یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’موجودہ زمانہ دُنیا کا ترقی یافتہ ترین اور حددرجہ مہذب عہد ہے‘، مگر یہ کیا کہ پندرہ ماہ تک آسمان سے آگ اور بارود برستا رہا، انسانی جسموں کے چیتھڑے اُڑتے رہے، مریضوں کی دوا اور شہریوں کے لیے خوراک، پانی اور چھت تک ناپید ہوگئے۔ بڑی اور کھلی جیل کے لاکھوں انسانوں پر موت، دن رات جھپٹتی رہی۔ دُنیا بھر کے انسان چیخ اُٹھے کہ ظلم بند کرو، مگر امریکی اور مغربی قیادتوں کی پشت پناہی درندہ صہیونیت کا راستہ روکنے کے بجائے وحشت کی سرپرستی کرتی رہی۔ فلسطین کا مسئلہ پاکستان کے لیے محض ایک بین الاقوامی معاملہ نہیں بلکہ دینی، اصولی اور قومی سلامتی کا معاملہ بھی ہے۔ جس طرح کشمیر، پاکستان کی ریاستی پالیسی کا ایک غیر متزلزل حصہ ہے اور اس پہ تاریخی طور پر مکمل قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور انڈیا نے اس پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، بالکل اسی طرح فلسطین کے حوالے سے بھی پاکستان کی ریاستی اور عوامی پالیسی بالکل واضح ہے۔
فلسطین، فلسطینیوں اور عربوں کی سرزمین ہے اور اسرائیل کا اس پر قبضہ سراسر ناجائز ہے۔ یہ مسئلہ تقریباً ۱۲۵ برسوں پر محیط ہے۔ فلسطینی عوام نہایت بہادری اور استقامت کے ساتھ قربانیاں دے رہے ہیں۔ انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہے، اور پوری دنیا سے صہیونیوں کو لا کر وہاں آباد کیا جا رہا ہے، جو بہت بڑا ظلم اور انسانی تاریخ کا المیہ ہے۔
یہ معاملہ ۱۸۸۰ء کے عشرے میں اس وقت شروع ہوا جب یورپ کے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۸۹۷ء میں’صہیونی تحریک‘ کے آغاز کے بعد اس عمل میں تیزی آگئی، اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے محروم کر کے ان پر ظلم وجبر کیا جا رہا ہے۔یہ ظلم اور ناانصافی ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکتی۔ ہمارا فرض ہے کہ مسلمان،پاکستانی اور انصاف پسند انسان کی حیثیت سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں ہر ممکن اقدام کریں اور ان کے حق کے لیے آواز بلند کریں۔
۱۹۱۷ء کا ’اعلانِ بالفور‘ انسانی تاریخ پر ایک سیاہ دھبہ ہے جس کے تحت یہودیوں اور صہیونیوں کو طاقت، دھونس اور جبر کے زور پر یہاں لا کے بسانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پھر اس شیطانی منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا۔ ازاں بعد ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل نے یک طرفہ طور پر اپنی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا، اور جب فلسطینیوں نے اس پر ردِ عمل کا اظہار کیا، تو انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔
آج کچھ لوگ تمام حقائق کی نفی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ’’اس معاملے میں جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ حماس کے اقدامات پریشانی کا باعث بن رہے ہیں‘‘۔ یہ بات ہر خاص و عام پر واضح رہنی چاہیے کہ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کا واقعہ کسی علیحدہ اور غیر متعلقہ عمل کا نتیجہ نہیں تھا۔ فلسطین کے اس المیے کی تاریخ۷؍ اکتوبر سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس وقت سے چلی آ رہی ہے جب فلسطینی سرزمین پر باہر سے لا کر لوگوں کو بسایا گیا اور پھر ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا، ہزاروں کو شہید کیا گیا، عورتوں اور بچوں کا قتل عام ہوا، اور اسرائیل نے اسی وقت سے نسل کشی اور دہشت گردی کا آغاز کر دیا تھا۔
تب سے لے کر آج تک فلسطینی مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوان اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جہاں سے ان کی رہائی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ حالیہ جنگ بندی کے دوران ایسے قیدی رہا کیے گئے، جو۱۶،۲۰ یا ۲۵ سال بعد جیل سے باہر آئے۔ اگر حماس نے ۷؍ اکتوبر کا اقدام نہ کیا ہوتا، تو کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ فلسطینیوں کی آواز دنیا تک پہنچتی؟ جب لاکھوں افراد کو جیل میں ڈال دیا جائے، غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ بنا دیا جائے، ان کے تعلیمی اور معاشی مواقع برباد کر دیے جائیں، ہر وقت ان پر نگرانی رکھی جائے، اور انھیں کسی قسم کی بھی طبّی امداد نہ پہنچنے دی جائے، تو ایسے حالات میں ہر غیرت مند، باضمیر اور ایمان رکھنے والا شخص مزاحمت کرے گا۔ یہی وہ حق ہے جو حماس نے استعمال کیا ہے۔
