم ہے کہ میرا بھائی، بھتیجا یا میرے مقدمات لڑنے والا وکیل اعلیٰ عدلیہ کا جج بنے۔

جماعت اسلامی نے ملک اور عوام کی موجودہ ناگفتہ بہ حالت کو سامنے رکھ کر ایک قومی ایجنڈا ترتیب دیا۔ آئین کی بالادستی، جمہوری آزادیاں، عوامی رائے کا احترام، انتخابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت، بنیادی ضروریاتِ زندگی کا حصول، خواتین، نوجوانوں، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق، بین الاقوامی اداروں کی مسلط کردہ معاشی پالیسیوں سے آزادی اس ایجنڈے کے اہم نکات ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی، فلسطین و کشمیر کی آزادی اس کی اہم بنیاد ہے۔

اقتدار، مفادات اور مراعات کے اس بےرحمانہ کھیل میں عوام بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایک دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے۔ بجلی گیس کے بلوں کی صورت میں برسنے والے بموں، بھاری ٹیکسوں اور بڑھتی مہنگائی وبےروزگاری کےخلاف نہ کوئی کھڑا ہو رہا ہے اور نہ کسی کے ایجنڈے میں یہ شامل ہے۔

جماعت اسلامی نے بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے راولپنڈی میں ۱۴ روزہ دھرنا دیا،اور پھر ۲۸؍ اگست کو پاکستان بھر میں ہڑتال کی تاکہ اس مسئلے پر قومی دُکھ اور درد کو قومی مطالبے کی شکل میں حکمران طبقوں کے سامنے اُٹھایا جاسکے۔ اس طرح جماعت اسلامی نے پوری قوم کو مجتمع کیا، شہریوں، تاجروں اورصنعت کاروں کی آواز بنی۔

اس تحریک کا مقصد عوام کے لیے ریلیف حاصل کرنا ہے۔چند خاندانوں پر مشتمل مٹھی بھر حکمران اشرافیہ مفادات کی ایک ڈوری سے بندھی ہے۔ یہ اقلیت حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، ایک دوسرےکومدد اور تحفظ فراہم کرتی ہے،جب کہ عوام کے پاس ظلم سہنےکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جماعت نے عوام کو متحد کرکے اس مافیا کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب لوگ اُٹھ کھڑے ہوںتو کوئی ان کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ جماعت اسلامی اورعوام کا اتحاد رنگ لائے گا،حکمران اشرافیہ کو حق دینا پڑے گا یا رخصت ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ اور حل ان کے پاس نہیں ہے۔

بجلی کے بلوں میں کمی، آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی،پیٹرول پر لیوی اور ٹیکسوں میں کمی، تنخواہوں پر اضافی ٹیکس ، برآمدات اور صنعت و تجارت پر ناجائزٹیکس کی واپسی، جاگیرداروں پر ٹیکس کا نفاذ، ارکان اسمبلی، فوجی افسران، ججوں اور سرکاری اداروں کی لگژری گاڑیوں، مفت پیٹرول، بجلی کا خاتمہ___ ہماری ’حق دو تحریک‘ کے یہ مطالبات ہر شہری کے دل کی آواز ہیں۔ قوم مزید مہنگی بجلی اور آئی پی پیز کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔تنخواہ دار طبقہ اورتاجر زبردستی کا ٹیکس ادا نہیں کرسکتے۔ ریاستی سطح پر یہ معاشی دہشت گردی بند کرنی پڑے گی۔

حکمران طبقوں کو اپنی عیاشیاں ختم اور مراعات کم کرنی ہوں گی، فری پیٹرول، فری بجلی کی سہولت کا خاتمہ کرناہوگا، گاڑیاں چھوٹی کرنی ہوں گی، بڑے بڑے جاگیرداروں پہ ٹیکس لگانا ہوگا، اور ان آئی پی پیز سے قوم کی جان چھڑانی ہوگی، جنھیں دو ہزار ارب روپے سے زیادہ اُس بجلی کے نام پر دیے جا رہے ہیں، جو سرے سے بن ہی نہیں رہی۔ اور بات صرف کیپسٹی پیمنٹ کی نہیں بلکہ انکم ٹیکس میں بھی سیکڑوں ارب روپے کی چھوٹ حاصل کی گئی۔ تنخواہ دار طبقے سے انکم ٹیکس بڑھا چڑھا کر وصول کرنا لیکن آئی پی پیز کو چھوٹ دے دینا، یہ ستم مزید جاری نہیں رہ سکتا۔