حماس کے اقدامات نہ صرف دینی اور شرعی لحاظ سے درست ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی بالکل جائز ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اگر کسی علاقے پر قابض قوت موجود ہو، تو اس کے خلاف مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ فلسطین پر نہ صرف غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے بلکہ قابض فوج مسلسل فلسطینیوں کو شہید کر رہی ہے۔
امریکا، جو خود کو عالمی انصاف اور جمہوریت کا چیمپئن کہتا ہے، وہ ہر جگہ اپنی مرضی کی حکومتیں چاہتا ہے۔ اسے وہ جمہوریت پسند نہیں آتی جس میں حماس الیکشن جیت جائے، اسے وہ جمہوریت پسند نہیں جہاں اخوان المسلمون کامیاب ہو، یا الجزائر میں اسلامی فرنٹ اکثریت حاصل کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا صرف ان آمریتوں اور حکومتوں کی حمایت کرتا ہے، جو اس کے مفادات کے مطابق ہوں۔جمہوریت کا جنازہ تو ہر اس موقعے پر نکل جاتا ہے جب اقوامِ متحدہ میں پوری دنیا کسی موقف پر کھڑی ہوتی ہے، اور امریکا اسے ویٹو کر کے اسرائیلی ظلم کی حمایت کرتا ہے۔
ہمیں امریکا سے جمہوریت اور انسانیت اور تہذیب کا سبق لینے کی ضرورت نہیں، اور نہ اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو دہشت گرد قرار دے۔خود امریکا کی تاریخ ظلم اور جبر سے بھری ہوئی ہے۔ اس کی بنیاد لاکھوں مقامی ریڈ انڈینز کی لاشوں پر رکھی گئی، افریقا سے غلام لا کر ان پر ظلم ڈھائے گئے، ویت نام پر حملے کیے گئے، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے، عراق میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کیا گیا، اور پورے مشرق وسطیٰ ہی کو نہیں بلکہ دُنیا بھر کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا گیا۔
یہی امریکا، جو دنیا میں اپنی چھپی اور کھلی مداخلتوں، تخریب کاریوں اور جنگوں کے ذریعے انتشار پھیلاتا ہے، آج فلسطین کی مزاحمتی تحریک کو دہشت گرد کہتا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہر قوم کا حق ہے۔ درحقیقت، سب سے بڑا دہشت گرد امریکا خود ہے۔
حماس کی جدوجہد اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک عالمی سطح پر اس کی حمایت نہیں کی جاتی۔ ہمیں آدھا سچ نہیں بولنا چاہیے، بلکہ مکمل اور سچی تصویر دنیا کے سامنے رکھنی چاہیے۔ جب اسرائیل دہشت گردی کر رہا ہے، تو جو اس کے مقابلے میں کھڑا ہے، اس کی حمایت کیے بغیر بات ادھوری رہے گی۔ بعض لوگوں کو اس سچائی کا سامنا کرنے میں خوف محسوس ہوتا ہے، شاید اس لیے کہ انھیں مختلف حلقوں کو جواب دینا پڑے گا۔ لیکن ہمیں مضبوطی سے اور کھلے الفاظ میں دنیا کے ایک ایک فرد تک یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے اور اسرائیل کو وہاں آباد کرنے کا پورا عمل ناجائز اور ناقابلِ قبول ہے۔
قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ سے لے کر آج تک ہماری ایک ہی پالیسی رہی ہے۔ایک انصاف پسند فرد کی حیثیت سے فلسطین پہ کوئی دو ریاستی نظریہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطین ایک ہی ریاست ہے، اور وہ آزاد فلسطین ریاست ہے۔ اسرائیل ایک ناجائز وجود ہے، اور ہم اسے تسلیم نہیں کرتے اور نہ اس کے ناجائز قبضے کو قبول کرنے کے لیے ریاستی وجود تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔
اگر کوئی غاصب زبردستی آپ کے گھر پر قبضہ کر لے، تو اس کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے۔ اس میں کبھی جنگ، کبھی جنگ بندی —ہوتی ہے، اور یہی حماس کر رہی ہے۔ یہ حق صرف انھی کو حاصل ہے کہ وہ جنگ بندی یا جنگ کا فیصلہ کریں، کیونکہ وہی لڑ رہے ہیں، باقی تو سب محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ محض عربوں یا عجمیوں کا نہیں، بلکہ یہ ہمارے عقیدے، ایمان، انسانیت اور ضمیر کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اسی طرح اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، جیسے ایک باضمیر قوم یا فرد حق اور انصاف کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
جو کچھ اسرائیل نے ۷؍ اکتوبر کے بعد کیا، اگر حماس اس کارروائی کے لیے نہ اٹھتی تو کیا ہوتا؟ چند ممالک پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے۔ نام نہاد ’ابراہیمی معاہدہ‘ مزید آگے بڑھ رہا تھا، اور یہاں پاکستان پر بھی اسے تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ کچھ دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ ہمیں پھر وہی گھسے پٹے لیکچر دیے جائیں گے کہ ’جنگ سے کیا حاصل ہوگا؟تشدد مسائل کا حل نہیں ، 'مذاکرات ہی بہترین راستہ ہیں‘، وغیرہ۔
اگر ایسا ہے، تو کیا آپ ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہونے کی پوری تاریخ کو مسترد کر دیں گے؟ کیا آپ امام حسینؓ کی شہادت پر بھی سوال اٹھائیں گے؟ کیا آپ غزوہ بدر پر بھی یہی کہیں گے کہ مسلمان تعداد میں کم تھے، ہتھیار بھی پورے نہیں تھے، وسائل بھی محدود تھے، تو کیوں میدان میں اُترے؟ مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حضور دعا کی اور اللہ نے حق کو فتح دی۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ جذبات میں آ کر سر پھوڑ لیا جائے، لیکن قرآن کا یہ فرمان برحق ہے کہ جتنی استطاعت ہو، اتنی قوت جمع کرو اور حق کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو جاؤ۔ جب ایسا کیا جائے تو جھوٹ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، آخرکار ملیامیٹ ہو کر رہتا ہے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جو کچھ ہوا، اسے الگ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ وہ تاریخ کا ایک تسلسل ہے۔ اگر فلسطینی مزاحمت نہ کرتے تو کیا کرتے؟ ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے، ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں جیلوں میں قید ہیں، اور غزہ کے عوام بدترین محاصرے اور تباہ شدہ گھروں کے کھنڈرات پر کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ قریبی دولت مند اور طاقت ور عرب ممالک بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ تو ایسی صورتِ حال میں اگر وہ اپنی زندگی کا وجود منوانے کے لیے یہ قدم نہ اٹھاتے تو کیا کرتے؟
دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے زیرِ سایہ، دنیا کی پانچویں یا چھٹی سب سے طاقت ور فوج کے قائم کردہ ’آئرن ڈوم‘ اور انٹیلی جنس کے فعال نیٹ ورک کو ۷؍اکتوبر کے روز شکست ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل اسی دن ہار گیا تھا، جب اس کی فوجیں غزہ میں داخل ہوئیں، تو القسام بریگیڈ نے کھلی جیل کی سرحدوں پر ان کا استقبال کیا، اور اسرائیلی فوجی پسپا ہونے لگے جس کے نتیجے میں سٹپٹا کر اور بدحواسی و بدمستی میں اس نے نہتے شہریوں پر بمباری شروع کی،بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا، خیموں کو جلایا اور ہسپتالوں تک کو مریضوں ، ڈاکٹروں سمیت کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔
حالیہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اسرائیلی نشانے بازوں نے بچوں کو چُن چُن کر قتل کیا۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی مہذب دنیا کے اصول ہیں؟
ہمیں اس صورتِ حال میں واضح موقف اپنانا ہوگا: فلسطینیوں کی جدوجہد برحق ہے، اور جب تک اس مزاحمت کی حمایت نہیں کی جائے گی، انصاف کا قیام ممکن نہیں ہوگا۔یہ کس قدر ظالم لوگ ہیں کہ پورے ظلم کے ساتھ اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، اور اس میں سب سے نمایاں کردار امریکا کا ہے، جو اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ جو بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہیں، انھیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک بڑے دہشت گرد کے حمایتی ہیں۔ ٹرمپ جس انداز میں گفتگو کر رہا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پراپرٹی ڈیلر بات کر رہا ہو —کہ فلسطینی نکل جائیں اور ہم یہ زمین خرید لیں۔ اس طرزِعمل اور طرزِ تکلم کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔
پہلے اَدوار میں یہ عالمی غنڈا ریاستیں اور حکمران بی بی سی، سی این این، اسکائی نیوز، اور فاکس جیسے نیوزچینلوں پہ خبروں کو کنٹرول کر لیتے تھے اور سچائی کو دنیا کے سامنے آنے سے روکتے تھے۔ عوام کے پاس وسائل نہیں ہوتے تھے کہ وہ حقائق جان سکیں، مگر اب سوشل میڈیا نے اس صورت حال کو بدل دیا ہے۔ اگرچہ اب بھی طاقت ور قوتیں سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود بڑے تلخ حقائق سامنے آرہے ہیں۔
ہم یہاں ’الجزیرہ نیٹ ورک‘ کی بے پناہ بہادری کو سراہتے ہیں، جس کے نامہ نگاروں نے جان کی بازی لگا کر دنیا کے سامنے حقائق پیش کیے۔ میں وائل الدحدوح کو کبھی نہیں بھلا سکتا، جس سے ہماری قطر میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اس کی بیوی شہید ہو گئی، اس کی بیٹی اور اس کے پانچ بھتیجے شہید ہو گئے، اس کے خاندان کے کئی افراد شہید ہو گئے، مگر وہ جنازے دفنانے کے بعد پھر ہیلمٹ پہن کر رپورٹنگ کرنے چلا جاتا تھا۔
یہی صحافتی غیرجانب داری ہے، یہی جرأت ہے، اور یہی حقائق کو دنیا کے سامنے لانے کی اصل قیمت ہے۔ آج درجنوں صحافی شہید ہو چکے ہیں، مگر افسوس کہ عالمی سطح پر اس پہ وہ مذمتی فضا نہیں بن سکی، جو بننی چاہیے تھی۔