تماشا دیکھیے کہ ۲۰۱۸ء تک تو یہ بات ریکارڈ پر آ جاتی تھی کہ آئی پی پیز کو انکم ٹیکس میں کتنی رقم کی چھوٹ ملی، اس کے بعد تو مجرمانہ انداز سے ان اعداد وشمار پر بھی پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کا پہلے کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہوسکتی، مگر جماعت اسلامی کی مسلسل احتجاجی مہم کے نتیجے میں نہ صرف اب بات چیت ہو رہی ہے، بلکہ کچھ آئی پی پیز نے پاکستانی روپے میں ادائیگی وصول کرنے اور بجلی کا نرخ کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔کچھ آئی پی پیز بند کردی گئی ہیں۔ کئی آئی پی پیز سے Take or Pay یعنی خرچ کے مطابق ادائیگی کے معاہدے ہورہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت اہم اور بڑی پیش رفت ہے۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو جاتا ہے۔ باقی آئی پی پیز کو بھی سامنے آنا اور قوم کا ساتھ دینا چاہیے، وہ یہ کریں گے تو پھر بیرونی کمپنیوں سے بھی بات ہو سکے گی۔

عوامی حقوق کی بازیابی کی اس جدوجہد کو ہر صورت آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنی ذات اورپارٹی کےلیے کچھ نہیں چاہیے، کوئی انتخابات سر پر نہیں ہیں کہ ہماری اس مہم کو انتخابی عمل سے جوڑا جائے، نہ یہ سیٹوں، وزارتوںاور عہدوں کی تقسیم اور حاصل کرنے کا کوئی معاملہ ہے۔پُرامن آئینی، قانونی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے عوام کو ریلیف دلانا ہی ہماری اوّلین ترجیح ہے اور عوام کو اس جدوجہد کا حصہ بنانا ہمارا ہدف ہے۔

  • مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرنے کا روّیہ :آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد تحریک پاکستان سے بھی پہلے سے جاری ہے۔ ۱۹۳۱ء میں اس کا تب آغاز ہواتھا، جب سری نگر سینٹرل جیل کے باہر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کرکے۱۷کشمیریوں کو شہید کیا تھا۔اس کے بعد آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے۱۴؍ اگست ۱۹۳۱ ءکو یوم کشمیر منایا تھا اور سیالکوٹ جلسہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰ ءکو قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تو اہل کشمیر نے اس کی حمایت کی، اور اس اُمید پر جانوں کی قربانی پیش کی کہ برطانوی راج کےخاتمے کے بعد وہ آزاد پاکستان کا حصہ ہوں گے۔ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے تحت کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا تھا ، مگر ڈوگرہ مہاراجا کےجعلی الحاق کا بہانہ بنا کر ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کوبھارتی فوج نے سری نگرپر قبضہ کیا توکشمیر کی مسلمان اکثریت نے اس جارحیت کو مسترد کر تے ہوئےاس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ بھارت کو اپنی شکست نظر آئی، تو جنوری ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ جا پہنچا اور وہاںمنظور ہونے والی قرارداد میں اہل کشمیر کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کیا گیا، لیکن بعد ازاں اس سے مکر گیا، اور آج تک اس سے انکاری ہے۔

آج ۷۷سال گزرنے کے بعدبھی یہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے بھارت کی تقریباً ۹لاکھ ملٹری و پیراملٹری فورسز وہاں موجود ہیں۔اس عرصے کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان وہاں شہید ہوئے، ہزاروں عفت مآب خواتین کی عزت پامال ہوئی ، ہزاروں زخمی اور معذور ہوئے، بڑے پیمانے پر گھروں کو مسمار کیا گیا ، کاروبار اور املاک کو تباہ کیا گیا۔ ہزاروںلوگ جیلوں میں قیدہیں، ہزاروں جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔بےشمار کشمیری نوجوان اور بچے بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو ئے ہیں۔

یہ سب کچھ اہل کشمیر کے حوصلے پست نہ کر سکا،تو ۵؍اگست۲۰۱۹ءکو انڈین دستور کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے کےذریعے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کرکے وہاںپر ظلم و ستم کے ایک نئے دور کا آغاز کیا گیا۔ اس اقدام کے بعد دو سال سے زائد عرصہ تک وادیٔ کشمیرمسلسل لاک ڈاؤن، کرفیو ، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی ذرائع کی بندش کی زد میں رہی۔ اسےدنیا کے سب سے بڑے جیل خانہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ کشمیر سمیت بھارت کی جیلیں بھی معصوم کشمیریوں سے بھردی گئیں،جب کہ نمایاں سیاسی رہنماآج تک قید اور نظربند ہیں۔ اس طرح بھارتی فوج اور پولیس دونوں مل کر کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

جبر، تشدد اور خوف کےاس ماحول میں اہل کشمیر کی جرأت و استقامت کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے بھارتی فسطائیت کے سامنے جھکنے اور حقِ خودارادیت سے دست بردار ہونے سے انکار کیا ، اور بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘ کانعرہ لگانے والے نوجوان پاکستانی بن کرزندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ایک صدی ہونے کو آئی ہے، اہل کشمیر تحریک ِآزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔  یہ امر صدمے کا باعث ہے کہ حکومتی ترجیحات میں مسئلہ کشمیر مرکزی اہمیت کا مقام پاتا دکھائی نہیں دے رہا۔