حماس نے جانبازی سے جو قدم اٹھایا اور مسئلہ فلسطین کو دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ پہلے یہ مسئلہ پس منظر میں چلا گیا تھا، مگر آج یہ دنیا کا سب سے اہم موضوع بن چکا ہے۔ یہی وہ قربانیاں ہیں جنھوں نے ایشو کو نمایاں کیا ہے، اور ایسی قربانیاں اور جرأتیں ہی تاریخ کا دھارا بدل دیتی ہیں۔ بظاہر کچھ لوگوں کو ناکامی نظر آتی ہے، مگر درحقیقت، یہی کامیابی کی بنیاد رکھتی ہیں۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق، امریکا میں ۲۰ فی صد لوگ براہِ راست حماس کی حمایت کررہے ہیں۔ یہ وہ برکت ہے جو مزاحمت (resistance) کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ جب ظلم کے خلاف کھڑا ہوا جاتا ہے تو اس کے حامی خود بخود پیدا ہونے لگتے ہیں۔ کولمبیا یونی ورسٹی کے طلبہ نے، نیویارک میں، واشنگٹن میں، وائٹ ہاؤس کے باہر جو بڑے احتجاج کیے، اس میں ہررنگ ، نسل اور مذہب کے لوگ شامل تھے۔ یہ وہ مزاحمت ہے جس نے دنیا کے ہر باشعور انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ پیغام دبایا نہیں جا سکتا۔ اب ضرورت ہے کہ ہم ایک مضبوط قوت بن کر اُن طاقتوں کے خلاف کھڑے ہوں جو ایک نئی نسل کشی (genocide) کو جنم دینا چاہتی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں جو بیانات دیے ہیں، ان کی شدید مذمت ہونی چاہیے۔ پوری دنیا کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ وہ کھلے عام ایک نئی وحشت و درندگی کو دعوت دے رہا ہے۔ وہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے اور اسرائیلی دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
ہم پاکستان کے حکمرانوں کو بھی واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ چاہے امریکا کا دباؤ ہو یا کسی عرب ملک کا، ہم کسی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی کوشش برداشت نہیں کریں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب کوئی نہ دیکھے۔ ہمیں کوئی بھی اپنی نام نہاد دانش کا درس نہ دے، ہمیں حقائق معلوم ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے ہیں، وہ تاریخ کو کتنا جانتے ہیں، انھیں فلسطین کے مسئلے کا کتنا ادراک ہے۔ وہ تو کشمیر کے مسئلے سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر اتفاقِ رائے برقرار رہنا چاہیے، اور پاکستان کو وہ کردار ادا کرنا چاہیے جو مسلم دنیا کی قیادت کے لائق ہو۔ ساتھ ہی، غیر مسلم ممالک جیسے کہ جنوبی افریقہ، اسپین، آئرلینڈ —جو فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں، —ان سے روابط قائم کیے جائیں۔ پوری دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو ساتھ ملایا جائے، سفارتی سطح پر کام ہو، بین الاقوامی فورمز کو متحرک کیا جائے، اور انھیں مکمل تائیدوحمایت فراہم کی جائے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر دنیا میں معیشت ترقی کر سکتی ہے، معاہدے ہو سکتے ہیں، یا ابراہام اکارڈ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کر کے تعلقات بہتر کیے جا سکتے ہیں، تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا! جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، خطے میں استحکام ممکن نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جب سے اسرائیل وجود میں آیا ہے، اس نے پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ عرب ہوں یا عجم، سب کو اس معاملے پر مضبوط مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہم اس صورتِ حال کو سراہتے ہیں کہ جو کہ حالیہ دنوں میں عرب ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے خلاف آواز بلند کی، لیکن محض بیانات کافی نہیں، عمل بھی دکھانا ہوگا۔
اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب، پاکستان، انڈونیشیا اور ملایشیا پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ ایک ملک کو دوسرے کے لیے اور دوسرے کو تیسرے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ہمیں ان ممالک کی قیادتوں کو قائل کرنا ہوگا کہ یہ راستہ کامیابی کا راستہ نہیں، بلکہ تباہی کا راستہ ہے۔ اس وقت سب سے ضروری یہ بات ہے کہ پوری اسلامی تعاون تنظیم (OIC) متحد ہو، عرب ممالک کھڑے ہوں، اور اس سلسلے میں پاکستان اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ترکیہ، ایران، روس، چین، جنوبی افریقہ، اور یورپی یونین کو ساتھ ملایا جائے تاکہ یہ مسئلہ سفارتی اور سیاسی طور پر درست طریقے سے حل کیا جا سکے۔
غزہ اس وقت ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، اور اس کی تعمیرِ نو کی اشد ضرورت ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ جنگی نقصان (war reparations) اسرائیل اور امریکا ادا کریں۔ یہ امداد کے طور پر نہیں، بلکہ جنگی تاوان کے طور پر دیا جانا چاہیے!
فلسطین ہمارا ایمانی، انسانی، اسلامی اور اخلاقی معاملہ ہے، اور ہم کسی صورت اس سے دستبردار نہیں ہوں گے!