ایسے وقت میں، جب کہ بھارت میں ہندو نسل پرستانہ ذہنیت کی حکمرانی ہے، مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ بھارتی وزرا آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ نریندرمودی کا لہجہ ہتک آمیز ، تکبر اور رعونت سے بھرا ہوا ہے۔بھارت نہ صرف مذاکرات سے انکاری ہے، بلکہ بلوچستان سے فاٹا تک پاکستان کے قومی وجود کو نقصان پہنچانے کےلیے تمام حربے استعمال کر رہا ہے۔

پاکستان نے یک طرفہ طور پر ’کرتارپور کوریڈور‘ معاہدے کی اگلے پانچ برسوں کے لیے تجدید کر دی ہے، اور ہماری حکمران جماعت کی طرف سے بھارت کے ساتھ مذاکرات، تجارت، محبت اور دوستی کی باتیںتسلسل کے ساتھ سامنے آرہی ہیں۔ کشمیریوں کے خون اور قربانیوں کو نظرانداز کرکے تجارت کیونکر ہو سکتی ہے؟کشمیری شہید ہو رہے ہوں، تو مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اس پرقومی اتفاق رائے موجود ہے۔ اسے نظرانداز اور کشمیریوں کی تمناؤں کا خون کرکے کسی کی ذاتی پسند کے تحت اگر معاملات آگے بڑھیں گے تو وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ’مسئلہ کشمیر‘ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا حل۔ یہ کشمیری عوام کا مطالبہ اور پاکستان کا اصولی موقف ہے۔ اس کے بغیر خطے میں نہ امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ دوستی کا کوئی خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے ساتھ اس پر معاہدہ ہوا ہے۔ پاکستانی قوم اس کی پشت پر ہے، اور ہرطرح کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ حکومت پاکستان ایک فریق کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔عالمی سطح پر بھرپور سفارتی مہم کے ذریعے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی ظلم و ستم کو اُجاگر کیا جائے۔ عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی، اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے سامنے یہ مسئلہ پیش کر کے بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ اہل کشمیر حقِ خودارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔

  • اہل فلسطین کا عزم اور پکار: اس وقت جو صورتِ حال فلسطین اور غزہ میں ہے، اس ساری صورتِ حال میں جو لوگ مزاحمت کر رہے ہیں درحقیقت وہ پوری اُمت کی طرف سے فرض ادا کررہے ہیں۔ فلسطین اور مسجد اقصٰی کی آزادی کے لیے مزاحمت کرنے والے یہ بہت عظیم لوگ ہیں اور اُمت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ لیکن اُمت اور انسانیت کا دشمن انھیں دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ دہشت گرد قرار دینے والا امریکا خود کتنا بڑا دہشت گرد ہے، اس کی تعمیر میں ریڈ انڈین کے قتل عام اور نسل کشی کس کو بھولی ہے؟ ویت نام، ہیروشیما ، ناگاساکی، عراق، افغانستان اور پوری دُنیا میں ایسے گروہوں کی سرپرستی جو قتل عام کرتے ہیں، حکومتوں کے تخت اُلٹنا، جمہوریتوں کو پامال کرنا، ڈکٹیٹروں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنا، یہ وہ کام ہیں جوامریکا کرتا چلا آیا ہے اور تمام تر مظالم ڈھا کر حماس کو دہشت گرد تنظیم کہتا ہے۔

حماس کی پوزیشن یہ ہے کہ یہ فلسطین پر ناجائز قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انھیں یہ حق حاصل ہے کہ غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ پھر حماس محض مسلح جدوجہد کرنے والا گروہ نہیں ہے، بلکہ ایک جمہوری قوت ہے اور فلسطینی اتھارٹی کے لیے جب انتخابات منعقد ہوئے تو حماس نے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔ اسماعیل ہنیہ شہید وزیراعظم منتخب ہوئے۔ لیکن امریکا اور اسرائیل نے اپنے دوست مسلم ممالک سے مل کر حماس کو اقتدار میں نہیں رہنے دیا۔اس سب کے باوجود مسلم حکمرا ن اسرائیل کے خلاف مزاحمت نہیں کر رہے، اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اس تمام تر جبر کے باوجود کہ ۴۵ ہزار سے زائد بچّے، بوڑھے، جوان، خواتین، خاندان کے خاندان شہید ہوچکے ہیں لیکن پوری قوم بحیثیت مجموعی تہیہ کیے ہوئے ہے کہ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، دستبردار نہیں ہوں گے اور اسرائیل کا قبضہ تسلیم نہیں کریں گے اور مزاحمت جاری رکھیں گے۔ عزیمت کی ایک تاریخ ہے جو اہل فلسطین رقم کر رہے ہیں!

اہل فلسطین اُمت مسلمہ اور دُنیا کے انصاف پسند لوگوں کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کاش! دُنیا کے حکمرانوں کی بے حسی ، انسانیت کا رُوپ دھار سکے۔