جماعت اسلامی ایک نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر قائم ہونے والی تحریک ہے۔اس میں ہرزبان، ہرمسلک، ہر علاقے، ہر نسل اور ہر برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہی فکری رنگ میں رنگے ہوئے، اکٹھے ہوتے، سوچتے سمجھتے اور تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ تزکیہ و تربیت کا انتظام ہوتا ہے اور پھر وہ دعوت اور اقامت ِدین کے سفر پر سرگرم ہوجاتے ہیں اور اس راستے کے سرد و گرم کو انگیز کرتے ہیں۔ ہماری یہ معتدل اجتماعیت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔
جب ہم دین کا کوئی کام کرتے ہیں تو اس کام کے ساتھ بار بار کی ایک تذکیر اور باربار یاددہانی ہوتی ہے۔ ہم دین کی اقامت کی جدوجہد کرنے والے بے لوث لوگوں کا قافلہ ہیں۔ اللہ نے امت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم تو اُمتِ وسط ہو۔ ایک ایسی امت جس کا کام حق کی گواہی دینا ہے (البقرہ ۲:۱۴۳)۔ بحیثیت مجموعی امت کی یہ منصبی ذمہ داری کارِنبوت کو آگے بڑھانا ہے۔ لیکن جب امت تقسیم ہوگئی، تفریق کا نشانہ بن گئی، پو را نظام ٹوٹ گیا، اجتماعیت بکھر گئی،ایسی صورتِ حال کا تقاضا ہے اس میں ایسا گروہ موجود ہونا چاہیےجو یہ فریضہ انجام دے۔ الحمدللہ، تمام کمیوں، کمزوریوں کے باوجود ہم اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے بندگانِ خدا کے سامنے موجود ہیں اور ان کے دل ودماغ کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔
اسی تصور پر جماعت اسلامی قائم ہوئی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی ’ریاست‘ یا ’الجماعۃ‘ کے متبادل نہیں ہے۔ تاہم،مسلمانوں کا ایک دینی، اجتماعی اور سیاسی نظام جماعت کی صورت میں قائم کرکے جدوجہد کرنے والے ہیں۔ اتنے بڑے اور نازک کام کے لیے نظم وضبط اور تنظیم کی ضرورت ہے۔ اجتماعیت اور سمع و طاعت کے ایک نظام کی ضرورت ہے۔ اگر وہ نظام نہیں ہوگا تو یہ اجتماعی جدوجہد نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا، یہ بات جماعت کے وابستگان کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وہ محض کسی ایسی جماعت کے لیڈر یا کارکن نہیں ہیں کہ جن کے پیش نظر وقتی سیاست کو انجام دینا ہو۔ اس میں محض الیکشن یا کوئی اور مہم پیش نظر ہو، یا مقصد محض یہ ہو کہ پارٹی جیت جائے۔ اس جدوجہد کا یہ ذریعہ ضرور ہے، مگر مطلوب و مقصود نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ان معنوں میں سیاسی جماعت نہیں ہے جس طرح سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔
درس و تدریس اور فہم قرآن کی نشستیں، تربیتی و تذکیری پروگرام، تنظیمی اجتماعات، سیاسی جلسے، جلوس اور احتجاج، سب اقامت ِ دین اور غلبۂ دین کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ ہمارے نزدیک سیاست ایک دینی تقاضا ہے۔ نفاذِ شریعت اور اسلامی نظامِ حکومت کا قیام اُمت کا فرضِ منصبی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ہے جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا اوّل و آخر حوالہ دینِ اسلام ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کی لائی ہوئی شریعت اور نظام ہے۔ ہمیں اسی راستے کے مطابق اس نظام کی تعمیر کرنا ہے۔ جب مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی تھی تو ان کے پیش نظر یہی تھا کہ ہم ان معنوں میں سیاسی نہیں جس طرح دوسرے سیاسی ہیں، اور ان معنوں میں مذہبی نہیں ہیں جس طرح دوسرے مذہبی ہیں۔ ہم دین کا وہ تصور رکھتے ہیں، جس میں دین زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔اس نسبت سے ہماری ڈیوٹی اور فریضہ یہ ہے کہ دین کے قیام کی جدوجہد کریں۔ ہم کوشش کرنے اور وقت دینے، مال خرچ کرنے اور جان کھپانے کے مکلف ہیں، اللہ نے جو صلاحیتیں دی ہیں، انھیں دین کے لیے استعمال کرنے کے مکلف ہیں، اور غلبۂ دین کی منزل کے حصول کی جدوجہد کے مکلف ہیں، دین کو نافذ کر دینے کے مکلف نہیں ہیں، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوگا، ان شاءاللہ۔
عملی میدان میں سامنے آنے والی بعض ناکامیوں کو ہم زندگی کا ایک سبق آموز تجربہ سمجھتے ہیں، اور ایسے صدمات یا تلخیوں کا سامنا کرکے جدوجہد نہیں چھوڑیں گے، بلکہ غلبۂ دین کے لیے حکمت عملی بھی بنے گی اور اس پر عمل درآمد کی کوشش بھی ہوگی، ان شاء اللہ۔ لہٰذا فرداً فرداً ہر کارکن اور ہر ذمہ دار یہ سوچے کہ وہ جس منصب پر ہے، اسے اپنی زندگی کی ترجیحات میں اقامتِ دین کی جدوجہد کو شامل کرنا ہے۔ ہم سب کو اپنا جائزہ لینا ہے۔ اپنے اوقاتِ کار کا، ذہنی، جسمانی اور عملی ترجیحات کا۔ ہرکسی کا گھر ہے، بیوی بچے ہیں، کئی سارے کاروبار ہیں، ملازمت ہے، معاملات ہیں، تجارت ہے، زمینداری ہے، دکان ہے، جو بھی متعلقات ہیں، ان میں حلال اور جائز طریقے سے آگے بڑھنا ہے، حق کا گواہ بننا ہے اور اس گواہی کا اہل بننا ہے۔
ہمیں زندگی کی ترجیحات میں اولین اہمیت اقامت ِدین کے کام کو دینی ہے۔ اگر ہمارے ذہن میں یہ اوّلین ترجیح تازہ ہے تو ہم دین کو سمجھے ہیں اور اس کے صحیح فہم کا ہمیں ادراک ہوا ہے، اور جماعت اسلامی کے ساتھ شعوری طور پر ہم وابستہ ہوئے ہیں۔ اور اگر یہ سوچ ترجیحِ اوّل نہیں ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اور دنیا کے کام کر رہے ہوتے ہیں، تو جماعت اسلامی بھی ان کاموں میں سے ایک کام ہے۔ جماعت اسلامی اس لیے تو نہیں بنی ہے، اور آپ اس لیے تو اس سے وابستہ نہیں ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی تو اپنے وابستگان سے یہ کہتی ہےکہ وہ اپنی زندگی کی ترجیحات میں دین کو شامل کریں بلکہ اسے ترجیحِ اوّل بنائیں۔
جب چاروں طرف باطل کی حکمرانی ہو، ظلم کا نظام طاقت ور ہو، زمین اور معاشرہ فساد سے بھرے ہوں، مظلوموں کی داد رسی کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ جب معیشت پر عالمی اور قومی ساہوکاروں کا قبضہ ہو۔ تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریاتِ زندگی چند ہاتھوں کے قبضے اور تصرف میں سمٹتی جارہی ہوں۔ ہماری تہذیب اور ثقافت تک مغلوب ہو، تو ایسے ماحول میں اقامت ِ دین کا کام ایک بندئہ مومن کے لیے زندگی کے بہت سے کاموں میں سے ایک کام نہیں رہتا۔ سنن و نوافل کے درجے میں نہیں، فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا کی حاکمیت اور اس کے دیئے ہوئے نظامِ زندگی کے مقابلے میں انسانوں اور طاقت وروں کی بالادستی کا نظام قبول کیا جائے۔ یہ دوئی شرک ہے جس کا ابطال و استرداد ہرمسلمان پر فرض ہے۔
اسی فرض کی ادائیگی کے لیے ہم جماعت اسلامی میں ہیں۔ یہ ایک ہمہ گیر، ہمہ جہت، پیہم، پُرامن اور برسرِ زمین جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ جدوجہد فرد، خاندان، معاشرہ اور نظام، ہرسطح پر بیک وقت اور متوازی کام کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ یہ رائے عامہ کی ہمواری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ پتّہ ماری کا کام ہے۔ یہ سوچ فکر اور عمل پر حاوی کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی چیز کو ترجیحِ اوّل کہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہرفرد کو ہر وقت ہاتھ پکڑ کر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ آپ کی ترجیح کس طرح سے پوری ہوگی؟سب سے بڑا منصف تو انسان خود ہوتا ہے۔ ہر فرد جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ بندوں کے سامنے تو کم یا زیادہ کی رپورٹ دے سکتے ہیں، لیکن اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ خود بندہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے اور جواز پیدا کرنے کےلیے خود بخود کچھ چیزیں طے کرلیتا ہے اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کےلیے مختلف وجوہ تراش لیتا ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ ناجائز طریقے سےبننےوالی حکومت کو اپنی بقاکے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی ۔ حکمرانوں اور پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کوپرانی سیاسی شعبدہ بازی سے فرصت نہیں ہے، مگر عوام کسی کے ایجنڈے پر نہیں ہیں۔ ایک پارٹی کےلیے کسی کی توسیع اہم ہے، دوسری پارٹی کو حکومت میں اپنا حصہ بڑھانا اہم ہے اور مزید مراعات حاصل کرنے کے لیے دن رات جوڑ توڑ کرنا ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ کسی کو سینیٹ کی سیٹیں اور گورنرشپ درکار ہے،کسی کو کچھ اور وزارتیں چاہئیں، کہیں من پسند فیصلے درکار ہیں، کہیں ہاری ہوئی سیٹوں کو برقرار رکھنا سب سے بڑا ’قومی مقصد‘ ہے۔کسی کو اس چیز کی فکر ہے کہ دستور میں من مانی تبدیلیاں ٹھونسے اور کوئی اس بات کے لیے سرگرم ہے کہ میرا بھائی، بھتیجا یا میرے مقدمات لڑنے والا وکیل اعلیٰ عدلیہ کا جج بنے۔
جماعت اسلامی نے ملک اور عوام کی موجودہ ناگفتہ بہ حالت کو سامنے رکھ کر ایک قومی ایجنڈا ترتیب دیا۔ آئین کی بالادستی، جمہوری آزادیاں، عوامی رائے کا احترام، انتخابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت، بنیادی ضروریاتِ زندگی کا حصول، خواتین، نوجوانوں، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق، بین الاقوامی اداروں کی مسلط کردہ معاشی پالیسیوں سے آزادی اس ایجنڈے کے اہم نکات ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی، فلسطین و کشمیر کی آزادی اس کی اہم بنیاد ہے۔
اقتدار، مفادات اور مراعات کے اس بےرحمانہ کھیل میں عوام بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایک دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے۔ بجلی گیس کے بلوں کی صورت میں برسنے والے بموں، بھاری ٹیکسوں اور بڑھتی مہنگائی وبےروزگاری کےخلاف نہ کوئی کھڑا ہو رہا ہے اور نہ کسی کے ایجنڈے میں یہ شامل ہے۔
جماعت اسلامی نے بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے راولپنڈی میں ۱۴ روزہ دھرنا دیا،اور پھر ۲۸؍ اگست کو پاکستان بھر میں ہڑتال کی تاکہ اس مسئلے پر قومی دُکھ اور درد کو قومی مطالبے کی شکل میں حکمران طبقوں کے سامنے اُٹھایا جاسکے۔ اس طرح جماعت اسلامی نے پوری قوم کو مجتمع کیا، شہریوں، تاجروں اورصنعت کاروں کی آواز بنی۔
اس تحریک کا مقصد عوام کے لیے ریلیف حاصل کرنا ہے۔چند خاندانوں پر مشتمل مٹھی بھر حکمران اشرافیہ مفادات کی ایک ڈوری سے بندھی ہے۔ یہ اقلیت حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، ایک دوسرےکومدد اور تحفظ فراہم کرتی ہے،جب کہ عوام کے پاس ظلم سہنےکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جماعت نے عوام کو متحد کرکے اس مافیا کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب لوگ اُٹھ کھڑے ہوںتو کوئی ان کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ جماعت اسلامی اورعوام کا اتحاد رنگ لائے گا،حکمران اشرافیہ کو حق دینا پڑے گا یا رخصت ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ اور حل ان کے پاس نہیں ہے۔
بجلی کے بلوں میں کمی، آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی،پیٹرول پر لیوی اور ٹیکسوں میں کمی، تنخواہوں پر اضافی ٹیکس ، برآمدات اور صنعت و تجارت پر ناجائزٹیکس کی واپسی، جاگیرداروں پر ٹیکس کا نفاذ، ارکان اسمبلی، فوجی افسران، ججوں اور سرکاری اداروں کی لگژری گاڑیوں، مفت پیٹرول، بجلی کا خاتمہ___ ہماری ’حق دو تحریک‘ کے یہ مطالبات ہر شہری کے دل کی آواز ہیں۔ قوم مزید مہنگی بجلی اور آئی پی پیز کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔تنخواہ دار طبقہ اورتاجر زبردستی کا ٹیکس ادا نہیں کرسکتے۔ ریاستی سطح پر یہ معاشی دہشت گردی بند کرنی پڑے گی۔
حکمران طبقوں کو اپنی عیاشیاں ختم اور مراعات کم کرنی ہوں گی، فری پیٹرول، فری بجلی کی سہولت کا خاتمہ کرناہوگا، گاڑیاں چھوٹی کرنی ہوں گی، بڑے بڑے جاگیرداروں پہ ٹیکس لگانا ہوگا، اور ان آئی پی پیز سے قوم کی جان چھڑانی ہوگی، جنھیں دو ہزار ارب روپے سے زیادہ اُس بجلی کے نام پر دیے جا رہے ہیں، جو سرے سے بن ہی نہیں رہی۔ اور بات صرف کیپسٹی پیمنٹ کی نہیں بلکہ انکم ٹیکس میں بھی سیکڑوں ارب روپے کی چھوٹ حاصل کی گئی۔ تنخواہ دار طبقے سے انکم ٹیکس بڑھا چڑھا کر وصول کرنا لیکن آئی پی پیز کو چھوٹ دے دینا، یہ ستم مزید جاری نہیں رہ سکتا۔
تماشا دیکھیے کہ ۲۰۱۸ء تک تو یہ بات ریکارڈ پر آ جاتی تھی کہ آئی پی پیز کو انکم ٹیکس میں کتنی رقم کی چھوٹ ملی، اس کے بعد تو مجرمانہ انداز سے ان اعداد وشمار پر بھی پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کا پہلے کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہوسکتی، مگر جماعت اسلامی کی مسلسل احتجاجی مہم کے نتیجے میں نہ صرف اب بات چیت ہو رہی ہے، بلکہ کچھ آئی پی پیز نے پاکستانی روپے میں ادائیگی وصول کرنے اور بجلی کا نرخ کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔کچھ آئی پی پیز بند کردی گئی ہیں۔ کئی آئی پی پیز سے Take or Pay یعنی خرچ کے مطابق ادائیگی کے معاہدے ہورہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت اہم اور بڑی پیش رفت ہے۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو جاتا ہے۔ باقی آئی پی پیز کو بھی سامنے آنا اور قوم کا ساتھ دینا چاہیے، وہ یہ کریں گے تو پھر بیرونی کمپنیوں سے بھی بات ہو سکے گی۔
عوامی حقوق کی بازیابی کی اس جدوجہد کو ہر صورت آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنی ذات اورپارٹی کےلیے کچھ نہیں چاہیے، کوئی انتخابات سر پر نہیں ہیں کہ ہماری اس مہم کو انتخابی عمل سے جوڑا جائے، نہ یہ سیٹوں، وزارتوںاور عہدوں کی تقسیم اور حاصل کرنے کا کوئی معاملہ ہے۔پُرامن آئینی، قانونی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے عوام کو ریلیف دلانا ہی ہماری اوّلین ترجیح ہے اور عوام کو اس جدوجہد کا حصہ بنانا ہمارا ہدف ہے۔
آج ۷۷سال گزرنے کے بعدبھی یہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے بھارت کی تقریباً ۹لاکھ ملٹری و پیراملٹری فورسز وہاں موجود ہیں۔اس عرصے کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان وہاں شہید ہوئے، ہزاروں عفت مآب خواتین کی عزت پامال ہوئی ، ہزاروں زخمی اور معذور ہوئے، بڑے پیمانے پر گھروں کو مسمار کیا گیا ، کاروبار اور املاک کو تباہ کیا گیا۔ ہزاروںلوگ جیلوں میں قیدہیں، ہزاروں جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔بےشمار کشمیری نوجوان اور بچے بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو ئے ہیں۔
یہ سب کچھ اہل کشمیر کے حوصلے پست نہ کر سکا،تو ۵؍اگست۲۰۱۹ءکو انڈین دستور کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے کےذریعے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کرکے وہاںپر ظلم و ستم کے ایک نئے دور کا آغاز کیا گیا۔ اس اقدام کے بعد دو سال سے زائد عرصہ تک وادیٔ کشمیرمسلسل لاک ڈاؤن، کرفیو ، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی ذرائع کی بندش کی زد میں رہی۔ اسےدنیا کے سب سے بڑے جیل خانہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ کشمیر سمیت بھارت کی جیلیں بھی معصوم کشمیریوں سے بھردی گئیں،جب کہ نمایاں سیاسی رہنماآج تک قید اور نظربند ہیں۔ اس طرح بھارتی فوج اور پولیس دونوں مل کر کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔
جبر، تشدد اور خوف کےاس ماحول میں اہل کشمیر کی جرأت و استقامت کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے بھارتی فسطائیت کے سامنے جھکنے اور حقِ خودارادیت سے دست بردار ہونے سے انکار کیا ، اور بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘ کانعرہ لگانے والے نوجوان پاکستانی بن کرزندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ایک صدی ہونے کو آئی ہے، اہل کشمیر تحریک ِآزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ امر صدمے کا باعث ہے کہ حکومتی ترجیحات میں مسئلہ کشمیر مرکزی اہمیت کا مقام پاتا دکھائی نہیں دے رہا۔
ایسے وقت میں، جب کہ بھارت میں ہندو نسل پرستانہ ذہنیت کی حکمرانی ہے، مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ بھارتی وزرا آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ نریندرمودی کا لہجہ ہتک آمیز ، تکبر اور رعونت سے بھرا ہوا ہے۔بھارت نہ صرف مذاکرات سے انکاری ہے، بلکہ بلوچستان سے فاٹا تک پاکستان کے قومی وجود کو نقصان پہنچانے کےلیے تمام حربے استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان نے یک طرفہ طور پر ’کرتارپور کوریڈور‘ معاہدے کی اگلے پانچ برسوں کے لیے تجدید کر دی ہے، اور ہماری حکمران جماعت کی طرف سے بھارت کے ساتھ مذاکرات، تجارت، محبت اور دوستی کی باتیںتسلسل کے ساتھ سامنے آرہی ہیں۔ کشمیریوں کے خون اور قربانیوں کو نظرانداز کرکے تجارت کیونکر ہو سکتی ہے؟کشمیری شہید ہو رہے ہوں، تو مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اس پرقومی اتفاق رائے موجود ہے۔ اسے نظرانداز اور کشمیریوں کی تمناؤں کا خون کرکے کسی کی ذاتی پسند کے تحت اگر معاملات آگے بڑھیں گے تو وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ’مسئلہ کشمیر‘ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا حل۔ یہ کشمیری عوام کا مطالبہ اور پاکستان کا اصولی موقف ہے۔ اس کے بغیر خطے میں نہ امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ دوستی کا کوئی خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے ساتھ اس پر معاہدہ ہوا ہے۔ پاکستانی قوم اس کی پشت پر ہے، اور ہرطرح کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ حکومت پاکستان ایک فریق کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔عالمی سطح پر بھرپور سفارتی مہم کے ذریعے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی ظلم و ستم کو اُجاگر کیا جائے۔ عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی، اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے سامنے یہ مسئلہ پیش کر کے بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ اہل کشمیر حقِ خودارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔
حماس کی پوزیشن یہ ہے کہ یہ فلسطین پر ناجائز قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انھیں یہ حق حاصل ہے کہ غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ پھر حماس محض مسلح جدوجہد کرنے والا گروہ نہیں ہے، بلکہ ایک جمہوری قوت ہے اور فلسطینی اتھارٹی کے لیے جب انتخابات منعقد ہوئے تو حماس نے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔ اسماعیل ہنیہ شہید وزیراعظم منتخب ہوئے۔ لیکن امریکا اور اسرائیل نے اپنے دوست مسلم ممالک سے مل کر حماس کو اقتدار میں نہیں رہنے دیا۔اس سب کے باوجود مسلم حکمرا ن اسرائیل کے خلاف مزاحمت نہیں کر رہے، اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اس تمام تر جبر کے باوجود کہ ۴۵ ہزار سے زائد بچّے، بوڑھے، جوان، خواتین، خاندان کے خاندان شہید ہوچکے ہیں لیکن پوری قوم بحیثیت مجموعی تہیہ کیے ہوئے ہے کہ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، دستبردار نہیں ہوں گے اور اسرائیل کا قبضہ تسلیم نہیں کریں گے اور مزاحمت جاری رکھیں گے۔ عزیمت کی ایک تاریخ ہے جو اہل فلسطین رقم کر رہے ہیں!
اہل فلسطین اُمت مسلمہ اور دُنیا کے انصاف پسند لوگوں کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کاش! دُنیا کے حکمرانوں کی بے حسی ، انسانیت کا رُوپ دھار سکے۔